You are on page 1of 2

‫(انگریزی‪ )Two Nation Theory :‬بر صغیر کے مسلمانوں کے ہندوؤں سے‬ ‫دو قومی نظریہ‬

‫علیحدہ تشخص کا نظریہ ہے۔‬


‫تعارف ترمیم‬
‫جنگ آزادی ‪1857‬ء کے دس سال بعد علی گڑھ مکتب فکر کے بانی سرسید احمد خان نے ہندی اردو جھگڑے کے‬
‫باعث ‪1867‬ء میں جو نظریہ پیش کیا‪ ،‬اسے دو قومی نظریے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کی آسان‬
‫تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ اس کے مطابق نہ صرف ہندوستان کے متحدہ قومیت کے نظریے کو مسترد کیا گیا‬
‫بلکہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو علیحدہ اور کامل قومیں قرار دیا گیا۔ انڈین نیشنل ازم پر یقین رکھنے‬
‫والوں کے لیے دو قومی نظریہ صور اسرافیل بن کر گونجا۔ برصغیر کے مسلمانوں کی شاہراہ آزادی پر دو قومی‬
‫نظریہ وہ پہال سنگ میل ہے جسے مشعل راہ بنا کر مسلمانان ہند باآلخر ‪1947‬ء میں اپنی منزل مقصد کو پانے‬
‫میں سرخرو ہوئے۔‬
‫دو قومی نظریے کا پس منظر ترمیم‬
‫جنگ آزادی ‪1857‬ء کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ ہندوؤں نے ایک اور مسئلے کو الکھڑا کیا۔ یہ جھگڑا ہندی‬
‫اردو جھگڑے ‪1867‬ء کے نام سے موسوم ہے۔ ‪1867‬ء میں بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی‪،‬‬
‫جس کا مقصد اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ اور عربی رسم الخط‬
‫کی جگہ دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔ اس جنونی اور لسانی تحریک کا صدر دفتر الہ آباد میں قائم کیا گیا‪ ،‬جبکہ‬
‫پورے ملک میں ہندوؤں نے کئی ایک ورکنگ کمیٹیاں تشکیل دیں‪ ،‬تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس‬
‫تحریک میں شامل کیا جائے اور اس کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔‬
‫اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خالف ہندوؤں کی تحریک ایک ناقابل فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام‬
‫تھا‪ ،‬کیونکہ اردو کو جنوبی ایشیا میں نہ صرف متعارف کرانے اور ہر دلعزیز بنانے بلکہ اسے بام عروج پر‬
‫پہچانے کے لیے انہوں نے بھی وہی کردار ادا کیا تھا جو خود مسلمانوں کا تھا۔ اگر اردو کا کوئی قصور تھا بھی‬
‫تو صرف اتنا کہ اس نے مسلمانوں کے شاندار ماضی ان کے بہادروں‪ ،‬عالموں‪ ،‬اولیاء کرام اور سپہ ساالروں کے‬
‫کارناموں اور کرداروں کو اپنے اصناف اور دبستانوں میں محفوظ کر رکھا تھا۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں‬
‫کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ان پر واضح کیا گیا کہ اردو انڈو اسالمک آرٹ کا ایک الزمی جزو بن گئی ہے۔ کوئی‬
‫الکھ بار چاہے تو جنوبی ایشیا کی ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کر سکتا۔ مگر ان دالئل کا‬
‫ہندوؤں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ س رسید احمد خان نے بھی‪ ،‬جو ان دنوں خود بنارس میں تھے‪ ،‬اپنی تمام تر مصالحتی‬
‫کوششیں کر لیں‪ ،‬لیکن بری طرح ناکام رہے‪ ،‬کیونکہ سرسید ہی کے قائم کردہ سائینٹیفک سوسائٹی آف انڈیا کے‬
‫ہندو اراکین بھی اردو کے خالف تحریک میں پیش پیش تھے۔ ہندی اور اردو کے درمیان میں اس قضیے کا نتیجہ‬
‫بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں برآمد ہوا۔ ثقافتوں کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیاالت میں‬
‫ایک اور انقالب برپا کر دیا۔‬
‫مسلم قیادت اور دو قومی نظریہ ترمیم‬
‫ایک دن بنارس کے چیف کلکٹر سکسپئیر سے ہندی اردو جھگڑے سے متعلق تبادلہ خیال کرتے ہوئے سرسید احمد‬
‫خان نے اپنا مشہور زمانہ دو قومی نظریہ پیش کرتے ہوئے کہا‪:‬‬

‫‪“Now I am convinced that both these communities will not join whole‬‬
‫‪heartedly in any thing. Hostility between the two communities will increase‬‬
‫”‪immensely in the future. He who lives will see.‬‬

