You are on page 1of 16

‫‪1‬‬

‫ق‬ ‫ت‬
‫ش‬ ‫ف‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ح‬
‫ی ی خ اکہ براے ای م ل ‪ ،‬عب ہ اسالمی وعربی لوم‬
‫ع‬

‫ف‬ ‫ت‬ ‫ت‬


‫س‬
‫ج دی د ری است سے م علق ج دد پ س ن د م ت لم م کری ن کی ٓارا‬
‫ع‬ ‫ٹ‬
‫( ڈاک ر م ب ارک لی ) کا ج زی ہ‬

‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬


‫گران م الہ‪:‬‬ ‫پ یش ک دہ‪:‬‬
‫ٹ‬ ‫ف‬
‫ڈاک ر فدمحم عمر راح ی ل‬ ‫نام‪ .‬نس ی ن ہ رسول‬
‫اسسٹ ن ٹ پرو یسر‬ ‫رول مب ر‪20348 :‬‬

‫ف‬ ‫ن‬ ‫ف ن نش‬


‫ص‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫ع‬ ‫ش‬
‫عب ہ اسالمی وعربی لوم ‪ ،‬ر اہ ا ر ل یو ی ورس ی ‪ ،‬ل‬
‫ٓاب اد‬
‫ق‬
‫م دمہ‬
‫علی آ له واصحابه‬ ‫علی رسوله الکریم و ٰ‬ ‫ٰ‬
‫والصلوۃ والسالم ٰ‬ ‫الحمد هلل رب العالمین‬
‫اجمعین۔ امابعد !‬
‫انسانی معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے اور عوام الن''اس کے حق''وق‬
‫کے تحفظ کے لیے ریاست کا قیام ناگزیر ہوت''اہے۔ جبکہ ریاس''ت کے نظم و نس''ق‬
‫کو چالنے کے لیے ریاست میں کسی ایسی بااختی'ار ق'وت ک'ا ہون'ا بھی ض'روری‬
‫ہے جس کی اطاعت و فرمانبرداری عوام کے لیے ضروری ہو ۔ بص''ورت دیگ''ر‬
‫ریاست انتشار اور افراتفری کا شکار ہ''و س'کتی ہے۔ اس''ی ط'رح س'ربراہ ریاس'ت‬
‫چونکہ ریاست کا نگہبان ہوتا ہے ۔عوام کے حقوق کی فراہمی کو یقی''نی بنان''ا اور‬
‫ان کی فالح و بہبود کی خاطر اقدامات اٹھانا اس کی ذمہ داری ہوتا ہے لہ''ذا اف''راد‬
‫‪2‬‬

‫ریاس'ت کے مق''ابلے میں اس ک'و چن''د ایس'ے اختی''ارات حاص'ل ہ'وتے ہیں ج'و نہ‬
‫صرف اس کے منصب کا تقاض''ا ہ''وتے ہیں بلکہ اس منص''ب س''ےجڑے ف''رائض‬
‫کی انجام دہی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ قطع نظر کہ ان اختیارات کا تعین ک''ون‬
‫کرتا ہے ‪ ،‬مختلف معاشروں میں اور مختلف ادوار میں سربراہ ریاست کو مختلف‬
‫اختیارات حاصل رہے ہیں۔‬
‫قوموں کا عروج و زوال دنیا کی تاریخ میں ایک پیچیدہ ‪ ،‬پراسراراور غم و ان''دوہ‬
‫سے بھرپور عمل ہے ۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جو انسانی ذہن کو افسردہ کردیتا‬
‫ہے اور وہ اس اُتار چڑھائو کے عمل سے ی''اس و ن''ا امی''د ک''ا ش''کار ہوجات''ا ہے ۔‬
‫اگرچہ انسانی ذہن نے قوموں کے ع''روج و زوال ک''و س''مجھنے کی بہت کوش''ش‬
‫کی ہے ‪ ،‬مگر اس کے لیے اب تک یہ ایک نہ ح''ل ہ''ونے واال معمہ ہے کہ ای''ک‬
‫قوم کن حاالت میں عروج حاصل کرتی ہے ‪ ،‬تہذیب و تمدن میں کمال تک پہنچتی‬
‫ہے اور پھر ایک شاندار ماضی کو چھوڑ کر زوال پذیر ہوجاتی ہے ۔‬
‫تعارف موضوع‪)Introduction to the topic (:‬‬ ‫ِ‬
‫اسالمی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اسالمی ریاست کی ایک الزمی‬
‫خصوصیت احتساب ک''ا قی''ام ہے۔ ن''بی ک''ریمﷺ‪،‬خالفت راش''دہ اور‬
‫بعد کے ادوار میں ایسے ادارے باقاعدہ طور پر قائم کیے گئے جو نہ صرف عوام‬
‫بلکہ حکومتی اراکین کے لیے بھی احتساب کے عمل ک''و یقی''نی بنای''ا ک''رتے تھے۔‬
‫اسالمی سیاسی مفکرین بھی ریاس''ت و حک''ومت اور س''ربراہ ریاس''ت کے ف''رائض‬
‫میں احتس''اب کے عم''ل ک''و بھی ش''امل ک''رتے ہیں۔ انھ''وں نے اس ادارے اور اس‬
‫سے جڑے فرائض کو اپنی تحقیق کا موضوع بنای''ا ہے۔ ق''رآن وس''نت کی رو س''ے‬
‫سربراہ ریاست کو جو اختیارات عطا کیے گئے ہیں وہ جدی''د مغ''ربی مفک''رین کے‬
‫نظریات سے مختلف ہیں۔ اسالم ریاست کے حکمرانوں ک''و ج''و اختی''ار عط''ا کرت''ا‬
‫ہے ان میں انتظ''امی اور ق''انونی اختی''ارات اگ''رچہ ش''امل ہیں مگ''ر ان ک''و مطل''ق‬
‫العنانیت کسی بھی حوالے سے حاصل نہیں ہے۔ وہ قرآن و س''نت کی تعلیم''ات کے‬
‫منافی نہ تو قانون سازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ریاست کا نظام چال سکتے ہیں۔‬
‫جبکہ مغربی مفکرین سربراہ ریاست کو احتساب اور سزا س''ے م''براقرار‬
‫دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں کسی کو بھی یہ ح''ق حاص''ل نہیں ہوت'ا کہ وہ س'ربراہ‬
‫ریاست سے جوابدہی ک''ر س''کے۔ لیکن اس''الم میں ع''وام اور ح''اکم دون''وں ک''و ہی‬
‫ایک دوسرے کے احتساب کا حق حاصل ہے۔ قران و س''نت کی رو س''ے س''ربراہ‬
‫ریاست کی حیثیت نائب خداوندی کی سی ہے جس کے پاس اقتدار خ''دا کی ام''انت‬
‫ہے جس کا اس کو جواب دینا ہے۔ مگر مغربی سیاسی مفک''رین کے نزدی''ک خ''دا‬
‫کے بعد اس دنیا میں سب سے بلند تر ہستی حاکم ہوتا ہے۔ جس ک''و نہ ت''و اس کے‬
‫کسی فعل پر سزا دی جا سکتی ہے نہ ہی مع''زول کی''ا جاس''کتا ہے اور نہ ہی ب''از‬
‫پرس کی جاسکتی ہے۔ اس کے مقابل اسالم سربراہ ریاست کو نہ تو احتساب سے‬
‫باالتر سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کو قانون سازی کا بالمشروط اختیار دیتا ہے۔‬
‫موضوع کی اہمیت وافادیت‪)Importance of topic(:‬‬
‫‪3‬‬

