You are on page 1of 31

‫‪1‬‬

‫پاکستان میں ‪ 1947‬سے اب تک نثری نظم‬


‫کی تاریخ‬

‫محمد مختیار‬

‫‪MPU‬‬

‫‪07221036‬‬

‫نگران مقالہ ۔ڈاکٹر ارشد محمود ملک‬

‫یونیورسٹی آف الہور سرگودھا کیمپس سرگودھا‬


‫‪2‬‬

‫عنوان‪ :‬پاکستان میں ‪ 1947‬سے اب تک نثری نظم کی تاریخ‬

‫نثری نظم کی تعریف اور اہمیت‪:‬‬

‫نثری نظم ایک اہم ادبی شاعری کی قسم ہے جو کالم کی شکل میں لکھی جاتی ہے‪ ،‬اور اس‬
‫میں موزوں الفاظ کا انتخاب اور ترتیب کیا جاتا ہے تاکہ اس کی خوبصورتی‪ ،‬معنوں کی‬
‫گہرائی‪ ،‬اور لفظوں کی زندگی کو نشان دیا جا سکے۔ نثری نظم کا زمرہ شاعری کی‬
‫مخصوص اقسام میں ایک مخصوص مقام رکھتا ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس‬
‫میں شاعر کی بات چیت اور بیانیہ کالمی زبان میں ہوتا ہے‪ ،‬اور اس کا موضوع انسانی‬
‫زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہوتا ہے۔‬

‫نثری نظم کی خصوصیات کی بات کرتے وقت‪ ،‬پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لفظوں‬
‫کا منتخب کرنے اور ان کی روشنی میں پیش کرنے کا خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ان‬
‫شاعروں کا مقصد ہوتا ہے کہ وہ لفظوں کی جدیدیت اور گہرائی کو زائر کریں۔‬

‫دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نثری نظم میں معنوں کی گہرائی پائی جاتی ہے۔ شاعر اپنی‬
‫شاعری کے ذریعے موضوع کو ایک نئی روشنی میں پیش کرتا ہے‪ ،‬اور اس میں موزوں‬
‫الفاظ کا انتخاب کرتا ہے تاکہ معنوں کی مزید گہرائی کو ظاہر کر سکے۔ اس طرح کی‬
‫شاعری معانی کو اس کے قارئین کے لئے زیبائش کرتی ہے اور ان کی دلچسپی کو بڑھاتی‬
‫ہے۔‬

‫تیسری خصوصیت یہ ہے کہ نثری نظم تشہیری اصولوں کا پیروی کرتی ہے۔ یعنی شاعر‬
‫اپنی شاعری کے ذریعے عوام کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات چیت کرتا ہے اور ان‬
‫کی فکری تربیت کو ترویج دیتا ہے۔ نثری نظم کی شاعری عمومی زندگی اور سماجی‬
‫موضوعات کو بیان کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ لوگ اسے سمجھیں اور اپنی زندگی‬
‫کو بہتری سے سمجھیں اور شریک کریں۔‬
‫‪3‬‬

‫نثری نظم ایک اہم ادبی شاعری کی قسم ہے جو معاشرتی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬اور فکری موضوعات‬
‫پر بات چیت کرتی ہے۔ اس کی خوبصورتی‪ Z‬اور تشہیری اصولوں کا پیروی کرنے سے‬
‫انسانوں کی فہم اور تاثرات میں اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫پاکستان میں ‪ 1947‬سے اب تک نثری نظم کی تاریخ ایک طرح کی ثقافتی‪ ،‬ادبی اور‬
‫تاریخی روشنی کی ماند پر ہے جو اس ملک کی تنوع و وفاقت کو اظهار کرتی ہے۔ نثری‬
‫نظم کی ایک سلسلہ جاری ہوئی ہے جو اس ملک کے مختلف لکھاریوں کے ذریعے قومی‬
‫اور عالمی سطح پر شہرت حاصل کرتا ہے۔‬
‫نثری نظم کی پہلی بڑی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ مواد کو تاثری اور تصویری‬
‫طریقے سے پیش کرنے کا ذریعہ فراہم کرتی ہے۔ اس کے ذریعے لکھاری اپنی خیاالت‪،‬‬
‫جذبات‪ ،‬تجربات‪ ،‬اور مشاہدات کو قارئین کے سامنے واضحیت سے پیش کر سکتے ہیں۔‬
‫اس سے قارئین کا دلچسپی جذبہ بڑھتا ہے اور وہ ان مواد کو بہتر طریقے سے سمجھ‬
‫سکتے ہیں۔‬

‫نثری نظم کا دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے تاریخی اور سماجی موضوعات پر‬
‫تبادلے کا زریعہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔ لکھاری اپنے لکھائی میں ملک کی تاریخ‪ ،‬فرہنگ‪،‬‬
‫معاشرتی مسائل‪ ،‬اور سیاسی تبادلے پر غور کرتے ہیں‪ ،‬جو قارئین کو اہم اور تعلیمی مواد‬
‫فراہم کرتا ہے۔‬
‫نثری نظم کی تیسری اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسانیت کی معاشرتی اور فکری ترقی میں‬
‫مدد ملتی ہے۔ اس کے ذریعے نوآبادی کو تعلیم دی جاتی ہے‪ ،‬انسانوں کی خود شناسی میں‬
‫مدد فراہم کی جاتی ہے‪ ،‬اور سماجی اور سیاسی امور کو بہتر سمجھا جاتا ہے۔‬

‫نثری نظم کی تاریخ پاکستان میں ایک موثر اور اہم ترقی کا راستہ فراہم کرتی ہے جو اس‬
‫ملک کی تمام ترقی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے فکری اور ثقافتی تبادلے ممکن‬
‫ہوتے ہیں جو ایک ملک کی ترقی اور پیشرفت کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔‬
‫‪4‬‬

‫پاکستان کی تاریخ میں ‪ 1947‬تا ‪ 1960‬کا دور اہم تاریخی اور سیاسی واقعات سے بھرپور‬
‫تھا‪ ،‬جو ملک کی بنیادوں کی جمائیں رکھتا ہے۔ اس دوران‪ ،‬پاکستان نے اپنی حکومتی‬
‫چھبیس میں ترقی کی راہوں پر قدم رکھا اور اپنی قومی ترقی کی راہ میں تیزی سے بڑھتا‬
‫ہوا۔ اس مضمون میں ‪ 1947‬تا ‪ 1960‬کی پاکستان کی نثری نظم کی تاریخ کو تفصیل سے‬
‫جاننے کی کوشش کی جائے گی۔‬

‫‪1947‬آزادی کی منفیات اور تشویشی شروعات‪:‬‬

‫پاکستان کی تعمیر کا دور ‪ 1947‬میں شروع ہوا‪ ،‬جب برطانوی راج سے آزاد ہوکر ملک‬
‫کی بنیادیں رکھی گئیں۔ اس سال کے بعد‪ ،‬پاکستان کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا‪ ،‬جیسے‬
‫کہ شعبہ میں پیٹرولیم کی کمی اور آبادی کی مسئلے۔‬

‫‪1948‬کشمیر مسئلہ‪:‬‬

‫‪ 1948‬میں کشمیر کا مسئلہ ایک اہم سیاسی موضوع بن گیا‪ ،‬جب کشمیر کے راجہ ہاری‬
‫سنگھ نے بھارت کی طرف جانے کا اعالن کیا۔ یہ موقع ایک بڑے انداز میں پاکستان اور‬
‫بھارت کے درمیان تنازع کا آغاز تھا جو آج بھی جاری ہے۔‬

‫‪1950‬جمہوری حکومت کا قیام‪:‬‬

‫‪ 1950‬میں پاکستان میں جمہوری حکومت کا قیام اہم تاریخی واقعہ تھا جو پاکستان کی‬
‫سیاسی تاریخ میں اہم موڑ تھا۔ اس وقت تک پاکستان کی حکومت ملک کے قائم کردہ‬
‫حکمرانی کی نظام شاہنامہ کے تحت چل رہی تھی‪ ،‬جس میں حکومت کی معتبریت پر‬
‫مذکور تھی اور خصوصا ً کرنسی کے انعقاد پر تاکید کی گئی تھی۔ جمہوری حکومت کا قیام‬
‫اس انتہائی دنیاوی تغیر کی عالمت تھا جب پاکستان کی عوام کا جذبہ ایک بہتر اور انصافی‬
‫نظام کی جانب ہو رہا تھا۔‬
‫‪5‬‬

‫‪1950‬ء کی اہم واقعات‪:‬‬

‫فوج کے انتخابات کی خواہش‪:‬‬ ‫‪.1‬‬

‫پاکستان کے قیام کے بعد فوجی اہمیت رکھتی تھی اور حکومت کی اکثر حلقوں میں فوج‬
‫کے انتخابات کی خواہش تھی۔ اس سبب سے ایک جلسہ کی کامیابی کے بعد جنرل‬
‫اسکندر میرزا نے پاکستان کی حکومت کو بغیر جنرل ہی کے قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔‬

‫پنچیہ کمیٹی کی تشکیل‪:‬‬ ‫‪.2‬‬

‫‪ :‬پنچیہ کمیٹی کو قائم کیا گیا جو پاکستان کی حکومتی نظام کی توسیع کا پیش کردار ادا‬
‫کرتی رہی۔ اس کمیٹی کی میں عوام کے منتخب اراکین بھی شامل تھے جو جمہوریت‬
‫کی تشہیر کر رہے تھے۔‬

‫دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت‪:‬‬ ‫‪.3‬‬

‫دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی جمہوری حکومت کی حمایت کی اور انہوں نے اپنے‬
‫اراکین کو پنچیہ کمیٹی میں شامل کیا۔‬

‫مخصوص شرائط کی پیروی‪[:‬‬ ‫‪.4‬‬

‫پنچیہ کمیٹی نے حکومت کے اجرائی ترتیبات کو مخصوص شرائط کے مطابق پیش‬


‫کیا‪ ،‬جو کہ جمہوری نظام کی اہم خصوصیت تھی۔‬

‫سالمتی کونسل کی تشکیل‪[:‬‬ ‫‪.5‬‬


‫جمہوری حکومت کے قیام کے بعد سالمتی کونسل کا قیام کیا گیا‪ ،‬جو کہ انصافی‬ ‫‪.6‬‬
‫اور جمہوری نظام کی پشت پناہی دیتا رہا اور قائم حکومت کی معتبریت کو مضبوط‬
‫کرتا رہا۔‬
‫‪6‬‬

‫پاکستان میں جمہوری حکومت کا قیام ایک مہمان نظام کی تشکیل کا آغاز تھا جو کچھ‬
‫سالوں میں مزید توسیع پذیر ہوا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ بن گیا۔ اس‬
‫سے پاکستان کی سیاسی ترقی میں بڑا تبدیلی آیا اور جمہوریت کی بنیادی اصولوں کا عملی‬
‫اطالق ہوا جو آج تک جاری ہے۔‬

‫‪:1951‬‬

‫‪1951‬ء پاکستان کی تاریخ میں اہم واقعات کا سال تھا جو ملک کی سیاسی‪ ،‬اجتماعی‪ ،‬اور‬
‫تاریخی ترقی کے لحاظ سے اہم تبدیلیوں کا شاہکار رہا۔‬

‫اس سال کا اہم واقعہ تو پہال ملی حکومت کا قیام تھا جس کے تحت لیاقت علی خان اور‬
‫سردار افتخار حسین ملی حکومت کے رہنما بنے۔ یہ قیام پاکستان کی سیاست میں اہم تبدیلی‬
‫کی نشانی تھا اور اس سے ملک کی سیاستی منظرنامہ میں نیا رخ دیکھنے کو مال۔‬

‫اس سال مہاجرین کی مسائل بھی اہم تھیں اور مہاجرین کو شہری حقوق فراہم کرنے کی‬
‫پالیسی کو پیش کیا گیا تاکہ ان کی مشکالت کم کی جائیں۔‬

‫‪1951‬ء میں الہور میں شریف کمیٹی کا قیام ہوا جس کی قیادت موالنا محمد علی جوہر نے‬
‫کی۔ یہ کمیٹی انصاف کی تالش کرتی رہی اور انسانی حقوق کے حوالے سے اہم کام کیا۔‬

‫ایک اور اہم واقعہ جو اس سال میں واقع ہوا وہ تعلیمی اصالحات کا آغاز تھا جس کی راہ‬
‫میں تعلیمی اداروں کی ترقی کے اہم قدم اٹھائے گئے۔‬

‫‪1951‬ء کراچی میں اسفارتاجہ کے نام سے احتجاجات کی سیر ہوئی جو مہاجرین کی حقوق‬
‫کی حفاظت کی تالش میں کامیابی کی جانے والی تاریخی واقعہ تھی۔‬
‫‪7‬‬

‫ان واقعات نے پاکستان کی تاریخ کو متاثر کیا اور ملک کی ترقی اور تعلیم کے شعبے میں‬
‫نئے راہوں کو کھوال۔ انہیں پاکستان کی تاریخ میں اہم حلقے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے‬
‫جو ملک کی ترقی اور تعلیم کے شعبے میں اہم تبدیلیوں کی بنیاد رکھیں۔‬

‫‪1952:‬‬

‫‪1952‬ء کا سال پاکستان کی تاریخ میں اہم حوالوں سے بھرپور تھا۔ اس سال کے دوران‬
‫پاکستان میں مختلف مواقع پر اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ سال کی شروعات میں چوہدری خالد‬
‫علی اور ملک بھار میں جاگروک تنظیموں کے اجتماعات منعقد ہوئے جو جمہوریت کی‬
‫بنیادوں کو مضبوطی دینے کی طرف ایک بڑا قدم تھا۔‬

‫اس سال ہی میں پاکستان میں انتخابات بھی منعقد ہوئے جس میں جماعت اسالمی کو اہم‬
‫کامیابی حاصل ہوئی اور وہ اپنے نوابغانہ دعوتوں کی بنیاد رکھنے کا موقع حاصل کرتی‬
‫ہیں۔‬

‫اسی طرح ‪ 1952‬میں بنائی گئی اور جالوطن کی رہائی کے لئے اہمیت رکھنے والی‬
‫مانگال دیم بند قرار دی گئی جو بنیادی زرعی اور بجلی کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی‬
‫ہے۔ اس سال کی گزرنے والی باتوں نے پاکستان کی سیاسی‪ ،‬سماجی‪ ،‬اور اقتصادی تاریخ‬
‫کو متاثر کیا اور ملک کے راستے پر نئے منزلوں کی جانب قدم بڑھایا۔‬

‫‪ 1953‬کی الہور کنفرنس‪:‬‬

‫‪ 1953‬کی الہور کنفرنس پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم واقعہ تھا جو کے اسالمی‬
‫جماعتوں کی حکومتی سیاستوں کے خالف احتجاج کا نمائندہ تھا۔ اس وقت پر پاکستان کی‬
‫‪8‬‬

‫حکومت مذہبی موضوعات پر کچھ اقدامات اٹھا رہی تھی جو کہ مذہبی جماعتوں کو ناخوش‬
‫کر رہے تھے۔ الہور کنفرنس میں مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسالمی اصولوں اور‬
‫شریعت کے لئے اپنے حقوق کی محفوظی کی مطالبت کی اور حکومت کے فیصلوں کی‬
‫تنقید کی۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان کی مذہبی موقفوں کو نظرانداز کر رہی ہے اور وہ اپنے‬
‫مطالب کے لئے احتجاج کریں گے۔ اس کنفرنس کا ایک نتیجہ یہ رہا کہ مذہبی جماعتوں نے‬
‫اسالمی قوانین کی پاسیبی تشریع کے خالف احتجاج کرنے کا اعالن کیا اور اس کے بعد‬
‫بھارت میں ‪1953‬ء کے الہور کنفرنس کے بعد پنجاب تعمیل کے اعالن کے ساتھ تشدد کا‬
‫دور شروع ہوا جو کچھ مہینوں تک جاری رہا اور بہت سی موتوں کا باعث بنا۔‬

