You are on page 1of 39

‫چالیس سالہ ترقی‬

‫بین االقوامی اعداد و مشار کی بنیاد پر اسالمی انقالب کے چالیس سالوں کی کامیابیوں کا جائزہ‬

‫مصنفین‪ :‬سید حممد حسین راجی‪ ،‬سید حممد رضا خامتی‬

‫اردو میں ترمجہ‪ :‬خانہ فرہنگ اسالمی مجہوریہ ایران‪-‬کراچی‬

‫پیش لفظ‬
‫"سب سے اہم کام جو دمشن کرنا چاہتا ہے وہ ہے ملک کی حاالت کو غلط انداز میں پیش کرنا۔‬

‫نہ صرف دنیا کی رائے عامہ کو مائل کرنے کے لیے بلکہ خود ملک کے اندر بھی رائے عامہ‬

‫کو مائل کرنے کے لیے! وہ ایک غلط تصویر کے ذریعے ایرانی عوام کے خیاالت کو مسخ کرنے‬

‫کی کوشش کر رہے ہیں‪ :‬ایران کے بارے میں ایک غلط تصویر‪ ،‬اپنے بارے میں ایک غلط‬

‫تصویر‪ ،‬اور خطے کی صورحتال کے بارے میں ایک غلط تصویر۔"‬

‫رہرب معظم انقالب اسالمی حضرت امام خامنہ ای کے حالیہ بیانات کے مطابق دمشن کا سب‬

‫سے اہم کام اور بنیادی منصوبہ ایران اور دنیا کے حاالت کو رائے عامہ میں غلط طریقے سے‬

‫پیش کرنا ہے۔ دمشن کے اس پروگرام کا مقصد اسالمی مجہوریہ ایران کے حاالت کو تاریک‬

‫اور مایوس کن پیش کرنا اور دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک باخلصوص امریکہ کے حاالت‬

‫کو روشن اور مثالی بنا کر پیش کرنا ہے تا کہ عوام الناس ان مشکل حاالت سے نکلنے کے لیے‬

‫مغربی ممالک کی طرز پر ترقی کی جانب گامزن ہوسکیں اور ترقی کے لیے ضروری دولت‬

‫اور ٹیکنالوجی کی عدم دست یابی کی وجہ سے طاقت اور دولت کے مراکز میں کسی ایک‬

‫باخلصوص ریاستہائے متحدہ امریکہ پر احنصار کرنے پر جمبور ہوسکیں۔ اس کا یہ مطلب‬

‫ہے کہ اسالمی مجہوریہ ایران کے دمشنوں نے اسالمی مجہوریہ کی آزادی کو نشانہ بنایا ہے‬

‫‪1‬‬
‫اور وہ چاہتے ہیں کہ اسالمی مجہوریہ ایران کو گلوبل ولیج میں ایک فرمانربدار شہری بنا‬

‫کر اسالمی ایران کو عاملی سامراج کی گرفت میں لئے جائیں۔‬

‫اس فکری چیلنج سے منٹنے کے لیے ضروری ہے کہ عاملی برادری کے قبول کردہ اعداد و مشار‬

‫سے استفادہ کرتے ہوئے انقالب اسالمی کی چالیس سالہ تاریخ کا سابقہ (پہلوی) حکومت کی‬

‫تاریخ نیز دنیا کے دوسرے ممالک خصوصا بظاہر ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کیا جائے‬

‫تا کہ عاملی میڈیا کی جانب سے ایران کے اسالمی انقالب کے خالف نفسیاتی جنگ کے لیے‬

‫جو غلط تصویر پیش کی گئی ہے اسے بے نقاب کر سکیں۔ قرآن کریم نے بھی اہل کتاب سے‬

‫ان کی حتریف شدہ کتابوں پر حبث کرتے ہوئے پیغمرب اکرمﷺ کی سچائی کو ثابت کیا ہے۔ اس‬

‫کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن نے ان حتریف شدہ کتابوں کے متام مواد کو قبول کر لیا ہے‬

‫اور انہیں مکمل طور پر درست قرار دیا ہے۔ اس بنا پر اسالمی مجہوریہ کی ترقی کے‬

‫جائزے میں بین االقوامی اشاریوں کا حوالہ دینا کسی بھی طرح سے ممالک کی ترقی کی‬

‫سطح کو جانچنے کے لیے عاملی ترقی کے اشاریوں کی تصدیق نہیں کرتا۔ ان اشاریوں پر‬

‫توجہ دینا اور ان کا استعمال صرف عاملی برادری کی رائے عامہ میں ان کی قبولیت کی وجہ‬

‫سے ہے۔‬

‫ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکس (‪ )WDI‬صرف معاشی تصورات کی بنیاد پر دنیا کے ممالک کا جائزہ‬

‫لیتا ہے اور جمموعی ملکی پیداوار (‪ )GDP‬اور جمموعی قومی آمدنی (‪ )GNI‬میں اضافے کو‬

‫ممالک کی ترقی کا مرکز بناتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں‪ ،‬اگر کسی ملک کے خمتلف حصے جن‬

‫میں تعلیم‪ ،‬ثقافت‪ ،‬خارجہ پالیسی‪ ،‬ملکی پالیسی‪ ،‬فوجی طاقت اور دیگر شعبے شامل ہیں‪،‬‬

‫جمموعی قومی پیداوار کو بڑھانے کے لیے کام کریں تو وہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔‬

‫ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس‪ ،‬جسے اقوام متحدہ کے نزدیک معاشروں کی بہبود کا جائزہ لینے‬

‫کے لیے مسجھا جاتا ہے‪ ،‬یہ صرف فی کس جمموعی قومی آمدنی کو لوگوں کی بہبود کا تعین‬

‫کرنے واال مسجھتا ہے‪ ،‬قطع نظر اس کے کہ اسے کس طرح تقسیم کیا جاتا ہے اور تعلیم کے‬

‫سالوں کی تعداد اور متوقع عمر کیا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ ملک کے خمتلف ثقافتی‪ ،‬سیاسی‬

‫اور امن سے امور کو ہی ملکی معیشت کا حمور قرار دینا اور معاشروں کی فالح و بہبود کے‬

‫حوالے سے بعض اہم مسائل جیسے عدل و انصاف‪ ،‬خاندان‪ ،‬اخالقیات اور روحانیت وغیرہ پر‬

‫توجہ نہ دینا کسی بھی حلاظ سے اسالمی انقالب کے نظریات سے میل نہیں کھاتا ہے اور اب‬

‫‪2‬‬
‫تک ان غلط اعداد و مشار کی بنیاد پر مغروبی معاشروں کا ناقابل تالفی نقصانات پہنچایا‬

‫ہے۔‬

‫اس نکتے کا تذکرہ ضروری ہے کہ انقالب کی کامیابیوں کو بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے‬

‫کہ اسالمی مجہوریہ ایران ان ‪ 40‬سالوں میں مسائل سے آزاد ہو گیا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب‬

‫یہ ہے کہ وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اپنے نظریات کے قریب ہو گیا ہے۔ اگرچہ بعض‬

‫اوقات اس کی حرکت کی رفتار کم ہوگئی ہے لیکن اس کی وجوہات کتاب کے آخری باب میں‬

‫خمتصرا بیان کی گئی ہیں۔‬

‫پہال باب | آزادی‬


‫پہلوی حکومت کی سب سے منایاں خصوصیات میں سے ایک‪ ،‬غیر ملکی حکومتوں باخلصوص‬

‫امریکہ پر مکمل احنصار تھا؛ جبکہ انقالب کے بعد ملک کی آزادی‪ ،‬خودخمتاری اور عالقائی‬

‫ساملیت اسالمی مجہوریہ ایران کے آئین کے اہم اصولوں میں شامل کیاگیا ہے؛ اسالمی انقالب‬

‫کی فتح کے بعد آزادی کے اصول کو ایسی عزت اور وقار عطا کیا گیا کہ اسالم کے اصولوں کے‬

‫ساتھ ساتھ آزادی کے اصول‪ ،‬اسالمی مجہوریہ کے آئین میں ناقابل تنسیخ اصول کے طور پر‬

‫داخل کیئے گیے اور آزادی کی حفاظت کو حکومت اور شہریوں کا اہم فریضہ بنادیاگیا۔‬

‫چنانچہ یہ اصول قوم اور حکومت کا فریضہ بننے کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست اور پالیسی کا‬

‫ایک اہم حصہ بھی بن چکے ہیں۔ اسالمی مجہوریہ کے بانی کے نقطہ نظر کے مطابق‬

‫آزادی‪ ،‬انقالب کے اہم اور بنیادی اہداف میں سے ہے۔ امام مخینی کے نزدیک آزادی کے دو‬

‫پہلو ہیں۔ایک میں نفی اور دوسرے میں تائید کا عنصر ہے۔ نفی کا مطلب سامراجی تسلط‬

‫سے انکار ہے‪ ،‬جو ایک ایسی حکومت کی بنیاد فراہم کرتا ہے جو نہ تو مشرقی اور نہ ہی‬

‫مغربی بلکہ (روس اور امریکہ دونوں کے تسلط سے) آزاد ہو۔ امام مخینی نے فرمایا تھا کہ‬

‫اسالمی انقالب کے مقاصد میں سے ایک‪ ،‬اسالمی ملک سے غیروں کی اجارہ داری اور ان پر‬

‫احنصار کی جڑوں کو کاٹنا‪ ،‬استعمار کے مقابلے میں اپنی کمزوری‪ ،‬سستی اور زبون حالی کو‬

‫ختم کرنا‪ ،‬استحصال و غالمی کے راستے کو روکنا اور نو آبادیاتی شکنجوں کو توڑنا ہے۔ یعنی‬

‫‪3‬‬
‫اگر ایک لفظ میں بیان کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ امام‪ ،‬حکومت اسالمی کیلئے ہر طرح‬

‫کے غیر ملکی تسلط سے آزادی کو ضروری مسجھتے ہیں۔‬

‫پہال | سیاسی آزادی‬


‫حکومتی عہدیداروں کا انتخاب اور تقرری کسی بھی ملک کا سب سے بنیادی حق مسجھا جاتا‬

‫ہے۔ پہلوی دور میں احنصار اس قدر تھا کہ وزیر اعظم اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب براہ‬

‫راست مغربی طاقتوں کی ایما پر اجنام پاتا تھا۔ انگلستان اور امریکہ کی طرف سے مغرب پر‬

‫احنصار کرن ے والے سیاسی افراد کے انتخاب میں‪ ،‬خود رضا خان‪ ،‬حممد رضا اور دربار کے‬

‫خمتلف اہم عناصر کی تائید اور مرضی بھی شامل ہوتی تھی۔ پہلوی حکومت کا پورا دور‬

‫مغرب پر غیر مشروط احنصار کی عکاسی کرتا ہے۔ دربار ی عناصر کے کالم سے اس حقیقت‬

‫کا انکشاف پہلوی حکومت کی مغرب پر مکمل احنصار کی مستند دستاویز ہے۔ اسی تناظر‬

‫میں ملکہ پہلوی نے کہا تھا‪ :‬کبھی کبھی میں حممد رضا سے کہتی تھی‪" :‬مت ان کو برطرف‬

‫کیوں نہیں کرتے‪ ،‬یہ جانتے ہوئے کہ یہ کمینے غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔" حممدرضا کہا کرتے‬

‫تھے‪" :‬ان کو نکالنے کا کیا فائدہ؟ اگر میں انہیں نکال دیتا ہوں تو وہ درجنوں دوسرے لوگوں‬

‫کو میرے ارد گرد رکھ دیں گے۔ ان لوگوں کو رہنے دیں [تاکہ] غیر ملکی حکومتوں کے ذہنوں‬

‫میں ایران کے بارے میں خدشات پیدا نہ ہوں" وہ اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ‬

‫حممد رضا کو بھی اس مسئلے کا پہلے سےعلم تھا‪ ،‬یوں لکھتی ہے‪ :‬حممد رضا نے جمھےذاتی‬
‫ٓ‬
‫طور پر بتایا‪" :‬ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی ارگنائزیشن) کے سربراہ‪ ،‬اس کے نائب اور‬

‫دیگر سینئر افسروں کے امریکیوں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں‪ ،‬اور وہ صرف دکھاوے کیلئے‬

‫میرے پاس آتے ہیں اور جمھ سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ جب کہ اجازت حاصل کرنے سے‬

‫پہلے ہی انہوں نے امریکہ اور انگلینڈ کو مطلوبہ معلومات پہنچاچکے ہوتے ہیں۔‬

‫امریکی سینیٹ کی حتقیق کے مطابق ایران میں امریکی مشیروں کی تعداد جو ‪1972‬ء میں‬

‫‪ 16‬ہزار تھی وہ ‪1976‬ء میں بڑھ کر ‪ 24‬ہزار ہوگئی تھی۔ سینیٹ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا‬

‫ہے کہ امریکہ سے مزید ہتھیاروں کی خریداری کی وجہ سے ایران میں امریکیوں کی تعداد‬

‫‪1980‬ء تک ‪ 60‬ہزار تک پہنچ جائے گی۔ اب اسالمی انقالب کے ظہور کے ساتھ ہی دنیا کے متام‬

‫ممالک کے ساتھ ایران کے سیاسی اور فوجی احنصار کا خامتہ ہوا اور ایران کا اسٹریٹیجک نعرہ‬

‫یعنی "نہ مشرقی‪ ،‬نہ مغربی‪ ،‬صرف اسالمی مجہوریہ" کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ گئی۔‬

‫‪4‬‬
‫اسالمی مجہوریہ ایران کے عوام نے ملک کے حکام اور سیاست دانوں کے انتخاب میں آزادی‬

‫کے حقیقی معنی کو مسجھا اس لئے غیر ملکیوں کو ملک کے سیاسی معامالت میں مداخلت‬

‫کی اجازت نہیں دی۔ خارجہ تعلقات میں ایران کی آزادی بھی توجہ کے الئق ہے۔ انقالب سے‬

‫پہلے کا ایران خطے میں حمض مغربی حکومتوں کی نوکری کا کردار ادا کرتا تھا‪ ،‬اب پورے‬

‫خطے میں اور کچھ حد تک دنیا میں ایک موثر ملک کے طور پر پہچاناجاتا ہے۔ امریکن‬

‫انٹرسٹ کی رپورٹ کے مطابق ‪ 2017‬میں ایران کو دنیا کی ساتویں طاقت کے طور پر تسلیم‬

‫کیا گیا۔‬

‫دوسرا | فوجی آزادی‬


‫ہر ملک کی افواج کو اس ملک کی طاقت کا ستون مسجھا جاتا ہے۔ پہلوی بادشاہوں نے ایران‬

‫کی فوجی قوت کو مغربی ہتھیاروں کے ذریعے مضبوط کرنے کی کوشش کی اور خاص طور‬

‫پر امریکہ سے ہر قسم کے اسلحے خریدے۔ لیکن در حقیقت ایران کو اپنے خمتلف قسم کے‬

‫ہتھیار کئی گنا مہنگے داموں فروخت کر کے مغرب والوں نے اس قوم کے ذخائر کو لوٹنے کا‬

‫ارادہ کیا اور دوسری طرف ایران کو گولہ بارود کا گودام بنادیا اور خمتلف مواقع پر ایران کی‬

‫اجازت کے بغیر ہتھیاروں کو فروخت بھی کیا۔ اور بعض اوقات انہوں نے اسے اپنی مرضی سے‬

‫استعمال بھی کیا۔ مثال کے طور پر ملکہ پہلوی نے اس بارے میں کہا‪ :‬ایک دن حممد رضا نے‪،‬‬

‫جو بہت پریشان تھا‪ ،‬جمھ سے کہا‪" :‬امی جان‪ ،‬یہ سلطنت جہنم میں جائے‪ ،‬جس کا میں بادشاہ‬

‫اور سپہ ساالر ہوں‪ ،‬میرے علم میں الئے بغیر‪ ،‬وہ ہمارے طیارے ویتنام لے گئے۔ امریکیوں‬

‫نے‪ ،‬جن کی ایران میں بہت پہلے سے فوجی عمل دخل تھی‪ ،‬جب بھی ضرورت پڑی‪ ،‬ایران کے‬

‫اڈوں اور تنصیبات کو اپنی صوابدید پر استعمال کیا!" لیکن اب ایران کی فوجی طاقت‪ ،‬خطے‬

‫میں مزامحتی حماذ کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ایرانی افواج آٹھ سالہ‬

‫مسلط کردہ جنگ‪ ،‬حزب اللہ کی ‪ 33‬روزہ جنگ اور داعش کے خالف ‪ 22‬روزہ جنگ کے دوران‬

‫اپنی فوجی اور سیاسی طاقت کو استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ آج خطے میں اس ملک‬

