Professional Documents
Culture Documents
چالیس سالہ ترقی
چالیس سالہ ترقی
بین االقوامی اعداد و مشار کی بنیاد پر اسالمی انقالب کے چالیس سالوں کی کامیابیوں کا جائزہ
پیش لفظ
"سب سے اہم کام جو دمشن کرنا چاہتا ہے وہ ہے ملک کی حاالت کو غلط انداز میں پیش کرنا۔
نہ صرف دنیا کی رائے عامہ کو مائل کرنے کے لیے بلکہ خود ملک کے اندر بھی رائے عامہ
کو مائل کرنے کے لیے! وہ ایک غلط تصویر کے ذریعے ایرانی عوام کے خیاالت کو مسخ کرنے
کی کوشش کر رہے ہیں :ایران کے بارے میں ایک غلط تصویر ،اپنے بارے میں ایک غلط
رہرب معظم انقالب اسالمی حضرت امام خامنہ ای کے حالیہ بیانات کے مطابق دمشن کا سب
سے اہم کام اور بنیادی منصوبہ ایران اور دنیا کے حاالت کو رائے عامہ میں غلط طریقے سے
پیش کرنا ہے۔ دمشن کے اس پروگرام کا مقصد اسالمی مجہوریہ ایران کے حاالت کو تاریک
اور مایوس کن پیش کرنا اور دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک باخلصوص امریکہ کے حاالت
کو روشن اور مثالی بنا کر پیش کرنا ہے تا کہ عوام الناس ان مشکل حاالت سے نکلنے کے لیے
مغربی ممالک کی طرز پر ترقی کی جانب گامزن ہوسکیں اور ترقی کے لیے ضروری دولت
اور ٹیکنالوجی کی عدم دست یابی کی وجہ سے طاقت اور دولت کے مراکز میں کسی ایک
ہے کہ اسالمی مجہوریہ ایران کے دمشنوں نے اسالمی مجہوریہ کی آزادی کو نشانہ بنایا ہے
1
اور وہ چاہتے ہیں کہ اسالمی مجہوریہ ایران کو گلوبل ولیج میں ایک فرمانربدار شہری بنا
اس فکری چیلنج سے منٹنے کے لیے ضروری ہے کہ عاملی برادری کے قبول کردہ اعداد و مشار
سے استفادہ کرتے ہوئے انقالب اسالمی کی چالیس سالہ تاریخ کا سابقہ (پہلوی) حکومت کی
تاریخ نیز دنیا کے دوسرے ممالک خصوصا بظاہر ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کیا جائے
تا کہ عاملی میڈیا کی جانب سے ایران کے اسالمی انقالب کے خالف نفسیاتی جنگ کے لیے
جو غلط تصویر پیش کی گئی ہے اسے بے نقاب کر سکیں۔ قرآن کریم نے بھی اہل کتاب سے
ان کی حتریف شدہ کتابوں پر حبث کرتے ہوئے پیغمرب اکرمﷺ کی سچائی کو ثابت کیا ہے۔ اس
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے ان حتریف شدہ کتابوں کے متام مواد کو قبول کر لیا ہے
اور انہیں مکمل طور پر درست قرار دیا ہے۔ اس بنا پر اسالمی مجہوریہ کی ترقی کے
جائزے میں بین االقوامی اشاریوں کا حوالہ دینا کسی بھی طرح سے ممالک کی ترقی کی
سطح کو جانچنے کے لیے عاملی ترقی کے اشاریوں کی تصدیق نہیں کرتا۔ ان اشاریوں پر
توجہ دینا اور ان کا استعمال صرف عاملی برادری کی رائے عامہ میں ان کی قبولیت کی وجہ
سے ہے۔
ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکس ( )WDIصرف معاشی تصورات کی بنیاد پر دنیا کے ممالک کا جائزہ
لیتا ہے اور جمموعی ملکی پیداوار ( )GDPاور جمموعی قومی آمدنی ( )GNIمیں اضافے کو
ممالک کی ترقی کا مرکز بناتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ،اگر کسی ملک کے خمتلف حصے جن
میں تعلیم ،ثقافت ،خارجہ پالیسی ،ملکی پالیسی ،فوجی طاقت اور دیگر شعبے شامل ہیں،
جمموعی قومی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کام کریں تو وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس ،جسے اقوام متحدہ کے نزدیک معاشروں کی بہبود کا جائزہ لینے
کے لیے مسجھا جاتا ہے ،یہ صرف فی کس جمموعی قومی آمدنی کو لوگوں کی بہبود کا تعین
کرنے واال مسجھتا ہے ،قطع نظر اس کے کہ اسے کس طرح تقسیم کیا جاتا ہے اور تعلیم کے
سالوں کی تعداد اور متوقع عمر کیا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ ملک کے خمتلف ثقافتی ،سیاسی
اور امن سے امور کو ہی ملکی معیشت کا حمور قرار دینا اور معاشروں کی فالح و بہبود کے
حوالے سے بعض اہم مسائل جیسے عدل و انصاف ،خاندان ،اخالقیات اور روحانیت وغیرہ پر
توجہ نہ دینا کسی بھی حلاظ سے اسالمی انقالب کے نظریات سے میل نہیں کھاتا ہے اور اب
2
تک ان غلط اعداد و مشار کی بنیاد پر مغروبی معاشروں کا ناقابل تالفی نقصانات پہنچایا
ہے۔
اس نکتے کا تذکرہ ضروری ہے کہ انقالب کی کامیابیوں کو بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے
کہ اسالمی مجہوریہ ایران ان 40سالوں میں مسائل سے آزاد ہو گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب
یہ ہے کہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اپنے نظریات کے قریب ہو گیا ہے۔ اگرچہ بعض
اوقات اس کی حرکت کی رفتار کم ہوگئی ہے لیکن اس کی وجوہات کتاب کے آخری باب میں
امریکہ پر مکمل احنصار تھا؛ جبکہ انقالب کے بعد ملک کی آزادی ،خودخمتاری اور عالقائی
ساملیت اسالمی مجہوریہ ایران کے آئین کے اہم اصولوں میں شامل کیاگیا ہے؛ اسالمی انقالب
کی فتح کے بعد آزادی کے اصول کو ایسی عزت اور وقار عطا کیا گیا کہ اسالم کے اصولوں کے
ساتھ ساتھ آزادی کے اصول ،اسالمی مجہوریہ کے آئین میں ناقابل تنسیخ اصول کے طور پر
داخل کیئے گیے اور آزادی کی حفاظت کو حکومت اور شہریوں کا اہم فریضہ بنادیاگیا۔
چنانچہ یہ اصول قوم اور حکومت کا فریضہ بننے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست اور پالیسی کا
ایک اہم حصہ بھی بن چکے ہیں۔ اسالمی مجہوریہ کے بانی کے نقطہ نظر کے مطابق
آزادی ،انقالب کے اہم اور بنیادی اہداف میں سے ہے۔ امام مخینی کے نزدیک آزادی کے دو
پہلو ہیں۔ایک میں نفی اور دوسرے میں تائید کا عنصر ہے۔ نفی کا مطلب سامراجی تسلط
سے انکار ہے ،جو ایک ایسی حکومت کی بنیاد فراہم کرتا ہے جو نہ تو مشرقی اور نہ ہی
مغربی بلکہ (روس اور امریکہ دونوں کے تسلط سے) آزاد ہو۔ امام مخینی نے فرمایا تھا کہ
اسالمی انقالب کے مقاصد میں سے ایک ،اسالمی ملک سے غیروں کی اجارہ داری اور ان پر
احنصار کی جڑوں کو کاٹنا ،استعمار کے مقابلے میں اپنی کمزوری ،سستی اور زبون حالی کو
ختم کرنا ،استحصال و غالمی کے راستے کو روکنا اور نو آبادیاتی شکنجوں کو توڑنا ہے۔ یعنی
3
اگر ایک لفظ میں بیان کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ امام ،حکومت اسالمی کیلئے ہر طرح
ہے۔ پہلوی دور میں احنصار اس قدر تھا کہ وزیر اعظم اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب براہ
راست مغربی طاقتوں کی ایما پر اجنام پاتا تھا۔ انگلستان اور امریکہ کی طرف سے مغرب پر
احنصار کرن ے والے سیاسی افراد کے انتخاب میں ،خود رضا خان ،حممد رضا اور دربار کے
خمتلف اہم عناصر کی تائید اور مرضی بھی شامل ہوتی تھی۔ پہلوی حکومت کا پورا دور
مغرب پر غیر مشروط احنصار کی عکاسی کرتا ہے۔ دربار ی عناصر کے کالم سے اس حقیقت
کا انکشاف پہلوی حکومت کی مغرب پر مکمل احنصار کی مستند دستاویز ہے۔ اسی تناظر
میں ملکہ پہلوی نے کہا تھا :کبھی کبھی میں حممد رضا سے کہتی تھی" :مت ان کو برطرف
کیوں نہیں کرتے ،یہ جانتے ہوئے کہ یہ کمینے غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔" حممدرضا کہا کرتے
تھے" :ان کو نکالنے کا کیا فائدہ؟ اگر میں انہیں نکال دیتا ہوں تو وہ درجنوں دوسرے لوگوں
کو میرے ارد گرد رکھ دیں گے۔ ان لوگوں کو رہنے دیں [تاکہ] غیر ملکی حکومتوں کے ذہنوں
میں ایران کے بارے میں خدشات پیدا نہ ہوں" وہ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ
حممد رضا کو بھی اس مسئلے کا پہلے سےعلم تھا ،یوں لکھتی ہے :حممد رضا نے جمھےذاتی
ٓ
طور پر بتایا" :ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی ارگنائزیشن) کے سربراہ ،اس کے نائب اور
دیگر سینئر افسروں کے امریکیوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں ،اور وہ صرف دکھاوے کیلئے
میرے پاس آتے ہیں اور جمھ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ جب کہ اجازت حاصل کرنے سے
پہلے ہی انہوں نے امریکہ اور انگلینڈ کو مطلوبہ معلومات پہنچاچکے ہوتے ہیں۔
امریکی سینیٹ کی حتقیق کے مطابق ایران میں امریکی مشیروں کی تعداد جو 1972ء میں
16ہزار تھی وہ 1976ء میں بڑھ کر 24ہزار ہوگئی تھی۔ سینیٹ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا
ہے کہ امریکہ سے مزید ہتھیاروں کی خریداری کی وجہ سے ایران میں امریکیوں کی تعداد
1980ء تک 60ہزار تک پہنچ جائے گی۔ اب اسالمی انقالب کے ظہور کے ساتھ ہی دنیا کے متام
ممالک کے ساتھ ایران کے سیاسی اور فوجی احنصار کا خامتہ ہوا اور ایران کا اسٹریٹیجک نعرہ
یعنی "نہ مشرقی ،نہ مغربی ،صرف اسالمی مجہوریہ" کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ گئی۔
4
اسالمی مجہوریہ ایران کے عوام نے ملک کے حکام اور سیاست دانوں کے انتخاب میں آزادی
کے حقیقی معنی کو مسجھا اس لئے غیر ملکیوں کو ملک کے سیاسی معامالت میں مداخلت
کی اجازت نہیں دی۔ خارجہ تعلقات میں ایران کی آزادی بھی توجہ کے الئق ہے۔ انقالب سے
پہلے کا ایران خطے میں حمض مغربی حکومتوں کی نوکری کا کردار ادا کرتا تھا ،اب پورے
خطے میں اور کچھ حد تک دنیا میں ایک موثر ملک کے طور پر پہچاناجاتا ہے۔ امریکن
انٹرسٹ کی رپورٹ کے مطابق 2017میں ایران کو دنیا کی ساتویں طاقت کے طور پر تسلیم
کیا گیا۔
کی فوجی قوت کو مغربی ہتھیاروں کے ذریعے مضبوط کرنے کی کوشش کی اور خاص طور
پر امریکہ سے ہر قسم کے اسلحے خریدے۔ لیکن در حقیقت ایران کو اپنے خمتلف قسم کے
ہتھیار کئی گنا مہنگے داموں فروخت کر کے مغرب والوں نے اس قوم کے ذخائر کو لوٹنے کا
ارادہ کیا اور دوسری طرف ایران کو گولہ بارود کا گودام بنادیا اور خمتلف مواقع پر ایران کی
