You are on page 1of 35

‫‪​Apex Law Academy‬‬

‫‪Important Essay's‬‬
‫پاکستان کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجز‬

‫پاکستان کو درپیش چیلنجز میں ایک مسئلہ خوراک کی قلت‬


‫اور اشیائے خورد و نوش کا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونا‬
‫بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور توانائی کے‬
‫بحران کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کی وجہ خوراک کی پیداوار‬
‫اور اس کی ترسیل کے نظام میں موجود خرابیاں ہیں اور اگر‬
‫اس کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ‬
‫سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک تازہ‬
‫ترین رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اندرونی‬
‫طور پر سیاسی اور سماجی عدم استحکام کے شکار کے ممالک‬
‫میں آنے والے برسوں میں غذائی قلت کا مسئلہ سنگین ہوسکتا‬
‫ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے کی جانے والی ایک‬
‫حالیہ تحقیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک برس‬
‫میں پاکستان میں مقامی طور پر پیدا کی جانے والی غذائی‬
‫اشیا کی قیمتوں میں ‪ 10‬فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‪،‬‬
‫جبکہ غربت میں ‪ 2.2‬فیصد اضافے کے بعد ‪ 39‬الکھ افراد خط‬
‫غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں‬
‫خط غربت کا پیمانہ ایک ڈالر فی کس روزانہ ہے۔ماہرین کا کہنا‬
‫ہے کہ دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے مسائل کا خوراک‬
‫کی قلت کے مسئلے سے ایک براہ راست تعلق نظر آتا ہے۔‬
‫کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے‬
‫غریب طبقے میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے جس سے‬
‫شدت پسندی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جو دہشت گردی کی‬
‫ایک بڑی وجہ ہے‬
‫ان مسائل کے حل کے لیے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے‬
‫ہوئے فرق کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ‬
‫آمدنی کی تقسیم بہتر ہونے سے غربت کم ہوتی ہے اور جب‬
‫غربت میں کمی آتی ہے تو ملک کے سیاسی ان مسائل کے حل‬
‫کے لیے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے‬
‫کی بات کرتے ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ آمدنی کی تقسیم بہتر ہونے‬
‫سے غربت کم ہوتی ہے اور جب غربت میں کمی آتی ہے تو ملک‬
‫کے سیاسی نظام میں استحکام آ جاتا ہے اور سیاسی‬
‫استحکام سے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔‬
‫حال ہی میں ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زیولک نے بھی کہا ہے‬
‫کہ ترقی پزیر ممالک خوراک کی قیمتیں تشویشناک حد تک‬
‫بڑھ رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترقی پزیر ممالک مہنگائی بڑھ‬
‫رہی ہے۔ خاص طور پر خوراک کی قیمتیں ‪،‬جو کہ دنیا کے‬
‫غریبوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہم ایک نسل کی تباہی‬
‫کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ خوراک کا ایک عالمی‬
‫بحران ہوگا۔ خوارک کی قلت کی وجہ اسکی پیداوار اور‬
‫ترسیل کا غیر مستحکم اور غیر محفوظ نظام بھی ہے جس کا‬
‫نتیجہ لوگوں کی قوت خریدکم ہونے کی شکل میں برآمد ہو رہا‬
‫ہے‪ .‬پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی تیاری‬
‫اور ترسیل کے نظام میں بہتری النے کے ساتھ ساتھ امن و‬
‫امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ‬
‫خوراک کی قلت اور غیر محفوط فراہمی جیسے مسائل پر قابو‬
‫پایا جا سکے۔‬

‫پاکستان میں جمہوریت‪ ,‬اسکی امیدیں اور‬


‫رکاوٹیں‬

‫اقوام متحدہ جمہوریت کی تعریف یوں کرتی ہے کہ‬


‫یہ خود میں ایک منزل نہیں بلکہ مسلسل سفر کا نام‬
‫ہے جو افراد اور اقوام کو معاشی اور سماجی ترقی‬
‫کی راہ پر لے جاتا ہے‪ ،‬اور بنیادی حقوق اور آزادیوں‬
‫کا احترام سکھاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت‬
‫بدترین نظام حکومت ہے‪ ،‬لیکن ان نظاموں سے بہتر‬
‫ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں۔ یہ الفاظ سر‬
‫ونسٹن چرچل کے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے‬
‫دوران اور اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم رہے۔ تب‬
‫سے آج تک اس قول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور‬
‫جمہوریت کی اچھائیوں برائیوں کو پرکھنے کے بعد‬
‫بھی دنیا میں سب سے مقبول نظام حکومت‬
‫جمہوریت ہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں‬
‫محض انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت سمجھا اور‬
‫مانا جاتا ہے۔ اس ملک میں فوجی ڈکٹیٹر اپنے غیر‬
‫آئینی اقتدار کو طول دینے کے لیے انتخابات کا سہارا‬
‫لے چکے ہیں‪ ،‬سویلین حکمران انتخابی جیت کی‬
‫طاقت پر ہر قسم کے غیر اقدامات کرتے رہے ہیں‪ ،‬اور‬
‫ماضی قریب میں سیاستدان ووٹ پاکستانی عوام‬
‫سے مانگتے رہے اور اقتدار غیر ملکی قوتوں سے۔ ا ۔‬
‫آج بھی ملکی تاریخ کے کئی اہم فیصلے پاکستانی‬
‫عوام سے مخفی ہیں اور ان پر مذاکرات دبئی‪ ،‬ریاض‪،‬‬
‫لندن اور واشنگٹن میں ہو جمہوری رہے ہیں پاکستان‬
‫میں جس تسلسل سے سویلین اور فوجی حکومتوں‬
‫نے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا ہے‪،‬‬
‫اور جس شدت سے ذاتی یا گروہی مفادات کا پیچھا‬
‫کیا ہے اس سے ملک میں صرف غیر جمہوری ہی نہیں‬
‫بلکہ آمرانہ اقدار کو فروغ مال ہے۔ پبلک پالیسی پر‬
‫تحقیق کے ادارے پلڈیٹ نے پانچ عناصر کی نشاندہی‬
‫کی ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔‬
‫ان میں سب سے اوپر حکومت چالنے کا شفاف نظام‬
‫اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے۔ عوامی نمائندوں‬
‫پر مبنی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا‬
‫کام ایمانداری سے اور بال تعصب انجام دے گی۔ اگر‬
‫ایسا نہ ہو تو لوگ حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت‬
‫سے بھی بدگمان ہو جاتے ہیں۔ 'کسی بھی جمہوری‬
‫حکومت کی بقا کی سب سے مضبوط گارنٹی گڈ‬
‫گورننس ہے ‪ ،‬دوسرا خطره سیاسی جماعتوں میں‬
‫اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے۔ ملک کی تمام بڑی‬
‫سیاسی پارٹیاں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں اور‬
‫طاقت کا مرکز بھی پارٹی یا اس کا کوئی عضو نہیں‬
‫بلکہ ایک شخصیت ہی ہوتی ہے جس کی قیادت کو‬
‫پارٹی کے اندر کوئی چیلنج کر سکتا ہے نہ ہی اس کے‬
‫فیصلے سے کوئی اختالف کر سکتا ہے۔ 'سیاسی‬
‫جماعتوں میں جبر اور آمریت کی فضا ان پارٹیوں کو‬
‫جمہوریت کا وہ مضبوط ستون نہیں بننے دیتی جو‬
‫ان کا اصل مقام ہے‪ ،‬اور یہ رویہ نوجوان نسل کو‬
‫بھی سیاست سے دور رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ جارج‬
‫برنارڈ شا نے کہا تھا جمہوریت ایک ایسا عمل ہے‬
‫جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمراں ملتے ہیں جس‬
‫کے ہم الئق ہوتے ہیں۔ لہذا اگر تبدیلی آ سکتی ہے تو‬
‫اس کا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے جب لوگ اپنی‬
‫انفرادی اور خاندانی زندگیوں میں جمہوریت کو‬
‫مستقل جگہ دیں گے تو ان کے حکمرانوں کو بھی‬
‫جمہوریت کا پاس کرنا پڑے گا۔‬