‫ٹ‬
‫ڈاک رم ب ارک علی کی تعلیمات جدید مغربی مفکرین کے اس نظریہ سے میل‬
‫نہیں کھاتیں ۔ ان کے مطابق ریاست کا کوئی بھی فرد احتساب سے ب''االتر نہیں ہ''و‬
‫سکتا۔یہاں تک کہ ریاس''ت ک''ا س''ربرا ہ بھی ع''ام لوگ''وں کے براب''ر ہوت''ا ہےحقیقی‬
‫'الی ہے۔جس کی نظ''ر میں تم''ام انس''ان براب''ر ہیں۔ جس‬ ‫اعلی کا مال''ک ہللا تع' ٰ‬
‫ٰ‬ ‫اقتدار‬
‫شخص کو بھی حکومت کی دیکھ بھال کی امانت س''ونپی ج''اتی ہے اس ک''و مق''ررہ‬
‫حدود میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ ان حدود سے تجاوز کرنے کی ص''ورت میں نہ‬
‫تو اس کی اطاعت کا حکم ہے اور نہ ہی اس کو اس عہدہ پر برقرار رکھنے کا۔‬
‫”قرآن و سنت کے مطالعہ سے حکمرانی کے جو اص''ول س''امنے آتے ہیں‬
‫ان کی رو سے سربراہ ریاست کو قانون سازی کے اختی''ارات مطلق''ا حاص''ل نہیں‬
‫ہیں۔ قانون کامنبع خ''دا اور اس ک''ا رس''ول ﷺ ہیں۔ لہ''ذا اس''الم میں‬
‫حقیقی قانون س'از ہللا ہی کی ذات ہے۔اس''المی تعلیم''ات ق'انون س'ازی کے ح'والے‬
‫سے جدید مغربی نقطہ نظر س''ے بالک''ل مختل''ف ہیں۔ اس''الم میں ق''انون س''ازی ک''ا‬
‫منب'ع نہ ت'و حکم'ران کی منش'اء ہ'وتی ہے نہ ہی ع'وام کی خواہش'ات ۔ اس'الم میں‬
‫اگ''رچہ حکم''ران ک''و ق''انون س''ازی کے اختی''ارات حاص''ل ہ''وتے ہیں لیکن یہ‬
‫اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ ق''رآن و س''نت کی رو س''ے ق''انون ک''ا اص''ل منب''ع اور‬
‫تعالی کی ذات ہے۔ اسالمی سربراہ ریاست کو اسی قانون کی پ''یروی‬ ‫ٰ‬ ‫سرچشمہ ہللا‬
‫کرنا ہو گی ج''و ہللا اور ا س کے رس''ول ﷺ نے طے ک''ر دی''ا۔ وہ‬
‫اگر قانون سازی کرے گا بھی تو بھی انہی اصولوں کو مدنظر رکھ ک''ر ک''رے گ''ا‬
‫تعالی نے مقرر کر دیا ہے۔“‬
‫ٰ‬ ‫اعلی یعنی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫جن کو حقیقی مقتدر‬
‫نت‬ ‫ض‬
‫وج ہ ا خ اب مو وع(‪)Reason of Selection the Topic‬‬
‫خ ن ق‬ ‫ن‬ ‫ج خ‬
‫رٓان و حدی ث‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ومور‬ ‫ما‬ ‫ع‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫دور‬ ‫کو‬ ‫ال‬ ‫ے‬‫است م ں ان س‬ ‫ت‬ ‫د در‬
‫کی روش ن جی یم یں ت د رو ف یکر سے یکام ل ا ۔ج ن م ں ڈاکٹر م ارک علی کا د د ر استی مو وع ر دن‬
‫ض‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ل‬
‫پچ‬ ‫جی ی ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ب ن پن ت ی‬ ‫ی‬
‫ے۔‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ذکر‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫احت‬ ‫است کا وض‬
‫ی‬‫ر‬ ‫د‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫۔آپ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ود‬ ‫کتب موج‬
‫ض‬ ‫موج ودہ ری است می ں ب ھی ی ہی ٓازما ی ی ں عالمی س طح پر گردش کر ر نہ‬
‫اس امر کی‬ ‫رورت ٹ‬ ‫ں ئ‬ ‫کت‬‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ق‬
‫ے ہ وے ڈاک ر م ب قارک‬ ‫وزوال کے اس ب اب کو مد ظ ر ر ھ‬ ‫کے عروج ن ئ‬ ‫ٹ‬ ‫ے کہ تجس می ں ساب ہ ادوار‬ ‫ہ‬
‫ب سے اوران کے آر ی کلز سے رہ ما ی لے کر موج ودہ دور کے م طابق ای ک م الہ‬ ‫تعلی کی ک ئ‬
‫حریر ک ی ا ج اے ۔‬
‫موضوع پر موجود سابقہ مواد کا تجزیہ‪)Survey of literature (:‬‬
‫جدید ریاست سے متعلق ڈاکٹر مبارک علی کی کتب موجودہیں۔ڈاکٹر ایس‬
‫ایم نازکی " اسالمی ریاست میں محتسب کا کردار"اس' کے عالوہ مس''لم مفک''رین‬
‫کی اہم کتب جن میں اب''و الحس''ن علی م''اوردی کی"االحک''ام الس''لطانیہ " ‪ ،‬ام''ام‬
‫غزالی کی "احی''اء العل''وم" ‪ ،‬ابن ح''زم کی "الفص''ل فی الملل" ‪،‬ام''ام ابن تیمیہ ک''ا"‬
‫رسالۃ الحسبہ فی االسالم"‪،‬اور ابن خلدون کا مقدمہ ‪ ،‬اور امام ابن تیمیہ کی کت''اب‬
‫السیاسۃ الش'ریعۃ ‪ ،‬س'ید قطب ش'ہید کی کت'اب " الع'دالۃ االجتم'اعیۃ فی االس'الم "‪،‬‬
‫محمد اسحاق سندھیلوی کی کتاب اسالم ک''ا سیاس''ی نظ''ام اور الم''اوردی کی کت''اب‬
‫االحکام السلطانیہ شامل ہیں۔‬
‫‪4‬‬