‫کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے۔‬

‫تیسرا | معاشی آزادی‬

‫‪5‬‬
‫پہلوی کے مغرب پر احنصار کی بہت سی مثالیں ہیں۔ اس لیے ہم خمتصرا چند مثالیں بیان‬

‫کریں گے۔ ایران میں امریکی فوجی مشاورتی بورڈ کے سربراہ جنرل ولیمسن اپنے دو سالہ‬

‫مشن کے اختتام پر کہتے ہیں‪ :‬میرے خیال میں ‪ 1971‬سے ‪ 1973‬تک کے یہ دو سال‪ ،‬دو سو‬

‫سال پر حمیط تھے‪ ،‬اس دوران میں نے تقریبا ‪ 4‬ارب ڈالر کے ‪ 700‬معاہدوں پر مذاکرے کئے۔۔۔‬

‫۔ ایران اس طرح کے معاھدوں کیلئے ایک اہم مرکز تھا۔ اس ملک کو تاجروں کا بفیٹ کہا‬

‫جاتا تھا۔ یہ بفیٹ بہت عمدہ ہوتے تھے کیونکہ ان سے بہت زیادہ کاروباری فوائد حاصل‬

‫ہوتے تھے۔ مائیکل لیڈن نے یہ بھی لکھا ہے‪" :‬امریکہ نے ایرانی تیل خریدنے کے لیے جو‬

‫بھی ڈالر خرچ کیے‪ ،‬ایرانیوں نے فوجی سازوسامان اور دیگر سامان خریدنے کے لیے امریکہ‬

‫کو وہ ڈالر واپس کیے"۔ تیل پر احنصار کو کم کرنے کی پالیسی پر اسالمی مجہوریہ نے بہت‬

‫کام کیا۔ چنانچہ اسالمی حکومت اس مقصد میں روز بروز کامیاب بھی ہوتی گئی۔ اس طرح‬

‫کہ ‪ 1976‬میں ایران کی برآمدات کا تقریبا ‪ 93‬فیصد خام تیل تھا‪ ،‬جبکہ ‪ 2016‬میں‪ ،‬اسالمی‬

‫حکومت اس حصہ کو تقریبا ‪ 63‬فیصد تک کم کرنے میں کامیاب ہوئی۔‬

‫چوتھا | ثقافتی آزادی‬


‫پہلوی دور کی متام منحرف ثقافتی سرگرمیوں میں ایران کی مسلمان عوام کی شاندار ثقافت‬

‫کی تبدیلی سرفہرست تھی۔ اس عرصے کے دوران‪ ،‬مغرب کو پہلوی حکمرانوں اور درباریوں‬

‫نے لوگوں کے سامنے ایک بے مثال منونہ کے طور پر متعارف کرایا۔ مثال کے طور پر مرزا‬

‫ملکم خان جو ایران میں روشن خیالی اور جدیدیت کے بانی اور بابا سجمھے جاتے ہیں‪ ،‬اپنا‬

‫نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں "میں اتنا کہتا ہوں کہ ہم حکمرانی کے معامالت میں‬

‫کچھ بھی ایجاد نہیں کرسکتے اور نہ ہمیں خود سےایجاد کرنے کی ضرورت ہے۔ یا تو ہمیں‬

‫انگلستان کے سائنسی علوم اور جتربے کو اپنے لئے منونہ عمل بنانا چاہیے یا پھر اپنی جاہلیت‬

‫کے حصار میں خود کو بند کرنا چاہئے۔ ‪ 1962‬کی کارکردگی رپورٹ میں ایران اور امریکہ کے‬

‫درمیان ثقافتی اور تعلیمی تبادلے کے کمیشن نے‪ ،‬جو ‪ 1925‬میں حممد علی فروغی کی‬

‫سربراہی میں قائم کیا گیا تھا‪ ،‬خاص طور پر درج ذیل اہداف کا ذکر کیا ہے‪ :‬امریکہ کو ایک‬

‫مضبوط‪ ،‬مجہوری اور طاقتور ملک کے طور پر متعارف کرانا اور ایرانیوں کے لیے امریکی‬

‫اقدار اور طرز زندگی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرنا۔‬

‫‪6‬‬
‫شاہی دربار اور ملک کے بیشرت حصوں میں غیراخالقی سرگرمیوں کو فروغ دینا حکومت کے‬

‫ایجنڈے میں شامل تھا۔ اس طرح ایران میں اسالم کو مکمل ختم کرنا پہلوی کا اھم منصوبہ‬

‫تھا۔ پہلوی دور میں ایران میں بے حیائی اور بے شرمی یورپی ممالک سے بھی زیادہ تھی؛‬

‫جس کیلئے شیراز آرٹ فیسٹیول اور ہم جنس پرستوں کی شادی کی مثالیں پیش کی جاسکتی‬

‫ہیں۔ انتھونی پارسنز نے شاہ سے مالقات کے دوران شیراز آرٹ فیسٹیول میں پیش ہونے والے‬

‫نازیبا مناظر کے بارے میں اظھار خیال کرتے ہوئے بتایا‪ 1977 :‬کا شیراز آرٹ فیسٹیول‬

‫ایرانیوں کی اخالقی اقدار کی توہین کرنے والے بہت سے مناظر سے بھرپور تھا اور وہ‬

‫فیسٹول اس طرح کے اسے پہلے کے میلوں سے منفرد تھا۔ مثال کے طور پر‪ ...‬میلے میں فٹ‬

‫پاتھ پر پیش آنے والے مناظر میں سے ایک پرتشدد عصمت دری کا واقعہ تھا جو مکمل طور‬

‫پر‪ ،‬کسی شو‪ ،‬یا منایشی ڈرامے کا حصہ نہیں تھا۔ ایک مکمل برہنہ یا بغیر پتلون کا مرد‪ ،‬ایک‬

‫ایسی عورت کی عصمت دری کر رہا تھا جس کی شرٹ اس بدمعاش نے پھاڑ دی تھی۔ یہ سب‬

‫کچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اجنام پارہا تھا۔ لیکن یہ معاملہ صرف شیراز تک حمدود‬

‫نہیں رہا اور اس شو کے خالف اٹھنے واال احتجاج کا طوفان پریس اور ٹیلی ویژن تک پہنچ‬

‫گیا۔ ا س وجہ سے میں نے بادشاہ سے اس مسئلے پر بات کی اور اس سے کہا‪" :‬اگر ایسا ڈرامہ‬

‫انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں پیش کیا جاتا تو ہدایت کار اور اداکار زندہ نہ رہتے "! بادشاہ‬

‫کچھ دیر ہنستا رہا اور کچھ نہ بوال۔‬

‫لیکن اسالمی انقالب نے اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں ہی ثقافت سے مربوط امور اور‬

‫ثقافتی سرگرمیوں کو اہمیت دی۔ جامعات کو پاک کرنے کے حوالے سے ثقافتی انقالب کا آغاز‪،‬‬

‫ثقافتی انقالب کی سپریم کونسل کا قیام‪ ،‬اسالمی مجہوریہ ایران کی ثقافت کے فروغ کیلئے‬

‫موزوں کتابوں کی تصنیف وغیرہ ایرانی ثقافت کی ترویج کے لیے حکومت کے اہم اور کلیدی‬

‫اقدامات میں سے ہیں۔ اسالمی انقالب کے بعد ملک میں ثقافتی آزادی تیزی سے آگے بڑھی‬

‫ہے۔ اس انقالب کی وجہ سے ایران‪ ،‬پہلوی دور کے مغربی بے ہودہ ثقافتی حصار سے نکل کر‬

‫حالیہ برسوں میں ایک مہذب ملک میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اسالمی انقالب کے سائے میں‬

‫پروان چڑھنے والی اس ملک کی شاندار ثقافت‪ ،‬مغربی اور استعماری ممالک کے افراد کے‬

‫دلوں میں داخل ہونے میں کامیاب رہی ہے اور اس نے بہت سے دلوں کو بانی انقالب اسالمی‬

‫کے بارے میں سوچنے پر ابھارا ہے۔ ایران میں ثقافتی اثر و رسوخ پیدا کرنےاور ایرانی‬

‫‪7‬‬
‫اسالمی ثقافت کے زوال کے لیے مغربی حکومتوں کی طرف سے چالئے جانے والی خمتلف‬

‫سازشوں کا ذکر کر سکتے ہیں جن کی تفصیل ایک دستاویز میں موجود ہے جو دستاویز ‪2030‬‬

‫کہالتی ہے۔ اسالمی مجہوریہ نے مکمل حتقیق اور جتزیہ کے بعد مغربی ثقافتی اثرات کو‬

‫روکنے کیلئے اس کے نفاذ کی نہیں کی اجازت نہیں دی۔‬

‫دوسرا باب | مساجی انصاف کی ترویج‬


‫مساجی انصاف سے مراد معاشرے کے ارکان کے درمیان دولت اور قومی آمدنی کی منصفانہ‬

‫تقسیم ہے۔ مساجی انصاف کو قائم کرنے کے لیے ملک کی عوام میں "عدم مساوات " اور‬

‫"غربت " دونوں پر کنٹرول کیلئے بیک وقت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‬

‫عدم مساوات‬
‫آمدنی یا دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو مشاریاتی اشاریہ میں بیان کیا جاتا ہے۔‬

‫مشاریات میں ‪ Gini Index‬صفر اورایک یا صفر اور ایک سو کے درمیان نسبت کو ظاھر کرنے‬

‫کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ اگر ‪ Gini Index‬صفر کے برابر ہے‪ ،‬تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کی‬

‫آمدنی معاشرے کے متام افراد میں یکساں طور پر تقسیم ہورہی ہے۔ اگر ‪ Gini Index‬ایک سو‬

‫کے برابر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کی آمدنی صرف ایک شخص تک پہنچی ہے اور‬

‫باقی لوگوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے‪ ،‬اگر کسی ملک کا ‪ Gini Index‬ایک‬

‫خمصوص مدت کے دوران کم ہوتا ہے‪ ،‬تو یہ مساجی انصاف میں اضافے اور اس ملک میں‬

‫طبقاتی فرق میں کمی کی نشاندہی کرے گا۔ ہر ملک کے لیے وقت کی ایک مدت میں اس‬

‫معیار کی تبدیلیوں کا موازنہ اور جانچ کرنا طبقاتی فرق کی نشاندہی کرنے اور مساجی‬

‫انصاف کے میدان میں اس ملک کی کامیابی کے لیے موزوں معیار ہوگا۔ ‪ 2013‬میں‪ ،‬اقوام‬

‫متحدہ کے ترقیاتی پروگرام )‪ (UNDP‬کے دفرت نے دنیا میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے‬

‫موضوع پر ایک رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر ممالک میں‪ Gini Index‬میں‬

‫اضافہ ہورہا ہے جو کہ طبقاتی فاصلے میں اضافے اور مساجی انصاف سے دور ہونے کی‬

‫نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف‪ ،‬اسالمی انقالب کے بعد‪ ،‬اسالمی مجہوریہ ایران اس‬

‫قابل ہو گیا ہے کہ ‪ Gini Index‬کو ایک قابل توجہ سطح تک کم کر سکے۔ ایران میں‪ 1365 ،‬سے‬

‫‪8‬‬
‫‪ 1393‬تک ‪ Gini Index‬میں تبدیلیوں میں ‪ 8.6‬فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ جب کہ ورلڈ بینک‬

‫کے ایک مضمون کے مطابق پہلوی دور حکومت کے آخری سالوں میں ‪ Gini Index‬کی شرح‬

‫میں بے حتاشا اضافہ ہوا تھا۔‬

‫غربت‬
‫غربت کے زمرے میں‪"،‬غربت کی لکیر" کی اصطالح سے مراد آمدنی کی وہ مقدار ہے جو‬

‫معاشر ے میں کم از کم انفرادی ضروریات کو فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے‪ ،‬اور اگر وہ‬

‫مقدار افراد کے لئے میسر نہیں ہیں‪ ،‬تو ایسے افراد کو غریب تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کے‬

‫ممالک میں غربت کی سطح کو ناپنے کے لیے ورلڈ بینک نے انہیں چار گروپوں میں تقسیم‬

‫کیا ہے۔ پھر‪ ،‬ہر ایک گروپ کے لئے‪ ،‬آمدنی کی مقدار اور ممالک میں رہنے کی الگت کے‬

‫مطابق‪ ،‬یہ کم از کم انفرادی ضروریات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری روزانہ کی آمدنی‬

‫کو مدنظر رکھتا ہے‪ ،‬اور اس کی بنیاد پر‪ ،‬یہ طے کرتا ہے کہ ممالک میں غریب کتنے فیصد‬

‫ہیں۔ مذکورہ تقسیم اس طرح ہے۔‬

‫زیادہ آمدنی والے ممالک ‪ 21.7‬ڈالر )‪(High Income‬؛‬ ‫‪.1‬‬

‫متوسط سے زیادہ آمدنی والے ممالک ‪ 5.5‬ڈالر )‪(Upper Middle Income‬؛‬ ‫‪.2‬‬

‫متوسط سے کم آمدنی والے ممالک ‪ 3.2‬ڈالر )‪(Lower Middle Income‬؛‬ ‫‪.3‬‬

‫کم ترین آمدنی والے ممالک ‪ 1.9‬ڈالر )‪(Low Income‬؛‬ ‫‪.4‬‬

‫اس درجہ بندی میں ایران دوسرے گروپ میں شامل ہے‪ ،‬یعنی اوسط سے زیادہ آمدنی والے‬

‫ممالک میں۔ عاملی بینک کی دستاویزات کے مطابق ‪ 1977‬میں ایران کے تقریبا ‪ 60‬فیصد دیہی‬
‫ٰ‬
‫اور ‪ 30‬فیصد شہری آبادی اور دیہی آبادی کے اعلی تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے‪ ،‬ایران کی‬

‫کل آبادی کا تقریبا ‪ 46‬فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے تھے۔‬

‫تیسرا باب | عوامی مفادات کی توسیع‬

‫‪9‬‬
‫‪ 1969‬میں ایران کے حاالت و واقعات پر ایک نظر ڈالنے سے لوگوں کی زندگی اور فالح و بہبود‬

‫کی سطح کو مسجھنا ممکن ہے۔ مثال کے طور پراسداللہ علم (اس وقت کےوزیراعظم) نے ان‬

‫حاالت کی تعریف اس طرح کی ہے‪ :‬وہ ایک خوبصورت سواری تھی۔ کاش میں اکیال نہ ہوتا !‬

‫فرح آباد روڈ پر دو ٹرکوں میں تصادم کے باعث ٹریفک بالک ہو گئی۔ میں نے انتظار کیا اور‬

‫اس دوران میں نے تہران کے اس حصے میں لوگوں کی زندگیوں پرایک نظر ڈالی۔ مرکزے‬

‫روڈ کی طرف جانے والی متام گلیاں گندی اور کچی تھیں ‪ ...‬صبح کا وقت تھا اور ٹریفک پولیس‬

‫ابھی کام پر نہیں آئی تھی۔ لیکن ایک اکیال پولیس واال تھا جو مسلسل سگریٹ پی رہا تھا‬

‫اورہنگامہ آرائی کر رہا تھا اور لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا تھا جیسے وہ اپنی رعایا کی‬

‫موجودگی میں بادشاہ ہو۔ چند مرد اور چند باحجاب عورتیں بغلوں میں کپڑے دبائے محام‬

‫سے گھر کی طرف جا رہے تھے۔ ‪...‬بچوں کا ایک گروپ اردگرد مجع تھا۔ لڑکیوں نے سب نقاب‬
‫ٰ‬
‫اوڑھے ہوئے تھے۔ ہمارے معاشرے کے اعلی طبقے کے لوگ ایسے وقت پرکبھی نہیں اٹھتے‪،‬‬

‫ان کی بیٹیاں بھی سر نہیں ڈھانپتیں۔ دال بیچنے والے ٹھیلے کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا۔ گلی‬

‫کے کونے میں کچرے کے درمیان کچھ آوارہ کتے اور کچھ ننگے بچے ٹہل رہے تھے۔ ‪...‬ڈیوٹی‬

‫کرنے والے سپاہی منڈوائے ہوئے سروں‪ ،‬غیر موزوں پتلونوں اور غیر موزوں جوتوں کے ساتھ‬

‫سڑک پر چل رہے تھے اور بظاہر مجعہ کی صبح کی چھٹی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یہ‬

‫بور کرنے واال اور غمناک سین پیش کررہاتھا‪ :‬ایک ترقی پذیر معاشرے کا منظر‪ ...‬ان گلیوں‬

‫میں کسی بھی قسم کی بہرت زندگی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ عوامی مفادات کے معاملے‬

‫میں‪ ،‬کئی اشاریوں کا ذیل میں جائزہ لیا جاتا ہے‪:‬‬

‫مناسب غذا‬
‫عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق حالیہ برسوں میں ایران میں خوراک کی پیداوار کے‬

