You are on page 1of 17

‫ہللا اور ان کی تحریک‬

‫حضرت شاہ ولی ؒ‬

‫ت مغلیہ کا چراغ‬
‫حضرت شاہ ولی ہللا رحمۃ" ہللا علیہ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو سلطن ِ‬
‫ٹمٹمارہاتھا۔ طوائف الملوکی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی اور فرنگی تاجر کمپنیاں دھیرے مغل‬
‫حکمرانوں کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔ مرہٹے ایک طاقتور سیاسی قوت کی‬
‫حیثیت اختیار کرتے جارہے تھے اور برصغیر ان کے قبضے میں چلے جانے کا خطر ہ دن بدن‬
‫ہللا نے فوری حکمت عملی کے طور پر مرہٹوں کی سرکوبی‬ ‫بڑھتا جارہا تھا۔ حضرت امام ولی ؒ‬
‫ابدالی سے‬
‫ؒ‬ ‫اور ان کے خطر ہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ‬
‫صاحب اور دیگر دردمند‬
‫ؒ‬ ‫ابدالی‪ ،‬حضرت شاہ‬
‫ؒ‬ ‫رابطہ قائم کیا اور اس سے مدد مانگی اور احمد شاہ‬
‫ہندی مسلمانوں کی استدعا پر مرہٹوں کے خالف ان کی امداد کے لیے آگے بڑھا اور پھر ‪۱۷۶۱‬ء‬
‫میں پانی پت کا وہ تاریخی معرکہ بپا ہوا جس نے عظیم تر مرہٹہ رہاست کے تصور کو ہمیشہ‬
‫کے لیے خاک میں مالدیا۔ مرہٹوں کا زور ٹوٹ گیا۔ دو الکھ سے زائد مرہٹہ فوجی میدان جنگ‬
‫ابدالی جو خود ہندوستان کی بادشاہت حاصل کرسکتا تھا‪ ،‬حکومت شاہ‬ ‫ؒ‬ ‫میں کام آئے اور احمد شاہ‬
‫عالم ثانی کے سپرد کرکے واپس چالگیا۔‬
‫ت مغلیہ کا روز افزوں زوال اور فرنگی‬ ‫اس خطرہ سے نجات حاصل کرنے کے بعد سلطن ِ‬
‫کمپنیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ حضرت شاہ صاحب کے سامنے تھا۔ فرنگی جنگ پالسی میں‬
‫سراج الدولہ کو شہید کرکے ‪۱۷۵۷‬ء میں بنگال پر قبضہ کرچکے تھے۔ حیدرآباد دکن‪ ،‬اودھ اور‬
‫میسور پرفرنگی کی للچائی ہوئی نظریں صاف دکھائی دے رہی تھیں اور مغل بادشاہ‪ ،‬شاہ عالم‬
‫ابدالی کی عظیم قربانی اور فراخدالنہ ایثار کے باوجود ہوش میں نہیں آیا تھا‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫ثانی‪ ،‬احمد شاہ‬
‫ؒ‬
‫ت مغلیہ کے بوسیدہ کھنڈرات کو سہارا دینے کے بجائے‬ ‫صاحب نے سلطن ِ‬
‫ؒ‬ ‫ایسے میں حضرت شاہ‬
‫’’فک کل نظام ‘‘ (ہمہ گیر انقالب) کا نعرہ لگایا۔‬
‫ابدالی کی قربانی و ایثار‬
‫ؒ‬ ‫شاہ صاحب یہ سمجھ چکے تھے کہ مغلیہ سلطنت کو جب احمد شاہ‬
‫سہارا نہیں دے سکی تو اس کے دن گنے جاچکے ہیں‪ ،‬اس کو سہارادینے یا اس کی اصالح کی‬
‫ت مغلیہ‬
‫توقع رکھنے کے بجائے اس ترقی پذیر قوت کے مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے جو سلطن ِ‬
‫کی جگہ لینے والی ہے۔ چنانچہ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ فرنگی کے تسلط کو ایک یقینی امر‬
‫سمجھتے ہوئے اس دور رس نگاہ رکھنے والے مر ِد درویش نے فرنگی کے مقابلے میں ایک‬
‫ب فکر کی بنیاد رکھی۔‬
‫فکری و علمی مکت ِ‬
‫ولی ٰ‬
‫اللّہی افکار‬
‫حضرت شاہ ولی ہللا نے سب سے پہلے قرآن کریم کا اس وقت کی مروجہ زبان فارسی میں‬
‫ؒ‬
‫الدین نے اسے اردو کا‬ ‫ترجمہ کیا اور ان کے فرزندحضرت شاہ عبدالقادر اور حضرت شاہ رفیع‬
‫دہلوی نے آنے والے دو ر کے مسائل کو‬
‫ؒ‬ ‫جامہ پہنایا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شاہ ولی ہللا محدث‬
‫محسوس کرتے ہوئے انقالب فرانس سے پچاس سال قبل اور کارل مارکس کی پیدائش سے ‪۱۰۰‬‬
‫سال قبل انسان کے جمہوری‪ ،‬معاشرتی و اقتصادی حقوق کی قرآن و سنت کی روشنی میں‬
‫وضاحت فرمائی۔‬
‫صاحب کی تعلیمات کا مختصر سا‬ ‫ؒ‬ ‫مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر حضرت شاہ‬
‫خالصہ پیش کردیا جائے جو ان کی معرکۃ االنصار تصنیف ’’حجۃ ہللا البالغہ‘‘ اور دیگر‬
‫تصانیف سے ماخوذ ہے۔‬

‫سیاسی اصول اور شہریوں کے بنیادی حقوق‬


‫باشندگان ملک کی حیثیت وہ ہے جو کسی مسافر خانے میں‬
‫ِ‬ ‫زمین کا مالک حقیقی خدا ہے‪،‬‬
‫حق انتفاع (فائدہ اٹھانے‬
‫ٹھہرنے والے لوگوں کی ہوتی ہے ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ِ‬
‫کا حق) میں کسی دوسرے کی دخل اندازی قانونا ً ممنوع ہے۔‬

‫مالک‬
‫ِ‬ ‫مالک ملک‪ ،‬ملک الناس‬
‫ِ‬ ‫سارے انسان برابر ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو‬
‫ب‬
‫قوم یا انسانوں کی گردنوں کا مالک سمجھے‪ ،‬نہ کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی صاح ِ‬
‫اقتدار کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے۔‬

‫ریاست کے سربراہ کی وہ حیثیت ہے جو کسی وقف کے متولی کی ہوتی ہے۔ وقف کا متولی‬
‫اگر ضرورت مند ہو تو اتنا وظیفہ لے سکتا ہے کہ عام باشندہ ملک کی طرح زندگی‬
‫گزارسکے۔‬

‫روٹی‪ ،‬کپڑا‪ ،‬مکان اور ایسی استطاعت‪ ،‬کہ نکاح کرسکے اور بچوں کی تعلیم و تربیت‬
‫کرسکے بال لحاظ" مذہب و نسل ہر ایک انسان کا پیدائشی حق ہے۔‬

‫مذہب‪ ،‬نسل یا رنگ کے کسی تفاوت کے بغیر عام باشندگان کے لیے ملک کے معامالت میں‬
‫یکسانیت کے ساتھ عدل و انصاف‪ ،‬ان کے جان و مال کی حفاظت‪ ،‬حق ملکیت میں آزادی‪،‬‬
‫حقوق شہریت میں یکسانیت ہر باشندٔہ ملک کا بنیادی حق ہے۔‬
‫ِ‬
‫زبان اور تہذیب کو زندہ رکھنا ہر ایک فرقہ کا بنیادی حق ہے۔‬

‫اقتصادی اصول‬
‫دولت کی اصل بنیاد محنت ہے۔ مزدور اور کاشت کار قوت کاسبہ (کمانے والی قوت) ہیں۔‬
‫روح رواں باہمی تعاون ہے۔ جب تک کوئی شخص ملک و قوم کے‬ ‫ِ‬ ‫باہمی مدنیت (شہریت) کی‬
‫لیے کام نہ کرے ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔‬

‫جوا‪ ،‬سٹہ اور عیاشی کے اڈے ختم کیے جائیں جن کی موجودگی میں تقسیم دولت کا صحیح‬
‫نظام قائم نہیں رہ سکتا اور بجائے اس کے کہ قوم اور ملک کی دولت میں اضافہ ہو‪ ،‬دولت‬
‫بہت سی جیبوں سے نکل کر ایک طرف سمٹ آتی ہے۔‬
‫مزدور کاشت کار اور جو لوگ ملک اور قوم کے لیے دماغی کام کریں‪ ،‬دولت کے اصل‬
‫مستحق ہیں۔ ان کی ترقی و خوشحالی" ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی ہے‪ ،‬جو نظام ان‬
‫قوتوں کو دبائے وہ ملک کے لیے خطرہ" ہے اس کو ختم ہوجانا چاہیے۔‬

‫جو سماج محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کرے اور مزدوروں اور کاشت کاروں پر بھاری‬
‫ٹیکس لگائے‪ ،‬قوم کا دشمن ہے‪ ،‬اس کو ختم ہوجانا چاہیے۔‬

