Professional Documents
Culture Documents
دنیا بھر میں میڈیا کے کردار سے متعلق اتنی بحث کسی مل ک میں نہیں ہ وتی ،جت نی ہم ارے ہ اں ہ و رہی ہے۔یہ مس لمہ
حقیقت ہے کہ آج کے دور میں کوئی بھی ملک می ڈیا کی اہمیت س ے انک ار نہیں ک ر س کتا ،کی ونکہ یہ ریاس ت ک ا وہ اہم
ستون ہے ،جس کی ترقی کے بغیر کوئی بھی قوم اپنے آپ کو دنیا کی برادری میں روش ناس نہیں ک را س کتی۔اطالع اتی
ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کی فعالیت کو اور بھی موثر بنا دیا ہے ۔ پاکستان میں میڈیا کی ت رقی کی اپ نی ای ک کہ انی
اور ت اریخ ہے۔اگ ر اس تم ام کے تن اظر میں دیکھ ا ج ائے ت و یہ حقیقت آش کار ہ وگی کہ ریاس ت کے اس اہم س تون نے
موجودہ آزادی کی جو 1990ءکی دہائی تک ایک خواب تھی ،ایک طویل جدوجہد کے بعد حاص ل کی۔پاکس تان کے قی ام
کے بعد میڈیا کا کردار مختلف تھا اور اسے موجودہ خوش کن صورت حال تک پہنچنے کے لئے جو پاپڑ بیلنا پڑے ،اس
کا بھی جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ریاستی ترقی کا تصور ابالغ عامہ کی معاونت کے بغیر ایک خواب س ے زی ادہ نہیں
ہے۔اس لئے اگر یہ شعبہ خود صحت مند ہوگا تو وہ صحت مند معاشرے کے قی ام میں مم دو مع اون ث ابت ہ و س کے گ ا۔
قومی خوش حالی ،ملکی استحکام ،عوامی ش عور اور اجتم اعی دانش ک و اج اگر ک رنے س ے ہی جمہ وریت مض بوط ہ و
سکتی ہے ،لیکن یہ صرف میڈیا کے مثبت کردار سے ہی ممکن ہے۔ہمیں دیکھن ا ہے کہ کی ا پاکس تان میں ہم ارے ذرائ ع
ابالغ عامہ نے یہ کردار کماحقہ ءادا کردیا ہے اور اگر نہیں کیا تو اس کی کیا وجوہات ہیں۔
اس کردار کو پرکھنے سے پیشتر ہمارے لئے ابالغ کے اس شعبہ کی اپنی جدوجہد کا تجزیہ کیا جان ا ض روری ہے ج و
کہ اس کے ارتقائی عمل کو سمجھنے کے لئے بہت مفید ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد مل ک میں سیاس ی افراتف ری ک ا
دور شروع ہوا جو 1956ءتک محیط رہا۔یہ افراتفری زیادہ ت ر اس وجہ س ے بھی تھی کہ مل ک میں می ڈیا ناب الغ تھ ا اور
سہارے کے بغیر اس کا چلنا بڑامحال تھا۔پرنٹ میڈیا چند ایک اخب ارات اور جرائ د پ ر مش تمل تھ ا اور حک ومت وقت ہی
اس کے لئے پالیسی کا تعین ک رتی تھی۔مارش ل الءکے بع د ق ائم ہ ونے والے نیش نل پ ریس ٹرس ٹ کے س ایہ تلے پ روان
چڑھنے واال ملکی میڈیا اپنی آزادی کی جدوجہد سے پوری طرح نابلد تھا۔ میڈیا کی اپنی کوئی پالیس ی نہ تھی ،بلکہ اس ی
ٹرست کے دیئے ہوئے رہنما اصولوں سے عبارت تھی۔اسی وجہ سے میڈیا کی کمزوری ان دنوںمحسوس ہ وتی رہی اور
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں کئی اخبارات پر پابندی بھی عائد ہ وئی۔چ ونکہ ہم ارا ع دالتی نظ ام بھی بہت
زیادہ آزاد نہ تھا ،اس لئے حکومت کا پلہ بھاری دکھائی دیا۔اگر عدالتوں کے آگے بھی اسی طرح کے ک انٹے نہ بچھ ائے
