You are on page 1of 6

‫‪ANS 01‬‬

‫دنیا بھر میں میڈیا کے کردار سے متعلق اتنی بحث کسی مل ک میں نہیں ہ وتی‪ ،‬جت نی ہم ارے ہ اں ہ و رہی ہے۔یہ مس لمہ‬
‫حقیقت ہے کہ آج کے دور میں کوئی بھی ملک می ڈیا کی اہمیت س ے انک ار نہیں ک ر س کتا‪ ،‬کی ونکہ یہ ریاس ت ک ا وہ اہم‬
‫ستون ہے‪ ،‬جس کی ترقی کے بغیر کوئی بھی قوم اپنے آپ کو دنیا کی برادری میں روش ناس نہیں ک را س کتی۔اطالع اتی‬
‫ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کی فعالیت کو اور بھی موثر بنا دیا ہے ۔ پاکستان میں میڈیا کی ت رقی کی اپ نی ای ک کہ انی‬
‫اور ت اریخ ہے۔اگ ر اس تم ام کے تن اظر میں دیکھ ا ج ائے ت و یہ حقیقت آش کار ہ وگی کہ ریاس ت کے اس اہم س تون نے‬
‫موجودہ آزادی کی جو ‪1990‬ءکی دہائی تک ایک خواب تھی ‪ ،‬ایک طویل جدوجہد کے بعد حاص ل کی۔پاکس تان کے قی ام‬
‫کے بعد میڈیا کا کردار مختلف تھا اور اسے موجودہ خوش کن صورت حال تک پہنچنے کے لئے جو پاپڑ بیلنا پڑے ‪،‬اس‬
‫کا بھی جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ریاستی ترقی کا تصور ابالغ عامہ کی معاونت کے بغیر ایک خواب س ے زی ادہ نہیں‬
‫ہے۔اس لئے اگر یہ شعبہ خود صحت مند ہوگا تو وہ صحت مند معاشرے کے قی ام میں مم دو مع اون ث ابت ہ و س کے گ ا۔‬
‫قومی خوش حالی‪ ،‬ملکی استحکام‪ ،‬عوامی ش عور اور اجتم اعی دانش ک و اج اگر ک رنے س ے ہی جمہ وریت مض بوط ہ و‬
‫سکتی ہے‪ ،‬لیکن یہ صرف میڈیا کے مثبت کردار سے ہی ممکن ہے۔ہمیں دیکھن ا ہے کہ کی ا پاکس تان میں ہم ارے ذرائ ع‬
‫ابالغ عامہ نے یہ کردار کماحقہ ءادا کردیا ہے اور اگر نہیں کیا تو اس کی کیا وجوہات ہیں۔‬
‫اس کردار کو پرکھنے سے پیشتر ہمارے لئے ابالغ کے اس شعبہ کی اپنی جدوجہد کا تجزیہ کیا جان ا ض روری ہے ج و‬
‫کہ اس کے ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لئے بہت مفید ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد مل ک میں سیاس ی افراتف ری ک ا‬
‫دور شروع ہوا جو ‪1956‬ءتک محیط رہا۔یہ افراتفری زیادہ ت ر اس وجہ س ے بھی تھی کہ مل ک میں می ڈیا ناب الغ تھ ا اور‬
‫سہارے کے بغیر اس کا چلنا بڑامحال تھا۔پرنٹ میڈیا چند ایک اخب ارات اور جرائ د پ ر مش تمل تھ ا اور حک ومت وقت ہی‬
‫اس کے لئے پالیسی کا تعین ک رتی تھی۔مارش ل الءکے بع د ق ائم ہ ونے والے نیش نل پ ریس ٹرس ٹ کے س ایہ تلے پ روان‬
‫چڑھنے واال ملکی میڈیا اپنی آزادی کی جدوجہد سے پوری طرح نابلد تھا۔ میڈیا کی اپنی کوئی پالیس ی نہ تھی‪ ،‬بلکہ اس ی‬
