Professional Documents
Culture Documents
Introduction
Introduction
(1564ء۔1625ء)
(بنت میاں محمد الیاس)
مختصر سوانحی خاکہ
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی (1564ء۔1625ء) امت ِ مسلمہ کےاُن علماء
دین
وشیوخ میں سے تھے جن کی دینی وملی خدمات کی وجہ سے ہندوستان میں ِ
ت نو ملی اور ان کی تعلیمات و جدو جہد نے اسالمی نشاۃ ثانیہ میں اسالم کو حیا ِ
اہم کردار ادا کیا ۔ اگرچہ ان کا عہد سولہویں صدی کی آخری ربع سے شروع ہو
کر سترہویں صدی عیسوی کے پہلے ربع میں ختم ہوگیا تھا مگر ان کی تعلیمات
وفیضان کے اثرات اب تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
ان کا اصل نام احمد تھا۔ ۓسن 1564ء میں سرہند شریف (ریاست پٹیالہ بھارت )
میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد شیخ عبد االحد اپنے عہد کے نامور عالم دین اور
ب نسبت بزرگ تھے ۔ انہوں نے اپنے والد سے مروجہ تعلیم حاصل کی اور صاح ِ
مشہور محدث شیخ محمد یعقوب صرفی کشمیری سے حدیث پڑھی۔ نقشبندی
سلسلے کے عظیم بزرگ خواجہ باقی باہلل کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان سے خرقہ
خالفت پایا ۔ اور اس راہ میں اس قدر ترقی کی کہ نقشبندی مجددی سلسلے کے
بانی ہوئے۔ وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے شیخ تھے
اسی لیے انہیں اسالمی تاریخ کے الف ثانی) (2Nd Malinumکا مجدد تسلیم کیا
گیا۔ انہوں نے نصف صدی تک اسالم کی او رملت اسالمیہ کی بے پناہ خدمات
سر انجام دیناور اسالم کے روشن وخوشنماچہرے سے وقتی کثافات واثرات ختم
کر کے سچے اور اصلی اسالم کو نمایاں تر کرکے پیش کیا۔ ان کی وفات 1625ء
میں ہوئی۔
مجددی عہد کے عمومی حاالت
اُس دور میں ہندوستان پر مغلیہ اقتدار نصف النہار پر تھااور مغل حکمران اکبر
اعظم کا زمانہ تھا۔ اکبر ایک آزاد خیال ،اسالم بیزار اوربے دین قسم کا بادشاہ
تھا۔ اس پر بچپن ہی سے ایرانی مذہبی اثرات کا "غلبہ تھا وہ عیش عشرت کا
دلدادہ تھا۔ اس نے کئی ہندو عورتوں سے شادیاں کررکھی تھیں جس کی وجہ سے
اس پر ہندو مذہب کے اثرات بھی ہوگئے تھے ۔ عمر کے ایک خاص حصے میں
دین اسالم کے مقابلے میںت ادیان کا بھوت سوار ہوگیا تھااور اس نے ِ اس پر وحد ِ
دین الہی کا تصور پیش کیا۔ِ
دربار سرکار میں ہندو اور ایرانی فرقہ کے
ِ بادشاہ کی المذہبی سوچ کی وجہ سے
امراء کا غلبہ ہو گیا تھااور عموما انہی کا زور چلتا تھا۔ اگرچہ دربار میں کچھ
سنی العقیدہ امراء بھی تھے مگر حاالت نے انہیں بے بس کر دیا تھا۔ اسی لیے
اسالمی شعائر و عبادات کی پابندی اٹھ گئی تھی ۔ نماز روزہ کا کوئی احترام نہ
تھا ،مگر ہندووانہ عقائد کا احترام موجود تھا۔ گائے کو مقدس جانور کا درجہ دے
کراس کا ذبیحہ اور قربانی ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔ ہندوئوں سے جزیہ
(ٹیکس ) معاف کردیاگیاتھا۔
ہندو اورایرانی اثرات کے اختالط نے مسلمانوں کے عقائد میں مشرکانہ عقائد و
رسوم کی بنیاد رکھ دی تھی او ر مسلما ن انبیاء وصالحین سے وہی معامالت
کرنے لگے تھے جو ہندو اپنے بتوں سے کرتے تھے۔ اس صورت حال میں
بعض علما"ءسو نے اہم کردار ادا کیا اور ان خرافات کو ہوا دی۔ اس کے عالوہ
نظام سلوک وعرفان میں غیر اسالمی ِ بعض غلط کار صوفیا نے بھی اسالم کے
نظریات کی آمیزش کردی تھی۔
مجددی جدو جہد او رخدمات
حضرت مجدد نے ان تمام خرافات کے خالف بھر پور جدوجہد کی ۔ انہوں نے
