Professional Documents
Culture Documents
PS
PS
ت مغلیہ کا چراغ
حضرت شاہ ولی ہللا رحمۃ" ہللا علیہ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو سلطن ِ
ٹمٹمارہاتھا۔ طوائف الملوکی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی اور فرنگی تاجر کمپنیاں دھیرے مغل
حکمرانوں کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔ مرہٹے ایک طاقتور سیاسی قوت کی
حیثیت اختیار کرتے جارہے تھے اور برصغیر ان کے قبضے میں چلے جانے کا خطر ہ دن بدن
ہللا نے فوری حکمت عملی کے طور پر مرہٹوں کی سرکوبی بڑھتا جارہا تھا۔ حضرت امام ولی ؒ
ابدالی سے
ؒ اور ان کے خطر ہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ
صاحب اور دیگر دردمند
ؒ ابدالی ،حضرت شاہ
ؒ رابطہ قائم کیا اور اس سے مدد مانگی اور احمد شاہ
ہندی مسلمانوں کی استدعا پر مرہٹوں کے خالف ان کی امداد کے لیے آگے بڑھا اور پھر ۱۷۶۱ء
میں پانی پت کا وہ تاریخی معرکہ بپا ہوا جس نے عظیم تر مرہٹہ رہاست کے تصور کو ہمیشہ
کے لیے خاک میں مالدیا۔ مرہٹوں کا زور ٹوٹ گیا۔ دو الکھ سے زائد مرہٹہ فوجی میدان جنگ
ابدالی جو خود ہندوستان کی بادشاہت حاصل کرسکتا تھا ،حکومت شاہ ؒ میں کام آئے اور احمد شاہ
عالم ثانی کے سپرد کرکے واپس چالگیا۔
ت مغلیہ کا روز افزوں زوال اور فرنگی اس خطرہ سے نجات حاصل کرنے کے بعد سلطن ِ
کمپنیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ حضرت شاہ صاحب کے سامنے تھا۔ فرنگی جنگ پالسی میں
سراج الدولہ کو شہید کرکے ۱۷۵۷ء میں بنگال پر قبضہ کرچکے تھے۔ حیدرآباد دکن ،اودھ اور
میسور پرفرنگی کی للچائی ہوئی نظریں صاف دکھائی دے رہی تھیں اور مغل بادشاہ ،شاہ عالم
ابدالی کی عظیم قربانی اور فراخدالنہ ایثار کے باوجود ہوش میں نہیں آیا تھا،
ؒ ثانی ،احمد شاہ
ؒ
ت مغلیہ کے بوسیدہ کھنڈرات کو سہارا دینے کے بجائے صاحب نے سلطن ِ
ؒ ایسے میں حضرت شاہ
’’فک کل نظام ‘‘ (ہمہ گیر انقالب) کا نعرہ لگایا۔
ابدالی کی قربانی و ایثار
ؒ شاہ صاحب یہ سمجھ چکے تھے کہ مغلیہ سلطنت کو جب احمد شاہ
سہارا نہیں دے سکی تو اس کے دن گنے جاچکے ہیں ،اس کو سہارادینے یا اس کی اصالح کی
ت مغلیہ
توقع رکھنے کے بجائے اس ترقی پذیر قوت کے مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے جو سلطن ِ
کی جگہ لینے والی ہے۔ چنانچہ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ فرنگی کے تسلط کو ایک یقینی امر
سمجھتے ہوئے اس دور رس نگاہ رکھنے والے مر ِد درویش نے فرنگی کے مقابلے میں ایک
ب فکر کی بنیاد رکھی۔
فکری و علمی مکت ِ
ولی ٰ
اللّہی افکار
حضرت شاہ ولی ہللا نے سب سے پہلے قرآن کریم کا اس وقت کی مروجہ زبان فارسی میں
ؒ
الدین نے اسے اردو کا ترجمہ کیا اور ان کے فرزندحضرت شاہ عبدالقادر اور حضرت شاہ رفیع
دہلوی نے آنے والے دو ر کے مسائل کو
ؒ جامہ پہنایا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شاہ ولی ہللا محدث
محسوس کرتے ہوئے انقالب فرانس سے پچاس سال قبل اور کارل مارکس کی پیدائش سے ۱۰۰
سال قبل انسان کے جمہوری ،معاشرتی و اقتصادی حقوق کی قرآن و سنت کی روشنی میں
وضاحت فرمائی۔
صاحب کی تعلیمات کا مختصر سا ؒ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر حضرت شاہ
خالصہ پیش کردیا جائے جو ان کی معرکۃ االنصار تصنیف ’’حجۃ ہللا البالغہ‘‘ اور دیگر
تصانیف سے ماخوذ ہے۔
مالک
ِ مالک ملک ،ملک الناس
ِ سارے انسان برابر ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو
ب
قوم یا انسانوں کی گردنوں کا مالک سمجھے ،نہ کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی صاح ِ
اقتدار کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے۔
ریاست کے سربراہ کی وہ حیثیت ہے جو کسی وقف کے متولی کی ہوتی ہے۔ وقف کا متولی