‫الہور کنفرنس نے پاکستان کی سیاستی تاریخ میں اہم اثرات ڈالے‪ ،‬اور اس نے مذہبی‬
‫جماعتوں کو ایک قوت متحدہ کی طرح عمل کرنے کی تشویش دالئی۔ اس کنفرنس کے بعد‬
‫حکومت نے مذہبی جماعتوں کی مطالبات پر غور کیا اور ایک مذاکراتی عمل کی شروعات‬
‫کی تاکہ ان کی مطالبات کے حل کے راستے تالش کیا جا سکے۔ یہ واقعہ بھارتی پاکستان‬
‫تنقید کے امور میں اضافہ کرتا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کا حیثیت رکھتا‬
‫ہے جو اسالمی جماعتوں کی سیاست کی بنیادی تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔‬

‫‪1954‬ایوب خان کی فوج کی قیام‪:‬‬

‫‪1954‬ء میں پاکستان کی تاریخ میں اہم واقعے میں سے ایک ہے جب ایوب خان کی فوج‬
‫کی قیام واقع ہوا۔ ایوب خان پاکستان کی فوج کے افسر تھے اور وہ پاکستان کی معیاری‬
‫فوج کی بنیادوں کو بہتر بنانے کی خواہش رکھتے تھے۔ ان کے قیادت میں ایک تنظیم‬
‫تشکیل دی گئی جو کہ فوج کے افسران کی تعلیم اور تربیت کو بہتر بنانے کا مقصد رکھتی‬
‫تھی۔‬
‫‪9‬‬

‫ایوب خان کی فوج کی قیام کی وجہ سے پاکستان کی فوج میں تعلیمی اور تربیتی ترقیاں‬
‫زیر اہتمام پاکستان کی‬
‫ہوئیں اور اس نے فوجی افسران کی کارکردگی کو بڑھایا۔ ان کے ِ‬
‫فوج میں تخصصی تعلیمی ادارے تشکیل دیے گئے جو فوجی افسران کی تربیت کے لئے‬
‫اہم ثابت ہوئے۔‬

‫ایوب خان کی فوج کی قیام نے پاکستان کی فوج کو معاشرتی‪ ،‬تعلیمی‪ ،‬اور تربیتی حوالوں‬
‫سے مضبوطی دی اور اس کی تیاری کو بہتر بنایا جس نے بعد میں پاکستان کی تاریخی‬
‫وقائع میں اہم کردار ادا کیا۔‬

‫‪1955‬پاکستان کی پہلی کانفیڈریشن‪:‬‬

‫‪1955‬ء میں پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین واقعہ پاکستان کی پہلی کانفیڈریشن یعنی‬
‫"ویسٹ پاکستان کانفیڈریشن" کا قیام تھا۔ اس کانفیڈریشن کا قیام ویسٹ پاکستان کے چار‬
‫صوبوں‪ ،‬جو کہ پنجاب‪ ،‬سندھ‪ ،‬بلوچستان‪ ،‬اور نواز شریف کے سرحدوں تک فیچر اٹھتے‬
‫تھے‪ ،‬کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کی پیشکش تھی۔ اس کانفیڈریشن کی تخلیق کا‬
‫مقصد ویسٹ پاکستان کے عوام کو انصافی تقسیم میں حصہ دینا اور سیاسی اور اقتصادی‬
‫تنظیم میں بہتری النا تھا۔‬

‫ویسٹ پاکستان کانفیڈریشن کا قیام ‪ 23‬مارچ ‪ 1955‬کو کراچی میں منعقد ہونے والی ویسٹ‬
‫پاکستان کانفیڈریشن کانفرنس کے اجالس میں کیا گیا‪ ،‬جس میں ویسٹ پاکستان کے صدر‬
‫اسکندر میرزا کی قیادت میں تمام صوباؤں کے حکام شرکت کرتے تھے۔ اس کانفیڈریشن‬
‫کی تشکیل کے بعد ویسٹ پاکستان کی مخصوص مسائل اور تقسیم کو تشخیص دی گئی اور‬
‫سیاسی نظام کی بنیاد رکھی گئی‪ ،‬جس میں کانفیڈریشن اسمبلی کا قیام بھی شامل تھا جو‬
‫انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا۔‬
‫‪10‬‬

‫اس کانفیڈریشن کا قیام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اہم موڑ تھا‪ ،‬لیکن اس کی کامیابی کا‬
‫ذکر نہیں کیا جا سکتا۔ ویسٹ پاکستان کی پولیسی اور سیاستی قوتوں کے درمیان مختلف‬
‫تنازعات اور تنأوں کی بنا پر کانفیڈریشن کا پھیالو اور قیامی حاالت کا سامنا کرنا پڑا‪ ،‬جس‬
‫نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تبدیلی کی بنیاد رکھی۔‬

‫اس کانفیڈریشن کی بدلتی حکومت اور پونچنگ تنأو کے بعد ‪1956‬ء میں پاکستان کا قومی‬
‫اسمبلی کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا‪ ،‬جو پاکستان کی دو صوباؤں کی کانفیڈریشن کو تمام‬
‫صوباؤں کی تشکیل میں تبدیل کر دیا۔‬

‫‪1956‬پاکستان کا پہال دستور‪:‬‬

‫‪1956‬ء میں پاکستان کا پہال دستور منظور ہوا اور اس سال کا دور ایک تاریخی لمحہ تھا‬
‫جب پاکستان نے جمہوریت کی بنیادوں پر قائم حکومت کا آغاز کیا۔ ‪ 1956‬کا دستور نامے‬
‫نے پاکستان کو جمہوری جماعت کے طور پر منتخب حکومت کی شکل دی‪ ،‬جس کا اعالن‬
‫ہوا کہ "اسالمی جمہوریہ پاکستان کا قیام کیا جاتا ہے"۔ اس دستور نامے نے ملک کو دو‬
‫حصوں میں تقسیم کیا‪ :‬مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان‪ ،‬جو بعد میں ایک میں مل جائیں‬
‫گے۔ اس دستور نامے نے پاکستان کو ایک جمہوری جماعت بنانے کی کوشش کی اور ایک‬
‫منتخب قومی اسمبلی کو قائم کیا جس کا فیصلہ لینے کا حق تھا کہ ملک کا قیام کس طرح‬
‫ہوگا۔‬

‫اس دستور نامے نے اسالمی اصولوں کو بھی مد نظر رکھا اور ملک کو ایک دینی ملک‬
‫کے طور پر تصور کیا۔ ‪ 1956‬کا دستور نامہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے ابتدائی دور‬
‫کا آغاز تھا جو ملک کی سیاسی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‬

‫‪1957‬اسکندر مرجع کا قیام‪:‬‬


‫‪11‬‬

‫‪1957‬ء میں جنرل اسکندر مرجع کا قیام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ اس‬
‫سال کے دوران پاکستان کی سیاسی صورتحال اہم تبدیلیوں کا سامنا کر رہی تھی۔ جنرل‬
‫اسکندر‪ ،‬جو کہ پاکستان فوج کے اہم فوجی افسر تھے‪ ،‬نے ‪ 24‬اکتوبر ‪ 1958‬کو ملک کی‬
‫سربراہی کو قبول کیا اور ملک کی حکومت پر قائم حکمرانی کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔‬
‫موسم خشکی کی بدترین موقع پر ہوا جب حکومت کی کارکردگی پر عوام کی‬
‫ِ‬ ‫ان کا قیام‬
‫شکایات اور تنقیدی رائے بڑھ گئی تھی۔‬

‫جنرل اسکندر کا فیصلہ حکومت کو تنظیم دینے اور ملک کو مستحکم کرنے کا مقصد‬
‫رکھتا تھا۔ ان کی حکومت میں طبقاتی فساد کے خالف کئی کاروائیں کی گئیں اور ملک میں‬
‫قانون و نظم کی بحالی کی کوشش کی گئی۔ حاکم اسکندر کی حکومت ملک کی معیشت کو‬
‫بھی بہتر بنانے کی کوشش کی اور اقتصادی ترقی کے لئے کئی اہم منصوبے شروع کئے۔‬

‫تاہم‪ ،‬ان کی حکومت کے دوران جمہوریت کے اصولوں کی خالف ورزی اور سیاسی‬
‫حقوق کی پابندی کے بارے میں بھی تنقیدی رائے رہی۔ اسکندر مرجع کی حکومت کا‬
‫اختتام ‪۱۹۶۹‬ء میں ہوا جب وہ پاکستان کے نئے صدر منتخب ہونے کے بعد فوجی حکومت‬
‫کو چھوڑ کر واپس آئے۔ ان کے قیام کا مقصد ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور سیاسی‬
‫تنقید کو دور کرنا تھا‪ ،‬اور ان کی حکومت کا اثر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں چونوتی پیدا‬
‫کرتا ہے جو آج بھی مذکور رہتا ہے۔‬

‫‪1958‬اسکندر مرجع کی حکومت‪:‬‬

‫‪1958‬ء میں جنرل اسکندر مرجع کی حکومت کا قیام پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ‬
‫تھا۔ اس وقت تک پاکستان میں سیاسی بحران کی صورت میں تھا‪ ،‬جس کی وجہ سیاسی‬
‫تنازعات‪ ،‬فساد اور حکومتی فشار تھے۔ جنرل اسکندر مرجع نے ‪ 7‬اکتوبر ‪ 1958‬کو فوجی‬
‫کوپ کا آغاز کیا اور ملک کی حکومت پر قابو کر لیا۔ انہوں نے پاکستان کے قائم کردہ‬
‫‪12‬‬

‫حکومت کو منفی کر کے پاکستان کی تنظیم میں تبدیلی کی کوشش کی‪ ،‬اور انتخابات کو‬
‫منسوخ کر کے سیاسی جماعتوں کو منسلک کر دیا۔‬

‫جنرل مرجع کی حکومت نے ملک کو نئے سیاسی نظام کی طرف لے جانے کی کوشش‬
‫کی‪ ،‬جو کہ اسالمی نظام کی بنیادوں پر مبنی تھا۔ انہوں نے ‪ 1962‬میں نئے سیاسی دستور‬
‫منظور کیا اور پاکستان کو جمہوریت کی بجائے جنرل اسکندر مرجع کی امارت میں رہنے‬
‫دیا۔ ان کی حکومت میں اقتصادی ترقی کی کوششیں کی گئیں‪ ،‬لیکن سیاسی جماعتوں کے‬
‫خالف سخت اقدامات کئے گئے‪ ،‬جو سیاسی جماعتوں کی سمجھ میں نئے تنازعات کی‬
‫جذبات پیدا کرتے ہیں۔‬

‫جنرل اسکندر مرجع کی حکومت کا قیام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک مہمان نظام کے‬
‫طور پر یاد کیا جاتا ہے‪ ،‬جو کچھ سالوں تک جاری رہا اور پاکستان کی سیاسی منظر نامے‬
‫کو تبدیل کر دیا۔‬

‫ان کی حکومت کے فیصلے اور کامیابیاں مثبت اقتصادی ترقی کی جانب اشارہ کرتی ہیں‪،‬‬
‫لیکن ان کے فیصلوں کی کچھ اقسام میں سیاسی تشدد اور اختالفات کا باعث بھی بنے۔ ان‬
‫کے قیام کا بعدی دہائیوں میں پاکستان کی سیاسی منظر نامہ پر اثر ہوا اور اس نے ملک کی‬
‫سیاسی تاریخ کو شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔‬

‫‪ 1959‬کا اسٹیٹ بینک آرڈیننس‪:‬‬

‫‪ 1959‬کا اسٹیٹ بینک آرڈیننس (‪ )State Bank Ordinance 1959‬پاکستان کی مالیت اور‬
‫معاشرتی تنظیم کی روشنی میں اہم کدی تبدیلی کا اعالن تھا۔ اس آرڈیننس کا قائل کرنے کا‬
‫مقصد مالی منصوبوں‪ Z‬کی تنظیم اور قومی معیشت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا تھا۔‬

‫اس آرڈیننس کے تحت پاکستان کا اسٹیٹ بینک بنایا گیا جو ملک کی مالیت کی نگرانی‬
‫کرنے اور مونیٹری پالیسی کو تنظیم دینے کا ذمہ داری حاصل کی۔ اسٹیٹ بینک کو مالی‬
‫‪13‬‬

‫سیکٹر کی حکومتی تنظیم کے طور پر قائم کیا گیا جو مالی معامالت کی نگرانی کرتا ہے‬
‫اور مونیٹری پالیسی کو مدیریت کرتا ہے۔‬

‫یہ آرڈیننس پاکستان کے مالی نظام کو مزید قائمیت دیتی ہے اور ملک کے مالی معامالت‬
‫کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔ اس کے ذریعے مالی بنکنگ کے اصولوں‪ Z‬کی تعیین‬
‫کی گئی اور سرمایہ کاروں کو بھرپور حمایت ملی۔ اس طرح‪ 1959 ،‬کا اسٹیٹ بینک‬
‫آرڈیننس پاکستان کی مالی تنظیم کو مضبوط بنانے اور ملک کی معاشرتی ترقی کو بڑھانے‬
‫میں اہم کردار ادا کیا۔‬
‫ن‬ ‫ت خ‬
‫‪ :‬اری ی پس م ظ ر‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت خ‬ ‫تش‬
‫ب ب رطا وی راج سے آزاد ہ وے‬
‫ن‬ ‫ےج‬‫ہ‬ ‫پ اکست ان کی ک ی ل کا اہ من ا یر ی پس م ظ ر برطا وی راج ئکی ا ت ت ام ئپر‬
‫ت قئ‬
‫الش کا دور ھا۔ ا د‬
‫ت‬
‫کی‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ا‬
‫ق‬
‫ت‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫ا‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫ما‬ ‫ل‬ ‫کی خ واہ ش کے ب عد مس‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن ی‬ ‫ق‬
‫اعظ م دمحم علی ج ن اح کی ی ادت می ں مسلم ل یت گ ے پ اکست ان کی ی ل کی م طالب ت کی ھی‪ ،‬جس کی ب ی اد‬
‫ک‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫اسالمی معا رت کی ب ی ادوں پر رکھی گ ی ھی۔‬