جاتے تو میڈیا اس قسم کے مصائب سے آزاد ہوتا۔ میڈیا کی آزادی کبھی کبھ ار ت ار ت ار ہ وتی رہی۔1960ءکی دہ ائی میں
الیکٹرانک میڈیا ملک میں متعارف ہوا ،لیکن وہ پی ٹی وی کی صورت میں حکومت کے دیئے ہوئے رہنم ا اص ولوں کی
پاسداری تک محدود رہا۔ ملک میں ان دنوں اس کے عالوہ کوئی متبادل ذریعہ ءابالغ نہ ہوتا تھا ،اس ل ئے اس ی پ ر اکتف ا
کرن ا پڑت ا تھ ا۔ای ک نی وز ایجنس ی 1960ءمیں تش کیل دی گ ئی ج و کہ اے پی پی کے ن ام س ے حک ومت کی پالیس ی کی
ترجمان تھی۔بعدازاں پی پی آئی نجی خبررساں کمپنی کے طور پر تشکیل دی گئی ،لیکن اس ایجنسی پر بھی ک ئی م رتبہ
بالواسطہ حکومت کا کنٹرول رہا۔
نوائے وقت اور جنگ گروپ دو بڑے اشاعتی ادارے تھے جو کہ ابالغ عامہ کے بڑے ترجمان کے ط ور پ ر می دان میں
تھے۔ایوب خان کے بعد کے دور میں پرنٹ میڈیا نے اپنی آزادی کے ل ئے پھ ڑ پھ ڑانے کی کوش ش ش روع ک ردی ،جس
کے نتیجے میں تھوڑی بہت آزادی اسے حاصل ہو گئی۔ ضیاءالحق مرحوم کے دور میں اس تھ وڑی س ی آزادی ک و بھی
سلب کرلیا گیا اور مارشل الءکے پہلے تین چار سال پرنٹ میڈیا کے لئے ابتالءک ا دور ث ابت ہ وا ،کی ونکہ سنسرش پ کی
پابندیوں نے ابالغ کے شعبہ کی آزادی کو شل کرکے رکھ دی ا۔مجھے ی اد ہے کہ اس دور میں بھی پ رنٹ می ڈیا نے اپ نی
آزادی کی جدوجہد ترک نہ کی اور اسے جاری رکھا اور جرات اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنسر شدہ حصوں کو
بالکل بلینک صورت میں چھاپ کر اپنی آزادی کے علم کو بلن د رکھ نے کی کوش ش کی۔پ ریس این ڈ پبلی کیش نز آرڈیننس
1963ءجو کہ ایوب خان کے دور میں نافذ العمل ہوا تھ ا ،اس نے می ڈیا کی آزادی کے آگے بن د بان دھنے کی کوش ش کی
جو شعوری تھی۔میڈیا نے اپنی مسلسل جدوجہد کے ذریعے مہلک ترین پراپیگنڈے کی پروا نہ کی۔اگ رچہ اس ق انون کے
ذریعے میڈیا کے ش عبہ میں حک ومت نے اپن ا اثرورس وخ ق ائم رکھ نے کی کوش ش ج اری رکھی ،لیکن می ڈیا کے ب ڑے
گروپوں نے اس کے خالف جدوجہد کو ترک نہ کیا ،جس کے نتیجے میں یہ ق انون واپس لی ا گی ا۔اس ق انون کے خ اتمے
کے لئے صحافت کے بڑوں نے بہت قربانیاں دیں۔
جنرل پروی ز مش رف کے کری ڈٹ میں یہ ب ات ج اتی ہے کہ می ڈیا کی آزادی ک ا موج ودہ دور پروی ز مش رف دور ک ا ہی
مرہو ِن منت ہے۔اس آزادی کے حصول کی کوشش گزشتہ چار دہ ائیوں پ ر مش تمل تھی۔اس کی اہمیت ک ا احس اس ک رتے
ہوئے اس آمرانہ حکومت نے می ڈیا کے ل ئے ج و کچھ کی ا وہ ک ئی س ابقہ جمہ وری حکوم تیں بھی نہ ک ر س کیں۔ پروی ز
مشرف حکومت نے صحافت کے شعبہ میں آزادی ک و نہ ص رف متع ارف کرای ا ،بلکہ اس ک وبرقرار رکھ ا گی ا اور اس
میں بہت ترقی کی گئی جو کہ اس حکومت کا اےسا کارنامہ ہے ،جو اس کا چمکتا ہوا باب ہے۔ک ئی نجی ٹی وی چینل وں
