Professional Documents
Culture Documents
Nasir
Nasir
خورشید ندیم
افکار تازہ کے نمایاں قافلہ ساالروں میں ہوتا ہے۔وہ نامور کالم نگار اور پاکستان ٹیلی
ِ خورشید ندیم کا شمار
ویژن سے بطور اینکروابستہ ہیں۔ انھوں نے مدارس کے اس کردار پر روشنی ڈالی ہے جو1980ء کے بعد
سامنے آیا اور پھر اس نے پورے منظر نامے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیاہماری سیاست اور حال آج بھی
اسی کے اثرات سے نبرد آزما ہے۔
کوعلوم
ِ تقسیم ہند کے بعد مدارس کی زیادہ تر سرگرمیاں تعلیمی تھیں۔ اس عرصے میں مدارس نے خود
ِ
اسالمیہ کی اس روایت کے تحفظ تک محدود رکھا جو نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں
عام طور پر نقلی علوم کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم حقانیہ ،اکوڑہ خٹک کے بانی موالنا عبدالحق ( م ) 1998نے
1975کے ایک انٹرویو میںْ ،ا س دور میں مدارس کے کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
" موجودہ دینی مدارس کا نصب العین بھی صرف یہی ہے کہ دینی تعلیمات کا تحفظ کیا جائے۔ اس سے
زیادہ ان مدارس کی بساط نہیں ہے کہ جو دین بزرگوں سے ہم تک پہنچا ہے وہی محفوظ رہے۔ اس سے
آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ فنڈز‘‘()3۔
قیام پاکستان کے بعدمدارس نے خودکو مربوط کیا۔اس کی اساس مسلکی وابستگی تھی۔اس باب میں تقدم
ِ
مسلک دیوبند کو حاصل ہے۔ اس مسلک کے متعلقین نے‘،وفاق المدارس العربیہ پاکستان’ کے نام سے ایک
ِ
تنظیم قائم کی۔ اس کا پہال اجالس جامعہ خیرالمدارس ملتان میں 22مارچ 1957ء کو موالنا خیر محمد
جالندھری مہتمم خیر المدارس ملتان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجالس میں ایک تنظیمی کمیٹی تشکیل
دی گئی۔ تنظیمی کمیٹی کے اجالس منعقدہ 18۔19اکتوبر 1959میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ،جس میں دستور کی منظوری کے ساتھ ساتھ تین سال
کے لئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا۔
وفاق المدارس کے دستور میں درس ذیل اغراض ومقاصدکا ذکرکیا گیا ہے:
( )1ملحقہ جامعات ومدارس عربیہ کے جملہ درجات بشمول تکمیل وتخصص وتدریب المعلمین والمعلمات
کیلئے جامع نصاب تعلیم مرتب کرنااورامتحانات میں کامیاب طلبہ وطالبات کوشہادات (اسناد)جاری کرنا۔
( )2مدارس عربیہ وجامعات میں باہمی اتحادوربط پیداکرنیکی کوشش اوران کومنظم کرنا۔
( ) 3مروجہ نصاب تعلیم میں جدیددینی تقاضوں کے مطابق مناسب وموزوں تصرف کرنااورحسب ضرورت
کتب طبع کرانا۔
( ) 4وہ مدارس وجامعات جواس وفاق سے الحاق کریں ان میں نصاب تعلیم ‘ نظام تعلیم اورامتحانات میں
باقاعدگی ‘ یکجہتی اورہم آہنگی پیداکرنا۔
( )5جدیدعصریت قاضوں کے مطابق تعلیمات اسالمیہ کی ترویج اورنشرواشاعت اوراہم موضوعات
پرمستنداورتحقیقی کتابیں تالیف وتصنیف کرانا۔
( )6مدارس دینیہ وجامعات کے تحفظ وترقی اورمعیارتعلیم کوبلندکرنے کیلئے صحیح اورموثرذرائع
اختیارکرنا۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی مقصد کے لیے قائم یہ ادارے کب سیاست میں اہم ہوئے؟عام طور پر1979ء
کو اس حوالے سے تبدیلی کا سال قرار دیا جاتا ہے جب پاکستان نے افغان جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ
کیا۔یہ کہا گیا کہ اس کے بعد مدارس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ 11/9کے بعد عالمی سطح پر یہ
مقدمہ مستحکم ہو گیا کہ مغرب ،بالخصوص امریکہ کے خالف نفرت اور انتہاپسندی کی جو فضا ہے ،اس