‫تق‬
‫غ‬
‫‪ :‬سی م برص ی ر‬
‫ق‬ ‫غ‬ ‫تش‬
‫اور ش ر ی ن گال (موج ودہ ب ن گالد ش) کو دو ع‬ ‫پ اکستق ان کی ت ک ی‬
‫حدہ‬ ‫ئ‬‫ل‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫عد‪ ،‬برص ی ر (موج نودہ ب لوچ ست تان) ت شم ب‬
‫ئ‬ ‫ل کے ب‬
‫ن ق‬ ‫ق خ‬ ‫ق‬
‫ے‬‫مست ل ری اس ی ت قں رار دی گ ی ں۔ ان دو وں ری اس وں کی ک ی ل کے سات ھ پ اکست ان کا ومی طہ صوب ا ی م ط‬
‫ش‬
‫ہ‬
‫کی ل می ں سی م وا‬‫ک‬
‫ق‬
‫ت‬
‫‪:‬ا لی وں کا مس ئ لہ‬
‫ت خ‬ ‫ق ت‬ ‫خ‬ ‫ض‬ ‫ت خ تق‬ ‫ق‬
‫ئ‬ ‫ت‬
‫مذاہ ب‪ ،‬ومی ی ں‪ ،‬اور اری ی‬ ‫ے ج و م ت لف ق‬ ‫وں کا مس لہ پ اکست ان کی ا یر ی ر ی می ں ای ک اہ م مو وع ہ‬ ‫ا لی‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے‪،‬‬ ‫ے۔ پ اکست ان می ں ہ دوؤں‪ ،‬یس حی وں‪ ،‬سکھوں‪ ،‬اور دی تگر ا ت لی وں کی موج ودگی ق‬
‫ہ‬ ‫پس م ظ ر کی ب ا پر پ ی دا ہ وا قہ‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ج‬ ‫ئ‬ ‫لت‬ ‫ن‬
‫ے۔ ا لی وں‬‫وںشکا مس لہ پ اکست خان کی س ی اسی‪ ،‬سما ی‪ ،‬اورت معا ر ی اری ق خ کا حتصہ ہ‬‫ت‬ ‫ے۔ ا ی‬ ‫ج ن قکا حصہ ب ا ہ ظوا ہ‬
‫ش‬ ‫ف‬
‫ے ہ ی ں۔‬‫ان کی ہی ر کو لے کر م ت لف س ی اسی اور معا ر ی ج دالت وا ع ہ وے رہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫قکی ح وق کی ح‬
‫ئ ب‬ ‫ح ن‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے۔‬ ‫ے کا مس لہ ھی اہ م ہ‬ ‫ا لی وں کو معا ر ی اور ا و ی امور می ں ب راب ری کا ق دی‬
‫‪14‬‬
‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫ئ خ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ن ق‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫پ اکست ان کی حکومت ے ا لی وں کے ح‬
‫ے ہ ی ں‪،‬‬‫ے م صوص وا ی تن اور دابیر م ظ م کی‬ ‫خ‬ ‫ل‬ ‫وق کی ح ا قت کے‬ ‫ئ‬
‫ب مت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ت نف‬
‫ل ی کن ان کی ت ی ذ تمی ں ک ی مسا ل یقش آ تے ہ ی ں۔ ا ی وں کو م ت لف امور می ں ہی ر کی دعو ی ں ھی ل ی‬
‫ل‬ ‫پ‬
‫ش‬
‫ہ ی ں‪ ،‬ج و معا ر ی عصب کی ب ن ا پر وا ع ہ و ی ہ ی ں۔‬
‫ئ ن ف قنن‬ ‫ش ت ت‬ ‫ق‬
‫ح‬ ‫ئ‬ ‫لت‬
‫ی‪ ،‬ا و ی‪،‬‬ ‫ے نا صا ض‬ ‫ے‪ ،‬ناور اس کا ل کے ل‬ ‫اسی اور معا ر ی اری خ کا صہ رہ ا ہ‬ ‫ا یت وں کا مس لہ پ اکست ان کی‬
‫نف حت ث ق فت‬ ‫سی ت‬ ‫ض‬ ‫علی ت‬
‫ے اکہ ہ م ای ک م رد اور م عدد ا ی ر گوں والے ملک کی ب ی اد م ب وط کر‬ ‫ہ‬ ‫رورت‬ ‫کی‬ ‫ر‬‫اور می ی‬
‫ب‬ ‫دا‬
‫سکی ں۔‬
‫ش ت‬ ‫تق‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ف‬ ‫ت‬
‫ا تلی وں کے ح وق کی ح ا ت اور ان کی ہی ر پ اکست ان کی ر ی اور معا ر ی امن کی راہ می ں اہ م کردار ادا‬
‫ے۔‬ ‫کر ی ہ‬

‫خ‬ ‫قنن‬
‫‪:‬پ اکست ان کا ا و ی اور س ی اسی سا ت‬
‫یت‬ ‫ش‬ ‫خ‬ ‫قنن‬
‫ت‬
‫اصولوں کے م طابق ی ار‬ ‫س‬
‫ت‬ ‫پ اکست ئان کا ا و ی اور س ی اسی سا ج ت کے اصول ا المی معا ن رت کی فرواش وں اور ن‬
‫ے۔ ‪ 1956‬می تںش پ اکست ان کو مہوری اسالمی پ اکست ان کے ام سے آ ی ل طور پر م ظ م ک ی ا گ ی ا اور س ی اس ی اور‬
‫ےگ‬ ‫یک‬
‫ئ‬ ‫ش‬
‫رعی اصولوں کی ک ی ل دی گ ی۔‬
‫ن ش‬ ‫ف ن‬
‫‪:‬مذہ ب ی اور رہ گی ہ ی وم ی زی ن‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫تش‬
‫ع‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫پ اکست ان کیت ک ی ل کے ب عد‪ ،‬مذہ ب ی اور رہ گی ہ ی وم ی زی ن کی تپروسیس می ں ت ب دی لی آ ی۔ اسالمی لی می‬
‫ئ‬ ‫تث‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫ڑھ‬
‫ب گ‬ ‫رات‬ ‫اداروں کا وسی ع ہ وا اور اسالمی ری عت کی پ یروی کی معا ر ی اور س ی اسی ا‬
‫ش ت‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫تش‬
‫غ‬
‫ل ے ای ک ن ی ا ری اس ی ج ھکڑوں کا آ از ک ی ا جس کے دوران م ت لف معا ر ی‪ ،‬س ی اسی‪ ،‬اور‬ ‫ئ‬ ‫کی ک ی‬‫پ اکست ان ئ‬
‫کت‬ ‫ب ہ‬ ‫ہ‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫مذ ب ی مسا ل ٓاے ج و اس کے ب عد ھی ا می ت ر ھ‬
‫ن‬ ‫ت خ‬
‫ادب کی ا یر ی پس م ظ ر‪:‬‬
‫ش ت‬ ‫ن ن ن ت‬ ‫ت خ‬
‫ے‪ ،‬ج و ہ ر ممالک اور معا ر وں کی‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫صوں‬ ‫م‬
‫ت ح‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫سا‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫کی ا یر پ قم‬
‫س‬ ‫ی‬ ‫ادب‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫غ قی ہن‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ثق ف‬
‫ے ج تب لوگ م ظ ر‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫زما‬ ‫م‬ ‫دی‬ ‫از‬ ‫آ‬ ‫کا‬ ‫ادب‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ر‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫روا‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ر‬ ‫اور‬ ‫خ‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ت‪،‬‬ ‫ا‬
‫ت‬ ‫ہت‬ ‫ش‬ ‫ع ن‬ ‫ت ہ‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے۔ اری تخ‬ ‫ات کو اور ق تلم کو ظ ری ہت کی کل می ں پ یش کرے‬
‫ت ھ‬ ‫ر‬ ‫ج‬
‫ی خپ ب خ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫صص‬ ‫اور‬ ‫اعری‪،‬‬ ‫مے‪،‬‬
‫خ‬ ‫ا‬
‫ج جم‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫ش‬
‫وں می ں م ت لف ی ں اور ج دی دی ج ذب ات اہ ر ہ وے ہ ی ں و مع‬ ‫نمی ں ادب کی ات‬ ‫کے م ت لف دوروں‬
‫کی طب ی عت اور زماے کے م طابق ہ وے ہ ی ں۔‬
‫‪15‬‬

‫ت‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫خ‬ ‫ن ت‬ ‫ت خ‬


‫ے‬ ‫ج‬
‫ے‪ ،‬ی س‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫ات‬ ‫روا‬ ‫ی‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫سام‬ ‫ا‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫دوروں‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ادب کا ا یر‬
‫ہ‬ ‫ب ی‬ ‫ن ن‬ ‫ق‬
‫کہ دی مق ادب‪ ،‬وسطی دور کا ادب‪،‬تری یسا س کا ادب‪ ،‬اور معاصر ادب۔ ہفر ای ک دور کی ادبی روایخت اس‬
‫ت‬ ‫ثق ت ض‬ ‫ت‬
‫ے اور اس می ں آپ سی عامالت‪ ،‬ا ی مو وعات‪ ،‬اور ا یر ی‬ ‫کے مو ع اور م تاحول کے م طابق ہ و ی ہ‬
‫ث‬ ‫ق‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫عات‬ ‫وا‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن ت خ‬ ‫ق‬ ‫ئ‬
‫ق‬ ‫دوران‪ ،‬کا ذ اور لم کی موج ودگی ے اری‬ ‫غ‬ ‫اد ی اش‬
‫اور لکھا ی نکی‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ا‬ ‫ار‬ ‫کو‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫مق‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫کے‬ ‫اعت‬ ‫بن‬
‫نق‬ ‫ن‬ ‫ت خ‬ ‫ع خ‬
‫الب‪ ،‬و ت ق‬ ‫ی‬ ‫آسا ی سے لم اور ی االت کو ن ل ک ا۔‬
‫عاصر ئدور می ں ادب کی ار ی پس ن ٹم نظ ر می ں ادبی ائ ف‬ ‫نی م ن‬ ‫ث‬ ‫ت ن‬
‫ے۔ ا ر ی ٹ اور موب ا نل ون کی ر ی‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫لے‬ ‫ر‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫را‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ادب‬ ‫ے‬ ‫رات‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫ج‬
‫جیہق ئ‬ ‫پ‬ ‫ق ف‬ ‫ش‬ ‫آبنادی‪ ،‬اور ک ن ئ ت‬
‫ولو‬
‫ے ہ ی ں اور د ی ا ب ھر کے ادب اء اور ار ی ن کو آپس می ں م سلک ک ی ا‬ ‫ن‬ ‫ے ادب کو ی ہی ر کے موا ع راہ م کی‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫سی ک ن‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ت خ‬
‫ے اور ہ مارے ادبی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫را‬ ‫ع‬ ‫مو‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫سے‬ ‫ات‬ ‫ر‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫ادب کی ا یر ق پ ت م ی‬
‫ر‬ ‫ظ‬ ‫س‬ ‫ی‬
‫ت ھ‬ ‫بف‬ ‫ئ‬
‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ے ای ک ماحول را م کر ا‬ ‫ے کے ل‬ ‫اراے کو موا ع پر وج ہ دی‬
‫ث ق فت‬ ‫ن‬ ‫ت خ‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ن ن ت‬
‫ے۔ ادب کی ار ی پس م ظتر ہ تماری ا ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے ج و ا سا ی ج ر‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ے‪ ،‬کر‪ ،‬اور ی فاالت کو ی ا ر ئگ دی ت اشہ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ث‬
‫ے ج و می ں معا ر ی ہی ر کی راہ وں کو‬ ‫اور ہ ماری ہم می ں گہرا ی اور رو ی پ ی دا کر ا ہ‬ ‫ورا ت کا حصہ ہ و ا ے‬
‫فہ ت‬ ‫ب ت سجم ن‬
‫ے۔‬ ‫ے می ں مدد راہ م کر ا ہ‬ ‫ہر ھ‬
‫نق‬ ‫ش ت‬
‫‪:‬معا ر ی اور س ی اسی ا الب کے ب عد (‪20‬وی ں صدی)‬
‫ث‬ ‫نق‬ ‫ش ت‬
‫وی ں صدی می ں دن ی ا ب ھر کے ادب کا دور ہن وا جس می ں معا ر ی اور س ی اسی ا قالب وں کے ا رات‪20‬‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ئ‬
‫آے۔ اس دور می ں مو وعات مث ل ا سا ی ح وق‪ ،‬ج ن گ‪ ،‬اور ک ولوج ی کی ر ی پر وج ہ دی گ ی۔‬

‫‪:‬معاصر ادب (‪21‬وی ں صدی)‬


‫عم‬ ‫فن چ ی ن‬ ‫ش ت‬ ‫ت‬
‫ے۔ اس دور می ں‬ ‫ی ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫د‬ ‫ل‬ ‫رد‬ ‫کو‬ ‫ز‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫اسی‪،‬‬ ‫س‬ ‫ی‪،‬‬ ‫ر‬ ‫عا‬ ‫کی‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫معاصر ادب ‪ً 21‬وی ں صدی کی‬
‫ظ‬ ‫ن نت‬ ‫حمی ت ث‬ ‫ی ض‬ ‫من‬ ‫ث‬ ‫تن‬
‫ت کاران عموما ک ولوج ی کے ا رات‪ ،‬ج سی ت کے مو وعات‪ ،‬طی ا رات‪ ،‬اور ج ہا ی اؤوں پر ا ہار‬ ‫ادبی‬
‫کرے ہ ی ں۔‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ت ق عم ن ن‬ ‫ن‬ ‫ت خ‬
‫ادب نکے اصولوں‪،‬‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ت یق‬‫دوروں‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫امہ‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫اد‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ادب کی ا یر‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت ب‬ ‫ض‬
‫ے۔ اس کا م طالعہ ہ می ں ادب کے ر ی اور ا سا ی اری خ کے‬ ‫خمو وعات‪ ،‬اورس مواد کی ب دی لی فوں کو دکتھا ا ہ‬
‫جم ن‬
‫ے۔‬ ‫ے می ں مدد راہ م کر ا ہ‬ ‫م ت لف ج وہ ر کو ھ‬
‫‪16‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ث ری ظ م کے اب ت دا ی دور‬
‫تق ً‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫نث‬
‫ادب کی اری خ می ں ای ک اہ متدور ھا‪ ،‬ج و ری ب ا ‪ 1947‬کے ب عد روع ہ وا اور ‪1960‬‬ ‫خ‬ ‫دور‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫ت ک ج اری رہ ا۔ اس دور کی صوص ی ات م درج ہ ذی ل ھی ں‬
‫ن‬
‫ن‬
‫‪ :‬وعی ت کی ت ب دی لی‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫نث‬
‫اعران ے اعری کو‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫دور‬ ‫اس‬ ‫ھا۔‬ ‫دور‬ ‫کا‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫دور‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫ش‬ ‫ن ت ن ن پن‬ ‫ش‬ ‫ع خ یق ب ب ن‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ث ری ا داز می ں پ یشئک ی ا‪ ،‬جس کا م طلبت ل ی طور پ نر ر ناور اعری کو مال ا ت ھا۔ ا غہوں ے ا ی اعری می ں‬
‫ث‬
‫ن‬
‫معمولی زب ان کی ب ج اے عام زب ان کا اس عمال ک ی ا اور ا سا ی ز دگی کی عام ب ا وں پر ور ک ی ا۔‬
‫تن‬ ‫ض‬
‫‪:‬مو وعات کی وع‬
‫غ‬ ‫ن خ‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫پن‬ ‫ض‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫لف مو وعات پر ا ی اعری می ںت ور ک ی ا۔ ان‬ ‫ث ری ظ م کے اب ت دا ی دور می ں اعرانتے ئم ت ت‬
‫ع‬ ‫ش‬ ‫ض‬
‫مو وعات می ں وطن کی حمب ت‪ ،‬معا ر ی مسا ل‪ ،‬لی م‪ ،‬اور س ی اسی ت ب دی ل ی اں ش امل ھی ں۔‬
‫نق‬
‫‪:‬ادبی ا الب‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫نث‬
‫ں ش ت اعران ے رسمی اور ط وسی ادب کو رک کر کے‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ھا‪،‬‬ ‫دور‬ ‫کا‬ ‫الب‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ب‬‫اد‬ ‫دور‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن ن ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے اصولوں کی ب ی اد پر ادبی کام ک ی ا۔‬ ‫وآورا ہ اور ج دی دتادب کی ج ا ب بڑھا۔ ا ہوں ے ل ی د کو رد کر کے اپ‬
‫خ‬ ‫ت‬
‫ع‬
‫‪:‬ادبی لی م اور صصی کوڈز‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ت ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ن‬
‫کامتزی ادہ ر صصی لی می اداروں می ں ہ و ا ھا ج ہاں اعران‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫ری خ ظ م کے اب ت دا ی دور می ں ادبی لی‬ ‫ث ت‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫تئ ن‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫اپ ی صصی کوڈز کی ا ی د کرے کی کو ش کرے ھ‬
‫ش خ‬
‫‪:‬ش اعری کی ن ا ت‬
‫ن‬
‫ن ن ن ن خ‬ ‫ش‬ ‫ش ن خت‬ ‫ش‬ ‫نث‬
‫ے ا درو ی ود کو ب ی ان‬ ‫دوران اعری تکی ا ی اصولوں پر زور دی ا گ ی ا‪ ،‬اور اعران ے پا‬ ‫ن‬ ‫ری ظ م کے‬ ‫ن‬
‫ئن‬
‫ے ث ری ظ م کا اس عمال ک ی ا۔‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫نق‬ ‫نئ‬ ‫ن‬ ‫نث‬
‫کی ب ی اد ر ھی۔‬ ‫ن‬ ‫الب‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ب‬‫اد‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫جی‬ ‫لے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫راہ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ا‬
‫ت ی‬‫کو‬ ‫ادب‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬
‫پک‬ ‫ے‬ ‫دور‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫پ‬ ‫ش‬ ‫ن ن‬ ‫ش‬
‫ے اصولوں اور ج رب ات کو اعری کی صورت می ں یش ک ی ا اور پ اکست ا ی ادب کی‬ ‫تاس دور کے اعران ے اپ‬
‫ا یر خ می ں اہ م کردار ادا ک ی ا۔‬
‫‪17‬‬