‫ضرورت مند (مجبور) مزدور کی رضامندی قابل اعتبار نہیں جب تک اس کی محنت کی وہ‬
‫قیمت ادا نہ کی جائے جو امدا ِد باہمی کے اصول سے الزم ہوتی ہے۔‬

‫جو پیداوار یا آمدنی تعاون باہمی کے اصول پر نہ ہو وہ خالف قانون ہے۔‬

‫کام کے اوقات محدود کیے جائیں۔ مزدوروں کو اتنا وقت ضرور ملنا چاہیے کہ وہ اخالقی" و‬
‫روحانی اصالح کرسکیں اور ان کے اندر مستقبل کے متعلق غور و فکر کی صالحیت پیدا‬
‫ہوسکے۔‬

‫تعاو ِن باہمی کا بہت بڑا ذریعہ تجارت ہے‪ ،‬لہٰ ذا اس کو تعاون کے اصول پر ہی جاری رہنا‬
‫چاہیے۔ پس جس طرح تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ یا غلط قسم کی‬
‫کمپٹیشن سے تعاون کی روح کو نقصان پہنچائیں ایسے ہی حکومت کے لیے درست نہیں کہ‬
‫بھاری ٹیکس لگاکر" تجارت کے فروغ و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے یا رخنہ ڈالے۔‬

‫وہ کاروبار جو دولت کی گردش کو کسی شخص یا طبقہ میں منحصر کردے‪ ،‬ملک کے لیے‬
‫تباہ کن ہے۔‬

‫وہ شاہانہ نظام زندگی جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کی عیش و عشرت کے سبب‬
‫دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو‪ ،‬اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلد از جلد ختم کرکے‬
‫عوام کی مصیبت ختم کی جائے اور ان کو مساویانہ زندگی کا موقع دیا جائے۔‬

‫حضرت شاہ ولی ہللا نے آئندہ جدوجہد کے لیے فکری بنیادیں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫جماعت بندی بھی شروع کردی۔ دہلی میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ متعدد شاگردوں اور خصوصا ً اپنے‬
‫نگری‪ ،‬موالنا نور ہللا‬
‫ؒ‬ ‫خاندان کے افراد کو خصوصیت کے ساتھ تربیت دی۔ موالنا عاشق مظفر‬
‫لکھنوی‪ ،‬موالنا حسین احمد ملیح آبادی اور‬
‫ؒ‬ ‫کشمیری‪ ،‬موالنا مخدوم‬
‫ؒ‬ ‫میرٹھی‪ ،‬موالنا محمد امین‬
‫ؒ‬
‫بریلوی پر مشتمل خصوصی گروپ قائم کیا۔ دہلی کے عالوہ (‪ )۱‬تکیہ شاہ علم‬ ‫ؒ‬ ‫موالنا شاہ ابو سعید‬
‫ہللا رائے بریلی (‪ )۲‬نجیب آباد (‪)۳‬لکھنؤ اور (‪ )۴‬مدرسہ مال معین الدین ٹھٹھہ سندھ بھی اسی‬
‫تحریک کے مراکز تھے۔‬
‫سلطان ٹیپو شہیدؒ‬
‫تکیہ شاہ علم ہللا رائے بریلی کا معروف روحانی مرکز تھا حضرت جہاں حضرت شاہ ابو‬
‫سعیدؒ جیسے صاحب علم و فضل‪ ،‬ارادتمندوں کی علمی و روحانی پیاس بجھاتے تھے‪ ،‬باالکوٹ‬
‫کے امیر جہاد حضرت سید احمد شہیدؒ آپ ہی کے نواسے تھے اور میسور کا مجاہ ِد اعظم سلطان‬
‫ٹیپو شہیدؒ بھی اسی خانوادے سے متعلق اور حضرت شاہ ابو سعیدؒ کے پوتے شاہ ابواللیث کا مرید‬
‫تھا جو آخری دم تک فرنگی کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔‬

‫ٰ‬
‫فتوی‬ ‫دارالحرب کا‬
‫تحریک کے لیے فکری بنیادیں فراہم کرکے اور اس فکر کی بنیاد پر عملی جدوجہد کے‬
‫لیے مختلف مراکز پر تربیتی مراکز قائم فرماکر حضرت شاہ ولی ہللا اس دنیا سے رخصت ہوئے‬
‫ؒ‬
‫عبدالعزیز کے حصہ میں آیا۔شاہ‬ ‫اور آپ کی جانشینی کا اعزاز آپ کے فرزند حضرت شاہ‬
‫عبدالعزیز نے ایک سعادت مند بیٹے کی حیثیت سے اپنے عظیم باپ کے ورثہ کو سینے سے‬ ‫ؒ‬
‫صاحب کے دور کا‬ ‫ؒ‬ ‫لگایا اور تحریک کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ شاہ‬
‫فتوی ہے جو آپ نے دہلی میں انگریزوں کی فرمانروائی‬ ‫ٰ‬ ‫سب سے بڑا اور تاریخ ساز کارنامہ وہ‬
‫عمل میں آنے کے بعد جاری کیا اور جس میں ہندوستان کو دارالحرب" قرار دے کر فرنگی کے‬
‫خالف جہاد کا اعالن فرمایا۔ یہی فتوی بعد میں آزادی کی تمام مسلم تحریکوں کے لیے بنیاد بنا۔ یہ‬
‫ؒ‬
‫عبدالعزیز نے اعالن کیا‬ ‫فتوی فتاوی عزیزیہ میں موجود ہے اور اس میں حضرت شاہ‬ ‫ٰ‬ ‫‪:‬‬

‫چونکہ شہر ی آزادیاں سلب ہوچکی ہیں۔‬

‫قانون سازی کے اختیارات عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں اور‬

‫مذہب کا احترام ختم کردیاگیا ہے اس لیے ہندوستان دارالحرب ہے اور جہاد فرض۔‬

‫فتوی کی پاداش میں حضرت شاہ صاحب کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ان کے‬ ‫ٰ‬ ‫اس‬
‫تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مبینہ طور پر آپ کے جسم پر چھپکلی کا ابٹن مل کر‬
‫برص پیدا کیاگیا‪ ،‬آپ کو دو مرتبہ دہلی بدر کیا گیا اور ایک بار آپ کو اہل خاندان سمیت شاہدرہ‬
‫(دہلی) تک پیدل آنا پڑا۔ ایک روایت ہے کہ ان مظالم کی وجہ سے آپ آخر عمر میں نابینا ہوگئے‬
‫اللّہی کی قیادت آپ نے جاری‬ ‫تھے‪ ،‬لیکن عظیم باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک ولی ٰ‬
‫ِ‬
‫رکھی اور ظلم و جبر کا کوئی دار آپ کے قدموں کو ڈگمگا نہ سکا۔ حضرت شاہ صاحب نے تعلیم‬
‫و تربیت‪ ،‬تبلیغ و وعظ اور روحانی سلسلہ کے عالوہ باقاعدہ جنگی تربیت بھی شروع کرادی‬
‫بریلوی کے نواسے سید احمد شہیدؒ کو امیر علی خاں ٔ‬
‫والی‬ ‫ؒ‬ ‫تھی۔ آپ ہی کی ہدایت پر شاہ ابو سعید‬
‫ٹونک کی فوج میں بھرتی کرایاگیا‪ ،‬جہاں حضرت شہید نے نہ صر ف مکمل فوجی تربیت حاصل‬
‫کی بلکہ فرنگی کے خالف مختلف معرکوں میں حصہ بھی لیا۔‬
‫جہاد باالکوٹ‬
‫عبدالعزیز اپنے حصہ کا کام کرکے رخصت ہوئے تو تحریک ولی ٰ‬
‫اللّہی کی باگ دوڑ‬ ‫ؒ‬ ‫شاہ‬
‫حضرت شاہ محمد اسحاق کے حصہ میں آئی اور سید احمد شہید کے ساتھ شاہ ولی ہللا کے پوتے‬
‫شاہ محمد اسماعیل شہید اور موالنا عبدالحئی کو مالکر جہاد کی تیاری کے لیے ایک الگ گروپ‬
‫قائم کردیاگیا۔ان تین بزرگوں نے بہت جلد ملک کے متعدد حصوں کا دورہ کرکے ہزاروں افرادکو‬
‫اس مقصد کے لیے تیار کرلیا۔ ایک بار سینکڑوں افراد کی معیت میں حج بیت ہللا کے لیے بھی‬
‫گئے۔ یہ سب جہاد کی تیاری کے مختلف مراحل تھے۔ جہاد کے لیے سب سے زیادہ ضروری‬
‫امر یہ تھا کہ کسی ایسے عالقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کرلیا جائے جہاں بیٹھ کر دلجمعی کے‬
‫نگہ انتخاب‬
‫ساتھ تحریک آزادی کو کنٹرول اور فرنگی کی فوجوں کا مقابلہ کیا جاسکے‪ ،‬چنانچہ ٖ‬
‫صوبہ سرحد کے عالقے پر پڑی اور اس خطہ کو اس مقصد کے لیے موزوں خیال کرتے ہوئے‬
‫مجاہدین کا قافلہ تبلیغ کرتے ہوئے مذہبی وعظ کے بہانے راجستھان‪ ،‬سندھ‪ ،‬خیرپور‪ ،‬ڈیرہ غازی‬
‫خان اور بلوچستان وغیرہ کے عالقوں سے ہوتا ہوا آزاد عالقہ پہنچا اور مختلف جھڑپوں کے بعد‬
‫سکھوں سے پشاور چھین کر وہاں امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کی سربراہی میں آزاد حکومت‬
‫قائم کردی۔ قرآن و سنت کا نظام نافذ ہوا۔ بیت المال قائم کیاگیا۔ شرعی حدود و تعزیرات کا نفاذہوا‬
‫اور فرنگی سامراج کے خالف جہاد کے لیے ایک آزاد ریاست معرض وجود میں آئی‪ ،‬مگر خود‬
‫الہوسی کا اندازہ کیجیے کہ بقول ڈبلیو ہنٹر فرنگی نے ڈپلومیسی سے کام لیتے‬‫ٰ‬ ‫غرضوں کی ابو‬
‫ہوئے ان مجاہدین کے خالف ’’وہابیت‘‘ کا نفرت خیز پروپیگنڈہ شروع کردیا جس کے نتیجے‬
‫میں بعض خوانین نے غداری کی اور انگریزیت کے بعد برصغیر میں قائم ہونے والی اسالمی‬
‫حکومت بے دردی کے ساتھ ختم کردی گئی اور مجاہدین کا پورا قافلہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ‬
‫اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پوری پامردی کے ساتھ شیر سنگھ کی فوجوں اور فرنگی کی‬
‫ڈپلومیسی کا مقابلہ کرتے ہوئے ‪ ۷‬مئی ‪۱۸۳۱‬ء کو باالکوٹ کی وادی میں جام شہادت نوش کرگیا۔‬
‫یعقوب خانوادہ ولی ٰ‬
‫اللّہی کے‬ ‫ؒ‬ ‫شہادت گاہ باالکوٹ کے بعد شاہ محمد اسحاق اور شاہ محمد‬
‫اللّہی کو نئے سرے سے منظم کرنے‬ ‫متعلقین سے ازسرنو رابطہ قائم کرنے اور تحریک ولی ٰ‬
‫کے لیے حجاز" مقدس چلے گئے‪ ،‬وہاں ان کے خالف مختلف شکایتیں کرکے فرنگی کے ایجنٹوں‬
‫ت عثمانیہ کا دور تھا‪ ،‬سازشیں کامیاب‬ ‫نے انہیں وہاں سے نکلوانے کی سازشیں کیں‪ ،‬مگر خالف ِ‬
‫نہ ہوئیں۔ باآلخر دہلی میں اس خاندان کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔‬

‫علماء صادق پور‬


‫صادق پور کے موالنا والیت علی‪ ،‬موالنا عنایت علی اور ان کے رفقاء نے شہدائے‬
‫باالکوٹ کی طرز پر جہاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ یاغستان میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ صادق پور اور‬
‫دوسرے مراکز سے وہاں کمک جاتی رہی اور عرصۂ دراز تک ان غیور و جسور مجاہدین نے‬
‫سرحد پر فرنگی کو پریشان کیے رکھا۔‬
‫اس گروپ پر انبالہ‪ ،‬پٹنہ‪ ،‬مالدہ اور بھاگل پور میں سازش کے متعدد مقدمات قائم ہوئے۔‬
‫متعدد رہنماؤں کو تختہ دار پر لٹکادیا گیا اور تہذیب و تمدن کے دعویدار فرنگی نے انتہائی بے‬
‫دردی کے ساتھ اس عظیم محب وطن خاندان کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ پٹنہ کے مقدمہ میں جب‬
‫بعبور دریائے شور اور ضبطی جائیداد کی سزاد ی‬
‫ِ‬ ‫موالنا احمد ہللا صادق پور ی کو حبس ودوام‬
‫گئی تو عین عید کے دن فرنگی درندوں نے ان کے خاندان کے مکانات کو مسمار کردیا‪ ،‬سامان‬
‫ضبط کرلیا‪ ،‬ان کے صاحبزادہ حکیم عبدالحمید کا دواخانہ ضبط کیا اور ان درندہ صفت‬
‫حکمرانوں نے اس خاندان کے قبرستان تک کو اکھاڑدیا اور الشوں کو پھینک دیا۔‬

‫ٹیٹو میر شہیدؒ‬


‫تیسری طرف بنگال کے عالقہ فرید پور میں جہاں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ‬
‫کے دو ماہ کے قیام کلکتہ کے دوران متعدد لوگ ان کی خدمت میں آکر جذبہ جہاد سے سرشار‬
‫علم بغاوت بلند کردیا۔‬
‫میر نے مجاہدین کا گروپ تیار کرکے ِ‬ ‫ہوئے تھے۔ نثار علی عرف ٹیٹو ؒ‬
‫ضلع فرید پور پر اپنی حکومت قائم کی اور کچھ عرصہ تک فرنگی فوجوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔‬
‫میر فرنگی کے خالف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور ان کے دست راست مسکین شاہ‬ ‫باآلخر ٹیٹو ؒ‬
‫کو تختہ دار پر چڑھادیاگیا۔‬

‫خاں‬
‫جنرل بخت ؒ‬
‫اللّہی فکری خاندان کے نامور چشم و‬ ‫چوتھی طرف سید احمد شہیدؒ کے خلیفہ اور ولی ٰ‬
‫علی نئی تکنیک کے مطابق فرنگی کے قدم اکھاڑنے کی مساعی میں‬ ‫چراغ موالنا سرفراز ؒ‬
‫ٰ‬
‫فتوی دیا۔ اس‬ ‫مصروف تھے۔ ان کی تحریک پر دہلی کے علماء نے فرنگی کے خالف جہاد کا‬
‫وقت بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا بے اختیار بادشاہ تھا۔ اصل اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ‬
‫میں تھے‪ ،‬فوجوں میں بے چینی کے آثار پہلے سے موجود تھے‪ ،‬اسباب فراہم ہورہے تھے۔‬
‫ٰ‬
‫فتوی نے جلتی پر تیل‬ ‫میرٹھ چھاؤنی میں بغاوت ہوئی‪ ،‬بجنور میں بغاوت ہوئی‪ ،‬علماء دہلی کے‬
‫علی کے‬‫علم جہاد بلند کردیا۔ موالنا سرفراز ؒ‬
‫کا کام کیا اور موالنا سرفراز علی کی امارت میں ِ‬
‫روہیال نے کمان سنبھالی اور اس طرح ‪۱۸۵۷‬ء کا وہ عظیم الشان‬ ‫ؒ‬ ‫مرید خاص جنرل بخت خاں‬
‫معرکہ حریت برپا ہوا جسے آج بھی فرنگی اور اس کی معنوی اوالد غد ر کے نام سے یاد کرتی‬
‫ہے اور جس کا تصور آج بھی کسی انگریز کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی تھانہ بھون ضلع سہارنپور کی عظیم خانقاہ" میں بھی جہاد کے لیے صالح مشورہ‬
‫کیرانوی کو حاالت کاجائزہ لینے کے لیے دہلی بھیجا گیا۔ رپورٹ ملی‬‫ؒ‬ ‫شروع ہوا۔موالنارحمت" ہللا‬
‫فتوی صادر کردیا۔ حضرت حاجی امداد ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تو خانقاہ تھانہ بھون نے فرنگی کے خالف جہا د کا‬
‫نظام حکومت قائم کیاگیا۔ حضرت موالنا محمد قاسم‬ ‫ِ‬ ‫مہاجر مکی کو امیر منتخب کرکے باقاعدہ‬
‫نانوتوی سپہ ساالر مقررہوئے اور شاملی کے میدانوں کو جوال نگاہ کے طور پر منتخب کرلیاگیا۔‬ ‫ؒ‬
‫ان مجاہدین نے فرنگی سے توپ اور دیگر ہتھیار چھین کر فرنگی کا مقابلہ کیا۔ شاملی تحصیل پر‬
‫قبضہ کرلیا جب دہلی میں بعض نام نہاد مسلمانوں کی غداری نے مجاہدین کے حق میں جنگ کا‬
‫پانسہ پلٹنے اور فرنگی کی واضح شکست کے بعد بھی فتح کو شکست سے تبدیل کردیا تو شاملی‬
‫ؒ‬
‫ضامن شہید‬ ‫عبدالجلیل اور حافظ‬
‫ؒ‬ ‫کے محاذ پر بھی فرنگی کا دباؤ بڑھ گیا۔ اس جنگ میں موالنا‬
‫ہوئے اور شاملی پھر فرنگی کے قبضہ میں چالگیا۔‬
‫فرنگی کے مظالم‬
‫ء کا عظیم معرکۂ جہاد بھی خود غرضوں کی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا اور‪۱۸۵۷‬‬
‫فرنگی نے اس بغاوت کا انتقام لینے کے لیے جو طریقے ایجاد کیے انہوں نے ہالکو خان اور‬
‫چنگیز خان کی روحوں کو بھی شرمادیا۔‬
‫بغاوت کے قیدیوں کو دریا میں غرق کردیاگیا‪ ،‬زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سی کر‬
‫نذر آتش کیاگیا۔ کرنل‬
‫آگ میں جالدیاگیا‪ ،‬باہمی بدفعلی پر مجبور کیاگیا‪ ،‬مکانوں میں بند کرکے ِ‬
‫ہڈسن نے مغل شہزادوں کو ننگا کرکے قتل کیا‪ ،‬ان کی الشوں کو پاؤں تلے روندا اور پھر چاندنی‬
‫چوک میں پھینکوادیا۔‬
‫چھ اشخاص کی ٹولیوں کو توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ ان کے پرخچے‬
‫اڑادیے گئے۔ ایک درخت پر سینکڑوں علماء کو پھانسی پر لٹکادیاگیا۔ ہزاروں علماء کو کالے‬
‫پانی میں قید کردیاگیا۔ غرض یہ کہ ظلم و جبر کا جو حربہ بھی فرنگی کی سمجھ میں آسکتا تھا‬
‫اس سے گریز نہیں کیا اور تہذیب و تمدن کے ان دعویداروں نے درندگی‪ ،‬بہمیت اور وحشت و‬
‫بربریت کی انتہا کردی۔‬