کا ماخذ دینی مدارس ہیں۔ پھر یہ تاثر بھی دیا گیا کہ جیسے پورا پاکستانی سماج دینی مدارس کے دیے گئے
بیانیہ کی گرفت میں ہے۔ اس دور میں اگرچہ اس حوالے سے بہت کتابیں لکھی گئیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ
ان میں جن باتوں کو بطور حقائق بیان کیا گیا ،وہ قابل تصدیق( )verifiableنہیں تھیں۔ ایسے ایسے مبالغہ
آمیز دعوے سامنے آئے کہ پاکستانی معاشرے کے کسی واقف حال کے لیے یقین کرنا مشکل ہو گیا۔مثال
کے طور پرجوالئی• 2002ء میں ‘انٹرنیشنل کرائسس گروپ’ کی ایک رپورٹ سا منے آئی جس میں یہ بتایا
گیا کہ پاکستان میں ہر تیسرابچہ مدرسے میں داخل کیا جا تا ہے()4۔ 1998کی مردم شماری کے
مطابق،حقیقت یہ ہے کہ مدرسے میں داخلہ لینے والے طالب علموں کی تعداد ،کل تعداد کا محض 3.فی صد
ہے۔طاہر اندرابی اور دیگر محققین نے اپنے ایک مشترکہ تحقیقی• مقالے میں ایسی بہت سی غلطیوں کی
نشان دہی کی ہے۔آج تک ان مطالعات کے اعداد و شمار بطور حوالہ استعمال ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر
پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ 1979کے بعد ،یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مدارس کی تعداد میں
غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ 2012میں اسالمیہ یونیورسٹی ،بہاولپور کے سکالرزکی ایک اجتماعی تحقیق سامنے
آئی۔ اس کے مطابق جب پاکستان بنا ،یہاں مدارس کی تعداد 245تھی۔ 2011تک یہ تعداد 50000تک پہنچ
چکی تھی۔
وفاق المدارس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ،پاکستان میں دیو بندی مدارس و جامعات کی تعداد20560
ہے()5۔ یہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد 25الکھ 10ہزار 482ہے۔جو اساتذہ ان مدارس میں تدریسی
ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں،ان کی تعداد 1الکھ 21ہزار 879ہے۔تاہم ہم جانتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ مدارس
کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جو خواتین عالمات وفاق المدارس کے نظام سے فارغ ہوچکیں ان کی
تعداد1الکھ 72ہزار 950ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تعداد مردعلما سے زیادہ ہے۔یہ امر ایک الگ تحقیق
کا متقاضی ہے کہ خواتین عالمات نے کس طرح سماج پر اپنے اثرات مرتب کیے۔یہاں یہ حوالہ اہم ہو گا کہ
اسالم آباد میں جامعہ حفصہ نے الل مسجد کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح قیاس کیا جا سکتا ہے
کہ بطور ماں،وہ ایک خاندان کے فکری رحجانات پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ابھی تک اس نوعیت کا کوئی
ٰ
ہو۔‘الہدی’ جیسے اداروں کو تو تحقیقی• مطالعہ سامنے نہیں آیا جوعالمات کے سماجی کردار کو متعین کرتا
موضوع تحقیق بنایا گیا ہے مگر دینی مدارس کی فارغ التحصیل عالمات کو نہیں۔
ِ
اس میں شبہ نہیں کہ1979ء کے بعد جب جہا ِد افغانستان کا آغاز ہوا ،مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن
محل نظر ہے کہ یہی وہ موقع ہے جب مدارس کے سماجی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔واقعہ یہ ہے ِ ٰ
دعوی یہ
کہ اس سے پہلے بھی مدارس ہماری سیاسی و سماجی فضا کو متاثر کرتے رہیں۔تاہم یہ معاملہ بڑی حد تک
دیوبندی مدارس کے ساتھ خاص رہا ہے۔مسلک دیوبند سے وابستہ شخصیات بر صغیر میں برپا ہونے والی
ہر سیاسی و عسکری تحریک کا حصہ رہی ہیں۔‘ریشمی رومال’تحریک تو منسوب ہی موالنا محمود حسن
تحریک