‫ٹرست کے دیئے ہوئے رہنما اصولوں سے عبارت تھی۔اسی وجہ سے میڈیا کی کمزوری ان دنوںمحسوس ہ وتی رہی اور‬
‫فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں کئی اخبارات پر پابندی بھی عائد ہ وئی۔چ ونکہ ہم ارا ع دالتی نظ ام بھی بہت‬
‫زیادہ آزاد نہ تھا‪ ،‬اس لئے حکومت کا پلہ بھاری دکھائی دیا۔اگر عدالتوں کے آگے بھی اسی طرح کے ک انٹے نہ بچھ ائے‬
‫جاتے تو میڈیا اس قسم کے مصائب سے آزاد ہوتا۔ میڈیا کی آزادی کبھی کبھ ار ت ار ت ار ہ وتی رہی۔‪1960‬ءکی دہ ائی میں‬
‫الیکٹرانک میڈیا ملک میں متعارف ہوا‪ ،‬لیکن وہ پی ٹی وی کی صورت میں حکومت کے دیئے ہوئے رہنم ا اص ولوں کی‬
‫پاسداری تک محدود رہا۔ ملک میں ان دنوں اس کے عالوہ کوئی متبادل ذریعہ ءابالغ نہ ہوتا تھا‪ ،‬اس ل ئے اس ی پ ر اکتف ا‬
‫کرن ا پڑت ا تھ ا۔ای ک نی وز ایجنس ی ‪1960‬ءمیں تش کیل دی گ ئی ج و کہ اے پی پی کے ن ام س ے حک ومت کی پالیس ی کی‬
‫ترجمان تھی۔بعدازاں پی پی آئی نجی خبررساں کمپنی کے طور پر تشکیل دی گئی‪ ،‬لیکن اس ایجنسی پر بھی ک ئی م رتبہ‬
‫بالواسطہ حکومت کا کنٹرول رہا۔‬
‫نوائے وقت اور جنگ گروپ دو بڑے اشاعتی ادارے تھے جو کہ ابالغ عامہ کے بڑے ترجمان کے ط ور پ ر می دان میں‬
‫تھے۔ایوب خان کے بعد کے دور میں پرنٹ میڈیا نے اپنی آزادی کے ل ئے پھ ڑ پھ ڑانے کی کوش ش ش روع ک ردی‪ ،‬جس‬
‫کے نتیجے میں تھوڑی بہت آزادی اسے حاصل ہو گئی۔ ضیاءالحق مرحوم کے دور میں اس تھ وڑی س ی آزادی ک و بھی‬
‫سلب کرلیا گیا اور مارشل الءکے پہلے تین چار سال پرنٹ میڈیا کے لئے ابتالءک ا دور ث ابت ہ وا‪ ،‬کی ونکہ سنسرش پ کی‬
‫پابندیوں نے ابالغ کے شعبہ کی آزادی کو شل کرکے رکھ دی ا۔مجھے ی اد ہے کہ اس دور میں بھی پ رنٹ می ڈیا نے اپ نی‬
‫آزادی کی جدوجہد ترک نہ کی اور اسے جاری رکھا اور جرات اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنسر شدہ حصوں کو‬
‫بالکل بلینک صورت میں چھاپ کر اپنی آزادی کے علم کو بلن د رکھ نے کی کوش ش کی۔پ ریس این ڈ پبلی کیش نز آرڈیننس‬
‫‪1963‬ءجو کہ ایوب خان کے دور میں نافذ العمل ہوا تھ ا‪ ،‬اس نے می ڈیا کی آزادی کے آگے بن د بان دھنے کی کوش ش کی‬
‫جو شعوری تھی۔میڈیا نے اپنی مسلسل جدوجہد کے ذریعے مہلک ترین پراپیگنڈے کی پروا نہ کی۔اگ رچہ اس ق انون کے‬
‫ذریعے میڈیا کے ش عبہ میں حک ومت نے اپن ا اثرورس وخ ق ائم رکھ نے کی کوش ش ج اری رکھی‪ ،‬لیکن می ڈیا کے ب ڑے‬
‫گروپوں نے اس کے خالف جدوجہد کو ترک نہ کیا‪ ،‬جس کے نتیجے میں یہ ق انون واپس لی ا گی ا۔اس ق انون کے خ اتمے‬
‫کے لئے صحافت کے بڑوں نے بہت قربانیاں دیں۔‬