‫فرضیہ تحقیقی سواالت(‪:)Hypothesis‬‬


‫جدید ریاست کا مفہوم کیا ہے؟‬
‫جدید ریاست کے متعلق ڈاکٹر مبارک علی کی رائے کیا ہے؟‬
‫ڈاکٹر مبارک علی کی رائے کی حیثیت کیا ہے؟‬
‫منہج تحقیق (‪Research methodology(:‬‬
‫دوران تحقیق درج ذیل طریقہ اختیار کیاجائے گا۔‬
‫یہ تحقیقی مقالہ ایک مقدمہ اورتین ابواب پر مشتمل ہو گا۔‬ ‫‪1‬۔‬
‫اس مقالہ کی تیاری میں مس''لم علم''او م''ورخین کی کتب کے عالوہ دیگ''ر‬ ‫‪2‬۔‬
‫کتب سے خوب استفادہ کیا ج''ائے گ''ا اورجہ''اں ض''رورت محس''وس ہ''وگی‬
‫وہاں سائنسی مصادر کو بھی استعمال میں الیا جائے گا۔‬
‫اس تحقیقی مقالہ میں جہاں بھی آیت یاحدیث لکھی جائے گی وہاں اس کی‬ ‫‪3‬۔‬
‫مکمل تخریج کی جائے گی۔‬
‫مقالہ کی عبارت آسان اور با محاورہ اردو میں ہو گی۔‬ ‫‪4‬۔‬
‫حوالہ جات میں پہلی دفعہ ذکر پر کتاب کے مؤل''ف ک''ا پ''ورا ن''ام درج کی''ا‬ ‫‪5‬۔‬
‫جائے گا۔ جب کہ اسی کتاب کے دوبارہ استعمال کی ص''ورت میں مص''نف‬
‫کا مختصر نام ذکر کر دیا جائے گا۔‬
‫ہر باب کے آخر میں خالصہ بحث تحریر کی''ا ج''ائے گ''ا۔ جبکہ مق''الہ کے‬ ‫‪6‬۔‬
‫آخر میں ایک جامع خالصہ بحث تحریر کیا جائے گا‬
‫مقالہ کے آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست دی جائے گی۔‬ ‫‪7‬۔‬
‫دوران تحقیق پبلک الئ''بریریز‪،‬مختل''ف جامع''ات کی الئ''بریریز اور فت''اوی‬ ‫‪8‬۔‬
‫سے استفادہ کیا جائے گا‬
‫حوالہ جات لکھتے وقت ’’شکاگو انداز تحقیق ‘‘ کو اختیار کیا جائے گا۔‪ ‬‬ ‫‪9‬۔‬
‫‪10‬۔ مقالہ کی تیاری کے دوران بیانی ‪،‬تاریخی اور تنقی''دی ط''ریق ِہ تحقی''ق ک''و‬
‫اختیار کیا جائے گا۔‬
‫‪11‬۔ تحقیقی مقالہ میں انٹر نیٹ کا بھی استعمال کیا جائے گا۔‬
‫‪12‬۔ مکتبہ وقفیہ‪ ،‬مکتبہ ش''''املہ اور مکتبہ علمیہ س''''ے خصوص''''ی اس''''تفادہ‬
‫کیاجائے گا۔‬
‫‪5‬‬

‫خ‬
‫طۃ ا بل حث‬ ‫ت‬
‫ٹ‬
‫ارف ڈاک ر م ب ارک علی‬‫ن ن‬‫ع‬ ‫فب اب اول‪:‬‬
‫ام و سب‬ ‫ف صل اول‪:‬‬
‫ت ن‬
‫حاالت ز فدگی‬ ‫ف صل دوم‪:‬‬
‫ع‬
‫لمی و صن ی ی خ فدمات‬ ‫صل سوم‪:‬‬
‫ق نف‬
‫ج دی د ری است کو م فہوم و ی ام و اذ‬ ‫فب اب دوم‪:‬‬
‫ج دی د ری است کا م ہوم‬ ‫ف صل اول‪:‬‬
‫فن‬ ‫ق‬
‫ت‬ ‫اذ‬ ‫و‬ ‫ام‬ ‫ج دی د ری فاست کا ی‬ ‫ف صل دوم‪:‬‬
‫ٹ‬
‫مسلم م کری ن اورڈاک ر م ب ارک علی کا ج زی ہ‬ ‫صل سوم‪:‬‬

‫فمصادرو مراج ع‬ ‫ت‬


‫نش ش‬ ‫ٹ‬
‫ڈاک ر م ب ارک علی‪ ،‬ج دی د ا یر خ ‪ ،‬ا ر ک ن ہ فاؤس ‪،‬الہ ور‪،‬سن ط ب اعت ‪2001‬ء‬ ‫‪1‬۔‬
‫نش ش‬ ‫ت‬ ‫ٹ‬
‫ڈاک ر م ب ارک علی‪ ،‬ا یر خ اورس ی است‪ ،‬ا ر ک ن ہ اؤس ‪،‬الہ ور‪،‬سن ط ب اعت ‪2012‬ء‬ ‫‪2‬۔‬
‫‪6‬‬

‫نش فش‬ ‫ٹ‬


‫ڈاک ر م ب ارک علی‪ ،‬علماء اورس ی است‪ ،‬ا ر ک ن اؤس ‪،‬ال ور‪،‬سن ط ب اعت ‪2003‬ء‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫‪3‬۔‬

‫ٹ‬ ‫ت‬
‫ارف ڈاک ر م ب ارک علی‬ ‫ع‬
‫ن ن‬ ‫فب اب اول‪:‬‬
‫ام و سب‬ ‫ف صل اول‪:‬‬
‫ت ن‬
‫حاالت ز فدگی‬ ‫ف صل دوم‪:‬‬
‫ع‬
‫لمی و صن ی ی خ دمات‬ ‫صل سوم‪:‬‬
‫‪7‬‬

‫ن ن‬ ‫ف‬
‫ام و سب‬ ‫صل اول‪:‬‬
‫آپ کا نام "مبارک علی" تھا۔‬
‫آپ اپریل ‪ 1941‬میں برطانوی ہندوستان کے ٹونک میں پیدا ہوا تھا۔ انہ''وں نے‬
‫اپنی ایک کتاب (در در ٹھوکر کھ'ائے) میں لکھ'ا ہے کہ انہ'وں نے اپ'نی ت'اریخ‬
‫پیدائش اس لئے کی ہے کہ والدین اسے صحیح طور پر نہیں جانتے تھے۔‬
‫‪8‬‬