اجازت کے بغیر ہتھیاروں کو فروخت بھی کیا۔ اور بعض اوقات انہوں نے اسے اپنی مرضی سے
استعمال بھی کیا۔ مثال کے طور پر ملکہ پہلوی نے اس بارے میں کہا :ایک دن حممد رضا نے،
جو بہت پریشان تھا ،جمھ سے کہا" :امی جان ،یہ سلطنت جہنم میں جائے ،جس کا میں بادشاہ
اور سپہ ساالر ہوں ،میرے علم میں الئے بغیر ،وہ ہمارے طیارے ویتنام لے گئے۔ امریکیوں
نے ،جن کی ایران میں بہت پہلے سے فوجی عمل دخل تھی ،جب بھی ضرورت پڑی ،ایران کے
اڈوں اور تنصیبات کو اپنی صوابدید پر استعمال کیا!" لیکن اب ایران کی فوجی طاقت ،خطے
میں مزامحتی حماذ کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایرانی افواج آٹھ سالہ
مسلط کردہ جنگ ،حزب اللہ کی 33روزہ جنگ اور داعش کے خالف 22روزہ جنگ کے دوران
اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کو استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ آج خطے میں اس ملک
5
پہلوی کے مغرب پر احنصار کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس لیے ہم خمتصرا چند مثالیں بیان
کریں گے۔ ایران میں امریکی فوجی مشاورتی بورڈ کے سربراہ جنرل ولیمسن اپنے دو سالہ
مشن کے اختتام پر کہتے ہیں :میرے خیال میں 1971سے 1973تک کے یہ دو سال ،دو سو
سال پر حمیط تھے ،اس دوران میں نے تقریبا 4ارب ڈالر کے 700معاہدوں پر مذاکرے کئے۔۔۔
۔ ایران اس طرح کے معاھدوں کیلئے ایک اہم مرکز تھا۔ اس ملک کو تاجروں کا بفیٹ کہا
جاتا تھا۔ یہ بفیٹ بہت عمدہ ہوتے تھے کیونکہ ان سے بہت زیادہ کاروباری فوائد حاصل
ہوتے تھے۔ مائیکل لیڈن نے یہ بھی لکھا ہے" :امریکہ نے ایرانی تیل خریدنے کے لیے جو
بھی ڈالر خرچ کیے ،ایرانیوں نے فوجی سازوسامان اور دیگر سامان خریدنے کے لیے امریکہ
کو وہ ڈالر واپس کیے"۔ تیل پر احنصار کو کم کرنے کی پالیسی پر اسالمی مجہوریہ نے بہت
کام کیا۔ چنانچہ اسالمی حکومت اس مقصد میں روز بروز کامیاب بھی ہوتی گئی۔ اس طرح
کہ 1976میں ایران کی برآمدات کا تقریبا 93فیصد خام تیل تھا ،جبکہ 2016میں ،اسالمی
کی تبدیلی سرفہرست تھی۔ اس عرصے کے دوران ،مغرب کو پہلوی حکمرانوں اور درباریوں
نے لوگوں کے سامنے ایک بے مثال منونہ کے طور پر متعارف کرایا۔ مثال کے طور پر مرزا
ملکم خان جو ایران میں روشن خیالی اور جدیدیت کے بانی اور بابا سجمھے جاتے ہیں ،اپنا
نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میں اتنا کہتا ہوں کہ ہم حکمرانی کے معامالت میں
کچھ بھی ایجاد نہیں کرسکتے اور نہ ہمیں خود سےایجاد کرنے کی ضرورت ہے۔ یا تو ہمیں
انگلستان کے سائنسی علوم اور جتربے کو اپنے لئے منونہ عمل بنانا چاہیے یا پھر اپنی جاہلیت
کے حصار میں خود کو بند کرنا چاہئے۔ 1962کی کارکردگی رپورٹ میں ایران اور امریکہ کے
درمیان ثقافتی اور تعلیمی تبادلے کے کمیشن نے ،جو 1925میں حممد علی فروغی کی
سربراہی میں قائم کیا گیا تھا ،خاص طور پر درج ذیل اہداف کا ذکر کیا ہے :امریکہ کو ایک
مضبوط ،مجہوری اور طاقتور ملک کے طور پر متعارف کرانا اور ایرانیوں کے لیے امریکی
6
شاہی دربار اور ملک کے بیشرت حصوں میں غیراخالقی سرگرمیوں کو فروغ دینا حکومت کے
ایجنڈے میں شامل تھا۔ اس طرح ایران میں اسالم کو مکمل ختم کرنا پہلوی کا اھم منصوبہ
تھا۔ پہلوی دور میں ایران میں بے حیائی اور بے شرمی یورپی ممالک سے بھی زیادہ تھی؛
جس کیلئے شیراز آرٹ فیسٹیول اور ہم جنس پرستوں کی شادی کی مثالیں پیش کی جاسکتی
ہیں۔ انتھونی پارسنز نے شاہ سے مالقات کے دوران شیراز آرٹ فیسٹیول میں پیش ہونے والے
نازیبا مناظر کے بارے میں اظھار خیال کرتے ہوئے بتایا 1977 :کا شیراز آرٹ فیسٹیول
ایرانیوں کی اخالقی اقدار کی توہین کرنے والے بہت سے مناظر سے بھرپور تھا اور وہ
فیسٹول اس طرح کے اسے پہلے کے میلوں سے منفرد تھا۔ مثال کے طور پر ...میلے میں فٹ
پاتھ پر پیش آنے والے مناظر میں سے ایک پرتشدد عصمت دری کا واقعہ تھا جو مکمل طور
پر ،کسی شو ،یا منایشی ڈرامے کا حصہ نہیں تھا۔ ایک مکمل برہنہ یا بغیر پتلون کا مرد ،ایک
ایسی عورت کی عصمت دری کر رہا تھا جس کی شرٹ اس بدمعاش نے پھاڑ دی تھی۔ یہ سب
کچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اجنام پارہا تھا۔ لیکن یہ معاملہ صرف شیراز تک حمدود
نہیں رہا اور اس شو کے خالف اٹھنے واال احتجاج کا طوفان پریس اور ٹیلی ویژن تک پہنچ
گیا۔ ا س وجہ سے میں نے بادشاہ سے اس مسئلے پر بات کی اور اس سے کہا" :اگر ایسا ڈرامہ
انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں پیش کیا جاتا تو ہدایت کار اور اداکار زندہ نہ رہتے "! بادشاہ
لیکن اسالمی انقالب نے اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی ثقافت سے مربوط امور اور
ثقافتی سرگرمیوں کو اہمیت دی۔ جامعات کو پاک کرنے کے حوالے سے ثقافتی انقالب کا آغاز،
ثقافتی انقالب کی سپریم کونسل کا قیام ،اسالمی مجہوریہ ایران کی ثقافت کے فروغ کیلئے
موزوں کتابوں کی تصنیف وغیرہ ایرانی ثقافت کی ترویج کے لیے حکومت کے اہم اور کلیدی
اقدامات میں سے ہیں۔ اسالمی انقالب کے بعد ملک میں ثقافتی آزادی تیزی سے آگے بڑھی
ہے۔ اس انقالب کی وجہ سے ایران ،پہلوی دور کے مغربی بے ہودہ ثقافتی حصار سے نکل کر
حالیہ برسوں میں ایک مہذب ملک میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اسالمی انقالب کے سائے میں
پروان چڑھنے والی اس ملک کی شاندار ثقافت ،مغربی اور استعماری ممالک کے افراد کے
دلوں میں داخل ہونے میں کامیاب رہی ہے اور اس نے بہت سے دلوں کو بانی انقالب اسالمی
کے بارے میں سوچنے پر ابھارا ہے۔ ایران میں ثقافتی اثر و رسوخ پیدا کرنےاور ایرانی
7
اسالمی ثقافت کے زوال کے لیے مغربی حکومتوں کی طرف سے چالئے جانے والی خمتلف
سازشوں کا ذکر کر سکتے ہیں جن کی تفصیل ایک دستاویز میں موجود ہے جو دستاویز 2030
کہالتی ہے۔ اسالمی مجہوریہ نے مکمل حتقیق اور جتزیہ کے بعد مغربی ثقافتی اثرات کو
تقسیم ہے۔ مساجی انصاف کو قائم کرنے کے لیے ملک کی عوام میں "عدم مساوات " اور
"غربت " دونوں پر کنٹرول کیلئے بیک وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
عدم مساوات
آمدنی یا دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو مشاریاتی اشاریہ میں بیان کیا جاتا ہے۔
مشاریات میں Gini Indexصفر اورایک یا صفر اور ایک سو کے درمیان نسبت کو ظاھر کرنے
کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر Gini Indexصفر کے برابر ہے ،تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کی
آمدنی معاشرے کے متام افراد میں یکساں طور پر تقسیم ہورہی ہے۔ اگر Gini Indexایک سو
کے برابر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کی آمدنی صرف ایک شخص تک پہنچی ہے اور
باقی لوگوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے ،اگر کسی ملک کا Gini Indexایک
خمصوص مدت کے دوران کم ہوتا ہے ،تو یہ مساجی انصاف میں اضافے اور اس ملک میں
طبقاتی فرق میں کمی کی نشاندہی کرے گا۔ ہر ملک کے لیے وقت کی ایک مدت میں اس
معیار کی تبدیلیوں کا موازنہ اور جانچ کرنا طبقاتی فرق کی نشاندہی کرنے اور مساجی
انصاف کے میدان میں اس ملک کی کامیابی کے لیے موزوں معیار ہوگا۔ 2013میں ،اقوام
متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ) (UNDPکے دفرت نے دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے
موضوع پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ممالک میں Gini Indexمیں
اضافہ ہورہا ہے جو کہ طبقاتی فاصلے میں اضافے اور مساجی انصاف سے دور ہونے کی
نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ،اسالمی انقالب کے بعد ،اسالمی مجہوریہ ایران اس
قابل ہو گیا ہے کہ Gini Indexکو ایک قابل توجہ سطح تک کم کر سکے۔ ایران میں 1365 ،سے
8
1393تک Gini Indexمیں تبدیلیوں میں 8.6فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جب کہ ورلڈ بینک
کے ایک مضمون کے مطابق پہلوی دور حکومت کے آخری سالوں میں Gini Indexکی شرح
غربت
غربت کے زمرے میں"،غربت کی لکیر" کی اصطالح سے مراد آمدنی کی وہ مقدار ہے جو
معاشر ے میں کم از کم انفرادی ضروریات کو فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے ،اور اگر وہ
مقدار افراد کے لئے میسر نہیں ہیں ،تو ایسے افراد کو غریب تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کے
ممالک میں غربت کی سطح کو ناپنے کے لیے ورلڈ بینک نے انہیں چار گروپوں میں تقسیم
کیا ہے۔ پھر ،ہر ایک گروپ کے لئے ،آمدنی کی مقدار اور ممالک میں رہنے کی الگت کے
مطابق ،یہ کم از کم انفرادی ضروریات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری روزانہ کی آمدنی
کو مدنظر رکھتا ہے ،اور اس کی بنیاد پر ،یہ طے کرتا ہے کہ ممالک میں غریب کتنے فیصد
متوسط سے زیادہ آمدنی والے ممالک 5.5ڈالر )(Upper Middle Income؛ .2
اس درجہ بندی میں ایران دوسرے گروپ میں شامل ہے ،یعنی اوسط سے زیادہ آمدنی والے
ممالک میں۔ عاملی بینک کی دستاویزات کے مطابق 1977میں ایران کے تقریبا 60فیصد دیہی
ٰ
اور 30فیصد شہری آبادی اور دیہی آبادی کے اعلی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے ،ایران کی
9
1969میں ایران کے حاالت و واقعات پر ایک نظر ڈالنے سے لوگوں کی زندگی اور فالح و بہبود
کی سطح کو مسجھنا ممکن ہے۔ مثال کے طور پراسداللہ علم (اس وقت کےوزیراعظم) نے ان
حاالت کی تعریف اس طرح کی ہے :وہ ایک خوبصورت سواری تھی۔ کاش میں اکیال نہ ہوتا !