‫ن‬
‫اہ م ث ری ش اعری ن اور ان کے کام‪:‬‬
‫ئ‬ ‫ش ت‬ ‫ن ن‬ ‫ہ ن‬ ‫ت‬
‫ے غموج ودہ معا ر ی اور س ی اسی مسا ل‬ ‫ن م ث ری ش اعری ن ے اپ ی ش اعری کے ذری ع‬ ‫پ اکست ان کی ادبی ا یر خ می ں ا‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے۔ ان می ں سے چک ھ‬ ‫ے اور ا ہوں ے ادب کے زیور کے سا ھ ان مو وعات پر ور ک ی ا ہ‬ ‫کو اج اگر ک ی ان ہ‬
‫ش‬
‫معروف ث ری اعری ن م درج ہ ذی ل ہ ی ں‬
‫ن‬
‫ف‬ ‫ف‬
‫‪ :‬ی ض احمد ی ض‬
‫پن‬ ‫ت‬ ‫ش ُ‬ ‫ف‬ ‫ف‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ع‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫ی ض احمد ی ض پ اکست ان کے م ئ ہور اردو اعر اور ادی نب ھ‬
‫ک ظ م ن اعرا ہن‬
‫ے ائی ت ی‬ ‫اعری کے ذری ع‬ ‫ےج وا ی ت‬
‫ان کی پ ی دا ش ‪1930‬ء کو برطا وی ب ھارت کے ھلوت می ں ہ و ی ھی اور ا ہوں ے‬ ‫ق‬ ‫ورث ہ چ ھوڑے ہ ی ں۔‬
‫غ‬ ‫نب‬
‫ے چ پ ن کی آ از ک ی ا۔‬ ‫ے می ں اپ‬ ‫الہ ور کے ای ک عیل حدہ صب‬
‫پن‬ ‫من ت‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ً ش ت‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫ف‬
‫اعری کے‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ع‬
‫ض ناحمد ض کی اعری کا نمو نوع موما معا ر ی اور ا ماعی متسا تل پر ی ھا اور وہ ا ی‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫غ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے۔ ان کی ش اعری می ں دکھ‪ ،‬م‪ ،‬اور‬ ‫ت‪ ،‬ا صاف‪ ،‬اور ا سا ی ح وق کی اہ می تنکو اج اگر کرے ھ‬ ‫ے ا سا خ‬
‫ی‬ ‫ذری ع‬
‫ف‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫حمب ت کے م ت لف پ ہلوؤں کا ت ب ادلہ ک ی ا گ ی ا اور ا ہوں ے ان مو وعات کو ب ہت ری ن ال اظ می ں پ یش ک ی ا۔‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ف‬ ‫ف‬
‫پ‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ی ض احمد ی ض کی‬
‫ے اور ان کے‬ ‫اور اعری ج لسوں می ں سرگرمی سے یش ک ی ا ج ا ا شہ‬ ‫اعری کو م ت لف اد ی‬
‫ب ش‬ ‫ُ‬ ‫غ‬ ‫ش‬
‫ا عار اور زلی ں آج ب ھی اردو ش اعری کے عرا کے درم ی ان معروف ہ ی ں۔ ان کے اہ م ا عار کی ای ک‬
‫ے‬ ‫‪:‬مث ال ی ہ ہ‬
‫ن ت‬
‫ت‬
‫می ں ے و چ اہ ا ھا ی ہاں حمب ت کو"‬
‫غ‬ ‫تخ‬
‫"می ری ی ل می ں موں کی طرح‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫نش ن ف‬ ‫ف‬ ‫ف‬
‫ہ‬ ‫ش‬
‫ک ازگینکے سا ھ‬ ‫ن‬‫ے اعرا ت ہ ا کار اور مو وعات کو ای‬ ‫ت ی تض کی ُ اعری کی ا مینت ی ہشہ‬
‫ے کہ وہ اپ‬ ‫ی ض احمد‬
‫ئ ن‬
‫ے۔ ان کی ش اعری ے پ اکست ا ی ش اعری‬ ‫ہ‬ ‫ے ج و اردو ادب می ں ی رو ن ی کی طرف راہ دکھا ا‬ ‫پ یش کرے ھ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫کو ا ک ن ئی ش ان دی اور ان کا ام ا ت ا ی ادب کی ا یر خ م ں ی کم ر اور ش ان دار ش‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫پ یج ہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫کے‬ ‫اعر‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫پ کس‬ ‫ی‬
‫‪:‬آب ج اوی د‬
‫‪18‬‬

‫ث‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬


‫ل‬
‫ح‬ ‫ج‬ ‫ش‬
‫ں ای ک ہت معروف اعر ہ ی ں ن کا وا عی ام س ی د ع ب د ا سی ن اب ت‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ش ن ت‬ ‫آب ج اوی د پ اکست ان کی ادبی انری خ می ن‬
‫ے اور ان کی ا عتار کا ا گریزی‪ ،‬اردو‪ ،‬اور‬ ‫ہ‬ ‫اردو اور پ ج ابی زب ا وں کے عالمی اعر ما ا ج ا ا‬ ‫ے۔ نآب ج اوی د کو ت‬ ‫نہ‬
‫ض‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ع‬
‫اسی مو وعات‪،‬‬ ‫اور س ی خ‬
‫طب‬
‫ے۔ ان کی پ ی ش ہ ورا ہ اعری می ں ی عت‪ ،‬معا ر ی خ‬
‫ن‬ ‫س‬
‫وں می ں و ی ع ل خق ہ‬ ‫ن‬ ‫پ ج ابی زب ا‬
‫ے ہ ی ں۔ نان کی ش اعری کا ای کتم صوص صوصی ت‬ ‫لوؤںنپر ا عار لکھ‬ ‫مب ت‪ ،‬اور ا سان ی ت کے م ت لف پ ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ح‬
‫ک ن‬ ‫ب‬ ‫ط‬
‫ے ا داز می ں ب ی ان کرے ہ ی ں۔‬ ‫ے کہ وہ ی عت کی وب صور ی اور ا سا ی ج ذب ات کو ای ک ا و ھ‬ ‫یہ ہ‬
‫ت نئ‬ ‫ت‬
‫ے اور اس می ں ان کی وا ا ی‬ ‫صہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬‫ا‬ ‫ی‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫گ"‬ ‫آب او د کا اش عار کا جمموعہ "ن رن‬
‫خش‬ ‫حخ ہ‬ ‫خ ی‬ ‫نب‬ ‫س‬ ‫پک‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ج ی‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ظ‬
‫ے۔ ان کی اعری می ں ز دگی کے م ت لف ر گ‪ ،‬واب‪ ،‬ام ی د‪ ،‬اور ون ی وں کی الش‬ ‫کا پرچ مب ری اہ تر ہ و ا ہ‬
‫ئ‬ ‫تث‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ے۔ آب ج اوی د کی ش اعری کا ا ر پ اکست ا ی ادبی دا رہ‬ ‫ےق ج و ار ی ن کے دلوں کو چ ھو ج تا ا ہ‬ ‫کا ج ذب ہ موج ود ہ و ا ہ‬
‫ش‬ ‫س ب‬
‫ے اور ان کے ش اعری کو عالمی ادب کے م ہور‬ ‫وامی طح پر ھی محسوس ک ی ا ج ا ا ہ‬ ‫کار کے عالوہ ب ی ن اال‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫اعروں سے مواز ہ ک ی ا ج ا ا ہ‬
‫ن ئ شن‬ ‫خ‬ ‫ن ن ن‬
‫ے اور ان کی‬ ‫ا‬
‫ی ی کی ہ‬‫ش‬ ‫پ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫رو‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫کو‬ ‫لوؤں‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫آب ج اوی د کینش اعری ےق ا سا‬
‫ث‬ ‫ق ئ‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫پ ہ‬ ‫ڑا‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ہرا‬ ‫گ‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ار‬ ‫وامی‬ ‫اال‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ا‬ ‫پ‬ ‫کا‬ ‫عار‬ ‫ا‬

‫ش‬
‫‪:‬ب ی ر ب در‬
‫خ‬ ‫پن‬ ‫ن ن‬ ‫ش‬
‫ب ی ر ب در پ اکست ان کے معروف ادب اء اور ش اعر ہ ی ں ج ہوں ے اردو ادب کو ا ی اعری کی صوصی ت سے‬
‫ش‬
‫ے‪ ،‬اور ان کی ش اعری می ں‬ ‫ا‬ ‫ہ‬‫ر‬ ‫صہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ص‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫دگی‬
‫ن‬
‫ز‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ر‬
‫ش ن ف‬
‫س‬ ‫ہ‬ ‫ورا‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫رن گ ن ب ن‬
‫ہ‬ ‫ح‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫یضہ‬ ‫خ ی‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫ے۔ ب ی ر ب در کا وج ود اعری د ی ا کو ب ہت ری ن ادب اؤں می ں سے‬ ‫م ت لف تمو وعات پر ب ات چ ی ت کی ج ا ی ہ ُ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے اور ان کی ادبی دمات کو ب ہ ری ن اردو اعری کے اصولوں کے سا ھ ج وڑا ج ا ا ہ‬ ‫ای ک ب ا ا ہ‬
‫غ ت‬ ‫خ‬ ‫ن ن‬ ‫ض‬ ‫خ‬
‫ے‬ ‫کر‬ ‫ور‬ ‫ر‬ ‫لوؤں‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫دگی‬
‫ن‬
‫ز‬ ‫ی‬ ‫سا‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ات‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫مو‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ص‬ ‫صو‬ ‫کی‬ ‫اعری‬ ‫ب ش ر در کی ش‬
‫ش ت‬ ‫پ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫یب‬
‫یت‬ ‫ن ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ں۔ ان کی اعری می ں حمب تت‪ ،‬مذہ ب ی اصولوں کا اح رام‪ ،‬ا سا ی ت کے م وں کی پ اسداری‪ ،‬اور معا ر ی‬ ‫ہی ئ‬
‫ش‬ ‫ظ‬
‫ے۔‬ ‫مسا ل پر ا ہار کی کو ش کی ج ا ی ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ش‬ ‫ن‬
‫ے اور ان کی حمب ت ب ھری اعری‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫م‬ ‫کاس‬ ‫ا‬ ‫کا‬
‫ج ی ف ی تع‬‫ر‬ ‫صو‬ ‫د‬ ‫د‬ ‫کی‬ ‫دگی‬ ‫ف ن‬‫ز‬ ‫کی‬ ‫لوگوں‬ ‫عام‬ ‫ں‬‫کے ا ش ی ت‬
‫م‬ ‫ار‬‫ع‬ ‫ان‬
‫ش‬
‫کے ا عار معا ر ی اصولوں کو ہماے می ں مدد راہ م کرے ہ ی ں۔‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ہ ن‬ ‫ن‬
‫خ‬
‫ے اور ان کی ادبی دمات‬ ‫ن ں سے ای ک رار دی ا ج ا ا‬ ‫اعری کو پ اکستن ا نی ادب کے ا مغرک وں م‬ ‫ب ش ر در کی ش‬
‫ن ت‬ ‫ہ‬
‫ئ‬
‫ی‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ی بش ت ثق ف‬
‫ے ای ک اہ م می راث ما ا ج ا ا‬ ‫کو معا ر ی‪ ،‬ا ی‪ ،‬اور ا سا ی مو وعات پر ور کرے والے لوگوں کے ل‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫‪19‬‬

‫ف‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ن ئ شن‬ ‫ن ُ‬


‫ے اور ان کی ا عار کی ج اگروکی طر ت اور‬ ‫ش‬
‫فان کی اعری ے اردو زب ان کو ای ک ی رو ی می ں ابی ک ی ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫ت‬
‫کری ب ادلے کو بڑھای ا ہ‬

‫‪:‬پروی ن ش اکر‬
‫ن ف‬
‫ن سن‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫پن‬ ‫ش‬
‫پروی ن ش اکر ے ل‬
‫‪ 1960‬کی دہ ا ی می ں کی ں اور پ ائکست ا ی ی ما کی‬ ‫کاری یر کی روعات ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ب‬
‫ع‬ ‫کے‬ ‫موں‬
‫ہت‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ج‬
‫ن ھوں کا سائ پ" ھی و کہ کارگردان کرمن مو ی کی زیر ا مام‬ ‫ک‬ ‫راہئوں می تں اپ ن ا دم ج ما دی ا۔ ان کی پ ہلی لم "آ‬
‫ئ‬
‫ب ن ا ی گ ی ھی اور اس می ں ان کی اداکاری ے دھوم مچ ا ی۔‬
‫ن خ‬ ‫ت‬
‫ق‬
‫ت‬
‫س ت‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫فن‬ ‫ش‬
‫ے۔ وہ ے م لف ا سام کی‬ ‫فپروی ن اکر کا ی کی ری ر ان کی اداکاری نکی اب لی ت اور نموا نهب کو لی م کر ا ہ ف‬
‫شن‬ ‫ن‬ ‫ے ہ ی ں‪ ،‬ج‬ ‫ئ‬
‫دار‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ف‬ ‫ان‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬‫م‬‫ڈرامہ‪ ،‬اور ا سا ی معامالت پر مب ی ل‬ ‫ن‬ ‫ی‪،‬‬ ‫روما‬‫ئ‬‫کہ‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ی‬ ‫لموں می ںنکردار ادا ک‬
‫ص ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ان کو ‪1970‬ء کی دہ ا ی می ں پ اکست ا ی سی ما کی ملکی اور ب ی ن اال وامی س طح پر معرو ی حا ل کرے‬ ‫اداکاری ے ئ‬
‫می ں کام ی ابی دال ی۔‬
‫ن ن خ‬ ‫ف‬
‫ک ب ہت ری نش لم گی ت کار ب ھی ہ ی تں اور ا ہوں ے م لف دوروں‬
‫ت‬ ‫ش‬
‫پروی نن اکر کی اداک ئاری کے عالوہ‪،‬نوہ ای ق‬
‫ے می ں ب ھی ان ئکی عریف کا سب ب ب ن ا۔ ان فکے‬ ‫نست ا ی مونسی فی کے عب‬ ‫ے ج و پ اک‬ ‫ے زب ان فکی گا ی ہ‬ ‫می فں شاپ‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے اور وہ اب ب ھی ن کے‬ ‫تے پ اکست ا ی ن می ں ان کی ا می ت کو ا م رکھا ہ‬ ‫پشرو ی لی زم اورف ن کی درت‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ص‬
‫ے می ں معرو ی حا ل کرے ج ا رہ‬ ‫عب‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ش ت ض‬
‫ٹپروی ن ش اکر کی خ دا پر ای مان اور معا ر ی مو وعات کے پرچ مش بخردار وے کی وج ہ فسے وہ پ اکست ان کی لم اور‬
‫ہ‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ی نلیویژن ص عت کے عالوہ معا رت می ں ب ھی ای ک عامر صی ت ہ ی ں ج ن کا ی کی ری ئ ر اور سماج ی کام‬
‫ت‬
‫ے۔‬ ‫دو وں می ں مث الی ہ و ا ہ‬
‫ت ق‬ ‫ثق ف‬ ‫ن ف‬ ‫شش ن‬
‫ے اور ان کے‬ ‫ا‬
‫ب کی ہ‬ ‫ال‬ ‫ت‬
‫س‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫گرمی‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫کس‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ان کے کردار اور کو ف وں‬
‫پ سن‬ ‫ب ب ن ت‬ ‫ن‬
‫کار امے ک ھی ھی ی اری خ می ں گری ہ ی ں۔‬

