Professional Documents
Culture Documents
Essay's, Apex Law Academy - Watermarked
Essay's, Apex Law Academy - Watermarked
Important Essay's
پاکستان کو درپیش سماجی و اقتصادی چیلنجز
منصوبہ بندی کیجیے مہنگائی دراصل طلب اور رسد میں -
عدم توازن کا نتیجہ ہوتی ہے ،جسے قابو کرنے کا ایک انتہائی
اہم حل منصوبہ بندی کرنا ہے کیونکہ اس کی عدم موجودگی
ہی غیرضروری خریداری اور وقت اور پیسے کے ضیاع کو جنم
دیتی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کے بعد ضروری ہوگیا ہےکہ
زندگی کو ایک ترتیب کے ساتھ سوچ سمجھ کر گزارا جائے،
ورنہ عین ممکن ہے کہ گھریلو بجٹ بے قابو ہوجائے۔ لہذا اب
جو بھی کام کرنے کا ارادہ ہو ،چاہے کسی جگہ سفر کرنا ہو،
خریداری کرنی ہو ،اسے ایک ڈائری میں نوٹ کیاجائے۔ اس
منصوبہ بندی کی بدولت گاڑی بار بار گھر سے نکالنے کی
ضرورت نہیں پڑے گی اور ایک ہی مرتبہ میں زیادہ سے زیادہ
کام ہوسکیں گے۔
لہذا اب جو بھی کام کرنے کا ارادہ ہو ،چاہے کسی جگہ سفر
کرنا ہو ،خریداری کرنی ہو ،اسے ایک ڈائری میں نوٹ کیاجائے۔
اس منصوبہ بندی کی بدولت گاڑی بار بار گھر سے نکالنے کی
ضرورت نہیں پڑے گی اور ایک ہی مرتبہ میں زیادہ سے زیادہ
کام ہوسکیں گے۔اسی طرح بازار جانے سے قبل اشیا کی
فہرست بنانے سے جہاں غیر ضروری خریداری سے بچاجاسکتا
ہے ،وہیں ڈائری کے نوٹس آنے والے دنوں میں کسی سفر کی
تاریخ یاد دالنے میں مدد دیں گے اور آپ غیر ضروری سبزی
اور پھل خریدنے سے بچ جائیں گے۔
ابتدائے بچپن میں کی گئی تربیت اور فراہم کیا گیا ماحول
انسان کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اگر کوئی لڑکی یا
لڑکا اپنے لڑکپن میں کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتے یا ان
میں قائدانہ صالحیتوں کی کمی ہو تو اس بات کا امکان کافی
کم ہوتا ہے کہ وہ آنے والے سالوں میں کوئی نمایاں کارکردگی
دکھا پائیں گے۔ گو کہ شخصیت کے نظریات میں اس بات پہ
اختالف پایا جاتا ہے لیکن تجربات اور حقائق اس نقطے کی
تائید کرتے ہیں کہ انسان کی نشوونما میں ماحول کے اثرات
کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس انداز میں ہم تعلیم دیتے
ہیں اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ سوائے جامد نظریات کے
اور ے نہیں دیتی ۔ ایسی تعلیم نقصان وہ ہی نہیں ے کار بھی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے اور قدرے کم تعلیم یافتہ افراد
کے رویوں اور نظریات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ تاریخ
میں جتنے بھی فکری انقالب آئے ہیں ان سب میں قدر مشترک
یہ ہے کہ ان سب نے جامد نظریات کو چیلنج کیا اور انہیں رد
کیا۔ لوگوں کو تعلیم دینے کا بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ
افراد کو کسی خاص شعبے میں مہارت دالنے کے ساتھ ساتھ
ان کی ذہنی اور فکری نشوونما بھی کی جائے۔ ہمیں یہ بات یاد
رکھنی چاہیے کہ اصل ترقی فرد کی فکری ترقی ہوتی ہے۔
تعلیم کے اہم مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہ
انسان کو ذہنی وسعت دیتی ہے۔ ماہرین کی اکثریت یہ رائے
دیتی ہے کہ بچوں کو زیادہ مضامین نہیں پڑھانے چاہیں۔ تھوڑا
پڑھائیں لیکن جو پڑھائیں اسے اس انداز سے پڑھائیں کہ وہ