‫ف‬
‫ن‬
‫حاالت ز دگی‬ ‫صل دوم‪:‬‬
‫علی نے ‪ 1963‬میں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے ت''اریخ میں ایم اے حاص''ل‬
‫کی۔ ‪ 1972‬میں ‪ ،‬وہ اعلی تعلیم کے لئے لندن اور پھ''ر جرم''نی چلے گ''ئے اور‬
‫‪ 1976‬میں جرمنی کے روہر یونیورسٹی ‪ ،‬بوچم میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل‬
‫کی۔ بع''دازاں وہ س''ندھ یونیورس''ٹی میں ش''عبہ ہس''ٹری کے س''ربراہ بن گ''ئے۔ وہ‬
‫‪ 1996‬تک الہور میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر تھے۔ وہ سہ ماہی جریدہ‬
‫طاریخ ("تاریخ") کے ای'ڈیٹر بھی ہیں۔ ہندوس''تان ‪ ،‬پاکس'تان اور مش''رق وس''طی‬
‫میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ان کا بڑے پیمانے پر انٹرویو لیا گی''ا‬
‫ہے۔‬
‫‪ 1999‬میں ‪ ،‬غیر سرکاری تنظیم خوج کے زیر اہتم''ام ممب''ئی میں منعق''دہ ای''ک‬
‫سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے ‪ ،‬علی نے اپنے ملک میں ت''اریخی وظ''ائف پ''ر‬
‫بنیاد پرستی کے اثرات کا ح''والہ دی''ا۔ انہ''وں نے بتای''ا کہ کس ط''رح ‪ 1965‬کے‬
‫بعد ‪ ،‬وادی سندھ کی تہذیب کے ذکر کو چھوڑ کر ‪ ،‬قدیم تاریخ نے پاکستان میں‬
‫پڑھنا چھوڑ دیا۔ سرکاری الئن یہ ہے کہ نصاب س''ے ب''اہر کی ک''وئی بھی چ''یز‬
‫"ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سرکاری‬
‫ت''اریخ نگ''اری دو ق''ومی نظ''ریہ پ''ر ق''ائم ہے۔ اس پ''ر س''وال اٹھان''ا ‪ 1991‬کے‬
‫پاکستان نظریاتی ایکٹ کے تحت دس سال قید کی سزا کا سبب بن سکتا ہے۔‬
‫"رانی کوٹ پر قومی سیمینار" میں خطاب' کرتے ہوئے ‪ ،‬انہ''وں نے ت''اریخ ک''و‬
‫ایک مختل''ف زاویے س''ے پڑھ''نے اور لکھ''نے ک''ا مط''البہ کی''ا ‪ ،‬جس میں حملہ‬
‫آوروں کو "عظیم" قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ انہ''وں نے کہ''ا کہ آث''ار ق''دیمہ کی‬
‫اپنی الگ الگ اہمیت ہے اور اسے موہنجو دڑو کی دری'افت ک'ا ح'والہ دی'ا جات'ا‬
‫ہے ‪ ،‬ج'''و اس خطے کی ای'''ک عظیم تہ'''ذیب کی عکاس'''ی کرت'''ا ہے جس نے‬
‫برصغیر کی تحریک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا ‪ ،‬کیونکہ اس کی دریافت‬
‫تک اس حصے کے لوگ دنیا کا با ادب یا مہذب نہیں سمجھا جاتا تھا۔‬

‫ت‬ ‫ف‬
‫ف‬ ‫ع‬
‫لمی و صن ی ی خ دمات‬ ‫صل سوم‪:‬‬
‫‪9‬‬

‫انہ''وں نے ہن''د پ''اک کی ت''اریخ پ''ر متع'دد کت''ابیں اور مض''امین لکھے ہیں ‪ ،‬اور‬
‫اسٹیبلشمنٹ مخالف مفکر اور مورخ کی حی'ثیت س'ے اس کی وس'یع پیم''انے پ'ر‬
‫تعریف کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک ان''ٹرویو میں کہ''ا ہے کہ "پاکس''تان اور اس‬
‫کی آزادی کے ب'''ارے میں ابھی ت'''ک ک'''وئی مس'''تند ت'''اریخ نہیں لکھی گ'''ئی۔‬
‫اسٹیبلشمنٹ کے حامی' مورخین اور ماہرین تعلیم کے مابین کافی الجھن ہے۔ اب‬
‫تک جو کچھ بھی لکھا گی''ا ہے وہ ت''اریخ کی تحری''ف ہے اور مکم''ل ط''ور پ''ر۔‬
‫غیر متوازن۔‬
‫ڈاکٹر مبارک علی نے برص''غیر کی ت''اریخ ک''و دوب''ارہ س''ے لکھ''نے اور اس''ے‬
‫"تاریخی رکاوٹیں" ق''رار دی''نے کی اپی''ل کی ہے ‪ ،‬ت''اکہ ہندوس''تان اور پاکس''تان‬
‫کے عوام کے مابین موجود نفرت اور غلط فہمی کا خ''اتمہ ہوس''کے۔ انہ''وں نے‬
‫کہا کہ دونوں ملکوں میں نصابی کتب کو منظم طریقے سے توڑ مروڑ کر پیش‬
‫کیا گیا ہے اور وقت آگیا ہے کہ رجحان کو مسترد کیا جائے۔‬
‫علی نے کہا ہے کہ "ج''بر ‪ ،‬ج''بر اور آم''ریت پ''ر مب''نی ک''وئی بھی نظ''ام ت''اریخ‬
‫لکھنے کی راہ میں پہال مس''ئلہ ہے۔" انہ''وں نے کہ''ا ‪ ،‬سیاس''ت اور خ''ود مخت''ار‬
‫حکمران''وں کے ذاتی نظری''ات کے ذریعہ ‪ ،‬پاکس''تان کی ت''اریخ مس''لط کی گ''ئی‬
‫ہے۔ انہ''وں نے "ت''اریخ ک''ا تج''زیہ ک''رنے اور حکمران''وں کے نقطہ نظ''ر کے‬
‫بجائے عوام کے نقطہ نظر سے ازسر نو لکھنے" کے مطالبے کو بھی دہرایا۔‬
‫‪ 2005‬میں ‪ ،‬علی نے دعوی کیا تھا کہ پ''ولیس "اس کی تعلیم کی تص''دیق" کے‬
‫ل''یےپولیس انہیں ہراس''اں ک''ررہی ہے اور اس کی تف''تیش ک''ررہی ہے ‪ ،‬اور وہ‬
‫ہمیشہ کے لئے پاکستان چھوڑنے پر غور کررہا ہے۔ اس کے خالف الہور میں‬
‫چار فرد سے متعلق اطالعات درج کی گئیں۔‬
‫‪ 2007‬میں ‪ ،‬ان کی تین کت'''ابوں ک'''ا اج'''راء کی'''ا گی'''ا‪ :‬ق'''دیم ہندوس'''تان ("ق'''دیم‬
‫ہندوستان") ‪ ،‬ا ِہ وسٹا کا ہندوستان ("قرون وسطی ک''ا ہندوس''تان") اور بارت''انوی‬
‫ہندوستان ("برطانوی ہندوستان") ‪ ،‬جو این جی او کے مش''ترکہ ط''ور پ''ر ش''ائع‬
‫ہوا تھا۔ ایکشن ایڈ اور فکشن ہاؤس۔ یہ کتابیں نوجوان قارئین کے ل''ئے تی''ار کی‬
‫گئیں۔ النچ کے موق''ع پ''ر علی نے یہ بھی بتای''ا کہ پاکس'تانی نص''اب میں اش''وک‬
‫عظیم کے بارے میں کوئی ح''والہ نہیں ہے ‪ ،‬جس کے دور میں امن اور م''ذہبی‬
‫ہم آہنگی دیکھ''نے میں آرہی ہے۔ علی کے بق''ول ‪" ،‬یہ انگری''ز ہی تھے جنہ''وں‬
‫نے ہم آہنگی ک''و ختم کی''ا اور ہن''دوؤں اور مس''لمانوں میں نف''رت کے بیج ب''وئے‬
‫کیونکہ مغلوں کی مذہبی ہم آہنگی کی پالیسی ہر طرح کی ہچکی''وں کے ب''اوجود‬
‫الگو رہتی ہے"۔‬
‫علی کے بقول ‪ ،‬پاکس''تان میں درس''ی کت''اب کی اص''الحات ک''ا آغ''از ‪ 1971‬میں‬
‫ذوالفقار' علی بھٹو کے زیر مطالعہ پاکستان اسٹڈیز اور اسالمی عل''وم کے آغ''از‬
‫سے ہوا ‪ ،‬جو ایک الزمی مضمون کے طور پر قومی نص''اب میں تب'دیل ہوگی''ا۔‬
‫سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اسالمائزیشن کی طرف ایک عمومی مہم‬
‫‪10‬‬