‫سیاست میں نوجوانوں کا کردار‬

‫کسی دانا کا قول ہے کہ ”اس قوم کی ترقی دنیا کی کوئی‬


‫طاقت نہیں روک سکتی جس کے نوجوان ذمہ دار اور محنتی‬
‫ہوں لیکن اگر اس قوم کے نوجوان کاہل اور الپروا ہوجائیں تو‬
‫بربادی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔“ نوجوان کسی بھی قوم‬
‫کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتے ہیں جو اپنی قوم میں نئی‬
‫زندگی اور انقالب کی روح پھونکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے بیشتر‬
‫قوموں کی بیداری اور ان کے انقالب کا سہرا نوجوانوں کے سر‬
‫جاتا ہے دنیا میں نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی تیزی‬
‫سے بڑھتی جارہی ہے جن میں سے کچھ نوجوان ملک کی اعلی‬
‫قیادت کے منصب تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں وزیراعظم‬
‫منتخب ہونے کے بعد حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے‬
‫بڑھ جاتے ہیں یہ رویہ عوامی نمائندہ ہونے کی نفی کرتا ہے۔‬
‫دنیا میں ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔‬
‫تاریخ گواہ ہے کہ ہر انقالب میں نوجوان طبقے نے اہم کردار‬
‫ادا کیا ہے۔ نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ اور انقالب النے‬
‫کی امنگ ہوتی ہے۔ یہ مضبوط عزم اور بلند حوصلہ ہوتے ہیں۔‬
‫ان کی رگوں میں گرم خون اور سمندر کی سی طغیانی ہوتی‬
‫ہے۔ ان کی قابلیت و ذہنی صالحیتیں انھیں حاالت کا رخ موڑ‬
‫دینے‪ ،‬مشکالت جھیلنے کیلئے ُا بھارتی رہتی ہیں۔ پاکستان‬
‫خوش نصیب ہے کہ جہاں ‪ 63‬فیصد آبادی ‪ 25‬برس سے کم‬
‫عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔نوجوانوں کو یقینا سیاست‬
‫میں اہم کردار ادا کرنا چاہئے لیکن ایسا کرتے وقت وہ اپنی‬
‫سیاسی جماعت کا آلہ کار نہ بنیں اور اپنے آپ کو صرف‬
‫سیاسی سرگرمیوں تک محدود رکھیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا‬
‫ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے طلباء کو اپنے مذموم مقاصد‬
‫اور تشدد کی سیاست کیلئے استعمال کیا اور یہ نوجوان‬
‫سیاسی طاقت کا سہارا لے کر ناجائز کاموں کی جانب راغب‬
‫ہوگئے اور حاصل کی گئی ناجائز دولت کے نشے میں آہستہ‬
‫آہستہ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتے گئے‪ ،‬پھر ان کیلئے‬
‫اس راستے سے واپس لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں کو‬
‫مستقبل میں مثبت سیاسی کردار ادا کرنے کیلئے قانون سازی‬
‫کی جائے اور تعلیمی اداروں میں اصالحات کی جائیں تاکہ‬
‫طلباء تنظیمیں ایک ضابطہ اخالق کے تحت کام کریں اور‬
‫تشدد کا راستہ اختیار نہ کریں۔ پاکستان پالننگ کمیشن کے‬
‫اعداد و شمار کے مطابق ‪2030‬ء تک ملک سال کم عمر نو‬
‫جوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ جس ملک کے پاس ‪2030‬ء تک‬
‫ملک میں ‪ 24‬سال سے کم عمر نو جوانوں کی تعداد سب سے‬
‫زیادہ ہو گی۔ جس ملک کے پاس نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد‬
‫ہو‪ ،‬اس ملک کا ترقی نہ کرنا قابل افسوس بات ہے جس کی‬
‫ایک وجہ ملک کے نوجوانوں کا غلط استعمال کیا جانا ہے۔ قائد‬
‫اعظم محمد علی جناح کو طالب علموں کا مستقبل عزیز تھا‪،‬‬
‫اس لئے انہوں نے کبھی طالب علموں کو سیاست کی بھینٹ‬
‫نہیں چڑھایا بلکہ ہمیشہ نوجوانوں کی کردار سازی پر زور‬
‫دیالیکن ہمارے ملک میں زیادہ تر سیاستدانوں نے نوجوانوں‬
‫کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے اور ملک کی حقیقی‬
‫تعمیر و ترقی کیلئے کسی نے بھی ان کی کردار سازی نہیں کی۔‬
‫ملک میں مذہبی انتہا پسندی نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہے‬
‫جس سے دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھاکر نوجوانوں کو‬
‫مذہب کے نام پر استعمال کررہی ہیں کراچی میں سانحہ‬
‫صفورا گوٹھ اور دیگر سانحات میں ملوث جن افراد کو پکڑا‬
‫گیا‪ ،‬ان میں زیادہ تر نوجوانوں نے ملک کے اعلی ترین تعلیمی‬
‫اداروں سے انجینئرنگ اور ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی‬
‫ہوئی تھی لیکن انہیں مذہب کے نام پر گمراہ کرکے دہشت گردی‬
‫کی لرزہ خیز وارداتوں میں استعمال کیا گیا جس میں‬
‫سینکڑوں ہم وطن شہید ہوئے۔ یہ نوجوان اگر گمراہ نہ کئے‬
‫جاتے تو وہ اپنی تعلیمی قابلیت سے معاشرے کو فائدہ پہنچا‬
‫سکتے تھے۔ بہرحال کراچی میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے‬
‫واقعات پر رینجرز اور پولیس نے کافی حد تک قابو پالیا ہے‬
‫نوجوان طلباء ہماری امید ہیں‪ ،‬نوجوان کو ہر شبعہ میں‬
‫سہولیات فراہم کی جائیں ان میں وطن سے محبت اور اس‬
‫کی ترقی کے لیے کوشاں رہنے کے لئے گمراہی سے نکال کر‬
‫نوجوانوں کی اصالح کی جاۓ جیسے ہر اندھیرے کے بعد‬
‫اجاال اور ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے اسی طرح نوجوان ملک‬
‫کی ترقی میں اہم کردار ادا کر کے سکتے ہیں جس کے لیے ان‬
‫کو بھرپور مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‬

