You are on page 1of 5

‫سماج کی سیاسی تشکیل میں دینی مدارس کا کردار‬

‫خورشید ندیم‬

‫افکار تازہ کے نمایاں قافلہ ساالروں میں ہوتا ہے۔وہ نامور کالم نگار اور پاکستان ٹیلی‬
‫ِ‬ ‫خورشید ندیم کا شمار‬
‫ویژن سے بطور اینکروابستہ ہیں۔ انھوں نے مدارس کے اس کردار پر روشنی ڈالی ہے جو‪1980‬ء کے بعد‬
‫سامنے آیا اور پھر اس نے پورے منظر نامے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیاہماری سیاست اور حال آج بھی‬
‫اسی کے اثرات سے نبرد آزما ہے۔‬

‫ضوع تحقیق بنایا گیا ہے۔ایک بطور تعلیمی روایت اور‬


‫ِ‬ ‫مدارس کو ہمارے ہاں دو عنوانات کے تحت مو‬
‫دوسرا مسلمانوں کے سیاسی احیا میں ان کا حصہ۔تعلیمی روایت کی حیثیت سے‪،‬اس کا تنقیدی جائزہ کم ہی‬
‫سامنے آ سکا(‪) 1‬۔دوسرے حوالے سے البتہ بعض اہم تحقیقی کام سامنے آیا ہے۔تاہم اس مطالعہ کوزیادہ تر‬
‫نوآبادیاتی دور تک محدود رکھا گیا‪ ،‬جب ہندوستان میں مسلم احیاء کے لیے سماجی‪ ،‬سیاسی اورعسکری‬
‫اہل علم نے زیادہ تران تحریکوں کے ساتھ مدارس کے تعلق اور ان سے وابستہ ایسی‬
‫تحریکیں شروع ہوئیں۔ ِ‬
‫شخصیات کو موضوع بنایا ہے جو ان تحریکوں میں سرگرم رہیں۔ اس مطالعے کی تاریخی حیثیت مسلمہ‬
‫ہے۔ تاہم مدارس کے موجودہ کردار کی تفہیم میں اس کی اہمیت جزوی ہے(‪)2‬۔‬

‫کوعلوم‬
‫ِ‬ ‫تقسیم ہند کے بعد مدارس کی زیادہ تر سرگرمیاں تعلیمی تھیں۔ اس عرصے میں مدارس نے خود‬
‫ِ‬
‫اسالمیہ کی اس روایت کے تحفظ تک محدود رکھا جو نسل در نسل منتقل ہوتی آئی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں‬
‫عام طور پر نقلی علوم کہا جاتا ہے۔ دارالعلوم حقانیہ‪ ،‬اکوڑہ خٹک کے بانی موالنا عبدالحق ( م ‪ ) 1998‬نے‬
‫‪ 1975‬کے ایک انٹرویو میں‪ْ ،‬ا س دور میں مدارس کے کردار کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ‪:‬‬

‫" موجودہ دینی مدارس کا نصب العین بھی صرف یہی ہے کہ دینی تعلیمات کا تحفظ کیا جائے۔ اس سے‬
‫زیادہ ان مدارس کی بساط نہیں ہے کہ جو دین بزرگوں سے ہم تک پہنچا ہے وہی محفوظ رہے۔ اس سے‬
‫آگے بڑھ کر کچھ کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں اور نہ فنڈز‘‘(‪)3‬۔‬

‫قیام پاکستان کے بعدمدارس نے خودکو مربوط کیا۔اس کی اساس مسلکی وابستگی تھی۔اس باب میں تقدم‬
‫ِ‬
‫مسلک دیوبند کو حاصل ہے۔ اس مسلک کے متعلقین نے‪‘،‬وفاق المدارس العربیہ پاکستان’ کے نام سے ایک‬
‫ِ‬
‫تنظیم قائم کی۔ اس کا پہال اجالس جامعہ خیرالمدارس ملتان میں ‪ 22‬مارچ ‪1957‬ء کو موالنا خیر محمد‬
‫جالندھری مہتمم خیر المدارس ملتان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اس اجالس میں ایک تنظیمی کمیٹی تشکیل‬
‫دی گئی۔ تنظیمی کمیٹی کے اجالس منعقدہ ‪18‬۔‪19‬اکتوبر ‪ 1959‬میں باقاعدہ طور پر وفاق المدارس العربیہ‬
‫پاکستان کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی ‪ ،‬جس میں دستور کی منظوری کے ساتھ ساتھ تین سال‬
‫کے لئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا۔‬
‫وفاق المدارس کے دستور میں درس ذیل اغراض ومقاصدکا ذکرکیا گیا ہے‪:‬‬