‫انڈیکس میں ‪ 4‬گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان سالوں میں‪ ،‬دیہی ترقی اور مویشیوں کی پیداوار کے‬

‫اشاریہ میں ‪ 3‬گنا اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے اعداد و مشار کے‬

‫مطابق ان سالوں میں مرغی کے گوشت کی پیداوار میں ‪ 10‬گنا اضافے کا اشارہ ملتا ہے۔ نیز‪،‬‬

‫ایران میں فی کس روزانہ فراہم کی جانے والی کیلریز کی مقدار عاملی اوسط سے زیادہ ہے۔‬

‫مچھلی اور مسندری غذا کی فی کس کھپت میں بھی ان سالوں میں ‪ 5‬گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس‬

‫عرصے کے د وران ایران میں بھوک کا عاملی انڈیکس کم ہو رہا ہے اور اس کی قدر خطے اور‬

‫‪10‬‬
‫دنیا کے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ ایران میں غذائی قلت کی وجہ سے اموات کی شرح‬

‫ان برسوں میں کافی کم ہوئی ہے اور اس کی شرح پوری دنیا کے مقابلے میں کم ہے۔‬

‫اچھی تعلیم‬
‫عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق اسالمی انقالب کے بعد ایران میں ثانوی تعلیم کی‬

‫شرح میں ‪ 88.4‬فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسالمی انقالب کے بعد سے ایران میں یونیورسٹی سے‬

‫فارغ التحصیل افراد کی تعداد میں ‪ 10‬گنا اضافہ ہوا ہے۔‬

‫صحت‬
‫متوقع زندگی کی شرح ایک مشاریاتی اشاریہ ہے جو پیش گوئی کرتا ہے کہ معاشرے میں‬

‫اوسط زندگی کی توقع کیا ہوگی‪ ،‬یا دوسرے لفظوں میں‪ ،‬اس معاشرے کا ہر فرد کتنے سال‬

‫زندہ رہنے کی توقع کر سکتا ہے۔ جیسے جیسے صحت اور عالج کے اشارے بہرت ہوں گے‪،‬‬

‫متوقع عمر بڑھے گی۔ اسالمی انقالب کے بعد متوقع عمر کا انڈیکس ‪ 50‬سال سے بڑھ کر ‪75‬‬

‫سال ہو گیا ہے۔‬

‫عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق ایران میں ‪ 5‬سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی‬

‫شرح ‪ 120‬سے کم ہو کر ‪ 15‬فی ‪ 1000‬افراد پر آ گئی ہے۔ عاملی ادارہ برائے مشاریات اور صحت‬

‫کی تشخیص کے اعداد و مشار کے مطابق ایران میں خودکشی اور فاجل کے محلوں کی شرح‬

‫عاملی اوس ط کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ نیز‪ ،‬صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے معیار کے‬

‫اشاریہ کی شرح عاملی اوسط سے جتاوز کر گئی ہے۔ عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق‬

‫ایران میں ڈاکٹروں کی تعداد میں ‪ 6‬گنا اضافہ ہوا ہے۔‬

‫پانی کی فراہمی‬
‫عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق ‪ %96‬ایرانی عوام کو پینے کے صاف پانی تک رسائی‬

‫حاصل ہے جو کہ عاملی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ پہلوی دور میں‪ 51 ،‬فیصد شہری‬

‫اور ‪ 30‬فیصد دیہی لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر تھا۔ دنیا میں سب سے سستے پینے کے‬

‫پانی کی درجہ بندی میں بھی ایران ساتویں منرب پر ہے۔‬

‫‪| ۵‬جبلی کی فراہمی‬

‫‪11‬‬
‫اس وقت ‪ %100‬ایرانی عوام کو جبلی تک رسائی حاصل ہے۔ جبکہ پہلوی دور میں جبلی تک‬

‫‪ 16%‬رسائی تھی۔ پہلوی دور کے مقابلے میں اب ایرانی دیہاتیوں کے لیے جبلی تک ‪ %100‬رسائی‪،‬‬

‫اسالمی انقالب کے بعد ایران کی پیشرفت میں سے ایک ہے۔ دنیا میں سب سے سستی جبلی‬

‫کی درجہ بندی میں بھی ایران تیسرے منرب پر ہے۔‬

‫ایندھن کی فراہمی‬
‫پہلوی دور میں صرف پانچ شہروں اور ایک گاؤں کو گیس فراہم کی جاتی تھی اور اس طرح‬

‫صرف ‪ 51‬ہزار گھرانے قدرتی گیس سے استفادہ کرتے تھے۔ جبکہ اسالمی انقالب کی کامیابی‬

‫کے ‪ 40‬ویں سال میں تقریبا ‪ 20‬ملین گھرانے جس میں ‪ 1085‬شہر اور ‪ 23205‬دیہات شامل ہیں‬

‫گیس سپالئی کے بڑے نیٹ ورک سے منسلک ہوگئے تھے۔‬

‫پٹرول اور ڈیزل کے حلاظ سے دنیا کے سستے ترین ممالک کی درجہ بندی میں ایران کا مشار‬

‫دنیا کے ٹاپ ‪ 5‬ممالک میں ہوتا ہے۔‬

‫وسائل ابالغ عامہ‬


‫انقالب کے بعد لینڈ الئن ٹیلفون تک رسائی میں بھی ‪ 16‬گنا کا اضافہ ہوا۔ عاملی بینک کے‬

‫اعداد و مشار کے مطابق ‪ 2015‬تک ایران کے ‪ %60‬لوگوں کے پاس انٹرنیٹ اور ‪ %90‬لوگوں کی‬

‫موبائل فون تک رسائی تھی۔ ایرانی مشاریاتی مرکز کی طرف سے شائع کردہ معلومات کے‬

‫مطابق ‪ 2014‬میں ‪ 99.6‬فیصد شہری گھرانوں اور ‪ 98.6‬فیصد دیہی گھرانوں نے گھر میں ٹیلی‬

‫ویژن کا استعمال کیا۔‬

‫انسانی ترقی کے اشاریے‬


‫اسالمی انقالب کے ‪ 40‬سال بعد ایران میں انسانی ترقی کے انڈیکس میں ‪ 60‬پوائنٹس کی‬

‫بہرتی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے دفرت کی طرف سے شائع کردہ ‪ 2018‬کی‬

‫انسانی ترقی کی رپورٹ کے مطابق‪ 2017 ،‬میں ایران انسانی ترقی کے حلاظ سے دنیا میں ‪60‬‬

‫ویں منرب پر تھا اور اعلی انسانی ترقی والے ممالک میں پہلے منرب پر تھا۔ جبکہ اقوام متحدہ‬

‫کے ترقیاتی پروگرام کے دفرت کی ‪ 2011‬کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ‪ 1980‬میں‬

‫ایران دنیا میں ‪ 120‬ویں منرب کم انسانی ترقی والے ممالک میں شامل تھا۔‬

‫‪12‬‬
‫چوتھا باب | عزت و اقتدار‬
‫‪ | 1‬فوجی اقتدار‬
‫پہلوی دور میں ایرانی فوج کو بااختیار بنانے کا واحد مقصد خطے میں مغربی حکومتوں‬

‫کے مفادات کی محایت کرنا تھا۔ مثال کے طور پر‪ 24 ،‬جنوری ‪ 1977‬کو نیوز ویک کے ایک‬

‫رپورٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے شاہ نے کہا تھا‪ :‬اگر آپ کے پاس ایسا مضبوط ایران نہ ہو جو‬

‫آپ کی اور پورے خطے کی حفاظت کے قابل ہو‪ ،‬اور ضرورت کے وقت خلیج فارس اور‬

‫حبرہند‪ ،‬کی حفاظت کیلئے ایران موجود نہ ہو تو آپ مستقبل میں کیا کریں گے؟ کیا آپ‬

‫خطے میں ایک ملین امریکی فوجی رکھیں گے؟ کیا آپ ایک اور ویتنام بنائیں گے؟‬

‫‪ 1978‬میں‪ ،‬حممد رضا شاہ نے فرانسیسی جاسوسی ایجنسی کے سربراہ کاؤنٹ الیگزینڈر‬
‫ٰ‬
‫ڈیمارانیش سے مالقات میں دعوی کیا‪" :‬میں دنیا کے اس حصے میں مغرب کے خالف دفاع‬

‫کا بہرتین ذریعہ ہوں۔ "امریکہ میں رچرڈ نکسن کے دور اقتدار کے بعد انہوں نے مشرق‬
‫ٰ‬
‫وسطی میں دو طرح کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس منصوبے کا ہدف یہ تھا کہ ایران اور عرب‬
‫ٰ‬
‫دو ستونوں کے طور پر مشرق وسطی میں امریکہ کے مفادات کا حتفظ کریں گے۔ نکسن نے‬

‫اپنی کتاب میں لکھا‪ 1953" :‬سے ‪ 1979‬تک‪ ،‬حممد رضا شاہ کے دور میں‪ ،‬ایران نے خطے میں‬

‫مغرب کے سیکورٹی ستون کے طور پر کام کیا۔ نیٹو فوجی دستوں کے نائب جنرل ہیزر نے‬

‫اس بارے میں لکھا‪ :‬مغرب کے مفادات کے لیے خلیج فارس کے عالقے میں ایرانی فوجی‬

‫دستوں کی موجودگی بہت ضروری تھی۔‬

‫امریکی سفیر سلیوان نے دو سفیروں کی یادداشتوں کی کتاب میں لکھا ہے‪" :‬ایران میں امریکی‬

‫فوجی مشن اور دنیا کے دیگرممالک میں فوجی مشن کے درمیان فرق یہ تھا کہ ایران میں‬

‫موجود امریکی فوجیوں کو درحقیقت ایرانی فوج میں مشار کیا جاتا تھا۔ امریکی مسلح‬

‫افواج‪ ...‬مشیر اور کارکن جو ایرانی مسلح افواج کے ساتھ مامور تھے ان کو ایرانی حکومت کی‬

‫طرف سے ادائیگی کی جاتی تھی‪ :‬ان کی تنخواہیں اور مراعات‪ ،‬سفری اخراجات‪ ،‬اور ان کے‬

‫بچوں کی تعلیم کے اخراجات ایرانی حکومت فراہم کرتی تھی‪ ،‬اور جو نشانات ان کی وردیوں‬

‫پر لگے ہوتے تھے ان کی وجہ سے انہیں ایرانی مسلح افواج کا رکن مسجھا جاتاتھا۔ ‪ 1975‬کے‬

‫وسط تک تقریبا ‪ 35‬ہزارغیر ملکی صرف تہران میں رہ رہے تھے‪ ،‬ان میں سے زیادہ تر‬

‫‪13‬‬
‫ٹیکنیشن‪ ،‬منیجر‪ ،‬کنسلٹنٹ یا غیر ملکی کمپنیوں کے منائندے تھے اور ان میں سے اکثر کا‬

‫تعلق فوج سے تھا۔ امریکی تکنیکی ماہرین ہر ماہ ‪ 12,500‬ڈالر تک کماتے تھے۔ ‪ 1975‬میں‬

‫تقریبا ‪ 20‬ہزار امریکی فوجی مشیر ایران میں تھے۔‬

‫افرادی قوت فوجی طاقت کا سب سے اہم جزو ہے۔ ایک موثر افرادی قوت کی دو خصوصیات‬
‫ٰ‬
‫ہوتی ہیں‪ :‬اعلی تعلیم و بهرتین تربیت۔ ایک موثر افرادی قوت وسائل کی عدم موجودگی‬

‫میں بھی مزامحت کرے گی اور اپنی کوششوں سے فتوحات حاصل کرے گی۔ یہ قوت مقدس‬

‫مقام (ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ) کے دفاع اور ہماری طرح دیگرمزامحتی‬

‫ممالک کے دفاع میں کئی بار استعمال ہوئی ہے۔ افرادی طاقت کی اہمیت اس وقت ظاہر‬

‫ہوتی ہے جب انسان موت کے قریب ہوتا ہے۔ اس صورت میں‪ ،‬اگر اس کے پاس حوصلہ نہیں‬

‫ھوگا‪ ،‬تو وہ میدان جنگ سے فرار کرے گا‪ .‬اسالمی مجہوریہ ایران کی افواج نے انقالب کی‬

‫برکت اور جذبہ شہادت کے ذریعے میدان جنگ میں خون کے آخری قطرے تک استقامت کی‬

‫شکل میں اس طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔‬

‫دفاع مقدس کے قیمتی جتربے نے حقیقی جنگ کے منظرنامے میں خمتلف فوجی ساز و‬

‫سامان سے آگهی اور استعمال کا ایک موزوں موقع فراهم کیا۔ اس منظرنامے نے ملک میں‬

‫موجود سائنس اورٹیکنالوجی کے امکانات اور وسایل کو اپنے اقتصادی شرایط کے اندر ملک‬

‫کے اسلحہ سازی کے روڈ میپ کو مرتب کرنے میں موثر کردار ادا کیا۔ اس روڈ میپ کے‬

‫ڈیزائنرز کی ذہانت کا انکشاف حالیہ برسوں میں اس وقت ھوا جب اسالمی مجہوریہ کی‬

‫افواج کو خمتلف قسم کے فوجی خطرات سامنا ھوا۔ خود کفالت اور دمشن کے ساتھ فوجی‬

‫تصادم کے مقابلے دفاع کی صالحیت رکھنے والے آالت تک رسائی ملک پر دمشن کے براہ راست‬

‫محلے کو روکتی ہے۔ بیلسٹک اور کروز میزائلوں‪ ،‬ڈرونز‪ ،‬فضائی دفاعی‪ ،‬چھوٹی آبدوزوں‪ ،‬تیز‬

‫رفتار بوٹس اور دیگر فوجی ساز و سامان کی ٹیکنالوجی کا حصول اور پیداوار اسالمی انقالب‬

‫کے بعد ایران کی فوجی کامیابیوں کا حصہ ہے اور یہ ایران کی فوجی عزت اور اختیار کو‬

‫ظاہر کرتا ہے۔‬

‫ایک نکتہ جس کا ذکر ضروری ہے وہ ایران کا دفاعی جبٹ ہے۔ یہ حیرت انگیز کامیابیاں‬

‫دیگر ممالک کے مقابلے میں کم جبٹ سے حاصل کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم سعودی‬

‫عرب کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ نیچے دیے گئے خاکے کے مطابق؛ سعودی عرب کا دفاعی جبٹ‬

‫‪14‬‬
‫ایران کے مقابلے میں تقریبا ‪ 7‬گنا زیادہ ہے۔ یہ ملک اپنے دفاعی جبٹ کا زیادہ تر حصہ‬

‫دوسرے ممالک خصوصا امریکہ سے ساز و سامان خریدنے پر خرچ کرتا ہے۔ ان ساز و سامان‬

‫کی خریداری سے اس ملک میں دفاعی طاقت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ‬

‫امریکی صدر نے سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے سے تعبیر کیا ہے اور امریکی حکام‬

‫کے مطابق امریکہ کی محایت کے بغیر سعودی عرب کے پاس ایران سے ایک ہفتہ سے زیادہ‬

‫مزامحت کرنے کی صالحیت نہیں ہوگی۔‬

‫‪ | 2‬خطے میں اقتدار‬


‫انقالب سے پہلے‪ ،‬ایران خطے میں امریکی پولیس مین کے طور پر جانا جاتا تھا۔ خطے کے‬

‫بہت سے واقعات میں یہ صرف امریکہ کے مددگار کا کردار ادا کرتا تھا۔ جیسا کہ ‪ 1973‬اور‬

‫‪ 1974‬کے درمیان عمان میں فوجی دستے بھیجے گئے‪ ،‬جس پر ‪ 2018‬میں ڈالر کی قدر کے‬

‫حساب سے تقریبا ‪ 6‬بلین ڈالر الگت آئی‪ ،‬اور ‪ 200‬سے زیادہ فوجی ہالک اور ‪ 700‬زمخی ہوئے۔‬

‫اس طرح روس نواز جنوبی یمن کے خالف امریکی نواز مشالی یمن کی حکومت کی مدد‪،‬‬

‫امریکہ کے تعاون سے جنوبی ویتنام کی مدد‪ ،‬روس نواز ایتھوپیا کے ساتھ جنگ میں مغرب‬

‫نواز صومالی حکومت کی محایت‪ ،‬زائراور مراکش کی امداد‪ ،‬اور انور سادات کو دی جانے والی‬

‫ایک بلین ڈالر کی امداد‪ ،‬امریکا کی طرف سے شاہ ایران کو سونپی گئی فوجی ذمہ داریوں کی‬

‫مثالیں ہیں۔‬

‫اسالمی انقالب کی فتح کے بعد مظلوموں کی مدد کے مقصد سے اسالمی مجہوریہ نے خطے‬

‫کی مظلوم قوموں اور آزادی پسند حتریکوں کی مدد کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔ انقالب‬

‫اسالمی ایران کی فتح کے ساتھ ہی اس کے نظریات اور نعرے بہت سی قوموں کی توجہ کا‬

‫مرکز بن گئے اور اس طرح ان میں سے بہت سی قوموں کی بیداری اور ان میں سامراج کے‬

‫تسلط‪ ،‬قبضہ اور سامراجی نظام کے خالف قیام کرنے کا سبب بنے۔ لبنان کی حزب اللہ کی‬

‫مدد‪ ،‬فلسطین کی آزادی کی حتریک کی مدد‪ ،‬سربوں کے خالف بوسنیائی مسلمانوں کی‬

‫محایت‪ ،‬طالبان کے خالف جنگ میں مشالی افغانستان کے احتاد کی محایت‪ ،‬حبرین کے مظلوم‬

‫عوام کی محایت اور یمن میں انصاراللہ کی محایت‪ ،‬ان مقدس اسالمی حتریکوں کے ساتھ‬

‫تعاون کی عمدہ مثالیں ہیں۔‬

‫‪15‬‬
‫حالیہ برسوں میں مغرب کی طرف سے تکفیری گروہوں کی تشکیل کے ساتھ ہی خطے کے‬

‫مظلوم عوام کے خالف وسیع پیمانے پر ظلم و جرب اور جرائم نے جنم لیا۔ داعش اور جبہۃ‬

‫النصرہ دو سرکردہ تکفیری گروہ تھے جنہوں نے شام اور عراق کے بڑے عالقوں پر قبضہ‬

‫کیا‪ ،‬الکھو ں بے گناہ لوگوں کو قتل کیا اور الکھوں لوگوں کو بے گھر کیا۔ اسالمی مجہوریہ نے‬

‫ان ممالک کی حکومتوں کی مدد سے شرپسند تکفیری گروہوں کو نیست و نابود کر دیا اور‬

‫یمن میں اس ملک کے عوامی انقالب کی محایت کرتے ہوئے خطے کے غاصب ممالک کے‬

‫محلوں کے مقابلے میں یمنی قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ عالقائی اقوام اور آزادی کی‬

‫حتریکوں کے لیے اسالمی ایران کی محایت نے اسالمی مجہوریہ میں عالقائی اقوام کی‬

‫دلچسپی اور ایران دوست مزامحتی گروپوں کی تشکیل میں اضافہ کیا ہے۔ اس مسئلے نے‬

‫دمشنوں کو ایران کی سرحدوں سے ہزاروں کلومیٹر دور اسالمی مجہوریہ کے ساتھ تصادم پر‬

‫جمبور کر دیا ہے اور کوئی عالقائی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کے حل کیلئے ایران کے‬

‫مشورے کے بغیر نتیجہ اخذ کیا جا سکے۔‬

‫پانچوان باب | انفراسٹریکچر‬


‫عمومی حالت میں‪ ،‬انفراسٹریکچر ایک دوسرے سے منسلک ملک کی تعمیراتی منصوبوں کا‬

‫نام ہے جو ایک جمموعی شکل کو تشکیل دیتے ہیں۔ یعنی یہ ایک مکمل عمارت کے ڈھانچے‬

‫کو سہارا فراہم کرتا ہے۔ ہر ملک کے لیے "انفراسٹرکچر" کی اصطالح خمتلف شعبوں کی‬

‫طرف اشارہ کرتی ہے جن میں ملک کی اقتصادی ترقی کی بنیاد ان پر منحصر ہوتی ہے۔‬

‫الف | ٹرانسپورٹیشن‬
‫‪ | ۱‬ریلوے الئن‬

‫عاملی بینک کے اعداد و مشار کے مطابق ایران میں اسالمی انقالب کے بعد ‪ 1980‬سے ‪ 2016‬تک‬

‫کے عرصے میں ریلوے الئنوں میں ‪ 2‬گنا اضافہ ہوا ہے اور ایران کو دنیا کی ریلوے الئنوں کی‬

‫درجہ بندی میں ‪ 12‬درجے ترقی دی گئی ہے۔ گزشتہ ‪ 30‬سالوں میں ایران ریلوے الئنوں کی‬

‫تعمیر کے میدان میں ‪ 27‬ویں رینک سے ‪ 15‬ویں منرب پر آگیا ہے۔ نیز عاملی بینک کے ذرائع‬

‫‪16‬‬
‫کے مطابق ایران ‪ 2016‬میں ریل الئنوں کے ذریعے سامان کی نقل و محل کے میدان میں دنیا‬

‫کے ممالک کی درجہ بندی میں ‪ 25‬درجے ترقی کرکے ‪ 31‬ویں سے چھٹے منرب پر آگیا ہے۔‬

‫‪ | ۲‬ہوائی جہاز‬

‫ایران کی ایئرالئنز کے ذریعے دنیا کے خمتلف عالقوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد‬

‫عاملی بینک کے اعداد و مشار اسالمی انقالب کے بعد ‪ 40‬سالوں کے اندر ‪ 25‬گنا اضافہ کو ظاہر‬

‫کرتے ہیں۔ گزشتہ ‪ 40‬سالوں میں ایران کی ایئر الئنز کے ذریعے منتقل ہونے والے کارگو میں‬

‫بھی ‪ 18‬گنا اضافہ ہوا ہے۔‬

‫‪ | ۳‬سڑک و شاہراہیں‬

‫ملک کی نقل و محل‪ ،‬رہائش اور شہری ترقی کی جامع مشاریاتی کتاب کے مطابق‪ ،‬ایران میں‬

‫متام سڑکوں کی ملبائی ‪ 1980‬سے ‪ 2016‬تک ‪ 4.4‬گنا بڑھ گئی ہے۔ اس عرصے کے دوران دیہی‬

‫سڑکوں کی ملبائی میں ‪ 12.5‬گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے کے دوران ملک کے موٹرویز میں ‪8‬‬

‫گنا اضافہ ہوا ہے۔‬

‫ب | سائنس و ٹیکنالوجی‬
‫اسالمی مجہوریہ میں سائنسی پیداوار ‪ /‬عاملی سائنسی ترقی میں درجہ‬

‫گزشتہ ‪ 20‬سالوں میں ایران کی سائنسی ترقی میں ‪ 36‬گنا اضافہ ہوا۔ اسکوپس‬

‫ڈیٹابیس(‪ )Scopus‬کے شائع کردہ نتائج کے مطابق اسالمی مجہوریہ ایران سے ‪ 1996‬میں‬

‫رجسٹرڈ سائنسی حتقیقی دستاویزات کی تعداد ‪ 842‬تھی اور ‪ 2017‬میں ملک میں سائنسی‬

‫دستاویزات کی تعداد بڑھ کر ‪ 54,388‬ہوگئی جو کہ اس کے مقابلے میں ‪ 64.59‬گنا اضافے کو‬

‫ظاہر کرتی ہے۔ جبکہ اس سال دنیا میں ایران کی سائینسی پوزیشن ‪ 16‬ویں منرب پر آگئی‬

‫ہے۔ اس نکتے کا تذکرہ ضروری ہے کہ دو معترب سائنسی بنیادوں ‪( New Scientist‬نیو سائنٹسٹ)‬

‫اور ‪( Science Metrix‬سائنس میٹرکس) کی رپورٹ کے مطابق اسالمی مجہوریہ ایران ‪ 1980‬سے‬

‫‪ 2009‬کے درمیان سائنسی ترقی میں ‪ 11‬گنا اضافہ کے ساتھ پہلے منرب پر ہے۔ ‪ 1996‬سے ‪2017‬‬

‫کے درمیان ‪ 20‬سالوں میں ایران کی سائنسی ترقی کی مثالیں درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫خطے میں ایران کی سائنسی ترقی ‪ 5‬ویں سے پہلے منرب پر آئی۔‬ ‫‪‬‬

‫نینو سائنسز میں؛ دنیا میں ‪ 58‬ویں سے ‪ 16‬ویں تک اپ گریڈ ہوئی۔‬ ‫‪‬‬

‫بایوکیمیکل اور بائیومالیکولر سائنسز؛ رینک ‪ 52‬سے ‪ 17‬تک ترقی دی گئی۔‬ ‫‪‬‬

‫‪17‬‬
‫ایرواسپیس سائنسز؛ دنیا میں رینک ‪ 45‬سے ‪ 11‬ویں منرب پر ترقی‬ ‫‪‬‬

‫طبیعی علوم؛ دنیا میں رینک ‪ 56‬سے ‪ 13‬ویں منرب پرترقی‬ ‫‪‬‬

‫ریاضی کے علوم؛ دنیا میں درجہ بندی ‪ 47‬سے ‪ 13‬ویں منرب پر بہرتی‬ ‫‪‬‬

‫جینیاتی سائنس اور بنیادی خلیات کی سائنس؛ دنیا میں دوسرے منرب پر‬ ‫‪‬‬

‫فارماسیوٹیکل سائنسز؛ دنیا میں درجہ بندی ‪ 49‬سے ‪ 11‬ویں منرب پرآگئی‬ ‫‪‬‬

‫‪ ‬ایجادات کی رجسٹریشن کی تعداد میں دنیا میں ‪ 38‬ویں رینک سے ‪ 7‬ویں منرب پر ترقی‬

‫چھٹا باب | صنعتی ترقی‬


‫‪ | ۱‬توانائی‬
‫کسی بھی معاشرے میں کامیابی اور ترقی کے عوامل میں سے ایک صنعت کی ترقی اور‬

‫صنعتی اور معدنی پیداوار میں اضافہ اور ان میں تنوع ہے۔ اس فصل میں‪ ،‬صنعت اور اس‬

‫کے مرکزی حمرک عنصر یعنی توانائی‪ ،‬پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ ‪2017‬ء میں ایران توانائی‬

‫کی پیداوار کے حلاظ سے دنیا کے ممالک کی درجہ بندی میں چھٹے منرب پر تھا۔ وقت کے ساتھ‬

‫فراہم کی جانے والی توانائی کی مقدار کو درست طریقے سے جانچنے میں رکاوٹوں میں سے‬

‫کسی ملک کی آبادی میں اضافہ ہے‪ ،‬جو قدرتی طور پر اس میں توانائی کی ضرورت میں‬

‫اضافے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا‪ ،‬بہرت طور پر جانچنے کے لیے کہ آیا معاشرے کے متام خمتلف‬

‫افراد کو مطلوبہ مقدار میں توانائی تک رسائی حاصل ہے یا نہیں‪ ،‬فی شخص فراہم کی‬

‫جانے والی توانائی ‪ (TPES/Capita) ،Total Primary Energy Supply per Capita‬کا استعمال کرنا‬

‫ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایران اور دنیا اور یورپی یونین میں فراہم کی جانے والی توانائی‬

‫کی ترقی کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔‬

‫جب کہ ‪1990‬ء سے ‪2016‬ء تک دنیا کے متام ممالک میں فی کس توانائی کی سپالئی ( ‪Tonne of‬‬

‫‪ "1.8 toe" ،)Oil Equivalent‬تھی اور یورپی یونین میں "‪ ،"3 toe‬اور ایران میں بھی یہ مقدار ‪"3‬‬

‫"‪ toe‬تھی۔ پہلوی دور میں خام تیل کی بڑی پیداوار کے با وجود اس وقت ہماری ریفائنری کی‬

‫پیداوار کم تھی اور ملک کا بنیادی کاروبار خام تیل کی فروخت تھا۔ ‪ 1990‬میں گیس پیدا‬

‫کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں ایران چھٹے منرب پر تھا اور ‪ 2015‬میں دنیا میں تیسرے‬

‫‪18‬‬
‫منرب پر آگیا۔ ‪ 1990‬سے توانائی کی پیداوار میں ‪ 14‬فیصد اضافے کے ساتھ‪ ،‬ایران برقی توانائی‬

‫پیدا کرنے والے ممالک کی درجہ بندی میں ‪ 10‬درجے اوپر چال گیا ہے۔ توانائی کے شعبے‬

‫میں علمی ترقی میں اسے دنیا میں ‪ 55‬ویں منرب سے ‪ 12‬ویں منرب پر ترقی دی گئی ہے۔‬

‫توانائی کے شعبے میں علمی ترقی میں ایران کو خطے میں آٹھویں سے پہلی پوزیشن پر‬

‫ترقی دی گئی ہے۔ نیوکلیئر انرجی کے میدان میں ایران دنیا میں ‪ 77‬ویں سے ‪ 12‬ویں منرب‬

‫پر آگیا ہے۔ اسالمی مجہوریہ ایران نے ایٹمی توانائی کے شعبے میں اپنے مضامین کی تعداد‬

‫‪ 1996‬میں ‪ 1‬سے بڑھا کر ‪ 2017‬میں ‪ 354‬تک پہنچا دی ہے اور اسے خطے میں ‪ 13‬ویں سے پہلے‬

‫منرب پر پہنچا دیا ہے۔ اسالمی مجہوریہ ایران نے قابل جتدید توانائی کے شعبے میں اپنے‬

‫مضامین کی تعداد ‪ 1996‬میں ‪ 9‬سے بڑھا کر ‪ 2017‬میں ‪ 1109‬کر دی ہے اور اسے خطے میں‬

‫چھٹے سے پہلے منرب پر پہنچا دیا ہے۔‬

‫‪ | ۲‬صنعت‬
‫اسٹیل کی صنعت میں؛ اسالمی مجہوریہ ایران دنیا میں ‪ 30‬ویں منرب سے ‪ 13‬ویں پر آنے میں‬

‫کامیاب ہو گیا ہے۔ سیمنٹ کی صنعت میں اسالمی مجہوریہ اپنی پیداوار میں قابل ذکر‬

‫ترقی کے ساتھ دنیا میں چوتھے منرب پر ہے۔ خوراک کی پیداوار کا اشاریہ اسالمی انقالب کے‬

‫بعد بھی ‪ 4‬گنا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ مسافر اور مال بردار گاڑیوں کی پیداواری صنعت میں‬

‫اسالمی مجہوریہ ‪ 2017‬میں شاندار ترقی کے ساتھ ‪ 19‬ویں عاملی درجہ پر پہنچ گیا ہے۔‬

‫ساتواں باب | معنوی ترقی‬


‫اسالمی نظام اور پہلوی حکومت کے در میان بنیادی فرق روحانیت اور معنویت کا ہے۔ جس‬

‫کی تفصیل یہ ہے کہ پہلوی دور حکومت میں حکمرانوں کا بنیادی ہدف دین اور مذہبیت ‪/‬‬

‫دینداری سے مقابلہ کرنا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں اسالمی نظام کا بنیادی ہدف اسالم‬

‫حممدی ﷺ کی ترویج اور فروغ دینا ہے۔ اسی طرح پہلوی دور حکومت میں حکمران اپنی‬

‫پوری طاقت سے جسم فروشی اور دوسری برائیوں کی ترویج کررہے تھے‪ .‬اس دور میں شراب‬

‫فروشی‪ ،‬جوئے خانے اور دوسری برائیوں کی محایت کی جاتی تھی۔ پہلو ی دور میں جہاں‬

‫ایک طرف بے حیائی اور عصمت فروشی کو فروغ دی جارہی تھی تو دوسری طرف روحانیت‬

‫‪19‬‬
‫اور معنویت کے خالف برسر پیکار بھی تھے‪ ،‬باخلصوص سید الشہدا امام حسین علیہ السالم‬

‫کی جمالس کے انعقاد کی بھرپور خمالفت کی جارہی تھی‪ ،‬چنانچہ حمرم کے سوگ اور عزاداری‬

‫کو چند دن حمدود کرنے کے ساتھ روحانیت او ر معنویت کی طرف پہال قدم اٹھایا گیا۔ ‪1932‬ء‬

‫میں حمرم احلرام کے حوالے سے ایک سیاح اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے‪’’ :‬اس سال شاہ نے حمرم‬

‫کی چھٹیوں کو کم کردیا ہے اور قدیم طرز روایت کے مطابق لوگوں کے اجتماعات پر بھی‬

‫پابندی عائد کردیا ہے۔ ‪1937‬ء میں وزارت داخلہ کی طرف سے ایک خفیہ نوٹی فکیشن کے‬

‫ذریعے عزاداری پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس نوٹی فکیشن میں عزاداری پر پابندی کی‬

‫وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس کا مقصد لوگوں کو توہمات سے نکال کر انہیں دور جدید کی‬
‫ٓ‬
‫تہذیب سے اشنا کرانا ہے‪ ،‬جو حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔‬

‫اس حکم نامے جاری ہونے کے بعد رضا خان کے کارندے اسے عملی جامہ پہنانے میں سرگرم‬

‫ہوگئے۔ مثال کے طور پر شہر یزد کے گورنر نے میئر کے نام ایک نوٹس میں لکھا‪ :‬جمالس‬

‫عزا کو ختم کرنا یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی عزاداری پر پابندی عائد کرنا اولین فرائض‬

