Professional Documents
Culture Documents
ڈاکٹر مبارک علی، سفینہ رفعہ یونیورسٹی-3
ڈاکٹر مبارک علی، سفینہ رفعہ یونیورسٹی-3
ق ت
ش ف
ئ ق ح
ی ی خ اکہ براے ای م ل ،عب ہ اسالمی وعربی لوم
ع
ریاس'ت کے مق''ابلے میں اس ک'و چن''د ایس'ے اختی''ارات حاص'ل ہ'وتے ہیں ج'و نہ
صرف اس کے منصب کا تقاض''ا ہ''وتے ہیں بلکہ اس منص''ب س''ےجڑے ف''رائض
کی انجام دہی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قطع نظر کہ ان اختیارات کا تعین ک''ون
کرتا ہے ،مختلف معاشروں میں اور مختلف ادوار میں سربراہ ریاست کو مختلف
اختیارات حاصل رہے ہیں۔
قوموں کا عروج و زوال دنیا کی تاریخ میں ایک پیچیدہ ،پراسراراور غم و ان''دوہ
سے بھرپور عمل ہے ۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جو انسانی ذہن کو افسردہ کردیتا
ہے اور وہ اس اُتار چڑھائو کے عمل سے ی''اس و ن''ا امی''د ک''ا ش''کار ہوجات''ا ہے ۔
اگرچہ انسانی ذہن نے قوموں کے ع''روج و زوال ک''و س''مجھنے کی بہت کوش''ش
کی ہے ،مگر اس کے لیے اب تک یہ ایک نہ ح''ل ہ''ونے واال معمہ ہے کہ ای''ک
قوم کن حاالت میں عروج حاصل کرتی ہے ،تہذیب و تمدن میں کمال تک پہنچتی
ہے اور پھر ایک شاندار ماضی کو چھوڑ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے ۔
تعارف موضوع)Introduction to the topic (: ِ
اسالمی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اسالمی ریاست کی ایک الزمی
خصوصیت احتساب ک''ا قی''ام ہے۔ ن''بی ک''ریمﷺ،خالفت راش''دہ اور
بعد کے ادوار میں ایسے ادارے باقاعدہ طور پر قائم کیے گئے جو نہ صرف عوام
بلکہ حکومتی اراکین کے لیے بھی احتساب کے عمل ک''و یقی''نی بنای''ا ک''رتے تھے۔
اسالمی سیاسی مفکرین بھی ریاس''ت و حک''ومت اور س''ربراہ ریاس''ت کے ف''رائض
میں احتس''اب کے عم''ل ک''و بھی ش''امل ک''رتے ہیں۔ انھ''وں نے اس ادارے اور اس
سے جڑے فرائض کو اپنی تحقیق کا موضوع بنای''ا ہے۔ ق''رآن وس''نت کی رو س''ے
سربراہ ریاست کو جو اختیارات عطا کیے گئے ہیں وہ جدی''د مغ''ربی مفک''رین کے
نظریات سے مختلف ہیں۔ اسالم ریاست کے حکمرانوں ک''و ج''و اختی''ار عط''ا کرت''ا
ہے ان میں انتظ''امی اور ق''انونی اختی''ارات اگ''رچہ ش''امل ہیں مگ''ر ان ک''و مطل''ق
العنانیت کسی بھی حوالے سے حاصل نہیں ہے۔ وہ قرآن و س''نت کی تعلیم''ات کے
منافی نہ تو قانون سازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریاست کا نظام چال سکتے ہیں۔
جبکہ مغربی مفکرین سربراہ ریاست کو احتساب اور سزا س''ے م''براقرار
دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی کو بھی یہ ح''ق حاص''ل نہیں ہوت'ا کہ وہ س'ربراہ
ریاست سے جوابدہی ک''ر س''کے۔ لیکن اس''الم میں ع''وام اور ح''اکم دون''وں ک''و ہی