‫(‪ )1‬ملحقہ جامعات ومدارس عربیہ کے جملہ درجات بشمول تکمیل وتخصص وتدریب المعلمین والمعلمات‬
‫کیلئے جامع نصاب تعلیم مرتب کرنااورامتحانات میں کامیاب طلبہ وطالبات کوشہادات (اسناد)جاری کرنا۔‬

‫(‪ )2‬مدارس عربیہ وجامعات میں باہمی اتحادوربط پیداکرنیکی کوشش اوران کومنظم کرنا۔‬

‫(‪ ) 3‬مروجہ نصاب تعلیم میں جدیددینی تقاضوں کے مطابق مناسب وموزوں تصرف کرنااورحسب ضرورت‬
‫کتب طبع کرانا۔‬

‫(‪ ) 4‬وہ مدارس وجامعات جواس وفاق سے الحاق کریں ان میں نصاب تعلیم ‘ نظام تعلیم اورامتحانات میں‬
‫باقاعدگی ‘ یکجہتی اورہم آہنگی پیداکرنا۔‬

‫(‪ )5‬جدیدعصریت قاضوں کے مطابق تعلیمات اسالمیہ کی ترویج اورنشرواشاعت اوراہم موضوعات‬
‫پرمستنداورتحقیقی کتابیں تالیف وتصنیف کرانا۔‬

‫(‪ )6‬مدارس دینیہ وجامعات کے تحفظ وترقی اورمعیارتعلیم کوبلندکرنے کیلئے صحیح اورموثرذرائع‬
‫اختیارکرنا۔‬

‫(‪ )7‬تربیت المعلمین والمعلمات کاموثرومناسب انتظام کرنا۔‬

‫ایک اہم سوال یہ ہے کہ تعلیمی مقصد کے لیے قائم یہ ادارے کب سیاست میں اہم ہوئے؟عام طور پر‪1979‬ء‬
‫کو اس حوالے سے تبدیلی کا سال قرار دیا جاتا ہے جب پاکستان نے افغان جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ‬
‫کیا۔یہ کہا گیا کہ اس کے بعد مدارس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ‪ 11/9‬کے بعد عالمی سطح پر یہ‬
‫مقدمہ مستحکم ہو گیا کہ مغرب ‪ ،‬بالخصوص امریکہ کے خالف نفرت اور انتہاپسندی کی جو فضا ہے‪ ،‬اس‬
‫کا ماخذ دینی مدارس ہیں۔ پھر یہ تاثر بھی دیا گیا کہ جیسے پورا پاکستانی سماج دینی مدارس کے دیے گئے‬
‫بیانیہ کی گرفت میں ہے۔ اس دور میں اگرچہ اس حوالے سے بہت کتابیں لکھی گئیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ‬
‫ان میں جن باتوں کو بطور حقائق بیان کیا گیا‪ ،‬وہ قابل تصدیق(‪ )verifiable‬نہیں تھیں۔ ایسے ایسے مبالغہ‬
‫آمیز دعوے سامنے آئے کہ پاکستانی معاشرے کے کسی واقف حال کے لیے یقین کرنا مشکل ہو گیا۔مثال‬
‫کے طور پرجوالئی• ‪2002‬ء میں ‘انٹرنیشنل کرائسس گروپ’ کی ایک رپورٹ سا منے آئی جس میں یہ بتایا‬
‫گیا کہ پاکستان میں ہر تیسرابچہ مدرسے میں داخل کیا جا تا ہے(‪)4‬۔ ‪ 1998‬کی مردم شماری کے‬
‫مطابق‪،‬حقیقت یہ ہے کہ مدرسے میں داخلہ لینے والے طالب علموں کی تعداد‪ ،‬کل تعداد کا محض‪ 3.‬فی صد‬
‫ہے۔طاہر اندرابی اور دیگر محققین نے اپنے ایک مشترکہ تحقیقی• مقالے میں ایسی بہت سی غلطیوں کی‬
‫نشان دہی کی ہے۔آج تک ان مطالعات کے اعداد و شمار بطور حوالہ استعمال ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر‬
‫پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔‪ 1979‬کے بعد ‪،‬یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں مدارس کی تعداد میں‬
‫غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ ‪ 2012‬میں اسالمیہ یونیورسٹی‪ ،‬بہاولپور کے سکالرزکی ایک اجتماعی تحقیق سامنے‬
‫آئی۔ اس کے مطابق جب پاکستان بنا‪ ،‬یہاں مدارس کی تعداد ‪ 245‬تھی۔ ‪ 2011‬تک یہ تعداد ‪50000‬تک پہنچ‬
‫چکی تھی۔‬