‫می شامل ہے اور حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں سے توہمات کو‬
‫ٓ‬
‫دور کرتے ہوئے انہیں دور جدید کی تہذیب سے اشنا کرے۔ یہ سلسلہ پہلوی اول کے زوال اور‬

‫اس کے ماریشس جالوطنی تک جاری رہا۔ رضا خان نے اپنے اس عمل کے ذریعے تاریخ میں‬

‫اپنی ایک تلخ یاد چھوڑدیا اور ایران کے مومنین جن کے دل حضرت امام حسین علیہ السالم‬

‫اور ان کے باوفا اصحاب کے لیے ڈرکتے تھے انہیں کی یاد منانے سے روکتا رہا۔ اس دور میں‬

‫انہوں نے لوگوں کو اس قدر اذیتیں دی تھیں کہ اس کے بعد کسی کو بھی امام حسین علیہ‬

‫السالم کا مامت کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ صورحتال یہ تھی کہ چند لوگوں کے اجتماع پر‬

‫بھی پابندی عائد تھی یہاں تک کہ تین لوگ بھی کہیں بیٹھ کر نوحہ خوانی نہیں کرسکتے‬

‫تھے۔ اگر کوئی شخص کسی جملس میں شریک ہوتا تھا یا امام حسین علیہ السالم کا نام لیتا‬

‫تھا تو اس کے خالف رپورٹ دی جاتی تھی اور اسے گرفتار کیا جاتا تھا۔ کبھی ان کی داڑہی‬

‫منڈواتے تھے‪ ،‬کبھی کوڑے مارتے تھے اور کچھ مہینوں کے لیے قید بھی کرتے تھے۔ لیکن رضا‬

‫شاہ کی یہ خباثتیں ‪1942‬ء کےماہ حمرم میں اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اس نے خمتلف‬
‫ٓ‬
‫تنظیموں‪ ،‬گروہوں اور کمپنیوں کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ ماہ حمرم احلرام کے اتے ہی ہر‬

‫طرف خوشی کے شادیانے جبانا شروع کیے جائیں۔ ‪1942‬ء کے نو حمرم کی رات کو انہوں نے‬

‫‪20‬‬
‫شہر کے فحشا اور ناچ گانے والوں کو مجع کرکے کھلے ٹرکوں پر سوار ہوکر گلی حملوں میں‬

‫ناچنا شروع کیا۔‬

‫پروفیسر پیٹر ایوری‪ ،‬جو کیمربج یونیورسٹی میں ایرانی امور کے ماہر اور کنگز کاجل کے‬

‫استاد بھی ہیں‪ ،‬نے لکھا۔’’‪۱۹۴۱‬ء تک یہ بات واضح ہو گی تھی کہ قبائل کو تو شکست دی جا‬

‫سکتی ہے۔ مگر علما اپنی جگہ موجود تھے۔ شرعی قوانین کے خمالفین کے لیے ضروری تھا‬

‫کہ پہلے اس کی جگہ کوئی قانونی نظام التے اور پھر اس کے بعد دین کی جڑوں کو ہالنا‬
‫ٰ‬
‫شروع کردیتے‪ ،‬رضا شاہ نے بھی ایسا ہی کیا لہذا اس نے چاہا کہ غیر مذہبی تعلیم‪ ،‬قوم‬

‫پرستی کا پروپیگنڈہ جو اسالم سے پہلے ایران کا خاصہ تھا‪ ،‬کو لوگوں کی مذہبی وفاداری کو‬

‫کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس چیز پر اس قدر سختی کے ساتھ عمل کیا گیا کہ‬
‫ٓ‬
‫‪1936‬ء کے اواخر تک ایران قانونی نقطہ نظر سے مکمل طور پر مذہب سے ازاد ہوگیا تھا۔‬

‫حممد رضا شاہ کے دور میں اسالم کے خالف جنگ اور عصمت فروشی کا فروغ جاری رہا۔‬

‫مثال کے طور پر‪ ،‬فرح نے ماہ رمضان کے دوران تہران میں زرتشتیوں کی عاملی کانگریس کا‬

‫انعقاد کیا اور شاہی حمل میں شیمپین (فرانسیسی شراب) کے ساتھ استقبالیہ کا اہتمام کیا۔‬

‫اسالم کے خالف لڑنے کے لیے پہلوی نے مرتد بہائی فرقے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔‬

‫حممد رضا شاہ کی ساس کے بقول‪ ،‬شاہ کو ایران میں بہائی ازم کے بڑھنے اور اسالم کے خالف‬

‫ایک طاقت بننے پر کوئی اعرتاض نہیں تھا۔‬

‫پہلوی ثقافتی کارکردگی‬


‫‪ | ۱‬حتریری ثقافت‬

‫شاہ کے دور کی نشریات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اشاعتوں نے عریانیت کے‬

‫کلچر کو پھیالنے کی کوشش کی اور ان کے ذریعے معاشرے میں فحش مواد پھیالیا گیا۔ ان‬

‫میں سے اس ہفت روزہ اخبار کے فحش میگزین کا حوالہ دیا جا سکتا ہے‪ ،‬جس میں جواد‬

‫عالمیر ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے تھے اور مہرانگیز کار‪ ،‬سیامک پورزند اور آر۔ اعتمادی‬
‫ٓ‬
‫سےاجرا کیا جاتا تھا۔ ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی ارگنائزیشن)‬ ‫جیسے لوگوں کے تعاون‬

‫نےمذکورہ باال افراد کے بارے میں ‪ 13‬مئی ‪1959‬ء میں لکھا ہے کہ‪ :‬جواد عالمیر جو احتشام‬

‫السلطنہ کا بیٹا ہے جس پر چند سال قبل اپنی بھاجنی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کا الزام‬
‫ٓ‬
‫بھی لگا تھا جو اس وقت ملک میں وجودیت پسندوں کی ابادکاری کررہاتھا اور ان کی قیادت‬

‫‪21‬‬
‫کررہاتھا۔ مذکورہ شخص اخبار و میگزین بلکہ بنیادی طور پر انفارمیشن انسٹی ٹیوٹ میں‬

‫مرتجم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ جواد عالمیر کی بیوی جسم فروشی ک ذریعے اپنا گزارا‬

‫کرتی تھی۔ عالمیر جنسی طور پر بے راہ روی میں مبتال لوگوں کی درندگی کا شکار ہوا ہے۔‬
‫ٓ‬
‫اس گروہ کے ٹھکانہ تہران کے مشیران عالقہ میں ہے۔ اسی طرح جمید دوامی جو سی ائی‬
‫ٰ‬
‫اے کا ایجنٹ تھا وہ ’’زن روز‘‘ (آج کے عورت) نامی ایک فحش میگزین کا مدیر اعلی بھی تھا‬

‫جو اپنے میگزین میں ملکہ حسن کا انتخاب جیسے بیہودہ نعروں کے ذریعے نوجوان لڑکیوں‬

‫اور لڑکوں کے تشخص کو جمروح کرنے کی کوشش کررہاتھا اس لیے اس کے بعض دوست اس‬

‫کے میگزین ’’زن روز‘‘ کو کاغذ پر تصویروں کی صورت میں دکھائی گئی کوٹھے کے نام سے‬

‫یاد کرتے تھے۔‬

‫‪ | ۲‬الیکٹرانک کلچر‬

‫ایران میں ٹیلی ویژن کا آغاز ‪1958‬ء میں ہوا۔ بدقسمتی سے یہ میڈیا بھی سطحی اور بیہودہ‬

‫پروگرام نشر کرکے اپنے سامعین کو منحرف کرنے کا سبب بنتا تھا۔ بیری روبین نامی ایک‬

‫امریکی جتزیہ کار نے لکھا‪’’ :‬پہلوی دور حکومت میں ایران کے لوگوں میں مغربی ثقافت اور‬

‫تہذیب کو متعارف کرانے کے لیے اس ثقافت کے بدترین اور بیہودہ پہلوؤں کا انتخاب کیا گیا۔‬

‫امریکی فلمیں جو زیادہ تر بیہودہ تھیں‪ ،‬ٹیلی ویژن کے ‪ 30‬فیصد سے زیادہ پروگراموں اور‬

‫سینما اسکرینوں پر قابض تھیں اور آیت اللہ مخینی نے ان فلموں کا ذکر کرتے ہوئے سنیما‬

‫اور ٹیلی ویژن کو ایران میں فحش اور عصمت فروشی پھیالنے کا سبب قرار دیا۔‬

‫‪ | ۳‬ہنر‬

‫‪1978‬ء کے رمضان املبارک کے مہینے میں شیراز کے خیابان فردوسی میں منعقد ہونے والے‬
‫ٓ‬
‫شیراز ارٹ فیسٹیول میں جو فرح پہلوی کی زیر صدارت منعقد کیا گیا تھا کھلے عام مرد و‬

‫خواتین کے جنسی اختالط کے پروگرام کو عوام کےسامنے پیش کیا گیا۔ یہ فیسٹیول جو فرح‬

‫پہلوی کے بقول ایرانی فن اور فنکاروں کو عزت دینے اور پرانے اور نئے ایرانی فن کو ایرانیوں‬

‫اور غیر ملکیوں کو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی فنکاروں کی محایت اور ایرانیوں‬

‫کو ان کے کام کے طریقے دکھانے کے لیے ڈیزائن اور پرفارم کیا گیا تھا‪ ،‬سوائے فحاشی کے اور‬

‫کچھ نہیں تھا۔‬

‫‪ | ۴‬اسکول اور جامعات‬

‫‪22‬‬
‫پہلوی حکومت کی کوشش تھی کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی صالحیت کو ایران کی‬

‫ثقافت کو بدلنے کے لیے استعمال کیا جائے اور ایک ایسی جگہ کو جہاں سے ثقافت اور ترقی‬

‫کو پروان چڑھنا چاہیے اسے عفت اور حیا کو تباہ کرنے کی جگہ میں تبدیل کرنے کی کوشش‬

‫کی۔ پہلوی حکومت نے رضا شاہ کے دور میں "اسکاؤٹ آرگنائزیشن" کے قیام کے ساتھ اور پھر‬

‫حممد رضا شاہ کے دور میں یوتھ پیلس اور ’’بچوں کے فکری و تعلیمی مرکز‘‘ کے قیام کے‬

‫ذریعے مذکورہ پالیسیوں اور پروگراموں کو نافذ کررہی تھی۔ لیلی امیر ارمجند جو فرح پہلو‬

‫کی پرانی سہیلیوں میں سے ایک اور دربار کی بد عنوان ترین خواتین میں سے ایک تھی اسے‬

‫’’بچوں کے فکری و تعلیمی مرکز‘‘ کی سربراہ بنائی گئی تاکہ اس ملک کے بچے ایک ایسی‬

‫خاتون کے ماحتت تعلیم حاصل کرسکیں! مشس پہلوی کی زیر سرپرستی چلنے واال لڑکیوں‬

‫کا ادارہ ’’گرلز اسکاؤٹ‘‘ کرپشن‪ ،‬عصمت فروشی اور برائی کے ایک اڈے کے سوا کچھ نہ تھا۔‬

‫رضا شاہ کے دور کے ایک وزیر تعلیم جن کا نام تدین تھا‪ ،‬نے ستمرب ‪1941‬ء کے بعد کہا تھا‬

‫کہ‪’’:‬وزارت ثقافت جسے رضا شاہ کے دور کے آغاز میں وزارت معارف کہا جاتا تھا‪ ،‬اس طرح‬

‫بنایا گیا تھا کہ اس کا مقصد تعلیم اور ثقافت نہیں تھا۔۔۔۔ میں اسکاؤٹنگ کے خالف نہیں‬

‫ہوں۔ لیکن میں اس اسکاؤٹنگ کے خالف تھا‪ ،‬جو صرف دکھاوے اور مذاق کے لیے بنایا گیا‬

‫تھا۔ میں اس بات کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھا کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ایسے نااہل‬

‫لوگوں کے حوالے کردیں جو انہیں پہاڑوں اور صحراؤں کا سیر کراتے پھرے۔ انہوں نے‬

‫سوئمنگ پول بنایا تھا جہاں لڑکیوں کو مردوں کے سامنے ننگی کیا جاتا تھا۔ جب ملک کی‬

‫عزت عوامی تاالبوں میں عوام کے سامنے تیرنا شروع کردے تو پھر وہ ملک کے کسی کام کے‬

‫نہیں رہتی ہے۔ کیوں کہ یہ عزت اور غیرت کے خالف ہے۔ یونیورسٹی کے سیسٹم میں فری‬

‫میسن کے اثر و رسوخ نے ثقافت کی تبدیلی کے مشن کو اچھی طرح سے پورا کیا۔ مثال کے‬
‫ٓ‬
‫طور پر ہوشنگ سیحون نامی گمراہ رضا کار کئی سالوں تک تہران یونیورسٹی کے ارٹ‬

‫فیکلٹی کے پروفیسر اور ڈین رہے اور نوجوان نسل کے تشخص کو مسخ کرنے کے منصوبے‬
‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫پر کام کرتا رہاہے۔ فکلیٹی اف ارٹ نے ‪1955‬ء کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پینٹنگ اور‬

‫جمسمہ سازی کے کورسز کے لیے الئیو اور حتی عریاں ماڈلز کے لیے درج ذیل فیسوں کا اعالن‬

‫کیا تھا‪:‬‬

‫‪1‬۔ مردانہ چہرے کا ماڈل ‪ 100‬ریال فی گھنٹہ‬

‫‪23‬‬
‫‪2‬۔ خواتین کے چہرے کا ماڈل ‪ 100‬ریال فی گھنٹہ‬

‫‪3‬۔ لباس کے ساتھ مکمل جسم والی خاتون ماڈل ‪ 150‬ریال فی گھنٹہ‬

‫‪4‬۔ مرد عریاں ماڈل ‪ 200‬سے ‪ 300‬ریال فی گھنٹہ‬

‫‪5‬۔ خواتین کا عریان ماڈل ‪ 250‬سے ‪ 400‬ریال فی گھنٹہ‬


‫ٓ‬
‫‪1977‬ء کو ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی ارگنائزیشن) کے سربراہ نے مئیر کی ایک‬

‫درخواست کے جواب میں اسے باحجاب لڑکیوں کو یونیورسٹی میں داخلے سے روکنے کے لیے‬
‫ٓ‬
‫ان کا مذاق اڑانے اور کالے کوے کہہ کر اوازیں کسنے اور خیمے جیسے القابات سے انہیں تنگ‬
‫ٓ‬
‫کرنے کا مشورہ دیا تھا تا کہ یا تو وہ یونیورسٹی نہ اسکیں یا سر سے چادر اتارنے پر جمبور‬

‫ہوجائیں۔‬

‫اسالمی مجہوریہ میں روحانیت‬


‫ایران کا اسالمی انقالب دنیا میں امام مخینی کے نام اور فکر سے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے‬

‫انقالب کے عمل کو خمتصرا اس طرح بیان کیا ہے‪ :‬آپ ایران کی عظیم قوم نے وہی معنی‬

‫مسجھ لیا ہے جو اسالم کے آغاز میں تھا۔ جب ایران میں اس کا ابتدا مدرسہ فیضیہ سے ہوا‬

‫تو انہوں نے اسے ویران کردیا اور ہمارے کچھ جوان شہید بھی ہوئے تاہم ان کی استقامت ہی‬

‫کی وجہ سے اپنے جذبے پر کاربند رہے اور شکست کو قبول نہیں کیا۔ اسی استقامت ہی کی‬

‫وجہ سے دوسرے لوگ بھی ان سے جڑتے گئے۔ انہوں نے اسالم کی دعوتیں سنی اور ان قطروں‬

‫نے آپس میں مل کر ایک بہت بڑا سیالب پیدا کر دیا۔ اسالم کے لیے قیام‪ ،‬خدا کے لیے قیام‪،‬‬

‫اسالمی مجہوریہ کے لیے قیام۔ اس قیام نے قوم کے متام طبقوں میں جڑ پکڑ لی اور متام‬

‫طبقوں کو آپس میں جوڑا اور متام صورتوں میں ایمان پایا۔ ایک روحانی تبدیلی‪ ،‬ایک فکری‬
‫ُ‬ ‫َ‬
‫تبدیلی‪ ،‬پرعزم ارادے کے ساتھ۔ متام طبقات ایک ساتھ اٹھیں اور ثابت قدم رہیں۔ "ان تقوموا‬
‫َّ‬
‫ه" خدا کے لیے کھڑا ہونا‪ ،‬انفرادی اور اجتماعی طور پر۔ جب تک یہ قیام خدا کے لیے ہے‪،‬‬‫ِلل ِ‬
‫جب تک یہ احتاد باقی ہے‪ ،‬مت فاتح ہو!‬

‫پہال | خمتلف شعبوں میں عظیم لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام‬