‫تبلیغی مشن‬
‫علماء کرام اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کی تحریک چالنے والوں کے اس ہمہ گیر قتل عام‬
‫کے ساتھ فرنگی نے برصغیر میں عیسائی تبلیغی مشنوں کا جال بچھادیا لیکن حضرت موالنا قاسم‬
‫کیرانوی نے اپنے رفقاء کی معیت میں فرنگی کے اس تبلیغی حملہ‬
‫ؒ‬ ‫نانوتوی اور موالنا رحمت ہللا‬
‫ؒ‬
‫کا پوری پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آگرہ کے مقام پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری فنڈر‬
‫کو موالنا رحمت ہللا نے ایسی عبرتناک شکست دی کہ وہ دوسری بار مقابلہ میں آنے کی جرات‬
‫نہ کرسکا اور ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ موالنا رحمت ہللا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے‬
‫ؒ‬
‫عبدالعزیز عثمانی نے مختلف زبانوں میں چھپواکر‬ ‫ایک معرکۃ اآلراء کتاب لکھی جسے سلطان‬
‫تقسیم کیا۔ اس کے انگریزی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے ‪۱۸۹۱‬ء میں لندن ٹائمز نے لکھاتھا کہ‬
‫’’اگر یہ کتاب پڑھی جاتی رہی تو دنیا میں عیسائی مذہب ختم ہوجائے گا۔‘‘ اس طرح امام ولی ہللا‬
‫کے فکری خوشہ چینیوں کے ہاتھوں عیسائی تبلیغی مشن اپنے فطری انجام کو پہنچے۔‬
‫حضرت شیخ احمدفاروقی المعروف مجدد ؒ‬
‫الف ثانی اور ان کی جدوجہد‬

‫الف ثانی‬
‫"خطاب "مجد ِد ِ‬
‫الف ثانی‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‬ ‫سب سے پہلے تو اِس خطاب یعنی ’’مجد ِد ِ‬
‫’’الف ثانی‘‘ یعنی دوسرا ہزاریہ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار سال‬
‫ِ‬ ‫’’الف‘‘ ہزار کو کہتے ہیں۔‬
‫گزرنے کے بعد جو دوسرا ہزاریہ شروع ہوا تھا مجدد صاحب اس کے آغاز میں آئے۔ وہ دسویں‬
‫صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی محنت کا جو دورانیہ ہے وہ گیارہویں صدی کے‬
‫الف ثانی نے اپنی علمی و دینی خدمات سر‬ ‫پہلے تین عشرے ہیں۔ ‪۱۰۳۲‬ء تک حضرت مجدد ؒ‬
‫انجام دیں۔ چنانچہ انہیں دوسرے ہزاریے کا مجدد کہا جاتا ہے۔‬

‫"مجدد" کی اصطالح‬
‫مجدد ہماری شرعی اصطالح ہے۔ جناب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’‬
‫کہ ہللا پاک ہر صدی کے آغاز میں ایک عالم‪ ،‬ایک شخصیت کو بھیجتے ظاہر کرتے ہیں جس کا‬
‫کام یہ ہوتا ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو کمی بیشی ہوتی ہے ان کی‬
‫اصالح کرتا ہے اور دین کو اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ ایک فرد بھی ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬کئی افراد بھی ہوتے ہیں‪ ،‬جماعتیں بھی ہوتی ہیں۔ الغرض حاالت کے مطابق ہللا تبارک‬
‫وتعالی دین کی تجدید کا کام اشخاص سے یا جماعتوں سے لیتے رہتے ہیں۔ اور تجدید کا ٰ‬
‫معنی یہ‬ ‫ٰ‬
‫ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو رسوم وغیرہ شامل ہوتی رہتی ہیں ان کی‬
‫چھانٹی کر کے اسالم کو اس کی اصل صورت میں پیش کرے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ دین کا‬
‫اصل ہے اور فالں فالں چیزیں اس میں زائد ہیں۔ یا پھر یہ کہ دین کے جو احکام و تعلیمات پس‬
‫پشت چلے جاتے ہیں ان کو از سر نو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔‬
‫صاحب صدی کے مجدد تھے لیکن انہیں ہزار سال کا مجدد کہا جاتا ہے۔‬ ‫ؒ‬ ‫حضرت مجدد‬
‫مجدد الف ثانی ‪ ،‬یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد۔ حاالنکہ مجدد تو ہزار سال کا نہیں ہوتا مجدد‬
‫کی ضرورت تو وقتا ً فوقتا ً پڑتی رہتی ہے۔ اگر اس اصطالح میں بھی بات کریں تو یہ گیارہویں‬
‫صدی کے مجدد ہیں لیکن معروف ’’مجدد الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد کے نام‬
‫سے ہوئے۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ دسویں صدی کے اختتام پر ہندوستان میں‬
‫مغل اعظم بھی کہتے ہیں اور اکبراعظم بھی۔‬ ‫اکبر بادشاہ کے نام سے ایک بادشاہ گزرا ہے‪ ،‬اسے ِ‬
‫دنیا کے اعتبار سے بڑا با جبروت حکمران تھا‪ ،‬اس کی بڑی سلطنت تھی اور اس نے بڑی‬
‫حکومت کی۔ اکبر نے دین کے حوالے سے کچھ اضافے اورتبدیلیاں کی تھیں۔ ان تبدیلیوں کے‬
‫بارے میں اس سے یہ کہا گیا کہ دین کا ایک ہزار سال پورا ہوگیا ہے اب نئے ہزار سال کے لیے‬
‫دین کی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت ہے۔ اکبر اعظم کو اگلے ہزار سال کے لیے مجتہ ِد اعظم‬
‫کا لقب دے کر دین کا داعی اور شارح کہا جاتا تھا کہ اگلے ہزار سال کے لیے اس کا دین چلے‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہزار سال کا‬ ‫گا۔ اور اس کے دین کو ’’دین ٰالہی‘‘ کا نام دیا گیا۔ چونکہ دین ٰالہی والوں کا‬
‫تھا کہ اگلے ہزاریے کے لیے اکبر کا دین چلے گا۔ اس لیے اس کے جواب میں مجدد صاحب کو‬
‫بھی الف ثانی کا خطاب" دیا گیا کہ دین ٰالہی کے خالف وہ میدان میں آئے اور انہوں نے سب سے‬
‫زیادہ اس کا مقابلہ کیا چنانچہ وہ مجدد الف ثانی کہالنے لگے۔‬

‫اصل نام‬
‫شیخ احمد ان کا اصل نام ہے جو کہ کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سرہند ‪،‬مشرقی پنجاب میں ایک‬
‫عالقہ ہے یہ وہاں کے بزرگ تھے اور نقشبندی خاندان کے بڑے مشائخ میں سے تھے۔ ہللا پاک‬
‫نے بڑے علم اور فضل سے نوازا تھا۔ روحانی اعتبار سے بھی اور علمی اعتبار سے بھی بڑے‬
‫اونچے مقام پر فائز کیا تھا۔ عالم بھی چوٹی کے تھے اور صوفیاء میں بھی ان کا بڑا مقام تھا۔‬
‫نقشبندی سلسلے میں اپنے دور کے بڑے صوفی تھے اور نقشبندی سلسلے میں بھی ان کو مجدد‬
‫کی حیثیت حاصل ہے کہ ان سے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت شیخ احمد فاروقی‪،‬‬
‫المعروف مجدد اَلف ثانی ؒ ۔ اکبر کا دور ان کے سامنے نہیں گزرا لیکن اکبر کے جانشین جہانگیر‬
‫کا دور ان کے سامنے گزرا۔ مغل بادشاہ جہانگیر مجدد صاحب کا معاصر تھا۔ اس کے اول دور‬
‫میں مجدد صاحب قید رہے جبکہ بعد کے دور میں اس کے مصاحب بھی رہے۔ مجدد صاحب کی‬
‫ساری محنت کا میدان جہانگیر بادشاہ کا دور تھا۔‬