‫‪:‬کامل یوسف‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫کامل ی ت‬
‫وسف پ اکست ان کی س ی است می ں اہ م اور معروف س ی است دا وں می ں سے ای ک ہ ی ں ج و اپ ی عوامی‬
‫پن‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫خ دمات‪ ،‬لی م‪ ،‬اور س ی اسی کارکردگی کی ب ی اد پر معروف ہ ی ں۔ وہ ‪ 1932‬می ں ج اب کے ای ک گاؤں می ں‬
‫‪20‬‬
‫ئ ن ن ت‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫ئ‬ ‫ع‬ ‫ش‬ ‫ن ٹ‬ ‫ع‬
‫پ ی دا ہ وے اور ان کی لی م کراچ ی کے کراچ ی یو ی ورس ی سے روع و ی۔ ا ہوں ے لی م کی راہ می ں ک ی‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫ص ئ‬
‫ے اور ان کی لی می مؤسسات می ں اپ ی معلومات کو روغ دی ا۔‬ ‫ے حا ل ک‬ ‫اہ م درج‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫کامل یوسف ے س ی است می ں کری ں عداد می ں دمات دی ہ ی ں۔‬
‫فئ‬ ‫خ‬ ‫ش م ئ‬
‫ت‬
‫ماعت اسالمی کےخحوالے سے پ اکست ان کی س ی است می ں ا ل ہ وے اور م لف عہدوں پر ا ز‬ ‫وہ جئ ِ‬
‫ش‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ٹ‬ ‫ت‬
‫نس ی کر ری ج رل کے طور پر دمات دی ن ا امل‬ ‫ہ وے۔ ان کی اہ م اری ی کردار می خں پ اکست ان کی س ی ن ی ٹ کے‬
‫ے ہ ی ں اور ان کے اہ م کاموں می ں‬ ‫کم‬
‫ے۔ وہ پ اتک عست ان کی س ی ن ی ٹ می نں م ت لف ی ٹ ی وں کے ارچ اے کار رہ‬ ‫ہ‬
‫پ اکست ان کی لی می پ الیسی کے ب ی ادی اصولوں کی طرف سے کام ک ی ا گ ی ا۔‬
‫ت‬
‫ض‬ ‫ج ن‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت خ‬
‫ی‬ ‫ل‬
‫ے و پ اکست ان تکی می‪،‬نس ی اس ی‪ ،‬اور سما قی ب ی ادوں کو م ب وط‬ ‫ج‬ ‫کامل یوسف کا کریر می ں اہ م اری ی ت‬
‫کردار عہ‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫نن‬
‫ے ے پ اکست ان کو ر ی کی راہ وں می ں مدد‬ ‫ر‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫اور‬ ‫می‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ے۔‬ ‫نہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫را‬ ‫مدد‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ے‬ ‫با‬
‫ب ت ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ے اور ان کا ام پ اکست ان کی اری خ می ں ای ک ا م اور م ع رف ام ہ‬ ‫را م کی ہ‬ ‫ہ‬
‫شف‬ ‫ق‬
‫‪ :‬ریش ی ق‬
‫ن ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ف ن‬ ‫ن‬ ‫شف‬ ‫ق‬
‫ریش ی قشپ اکست ان کی ای ک معروف مصرع گار‪ ،‬ا سان ہ ئویس‪ ،‬اور ری ب ی ادب کار ہ ی ں ج نہوں ے اردو‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ے می ں ا ن ہ‬
‫ے۔ ان کی پ ی دا ش ‪ 12‬اک وبر‪ 1928 ،‬کو بمب ی‪ ،‬ب رطا وی ب ھارت‬ ‫ے ا م کردار ادا ک ی ا ہئ ت‬ ‫شپ‬ ‫ادب کےئ بع‬
‫(آج کا ممب ی‪ ،‬مہارا ٹ را‪ ،‬ب ھارت) می ں ہ و ی ھی۔‬
‫ت‬ ‫شف ن‬ ‫ق‬
‫ص‬ ‫ع‬ ‫س‬ ‫لف ئ‬
‫ریش ی ق ے کراچ ی کے کرچ ی اور کراچ ی وی ر ا کول سے لی م حا ل کی‪ ،‬اور اس کے ب عد کراچ ی ئکی‬
‫گاری سے ہ و ی‪،‬‬
‫ن‬
‫صرع‬ ‫روعات‬
‫ش‬
‫کی‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫کی۔‬ ‫ل‬ ‫کرا ی ون ی ورسٹی سے ی اے کی ڈگری حاص‬
‫ن خ‬ ‫ض م‬ ‫بت ی‬ ‫ن بن ف ن‬ ‫چ ی‬
‫ش‬
‫ل ی کن ب عد می ں ا ہوں ے ا سا ہ و سی کا راس ہ اپ ای ا اور معا ر ی اور س ی اسی مو وعات پر ا ی صوصی‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ظ‬
‫ش اعری می ں ا ہار کی کو ش کی۔‬
‫ض‬ ‫ف ن‬ ‫ن‬ ‫ف ن ن‬ ‫شف‬ ‫ق‬
‫نابیخکی سب ب ب ا‪ ،‬اور ان تکے ا ساے ان کی طرف سے موا ع‬ ‫ن‬ ‫کا‬ ‫ام‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫گاری‬ ‫ہ‬ ‫سا‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ر‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن ت ی ن می‬ ‫ض‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ش‬
‫اور ری ب ات می ں اپ نی اعری پ یش کی اور‬ ‫ج‬ ‫اور ج دی د مو وعات پر مب ی ھ‬
‫لف ادبی لسوں ف‬ ‫ے مت ش ف‬ ‫ق‬
‫ے۔ ا ہوں‬
‫ش ی ق کا ادبی اور کری ارث پ اکست ا ی ادب کے اہ م‬ ‫ر‬ ‫ا۔‬ ‫د‬ ‫گ‬ ‫ے اردو ادب کو ن ا رن‬ ‫اس کے ذری ع‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ن ق کت‬ ‫شن‬ ‫ش م‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ے‪ ،‬اور وہ اردو ادب کی رو ی می ں اپ ا م ام ر ھ‬ ‫حصوں می ں ا ل ہ‬
‫غ‬ ‫ن ن ض‬ ‫ش ت‬ ‫خ‬
‫ہ‬
‫ف ن‬
‫اسی‪ ،‬اور ا سا ی مو وعات پر ور‬ ‫ی‪،‬‬ ‫ر‬
‫حق ق ی ی ہ ن م ف س ی ت‬ ‫عا‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ص‬ ‫صو‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ک‬‫ن ی جمت‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫انتکے ا سا‬
‫کرے ہ ی ں‪ ،‬ج و پ اکست ا ی مع کی ی ت کو ب ی ان کرے می ں مدد راہ م کرے ہ ی ں۔‬
‫‪21‬‬

‫ش ت‬ ‫غ‬ ‫ض‬ ‫خ‬


‫ن کرے ہ ی ں اور‬ ‫ت‬ ‫رو‬ ‫کو‬ ‫ادب‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫ور‬ ‫ر‬ ‫وعات‬ ‫مو‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ے‬‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫اعری‬ ‫ہ ن ث ری ش اعر ن اپ نی ش‬
‫ع‬ ‫ت ئ‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫غ ت ی‬ ‫ی ئ‬ ‫ن‬
‫نی‬
‫ی‬
‫ان سا ی ت کے مسا ل پر ور کرے ہ ی ں۔ ان کے کام ے پ اکست ا ی ادب کو ب ڑھ ی ہ و ی ل می اور‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ا سا ی نت کی سجم ھ کا حصہ ب ای ا ہ‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫ض ف‬ ‫شن‬ ‫نث‬
‫ے ج و کہ ای ک‬ ‫ہ‬ ‫صہ‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ادب‬ ‫اردو‬‫ن‬ ‫دور‬ ‫کا‬ ‫)‬ ‫‪1980‬‬ ‫‪-‬‬ ‫‪1961‬‬ ‫(‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫رو‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫ض ف‬ ‫شن‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ہ‬
‫دوران‪ ،‬ری ظ م کا اصولوں کی رو ی می ں ا ا ہ وا اور ادبی‬ ‫ث‬
‫ئ‬ ‫ے۔ اس‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ت ب دی لی کے دور کی عالمت ہ‬
‫ن نت خ‬ ‫ن‬
‫ش اعری کو ث ری زب ان می ں پ یش کرے کا ا ہا ی وش آمدی د ملی‬
‫تش‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫نث ن ن ن‬ ‫ت‬ ‫نق‬
‫ک‬
‫ے ا البی اصولوں کی ر یو ج کی ی ل دی‪.‬‬
‫ن‬ ‫‪ 1980‬کے دوران ری ظ م ش‬ ‫ن‬
‫ا البی اصولوں نکی روی ج ‪-1961‬‬
‫ن‬
‫ادبی ش اعری کو ا سا ی ت‪ ،‬عدل‪ ،‬اور ا صاف کے اصولوں کی رو ی می ں پ یش ک ی ا گ ی ا‪ .‬اس دوران کے‬
‫غ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن ن ن ق‬
‫ن‬
‫‪.‬ش اعران ے ا سا ی ح وق‪ ،‬سی ت کی براب ری‪ ،‬اور ز دگی کی ی مت پر ور ک ی ا‬ ‫ج‬
‫ت نق‬ ‫ت‬
‫‪:‬ادبی عصب کی ی د‬
‫قت‬ ‫ت نق‬ ‫قت‬ ‫ت نق‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫اس دوران کے ش اعران ےئادبی عصب کی ی د کی ناور طنب ا ی اور سما قی امور کی ی د کی‪ .‬وہ طب ا ی‬
‫ج‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ب ی ادوں پر مب ی ش اعری کی ب ج اے عوامی معا رت اور ا سا ی ح وق کی ر ی کو اپ ن ا پس م ظ ر ب ن ا دی ا‬
‫تق‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫‪ :‬ث ری ظ م کی ر ی اور ان کے موازن ہ‬
‫تق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫تق‬ ‫ن‬
‫غ‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ض‬
‫ن ث ری ظ م کی ر ی اور ان کے موازن ہ کا مو وع اد ی اری خ می ں ب ہت اہ‬
‫ے۔ ری ظ م کی رش ی کا آ از‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ک‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ش ف‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ث ق فت ت‬ ‫خ‬
‫ن حت ہ وا‪ ،‬اور ی ہ ای ک مت وع اور رو ن کرا ہ اعری کی ت ف ل‬ ‫رات کے‬ ‫ق‬ ‫عوامی اور ا قی م ی‬ ‫م ت لف‬
‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ناب زار اور طری وں کی طرف ب ڑھای ا‪ ،‬ج و مواد کی ص ی ل کو‬ ‫ے‬ ‫سام کی ر ی ے ش اعری کو‬ ‫پ کڑی۔ اس ی ضادبی ا ت‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے اور مو وع کو صویری زب ان می ں پ یش کرے می ں مدد راہ م کر ا ہ‬ ‫ت دی‬ ‫ن‬
‫ہ دای‬
‫ث ق‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫تق‬ ‫ن‬
‫ح‬
‫ے کہ مر ی ہ‪ ،‬ا ب ال ی ات‪ ،‬مرا لی‬ ‫ج‬
‫اس کی م ت لف ا ن سام ھی وج ود می ں آ ی ں‪ ،‬ی س‬ ‫ب‬
‫ت‬ ‫کے سا ھ خسا ھ‬ ‫ث ری ظ م کی ر ی ن‬
‫یت‬ ‫ظ‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫ش اعری‪ ،‬اور ا دازی ظ م‪ ،‬ج و م ت لف صویری ت اور ا رادی ا ہار کی ج رات د ی ہ ی ں۔‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫غ‬
‫س می ں نمعا ی کو گہرا ی سے‬ ‫ےج ن‬ ‫ہ‬ ‫اردو ادب می تں می رزا الب کی ش اعری ث ری ظ م کی ای ک ما ن دہ مث ال‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫پ یش ک ی ا نگ ی ا ناور صویری ا دازتمی ں پ یش ک ی ا گ ی ا۔ فموازن ہ کے سا ھ‪ ،‬ش اعریناور ث ری ظ م دو وں اہ م ادبی ش ا وں‬
‫ض‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ہ ی ں ج و ا سا ی ز دگی‪ ،‬معا ر ی مو وعات‪ ،‬اور کری ت ب ادلوں کو ب ی ان کرے کا ذری عہ ہ ی ں۔‬
‫ن‬
‫ے اصول اور ان داز ہ ں‪ ،‬ل ی کن ہ دون وں کی اہ‬
‫ن‬ ‫ق ہت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے۔ ث ری ظ م کی مدد‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫رار‬ ‫ر‬ ‫ت‬
‫می ب‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ن پ ئ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫اگرچ ہ دو‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫پ‬ ‫ش‬
‫ے‬ ‫سے ا عار معا ی کو گہرا ی سے یش کرے ہ ی ں ج ب کہ اعری کالم می ں احساسات اور ج ذب ات کو ز دگی دی‬
‫ہ ی ں۔‬
‫‪22‬‬

‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬


‫غ‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫خ الصہ طور ر‪ ،‬ن ث ری ظ م کی ر ی ے اد ی دن‬
‫ت‬
‫ے‪،‬ت جس ے‬ ‫ی ضہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫از‬ ‫آ‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫صو‬ ‫دی‬ ‫د‬
‫فی‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫زار‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ں‬
‫ب ی ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫پ‬
‫پ‬ ‫ش‬
‫ے۔ ی ہ ای ک مو ت وعا ی اور‬ ‫ے می ں مدد راہ مغکی ہ‬
‫ت‬ ‫موزوں صویری ز نب انن می ں یش کر خ‬ ‫ش‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ز‬ ‫کو‬ ‫اعری‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ج ر ا ی ش اعری کی ک‬
‫ے اور ان کو صویری ا داز‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫ور‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫لوؤں‬ ‫لف‬ ‫کے‬ ‫دگی‬ ‫ز‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫س‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ب‬
‫ے۔‬ ‫می ں پ یش کر ی ہ‬
‫تق‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫‪ :‬ث ری ظ م کی ر ی‬
‫ئ تش‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫تش‬ ‫ئ تش‬
‫۔ اب ت دا ی ک ی ل (‪ **:)1960-1947‬پ اکست ان کی نک ی ل کے ب عد‪ ،‬ث ری ظ م کی اب ت دا ی خک ی ل کا دور‪1‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ن دوران ث ری ظ م کے ش اعران اپ ی ش اعری می ں م ت لف‬ ‫درم ی ان ھا۔ اس‬ ‫‪ 1960‬کے ت‬ ‫‪ 1947‬سے غ‬
‫ظ‬ ‫پن‬ ‫ن‬ ‫ض‬
‫ے اور ا ہوں ے ا ی احساسات کو کالمی صورت می ں ا ہار ک ی ا۔‬ ‫ے ھ‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫ور‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫وعات‬ ‫مو‬
‫ش ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ت‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ض ف‬ ‫شن‬
‫اور‬
‫ن ختکوعمعا نر ی‪ ،‬س ی اسی‪،‬ش ت‬ ‫‪ :)1980-1961‬دہ ا ی کے روع می ں ری ظ م کی اری‬ ‫فرو ی می ں ا ا ہ ن( ن‬
‫ت‬
‫صاف‪ ،‬معا ر ی‬ ‫ا‬ ‫م‪،‬‬ ‫ے۔ اس دوران‪ ،‬اعران ے لی‬ ‫ش‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫خ‬ ‫ھا‬ ‫کری ت ب دی لیوں کی ش ا ی کے طور پر دی ک‬
‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ض‬ ‫غ‬ ‫ض‬ ‫ئ‬
‫ہ‬
‫مسا ل‪ ،‬اور مذ ب ی مو وعات پر ور ک ی ا۔ لف مو وعات پر اعری کا ا ہار ک ی ا گ ی ا اور ادبی ج دی د کی را وں‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫کو کھول دی ا گ ی ا۔‬
‫ت ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫کے ب عد کے دور می ں ث ری ظ م اور ادب کی اری خ کو معاصر ناصولوں کے سا ھ ج دی د کی راہ وں پر لی ‪1980‬‬
‫تث‬ ‫ض‬ ‫تق‬ ‫ن ٹ‬
‫ج ای ا۔ اس دورغ کے ش اعران ے ی ک ن الوج ی کے ر ی ات‪ ،‬ج سی ت کے مو وعات‪ ،‬اور حمی طی ا رات پر‬
‫ش اعری می ں ور ک ی ا۔‬
‫نٹ‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫‪ :‬ث ری ظ م اور روما سی زم‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫نٹ‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫ض‬ ‫نث‬
‫زم دو وں ادب کی اری خ می ں موج ودق ہ ی ں اور ان کے درم ی انغموازے کا مو وع ک ی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ا‬‫م‬ ‫رو‬ ‫اور‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫ث‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ش ن خ‬ ‫ش‬ ‫نٹ‬ ‫ت ُٹ‬
‫ے ج ب کہ ری‬ ‫روما سی زم کی اعری می ں عوام کی و ی ی اور واب وں کی ب ی اد پر ور ک ی ا تج ا ا ہ‬ ‫ض‬
‫ے۔‬ ‫نمر ب ہ ا ھت اخ ہ‬
‫ج غ‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ے۔‬ ‫ظ م می ں م ت لف مو وعات پر ع ا د اور سما ی پ ی امات کو کالمی صورت می ں پ یش ک ی ا ج ا ا ہ‬
‫ن‬
‫ن‬
‫‪ :‬ث ری ظ م اور معاصر ادب‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫کے‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ٹ‬
‫کی یل ق می ں ی ک الوج‬ ‫خ‬
‫ن‬ ‫ادب‬ ‫اصر‬ ‫ع‬ ‫کہ‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کردار‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫عاصر ادب کے دوران ن ث‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ہ ب تم‬ ‫م ت‬ ‫ن‬ ‫ن ن ق‬ ‫م‬
‫ث‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ح‬ ‫ث‬
‫ادب می ں م ت لف‬ ‫ش م ن‬ ‫عاصر‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ا رات‪ ،‬ا سا ی وق‪ ،‬سی ت‪ ،‬اور ح طی ا رات کو سراہ‬
‫غ ن‬
‫ش‬ ‫شنخ‬ ‫ن‬ ‫ض‬
‫موت وعات پر ور کرے کی مو ودگی اور عام لوگوں کی ز دگی کو ادبی ا ت می ں ا ل کرے کی کو ش کی‬ ‫ج‬
‫ے۔‬ ‫ج ا یہ‬
‫‪23‬‬

‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫نئ ش‬ ‫ن‬ ‫تق ن‬ ‫ن‬


‫ادب کی اری خ می ں اہ م مو ع پغر پ ای ا ج ا ا‬ ‫ے اور‬ ‫دی‬ ‫ی‬
‫ن‬
‫رو‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ادب‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫نث‬
‫تف‬ ‫خ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ن‬‫پ‬
‫ض‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ے۔ اس کے موازے می ں دوسرے ادبی دوروں کے سا ھ اس کی ی ت اور مو وعات پر ور ک ی ا‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ے۔‬ ‫ب ی ھ ہ‬‫ا‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ادب‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ج تا ہ‬ ‫ا‬
‫ع تق‬
‫‪ :‬لی می ر ی‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫قت‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ع‬
‫ے۔ ی ہ ای ک ملک کی ا صادی‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ے ب ہت اہ م عامل ہ و ی‬ ‫لی می ر یفای ک م قلک کی ر ی اور ر ی ت‬
‫کے ل‬
‫ن ت‬ ‫ن‬ ‫اج ت ماعی‪ ،‬اور کری ت ر ی کی ب ن اد رک تی ے۔ علی م کا م صد ن ہ صرف ع‬
‫ق‬
‫ے ب لکہ ای ک‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫اد‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫لم‬
‫قہ‬
‫خ‬ ‫ت تی ن ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫یف ھ ن نہ ق ت‬ ‫ن ت‬ ‫ت‬
‫ے کے سا ھ سا ھ ا سا ی ا ال ی اصولوں کو ب ھی‬ ‫ے ج و رد کو ا سا ی در وں کا رب ی ت ید‬ ‫امع رب ی ت دی ا ہ و ہ‬
‫ا‬
‫ج ت‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫تسکھا ا ہ‬
‫ج نئ‬ ‫ت‬ ‫خ ق ق‬ ‫ت‬ ‫ع تق‬
‫ی‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے اور‬ ‫ے‪ ،‬و ت ق‬ ‫کی ی وتعکو بڑھا نی ہ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫م‬
‫ت‬
‫ے کی و کہ ی ہ ای ک لک‬ ‫ہ‬ ‫لی می ر ی کی پراموت ٹ ا می ت و ی‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ع ن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫نت‬ ‫ت‬
‫ے۔ لی می امکا ات کی راہ می‪ ،‬لی می ا صاف‪ ،‬اور لی می م صوب وں کی ر ی‬ ‫ع ی ق ہ‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫دا‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ذ‬ ‫ازہ‬
‫کت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ملک کی لی می ر ی کی راہ می ں ا می تت ر ھ‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ئ‬ ‫ت تق‬ ‫ش ت‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫ے۔‬ ‫ے ھی لی م ا م ہ و ی ہ‬ ‫تمعا ر ی اور اج ماعی ر ی کے ل‬
‫ش ت‬ ‫ن ن‬ ‫کت‬ ‫ئ‬ ‫ت نن‬ ‫جمت‬ ‫ف‬ ‫ع ن‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ک‬
‫ے ہ ی خں یک و کہ قوہ ا سا وں کو معا ر ی اور‬
‫ف‬ ‫ھ‬ ‫ر‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ت‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫کو‬ ‫مع‬ ‫سی‬
‫ت‬
‫راد‬ ‫ا‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫لی م دی ئ‬
‫و‬ ‫ے‬
‫ے ہ ی ں۔ ا ہی ں م ت لف موا ع راتہ م کر کےف ملک کی‬ ‫ی‬‫تسماج ی م قسا ل کے حل الش کرے کی صالحی ت د‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫ن ت‬ ‫ف‬ ‫علی ت‬
‫ے اور ان کی لی می اور کری‬ ‫ے اکہ ج ماعت کی ح ی ث ی ت می ں ب ہت ری آ سک‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫روغ‬ ‫تق‬ ‫کو‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫می‬
‫ق ت‬
‫در ی ں مزی د ر ی کری ں۔‬
‫ت ت خ ق‬ ‫ن‬ ‫ع ف‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫تع ت ق‬
‫ے اور ج تری ز کو ج دی د لم اور ون کے سا ھ سا ھ ا ال ی اصولوں کو ب ھی‬ ‫ن‬ ‫می ر ی ملک کی وت کو ب ڑھا ی‬ ‫لی‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ت ش‬
‫ے۔‬ ‫ے ج و ای ک ب ہ ر معا رت کی ب ی اد ہ و ی ہ‬ ‫سکھا ی ہ‬
‫فن ت ق‬
‫‪ :‬ی ری‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ٹ ن‬ ‫ش‬ ‫نٹ ن‬ ‫ب ث ن‬ ‫ث‬ ‫تق ن ن‬ ‫ج‬ ‫ت کن‬
‫روعات اور ای لک را کس م ی ڈی ا کے آمد ی‬ ‫ن ن‬ ‫کی‬ ‫ٹ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ا۔‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫داز‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫کو‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ن‬‫کی‬ ‫ی‬ ‫الو‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ئ نئ‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫ے ن ث ری ظ م کے ش اعران کو اپ نی ش‬
‫ے ینآسا ی اں مہ ی ا کی ں۔ ان‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫عوام‬ ‫ادہ‬ ‫ز‬ ‫کو‬ ‫اعری‬
‫ش‬
‫ل‬ ‫نچ ت‬ ‫ت‬
‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫خ‬
‫ش‬
‫ے‪ ،‬جس ے ان کی اعری کی‬ ‫پ‬
‫کی اعری کو لف رسا ی کے ذرا ع کی مدد سے عوام ک ہ چ ای ا ج ا ا ہ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫م ب ولی ت کو بڑھای ا۔‬
‫‪24‬‬
‫ف‬ ‫ق‬
‫ل ث‬
‫‪:‬موسی ی اور می ا رات‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ق‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ث‬
‫موسیق ی اور ف لمی ا رات ری ظ م کی اری خ می ں ا م کردار اداتکرے ہ ی ں۔ ری ظ م کے اعران ک ی مر ب ہ‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫موسی ی اور لمی اث رات کی مدد سے اپ نی ش‬
‫ے اور ان‬ ‫اعری کو پ یش تکرے ہ ی ں‪ ،‬ج و عوامی پ س دی دگی کو ب ڑھا ہ‬
‫ا‬
‫ف‬ ‫ن ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫کی اعری کو زی ادہ لوگوں ک پ ہ چ اے می ں مدد را م کر ا ہ‬
‫ہ‬
‫ن‬ ‫خ‬
‫ش‬
‫‪:‬م ت لف زب ا وں می ں اعری‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫پن‬ ‫ب لک ت‬ ‫ن‬ ‫اس دور کے ن ث ری ظ می ش اعران اپ نی ش‬
‫ے اردو‪ ،‬ج ابی‪،‬‬ ‫ے ہ یخں‪ ،‬ج ی س‬ ‫ھی‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ا‬ ‫ز‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫اعری‬
‫ش‬
‫ھ‬ ‫ی ت‬ ‫ت ب‬
‫ش‬ ‫ئی غ‬
‫ے اور لف لوگ ان کی اعری‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫سرا کی‪ ،‬و یترہ۔ اس سے ان کی اعری کا عوامی ج رب ہ مزی د و ع و ا ہ‬
‫ت‬
‫کا اح رام کرے ہ ی ں۔‬
‫تق‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن جمت‬ ‫ن‬
‫ع‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫اس دور می غں ث ری ظ م کے اعران ے مع می ں اصولوں‪ ،‬عدل‪ ،‬ا صاف‪ ،‬سی ت‪ ،‬اور لیفم کی ر قی کی‬
‫ج‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ب ن ادوں ر ور ا اور اپ نی ش‬
‫اعری کو عوام کے سا ھ ج ڑا دی ا۔ ان کی ش اعری اج ماعی ت ب ادلے اور تکری ر ی کو‬ ‫ت‬ ‫پ کی‬ ‫ف ی‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫ث‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے اور ادب کی اری خ می ں ای ک مؤ ر دور کے طور پر د ھی ج ا ی ہ‬ ‫ہ‬
‫ے می ں ا م کردار ادا کر ی ہ‬ ‫روغ دی‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫اہ م ث ری ش اعری ن کی صوص ی ات‬
‫غ‬ ‫ض‬
‫‪:‬مو وعات پر ور‬
‫خ‬ ‫ً‬ ‫ض‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ں ج و عوام کی ز دگی کے م ت لف پ لوؤں پر‬ ‫پن ش‬ ‫اہ م ن ث ش‬
‫ری اعری ن ا ی اعری می ں مو وعات پر عموما زور دی‬ ‫غ ت‬
‫ور کرے ہ ی ں۔‬
‫ن‬ ‫ئ ت‬ ‫ش ت‬
‫ض‬ ‫ع‬ ‫ن ن ق‬ ‫ن‬
‫ج‬ ‫ہ‬ ‫لی‬
‫عدل‪ ،‬ا صاف‪ ،‬اتسا ی وق‪ ،‬معا ر ی مسا ل‪ ،‬م‪ ،‬مذ ب ی مو وعات‪ ،‬سی ت کے‬‫ح‬
‫ق‬ ‫ں‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫انئکی ش اعری م‬
‫ف ن ف‬
‫مسا ل‪ ،‬اور رہ گی رے ش امل ہ وے ہ ی ں۔‬
‫ن‬
‫‪:‬عوام کی ز دگی کا عکس‬
‫ت‬
‫ے ہ ی ں۔ ان کی ش اعری می ں عوام کی روزمرہ‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫عوام کی ز دگی کو اپ تی ش اعری می ں عکس د‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫اع‬ ‫اہ م ن ث ری ش‬
‫ی‬‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ش‬
‫ش‬ ‫ن‬
‫ے۔ ان کے ا عار می ں عوام کی احساسات‬ ‫کی تز دگی‪ ،‬سو لضمسان ل‪ ،‬اور ان تکے ج رب ات کا ا ہار ک ی ا ج ا ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫اور ج رب ات کا وا ح ا عکاس پ ای ا ج ا ا ہ‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫‪ :‬عصب کی رکی ب‬
‫‪25‬‬
‫ش ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ثت‬ ‫ن‬
‫تاہ م ث ری ش اعری ن اک ر عصب کی رکی ب کرے ہ ی ں۔ ان کی اعری می ں مذ ب ی‪ ،‬ست ی اسی‪ ،‬اور معا ر ی‬
‫ہ‬ ‫ش‬
‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ے اور ان کے ا عار می ں ان کے عصب کا ا ہار ک ی ا ج ا ا‬ ‫عصب کو اعری کی صورت می ں پ یش ک ی ا ج ا ہ‬
‫ا‬
‫ے۔‬ ‫تہ‬
‫ت‬ ‫خ‬
‫‪ :‬صصی کوڈز کی ائ ی د‬
‫ت‬ ‫تخ‬ ‫م ت‬ ‫ت‬
‫ع‬ ‫ش‬ ‫ع‬ ‫ث‬ ‫ن‬
‫اہ م ث ری ش تاعری ن اک ر ادبی لی م تکا حا ل ہ و فے ہ ی ں اور ان کے ا عار می ں صصی کوڈز اور لی می اصولوں‬
‫ت‬ ‫ے کی ان‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫کی ت ائ د کی ا ی ے۔ ان کا کام علی می اور کری ت‬
‫ے۔‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ی‬‫د‬ ‫روغ‬ ‫کو‬ ‫لے‬ ‫د‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ی ج ہ‬
‫ت‬ ‫ش ت ن‬
‫‪:‬معا ر ی ا صاف کی الش‬
‫ش ت‬ ‫ہت‬ ‫ت‬ ‫ش ت ن‬ ‫ن‬
‫اہ م ث ری ش اعری ن معا ر ی ا صاف کی الش می ں مصروف رے ہ ی ں اور ان کی اعری می ں معا ر ی‬
‫ش‬
‫ت‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫عدل اور ا صاف کے مو وعات پر زور دی ا ج ا ا ہ‬
‫نق‬
‫‪:‬ادبی ا الب‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫تق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫نق‬
‫ے اصولوں کی ب ی اد پر‬ ‫ے اور وہ ل ی د کو رد کر کے پا‬ ‫ج ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫الش‬ ‫کی‬ ‫الب‬ ‫تمی ں ادبی ا‬ ‫ان کی ش اعری‬
‫ادب کام کرے ہ ی ں۔‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ہ خ صو ات اہ م ن ث ری ش‬
‫کام کی معمولی صوص ی ات ہ ی ں ج و ان کی ش اعری کو اہ می ت دی ی ہ ی تں‬ ‫ت‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫ر‬
‫ت ی‬‫اع‬ ‫ی صی‬
‫ت‬ ‫ث‬
‫ں ممی ز ب ن ا ی ہ ی تں۔ ان کی ش اعری اک ر اج ماعی اور س ی اسی پ ی غ امات کو پ یش کر ی‬ ‫اور ان کے کام کو ادبی اری خ می‬
‫شن‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے ناور عوام کی ز دگی کو ادبی رو ی می ں چ مکا ی ہ‬ ‫ہ‬
‫ثق ت‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ث ری ظ م کی معا ر ی اور ا ی اہ می ت‬
‫ق ت خ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫عوامل اور موا ع کی ا یر یناور‬ ‫م‬ ‫پ اکست ان کی ا یر خ اور معاش رت پر اث رات کا ج ز ہ کرے وق تت‪ ،‬کئی اہ‬
‫ش‬ ‫ی‬
‫ہ‬
‫ن‬
‫ک‬
‫ن ت‬ ‫ش ت تث‬
‫‪ 1947‬کی آزادی پ اکست ان کی ی ل اور برطا وی راج سے آزاد وے کے‬ ‫ے آے ق‬ ‫معا ر ت ی ا رات سام‬
‫مع ش‬ ‫ش‬
‫ے۔ ی ہ آزادی پ اکست ان کی معا رت اور ی ت پر‬ ‫ت‬
‫‪ 1947‬قکی آزادی ہ‬ ‫ب عد کی ا یر خ می ں سب سے اہ م مو ع‬
‫ت‬ ‫ث‬ ‫ت‬ ‫ث‬
‫ب ہت بئڑا ا ر ڈالی‪ ،‬ل ی کن اس کے سا ھ ہ ی سی م ب ھارت کا ب ھی ا ر پڑا جس سے ملک کی ا یر خ می ں اہ م‬
‫ت ب دی لی آ ی۔‬
‫تش‬
‫‪:‬کی ب ن گلہ دیش کی ک ی ل‬
‫‪26‬‬

