You are on page 1of 23

‫کرونا وائرس —— انسانیت کا مستقبل‬

‫اور اہل ایمان کی ذمہ داری‬


‫ڈ اکٹر زاہد بخاری (واشنگٹن)‬

‫کرونا وائرس اور اس کے اثرات کے حوالے سے میں بطور طالبعلم کچھ‬


‫نکات آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ ہم اس کے بارے میں مزید غور و خوض کر‬
‫سکیں۔یہ کوئی حتمی رائے نہیں ہے‪،‬دنیا اس قدر بے یقینی کا شکار ہے کہ کوئی‬
‫یقینی بات کہی بھی نہیں جا سکتی‪،‬جیسے ہی مغرب میں کرونا وائرس کا‬
‫پھیالو شروع ہوا ہے اس حوالے سے مختلف فورمز پر تحقیق کا آغاز ہو گیا‬
‫مختلف تھنک ٹینکس اور ان سے وابستہ جرنلز‪،‬میگزین‪،‬نیوز ایجنسیز اور بڑے‬
‫اخبارات نے یہ تحقیقات شروع کر دی کہ یہ اتنا بڑا وائرس ہے کہ اسے ‪Global‬‬
‫کے طور پر لیا جاناچاہیئے ۔پوسٹ کرونا منظرنامہ کیا ہو گا‪،‬‬ ‫‪Phenomena‬‬
‫امریکہ میں جو خارجہ امور کا ادارہ ہے جسے اسٹبلشمنٹ کا ترجمان‬
‫سمجھاجاتا ہے‪ ،‬اس کے تحقیقی جرنل نے اس کو اپنے مباحث کا عنوان بنایا۔‬
‫فارن افیئرز کے نام سے موقر جریدہ‪،‬مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹس اور‬

‫‪1‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫اخبارات میں بھی اس موضوع پر متعدد چیزیں شائع ہوئیں‪،‬اسی طرح یورپ‬
‫کے مختلف میگزین‪،‬جرنلز کے ساتھ ساتھ ترکی‪،‬برطانیہ اور پاکستان میں بھی‬
‫‪،‬تمام ہی جگہوں پر یہ بات ہو رہی ہے کہ پوسٹ کرونا منظر نامہ کیا ہو گا۔ لیکن‬
‫اس حوالے سے کم بات ہو رہی ہے کہ یہ کیوں ہوا ہے اس کی ممکنہ کیا وجہ ہو‬
‫سکتی ہے۔‬
‫مذہبی حلقے چاہے وہ یہودیوں کے ربی ہوں‪،‬عیسائیوں کے پوپ ہوں یا‬
‫مسلمانوں کی طرف سے کوئی نمائندہ ہو یہ سب لوگ جب بات کرتے ہیں تو‬
‫موجودہ وبا کے تناظر میں فوری طور پر قرب قیامت پر بحث شروع ہو جاتی‬
‫ہے‪،‬مسیح کے آنے پر‪،‬دجال کے آنے پہ اور اُس وقت کی صورت حال پر بات ہونا‬
‫شروع ہوتی ہے‪،‬لیکن جو زیادہ تر تجزیے آرہے ہیں وہ ایک طرح کے سیکولر نقطہ‬
‫نظر کے حامل ہیں‪ ،‬اسی طرح سازشی تھیوریز کے حوالے سے بھی بات ہو رہی‬
‫ہے بعض ممالک ایک دوسرے پر کرونا پھیالنے کا الزام لگا رہے ہیں۔کوئی کہتا‬
‫چائینز نے کرونا پھیالیا‪،‬کوئی کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی میںایک ناول لکھا گیا‬
‫جس میں چین کے شہر ووہان سے بائیو کیمیکل ویپن کا ذکر تھا‪،‬چین کی‬
‫طرف سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ امریکن فوجیوں کی وجہ سے کرونا چین‬
‫میں آیا۔میں یہاں میری لینڈ کے شہر فریڈرک میں رہتا ہوں‪،‬یہاں سے بہت‬
‫قریب فورٹ ڈیٹرک نام کی فوجی چھا ٔونی ہے جسے یہاں فورڈ کہا جاتا ہے۔یہ‬
‫امریکہ کے دفاعی نظام میں بائیو کیمیکل بنانے واال سب سے بڑا ادارہ ہے۔ یہاں‬
‫پر بہت سے بائیو کیمیکل ہتھیار تیار ہوتے ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیال‬
‫سکتے ہیں۔ پہلے بھی ان کی تیاری کی جا چکی ہے۔ادھر بھی الزام لگا کہ اس‬
‫کرونا کی تیاری فورڈ میں کی گئی ہے اور اس کے بعد اسے اسمگل کیا گیا ہے۔‬
‫گویا سازشی تھیوریز میں بہت کچھ آتا رہا کہ کس ملک نے تیار کیا‪،‬بل گیٹس‬
‫کا بھی ذکر ہوا‪ ،‬اسی طرح دیگر بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جیو پولیٹیکل‬
‫پوسٹ کرونا منظر نامہ میں امریکہ اسی طرح غالب رہے گا یا تھوڑا غالب رہے‬

‫‪2‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫گا۔ چائینہ غالب آئے گا یا دونوں کچھ سیکھیں گے یا دونوں باہمی طور پر تھوڑی‬
‫بہت ایڈجسٹ منٹ کریں گے معاشی طور پر ایک ملک تباہ ہو جائے گا‪،‬یا کسی‬
‫دوسرے ملک کو فائدہ ہو گا‪،‬میڈیکل اکانومی ہو گی یا ڈیفنس اکانومی ہو‬
‫گی‪،‬اس طرح کی متفرق آراء پائی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک کوئی حتمی رائے‬
‫نہیں دی گئی ہے۔‬
‫امریکہ میں‪ Heritage Foundation‬نام کا ایک کنزرویٹو تھنک ٹینک ہے‬
‫جہاں سے ٹرمپ انتظامیہ کو نظریات بھی ملے ہیں اور افراد بھی… جس طرح‬
‫گھروں میں بھی ریوالونگ ڈورز ہوتے ہیں‪،‬ا ِس طرح مضبوط ریاستوں میں‬
‫یونیورسٹیز ہیں‪،‬تھنک ٹینکس ‪،‬مختلف البیز اور پھر گورنمنٹ کے ادارے ہوتے‬
‫ہیں جہاں افراد اور چیزیں ریوالو (‪)revolve‬ہوتی رہتی ہیں۔اگر ڈیموکریٹ‬
‫ایڈمنسٹریشن آئے گی تو سنٹر فار امریکن پراگریس اور اس طرح کے ادارے جن‬
‫کا جھکا ٔو لبرل ہے ان کی پالیسیاں‪ ،‬سوچ اور نقط ٔہ نظر حاوی ہوگا۔اور اگر‬
‫ریپبلکن برسر ِ اقتدار ہوں گے اور کنزرویٹو آئیں گے تو ‪Heritage Foundation‬‬
‫سے خیاالت کے ساتھ ساتھ پالیسیاں اور افراد بھی … ۔‪Heritage Foundation‬‬
‫کی طرف سے بیان آیا کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی اس صورت حال میں بچا‬
‫سکتا ہے‪،‬اور اس حوالے سے انھوں نے بڑی مثالیں دی ہیں کہ کون کون سی‬
‫بڑی بڑی کمپنیوں نے کیا کام کیا ہے ؟ انھوں نے جنگی بنیادوں پر الکھوں وینٹی‬
‫لیٹرز بنائے ہیں۔جنرل الیکٹرک (‪ )GE‬جو ان کی بہت بڑی الیکٹرانکس کی‬
‫کمپنی ہے انھوں نے چند ہفتوں میں الکھوں وینٹی لیٹرز بنائے ہیں۔ انھوں نے‬
‫اسے جنگ گردانتے ہوئے سب کچھ طبی سہولیات میں لگانے کا ارادہ کیا ہے‬
‫اسی لیے ادارے ہنگامی بنیادوں پر وینٹی لیٹرز اور نئی ٹیسٹنگ کٹس الکھوں‬
‫کی تعداد میں تیار کر رہے ہیں۔شروع میں یہ ہچکچاہٹ کا شکار رہے لیکن اب‬
‫وہ یہ سارا کام پورے جذبے سے کر رہے ہیں۔اور دوسرے ممالک کو بھی اپنی‬