‫کے حصے کے طور پر تاریخی نظر ثانی کے عمل کا آغ''از کی''ا اور اس اق''دام‬
‫کا فائدہ اٹھایا۔ "پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے شروع سے ہی اپنے بچوں ک''و یہ تعلیم‬
‫دی تھی کہ یہ ریاست مذہب کی بنی''اد پ''ر بن''ائی گ''ئی ہے۔ اس''ی وجہ س''ے انہیں‬
‫دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری نہیں ہے اور وہ ان سب کو ختم کرنا چ''اہتے‬
‫ہیں۔"‬
‫مئی ‪2009‬میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکس''تان کے دف''تر میں خط''اب' ک''رتے‬
‫ہوئے مبارک علی نے کہ''ا ‪" ،‬پاکس'تان میں جمہ''وریت کے مارش''ل ال کی ت''اثیر‬
‫تھی اور آج ہم جس چیز کا مش'اہدہ ک'ر رہے ہیں اس'ے 'ج'اگیرداری جمہ'وریت'‬
‫کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ج''اگیرداروں کی تیس''ری‬
‫نسل ہے جو پاکستان پر حکمرانی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہ'ا کہ اگ'رچہ' متح'دہ‬
‫مجلس عمل (ایم ایم اے) انتخاب''ات ہ''ار گئ ہے ‪ ،‬لیکن پاکس''تان میں م''ذہبیت اس‬
‫حد تک بڑھ چکی ہے کہ "قومی اسمبلی میں ہر سیاس''ی جم''اعت ایم ایم اے ہے‬
‫اور اس اسمبلی نے نظام العدل کی منظوری دی۔ "‬
‫اردو میں ان کی ح''الیہ ج''امع کت''اب نش''ر کی دری''افت' ان ک''ا انتہ''ائی ج''امع ک''ام‬
‫سمجھا جاتا ہے۔ کتاب کا پہال حصہ ‪ 20‬ویں صدی میں بہادری اور معاش''رے ‪،‬‬
‫تاریخ نگاری سے متعلق ہے ‪ ،‬ہمیں ت''اریخ کیس''ے لکھ''نی چ''اہئے ‪ ،‬اور س''وانح‬
‫عمری کے بارے میں بتایا گیا ہے ‪ ،‬جبکہ دوسرے حصے میں ب''ڑی تع''داد میں‬
‫موضوعات پ'ر مش'تمل ہے۔ ان تش'ریحات نے ق'ومی تنازع'ات ک'و اج'اگر' کی'ا ‪،‬‬
‫مثالمغل مسلم ہندوس'تان ‪ ،‬عثم'انی اور مغ''ل کے درمی''ان تعل''ق ‪ ،‬م'ذہب اور اس‬
‫کے سیاسی استعمال ‪ ،‬اسالمی اسکالرز اور جدیدیت ‪ ،‬فرانسیسی انقالب ‪ ،‬س''ندھ‬
‫کی تہذیب ‪ ،‬سامراج اور بنیاد پرستی ‪ ،‬کوئل اور ک''افی کی ت''اریخ ‪ ،‬غ''یرت کے‬
‫نام پر قتل ‪ ،‬فراموش مرد اور تاریخ نگاری کے تازہ ترین رجحانات۔'‬
‫‪11‬‬

‫ق نف‬ ‫ف‬
‫ج دی د ری است کو م فہوم و ی ام و اذ‬ ‫فب اب دوم‪:‬‬
‫ج دی د ری است کا م ہوم‬ ‫ف صل اول‪:‬‬
‫ق نف‬
‫ج دی د ری است کا ی تام و اذ‬ ‫ف صل دوم‪:‬‬
‫ٹ‬
‫ڈاک ر م ب ارک علی کا ج زی ہ‬ ‫صل سوم‪:‬‬

‫ف‬ ‫ف‬
‫ج دی د ری است کا م ہوم‬ ‫صل اول‪:‬‬
‫جہ''اں ت''ک جدیدریاس''ت کے الدین حم''ایتیوں ک''ا تعل''ق ہے۔ ت''و ان ک''و ت''و اپ'نی‬
‫ممدوح کے حق میں کچھ خصوصی دلیلیں گھ''ڑنے کی ض''رورت نہیں؛ اور ان‬
‫کے ساتھ یہاں پر ہماری گفتگو بھی نہیں۔ یہ ب''ات س''ب س''ے پہلے ن''وٹ ک''ر لی‬
‫جائے۔ ہاں وہ نیک حضرات جو ہم دیندار لوگوں کو ’’جدید ریاست‘‘ کا گرویدہ‬
‫دیکھنا چاہتے ہیں۔تو ان کا اپنی ممدوح کے ح''ق میں ’دالئ''ل‘ دین''ا البتہ دلچس''پ‬
‫ہو جاتا ہے۔ ’’خالفت‘‘ کے خالف اور ’’جدید ریاس''ت‘‘ کے ح''ق میں‪ ،‬زی''ادہ‬
‫تر یہ جو ’دلی''ل‘ دی''تے ہیں وہ نس''لی اک''ائیوں‪ ،‬طبعی رش''توں اور رہن س''ہن ک''ا‬
‫بچاؤ ہے! نیز انسانی تنوع کا تحفظ!‬
‫ہم کہتے ہیں‪:‬‬
‫یہ اگر کوئی دلیل ہے تو سب س'ے ب'ڑھ ک'ر ہم'اری خالفت کے ح'ق میں ج'اتی‬
‫ہے نہ کہ تمہاری جدید ریاست کے ح''ق میں۔ جدی'د ریاس''ت ک''و نس'لی اک'ائیوں‪،‬‬
‫‪12‬‬