‫جنرل پروی ز مش رف کے کری ڈٹ میں یہ ب ات ج اتی ہے کہ می ڈیا کی آزادی ک ا موج ودہ دور پروی ز مش رف دور ک ا ہی‬
‫مرہو ِن منت ہے۔اس آزادی کے حصول کی کوشش گزشتہ چار دہ ائیوں پ ر مش تمل تھی۔اس کی اہمیت ک ا احس اس ک رتے‬
‫ہوئے اس آمرانہ حکومت نے می ڈیا کے ل ئے ج و کچھ کی ا وہ ک ئی س ابقہ جمہ وری حکوم تیں بھی نہ ک ر س کیں۔ پروی ز‬
‫مشرف حکومت نے صحافت کے شعبہ میں آزادی ک و نہ ص رف متع ارف کرای ا ‪ ،‬بلکہ اس ک وبرقرار رکھ ا گی ا اور اس‬
‫میں بہت ترقی کی گئی جو کہ اس حکومت کا اےسا کارنامہ ہے ‪،‬جو اس کا چمکتا ہوا باب ہے۔ک ئی نجی ٹی وی چینل وں‬
‫کو الئسنس دیئے گئے۔اسی طرح ریڈیو کے کئی چینل معرض وجود میں آئے۔ ص حافتی اق دار ک و بڑھ اوا دی نے اور اس‬
‫کی حفاظت کے لئے اور الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کو مثبت سمت دینے کے لئے پیم را ک ا قی ام بھی اس ی دور میں عم ل‬
‫میں الیا گیا‪ ،‬اسی دور کے مرہون منت وہ آزادی میڈیا نے حاصل کی‪،‬جس کا تصور خود اس شعبے کے لئے ح یران کن‬
‫ہے۔یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اس آزادی کا استعمال کیسے ہوا۔ درجنوں الیکٹرانک چینل ز ک و ج و آزادی دی گ ئی ‪،‬کی ا‬
‫اسے معنوی انداز میں ایسے ہی استعمال کیا گیا‪ ،‬جس طرح ایسا کیا جان ا ض روری تھ ا اور کی ا اس آزادی ءص حافت ک ا‬
‫استعمال مثبت سمت میں کیا گیا اور کیا آزادی کا یہ انداز ہمارے نومولود می ڈیا کے الیکٹران ک ش عبہ کے ح ق کے ل ئے‬
‫مثبت ثابت ہوا یا کہ اس کے مضمرات اب نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫ابالغ کائنات کا اہم ستون ہے ابالغ کی گہرائی اور اس کی وسعت اور اہمیت کا اندازہ ب اخوبی انس ان اس ب ات س ے لگ ا‬
‫سکتا ہے کہ سب سے پہلے رب کائنات نے فرشتوں سے ابالغ کیا اور فرش توں کے زریعے یہ ابالغ انس ان ت ک پہنچ ا‬
‫پھر کائنات کے وجود میں آنے سے لیکر آج تک انسان ابالغ سے اس قدر جھ ڑا ہے کہ انس ان کی ہ ردن کی ش روعات‬
‫ابالغ سے منسلک ہوکر ہوتی ہے شروع میں ابالغ کا تصور اور اس عمل پر تحقیق نہ ہونے کے برابر تھی۔‬
‫مگر انسان نے اس کی وسعت اور اہمیت کو جب سمجھنا شروع کیا تو ابالغ کی اہمیت مختلف طریقوں سے ظاہر ہ وتی‬
‫گئی اور موجودہ جدید دور پر نظر ثانی کی جائے تو آج ابالغ کے اتنے ذرائع ہیں کہ شاید اب کوئی بھی کسی سے ایک‬
‫قدم بھی فاصلے پ ر نہیں پہلے کے زم انے میں ابالغ کے ذرائ ع بہت کم تھے بامش کل ابالغ ہوت ا تھ ا ابالغ کی مختل ف‬