ایک دوسرے کے احتساب کا حق حاصل ہے۔ قران و س''نت کی رو س''ے س''ربراہ
ریاست کی حیثیت نائب خداوندی کی سی ہے جس کے پاس اقتدار خ''دا کی ام''انت
ہے جس کا اس کو جواب دینا ہے۔ مگر مغربی سیاسی مفک''رین کے نزدی''ک خ''دا
کے بعد اس دنیا میں سب سے بلند تر ہستی حاکم ہوتا ہے۔ جس ک''و نہ ت''و اس کے
کسی فعل پر سزا دی جا سکتی ہے نہ ہی مع''زول کی''ا جاس''کتا ہے اور نہ ہی ب''از
پرس کی جاسکتی ہے۔ اس کے مقابل اسالم سربراہ ریاست کو نہ تو احتساب سے
باالتر سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کو قانون سازی کا بالمشروط اختیار دیتا ہے۔
موضوع کی اہمیت وافادیت)Importance of topic(:
3
ٹ
ڈاک رم ب ارک علی کی تعلیمات جدید مغربی مفکرین کے اس نظریہ سے میل
نہیں کھاتیں ۔ ان کے مطابق ریاست کا کوئی بھی فرد احتساب سے ب''االتر نہیں ہ''و
سکتا۔یہاں تک کہ ریاس''ت ک''ا س''ربرا ہ بھی ع''ام لوگ''وں کے براب''ر ہوت''ا ہےحقیقی
'الی ہے۔جس کی نظ''ر میں تم''ام انس''ان براب''ر ہیں۔ جس اعلی کا مال''ک ہللا تع' ٰ
ٰ اقتدار
شخص کو بھی حکومت کی دیکھ بھال کی امانت س''ونپی ج''اتی ہے اس ک''و مق''ررہ
حدود میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز کرنے کی ص''ورت میں نہ
تو اس کی اطاعت کا حکم ہے اور نہ ہی اس کو اس عہدہ پر برقرار رکھنے کا۔
”قرآن و سنت کے مطالعہ سے حکمرانی کے جو اص''ول س''امنے آتے ہیں
ان کی رو سے سربراہ ریاست کو قانون سازی کے اختی''ارات مطلق''ا حاص''ل نہیں
ہیں۔ قانون کامنبع خ''دا اور اس ک''ا رس''ول ﷺ ہیں۔ لہ''ذا اس''الم میں
حقیقی قانون س'از ہللا ہی کی ذات ہے۔اس''المی تعلیم''ات ق'انون س'ازی کے ح'والے
سے جدید مغربی نقطہ نظر س''ے بالک''ل مختل''ف ہیں۔ اس''الم میں ق''انون س''ازی ک''ا
منب'ع نہ ت'و حکم'ران کی منش'اء ہ'وتی ہے نہ ہی ع'وام کی خواہش'ات ۔ اس'الم میں
اگ''رچہ حکم''ران ک''و ق''انون س''ازی کے اختی''ارات حاص''ل ہ''وتے ہیں لیکن یہ
اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ ق''رآن و س''نت کی رو س''ے ق''انون ک''ا اص''ل منب''ع اور
تعالی کی ذات ہے۔ اسالمی سربراہ ریاست کو اسی قانون کی پ''یروی ٰ سرچشمہ ہللا
کرنا ہو گی ج''و ہللا اور ا س کے رس''ول ﷺ نے طے ک''ر دی''ا۔ وہ
اگر قانون سازی کرے گا بھی تو بھی انہی اصولوں کو مدنظر رکھ ک''ر ک''رے گ''ا
تعالی نے مقرر کر دیا ہے۔“
ٰ اعلی یعنی ہللا
ٰ جن کو حقیقی مقتدر
نت ض
وج ہ ا خ اب مو وع()Reason of Selection the Topic
خ ن ق ن ج خ
رٓان و حدی ث ے ن ومور ما ع ے ی کے ے کر دور کو ال ےاست م ں ان س ت د در
کی روش ن جی یم یں ت د رو ف یکر سے یکام ل ا ۔ج ن م ں ڈاکٹر م ارک علی کا د د ر استی مو وع ر دن
ض ی ل ل
پچ جی ی ت ب ی ب ن پن ت ی ی