اگر ضرورت مند ہو تو اتنا وظیفہ لے سکتا ہے کہ عام باشندہ ملک کی طرح زندگی
گزارسکے۔
روٹی ،کپڑا ،مکان اور ایسی استطاعت ،کہ نکاح کرسکے اور بچوں کی تعلیم و تربیت
کرسکے بال لحاظ" مذہب و نسل ہر ایک انسان کا پیدائشی حق ہے۔
مذہب ،نسل یا رنگ کے کسی تفاوت کے بغیر عام باشندگان کے لیے ملک کے معامالت میں
یکسانیت کے ساتھ عدل و انصاف ،ان کے جان و مال کی حفاظت ،حق ملکیت میں آزادی،
حقوق شہریت میں یکسانیت ہر باشندٔہ ملک کا بنیادی حق ہے۔
ِ
زبان اور تہذیب کو زندہ رکھنا ہر ایک فرقہ کا بنیادی حق ہے۔
اقتصادی اصول
دولت کی اصل بنیاد محنت ہے۔ مزدور اور کاشت کار قوت کاسبہ (کمانے والی قوت) ہیں۔
روح رواں باہمی تعاون ہے۔ جب تک کوئی شخص ملک و قوم کے ِ باہمی مدنیت (شہریت) کی
لیے کام نہ کرے ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
جوا ،سٹہ اور عیاشی کے اڈے ختم کیے جائیں جن کی موجودگی میں تقسیم دولت کا صحیح
نظام قائم نہیں رہ سکتا اور بجائے اس کے کہ قوم اور ملک کی دولت میں اضافہ ہو ،دولت
بہت سی جیبوں سے نکل کر ایک طرف سمٹ آتی ہے۔
مزدور کاشت کار اور جو لوگ ملک اور قوم کے لیے دماغی کام کریں ،دولت کے اصل
مستحق ہیں۔ ان کی ترقی و خوشحالی" ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی ہے ،جو نظام ان
قوتوں کو دبائے وہ ملک کے لیے خطرہ" ہے اس کو ختم ہوجانا چاہیے۔
جو سماج محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کرے اور مزدوروں اور کاشت کاروں پر بھاری
ٹیکس لگائے ،قوم کا دشمن ہے ،اس کو ختم ہوجانا چاہیے۔
ضرورت مند (مجبور) مزدور کی رضامندی قابل اعتبار نہیں جب تک اس کی محنت کی وہ
قیمت ادا نہ کی جائے جو امدا ِد باہمی کے اصول سے الزم ہوتی ہے۔
کام کے اوقات محدود کیے جائیں۔ مزدوروں کو اتنا وقت ضرور ملنا چاہیے کہ وہ اخالقی" و
روحانی اصالح کرسکیں اور ان کے اندر مستقبل کے متعلق غور و فکر کی صالحیت پیدا
ہوسکے۔
تعاو ِن باہمی کا بہت بڑا ذریعہ تجارت ہے ،لہٰ ذا اس کو تعاون کے اصول پر ہی جاری رہنا
چاہیے۔ پس جس طرح تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ یا غلط قسم کی
کمپٹیشن سے تعاون کی روح کو نقصان پہنچائیں ایسے ہی حکومت کے لیے درست نہیں کہ
بھاری ٹیکس لگاکر" تجارت کے فروغ و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے یا رخنہ ڈالے۔
وہ کاروبار جو دولت کی گردش کو کسی شخص یا طبقہ میں منحصر کردے ،ملک کے لیے
تباہ کن ہے۔
وہ شاہانہ نظام زندگی جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کی عیش و عشرت کے سبب
دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو ،اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلد از جلد ختم کرکے
عوام کی مصیبت ختم کی جائے اور ان کو مساویانہ زندگی کا موقع دیا جائے۔
حضرت شاہ ولی ہللا نے آئندہ جدوجہد کے لیے فکری بنیادیں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ
جماعت بندی بھی شروع کردی۔ دہلی میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ متعدد شاگردوں اور خصوصا ً اپنے
نگری ،موالنا نور ہللا
ؒ خاندان کے افراد کو خصوصیت کے ساتھ تربیت دی۔ موالنا عاشق مظفر
لکھنوی ،موالنا حسین احمد ملیح آبادی اور
ؒ کشمیری ،موالنا مخدوم
ؒ میرٹھی ،موالنا محمد امین
ؒ
بریلوی پر مشتمل خصوصی گروپ قائم کیا۔ دہلی کے عالوہ ( )۱تکیہ شاہ علم ؒ موالنا شاہ ابو سعید
ہللا رائے بریلی ( )۲نجیب آباد ()۳لکھنؤ اور ( )۴مدرسہ مال معین الدین ٹھٹھہ سندھ بھی اسی
تحریک کے مراکز تھے۔
سلطان ٹیپو شہیدؒ
تکیہ شاہ علم ہللا رائے بریلی کا معروف روحانی مرکز تھا حضرت جہاں حضرت شاہ ابو
سعیدؒ جیسے صاحب علم و فضل ،ارادتمندوں کی علمی و روحانی پیاس بجھاتے تھے ،باالکوٹ
کے امیر جہاد حضرت سید احمد شہیدؒ آپ ہی کے نواسے تھے اور میسور کا مجاہ ِد اعظم سلطان