اپنے عہد کے دیگر علمائے حق کو ساتھ مالکر بادشاہ کو را ِہ راست پر النے کی
کوشش کی۔ علماء سو سے مالقاتیں کرکے انہیں سمجھانے اور ہندو غلبہ سے
بچانے کی سعی کی ۔ اس سلسلے میں ان کی خدمات اور کارہا ئے نمایاں کی
فہرست بہت طویل ہے تاہم مندرجہ ذیل عنوانات پر ان کی جدو جہد خصوصی
اہمیت کی حامل ہے۔
مسلمانان ہند کے عقائد کی اصالح مشرکانہ عقائد و رسوم کی بیخ کنی اور ِ )( 1
توحید ِخالص وسنت ِصحیحہ کی دعوت و ترویج۔
)(2ہندو غلبے کے اثرات کا مقابلہ۔
)(3مغل بادشاہوں کی مذہبی پالیسیوں کی تردید و مذمت۔
)(4جہانگیر کی تخت نشینی اور اسالمی قوانین کی بحالی۔
)(5علمائے سو کے اثرو رسوخ کے خاتمے کی کاوشیں ۔
)(6امرائے مملکت کی اصالح۔
)(7تصوف و سلوک کی اصالح۔
)(8مسلم اقدار کا تحفظ اور غلبے کی جدو جہد۔
)(9بدعات کا خاتمہ۔
ان تمام امور میں مجدد صاحب کی خدمات تفصیل کی متقاضی ہیں۔ اس لیے ان پر
تفصیلی بحث حسب ذیل ہے۔
)(1اصالحِ عقائد اور توحید خالص کا احیاء
ہندو چونکہ اکثریت میں تھے اور مسلمانوں کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم
تھی ۔ اس لیے قدرتی طور پر اقلیت پر اکثریت کے اثرات پڑتے ہیں ۔ ہندوستان
کے مسلمان حکمرانوں نے مسلمانوں کی دینی اصالح وتربیت کے عنوان پر
مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انہیں مسلمانوں کی
دینی اصالح و تربیت سے سرے سے کوئی دلچسپی ہی نہ تھی۔ ادھر غلط کار
خالف شریعت عقائد کی اشاعت میں اہمِ صوفیوں اور علمائے سو نے بھی
کردارادا کیا۔ مسلمانوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو ہندو سے مسلمان ہوئے
تھے۔ چونکہ اکثر صوفیا خود بھی اسالم کی حقیقی تعلیمات سے کما حقہ آگاہ نہ
تھے۔ اس لیے ان کے ہاں نو مسلموں کی اصالح و تربیت کا کوئی نظام نہ تھا۔
بالعموم لوگ مسلمانوں کے سیاسی غلبے اور مادی غلبے کے پیش نظر تبدیلئ
مذہب کرلیتے ،مگر وہ صوفیا کو وہی حیثیت دے لیتے جو اس سے قبل بتوں کو
دے رکھی تھی۔ وہی غیر ہللا سے استمداد و اعانت ،ان سے خوف و خشیت ،نفع
و نقصان کی امیدیں ،ان کی ندا و پکار اور نذرو منت ،اہ ِل قبور کو سجدہ و
طواف ،خدا کے حقوق بندوں کو دے دیئے گئے تھے ۔ نیز علمائے سو نے غیر
اسالمی رسوم پھیال دی تھیں۔ مجدد صاحب نے اِن مشرکانہ عقائد و رسوم اور
عبادات کے خالف زبردست تحریک چالئی اور مسلمانوں میں توحی ِد خالص اور
ت ثابتہ کا شعور پیدا کیا۔ اس باب میں ان کی خدمات اس قدر تاریخ ساز ہیں کہ سن ِ
مورخ اس اعتراف پر مجبور ہیں کہ مجدد اسالمی ہندوستان کی تاریخ کے تما م ٔ
نے اسالم کو تمام غیر اسالمی آالئشوں اور آمیزشوں سے پاک کرکے اور عجمی
نظریات کا قلع قمع کرکے پیغمبری اسالم کی صاف اور واضح صورت پیش
کردی۔ اور یہی وجہ ہے کہ مجدد آج چار سو سال بعد بھی مسلمانوں میں ایک
سند اور اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں۔ مجددی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ قرآن دین
کا سر چشمہ ہے اور توحید قرآن کا مرکزی موضوع اور عقیدہ ہے اور پیغمبر
کے بغیر دین پر عمل نہیں ہو سکتا۔ ہر وہ چیز جو قرآن سے باہر ہے وہ عقیدہ
نہیں اور ہر وہ عمل جو پیغمبر کی سنت نہیں وہ عمل نہیں۔
)(2ہندو غلبے کے اثرات کامقابلہ
مغل بادشاہ اکبر کی بے راہ روی کے باعث سرکار دربار اور معاشرے میں ہندو
غلبے کے جو اثرات پیدا ہو گئے تھے،مجدد نے دوسرے علمائے حق کے ساتھ
