You are on page 1of 22

‫نیو ورلڈ آرڈر اور چیلنجز اسالم‬

‫اولڈورلڈ آرڈر‪:‬‬
‫حضرت عیسی علیہ السالم کے قتل کی سازش اور ان کے آسمان کی طرف‬
‫اٹھائے جانے کے واقعے سے جدید دنیا کا آغاز ہوتا ہے ۔جدید دنیا کی تاریخ کو‬
‫صوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اس میں سے ایک دنیا کی قدیم تربیت ہے‬ ‫دو ح ّ‬
‫عیسی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫جسے انگریزی میں اولڈ ورلڈ آرڈر کہتے ہیں یہ تقسیم حضرت‬
‫السالم کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے ستر سال بعد شروع ہو کر انقالب‬
‫فرانس تک چلتی ہے۔دنیا کی دوسری تقسیم انقالب فرانس سے شروع ہو کر‬
‫عصر حاضر تک جاری ہے اسے" نیو ورلڈ آرڈر" یعنی دنیا کی نئی ترتیب کہا‬
‫جاتا ہے ۔اولڈ ورلڈ آرڈر نیو ورلڈ آرڈر دونوں کی تاریخی جڑیں یہودیوں کی‬
‫عیسی علیہ السالم کی قتل کی سازش تیار کرنے اور حضرت عیسی‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫علیہ السالم کے آسمان کی طرف اٹھائے اٹھائے جانے سے ہی شروع ہوتی ہے‬
‫اولڈ ورلڈ آرڈر کے ادوار ‪:‬‬
‫بنی اسرائیل( یہودیوں) کی قدیم تاریخ‪:‬‬
‫'' بنی اسرائیل کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں''‬
‫پہال دور‪ :‬بنی اسرائیل کے کناروں سے مصر منتقل ہونے تک‬
‫دوسرا دور‪ :‬خروج مصر سے لے کر فلسطین میں آبادکاری تک‬
‫تیسرادور‪ :‬بخت نصر کا حملہ اور بابل میں پہلی جالوطنی‬
‫چوتھا دور‪ :‬بابل سے واپس لے لے کر دوسری جالوطنی تک‬
‫‪؎1‬‬

‫عیسائیوں کی تاریخ کو مندرجہ ذیل ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا‬


‫ہے‪:‬‬
‫پہال دور‪ :‬دور ابتالء‬
‫دوسرا دور‪ :‬عیسائیت کے عروج کا آغاز‬
‫تیسرا دور‪ :‬یورپ میں عیسائیت کا عروج‬
‫چوتھا دور‪ :‬یورپ میں عیسائیت کے زوال کا سفر‬
‫پانچواں دور‪ :‬عیسائیت کا زوال‬
‫‪؎2‬‬

‫نیو ورلڈ آرڈر‪:‬‬


‫مغربی دنیا نے ہمیشہ سے ہی اسالم کو ختم کرنے کی سازش کی ہےمغربی دنیا‬
‫کی اسالم سے جو کشمکش ہے اس کا سلسلہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫سے ہی شروع ہوجاتا ہے دور جدید میں نیو ورلڈ آرڈر کی شکل میں عالم اسالم‬
‫کے خالف ایک بڑی سازش کی گئی ہے۔جس کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا پر‬
‫امریکی حکومت کا غلبہ اور باالدستی قائم ہو اور عالم اسالم کی قوت کا خاتمہ‬
‫کیا جائے‬