‫‪3‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫خدمات پیش کر رہے ہیں‪،‬جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ امریکہ نے پاکستان میں‬
‫بھی ٹیسٹنگ کٹس اور وینٹی لیٹرز فراہم کرنے کی آفر کی ہے۔‬

‫لیکن دوسری طرف یہ بحث بھی بڑی شدت سے ہوئی کہ یہ سرمایہ‬


‫دارانہ نظام کا خاتمہ ہے۔ لوگوں نے کئی مثالیں دیں کہ آج سے سو دو سو سال‬
‫پہلے ایک وائرس آیا تھا تو فیوڈل ازم کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ایک اور وائرس آیا تھا‬
‫تو خالفت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا‪،‬بہت سے جنگیں ہوئیں جس کے نتیجہ میں‬
‫برطانوی راج غروب ہو گیا اورامریکہ کا ظہور ہو گیا‪،‬اس لیے اب بہت سے لوگ‬
‫اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ قریب ہے۔دوبارہ‬
‫کمیونزم کی طرف جانا ہے یا سرمایہ دارانہ نظام ایڈجسٹ منٹ کرے گا‪،‬سرمایہ‬
‫دارانہ نظام کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی بھی چیز گورنمنٹ کے کنٹرول میں نہ‬
‫ہو‪،‬چنانچہ ہیلتھ کیئر بھی حکومت کی طرف سے نہ ہو‪،‬کوئی کم سے کم آمدنی‬
‫بھی حکومت کی طرف سے نہ ہو‪،‬زیادہ سے زیادہ آمدنی بھی حکومت کی طرف‬
‫سے نہ ہو‪،‬زیادہ ٹیکسز بھی نہ ہوں‪،‬لیکن بائیں بازو کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے‬
‫کہ یہ ہونا چاہیے۔اب ان نظریات کو پزیرائی مل رہی ہے کہ یونیورسل ہیلتھ کیئر‬
‫ہونی چاہیے‪،‬یونیورسل کم سے کم اجرت ہونی چاہیے۔‬

‫‪4‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫کچھ سکالرز نے آج سے کچھ سال پہلے ‪21st Century‬‬
‫‪ Capitalism‬نامی کتاب لکھی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ نا برابری‬
‫(‪ )Inequality‬اس کی بنیاد میں شامل ہے اور کپیٹل ازم کا بنیادی تقاضا ہے‬
‫کہ بہت بڑی غیر مساوی تقسیم ہو گی‪،‬فرانس کے ایک اسکالر نے کہا تھا کہ‬
‫یونیورسل ویلتھ ٹیکس کا نظام ہونا چاہیے تاکہ وراثتی جائیداد کے ارتکاز کو توڑا‬
‫جا سکے‪،‬اس وقت کہا بھی گیا کہ زکوۃ کو یونیورسل ویلتھ ٹیکس کے طور پر‬
‫نافذ کر دیا جائے‪،‬اگرچہ مسلمانوں میں یہ صرف ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبادت‬
‫بھی ہے‪،‬پھر یہ بحث بھی ہوئی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جو عالمی ادارے‬
‫بنائے گئے ہیں مثال یو این او‪ ،‬آئی ایم ایف‪ ،‬ورلڈ بینک‪،‬ڈبلیو ایچ او‪،‬یونیسف‬
‫وغیرہ یہ بھی ضروری نہیں رہے‪ ،‬ان کی تنظیم نو کی بھی ضرورت ہو گی۔اس‬
‫پر کافی زور ہے چونکہ حاالت اس طرح واضح نہیں ہیں اس لیے ابھی یہ حتمی‬
‫رائے نہیں ہے۔ایک بات تو طے ہے اکانومی‪،‬جیو پولیٹیکل آرڈر اور ورلڈ انسٹی‬
‫ٹیوٹس کی بھی تنظیم نو ہو گی اس طرح کی گفتگو یہاں ہو رہی ہے۔جیسے‬
‫میںنے پہلے عرض کیا زیادہ تر سیکولر بنیادوں پر فنانس اور میڈیکل ریسرچ‬
‫کا زور ہے‪،‬اس طرح کے تجزیے ہوتے رہے ہیں۔ پوپ نے البتہ ایک قدرے مختلف‬
‫بات کہی کہ انسان نے ماحولیات کے حوالے سے فطرت کو جو نقصان پہنچایا‬
‫ہے کرونا وائرس فطرت کی طرف سے اس کا ردعمل ہے ۔اس نے ساتھ یہ بھی‬
‫کہا کہ یہ نیا وائرس تو نہیں ہے وائرس تو پہلے بھی آتے رہے ہیں جس طرح وہ‬
‫تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں یہ بھی تاریخ کا حصہ بن جائے گا لیکن اس کا ایک‬
‫تاثر یہ ہے کہ انسانوں کو فطرت کی طرف لوٹنا چاہیے۔‬
‫اگلی سطور میں‪ ،‬میں تین پہلو ٔوں پر اپنے خیاالت کو بیان کرنا‬
‫چاہوں گا ۔ ا ّول بات تو یہ ہے کہ ہم اس ‪ global phenomena‬کو اسالم اور قرآن‬
‫کے تناظر میں کیسے سمجھ سکتے ہیں؟۔ دوم یہ ہے کہ کیا کرونا وائرس نے‬
‫بالکل اچانک اور غیر متوقع طور پر ‪emerge‬کیا ‪،‬یا یہ پچھلے چالیس پچاس‬

‫‪5‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫سالوں میں رونما ہونے والے مختلف عالمی واقعات کا ایک تسلسل ہے جو اللہ‬
‫کی طرف سے ہو رہے ہیں اور پھر تیسرا یہ ہے کہ اس حوالے سے بطور اہل ایمان‬
‫ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ۔اگر ہم اسے اسالمی تناظر میں دیکھیں تو سورۃ روم‬
‫اس حوالے سے ایک گلوبل پرسپیکٹو مہیا کرتی ہے۔پھر جب میں نے سورۃ روم‬
‫کے حوالے سے پڑھا تو مجھے پتا چال کہ یہ سورۃ نبوت کے پانچویں سال نازل‬
‫ہوئی۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو گلوبل پرسپیکٹو میں یہ قرآن پاک کی پہلی‬
‫مکی سورتوں میں ماضی کے افراد و واقعات کو بہترین انداز‬
‫ّ‬ ‫سورۃ ہے۔باقی‬
‫میں بیان کیا گیا ہے کہ مختلف قومیں کیا کرتی رہیں‪،‬پیغمبروں کا رویہ کیسا‬
‫رہا۔ عاد اور ثمود کی طرح‪،‬بہت سی اقوام کے بارے میں اور جو لوگ کفر کی‬
‫عالمت سمجھے جاتے تھے ۔سورۃ روم وہ سورۃہے جس میں ایک عالمی پیشین‬
‫گوئی کی گئی ہے کہ مغلوب ہو گئے ہیں عنقریب یہ فتح پائیں گے اور اسی دن‬
‫مسلمانوں کو بھی فتح ملے گی۔یہ بہت عجیب بات ہے کہ نبوت کا پانچواں‬
‫سال ہے حاالت کٹھن ہیں‪،‬ہجرت حبشہ بھی ہو چکی ہے‪ ،‬ہجرت حبشہ بھی گلوبل‬
‫‪ phenomena‬ہے کہ مسلمان سمندر کا کچھ حصہ پار کر کے ایک دوسرے ملک‬
‫میں جاتے ہیں جو عیسائی عقائد کا حامل ہے۔یہ گلوبل پریڈکشن اس زمانے‬
‫میں کی گئی موالنا مودودی نے تفہیم القرآن میں اس کے اسباب نزول پر پورا‬
‫نوٹ تحریر کیا ہے۔ اس طریقے سے وہ پیشین گوئی پوری بھی ہوئی جواسی‬
‫سورۃ کی آیت نمبر ‪ 41‬میں ہے۔‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ََ َ ْ َ‬
‫یق ُہم َب ْع َض رالذی ََع ُیلوا َل َع رل ُہ ْم َ َْیج ُع َ‬
‫ون‬
‫رَ ی ُ َ‬
‫ت ا ْی یدی الناس لیی یذ‬
‫َ ََ َْ َ ُ ْ َر ْ‬
‫ب َوال َب ْح یر یِبَا کسب‬
‫ظہر الفساد یِف ال ی‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫جس کا موال نا نے ترجمہ کیا ہے کہ ’’خشکی اور تری میں فساد‬
‫برپا ہو گیا ہے۔لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تا کہ مزہ چکھائے ان کو ان‬
‫کے بعض اعمال کا شائد کہ وہ باز آئیں۔‘‘ یہ ایک طرح کا ‪global phenomena‬‬
‫ہے کہ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے۔ اور لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی‬
‫کمائی کی وجہ سے ہوا ہے۔اللہ کا رویہ کیا ہو گا وہ بھی بیان کیا گیا کہ بعض‬