ے۔ یہ ا ک ذکر ھ سا کے احت است کا وض
یر د ید ج ں یم ب ش ئ ک ی ا ے ۔آپ ں ی ہ ود کتب موج
ض موج ودہ ری است می ں ب ھی ی ہی ٓازما ی ی ں عالمی س طح پر گردش کر ر نہ
اس امر کی رورت ٹ ں ئ کتی ہ ی ق
ے ہ وے ڈاک ر م ب قارک وزوال کے اس ب اب کو مد ظ ر ر ھ کے عروج ن ئ ٹ ے کہ تجس می ں ساب ہ ادوار ہ
ب سے اوران کے آر ی کلز سے رہ ما ی لے کر موج ودہ دور کے م طابق ای ک م الہ تعلی کی ک ئ
حریر ک ی ا ج اے ۔
موضوع پر موجود سابقہ مواد کا تجزیہ)Survey of literature (:
جدید ریاست سے متعلق ڈاکٹر مبارک علی کی کتب موجودہیں۔ڈاکٹر ایس
ایم نازکی " اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار"اس' کے عالوہ مس''لم مفک''رین
کی اہم کتب جن میں اب''و الحس''ن علی م''اوردی کی"االحک''ام الس''لطانیہ " ،ام''ام
غزالی کی "احی''اء العل''وم" ،ابن ح''زم کی "الفص''ل فی الملل" ،ام''ام ابن تیمیہ ک''ا"
رسالۃ الحسبہ فی االسالم"،اور ابن خلدون کا مقدمہ ،اور امام ابن تیمیہ کی کت''اب
السیاسۃ الش'ریعۃ ،س'ید قطب ش'ہید کی کت'اب " الع'دالۃ االجتم'اعیۃ فی االس'الم "،
محمد اسحاق سندھیلوی کی کتاب اسالم ک''ا سیاس''ی نظ''ام اور الم''اوردی کی کت''اب
االحکام السلطانیہ شامل ہیں۔
4
خ
طۃ ا بل حث ت
ٹ
ارف ڈاک ر م ب ارک علین نع فب اب اول:
ام و سب ف صل اول:
ت ن
حاالت ز فدگی ف صل دوم:
ع
لمی و صن ی ی خ فدمات صل سوم:
ق نف
ج دی د ری است کو م فہوم و ی ام و اذ فب اب دوم:
ج دی د ری است کا م ہوم ف صل اول:
فن ق
ت اذ و ام ج دی د ری فاست کا ی ف صل دوم:
ٹ
مسلم م کری ن اورڈاک ر م ب ارک علی کا ج زی ہ صل سوم:
ٹ ت
ارف ڈاک ر م ب ارک علی ع
ن ن فب اب اول:
ام و سب ف صل اول:
ت ن
حاالت ز فدگی ف صل دوم:
ع
لمی و صن ی ی خ دمات صل سوم:
7
ن ن ف
ام و سب صل اول:
آپ کا نام "مبارک علی" تھا۔
آپ اپریل 1941میں برطانوی ہندوستان کے ٹونک میں پیدا ہوا تھا۔ انہ''وں نے
اپنی ایک کتاب (در در ٹھوکر کھ'ائے) میں لکھ'ا ہے کہ انہ'وں نے اپ'نی ت'اریخ
پیدائش اس لئے کی ہے کہ والدین اسے صحیح طور پر نہیں جانتے تھے۔
8
ف
ن
حاالت ز دگی صل دوم:
علی نے 1963میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ت''اریخ میں ایم اے حاص''ل
کی۔ 1972میں ،وہ اعلی تعلیم کے لئے لندن اور پھ''ر جرم''نی چلے گ''ئے اور
1976میں جرمنی کے روہر یونیورسٹی ،بوچم میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل
کی۔ بع''دازاں وہ س''ندھ یونیورس''ٹی میں ش''عبہ ہس''ٹری کے س''ربراہ بن گ''ئے۔ وہ
1996تک الہور میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر تھے۔ وہ سہ ماہی جریدہ
طاریخ ("تاریخ") کے ای'ڈیٹر بھی ہیں۔ ہندوس''تان ،پاکس'تان اور مش''رق وس''طی
میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ان کا بڑے پیمانے پر انٹرویو لیا گی''ا