‫تصوف کی اصالح‬
‫الف ثانی نے سب سے زیادہ محنت کی ان میں ایک‬ ‫وہ مختلف میدان جن میں حضرت مجدد ؒ‬
‫میدان تصوف کا ہے۔ تصوف میں بہت سی باتیں ایسی شامل ہوگئی تھیں اور بہت سے رجحانات‬
‫ایسے آگئے تھے جو شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے‪ ،‬شرعی حدود سے بڑھ گئے تھے‬
‫اور غلو کے زمرے میں آتے تھے۔ چنانچہ مجدد صاحب کا ایک میدان تھا تصوف کی اصالح‬
‫اور تصوف میں حد سے بڑھ جانے والے جو کام تھے ان کی نشاندہی۔ مجدد صاحب ؒ تصوف کو‬
‫اس کے اصل رخ پر الئے کہ اصل تصوف کی بنیاد شریعت ہے۔ جو چیز شریعت کے مطابق ہے‬
‫تصوف میں وہ درست ہے اور جو شریعت کے دائرے کی نہیں ہے وہ تصوف میں بھی درست‬
‫نہیں ہے۔ جب ایک کام چلنے لگتا ہے تو بہت سی باتیں شامل ہونے لگتی ہیں کچھ جائز اور کچھ‬
‫ناجائز۔ تو مجدد صاحب ؒ کا ایک میدان یہ تھا کہ تصوف میں جو نئے ایسے رجحانات آگئے تھے‬
‫جو اسالمی عقائد اور شریعت کے احکام سے ٹکراتے تھے مجدد صاحب نے ان کی چھانٹی کی‬
‫ان صفائی کی اور اصل تصوف جو شریعت اور احکام اسالم کے دائرے کی چیز ہے اسے‬
‫واضح کیاہے۔ چنانچہ انہیں مجد ِد تصوف بھی کہتے ہیں اور مجد ِد نقشبندیت بھی کہتے ہیں کہ وہ‬
‫اس میدان میں بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے واقعتا ً بہت ساری خرافات وغیرہ کی چھانٹی کر کے‪،‬‬
‫جو تصوف کی باتیں شریعت کے دائرے کی تھیں‪ ،‬انہیں از سر نو پیش کیا۔‬

‫اہل سنت عقائد کا دفاع‬


‫صاحب کی جدوجہد کا ایک دائرہ اور بھی تھا اور وہ تھا اہل سنت عقائد کا‬
‫ؒ‬ ‫حضرت مجدد‬
‫دفاع۔ ہندوستان میں یہ بحران ہمیشہ سے رہا ہے بالخصوص ہمایوں بادشاہ اور اس کے بعد سے۔‬
‫سوری سے شکست کے بعد ہمایوں کی حکومت کی بحالی میں ایران کے صفوی‬ ‫ؒ‬ ‫شیر شاہ‬
‫حکمرانوں کا بڑا ہاتھ تھا جس کے ساتھ ہندوستان میں شیعہ فکر آگئی تھی۔ جب شیعہ فکر ایک‬
‫صاحب نے اس کا بھی مقابلہ کیا اور اہل سنت کے عقائد کی طرف‬
‫ؒ‬ ‫حد سے آگے بڑھی تو مجدد‬
‫صحابہ کی تعلیمات اور‬
‫ؓ‬ ‫توجہ دالئی۔ دین میں صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی حیثیت‪،‬‬
‫صاحب کی جدوجہد‬
‫ؒ‬ ‫خلفائے راشدین کے مقام و عظمت کی اشاعت کی۔ چنانچہ ایک میدان مجدد‬
‫کرام کے دینی مقام کو اور‬
‫کا یہ بھی تھا کہ انہوں نے اہل سنت کے اصل عقائد کو ‪ ،‬صحابہ ؓ‬
‫کرام کی تعظیم کو لوگوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے اس میدان میں محنت کی۔‬ ‫صحابہ ؓ‬

‫اکبر بادشاہ کے ’’دین ٰالہی‘‘ کے خالف جدوجہد‬


‫صاحب کی جس جدوجہد کو تاریخ میں سب سے زیادہ سراہا جاتا ہے اور‬ ‫ؒ‬ ‫حضرت مجدد‬
‫جس کا تمام مورخین اور مفکرین نے بڑے اہتمام سے ذکر کیاہے وہ ہے اکبر کے دین ٰالہی کے‬
‫خالف جدوجہد۔ اکبر کا دین ٰالہی یہ تھا کہ اس کے درباری علماء نے یہ بات آہستہ آہستہ اکبر کے‬
‫ذہن نشین کرانا شروع کر دی کہ ایک ہزار سال مکمل ہوگیا ہے اور اگال ہزار سال شروع ہوگیا‬
‫ہے۔ پچھلے ہزار سال میں دین کی جو تعبیرات تھی اور دین کا جو علمی ڈھانچہ تھا وہ پرانا ہوگیا‬
‫ہے۔ اب دین کی نئی تعبیر اور نئے علمی و فکری ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ اور اکبر کے‬
‫درباری علماء نے اسے اس بات پر اکسایا کہ اکبر یہ کام کر سکتا ہے اس لیے کہ وہ بادشاہ ہے‪،‬‬
‫اختیارات کا مالک ہے اور مجتہد اعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔‬
‫یہ بات قابل تسلیم ہے کہ اکبر مغلوں میں سب سے بڑا بادشاہ تھا۔ اکبر اعظم اور مغل اعظم‬
‫کے نام سے اسے یاد کیا جاتا ہے۔ ہمارے مورخین کا یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ درباری علماء نے‬
‫اکبر کو ورغال کر اس معاملے میں خراب کیا لیکن تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں‬
‫ایک بات اور کہنا چاہوں گا ۔ میرے تجزیے کے مطابق اصل بات یہ ہوئی کہ یورپ میں‬
‫’’اصالح مذہب‘‘ کی تحریک چلی تھی جو مارٹن لوتھر کی تحریک کہالتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں‬
‫کہ اکبر کے دین ٰالہی کی تحریک بھی مارٹن لوتھر کی اصالح مذہب کی تحریک سے متاثر ہو‬
‫کر پروان چڑھی۔ کیونکہ مارٹن لوتھر کا دور دسویں صدی ہجری کا آخر ہے جبکہ عیسوی‬
‫اعتبار سے یہ سولہویں صدی بنتی ہے۔ مارٹن لوتھر نے ‪۱۵۴۶‬ء میں وفات پائی جبکہ اکبر پیدا‬
‫ہوا ‪۱۵۴۲‬ء میں اور فوت ہوا ‪۱۶۰۵‬ء میں۔ یہ وہ دور تھا جب مغرب میں پوپ کے خالف تحریک‬
‫چلی تھی اور مذہب پر پوپ کی اجارہ" داری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اس کا ایک‬
‫خاص پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ کیتھولک عیسائیت میں مذہب کی تشریح اور تعبیر کا مکمل اختیار‬
‫پاپائے روم کے ہاتھ میں ہے۔ پاپائے روم اور اس کی کونسل کی تشریح کو ہی مذہب سمجھا جاتا‬
‫ہے اس میں کسی دلیل کی ضرورت یا کسی چیلنج کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تو مارٹن لوتھر نامی‬
‫ایک پادری نے پاپائے روم کی اس اتھارٹی کو چیلنج کیا تھا یہ کہہ کر کہ ہم مذہب پر پاپائے روم‬
‫کی اجارہ داری نہیں مانتے اور بائبل کی تشریح میں پاپائے روم کو ہم فائنل اتھارٹی تسلیم نہیں‬
‫کرتے۔ یہ ایک لمبا قصہ ہے کہ مارٹن لوتھر نے کس طرح بغاوت کر کے اصالح مذہب کی‬
‫تحریک چالئی اور پھر اس کے نتیجے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اس تحریک کے نتیجے میں‬
‫عیسائیت میں ایک نیا فرقہ پروٹسٹنٹ کے نام سے تشکیل پایا‪ ،‬اس بنیاد پر کہ مذہب کی تشریح پر‬
‫چرچ اور پاپائے روم کی اجارہ داری نہیں ہے۔ جو آدمی بھی بائبل کو کامن سینس سے سمجھ لیتا‬
‫ہے وہی اس کی تشریح ہے۔ اس تحریک کو کئی ناموں سے یاد کرتے ہیں‪ ،‬اصالح مذہب کی‬
‫تحریک ‪ ،‬آزاد ی کی تحریک‪ ،‬لبرٹی اور ذہنی آزادی کی تحریک وغیرہ۔‬
‫میرا یہ خیال ہے کہ مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے اثرات ہندوستان میں آئے اور یہاں‬
‫بھی یہ سوچ پیدا ہوئی کہ مذہب پر مولوی کی اجارہ داری ختم کی جائے اور ہر آدمی کو یہ حق‬
‫دیا جائے کہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق دین کی تشریح کرے۔ چنانچہ ’’تشکیل جدید ٰالہیات‬
‫اسالمیہ‘‘ کا تصور پیش کیا گیا کہ اسالمی فکر اور علم کا نیا ڈھانچہ تشکیل میں الیا جائے جس‬
‫کا آغاز کرنے کے لیے انہوں نے اکبر بادشاہ کا انتخاب کیا۔ چنانچہ تاریخ میں یہ بڑی تفصیل‬
‫سے مذکور ہے کہ اکبر کی اِس بات کی طرف توجہ دالئی گئی کہ یہ کام آپ کر سکتے ہیں‪ ،‬آپ‬
‫صاحب اختیار ہیں صاحب دانش ہیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ اکبر کو اس کام کے لیے تیار کر لیا‬
‫گیا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اکبر کے دور میں یہ اعالن کر دیا گیا کہ بادشاہ سالمت مجتہد اعظم ہیں‪،‬‬
‫اس لیے قرآن و سنت کی تشریح و تعبیر‪ ،‬نیز فقہاء کے جو اختالفات ہیں ان میں سے کسی چیز‬
‫کو متعین کرنا وغیرہ یہ سب اختیارات اکبر کو حاصل ہیں۔ اکبر جو کہہ دے گا وہ دین ہوگا اکبر‬
‫جو اعالن کر دے گا وہ شریعت ہوگی۔ اور پھر اکبر کے نام سے اکبر کی ترکیبات و خیاالت ایک‬
‫نئے مذہب کے طور پر پیش کر دیے گئے جسے ’’دین ٰالہی‘‘ کا نام دیا گیا۔ اکبر کے دین ٰالہی‬
‫کی بہت سی تفصیالت کتابوں میں مذکور ہیں‪ ،‬اس حوالے سے دو اہم کتابیں یہ ہیں‬