مل کر ان کے خاتمے کی بھر پور جد و جہد کی۔ انہوں نے دربار کے مسلمان
امراء اور عام مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ہندوئوں سے کم سے کم تعلق رکھیں
اور ان سے ملنے جلنے میں اجتناب برتیں۔ صرف انتہائی ضرورت کے وقت ہی
ان سے میل جول رکھیں۔ انہوں نے یہ تحریک پیدا کی اور حکمرانوں پر زور دیا
کہ ہندوستان کے ہندو حربی کافر ہیناور مسلمانوں نے یہاں باقاعدہ جنگیں کر کے
سامان جنگ اور فوجِ غلبہ و اقتدار اور تسلط حاصل کیا ہے ۔ ہندوئوں نے باقاعدہ
لشکر اسالم کی مزاحمت کی ہے۔ اس لیے ہندوستان کے ہندوئوں سے ِ کے ساتھ
جزیہ وصول کرنا حکومت پر فرض ہے۔ اگرچہ مجدد صاحب کی تحریک کے
خاطر خواہ نتائج نہ بر آمد ہوئے تاہم ہندوئوں کو تنبہ ضرور ہو گیا کہ ایسی
ت حال پیش آسکتی ہے کہ ان سے اسالمی قوانین کے مطابق جزیہ وصول صور ِ
کیا جائے۔
)(3مغل بادشاہوں کی مذہبی پالیسیوں کی مذمت
تاریخی حقیقت یہ ہےکہ اکبر نےہندوستان کو مسلمانوں کی برتری ختم کرکے اس
کو داراالسالم سے سیکولرسٹیٹ (الدینی ریاست)بنادیاتھا۔ اس کی اس پالیسی سے
ہندوستان اور مسلمانوں کے مفادات کو جو نقصان پہنچا اس کا ازالہ آج تک نہیں
ہو سکا بلکہ صدیوں نہ ہو سکے گا۔ مجدد نے اکبر آباد میں قیام کے دوران اکبر
دین الہی کے شہ دماغوں نے اور خالقوں ابوا لفضل اور فیضی کی مجالس کے ِ
میں بارہا شرکت کی اور ان کو سمجھا نے کی کوشش کی کہ اسالم اور کفر کا
ملغوبہ تیار کرنے سے کچھ حاصل تو نہ ہو سکے گا ،البتہ اسالم کو زبردست
نقصان پہنچے گا۔ ان کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ بر صغیر میں مذہبی
تصادم کا حل مذہبی رواداری ہے ۔ ان کے ساتھ امتزاج و اختالط نہیں ،مگر ابو
الفضل اور فیضی قائل نہ ہوئے تاہم انہوں نے اپنی کاوشوں سے دربار کے بعض
امراء اور حق گو علماء کو ہمنوا بنالیا ۔ عوام پر بھی خاطر خواہ اس کا اثر ہوا
اور اکبر کی مذہبی پالیسیوں کے خالف ایک موثر حلقہ ضرور تیار ہوا جسے
محسوس بھی کیا گیا۔
)(4جہانگیر کی تخت نشینی اور اسالمی قوانین کی بحالی
1603ء میں اکبرکا انتقال ہوا تو سیکولر ذہن رکھنے والے اور ہندوامراء نے
شہزادہ خردکو نیا بادشاہ بنانے کی کوشش کی مگر مغل دربار کے نقشبندی
سلسلے سے وابستہ امراء کا اثر آڑے آیا اور ان امراء نے جہانگیر کو بادشاہ
بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان امراء نے مجدد صاحب کے ایما پر جہانگیر سے
عہد لیا کہ بادشاہ بننے کے بعد وہ اسالمی قوانین بحال کردے گا ،چنانچہ جہانگیر
نے بادشاہ بننے کے بعد جو احکامات جاری کیے ان کے مطابق اسالمی قوانین
ت
بحال کردیئے گئے۔ شراب کی بندش ،مساجد کی تعمیر کی اجازت اور اشاع ِ
اسالم کی سرکاری حوصلہ افزائی بھی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
)(5علمائے سو کے اثر و رسوخ کے خاتمے کی کاوشیں
مجدد معاشرے کے بگاڑ او ر مسلمانوں کے عقائد و اعمال میں خرابی کی ذمہ
داری ان علماء پر ڈالتے تھے جنہوں نے دنیاوی مال وزر کی خاطر عوام الناس
کو گمراہ کیا ۔ یہ لوگ غلط عقائد اور قرآن و سنت سے متصادم اصولوں کو دین
ٹھہراتے تھے۔ اور اپنے باطل نظریات کے فروغ کے لیے بادشاہ کو بھی
ورغالتے تھے۔ مجدد نے عوامی سطح پر ان علماء کا زبردست محاسبہ کیا اور
اپنے حلقہ اثر کے امراء کو بار بار تاکید کرتے کہ بادشاہ کو ان غلط کار مولویوں
اور پیروں سے دور رکھنے کی برابر کوششیں کرتے رہیں۔
)(6امرائے مملکت کی اصالح