‫‪6‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھایا جائے۔اللہ تعالی انسانوں سے جو چیز‬
‫چاہتے ہیں کہ شائد وہ اس طرح باز ا ٓ جائیں۔‬

‫یہاں میں نے تھوڑا سا ڈیٹا بھی دیکھا کہ ابھی تک (اپریل‬


‫‪2020‬ء)دنیا میں کرونا کے ‪ 2.6‬ملین کیسز ہیں۔ آج میں جان ہاپکنز یونیورسٹی‬
‫کا ڈیٹا دیکھ رہا تھا۔اس میں ‪1,84643‬اموات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس میں‬

‫‪7‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫‪ 200‬میں سے ‪ 185‬ملکوں کا ڈیٹا ہے۔امریکہ سمیت چھ مغربی ممالک‬
‫(ا مریکہ‪،‬اسپین‪،‬اٹلی‪،‬فرانس‪،‬جرمنی اور انگلینڈ) میں یہ کیسز اور اموات سب‬
‫سے زیادہ ہیں یہ ممالک اس وقت مغرب کی عالمت ہیں۔ویسے تو پورے‬
‫مغرب میں دیگر کئی ممالک کو بھی لیا جا سکتا ہے لیکن اس وقت یہ چھ‬
‫ممالک دنیا میں مغرب کے عروج کی عالمت سمجھے جاتے ہیں۔امریکہ کی‬
‫دعوی کرتی ہے کہ دنیا میں امریکہ جیسی طاقت کبھی‬
‫ٰ‬ ‫انتظامیہ تو اس بات کا‬
‫کسی کے پاس نہیں رہی‪،‬اسی طرح امریکہ کا دفاع‪،‬امریکہ کی معیشت‬
‫مضبوط ترین ہے۔ان چھ ملکوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا ‪ %8‬ہے۔لیکن آپ‬
‫دیکھیں کہ کرونا کے کنفرم کیسز میں دو تہائی انہی ملکوں میں ہیںاور کرونا‬
‫کی وجہ سے اموات میں بھی تین چوتھائی کا تعلق انھی ممالک سے ہے۔‬
‫جنوبی ایشیا میں دنیا کی اکیس فیصد آبادی بستی ہے اور وہاں دو فیصد کے‬
‫قریب کیسز ہیں۔لیکن یہ چھ ممالک کرونا وائرس کے حوالے سے دنیا کا‬
‫‪ epiccentre‬بن رہے ہیں۔‬
‫اس موقعہ پر ہمیں تھوڑا سا سوچنا چاہیے کہ وہ کون سے بعض‬
‫اعمال ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ نے اس فساد کا ذکر کیا ہے جو‬
‫خشکی اور تری میں پیدا ہو گیا ہے اور ان کی اپنی کمائی کے نتیجے میں ہوا‬
‫ہے۔امریکہ میں جب بھی کوئی صدر بنتا ہے تو وہ ایک الئبریری بناتا ہے۔جب وہ‬
‫چال جاتا ہے تو وہ الئبریری ختم کر دی جاتی ہے‪،‬امریکی صدر آئزن ہاور نے بھی‬
‫اپنی الئبریری بنائی اس میں ہر طرح کے ماہرین کو جمع کیا جنہوں نے ایک‬
‫ہفتہ غور وخوض کے بعد یہ نتیجہ نکاال کہ امریکہ کی اتنی برتری کے باوجود‬
‫ہم چار مسائل کو حل نہیں کر سکے۔اس میں سے ایک یہ تھا کہ ہم نسل‬
‫پرستی کا مسئلہ حل نہیں کر سکے۔ امریکی معاشرے میں جو ساختی ( ‪in‬‬
‫‪ ) built‬نسل پرستی ہے اسے ہم کئی طرح کی قانون سازی کے باوجود ختم‬
‫نہیں کر سکے۔دوسرے نمبر پر ہم معاشی عدم مساوات کا مسئلہ حل نہیں‬

‫‪8‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫کر سکے۔لبرل کیپٹل ازم کے ورثے میں یہ بات شامل ہے کہ عدم مساوات بڑھتی‬
‫جائے گی۔چنانچہ یہاں پر تحریکیں بھی چلیں ون پرسنٹ کے خالف ‪99‬‬
‫پرسنٹ‪،‬اور بھی ڈیٹا آتا رہتا ہے کہ دنیا میں تھوڑی سی اقلیت ہے جس کے پاس‬
‫بے شمار وسائل ہیں۔پچاس کے قریب لوگ ہیں جو دنیا کے کئی ملکوں سے‬
‫زیادہ دولت رکھتے ہیں۔تیسرا یہ کہ ہم خاندانی نظام کے زوال کا مسئلہ حل‬
‫نہیں کر سکے۔چوتھا یہ کہ مذہب کا معاشرے میں جو مقام ہونا چاہیے وہ ہم‬
‫حاصل نہیں کر پائے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اگر اس میں سے دو چیزیں اور شامل‬
‫کر لیں ایک ماحولیاتی آلودگی یعنی ‪climate change‬کا مسئلہ ہے جو اس‬
‫وقت عالمی اداروں کے ایجنڈے پر سرفہرست ہے اور دوسرا مغرب کی خون‬
‫آشامی کا معاملہ ہے‪،‬جس طرح مغرب نے نوآبادیات کے دور میں اور امریکہ‬
‫بہادر نے نائن ایلیون کے بعد خون بہایا ہے وہ اسی نسل پرستی کا اثر ہے۔انھیں‬
‫گوری چمڑی والے کے خون کے عالوہ کسی کے خون کی پرواہ نہیں ہوتی۔‬
‫میڈلین البرائٹ نے ایک موقعہ پر بہت آرام سے کہا تھا کہ اگر دنیا میں کچھ‬
‫ملین بچے مارے بھی گئے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔یا جیسے رمز فیلڈ کہا‬
‫کرتا تھا کہ یہ ‪collateral damage‬ہے۔ مذکورہ باال آیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے‬
‫یہ چھ چیزیں بنتی ہیں کہ وہ بعض اعمال کون سے ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالی‬
‫کو اتنے نا پسند ہو جائیں کہ اس طرح کا فساد برپا ہو جائے کہ اللہ تعالی انھیں‬
‫مزہ چکھائیں۔‬
‫مجھے مذکورہ باال ایشو میں سے تین مزید نمایاں محسوس ہوئے‬
‫ہیں مثالً‪ :‬معاشی عدم مساوات میں سود کا مسئلہ ہے‪،‬موجودہ حاالت میں‬
‫سود زیرو پرسنٹ پر ا ٓ گیا ہے۔جاپان کی معیشت تو پہلے سے ہی زیرو پرسنٹ‬
‫انٹرسٹ میں ہے۔سود کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ سود میرے ساتھ جنگ‬
‫ہے۔دوسرا مسئلہ جو بہت بنیادی ہے وہ یہ کہ انھوں نے مذہب کو ان دو ڈھائی‬
‫سو سال سے جسے مغرب کی نشاۃ ثانیہ کے سال کہا جاتا ہے‪ ،‬میں بالعموم‬