ِ سے ہے جو دارالعلوم دیوبندکے صدر مدرس تھے۔جمعیت علمائے ہند کا کردار بھی بر صغیر کی
آزادی میں بہت اہم ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم کے حق میں بھی دیوبندی علما اپنا کردار ادا کرتے
دکھائے دیتے ہیں اور اس کے خالف بھی۔
بعد،مسلک دیوبند سے وابستہ شخصیات نے انفرادی سطح پرمو ثر سیاسی کردار ادا کیا۔
ِ پاکستان بننے کے
اہل دیوبند نے
تاہم مدارس کو فی الجملہ سیاسی عمل سے دور رکھا گیا۔جمعیت علمائے اسالم کے فورم سے ِ
صف ا ّول میں دکھائی نہیں دیتے۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں
ِ سیاسی جدو جہد کی لیکن اس میں ہمیں مدارس
کہ مدارس کی سماجی قوت کو بالواسطہ طور پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔مو النا فضل
الرحمٰ ن سے پہلے،اس جماعت کی قیادت جن ہاتھوں میں رہی،ان کا تشخص علمی تھا۔مثال کے طور پر مو
وزیراعلی بننے سے پہلے ،ایک مدرسے میں مدارس
ٰ ال نا مفتی محمود صوبہ سرحد(خیبر پختون خواہ) کے
درس حدیث شائع ہوچکے ہیں۔مدارس کی اس سماجی ِ تھے۔بطورمدرس ،ان کے کمرہ جماعت میں دیے گئے
قوت کے سیاسی استعمال کو مو النا فضل الرحمٰ ن نے ایک سائنس بنا دیا۔وہ مزاجا ً ایک سیاست دان ہیں۔
9/11کے پس منظر میں جب مدارس پر دباؤبڑھاتو انہوں نے بہت مہارت کے ساتھ مدارس کے نظام سے
سیاسی اثرو رسوخ کشید کیا اور قومی وبین االقوامی سطح پر اپنی حیثیت کو منوایا۔
اس سے پہلے 1996ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی تویہ مدارس کے تاریخی
سفر میں ایک نیا سنگِ میل تھا۔ یہ مشہور ہوا کہ یہ طالبان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طالب علم ہیں
‘پدر طالبان’ ہیں تواس سے دینی مدارس کے طلبا میں ایک نیا
ِ اور اس کے مہتمم مو النا سمیع الحق دراصل
ولولہ پیدا ہوا۔مدارس کے ذمہ داران نے سوچا کہ جو کام افغانستان میں ہوا،وہ پاکستان میں کیوں نہیں ہو
حق اقتدار عوام کی تائید سے مشروط ہے۔پاکستان کی مذہبی
سکتا؟ یہاں ایک امر مانع تھا کہ کسی گروہ کا ِ
سیاسی جماعتیں بھی سیاسی جد جہد ہی کی قائل ہیں۔اس ولولے میں بعض لوگوں نے جمہوریت کو غیر
اسالمی قرار دیا اور عسکری جد وجہد کا راستہ اپنایا۔مو ال نا سمیع الحق جیسے علما نے اگرچہ ان کا ساتھ
نہیں دیا لیکن ا ن سے رابطہ رکھا اور ایک حد تک ان کا مقدمہ بھی پیش کیا۔پاکستانی ریاست نے جب ان
عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو ان کی طرف سے مو ال نا سمیع الحق ہی ضامن بنے۔
موالنا سمیع الحق کا یہ کردار عالمی سطح پر ان کی شناخت کا ایک حصہ ہے()6۔
دیگر مسالک میں ابھی تک مدارس کا سیاسی کردار اتنا توانا نہیں ہے۔ممتاز قادری کی پھانسی کے
بعد،بعض لوگوں کے نزدیک اس بات کاامکان پیدا ہو گیا ہے کہ بریلوی مسلک کے مدارس کو سیاسی اہداف
کی بنیاد بنایا جائے۔تاہم ممتاز قادری کے اقدام پر مسلک کا داخلی اختالف اس راہ میں مانع ہو سکتاہے۔
بریلوی مسلک کی سیاست مو ال نا شاہ احمد نورانی کے بعد موثر نہیں رہی۔اس وجہ سے بھی یہ امکان
کسی سیاسی حقیقیت میں ڈھلتا دکھائی نہیں دیتا۔
9/11کے بعد مدارس ،ہمارے سیاسی ماحول ( )Discourseکا حصہ ہیں۔اب اس سماج کی سیاسی و سماجی
تشکیل میں ان کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔
حوالہ جات
asia/ pakistan/Pakistan۔http://www.crisisgroup.org/~/media/Files/asia/south -4
%20Madrasas%20Extremism%20And%20 The%20Military.pdf
میں اس غلطی کا اعتراف کر لیا گیا۔2005رپورٹ کے مرتبین کو بعد میں اس کا اندازہ ہوا اور