عموما علماء اور صوفیا عموما بادشاہوں اور امیروں سے دور رہ کر یہ تاثر
دیتے ہیں کہ انہیں دنیا والوں سے کوئی سروکار نہیں مگر مجدد امراء کی اہمیت
سے واقف تھے وہ خوب جانتے تھے کہ ملک کے بڑے لوگوں کی اصالح کا اثر
عوام پر ضرور پڑتا ہے ،چنانچہ انہوں نے شروع ہی سے اکبری عہد کے بعض
صحیح الفکر امراء سے برابر رابطہ رکھا ۔ جس کی وجہ سے بہت سے امراء
نقشبندی سلسلے سے وابستہ ہوگئے۔ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر جیسے
مذہب بیزار بادشاہ کی اصالح ہو سکی اور آخر وقت میں اس کے خیاالت بدل
گئے ۔ نیز جہانگیر کی تخت نشینی ہوسکی ،جس نے ملک میں اسالمی قوانین کو
رائج کردیا تھا۔ امراء کی اصالح کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں ۔ انہی کوششوں
کا نتیجہ تھا کہ جس تخت پر اکبر جیسا بادشاہ بیٹھا تھا ۔ ہندواور ایرانی امراء
کاغلبہ تھا پچاس سال بعد اسی تخت پر اورنگ زیب عالمگیر جیسا صحیح الفکر
اور راسخ العقیدہ بادشاہ بھی بیٹھا جس نے قرن اول کے مسلمان خلفاء کی یاد تازہ
کردی۔
)(7تصوف او ر اہ ِل تصوف کی اصالح و تجدید
اہل تصوف نے اسالمی تصوف میں غیر اسالمی نظریات کی جو آمیزش کردی
تھی اس کے مسلمانوں کے عقائد اور اعمال پر بہت گہرا اثرا پڑا۔ ہندوستان
چونکہ مہبط وحی (حرمین مکہ ومدینہ)سے بہت دو رتھااور یہا ں اسالم متعارف
بھی صوفیا کے ذریعے ہواتھا۔ صوفیا بالعموم دین و شریعت کے تقاضوں سے نا
بلد ہوتے ہیناور خود کو شرعی پابندیوں سے آزاد سمجھتے ہیں ۔ ہندوستا نآنے
والے صوفیا کی بڑی تعداد اسماعیلہ اور بواطنہ پر مشتمل تھی جو بال ِد اسالمیہ
میں اپنے مخصوص نظریات کی جگہ نہ پاکر ہندوستان آگئے تھے۔ شیخ محی
الدین ابن عربی کا نظریہ ہمہ اوست یا وحدت الوجود انہی صوفیوں کے ذریعے
ہندوستان آیا تھا ،پھر ان لوگوں نے جو لُٹ مچائی اس سے دین اسالم کا حلیہ اور
اس کانقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔ دنیا دار علماء کی مادی ضرورتوں کی تسکین بھی
انہی صوفیا سے ہوتی تھی اس لیے وہ بھی ان کے ہمنوا بلکہ دست وبازو ہو گئے
تھے۔
مجدد چونکہ خود تصوف کی وادیوں کے رمز شناس اور ان راہوں کے مسافر
تھے اور تصوف و سلوک میں بہت اعلی مقام رکھتے تھے ،اس کے ساتھ ساتھ
دین و شریعت کے سب سے بڑے عالم تھے ،اس لیے انہوں نے صوفیانہ نظریات
کو دین و شریعت کی عدالت میں پیش کرکے ان تمام غیر اسالمی نظریات کو
الگ کردیا جن کی اسالمی تصوف میں آمیزش ہو گئی تھی۔ انہوں نے وحدت
الوجود کے مقابلے میں وحدت الشہود کا فلسفہ پیش کیا اور اسالمی تصوف کو
نکھیر کر پیش کردیا۔ مجدد نے تصوف و طریقت کو شریعت کے تابع کردیا اور
شریعت کی پابندی نہ کرنے والے صوفیا کو اسالم کا باغی قرار دیا۔
)(8مسلم اقتدار کے غلبہ و بقا کی کوششیں
اکبر کی رواداری اور بے مذہبی نے ہندوئوں مینجو بیداری پیدا کردی تھی ،مجدد
نے اس خطرے کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا اور انہوں نے اپنے مکتوبات
کے 'ذریعے مسلمان امراء اور فوجی جرنیلوں کو اس خطرے سے خبردار کیا
اور ان پر مسلسل زوردیا کہ مسلم اقتدار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہندو
امراء اور جرنیلوں پر کڑی نظر رکھی جائےورنہ ہندوستان دار االسالم کی
بجائے دار الکفر بن جائے گا۔
)(9بدعات کا رد اور سنت کا احیا
مجدد نے علمائے سو اور بےدین صوفیا کی پھیالئی ہوئی بدعات کے قلع قمع