‫آزادی کی نعمتیں بیان کریں‬

‫ہمارا وطن پاکستان جہاں ہم رہتے ہیں وہ وطن نہیں جو‬


‫وراثت میں اس کے بنے والو کو مال ہے بلکہ پاکستان کی‬
‫بنیادیں استوار کرنے کے لئے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں‬
‫کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا‬
‫ہے ۔ اتنی گراں قدر تخلیق کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے‬
‫جس نے تعمیر پاکستان میں اپنا من دھن‪ ،‬بھائی‪ ،‬عزیز واقارب‬
‫قربان کئے۔ حصول پاکستان کے لئے الکھوں مسلمانوں نے جام‬
‫شہادت نوش کیا۔ کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بچے قتل کر‬
‫دیے گئے ۔ کتنی پاکدامنوں نے نہروں اور کنوؤں میں ڈوب‬
‫پاکستان کی قیمت ادا کی ۔ کئی بچے یتیم ہوئے جو ساری‬
‫زندگی والدین کی شفقت کے لئے ترستے رہے ۔ ‪14‬اگست ‪1947‬‬
‫ء وہ مبارک وقت تھا جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔‬
‫مسلمانوں کے اتفاق اور قائدا عظیم کے خلوص کی وجہ سے یہ‬
‫عظیم سلطنت وجود میں آئی‪ ،‬ہندوؤں نے طرح طرح کی‬
‫مکاریوں سے پاکستان کے مخالفت کی انگریزوں نے بھی طرح‬
‫طرح کی رکائیں ڈالی ‪ ،‬ہمیں ہر قسم کی آزادی اور سامان اور‬
‫آسائش و آرائش مہیا ہے مگر یہ کبھی نہ بولیں کہ اس میں‬
‫ٹیپو سلطان کا خون سرسید کی نگاہ دور بین اقبال کے افکار‬
‫قائداعظم کی جدوجہد اور دوسرے اکابرین کا ایثار شامل ہے‬
‫اے میرے وطن ! بیشک آزادی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر‬
‫کرو یہ وطن تمہارے بزرگوں نے بہت مصیبتوں اور مشکالت‬
‫سے حاصل کیا ہے ۔ جب تک کوئی قوم وابستگی سے نجات‬
‫حاصل نہ کرے ‪ ،‬غالمی اور استعمار کے چنگل سے آزاد ہو اس‬
‫کی صالحتیں استعداد اور کمال ظاہر نہیں ہوسکتا اور وہ اللہ‬
‫کی راہ میں قدم نہیں رکھ سکتی وہ راہ کہ شرک ‪ ،‬ظلم اور‬
‫بیدار کے خالف قیام کا راستہ ہے ‪ -‬اسی بناء پر عظیم الہی‬
‫رہبروں کا پہال کا یہی تھا کہ وہ قوموں کو فکری ثقافتی ‪،‬‬
‫سیاسی اور اقتصادی غالمی سے آزاد کروائیں اور اس کے‬
‫بعدکوئی اور کامکریں اور توحید و انسانیت کے پروگراموں کو‬
‫عملی شکل دیں۔‬

‫مہنگائی کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے‬

‫پاکستان میں مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہوا ہے اس کی‬


‫جانب خود حکومتی اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں۔ حکومتی‬
‫اعداد و شمار کے مطابق ‪ 30‬جون ‪ 2022‬کو ختم ہونے والے‬
‫مالی سال مہنگائی کی شرح ‪ 21‬فیصد سے تجاوز کر گئی تھی‬
‫جو ماہرین کے مطابق ابھی مزید بڑھے گی۔ میں اضافہ بھی ہے‬
‫جس شدت سے اس اضافے کی وجہ پیٹرول و ڈیزل کی‬
‫قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ڈالر کی قیمت میں شامل کا‬
‫منفی اثر آنے والے دنوں میں محسوس ہو گا کیونکہ پاکستان‬
‫توانائی اور غذائی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا‬
‫ہے جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔‬
‫مہنگائی سے متاثرہ لوگوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے‬
‫دور میں بھی مہنگائی نے انھیں پریشان کیا لیکن گذشتہ دو‬
‫تین مہینوں سے مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔‬
‫پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی‬
‫نیوز کو بتایا کہ مہنگائی کی ایک وجہ وہ عالمی حاالت ہیں‬
‫جن میں دنیا بھر میں تیل‪ ،‬گیس اور اجناس کی قیمتوں میں‬
‫اضافہ ہوا‪ .‬انھوں نے کہا کہ 'موجودہ حکومت بھی قصور وار‬
‫ہے۔‬

‫مہنگائی سے نمٹنے کےطریقے‬

‫منصوبہ بندی کیجیے مہنگائی دراصل طلب اور رسد میں ‪-‬‬
‫عدم توازن کا نتیجہ ہوتی ہے‪ ،‬جسے قابو کرنے کا ایک انتہائی‬
‫اہم حل منصوبہ بندی کرنا ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی‬
‫ہی غیرضروری خریداری اور وقت اور پیسے کے ضیاع کو جنم‬
‫دیتی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے بعد ضروری ہوگیا ہےکہ‬
‫زندگی کو ایک ترتیب کے ساتھ سوچ سمجھ کر گزارا جائے‪،‬‬
‫ورنہ عین ممکن ہے کہ گھریلو بجٹ بے قابو ہوجائے۔ لہذا اب‬
‫جو بھی کام کرنے کا ارادہ ہو‪ ،‬چاہے کسی جگہ سفر کرنا ہو‪،‬‬
‫خریداری کرنی ہو‪ ،‬اسے ایک ڈائری میں نوٹ کیاجائے۔ اس‬
‫منصوبہ بندی کی بدولت گاڑی بار بار گھر سے نکالنے کی‬
‫ضرورت نہیں پڑے گی اور ایک ہی مرتبہ میں زیادہ سے زیادہ‬
‫کام ہوسکیں گے۔‬

‫اخراجات کا جائزہ لیں‬

‫کہتے ہیں کہ مہنگائی آپ کو کتنا متاثر کرتی ہے‪ ،‬اس کا‬


‫دارومدار آپ کے پیسے خرچ کرنے کی عادات پر ہے‪ ،‬لہذا‬
‫ضروری ہے کہ پہلے اپنے اخراجات کا جائزہ لیا جائے کہ آپ کی‬
‫عادات کیا ہیں اور آپ کہاں کہاں پیسے خرچ کرتے ہیں؟‬

‫اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ آیا جن چیزوں پر آپ پیسے‬


‫خرچ کرتے ہیں‪ ،‬ان کی آپ کو واقعی ضرورت ہے یا آپ عادتًا‬

‫ذخیرہ اندوزی کرتے رہتے ہیں‬

‫مہنگائی سے نمٹنے کےطریقے‬

‫کچھ ایسی تجاویز جو آپ کو مہنگائی کی تالطم خیز موجوں‬


‫سے بحفاظت اور باآسانی گزار کر کنارے لگا سکتی ہیں۔‬
‫پاکستان میں رواں ہفتے پیٹرول کی قیمتوں میں ‪ 60‬روپے کے‬
‫اضافے نے غریب اور متوسط طبقے کے ساتھ ساتھ متمول‬
‫طبقے میں بھی تشویش کو جنم دیا ہے کیونکہ پیٹرول اور ڈالر‬
‫کی قیمتیں بڑھنے سے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں‬
‫بھی اضافہ ہوا ہے۔اس صورت حال کے حوالے سے سوشل‬
‫میڈیا پر آج کل یہ بحث مباحثے بھی ہورہے ہیں کہ ایک ایسا‬
‫وقت آنے واال ہے جب ’سروائیول آف دی فٹسٹ‘ ہوگا‪ ،‬یعنی بقا‬
‫اس کی ہی ہوگی جو حاالت کے لیے سب سے زیادہ موزوں‬
‫ہوگا۔ تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر‬
‫حاالت کا تماشہ دیکھا جائے‪ ،‬سرپیٹا جائے یا پھر حکومت کی‬
‫کسی نئی حکمت عملی کا انتظار کیا جائے۔ ہم سب کو فورًا‬
‫سے پیشتر خود ایک ایسا الئحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت‬
‫ہے جو مہنگائی سے نمٹنے میں معاون ثابت ہو۔۔‬