ٹیپو شہیدؒ بھی اسی خانوادے سے متعلق اور حضرت شاہ ابو سعیدؒ کے پوتے شاہ ابواللیث کا مرید
تھا جو آخری دم تک فرنگی کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔
ٰ
فتوی دارالحرب کا
تحریک کے لیے فکری بنیادیں فراہم کرکے اور اس فکر کی بنیاد پر عملی جدوجہد کے
لیے مختلف مراکز پر تربیتی مراکز قائم فرماکر حضرت شاہ ولی ہللا اس دنیا سے رخصت ہوئے
ؒ
عبدالعزیز کے حصہ میں آیا۔شاہ اور آپ کی جانشینی کا اعزاز آپ کے فرزند حضرت شاہ
عبدالعزیز نے ایک سعادت مند بیٹے کی حیثیت سے اپنے عظیم باپ کے ورثہ کو سینے سے ؒ
صاحب کے دور کا ؒ لگایا اور تحریک کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔ شاہ
فتوی ہے جو آپ نے دہلی میں انگریزوں کی فرمانروائی ٰ سب سے بڑا اور تاریخ ساز کارنامہ وہ
عمل میں آنے کے بعد جاری کیا اور جس میں ہندوستان کو دارالحرب" قرار دے کر فرنگی کے
خالف جہاد کا اعالن فرمایا۔ یہی فتوی بعد میں آزادی کی تمام مسلم تحریکوں کے لیے بنیاد بنا۔ یہ
ؒ
عبدالعزیز نے اعالن کیا فتوی فتاوی عزیزیہ میں موجود ہے اور اس میں حضرت شاہ ٰ :
مذہب کا احترام ختم کردیاگیا ہے اس لیے ہندوستان دارالحرب ہے اور جہاد فرض۔
فتوی کی پاداش میں حضرت شاہ صاحب کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ان کے ٰ اس
تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مبینہ طور پر آپ کے جسم پر چھپکلی کا ابٹن مل کر
برص پیدا کیاگیا ،آپ کو دو مرتبہ دہلی بدر کیا گیا اور ایک بار آپ کو اہل خاندان سمیت شاہدرہ
(دہلی) تک پیدل آنا پڑا۔ ایک روایت ہے کہ ان مظالم کی وجہ سے آپ آخر عمر میں نابینا ہوگئے
اللّہی کی قیادت آپ نے جاری تھے ،لیکن عظیم باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک ولی ٰ
ِ
رکھی اور ظلم و جبر کا کوئی دار آپ کے قدموں کو ڈگمگا نہ سکا۔ حضرت شاہ صاحب نے تعلیم
و تربیت ،تبلیغ و وعظ اور روحانی سلسلہ کے عالوہ باقاعدہ جنگی تربیت بھی شروع کرادی
بریلوی کے نواسے سید احمد شہیدؒ کو امیر علی خاں ٔ
والی ؒ تھی۔ آپ ہی کی ہدایت پر شاہ ابو سعید
ٹونک کی فوج میں بھرتی کرایاگیا ،جہاں حضرت شہید نے نہ صر ف مکمل فوجی تربیت حاصل
کی بلکہ فرنگی کے خالف مختلف معرکوں میں حصہ بھی لیا۔
جہاد باالکوٹ
عبدالعزیز اپنے حصہ کا کام کرکے رخصت ہوئے تو تحریک ولی ٰ
اللّہی کی باگ دوڑ ؒ شاہ
حضرت شاہ محمد اسحاق کے حصہ میں آئی اور سید احمد شہید کے ساتھ شاہ ولی ہللا کے پوتے
شاہ محمد اسماعیل شہید اور موالنا عبدالحئی کو مالکر جہاد کی تیاری کے لیے ایک الگ گروپ
قائم کردیاگیا۔ان تین بزرگوں نے بہت جلد ملک کے متعدد حصوں کا دورہ کرکے ہزاروں افرادکو
اس مقصد کے لیے تیار کرلیا۔ ایک بار سینکڑوں افراد کی معیت میں حج بیت ہللا کے لیے بھی
گئے۔ یہ سب جہاد کی تیاری کے مختلف مراحل تھے۔ جہاد کے لیے سب سے زیادہ ضروری
امر یہ تھا کہ کسی ایسے عالقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کرلیا جائے جہاں بیٹھ کر دلجمعی کے
نگہ انتخاب
ساتھ تحریک آزادی کو کنٹرول اور فرنگی کی فوجوں کا مقابلہ کیا جاسکے ،چنانچہ ٖ
صوبہ سرحد کے عالقے پر پڑی اور اس خطہ کو اس مقصد کے لیے موزوں خیال کرتے ہوئے
مجاہدین کا قافلہ تبلیغ کرتے ہوئے مذہبی وعظ کے بہانے راجستھان ،سندھ ،خیرپور ،ڈیرہ غازی
خان اور بلوچستان وغیرہ کے عالقوں سے ہوتا ہوا آزاد عالقہ پہنچا اور مختلف جھڑپوں کے بعد
سکھوں سے پشاور چھین کر وہاں امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کی سربراہی میں آزاد حکومت
قائم کردی۔ قرآن و سنت کا نظام نافذ ہوا۔ بیت المال قائم کیاگیا۔ شرعی حدود و تعزیرات کا نفاذہوا
اور فرنگی سامراج کے خالف جہاد کے لیے ایک آزاد ریاست معرض وجود میں آئی ،مگر خود
الہوسی کا اندازہ کیجیے کہ بقول ڈبلیو ہنٹر فرنگی نے ڈپلومیسی سے کام لیتےٰ غرضوں کی ابو