ہے۔
1999میں ،غیر سرکاری تنظیم خوج کے زیر اہتم''ام ممب''ئی میں منعق''دہ ای''ک
سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے ،علی نے اپنے ملک میں ت''اریخی وظ''ائف پ''ر
بنیاد پرستی کے اثرات کا ح''والہ دی''ا۔ انہ''وں نے بتای''ا کہ کس ط''رح 1965کے
بعد ،وادی سندھ کی تہذیب کے ذکر کو چھوڑ کر ،قدیم تاریخ نے پاکستان میں
پڑھنا چھوڑ دیا۔ سرکاری الئن یہ ہے کہ نصاب س''ے ب''اہر کی ک''وئی بھی چ''یز
"ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سرکاری
ت''اریخ نگ''اری دو ق''ومی نظ''ریہ پ''ر ق''ائم ہے۔ اس پ''ر س''وال اٹھان''ا 1991کے
پاکستان نظریاتی ایکٹ کے تحت دس سال قید کی سزا کا سبب بن سکتا ہے۔
"رانی کوٹ پر قومی سیمینار" میں خطاب' کرتے ہوئے ،انہ''وں نے ت''اریخ ک''و
ایک مختل''ف زاویے س''ے پڑھ''نے اور لکھ''نے ک''ا مط''البہ کی''ا ،جس میں حملہ
آوروں کو "عظیم" قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ انہ''وں نے کہ''ا کہ آث''ار ق''دیمہ کی
اپنی الگ الگ اہمیت ہے اور اسے موہنجو دڑو کی دری'افت ک'ا ح'والہ دی'ا جات'ا
ہے ،ج'''و اس خطے کی ای'''ک عظیم تہ'''ذیب کی عکاس'''ی کرت'''ا ہے جس نے
برصغیر کی تحریک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا ،کیونکہ اس کی دریافت
تک اس حصے کے لوگ دنیا کا با ادب یا مہذب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
ت ف
ف ع
لمی و صن ی ی خ دمات صل سوم:
9
انہ''وں نے ہن''د پ''اک کی ت''اریخ پ''ر متع'دد کت''ابیں اور مض''امین لکھے ہیں ،اور
اسٹیبلشمنٹ مخالف مفکر اور مورخ کی حی'ثیت س'ے اس کی وس'یع پیم''انے پ'ر
تعریف کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک ان''ٹرویو میں کہ''ا ہے کہ "پاکس''تان اور اس
کی آزادی کے ب'''ارے میں ابھی ت'''ک ک'''وئی مس'''تند ت'''اریخ نہیں لکھی گ'''ئی۔
اسٹیبلشمنٹ کے حامی' مورخین اور ماہرین تعلیم کے مابین کافی الجھن ہے۔ اب
تک جو کچھ بھی لکھا گی''ا ہے وہ ت''اریخ کی تحری''ف ہے اور مکم''ل ط''ور پ''ر۔
غیر متوازن۔
ڈاکٹر مبارک علی نے برص''غیر کی ت''اریخ ک''و دوب''ارہ س''ے لکھ''نے اور اس''ے
"تاریخی رکاوٹیں" ق''رار دی''نے کی اپی''ل کی ہے ،ت''اکہ ہندوس''تان اور پاکس''تان
کے عوام کے مابین موجود نفرت اور غلط فہمی کا خ''اتمہ ہوس''کے۔ انہ''وں نے
کہا کہ دونوں ملکوں میں نصابی کتب کو منظم طریقے سے توڑ مروڑ کر پیش
کیا گیا ہے اور وقت آگیا ہے کہ رجحان کو مسترد کیا جائے۔
علی نے کہا ہے کہ "ج''بر ،ج''بر اور آم''ریت پ''ر مب''نی ک''وئی بھی نظ''ام ت''اریخ
لکھنے کی راہ میں پہال مس''ئلہ ہے۔" انہ''وں نے کہ''ا ،سیاس''ت اور خ''ود مخت''ار
حکمران''وں کے ذاتی نظری''ات کے ذریعہ ،پاکس''تان کی ت''اریخ مس''لط کی گ''ئی