کے لیے سنت نبوی ﷺ کی تعلیم و اشاعت اور پابندی پر خاص زور دیا۔ انہوں نے
اپنے عہد میں رواج پا جانے والے تمام افکار و نظریات اور عبادات کا قرآن و
سنت کی روشنی میں جائزہ لیا اور ان تمام اختراعات کی شدت سے مخالفت کی
جن کا عہ ِد نبوی میں کوئی وجود نہ تھا۔ انہوں نے اس امر کی مسلسل تبلیغ کی کہ
پیغمبر اسالم ﷺ پر بد اعتمادی اور آپﷺ سے بغاوت کا نام ہے ۔
ِ بدعات در حقیقت
انہوں نے بعض حلقوں کے اس فلسفہ کو رد کردیا جو بدعات کو حسنہ اور سیئہ
کے خانوں میں تقسیم کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب پیغمبر ﷺ نے ہر بدعت
کو گمراہی قرار دیا ہے تو پھر بدعت میں حسن اور اچھا ئی ہو ہی نہیں سکتی۔
گرفتاری
مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مجدد عہد ِ جہانگیری میں بہت بڑی مذہبی طاقت
بن گئے تھے۔ امراء و عوام پر ان کا یکساں اثر تھا ،وہ حکومتی فیصلوں پر اثر
انداز ہونے لگے تھے ۔ ان حاالت میں بادشاہ کی ملکہ نور جہاں اور وزیر اعظم
آصف جاہ (جو کہ ملکہ ہی کا بھائی تھا )اور دیگر ایرانی المذہب سرداروں نے
بادشاہ کے کان بھرنا شروع کردیئے کہ مجدد ایک بڑی طاقت بن چکے ہیں اور
اگر ان کے اثرات کو روکا نہ گیا وہ حکومت پر بھی قبضہ کر سکتے ہیں ،
چنانچہ بادشاہ نے انہیں گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا ،جہا ں وہ ایک
سال تک محبوس رہے ۔ اس دوران مجدد کے حلقہ ارادت کے امراء نے بادشاہ
ت حکومت پر قبضہ کرنے کی ا س غلط فہمی کو دور کردیا کہ مجدد کاارادہ تخ ِ
کا ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں باعزت طور پر رہا کر دیا۔
مجدد۔۔۔۔۔دو قومی نظریے کے داعی اول
اکبر کے دین الہی کے سیاسی نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہواکہ
حکومت کا اسالمی تشخص ختم ہو کر رہ گیا اور عمومی طور پر حکومتی
پالیسیوں کا جھکائو ہندوئوں کی طرف ہو گیا۔ جب کہ گمراہ صوفیوں نے وحدت
تالوجود کے جس فلسفے کو رواج دے رکھا تھااس کا منطقی نتیجہ بھی وحد ِ
ادیان کی صورت میں نکلتا تھاجو ہندوازم کو بہت Suitکرتا تھا۔ ویسے بھی اس
فلسفے میں مسلمان صوفیا اور بھگت کبیر ،رامانج اور گورونانک ایک ہی صف
میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔
مجدد نے کفر و اسالم ،شرک و توحید ،ہدایت و گمراہی ،خدا پرستی اور بت
پرستی کو یکساں تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور صاف صاف اعالن کیا کہ
اسالم او رہندوازم دو الگ الگ مذہب ہیں ۔ اسالم خدا اور پیغمبر ﷺ کا دین ہے
جبکہ ہندوازم شرک و بت پرستی کی دعوت دیتا ہے۔ اس لیے ہندوازم اسالم سے
متصادم ہے ۔ یوں انہوں نے ہندوستان میں دو قومی نظریے کی پہلی اینٹ رکھی۔
ت اسالمی کی حفاظت انہوں نے اپنے مریدوں اور زیر اثر امراء کو اسالم اور مل ِ
اور اسالمی تشخص بر قرار رکھنے کے لیے جد و جہد کرنے کی مسلسل ہدایت
کی اور ہندوستان میں اسالم کے مستقبل کو تاریک ہو نے سے بچایا۔
مجدد صاحب کے کام کی اہمیت
مجدد صاحب ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ انہوں نے دین الہی کی گمراہیوں
کے خالف کامیاب جہا دکیا۔ اکبر جیسے بے دین بادشاہ کی پچاس سالہ حکومت
کے جو اثرات ہو سکتے تھے ان کو مکمل طور پر زائل کرنے میں اہم کردار ادا
کیا اور آپ کی خاموش جد و جہد کا نتیجہ تھا کہ اسی اکبر کے بیٹے جہا نگیر
ت حکومت پر بیٹھتے ہی اکبری دین کے خاتمے کا اعالن کرکے اسالمی نے تخ ِ