‫یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سرسید احمد خان ہندی اردو جھگڑے سے پہلے ہندو مسلم اتحاد کے بڑے‬
‫علمبردار تھے اور متحدہ قومیت کے حامی تھے‪ ،‬لیکن اس جھگڑے کے باعث انہیں اپنے سیاسی نظریات یکسر‬
‫تبدیل کرنا پڑے۔ ہندو مسلم اتحاد کی بجائے اب وہ انگریز مسلم اتحاد کے داعی بن گئے‪ ،‬اور متحدہ قومیت کی‬
‫بجائے ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے عظیم پیامبر بن کر ابھرے۔‬
‫دو قومی نظریہ میں علمائے کرام کے کرداد کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے‪ ،‬یا پھر اسے غلط رنگ میں پیش کیا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬حاالنکہ دو قومی نظریہ بنیادی طور پر تھا ہی مذہبی کارڈ اور جو ہر دور میں ہر مذہب ہر لمحہ استعمال‬
‫کرتا ہے۔ مذہب کارڈ کے بغیر تو کسی بھی انسان کی شناخت نہیں ہو پاتی۔ سر سید احمد خان جو پہلے آج کے‬
‫ملحدین کی طرح عقلی استدالل کی جماعت بنانا چاہتے تھے لیکن جلد ہی انہیں اسالم ہی کو شناخت بنانا پڑا۔ سرسید‬
‫احمد خان کے بعض سوانح نگاروں کے مطابق اس جھگڑے سے پہلے سرسید ‪ Idealist‬تھے اور ‪ Idealism‬پر‬
‫یقین رکھتے تھے‪ ،‬لیکن اس جھگڑے نے ان کو ‪ Realist‬بنا دیا اور اب وہ ‪ Realism‬کے پیکر بن کر سامنے‬
‫آئے۔_______ یہ وہ جھگڑا تھا جس نے ہندوستان میں متحدہ قومیت کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان ال کھڑا کیا۔‬
‫یہ ایسا جھگڑا تھا جس نے ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت کو طشت ازبام کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندی اردو جھگڑے‬
‫کی صورت میں ہم ان دو مختلف ثقافتوں کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں‪ ،‬جو صدیوں تک ایک ہی خطے میں پروان چڑھنے‬
‫کے باوجود ریل کی دو پٹریوں کی طرح یا بجلی کے ایک ہی کیبل کے اندر دو تاروں کی طرح اور یا پھر ندی‬
‫کے دو کناروں کی طرح نہ کبھی ماضی میں آپس میں گھل مل سکے اور نہ کبھی مستقبل میں ان کے گھل مل‬
‫جانے کا کوئی امکان تھا۔‬

‫علی گڑھ ترمیم‬


‫مکتبہ علی گڑھ کے قائدین نے دو قومی نظریے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کا‬
‫استدالل تھا کہ دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند اپنے دائمی حلیفوں کی دائمی غالمی سے بچ سکتے‬
‫ہیں۔ اس نظریے کے حامی رہنماؤں نے ‪1906‬ء میں نہ صرف شملہ وفد کو منظم کیا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے‬
‫نام سے مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ نمائندہ سیاسی جماعت بھی قائم کر دی۔‬
‫مسلم لیگ ترمیم‬
‫‪1906‬ء سے ‪1947‬ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاست کا مرکز دو قومی نظریہ ہی رہا ہے۔ اس ضمن میں آل‬
‫انڈیا کانگرس ‪ ،‬ہندو مہا سبھا‪ ،‬دیگر ہندو تنظمیں اور ہندو رہنما اپنی تمام تر کوششوں‪ ،‬حربوں اور چالوں میں مکمل‬
‫طور پر ناکام رہے کہ کسی طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے قائدین کو دو قومی نظریے سے برگشتہ کیا جا سکے اور‬
‫اس نظریے کو غلط مفروضے کے طور پر پیش کیا جائے سکے‪ ،‬لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‬

‫ڈاکٹر عالمہ محمد اقبال ترمیم‬


‫یورپ کی سیر‪ ،‬یورپ میں مطالعہ اور مسجد قرطبہ میں اذان دینے کے بعد ڈاکٹر عالمہ اقبال نے عملی سیاست‬
‫میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کیا‪ ،‬تو آپ کے سیاسی نظریات کھل کر سامنے آئے۔ ‪1930‬ء میں الہ آباد کے‬
‫مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں ساالنہ اجالس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے نہ صرف دو قومی نظریے‬
‫کی کھل کر وضاحت کی بلکہ اسی نظریے کی بنیاد پر آپ نے مسلمانان ہند کی ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے‬
‫قیام کی پیشن گوئی بھی کر دی۔‬
‫دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران میں آپ نے محمد علی جناح سے کئی مالقاتیں کیں‪ ،‬جن کا‬
‫مقصد دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر مسلمانان ہند کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل قبول حل تالش کرنا‬
‫تھا۔‪1936‬ء سے ‪1938‬ء تک آپ نے قائداعظم کو جو مکتوبات بھیجے‪ ،‬ان میں بھی دو قومی نظریے کا عکس‬
‫صاف اور نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔‬

‫محمد علی جناح ترمیم‬


‫پاکستان دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبردار رہے ہیں۔ آپ نے نہ صرف آل انڈیا کانگریس کے تا‬
‫حیات صدر بننے کی پیشکش کو مسترد کیا بلکہ علمائے دیوبند اور مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی مخالفت بھی‬
‫مول لی‪ ،‬لیکن اس کے باوجود دو قومی نظریے کی صداقت پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ‬
‫نے پاکستان کا مقدمہ دو قومی نظریے ہی کی بنیاد پر لڑا اور اسی بنیاد پر ہی آل انڈیا مسلم‬
‫لیگ کو ہندوستان کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں آباد مسلمانوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت کے‬
‫طور پر بھی منوایا۔ دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان میں منتقل کرنے کا سہرا آپ ہی کو جاتا ہے۔‬

You might also like