ہوئے ان مجاہدین کے خالف ’’وہابیت‘‘ کا نفرت خیز پروپیگنڈہ شروع کردیا جس کے نتیجے
میں بعض خوانین نے غداری کی اور انگریزیت کے بعد برصغیر میں قائم ہونے والی اسالمی
حکومت بے دردی کے ساتھ ختم کردی گئی اور مجاہدین کا پورا قافلہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ
اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پوری پامردی کے ساتھ شیر سنگھ کی فوجوں اور فرنگی کی
ڈپلومیسی کا مقابلہ کرتے ہوئے ۷مئی ۱۸۳۱ء کو باالکوٹ کی وادی میں جام شہادت نوش کرگیا۔
یعقوب خانوادہ ولی ٰ
اللّہی کے ؒ شہادت گاہ باالکوٹ کے بعد شاہ محمد اسحاق اور شاہ محمد
اللّہی کو نئے سرے سے منظم کرنے متعلقین سے ازسرنو رابطہ قائم کرنے اور تحریک ولی ٰ
کے لیے حجاز" مقدس چلے گئے ،وہاں ان کے خالف مختلف شکایتیں کرکے فرنگی کے ایجنٹوں
ت عثمانیہ کا دور تھا ،سازشیں کامیاب نے انہیں وہاں سے نکلوانے کی سازشیں کیں ،مگر خالف ِ
نہ ہوئیں۔ باآلخر دہلی میں اس خاندان کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔
خاں
جنرل بخت ؒ
اللّہی فکری خاندان کے نامور چشم و چوتھی طرف سید احمد شہیدؒ کے خلیفہ اور ولی ٰ
علی نئی تکنیک کے مطابق فرنگی کے قدم اکھاڑنے کی مساعی میں چراغ موالنا سرفراز ؒ
ٰ
فتوی دیا۔ اس مصروف تھے۔ ان کی تحریک پر دہلی کے علماء نے فرنگی کے خالف جہاد کا
وقت بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا بے اختیار بادشاہ تھا۔ اصل اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ
میں تھے ،فوجوں میں بے چینی کے آثار پہلے سے موجود تھے ،اسباب فراہم ہورہے تھے۔
ٰ
فتوی نے جلتی پر تیل میرٹھ چھاؤنی میں بغاوت ہوئی ،بجنور میں بغاوت ہوئی ،علماء دہلی کے
علی کےعلم جہاد بلند کردیا۔ موالنا سرفراز ؒ
کا کام کیا اور موالنا سرفراز علی کی امارت میں ِ
روہیال نے کمان سنبھالی اور اس طرح ۱۸۵۷ء کا وہ عظیم الشان ؒ مرید خاص جنرل بخت خاں
معرکہ حریت برپا ہوا جسے آج بھی فرنگی اور اس کی معنوی اوالد غد ر کے نام سے یاد کرتی
ہے اور جس کا تصور آج بھی کسی انگریز کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔ اس
کے ساتھ ہی تھانہ بھون ضلع سہارنپور کی عظیم خانقاہ" میں بھی جہاد کے لیے صالح مشورہ
کیرانوی کو حاالت کاجائزہ لینے کے لیے دہلی بھیجا گیا۔ رپورٹ ملیؒ شروع ہوا۔موالنارحمت" ہللا
فتوی صادر کردیا۔ حضرت حاجی امداد ہللا ٰ تو خانقاہ تھانہ بھون نے فرنگی کے خالف جہا د کا
نظام حکومت قائم کیاگیا۔ حضرت موالنا محمد قاسم ِ مہاجر مکی کو امیر منتخب کرکے باقاعدہ
نانوتوی سپہ ساالر مقررہوئے اور شاملی کے میدانوں کو جوال نگاہ کے طور پر منتخب کرلیاگیا۔ ؒ
ان مجاہدین نے فرنگی سے توپ اور دیگر ہتھیار چھین کر فرنگی کا مقابلہ کیا۔ شاملی تحصیل پر
قبضہ کرلیا جب دہلی میں بعض نام نہاد مسلمانوں کی غداری نے مجاہدین کے حق میں جنگ کا
پانسہ پلٹنے اور فرنگی کی واضح شکست کے بعد بھی فتح کو شکست سے تبدیل کردیا تو شاملی
ؒ
ضامن شہید عبدالجلیل اور حافظ
ؒ کے محاذ پر بھی فرنگی کا دباؤ بڑھ گیا۔ اس جنگ میں موالنا
ہوئے اور شاملی پھر فرنگی کے قبضہ میں چالگیا۔
فرنگی کے مظالم
ء کا عظیم معرکۂ جہاد بھی خود غرضوں کی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا اور۱۸۵۷
فرنگی نے اس بغاوت کا انتقام لینے کے لیے جو طریقے ایجاد کیے انہوں نے ہالکو خان اور
چنگیز خان کی روحوں کو بھی شرمادیا۔
بغاوت کے قیدیوں کو دریا میں غرق کردیاگیا ،زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سی کر
نذر آتش کیاگیا۔ کرنل
آگ میں جالدیاگیا ،باہمی بدفعلی پر مجبور کیاگیا ،مکانوں میں بند کرکے ِ
ہڈسن نے مغل شہزادوں کو ننگا کرکے قتل کیا ،ان کی الشوں کو پاؤں تلے روندا اور پھر چاندنی
چوک میں پھینکوادیا۔
چھ اشخاص کی ٹولیوں کو توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ ان کے پرخچے