کو الئسنس دیئے گئے۔اسی طرح ریڈیو کے کئی چینل معرض وجود میں آئے۔ ص حافتی اق دار ک و بڑھ اوا دی نے اور اس
کی حفاظت کے لئے اور الیکٹرانک میڈیا کی ترقی کو مثبت سمت دینے کے لئے پیم را ک ا قی ام بھی اس ی دور میں عم ل
میں الیا گیا ،اسی دور کے مرہون منت وہ آزادی میڈیا نے حاصل کی،جس کا تصور خود اس شعبے کے لئے ح یران کن
ہے۔یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ اس آزادی کا استعمال کیسے ہوا۔ درجنوں الیکٹرانک چینل ز ک و ج و آزادی دی گ ئی ،کی ا
اسے معنوی انداز میں ایسے ہی استعمال کیا گیا ،جس طرح ایسا کیا جان ا ض روری تھ ا اور کی ا اس آزادی ءص حافت ک ا
استعمال مثبت سمت میں کیا گیا اور کیا آزادی کا یہ انداز ہمارے نومولود می ڈیا کے الیکٹران ک ش عبہ کے ح ق کے ل ئے
مثبت ثابت ہوا یا کہ اس کے مضمرات اب نظر آنے شروع ہو گئے ہیں۔
ANS 02
ابالغ کائنات کا اہم ستون ہے ابالغ کی گہرائی اور اس کی وسعت اور اہمیت کا اندازہ ب اخوبی انس ان اس ب ات س ے لگ ا
سکتا ہے کہ سب سے پہلے رب کائنات نے فرشتوں سے ابالغ کیا اور فرش توں کے زریعے یہ ابالغ انس ان ت ک پہنچ ا
پھر کائنات کے وجود میں آنے سے لیکر آج تک انسان ابالغ سے اس قدر جھ ڑا ہے کہ انس ان کی ہ ردن کی ش روعات
ابالغ سے منسلک ہوکر ہوتی ہے شروع میں ابالغ کا تصور اور اس عمل پر تحقیق نہ ہونے کے برابر تھی۔
مگر انسان نے اس کی وسعت اور اہمیت کو جب سمجھنا شروع کیا تو ابالغ کی اہمیت مختلف طریقوں سے ظاہر ہ وتی
گئی اور موجودہ جدید دور پر نظر ثانی کی جائے تو آج ابالغ کے اتنے ذرائع ہیں کہ شاید اب کوئی بھی کسی سے ایک
قدم بھی فاصلے پ ر نہیں پہلے کے زم انے میں ابالغ کے ذرائ ع بہت کم تھے بامش کل ابالغ ہوت ا تھ ا ابالغ کی مختل ف
قسمیں جن میں اشاروں سے لیکر زبانی ابالغ سے لیکر نظری وتحریری ابالغ شامل ہیں اور جب ابالغیات کو صحافتی
طرز میں الیا گیا تو اس کی اہمیت واضح ہوگئی
اس وقت صحافتی ابالغ کی کائنات میں ایک الگ پہچان ہے جس پر مختلف محقق وں نے تحقی ق کی ابالغ کے نظ ام ک و
مزید بہتر بنانے کے لی ئے جس کے م وثر ثم رات آج کائن ات میں م ل رہے ہیں اور اس کی پزی رائی کاروب اری ح والے
سے لیکر فلمی دنیا سے لیکر صافتی حوالے سے لیکر وہ ابالغ کا دائرہ جو کبھی مح دود ذرائعے ت ک ہی مح دود تھ ا
آج اس کی وس عت دنی ا کی ہرلح اظ س ے وقت کی اہم ض رورت بن گ ئی ہے مختل ف ان دازوں میں یہ اں پ ر ہم ص حافتی
حوالے سے ابالغ کے متن کی وضاحت کرینگے صحافت میں ابالغی تحقیق کا جائزہ۔
صحافت عوامی مسائل کواجاگر کرنے اورمعاشرے کی برائیوں کی نشان دہی ک رنے کان ام ہے اس پیش ے س ے وابس تہ
افرادکوصحافی کے نام سے مخاطب کیاجات اہے جبکہ ص حافی کومعاش رے ک ا آئینہ داربھی کہ تے ہیں کی ونکہ وہ اپ نی