فرح آباد روڈ پر دو ٹرکوں میں تصادم کے باعث ٹریفک بالک ہو گئی۔ میں نے انتظار کیا اور
اس دوران میں نے تہران کے اس حصے میں لوگوں کی زندگیوں پرایک نظر ڈالی۔ مرکزے
روڈ کی طرف جانے والی متام گلیاں گندی اور کچی تھیں ...صبح کا وقت تھا اور ٹریفک پولیس
ابھی کام پر نہیں آئی تھی۔ لیکن ایک اکیال پولیس واال تھا جو مسلسل سگریٹ پی رہا تھا
اورہنگامہ آرائی کر رہا تھا اور لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا تھا جیسے وہ اپنی رعایا کی
موجودگی میں بادشاہ ہو۔ چند مرد اور چند باحجاب عورتیں بغلوں میں کپڑے دبائے محام
سے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ ...بچوں کا ایک گروپ اردگرد مجع تھا۔ لڑکیوں نے سب نقاب
ٰ
اوڑھے ہوئے تھے۔ ہمارے معاشرے کے اعلی طبقے کے لوگ ایسے وقت پرکبھی نہیں اٹھتے،
ان کی بیٹیاں بھی سر نہیں ڈھانپتیں۔ دال بیچنے والے ٹھیلے کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ گلی
کے کونے میں کچرے کے درمیان کچھ آوارہ کتے اور کچھ ننگے بچے ٹہل رہے تھے۔ ...ڈیوٹی
کرنے والے سپاہی منڈوائے ہوئے سروں ،غیر موزوں پتلونوں اور غیر موزوں جوتوں کے ساتھ
سڑک پر چل رہے تھے اور بظاہر مجعہ کی صبح کی چھٹی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ
بور کرنے واال اور غمناک سین پیش کررہاتھا :ایک ترقی پذیر معاشرے کا منظر ...ان گلیوں
میں کسی بھی قسم کی بہرت زندگی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ عوامی مفادات کے معاملے
مناسب غذا
عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق حالیہ برسوں میں ایران میں خوراک کی پیداوار کے
انڈیکس میں 4گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان سالوں میں ،دیہی ترقی اور مویشیوں کی پیداوار کے
اشاریہ میں 3گنا اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اعداد و مشار کے
مطابق ان سالوں میں مرغی کے گوشت کی پیداوار میں 10گنا اضافے کا اشارہ ملتا ہے۔ نیز،
ایران میں فی کس روزانہ فراہم کی جانے والی کیلریز کی مقدار عاملی اوسط سے زیادہ ہے۔
مچھلی اور مسندری غذا کی فی کس کھپت میں بھی ان سالوں میں 5گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس
عرصے کے د وران ایران میں بھوک کا عاملی انڈیکس کم ہو رہا ہے اور اس کی قدر خطے اور
10
دنیا کے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ ایران میں غذائی قلت کی وجہ سے اموات کی شرح
ان برسوں میں کافی کم ہوئی ہے اور اس کی شرح پوری دنیا کے مقابلے میں کم ہے۔
اچھی تعلیم
عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق اسالمی انقالب کے بعد ایران میں ثانوی تعلیم کی
شرح میں 88.4فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسالمی انقالب کے بعد سے ایران میں یونیورسٹی سے
صحت
متوقع زندگی کی شرح ایک مشاریاتی اشاریہ ہے جو پیش گوئی کرتا ہے کہ معاشرے میں
اوسط زندگی کی توقع کیا ہوگی ،یا دوسرے لفظوں میں ،اس معاشرے کا ہر فرد کتنے سال
زندہ رہنے کی توقع کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے صحت اور عالج کے اشارے بہرت ہوں گے،
متوقع عمر بڑھے گی۔ اسالمی انقالب کے بعد متوقع عمر کا انڈیکس 50سال سے بڑھ کر 75
عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق ایران میں 5سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی
شرح 120سے کم ہو کر 15فی 1000افراد پر آ گئی ہے۔ عاملی ادارہ برائے مشاریات اور صحت
کی تشخیص کے اعداد و مشار کے مطابق ایران میں خودکشی اور فاجل کے محلوں کی شرح
عاملی اوس ط کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ نیز ،صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے معیار کے
اشاریہ کی شرح عاملی اوسط سے جتاوز کر گئی ہے۔ عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق
پانی کی فراہمی
عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق %96ایرانی عوام کو پینے کے صاف پانی تک رسائی
حاصل ہے جو کہ عاملی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ پہلوی دور میں 51 ،فیصد شہری
اور 30فیصد دیہی لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر تھا۔ دنیا میں سب سے سستے پینے کے
11
اس وقت %100ایرانی عوام کو جبلی تک رسائی حاصل ہے۔ جبکہ پہلوی دور میں جبلی تک
16%رسائی تھی۔ پہلوی دور کے مقابلے میں اب ایرانی دیہاتیوں کے لیے جبلی تک %100رسائی،
اسالمی انقالب کے بعد ایران کی پیشرفت میں سے ایک ہے۔ دنیا میں سب سے سستی جبلی
ایندھن کی فراہمی
پہلوی دور میں صرف پانچ شہروں اور ایک گاؤں کو گیس فراہم کی جاتی تھی اور اس طرح
صرف 51ہزار گھرانے قدرتی گیس سے استفادہ کرتے تھے۔ جبکہ اسالمی انقالب کی کامیابی
کے 40ویں سال میں تقریبا 20ملین گھرانے جس میں 1085شہر اور 23205دیہات شامل ہیں
پٹرول اور ڈیزل کے حلاظ سے دنیا کے سستے ترین ممالک کی درجہ بندی میں ایران کا مشار
اعداد و مشار کے مطابق 2015تک ایران کے %60لوگوں کے پاس انٹرنیٹ اور %90لوگوں کی
موبائل فون تک رسائی تھی۔ ایرانی مشاریاتی مرکز کی طرف سے شائع کردہ معلومات کے
مطابق 2014میں 99.6فیصد شہری گھرانوں اور 98.6فیصد دیہی گھرانوں نے گھر میں ٹیلی
بہرتی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے دفرت کی طرف سے شائع کردہ 2018کی
انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق 2017 ،میں ایران انسانی ترقی کے حلاظ سے دنیا میں 60
ویں منرب پر تھا اور اعلی انسانی ترقی والے ممالک میں پہلے منرب پر تھا۔ جبکہ اقوام متحدہ
کے ترقیاتی پروگرام کے دفرت کی 2011کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق 1980میں
ایران دنیا میں 120ویں منرب کم انسانی ترقی والے ممالک میں شامل تھا۔
12
چوتھا باب | عزت و اقتدار
| 1فوجی اقتدار
پہلوی دور میں ایرانی فوج کو بااختیار بنانے کا واحد مقصد خطے میں مغربی حکومتوں
کے مفادات کی محایت کرنا تھا۔ مثال کے طور پر 24 ،جنوری 1977کو نیوز ویک کے ایک
رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ نے کہا تھا :اگر آپ کے پاس ایسا مضبوط ایران نہ ہو جو
آپ کی اور پورے خطے کی حفاظت کے قابل ہو ،اور ضرورت کے وقت خلیج فارس اور
حبرہند ،کی حفاظت کیلئے ایران موجود نہ ہو تو آپ مستقبل میں کیا کریں گے؟ کیا آپ
خطے میں ایک ملین امریکی فوجی رکھیں گے؟ کیا آپ ایک اور ویتنام بنائیں گے؟
1978میں ،حممد رضا شاہ نے فرانسیسی جاسوسی ایجنسی کے سربراہ کاؤنٹ الیگزینڈر
ٰ
ڈیمارانیش سے مالقات میں دعوی کیا" :میں دنیا کے اس حصے میں مغرب کے خالف دفاع
کا بہرتین ذریعہ ہوں۔ "امریکہ میں رچرڈ نکسن کے دور اقتدار کے بعد انہوں نے مشرق
ٰ
وسطی میں دو طرح کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس منصوبے کا ہدف یہ تھا کہ ایران اور عرب
ٰ
دو ستونوں کے طور پر مشرق وسطی میں امریکہ کے مفادات کا حتفظ کریں گے۔ نکسن نے
اپنی کتاب میں لکھا 1953" :سے 1979تک ،حممد رضا شاہ کے دور میں ،ایران نے خطے میں
مغرب کے سیکورٹی ستون کے طور پر کام کیا۔ نیٹو فوجی دستوں کے نائب جنرل ہیزر نے
اس بارے میں لکھا :مغرب کے مفادات کے لیے خلیج فارس کے عالقے میں ایرانی فوجی
امریکی سفیر سلیوان نے دو سفیروں کی یادداشتوں کی کتاب میں لکھا ہے" :ایران میں امریکی
فوجی مشن اور دنیا کے دیگرممالک میں فوجی مشن کے درمیان فرق یہ تھا کہ ایران میں
موجود امریکی فوجیوں کو درحقیقت ایرانی فوج میں مشار کیا جاتا تھا۔ امریکی مسلح
افواج ...مشیر اور کارکن جو ایرانی مسلح افواج کے ساتھ مامور تھے ان کو ایرانی حکومت کی
طرف سے ادائیگی کی جاتی تھی :ان کی تنخواہیں اور مراعات ،سفری اخراجات ،اور ان کے
بچوں کی تعلیم کے اخراجات ایرانی حکومت فراہم کرتی تھی ،اور جو نشانات ان کی وردیوں
پر لگے ہوتے تھے ان کی وجہ سے انہیں ایرانی مسلح افواج کا رکن مسجھا جاتاتھا۔ 1975کے
وسط تک تقریبا 35ہزارغیر ملکی صرف تہران میں رہ رہے تھے ،ان میں سے زیادہ تر
13
ٹیکنیشن ،منیجر ،کنسلٹنٹ یا غیر ملکی کمپنیوں کے منائندے تھے اور ان میں سے اکثر کا
تعلق فوج سے تھا۔ امریکی تکنیکی ماہرین ہر ماہ 12,500ڈالر تک کماتے تھے۔ 1975میں
افرادی قوت فوجی طاقت کا سب سے اہم جزو ہے۔ ایک موثر افرادی قوت کی دو خصوصیات
ٰ
ہوتی ہیں :اعلی تعلیم و بهرتین تربیت۔ ایک موثر افرادی قوت وسائل کی عدم موجودگی
میں بھی مزامحت کرے گی اور اپنی کوششوں سے فتوحات حاصل کرے گی۔ یہ قوت مقدس
مقام (ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ) کے دفاع اور ہماری طرح دیگرمزامحتی
ممالک کے دفاع میں کئی بار استعمال ہوئی ہے۔ افرادی طاقت کی اہمیت اس وقت ظاہر
ہوتی ہے جب انسان موت کے قریب ہوتا ہے۔ اس صورت میں ،اگر اس کے پاس حوصلہ نہیں
ھوگا ،تو وہ میدان جنگ سے فرار کرے گا .اسالمی مجہوریہ ایران کی افواج نے انقالب کی
برکت اور جذبہ شہادت کے ذریعے میدان جنگ میں خون کے آخری قطرے تک استقامت کی
دفاع مقدس کے قیمتی جتربے نے حقیقی جنگ کے منظرنامے میں خمتلف فوجی ساز و
سامان سے آگهی اور استعمال کا ایک موزوں موقع فراهم کیا۔ اس منظرنامے نے ملک میں
موجود سائنس اورٹیکنالوجی کے امکانات اور وسایل کو اپنے اقتصادی شرایط کے اندر ملک
کے اسلحہ سازی کے روڈ میپ کو مرتب کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔ اس روڈ میپ کے
ڈیزائنرز کی ذہانت کا انکشاف حالیہ برسوں میں اس وقت ھوا جب اسالمی مجہوریہ کی
افواج کو خمتلف قسم کے فوجی خطرات سامنا ھوا۔ خود کفالت اور دمشن کے ساتھ فوجی
تصادم کے مقابلے دفاع کی صالحیت رکھنے والے آالت تک رسائی ملک پر دمشن کے براہ راست
محلے کو روکتی ہے۔ بیلسٹک اور کروز میزائلوں ،ڈرونز ،فضائی دفاعی ،چھوٹی آبدوزوں ،تیز
رفتار بوٹس اور دیگر فوجی ساز و سامان کی ٹیکنالوجی کا حصول اور پیداوار اسالمی انقالب
کے بعد ایران کی فوجی کامیابیوں کا حصہ ہے اور یہ ایران کی فوجی عزت اور اختیار کو
ایک نکتہ جس کا ذکر ضروری ہے وہ ایران کا دفاعی جبٹ ہے۔ یہ حیرت انگیز کامیابیاں
دیگر ممالک کے مقابلے میں کم جبٹ سے حاصل کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم سعودی
عرب کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ نیچے دیے گئے خاکے کے مطابق؛ سعودی عرب کا دفاعی جبٹ
14
ایران کے مقابلے میں تقریبا 7گنا زیادہ ہے۔ یہ ملک اپنے دفاعی جبٹ کا زیادہ تر حصہ