اڑادیے گئے۔ ایک درخت پر سینکڑوں علماء کو پھانسی پر لٹکادیاگیا۔ ہزاروں علماء کو کالے
پانی میں قید کردیاگیا۔ غرض یہ کہ ظلم و جبر کا جو حربہ بھی فرنگی کی سمجھ میں آسکتا تھا
اس سے گریز نہیں کیا اور تہذیب و تمدن کے ان دعویداروں نے درندگی ،بہمیت اور وحشت و
بربریت کی انتہا کردی۔
تبلیغی مشن
علماء کرام اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کی تحریک چالنے والوں کے اس ہمہ گیر قتل عام
کے ساتھ فرنگی نے برصغیر میں عیسائی تبلیغی مشنوں کا جال بچھادیا لیکن حضرت موالنا قاسم
کیرانوی نے اپنے رفقاء کی معیت میں فرنگی کے اس تبلیغی حملہ
ؒ نانوتوی اور موالنا رحمت ہللا
ؒ
کا پوری پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آگرہ کے مقام پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری فنڈر
کو موالنا رحمت ہللا نے ایسی عبرتناک شکست دی کہ وہ دوسری بار مقابلہ میں آنے کی جرات
نہ کرسکا اور ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ موالنا رحمت ہللا نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے
ؒ
عبدالعزیز عثمانی نے مختلف زبانوں میں چھپواکر ایک معرکۃ اآلراء کتاب لکھی جسے سلطان
تقسیم کیا۔ اس کے انگریزی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں لندن ٹائمز نے لکھاتھا کہ
’’اگر یہ کتاب پڑھی جاتی رہی تو دنیا میں عیسائی مذہب ختم ہوجائے گا۔‘‘ اس طرح امام ولی ہللا
کے فکری خوشہ چینیوں کے ہاتھوں عیسائی تبلیغی مشن اپنے فطری انجام کو پہنچے۔
حضرت شیخ احمدفاروقی المعروف مجدد ؒ
الف ثانی اور ان کی جدوجہد
الف ثانی
"خطاب "مجد ِد ِ
الف ثانی‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو اِس خطاب یعنی ’’مجد ِد ِ
’’الف ثانی‘‘ یعنی دوسرا ہزاریہ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار سال
ِ ’’الف‘‘ ہزار کو کہتے ہیں۔
گزرنے کے بعد جو دوسرا ہزاریہ شروع ہوا تھا مجدد صاحب اس کے آغاز میں آئے۔ وہ دسویں
صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی محنت کا جو دورانیہ ہے وہ گیارہویں صدی کے
الف ثانی نے اپنی علمی و دینی خدمات سر پہلے تین عشرے ہیں۔ ۱۰۳۲ء تک حضرت مجدد ؒ
انجام دیں۔ چنانچہ انہیں دوسرے ہزاریے کا مجدد کہا جاتا ہے۔
"مجدد" کی اصطالح
مجدد ہماری شرعی اصطالح ہے۔ جناب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’
کہ ہللا پاک ہر صدی کے آغاز میں ایک عالم ،ایک شخصیت کو بھیجتے ظاہر کرتے ہیں جس کا
کام یہ ہوتا ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو کمی بیشی ہوتی ہے ان کی
اصالح کرتا ہے اور دین کو اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ ایک فرد بھی ہوتا
ہے ،کئی افراد بھی ہوتے ہیں ،جماعتیں بھی ہوتی ہیں۔ الغرض حاالت کے مطابق ہللا تبارک
وتعالی دین کی تجدید کا کام اشخاص سے یا جماعتوں سے لیتے رہتے ہیں۔ اور تجدید کا ٰ
معنی یہ ٰ
ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو رسوم وغیرہ شامل ہوتی رہتی ہیں ان کی
چھانٹی کر کے اسالم کو اس کی اصل صورت میں پیش کرے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ دین کا
اصل ہے اور فالں فالں چیزیں اس میں زائد ہیں۔ یا پھر یہ کہ دین کے جو احکام و تعلیمات پس
پشت چلے جاتے ہیں ان کو از سر نو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
صاحب صدی کے مجدد تھے لیکن انہیں ہزار سال کا مجدد کہا جاتا ہے۔ ؒ حضرت مجدد
مجدد الف ثانی ،یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد۔ حاالنکہ مجدد تو ہزار سال کا نہیں ہوتا مجدد
کی ضرورت تو وقتا ً فوقتا ً پڑتی رہتی ہے۔ اگر اس اصطالح میں بھی بات کریں تو یہ گیارہویں
صدی کے مجدد ہیں لیکن معروف ’’مجدد الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد کے نام