ہے۔ انہ''وں نے "ت''اریخ ک''ا تج''زیہ ک''رنے اور حکمران''وں کے نقطہ نظ''ر کے
بجائے عوام کے نقطہ نظر سے ازسر نو لکھنے" کے مطالبے کو بھی دہرایا۔
2005میں ،علی نے دعوی کیا تھا کہ پ''ولیس "اس کی تعلیم کی تص''دیق" کے
ل''یےپولیس انہیں ہراس''اں ک''ررہی ہے اور اس کی تف''تیش ک''ررہی ہے ،اور وہ
ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑنے پر غور کررہا ہے۔ اس کے خالف الہور میں
چار فرد سے متعلق اطالعات درج کی گئیں۔
2007میں ،ان کی تین کت'''ابوں ک'''ا اج'''راء کی'''ا گی'''ا :ق'''دیم ہندوس'''تان ("ق'''دیم
ہندوستان") ،ا ِہ وسٹا کا ہندوستان ("قرون وسطی ک''ا ہندوس''تان") اور بارت''انوی
ہندوستان ("برطانوی ہندوستان") ،جو این جی او کے مش''ترکہ ط''ور پ''ر ش''ائع
ہوا تھا۔ ایکشن ایڈ اور فکشن ہاؤس۔ یہ کتابیں نوجوان قارئین کے ل''ئے تی''ار کی
گئیں۔ النچ کے موق''ع پ''ر علی نے یہ بھی بتای''ا کہ پاکس'تانی نص''اب میں اش''وک
عظیم کے بارے میں کوئی ح''والہ نہیں ہے ،جس کے دور میں امن اور م''ذہبی
ہم آہنگی دیکھ''نے میں آرہی ہے۔ علی کے بق''ول " ،یہ انگری''ز ہی تھے جنہ''وں
نے ہم آہنگی ک''و ختم کی''ا اور ہن''دوؤں اور مس''لمانوں میں نف''رت کے بیج ب''وئے
کیونکہ مغلوں کی مذہبی ہم آہنگی کی پالیسی ہر طرح کی ہچکی''وں کے ب''اوجود
الگو رہتی ہے"۔
علی کے بقول ،پاکس''تان میں درس''ی کت''اب کی اص''الحات ک''ا آغ''از 1971میں
ذوالفقار' علی بھٹو کے زیر مطالعہ پاکستان اسٹڈیز اور اسالمی عل''وم کے آغ''از
سے ہوا ،جو ایک الزمی مضمون کے طور پر قومی نص''اب میں تب'دیل ہوگی''ا۔
سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اسالمائزیشن کی طرف ایک عمومی مہم
10
کے حصے کے طور پر تاریخی نظر ثانی کے عمل کا آغ''از کی''ا اور اس اق''دام
کا فائدہ اٹھایا۔ "پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے شروع سے ہی اپنے بچوں ک''و یہ تعلیم
دی تھی کہ یہ ریاست مذہب کی بنی''اد پ''ر بن''ائی گ''ئی ہے۔ اس''ی وجہ س''ے انہیں
دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری نہیں ہے اور وہ ان سب کو ختم کرنا چ''اہتے
ہیں۔"
مئی 2009میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکس''تان کے دف''تر میں خط''اب' ک''رتے
ہوئے مبارک علی نے کہ''ا " ،پاکس'تان میں جمہ''وریت کے مارش''ل ال کی ت''اثیر
تھی اور آج ہم جس چیز کا مش'اہدہ ک'ر رہے ہیں اس'ے 'ج'اگیرداری جمہ'وریت'
کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ج''اگیرداروں کی تیس''ری
نسل ہے جو پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہ'ا کہ اگ'رچہ' متح'دہ
مجلس عمل (ایم ایم اے) انتخاب''ات ہ''ار گئ ہے ،لیکن پاکس''تان میں م''ذہبیت اس