قوانین کے احیا کا اعالن کیا۔ شاہ جہا ں بھی اسالم کی طرف راغب رہا اور
باالخر مجددی فیضان ہی کا کرشمہ تھا کہ اورنگ زیب جیسا راسخ العقیدہ شخص
بادشاہ بنا جس نے اسالم کے قرن اوسط کے بادشاہوں کی سی حکومت کی یادتازہ
کردی۔ اگر مجددی تحریک ِ اصالح کو مغل عہد ِ حکومت کی تاریخ سے نکال دیا
جائے تو اکبرسے اورنگ زیب تک کی تبدیلی کی کوئی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔
ت ادیان کےنظریے کا رد کرکے اسالمی مجدد پہلے مصلح تھے جنہوں نے وحد ِ
نظریہ حیات پر زور دیا۔ یوں انہوں نے ہندوستان میں دو قومی نظریے کی بنیاد
رکھی اور اسالم کو ہندومت میں مدغم ہونے سے بچایا اور مسلمانوں میں جداگانہ
قومیت کا شعور بیدار کیا جو باالخر پاکستان کی بنیاد بنا۔
مورخین نے مجدد کی خدمت اور جد وجہد اور ان کے فکر و نظر کو سبھی ٔ
خراجِ عقیدت پیش کیا ہےاور بر مال اعتراف کیا ہے کہ مجدد نے اسالم کو تمام
ت نبوی کا آالئشوں سے پاک کرکے پیغمبری اسالم پیش کیا ۔ توحی ِد خالص اور سن ِ
احیا کیا۔ مشرکانہ عقائد اور بدعات کا راستہ روکا۔ تصوف کی اصالح کی اورغیر
اسالمی آمیزش کو علیحدہ کردیا۔ اتباعِ شریعت و سنت کی تحریک چال کر وہ کام
کیا کہ ہندوستان تو رہا ایک طر ف براعظم ایشیا کے تمام مسلمان صدیوں ان کے
زیر ِ بار رہیں گےاور یہ جو آج بر صغیر پاک و ہند میں کم و بیش ساٹھ کروڑ
مسلمان بستے ہیں ان کا مسلمان ہونا مجددی فیضان و تعلیمات ہی کی کرشمہ
سازی ہے۔ حق یہ ہے کہ مجدد ہندوستان میں سرمایہ ملت کےسب سے بڑے
نگہبان اور دین اسالم کے سب سے بڑے نقیب تھے۔ بعد کی صدیوں میں جتنے
بھی علماء و مشائخ ،اصالحی تحریکیں ،دینی مدارس اور دینی جماعتیں ہوئیں
سبھی مجدد صاحب کے زیر بار و زیر احسان ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الف ثانی‘‘
خطاب ’’مجد ِد ِ
الف ثانی‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو اِس خطاب یعنی ’’مجد ِد ِ
الف ثانی‘‘ یعنی دوسرا ہزاریہ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایک ہزار
’’الف‘‘ ہزار کو کہتے ہیں۔ ’’ ِ
سال گزرنے کے بعد جو دوسرا ہزاریہ شروع ہوا تھا مجدد صاحب اس کے آغاز میں آئے۔
وہ دسویں صدی ہجری کے آخر میں پیدا ہوئے اور ان کی محنت کا جو دورانیہ ہے وہ
گیارہویں صدی کے پہلے تین عشرے ہیں۔ ۱۰۳۲ء تک حضرت مجدد الف ثانی نے اپنی
علمی و دینی خدمات سر انجام دیں۔ چنانچہ انہیں دوسرے ہزاریے کا مجدد کہا جاتا ہے۔
’’مجدد‘‘ کی اصطالح
’’مجدد‘‘ ہماری شرعی اصطالح ہے۔ جناب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد
گرامی ہے کہ ہللا پاک ہر صدی کے آغاز میں ایک عالم ،ایک شخصیت کو بھیجتے ظاہر
کرتے ہیں جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین میں جو کمی
بیشی ہوتی ہے ان کی اصالح کرتا ہے اور دین کو اصلی شکل میں دنیا کے سامنے پیش
کرتا ہے۔ یہ ایک فرد بھی ہوتا ہے ،کئی افراد بھی ہوتے ہیں ،جماعتیں بھی ہوتی ہیں۔
وتعالی دین کی تجدید کا کام اشخاص سے یا جماعتوں
ٰ الغرض حاالت کے مطابق ہللا تبارک
ٰ
سے لیتے رہتے ہیں۔ اور تجدید کا معنی یہ ہے کہ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ دین
میں جو رسوم وغیرہ شامل ہوتی رہتی ہیں ان کی چھانٹی کر کے اسالم کو اس کی اصل
صورت میں پیش کرے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ دین کا اصل ہے اور فالں فالں چیزیں