‫مہنگائی میں اضافے کے بعد ضروری ہوگیا ہےکہ زندگی کو ایک‬


‫ترتیب کے ساتھ سوچ سمجھ کر گزارا جائے‪ ،‬ورنہ عین ممکن‬
‫ہے کہ گھریلو بجٹ بے قابو ہوجائے۔‬

‫لہذا اب جو بھی کام کرنے کا ارادہ ہو‪ ،‬چاہے کسی جگہ سفر‬
‫کرنا ہو‪ ،‬خریداری کرنی ہو‪ ،‬اسے ایک ڈائری میں نوٹ کیاجائے۔‬
‫اس منصوبہ بندی کی بدولت گاڑی بار بار گھر سے نکالنے کی‬
‫ضرورت نہیں پڑے گی اور ایک ہی مرتبہ میں زیادہ سے زیادہ‬
‫کام ہوسکیں گے۔اسی طرح بازار جانے سے قبل اشیا کی‬
‫فہرست بنانے سے جہاں غیر ضروری خریداری سے بچاجاسکتا‬
‫ہے‪ ،‬وہیں ڈائری کے نوٹس آنے والے دنوں میں کسی سفر کی‬
‫تاریخ یاد دالنے میں مدد دیں گے اور آپ غیر ضروری سبزی‬
‫اور پھل خریدنے سے بچ جائیں گے۔‬

‫۔ اس کے ساتھ حکومت کو بھی چاہئیے کہ عام مزدورں کی‬


‫مزدوری بڑھائی جاۓ تاکہ غریب اور متوسط طبقہ بھی اپنی‬
‫ضروریات زندگی کی اشیاء باَا سانی خرید سکے۔ روزگار کے‬
‫مواقع فراہم کیۓ جائیں تاکہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کا جو‬
‫ایک بڑا طبقہ بے روزگار ہے وہ کام کر کے اپنی ترقی اور ملک‬
‫کی خوشحالی کا ذریعہ بن سکیں اور ہمارا ملک ترقی کی راہ‬
‫پر گامزن ہو سکے‬

‫تعلیم کا مفہوم اور اسکے مقاصد بیان کریں‬

‫معلومات کے وسیع ذخیرے کو علم نہیں کہا جا سکتا۔ ایسا‬


‫فرد جس کے پاس معلومات تو بہت زیادہ ہوں لیکن وہ فکری و‬
‫ثقافتی بحران کا شکار ہو‪ ،‬معاشرے کے لئے بے کار ثابت ہوتا‬
‫ہے۔ لوگوں کو تعلیم دینے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے که‬
‫افراد کو کسی خاص شعبے میں مہارت دالنے کے ساتھ ساتھ‬
‫ان کی ذہنی اور فکری نشوونما بھی کی جائے۔ ہمیں یہ بات یاد‬
‫رکھنی چاہیے کہ اصل ترقی فرد کی فکری ترقی ہوتی ہے۔‬
‫تعلیم کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ‬
‫انسان کو ذہنی وسعت دیتی ہے۔ اسے غوروفکر کرنے اور تجربے‬
‫کے ذریعے سچائی تک پہنچنے کے قابل بناتی ہے۔ جہاں تک فرد‬
‫کی تربیت کا تعلق ہے تو اس میں ماں اور گھر کے ماحول کا‬
‫کردار مرکزی نوعیت کا ہامل ہے‬

‫ابتدائے بچپن میں کی گئی تربیت اور فراہم کیا گیا ماحول‬
‫انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اگر کوئی لڑکی یا‬
‫لڑکا اپنے لڑکپن میں کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتے یا ان‬
‫میں قائدانہ صالحیتوں کی کمی ہو تو اس بات کا امکان کافی‬
‫کم ہوتا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں کوئی نمایاں کارکردگی‬
‫دکھا پائیں گے۔ گو کہ شخصیت کے نظریات میں اس بات پہ‬
‫اختالف پایا جاتا ہے لیکن تجربات اور حقائق اس نقطے کی‬
‫تائید کرتے ہیں کہ انسان کی نشوونما میں ماحول کے اثرات‬
‫کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس انداز میں ہم تعلیم دیتے‬
‫ہیں اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ سوائے جامد نظریات کے‬
‫اور ے نہیں دیتی ۔ ایسی تعلیم نقصان وہ ہی نہیں ے کار بھی‬
‫ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے اور قدرے کم تعلیم یافتہ افراد‬
‫کے رویوں اور نظریات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ تاریخ‬
‫میں جتنے بھی فکری انقالب آئے ہیں ان سب میں قدر مشترک‬
‫یہ ہے کہ ان سب نے جامد نظریات کو چیلنج کیا اور انہیں رد‬
‫کیا۔ لوگوں کو تعلیم دینے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ‬
‫افراد کو کسی خاص شعبے میں مہارت دالنے کے ساتھ ساتھ‬
‫ان کی ذہنی اور فکری نشوونما بھی کی جائے۔ ہمیں یہ بات یاد‬
‫رکھنی چاہیے کہ اصل ترقی فرد کی فکری ترقی ہوتی ہے۔‬
‫تعلیم کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ‬
‫انسان کو ذہنی وسعت دیتی ہے۔ ماہرین کی اکثریت یہ رائے‬
‫دیتی ہے کہ بچوں کو زیادہ مضامین نہیں پڑھانے چاہیں۔ تھوڑا‬
‫پڑھائیں لیکن جو پڑھائیں اسے اس انداز سے پڑھائیں کہ وہ‬
‫چیزیں بچے کے تصورات کو واضح کریں اور اسے سوچنے کی‬
‫صحیح سمت کا شعور دیں۔ تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ‬
‫بچوں کو سائنسی رویہ اپنانے کی تربیت دی جائے۔سائنس‬
‫ہمیشہ امکانات کھلے رکھتی ہے۔ سائنس میں ہمیشہ نئے نظریے‬
‫اور نئے آنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ سائنس میں چیزیں‬
‫تجربے کی مدد سے ثابت کی جاتی ہیں۔ سائنسی قوانین کو‬
‫کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔‬
‫سائنس میں ایسے دعوے نہیں کیے جاتے جنہیں منطق یا‬
‫تجربے کی مدد سے ثابت نہ کیا جا سکے۔ تعلیم کا ایک مقصد‬
‫یہ بھی ہے کہ یہ فرد کو ایک طرز فکر عطا کرتی ہے۔ ایک‬
‫سلیقہ سکھاتی ہے۔ ایک انداز سکھاتی ہے۔صحیح تعلیم‬
‫تکثیریت اور تنوع کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ تعلیم انسان کے‬
‫روئے کو متوازن بناتی ہے۔ یہ انسان کے ذہن کو وسیع کرتی ہے‬

‫تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ فرد کو ایک طرز فکر عطا‬


‫کرتی ہے۔ ایک سلیقہ سکھاتی ہے۔ ایک انداز سکھاتی ہے۔‬
‫صحیح تعلیم تکثیریت اور تنوع کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔‬
‫تعلیم انسان کے روئے کو متوازن بناتی ہے ۔ یہ انسان کے ذہن‬
‫کو وسیع کرتی ہے اور اسے تعصبات سے باہر نکالتی ہے۔ تعلیم‬
‫انسان کو عملی زندگی سے جوڑتی ہے۔ اور اگر تعلیم ایسا نہیں‬
‫کر رہی تو وہ تعلیم نہیں بلکہ 'انڈاکٹرینیشن‘ ہے۔‬