‫‪9‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫اور خاص طور پر بیسویں صدی کے پہلے پچاس سالوں میں بالخصوص مغرب‬
‫نے بڑی دانشمندی سے ثابت کیا کہ مذہب کا کسی سماجی ترقی سے کوئی‬
‫تعلق نہیں ہے بلکہ مذہبی قوتیں اس ترقی میں حائل ہیں‪،‬خدا کا وجود‪ ،‬الہامی‬
‫مذاہب یا الہامی ہدایات کا کوئی وجود اور فائدہ نہیں ہے۔خدا کو دفنا دیا‬
‫گیا(نعوذباللہ)‪،‬اخبارات میں یہ خبریں لگیں‪،‬یہ چیز دوسری جنگ عظیم کے بعد‬
‫تک رہی۔پھر روس میں کمیونزم بھی خدا کے خالف تھا اور سرمایہ دارانہ نظام‬
‫کا بھی یہی تقاضاتھا۔ مذہب کے ذیل میں ایک اور ڈویلپمنٹ جسے میں‬
‫انگریزی میں ‪tipping point‬کہتا ہوں کہ امریکہ یورپ کے مقابلے میں بہت حد‬
‫تک مذہبی رہا ہے۔یہاں مذہبی رحجانات رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ ایک مرتبہ‬
‫میاں طفیل محمد صاحب نے صدر ریگن کے بارے میں حمایتی بیان دیا تھاجب‬
‫ریگن نے خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے یو این میں پابندی لگانے کے‬
‫حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ اس پابندی کی حمایت نہیں کرے گا۔‬
‫امریکہ کے کنزرویٹو اور ریپبلکن ابھی تک مذہبی ہیں۔اور یہاں مرد‬
‫اور عورت کے فطری تعلق کے حق میں بات کی جاتی ہے۔اگرچہ امریکی‬
‫معاشرے میں دیگر رحجانات بھی موجود تھے۔ پچھلے تیس پینتیس سال میں‬
‫یہاں ‪ LGBT‬کی تحریک بھی شروع ہوئی‪،‬پہلے امریکہ میں ا ِسے کوئی شخص‬
‫کھلم کھال اور دیدہ دلیری سے بیان نہیں کر سکتا تھا اور یہ ساری چیزیں پردے‬
‫میں ڈھکے چھپے ہوتی تھیں عوامی سطح پر نمایاں نہیں ہوتی تھیں۔آہستہ‬
‫آہستہ اس معاشرے میں اس تحریک کو نہ صرف تسلیم کرنا شروع کر دیا بلکہ‬
‫اس کو اختیار کرنا شروع کر دیا۔ اس کی مخالفت کے جذبات کم ہونا شروع ہو‬
‫گئے۔پھر سپریم کورٹ نے باقاعدہ اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔مجھے یاد ہے‬
‫کہ اوبامہ کے زمانے میں جب‪ICNA‬نے آزاد روی اور اخالقی رویوں کی پامالی‬
‫کی اس تحریک کے خالف بیان دیا تو جو ہمار ے کیتھولک کا ٔونٹر پارٹ ہیں جن‬
‫کے ساتھ ہمارے انٹر فیتھ ڈائیالگ ہوتے ہیں ان کے ذمہ دار نے باقاعدہ ہمارے‬

‫‪10‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫مرکزی صدر نعیم بیگ صاحب کو ای میل کر کے ‪ ،‬مبارکباد دی کہ ’’ اکنا ‘‘ نے‬
‫یہ بہادری اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بیان جاری کیا ہے۔ہم یو ایس‬
‫کیتھولک فار بشپ تو ببانگ دہل اس کی مخالفت نہیں کر سکتے کیوں کہ‬
‫ہمارے اوپر اس کا بہت دبا ٔو ہے۔‘‘ گویا ہم جنس پرستی اور اس نوعیت کی‬
‫قباحتوں کے برسر ِ خود غلط ہونے کے باوجود مذہبی قوتوں پہ اتنا دبا ٔو تھا۔ اس‬
‫کے بعد امریکی سپریم کورٹ نے بھی اسے جائز قرار دے دیا ‪،‬میں ذاتی طور پر‬
‫یہ کہتا ہوں‪،‬جس سے اختالف کیا جا سکتا ہے‪،‬کہ یہ ٹپنگ پوائنٹ ہے۔کہ اس‬
‫معاشرے میں خیر کے عناصر دبتے جا رہے ہیں اور دیدہ دلیری کے ساتھ ا ٰلہی‬
‫اور فطری قوانین سے بغاوت کی جا رہی ہے۔‬
‫البتہ ہمیں یہ دیکھنا پڑے کہ ہمارے مسلمان ممالک سمیت باقی‬
‫ملکوں میں کیا کیا غلط ہو رہا ہے۔ البتہ مغربی ممالک میں مذکورہ باال وہ کام‬
‫ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالی کا غیض وغضب حرکت میں آیا ہے‪،‬عذاب‬
‫دے کر کسی قوم کو تباہ کرنے کی بات تو اب ممکن نہیں ہے ‪،‬اس لیے کہ رسول‬
‫اللہ وﷺ کی دعا کے بعد اب قیامت سے پہلے ایسا نہیں ہوسکتا۔ اب تو یہی‬
‫ہے کہ انسان کو تنبیہ کی جائے‪،‬اسے نقصان پہنچے۔تا کہ انسان سوچنے اور‬
‫سمجھنے کے بعد باز آئے‪،‬یہاں تک تو یہ ہوا‪،‬اس کے عالوہ ہم اس کو کس تناظر‬
‫میں دیکھ سکتے ہیں۔اس میں اور بھی کئی نکات ہو سکتے ہیں۔ ہم مسلمان‬
‫ممالک کے بارے میں سوچ سکتے ہیں‪،‬ہم چائینہ اور انڈیا کے بارے میں بھی‬
‫سوچ سکتے ہیں۔لیکن میں اس وقت کے واقعات کو دیکھتے ہوئے کہ کرونا کے‬
‫ایپی سنٹرز کون سے ممالک ہیں اور ایسی کیا چیزیں ہیں جو اللہ کو نا پسند‬
‫ہوئی ہیں کہ ان کے ہاتھوں کی کمائی سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہو‬
‫گیا ہے‪،‬اللہ انھیں مزہ چکھا رہا ہے۔اور ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھا رہا ہے تا‬
‫کہ وہ باز ا ٓ جائیں۔‬

‫‪11‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ آیا یہ ایک ہی واقعہ ہے یا واقعات کا تسلسل‬
‫ہے۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ واقعات کا تسلسل ہے۔جو ‪ 70‬کی‬
‫دہائی سے ہے۔اس میں اہل ایمان کا بہت بڑا کردار نہیں ہے‪،‬آپ اندازہ کریں کہ‬
‫‪ 1970‬سے پہلے دنیا میں اسالم اور مسلمانوں کی حالت کیا تھی۔معروف‬