‫انقالبیوں کا اپنا قابل ستایش ثابت قدمی کے ساتھ ساواک (نیشنل انٹیلیجنس اینڈ سیکیورٹی‬
‫ٓ‬
‫ارگنائزیشن) کی سخت ترین اذیتوں کا مقابلہ‪ ،‬جماہدین اسالم کا ‪ 8‬سالہ مسلط کردہ جنگ‬

‫میں ظامل حماذ کے خالف جدوجہد اور حالیہ برسوں میں مدافعین حرم نے جو قربیاں‬

‫‪24‬‬
‫ٰ‬
‫پیش کی ہیں یہ سب کے سب امام مخینی کے مکتب میں اعلی درجے کے لوگوں کا صرف ایک‬

‫حصہ ہیں۔ یقینا ایسے عظیم اور بے لوث افراد کی تربیت اسالمی مجہوری نظام کی بہرتین‬

‫بنیاد ہی کا مرہون منت ہے۔ ایسے لوگوں کی تربیت اس قدر ضروری ہے کہ رہرب انقالب‬

‫اسالمی ایران نے اسے انقالب کے معجزے سے تعبیر کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں‪ 40 :‬سال بعد آپ‬

‫ایسے نوجوان مسلمان اور مومن کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے نہ امام کو دیکھا اور نہ انقالب‬

‫کو اور نہ ‪ 8‬سالہ مسلط کردہ جنگ کو دیکھا ہے اور نہ ہی اس دور کے انقالبی حتریک کو‬
‫ٓ‬
‫قریب سے دیکھا ہے لیکن اس کے باوجود اج بھی وہ اسی انقالبی جذبے کے ساتھ میدان عمل‬

‫میں موجود ہیں۔ وہ شہید ہمت اور خرازی اور ان جیسے عظیم شہدا کی طرح اپنے پورے‬

‫جوش و جذبے کے ساتھ میدان میں پہنچ جاتے ہیں اور اپنی پوری ذمہ داری اور شجاعت و‬

‫بہادری کے ساتھ دمشن کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں! میں جو کہنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ‬
‫ٓ‬
‫اج کے مومن جوان بھی اپنے جذبات اور احساسات کے میدان میں انقالب اسالمی کے اوائل کے‬
‫ٓ‬
‫جوانوں سے اگر اگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔ یہ انقالب کی منو ہیں۔ یہ انقالب کا‬

‫معجزہ ہے‪ ...‬شہید حججی کی شہادت اور ان کے تدفین میں لوگوں کا ہجوم موجودہ دور میں‬

‫امام مخینی کی فکر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔‬

‫دوسرا | خالص اسالم حممدی کی ترویج‬

‫پہلوی اور درباری خاندانوں نے جس اسالم کو پھیالنے کی کوشش کی‪ ،‬وہ اتاترک اور خطے‬

‫کے دوسرے ظاملوں اور آمروں کی طرح تھا۔ لیکن امام مخینی نے انقالب کے آغاز سے ہی‪" ،‬نہ‬

‫مشرقی‪ ،‬نہ مغربی‪ ،‬اسالمی مجہوریہ" کی پالیسی کے ساتھ اسالم کو فروغ دینے کی کوشش‬

‫کی‪ ،‬جس کے احکام جعفری مکتب فقہ کے علماء سے جاری کیے گئے؛ اس لیے مذہبی اور‬

‫س یاسی اور مساجی میدانوں میں اسالمی عبادات اور رسومات کا احیاء اور توسیع اسالمی‬

‫انقالب کی پہلی اور بہت اہم نعمتوں میں سے ایک ہے۔‬

‫‪1‬۔ قومی‬

‫انقالب اسالمی کی کامیابی کے بعد‪ ،‬مناز دین کا ستون کی حیثیت سے ہر شہر اور گاؤں‪،‬‬

‫یونیورسٹیوں اور اسکولوں سے لے کر دور دراز کے دیہاتوں اور شہروں تک مجاعت کے ساتھ‬

‫پڑھنے کا اہتمام کیا گیا جو دوسرے مذہبی شعائر کا بھی بنیاد بن گیا۔ حالیہ برسوں میں‬

‫ملک بھر کی تقریبا ‪ 5500‬مساجد میں اعتکاف کا اہتمام کیا گیا جہاں ‪ 8‬الکھ سے زیادہ لوگ‬

‫‪25‬‬
‫شریک ہوئے جن میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ جب پہلوی دور حکومت میں اعتکاف‬

‫کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے۔ اسی طرح مناز مجعہ کا قیام اور شب قدر نیز دعائے‬

‫عرفہ اور بہت ساری دوسری رسم و رواج انقالب اسالمی کے حاصل ہونے والی خالص حممدی‬

‫اسالمی ثقافت کی توسیع کی مثالوں میں سے ہیں۔‬

‫‪2‬۔ بین االقوامی‬

‫ایران میں خالص اسالم کی تشکیل اور انقالب کے پہلے سے بعد میں لوگوں کی تبدیلی‪ ،‬خطے‬

‫کے بہت سے حق پرست اور انصاف پسند لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ لبنان میں حزب اللہ‬

‫گروپ کی تشکیل‪ ،‬اسالمی انقالب اور امام مخینی کی فکر سے پیروی کرنے کا ایک مثال ہے۔‬

‫پہلوی دور میں خطے کے ممالک کو ایران سے جو نفرت تھی وہ اب شدید حمبت اور دلچسپی‬

‫میں بدل چکی ہے۔جیسا کہ عراق‪ ،‬لبنان‪ ،‬پاکستان‪ ،‬فلسطین اور ۔۔ ممالک کے عوام۔ وہ ایران‬

‫کو اپنا سب سے بڑا حامی مسجھتے ہیں۔ "استقالل‪ ،‬آزادی‪ ،‬اسالمی مجہوریہ" کے نام سے ایک‬

‫نئے نظریہ کے ساتھ انقالب کے ظہور نے دنیا کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دی اور حق‬

‫کے متالشی ایک بڑی تعداد کو اسالم کے اصل تصورات سے متعارف کرایا۔ اس حقیقت کی‬

‫ایک واضح مثال افریقی ملک نائجیریا میں الکھوں لوگوں کا اسالم قبول کرنا ہے جن کے قائد‬

‫شیخ ابراہیم زکزاکی خود کو امام مخینی اور مکتب انقالب اسالمی کا مقروض مسجھتے ہیں۔‬

‫انقالب اسالمی کے سفارتی نظریے میں امن اور مظلوموں کی مدد کا فریضہ اور دنیا کے‬

‫مسلمانوں کو دمشنوں کے ظلم سے جنات دالنے کا ہدف اسرائیل کے وجود کی نفی میں بدل‬

‫گیا۔ ‪ 23‬جوالئی ‪ 1979‬ء کو امام مخینی نے ایک پیغام میں ماہ رمضان کے آخری مجعہ کو یوم‬

‫القدس قرار دیا۔ اس وقت بہت کم لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ سال بعد ‪ 80‬سے زائد اسالمی‬

‫اور غیر اسالمی ممالک یعنی مالئیشیا‪ ،‬ہندوستان‪ ،‬سنگاپور‪ ،‬انڈونیشیا‪ ،‬ترکی‪ ،‬امریکہ‪ ،‬کینیڈا‪،‬‬

‫ناروے‪ ،‬آذربائیجان‪ ،‬انگلینڈ‪ ،‬آسٹریلیا‪ ،‬جرمنی‪ ،‬اسپین‪ ،‬جنوبی افریقہ‪ ،‬سویڈن‪ ،‬وینزویال‬

‫اوردوسرے ممالک میں اس دن مظاہرے ہوں گے! امام مخینی نے اس دن کو مسئلہ فلسطین‬

‫اور اسرائیل سے ہٹ کر دیکھا ہے اور فرمایا ہے‪ :‬یوم القدس صرف یوم فلسطین نہیں ہے‪ ،‬یہ‬

‫اسالم کا دن ہے‪ ،‬یہ اسالمی حکومت کا دن ہے‪ ،‬یہ وہ دن ہے جب متام ممالک میں اسالمی‬

‫مجہوریہ کا پرچم بلند ہونا چاہیے‪ ،‬یہ وہ دن ہے جب سپر پاورز کو مسجھ لینا چاہیے کہ وہ‬

‫اسالمی ممالک میں مزید آگے نہیں بڑھ سکتے۔‬

‫‪26‬‬
‫تیسرا | ایام شہادت اور تعطیالت کو منانے کو فروغ دینا‬

‫حسینی حتریک سے ایرانی عوام کی لگاو ان کی مخیر میں شامل رہی ہے۔ عوام نے ظلم کے‬

‫خالف بغاوت کا جو جذبہ حسینی حتریک سے سیکھا تھا اسی کے حتت بادشاہی نظام کے‬

‫مظامل کے خالف اٹھ کھڑے ہوئے۔ امام مخینی فرماتے ہیں‪’’ :‬ماہ حمرم اور صفر نے اسالم کو‬

‫زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ یاد رکھیں کہ اگر چاہتے ہیں کہ آپ کی حتریک حمفوظ رہے تو ان‬

‫سنتوں کو زندہ رکھنا ہوگا۔‘‘ انقالب اسالمی کی عظیم الشان کامیابی کے بعد سے لے کر اب‬
‫ٓ‬
‫تک ایک الکھ سے بھی زائد اجنمنیں اس مقصد کے لیے معرض وجود میں ائی تاکہ عزاداری‬

‫امام حسین علیہ السالم اور دوسری مذہبی تقریبات اور ائمہ اہل بیت کے ایام والدت و شہادت‬

‫کو شایان شان طریقے سے منایا جاسکے۔‬

‫چوتھا | وقف‪ ،‬عطیات اور نذر و نیاز کی ثقافت‬

‫پہلوی دور میں لوگوں کے بہت سے وقف اور عطیات ان کی نیت اور وقف کے مقاصد کے‬

‫مطابق استعمال نہیں ہوتے تھے۔ مثال کی طور پر امام رضا علیہ السالم کے مزار اقدس کے‬
‫ٓ‬
‫نائب سربراہ کی طرف سے امریکی سفیر اور اس کی اہلیہ کے مشہد امد پر دیے گئے ضیافتی‬

‫پروگرام میں دعوت میں شریک خواتین کو جو حتفے دیے گئے ان میں سفیر کی بیوی کو‬

‫دوسرے حتفوں کے عالوہ زیورات کا ایک سیٹ جس میں ہار‪ ،‬بالیاں‪ ،‬سونے اور فیروزی ہیروں‬

‫سے بنی ہوئی انگوٹھی شامل تھی۔ جب سولیوان (امریکی سفیر) کی بیوی نے ان حتائف کو‬

‫قبول کرنے سے انکار کر دیا تو ان سے کہا گیا‪’’ :‬آستان قدس رضوی (امام رضا علیہ السالم کے‬

‫مزار مقدس کے انتظامیہ) کے پاس اتنی دولت ہے کہ ہمارے کئی ہزار ڈالر کے حتائف ان کی‬

‫نظروں میں ایک کپ کافی سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘‬

‫اب ایران کے مذہبی لوگ ادارہ اوقاف پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر سال اپنی جائیدادوں اور‬

‫اثاثوں میں سے ایک قابل قدر رقم انسانی فالح و بہبود کی ترقی اور اسالم کی ترویج کے لیے‬

‫عطیہ کرتے ہیں۔ ہزاروں وقف مساجد‪ ،‬ملکی سطح پر ‪ 6800‬تعلیمی‪ ،‬تربیتی اور ثقافتی‬

‫ادارے‪ ،‬طب کے شعبے کے لیے ‪ 25‬فیصد اثاثوں کا وقف‪ ،‬ہزاروں کتب خانے جہاں سے ‪40‬‬

‫یونیورسٹیوں کے طلبا استفادہ کرتے ہیں‪ ،‬یہ اسالمی مجہوریہ میں وقف اور عطیات کی‬

‫خمتلف مثالوں کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ نکتہ گزشتہ دہائی میں‬

‫وقف میں ‪ 10‬گنا اضافہ ہے‪ ،‬جو وقف کے کلچر کو فروغ دینے میں انقالب کی کامیابی کا ثبوت‬

‫‪27‬‬
‫ہے۔ اسالمی نظام میں ایک اور قابل ذکر نکتہ خمتلف قومی اور مذہبی ایام کے موقع پر‬

‫لوگوں کی قربانیوں میں اضافہ ہے۔ اس کے عالوہ مامتی اجنموں اور خمتلف گروہوں کو کھانا‬

‫کھالنا اور خمتلف ثقافتی حتائف تقسیم کرنا اور اس قسم کے اقدامات خود اس بے ساختہ‬

‫حتریک پر یقین کی مثالیں ہیں جس کی بنیاد عقیدے ہیں۔‬

‫پانچواں | خیرات اور خیرات کی ثقافت کی مقداری اور معیاری توسیع‬

‫اسالمی مجہوریہ کی زندگی کو ابھی ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ‪ 5‬مارچ ‪1979‬ء کو امام‬

‫مخینی نے ایک ریلیف کمیٹی کے قیام کا حکم جاری کیا تاکہ حمروموں اور مظلوموں کی‬

‫محایت اور انہیں خود کفیل بنایا جا سکے۔ یہ ادارہ انقالب کے بعد قائم ہونے واال دوسرا ادارہ‬

‫ہے جو امام مخینی کے حکم سے قائم ہوا۔ لہذا یہ بانی انقالب اسالمی کی نظر میں ضرورت‬

‫مندوں کی مدد کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ ہر سال امدادی کمیٹی اور دیگر رفاہی اداروں کے‬

‫ذریعے لوگوں کی امداد کا ایک بڑا حصہ تقسیم کیا جاتا ہے اور معاشرے کا پسماندہ طبقہ‬

‫ان اداروں کے ذمہ داروں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔‬

‫چھٹا‪ :‬ائمہ معصومیں علیہم السالم اور مزاروں کی زیارت کی مقداری اور معیاری توسیع‬

‫ائمہ اہل بیت علیہم السالم کے مقدس قربوں کی زیارت کرنا لوگوں کی اسالم سے دلچسپی‬

‫اور لگن کی واضح مثالوں میں سے ایک ہے۔ شاہی جرب کے دور میں‪ ،‬اگرچہ زیارت کا امکان‬

‫تھا‪ ،‬زہریلے اسالم خمالف ثقافتی پروپیگنڈے اور طرح طرح کے رکاوٹوں کی وجہ سے ائمہ‬

‫اہل بیت علیہم السالم کی زیارت کم نصیب ہوتی تھی۔ انقالب اسالمی کے بعد زیارت کے لیے‬

‫مذہبی مقامات کو خصوصی اہمیت دی گئی‪ ،‬اسالمی انقالب کے ظہور کے ساتھ۔ زیارت کے‬

‫لیے معامالت کو آسان بنانا ان مقامات سے لوگوں کے منفرد استقبال کی وجوہات میں شامل‬

‫ہیں۔ لوگوں کے استقبال کی شدت سے یہ اعداد و مشار سوچنے کے لیے کافی ہے کہ گزشتہ‬

‫سال تین کروڑ سے زائد زائرین امام رضا علیہ السالم کے روضہ مبارک کی زیارت کر چکے‬

‫ہیں اور ایک کروڑ سے زائد زائرین نے روضہ مبارک حضرت معصومہ قم کی زیارت کی ہے۔‬

‫اسالمی انقالب کی بدولت صرف نوروز ‪2017‬ء میں دس الکھ سے زیادہ زائرین نے حضرت شاہ‬

‫چراغ کے مزار پر حاضری دی۔ اسی طرح صرف اربعین حسینی ‪2017‬ء کے دوران تقریبا ‪20‬‬

‫الکھ ایرانیوں نے کربال کا زیارت کی۔‬

‫ساتواں | ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کا معیار اور اس کے خماطبین‬

‫‪28‬‬
‫اسالمی مجہوریہ ایران کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا سرکاری ادارہ کے پروگرام بھی دوسرے‬

‫ثقافتی اداروں کے پروگراموں کی طرح اسالمی تعلیمات پر استوار ہیں۔ جنہیں وہ مقامی‬

‫لوگوں کے ساتھ مل جل کر تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے اور بے مشار فلموں کی سیریز اور‬

‫دوسرے پروگرام تیار کرتے ہوئے متام اسالمی ممالک کے لیے ایک رول ماڈل بننے میں‬

‫کامیاب رہاہے۔ اس ادارے نے ماہ مبارک رمضان اور دیگر مذہبی مناسبتوں کےحوالے سے‬

‫خمتلف فنکارانہ پروگرام تیار کیے ہیں۔ اس وقت سیٹالئیٹ پر بے مشار بیہودہ اور نامناسب‬

‫پروگراموں کی موجودگی کے باوجود ‪ 80‬فیصد لوگ ان پروگراموں کو ذوق و شوق سے دیکھتے‬