‫قسمیں جن میں اشاروں سے لیکر زبانی ابالغ سے لیکر نظری وتحریری ابالغ شامل ہیں اور جب ابالغیات کو صحافتی‬
‫طرز میں الیا گیا تو اس کی اہمیت واضح ہوگئی‬
‫اس وقت صحافتی ابالغ کی کائنات میں ایک الگ پہچان ہے جس پر مختلف محقق وں نے تحقی ق کی ابالغ کے نظ ام ک و‬
‫مزید بہتر بنانے کے لی ئے جس کے م وثر ثم رات آج کائن ات میں م ل رہے ہیں اور اس کی پزی رائی کاروب اری ح والے‬
‫سے لیکر فلمی دنیا سے لیکر صافتی حوالے سے لیکر وہ ابالغ کا دائرہ جو کبھی مح دود ذرائعے ت ک ہی مح دود تھ ا‬
‫آج اس کی وس عت دنی ا کی ہرلح اظ س ے وقت کی اہم ض رورت بن گ ئی ہے مختل ف ان دازوں میں یہ اں پ ر ہم ص حافتی‬
‫حوالے سے ابالغ کے متن کی وضاحت کرینگے صحافت میں ابالغی تحقیق کا جائزہ۔‬
‫صحافت عوامی مسائل کواجاگر کرنے اورمعاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ک رنے کان ام ہے اس پیش ے س ے وابس تہ‬
‫افرادکوصحافی کے نام سے مخاطب کیاجات اہے جبکہ ص حافی کومعاش رے ک ا آئینہ داربھی کہ تے ہیں کی ونکہ وہ اپ نی‬
‫پیش ہ وارنہ خ دمات کواحس ن ان داز میں س رانجام دیکرمعاش رے میں تب دیلی النے میں اہم ک ردارادا ک رتے ہیں اور اس‬
‫تبدیلی کوالنے کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ س اتھ تحقی ق ک وبھی پ روان چڑھ انے میں اہم کرداراداک رتے ہیں اگرتب دیلی‬
‫مثبت سوچ والی تحقیق کے ساتھ کی جائے توصحافت کے مقدس پیشے کا حق ادا کرنے میں کامی ابی حاص ل ہوس کتی‬
‫ہے۔‬
‫اوراسی سوچ فکراورفلسفے والے کوحقیقی صحافی کہا جاتا ہے اور اگرتبدیلی بغیرتحقیق کے کی جائے تومثبت اثرات‬
‫کی بج ائے منفی اث رات م رتب ہ وتے ہیں کی ونکہ تحقی ق کے بغ یر ص حافی کی خ بر بھی نامکم ل تص ورکی ج اتی ہے‬
‫مگربلوچس تان میں منش ی گ ری ک رنے والے اپ نے مف ادات کوعزیزرکھ نے والے اور ن ام نہ ادجعلی ونقلی ص حافیوں‬
‫کاظہور مقدس پیشے پرکاری ضرب لگنے کے مترادف جبکہ تحقیقی صحافت کے فقدان میں معاون ومددگار ثابت ہورہا‬
‫ہے موجودہ دورمیں صحافتی تحقیق نام کی حدتک محدودہوکررہ گئی ہے اپنے آپکوصحافت کاس مندرکہنے والے مل ک‬
‫کے بڑے بڑے سینئر نام بھی اندرسے کھوکھلے اورتحقیقی صحافت کی معلوم ات س ے بھی ن اواقف ہیں پھ ریہ دع وی‬
‫کہ ہم معاشرے میں تبدیلی النے میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔‬
‫لیکن بغیر تحقیق کے صحافت ابالغ کے تصور کو پامال کرنے کے مترادف ہے اور اس وقت معاشرے میں ایک قصبے‬
‫سے لیکر ملکی سطح تک یا پھر اگر دیناوی سطح تک صحافتی ابالغ عامہ ای ک ‪ ‬بہت ب ڑی اف ادیت س مجھی ج اتی ہے‬