‫جنگالت کے فوائد و اہمیت‬


‫جنگالت انسانوں کے لیے پھل اور جانوروں کے لیے چارہ مہیا‬
‫کرتے ہیں۔ جنگالت نہ صرف انسانوں کو خوراک بلکہ نوکریوں‬
‫کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ درخت سیم اور تھور کو روکنے‬
‫کا بہترین ذریعہ اور ان کی وجہ سے زمین میں زرخیزی کا‬
‫اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جنگل زمین کے ایسے قطعہ کو کہا جاتا ہے‬
‫جس پر بڑی تعداد میں درخت ہوں۔جانوروں کی کئی اقسام‬
‫کو جنگل کی اپنی بقا اور زندگی کے لئے اشد ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫دنیا میں تقریبًا ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ان کی ماحولیاتی‬
‫اہمیت کے سبب نہایت قدر سے دیکھے جاتے ہیں۔اگرچہ ان کی‬
‫ماحولیاتی اہمیت اور حیواناتی زندگی کے ساتھ اہم ربط ہے‬
‫مگر پھر بھی دنیا بھر میں جنگالت کے کٹاؤ کا عمل جاری ہے۔‬
‫اس کی بڑی وجہ دنیا میں بڑھتی ہوئی انسانی آبادی ہے جس‬
‫کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جنگالت کا یہ دریغ کٹاؤ‬
‫کیاجارہاہے۔جنگالت کے کٹاؤ کی وجہ سے نہ صرف ماحول بلکہ‬
‫انسان اور دوسرے جانوروں کی حیاتیاتی تنوع پر برے اثرات‬
‫مرتب ہو رہے ہیں۔عام طور پر جنگالت اوسط میں درجہ‬
‫حرارت ‪ 3‬سے‪ 5‬ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اور کم سے کم‬
‫درجہ حرارت ‪ 6‬سے ‪ 10‬ڈگری سنٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ لیکن‬
‫دنیا میں کئی جگہوں پر جنگالت میں درجہ حرارت ‪ 20‬سے‬
‫‪ 27‬ڈگری سنٹی گریڈ بھی ماپا جا چکا ہے۔ جنگالت میں‬
‫دوسرے قطعات زمین کی نسبت بارش زیادہ برستی ہے اور‬
‫یہاں پر درجہ حرارت نسبتًا کم ہوتا ہے۔ یہی بارش جنگالت‬
‫میں نباتاتی تنوع اور درخت جانوروں کی رہائش اور خوراک‬
‫کا ذریعہ ہوتے ہیں۔‬

‫فوائد اور اہمیت‬

‫جنگالت کسی بھی ملک کی معیشت کا الزمی جز ہیں۔ملک کی‬


‫متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پچیس فیصد‬
‫رقبے پر جنگالت ہوں۔ جنگالت قدرتی وسائل کا بڑا ذخیرہ‬
‫ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صرف ‪ 4.5‬فیصد رقبے پر جنگالت‬
‫پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں جنگالت کا رقبہ اس لیے بھی‬
‫کم ہورہا ہے کہ یہاں پر جنگالت کو بے رحمانہ طریقے سے کاٹا‬
‫جا رہا ہے۔مکانات کی تعمیر کے لئے جنگالت کی زمین کو‬
‫استعمال کیا جا رہا ہے‬

‫اور پھر ہر سال دریا بھی کٹاؤ کا کام کر رہے ہیں۔ اس لیے‬
‫ضروری ہے کہ جنگالت کے اگانے کے لیے مزید زمین مختص کی‬
‫جائے اور درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جائے۔‬

‫جنگالت کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔‬

‫۔ جنگالت ملک کے اہم وسائل میں سے ایک ہیں اور یہ اس ملک‬


‫کی عمارتی لکڑی اور جڑی بوٹیوں کی ضروریات کو پورا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫جنگالت درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھتے ہیں اور اطراف کے‬
‫موسم کو خاص طور پر خوشگوار بناتے ہیں۔‬

‫۔ جنگالت زمین کی زرخیزی قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں‬

‫جنگالت سے حاصل شدہ جڑی بوٹیاں ادویات میں استعمال‬


‫ہوتی ہیں۔‬

‫۔ جنگالت جنگلی حیات کا ذریعہ اور سبب ہیں۔ بے شمار‬


‫جنگلی جانور یعنی شیر‪ ،‬چیتا اور ہرن وغیرہ جنگالت میں ہی‬
‫پائے جاتے ہیں۔‬

‫جنگالت جالئی جانے والی لکڑی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہیں۔‬

‫۔ جنگالت زمین کے حسن و دلفریبی میں اضافہ کرتے ہیں‬

‫۔ جنگالت بہت سے وسائل کا ذریعہ اور ماخذ ہیں۔ مثًال‬


‫جنگالت سے حاصل کردہ لکڑی فرنیچر‪ ،‬کاغذ‪ ،‬ماچس اور‬
‫کھیلوں کا سامان تیار کرنے میں استعمال ہوتی ہیں۔‬

‫۔ جنگالت پہاڑوں پر جمی ہوئی برف کو تیزی سے پگھلنے سے‬


‫روکتے ہیں اور زمین کے کٹاؤ پر بھی قابو رکھتے ہیں۔‬
‫۔ جنگالت انسانوں اور قدرتی نباتات کو تیز رفتار آندھی اور‬
‫طوفان کی تباہی اور بربادی سے محفوظ رکھنے میں مدد کرتے‬
‫ہیں‬

‫۔ بھیڑ‪ ،‬بکری‪ ،‬اونٹ جیسے حیوانات اپنی غذا انہی جنگالت‬


‫سے حاصل کرتے ہیں۔‬

‫۔ جنگالت تفریحی مقامات کے کام آتے ہیں اور لوگ ان کے‬


‫خوبصورت اور حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔‬

‫۔ جنگالت مختلف اقسام کے جانوروں اور پرندوں کی افزائش‬


‫اور نشونما کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے عالوہ بھی جنگالت کے‬
‫بہت سے فائدے ہیں۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ قدرت کی اس‬
‫عظیم نعمت کا شکر ادا کریں اور ماحول کو حسین اور صاف‬
‫و شفاف رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیڑ پودے لگائیں۔‬

‫پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتحال‬

‫ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے مجموعی‬


‫حقوق میں بہتری آئی ہے‪ ،‬اس کی وجہ خواتین کی تعلیم اور‬
‫خواندہ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اضافہ ہے تاہم‪،‬‬
‫پاکستان میں خواتین کو طبقاتی معاشرے کے نتیجے میں‬
‫امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم‪ ،‬پاکستان میں‬
‫خواتین کو طبقاتی معاشرے کے نتیجے میں امتیازی سلوک کا‬
‫سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کو درپیش کچھ‬
‫پریشانیوں میں گھریلو تشدد‪ ،‬غیرت کے نام پر قتل‪ ،‬عصمت‬
‫دری اور اغوا‪ ،‬ازدواجی عصمت دری‪ ،‬جبری شادی اور اسقاط‬
‫حمل ہیں۔‬

‫ایک سروے میں پاکستان کو خواتین کے لیے چھٹا خطرناک‬


‫ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے‬
‫قوانین کی موجودگی ناگزیر ہے۔ اگرچہ پاکستانی آئین میں‬
‫خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ان‬
‫قوانین کی تشریحات اور عملدرآمد کے مسائل کی وجہ سے‬
‫خواتین کو مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ اغوا‪ ،‬ریپ‪ ،‬ہراسانی‪ ،‬کم‬
‫عمری میں شادی‪ ،‬جائیداد میں حق نہ دینا اور لڑکیوں کو‬
‫تعلیم سے محروم رکھنا آج بھی ہمارے معاشرے کے اہم المیے‬
‫ہیں۔‬