حد تک بڑھ چکی ہے کہ "قومی اسمبلی میں ہر سیاس''ی جم''اعت ایم ایم اے ہے
اور اس اسمبلی نے نظام العدل کی منظوری دی۔ "
اردو میں ان کی ح''الیہ ج''امع کت''اب نش''ر کی دری''افت' ان ک''ا انتہ''ائی ج''امع ک''ام
سمجھا جاتا ہے۔ کتاب کا پہال حصہ 20ویں صدی میں بہادری اور معاش''رے ،
تاریخ نگاری سے متعلق ہے ،ہمیں ت''اریخ کیس''ے لکھ''نی چ''اہئے ،اور س''وانح
عمری کے بارے میں بتایا گیا ہے ،جبکہ دوسرے حصے میں ب''ڑی تع''داد میں
موضوعات پ'ر مش'تمل ہے۔ ان تش'ریحات نے ق'ومی تنازع'ات ک'و اج'اگر' کی'ا ،
مثالمغل مسلم ہندوس'تان ،عثم'انی اور مغ''ل کے درمی''ان تعل''ق ،م'ذہب اور اس
کے سیاسی استعمال ،اسالمی اسکالرز اور جدیدیت ،فرانسیسی انقالب ،س''ندھ
کی تہذیب ،سامراج اور بنیاد پرستی ،کوئل اور ک''افی کی ت''اریخ ،غ''یرت کے
نام پر قتل ،فراموش مرد اور تاریخ نگاری کے تازہ ترین رجحانات۔'
11
ق نف ف
ج دی د ری است کو م فہوم و ی ام و اذ فب اب دوم:
ج دی د ری است کا م ہوم ف صل اول:
ق نف
ج دی د ری است کا ی تام و اذ ف صل دوم:
ٹ
ڈاک ر م ب ارک علی کا ج زی ہ صل سوم:
ف ف
ج دی د ری است کا م ہوم صل اول:
جہ''اں ت''ک جدیدریاس''ت کے الدین حم''ایتیوں ک''ا تعل''ق ہے۔ ت''و ان ک''و ت''و اپ'نی
ممدوح کے حق میں کچھ خصوصی دلیلیں گھ''ڑنے کی ض''رورت نہیں؛ اور ان
کے ساتھ یہاں پر ہماری گفتگو بھی نہیں۔ یہ ب''ات س''ب س''ے پہلے ن''وٹ ک''ر لی
جائے۔ ہاں وہ نیک حضرات جو ہم دیندار لوگوں کو ’’جدید ریاست‘‘ کا گرویدہ
دیکھنا چاہتے ہیں۔تو ان کا اپنی ممدوح کے ح''ق میں ’دالئ''ل‘ دین''ا البتہ دلچس''پ
ہو جاتا ہے۔ ’’خالفت‘‘ کے خالف اور ’’جدید ریاس''ت‘‘ کے ح''ق میں ،زی''ادہ
تر یہ جو ’دلی''ل‘ دی''تے ہیں وہ نس''لی اک''ائیوں ،طبعی رش''توں اور رہن س''ہن ک''ا
بچاؤ ہے! نیز انسانی تنوع کا تحفظ!
ہم کہتے ہیں:
یہ اگر کوئی دلیل ہے تو سب س'ے ب'ڑھ ک'ر ہم'اری خالفت کے ح'ق میں ج'اتی
ہے نہ کہ تمہاری جدید ریاست کے ح''ق میں۔ جدی'د ریاس''ت ک''و نس'لی اک'ائیوں،
12
طبعی رشتوں اور رہن سہن سے کیا؟ خصوصاً؛ جدید ریاس''ت کے وج''ود س''ے
تو ان نسلی یا اقلیمی اشیاء کا تعلق ہی کیا؟
’’جدید ریاست‘‘ کے فریم میں فٹ آنے والے آج کے چند گنےچنے ممالک اگر
نسلی یا لسانی محرکات پر قائم ہیں۔ ت''و اِس''ی (جدی''د ریاس''ت) ف''ریم میں فٹ آنے
والے چند گنےچنے ممالک ’مذہبی‘ محرکات' پر بھی قائم ہیں۔ جن میں خود آپ
ت ب''نی ص''یہون (اس''رائیل)۔ اِن مع''دودے چن''د
ملک خداداد آتا ہے۔ ن''یز دول ِ
ِ کا یہ
(مذہبی بنیاد پر بننے والے) ممالک سے اگر یہ عام قاعدہ اخذ نہیں ہ''و س''کتا کہ
آج کی ’جدید ریاست‘ مذہبی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ تو اُن معدودے چند (نسلی یا