‫لیکن اگر یہ بغیر تحقیق کے اس عمل ک ا اس تعمال ص حافتی ح والے س ے ج و اہمیت ابالغ ک و حاص ل ہے اُس پ ر ب ُرے‬
‫اثرات مرتب ہو سکتے ہیں پھر چاہے وہ تحریر ی‪،‬نظری‪،‬زبانی یا دیگر سورس کے ذریعے کی ج ائے تحقی ق ص حافت‬
‫کی اہم کڑی ہے جس کے بغیر حقیقی صحافت ممکن نہیں۔‬
‫یہ بات بھی ارباب دانش اور اصحاب فکر ونظرخوب جانتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی بقاء اور تعمیر وت رقی کے ل یے‬
‫اِبالغ و ترسیل اتنا ہی اہم اور ضروری ہے‪ ،‬جتناکہ غذا اور پناہ گ اہ۔انس انی نقطئہ نظ ر س ے دیکھ ا ج ائے‪ ،‬توترس یل دو‬
‫طرفہ سماجی عمل ہے اور اُس دور میں بھی جب منہ س ے نکلی ہ وئی ٓاواز نے الف اظ اور منقش تحری ر کاج امہ زیب تن‬
‫نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے‪،‬حرکات وسکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل وابالغ کی ض روت کی‬
‫تکمی ل کی ا کرتاتھ ا۔ ابالغ اور ترس یل کے وس ائل انس انی معاش رے میں اہمیت کے حام ل تھے‪ ،‬اور ٓاج کے ب رق رفت ار‬
‫عہدمیں تو اس کی اہمیت سے بالکل صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقش ہ ب دل س کتے ہیں۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام میں انتظامیہ‪ ،‬عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ ذرائع ترس یل وابالغ ک و چ وتھے س تون کی‬
‫حیثیت دی گئی ہے۔ ذرائع ابالغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے‪،‬اگر یہ ذارئع ترس یل نہ ہ وتے‪،‬‬
‫تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے گھٹ اٹوپ ان دھیروں میں‬
‫بھٹک رہا ہوتا۔‬
‫اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم‪ ،‬ہمہ جہت زوال ک ا ش کار ہیں۔ اق دار و روای ات مٹ گ ئی ہیں۔‬
‫مفاد پرستی کا غلبہ ہے۔ سفلی جذبات اور نفس انی محرک ات ک و انگیخت ک رنے والے ای ک تحری ک کی ص ورت اختی ار‬
‫کرچکے ہیں۔ جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پس ماندہ اور مظل وم طبق ات بے چین ہی نہیں بلکہ منفی‬
‫نفسیات میں مبتال ہو رہے ہیں۔ انسانیت موت کے دہانے پر پہونچ چکی ہے‪ ،‬انسانی خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہوچکا‬
‫ہے‪ ،‬خوف وہراس اور دہشت واضطراب کا ماحول بپا ہے۔ نئی نسل‪ ،‬ناراض نس ل ہے‪ ،‬وہ ش کایت کے لہجے میں بول تی‬
‫اعلی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے دولت‪ ،‬اقت دار اور ش ہرت‬
‫ٰ‬ ‫اور شکایت ہی کے انداز میں عمل کرتی ہے۔ انسانیت کی‬