پیش ہ وارنہ خ دمات کواحس ن ان داز میں س رانجام دیکرمعاش رے میں تب دیلی النے میں اہم ک ردارادا ک رتے ہیں اور اس
تبدیلی کوالنے کیلئے مثبت سوچ کے ساتھ س اتھ تحقی ق ک وبھی پ روان چڑھ انے میں اہم کرداراداک رتے ہیں اگرتب دیلی
مثبت سوچ والی تحقیق کے ساتھ کی جائے توصحافت کے مقدس پیشے کا حق ادا کرنے میں کامی ابی حاص ل ہوس کتی
ہے۔
اوراسی سوچ فکراورفلسفے والے کوحقیقی صحافی کہا جاتا ہے اور اگرتبدیلی بغیرتحقیق کے کی جائے تومثبت اثرات
کی بج ائے منفی اث رات م رتب ہ وتے ہیں کی ونکہ تحقی ق کے بغ یر ص حافی کی خ بر بھی نامکم ل تص ورکی ج اتی ہے
مگربلوچس تان میں منش ی گ ری ک رنے والے اپ نے مف ادات کوعزیزرکھ نے والے اور ن ام نہ ادجعلی ونقلی ص حافیوں
کاظہور مقدس پیشے پرکاری ضرب لگنے کے مترادف جبکہ تحقیقی صحافت کے فقدان میں معاون ومددگار ثابت ہورہا
ہے موجودہ دورمیں صحافتی تحقیق نام کی حدتک محدودہوکررہ گئی ہے اپنے آپکوصحافت کاس مندرکہنے والے مل ک
کے بڑے بڑے سینئر نام بھی اندرسے کھوکھلے اورتحقیقی صحافت کی معلوم ات س ے بھی ن اواقف ہیں پھ ریہ دع وی
کہ ہم معاشرے میں تبدیلی النے میں اہم کرداراداکررہے ہیں۔
لیکن بغیر تحقیق کے صحافت ابالغ کے تصور کو پامال کرنے کے مترادف ہے اور اس وقت معاشرے میں ایک قصبے
سے لیکر ملکی سطح تک یا پھر اگر دیناوی سطح تک صحافتی ابالغ عامہ ای ک بہت ب ڑی اف ادیت س مجھی ج اتی ہے
لیکن اگر یہ بغیر تحقیق کے اس عمل ک ا اس تعمال ص حافتی ح والے س ے ج و اہمیت ابالغ ک و حاص ل ہے اُس پ ر ب ُرے
اثرات مرتب ہو سکتے ہیں پھر چاہے وہ تحریر ی،نظری،زبانی یا دیگر سورس کے ذریعے کی ج ائے تحقی ق ص حافت
کی اہم کڑی ہے جس کے بغیر حقیقی صحافت ممکن نہیں۔
یہ بات بھی ارباب دانش اور اصحاب فکر ونظرخوب جانتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی بقاء اور تعمیر وت رقی کے ل یے
اِبالغ و ترسیل اتنا ہی اہم اور ضروری ہے ،جتناکہ غذا اور پناہ گ اہ۔انس انی نقطئہ نظ ر س ے دیکھ ا ج ائے ،توترس یل دو
طرفہ سماجی عمل ہے اور اُس دور میں بھی جب منہ س ے نکلی ہ وئی ٓاواز نے الف اظ اور منقش تحری ر کاج امہ زیب تن
نہیں کیا تھا اور انسان اشارے کنایے،حرکات وسکنات اور لمس و شعور کی مددسے اپنی ترسیل وابالغ کی ض روت کی
تکمی ل کی ا کرتاتھ ا۔ ابالغ اور ترس یل کے وس ائل انس انی معاش رے میں اہمیت کے حام ل تھے ،اور ٓاج کے ب رق رفت ار
عہدمیں تو اس کی اہمیت سے بالکل صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عوامی ذرائع ترسیل دنیا کا نقش ہ ب دل س کتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جمہوری نظام میں انتظامیہ ،عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ ساتھ ذرائع ترس یل وابالغ ک و چ وتھے س تون کی