‫نیو ورلڈ آرڈر کا آغاز‪:‬‬


‫‪ 11‬ستمبر ‪ 1990‬کی بات ہے جب امریکی صدر جارج بش نے پہلی مرتبہ نئے‬
‫عالمی نظام کی اصطالح اپنی ایک تقریر میں استعمال کی تھی۔‬
‫اس نئی اصطالح کا استعمال کرنا تھا کہ پوری دنیا میں اس کی معنویت کے‬
‫بارے میں سیاسی تشریحات شروع ہوگئیں۔یہ ایک ایسی اصطالح تھی جو کہ‬
‫بظاہر مبہم بھی معلوم ہوتی تھی اور بامعنی بھی نئے عالمی نظام کا تصور یہی‬
‫ہے کہ پوری دنیا پر امریکی کو کا غلبہ اور باالدستی قائم ہونی چاہیے‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کا مفہوم‪:‬‬
‫موجودہ بین االقوامی تعلقات میں نیو ورلڈ آرڈر کی اصطالح کا اکثریت سے‬
‫استعمال خلیج کی جنگ کے بعد شروع ہوا۔اس لئے عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ‬
‫نے خلیج کی جنگ میں عراق کی شکست کے بعد ایک نیا عالمی نظام کا نقشہ‬
‫پیش کیا مگرحقیقت یہ ہے کہ نئے عالمی نظام کا تصور امریکہ کی خارجہ‬
‫نے جینوا معاہدے پر دستخط ‪9‬پالیسی میں اس وقت ابھرا جب امریکہ اور روس‬
‫کیے تھے۔جیو معاہدے پر دستخط کر دینے سے روس ‪ 40‬سال سے جاری سرد‬
‫میں بہت پیچھے رہ گیا اور امریکہ واحد فتح کی حیثیت سے جنگ کی دوڑ‬
‫‪-----‬‬ ‫‪-‬کی جگہ‬ ‫ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ دنیا میں‬
‫‪--------‬نظام نے لے لی اور امریکہ نے نیو ورلڈ آڈر کی شکل میں پوری دنیا‬
‫پر بال شرکت غیرے اپنی حکمرانی اور سربراہی کے تصور کو عمال ایک نظام‬
‫بنانے کی کوشش شروع کر دیں۔گویا نیو ورلڈ آرڈر سے امریکہ کی وہ خارجہ‬
‫پالیسی مراد ہے جس کے تحت پوری دنیا کے نظام کو اپنی فوجی 'سیاسی اور‬
‫اقتصادی مفادات و ترجیحات کے تابع بنانا چاہتاہے تاکہ وہ عرصہ دراز تک اپنی‬
‫عالمی یکتائی کی روز پر بین االقوامی سرمایہ داریت اور استحصالیت کو تحفظ‬
‫دے سکے۔ ‪؎3‬‬