‫تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ از حضرت موالنا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ۔ اس کتاب کی’’ ‪1.‬‬
‫ایک مکمل جلد اسی حوالے سے ہے۔‬
‫دہلوی ۔ اس کتاب کی’’ ‪2.‬‬
‫ؒ‬ ‫علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ از حضرت موالنا سید محمد میاں‬
‫پہلی جلد اسی موضوع پر ہے۔‬

‫دین ٰالہی" پر ایک نظر"‬


‫اکبر بادشاہ کا دین ٰالہی ایک طرف تو یہ تھا کہ دین کی ایک نئی تعبیر و تشریح کی گئی‬
‫اور دین کا ایک نیا ڈھانچہ بنایا گیا۔ اور دوسری طرف یہ کہ اس میں ہندوستان میں بسنے والے‬
‫سارے مذاہب کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سکھوں کا تو شاید اس زمانے میں ابھی‬
‫آغاز ہی تھا پوری طرح سامنے نہیں آئے تھے۔ ہندو‪ ،‬عیسائی ‪ ،‬پارسی‪ ،‬مجوسی اور مسلمان ‪ ،‬ان‬
‫سب کی موٹی موٹی باتیں شامل کر کے ایک ملغوبہ بنایاگیا۔ چنانچہ اکبر کے دین ٰالہی میں سورج‬
‫کی پرستش بھی تھی اور ہللا کی عبادت بھی۔ حالل و حرام کے احکامات بھی تبدیل کر دیے گئے۔‬
‫سور اور شراب کو جائز قرار دیا گیا ۔ زنا کو بھی بعض شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا گیا۔‬
‫دوسری شادی حرام قرار دے دی گئی۔ ایک لمبی فہرست ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جاتا‬
‫لیکن اسے ’’دین ٰالہی‘‘ کے نام سے باقاعدہ حکومت کی طرف سے رائج کیا گیا کہ ہندوستان کا‬
‫مذہب یہ ہوگا اور لوگوں کو اِس کے احکام و ضوابط کی پابندی کرنی ہوگی۔‬
‫اس وقت علماء حق نے اپنے طور پر مزاحمت کی جہاں جہاں وہ کر سکتے تھے لیکن سب‬
‫الف ثانی نے کی۔ اسی طرح جیسے پہلے زمانوں میں‬ ‫سے زیادہ محنت اس پر حضرت مجدد ؒ‬
‫بڑے علماء نے اپنے دور کے چلینجز کا سامنا کیا اور ان کے خالف جدوجہد کی۔ چنانچہ ایک‬
‫زمانے میں اکابر علماء نے خلق قرآن کے مسئلے پر معتزلہ کا مقابلہ کیا جن میں سب سے زیادہ‬
‫حنبل سامنے آئے۔ ہمارے ہاں یہ ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ معتزلہ کے خالف ان‬‫ؒ‬ ‫امام احمد بن‬
‫کے عالوہ کوئی بوال نہیں‪ ،‬یہ بات غلط ہے۔ اس زمانے میں بھی علماء کی بڑی تعداد نے معتزلہ‬
‫کے اس تسلط کے خالف آواز اٹھائی اور قربانیاں دی لیکن چونکہ سب سے زیادہ نمایاں امام بن‬
‫حنبل تھے اس لیے وہ ساری جدوجہد ان کے نام منسوب ہوگئی۔ اسی طرح اکبر بادشاہ کے دین‬ ‫ؒ‬
‫ٰال ہی کے بارے میں بھی ہندوستان کے مختلف عالقوں میں علماء نے آواز اٹھائی اور اسے قبول‬
‫صاحب نے کی‬
‫ؒ‬ ‫کرنے سے انکار کیا لیکن اس پر سب سے منظم جدوجہد چونکہ حضرت مجدد‬
‫صاحب نے لڑی۔ اور پھر ساتھ یہ‬‫ؒ‬ ‫اس لیے ایک بات تو یہ کہہ دی جاتی ہے کہ ساری لڑائی مجدد‬
‫جملہ بھی شامل کر دیا جاتا ہے کہ مجدد صاحب کے عالوہ کوئی بوال نہیں‪ ،‬یہ دوسری بات غلط‬
‫ہے۔ اگر آپ یہ کتابیں ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ اور ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ پڑھیں تو‬
‫آپ کو بہت سے علماء ملیں گے جنہوں نے مقابلہ کیا مزاحمت کی اور آواز اٹھائی ۔ ہاں ان میں‬
‫سرہندی تھے۔‬
‫ؒ‬ ‫سب سے نمایاں حضرت شیخ احمد‬

‫صاحب کی جدوجہد کا طریقہ کار‬


‫ؒ‬ ‫حضرت مجدد‬
‫یہ ایک مستقل موضوع ہے کہ حضرت مجدد ؒ‬
‫الف ثانی کی جدوجہد کا طریق کار کیا تھا۔‬
‫حضرت مجددؒ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ براہ راست مقابلے پر یعنی میدان‬
‫ثانی کی جدوجہد کا سب سے بڑا پہلو یہ بیان کیا جاتا ہے‬
‫جنگ میں نہیں آئے۔ حضرت مجدد الف ؒ‬
‫اکبر کے دین ٰالہی کے خالف ان کی محنت علمی و فکری تھی۔ انہوں نے جہانگیر کے دربار‬
‫میں‪ ،‬جہانگیر کے فوجیوں میں‪ ،‬جہانگیر کی بیوروکریسی اور اس کے سرداروں کے ساتھ رہ کر‬
‫الف ثانی کے کام کا سب سے بڑا ذخیرہ ان کے مکتوبات‬ ‫ان کی ذہن سازی کی۔ حضرت مجدد ؒ‬
‫صاحب نے جہانگیر بادشاہ کے جو بڑے بڑے معاون تھے‪ ،‬درباری تھے‪ ،‬حکمران‬ ‫ؒ‬ ‫ہیں۔ مجدد‬
‫تھے‪ ،‬سردار تھے‪ ،‬جرنیل تھے‪ ،‬ان سے خط و کتابت کے ذریعے شخصی رابطے کیے۔ البنگ‬
‫اور بریفنگ کے ذریعے اپنے موقف پر ان کی حمایت حاصل کی۔ اور آج کا بڑا ہتھیار بھی یہی‬
‫ہے۔ بریفنگ کرنا اور البنگ کرنا‪ ،‬مقابلے پر آئے بغیر‪ ،‬کوئی محاذ گرم کیے بغیر‪ ،‬ساتھ مل جل‬
‫کر ذہن سازی کرنا اور اصالح کرنا ۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ عوام میں جلسے کریں‪ ،‬لوگوں‬
‫کو حکمرانوں کے خالف اکسائیں اور بغاوت کا ماحول پیدا کریں‪ ،‬انہوں نے سرداروں کو‬
‫مخاطب کیا اور ان سے بات چیت کی۔ بلکہ جہانگیر کے اپنے مصاحبین میں ساڑھے تین سال‬
‫حتی کہ ان کی اس محنت کا ثمرہ یہ نکال کہ خود‬‫تک رہ کر ایک ایک کی ذہن سازی کی۔ ٰ‬
‫جہانگیر نے اپنے باپ کے دین سے دستبرداری اختیار کی اور دین اسالم کے اصل عقائد کی‬
‫طرف واپس لوٹ آیا۔‬
‫صاحب کی جدوجہد کی ایک خاص بات جو ذکر کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ‬ ‫ؒ‬ ‫حضرت مجدد‬
‫وہ گوالیار کے قلعے میں قید رہے۔ اگرچہ اس کا ظاہری سبب یہی تھا کہ انہوں نے جہانگیر کے‬
‫دربار میں سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جہانگیر کے دربار کا یہ پروٹوکول تھا کہ جو آتا‬
‫تھا پہلے سجدہ کرتا تھا۔ اس کے عالوہ کچھ اور الزامات بھی تھے‪ ،‬مجدد صاحب کو گرفتار کر‬
‫کے گوالیار کے قلعے میں بند کر دیا گیا۔ جہانگیر نے اپنی ’’تزک جہانگیری‘‘ میں اس کا ذکر‬
‫کیا ہے۔ ابتداء میں تو ذکر اِس طرح ہے کہ کوئی دھوکے باز پیر تھا جسے میں نے پکڑ کر قید‬
‫الف ثانی نے صبر و حوصلے‬ ‫کر دیا۔ دو چار جملے اس طرح کے ذکر ہیں۔ لیکن حضرت مجدد ؒ‬
‫اور تحمل کے ساتھ اصالح کا طریقہ اختیار کیا۔ بلکہ ایک روایت ہے جسے بعض مؤرخین‬
‫خان‬
‫صحیح تسلیم نہیں کرتے‪ ،‬وہ یہ کہ جب مجدد صاحب گوالیار کے قلعے میں بند تھے تو ِ‬
‫صاحب کا مرید تھا اور جہانگیر کا وزیر اعظم تھا‪ ،‬اس نے مجدد صاحب کو‬
‫ؒ‬ ‫خاناں جو مجدد‬
‫پیشکش کی کہ اگر اجازت ہو تو مارشل الء لگا دوں۔ یعنی آپ کو جہانگیر کی جگہ پر لے آؤں‬
‫اور جہانگیر کو آپ کی جگہ پر لے جاؤں۔ تو مجدد صاحب نے انکار کر دیا کہ فقیر اقتدار کی‬
‫ہوس نہیں رکھتا یہ تو بس ان کی اصالح چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی بات کا اثر جہانگیر پر‬
‫ہوا۔‬