سے ہوئے۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ دسویں صدی کے اختتام پر ہندوستان میں
مغل اعظم بھی کہتے ہیں اور اکبراعظم بھی۔ اکبر بادشاہ کے نام سے ایک بادشاہ گزرا ہے ،اسے ِ
دنیا کے اعتبار سے بڑا با جبروت حکمران تھا ،اس کی بڑی سلطنت تھی اور اس نے بڑی
حکومت کی۔ اکبر نے دین کے حوالے سے کچھ اضافے اورتبدیلیاں کی تھیں۔ ان تبدیلیوں کے
بارے میں اس سے یہ کہا گیا کہ دین کا ایک ہزار سال پورا ہوگیا ہے اب نئے ہزار سال کے لیے
دین کی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت ہے۔ اکبر اعظم کو اگلے ہزار سال کے لیے مجتہ ِد اعظم
کا لقب دے کر دین کا داعی اور شارح کہا جاتا تھا کہ اگلے ہزار سال کے لیے اس کا دین چلے
ٰ
دعوی ہزار سال کا گا۔ اور اس کے دین کو ’’دین ٰالہی‘‘ کا نام دیا گیا۔ چونکہ دین ٰالہی والوں کا
تھا کہ اگلے ہزاریے کے لیے اکبر کا دین چلے گا۔ اس لیے اس کے جواب میں مجدد صاحب کو
بھی الف ثانی کا خطاب" دیا گیا کہ دین ٰالہی کے خالف وہ میدان میں آئے اور انہوں نے سب سے
زیادہ اس کا مقابلہ کیا چنانچہ وہ مجدد الف ثانی کہالنے لگے۔
اصل نام
شیخ احمد ان کا اصل نام ہے جو کہ کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سرہند ،مشرقی پنجاب میں ایک
عالقہ ہے یہ وہاں کے بزرگ تھے اور نقشبندی خاندان کے بڑے مشائخ میں سے تھے۔ ہللا پاک
نے بڑے علم اور فضل سے نوازا تھا۔ روحانی اعتبار سے بھی اور علمی اعتبار سے بھی بڑے
اونچے مقام پر فائز کیا تھا۔ عالم بھی چوٹی کے تھے اور صوفیاء میں بھی ان کا بڑا مقام تھا۔
نقشبندی سلسلے میں اپنے دور کے بڑے صوفی تھے اور نقشبندی سلسلے میں بھی ان کو مجدد
کی حیثیت حاصل ہے کہ ان سے ایک نئے سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت شیخ احمد فاروقی،
المعروف مجدد اَلف ثانی ؒ ۔ اکبر کا دور ان کے سامنے نہیں گزرا لیکن اکبر کے جانشین جہانگیر
کا دور ان کے سامنے گزرا۔ مغل بادشاہ جہانگیر مجدد صاحب کا معاصر تھا۔ اس کے اول دور
میں مجدد صاحب قید رہے جبکہ بعد کے دور میں اس کے مصاحب بھی رہے۔ مجدد صاحب کی
ساری محنت کا میدان جہانگیر بادشاہ کا دور تھا۔
تصوف کی اصالح
الف ثانی نے سب سے زیادہ محنت کی ان میں ایک وہ مختلف میدان جن میں حضرت مجدد ؒ
میدان تصوف کا ہے۔ تصوف میں بہت سی باتیں ایسی شامل ہوگئی تھیں اور بہت سے رجحانات
ایسے آگئے تھے جو شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ،شرعی حدود سے بڑھ گئے تھے
اور غلو کے زمرے میں آتے تھے۔ چنانچہ مجدد صاحب کا ایک میدان تھا تصوف کی اصالح
اور تصوف میں حد سے بڑھ جانے والے جو کام تھے ان کی نشاندہی۔ مجدد صاحب ؒ تصوف کو
اس کے اصل رخ پر الئے کہ اصل تصوف کی بنیاد شریعت ہے۔ جو چیز شریعت کے مطابق ہے
تصوف میں وہ درست ہے اور جو شریعت کے دائرے کی نہیں ہے وہ تصوف میں بھی درست
نہیں ہے۔ جب ایک کام چلنے لگتا ہے تو بہت سی باتیں شامل ہونے لگتی ہیں کچھ جائز اور کچھ
ناجائز۔ تو مجدد صاحب ؒ کا ایک میدان یہ تھا کہ تصوف میں جو نئے ایسے رجحانات آگئے تھے
جو اسالمی عقائد اور شریعت کے احکام سے ٹکراتے تھے مجدد صاحب نے ان کی چھانٹی کی
ان صفائی کی اور اصل تصوف جو شریعت اور احکام اسالم کے دائرے کی چیز ہے اسے
واضح کیاہے۔ چنانچہ انہیں مجد ِد تصوف بھی کہتے ہیں اور مجد ِد نقشبندیت بھی کہتے ہیں کہ وہ
اس میدان میں بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے واقعتا ً بہت ساری خرافات وغیرہ کی چھانٹی کر کے،
جو تصوف کی باتیں شریعت کے دائرے کی تھیں ،انہیں از سر نو پیش کیا۔
تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ از حضرت موالنا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ۔ اس کتاب کی’’ 1.
ایک مکمل جلد اسی حوالے سے ہے۔
دہلوی ۔ اس کتاب کی’’ 2.