‫‪12‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب نے ایک سفرنامہ لکھا تھا جس میں انھوں نے ذکر‬
‫کیا تھا کہ وہ کسی مغربی ملک میں یونیسف کے نمائندے کے طور پر مقیم‬
‫تھے انھوں نے عمرہ ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ‪،‬ٹریول ایجنسی والوں نے‬
‫پوچھا کہ تم عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ کیوں جانا چاہتے ہووہاں تو رہزن‬
‫ہیں‪،‬وہاں تو ڈ اکو لوٹ لیتے ہیں‪،‬وہاں صحرا ہے‪،‬ادھر کچھ نہیں ہے۔اور فالئیٹ‬
‫بھی ادھر ادھر سے گھوم کر جاتی ہے۔لیکن قدرت اللہ شہاب مصر رہے اور باال ٓخر‬
‫گئے۔پھر انھوں نے بتایا کہ اُس وقت کیا حال تھا اور اب کیا حال ہے‪،‬اب ہر منٹ‬
‫میں جدہ ائیرپورٹ پر دنیا بھر سے حاجیوں کی فالئیٹ اترتی ہے‪،‬گویا اس زمانے‬
‫میں اسالم سے مسلمانوں سے‪،‬اسالمی شعائر سے اس قدر زیادہ وابستگی اور‬
‫شعور نہیں ہوتا تھایہ ‪60‬ء اور ‪70‬ء کی دہائی کی بات ہے۔ان دنوں میں موالنا‬
‫مودودی نے کہا کہ اسالم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے تو غیر مسلم تو کجا‬
‫مسلمان اور علماء بھی اس کے حق میں نہیں تھے۔‬
‫ستّر کے وسط سے واقعات کا ایک تسلسل ہے۔ ‪oil embargo‬‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬پاکستان میں او آئی سی کی پہلی کانفرنس ہوتی ہے‪،‬سوویت یونین کا‬
‫حملہ ہوتا ہے۔ پھر افغانستان میں سوویت یونین کو پسپائی ہوتی ہے۔ہم اپنے‬
‫آپ کو تحریک اسالمی کا باخبر کارکن سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے ہمیں‬
‫اسالم اور مسلمانوں کے حوالے سے دنیا میں موجود بہت سے حقائق کا یا تو‬
‫علم نہیں ہوتا یا بہت جزوی معلومات ہوتی ہیں‪ 90‬کی دہائی تک بوسنیا کا‬
‫مسئلہ شروع نہیں ہوا تھا‪ ،‬تب تک ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ یورپ کے وسط‬
‫میں دو ممالک ایسے بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔اور وہاں اس‬
‫طرح کی تحریک شروع ہو گی۔پھر نائن الیون کا واقعہ ہوتا ہے اس کے اثرات آپ‬
‫کے سامنے ہیں۔امریکہ کا عراق اور افغانستان پر حملہ ہے۔اب وہاں سے بھاگنے‬
‫کی تیاری ہے۔ عرب بہار نے خطہ میں تبدیلیاں مرتب کیں اور پھر یہ کرونا وائرس‬
‫ہے۔اگر آپ ان واقعات کے تسلسل کی تعبیر کریں تو دو چیزیں بڑی نمایاں ہوتی‬

‫‪13‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫ہیں‪،‬ایک تو یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد فاشزم کا خاتمہ ہوا۔ اس کے‬
‫بعد پچھلے پینتالیس سالوں میں سوویت یونین یعنی کمیونزم کا خاتمہ‬
‫ہوا‪،‬ابھی سرمایہ دارانہ نظام میں دراڑ پڑی ہے اور اس کے تضادات سامنے آئے‬
‫ہیں۔اس کے مقابلہ میں اللہ تعالی خود اسالم کے لیے راستہ ہموار کر رہا ہے‬
‫جسے عالمی سطح پر پزیرائی ملتی جا رہی ہے۔مسلمانوں پر بہت ظلم ہوا ہے‬
‫لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اسالم کے بارے میں واقفیت زیادہ ہوئی ہے۔‬
‫یہ جو کرونا وائرس کا سلسلہ ہے یہ میرے خیال میں اس لیے ہے‬
‫کہ ہم اپنے خالق کی طرف پلٹ سکیں۔جو پچھلے پینتالیس سالوں سے اللہ‬
‫تعالی کی مشیت کے پیش نظر جو چیز ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ یہ کہ دنیا‬
‫کی ترقی کے بارے میں جتنے تصورات تھے‪ ،‬وہ سارے ناقص تھے۔جب تک آپ‬
‫الہامی ہدایت کو اس میں شامل نہیں کریں گے اور انسان کو مرکز نہیں بنائیں‬
‫گے‪ ،‬مسائل حل نہیں ہوں گے اس وقت مادی ترقی کے جتنے بھی تصورات ہیں‬
‫کہ زیادہ بم ہونے چاہیے‪،‬زیادہ فی کس آمدنی ہونی چاہیے۔ہمیں یہ بتانا چاہیے‬
‫کہ جب تک ہم خالق اور اس کی مخلوق کو اپنے تصورات کا مرکز نہیں بنائیں‬
‫گے‪،‬قومی‪،‬بین االقوامی اور علمی طور پر انسان ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی‬
‫انسان کا کوئی نظام کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ منطق تو واضح طور پر ناکام ثابت‬
‫ہو گئی ہے کہ انسانی مشکالت کو عقل ہی حل کر سکتی ہے کرونا نے اس بات‬
‫کی تصدیق کی ہے کہ ہم پیداوار اور ترقی کا جو اشاریہ دے رہے ہیں‪ ،‬جو فی‬
‫کس آمدنی کے میزانیے بنا رہے ہیں‪،‬ہم خوشحالی اوردولت کے جو گراف تیار کر‬
‫رہے ہیں‪،‬ہم اس ظلم کا حساب کتاب کر ہی نہیں رہے جو جدید تہذیب نے برپا‬
‫کیا ہوا ہے مثال ً نسل پرستی‪ ،‬معاشی عدم مساوات‪ ،‬خاندانی نظام کا زوال‪،‬‬
‫فضائی آلودگی وغیرہ۔‬
‫ایک اور چیز جو ہمیں نمایاں طور پرسامنے النی ہے وہ یہ کہ سب‬
‫کرائسس مسلمانوں یا صرف اسالم کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ عقیدے اور عقیدے‬