‫طبعی رشتوں اور رہن سہن سے کیا؟ خصوصاً؛ جدید ریاس''ت کے وج''ود س''ے‬
‫تو ان نسلی یا اقلیمی اشیاء کا تعلق ہی کیا؟‬
‫’’جدید ریاست‘‘ کے فریم میں فٹ آنے والے آج کے چند گنےچنے ممالک اگر‬
‫نسلی یا لسانی محرکات پر قائم ہیں۔ ت''و اِس''ی (جدی''د ریاس''ت) ف''ریم میں فٹ آنے‬
‫والے چند گنےچنے ممالک ’مذہبی‘ محرکات' پر بھی قائم ہیں۔ جن میں خود آپ‬
‫ت ب''نی ص''یہون (اس''رائیل)۔ اِن مع''دودے چن''د‬
‫ملک خداداد آتا ہے۔ ن''یز دول ِ‬
‫ِ‬ ‫کا یہ‬
‫(مذہبی بنیاد پر بننے والے) ممالک سے اگر یہ عام قاعدہ اخذ نہیں ہ''و س''کتا کہ‬
‫آج کی ’جدید ریاست‘ مذہبی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ تو اُن معدودے چند (نسلی یا‬
‫لسانی بنیادں پر بننے والے) ممالک سے بھی یہ ع''ام قاع''دہ نہیں نک''اال جاس''کتا‬
‫کہ آج کی ’جدیدریاست‘ نسل یا رہن سہن کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔‬
‫گو صحیح تر ب''ات یہ ہے کہ جدی''د ریاس''ت کے ف''ریم میں ’نس''ل‘ ی''ا ’لس''ان‘ ی''ا‬
‫’مذہب‘ کسی ملک کے وجود میں آنے کا ’موجب‘ ہ''و س''کتا ہے‪ ،‬اس کے ق''ائم‬
‫رہنے کی ’’بنیاد‘‘ نہیں۔‬

‫ف‬
‫ق نف‬
‫ج دی د ری است کا ی ام و اذ‬ ‫صل دوم‪:‬‬
‫اگر ریاست غیر اسالمی بنیادوں پر کھڑی ہوگی ‪،‬تو تجدی''د و احی''ا کے ک''ام میں‬
‫متنوع رکاوٹوں سمیت ایسے عناصر‪  ‬اث''ر ان''داز ہ''و‪  ‬س''کتے ہیں ‪،‬جس کی وجہ‬
‫سے‪  ‬تجدید کے حساس کام کا‪  ‬تحریف و تغیر میں‪  ‬تبدیل ہو نے کا امک''ان ہے ۔‬
‫عالم اس''الم میں وقت'‌ا ً فوقت''اً‌ تج''دد پس''ندی کی‪  ‬اٹھ''نے والی لہ''روں کے‪  ‬پیچھے‬
‫متنوع عوامل‪  ‬میں سے‪  ‬ایک یہ عامل بھی‪  ‬کارفرما ہے ۔اس‪  ‬مو قع پر ریاست‬
‫کے جملہ اج''زائے ترکی''بی (یہ''اں اج''زائے ترکی''بی‪  ‬س''ے م''راد وہ ام''ور و ہ‬
‫تصورات‪  ‬ہیں ‪،‬جو ریاست کے وجود ‪،‬تنظیم اور نظم و نس'ق س'ے متعل'ق ہیں ‪،‬‬
‫ورنہ ٹھیٹھ سیاسی فلسفہ کی رو سے ریاست ٓابادی ‪،‬عالقہ ‪،‬حک''ومت اور اقت''دار‬
‫اعلی‪  ‬صرف چار' اجزا پر مشتمل ہوتی ہے )سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔‬
‫‪۱‬۔تصورریاست‪) concept of state(  ‬‬
‫‪۲‬۔سیکولرازم (‪)secularism‬‬
‫‪۳‬۔ اقتداراعلی (‪   )sovereignty‬کاتصور‬
‫‪13‬‬