ؒ علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ از حضرت موالنا سید محمد میاں
پہلی جلد اسی موضوع پر ہے۔
عالمگیر
ؒ اورنگ زیب
حضرت مجدد ؒ
الف ثانی کی جدوجہد کا ایک نتیجہ اور نکال جو کہ ان کی تحریک کا ایک
صاحب نے مغلیہ خاندان پر بہت محنت کی ،وہ تو اس خاندان میں
ؒ تسلسل تھا۔ کہتے ہیں کہ مجدد
گھس ہی گئے۔ انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ حکومت تو مغلوں نے ہی کرنی ہے یہی بادشاہ ہوں گے
یہی وزیر ہوں گے۔ اس لیے بجائے اس کے کہ ان کے ساتھ ٹکراؤ کی فضا قائم کی جائے بہتر یہ
ہے کہ ان پر محنت کر کے ان کو راہ راست پر الیا جائے۔ چنانچہ اسی محنت کے نتیجے میں
عالمگیر بھی سامنے آیا۔ اسے بھی مؤرخین حضرت مجدد صاحب کی تحریک کے ؒ اورنگ زیب
ثمرات میں شمار کرتے ہیں۔
صاحب کی تحریک کا دوسرا بڑا پھل یہ تھا کہ ؒ چنانچہ دین ٰالہی کے خاتمے کے بعد مجدد
عالمگیر جیسے صحیح العقیدہ مغلیہ بادشاہ پر آگئی۔ ورنہ متحدہ
ؒ بات چلتے چلتے اورنگزیب
ہندوستان میں ماضی کا تسلسل یہ رہا ہے کہ یہاں مغلوں اور پٹھانوں میں کشمکش رہی ہے۔
سوری وغیرہ سب پٹھان تھے۔ آج کے دور میں اس کی مثال ایسے ؒ غزنوی اور شیر شاہ
ؒ محمود
سمجھ لیں کہ مغل جو تھے وہ سب شمالی اتحاد تھے اور پٹھان جو تھے وہ سب طالبان تھے۔ مغل
نیم لبرل اور شیعہ سے متاثر تھے ،جبکہ پٹھان خالص مذہبی اور خالص سنی تھے۔ مغل مذہبی
اعتبار سے نیم لبرل تھے وہ مذہب کو مانتے بھی تھے ،اس پر عمل بھی کرتے تھے لیکن
رواداری اور دنیا داری وغیرہ بھی ساتھ نبھاتے تھے۔ جبکہ شیر شاہ سوری اور محمود غزنوی
وغیرہ پکے سنی تھے۔ پٹھانوں کی جتنی لڑی بھی آئی ،مضبوط مذہبی اور سنی لوگوں کی آئی۔
جبکہ مغلوں کی جتنی لڑی بھی آئی وہ نیم لبرل تھی اور شیعہ فکر سے متاثر تھی۔ اسی لیے
مغلوں میں اورنگزیب عالمگیر کا پیدا ہونا تاریخ کا عجوبہ کہالتا ہے کہ مغلوں میں طالبان صفت
بادشاہ کہاں سے آیا۔ اور یہ بھی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے کہ اورنگزیب جیسے متصلب سنی
حکمران کے بعد اس کے جانشین بیٹے بہادر شاہ اول نے باقاعدہ شیعہ مذہب اختیار کر لیا اور
ؓ
فاروق اور صدیق ،حضرت عمرؓ جمعۃ المبارک کے خطبات میں خلفاء ثالثہ حضرت ابوبکر
غنی کا ذکر ممنوع قرار دے دیا جس پر بڑے ہنگامے ہوئے اور الہور کے عوام حضرت عثمان ؓ
نے قلعہ کا باقاعدہ محاصرہ کر لیا۔
میں یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ کشمکش بڑی پرانی ہے ،اس دور میں بھی یہی لڑائیاں تھیں۔
حیرانگی کی بات یہ تھی یہ پکا مذہبی اور سنی بادشاہ اورنگزیب مغلوں میں کیسے پیدا ہوگیا۔
الف ثانی ؒ کی جدوجہد کے اثرات تھے۔ یہ ان کی محنت مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ حضرت مجدد ؒ
کا ثمرہ تھا کہ مغلوں میں اورنگزیب آیا اور پچاس سال تک اس نے یہاں مذہبی طرز پر حکومت
فتاوی عالمگیری بھی اس نے مرتب کروایا اور دیگر بہت سی مذہبی روایات بحال کیں جو ٰٰ کی۔
الف ثانی نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیے بغیر تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ چنانچہ حضرت مجدد ؒ
ذہن سازی اور البنگ سے جو خاموش محنت کی اس کے دو بڑے ثمرات مؤرخین ذکر کرتے
ہیں۔ ایک جہانگیر کے دور میں اصل دینی عقائد کی طرف واپسی اور دوسرا اَورنگزیب عالمگیر
کی صورت میں مغلوں کا ایک خالص سنی مذہبی حکمران دنیا نے دیکھا جس نے پچاس سال
تک حکومت کی۔
ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ جب بادشاہ حکومت کرتے ہیں تو اچھے کام بھی کرتے ہیں
اور برے بھی۔ کسی بادشاہ کے فرشتہ ہونے کا تصور رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح
اورنگزیب کے بارے میں بھی ابن انشاء نے اپنی تصنیف ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ میں ایک بات
لطیفہ کے طور پر لکھی ہے۔ ابن انشاء نے مزاح کے لہجے میں لکھا ہے کہ اورنگ زیب ایک
اچھا حکمران اور اچھا بادشاہ تھا۔ وہ دین و دنیا دونوں کا یکساں لحاظ رکھتا تھا ،اس لیے اس نے
زندگی میں کوئی نماز قضاء نہیں کی اور کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑا۔ مطلب یہ کہ کوئی
بھائی زندہ ہوگا تو بادشاہت میں دخل اندازی کرے گا۔ بہرحال اورنگزیب کے بہت کارنامے ہیں
تشکیل نو
ِ ٰ
فتاوی عالمگیری ،حنفی فقہ کی تجدی ِد نو اور زمانے کے اعتبار سے اس کی جن میں
وغیرہ شامل ہیں۔
تاریخ اورنگزیب کی جس بات پر سب سے زیادہ اعتراض کرتی ہے وہ یہ ہے کہ
اورنگزیب خود تو ٹھیک ٹھاک کام کرتا رہا لیکن بیٹوں میں سے کسی کی تربیت نہیں کی کہ اس
کے کام کو آگے بڑھا سکیں۔ چنانچہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اورنگزیب کے بعد جب اس کا
بیٹا بہادر شاہ اول برسر اِقتدار آیا تو وہ شیعہ ہوگیا تھا اور جمعے کے خطبے سے خلفاء" ثالثہ
کے نام سب سے پہلے اس نے نکلوائے کہ میرے دور میں خلفاء" کا نام کوئی نہیں لے گا۔ اِس پر
الہور وغیرہ کے عالقوں میں بہت ہنگامے ہوئے اور احتجاج" ہوا ،خیر میں اس کی تفصیل میں
نہیں جاتا۔
الف ثانی کا زمانہ گیارہویں صدی کا دور ہے۔ دس
میں ذکر کر رہا تھا کہ حضرت مجدد ؐ
صدیاں گزر چکی تھیں اور گیارہویں صدی کا آغاز تھا جب حضرت مجدد ؒ
الف ثانی نے دین کے
مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دیں۔ ان میں سے تین بڑی خدمات میں نے عرض کی ہیں۔
ایک یہ کہ تصوف کی اصالح و تجدید۔ تصوف اور صوفیاء کرام کے ماحول میں شریعت 1.