اس میں زائد ہیں۔ یا پھر یہ کہ دین کے جو احکام و تعلیمات پس پشت چلے جاتے ہیں ان کو
از سر نو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔
حضرت مجدد صاحب صدی کے مجدد تھے لیکن انہیں ہزار سال کا مجدد کہا جاتا
ہے۔ مجدد الف ثانی ،یعنی دوسرے ہزار سال کے مجدد۔ حاالنکہ مجدد تو ہزار سال کا نہیں
ہوتا مجدد کی ضرورت تو وقتا ً فوقتا ً پڑتی رہتی ہے۔ اگر اس اصطالح میں بھی بات کریں
تو یہ گیارہویں صدی کے مجدد ہیں لیکن معروف ’’مجدد الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار
سال کے مجدد کے نام سے ہوئے۔ اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ دسویں صدی
کے اختتام پر ہندوستان میں اکبر بادشاہ کے نام سے ایک بادشاہ گزرا ہے ،اسے مغ ِل اعظم
بھی کہتے ہیں اور اکبراعظم بھی۔ دنیا کے اعتبار سے بڑا با جبروت حکمران تھا ،اس کی
بڑی سلطنت تھی اور اس نے بڑی حکومت کی۔ اکبر نے دین کے حوالے سے کچھ اضافے
اورتبدیلیاں کی تھیں۔ ان تبدیلیوں کے بارے میں اس سے یہ کہا گیا کہ دین کا ایک ہزار سال
پورا ہوگیا ہے اب نئے ہزار سال کے لیے دین کی نئی تعبیر و تشریح کی ضرورت ہے۔
اکبر اعظم کو اگلے ہزار سال کے لیے مجتہ ِد اعظم کا لقب دے کر دین کا داعی اور شارح
کہا جاتا تھا کہ اگلے ہزار سال کے لیے اس کا دین چلے گا۔ اور اس کے دین کو ’’دین
دعوی ہزار سال کا تھا کہ اگلے ہزاریے کےٰ ٰالہی‘‘ کا نام دیا گیا۔ چونکہ دین ٰالہی والوں کا
لیے اکبر کا دین چلے گا۔ اس لیے اس کے جواب میں مجدد صاحب کو بھی الف ثانی کا
خطاب دیا گیا کہ دین ٰالہی کے خالف وہ میدان میں آئے اور انہوں نے سب سے زیادہ اس
کا مقابلہ کیا چنانچہ وہ مجدد الف ثانی کہالنے لگے۔
اصل نام
شیخ احمد ان کا اصل نام ہے جو کہ کم لوگوں کو معلوم ہے۔ سرہند ،مشرقی پنجاب
میں ایک عالقہ ہے یہ وہاں کے بزرگ تھے اور نقشبندی خاندان کے بڑے مشائخ میں سے
تھے۔ ہللا پاک نے بڑے علم اور فضل سے نوازا تھا۔ روحانی اعتبار سے بھی اور علمی
اعتبار سے بھی بڑے اونچے مقام پر فائز کیا تھا۔ عالم بھی چوٹی کے تھے اور صوفیاء
میں بھی ان کا بڑا مقام تھا۔ نقشبندی سلسلے میں اپنے دور کے بڑے صوفی تھے اور
نقشبندی سلسلے میں بھی ان کو مجدد کی حیثیت حاصل ہے کہ ان سے ایک نئے سلسلے
کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت شیخ احمد فاروقی ،المعروف مجدد اَلف ثانی ۔ اکبر کا دور ان
کے سامنے نہیں گزرا لیکن اکبر کے جانشین جہانگیر کا دور ان کے سامنے گزرا۔ مغل
بادشاہ جہانگ یر مجدد صاحب کا معاصر تھا۔ اس کے اول دور میں مجدد صاحب قید رہے
جبکہ بعد کے دور میں اس کے مصاحب بھی رہے۔ مجدد صاحب کی ساری محنت کا میدان
جہانگیر بادشاہ کا دور تھا۔
تصوف کی اصالح
وہ مختلف میدان جن میں حضرت مجدد الف ثانی نے سب سے زیادہ محنت کی ان
میں ایک میدان تصوف کا ہے۔ تصوف میں بہت سی باتیں ایسی شامل ہوگئی تھیں اور بہت
سے رجحانات ایسے آگئے تھے جو شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ،شرعی حدود
سے بڑھ گئے تھے اور غلو کے زمرے میں آتے تھے۔ چنانچہ مجدد صاحب کا ایک میدان
تھا تصوف کی اصالح اور تصوف میں حد سے بڑھ جانے والے جو کام تھے ان کی
نشاندہی۔ مجدد صاحب تصوف کو اس کے اصل رخ پر الئے کہ اصل تصوف کی بنیاد
شریعت ہے۔ جو چیز شریعت کے مطابق ہے تصوف میں وہ درست ہے اور جو شریعت
کے دائرے کی نہیں ہے وہ تصوف میں بھی درست نہیں ہے۔ جب ایک کام چلنے لگتا ہے