‫‪14‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫کے خالف کشمکش ہے چاہے ہمارا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ہمیں تمام‬
‫مذاہب اور عقائد کے لوگوں کو ساتھ مالنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ کیا کرنا ہے‪،‬‬
‫کیونکہ یہ ایک عالمی چیز ہے‪ ،‬تو اس وبا کا نظریاتی اور اخالقی جواب بھی‬
‫عالمی ہی ہوگا اگر سرمایہ دارانہ نظام اس وبا کا عالج تالش کرنے میں کامیاب‬
‫ہوجاتا ہے تو میر اخیال ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی شکل بہت خوفناک‬
‫ہوگی‪ ،‬حاالنکہ سرمایہ دارانہ نظام کا جومنشور ہے اس میں انسانی آزادی کی‬
‫بات کی جاتی ہے ‪ ،‬لیکن یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک بدلی ہوئی شکل ہوگی۔‬
‫اس وبا کے عالج کے حوالے سے امریکہ اور چائنہ میں جو ہم آہنگی ہور ہی ہے‬
‫اگر یہ ہوگئی تو یہ سرمایہ دا رانہ نظام کی ایک خوفناک شکل ہوگی جو آمریت‬
‫کے پہلو بہ پہلو پروان چڑھے گی۔ یہ ایسی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے جس‬
‫میںجبر کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کیاجاسکتا ہے ۔‬
‫اس لحاظ سے ہمیں جوچیز سوچنی چاہیئے کہ جس طرح اللہ‬
‫تعالی پچھلے ‪45‬سالوں سے حاالت کواس طرح سے ابھار رہاہے۔جدید تہذیب اور‬
‫ٰ‬
‫جدید انسان کے ہاتھوں جوفطرت کے ساتھ ہوا اس میں خالق اور انسان کو‬
‫نظرانداز کیاجارہاہے اس کو ہم کیسے نمایاں کریں۔اس حوالے سے ہمیں‬
‫غوروفکرکرنا چاہیئے۔ان امور کو ہم کس طریقے سے چیلنج کرسکتے ہیں‪ ،‬اس‬
‫کو چیلنج کرنے کے تین پہلو ہوسکتے ہیں۔ علمی ‪ ،‬عملی اور عالمی اداروں کی‬
‫سطح پر ۔معاشی عدم مساوات ‪،‬نسل پرستی ‪،‬یا خاندان کازوال جیسے ایشوز‬
‫صرف قانون بنانے سے تو نہیں ختم ہوں گے‪،‬جب تک لوگوں میں خالق اور اس‬
‫کے سامنے جوابدہی کا احساس نہیں ہو گا‪،‬اس وقت تک یہ عالمی بحران ختم‬
‫نہیں ہو سکتا۔اگر غربت بھی ختم کرنی ہے تو آپ کو عقیدے کو درمیان میں‬
‫النا ہو گا۔سارے واقعات کے نتیجے میں یہاں بھی احساس ہو رہا ہے‪،‬مثال اسٹیٹ‬
‫ڈیپارٹمنٹ میں ‪ Religion and Diplomacy‬کا پورا سیکشن بنا ہوا ہے۔یہ کبھی‬
‫مذہب کو مانتے ہی نہیں تھے اور نہ اسے زیر بحث النا چاہتے تھے۔لیکن اب انھیں‬

‫‪15‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫احساس ہوا کہ دنیا میں مذہب کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ بال شبہ مذہب‬
‫میں شدت پسندی بھی ہے‪،‬انتہا پسندی بھی ہے لیکن یہ ہر مذہب میں‬
‫ہے‪،‬جہاں مذہب نہیں ہے وہاں بھی بہت شدت پسندی ہے۔چائینہ کو آپ جیسی‬
‫بھی مثال بنائیں لیکن شدت پسندی اور آمریت تو وہاں بھی ہے۔لیکن اس کے‬
‫باوجود عقیدے کے بارے میں‪،‬الہامی راہنمائی کے بارے میں بات ہو رہی ہے تو‬
‫یہ بھی مجبور ہوئے کہ تسلیم کریں کہ مذہبی قوتوں کو انسانی اور سماجی‬
‫دائروں میںبے دخل کرنا غلط ہے۔اب وہ اس میں گنجائش نکالنے کی بات کر‬
‫رہے ہیں ‪ ،‬تو ہمیں بھی اب سوچنا چاہیے کہ ہم اسے علمی اور عملی طور پر‬
‫کیسے چیلنج کریں۔ہم ایک عادل اور متوازن معاشرے کا اشاریہ بنائیں۔دنیا‬
‫میں صرف ‪GDP‬اور ‪ Human Development index‬ہونا کافی نہیں بلکہ عادل‬
‫اور متوازن معاشرہ ضروری ہے۔‬

‫دنیا کے ہر ملک میں تھوڑے یا زیادہ لوگ ایسے ضرور پائے جاتے‬
‫ہیں جنہیں اقل ّیت کہا جاتا ہے۔ مذہبی ریاستوں میں یہ ‪minority‬کہالتے ہیں‬
‫مگر سیکولر ریاستوں میں انہیں مختلف نسلی گروہوں (‪)ethnic community‬‬
‫کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی کسی بھی آبادی کا‪ ،‬اس‬

‫‪16‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫ملک کے جزا اور سزا کے نظام میں کس قدر حصہ یا شمولیت ہے۔مثال‪،‬ہم‬
‫امریکہ‪،‬بھارت اور مالئیشیا کا ایک پائیلٹ پروجیکٹ کریں‪،‬جس میں ہم دیکھیں‬
‫کہ امریکہ میں جو اقلیتیں ہیں‪،‬ان میں سیاہ فام اور ہسپانوی لوگوں کا تناسب‬
‫کیا ہے‪،‬وہ اس ملک کی آبادی کا تقریبا ً ‪ 28‬فیصد بنتے ہیں۔لیکن جیلوں میں ان‬
‫کی شرح ‪ 9‬فیصد ہے۔اسی طرح ان کی سیاسی شراکت داری دیکھ لیں‪،‬ان کو‬
‫ایجوکیشن میں‪،‬سزا میں اور جزا میں دیکھ لیں۔اسی طرح بھارت کو دیکھ لیں‬
‫کہ اگر مسلمان ‪ 14‬فیصد ہیں تو جزا اور سزا میں ان کی شرح کیا ہے؟‬
‫مالزمتوں میں ان کی شرح کتنی ہے مالئیشیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‬
‫اس لیے وہاں دیکھنا پڑے گا کہ بدھسٹ‪،‬اور عیسائیوں کے حوالے سے وہاں جزا‬
‫اور سزا کا کیا تناسب ہے۔اس بنیاد پر ترقی کے سارے اشاریوں کو چیلنج کیا‬
‫جائے۔ہم ایک عادل اور متوازن معاشرہ کیسے بنا سکتے ہیں۔جس میں انسان‬
‫اور خالق دونوں کو مرکوز کیا جائے اس کا ایک اشاریہ ہو‪،‬اس پر عملی کام‬
‫ہو۔اس اشاریے کو ہم پروان چڑھانے کے بعد اس کو منوا بھی سکتے ہیں۔ابھی‬
‫تو اقوام متحدہ کی سطح پر بات بھی ہوتی ہے‪،‬قرآن و حدیث کی روشنی میں‬
‫اسے کیسے پروان چڑھایا جا سکتا ہے جس میں مرکز انسان اور خالق‬
‫ہو۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کے موجودہ منظرنامے کو چیلنج کیا جائے۔‬
‫ترقی اور گروتھ کا جو منظرنامہ ہے‪،‬اس کی جو ساخت ہے اسے علمی طور پر‬
‫چیلنج کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫اس طرح اسالمی تحریکیں ان کے لیے کرنے کے کاموں کی چند‬
‫تجاویز ہیں‪،‬اس کی تین سطحیں ہیں‪ ،‬پاکستان عالم اسالم اور عالمی …۔جماعت‬
‫اسالمی کی قیادت نے خدمت خلق کا جو کام کیا اس کی ہرسطح پر لوگوں نے‬
‫پزیرائی کی ہے۔الخدمت کے رضاکار تمام عبادت گاہوں میں پہنچے۔قرآن پاک‬
‫میں سورۃ الحج کی آیت ہے جس میں کہا گیا کہ اللہ تعالی انسانوں میں تبادلہ‬
‫کرتا رہتا ہے‪،‬بدلتا رہتا ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جو عبادت گاہیں مساجد‪،‬کلیسا‬