چیزیں بچے کے تصورات کو واضح کریں اور اسے سوچنے کی
صحیح سمت کا شعور دیں۔ تعلیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ
بچوں کو سائنسی رویہ اپنانے کی تربیت دی جائے۔سائنس
ہمیشہ امکانات کھلے رکھتی ہے۔ سائنس میں ہمیشہ نئے نظریے
اور نئے آنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ سائنس میں چیزیں
تجربے کی مدد سے ثابت کی جاتی ہیں۔ سائنسی قوانین کو
کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ ثابت کیا جا سکتا ہے۔
سائنس میں ایسے دعوے نہیں کیے جاتے جنہیں منطق یا
تجربے کی مدد سے ثابت نہ کیا جا سکے۔ تعلیم کا ایک مقصد
یہ بھی ہے کہ یہ فرد کو ایک طرز فکر عطا کرتی ہے۔ ایک
سلیقہ سکھاتی ہے۔ ایک انداز سکھاتی ہے۔صحیح تعلیم
تکثیریت اور تنوع کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ تعلیم انسان کے
روئے کو متوازن بناتی ہے۔ یہ انسان کے ذہن کو وسیع کرتی ہے
اور پھر ہر سال دریا بھی کٹاؤ کا کام کر رہے ہیں۔ اس لیے
ضروری ہے کہ جنگالت کے اگانے کے لیے مزید زمین مختص کی
جائے اور درختوں کی غیر ضروری کٹائی کو بند کیا جائے۔
چھوٹی عمر میں بچیوں کی شادیاں ایک بہت عام رواج ہے۔
خاص طور پر دیہی عالقوں میں یہ شادیاں مختلف مقاصد کے
تحت کی جاتی ہیں۔ جس میں جائیداد کی حصولی،
اوالد،زمیندارانہ نظام ،اور دیگر وجوہات شامل ہیں۔بہت بار یہ
شادیاں چھوٹی بچیوں کو اغوا کر کے بھی کی جاتی ہیں۔
۔ اللہ تعالٰی کے ہاں اجر کا استحقاق مرد اور عورت دونوں کے
لیے برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی
عمل کرے گا ،اسے پوری اور برابر جزاء ملے گی۔ ارشاِد ربانی
:ہے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے
حسن سلوک کی تعلیم دی اور زندگی کے عام معامالت میں
عورتوں سے عفو و درگزر اور رافت و محبت پر مبنی سلوک
کی تلقین فرمائی
اسالم دین علم ومعرفت ہے ،جو قدم قدم پر حضرت انسان کو
تعلیم کو تلقین کرتا ہے ،حضرت آدم علیہ السالم کو اللہ تعالٰی
نے علم االسماء سے سرفراز فرماکر انہیں مسجود مالئکہ بنایا،
اسالم جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کو ضروری قرار دیتاہے،
اسی طرح تعلیم نسواں کی اہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے،
چنانچہ بقدر ضرورت علم سیکھنا مردوعورت دونوں پر فرض
کیا گیاہے ،نبی رحمت ﷺ نے خواتین کی تعلیم کی ترغیب
دیتے ہوئے فرمایا :اگر کسی کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ
اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرے ،اور اسے اچھی تہذیب
سکھائے ،پھر اسے آزاد کرے ،اور اس کی شادی کردے تو اس
کے لیے دہرا اجرہے۔
ہمارے ماحول میں کچھ ایسی گیز پائی جاتی ہیں جو نیم
مستقل لیکن دیر پارہستی میں یہ گیسز قدرت طور پر نہیں
بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوام کے نتیجے میں
ہماری آب و ہوا کا حصہ بنتی ہیں ۔ اس میں خاص طور پر
کارکن ڈائی اکسائیڈ ،میتھین اور کلوروفلورو کاربن میں جن
کے آب و ہوا میں شامل ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا
ہے ۔ہوا میں ان گیسیز کے اضافے کی ذمہ داری بھی کافی حد
تک ہم انسانوں پر ہی آتی ہے ۔حیاتیاتی ایندھن کو جالنے'
درختوں کی کٹائی اور صنعتی انقالب کا دور شروع ہوتے ہی