‫‪۴‬۔ تصورقومیت‪) concept of nationalism(  ‬‬


‫‪۵‬۔ٓازادی ومساوات‪) freedom and equality(  ‬‬
‫‪۶‬۔فلسفہ حقوق (‪) philosophy of rights‬‬
‫‪۱‬۔ تصور ریاست‪) concept of state(     ‬‬
‫جدی''د سیاس''ی فلس''فے میں ریاس''ت ک''ا تص''ور انتہ''ائی اہمیت ک''ا حام''ل ہے‬
‫‪،‬جدیدپولیٹکل سائنس‪  ‬میں ریاست کو مستقل بالذات عنصر مانا گیا ہے ‪،‬ریاس''ت‬
‫باقاعدہ ایک شخص قانونی ہوتا ہے ‪ ،‬اور یہ شخص قانونی‪  ‬عام افراد کی ط'رح‬
‫حقوق و فرائض کا مخاطب ہوتا ہے ‪،‬ریاست معاشرے ‪،‬حکومت اور ق''وم‪  ‬س''ے‬
‫الگ تھلگ‪  ‬وجود رکھت''ا ہے‪ ،‬س''ارے افع''ال ریاس''ت کی ط''رف منس''وب ہ''وتے‬
‫ہیں ‪،‬جو ریاست کی نیابت میں حکومت‪  ‬سر انجام دیتی ہے۔‬
‫جب جدید مسلم سیاسی فکر‪  ‬میں جدید ریاست کی ماہیت‪  ‬پر بحث نہیں مل''تی ت''و‬
‫اس کی مختلف تشریحات اور انواع پر بحث کجا ملے گی؟‪،‬جدید سیاسی فلس''فے‬
‫کی رو سے ریاست کی مختلف نقطہ ہائے نظر سے متن''وع تش''ریحات ہیں مثال‪ ‬‬
‫‪( liberal-pluralist state‬ل'''برل تکث'''یری ریاس'''ت ) ‪social-democratic‬‬
‫‪( state‬سماجی جمہوری ریاس''ت ) ‪( Marxist analysis‬ریاس''ت ک''ا مارکس''ی‬
‫تجزیہ ) ‪( feminist analysis‬ریاست کا تانیثی تجزیہ) ‪self-serving state‬‬
‫(خ''ود مکتفی ریاس''ت) وغ''یرہ‪ ،4 ‬ان تم''ام‪  ‬تش''ریحات س''ے ریاس''ت کی متن''وع‬
‫اقسام‪  ‬بنتی ہیں‪،‬اس لئے جدید ریاست کا گہرا تجزیہ کرنے کی ض''رورت ہے‪   ‬‬
‫اور اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جدید ریاس''ت اپ''نی م''اہیت اور‬
‫جدی''د تش''ریحات‪  ‬کے اعتب''ار س''ے‪  ‬اس''المی بن‪  ‬بھی س''کتی ہے‪  ‬ی''ا نہیں؟‪  ‬اور‬
‫اسے‪  ‬اسالمی فقہی تصورات سے ہم ٓاہنگ‪  ‬کرنا‪  ‬کیا ممکن‪  ‬ہے؟‬
‫‪۲‬۔ سیکولرازم (‪)secularism‬‬
‫سیکولرازم جدید ریاست کے مفہوم ک''ا الزمی ج''زو ہے‪ ،‬یہ اص''طالح‪  ‬انیس''ویں‬
‫صدی میں جارج ہالی اوک(‪ )George Jacob holyoake‬نے وض''ع کی تھی‬
‫‪ ،5‬سیکولرازم‪  ‬ریاست سے مذہب کی بے دخلی کا نام ہے ‪،‬اجتماعی امور سے‬
‫مذہب کو نکال کر اس''ے محض ای''ک پرائی''ویٹ مع''املہ بن''انے کی تحری''ک ہے‬
‫‪،‬سماج سے مذہبی عالمات ‪،‬تعلیمات اور شعائر کو ال''گ ک''ر کے اس''ے خ''الص‬
‫دنیاوی رنگ دینے کانام ہے ۔‬
‫‪۳‬۔ اقتدار اعلی ( ‪ )sovereignty‬کاتصور‪ ‬‬
‫جدی''د سیاس''ی فلس''فہ میں‪  ‬اقت''دا راعلی ک''ا تص''ور کلی''دی اہمیت رکھت''ا ہے ‪،‬‬
‫حکومت‪  ‬کی مختلف اقسام‪  ‬اور ایک ریاست میں‪  ‬مختل''ف س''پریم ادارے اقت''دار‬
‫اعلی کے تص''ور میں تن''وع ک''ا ن''تیجہ ہے ‪،‬ان''دورنی (‪ )internal‬و ب''یرونی‪(  ‬‬
‫‪ )external‬اقتدار اعلی ہ''و‪   ‬ی''ا ٓائی''نی (‪ )legal‬اور سیاس''ی (‪ )political‬اقت''دار‬
‫‪14‬‬

‫اعلی ‪ ،‬فوری (‪ )immediate‬اور حتمی (‪ )ultimate‬اقتدار اعلی ہو ‪،‬یا عمومی‬


‫(‪ ،)popular‬ق''ا ن''ونی (‪ )jure‬اور حقیقی (‪ )actual‬اقت''دار اعلی ہ''و‪ 9،‬ان تم''ام‬
‫اقسام نے‪  ‬متعدد سواالت کھڑے کئے‪  ‬ہیں‬
‫‪۴‬۔تصور قومیت‪ ‬‬
‫قومیت‪   ‬جدید سیاسی فلسفہ کا وہ نظریہ ہے ‪،‬جس س''ے ع''الم اس''الم س''ب‪  ‬س''ے‬
‫زیادہ‪  ‬متاثر ہوا‪،  ‬برصغیر میں "قوم وطن سے بن''تی ہے ی''ا م''ذہب س''ے‪"  ‬کے‪ ‬‬
‫سوال پر لمبا عرصہ ت''ک‪  ‬بحث مب''احثہ ہوت''ا رہ''ا ‪،‬متح''دہ‪  ‬ق''ومیت اور اس''المی‬
‫قومیت‪  ‬کے دو‪  ‬الگ الگ نعرے ایجاد ہ''وئے ‪،‬اس کے عالوہ ع''الم ع''رب میں‪ ‬‬
‫عرب نیشنلزم‪  ‬کی‪  ‬لہر چلی ‪،‬جس‪  ‬سے خالفت‪  ‬کا ادارہ ٹ''و ٹ پ''وٹ ک''ا ش''کار‬
‫ہوا ‪،‬نیزمصر‪  ‬وعراق میں‪  ‬قدیم تہذیبوں‪  ‬کے احی''ا کی ص''داوں کے پیچھےبھی‬
‫یہی تصور کارفرما تھا ۔‬
‫‪۵‬۔ ٓازادی و مساوات (‪) freedom and equality‬‬
‫ٓازادی و مساوات جدید سیاسی فلسفے کے الزمی اجزا ہیں ‪،‬پولیٹکل س''ائنس کی‬
‫چھوٹی کتاب‪  ‬سے لیکر بڑی کتب تک اور بنیادی ماخذ سے لیک''ر ث''انوی ماخ''ذ‬
‫تک سب میں ٓازادی و مساوات پر بحث ملتی ہے ۔‬

‫‪۶‬۔فلسفہ حقوق (‪)Philosophy of rights‬‬


‫جدید سیاسی فلسفے‪  ‬میں‪  ‬حقوق کا نظ''ریہ بنی''ادی فلس''فہ ہے ‪،‬حق''وق ک''ا‪  ‬پ''ورا‪ ‬‬
‫پیراڈائم جدیدیت (‪ )modernism‬کا تشکیل کردہ ہے ‪،‬جس میں عقلی بنیادوں پر‬
‫انسانوں کے حقوق طے کئے گئے ہیں ‪،‬ان میں بعض‪  ‬بنیادی حقوق ہیں ‪،‬جسے‬
‫جدی''د سیاس''ی فلس''فے میں انس''انی حق''وق ‪ human rights‬ی''ا فط''ری حق''وق‬
‫‪  natural rights‬کا نام دیا گیا ہے۔‬
‫‪15‬‬