‫جہانگیر بادشاہ کی ’’دین ٰالہی‘‘ سے دستبرداری‬


‫صاحب کی جدوجہد کا ایک نتیجہ یہ نکال کہ جہانگیر کے دور میں ہی اکبر کا‬ ‫ؒ‬ ‫چنانچہ مجدد‬
‫دین ٰال ہی سرکاری قوت کے ساتھ ختم ہوگیا اور جہانگیر اپنے ماضی پر اور بزرگوں کے عقائد‬
‫صاحب ایک قصہ سنایا‬‫ؒ‬ ‫اور طرز عمل پر واپس پلٹ گیا۔ چنانچہ حضرت موالنا محمد اجمل خان‬
‫کرتے تھے کہ جب مال نور ہللا شوستری جو جہانگیر بادشاہ کے دربار کا ایک بڑا درباری عالم‬
‫تھا‪ ،‬اس نے کتاب لکھی جس میں اس نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کی اہانت کی۔ اِس بات پر‬
‫جہانگیر کے دربار میں مال نور ہللا شوستری پر مقدمہ چال اور اسے موت کی سزا دے دی گئی۔‬
‫عمر کی شان میں گستاخی‬ ‫نور ہللا شوستری کو اہل تشیع کے ہاں شہید ثالث کہا جاتا ہے۔ حضرت ؓ‬
‫پر اسے جہانگیر بادشاہ نے موت کی سزا سنا دی تھی۔ جبکہ ملکہ نورجہاں شیعہ تھی‪ ،‬وہ پردے‬
‫کے پیچھے بیٹھا کرتی تھی۔ کہتے ہیں جہانگیر کے پاؤں کے ایک انگوٹھے میں ڈوری بندھی‬
‫ہوتی تھی جس کا سرا پردے کے پیچھے ملکہ نور جہاں کے پاس ہوتا تھا۔ وہ جہانگیر کے کسی‬
‫فیصلے پر اپنی رائے ظاہر کرنے کے لیے پردے کے پیچھے سے وہ ڈوری ہالیا کرتی تھی۔ یہ‬
‫ایک تاریخی روایت ہے‪ ،‬وہللا اعلم کتنی درست ہے۔ ملکہ نور جہاں کے ڈوری ہالنے پر جہانگیر‬
‫اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتا تھا۔ جب جہانگیر مال شوستری کے بارے میں فیصلہ کرنے لگا‬
‫‪:‬تو ملکہ نور جہاں نے پیچھے سے ڈوری ہالئی تو جہانگیر پیچھے مڑ کر کہتا ہے‬
‫‘‘؂’’ جاناں تُرا جاں دادہ ام ایمان نہ دادہ ام۔‬
‫یعنی میری محبوبہ میں نے جان تیرے حوالے کی ہے‪ ،‬ایمان تیرے حوالے نہیں کیا۔ چنانچہ‬
‫صاحب جہانگیر کے ساتھ رہے۔‬ ‫ؒ‬ ‫جہانگیر اصل اِسالم کی طرف واپس پلٹ گیا۔ اس کے بعد مجدد‬
‫صاحب کو اصالح کے لیے اپنے ساتھ رکھا کہ میرے درباریوں کی اصالح کرتے‬ ‫ؒ‬ ‫اس نے مجدد‬
‫ثانی کی محنت کا ایک نتیجہ یہ نکال کہ اکبر کا وہ دین ٰالہی‬
‫الف ؒ‬‫رہیں۔ اس طرح حضرت مجدد ؒ‬
‫اس کے بیٹے کے دور ہی میں ختم ہوگیا۔‬

‫عالمگیر‬
‫ؒ‬ ‫اورنگ زیب‬
‫حضرت مجدد ؒ‬
‫الف ثانی کی جدوجہد کا ایک نتیجہ اور نکال جو کہ ان کی تحریک کا ایک‬
‫صاحب نے مغلیہ خاندان پر بہت محنت کی‪ ،‬وہ تو اس خاندان میں‬
‫ؒ‬ ‫تسلسل تھا۔ کہتے ہیں کہ مجدد‬
‫گھس ہی گئے۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ حکومت تو مغلوں نے ہی کرنی ہے یہی بادشاہ ہوں گے‬
‫یہی وزیر ہوں گے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ ٹکراؤ کی فضا قائم کی جائے بہتر یہ‬
‫ہے کہ ان پر محنت کر کے ان کو راہ راست پر الیا جائے۔ چنانچہ اسی محنت کے نتیجے میں‬
‫عالمگیر بھی سامنے آیا۔ اسے بھی مؤرخین حضرت مجدد صاحب کی تحریک کے‬ ‫ؒ‬ ‫اورنگ زیب‬
‫ثمرات میں شمار کرتے ہیں۔‬
‫صاحب کی تحریک کا دوسرا بڑا پھل یہ تھا کہ‬ ‫ؒ‬ ‫چنانچہ دین ٰالہی کے خاتمے کے بعد مجدد‬
‫عالمگیر جیسے صحیح العقیدہ مغلیہ بادشاہ پر آگئی۔ ورنہ متحدہ‬
‫ؒ‬ ‫بات چلتے چلتے اورنگزیب‬
‫ہندوستان میں ماضی کا تسلسل یہ رہا ہے کہ یہاں مغلوں اور پٹھانوں میں کشمکش رہی ہے۔‬
‫سوری وغیرہ سب پٹھان تھے۔ آج کے دور میں اس کی مثال ایسے‬ ‫ؒ‬ ‫غزنوی اور شیر شاہ‬
‫ؒ‬ ‫محمود‬
‫سمجھ لیں کہ مغل جو تھے وہ سب شمالی اتحاد تھے اور پٹھان جو تھے وہ سب طالبان تھے۔ مغل‬
‫نیم لبرل اور شیعہ سے متاثر تھے‪ ،‬جبکہ پٹھان خالص مذہبی اور خالص سنی تھے۔ مغل مذہبی‬
‫اعتبار سے نیم لبرل تھے وہ مذہب کو مانتے بھی تھے‪ ،‬اس پر عمل بھی کرتے تھے لیکن‬
‫رواداری اور دنیا داری وغیرہ بھی ساتھ نبھاتے تھے۔ جبکہ شیر شاہ سوری اور محمود غزنوی‬
‫وغیرہ پکے سنی تھے۔ پٹھانوں کی جتنی لڑی بھی آئی‪ ،‬مضبوط مذہبی اور سنی لوگوں کی آئی۔‬
‫جبکہ مغلوں کی جتنی لڑی بھی آئی وہ نیم لبرل تھی اور شیعہ فکر سے متاثر تھی۔ اسی لیے‬
‫مغلوں میں اورنگزیب عالمگیر کا پیدا ہونا تاریخ کا عجوبہ کہالتا ہے کہ مغلوں میں طالبان صفت‬
‫بادشاہ کہاں سے آیا۔ اور یہ بھی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ اورنگزیب جیسے متصلب سنی‬
‫حکمران کے بعد اس کے جانشین بیٹے بہادر شاہ اول نے باقاعدہ شیعہ مذہب اختیار کر لیا اور‬
‫ؓ‬
‫فاروق اور‬ ‫صدیق‪ ،‬حضرت عمر‬‫ؓ‬ ‫جمعۃ المبارک کے خطبات میں خلفاء ثالثہ حضرت ابوبکر‬
‫غنی کا ذکر ممنوع قرار دے دیا جس پر بڑے ہنگامے ہوئے اور الہور کے عوام‬ ‫حضرت عثمان ؓ‬
‫نے قلعہ کا باقاعدہ محاصرہ کر لیا۔‬
‫میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ کشمکش بڑی پرانی ہے‪ ،‬اس دور میں بھی یہی لڑائیاں تھیں۔‬
‫حیرانگی کی بات یہ تھی یہ پکا مذہبی اور سنی بادشاہ اورنگزیب مغلوں میں کیسے پیدا ہوگیا۔‬
‫الف ثانی ؒ کی جدوجہد کے اثرات تھے۔ یہ ان کی محنت‬ ‫مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ حضرت مجدد ؒ‬
‫کا ثمرہ تھا کہ مغلوں میں اورنگزیب آیا اور پچاس سال تک اس نے یہاں مذہبی طرز پر حکومت‬
‫فتاوی عالمگیری بھی اس نے مرتب کروایا اور دیگر بہت سی مذہبی روایات بحال کیں جو‬ ‫ٰٰ‬ ‫کی۔‬
‫الف ثانی نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیے بغیر‬ ‫تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ چنانچہ حضرت مجدد ؒ‬
‫ذہن سازی اور البنگ سے جو خاموش محنت کی اس کے دو بڑے ثمرات مؤرخین ذکر کرتے‬
‫ہیں۔ ایک جہانگیر کے دور میں اصل دینی عقائد کی طرف واپسی اور دوسرا اَورنگزیب عالمگیر‬
‫کی صورت میں مغلوں کا ایک خالص سنی مذہبی حکمران دنیا نے دیکھا جس نے پچاس سال‬
‫تک حکومت کی۔‬
‫ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ جب بادشاہ حکومت کرتے ہیں تو اچھے کام بھی کرتے ہیں‬
‫اور برے بھی۔ کسی بادشاہ کے فرشتہ ہونے کا تصور رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح‬
‫اورنگزیب کے بارے میں بھی ابن انشاء نے اپنی تصنیف ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ایک بات‬
‫لطیفہ کے طور پر لکھی ہے۔ ابن انشاء نے مزاح کے لہجے میں لکھا ہے کہ اورنگ زیب ایک‬
‫اچھا حکمران اور اچھا بادشاہ تھا۔ وہ دین و دنیا دونوں کا یکساں لحاظ رکھتا تھا‪ ،‬اس لیے اس نے‬
‫زندگی میں کوئی نماز قضاء نہیں کی اور کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑا۔ مطلب یہ کہ کوئی‬
‫بھائی زندہ ہوگا تو بادشاہت میں دخل اندازی کرے گا۔ بہرحال اورنگزیب کے بہت کارنامے ہیں‬
‫تشکیل نو‬
‫ِ‬ ‫ٰ‬
‫فتاوی عالمگیری‪ ،‬حنفی فقہ کی تجدی ِد نو اور زمانے کے اعتبار سے اس کی‬ ‫جن میں‬
‫وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫تاریخ اورنگزیب کی جس بات پر سب سے زیادہ اعتراض کرتی ہے وہ یہ ہے کہ‬
‫اورنگزیب خود تو ٹھیک ٹھاک کام کرتا رہا لیکن بیٹوں میں سے کسی کی تربیت نہیں کی کہ اس‬
‫کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ چنانچہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اورنگزیب کے بعد جب اس کا‬
‫بیٹا بہادر شاہ اول برسر اِقتدار آیا تو وہ شیعہ ہوگیا تھا اور جمعے کے خطبے سے خلفاء" ثالثہ‬
‫کے نام سب سے پہلے اس نے نکلوائے کہ میرے دور میں خلفاء" کا نام کوئی نہیں لے گا۔ اِس پر‬
‫الہور وغیرہ کے عالقوں میں بہت ہنگامے ہوئے اور احتجاج" ہوا‪ ،‬خیر میں اس کی تفصیل میں‬
‫نہیں جاتا۔‬
‫الف ثانی کا زمانہ گیارہویں صدی کا دور ہے۔ دس‬
‫میں ذکر کر رہا تھا کہ حضرت مجدد ؐ‬
‫صدیاں گزر چکی تھیں اور گیارہویں صدی کا آغاز تھا جب حضرت مجدد ؒ‬
‫الف ثانی نے دین کے‬
‫مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیں۔ ان میں سے تین بڑی خدمات میں نے عرض کی ہیں۔‬