‫پاکستان کے آئین اور پینل کوڈ کے مطابق تعلیم حاصل کرنا‬


‫بچے کا آئینی اور بنیادی حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ دیکھا‬
‫گیا ہے کہ عام طور پر والدین اپنی بچیوں کو تعلیم سے‬
‫محروم رکھتے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی آئین میں خواتین کے‬
‫حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لیکن ان قوانین کی‬
‫تشریحات اور عملدرآمد کے مسائل کی وجہ سے خواتین کو‬
‫مسائل کا سامنا رہتا ہے۔اغوا‪ ،‬ریپ‪ ،‬ہراسانی‪ ،‬کم عمری میں‬
‫شادی‪ ،‬جائیداد میں حق نہ دینا اور لڑکیوں کو تعلیم سے‬
‫محروم رکھنا آج بھی ہمارے معاشرے کے اہم المیے ہیں۔‬

‫پاکستان میں اگر لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کا موازنہ کیا‬


‫جائے تو ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق تقریبًا ‪22.5‬‬
‫ملین بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں‪ ،‬جن میں خاص طور پر‬
‫لڑکیاں متاثر ہیں۔ ‪ 32‬فیصد پرائمری سکول جانے والی عمر کی‬
‫لڑکیاں سکول نہیں جاتیں جبکہ ‪ 21‬فیصد اسی عمر کے لڑکے‬
‫بھی سکول نہیں جاتے۔‬

‫کم عمری میں ازدواجیت یا زبردستی کی شادی‬

‫چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں ایک بہت عام رواج ہے۔‬
‫خاص طور پر دیہی عالقوں میں یہ شادیاں مختلف مقاصد کے‬
‫تحت کی جاتی ہیں۔ جس میں جائیداد کی حصولی‪،‬‬
‫اوالد‪،‬زمیندارانہ نظام‪ ،‬اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔بہت بار یہ‬
‫شادیاں چھوٹی بچیوں کو اغوا کر کے بھی کی جاتی ہیں۔‬

‫جائیداد میں خواتین کا حق‬

‫پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اکثر جائیداد سے بے دخل‬


‫کردیا جاتا ہے اور ان کو ان کا شرعی اور قانونی حق نہیں دیا‬
‫جاتا۔ لیکن پاکستان کا آئین اس بارے میں بالکل واضح طور‬
‫پر عورتوں کو ان کا جائیداد میں حق دیتا ہے۔‬

‫اسالم کی آمد عورت کے لیے غالمی‪ ،‬ذلت اور ظلم و‬


‫استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسالم نے ان‬
‫تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار‬
‫کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ‬
‫معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس‬
‫کے مستحق مرد ہیں‬

‫اسالم میں خواتین کے حقوق‬

‫۔ اللہ تعالٰی نے تخلیق کے درجے میں عورت کو مرد کے ساتھ‬


‫ایک ہی مرتبہ میں رکھاہے‪ ،‬اسی طرح انسانیت کی تکوین میں‬
‫عورت مرد کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں ہے‪ ،‬ارشاِد باری تعالٰی‬
‫ہے ‪’’:‬اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو‪ ،‬جس نے تمہیں ایک جان سے‬
‫پیدا فرمایا پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔ پھر ان‬
‫دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو‬
‫‘‘پھیال دیا۔‬

‫۔ اللہ تعالٰی کے ہاں اجر کا استحقاق مرد اور عورت دونوں کے‬
‫لیے برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی‬
‫عمل کرے گا‪ ،‬اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشاِد ربانی‬
‫‪ :‬ہے‬

‫ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کرلیا (اور فرمایا) کہ میں’’‬


‫تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں‬
‫گا‪ ،‬چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی‬
‫ہو۔‬

‫۔ اسالم عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ‬


‫اسے روٹی‪ ،‬کپڑا‪ ،‬مکان‪ ،‬تعلیم اور عالج کی سہولت ’’ولی‬
‫االمر‘‘ کی طرف سے ملے گی۔‬

‫عصمت و عفت کا حق‬

‫معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے‬


‫اس کے حق عصمت کا تحفظ ضروری ہے۔اسالم نے عورت کو‬
‫حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس‬
‫‪ :‬کے حق عصمت کی حفاظت کریں‬

‫عزت اور رازداری کا حق‬

‫معاشرے میں عورتوں کی عزت اور عفت و عصمت کی‬


‫حفاظت ان کے رازداری کے حق کی ضمانت میں ہی مضمر ہے۔‬
‫حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو‬
‫رازداری کا حق عطا فرمایا اور دیگر افراد معاشرے کو اس‬
‫حق کے احترام کا پابند کیا‬

‫حسِن سلوک کا حق‬

‫حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے‬
‫حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معامالت میں‬
‫عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک‬
‫کی تلقین فرمائی‬

‫حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ‬


‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬عورت پسلی کی مانند ہے‬
‫اگر اسے سیدھا کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اگر اسی طرح اس‬
‫کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہو تو فائدہ اٹھا سکتے ہو ورنہ اس‬
‫کے اندر ٹیڑھا پن موجود ہے۔‬

‫ملکیت اور جائیداد کا حق‬

‫اسالم نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا‬


‫کیا۔ وہ نہ صرف خود کماسکتی ہے بلکہ وراثت کے تحت حاصل‬
‫ہونے والی امالک کی مالک بھی بن سکتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے‬

‫مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا‪ ،‬اور‬


‫‪.‬عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا‬
‫۔ لڑکے اور لڑکیوں کا ایک ساتھ تعلیم حاصل‬
‫کرنا‪،‬مخلوط تعلیم اور اس کے نقصانات‬

‫اسالم دین علم ومعرفت ہے‪ ،‬جو قدم قدم پر حضرت انسان کو‬
‫تعلیم کو تلقین کرتا ہے‪ ،‬حضرت آدم علیہ السالم کو اللہ تعالٰی‬
‫نے علم االسماء سے سرفراز فرماکر انہیں مسجود مالئکہ بنایا‪،‬‬
‫اسالم جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کو ضروری قرار دیتاہے‪،‬‬
‫اسی طرح تعلیم نسواں کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے‪،‬‬
‫چنانچہ بقدر ضرورت علم سیکھنا مردوعورت دونوں پر فرض‬
‫کیا گیاہے‪ ،‬نبی رحمت ﷺ نے خواتین کی تعلیم کی ترغیب‬
‫دیتے ہوئے فرمایا‪ :‬اگر کسی کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ‬
‫اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرے‪ ،‬اور اسے اچھی تہذیب‬
‫سکھائے‪ ،‬پھر اسے آزاد کرے‪ ،‬اور اس کی شادی کردے تو اس‬
‫کے لیے دہرا اجرہے۔‬