دوسرے ممالک خصوصا امریکہ سے ساز و سامان خریدنے پر خرچ کرتا ہے۔ ان ساز و سامان
کی خریداری سے اس ملک میں دفاعی طاقت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکی صدر نے سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے سے تعبیر کیا ہے اور امریکی حکام
کے مطابق امریکہ کی محایت کے بغیر سعودی عرب کے پاس ایران سے ایک ہفتہ سے زیادہ
بہت سے واقعات میں یہ صرف امریکہ کے مددگار کا کردار ادا کرتا تھا۔ جیسا کہ 1973اور
1974کے درمیان عمان میں فوجی دستے بھیجے گئے ،جس پر 2018میں ڈالر کی قدر کے
حساب سے تقریبا 6بلین ڈالر الگت آئی ،اور 200سے زیادہ فوجی ہالک اور 700زمخی ہوئے۔
اس طرح روس نواز جنوبی یمن کے خالف امریکی نواز مشالی یمن کی حکومت کی مدد،
امریکہ کے تعاون سے جنوبی ویتنام کی مدد ،روس نواز ایتھوپیا کے ساتھ جنگ میں مغرب
نواز صومالی حکومت کی محایت ،زائراور مراکش کی امداد ،اور انور سادات کو دی جانے والی
ایک بلین ڈالر کی امداد ،امریکا کی طرف سے شاہ ایران کو سونپی گئی فوجی ذمہ داریوں کی
مثالیں ہیں۔
اسالمی انقالب کی فتح کے بعد مظلوموں کی مدد کے مقصد سے اسالمی مجہوریہ نے خطے
کی مظلوم قوموں اور آزادی پسند حتریکوں کی مدد کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔ انقالب
اسالمی ایران کی فتح کے ساتھ ہی اس کے نظریات اور نعرے بہت سی قوموں کی توجہ کا
مرکز بن گئے اور اس طرح ان میں سے بہت سی قوموں کی بیداری اور ان میں سامراج کے
تسلط ،قبضہ اور سامراجی نظام کے خالف قیام کرنے کا سبب بنے۔ لبنان کی حزب اللہ کی
مدد ،فلسطین کی آزادی کی حتریک کی مدد ،سربوں کے خالف بوسنیائی مسلمانوں کی
محایت ،طالبان کے خالف جنگ میں مشالی افغانستان کے احتاد کی محایت ،حبرین کے مظلوم
عوام کی محایت اور یمن میں انصاراللہ کی محایت ،ان مقدس اسالمی حتریکوں کے ساتھ
15
حالیہ برسوں میں مغرب کی طرف سے تکفیری گروہوں کی تشکیل کے ساتھ ہی خطے کے
مظلوم عوام کے خالف وسیع پیمانے پر ظلم و جرب اور جرائم نے جنم لیا۔ داعش اور جبہۃ
النصرہ دو سرکردہ تکفیری گروہ تھے جنہوں نے شام اور عراق کے بڑے عالقوں پر قبضہ
کیا ،الکھو ں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور الکھوں لوگوں کو بے گھر کیا۔ اسالمی مجہوریہ نے
ان ممالک کی حکومتوں کی مدد سے شرپسند تکفیری گروہوں کو نیست و نابود کر دیا اور
یمن میں اس ملک کے عوامی انقالب کی محایت کرتے ہوئے خطے کے غاصب ممالک کے
محلوں کے مقابلے میں یمنی قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ عالقائی اقوام اور آزادی کی
حتریکوں کے لیے اسالمی ایران کی محایت نے اسالمی مجہوریہ میں عالقائی اقوام کی
دلچسپی اور ایران دوست مزامحتی گروپوں کی تشکیل میں اضافہ کیا ہے۔ اس مسئلے نے
دمشنوں کو ایران کی سرحدوں سے ہزاروں کلومیٹر دور اسالمی مجہوریہ کے ساتھ تصادم پر
جمبور کر دیا ہے اور کوئی عالقائی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے حل کیلئے ایران کے
نام ہے جو ایک جمموعی شکل کو تشکیل دیتے ہیں۔ یعنی یہ ایک مکمل عمارت کے ڈھانچے
کو سہارا فراہم کرتا ہے۔ ہر ملک کے لیے "انفراسٹرکچر" کی اصطالح خمتلف شعبوں کی
طرف اشارہ کرتی ہے جن میں ملک کی اقتصادی ترقی کی بنیاد ان پر منحصر ہوتی ہے۔
الف | ٹرانسپورٹیشن
| ۱ریلوے الئن
عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق ایران میں اسالمی انقالب کے بعد 1980سے 2016تک
کے عرصے میں ریلوے الئنوں میں 2گنا اضافہ ہوا ہے اور ایران کو دنیا کی ریلوے الئنوں کی
درجہ بندی میں 12درجے ترقی دی گئی ہے۔ گزشتہ 30سالوں میں ایران ریلوے الئنوں کی
تعمیر کے میدان میں 27ویں رینک سے 15ویں منرب پر آگیا ہے۔ نیز عاملی بینک کے ذرائع
16
کے مطابق ایران 2016میں ریل الئنوں کے ذریعے سامان کی نقل و محل کے میدان میں دنیا
کے ممالک کی درجہ بندی میں 25درجے ترقی کرکے 31ویں سے چھٹے منرب پر آگیا ہے۔
| ۲ہوائی جہاز
ایران کی ایئرالئنز کے ذریعے دنیا کے خمتلف عالقوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد
عاملی بینک کے اعداد و مشار اسالمی انقالب کے بعد 40سالوں کے اندر 25گنا اضافہ کو ظاہر
کرتے ہیں۔ گزشتہ 40سالوں میں ایران کی ایئر الئنز کے ذریعے منتقل ہونے والے کارگو میں
| ۳سڑک و شاہراہیں
ملک کی نقل و محل ،رہائش اور شہری ترقی کی جامع مشاریاتی کتاب کے مطابق ،ایران میں
متام سڑکوں کی ملبائی 1980سے 2016تک 4.4گنا بڑھ گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران دیہی
سڑکوں کی ملبائی میں 12.5گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے کے دوران ملک کے موٹرویز میں 8
ب | سائنس و ٹیکنالوجی
اسالمی مجہوریہ میں سائنسی پیداوار /عاملی سائنسی ترقی میں درجہ
گزشتہ 20سالوں میں ایران کی سائنسی ترقی میں 36گنا اضافہ ہوا۔ اسکوپس
ڈیٹابیس( )Scopusکے شائع کردہ نتائج کے مطابق اسالمی مجہوریہ ایران سے 1996میں
رجسٹرڈ سائنسی حتقیقی دستاویزات کی تعداد 842تھی اور 2017میں ملک میں سائنسی
ظاہر کرتی ہے۔ جبکہ اس سال دنیا میں ایران کی سائینسی پوزیشن 16ویں منرب پر آگئی
ہے۔ اس نکتے کا تذکرہ ضروری ہے کہ دو معترب سائنسی بنیادوں ( New Scientistنیو سائنٹسٹ)
اور ( Science Metrixسائنس میٹرکس) کی رپورٹ کے مطابق اسالمی مجہوریہ ایران 1980سے
2009کے درمیان سائنسی ترقی میں 11گنا اضافہ کے ساتھ پہلے منرب پر ہے۔ 1996سے 2017
کے درمیان 20سالوں میں ایران کی سائنسی ترقی کی مثالیں درج ذیل ہیں:
خطے میں ایران کی سائنسی ترقی 5ویں سے پہلے منرب پر آئی۔
نینو سائنسز میں؛ دنیا میں 58ویں سے 16ویں تک اپ گریڈ ہوئی۔
بایوکیمیکل اور بائیومالیکولر سائنسز؛ رینک 52سے 17تک ترقی دی گئی۔
17
ایرواسپیس سائنسز؛ دنیا میں رینک 45سے 11ویں منرب پر ترقی
طبیعی علوم؛ دنیا میں رینک 56سے 13ویں منرب پرترقی
ریاضی کے علوم؛ دنیا میں درجہ بندی 47سے 13ویں منرب پر بہرتی
جینیاتی سائنس اور بنیادی خلیات کی سائنس؛ دنیا میں دوسرے منرب پر
فارماسیوٹیکل سائنسز؛ دنیا میں درجہ بندی 49سے 11ویں منرب پرآگئی
ایجادات کی رجسٹریشن کی تعداد میں دنیا میں 38ویں رینک سے 7ویں منرب پر ترقی
صنعتی اور معدنی پیداوار میں اضافہ اور ان میں تنوع ہے۔ اس فصل میں ،صنعت اور اس
کے مرکزی حمرک عنصر یعنی توانائی ،پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ 2017ء میں ایران توانائی
کی پیداوار کے حلاظ سے دنیا کے ممالک کی درجہ بندی میں چھٹے منرب پر تھا۔ وقت کے ساتھ
فراہم کی جانے والی توانائی کی مقدار کو درست طریقے سے جانچنے میں رکاوٹوں میں سے
کسی ملک کی آبادی میں اضافہ ہے ،جو قدرتی طور پر اس میں توانائی کی ضرورت میں
اضافے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا ،بہرت طور پر جانچنے کے لیے کہ آیا معاشرے کے متام خمتلف
افراد کو مطلوبہ مقدار میں توانائی تک رسائی حاصل ہے یا نہیں ،فی شخص فراہم کی
جانے والی توانائی (TPES/Capita) ،Total Primary Energy Supply per Capitaکا استعمال کرنا
ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایران اور دنیا اور یورپی یونین میں فراہم کی جانے والی توانائی
جب کہ 1990ء سے 2016ء تک دنیا کے متام ممالک میں فی کس توانائی کی سپالئی ( Tonne of
"1.8 toe" ،)Oil Equivalentتھی اور یورپی یونین میں " ،"3 toeاور ایران میں بھی یہ مقدار "3
" toeتھی۔ پہلوی دور میں خام تیل کی بڑی پیداوار کے با وجود اس وقت ہماری ریفائنری کی
پیداوار کم تھی اور ملک کا بنیادی کاروبار خام تیل کی فروخت تھا۔ 1990میں گیس پیدا
کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں ایران چھٹے منرب پر تھا اور 2015میں دنیا میں تیسرے
18
منرب پر آگیا۔ 1990سے توانائی کی پیداوار میں 14فیصد اضافے کے ساتھ ،ایران برقی توانائی
پیدا کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں 10درجے اوپر چال گیا ہے۔ توانائی کے شعبے
میں علمی ترقی میں اسے دنیا میں 55ویں منرب سے 12ویں منرب پر ترقی دی گئی ہے۔
توانائی کے شعبے میں علمی ترقی میں ایران کو خطے میں آٹھویں سے پہلی پوزیشن پر
ترقی دی گئی ہے۔ نیوکلیئر انرجی کے میدان میں ایران دنیا میں 77ویں سے 12ویں منرب
پر آگیا ہے۔ اسالمی مجہوریہ ایران نے ایٹمی توانائی کے شعبے میں اپنے مضامین کی تعداد
1996میں 1سے بڑھا کر 2017میں 354تک پہنچا دی ہے اور اسے خطے میں 13ویں سے پہلے
منرب پر پہنچا دیا ہے۔ اسالمی مجہوریہ ایران نے قابل جتدید توانائی کے شعبے میں اپنے
مضامین کی تعداد 1996میں 9سے بڑھا کر 2017میں 1109کر دی ہے اور اسے خطے میں
| ۲صنعت
اسٹیل کی صنعت میں؛ اسالمی مجہوریہ ایران دنیا میں 30ویں منرب سے 13ویں پر آنے میں
کامیاب ہو گیا ہے۔ سیمنٹ کی صنعت میں اسالمی مجہوریہ اپنی پیداوار میں قابل ذکر
ترقی کے ساتھ دنیا میں چوتھے منرب پر ہے۔ خوراک کی پیداوار کا اشاریہ اسالمی انقالب کے
بعد بھی 4گنا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی پیداواری صنعت میں
اسالمی مجہوریہ 2017میں شاندار ترقی کے ساتھ 19ویں عاملی درجہ پر پہنچ گیا ہے۔
کی تفصیل یہ ہے کہ پہلوی دور حکومت میں حکمرانوں کا بنیادی ہدف دین اور مذہبیت /
دینداری سے مقابلہ کرنا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں اسالمی نظام کا بنیادی ہدف اسالم
حممدی ﷺ کی ترویج اور فروغ دینا ہے۔ اسی طرح پہلوی دور حکومت میں حکمران اپنی
پوری طاقت سے جسم فروشی اور دوسری برائیوں کی ترویج کررہے تھے .اس دور میں شراب
فروشی ،جوئے خانے اور دوسری برائیوں کی محایت کی جاتی تھی۔ پہلو ی دور میں جہاں
ایک طرف بے حیائی اور عصمت فروشی کو فروغ دی جارہی تھی تو دوسری طرف روحانیت
19
اور معنویت کے خالف برسر پیکار بھی تھے ،باخلصوص سید الشہدا امام حسین علیہ السالم
کی جمالس کے انعقاد کی بھرپور خمالفت کی جارہی تھی ،چنانچہ حمرم کے سوگ اور عزاداری
کو چند دن حمدود کرنے کے ساتھ روحانیت او ر معنویت کی طرف پہال قدم اٹھایا گیا۔ 1932ء
میں حمرم احلرام کے حوالے سے ایک سیاح اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے’’ :اس سال شاہ نے حمرم
کی چھٹیوں کو کم کردیا ہے اور قدیم طرز روایت کے مطابق لوگوں کے اجتماعات پر بھی
پابندی عائد کردیا ہے۔ 1937ء میں وزارت داخلہ کی طرف سے ایک خفیہ نوٹی فکیشن کے
ذریعے عزاداری پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس نوٹی فکیشن میں عزاداری پر پابندی کی
وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس کا مقصد لوگوں کو توہمات سے نکال کر انہیں دور جدید کی
ٓ
تہذیب سے اشنا کرانا ہے ،جو حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
اس حکم نامے جاری ہونے کے بعد رضا خان کے کارندے اسے عملی جامہ پہنانے میں سرگرم
ہوگئے۔ مثال کے طور پر شہر یزد کے گورنر نے میئر کے نام ایک نوٹس میں لکھا :جمالس
عزا کو ختم کرنا یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی عزاداری پر پابندی عائد کرنا اولین فرائض
می شامل ہے اور حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں سے توہمات کو
ٓ
دور کرتے ہوئے انہیں دور جدید کی تہذیب سے اشنا کرے۔ یہ سلسلہ پہلوی اول کے زوال اور
اس کے ماریشس جالوطنی تک جاری رہا۔ رضا خان نے اپنے اس عمل کے ذریعے تاریخ میں
اپنی ایک تلخ یاد چھوڑدیا اور ایران کے مومنین جن کے دل حضرت امام حسین علیہ السالم
اور ان کے باوفا اصحاب کے لیے ڈرکتے تھے انہیں کی یاد منانے سے روکتا رہا۔ اس دور میں
انہوں نے لوگوں کو اس قدر اذیتیں دی تھیں کہ اس کے بعد کسی کو بھی امام حسین علیہ
السالم کا مامت کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ صورحتال یہ تھی کہ چند لوگوں کے اجتماع پر
بھی پابندی عائد تھی یہاں تک کہ تین لوگ بھی کہیں بیٹھ کر نوحہ خوانی نہیں کرسکتے
تھے۔ اگر کوئی شخص کسی جملس میں شریک ہوتا تھا یا امام حسین علیہ السالم کا نام لیتا
تھا تو اس کے خالف رپورٹ دی جاتی تھی اور اسے گرفتار کیا جاتا تھا۔ کبھی ان کی داڑہی
منڈواتے تھے ،کبھی کوڑے مارتے تھے اور کچھ مہینوں کے لیے قید بھی کرتے تھے۔ لیکن رضا
شاہ کی یہ خباثتیں 1942ء کےماہ حمرم میں اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اس نے خمتلف
ٓ
تنظیموں ،گروہوں اور کمپنیوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ ماہ حمرم احلرام کے اتے ہی ہر
طرف خوشی کے شادیانے جبانا شروع کیے جائیں۔ 1942ء کے نو حمرم کی رات کو انہوں نے
20
شہر کے فحشا اور ناچ گانے والوں کو مجع کرکے کھلے ٹرکوں پر سوار ہوکر گلی حملوں میں
پروفیسر پیٹر ایوری ،جو کیمربج یونیورسٹی میں ایرانی امور کے ماہر اور کنگز کاجل کے
استاد بھی ہیں ،نے لکھا۔’’۱۹۴۱ء تک یہ بات واضح ہو گی تھی کہ قبائل کو تو شکست دی جا
سکتی ہے۔ مگر علما اپنی جگہ موجود تھے۔ شرعی قوانین کے خمالفین کے لیے ضروری تھا
کہ پہلے اس کی جگہ کوئی قانونی نظام التے اور پھر اس کے بعد دین کی جڑوں کو ہالنا
ٰ
شروع کردیتے ،رضا شاہ نے بھی ایسا ہی کیا لہذا اس نے چاہا کہ غیر مذہبی تعلیم ،قوم
پرستی کا پروپیگنڈہ جو اسالم سے پہلے ایران کا خاصہ تھا ،کو لوگوں کی مذہبی وفاداری کو
کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس چیز پر اس قدر سختی کے ساتھ عمل کیا گیا کہ
ٓ
1936ء کے اواخر تک ایران قانونی نقطہ نظر سے مکمل طور پر مذہب سے ازاد ہوگیا تھا۔
حممد رضا شاہ کے دور میں اسالم کے خالف جنگ اور عصمت فروشی کا فروغ جاری رہا۔
مثال کے طور پر ،فرح نے ماہ رمضان کے دوران تہران میں زرتشتیوں کی عاملی کانگریس کا
انعقاد کیا اور شاہی حمل میں شیمپین (فرانسیسی شراب) کے ساتھ استقبالیہ کا اہتمام کیا۔
اسالم کے خالف لڑنے کے لیے پہلوی نے مرتد بہائی فرقے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔
حممد رضا شاہ کی ساس کے بقول ،شاہ کو ایران میں بہائی ازم کے بڑھنے اور اسالم کے خالف
شاہ کے دور کی نشریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اشاعتوں نے عریانیت کے
کلچر کو پھیالنے کی کوشش کی اور ان کے ذریعے معاشرے میں فحش مواد پھیالیا گیا۔ ان
میں سے اس ہفت روزہ اخبار کے فحش میگزین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے ،جس میں جواد
عالمیر ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے تھے اور مہرانگیز کار ،سیامک پورزند اور آر۔ اعتمادی
ٓ
سےاجرا کیا جاتا تھا۔ ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی ارگنائزیشن) جیسے لوگوں کے تعاون
نےمذکورہ باال افراد کے بارے میں 13مئی 1959ء میں لکھا ہے کہ :جواد عالمیر جو احتشام
السلطنہ کا بیٹا ہے جس پر چند سال قبل اپنی بھاجنی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا الزام
ٓ
بھی لگا تھا جو اس وقت ملک میں وجودیت پسندوں کی ابادکاری کررہاتھا اور ان کی قیادت
21
کررہاتھا۔ مذکورہ شخص اخبار و میگزین بلکہ بنیادی طور پر انفارمیشن انسٹی ٹیوٹ میں
مرتجم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ جواد عالمیر کی بیوی جسم فروشی ک ذریعے اپنا گزارا
کرتی تھی۔ عالمیر جنسی طور پر بے راہ روی میں مبتال لوگوں کی درندگی کا شکار ہوا ہے۔
ٓ
اس گروہ کے ٹھکانہ تہران کے مشیران عالقہ میں ہے۔ اسی طرح جمید دوامی جو سی ائی
ٰ
اے کا ایجنٹ تھا وہ ’’زن روز‘‘ (آج کے عورت) نامی ایک فحش میگزین کا مدیر اعلی بھی تھا
جو اپنے میگزین میں ملکہ حسن کا انتخاب جیسے بیہودہ نعروں کے ذریعے نوجوان لڑکیوں
اور لڑکوں کے تشخص کو جمروح کرنے کی کوشش کررہاتھا اس لیے اس کے بعض دوست اس
کے میگزین ’’زن روز‘‘ کو کاغذ پر تصویروں کی صورت میں دکھائی گئی کوٹھے کے نام سے
| ۲الیکٹرانک کلچر
ایران میں ٹیلی ویژن کا آغاز 1958ء میں ہوا۔ بدقسمتی سے یہ میڈیا بھی سطحی اور بیہودہ
پروگرام نشر کرکے اپنے سامعین کو منحرف کرنے کا سبب بنتا تھا۔ بیری روبین نامی ایک
امریکی جتزیہ کار نے لکھا’’ :پہلوی دور حکومت میں ایران کے لوگوں میں مغربی ثقافت اور
تہذیب کو متعارف کرانے کے لیے اس ثقافت کے بدترین اور بیہودہ پہلوؤں کا انتخاب کیا گیا۔
امریکی فلمیں جو زیادہ تر بیہودہ تھیں ،ٹیلی ویژن کے 30فیصد سے زیادہ پروگراموں اور
سینما اسکرینوں پر قابض تھیں اور آیت اللہ مخینی نے ان فلموں کا ذکر کرتے ہوئے سنیما
اور ٹیلی ویژن کو ایران میں فحش اور عصمت فروشی پھیالنے کا سبب قرار دیا۔
| ۳ہنر
1978ء کے رمضان املبارک کے مہینے میں شیراز کے خیابان فردوسی میں منعقد ہونے والے
ٓ
شیراز ارٹ فیسٹیول میں جو فرح پہلوی کی زیر صدارت منعقد کیا گیا تھا کھلے عام مرد و
خواتین کے جنسی اختالط کے پروگرام کو عوام کےسامنے پیش کیا گیا۔ یہ فیسٹیول جو فرح
پہلوی کے بقول ایرانی فن اور فنکاروں کو عزت دینے اور پرانے اور نئے ایرانی فن کو ایرانیوں
اور غیر ملکیوں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی فنکاروں کی محایت اور ایرانیوں
کو ان کے کام کے طریقے دکھانے کے لیے ڈیزائن اور پرفارم کیا گیا تھا ،سوائے فحاشی کے اور
22
پہلوی حکومت کی کوشش تھی کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی صالحیت کو ایران کی
ثقافت کو بدلنے کے لیے استعمال کیا جائے اور ایک ایسی جگہ کو جہاں سے ثقافت اور ترقی
کو پروان چڑھنا چاہیے اسے عفت اور حیا کو تباہ کرنے کی جگہ میں تبدیل کرنے کی کوشش
کی۔ پہلوی حکومت نے رضا شاہ کے دور میں "اسکاؤٹ آرگنائزیشن" کے قیام کے ساتھ اور پھر
حممد رضا شاہ کے دور میں یوتھ پیلس اور ’’بچوں کے فکری و تعلیمی مرکز‘‘ کے قیام کے
ذریعے مذکورہ پالیسیوں اور پروگراموں کو نافذ کررہی تھی۔ لیلی امیر ارمجند جو فرح پہلو
کی پرانی سہیلیوں میں سے ایک اور دربار کی بد عنوان ترین خواتین میں سے ایک تھی اسے
’’بچوں کے فکری و تعلیمی مرکز‘‘ کی سربراہ بنائی گئی تاکہ اس ملک کے بچے ایک ایسی
خاتون کے ماحتت تعلیم حاصل کرسکیں! مشس پہلوی کی زیر سرپرستی چلنے واال لڑکیوں
کا ادارہ ’’گرلز اسکاؤٹ‘‘ کرپشن ،عصمت فروشی اور برائی کے ایک اڈے کے سوا کچھ نہ تھا۔
رضا شاہ کے دور کے ایک وزیر تعلیم جن کا نام تدین تھا ،نے ستمرب 1941ء کے بعد کہا تھا
کہ’’:وزارت ثقافت جسے رضا شاہ کے دور کے آغاز میں وزارت معارف کہا جاتا تھا ،اس طرح
بنایا گیا تھا کہ اس کا مقصد تعلیم اور ثقافت نہیں تھا۔۔۔۔ میں اسکاؤٹنگ کے خالف نہیں
ہوں۔ لیکن میں اس اسکاؤٹنگ کے خالف تھا ،جو صرف دکھاوے اور مذاق کے لیے بنایا گیا
تھا۔ میں اس بات کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ایسے نااہل
لوگوں کے حوالے کردیں جو انہیں پہاڑوں اور صحراؤں کا سیر کراتے پھرے۔ انہوں نے
سوئمنگ پول بنایا تھا جہاں لڑکیوں کو مردوں کے سامنے ننگی کیا جاتا تھا۔ جب ملک کی
عزت عوامی تاالبوں میں عوام کے سامنے تیرنا شروع کردے تو پھر وہ ملک کے کسی کام کے
نہیں رہتی ہے۔ کیوں کہ یہ عزت اور غیرت کے خالف ہے۔ یونیورسٹی کے سیسٹم میں فری
میسن کے اثر و رسوخ نے ثقافت کی تبدیلی کے مشن کو اچھی طرح سے پورا کیا۔ مثال کے
ٓ
طور پر ہوشنگ سیحون نامی گمراہ رضا کار کئی سالوں تک تہران یونیورسٹی کے ارٹ
فیکلٹی کے پروفیسر اور ڈین رہے اور نوجوان نسل کے تشخص کو مسخ کرنے کے منصوبے
ٓ ٓ
پر کام کرتا رہاہے۔ فکلیٹی اف ارٹ نے 1955ء کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پینٹنگ اور
جمسمہ سازی کے کورسز کے لیے الئیو اور حتی عریاں ماڈلز کے لیے درج ذیل فیسوں کا اعالن
کیا تھا:
23
2۔ خواتین کے چہرے کا ماڈل 100ریال فی گھنٹہ
3۔ لباس کے ساتھ مکمل جسم والی خاتون ماڈل 150ریال فی گھنٹہ
درخواست کے جواب میں اسے باحجاب لڑکیوں کو یونیورسٹی میں داخلے سے روکنے کے لیے
ٓ
ان کا مذاق اڑانے اور کالے کوے کہہ کر اوازیں کسنے اور خیمے جیسے القابات سے انہیں تنگ
ٓ
کرنے کا مشورہ دیا تھا تا کہ یا تو وہ یونیورسٹی نہ اسکیں یا سر سے چادر اتارنے پر جمبور
ہوجائیں۔
انقالب کے عمل کو خمتصرا اس طرح بیان کیا ہے :آپ ایران کی عظیم قوم نے وہی معنی
مسجھ لیا ہے جو اسالم کے آغاز میں تھا۔ جب ایران میں اس کا ابتدا مدرسہ فیضیہ سے ہوا
تو انہوں نے اسے ویران کردیا اور ہمارے کچھ جوان شہید بھی ہوئے تاہم ان کی استقامت ہی
کی وجہ سے اپنے جذبے پر کاربند رہے اور شکست کو قبول نہیں کیا۔ اسی استقامت ہی کی
وجہ سے دوسرے لوگ بھی ان سے جڑتے گئے۔ انہوں نے اسالم کی دعوتیں سنی اور ان قطروں
نے آپس میں مل کر ایک بہت بڑا سیالب پیدا کر دیا۔ اسالم کے لیے قیام ،خدا کے لیے قیام،
اسالمی مجہوریہ کے لیے قیام۔ اس قیام نے قوم کے متام طبقوں میں جڑ پکڑ لی اور متام
طبقوں کو آپس میں جوڑا اور متام صورتوں میں ایمان پایا۔ ایک روحانی تبدیلی ،ایک فکری
ُ َ
تبدیلی ،پرعزم ارادے کے ساتھ۔ متام طبقات ایک ساتھ اٹھیں اور ثابت قدم رہیں۔ "ان تقوموا
َّ
ه" خدا کے لیے کھڑا ہونا ،انفرادی اور اجتماعی طور پر۔ جب تک یہ قیام خدا کے لیے ہے،ِلل ِ
جب تک یہ احتاد باقی ہے ،مت فاتح ہو!