‫ن‬ ‫ئ‬ ‫تش‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫شق‬


‫ن‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫می ں م ر ی پ اکت قست ان کی ریف سوچ کے حت ب گلہ دیش کی ی ل ہ و ی‪ ،‬جس کا ام ب گلہ دیش ‪1971‬‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ث‬
‫ے۔‬ ‫رکھا گ ی ا۔ اس سی م کا ا ر پ اکست ان کی س ی است اور معا رت پر آج ھی محسوس ک ی ا ج ا ہ‬
‫ا‬

‫ق‬ ‫ت‬
‫‪:‬آئ ن دہ کی اری خ کے اہ م وا عات‬
‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ت خ ث‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ے ‪ 1965‬اور ‪ 1971‬کے‬ ‫ئر ہ وے ہ ی ں‪ ،‬ج ی س‬ ‫عات کی اری شی ا رات ب ھی ہا‬ ‫وا‬ ‫م‬ ‫پ اکست ان کی ا یر خ می ں اہ‬
‫ن‬ ‫ث‬ ‫ش ت معی ت‬ ‫ن‬
‫ج‬
‫حاالت پر آے ا رات‪ 1999 ،‬کے کرگل ج گ کے ب عد‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬‫ع‬‫م‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ا‬ ‫پ‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫گوں‬
‫ث‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫معا ر ی اور ا صادی ت ب دی لی‪ ،‬اور ‪ 2007‬کی ا ون و ظ م کی حالت می ں ت ب دی لی کے ا رات۔‬
‫تق‬ ‫قت‬
‫‪:‬ا صادی ر ی‬
‫تق ن ش ت ن‬ ‫قت‬ ‫تق‬ ‫قت‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ں۔ ائ صادی ر ی ے م قعا ر ی زن تدگی کو‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫پ اکست ان کی ا یر خ می ں ا صادی ر ی اور ب دی لیتکے ھی ا م مح‬
‫ت‬ ‫قت‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ے۔ ا صادی ر ی کے ئیج‬ ‫ہ‬ ‫ے‪ ،‬ل ی کن اس کے سا ھ ہ ی معا ر ی امورتمی ں ب ھی ت ب دی تلی آ ی‬ ‫ب دل دی انہ‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫میئں آمد ی کی بڑھو ری‪ ،‬ہری ح ی ث ی ت کی بڑھو ری‪ ،‬لی م کی رص وں کا ا ا ہ‪ ،‬اور ز دگی کی اہ م سررا ی ں‬
‫آ ی ہ ی ں۔‬
‫ت خ‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ث‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ں کہ ا یر ی‬ ‫س‬
‫م ک‬ ‫ھ‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫سے‬ ‫ت‬ ‫حی‬ ‫وا‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ز‬ ‫ج‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫رات‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫رت‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫پ اکقست ان کی ش تم‬
‫اور‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬
‫ک ث‬ ‫ث‬ ‫تق‬ ‫یش‬ ‫پن‬ ‫ت‬
‫ک‬
‫ے ا رات‬ ‫ے اور ان کا ی س‬ ‫وا عات اور معا ر ی ب دی لیوں ے ملک کی ی ل اور ر ی کو کس طرح مت ا ر ک ی ا ہ‬
‫ہ ں۔‬
‫ت‬ ‫ت خ تق‬ ‫ی ن‬
‫ئ‬‫ہن‬ ‫ن‬
‫ث ری ظ م کی اری ی ر ی اور آ دہ کے را ماؤں کی ج وی تزات‬
‫ن‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ت خ تق‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫نن‬ ‫ہن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ہ‬
‫ے م م درج ہ ذی ل‬ ‫ے کے ل‬ ‫ت ث ری ظ م کی ن ا یر ی ر ی اور آ دہ کے را ماؤں کی ج ویزات کو ی ل سے ج ا‬
‫ص‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫ےہی ں‬ ‫ج ویزات کو مد ظ ر رکھ سک‬

‫ت‬
‫‪ :‬اری خ کا م طالعہ‬
‫ش ت‬ ‫شخ‬ ‫ق‬ ‫ض‬ ‫ع‬ ‫ف‬
‫م‬ ‫ت‬
‫عات‪ ،‬ص ی ات‪ ،‬اور معا ر ی‬ ‫کے وا‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ن ن سجم ن‬ ‫تق ت‬ ‫ے و می ں ما ی ن‬ ‫ا یر نخ کا م طالعہ ای ک ا ف م اور ت ہوم لم تہ‬
‫ت‬
‫ے کا‬‫ے اور ھ‬ ‫ے۔ ا یر خ کا م طالعہ ہ می ں ا سان کی ر ی کی ا یر خ کو ج ا‬ ‫رج ما ی کی سجم ھ می ں مدد راہ م کر ا ہ‬
‫‪27‬‬
‫ق‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫ق ف‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫س ب ت مست‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫پن ش‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے کی‬ ‫ے‪ ،‬اور می ں ا ی گذ ہ کی طی وں سے ی کھ کر ہ ر ب ل کی طرف دم بڑھ‬ ‫مو ع را م کر ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫صالحی ت دی ت ا ہ‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫تش‬ ‫ق‬
‫ہ‬
‫ت‬
‫ت‬
‫ے ہ ی تں‪ ،‬اور م لف‬ ‫کر‬ ‫ہ‬ ‫ز‬ ‫ج‬ ‫کی‬ ‫مواد‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ری‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫عات‬ ‫وا‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫طا‬ ‫کے‬ ‫خ‬ ‫ر‬‫ی‬ ‫ا‬
‫ی ث ق فت غ‬ ‫یش ت‬ ‫ت‬ ‫تی‬ ‫ش‬ ‫مت ن ن‬ ‫ت خ‬
‫س‬
‫ے ہ ی ں اکہ می قں معا ت ر ی‪ ،‬س ی اسی‪ ،‬اور ا ی ی رات کی جم ھ‬ ‫ہ‬ ‫کر‬ ‫ش‬ ‫کو‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫ما‬ ‫ج‬‫ر‬ ‫کو‬ ‫مواد‬ ‫ی‬ ‫ا یر‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ے۔نا یر خ کا م طالعہ ا سا ی فت کی تر ی اور لی م کی ب ی اد ہ‬ ‫مدد راہ م کی ج ا سک‬
‫ے‪ ،‬اور ی ہ می ں اپ‬ ‫ق‬ ‫ں ت‬ ‫ش‬
‫می‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے۔‬ ‫ے اہ م ا دار راہ م کر ا ہ‬ ‫معا ر ی ماحول کو ب ہ ر ب اے کے ل‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫لح‬
‫‪:‬ش اعری کی ج زی ہ و ی ل‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫فن‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫موج ودہ اور پ چ ھلی ث ری ظ م کی اعری کو ج زی ہ و ل ی ل کری ں اکہ آپ اس کی اہ می ت‪ ،‬ی اصول‪ ،‬اور‬
‫ن‬ ‫ض‬
‫مو وعات کو سجم فھ سکی ں۔ ش اعری ن کے ش اعری کے مائ ن دگان اور ان کے معروف کامات کو پڑھی ں‬
‫ف‬ ‫ت‬
‫ے کو سجم ھ سکی ں۔‬ ‫اکہ آپ ان کی لس‬
‫فن ت ق‬
‫‪ :‬ی ر ی کا م طالعہ‬
‫ف‬ ‫فن خ‬ ‫ت‬ ‫فن ت ق‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ث ری ظ م کی ی ر ی کا تم طالعہ تک فری ں اکہ آپ اس کی ی صوص ی ات کو سجم ھ سکی ں۔ اس می ں می ٹ ا ور‪،‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫پن‬ ‫ن ت‬ ‫ن‬
‫ا اپ ھورا‪ ،‬اور سمب ولز کی اس عمال کو ص ی ل سے ج ا ی ں اکہ آپ ا ی اعری کو ہ ر ب ا سکی ں۔‬
‫ب‬

‫ش ت‬
‫ت‬
‫‪:‬معا ر ی ب ادلے کا م طالعہ‬
‫ش ت‬ ‫تق‬ ‫ن‬
‫ن ث ری ظ م کی ر ی م ں عا ر ی ت‬
‫ے۔ اس کا م طالعہ کری ں کہ کس طرح‬ ‫لے کا اہضم کردار ہ وا ہ‬ ‫د‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ن شی ت م‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫پن‬ ‫ث ق فت‬
‫ے اور کس طرح وہ‬ ‫م‬
‫اسی‪ ،‬اور ا ی مو وعات کو ا ی اعری می ں ا ل ک ی ا ہ‬ ‫ی‬ ‫نس‬‫ش اعران ے معا ر ی‪،‬‬
‫ش‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ش‬ ‫معا رت کو ت ب دی ل کرے کی کو‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫‪:‬آئ ن دہ کے راہ ماؤں کی ج ویزات‬
‫ن ف ت‬ ‫ت‬ ‫ت خ تق‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ق‬
‫ن ث ری ظ م کی ا یر ی ر ی کو جمے و ت آئ ن‬
‫ت‬ ‫س‬
‫ے۔‬ ‫زات کا م طالعہ کر ا م ی د ہ و ا ہ‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫اؤں کی ج و‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫را‬ ‫کے‬ ‫دہ‬ ‫ھ‬ ‫ق‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫مست‬
‫ب‬
‫ے ان کی کت ا ی ں‪،‬‬ ‫ل‬ ‫ے کے‬ ‫اعری کی ج ویزات کو ج ا‬ ‫ت‬ ‫موج ودہ ش اعران اور ب ل کے را ماؤں کی‬
‫ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫م االت‪ ،‬اور ا ٹ رویوز کو م طالعہ کری ں اکہ آپ ان کی علی مات کو پ یروی کری ں اور اپ ی ش اعری کو ب ن ا‬
‫سکی ں۔‬
‫‪28‬‬

‫خ‬ ‫تن‬ ‫ض‬


‫‪:‬مو وعات کی وع کا صوصی م طالعہ‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫پن‬ ‫تن‬ ‫ض‬ ‫تن‬ ‫ض‬ ‫نث‬
‫آپ ا ی‬ ‫ے‬
‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫وع‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫مو‬ ‫ں۔‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫عہ‬
‫م لئ ی‬ ‫طا‬ ‫صوصی‬ ‫کا‬ ‫وع‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫مو‬ ‫ں‬ ‫یخ‬‫م‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫غ ن ی ق ف‬ ‫ض‬ ‫من‬ ‫نق‬ ‫ض‬ ‫ش‬
‫ہ‬ ‫ل‬
‫ے ار ی ن کو ت وع مو وعات پر ور کرے کا مو ع را م‬ ‫اعری کو م ت لف مو وعات پر کھ سکی ں اور اپ‬
‫کری ں۔‬
‫ن‬ ‫تف ف‬ ‫ت نق‬
‫ہ‬
‫‪ :‬ی دی کر کا را م کر ا‬
‫تق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت خ ت ق تن‬ ‫ن‬
‫ت نق‬ ‫ش‬ ‫پن‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ث ری ظ م کی ا یر ی ر ی کو ی دی کر کے سا ھ د کھی ں۔ ا ی اعری کو ی دی ظ ر سے دی کھ کر ر ی دی ں‬
‫ف‬ ‫نن‬ ‫ن‬
‫ہ‬
‫ے می ں مدد را م کری ں۔‬ ‫اور اپ ی کام ی اب یوں اور خ ا یم وں کو ج ا‬
‫ت خ تق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫م‬‫ج‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫عم‬
‫سے آپ ری ظ م کی اری ی ر ی کو ب ہ ر ھی ں گے اور آ دہ کے‬ ‫ت‬ ‫زات کو ل می ں الے‬ ‫ان ج وی ت‬
‫ق‬ ‫ن‬
‫راہ ماؤں کی ج ویزات کو پ یروی کرے و ت ب ہت ر ش اعر ب ن سکی ں گے۔‬
‫ن‬
‫ئ‬ ‫ت عق‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ت خ ق‬
‫ملک کے ا یر ی وا عات اور ری ظ م کے ل ات کا ج ا زہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے ہ ی ں کہ ری ظ م ملک کے‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ے سے نہ م د ک‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫زہ‬
‫ئ‬
‫ا‬ ‫کا‬ ‫ات‬
‫ق‬
‫ل‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫ملک کی ت اری خی واق عات اور ن ث‬
‫ھ‬ ‫ی ن‬ ‫ج‬ ‫ش ت‬ ‫ت خ ق‬
‫ش‬ ‫پن‬ ‫ش‬ ‫ث‬ ‫یت‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫ے اعران ا ی اعری‬ ‫ے۔ ری ظ م کےتذری ع‬ ‫وں کوف ہتض ا می ت د ی ہ‬ ‫ب‬ ‫ا یر ی موا ع اور متعا ر ی ب د لی‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ث‬ ‫ش‬
‫ے پ یش کرے ہ ی ں۔‬ ‫م‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫عوام‬ ‫کو‬ ‫وعات‬ ‫مو‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫اسی‪،‬‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ی‪،‬‬ ‫ر‬ ‫ے معا‬‫کے ذری ع‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ث‬ ‫ش‬ ‫ف‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ت خ ق‬
‫ے۔‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ملک کی اریخ ی وا عات ری ظ م کو مواد ت شرا م کرے ہ ی ں و کہ اس اعری کی‬
‫مو ری تقکو بڑھا ا ش‬
‫ہ‬ ‫نتف ض‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے کہ پ اکست ان کی ن ک ی ل‪ 1971 ،‬کا ب ن گلہ دیش کے ا اے کا وا عہ‪ ،‬اور سو ل اور‬ ‫ب ی ادی اری ی وا عات ج یخس‬
‫ہ ض‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫لی ک ت‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫پو ٹ ی ن ل ب دی لیوں کی ار ی لحاظ سے ری ظ م کے ا م مو وعات رہ‬ ‫ی‬
‫نف‬ ‫ق‬ ‫ت خ ش ت‬
‫ےاذ‬ ‫ش‬ ‫پن‬
‫ری ظ م کے ش اعران ملک کے ا یر ی مخعا ر ئی ب دی لیوں اور وا عات کو ا ی ت اعری کے ذری ع‬
‫ت‬ ‫نث‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے۔ ی ہ ان کے‬ ‫ش کر ی ہ‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫م‬
‫شن‬ ‫نش ئ‬ ‫دل کر ی ت‬ ‫اور ان کی اعری لک کی ار ی ح ا ق کو ز دگی م ں‬
‫ن ی قب ف‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫قکر ئے ہ ی تں خ‬
‫م‬ ‫ج‬
‫ے۔ ا ن ا ی تنکی رو ی‬ ‫ے کا مو ع راہ م کر تی ہ‬ ‫ت‬ ‫ے اور ان کی ری کی ت کر‬
‫ق‬ ‫عات کو خ ھ‬ ‫ت‬
‫ار ی ن کو ناری ی وا‬
‫ن‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫نث‬
‫ے اور ان کے ا رات کو ظ ر ا داز ہی ں ک ی ا ج ا‬ ‫می ں ری ظ م ملک کی اری ی وا عات کو ہ می ہ ی ادگار ب ا ی ہ‬
‫سکت ا۔‬
‫ن‬
‫ہ یک ت‬ ‫ئ لن‬ ‫ت عق‬ ‫ت خ ق‬ ‫ث‬ ‫خ ً ن‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫سے قم د ھ‬ ‫خ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ا ت ت اما‪ ،‬ری ظ م اور ملک کی اری ی وا تعات کے ل ات کی درست ج ا زہ‬
‫ت‬ ‫ش اعران اپ نی ش‬
‫ت‬
‫کی ا یر ی ر ی کو ش اعریتکی‬ ‫لک‬ ‫ے ہ ی ں اور م‬ ‫ت‬
‫ی‬‫د‬ ‫آواز‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫لی‬ ‫ے معاش ر ی ت ب دی‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫اعری‬
‫ب‬ ‫ث‬ ‫ت خ‬ ‫ثق ف‬ ‫ت عق‬ ‫ت‬
‫پ‬ ‫شن‬
‫ت‪ ،‬س ی احت‪ ،‬اور اشر ی ورا ت کو ھی ب ڑھاے ہ ی ں‬ ‫ی‬ ‫ات لک کی ا‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫ش ت ت‬ ‫ں۔ ی ہ ل ت‬ ‫ت‬
‫رو ی می ں یش کرے ہ ی‬
‫ث‬ ‫ش‬
‫ے۔ں‬ ‫اور اعری کو ای ک مو ر ذری عہ ب دی ل کرے ہ ی ں ج و معا ر ی اری خ کو مزی د رو ن کر ا ہ‬
‫‪29‬‬