‫نے منتہائے مقصود کا درجہ حاصل کرلیا ہے‪ ،‬عزت ان سے وابستہ ہو گئی ہے۔ علم و ہنر اور بر و تق ٰ‬
‫وی ب اعث ش رف‬
‫نہیں رہے۔ جس کے پاس دولت اور اقتدار ہے‪ ،‬وہ ''بڑا ٓادمی'' ہے‪ ،‬خواہ وہ خ دا اور معاش رے ک ا مج رم ہ و اور جس ک ا‬
‫اثاثہ محض شرافت‪ ،‬دیانت اور وطن پرستی اور انسانیت ن وازی ہے‪ ،‬وہ ہیچ اور فروم ایہ ہے‪ ،‬خ واہ دین داری اور نی ک‬
‫بیہ یہی ہے۔‬ ‫ودہ ش‬ ‫رہ کی موج‬ ‫و۔ معاش‬ ‫انی نہ ہ‬ ‫وئی ث‬ ‫اک‬ ‫روی میں اس ک‬
‫مذاہب محض تفرقہ بازی کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جس کے علم برداروں کو امن و ٓاشتی اور محبت و الفت کا پی امبر‬
‫ہونا چاہیے تھا‪ ،‬ان کی زبانوں پر دشنام طرازیاں اور ان کے ہاتھوں میں ٓاتش یں اس لحہ ہے۔ عف و و درگ زر اور رواداری‬
‫تو ایک طرف‪ ،‬وہ اپنے مخالف کو زندگی کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔‬
‫اسالم چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع کامل واکمل دین اور دستور حیات بن کر ٓایا ہے؛ اس لیے اس میں می ڈیا کے‬
‫حوالے سے بھی ضابطہ وقانون موجود ہے‪،‬اسالم میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابالغ کو انسانی زندگی میں‬
‫کتنا بڑا اور اہم مقام حاصل ہے‪ ،‬اس کا اندازہ کرنے کے ل یے ہمیں ان ٓای ات وروای ات ک ا مط العہ اور ان کے مف اہیم میں‬
‫ِّک۔ت رجمہ ‪:‬اپ نے رب کی راہ‬
‫الی َس بِی ِْل َرب َ‬
‫ع ٰ‬ ‫غور کرنا چاہیے‪ ،‬جن سے اسالم کے داعیانہ پہلو پر روشنی پ ڑتی ہے‪'' :‬اُ ْد ُ‬
‫الی ْالخَ ی ِْرترجمہ ‪ :‬تم میں سے ای ک جم اعت ایس ی ہ ونی چ اہئے ج و بھالئی‬ ‫کی طرف بالئیں(‪)۱‬۔ َو ْلتَ ُک ْن ِم ْن ُک ْم اُ َّمۃٌ یَ ْد ُعوْ نَ ٰ‬
‫ف َوتَ ْنہَ وْ نَ ع َِن ْال ُم ْن َک ِر۔ت رجمہ‪ :‬تم بہ ترین امت ہ و ج و‬
‫اس تَ ٔا ُمرُوْ نَ بِ ْال َم ْعرُوْ ِ‬ ‫کی طرف بالئے(‪)۲‬۔ ُک ْنتُ ْم َخی َْر اُ َّم ٍۃ ُٔا ْخ ِر َج ْ‬
‫ت لِلنَّ ِ‬
‫لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے‪ ،‬تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو(‪)۳‬۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫ص حافت ای ک دن ک ا ادب ہے اور اس کے ق اری ادب کے باض ابطہ ق اری س ے تع داد میں ک ئی ہ زار گن ا زی ادہ ہیں۔‬
‫اس لئے صحافت کی زبان کا معیاری زبان بنے رہنا زبان کی بقاءکےلئے الزمی ہے۔ لیکن ہندوستان میں ادھر چ ار پ انچ‬
‫برسوں میں یہ صورتحال انتہائی تیزی کے ساتھ بگڑی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت جب کہ کاغذ پر ی ا س رکاری‬