تو بہت سی باتیں شامل ہونے لگتی ہیں کچھ جائز اور کچھ ناجائز۔ تو مجدد صاحب کا ایک
میدان یہ تھا کہ تصوف میں جو نئے ایسے رجحانات آگئے تھے جو اسالمی عقائد اور
شریعت کے احکام سے ٹکراتے تھے مجدد صاحب نے ان کی چھانٹی کی ان صفائی کی
اور اصل تصوف جو شریعت اور احکام اسالم کے دائرے کی چیز ہے اسے واضح کیاہے۔
چنانچہ انہیں مجد ِد تصوف بھی کہتے ہیں اور مجد ِد نقشبندیت بھی کہتے ہیں کہ وہ اس میدان
میں بڑے آدمی تھے۔ انہوں نے واقعتا ً بہت ساری خرافات وغیرہ کی چھانٹی کر کے ،جو
تصوف کی باتیں شریعت کے دائرے کی تھیں ،انہیں از سر نو پیش کیا۔
’’ .1تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ از حضرت موالنا سید ابوالحسن علی ندوی ۔ اس کتاب
کی ایک مکمل جلد اسی حوالے سے ہے۔
’’ .2علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘ از حضرت موالنا سید محمد میاں دہلوی ۔ اس کتاب
کی پہلی جلد اسی موضوع پر ہے۔
.1ایک یہ کہ تصوف کی اصالح و تجدید۔ تصوف اور صوفیاء کرام کے ماحول میں
شریعت سے ہٹ کر جو باتیں شامل ہوگئی تھیں ان کی چھانٹی کی ،یہ ان کا ایک بڑا
کارنامہ ہے۔ انہوں نے تصوف کو اس کے اصل اسالمی رنگ میں پیش کیا۔
.2دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ اہل سنت کے عقائد اور روایات کا تحفظ کیا ،ان کو
جو خطرات پیش تھے ان کا مقابلہ کیا۔ علمی و عوامی دنیا میں یہ حضرت مجدد
کرام کا دفاع ،ان کی تعظیم،
ؓ صاحب کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حضرات صحابہ
ان کے دینی مقام کی وضاحت اور اہل سنت کے عقائد کی تشریح وغیرہ۔ یہ اس دور
کا ایک بڑا محاذ تھا۔ اس سلسلے میں حضرت مجدد الف ثانی کے کام کا ایک بہت
بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
.3تیسرے نمبر پر مغل بادشاہ اکبر نے جو ایک نیا رجحان دیا تھا کہ دین میں تشکی ِل
نو بھی ہو سکتی ہے اور اس کا نیا ڈھانچہ بھی بن سکتا ہے اور اس نے ’’دین
ٰالہی‘‘ کے نام سے ایک نیا دین بنا کر رائج بھی کر دیا۔ اس دین میں سورج کی
پوجا بھی جائز تھی اور ہللا کی عبادت بھی۔ شراب ،سود اور زنا بھی جائز تھے۔ ان
کے ع الوہ دیگر بہت سی باتیں شامل تھیں جن کی تفصیل کے لیے میں نے دو
کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ اس پر مجدد صاحب نے بڑی حکمت عملی کے
ساتھ ،بڑے حوصلے کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ علمی و فکری میدان میں
کام کیا یہاں تک کہ صورت حال کو بالکل پلٹ دیا۔ یعنی جہانگیر کے دور میں
ریورس گیئر لگا جبکہ اورنگزیب عالمگیر کے دور تک جاتے جاتے صورتحال
بالکل الٹ ہوگئی تھی۔ اور مؤرخین اس ساری جدوجہد کو علمی و فکری طور پر
حضرت مجدد الف ثانی کا بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔
یہ میں نے مختصرا ً حضرت مجدد صاحب کا ایک تعارفی تذکرہ آپ کے سامنے پیش
کیا ہے۔ ہم جب اپنی فکری جدوجہد کا ذکر کرتے ہیں تو ’’مجددی ولی اللّٰہی‘‘ کے نام سے
کرتے ہیں۔ ہماری فکری جدوجہد کے پہلے مرحلے کا آغاز حضرت مجدد صاحب سے
ہوتا ہے ،اس کا دوسرا مرحلہ حضرت شاہ ولی ہللا کے دور کا ہے ،جبکہ تیسرا مرحلہ
علمائے دیوبند ہیں جو حضرت مہاجر مکی سے شروع ہوتا ہے۔
وتعالی حضرت مجدد صاحب کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں ٰ ہللا تبارک
ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد ہلل رب العالمین۔