‫‪17‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫‪،‬مندر ہیں یہ محفوظ رہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اللہ عبادت گاہوں کی‬
‫‪spiritual sanitisation‬کر رہا ہے۔کیوں کہ ان عبادتگاہوں میں اتنی فرقہ واریت‬
‫اور سوداگری کا معاملہ ہو گیا تھا کہ اللہ نے ان کی ‪ spiritual sanitisation‬کی‬
‫تا کہ لوگ پاک صاف ہو کر اپنے ذاتی مقاصد سے آزاد ہو کر ان عبادت گاہوں‬
‫میں آئیں۔یہ تو جملہ معترضہ ہوا۔لیکن پاکستان میں کیا یہ ہو سکتا‬
‫ہے؟اسالمی ریاست کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے ‪ 1953‬میں ‪22‬‬
‫مشترکہ نکات تیار کیے تھے۔اسی طرز پر آج کوئی ایسی اسٹیٹمنٹ تیار کی‬
‫جائے‪،‬جس میں کرونا وائرس کے لحاظ سے یہی بات ہو اس پس منظر میں بھی‬
‫اور جو کہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔ اس پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ باقی‬
‫مذاہب کے رہنما‪،‬معاشی رہنما اور رائے عامہ بنانے والے ماہرین کو شامل کیا‬
‫جائے۔حال ہی میں افریقہ کے دانشوروں نے جس میں مسلمان اور عیسائی‬
‫سب شامل ہیں‪ ،‬نے افریقہ کے لیڈرز کے لیے ایک کھال خط جاری کیا ہے‪،‬اس میں‬
‫اگرچہ خالق واال نقطہ نہیں ہے لیکن دفاع کے بجائے انسانی ترقی پر زور دیا ہے۔‬
‫پھر اس پر تمام دانشوروں نے اپنے دستخط کیے ہیں۔دانشوروں میں اسکالرز‬
‫ہیں‪،‬مختلف جامعات کے پروفیسرز ہیں اور سیاسی لیڈر بھی شامل ہیں۔ہم‬
‫اسے اس پس منظر میں سمجھیں کہ ہم بھی اس معاملے کو پاکستان اور‬
‫انسان سے باالتر ہوکر سوچیں‪،‬اس طرح ایک بیانیہ ہوکہ عالم اسالم کی سطح‬
‫پر جو علماء کی مختلف تنظیمیں ہیں جن میں جامعۃ االظہر بھی شامل‬
‫ہے‪،‬یوسف القرضاوی صاحب کی مجلس العلماء بھی ہے۔ یہ وقت کی ضرورت‬
‫ہے کہ یہ نکات دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں کیوں کہ دنیا میں یہ پہلو نظر‬
‫انداز ہو رہے ہیں ‪،‬کہ کس طرح ہم انسان اور خالق پر دنیا کی توجہ کو مرکوز‬
‫کریں۔ اس میں پوپ بھی شامل ہوں‪،‬سنیگاگ بھی شامل ہو‪،‬اور دیگر مذاہب‬
‫کے رہنما بھی شامل ہوں۔یہاں جو ‪National Council of Churches‬ہے‪،‬جو‬
‫پروٹسٹنٹ کی آرگنائزیشن ہے‪،‬ان کے جو ‪ 37‬مین الئن ڈیمینیشن ہیں وہ‬

‫‪18‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫سکھوں‪،‬یہودیوں‪،‬ہند ٔوں اور بے شمار گروپس کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں تو‬
‫انھوں نے تمام رہنما ٔوں سے کہا کہ آپ اپنی مقدس کتابوں میں اس وائرس کے‬
‫ح والے سے‪،‬یاا س زمانے کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا ہے اور جو دعائیں ہو‬
‫سکتی ہیں ہمیں فراہم کریں تو وہ تمام مذاہب کے لوگوں نے جمع کر کے جاری‬
‫کی ہیں۔تو ہم بھی اس طرح کا موقف سوچ سکتے ہیں کہ جس میں یہ عقیدے‬
‫والے لوگ ہیں ان کو متحرک کیا جائے اس لیے کہ ابھی تک تو یہ لوگ متحرک‬
‫نہیں ہیں بلکہ یہ منتشر اور بکھرے ہوئے ہیں‪،‬یکسو نہیں ہیں۔ان کو بڑے پیمانے‬
‫پر کیسے یکسو کریں یہ سوچنے کی بات ہے۔اگر عالمی سطح پر بھی یہ کوشش‬
‫کی جائے کہ اسالمی تحریکیں‪،‬علماء‪،‬بڑے بڑے ادارے جن میں‬
‫االظہر‪،‬دیوبند‪،‬پوپ سب کو مال کر ہم یہ کہیں کہ جتنی بھی ترقی ہو رہی‬
‫ہے‪،‬جتنے بھی باالدستی کے نظریے ہیں‪،‬ان سب میں جب تک انسان فوکس‬
‫نہیں ہو گا‪،‬انسان کی فالح و بہبود فوکس نہیں ہو گی‪،‬اور خالق کی رہنمائی‬
‫فوکس نہیں ہو گی تو اس طرح کے معامالت پیش آتے رہیں گے‪،‬آزمائشیں آتی‬
‫رہیں گی۔ہم دنیا میں زیادہ تباہی کا باعث بنیں گے‪،‬بربادی کی عالمت بن جائیں‬
‫گے۔‬
‫اسی طرح ایک بات اور بھی ہے یہ جو ہمارا ریلیف کا کام ہے ہم‬
‫اس میں بغیرسوچے سمجھے امریکن طریقہ کار کی پیروی کر رہے ہیں‪،‬وہ یہ ہے‬
‫کہ فائدہ اٹھانے والے زیادہ ہونے چاہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اتنے لوگوں تک‬
‫تھوڑی تھوڑی خوراک پہنچا دی ہے۔یہاں عیسائیوں کی فالحی تنظیم کو سو‬
‫سال ہو گئے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ غربت کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر‬
‫غربت ختم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔اس دوران تو غربت‪،‬بھوک اور‬
‫افالس مزید بڑھ جائے گی۔چونکہ امریکہ میں ‪ 26‬ملین لوگ بے روزگار ہوئے ہیں‪،‬‬
‫پاکستان سمیت دیگر ممالک میں خدشات ہیں کہ معیشت بند رہے گی۔جو‬
‫لوگ خط غربت سے نیچے ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن جو لوگ خط غربت سے اوپر‬

‫‪19‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫ہیں ان میں سے بڑی تعداد کا خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔مسئلہ‬
‫یہ ہے کہ یہاں ریلیف اور فالح کا جو کام ہے اس میں یہ کہا جاتا ہے کہ تھوڑا‬
‫تھوڑا دیتے جاو۔ غربت کو برقرار رکھو اور غریب کو زندہ رکھو۔نہ غربت کا خاتمہ‬
‫ہو اور نہ غریب غربت سے باہر نکلے۔میں کوئی حتمی بات نہیں کر رہا لیکن ہم‬
‫جو کام کر رہے ہیں اس میں بحث کی ضرورت ہے‪ ،‬مباحثہ اس بات پر ہونا چاہیے‬
‫کہ وہ کیا طریقہ ہے کہ ہم کچھ غریب لوگوں کو غربت کے چنگل سے باہر نکال‬
‫لیں۔امریکہ میں بھی یہی بحث ہے‪،‬مثال واشنگٹن ڈی سی میں بھوک کے حوالے‬
‫سے ساالنہ کانفرنس ہو رہی تھی جس میں ایک تنظیم تھی جو صرف یہ کرتے‬
‫ہیں کچھ منتخب غریب لوگوں کی اسکریننگ کرتے ہیں ان کو مکان خرید کے‬
‫دیتے ہیں تا کہ یہ غربت کے چنگل سے باہر نکل آئیں۔ہمیں بھی یہ سوچنا ہو گا‬
‫کہ یہ جو ہم کام کرتے ہیں کہ کس طرح ہم لوگوں کو غربت کے چنگل سے‬
‫نکالیں۔مرکزی نقطہ یہ ہے کہ آج کل کے زمانے میں ہم کیسے اسالمی تناظر‬
‫میں اسے ڈھالیں۔‪Terminology‬بدلیں‪،‬ہم بنیادی نقطہ نظر بدلیں‪ ،‬مصر میں‬
‫محمد مرسی کی حکومت آئی تو امریکہ میں آئے ان کے نمائندوں سے ہم نے‬
‫یہی گفتگو کی کہ ہمارے لیے چیلینج یہ ہے کہ کیا ہم ایک سلجھے ہوئے سرمایہ‬
‫دارانہ نظام کو ‪ sustain‬کریں گے یا واقعی کوئی اسالمی انقالب کی طرح کی‬
‫تبدیلی الئیں گے‪،‬یہ چیلنج ہے‪،‬اسی لحاظ سے اسالمی تحریکوں کے لیے بھی‪،‬اہل‬
‫ایمان کے لیے بھی چیلنج ہے کہ ہم ‪ Refined Capitalism‬کو یا ‪Benevolent‬‬
‫‪Capitalism‬جیسی اصطالحات میں تھوڑی بہت تبدیلی کرتے ہوئے گزارہ کریں‬
‫گے یا ہم اپنی اصطالحات‪،‬اپنے نظریے‪،‬اپنے یقین ‪،‬جو قرآن اور حدیث سے اخذ‬
‫کردہ ہیں ان کو ‪ 21‬ویں صدی کی زبان میں پیش کریں گے۔یہ بھی ہماری ذمہ‬
‫داری بنتی ہے۔‬
‫ایک سوال یہ بھی کیاجاسکتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ‬
‫اسالمی تحریکیں‪،‬مختلف الخیال لوگ اور مختلف العقائد مذاہب کے لوگ سب‬