‫اعداد وشمار کے مطابق اردو کی اشاعتوں اور اس کے قارئین میں بے پناہ اضافہ دیکھ ا جارہ ا ہے۔ اس ی وقت ص حافت‬
‫کے متن میں زبان کا زوال بھی پوری طرح نظر آنے لگا ہے۔ یوں بھی ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں جو زبان کو طہارت‬
‫کے س اتھ برت تے ہیں۔ ای ک ک ام چالؤ زب ان اظہ ار ک ا وس یلہ بن ج اتی ہے لیکن جب اس میں گ راوٹ آنے لگے اور وہ‬
‫گراوٹ کسی مجبوری کے تحت قابل قبول بھی ہے تو زبان کے سچے ہمدردوں کےلئے گہری تشویش کا باعث بن جاتی‬
‫ہے۔‬
‫گذشتہ پانچ سے دس برسوں کے دوران اردو اخبارات کو خبروں کی ترسیل کے لئے کئی ایجنسیاں سامنے آگئیں۔ چونکہ‬
‫ان کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں اور اخبارات کے صفحات کا پیٹ بھرنا بھی مقصود ہے اس لئے کہیں س ے بھی ک وئی‬
‫خبر حاصل کر کے اردو کے قالب میں ڈھال دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خبر کی تالش میں دن بھ ر بھٹک تے تھے‬
‫تی ہیں۔‬ ‫تی رہ‬ ‫ادلوں میں بھٹک‬ ‫وں کی تالش میں ب‬ ‫نے وال‬ ‫بریں پڑھ‬ ‫انہ ہے کہ خ‬ ‫ک زم‬ ‫اورای‬
‫ایک سے زیادہ ویب سائٹوں پر پل پل کی خبروں کی ترسیل ہ وتی رہ تی ہے ۔ اردو اخب ارات پہلے بھی اس ی ط رح س ے‬
‫اپنے صفحات کی شکم پوری کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ پہلے الگ الگ اخبارات میں ترجمے ہوتے تھے اب‬
‫ایک جگہ ہوتے ہیں یعنی کس ی خ بر رس اں ایجنس ی میں اور س بھوں ت ک ان کی ترس یل ہ و ج اتی ہے لیکن خ بر رس اں‬
‫ایجنسیوں میں ایسے لوگ بیٹھے ہ وئے ہیں جن کےل ئے ص حافت ص رف حص ول رزق ک ا ذریعہ ہے۔ انہیں نہ خ بر کی‬
‫دی۔‬ ‫ر من‬ ‫ارے میں فک‬ ‫ان کی ب‬ ‫پی ہے نہ اس کی زب‬ ‫وئی دلچس‬ ‫ےک‬ ‫زاکت س‬ ‫ن‬
‫سب سے بڑی آسانی اردو کےلئے سب سے بڑی قاتل بن رہی ہے۔ گوگ ل ٹرانس لیٹ کے ذریعہ خ بروں کے کش توں کے‬
‫پشتے لگائے جا سکتے ہیں۔ اور کشتوں کے پشتے ہی لگ رہے ہیں۔ یا توعجلت ہے یا عدم دلچس پی ی ا ن اواقفیت ی ا پھ ر‬
‫بے حسی۔ اسے چاہے جو نام دیجئے خبروں کی جو کاپی ایڈیٹر کے ہاتھ میں پہنچتی ہے اس میں بیمار کردینے کی تم ام‬
‫خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل ٹرانسلیٹ کسی جملے کا اردو متبادل بنا دیت ا ہے یع نی اگ ر کہیں یوجن ا‬
‫لکھا ہے تو اس کا متبادل منصوبہ ضرور بن جات ا ہے لیکن یوجن ا کے س اتھ فع ل کی ج و جنس ہن دی خ بر کے متن میں‬
‫ہ وتی ہے وہی جنس منص وبے کے س اتھ رہ ج اتی ہے۔ ن تیجے میں ج و اردو ک ا جملہ نک ل آت ا ہے وہ کچھ ی وں ہے ‪:‬‬
‫ئی ہیں۔"‬ ‫ائی گ‬ ‫وبے بن‬ ‫دد منص‬ ‫"متع‬