حیثیت دی گئی ہے۔ ذرائع ابالغ کی ترقی کے ساتھ انسانی معاشرے کی ترقی مربوط ہے،اگر یہ ذارئع ترس یل نہ ہ وتے،
تو انسانی معاشرہ تہذیب وثقافت کے شائستہ تصور سے محروم رہتا اورجہالت و ناخواندگی کے گھٹ اٹوپ ان دھیروں میں
بھٹک رہا ہوتا۔
اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم من حیث القوم ،ہمہ جہت زوال ک ا ش کار ہیں۔ اق دار و روای ات مٹ گ ئی ہیں۔
مفاد پرستی کا غلبہ ہے۔ سفلی جذبات اور نفس انی محرک ات ک و انگیخت ک رنے والے ای ک تحری ک کی ص ورت اختی ار
کرچکے ہیں۔ جرائم کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پس ماندہ اور مظل وم طبق ات بے چین ہی نہیں بلکہ منفی
نفسیات میں مبتال ہو رہے ہیں۔ انسانیت موت کے دہانے پر پہونچ چکی ہے ،انسانی خون پانی سے بھی زیادہ سستا ہوچکا
ہے ،خوف وہراس اور دہشت واضطراب کا ماحول بپا ہے۔ نئی نسل ،ناراض نس ل ہے ،وہ ش کایت کے لہجے میں بول تی
اعلی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے دولت ،اقت دار اور ش ہرت
ٰ اور شکایت ہی کے انداز میں عمل کرتی ہے۔ انسانیت کی
نے منتہائے مقصود کا درجہ حاصل کرلیا ہے ،عزت ان سے وابستہ ہو گئی ہے۔ علم و ہنر اور بر و تق ٰ
وی ب اعث ش رف
نہیں رہے۔ جس کے پاس دولت اور اقتدار ہے ،وہ ''بڑا ٓادمی'' ہے ،خواہ وہ خ دا اور معاش رے ک ا مج رم ہ و اور جس ک ا
اثاثہ محض شرافت ،دیانت اور وطن پرستی اور انسانیت ن وازی ہے ،وہ ہیچ اور فروم ایہ ہے ،خ واہ دین داری اور نی ک
بیہ یہی ہے۔ ودہ ش رہ کی موج و۔ معاش انی نہ ہ وئی ث اک روی میں اس ک
مذاہب محض تفرقہ بازی کا ذریعہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جس کے علم برداروں کو امن و ٓاشتی اور محبت و الفت کا پی امبر
ہونا چاہیے تھا ،ان کی زبانوں پر دشنام طرازیاں اور ان کے ہاتھوں میں ٓاتش یں اس لحہ ہے۔ عف و و درگ زر اور رواداری
تو ایک طرف ،وہ اپنے مخالف کو زندگی کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں۔
اسالم چوں کہ رہتی دنیا تک لیے ایک جامع کامل واکمل دین اور دستور حیات بن کر ٓایا ہے؛ اس لیے اس میں می ڈیا کے
حوالے سے بھی ضابطہ وقانون موجود ہے،اسالم میں میڈیا کی کتنی اہمیت ہے اور ان ذرائع ابالغ کو انسانی زندگی میں
کتنا بڑا اور اہم مقام حاصل ہے ،اس کا اندازہ کرنے کے ل یے ہمیں ان ٓای ات وروای ات ک ا مط العہ اور ان کے مف اہیم میں
ِّک۔ت رجمہ :اپ نے رب کی راہ
الی َس بِی ِْل َرب َ
ع ٰ غور کرنا چاہیے ،جن سے اسالم کے داعیانہ پہلو پر روشنی پ ڑتی ہے'' :اُ ْد ُ
الی ْالخَ ی ِْرترجمہ :تم میں سے ای ک جم اعت ایس ی ہ ونی چ اہئے ج و بھالئی کی طرف بالئیں()۱۔ َو ْلتَ ُک ْن ِم ْن ُک ْم اُ َّمۃٌ یَ ْد ُعوْ نَ ٰ
ف َوتَ ْنہَ وْ نَ ع َِن ْال ُم ْن َک ِر۔ت رجمہ :تم بہ ترین امت ہ و ج و