‫وفاق المدارس کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق‪ ،‬پاکستان میں دیو بندی مدارس و جامعات کی تعداد‪20560‬‬
‫ہے(‪)5‬۔ یہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی تعداد ‪25‬الکھ ‪10‬ہزار ‪ 482‬ہے۔جو اساتذہ ان مدارس میں تدریسی‬
‫ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں‪،‬ان کی تعداد‪ 1‬الکھ ‪ 21‬ہزار ‪ 879‬ہے۔تاہم ہم جانتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ مدارس‬
‫کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جو خواتین عالمات وفاق المدارس کے نظام سے فارغ ہوچکیں ان کی‬
‫تعداد‪1‬الکھ ‪ 72‬ہزار ‪ 950‬ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تعداد مردعلما سے زیادہ ہے۔یہ امر ایک الگ تحقیق‬
‫کا متقاضی ہے کہ خواتین عالمات نے کس طرح سماج پر اپنے اثرات مرتب کیے۔یہاں یہ حوالہ اہم ہو گا کہ‬
‫اسالم آباد میں جامعہ حفصہ نے الل مسجد کی تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح قیاس کیا جا سکتا ہے‬
‫کہ بطور ماں‪،‬وہ ایک خاندان کے فکری رحجانات پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ابھی تک اس نوعیت کا کوئی‬
‫ٰ‬
‫ہو۔‘الہدی’ جیسے اداروں کو تو‬ ‫تحقیقی• مطالعہ سامنے نہیں آیا جوعالمات کے سماجی کردار کو متعین کرتا‬
‫موضوع تحقیق بنایا گیا ہے مگر دینی مدارس کی فارغ التحصیل عالمات کو نہیں۔‬
‫ِ‬

‫اس میں شبہ نہیں کہ‪1979‬ء کے بعد جب جہا ِد افغانستان کا آغاز ہوا‪ ،‬مدارس کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن‬
‫محل نظر ہے کہ یہی وہ موقع ہے جب مدارس کے سماجی کردار میں تبدیلی آئی ہے۔واقعہ یہ ہے‬ ‫ِ‬ ‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫یہ‬
‫کہ اس سے پہلے بھی مدارس ہماری سیاسی و سماجی فضا کو متاثر کرتے رہیں۔تاہم یہ معاملہ بڑی حد تک‬
‫دیوبندی مدارس کے ساتھ خاص رہا ہے۔مسلک دیوبند سے وابستہ شخصیات بر صغیر میں برپا ہونے والی‬
‫ہر سیاسی و عسکری تحریک کا حصہ رہی ہیں۔‘ریشمی رومال’تحریک تو منسوب ہی موالنا محمود حسن‬
‫تحریک‬
‫ِ‬ ‫سے ہے جو دارالعلوم دیوبندکے صدر مدرس تھے۔جمعیت علمائے ہند کا کردار بھی بر صغیر کی‬
‫آزادی میں بہت اہم ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تقسیم کے حق میں بھی دیوبندی علما اپنا کردار ادا کرتے‬
‫دکھائے دیتے ہیں اور اس کے خالف بھی۔‬

‫بعد‪،‬مسلک دیوبند سے وابستہ شخصیات نے انفرادی سطح پرمو ثر سیاسی کردار ادا کیا۔‬
‫ِ‬ ‫پاکستان بننے کے‬
‫اہل دیوبند نے‬
‫تاہم مدارس کو فی الجملہ سیاسی عمل سے دور رکھا گیا۔جمعیت علمائے اسالم کے فورم سے ِ‬
‫صف ا ّول میں دکھائی نہیں دیتے۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں‬
‫ِ‬ ‫سیاسی جدو جہد کی لیکن اس میں ہمیں مدارس‬
‫کہ مدارس کی سماجی قوت کو بالواسطہ طور پر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔مو النا فضل‬
‫الرحمٰ ن سے پہلے‪،‬اس جماعت کی قیادت جن ہاتھوں میں رہی‪،‬ان کا تشخص علمی تھا۔مثال کے طور پر مو‬
‫وزیراعلی بننے سے پہلے‪ ،‬ایک مدرسے میں مدارس‬
‫ٰ‬ ‫ال نا مفتی محمود صوبہ سرحد(خیبر پختون خواہ) کے‬
‫درس حدیث شائع ہوچکے ہیں۔مدارس کی اس سماجی‬ ‫ِ‬ ‫تھے۔بطورمدرس ‪،‬ان کے کمرہ جماعت میں دیے گئے‬
‫قوت کے سیاسی استعمال کو مو النا فضل الرحمٰ ن نے ایک سائنس بنا دیا۔وہ مزاجا ً ایک سیاست دان ہیں۔‬
‫‪ 9/11‬کے پس منظر میں جب مدارس پر دباؤبڑھاتو انہوں نے بہت مہارت کے ساتھ مدارس کے نظام سے‬
‫سیاسی اثرو رسوخ کشید کیا اور قومی وبین االقوامی سطح پر اپنی حیثیت کو منوایا۔‬