‫افسوس کا مقام یہ ہے کہ کئی جگہوں پر یہی چھپتا بھی ہے ۔ یہی قاری تک پہنچتا ہے اور قاری کے لئے اخبار سند ہے۔‬
‫ترقی سنگھ اور تصور دیوی جیسی مثالیں مطب وعہ ہیں اور ان مث الوں س ے بھی ان لوگ وں پ ر ک وئی اث ر نہیں پڑت ا ج و‬
‫ایجنسیاں چال رہے ہیں یا مشینی تجربے سے مالی فائدہ اٹھ انے کی کوش ش ک ر رہے ہیں۔ یہ بہت ض روری ہے کہ اردو‬
‫کی خدمت کرنے والے ہر ادارے کی مقدور بھر دستگیری کی جائے۔ جوسرکاری ادارے ک روڑوں ک ا بجٹ لے ک ر چ ل‬
‫رہے ہیں وہ اپنا بجٹ دوست نوازی اور غیر تخلیقی کاموں میں لٹانے کی بج ائے ان اداروں ک و م الی ط ور پ ر مس تحکم‬
‫ک رنے کی کوش ش ک ریں۔ جن س ے زب ان ک ا س یدھا تعل ق بنت ا ہے ت و یہ ای ک ب ڑی خ دمت ہ وگی۔‬
‫لیکن خبر رساں ایجنسیاں چالنے والوں کو بھی اس پر دھیان دینا ہو گ ا کہ وہ ج و ایجنس ی چالرہے ہیں وہ اں س ے اردو‬
‫میں خبروں کی ترسیل کو اپن ا مقص د نہ بن ائیں بلکہ اردو خ بروں کی ترس یل پ ر دھی ان دیں۔ زب ان کے طہ ارت پس ندوں‬
‫کےلئے یہ شدید قسم کا فکر مندی کا لمحہ ہے جب ان کی زبان ان کی آنکھ وں کے س امنے تب اہ ہ و رہی ہے اور وہ چ اہ‬
‫کتے۔‬ ‫رس‬ ‫ر بھی کچھ نہیں ک‬ ‫ک‬
‫یہاں جوذہنیت کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ خبر اخبارات تک پہنچا دو۔ اس کے آگے کا کام ختم۔ اخبارات کا یہ ع الم ہے کہ‬
‫گذشتہ بائیس برسوں کے دوران ان میں س ے بیش تر نے اپن ا ادارتی ش عبہ ہی ختم ک ر دی ا۔ نہ ای ڈیٹر مس تقل بیٹھت ا ہے نہ‬
‫مترجم بیٹھتے ہیں نہ پروف ریڈروں کی ضرورت ہے۔ یعنی اخب ار ایجنس ی اور آپری ٹروں کے ب ل پ ر نک ل رہ ا ہے اور‬
‫جس س ے جتن ا بن پ ڑ رہ ا ہے وہ معی اری زب ان ک و اتن ا ہی ش دید نقص ان پہنچ انے میں دل وج ان س ے لگ ا ہ وا ہے۔‬
‫رے ۔‬ ‫رفت ک‬ ‫و اس کی گ‬ ‫ی نہیں ج‬ ‫ی ایس‬ ‫وئی ایجنس‬ ‫ک‬
‫ڈی اے وی پی ‪ ،‬آر این آئی اور جو دوسری انضباطی ایجنسیاں ہو سکتی ہیں ان میں ماہرین کا انتخ اب سیاس ی وابس تگی‬
‫کی بنیاد پر یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو لوگ صاحبان اقتدار سے ق ریب ہیں وہ ہ ر ایس ی جگہ پ ر موج ود ہیں‬
‫جس کےلئے وہ موزوں نہیں۔ اس کے باوجود سینہ پھالئے گردن اکڑائے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اور انکے دس تخط کے‬
‫س اتھ زب ان ک و تب اہ ک رنے ک ا یہ عم ل س رکاری نگ رانی ی ا سرپرس تی میں پ وری ش دت س ے چ ل رہ ا ہے۔‬
‫اردو کے ادارے شدید بے حسی کے عالم میں ہیں جس سے نکلنے کی جدو جہد کرنے کا یہ آخری وقت ہے۔‬

You might also like