لسانی بنیادں پر بننے والے) ممالک سے بھی یہ ع''ام قاع''دہ نہیں نک''اال جاس''کتا
کہ آج کی ’جدیدریاست‘ نسل یا رہن سہن کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔
گو صحیح تر ب''ات یہ ہے کہ جدی''د ریاس''ت کے ف''ریم میں ’نس''ل‘ ی''ا ’لس''ان‘ ی''ا
’مذہب‘ کسی ملک کے وجود میں آنے کا ’موجب‘ ہ''و س''کتا ہے ،اس کے ق''ائم
رہنے کی ’’بنیاد‘‘ نہیں۔
ف
ق نف
ج دی د ری است کا ی ام و اذ صل دوم:
اگر ریاست غیر اسالمی بنیادوں پر کھڑی ہوگی ،تو تجدی''د و احی''ا کے ک''ام میں
متنوع رکاوٹوں سمیت ایسے عناصر اث''ر ان''داز ہ''و س''کتے ہیں ،جس کی وجہ
سے تجدید کے حساس کام کا تحریف و تغیر میں تبدیل ہو نے کا امک''ان ہے ۔
عالم اس''الم میں وقت'ا ً فوقت''اً تج''دد پس''ندی کی اٹھ''نے والی لہ''روں کے پیچھے
متنوع عوامل میں سے ایک یہ عامل بھی کارفرما ہے ۔اس مو قع پر ریاست
کے جملہ اج''زائے ترکی''بی (یہ''اں اج''زائے ترکی''بی س''ے م''راد وہ ام''ور و ہ
تصورات ہیں ،جو ریاست کے وجود ،تنظیم اور نظم و نس'ق س'ے متعل'ق ہیں ،
ورنہ ٹھیٹھ سیاسی فلسفہ کی رو سے ریاست ٓابادی ،عالقہ ،حک''ومت اور اقت''دار
اعلی صرف چار' اجزا پر مشتمل ہوتی ہے )سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۔تصورریاست) concept of state(
۲۔سیکولرازم ()secularism
۳۔ اقتداراعلی ( )sovereigntyکاتصور
13
ت س ف ف
ع ٹ م ص
لم م کری ن اورڈاک ر م ب ارک لی کا ج زی ہ ل سوم:
مسلم مفکرین کا مختصر تجزیہ^:
انیس''ویں ص''دی اور بیس''ویں ص''دی کے نص''ف اول میں مس''لم مفک''رین ک''ا
مرغوب موضوع ریاست و سیاس'ت کے مب'احث تھے ،لیکن ان تم'ام مب'احثوں
میں بنیادی طور پر دو نکات پر زیادہ زور تھا :
۱۔ اسال م میں سیاست و ریاست کا مقام و مرتبہ
۲۔اسالمی نظام خالفت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ ومحاکمہ
پہلے نک''تے س''ے ریاس''ت مقص''ود ہے ی''ا موع''ود ،عب''ادات مقص''ود ہیں ی''ا
حاکمیت الہی پر مشتمل ریاست کے قیام کے لئے وسیلہ وغیرہ جیسی بحث''وں
نے جنم لیا ،بعض مسلم مفکرین 27 نے تو س''رے س''ے ہی اس''الم کے ن''ام پ''ر
سیاس''ت اور اس''المی ریاس''ت ک''ا انک''ار ک''ر دی''ا اور بعض 28 نے اس''المی
ریاست کا صور کچھ اس زور سے پھونکا کہ اسے اسالمی تعلیمات کا مقصود
اعظم قرار دیا ،جبکہ دوسرے نکتے نے جمہوریت سراسر کفر ہے یا اس کی
اسالمائزیش''ن ممکن ہے،جیس''ی ابح''اث ک''و جنم دی''ا ،اور ٓاج بھی ان ٓاوازوں کی
گونج وقتا فوقت'ا س'نائی دی'تی ہے ۔اس'ے مس'لم دنی''ا ک''ا المیہ کہہ س''کتے ہیں کہ
مغربی سیاسی فلسفے سے جڑئے دیگر اہم تصورات ان ابح''اث کے ب''وجھ تلے
دبے رہے اور ان پر وہ بحثیں نہ ہوسکیں ،ج''و جدی''د دور میں مس''لمانوں ک''ا