‫وولڈ آرڈر بطور نظریہ‪:‬‬


‫واشنگٹن پوسٹ کا نا مہ نگار '' ڈان اوبرڈؤرفر'' رقم طراز ہے‪:‬‬
‫'' ‪ 23‬اگست (‪ )1990‬کو صدر بش نے اور ان کے قومی سالمتی کے مشیر بر‬
‫ینت سکو کرافٹ ' چھتیاں گزارنے کے صدارتی مسکن کے قریب بحراٹالنٹک‬
‫میں حاالت حاضرۃ پر غور وفکر اور مچھلی کے شکار کے لیے گئے۔ صدر‬
‫امریکہ سے ‪ 4‬گھنٹے کی مالقات کے بعد واپس آئے۔ اس سفر اور مالقات کا‬
‫حصہ تین مچھلیاں اور امریکی خارجہ پالیسی کا ایک نیا تصور تھا جو بعد کے‬
‫دنوں میں صدر بش کے تمام تر گرم گفتاری کا مرکز ومحور بن گیا یعنی'' نیا‬
‫عالمی نظام'' ۔‬
‫پھر چند ہی ہفتوں کے اندر نئے ''عالمی نظام'' کے نعرے نے امریکہ کی نئی‬
‫عالمی پولیسی کے مرکزی ستون کی حیثیت اختیار کرلی۔امریکی کانگرس میں‬
‫خطاب سے لےکر اقوام متحدہ میں خطابت صدر بش نے نئے عالمی نظام کا‬
‫غلغلہ بلند کیا۔ڈان اوبر ڈورفر کے بقول ‪ :‬اگست ‪ 1990‬سے مارچ ‪ 1991‬تک‬
‫صدر بش نے اپنے بیانوں اور تقریروں میں ‪ 42‬مرتبہ اس نئے'' عالمی نظام‬
‫''کی بات کو پورے زوروشور سے پیش کیا۔اور اسے مستقبل کی پالیسی کی‬
‫اساس قرار دیا اس سلسلے میں جو دعوے کئے گئے اور جن حسین الفاظ کا‬
‫سہارا لیا گیا ان کی چند جھلکیاں صورتحال کو سمجھنے میں مددگار ہوگی۔‬
‫‪ 11‬ستمبر ‪ 1990‬امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے‬
‫کہا ‪:‬‬
‫ہم آج ایک منفرد اور غیرمعمولی تاریخی لمحے کی دہلیز پر کھڑے ہیں خلیج کا‬
‫بحران بالشبہ بہت خطرناک اور گھمبیر بحران ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ‬
‫نادر موقع بھی فراہم کر رہا ہے جس کے نتیجے میں عالمی طاقتوں کے درمیان‬
‫تاریخی تعاون کا نیا دور شروع ہو جائے گا ان آفت زدہ ایام کے غبار سے ہمارا‬
‫پانچواں مقصد برآمد ہو سکتا ہے۔یعنی ایک نیا عالمی نظام ایک ایسا دنیا دور‬
‫جو طاقت کے استعمال کے خطرات سے پاک ہو جو انصاف کے قیام کے لئے‬
‫قوی اور توانا اور جس سے میں امن و سالمتی کا حصول زیادہ ممکن ہے۔‬
‫امریکی صدر کے قومی سالمتی کے مشیربرینٹ سکو کرافٹ نے کہا‪:‬‬
‫ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم ایک نئے عالمی نظام کی ابتدا کر رہے ہیں اور یہ نیا‬
‫نظام امریکہ اور روس کی مخاصمت کے دور کے چکناچور‬
‫ہونے سے جنم لے رہا ہے ۔ ہم حالیہ بحران کو ساری دنیا‬
‫میں اس تصور کو منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں‬
‫اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ مستقبل کے لئے‬
‫بڑا اہم ہیں ۔ ہم اس کے بحران سے ایک نیا نظام بنا لینا‬
‫‪؎4‬‬ ‫چاہتے ہیں۔''‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کی بنیاد‪:‬‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کے بنیادی تین ستون یہ ہے‪:‬‬
‫(‪)1‬جمہوریت‬
‫(‪)2‬انسانی حقوق‬
‫(‪)3‬آزاد معیشت‬
‫جمہوریت کے فروغ انسانی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں نیو ورلڈ کے نعرے‬
‫سے پہلے اور بعد میں امریکہ کا جو عملی کردار اوریکارڈ رہا اس کے متعلق‬
‫اخبارات اور رسائل میں کافی کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔گریناڈا' ابو سنسیا '‬
‫الجزائر' کشمیر اور فلسطین وغیرہ کے متعلق مغربی ممالک امریکہ کی‬
‫سرکردگی میں ظاہری اور خفیہ طور پر جو کچھ کرتے رہے ہیں اسے سے نیو‬
‫ورلڈ آرڈر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی کلی کھل جاتی ہے۔‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کے ضمن میں سابق امریکی صدر مکسی کے ایک مضمون کو‬
‫مندرجہ ذیل اقتباس بھی قابل غور ہے جسے امجد حیات ملک یوں لکھتے ہیں۔‬
‫'' امریکہ' روس 'یورپ 'جاپان' چین اور بھارت کو پرزور طریقے سے کہتا‬
‫ہوں کہ ان کے فائد ہ اس میں ہے کہ وہ مسلم بنیاد پرستی کی بڑھتی ہوئی طاقت‬
‫کے خالف اپنی طاقتیں یکجا اور مرکوز کریں۔ مسلم ملکوں کی فوجی حکمت‬
‫عملی ان سب کی جغرافیائی پوزیشنیں آبی' زرعی اور صنعتی وسائل کی فراوانی‬
‫ان کے وسیع منڈیاں اور ان کی حالیہ ٹیکنالوجی میں کامیابیاں ایک نہ ایک دن‬
‫عالم اسالم کے قوت بن سکتی ہے جو دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے‬
‫گی''‬
‫‪؎5‬‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کا خاکہ‪:‬‬
‫امریکی مفاد کو درپیش آنے والے خطرات کا تعلق صرف عسکری‬