‫اسالم اور مخلوط تعلیم‬

‫اسالم میں تعلیم نسواں سے روکا نہیں گیا‪،‬البتہاسالم تعلیم‬


‫کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جو صنف نازک کو اس کی‬
‫نسوانیت سے محروم کرکے حیا باختہ اور آوارہ بنادے‪ ،‬اسالم‬
‫مرد وزن کے بے حجابانہ اختالط کو انسانی معاشرہ کے لیے‬
‫تباہ کن قرار دیتا ہے‪ ،‬سے شرم وحیاء کا جنازہ نکلتا ہے‪ ،‬بدکاری‬
‫اور بے حیائی کی راہ ہموار ہوتی ہے‪ ،‬اسالم مردوخواتین کو‬
‫تاکید کرتا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں‪ ،‬چنانچہ‬
‫سورہ نور میں مردو خواتین میں سے ہر ایک کو الگ الگ‬
‫خطاب کرکے نگاہیں نیچے رکھنے کی تاکید کی گئی‪ ،‬نیز سورۃ‬
‫االحزاب میں خواتین کو حجاب کی تاکید کی گئی اور بے پردہ‬
‫بن سنور کر باہر نکلنے سے منع کیا گیا‪ ،‬اسالم عفت وپاکدامنی‬
‫حفظ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور ہر اس طرز عمل پر روک‬
‫لگاتا ہے جس سے انسانی معاشرے میں بے حیائی در آتی ہو‪،‬‬
‫اس لیے اسالم نہ صرف مخلوط نظام تعلیم کا قائل نہیں ہے‬
‫بلکہ اسے انسانی معاشرہ کے لیے سم قاتل قرار دیتا ہے۔‬
‫مخلوط نظام تعلیم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے یہ دور‬
‫حاضر کے اہل مغرب کی ایجاد ہے‪،‬دنیا کی قدیم تہذیبوں کے‬
‫حامل ترقی یافتہ قوموں میں بھی مخلوط تعلیم کا رواج‬
‫نہیں ملتا‪ ،‬تاریخ کے ہر دور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ‬
‫‪،‬نظام تعلیم رائج تھا‬

‫مخلوط تعلیم کا آغاز مساوات مرد وزن کے پر فریب نعرے سے‬


‫ہوا‪ ،‬اللہ تعالٰی نے تخلیقی طور پر عورتوں اور مردوں کے‬
‫درمیان صالحیتوں کے اعتبار سے فرق رکھا ہے‪ ،‬جس کا تقاضہ‬
‫یہ ہے کہ دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہو ‪،‬لیکن صنعتی انقالب‬
‫کے بعد جب سرمایہ داروں کے لیے زیادہ سے زیادہ عملہ کی‬
‫ضرورت ہوئی تو کم از کم معاوضہ میں زیادہ کام کروانے کے‬
‫لیے خواتین کو آزادئ نسواں کے پر فریب دام میں پھانس کر‬
‫انھیں مردوں کے شانہ بشانہ ال کھڑا کیا گیا‪،‬انسانی معاشرے‬
‫میں جب مردوخواتین میں سے ہر ایک کا دائرہ کار الگ الگ ہے‬
‫اور دونوں کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں تو دونوں کا نظام‬
‫تعلیم بھی علیحدہ ہونا چاہیے۔ مخلوط تعلیم کے تباہ کن اثرات‬
‫کا مشاہدہ کرنا موجودہ معاشرے کا جائزہ لیجئے‪ ،‬کالجوں اور‬
‫یونیورسٹیوں کے حوالے سے شائع ہونے والی خبریں پڑھئے‪،‬‬
‫شاید ہی کسی دن کے اخبارات ایسی خبروں سے خالی رہتے‬
‫ہوں جن میں مخلوط نظام تعلیم کے کسی برے اثر کا تذکرہ نہ‬
‫رہتا ہو۔‬

‫اخالقی بگاڑ کا فروغ مخلوط تعلیم کا سب سے برا اثر نئی‬


‫نسل کے اخالق پر پڑرہا ہے‪،‬کو ایجوکیشن کے رواج نے بچوں‬
‫کے اخالق کی مٹی پلید کردی ہے‪ ،‬شرم وحیاء جو انسان کا‬
‫سب سے قیمتی زیور ہے رخصت ہوتا جارہا ہے‪ ،‬قریب البلوغ‬
‫زمانہ جذبات میں ہیجان کا دور ہوتا ہے اس عرصہ میں نوخیز‬
‫اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ساتھ مل بیٹھنا‪ .‬پھر لڑکیوں‬
‫کا مختصرلباس میں بن سنور کر آنا جلتی پر تیل کا کام کرتا‬
‫ہے‪ ،‬کسی نے بجا کہا کہ آج آزادانہ اختالط اس حد کو پہونچ‬
‫چکا ہے کہ تعلیم وتحقیق کے راستے سے شیطانیت رقص‬
‫کررہی ہے‪ ،‬خاندانی نظام کی تباہی کسی بھی خاندان کی‬
‫تشکیل میں عورت کا کلیدی رول ہوتا ہے‪،‬عورت اگر خاتون‬
‫خانہ بن کر اپنی گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہے تو خاندان‬
‫کوغیر معمولی استحکام حاصل ہوتا ہے‪ ،‬عورت ‪،‬بیوی‪ ،‬ماں اور‬
‫بیٹی کی حیثیت سے گھر کی زینت ہے‪ ،‬لیکن مخلوط نظام‬
‫تعلیم نے اس کو اس کے دائرہ کار سے نکال کر مردوں کے شانہ‬
‫بشانہ معاشی دوڑ میں شامل کردیا ‪ ،‬جس سے بتدریج عورت‪،‬‬
‫بچوں کی تربیت اور گھریلو امور کی انجام دہی کو اپنے لیے‬
‫بوجھ سمجھنے لگی‪ ،‬صنف نازک کے اس رجحان نے خاندانی‬
‫بنیادوں کو کھوکھال کرکے رکھ دیا‪ ،‬عالوہ ازیں مخلوط تعلیم‬
‫کے نتیجہ میں شادی کی بندھنوں سے آزاد رہ کر شہوت رانی‬
‫کی جو راہ نکالی جارہی ہے اس نے تو انسانی وجود ہی پر‬
‫سوالیہ نشان لگادیا‪ ،‬جیسا کہ سطور باال میں اشارہ کیا گیا‬
‫مغربی ملکوں میں بغیر شادی کے جوڑوں میں بے تحاشہ‬
‫اضافہ ہورہا ہے‪ ،‬مانع حمل دواؤں کا کثرت سے استعمال‬
‫اسقاط حمل‪ ،‬نیز حرام اوالد کی والدت پر انھیں کوڑے دان‬
‫کی نذر کرنا‪،‬دوران تعلیم مختلف جوانوں کے ساتھ مٹرگشتی‬
‫کرنے والی لڑکیاں جب ازدواجی بندھن میں بندھ جاتی ہیں تو‬
‫انھیں کسی صورت تسکین ملتی نظر نہیں آتی باآلخر خلع کا‬
‫راستہ اپناتی ہیں یا پھر شوہر طالق دے دیتا ہے‪ ،‬مغربی‬
‫معاشروں میں طالق کے واقعات اپنی آخری حدوں کو چھور‬
‫‪،‬ہے ہیں‬
‫گلوبل وارمنگ کا خطرہ اور اس سے نمٹنے کے طریقے‬