انقالبیوں کا اپنا قابل ستایش ثابت قدمی کے ساتھ ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی
ٓ
ارگنائزیشن) کی سخت ترین اذیتوں کا مقابلہ ،جماہدین اسالم کا 8سالہ مسلط کردہ جنگ
میں ظامل حماذ کے خالف جدوجہد اور حالیہ برسوں میں مدافعین حرم نے جو قربیاں
24
ٰ
پیش کی ہیں یہ سب کے سب امام مخینی کے مکتب میں اعلی درجے کے لوگوں کا صرف ایک
حصہ ہیں۔ یقینا ایسے عظیم اور بے لوث افراد کی تربیت اسالمی مجہوری نظام کی بہرتین
بنیاد ہی کا مرہون منت ہے۔ ایسے لوگوں کی تربیت اس قدر ضروری ہے کہ رہرب انقالب
اسالمی ایران نے اسے انقالب کے معجزے سے تعبیر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں 40 :سال بعد آپ
ایسے نوجوان مسلمان اور مومن کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے نہ امام کو دیکھا اور نہ انقالب
کو اور نہ 8سالہ مسلط کردہ جنگ کو دیکھا ہے اور نہ ہی اس دور کے انقالبی حتریک کو
ٓ
قریب سے دیکھا ہے لیکن اس کے باوجود اج بھی وہ اسی انقالبی جذبے کے ساتھ میدان عمل
میں موجود ہیں۔ وہ شہید ہمت اور خرازی اور ان جیسے عظیم شہدا کی طرح اپنے پورے
جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنی پوری ذمہ داری اور شجاعت و
بہادری کے ساتھ دمشن کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں! میں جو کہنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ
ٓ
اج کے مومن جوان بھی اپنے جذبات اور احساسات کے میدان میں انقالب اسالمی کے اوائل کے
ٓ
جوانوں سے اگر اگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔ یہ انقالب کی منو ہیں۔ یہ انقالب کا
معجزہ ہے ...شہید حججی کی شہادت اور ان کے تدفین میں لوگوں کا ہجوم موجودہ دور میں
پہلوی اور درباری خاندانوں نے جس اسالم کو پھیالنے کی کوشش کی ،وہ اتاترک اور خطے
کے دوسرے ظاملوں اور آمروں کی طرح تھا۔ لیکن امام مخینی نے انقالب کے آغاز سے ہی" ،نہ
مشرقی ،نہ مغربی ،اسالمی مجہوریہ" کی پالیسی کے ساتھ اسالم کو فروغ دینے کی کوشش
کی ،جس کے احکام جعفری مکتب فقہ کے علماء سے جاری کیے گئے؛ اس لیے مذہبی اور
س یاسی اور مساجی میدانوں میں اسالمی عبادات اور رسومات کا احیاء اور توسیع اسالمی
1۔ قومی
انقالب اسالمی کی کامیابی کے بعد ،مناز دین کا ستون کی حیثیت سے ہر شہر اور گاؤں،
یونیورسٹیوں اور اسکولوں سے لے کر دور دراز کے دیہاتوں اور شہروں تک مجاعت کے ساتھ
پڑھنے کا اہتمام کیا گیا جو دوسرے مذہبی شعائر کا بھی بنیاد بن گیا۔ حالیہ برسوں میں
ملک بھر کی تقریبا 5500مساجد میں اعتکاف کا اہتمام کیا گیا جہاں 8الکھ سے زیادہ لوگ
25
شریک ہوئے جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ جب پہلوی دور حکومت میں اعتکاف
کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اسی طرح مناز مجعہ کا قیام اور شب قدر نیز دعائے
عرفہ اور بہت ساری دوسری رسم و رواج انقالب اسالمی کے حاصل ہونے والی خالص حممدی
ایران میں خالص اسالم کی تشکیل اور انقالب کے پہلے سے بعد میں لوگوں کی تبدیلی ،خطے
کے بہت سے حق پرست اور انصاف پسند لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ لبنان میں حزب اللہ
گروپ کی تشکیل ،اسالمی انقالب اور امام مخینی کی فکر سے پیروی کرنے کا ایک مثال ہے۔
پہلوی دور میں خطے کے ممالک کو ایران سے جو نفرت تھی وہ اب شدید حمبت اور دلچسپی
میں بدل چکی ہے۔جیسا کہ عراق ،لبنان ،پاکستان ،فلسطین اور ۔۔ ممالک کے عوام۔ وہ ایران
کو اپنا سب سے بڑا حامی مسجھتے ہیں۔ "استقالل ،آزادی ،اسالمی مجہوریہ" کے نام سے ایک
نئے نظریہ کے ساتھ انقالب کے ظہور نے دنیا کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دی اور حق
کے متالشی ایک بڑی تعداد کو اسالم کے اصل تصورات سے متعارف کرایا۔ اس حقیقت کی
ایک واضح مثال افریقی ملک نائجیریا میں الکھوں لوگوں کا اسالم قبول کرنا ہے جن کے قائد
شیخ ابراہیم زکزاکی خود کو امام مخینی اور مکتب انقالب اسالمی کا مقروض مسجھتے ہیں۔
انقالب اسالمی کے سفارتی نظریے میں امن اور مظلوموں کی مدد کا فریضہ اور دنیا کے
مسلمانوں کو دمشنوں کے ظلم سے جنات دالنے کا ہدف اسرائیل کے وجود کی نفی میں بدل
گیا۔ 23جوالئی 1979ء کو امام مخینی نے ایک پیغام میں ماہ رمضان کے آخری مجعہ کو یوم
القدس قرار دیا۔ اس وقت بہت کم لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ سال بعد 80سے زائد اسالمی
اور غیر اسالمی ممالک یعنی مالئیشیا ،ہندوستان ،سنگاپور ،انڈونیشیا ،ترکی ،امریکہ ،کینیڈا،
ناروے ،آذربائیجان ،انگلینڈ ،آسٹریلیا ،جرمنی ،اسپین ،جنوبی افریقہ ،سویڈن ،وینزویال
اوردوسرے ممالک میں اس دن مظاہرے ہوں گے! امام مخینی نے اس دن کو مسئلہ فلسطین
اور اسرائیل سے ہٹ کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے :یوم القدس صرف یوم فلسطین نہیں ہے ،یہ
اسالم کا دن ہے ،یہ اسالمی حکومت کا دن ہے ،یہ وہ دن ہے جب متام ممالک میں اسالمی
مجہوریہ کا پرچم بلند ہونا چاہیے ،یہ وہ دن ہے جب سپر پاورز کو مسجھ لینا چاہیے کہ وہ
26
تیسرا | ایام شہادت اور تعطیالت کو منانے کو فروغ دینا
حسینی حتریک سے ایرانی عوام کی لگاو ان کی مخیر میں شامل رہی ہے۔ عوام نے ظلم کے
خالف بغاوت کا جو جذبہ حسینی حتریک سے سیکھا تھا اسی کے حتت بادشاہی نظام کے
مظامل کے خالف اٹھ کھڑے ہوئے۔ امام مخینی فرماتے ہیں’’ :ماہ حمرم اور صفر نے اسالم کو
زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی حتریک حمفوظ رہے تو ان
سنتوں کو زندہ رکھنا ہوگا۔‘‘ انقالب اسالمی کی عظیم الشان کامیابی کے بعد سے لے کر اب
ٓ
تک ایک الکھ سے بھی زائد اجنمنیں اس مقصد کے لیے معرض وجود میں ائی تاکہ عزاداری
امام حسین علیہ السالم اور دوسری مذہبی تقریبات اور ائمہ اہل بیت کے ایام والدت و شہادت
پہلوی دور میں لوگوں کے بہت سے وقف اور عطیات ان کی نیت اور وقف کے مقاصد کے
مطابق استعمال نہیں ہوتے تھے۔ مثال کی طور پر امام رضا علیہ السالم کے مزار اقدس کے
ٓ
نائب سربراہ کی طرف سے امریکی سفیر اور اس کی اہلیہ کے مشہد امد پر دیے گئے ضیافتی
پروگرام میں دعوت میں شریک خواتین کو جو حتفے دیے گئے ان میں سفیر کی بیوی کو
دوسرے حتفوں کے عالوہ زیورات کا ایک سیٹ جس میں ہار ،بالیاں ،سونے اور فیروزی ہیروں
سے بنی ہوئی انگوٹھی شامل تھی۔ جب سولیوان (امریکی سفیر) کی بیوی نے ان حتائف کو
قبول کرنے سے انکار کر دیا تو ان سے کہا گیا’’ :آستان قدس رضوی (امام رضا علیہ السالم کے
مزار مقدس کے انتظامیہ) کے پاس اتنی دولت ہے کہ ہمارے کئی ہزار ڈالر کے حتائف ان کی
اب ایران کے مذہبی لوگ ادارہ اوقاف پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر سال اپنی جائیدادوں اور
اثاثوں میں سے ایک قابل قدر رقم انسانی فالح و بہبود کی ترقی اور اسالم کی ترویج کے لیے
عطیہ کرتے ہیں۔ ہزاروں وقف مساجد ،ملکی سطح پر 6800تعلیمی ،تربیتی اور ثقافتی
ادارے ،طب کے شعبے کے لیے 25فیصد اثاثوں کا وقف ،ہزاروں کتب خانے جہاں سے 40
یونیورسٹیوں کے طلبا استفادہ کرتے ہیں ،یہ اسالمی مجہوریہ میں وقف اور عطیات کی
خمتلف مثالوں کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ نکتہ گزشتہ دہائی میں
وقف میں 10گنا اضافہ ہے ،جو وقف کے کلچر کو فروغ دینے میں انقالب کی کامیابی کا ثبوت
27
ہے۔ اسالمی نظام میں ایک اور قابل ذکر نکتہ خمتلف قومی اور مذہبی ایام کے موقع پر
لوگوں کی قربانیوں میں اضافہ ہے۔ اس کے عالوہ مامتی اجنموں اور خمتلف گروہوں کو کھانا
کھالنا اور خمتلف ثقافتی حتائف تقسیم کرنا اور اس قسم کے اقدامات خود اس بے ساختہ
اسالمی مجہوریہ کی زندگی کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ 5مارچ 1979ء کو امام
مخینی نے ایک ریلیف کمیٹی کے قیام کا حکم جاری کیا تاکہ حمروموں اور مظلوموں کی
محایت اور انہیں خود کفیل بنایا جا سکے۔ یہ ادارہ انقالب کے بعد قائم ہونے واال دوسرا ادارہ
ہے جو امام مخینی کے حکم سے قائم ہوا۔ لہذا یہ بانی انقالب اسالمی کی نظر میں ضرورت
مندوں کی مدد کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ ہر سال امدادی کمیٹی اور دیگر رفاہی اداروں کے
ذریعے لوگوں کی امداد کا ایک بڑا حصہ تقسیم کیا جاتا ہے اور معاشرے کا پسماندہ طبقہ
چھٹا :ائمہ معصومیں علیہم السالم اور مزاروں کی زیارت کی مقداری اور معیاری توسیع
ائمہ اہل بیت علیہم السالم کے مقدس قربوں کی زیارت کرنا لوگوں کی اسالم سے دلچسپی
اور لگن کی واضح مثالوں میں سے ایک ہے۔ شاہی جرب کے دور میں ،اگرچہ زیارت کا امکان
تھا ،زہریلے اسالم خمالف ثقافتی پروپیگنڈے اور طرح طرح کے رکاوٹوں کی وجہ سے ائمہ
اہل بیت علیہم السالم کی زیارت کم نصیب ہوتی تھی۔ انقالب اسالمی کے بعد زیارت کے لیے
مذہبی مقامات کو خصوصی اہمیت دی گئی ،اسالمی انقالب کے ظہور کے ساتھ۔ زیارت کے
لیے معامالت کو آسان بنانا ان مقامات سے لوگوں کے منفرد استقبال کی وجوہات میں شامل
ہیں۔ لوگوں کے استقبال کی شدت سے یہ اعداد و مشار سوچنے کے لیے کافی ہے کہ گزشتہ
سال تین کروڑ سے زائد زائرین امام رضا علیہ السالم کے روضہ مبارک کی زیارت کر چکے
ہیں اور ایک کروڑ سے زائد زائرین نے روضہ مبارک حضرت معصومہ قم کی زیارت کی ہے۔
اسالمی انقالب کی بدولت صرف نوروز 2017ء میں دس الکھ سے زیادہ زائرین نے حضرت شاہ
چراغ کے مزار پر حاضری دی۔ اسی طرح صرف اربعین حسینی 2017ء کے دوران تقریبا 20
28
اسالمی مجہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا سرکاری ادارہ کے پروگرام بھی دوسرے
ثقافتی اداروں کے پروگراموں کی طرح اسالمی تعلیمات پر استوار ہیں۔ جنہیں وہ مقامی