‫خطرات اور معاشی مفاد سے ہی نہیں بلکہ اس میں دوسرے ملکوں‬
‫کاآزاد رویہ بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے جس کی حیثیت ایک طرح سے‬
‫بغاوت کی ہوگی۔ پھر اس ذیل میں'' مسلمانوں کی بنیاد پرستی'' بھی آتی‬
‫ہے جو اس نظام کے علم برداروں کی نگاہ میں مغربی تہذیب و تمدن‬
‫کی نعمتوں کو ٹھکرا کر ایک ''فر سودہ نظام'' کے ا حیا کی حماقت‬
‫کرنے کے مترادف ہے اس طرح جب بھی کوئی ملک جوہری توانائی‬
‫کے میدان میں اپنے پاوں کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا وہ باغی‬
‫سمجھا جائے اور اس جرم میں زدنی ہو گا۔‬
‫امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات اب نہیں گہرائیوں سے آشنا ہو رہے ہیں‬
‫خلیج کے اس بحران میں امریکہ اسرائیل کی مالی سرپرستی سے بڑھ‬
‫کر اب اسرائیل کا محافظ بن گیا ہے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل اس امر‬
‫کا بچشم سر مشاہدہ کررہا ہے کہ اس کے ایک دوست ملک کی افواج‬
‫کے ایک بہت بڑے دشمن کو قابو میں کرنے اور اسکی عسکری‬
‫صالحیتوں کو ختم کرنے کا کام انجام دے رہی ہیں ۔‬
‫ہارورڈیونی ورسٹی کے پروفیسر سیمو ئیل پی ہنسٹنگٹن کے مقالے کا کچھ‬
‫حصہ پیش خدمت ہے۔ جو استعاری تصویر کو مکمل کرنے میں مدد دگا‪:‬‬
‫ریاست ہائے متحدہ امریکہ وہ واحد ملک ہے جسے سپرپاور کہا جا سکتا ہے‬
‫اور اس کے ساتھ چھ ممالک ایسے ہیں جنہیں بڑی طاقتیں کہنا مناسب ہو گا۔‬
‫یعنی روس 'جاپان' چین 'جرمنی' برطانیہ اور فرانس۔‬
‫امریکہ کے تین بڑے اسٹرےٹیجک مفادات‪:‬‬
‫‪1‬۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ سے سب سے بڑی عالمی طاقت کی حیثیت سے‬
‫اپنی حیثیت کو باقی رکھے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آنے والے عشروں میں‬
‫جاپان کے معاشی چیلنجز کا بھی مقابلہ کیا جائے۔‬
‫‪2‬۔ یورپ اور ایشیا میں کسی باالتر سیاسی یا فوجی قوت کو نہ آنے دیا جائے۔‬
‫‪ -3‬تیسری دنیا میں امریکہ کی حقیقی مفادات کا تحفظ اور اس میں اولیت خلیج‬
‫فارس اور وسط امریکہ میں ریاست ہائے متحدہ کے مفادات کے تحفظ کو حاصل‬
‫ہوگی۔‬
‫‪؎6‬‬
‫نیو ورلڈ آررڈر کی تشکیل‪:‬‬
‫جب ہللا کی حکومت اور انسان کی حکومت کا رشتہ انقالب فرانس کے بعد ٹوٹ‬
‫گیا تو یورپی انسام کی زندگی میں متعدد بڑے خال ء پیدا ہوے۔‬
‫تعالی حاکم ٰ‬
‫اعلی نہیں ہے تو پھر اب حاکم‬ ‫‪1‬۔ جب انسان کی حکومت کے لیے ہللا ٰ‬
‫اعلی کون ہے؟‬
‫ٰ‬
‫‪2‬۔ اگر بادشاہ خدائی اختیار سے لوگوں پر حکومت نہیں کر رہا تو اب کون‬
‫حکومت کر رہا ہے؟‬
‫‪3‬۔ ہللا کی حکومت میں تو انسان ہللا کی رضا حا صل کرنے کے لیے زندگی بسر‬
‫کرتا تھا‪ ،‬جنت حاصل کرنا چاہتا تھا اور دوزخ سے بچنا چاہتا تھا ‪ ،‬اب جبکہ ہللا‬
‫کی حکومت نہیں رہی تو انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہو گا ؟‬
‫ان سواالت کے جواب ات میں ہی ' نیو ورلڈ آرڈر ' کی تشکیل ہیں اور اس کی‬
‫فکری بنیاد یں ہیں ۔ آج کا ''نیو ورلڈ آرڈر ' تحریک تنویر یت کی پیداوار ہے۔ یہ‬
‫ایک مکمل اور علیحدہ دین ہے۔ اس نظام نے حاکمیت اعلی اور بادشاہ کے‬
‫اختیارات کے خال کو پورا کرنے کے لیے جمہوریت کا نظریہ پیش کیا۔ دوسری‬
‫طرف انسان کے مقصد زندگی کا خالء کو پر کرنے کے لئے اس نے سرمایہ‬
‫درانہ نظام پیش کیا جس میں انسان خدا کی رضا کے حصول کی بجائے مسلسل‬
‫مادی ترقی کرسکے ۔ تیسری طرف اس نظام میں شاہی فوجوں کو عسکری‬
‫نظریات میں تبدیلیاں کیں۔ اور ان کی تنظیم نو کرکے قومی فوجیں بنا دیں۔ یہ‬
‫تمام نظریات اور نظام یورپ میں انقالب فرانس کے بعد ایک دو دن میں نہیں‬
‫بنائی بلکہ ان کی تشکیل میں کئی دہائیاں صرف ہوئی اور کئی انقالب آئے اس‬
‫لیے نیو ورلڈ آرڈرکو ہم چار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں‪:‬‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کے ادوار‪:‬‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کا پہال دور‪ :‬انقالب فرانس سے جنگ عظیم اول تک‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کا دوسرا دور‪ :‬جنگ عظیم اول کے اختتام سے جنگ عظیم دوم‬
‫کے اختتام تک‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کا تیسرا دور‪ :‬روس اور امریکہ کی سرد جنگ‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کا چوتھا دور‪ :‬خلیج کی پہلی جنگ سے تاحال‬
‫‪؎7‬‬