اس تَ ٔا ُمرُوْ نَ بِ ْال َم ْعرُوْ ِ کی طرف بالئے()۲۔ ُک ْنتُ ْم َخی َْر اُ َّم ٍۃ ُٔا ْخ ِر َج ْ
ت لِلنَّ ِ
لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے ،تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو()۳۔
ANS 03
ص حافت ای ک دن ک ا ادب ہے اور اس کے ق اری ادب کے باض ابطہ ق اری س ے تع داد میں ک ئی ہ زار گن ا زی ادہ ہیں۔
اس لئے صحافت کی زبان کا معیاری زبان بنے رہنا زبان کی بقاءکےلئے الزمی ہے۔ لیکن ہندوستان میں ادھر چ ار پ انچ
برسوں میں یہ صورتحال انتہائی تیزی کے ساتھ بگڑی ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس وقت جب کہ کاغذ پر ی ا س رکاری
اعداد وشمار کے مطابق اردو کی اشاعتوں اور اس کے قارئین میں بے پناہ اضافہ دیکھ ا جارہ ا ہے۔ اس ی وقت ص حافت
کے متن میں زبان کا زوال بھی پوری طرح نظر آنے لگا ہے۔ یوں بھی ایسے لوگ تعداد میں کم ہیں جو زبان کو طہارت
کے س اتھ برت تے ہیں۔ ای ک ک ام چالؤ زب ان اظہ ار ک ا وس یلہ بن ج اتی ہے لیکن جب اس میں گ راوٹ آنے لگے اور وہ
گراوٹ کسی مجبوری کے تحت قابل قبول بھی ہے تو زبان کے سچے ہمدردوں کےلئے گہری تشویش کا باعث بن جاتی
ہے۔
گذشتہ پانچ سے دس برسوں کے دوران اردو اخبارات کو خبروں کی ترسیل کے لئے کئی ایجنسیاں سامنے آگئیں۔ چونکہ
ان کے پاس اپنے وسائل نہیں ہیں اور اخبارات کے صفحات کا پیٹ بھرنا بھی مقصود ہے اس لئے کہیں س ے بھی ک وئی
خبر حاصل کر کے اردو کے قالب میں ڈھال دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب خبر کی تالش میں دن بھ ر بھٹک تے تھے
تی ہیں۔ تی رہ ادلوں میں بھٹک وں کی تالش میں ب نے وال بریں پڑھ انہ ہے کہ خ ک زم اورای
ایک سے زیادہ ویب سائٹوں پر پل پل کی خبروں کی ترسیل ہ وتی رہ تی ہے ۔ اردو اخب ارات پہلے بھی اس ی ط رح س ے
اپنے صفحات کی شکم پوری کرتے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ پہلے الگ الگ اخبارات میں ترجمے ہوتے تھے اب
ایک جگہ ہوتے ہیں یعنی کس ی خ بر رس اں ایجنس ی میں اور س بھوں ت ک ان کی ترس یل ہ و ج اتی ہے لیکن خ بر رس اں
ایجنسیوں میں ایسے لوگ بیٹھے ہ وئے ہیں جن کےل ئے ص حافت ص رف حص ول رزق ک ا ذریعہ ہے۔ انہیں نہ خ بر کی
دی۔ ر من ارے میں فک ان کی ب پی ہے نہ اس کی زب وئی دلچس ےک زاکت س ن
سب سے بڑی آسانی اردو کےلئے سب سے بڑی قاتل بن رہی ہے۔ گوگ ل ٹرانس لیٹ کے ذریعہ خ بروں کے کش توں کے
پشتے لگائے جا سکتے ہیں۔ اور کشتوں کے پشتے ہی لگ رہے ہیں۔ یا توعجلت ہے یا عدم دلچس پی ی ا ن اواقفیت ی ا پھ ر
بے حسی۔ اسے چاہے جو نام دیجئے خبروں کی جو کاپی ایڈیٹر کے ہاتھ میں پہنچتی ہے اس میں بیمار کردینے کی تم ام
خصوصیات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل ٹرانسلیٹ کسی جملے کا اردو متبادل بنا دیت ا ہے یع نی اگ ر کہیں یوجن ا