‫‪20‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫اکٹھے ہو کر اس ظالمانہ اور جابرانہ نظام کے مقابلے میں الگ سے ایک معاشی‬
‫نظریہ پیش کر سکتے ہیں؟ اس کا ایک ممکنہ جواب یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے‬
‫م رحلے پہ عقائد رکھنے والے لوگوں کا محاذ بننا ضروری ہے چاہے وہ کمزور ہی‬
‫کیوں نہ ہو۔لیکن ان کا اکٹھا ہونا بہت ضروری ہے۔اسے اسالم اور غیر اسالم کے‬
‫بجائے عقائد رکھنے اور نہ رکھنے والوں کی بنیاد پر بنایا جائے۔ باقی بے شمار‬
‫لوگ ہوں گے جو کسی طرف نہیں ہوں گے لیکن اصل کام متحرک لوگوں کو‬
‫منظم اور موباالئز کرنے کا ہوتا ہے۔ جس طرح سے سفارتی معامالت کا آغاز ہوتا‬
‫ہے کہ پہلے لوگ ملتے ہیں‪،‬بات کرتے ہیں‪،‬معاہدے‪ ،‬فیصلے اور پالیسیاں بہت‬
‫بعد میں جاکر بنتی ہیں اگر یہ ایک عالمی بحث ہے جس میں ہمیں سوچنا‬
‫چاہیے کہ ہم کہاں اپنا وزن ڈالیں اور ایک بالک بنائیں۔اتحاد بنائیں جس میں‬
‫مسلمانوں کے عالوہ سارے عقائد شامل ہوں گے۔ اس اتحاد کا مقصد واضح ہو‬
‫تو شائد اس طریقے سے ہم کچھ کام کر سکیں۔‬
‫کچھ عرصہ سے ایسے واقعات کی توجیہہ میں ہم یہ پیشنگوئی‬
‫کرتے نظر آتے ہیں کہ آنے واال دور اسالم کا ہے۔ اس حوالے سے تھوڑا مجھے تامل‬
‫ہوتا ہے کہ یہ سمجھوں یا اس سے اتفاق کروں کہ بس جی آئندہ ہمارا ہی زمانہ‬
‫ہے‪،‬میرا خیال ہے کہ ہم جو متحدہ مسلم بالک کی خواہش رکھتے اور بات کرتے‬
‫ہیں اس پر ابرہہ والی کہانی صادق آتی ہے جو کعبہ پر حملہ آور ہوا تھا۔حضرت‬
‫عبدالمطلب اس کے پاس گئے‪،‬اسے کہا کہ میرے جانور واپس کر دو ابراہا نے‬
‫کہا کہ تم کیسے لیڈر ہو کہ تمھیں اس بات کی فکر نہیں ہے کہ ہم اللہ کے گھر‬
‫کو تباہ کر دیں گے(نعوذباللہ) اور تم اپنے جانوروں کی فکر میں ہو۔تو‬
‫عبدالمطلب نے کہا کہ اس کا جو مالک ہے وہ اسے خود ہی بچا لے گا تم میرے‬
‫جانور مجھے واپس کر دو۔اس وقت مسلمان تو کوئی ایکشن نہیں لے رہے‪،‬اللہ‬
‫تعالی ہی سب کچھ کر رہا ہے اور اللہ ہی کفار کو ان کی کمائی کا مزہ چکھا رہا‬
‫ٰ‬
‫تعالی ہی دنیا کو باندھ کر الہامی رہنمائی کی طرف ال رہا ہے۔ہمارا شائد‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔اللہ‬

‫‪21‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫وہ مقام نہیں آیا لیکن اگر ہم اس پر سوچیں اور اس پر کام شروع ہو جس پر‬
‫بالشبہ بے پناہ کام کی ضرورت ہے‪،‬افراد سازی ہے‪،‬علمی کام ہے‪،‬چیلنجز بھی‬
‫ہیں‪،‬پریس کو سمجھنا بھی ہے‪،‬مثبت تنقید بھی ہے‪،‬اور ہم خیال مذہبی اور‬
‫سیاسی قوتوں سے تعاون بھی۔ اگر حکومت کے طور پر مسلمان اکثریتی‬
‫ممالک وہ نظام نافذ کر سکیں اور جہاں غیر مسلم اقلیت میں ہیں اور وہاں‬
‫کوئی عملی تصویر پیش کر سکیں تو دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی‬
‫جاسکتی ہے تاہم یہ ابھی لمبا معاملہ ہے۔یہ البتہ ضرور ہے کہ دنیا میں تبدیلیاں‬
‫بہت تیزی سے ہو رہی ہیں‪،‬ہمیں ابھی صف بندی کرنا اور ان چیلنجز کا مقابلہ‬
‫کرنے کے حوالے سے ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ لمبی لڑائی ہے۔‬

‫‪22‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬


‫جہاں تک اس سوال کا تعلق کا ہے کہ پاکستان میں کیا کریں‪،‬اس‬
‫خطرے کے حوالے سے حکومت سوچ رہی ہے اور عوام نہیں سوچ رہے تو اس‬
‫میں میرا اپنا خیال یہ ہے کہ وائرس کا اتنا خطرہ نہیں ہے جس قدر یہ کہ دنیا‬
‫کی معیشت بیٹھ رہی ہے۔اس زوال پزیر معیشت کا جو ہم پر اثر ہو گا اس پر‬
‫سوچنا چاہیے‪،‬کہ کسی جگہ پر یہ اثر کم ہو گا‪،‬کسی جگہ زیادہ ہو گا۔چائنہ کو‬
‫بھی یہ مسائل ہوں کہ کہ اگر وہ چیزیں بنائیں گے تو ڈیمانڈ نہیں ہو گی تو وہ‬
‫چیزیں کدھر جائیں گی۔امریکہ کو بھی اگر یہ ہو کہ دنیا میں طلب ہی ختم ہو‬
‫رہی ہو تو یہ اپنی چیزیں کیسے بیچیں گے۔تو اس میں ہمارا ملک بھی آتا ہے کہ‬
‫ہم اگر برآمد ہی نہیں کر سکتے‪،‬ہم درآمد ہی نہیں کر سکتے اور ہمارے لوگ‬
‫عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا شکار ہو رہے ہیں تو اس لحاظ سے‬
‫میرا خیال تو یہ ہے کہ معیشت کی بحالی اور لوگوں کو محفوظ رکھنے کا بھی‪،‬‬
‫تو اس میں لڑائی جھگڑے کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کاساتھ دینا چاہیے۔‬

‫‪23‬‬ ‫(ترتیب و تلخیص‪ :‬سیدوقاص جعفری)‬

You might also like