سے ہٹ کر جو باتیں شامل ہوگئی تھیں ان کی چھانٹی کی ،یہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
انہوں نے تصوف کو اس کے اصل اسالمی رنگ میں پیش کیا۔
دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اہل سنت کے عقائد اور روایات کا تحفظ کیا ،ان کو جو 2.
صاحب کا
ؒ خطرات پیش تھے ان کا مقابلہ کیا۔ علمی و عوامی دنیا میں یہ حضرت مجدد
کرام کا دفاع ،ان کی تعظیم ،ان کے دینی مقام
ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حضرات صحابہ ؓ
کی وضاحت اور اہل سنت کے عقائد کی تشریح وغیرہ۔ یہ اس دور کا ایک بڑا محاذ تھا۔
الف ثانی کے کام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس سلسلے میں حضرت مجدد ؒ
تشکیل نو بھی 3.
ِ تیسرے نمبر پر مغل بادشاہ اکبر نے جو ایک نیا رجحان" دیا تھا کہ دین میں
ہو سکتی ہے اور اس کا نیا ڈھانچہ بھی بن سکتا ہے اور اس نے ’’دین ٰالہی‘‘ کے نام
سے ایک نیا دین بنا کر رائج بھی کر دیا۔ اس دین میں سورج کی پوجا بھی جائز تھی اور
ہللا کی عبادت بھی۔ شراب ،سود اور زنا بھی جائز تھے۔ ان کے عالوہ دیگر بہت سی باتیں
شامل تھیں جن کی تفصیل کے لیے میں نے دو کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ اس پر
صاحب نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ ،بڑے حوصلے کے ساتھ اور بڑی محنت ؒ مجدد
کے ساتھ علمی و فکری میدان میں کام کیا یہاں تک کہ صورت حال کو بالکل پلٹ دیا۔
یعنی جہانگیر کے دور میں ریورس گیئر لگا جبکہ اورنگزیب عالمگیر کے دور تک
جاتے جاتے صورتحال بالکل الٹ ہوگئی تھی۔ اور مؤرخین اس ساری جدوجہد کو علمی و
فکری طور پر حضرت مجدد ؒ
الف ثانی کا بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
تہریک علی گرڑھ
ِ
سقوط دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر ِ برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور
کی فالح بہودکی ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں ،عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “
کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے
پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے
علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ
اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثالً راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی
ان پر گہرا اثر چھوڑا۔
سقوط دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ِ لیکن سب سے بڑا واقعہ
ایک تالطم برپا کر دیا۔ اگرچہ" اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی ،پژمردگی اور
ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک
کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ
اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
ابتدا میں سرسید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے
مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور
ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی
تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا ،اس واقعے نے سرسید احمد خان کی
فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی
حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فالح و بہبود میں
مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں الیا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ
مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
ءمیں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع مال۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے 1869
کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات
اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے عالوہ مسلمانوں کی تہذیبی
زندگی میں انقالب النے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور
”رسالہ تہذیب االخالق “ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات
اعلی خدمات سر انجام دیں۔
ٰ کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں
مقاصدترميم
اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراء میں
کسی قسم کا کوئی اختالف نہیں پایا جاتا مثالً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے کئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول ،مذہب کی عقل سے
تفہیم ،سماجی اصالح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔ جبکہ رشید احمد صدیقی
لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب ،اردو ہندو مسلم تعلقات ،انگریز اور انگریزی
حکومت ،انگریزی زبان ،مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں۔ ان آرا ء سے ظاہر
ہوتا ہے کہ اس تحریک کے مقاصد کے تین زاویے ہیں۔
وجوہاتترميم
جہاں تک سیاسی زاویے کا تعلق ہے۔ تو اگر دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد چونکہ اقتدار
مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحالل کا شکار ہو چکی
تھی۔ جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت
انجام دے رہے تھے اوران کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی
اجارہ دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ
تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی۔ کالج اور
تہذیب اخالق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقالب برپا کیا۔ اور انھیں
سیاسی طور پرایک عالحدہ قوم کا درجہ دیا۔
مذہبی حوالے سے سرسید احمد خان نے مذہب کا خول توڑنے کی بجائے فعال بنانے کی کوشش
کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا۔
سرسید احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسالم کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسالم ایک
ایسا مذہب ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی
عقلی توضیح کی صالحیت بھی رکھتا ہے۔