سیاس''ی رخ متعین ک''رنے کے ل''ئے بے حدض''روری تھیں ٓ،اج ع''الم اس''الم میں
سیاسی حوالے سے افراط و تفریط اسی اغم''اض ک''ا ن''تیجہ ہے ،کہ مس''لم دنی''ا
میں ایک طرف خارجیت کی فکر زور پکڑ رہی ہے ،جس نے اسالمی ممالک
میں کشت و خون کا بازار گ''رم ک''ر رکھ''ا ہے ،دوس''ری ط''رف س''یکولرازم و
لبرلزم کی فکری لہر نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے سحر میں جکڑ ا
ہ''وا ہے اور باقاع''دہ اپ''نے ٓاپ ک''و ل''برل و س''یکولر کہل''وانے والے گ''روہ پی''دا
ہوگئے ہیں ،جو جدید مغربی سیاسی فلسفے کے سامنے سر ِتسلیم خم ہیں ،اس
16
لئے فقہ اسالمی کی تشکیل جدید سے پہلے جدید اسالمی ریاست کے خدوخال
واضح کرنے کی ض''رورت ہے اور مغ''ربی سیاس''ی فلس''فے کے فک''ری اور
انتظامی اجزا الگ الگ کر کے خذ ما صفا و دع ما کدر پر عمل کرن''ا چ''اہئے
اور مغرب سے در ٓامد شدہ پورے سیاسی ڈھانچےاور جدید سیاسی تصورات
کا محاکمہ کرکے اس پر حکم لگانا چاہئے۔
ت ٹ
ڈاک ر م ب ارک علی کا ج زی ہ:
ٹ
ج دی د ری است پر ڈاک رم ب ارک علی کی تعلیمات جدید مغربی مفکرین کے اس نظریہ
سے میل نہیں کھاتیں ۔ ان کے مطابق ریاست ک''ا ک''وئی بھی ف''رد احتس''اب س''ے
باالتر نہیں ہو سکتا۔یہاں تک کہ ریاست کا سربرا ہ بھی ع''ام لوگ''وں کے براب''ر
تعالی ہے۔جس کی نظ''ر میں تم''ام انس''انٰ اعلی کا مالک ہللا
ٰ ہوتا ہےحقیقی اقتدار
برابر ہیں۔ جس شخص کو بھی حکومت کی دیکھ بھال کی ام''انت س''ونپی ج''اتی
ہے اس کو مق'ررہ' ح''دود میں رہ ک''ر ک'ام کرن'ا ہوت''ا ہے۔ ان ح''دود س'ے تج'اوز
کرنے کی صورت میں نہ تو اس کی اطاعت کا حکم ہے اور نہ ہی اس ک''و اس
عہدہ پر برقرار رکھنے کا۔
”قرآن و سنت کے مطالعہ س''ے حکم''رانی کے ج''و اص''ول س''امنے آتے ہیں ان
کی رو سے سربراہ ریاست کو قانون س''ازی کے اختی''ارات مطلق 'ا' حاص''ل نہیں
ہیں۔ قانون کامنبع خدا اور اس کا رسول ﷺ ہیں۔ لہ'ذا اس''الم میں
حقیقی قانون ساز ہللا ہی کی ذات ہے۔اسالمی تعلیمات قانون س''ازی کے ح''والے
سے جدید مغربی نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہیں۔ اس''الم میں ق''انون س''ازی ک''ا
منبع نہ تو حکمران کی منشاء ہ''وتی ہے نہ ہی ع''وام کی خواہش''ات ۔ اس''الم میں
اگ''رچہ حکم''ران' ک''و ق''انون س''ازی کے اختی''ارات حاص''ل ہ''وتے ہیں لیکن یہ
اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے ق''انون ک''ا اص''ل منب''ع اور
'الی کی ذات ہے۔ اس''المی س''ربراہ ریاس''ت ک''و اس''ی ق''انون کی سرچش''مہ ہللا تع' ٰ
پیروی کرنا ہو گی جو ہللا اور ا س کے رسول ﷺ نے طے ک''ر
دیا۔ وہ اگر قانون سازی کرے گا بھی تو بھی انہی اصولوں ک''و م''دنظر رکھ ک''ر
تعالی نے مقرر کر دیا ہے۔“ ٰ اعلی یعنی ہللا
ٰ کرے گا جن کو حقیقی مقتدر