‫اس سے پہلے ‪ 1996‬ء میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کی تویہ مدارس کے تاریخی‬
‫سفر میں ایک نیا سنگِ میل تھا۔ یہ مشہور ہوا کہ یہ طالبان دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے طالب علم ہیں‬
‫‘پدر طالبان’ ہیں تواس سے دینی مدارس کے طلبا میں ایک نیا‬
‫ِ‬ ‫اور اس کے مہتمم مو النا سمیع الحق دراصل‬
‫ولولہ پیدا ہوا۔مدارس کے ذمہ داران نے سوچا کہ جو کام افغانستان میں ہوا‪،‬وہ پاکستان میں کیوں نہیں ہو‬
‫حق اقتدار عوام کی تائید سے مشروط ہے۔پاکستان کی مذہبی‬
‫سکتا؟ یہاں ایک امر مانع تھا کہ کسی گروہ کا ِ‬
‫سیاسی جماعتیں بھی سیاسی جد جہد ہی کی قائل ہیں۔اس ولولے میں بعض لوگوں نے جمہوریت کو غیر‬
‫اسالمی قرار دیا اور عسکری جد وجہد کا راستہ اپنایا۔مو ال نا سمیع الحق جیسے علما نے اگرچہ ان کا ساتھ‬
‫نہیں دیا لیکن ا ن سے رابطہ رکھا اور ایک حد تک ان کا مقدمہ بھی پیش کیا۔پاکستانی ریاست نے جب ان‬
‫عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا تو ان کی طرف سے مو ال نا سمیع الحق ہی ضامن بنے۔‬
‫موالنا سمیع الحق کا یہ کردار عالمی سطح پر ان کی شناخت کا ایک حصہ ہے(‪)6‬۔‬

‫دیگر مسالک میں ابھی تک مدارس کا سیاسی کردار اتنا توانا نہیں ہے۔ممتاز قادری کی پھانسی کے‬
‫بعد‪،‬بعض لوگوں کے نزدیک اس بات کاامکان پیدا ہو گیا ہے کہ بریلوی مسلک کے مدارس کو سیاسی اہداف‬
‫کی بنیاد بنایا جائے۔تاہم ممتاز قادری کے اقدام پر مسلک کا داخلی اختالف اس راہ میں مانع ہو سکتاہے۔‬
‫بریلوی مسلک کی سیاست مو ال نا شاہ احمد نورانی کے بعد موثر نہیں رہی۔اس وجہ سے بھی یہ امکان‬
‫کسی سیاسی حقیقیت میں ڈھلتا دکھائی نہیں دیتا۔‬

‫‪ 9/11‬کے بعد مدارس‪ ،‬ہمارے سیاسی ماحول (‪ )Discourse‬کا حصہ ہیں۔اب اس سماج کی سیاسی و سماجی‬
‫تشکیل میں ان کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔‬

‫حوالہ جات‬

‫‪ 1-‬تعلیمی جائزے کے حوالے سے مو النا مودودی کی کتاب’’تعلیمات‘‘ کا ذکر کیا جا سکتاہے۔‬


‫(الہور‪،‬اسالمک پبلیکیشنز)‬
Metcalf, Barbara Dely, Islamic Revival in British :‫ تفصیل کے لیے دیکھیے‬2-
Karachi, Royal Book Company,1982 ,1900‫۔‬India:Deoband1860

80 ‫ص‬،2012‫ایمل مطبوعات‬،‫اسالم آباد‬،‫روایت اور تجدید‬:‫دینی مدارس‬،‫ ممتاز‬،‫ احمد‬3-

asia/ pakistan/Pakistan‫۔‬http://www.crisisgroup.org/~/media/Files/asia/south -4
%20Madrasas%20Extremism%20And%20 The%20Military.pdf

‫ میں اس غلطی کا اعتراف کر لیا گیا۔‬2005‫رپورٹ کے مرتبین کو بعد میں اس کا اندازہ ہوا اور‬

http://www.hks.harvard.edu/FS/akhwaja/papers/madrassa _CER _dec05.pdf -5

Emal Publications,Islamabad,2015:Haq Samiul, Afghan ,‫ تفصیل کے لیے دیکھیے‬6-


Talban; War of Ideology

You might also like