لوگوں کے ساتھ مل جل کر تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے اور بے مشار فلموں کی سیریز اور
دوسرے پروگرام تیار کرتے ہوئے متام اسالمی ممالک کے لیے ایک رول ماڈل بننے میں
کامیاب رہاہے۔ اس ادارے نے ماہ مبارک رمضان اور دیگر مذہبی مناسبتوں کےحوالے سے
خمتلف فنکارانہ پروگرام تیار کیے ہیں۔ اس وقت سیٹالئیٹ پر بے مشار بیہودہ اور نامناسب
ہیں جو ان پروگراموں کی مقبولیت اور ایرانی عوام کا دین و مذہب سے لگاو کی واضح عالمت
ہے ۔
ٓ
اٹھواں :ناموں کی تبدیلی
پہلوی دور حکومت میں حکمرانوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ملک کی قومی مذہبی ثقافت
کو مغربی ثقافت میں تبدیل کریں ۔ اس لیے وہ مغربی ممالک کی ثقافت کو فروغ دینے اور
قومی مذہبی عقائد کو تباہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ہجری مشسی
کلنڈر کو شہنشاہی کیلنڈر میں تبدیلی کی کوشش اس جدوجہد کی واضح مثالوں میں سے
ایک ہے۔ اسالمی انقالب کی عظیم الشان کامیابی کے ساتھ ہی حکمرانوں اور ذمہ داروں
ٓ
نےقومی اور مذہبی اقدار کو دوبارہ سے حبال کرنے کی کوششوں کا اغاز کیا اور پہلوی دور
حکومت کے برعکس ،جہاں طاقت اور سرداری نظام کے حتت نام رکھے جاتے تھے ،لیکن
انقالب اسالمی کے بعد اسالمی تعلیمات اور اخالقیات کے بنیاد پر نام رکھنے کا سلسلہ شروع
کیا گیا۔ مثال انقالب سے پہلے شاہ ایران کے پیدائش کے دن کو ’’فادر ڈے‘‘ کے عنوان سے
منایا جاتا تھا جب کہ انقالب کے بعد امیراملومنین امام علی علیہ السالم کے یوم والدت کو
’’فاڈر ڈے‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسی طرح 10اپریل کو شاہ کی صحت و سالمتی کے لیے یوم دعا
کے طور پر منایا جاتا تھا کیوں 10اپریل 1965ء میں وہ ایک قاتالنہ محلے میں بچ گیا تھا۔
اسی طرح 1949ء سے ہر سال 3فروری کو شاہ سے خطرہ ٹلنے کے دن کے طور پر منایا جاتا
تھا ،اسالمی انقالب کی کامیابی کے بعد ایران کے کلنڈر سے ان ایام کو حذف کرتے ہوئے
اسالمی تعلیمات کی روشنی میں روز عرفہ اور شب قدر کو روز دعا کے طور پر منائے جاتے
ہیں۔ اس کے عالوہ اس وقت زیادہ تر تعلیمی اور ثقافتی اداروں اور مراکز کے نام ائمہ اہل
29
بیت علیہم السالم ،علمائے کرام ،شہدا اور دیگر مذہبی اور دینی شخصیات کے نام پر رکھے
جاتے ہیں۔ اسی طرح انقالب سے پہلے عسکری کاروائیوں اور جنگی مشقوں کے نام جنگی
جانوروں اور درندوں کے نام پر رکھے جاتے تھے ،لیکن انقالب اسالمی کی عظیم الشان
ٰ
کامیابی کے بعد ان متام چیزوں کے ناموں کے انتخاب کے لیے اعلی انسانی اقدار کا خاص
خیال رکھا جاتا ہے۔ اسالمی انقالب نے ایام کی قدروں کا نام دے کر وقت کے عنصر کو بڑھایا
اور معاشرے میں دینی فضائل کے یاد کو زندہ کیا ہے جیسے ہفتہ بصیرت ،ہفتہ فجر ،ہفتہ
دفاع مقدس ،مظلوموں کی حتریک ،ماں کا دن ،لڑکیوں کا عاملی دن ،نوجوانوں کا عاملی دن اور
استاد کا دن وغیرہ۔
آٹھواں | راہیان نور کے کیمپوں میں اضافہ اور دفاع مقدس (مغرب اور صدام کی جانب سے
ایران کے عوام میں شہداء کا احرتام انقالب اسالمی کی بے بدیل خصوصیات میں سے ایک
ہے۔ ایرانی عوام نے اسالمی مجہوریہ کے نوخیز نظام کی حفاظت کے لیے بہت سے شہداء
پیش کیے ہیں۔ لیکن یہ فکر صرف جنگ کے وقت تک حمدود نہیں ہے اور اس جماہد قوم
باخلصوص اس کے نوجوان آج بھی قربانی اور شہادت کے جذبہ سے سرشار ہے۔ جس کے
مصادیق میں سے راہیان نور کے کیمپوں میں اضافہ ،ان کی جانب سے شہدا کی یاد میں
منعقد کیے جانے والے پروگروام ،جلسوں ،سیمینارز اور شہدا کے تدفین میں لوگوں کے
دمشن کی جانب سے ثقافتی یلغار کے مقابلے کے لیے الکھوں نوجوانوں نے عشق اور جذبے
کے ساتھ راہیان نور کے قافلے میں شامل ہوکر انقالب کی تیسری نسل کو جہاد اور شہادت کے
راستے سے بھٹکنے سے روکتے ہوئے اسے تسلسل عطا کیا ہے یہاں تک کہ دفاع مقدس کی یاد
میں منعقد کیے جانے والے پروگرواموں میں شرکت کرونے والوں کی تعداد جو 2004ء میں 4
1979ء میں ملک بهر میں مساجد کی تعداد 30ہزار سے بڑھا کر 2018میں 74ہزار 229کردی
گئی ہے۔ اسی طرح 7528امام بارگاہوں کی تعمیر اور مرمت اور ایک الکھ کے قریب مذہبی
اجنمنوں کا قیام عمل میں الیا گیا ہے ۔ اس کے عالوہ بھی بہت ساری مذہبی اجنمنیں اپنے
30
اپنے طور پر کام کررہی ہیں جن کی صحیح اعداد و مشار دستیاب نہیں ہے۔ فعال تنظیموں
کا یہ حجم ،شاہی جرب کے دور کے مقابلے میں ،لوگوں کے مذہب اور عقائد کے لیے اسالمی
اسالمی انقالب سے پہلے کے مقابلے میں ملک میں قرآنی سرگرمیوں کی مقداری اور معیاری
فروغ اور بہرتی بہت منایاں ہے۔ اسالمی انقالب سے پیدا ہونے والی قرآنی سرگرمیاں درج
ذیل ہیں:
ٓ
1۔ نئے قرآنی پروگراموں کا اغاز
4۔ پالیسی ساز اور انتظامی سطح کے متعدد قرآنی اداروں کا قیام
5۔ قرآن جمید کی 26بین االقوامی اور سینکڑوں صوبائی قرآنی منائشوں کا انعقاد
6۔ دنیا میں بولی جانے والی 130زبانوں میں قرآن جمید کے تراجم کا اہتمام
7۔ اسالمی انقالب کے بعد 200میلین کی تعداد میں قرآن جمید کی طباعت
ٓ
8۔ قرانی علوم پر 37ہزار کتب کی اشاعت
ٓ
9۔ 400سے زائد قرانی ویب سائٹ کا اجرا
10۔ قرآن ،معارف ،تالوت ،ترتیل ،اربعین وغیرہ کے ریڈیو چینلز کا قیام
13۔ خواتین کے لیے وسیع اور خصوصی قرآنی سرگرمیاں جن میں مقابلے اور حمافل شامل
ہیں۔
14۔ قرآنی کاجل اور قرآنی یونیورسٹی اور اسالمی تعلیم کا قیام؛
16۔ بہرتین قرآنی سیریز اور فلموں کی تیاری ،جیسے کہ حضرت حممد ﷺ اور حضرت یوسف
17۔ اسالمی دنیا کے سب سے بڑے قرآنی مقابلوں کا انعقاد ،یعنی اسالمی مجہوریہ ایران میں
31
ٰ
18۔ املصطفی العاملیہ یونیورسٹی کا قیام ،دنیا بھر میں 50سے زائد شاخیں
کو بہرت بنانے کی کوشش کی ہے۔ روحانیت کے میدان میں اسالمی انقالب کے اثرات نہ صرف
اہل ایران پر بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کی انفرادی زندگیوں پر بھی قابل توجہ ہیں۔ مثال
کے طور پر ،اسالمی مجہوریہ نے بچوں کے نام رکھنے کی ثقافت کو مغربی ناموں سے
اسالمی ناموں میں تبدیل کر دیا۔ ایران کے عالوہ دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے۔ 2014ء
میں انگلینڈ میں سب سے زیادہ نومولود بچوں کا نام حممد تھا۔ اسالمی مجہوریہ کا اثر صرف
انفرادی طور پر بچوں کے نام رکھنے تک ہی حمدود نہیں ہے بلکہ اس نے مذہب کو انفرادی،
اجتماعی ،مساجی میدانوں اور اہم بین االقوامی حلقوں کو بھی متاثر کردیا ہے۔ وہ دنیا جو
مطلق احلاد کی طرف بڑھ رہی تھی انقالب کے نتیجے میں اس کا رخ بدل گیا۔ اس سلسلے
میں ہم یہاں پر بعض مشہور شخصیات کے کچھ اقوال بیان کرتے ہیں’’ :جرمنی کے ایک
یونیورسٹی کے پروفیسر اور مشہور مصنف اور سیاسی مبصر پیٹر رومن شول-التور نے کہا:
اب دین و مذہب کی طرف واپسی کی حتریک شروع ہو چکی ہے۔ دنیا اسالمی انقالب کی
ایک مشہور انگریز ماہر عمرانیات انتھونی گیڈنز نے کہا :اسالمی انقالب دنیا کو مذہبیت کی
سوڈان کی اسالمی کونسل کے سربراہ حممد االمین خلیفہ نے کہا" :ایران کا اسالمی انقالب اس
پروفیسر محید موالنا نے کہا 20 :سال کے بعد جب میں اسی شعبے (کمیونیکیشن سائنسز آف
انٹرنیشنل ریلیشنز) میں لیپزگ یونیورسٹی میں ایک بڑی بین االقوامی کانفرنس میں شرکت
کے لیے مشرقی جرمنی گیا۔ وہاں ایسوسی ایشن آف کمیونیکیشن سائنسز کے 43سالوں میں
پہلی بار ایسوسی ایشن کے ممربان نے سان نکولی چرچ میں اپنی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ وہاں
ہمارے لیے ایک پادری گفتگو کرہا تھا جس نے بقول خود مشرقی جرمنی کے انقالب کی
32
نہج البالغہ کے جاپانی مرتجم اور جاپان میں اسالمی علوم کے ممتاز پروفیسر توشیو کرودا
کہتا ہے " :ایران کے اسالمی انقالب سے پہلے جاپان میں کسی بھی اسالمی موضوع پر جب
کوئی کتاب شائع ہوتی تھی تو اس کی تعداد ایک ہزار کاپی سے بھی کم ہوتی تھی ،مگر اب
خدا کا شکر ہے کہ اسالمی انقالب کے بعد جاپان میں اسالمی کتابوں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے جاپانی زبان میں اسالم کی روح اور معنویت کے بارے میں ایک
کتاب لکھی تھی جس کی ایک ماہ میں بیس ہزار سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔
امریکی ماہر عمرانیات پیٹر لڈ ِوگ برجر نے کہا :مذہب کی خواہش بنی نوع انسان میں
ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ لیکن ایرانی انقالب کے ظہور اور آیت اللہ مخینی کے افکار کا
دنیا میں ظاہر ہونا پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں میں دین کی خواہش کو بھڑکا دیا ہے اور
وہ لوگ جو اسالمی دنیا میں امام مخینی کے کردار کو نظر انداز کر رہے ہیں دنیا کے مسائل
طرف مائل ہوگئی ہے۔ ترقی کے تصور کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کے رویے کی
یکجہتی نے ان ممالک کو صرف معیشت اور صنعت میں پشرفت ہی کو ترقی قرار دیا ہے اور
اس کے نتیجے میں دوسری جہتوں پر توجہ نہیں دی جن میں خاص طور پر روحانیت بھی
شامل ہے۔ برزینسکی ،ایک مشہور امریکی نظریہ ساز اور سیاست دان نے روحانیت کی اہمیت
کا اظہار کرتے ہوئے کہا" :روحانیت کا خال ،روحانی خالی پن کی زیادہ درست تعریف ہے:
وہی روحانی خالی پن جس نے مغربی تہذیب کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا
ہے۔"
بینجمن اسپاک جو کہ ایک امریکی ماہر نفسیات ہیں ،نفسیات کے شعبے میں ان کی کچھ
کتابیں تاریخ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہیں ،امریکی معاشرے
کی مساجی صورت حال کا جتزیہ کرتے ہوئے کہا’’ :ہمارا معاشرہ روحانی اقدار کے فقدان کا
دنیا کے زیادہ آمدنی والے ممالک میں خودکشی کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی جاتی ہے۔