لکھا ہے تو اس کا متبادل منصوبہ ضرور بن جات ا ہے لیکن یوجن ا کے س اتھ فع ل کی ج و جنس ہن دی خ بر کے متن میں
ہ وتی ہے وہی جنس منص وبے کے س اتھ رہ ج اتی ہے۔ ن تیجے میں ج و اردو ک ا جملہ نک ل آت ا ہے وہ کچھ ی وں ہے :
ئی ہیں۔" ائی گ وبے بن دد منص "متع
افسوس کا مقام یہ ہے کہ کئی جگہوں پر یہی چھپتا بھی ہے ۔ یہی قاری تک پہنچتا ہے اور قاری کے لئے اخبار سند ہے۔
ترقی سنگھ اور تصور دیوی جیسی مثالیں مطب وعہ ہیں اور ان مث الوں س ے بھی ان لوگ وں پ ر ک وئی اث ر نہیں پڑت ا ج و
ایجنسیاں چال رہے ہیں یا مشینی تجربے سے مالی فائدہ اٹھ انے کی کوش ش ک ر رہے ہیں۔ یہ بہت ض روری ہے کہ اردو
کی خدمت کرنے والے ہر ادارے کی مقدور بھر دستگیری کی جائے۔ جوسرکاری ادارے ک روڑوں ک ا بجٹ لے ک ر چ ل
رہے ہیں وہ اپنا بجٹ دوست نوازی اور غیر تخلیقی کاموں میں لٹانے کی بج ائے ان اداروں ک و م الی ط ور پ ر مس تحکم
ک رنے کی کوش ش ک ریں۔ جن س ے زب ان ک ا س یدھا تعل ق بنت ا ہے ت و یہ ای ک ب ڑی خ دمت ہ وگی۔
لیکن خبر رساں ایجنسیاں چالنے والوں کو بھی اس پر دھیان دینا ہو گ ا کہ وہ ج و ایجنس ی چالرہے ہیں وہ اں س ے اردو
میں خبروں کی ترسیل کو اپن ا مقص د نہ بن ائیں بلکہ اردو خ بروں کی ترس یل پ ر دھی ان دیں۔ زب ان کے طہ ارت پس ندوں
کےلئے یہ شدید قسم کا فکر مندی کا لمحہ ہے جب ان کی زبان ان کی آنکھ وں کے س امنے تب اہ ہ و رہی ہے اور وہ چ اہ
کتے۔ رس ر بھی کچھ نہیں ک ک
یہاں جوذہنیت کار فرما ہے وہ یہ ہے کہ خبر اخبارات تک پہنچا دو۔ اس کے آگے کا کام ختم۔ اخبارات کا یہ ع الم ہے کہ
گذشتہ بائیس برسوں کے دوران ان میں س ے بیش تر نے اپن ا ادارتی ش عبہ ہی ختم ک ر دی ا۔ نہ ای ڈیٹر مس تقل بیٹھت ا ہے نہ
مترجم بیٹھتے ہیں نہ پروف ریڈروں کی ضرورت ہے۔ یعنی اخب ار ایجنس ی اور آپری ٹروں کے ب ل پ ر نک ل رہ ا ہے اور
جس س ے جتن ا بن پ ڑ رہ ا ہے وہ معی اری زب ان ک و اتن ا ہی ش دید نقص ان پہنچ انے میں دل وج ان س ے لگ ا ہ وا ہے۔
رے ۔ رفت ک و اس کی گ ی نہیں ج ی ایس وئی ایجنس ک
ڈی اے وی پی ،آر این آئی اور جو دوسری انضباطی ایجنسیاں ہو سکتی ہیں ان میں ماہرین کا انتخ اب سیاس ی وابس تگی
کی بنیاد پر یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو لوگ صاحبان اقتدار سے ق ریب ہیں وہ ہ ر ایس ی جگہ پ ر موج ود ہیں
جس کےلئے وہ موزوں نہیں۔ اس کے باوجود سینہ پھالئے گردن اکڑائے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ اور انکے دس تخط کے
س اتھ زب ان ک و تب اہ ک رنے ک ا یہ عم ل س رکاری نگ رانی ی ا سرپرس تی میں پ وری ش دت س ے چ ل رہ ا ہے۔
اردو کے ادارے شدید بے حسی کے عالم میں ہیں جس سے نکلنے کی جدو جہد کرنے کا یہ آخری وقت ہے۔