‫ہیں جو ان پروگراموں کی مقبولیت اور ایرانی عوام کا دین و مذہب سے لگاو کی واضح عالمت‬

‫ہے ۔‬
‫ٓ‬
‫اٹھواں‪ :‬ناموں کی تبدیلی‬

‫پہلوی دور حکومت میں حکمرانوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ملک کی قومی مذہبی ثقافت‬

‫کو مغربی ثقافت میں تبدیل کریں ۔ اس لیے وہ مغربی ممالک کی ثقافت کو فروغ دینے اور‬

‫قومی مذہبی عقائد کو تباہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ہجری مشسی‬

‫کلنڈر کو شہنشاہی کیلنڈر میں تبدیلی کی کوشش اس جدوجہد کی واضح مثالوں میں سے‬

‫ایک ہے۔ اسالمی انقالب کی عظیم الشان کامیابی کے ساتھ ہی حکمرانوں اور ذمہ داروں‬
‫ٓ‬
‫نےقومی اور مذہبی اقدار کو دوبارہ سے حبال کرنے کی کوششوں کا اغاز کیا اور پہلوی دور‬

‫حکومت کے برعکس‪ ،‬جہاں طاقت اور سرداری نظام کے حتت نام رکھے جاتے تھے‪ ،‬لیکن‬

‫انقالب اسالمی کے بعد اسالمی تعلیمات اور اخالقیات کے بنیاد پر نام رکھنے کا سلسلہ شروع‬

‫کیا گیا۔ مثال انقالب سے پہلے شاہ ایران کے پیدائش کے دن کو ’’فادر ڈے‘‘ کے عنوان سے‬

‫منایا جاتا تھا جب کہ انقالب کے بعد امیراملومنین امام علی علیہ السالم کے یوم والدت کو‬

‫’’فاڈر ڈے‘‘ کا نام دیا گیا۔ اسی طرح ‪ 10‬اپریل کو شاہ کی صحت و سالمتی کے لیے یوم دعا‬

‫کے طور پر منایا جاتا تھا کیوں ‪ 10‬اپریل ‪1965‬ء میں وہ ایک قاتالنہ محلے میں بچ گیا تھا۔‬

‫اسی طرح ‪1949‬ء سے ہر سال ‪ 3‬فروری کو شاہ سے خطرہ ٹلنے کے دن کے طور پر منایا جاتا‬

‫تھا‪ ،‬اسالمی انقالب کی کامیابی کے بعد ایران کے کلنڈر سے ان ایام کو حذف کرتے ہوئے‬

‫اسالمی تعلیمات کی روشنی میں روز عرفہ اور شب قدر کو روز دعا کے طور پر منائے جاتے‬

‫ہیں۔ اس کے عالوہ اس وقت زیادہ تر تعلیمی اور ثقافتی اداروں اور مراکز کے نام ائمہ اہل‬

‫‪29‬‬
‫بیت علیہم السالم‪ ،‬علمائے کرام‪ ،‬شہدا اور دیگر مذہبی اور دینی شخصیات کے نام پر رکھے‬

‫جاتے ہیں۔ اسی طرح انقالب سے پہلے عسکری کاروائیوں اور جنگی مشقوں کے نام جنگی‬

‫جانوروں اور درندوں کے نام پر رکھے جاتے تھے‪ ،‬لیکن انقالب اسالمی کی عظیم الشان‬
‫ٰ‬
‫کامیابی کے بعد ان متام چیزوں کے ناموں کے انتخاب کے لیے اعلی انسانی اقدار کا خاص‬

‫خیال رکھا جاتا ہے۔ اسالمی انقالب نے ایام کی قدروں کا نام دے کر وقت کے عنصر کو بڑھایا‬

‫اور معاشرے میں دینی فضائل کے یاد کو زندہ کیا ہے جیسے ہفتہ بصیرت‪ ،‬ہفتہ فجر‪ ،‬ہفتہ‬

‫دفاع مقدس‪ ،‬مظلوموں کی حتریک‪ ،‬ماں کا دن‪ ،‬لڑکیوں کا عاملی دن‪ ،‬نوجوانوں کا عاملی دن اور‬

‫استاد کا دن وغیرہ۔‬

‫آٹھواں | راہیان نور کے کیمپوں میں اضافہ اور دفاع مقدس (مغرب اور صدام کی جانب سے‬

‫مسلط کردہ ‪ 8‬سالہ جنگ) کی اقدار کو برقرار رکھنا‬

‫ایران کے عوام میں شہداء کا احرتام انقالب اسالمی کی بے بدیل خصوصیات میں سے ایک‬

‫ہے۔ ایرانی عوام نے اسالمی مجہوریہ کے نوخیز نظام کی حفاظت کے لیے بہت سے شہداء‬

‫پیش کیے ہیں۔ لیکن یہ فکر صرف جنگ کے وقت تک حمدود نہیں ہے اور اس جماہد قوم‬

‫باخلصوص اس کے نوجوان آج بھی قربانی اور شہادت کے جذبہ سے سرشار ہے۔ جس کے‬

‫مصادیق میں سے راہیان نور کے کیمپوں میں اضافہ‪ ،‬ان کی جانب سے شہدا کی یاد میں‬

‫منعقد کیے جانے والے پروگروام‪ ،‬جلسوں‪ ،‬سیمینارز اور شہدا کے تدفین میں لوگوں کے‬

‫بھرپور شرکت ہے۔‬

‫دمشن کی جانب سے ثقافتی یلغار کے مقابلے کے لیے الکھوں نوجوانوں نے عشق اور جذبے‬

‫کے ساتھ راہیان نور کے قافلے میں شامل ہوکر انقالب کی تیسری نسل کو جہاد اور شہادت کے‬

‫راستے سے بھٹکنے سے روکتے ہوئے اسے تسلسل عطا کیا ہے یہاں تک کہ دفاع مقدس کی یاد‬

‫میں منعقد کیے جانے والے پروگرواموں میں شرکت کرونے والوں کی تعداد جو ‪2004‬ء میں ‪4‬‬

‫الکھ تھی بڑھ کر ‪2016‬ء میں ‪ 70‬الکھ تک جاپہنچی ہے۔‬

‫نواں | مذہبی اجنمنوں کا قیام‬

‫‪1979‬ء میں ملک بهر میں مساجد کی تعداد ‪ 30‬ہزار سے بڑھا کر ‪ 2018‬میں ‪ 74‬ہزار ‪ 229‬کردی‬

‫گئی ہے۔ اسی طرح ‪ 7528‬امام بارگاہوں کی تعمیر اور مرمت اور ایک الکھ کے قریب مذہبی‬

‫اجنمنوں کا قیام عمل میں الیا گیا ہے ۔ اس کے عالوہ بھی بہت ساری مذہبی اجنمنیں اپنے‬

‫‪30‬‬
‫اپنے طور پر کام کررہی ہیں جن کی صحیح اعداد و مشار دستیاب نہیں ہے۔ فعال تنظیموں‬

‫کا یہ حجم‪ ،‬شاہی جرب کے دور کے مقابلے میں‪ ،‬لوگوں کے مذہب اور عقائد کے لیے اسالمی‬

‫مجہوریہ کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔‬

‫دسواں‪ :‬قرآنی سرگرمیوں کا مقداری اور معیاری فروغ‬

‫اسالمی انقالب سے پہلے کے مقابلے میں ملک میں قرآنی سرگرمیوں کی مقداری اور معیاری‬

‫فروغ اور بہرتی بہت منایاں ہے۔ اسالمی انقالب سے پیدا ہونے والی قرآنی سرگرمیاں درج‬

‫ذیل ہیں‪:‬‬
‫ٓ‬
‫‪1‬۔ نئے قرآنی پروگراموں کا اغاز‬

‫‪2‬۔ قرآن جمید کے ‪ 35‬بین االقوامی مقابلوں کا انعقاد‬

‫‪3‬۔ خواتین اور مردوں کے لیے ‪ 40‬قومی سطح کے مقابلوں کا انعقاد‬

‫‪4‬۔ پالیسی ساز اور انتظامی سطح کے متعدد قرآنی اداروں کا قیام‬

‫‪5‬۔ قرآن جمید کی ‪ 26‬بین االقوامی اور سینکڑوں صوبائی قرآنی منائشوں کا انعقاد‬

‫‪6‬۔ دنیا میں بولی جانے والی ‪ 130‬زبانوں میں قرآن جمید کے تراجم کا اہتمام‬

‫‪7‬۔ اسالمی انقالب کے بعد ‪ 200‬میلین کی تعداد میں قرآن جمید کی طباعت‬
‫ٓ‬
‫‪8‬۔ قرانی علوم پر ‪ 37‬ہزار کتب کی اشاعت‬
‫ٓ‬
‫‪9‬۔ ‪ 400‬سے زائد قرانی ویب سائٹ کا اجرا‬

‫‪10‬۔ قرآن‪ ،‬معارف‪ ،‬تالوت‪ ،‬ترتیل‪ ،‬اربعین وغیرہ کے ریڈیو چینلز کا قیام‬

‫‪11‬۔ قرآن ٹی وی چینل کا قیام‬

‫‪12‬۔ ادارے‪ ،‬مکاتب اور قرآنی مراکز کا قیام‬

‫‪13‬۔ خواتین کے لیے وسیع اور خصوصی قرآنی سرگرمیاں جن میں مقابلے اور حمافل شامل‬

‫ہیں۔‬

‫‪14‬۔ قرآنی کاجل اور قرآنی یونیورسٹی اور اسالمی تعلیم کا قیام؛‬

‫‪15‬۔ خمتلف سطحوں پر قرآنی حکومتی اداروں اور مراکز کا قیام‬

‫‪16‬۔ بہرتین قرآنی سیریز اور فلموں کی تیاری‪ ،‬جیسے کہ حضرت حممد ﷺ اور حضرت یوسف‬

‫‪17‬۔ اسالمی دنیا کے سب سے بڑے قرآنی مقابلوں کا انعقاد‪ ،‬یعنی اسالمی مجہوریہ ایران میں‬

‫بین االقوامی قرآنی مقابلہ‬

‫‪31‬‬
‫ٰ‬
‫‪18‬۔ املصطفی العاملیہ یونیورسٹی کا قیام‪ ،‬دنیا بھر میں ‪ 50‬سے زائد شاخیں‬

‫‪19‬۔ دنیا کی ‪ 130‬سے زیادہ زبانوں میں قرآن پاک کا ترمجہ‬

‫اسالمی مجہوریہ میں روحانیت‬


‫اسالمی مجہوریہ ایران نے متام ممکنہ صالحیتوں کو بروئے کار التے ہوئے عوام کی مذہبیت‬

‫کو بہرت بنانے کی کوشش کی ہے۔ روحانیت کے میدان میں اسالمی انقالب کے اثرات نہ صرف‬

‫اہل ایران پر بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کی انفرادی زندگیوں پر بھی قابل توجہ ہیں۔ مثال‬

‫کے طور پر‪ ،‬اسالمی مجہوریہ نے بچوں کے نام رکھنے کی ثقافت کو مغربی ناموں سے‬

‫اسالمی ناموں میں تبدیل کر دیا۔ ایران کے عالوہ دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوئے۔ ‪2014‬ء‬

‫میں انگلینڈ میں سب سے زیادہ نومولود بچوں کا نام حممد تھا۔ اسالمی مجہوریہ کا اثر صرف‬

‫انفرادی طور پر بچوں کے نام رکھنے تک ہی حمدود نہیں ہے بلکہ اس نے مذہب کو انفرادی‪،‬‬

‫اجتماعی‪ ،‬مساجی میدانوں اور اہم بین االقوامی حلقوں کو بھی متاثر کردیا ہے۔ وہ دنیا جو‬

‫مطلق احلاد کی طرف بڑھ رہی تھی انقالب کے نتیجے میں اس کا رخ بدل گیا۔ اس سلسلے‬

‫میں ہم یہاں پر بعض مشہور شخصیات کے کچھ اقوال بیان کرتے ہیں‪’’ :‬جرمنی کے ایک‬

‫یونیورسٹی کے پروفیسر اور مشہور مصنف اور سیاسی مبصر پیٹر رومن شول‪-‬التور نے کہا‪:‬‬

‫اب دین و مذہب کی طرف واپسی کی حتریک شروع ہو چکی ہے۔ دنیا اسالمی انقالب کی‬

‫برکت سے مسجھ گئی ہے کہ جنات کا واحد راستہ اسالم ہے۔‘‘‬

‫ایک مشہور انگریز ماہر عمرانیات انتھونی گیڈنز نے کہا‪ :‬اسالمی انقالب دنیا کو مذہبیت کی‬

‫طرف لے جائے گا۔‬

‫سوڈان کی اسالمی کونسل کے سربراہ حممد االمین خلیفہ نے کہا‪" :‬ایران کا اسالمی انقالب اس‬

‫صدی میں اسالمی زندگی کی جتدید کا علمربدار ہے۔‬

‫پروفیسر محید موالنا نے کہا‪ 20 :‬سال کے بعد جب میں اسی شعبے (کمیونیکیشن سائنسز آف‬

‫انٹرنیشنل ریلیشنز) میں لیپزگ یونیورسٹی میں ایک بڑی بین االقوامی کانفرنس میں شرکت‬

‫کے لیے مشرقی جرمنی گیا۔ وہاں ایسوسی ایشن آف کمیونیکیشن سائنسز کے ‪ 43‬سالوں میں‬

‫پہلی بار ایسوسی ایشن کے ممربان نے سان نکولی چرچ میں اپنی میٹنگ کا اہتمام کیا۔ وہاں‬

‫ہمارے لیے ایک پادری گفتگو کرہا تھا جس نے بقول خود مشرقی جرمنی کے انقالب کی‬

‫قیادت امام مخینی کے طریقے سے کی تھی۔‬

‫‪32‬‬
‫نہج البالغہ کے جاپانی مرتجم اور جاپان میں اسالمی علوم کے ممتاز پروفیسر توشیو کرودا‬

‫کہتا ہے ‪" :‬ایران کے اسالمی انقالب سے پہلے جاپان میں کسی بھی اسالمی موضوع پر جب‬

‫کوئی کتاب شائع ہوتی تھی تو اس کی تعداد ایک ہزار کاپی سے بھی کم ہوتی تھی‪ ،‬مگر اب‬

‫خدا کا شکر ہے کہ اسالمی انقالب کے بعد جاپان میں اسالمی کتابوں کا دائرہ وسیع ہوا ہے۔‬

‫کچھ عرصہ قبل میں نے جاپانی زبان میں اسالم کی روح اور معنویت کے بارے میں ایک‬

‫کتاب لکھی تھی جس کی ایک ماہ میں بیس ہزار سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی تھیں۔‬

‫امریکی ماہر عمرانیات پیٹر لڈ ِوگ برجر نے کہا‪ :‬مذہب کی خواہش بنی نوع انسان میں‬

‫ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ لیکن ایرانی انقالب کے ظہور اور آیت اللہ مخینی کے افکار کا‬

‫دنیا میں ظاہر ہونا پوری دنیا کے لوگوں کے دلوں میں دین کی خواہش کو بھڑکا دیا ہے اور‬

‫وہ لوگ جو اسالمی دنیا میں امام مخینی کے کردار کو نظر انداز کر رہے ہیں دنیا کے مسائل‬

‫کا جتزیہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔‬

‫مغرب میں روحانیت کا حبران‬


‫ٓ‬ ‫ٓ‬
‫مغربی ممالک میں صنعتی انقالب کے بعد اہستہ اہستہ لوگوں کی توجہ معاشی مسائل کی‬

‫طرف مائل ہوگئی ہے۔ ترقی کے تصور کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کے رویے کی‬

‫یکجہتی نے ان ممالک کو صرف معیشت اور صنعت میں پشرفت ہی کو ترقی قرار دیا ہے اور‬

‫اس کے نتیجے میں دوسری جہتوں پر توجہ نہیں دی جن میں خاص طور پر روحانیت بھی‬

‫شامل ہے۔ برزینسکی‪ ،‬ایک مشہور امریکی نظریہ ساز اور سیاست دان نے روحانیت کی اہمیت‬

‫کا اظہار کرتے ہوئے کہا‪" :‬روحانیت کا خال‪ ،‬روحانی خالی پن کی زیادہ درست تعریف ہے‪:‬‬

‫وہی روحانی خالی پن جس نے مغربی تہذیب کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا‬

‫ہے۔"‬

‫بینجمن اسپاک جو کہ ایک امریکی ماہر نفسیات ہیں‪ ،‬نفسیات کے شعبے میں ان کی کچھ‬

‫کتابیں تاریخ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہیں‪ ،‬امریکی معاشرے‬

‫کی مساجی صورت حال کا جتزیہ کرتے ہوئے کہا‪’’ :‬ہمارا معاشرہ روحانی اقدار کے فقدان کا‬