‫ن‬ ‫ف‬ ‫ف‬ ‫تق‬


‫ہ‬
‫ر ی کے ر می ں مدد را م کر ا‬ ‫س‬
‫ض تق‬ ‫ن خ‬ ‫ف‬ ‫تق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ے۔ اس ے م ت لف موا ع پر ح ی ق کی‬ ‫ے پ اکست ان کی ر ی کے س ر می ں اہ م کردار ادا ک ی ا ہ‬ ‫ث ری ظ م ت‬
‫ش‬ ‫ع‬
‫ے عوام کو‬ ‫ے کہ لی م‪ ،‬صحت‪ ،‬معی ت‪ ،‬اور عوامی تسواالت پر مض امی ن اور کالمز لکھ کر۔ اس کے ذری ع‬ ‫ےج یس‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫ئ‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ے۔‬ ‫لی می م صوب وں‪ ،‬صحت کی معاو ت‪ ،‬اور معا ر ی اصالحات کے ب ارے می ں آگاہ ی راہ م کی گ ی ہ‬
‫ث ق فت ت ش‬
‫ا ی ہی ر‬
‫ق‬ ‫ن خ‬ ‫غ‬ ‫ث ق فت ث‬ ‫ن‬
‫زوں‪،‬‬ ‫ومی‬ ‫ن‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫اس‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ن‬
‫د‬ ‫مز‬ ‫کو‬ ‫ے‬ ‫ور‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫نث‬
‫ی‬ ‫چ‬ ‫ی یہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی پک ت‬
‫ق‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ت خ ق ئ سی ئ‬
‫ے ومی‬ ‫ے۔ ری ظ م کے ذری ع‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫نرسوما ی‪ ،‬اور اری تی و ا ع کو و ع دا رہ کار می ں یش ک ی ا‬ ‫ان‪ ،‬آداب‪،‬‬ ‫ض‬ ‫ب‬ ‫ے کہ ز‬‫ج یس‬
‫ہ شنخ‬ ‫ن ثق ف‬ ‫ش‬ ‫شنخ‬
‫ے۔‬ ‫ح ہ‬ ‫صہ‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫وع‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ا‬ ‫و‬
‫ج ہ پ‬‫ج‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ش‬ ‫کو‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫وط‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫ا‬
‫تق‬ ‫ف‬
‫کری ر ی‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫ک‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن ث ری ظ م کے ذر ع م‬
‫ے کی مدد سے موا ع پر ت ب ادلہ‬ ‫ے۔ ادبی لم‬ ‫ے ہوم اور ی دی ا ر کا مو ع راہ م ک ی ا ج ا ا ہ‬
‫ن‬
‫ی‬ ‫ن‬
‫کرے اور‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ت نق ن‬
‫ے اور‬ ‫ے سے اج اگر ک ی ا ج ا ا ہ‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے سوچ کو ہ ری ن طری‬ ‫ے۔ اس کے تذری ع‬
‫ک ی ج نہئ ف‬
‫ی د کرتے کا ا م ذری قعہ را م ا ا ا‬
‫ت‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫تمعا ر ی اور س ی اسی ر ی کی راہ می ں رہ ما ی راہ م کی ج ا ی ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫لی می م صوب وں کی روی ج‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ع‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫نت ث‬
‫ے لی می مواد‪،‬‬ ‫ے۔ اس کے تذری ع‬ ‫یج ہ‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫کام‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ڈا‬ ‫ی‬ ‫رو‬ ‫ر‬
‫ب پن‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫صو‬ ‫م‬ ‫می‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ے‬ ‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫ہ‬ ‫ع‬ ‫مت‬ ‫لتش‬ ‫ع‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ے‪ ،‬جس سے لی م کی ا می ت کو‬ ‫ل ہ‬ ‫ی‬ ‫مدد‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ی ی‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫ی‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫می‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫اور‬ ‫ت‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫مو‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫ب‬ ‫و‬‫ص‬ ‫لی می تم‬
‫ے۔‬ ‫بڑھای ا ج ا ا ہ‬
‫ش ت‬
‫معا ر ی ب ادلہ‬ ‫ت‬
‫ص ن‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ثن‬ ‫ض ش‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے۔ م ت لف موا ع پر ہرت حا ل کرے والے خری‬ ‫ہ‬ ‫ے معا ر ی ت ب خادلہ ب ھرپورق ہ و ا‬ ‫ث ظری ظ م کے ذری ع‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ے م ت لف عال وں کے لوگوں کے درم ان ت‬ ‫لم ن‬ ‫ن‬
‫ے ج و ان کی ود م صوص‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ادلہ‬ ‫ی ب‬ ‫یت‬ ‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫گروں‬ ‫کا‬ ‫اور‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ا‬
‫پ‬ ‫ن‬ ‫ث ق فت‬ ‫ف‬
‫کری اور ا ی د ی ا کو یش کرے ہ ی ں۔‬
‫ت‬ ‫ثق ف‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫نث‬
‫ے اور اس ے‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ہت‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫حاظ‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫ت ثی‬‫ی‬ ‫ح‬ ‫می‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫اور‬ ‫ی‪،‬‬ ‫ا‬ ‫ی‪،‬‬ ‫اد‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬
‫ف ہت‬ ‫قل‬
‫ت‬ ‫ج ش‬ ‫پ کض ت ق ب‬ ‫خ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ے و معا ر ی اور س ی اسی ر ی کی راہ می ں مدد را م کر ی ہ‬ ‫پ اکست ان کو م ت لف موا ع پر ر ی دی ہ‬
‫‪30‬‬

‫ت‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ف ئ چین‬ ‫ا ت ان کی ن ث ری ظ م کی ا یر خ ‪ 1947‬سے لے کر آج ت‬
‫الت سےف ب ھرپور رہ ا‬ ‫ف‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫اور‬
‫ئ خ‬ ‫ز‬ ‫ج‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫س‬ ‫کا‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫پ کس‬
‫ل‬ ‫ت‬
‫ے ب لکہ اس می ں ک ی م ت لف ظ ی اور کری ج ذب ات‬ ‫تں ہ‬ ‫ے۔ ی ہ تا یر خ کسی ایخ ک واحدنروای ت کا تپرچ م ہی‬ ‫ہخ‬ ‫ت‬
‫غ‬ ‫ن‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫وں می ں م ی ر ہ وے رہ‬ ‫ے ج و م ت لف زما‬ ‫کا می ہ ہ و ا ہ‬
‫ق‬ ‫ن‬
‫وعات پر‬
‫ض‬
‫مو‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫اشکست ان کے ق ام کے ب عد‪ ،‬ن ث ری ظ م کا ا ک ن ا دور آغ از ہ وا‪ ،‬جس می تں و ی ت اور مذہ‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ش م‬ ‫یش ی ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ش‬ ‫م‬
‫پ ت‬
‫اس دور می ں اعران ے پ اکست ان کی ی ل کے ب اعث ج ذب ا ی اور کری‬ ‫ک‬
‫ن ھا۔ ش ت‬ ‫م ل اعری کا ج لوس‬
‫مواد کو آواز دی‪ ،‬جس ے معا ر ی ت ب دی لیوں کو معکوس ک ی ا۔‬
‫ش ق‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫غ‬ ‫ث‬ ‫ن ن‬
‫سے ‪1960‬می فں‪ ،‬پ اکست ا ی ری ظ م کو ر ی اور م ربی ون کے ا رات کا سام ا کر ا پڑا‪ ،‬ج و ناعری ‪1950‬‬
‫ئ‬ ‫ق ش‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ث ن‬ ‫ن‬
‫ے می ں وج کے اب ل وہ ر ش اعران ب ھی ظ ر آے‬ ‫اصولی اور ی پ ہلوؤں پر ا ر ا داز ہ وا۔ اس دورا ی‬ ‫ن‬ ‫کے‬
‫ظ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے اج ازت امے می ں ش اعری کا ا ہار ک ی ا۔‬ ‫ج ہوں ے ج گوں اور ج گی مواج ہات کے ب ارے می ں پا‬
‫ن‬
‫ض‬ ‫ن ن ق‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫می ں زی ادہ عداد می ں ث ری ظ م کے اعران ے سماج ی س ی اسی اور ا سا ی ح وق کے مو وعات پر‪1980‬‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫شن‬ ‫ن ن ن ش‬ ‫ظ‬
‫ے ا عار کی رو ی می ں ا ماعی ب دی لی کی ر یو ج کی کو ش کی۔‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ش اعری کا ا ہار ک ی ا‪ ،‬اور ا ہوں ے پا‬
‫خ‬ ‫ن ن‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے ج و م ت لف‬ ‫ا‬ ‫ہ‬‫ر‬ ‫لہ‬ ‫س‬ ‫س‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫آ‬ ‫کے‬ ‫اعران‬ ‫ش‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫ا ست ان م ں ن ث‬
‫چین‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫ف ن ئ‬ ‫ت ی‬ ‫پ کض ی‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ے اور اس می ں ل ج ز کی ب ھرمار‬ ‫نس ر ا ہا ی ت وع اور طوی ل رہ ا ہ‬ ‫ے ہ ی ں۔ ی ہ‬ ‫مو وعات پر اعری کرےفرہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ےج وش‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ے رہ‬ ‫ے اراء و ا کار کو ب ی ان کرے می ں روک‬ ‫اعران کو اپ‬ ‫ہ‬
‫ت تق‬ ‫خ‬ ‫ت ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ج تغ‬ ‫ف ن‬ ‫ا ست ا ی ن ث‬
‫ے اور ی ہ ای ک‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫رات‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫سما‬ ‫اور‬ ‫گی‬ ‫ه‬ ‫ر‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ری‬ ‫پک‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫ن‬
‫ے ج و آج ب ھی‬ ‫ے ب لکہ ای ک مت وع اور پرج وش س ر کا حصہ ہ‬ ‫معی ن مواد کی صویر کرے کا و ت ہی ں ہ‬
‫ے۔‬ ‫خج اری ہ‬
‫ت‬
‫ہی ں‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫آزادی کے ب عد نسے اب ک‪ ،‬ی ہ ای ک‬ ‫کی‬ ‫‪1947‬‬ ‫ے۔‬ ‫صہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ر‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫نث‬
‫ئ‬ ‫ن ک ش ن تح ہ ن‬ ‫پک‬
‫ن‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫فن ف‬
‫ھی ا اک ی اں اور اتمکا ات پ ی دا ہ و ی ہ ی ں۔ ری ظ م کی د ی فا می ں پ اکست ان‬ ‫س می ں ا و ق ت‬ ‫ے نج ئ‬ ‫طو ا ی س ر رہ ا ہ‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ن ت‬
‫کے ش اعران اپ ی ا ہا ی ماہ ران ہ و وں کا ا ہار کرے ہ ی ں اور ان کے ا عار کا دل ک ی اور کری ت کا‬
‫ت‬
‫س ن گ ھا۔‬
‫ن‬ ‫ق‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ئ‬
‫کے‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫اس‬ ‫کن‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ا‬ ‫ہ‬‫ر‬ ‫ا‬
‫ن ت‬
‫کر‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کا‬ ‫ز‬ ‫ج‬
‫چین‬
‫ل‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫ع‬ ‫موا‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ہ ت اری خی سف ر ے ش‬
‫ل‬ ‫س‬ ‫پ کئ‬ ‫نہ ق‬ ‫م‬ ‫ک‬‫چ‬ ‫پ‬ ‫ن‬
‫قت‬ ‫ج‬ ‫ش‬ ‫ث‬ ‫ب ن‬ ‫ی‬
‫خ‬
‫وامی اور سما ی مسا ل کا حسی ن اور طا ور‬ ‫ش ت‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫اعران‬ ‫ارے‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ری‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫دی‬ ‫دمات‬
‫پ‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ن ن پن‬ ‫ے سے ت‬ ‫ق‬
‫ے معا ر ی ب دی لی کو یش ک ی ا اور ام ی دواری کی‬ ‫ے۔ ا ہوں ے ا ی اعری کے ذری ع‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ادلہ‬ ‫ب‬ ‫طری‬
‫ے۔‬ ‫ب ات کی ہ‬
‫‪31‬‬

‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬


‫نئ ش‬ ‫ش‬
‫ا ست ان کی ن ث ری ظ م کی ا یر خ ے عر کی دن ا م ں ب ھی اہ م ت دی ل اں کا سام ن‬
‫ے ا عاری رواینات‬ ‫ے۔‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ب ی‬ ‫ی ی‬ ‫پک‬
‫ش‬ ‫ئ‬ ‫غ‬ ‫ن ن پن‬ ‫غ‬
‫ے ج و ا ہوں ے ا ی طرف سے آ از کی ہ ی ں۔ اسی طرح‪ ،‬ان کے ک ی اعران ے‬ ‫مواد کا آ از ہ وا ہ‬ ‫ناورن ش‬
‫ن ش ن‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے ہ ی ں اور د ی ا ب ھر می ں اپ ی ا اکت کو بڑھای ا ہ‬ ‫ا ٹ ر ی ل اس ٹ ی ن ڈرڈ کے م زاں عر پ یش کی‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫خت ت‬
‫م‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ث‬ ‫ث‬ ‫ن‬
‫ے اور اس کی‬ ‫م کرے ہ ی ں کہ ری ظ م کی اری خ پ اکست ان کی تا ت اور ادب کا ای شک عمولی حصہ ہ‬
‫ض‬ ‫ق ن‬
‫ے‬ ‫کی ش اعری کے ذری ع‬
‫ف‬ ‫ان‬ ‫اور‬ ‫عار‬ ‫ا‬ ‫مارے‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ے۔ ہ ا یر خ ہ‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫رورت‬ ‫ق‬ ‫ھاری‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫اہ می ت اور در د‬
‫فظ‬ ‫ن ثق ت‬ ‫ف‬ ‫سجم ن ق ن‬ ‫ت‬
‫ے۔ اسی طرح‪ ،‬ی ہ ہ می ں اپ ی ا ی وراث ت کی ح ا ت‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫را‬ ‫ع‬ ‫مو‬
‫ت‬ ‫کا‬ ‫ے‬‫د‬
‫فی‬‫در‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫قھ‬ ‫کو‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬‫ا‬ ‫ہ ماری‬
‫ت‬
‫ے۔‬ ‫اور اس کے ر ی می ں مدد راہ م کر ی ہ‬

You might also like