‫ایک یہ کہ تصوف کی اصالح و تجدید۔ تصوف اور صوفیاء کرام کے ماحول میں شریعت ‪1.‬‬
‫سے ہٹ کر جو باتیں شامل ہوگئی تھیں ان کی چھانٹی کی‪ ،‬یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔‬
‫انہوں نے تصوف کو اس کے اصل اسالمی رنگ میں پیش کیا۔‬
‫دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اہل سنت کے عقائد اور روایات کا تحفظ کیا‪ ،‬ان کو جو ‪2.‬‬
‫صاحب کا‬
‫ؒ‬ ‫خطرات پیش تھے ان کا مقابلہ کیا۔ علمی و عوامی دنیا میں یہ حضرت مجدد‬
‫کرام کا دفاع ‪ ،‬ان کی تعظیم‪ ،‬ان کے دینی مقام‬
‫ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حضرات صحابہ ؓ‬
‫کی وضاحت اور اہل سنت کے عقائد کی تشریح وغیرہ۔ یہ اس دور کا ایک بڑا محاذ تھا۔‬
‫الف ثانی کے کام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔‬ ‫اس سلسلے میں حضرت مجدد ؒ‬
‫تشکیل نو بھی ‪3.‬‬
‫ِ‬ ‫تیسرے نمبر پر مغل بادشاہ اکبر نے جو ایک نیا رجحان" دیا تھا کہ دین میں‬
‫ہو سکتی ہے اور اس کا نیا ڈھانچہ بھی بن سکتا ہے اور اس نے ’’دین ٰالہی‘‘ کے نام‬
‫سے ایک نیا دین بنا کر رائج بھی کر دیا۔ اس دین میں سورج کی پوجا بھی جائز تھی اور‬
‫ہللا کی عبادت بھی۔ شراب‪ ،‬سود اور زنا بھی جائز تھے۔ ان کے عالوہ دیگر بہت سی باتیں‬
‫شامل تھیں جن کی تفصیل کے لیے میں نے دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ اس پر‬
‫صاحب نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ‪ ،‬بڑے حوصلے کے ساتھ اور بڑی محنت‬ ‫ؒ‬ ‫مجدد‬
‫کے ساتھ علمی و فکری میدان میں کام کیا یہاں تک کہ صورت حال کو بالکل پلٹ دیا۔‬
‫یعنی جہانگیر کے دور میں ریورس گیئر لگا جبکہ اورنگزیب عالمگیر کے دور تک‬
‫جاتے جاتے صورتحال بالکل الٹ ہوگئی تھی۔ اور مؤرخین اس ساری جدوجہد کو علمی و‬
‫فکری طور پر حضرت مجدد ؒ‬
‫الف ثانی کا بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔‬
‫تہریک علی گرڑھ‬
‫ِ‬
‫سقوط دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر‬ ‫ِ‬ ‫برصغیر پاک و ہند میں ‪1857‬ء کی ناکام جنگ آزادی اور‬
‫کی فالح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں‪ ،‬عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “‬
‫کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے‬
‫پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔‬
‫لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے‬
‫علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ‬
‫اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثالً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی‬
‫ان پر گہرا اثر چھوڑا۔‬
‫سقوط دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں‬ ‫ِ‬ ‫لیکن سب سے بڑا واقعہ‬
‫ایک تالطم برپا کر دیا۔ اگرچہ" اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی‪ ،‬پژمردگی اور‬
‫ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک‬
‫کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ‬
‫اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔‬
‫ابتدا میں سرسید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے‬
‫مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور‬
‫ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی‬
‫تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا‪ ،‬اس واقعے نے سرسید احمد خان کی‬
‫فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی‬
‫حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فالح و بہبود میں‬
‫مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں الیا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ‬
‫مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔‬
‫ءمیں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع مال۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے ‪1869‬‬
‫کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات‬
‫اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے عالوہ مسلمانوں کی تہذیبی‬
‫زندگی میں انقالب النے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور‬
‫”رسالہ تہذیب االخالق “ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات‬
‫اعلی خدمات سر انجام دیں۔‬
‫ٰ‬ ‫کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں‬
‫مقاصدترميم‬
‫اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراء میں‬
‫کسی قسم کا کوئی اختالف نہیں پایا جاتا مثالً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے‬
‫ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے کئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول‪ ،‬مذہب کی عقل سے‬
‫تفہیم‪ ،‬سماجی اصالح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔ جبکہ رشید احمد صدیقی‬
‫لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب‪ ،‬اردو ہندو مسلم تعلقات‪ ،‬انگریز اور انگریزی‬
‫حکومت‪ ،‬انگریزی زبان‪ ،‬مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں۔ ان آرا ء سے ظاہر‬
‫ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں۔‬
‫وجوہاتترميم‬
‫جہاں تک سیاسی زاویے کا تعلق ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد چونکہ اقتدار‬
‫مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحالل کا شکار ہو چکی‬
‫تھی۔ جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت‬
‫انجام دے رہے تھے اوران کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی‬
‫اجارہ دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ‬
‫تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی۔ کالج اور‬
‫تہذیب اخالق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقالب برپا کیا۔ اور انھیں‬
‫سیاسی طور پرایک عالحدہ قوم کا درجہ دیا۔‬
‫مذہبی حوالے سے سرسید احمد خان نے مذہب کا خول توڑنے کی بجائے فعال بنانے کی کوشش‬
‫کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا۔‬
‫سرسید احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسالم کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسالم ایک‬
‫ایسا مذہب ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی‬
‫عقلی توضیح کی صالحیت بھی رکھتا ہے۔‬

You might also like