‫ہمارے ماحول میں کچھ ایسی گیز پائی جاتی ہیں جو نیم‬
‫مستقل لیکن دیر پارہستی میں یہ گیسز قدرت طور پر نہیں‬
‫بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوام کے نتیجے میں‬
‫ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں ۔ اس میں خاص طور پر‬
‫کارکن ڈائی اکسائیڈ‪ ،‬میتھین اور کلوروفلورو کاربن میں جن‬
‫کے آب و ہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا‬
‫ہے ۔ہوا میں ان گیسیز کے اضافے کی ذمہ داری بھی کافی حد‬
‫تک ہم انسانوں پر ہی آتی ہے ۔حیاتیاتی ایندھن کو جالنے'‬
‫درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقالب کا دور شروع ہوتے ہی‬
‫کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کاربن‬
‫ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بال روک ٹوک اضافہ ایسی‬
‫تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنہیں بدال نہیں جا سکتا ۔ اس کے‬
‫عالوہ اے سی ریفریجریٹر وغیرہ سے خارج ہونے والی گئیں‬
‫کلورو فلورو کاربن زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ‬
‫کرنے کا باعث بن رہی ہے جوکہ سورج سے نکلنے والی شعاعوں‬
‫کو اپنے اندر جذب کرنے کی صالحیت رکھتی ہے ۔گلوبل‬
‫وارمنگ کی ایک بڑی وجہ کاربن گیسوں کا بڑے پیمانے پر‬
‫اخراج ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسوں‪ ،‬جنہیں‬
‫گرین ہاؤس گیسیں بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬کا زیادہ تر حصہ کاربن‬
‫ڈائی اکسائیڈ اور میتھین پر مشتمل ہوتا ہے۔ ۔ اگر یہ معلوم کر‬
‫لیا جائے کہ فضا میں میتھین گیس کی مقدار کیا ہے تو ہماری‬
‫زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر نسبتًا کم وقت میں قابو‬
‫پایا جا سکتا ہے۔ ہم اپنی ترقی کے پہیئے کو حرکت دینے کے‬
‫لیے زیادہ تر معدنی ایندھن جالتے ہیں‪ ،‬جس میں کوئلہ‪ ،‬تیل‬
‫اور گیس شامل ہیں۔ معدنی ایندھن جلنے سے جہاں ایک طرف‬
‫توانائی حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف کاربن ڈائی اکسائیڈ‬
‫سمیت کاربن گیسوں کی بڑی مقدار بھی خارج ہوتی ہے۔درجہ‬
‫حرارت بڑھنے سے زمین کے قدرتی نظام میں خلل پڑتا ہے۔‬
‫پہاڑوں پر سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے۔ موسم شدید ہو‬
‫جاتے ہیں اور زندگی کے لیے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اگر‬
‫زمین مسلسل گرم ہوتی رہی تو وہ مقام آ سکتا ہے کہ وہ‬
‫حیات کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔زمین کے درجہ حرارت میں‬
‫اضافے کا ذمہ دار کافی حد تک انسان اور اس کی ایجادات ہی‬
‫میں ۔ گلوبل وارمنگ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور‬
‫بعض میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس کی وجہ‬
‫سے دنیا کے اکثر ممالک مینجس میں پاکستان بھی شامل ہے‬
‫ان میں موسم گرما میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔‬
‫قدرت نے ماحول اور آب و ہوا میں ایک توازن قائم کیا ہوا ہے‬
‫جب یہ توازن بگڑتا ہے تو کرہ ارض پر تباہی آجاتی ہے ۔ اس‬
‫زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس‬
‫توازن کو بر قرار رکھنے میں معاونت کریں ۔پاکستان کے‬
‫سلسلہ کوہ ہمالیہ مینگلیٹر کے پچھلنے سے پاکستان کے دریاؤں‬
‫میں پانی کی سطح میں اضافہ کا خطرہ ہے جس سے بارشوں‬
‫کے دوران ساحلی عالقوں میں سیالب آنے کا اندیشہ ہو سکتا‬
‫ہے اس کے عالوہ آب و ہوا میں ہونے والی تیزی سے تبدیلی کی‬
‫وجہ سے جنگالت میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچنے‬
‫کا خدشہ ہے ۔ گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان نام نقصانات‬
‫کی وجہ سے پاکستان میں خوراک اور توانائی کی خطرہ‬
‫درپیش ہے ۔ آب و ہوا میں ہونے والی اس تبدیلی سے خشک‬
‫سالی سیالب جیسی قدرت آفات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جن کو‬
‫روکا تو نہیں جا سکتا لیکن ان سے ہونے والے نقصانات سے‬
‫بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہے جن کا وقت‬
‫سے پہلے اپنانا بہت ضروری ہے۔‬

‫گلوبل وارمنگ سے بچا‪ ،‬مؤثر اقدامات ضروری۔‬

‫گلوبل وارمنگ(عالمی حرارت) کے اثرات سے اس وقت پوری‬


‫دنیا متاثر ہے‪ ،‬جس کے سبب ہر برس گرمی کی شدت میں‬
‫اضافہ ہوتا جارہا ہے؛لیکن صورت حال یہ ہے کہ پھر بھی‬
‫فطرت سے چھیڑچھاڑ کرنے اور اسے ختم کرنے کے واقعات‬
‫مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔درخت تیزی سے ختم ہوتے جارہے‬
‫ہیں۔ اس طرح تو شاید ہم چڑیا کی نسل کو بھی نابود کرنے پر‬
‫تلے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یونہی گلوبل وارمنگ‬
‫بڑھتی رہی اور گرمی میں اسی شدت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا‬
‫تو ہوسکتا ہے کہ ایک دن ایسا آجائے کہ سب کچھ جھلس کر‬
‫رہ جائے اور سورج کی تپش فطرت کی ساری رنگینیاں‪،‬‬
‫رعنائیاں اور معصوموں کی گل عذاریاں چھین لے۔ حکومتی‬
‫سطح پر اور نجی این جی اوز بھی مستقل بیداری مہم‬
‫چالئیں۔جگہ جگہ پروگرام منعقد کریں اور لوگوں کو گلوبل‬
‫وارمنگ کے نقصانات سے واقف کریں۔ توانائی اور بجلی کے‬
‫کثرت استعمال سے بچنے کی کوشش کریں۔ اپنی ضروریات کے‬
‫لیے شمسی توانائی کا استعمال کریں۔ گاڑیوں میں ایندھن کے‬
‫لیے سی این جی جیسی ہلکی توانائی والے ایندھن استعمال‬
‫کریں۔ اس سے گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کرنے میں‬
‫یقینًا مدد ملے گی… اور سب سے ضروری ہے اس کے لیے‬
‫شجرکاری۔پودے لگائیں اور درخت اگائیں۔ اس لیے کہ جیسا‬
‫کہ بتایا گیا یہ کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کرلیتے ہیں۔ ہیٹر اور‬
‫ایئرکنڈیشنوں کا استعمال بھی ضرورت کے مطابق اور کم سے‬
‫کم کیا جانا چاہیے۔ ٹیوب الئٹ اور بلب وغیرہ کو شمسی‬
‫توانائی سے چالیا جانا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ ان چیزوں‬
‫کے استعمال کے بغیر موجودہ تیزرفتار زمانے میں گزارہ نہیں‬
‫ہوسکتا‪ ،‬لیکن ان کا استعمال کم کرکے یک گونہ کم تو کیا‬
‫جاسکتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اکیال انسان کیا کرسکتا ہے‪ ،‬لیکن‬
‫فارسی کا مشہور مقولہ ہے ’قطرہ قطرہ دریا شود‘۔ اس طرح‬
‫ہر آدمی اپنی سی کوششیں کرے‪ ،‬یقینًا اس سے دوسروں کی‬
‫رہنمائی ہوگی اور گلوبل وارمنگ کے قدرتی وسائل پر پڑنے‬
‫والے اثرات کو کم کیا جاسکے گا۔‬

Apex Law Academy


#first step towards success

Contact us:03102737923

Apex law Academy is the best online


institute for Law Admission Test (Lat)
preparation, join us for best preparation
of law admission test and achieve
highest marks in lat test and secure your
future Also share with other Lat
Aspirants.

You might also like