‫بہت زیادہ شکار ہے۔‘‘‬

‫دنیا کے زیادہ آمدنی والے ممالک میں خودکشی کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی جاتی ہے۔‬

‫ممالک کی آمدنی کی سطح اور ذہنی امراض میں اضافے کے درمیان براہ راست تعلق پر عاملی‬

‫‪33‬‬
‫ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ آمدنی والے ممالک میں ذہنی‬

‫امراض کی سب سے زیادہ تعداد دیکھی جاتی ہے۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف مینٹل ایلنسز کے‬

‫ذریعہ شائع کردہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے اعدادومشار کے مطابق‪ ،‬امریکہ‬

‫میں ہر‪ 5‬میں سے ‪ 1‬شخص کو ذہنی بیماری کا سامنا ہے۔ خودکشی امریکیوں نوجوانوں کی‬

‫موت کی تیسری وجہ ہے۔‬

‫دوسری طرف طالق کی سب سے زیادہ شرح ان ترقی یافتہ ممالک سے ہے۔ اس کے عالوہ‪،‬‬

‫خمتصر ازدواجی زندگی کی سب سے زیادہ شرح دنیا کے زیادہ آمدنی والے ممالک سے تعلق‬

‫رکھتی ہے۔‬

‫آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (‪ )OECD‬کی حتقیق کے مطابق ‪1960‬ء سے‬

‫‪2017‬ء تک دنیا میں طالق کی شرح میں ‪ 4‬گنا اضافہ شدید خاندانی حبران کی نشاندہی کرتا‬

‫ہے۔ دنیا میں طالق کا تباہ کن پھیالؤ بہت سے عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔ بالشبہ اس حتقیق‬

‫کی بنیاد پر دھوکہ اور عدم مطابقت جو کہ معاشرے کے ثقافتی ماحول اور طرز زندگی‬

‫سے شدید متاثر ہیں‪ ،‬طالق کے اہم ترین عوامل مسجھے جاتے ہیں۔‬

‫ٓ‬
‫اٹھواں باب | خواتین کی حقوق‬
‫پوری تاریخ میں حکومتوں اور نظاموں نے خواتین کے بارے میں خمتلف دعوے کیے ہیں۔‬

‫لیکن ان دعووں کی درستگی کو جانچنے کے لیے ان کی کارکردگی پر توجہ دینا ضروری ہے۔‬

‫پہلوی بادشاہوں نے نہ صرف عملی طور پر عورتوں کی حیثیت پر توجہ نہیں دی بلکہ اپنی‬

‫باتوں میں بھی اپنے نقطہ نظر کا دفاع کیا اور پورے فخر کے ساتھ وہ عورت کو صرف‬

‫مردوں کی جنسی ضروریات کی تکمیل تک حمدود مسجھتے تھے۔ اسی طرح وہ خمتلف امور‬

‫میں خواتین کی کامیابی پر بھی کوئی یقین نہیں رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر‪ 1974 ،‬میں‬

‫اوریانا فالچی نامی‪ ،‬ایک اطالوی صحافی کے ساتھ ایک انٹرویو میں‪ ،‬حممد رضا شاہ نے‬

‫خواتین کے بارے میں اس طرح تبصرہ کیا‪’’ :‬مرد کی زندگی میں عورت کا مشار نہیں ہوتا‪،‬‬

‫مگر یہ کہ وہ خوبصورت اور دلربا ہو اور اس نے اپنی نسائی خصوصیات کو حمفوظ رکھا‬
‫ٓ‬
‫ہو۔ ‪ ...‬مت عورتوں میں تو کوئی مائیکل انژ یا باخ بلکہ یہاں تک کہ کوئی بڑا باورچی بھی‬

‫‪34‬‬
‫نہیں ہے۔ مت لوگوں کے پاس بڑی چیز نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کیا مت نے اپنی‬

‫صحافتی زندگی کے دوران کتنی ایسی خواتین کو دیکھا ہے جو کسی ملک کو چالنے کی‬

‫صالحیت رکھتی ہوں؟‘‘‬

‫ایران کے اسالمی انقالب کے بانی امام مخینی نے خواتین کو ایک انسان اور ایک عظیم معلم‬

‫کے طور پر متعارف کرایا اور خواتین کی زندگی کے اس انسانی پہلو کا تعارف کراتے ہوئے‬

‫فرمایا‪ :‬قرآن کریم انسان ساز ہے اور عورتیں بھی انسان ساز ہیں۔ ‪..‬قوموں سے انسان ساز‬

‫عورتوں کو چھین لیا جائے تو وہ قومیں ناکامی اور تنزلی سے دوچار ہوجائیں گی۔‘‘‬

‫انہوں نے اسالم کی تاریخ میں خواتین کے کردار کو بھر پور قرار دیا‪ :‬تاریخ اسالم اس بات کی‬

‫دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عظیم خملوق کی بے پناہ عزت کی ہے تاکہ یہ ظاہر کیا‬

‫جا سکے کہ معاشرے میں خواتین کی ایک خاص عظمت ہے۔ مردوں سے برتر نہیں‪ ،‬پھر‬

‫کم‪ ،‬ایسا بھی نہیں ہے۔‬

‫امام مخینی عورتوں کو مردوں کے برابر مسجھتے تھے۔ اس لیے انہیں خمتلف علمی‪ ،‬ثقافتی‪،‬‬

‫سیاسی و۔۔۔غیرہ شعبوں میں حمنت سے کام کرنے کی ترغیب دیتے تھے‪ :‬اپنی تعلیم میں‪،‬‬

‫اخالقی فضائل اور عملی فضائل سے آراستہ ہونے کی کوشش کریں۔ آپ کو ہمارے ملک کے‬

‫مستقبل کے لیے مضبوط نوجوانوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ [معاشرتی میدانوں میں] آپ کو متام‬

‫شعبوں میں اس حد تک شامل ہونا چاہئے جس کی اسالم اجازت دیتا ہے۔[سیاسی میدانوں میں]‬

‫جس طرح مردوں کو سیاسی معامالت میں مداخلت کرنی چاہیے اور اپنے معاشرے کی‬

‫حفاظت کرنی چاہیے‪ ،‬اسی طرح خواتین کو بھی مداخلت کرنی چاہیے اور معاشرے کی‬

‫حفاظت کرنی چاہیے۔ [ثقافتی میدانوں میں] اس ثقافت کو زندہ کیا جانا چاہیے اور آپ خواتین‬

‫کو بھی اسی طرح مصروف رہنا چاہیے جس طرح مرد مصروف ہیں‪ ،‬جس طرح مرد علمی‬

‫اور ثقافتی حماذ میں مصروف ہیں۔‬

‫رہرب معظم انقالب اسالمی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گزشتہ ‪ 40‬برسوں کے‬

‫دوران معاشرے کے خمتلف طبقوں باخلصوص خواتین سے خمتلف مالقاتوں میں خواتین کی‬

‫شخصیت اور اس کے مقام کی فضیلت کے بارے میں متعدد بار گفتگو کی ہے۔ مثال کے طور‬

‫پر یہاں صرف ان کے ایک گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہیں‪ :‬مساجی حقوق میں مرد اور عورت‬

‫کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح ذاتی اور انفرادی حقوق میں بھی مرد اور عورت‬

‫‪35‬‬
‫میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بعض خمصوص ذاتی مسائل میں عورتوں کو فوقیت دی گئی ہیں‬

‫اور بعض مسائل میں مردوں کو فوقیت دی گئی ہیں۔ یہ مردوں اور عورتوں کی فطرت پر‬

‫مبنی ہے؛ یہ اسالم ہے۔ سب سے ٹھوس‪ ،‬منطقی اور عملی اصول اور حدود جو انسان صنف‬

‫کے میدان میں تصور کر سکتے ہیں۔‬

‫اسالمی انقالب کے بعد ‪ 15‬سال سے زائد عمر کی خواتین میں ناخواندگی کی سطح میں‬

‫زبردست کمی واقع ہوئی اور ایران دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی سطح پر آگیا۔ اسالمی‬

‫انقالب سے پہلے پرائمری سطح میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کا اسی سطح میں‬

‫پڑھنے والے لڑکوں کا تناسب ‪ 35‬فیصد کے قریب تھا لیکن اسالمی انقالب کے بعد یہ تناسب‬

‫‪ 50‬فیصد تک پہنچ گئی جو ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان توازن اور تعلیمی انصاف‬

‫کے قیام کو ظاہر کرتی ہے۔‬

‫دوسری جانب اسی دوران سیکنڈری اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے‬

‫لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی اساتذہ میں‬

‫بھی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد میں منایاں اضافہ دکھائی دیتا ہے۔‬

‫حممد رضا شاہ کی جانب سے خواتین کی سرگرمیوں کو حمدود کرنے کی غرض سے غیر‬

‫سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور خیراتی اداروں پر عائد پابندیوں کے بعد چند شاہ خمالف‬

‫خفیہ تنظیموں کے عالوہ خواتین کے حقوق پر بات کرنے والی کوئی ایک تنظیم بھی باقی‬

‫نہیں رہی تھی۔ اسالمی انقالب کے بعد‪ ،‬خواتین نے ثقافتی‪ ،‬تعلیمی‪ ،‬کاروباری‪ ،‬خیراتی اور‬

‫حتی کہ حتقیقی نقطہ نظر کے ساتھ بہت سے ادارے قائم کیے ہیں‪ ،‬جو اس وقت ہزاروں‬

‫مراکز اور غیر سرکاری تنظیموں کی صورت میں سرگرم عمل ہیں۔ رفاہی اور غیر سرکاری‬

‫تنظیموں میں خواتین کی موجودگی کو خواتین کی مساجی موجودگی کے سب سے زیادہ‬

‫بااثر شعبوں میں سے ایک مسجھا جاتا ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹوریٹ آف ویمن اینڈ فیملی افیئرز‬

‫کے اعداد و مشار کے مطابق ملک کے خمتلف صوبوں میں خواتین کے امور سے متعلق ‪2700‬‬

‫سے زائد غیر سرکاری تنظیمیں فعال ہیں۔‬

‫اسالمی انقالب سے پہلے پہلوی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات میں سرکاری اور قومی‬

‫سطح پر خواتین کے کھیلوں کو زیادہ جگہ حاصل نہیں تھی۔ انقالب اسالمی کی کامیابی کے‬

‫بعد ‪ 80‬کی دہائی کے آغاز میں خواتین کی اسپورٹس کمیٹی کے قیام کے ساتھ ہی خواتین کی‬

‫‪36‬‬
‫کھیلوں کی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور انہوں نے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ اسالمی‬

‫انقالب سے پہلے کھیلوں کے فعال شعبوں کی تعداد ‪ 7‬تھی جبکہ اسالمی انقالب کے بعد یہ‬

‫تعداد ‪ 38‬تک پہنچ گئی۔ کھیلوں کے کوچز کی تعداد ‪ 9‬سے بڑھ کر ‪ 35‬ہزار ہو گئی۔ فعال‬

‫ریفریز کی تعداد ‪ 7‬سے بڑھ کر ‪ 16‬ہزار ہو گئی۔ کھیل کے میدان (سٹیڈیمز) کی تعداد ایک سے‬

‫بڑھ کر ‪ 30‬ہو گئی۔‬

‫اسالمی انقالب کے بعد خواتین کی عمر کی حد ‪ 57.6‬سے بڑھ کر ‪ 77.1‬سال ہو گئی۔ خواتین‬

‫اور مرد ماہر ڈاکٹروں کا تناسب بھی ‪ 15‬فیصد سے بڑھ کر ‪ 40‬فیصد ہو گیا۔ خواتین اور مرد‬

‫اسپیشلٹ ڈاکٹروں کا تناسب ‪ 9‬فیصد سے بڑھ کر ‪ 30‬فیصدہو گیا۔ گائناکالوجی کے شعبے میں‬

‫ماہر خواتین ڈاکٹروں کا تناسب بھی ‪ 16‬فیصد سے بڑھ کر ‪ 98‬فیصد ہو گیا ہے۔ اسالمی انقالب‬

‫کے بعد زچگی کے دوران اموات کی شرح میں بھی ‪ 90‬فیصد کمی آئی ہے۔‬

‫دوسری جانب مغرب میں ‪2000‬ء سے ‪2016‬ء کے درمیان اس حقیقت کے باوجود کہ مردوں میں‬

‫خودکشی کی شرح بھی ‪ 21‬فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے‪ ،‬خواتین میں اس شرح میں اضافہ‬

‫‪ 50‬فیصد کے قریب ہے۔ مغرب میں خودکشی کے اعداد و مشار اور مردوں کے مقابلے خواتین‬

‫کی خودکشی کی شرح میں کئی گنا اضافہ مغربی ممالک میں خواتین میں روحانیت کے‬

‫حبران کی وجہ سے پیدا ہونے والی ذہنی اور جذباتی بیماریوں میں اضافے کی نشاندہی کرتا‬

‫ہے۔‬

‫امریکہ میں ‪ 47‬فیصد گھرانوں کی معاشی سربراہ خواتین ہیں۔ جب کہ فرانس میں ‪49‬‬

‫فیصد اور خوشحال ملک لکسمربگ میں ‪ 59‬فیصد خواتین خاندانوں کی معاشی سربراہ ہیں‬

‫جو کہ مغربی ممالک میں خواتین پر بھاری معاشی ذمہ داریاں عائد کرنے کی عالمت ہے۔‬

‫اسالمی مجہوریہ ایران میں مندرجہ باال اعداد و مشار ‪ 12‬فیصد ہیں۔ امریکہ میں جنسی‬

‫جرائم کے روک تھام کے لیے قائم کردہ قومی ادارے کی جانب سے شائع کردہ اعداد و مشار‬

‫کے مطابق ہر ‪ 5‬میں سے ‪ 1‬امریکی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس اعداد‬

‫و مشار کے مطابق ہر ‪ 4‬میں سے ایک لڑکی اور ہر ‪ 6‬میں سے ‪ 1‬لڑکا ‪ 18‬سال کی عمر سے پہلے‬

‫جنسی زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا حصہ‬

‫بنانے والے جمرموں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق اپنے ہی خاندان سے ہوتا ہے۔‬

‫‪37‬‬
‫اسالمی انقالب کے اہداف کو مکمل طور پر‬

‫حاصل نہ کرنے کی وجوہات‬


‫اول | فطری رکاوٹیں‬
‫ٰ‬
‫اعلی اہداف کا وقت طلب ہونا‬ ‫‪‬‬

‫دوم | بیرونی رکاوٹیں‬


‫اسالمی نظام کا ختتہ الٹنے کی منصوبہ بندی؛‬ ‫‪‬‬

‫دہشت گرد گروہوں اور نسلی تقسیم کی ختلیق؛‬ ‫‪‬‬

‫ملک پر ‪ 8‬سالہ بزدالنہ فوجی محلہ؛‬ ‫‪‬‬

‫اقتصادی پابندیاں؛‬ ‫‪‬‬

‫ثقافتی یلغار اور لوگوں کے عقائد پر محلے؛‬ ‫‪‬‬

‫ملک کی علمی اور صنعتی ترقی کو روکنا؛‬ ‫‪‬‬

‫تاریخی حقائق کی حتریف؛‬ ‫‪‬‬

‫انقالب کو ناکام باور کرانا؛‬ ‫‪‬‬

‫معاشرے میں مایوسی پھیالنا؛‬ ‫‪‬‬

‫سوم | اندرونی رکاوٹیں‬


‫‪1‬۔ ملکی انتظامی امور کے شعبے میں فکری کمزوریاں‬

‫‪ ‬نوجوان نسل کی کارکردگی میں عدم اعتماد‬

‫‪ ‬ملک کی عظیم انسانی اور قدرتی دولت کو نظر انداز کرنا‬

‫‪ ‬غیروں کی جتاویز پر بھروسہ کرنا‬

‫‪ ‬پیٹرولیم مصنوعات پر احنصار‬

‫‪2‬۔ انقالب کے متام اہداف پر توجہ کا فقدان‬

‫‪ ‬بدعنوانی کے خالف جنگ میں سنجیدہ دلچسپی کا فقدان‬

‫‪ ‬آزادی پر یقین نہ رکھنا‬

‫‪38‬‬
‫‪ ‬انصاف پر مبنی عدالتی نظام کا فقدان‬

‫‪3‬۔ بری معاشرتی عادات‬

‫‪ ‬سستی اور کام چوری‬

‫‪ ‬بے صربی‬

‫‪ ‬گمراہ کن امور میں دل لگی‬

‫‪ ‬عیش پسندی‬

‫‪ ‬اشرافیہ‬

‫‪ ‬ملکی مصنوعات پر غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دینا‬

‫‪ ‬قومی خود اعتمادی کی کمی‬

‫‪4‬۔ سیاسی اور تنظیمی گروہ بندی‬

‫‪39‬‬

You might also like