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کاربن
ڈائی آکسائیڈ کا ماحول میں بال روک ٹوک اضافہ ایسی
تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے جنہیں بدال نہیں جا سکتا ۔ اس کے
عالوہ اے سی ریفریجریٹر وغیرہ سے خارج ہونے والی گئیں
کلورو فلورو کاربن زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ
کرنے کا باعث بن رہی ہے جوکہ سورج سے نکلنے والی شعاعوں
کو اپنے اندر جذب کرنے کی صالحیت رکھتی ہے ۔گلوبل
وارمنگ کی ایک بڑی وجہ کاربن گیسوں کا بڑے پیمانے پر
اخراج ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کاربن گیسوں ،جنہیں
گرین ہاؤس گیسیں بھی کہا جاتا ہے ،کا زیادہ تر حصہ کاربن
ڈائی اکسائیڈ اور میتھین پر مشتمل ہوتا ہے۔ ۔ اگر یہ معلوم کر
لیا جائے کہ فضا میں میتھین گیس کی مقدار کیا ہے تو ہماری
زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر نسبتًا کم وقت میں قابو
پایا جا سکتا ہے۔ ہم اپنی ترقی کے پہیئے کو حرکت دینے کے
لیے زیادہ تر معدنی ایندھن جالتے ہیں ،جس میں کوئلہ ،تیل
اور گیس شامل ہیں۔ معدنی ایندھن جلنے سے جہاں ایک طرف
توانائی حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف کاربن ڈائی اکسائیڈ
سمیت کاربن گیسوں کی بڑی مقدار بھی خارج ہوتی ہے۔درجہ
حرارت بڑھنے سے زمین کے قدرتی نظام میں خلل پڑتا ہے۔
پہاڑوں پر سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے۔ موسم شدید ہو
جاتے ہیں اور زندگی کے لیے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اگر
زمین مسلسل گرم ہوتی رہی تو وہ مقام آ سکتا ہے کہ وہ
حیات کے رہنے کے قابل ہی نہ رہے۔زمین کے درجہ حرارت میں
اضافے کا ذمہ دار کافی حد تک انسان اور اس کی ایجادات ہی
میں ۔ گلوبل وارمنگ سے دنیا کے بعض حصوں میں خشکی اور
بعض میں نمی کی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس کی وجہ
سے دنیا کے اکثر ممالک مینجس میں پاکستان بھی شامل ہے
ان میں موسم گرما میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
قدرت نے ماحول اور آب و ہوا میں ایک توازن قائم کیا ہوا ہے
جب یہ توازن بگڑتا ہے تو کرہ ارض پر تباہی آجاتی ہے ۔ اس
زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس
توازن کو بر قرار رکھنے میں معاونت کریں ۔پاکستان کے
سلسلہ کوہ ہمالیہ مینگلیٹر کے پچھلنے سے پاکستان کے دریاؤں
میں پانی کی سطح میں اضافہ کا خطرہ ہے جس سے بارشوں
کے دوران ساحلی عالقوں میں سیالب آنے کا اندیشہ ہو سکتا
ہے اس کے عالوہ آب و ہوا میں ہونے والی تیزی سے تبدیلی کی
وجہ سے جنگالت میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچنے
کا خدشہ ہے ۔ گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان نام نقصانات
کی وجہ سے پاکستان میں خوراک اور توانائی کی خطرہ
درپیش ہے ۔ آب و ہوا میں ہونے والی اس تبدیلی سے خشک
سالی سیالب جیسی قدرت آفات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جن کو
روکا تو نہیں جا سکتا لیکن ان سے ہونے والے نقصانات سے
بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنائی جاسکتی ہے جن کا وقت
سے پہلے اپنانا بہت ضروری ہے۔
Contact us:03102737923