‫ت‬ ‫س ف‬ ‫ف‬
‫ع‬ ‫ٹ‬ ‫م‬ ‫ص‬
‫لم م کری ن اورڈاک ر م ب ارک لی کا ج زی ہ‬ ‫ل سوم‪:‬‬
‫مسلم مفکرین کا مختصر تجزیہ‪^:‬‬
‫انیس''ویں‪  ‬ص''دی اور بیس''ویں ص''دی کے نص''ف اول میں مس''لم مفک''رین‪  ‬ک''ا‬
‫مرغوب موضوع‪  ‬ریاست و سیاس'ت کے مب'احث‪  ‬تھے ‪،‬لیکن ان تم'ام مب'احثوں‬
‫میں‪  ‬بنیادی طور پر دو نکات پر زیادہ زور تھا ‪:‬‬
‫‪۱‬۔ اسال م میں سیاست و ریاست کا مقام و مرتبہ‪ ‬‬
‫‪۲‬۔اسالمی نظام خالفت اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ ومحاکمہ‬
‫پہلے نک''تے س''ے‪  ‬ریاس''ت مقص''ود ہے ی''ا موع''ود ‪ ،‬عب''ادات مقص''ود ہیں ی''ا‬
‫حاکمیت‪  ‬الہی پر مشتمل ریاست کے قیام کے لئے وسیلہ‪   ‬وغیرہ جیسی بحث''وں‬
‫نے جنم لیا ‪ ،‬بعض مسلم مفکرین‪ 27 ‬نے تو س''رے س''ے ہی‪  ‬اس''الم کے ن''ام پ''ر‬
‫سیاس''ت اور اس''المی ریاس''ت ک''ا انک''ار ک''ر دی''ا‪  ‬اور‪  ‬بعض‪ 28   ‬نے اس''المی‬
‫ریاست کا صور کچھ اس زور سے‪  ‬پھونکا کہ اسے اسالمی تعلیمات کا مقصود‬
‫اعظم قرار دیا ‪،‬جبکہ دوسرے نکتے نے جمہوریت‪  ‬سراسر کفر ہے‪  ‬یا اس کی‬
‫اسالمائزیش''ن ممکن ہے‪،‬جیس''ی ابح''اث ک''و جنم دی''ا ‪،‬اور ٓاج بھی ان ٓاوازوں کی‬
‫گونج‪  ‬وقتا فوقت'ا س'نائی دی'تی ہے ۔اس'ے مس'لم دنی''ا ک''ا المیہ کہہ س''کتے ہیں کہ‬
‫مغربی سیاسی فلسفے سے جڑئے دیگر اہم تصورات ان ابح''اث کے ب''وجھ تلے‬
‫دبے رہے اور ان پر وہ‪  ‬بحثیں نہ ہوسکیں ‪،‬ج''و‪  ‬جدی''د دور‪  ‬میں‪  ‬مس''لمانوں ک''ا‬
‫سیاس''ی رخ متعین ک''رنے کے ل''ئے بے حدض''روری تھیں ‪ٓ،‬اج ع''الم اس''الم میں‬
‫سیاسی حوالے سے افراط و تفریط‪  ‬اسی اغم''اض ک''ا ن''تیجہ ہے ‪،‬کہ‪  ‬مس''لم دنی''ا‬
‫میں ایک طرف‪  ‬خارجیت کی فکر زور پکڑ رہی ہے ‪،‬جس نے اسالمی ممالک‬
‫میں کشت و خون کا بازار گ''رم‪  ‬ک''ر رکھ''ا ہے ‪ ،‬دوس''ری ط''رف س''یکولرازم و‬
‫لبرلزم‪  ‬کی‪  ‬فکری لہر نے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے سحر‪  ‬میں جکڑ ا‬
‫ہ''وا ہے‪  ‬اور باقاع''دہ اپ''نے ٓاپ ک''و ل''برل و س''یکولر کہل''وانے والے گ''روہ پی''دا‬
‫ہوگئے ہیں ‪،‬جو جدید‪  ‬مغربی سیاسی‪  ‬فلسفے کے سامنے سر ِتسلیم خم ہیں ‪،‬اس‬
‫‪16‬‬

‫لئے فقہ اسالمی کی‪  ‬تشکیل جدید سے پہلے‪  ‬جدید اسالمی ریاست کے خدوخال‬
‫واضح کرنے کی ض''رورت ہے اور مغ''ربی سیاس''ی فلس''فے کے‪   ‬فک''ری‪  ‬اور‬
‫انتظامی اجزا‪  ‬الگ‪  ‬الگ کر کے خذ ما صفا و دع ما کدر پر عمل کرن''ا چ''اہئے‬
‫اور مغرب سے در ٓامد شدہ پورے سیاسی ڈھانچےاور جدید سیاسی‪  ‬تصورات‪   ‬‬
‫کا محاکمہ کرکے اس پر حکم لگانا چاہئے۔‬
‫ت‬ ‫ٹ‬
‫ڈاک ر م ب ارک علی کا ج زی ہ‪:‬‬
‫ٹ‬
‫ج دی د ری است پر ڈاک رم ب ارک علی کی تعلیمات جدید مغربی مفکرین کے اس نظریہ‬
‫سے میل نہیں کھاتیں ۔ ان کے مطابق ریاست ک''ا ک''وئی بھی ف''رد احتس''اب س''ے‬
‫باالتر نہیں ہو سکتا۔یہاں تک کہ ریاست کا سربرا ہ بھی ع''ام لوگ''وں کے براب''ر‬
‫تعالی ہے۔جس کی نظ''ر میں تم''ام انس''ان‬‫ٰ‬ ‫اعلی کا مالک ہللا‬
‫ٰ‬ ‫ہوتا ہےحقیقی اقتدار‬
‫برابر ہیں۔ جس شخص کو بھی حکومت کی دیکھ بھال کی ام''انت س''ونپی ج''اتی‬
‫ہے اس کو مق'ررہ' ح''دود میں رہ ک''ر ک'ام کرن'ا ہوت''ا ہے۔ ان ح''دود س'ے تج'اوز‬
‫کرنے کی صورت میں نہ تو اس کی اطاعت کا حکم ہے اور نہ ہی اس ک''و اس‬
‫عہدہ پر برقرار رکھنے کا۔‬
‫”قرآن و سنت کے مطالعہ س''ے حکم''رانی کے ج''و اص''ول س''امنے آتے ہیں ان‬
‫کی رو سے سربراہ ریاست کو قانون س''ازی کے اختی''ارات مطلق 'ا' حاص''ل نہیں‬
‫ہیں۔ قانون کامنبع خدا اور اس کا رسول ﷺ ہیں۔ لہ'ذا اس''الم میں‬
‫حقیقی قانون ساز ہللا ہی کی ذات ہے۔اسالمی تعلیمات قانون س''ازی کے ح''والے‬
‫سے جدید مغربی نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہیں۔ اس''الم میں ق''انون س''ازی ک''ا‬
‫منبع نہ تو حکمران کی منشاء ہ''وتی ہے نہ ہی ع''وام کی خواہش''ات ۔ اس''الم میں‬
‫اگ''رچہ حکم''ران' ک''و ق''انون س''ازی کے اختی''ارات حاص''ل ہ''وتے ہیں لیکن یہ‬
‫اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت کی رو سے ق''انون ک''ا اص''ل منب''ع اور‬
‫'الی کی ذات ہے۔ اس''المی س''ربراہ ریاس''ت ک''و اس''ی ق''انون کی‬ ‫سرچش''مہ ہللا تع' ٰ‬
‫پیروی کرنا ہو گی جو ہللا اور ا س کے رسول ﷺ نے طے ک''ر‬
‫دیا۔ وہ اگر قانون سازی کرے گا بھی تو بھی انہی اصولوں ک''و م''دنظر رکھ ک''ر‬
‫تعالی نے مقرر کر دیا ہے۔“‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی یعنی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫کرے گا جن کو حقیقی مقتدر‬

You might also like