ممالک کی آمدنی کی سطح اور ذہنی امراض میں اضافے کے درمیان براہ راست تعلق پر عاملی
33
ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ آمدنی والے ممالک میں ذہنی
امراض کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی جاتی ہے۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف مینٹل ایلنسز کے
ذریعہ شائع کردہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے اعدادومشار کے مطابق ،امریکہ
میں ہر 5میں سے 1شخص کو ذہنی بیماری کا سامنا ہے۔ خودکشی امریکیوں نوجوانوں کی
دوسری طرف طالق کی سب سے زیادہ شرح ان ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ اس کے عالوہ،
خمتصر ازدواجی زندگی کی سب سے زیادہ شرح دنیا کے زیادہ آمدنی والے ممالک سے تعلق
رکھتی ہے۔
آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ( )OECDکی حتقیق کے مطابق 1960ء سے
2017ء تک دنیا میں طالق کی شرح میں 4گنا اضافہ شدید خاندانی حبران کی نشاندہی کرتا
ہے۔ دنیا میں طالق کا تباہ کن پھیالؤ بہت سے عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔ بالشبہ اس حتقیق
کی بنیاد پر دھوکہ اور عدم مطابقت جو کہ معاشرے کے ثقافتی ماحول اور طرز زندگی
سے شدید متاثر ہیں ،طالق کے اہم ترین عوامل مسجھے جاتے ہیں۔
ٓ
اٹھواں باب | خواتین کی حقوق
پوری تاریخ میں حکومتوں اور نظاموں نے خواتین کے بارے میں خمتلف دعوے کیے ہیں۔
لیکن ان دعووں کی درستگی کو جانچنے کے لیے ان کی کارکردگی پر توجہ دینا ضروری ہے۔
پہلوی بادشاہوں نے نہ صرف عملی طور پر عورتوں کی حیثیت پر توجہ نہیں دی بلکہ اپنی
باتوں میں بھی اپنے نقطہ نظر کا دفاع کیا اور پورے فخر کے ساتھ وہ عورت کو صرف
مردوں کی جنسی ضروریات کی تکمیل تک حمدود مسجھتے تھے۔ اسی طرح وہ خمتلف امور
میں خواتین کی کامیابی پر بھی کوئی یقین نہیں رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر 1974 ،میں
اوریانا فالچی نامی ،ایک اطالوی صحافی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ،حممد رضا شاہ نے
خواتین کے بارے میں اس طرح تبصرہ کیا’’ :مرد کی زندگی میں عورت کا مشار نہیں ہوتا،
مگر یہ کہ وہ خوبصورت اور دلربا ہو اور اس نے اپنی نسائی خصوصیات کو حمفوظ رکھا
ٓ
ہو۔ ...مت عورتوں میں تو کوئی مائیکل انژ یا باخ بلکہ یہاں تک کہ کوئی بڑا باورچی بھی
34
نہیں ہے۔ مت لوگوں کے پاس بڑی چیز نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کیا مت نے اپنی
صحافتی زندگی کے دوران کتنی ایسی خواتین کو دیکھا ہے جو کسی ملک کو چالنے کی
ایران کے اسالمی انقالب کے بانی امام مخینی نے خواتین کو ایک انسان اور ایک عظیم معلم
کے طور پر متعارف کرایا اور خواتین کی زندگی کے اس انسانی پہلو کا تعارف کراتے ہوئے
فرمایا :قرآن کریم انسان ساز ہے اور عورتیں بھی انسان ساز ہیں۔ ..قوموں سے انسان ساز
عورتوں کو چھین لیا جائے تو وہ قومیں ناکامی اور تنزلی سے دوچار ہوجائیں گی۔‘‘
انہوں نے اسالم کی تاریخ میں خواتین کے کردار کو بھر پور قرار دیا :تاریخ اسالم اس بات کی
دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عظیم خملوق کی بے پناہ عزت کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا
جا سکے کہ معاشرے میں خواتین کی ایک خاص عظمت ہے۔ مردوں سے برتر نہیں ،پھر
امام مخینی عورتوں کو مردوں کے برابر مسجھتے تھے۔ اس لیے انہیں خمتلف علمی ،ثقافتی،
سیاسی و۔۔۔غیرہ شعبوں میں حمنت سے کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے :اپنی تعلیم میں،
اخالقی فضائل اور عملی فضائل سے آراستہ ہونے کی کوشش کریں۔ آپ کو ہمارے ملک کے
مستقبل کے لیے مضبوط نوجوانوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ [معاشرتی میدانوں میں] آپ کو متام
شعبوں میں اس حد تک شامل ہونا چاہئے جس کی اسالم اجازت دیتا ہے۔[سیاسی میدانوں میں]
جس طرح مردوں کو سیاسی معامالت میں مداخلت کرنی چاہیے اور اپنے معاشرے کی
حفاظت کرنی چاہیے ،اسی طرح خواتین کو بھی مداخلت کرنی چاہیے اور معاشرے کی
حفاظت کرنی چاہیے۔ [ثقافتی میدانوں میں] اس ثقافت کو زندہ کیا جانا چاہیے اور آپ خواتین
کو بھی اسی طرح مصروف رہنا چاہیے جس طرح مرد مصروف ہیں ،جس طرح مرد علمی
رہرب معظم انقالب اسالمی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ 40برسوں کے
دوران معاشرے کے خمتلف طبقوں باخلصوص خواتین سے خمتلف مالقاتوں میں خواتین کی
شخصیت اور اس کے مقام کی فضیلت کے بارے میں متعدد بار گفتگو کی ہے۔ مثال کے طور
پر یہاں صرف ان کے ایک گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہیں :مساجی حقوق میں مرد اور عورت
کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح ذاتی اور انفرادی حقوق میں بھی مرد اور عورت
35
میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بعض خمصوص ذاتی مسائل میں عورتوں کو فوقیت دی گئی ہیں
اور بعض مسائل میں مردوں کو فوقیت دی گئی ہیں۔ یہ مردوں اور عورتوں کی فطرت پر
مبنی ہے؛ یہ اسالم ہے۔ سب سے ٹھوس ،منطقی اور عملی اصول اور حدود جو انسان صنف
اسالمی انقالب کے بعد 15سال سے زائد عمر کی خواتین میں ناخواندگی کی سطح میں
زبردست کمی واقع ہوئی اور ایران دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی سطح پر آگیا۔ اسالمی
انقالب سے پہلے پرائمری سطح میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کا اسی سطح میں
پڑھنے والے لڑکوں کا تناسب 35فیصد کے قریب تھا لیکن اسالمی انقالب کے بعد یہ تناسب
50فیصد تک پہنچ گئی جو ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان توازن اور تعلیمی انصاف
دوسری جانب اسی دوران سیکنڈری اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے
لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی اساتذہ میں
بھی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد میں منایاں اضافہ دکھائی دیتا ہے۔
حممد رضا شاہ کی جانب سے خواتین کی سرگرمیوں کو حمدود کرنے کی غرض سے غیر
سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور خیراتی اداروں پر عائد پابندیوں کے بعد چند شاہ خمالف
خفیہ تنظیموں کے عالوہ خواتین کے حقوق پر بات کرنے والی کوئی ایک تنظیم بھی باقی
نہیں رہی تھی۔ اسالمی انقالب کے بعد ،خواتین نے ثقافتی ،تعلیمی ،کاروباری ،خیراتی اور
حتی کہ حتقیقی نقطہ نظر کے ساتھ بہت سے ادارے قائم کیے ہیں ،جو اس وقت ہزاروں
مراکز اور غیر سرکاری تنظیموں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں۔ رفاہی اور غیر سرکاری
بااثر شعبوں میں سے ایک مسجھا جاتا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹوریٹ آف ویمن اینڈ فیملی افیئرز
کے اعداد و مشار کے مطابق ملک کے خمتلف صوبوں میں خواتین کے امور سے متعلق 2700
اسالمی انقالب سے پہلے پہلوی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات میں سرکاری اور قومی
سطح پر خواتین کے کھیلوں کو زیادہ جگہ حاصل نہیں تھی۔ انقالب اسالمی کی کامیابی کے
بعد 80کی دہائی کے آغاز میں خواتین کی اسپورٹس کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی خواتین کی
36
کھیلوں کی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور انہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ اسالمی
انقالب سے پہلے کھیلوں کے فعال شعبوں کی تعداد 7تھی جبکہ اسالمی انقالب کے بعد یہ
تعداد 38تک پہنچ گئی۔ کھیلوں کے کوچز کی تعداد 9سے بڑھ کر 35ہزار ہو گئی۔ فعال
ریفریز کی تعداد 7سے بڑھ کر 16ہزار ہو گئی۔ کھیل کے میدان (سٹیڈیمز) کی تعداد ایک سے
اسالمی انقالب کے بعد خواتین کی عمر کی حد 57.6سے بڑھ کر 77.1سال ہو گئی۔ خواتین
اور مرد ماہر ڈاکٹروں کا تناسب بھی 15فیصد سے بڑھ کر 40فیصد ہو گیا۔ خواتین اور مرد
اسپیشلٹ ڈاکٹروں کا تناسب 9فیصد سے بڑھ کر 30فیصدہو گیا۔ گائناکالوجی کے شعبے میں
ماہر خواتین ڈاکٹروں کا تناسب بھی 16فیصد سے بڑھ کر 98فیصد ہو گیا ہے۔ اسالمی انقالب
کے بعد زچگی کے دوران اموات کی شرح میں بھی 90فیصد کمی آئی ہے۔
دوسری جانب مغرب میں 2000ء سے 2016ء کے درمیان اس حقیقت کے باوجود کہ مردوں میں
خودکشی کی شرح بھی 21فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے ،خواتین میں اس شرح میں اضافہ
50فیصد کے قریب ہے۔ مغرب میں خودکشی کے اعداد و مشار اور مردوں کے مقابلے خواتین
کی خودکشی کی شرح میں کئی گنا اضافہ مغربی ممالک میں خواتین میں روحانیت کے
حبران کی وجہ سے پیدا ہونے والی ذہنی اور جذباتی بیماریوں میں اضافے کی نشاندہی کرتا
ہے۔
امریکہ میں 47فیصد گھرانوں کی معاشی سربراہ خواتین ہیں۔ جب کہ فرانس میں 49
فیصد اور خوشحال ملک لکسمربگ میں 59فیصد خواتین خاندانوں کی معاشی سربراہ ہیں
جو کہ مغربی ممالک میں خواتین پر بھاری معاشی ذمہ داریاں عائد کرنے کی عالمت ہے۔
اسالمی مجہوریہ ایران میں مندرجہ باال اعداد و مشار 12فیصد ہیں۔ امریکہ میں جنسی
جرائم کے روک تھام کے لیے قائم کردہ قومی ادارے کی جانب سے شائع کردہ اعداد و مشار
کے مطابق ہر 5میں سے 1امریکی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس اعداد
و مشار کے مطابق ہر 4میں سے ایک لڑکی اور ہر 6میں سے 1لڑکا 18سال کی عمر سے پہلے
جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا حصہ
بنانے والے جمرموں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق اپنے ہی خاندان سے ہوتا ہے۔
37
اسالمی انقالب کے اہداف کو مکمل طور پر
38
انصاف پر مبنی عدالتی نظام کا فقدان
بے صربی
عیش پسندی
اشرافیہ
39