‫نیو ورلڈ آرڈر کے بنیادی خدوخال‪:‬‬


‫‪1‬۔ امریکہ دنیا کی واحد عالمی طاقت ہے دنیا کے تمام ممالک کو اس‬
‫حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا امریکا سے اور خود آپس میں تعلقات‬
‫استوار کرنے میں اسے بنیاد بنا نا ہو گا۔‬
‫‪2‬۔ روس میں اشتراکیت کی پسپائی اور روسی ایمپائر کا تتربترہونا‬
‫صرف اشتراکیت کی شکست ہی نہیں بلکہ مغربی لبرلزم سرمایہ داری‬
‫'جمہوری طرز حکومت اور منڈی کی معیشت کے تصور کی فتح ہے‬
‫جس طرح امریکہ دنیا کی واحد عالمی طاقت ہے اسی طرح مغربی‬
‫لبرلزم اور سرمایہ داری اب دنیا کا غا لب سیاسی اور معاشی نظام بھی‬
‫ہے۔‬
‫‪3‬۔ سرد جنگ کے دور تحدید کے مقابلے میں نئے نظام میں اجتماعی‬
‫سالمتی کا انتظام کیا جائے جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔ البتہ اس کو‬
‫عالمی ادارہ اقوام متحدہ کی چھتری حاصل ہوگی۔‬
‫‪4‬۔ دنیا میں کہیں بھی اور خصوصا یورپ ایشیا اور افریقہ میں اب کسی‬
‫ملک کو یہ موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ ایک عالمی قوت کی حیثیت‬
‫سے ابھر سکے۔ عالقائی توازن کی بھی حفاظت کی جائے گی جہاں‬
‫کہیں عالقائی توازن کو خطرہ ہوگا یعنی عالقے میں جن قوتوں کو‬
‫باالدستی حاصل ہے ان کی حیثیت کو تبدیل ہونے سے بچایا جائے گا‬
‫۔شرق اوسط میں اسرائیل کا تحفظ اور پورے عالقے میں اس کی‬
‫باالدستی اس نظامی نظام کا ایک الزمی حصہ ہے‬
‫‪5‬۔ امریکہ کے عالمی مفادات کا تحفظ جس میں سرفہرست تیل کی رسد‬
‫قیمت اور ماخذ پر کنٹرول ہے اور یہ با لواسطہ ہو یا بالواسطہ۔ اس‬
‫طرح امریکہ کے دوسری مفادات کی دیکھ بھال جن میں عالمی منڈیوں‬
‫تک امریکی مصنوعات کی رسائی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔‬
‫‪6‬۔ اسلحہ کی تیاری تحقیق اور ترقی کا نظام پر کنٹرول جس کے نتیجے‬
‫میں دنیا میں ایسے دوسرے ممالک یا مرکز وجود میں نہ آ سکے جو‬
‫اسلحہ کے میدان میں امریکہ کی باالدستی کیلئے اب یا مستقبل میں‬
‫خطرہ بن سکتے ہوں۔ اس سلسلے میں امریکہ کو نہیں البتہ دوسرے‬
‫ممالک کو جوہری کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے فروغ سے‬
‫روکنا فوری اہمیت رکھتا ہے ۔‬
‫‪7‬۔ روس' جرمنی' جاپان 'برطانیہ اور فرانس کو بڑی طاقت تو ماننا البتہ‬
‫انہیں عالمی طاقتوں کی حیثیت سے تسلیم نہ کرنا اس امر کی کوشش کہ‬
‫ان میں سے کوئی بھی ملک مستقبل میں عالمی طاقت نہ بن سکے۔ اس‬
‫ضمن میں روس کو معاشی طور پر اپنے زیر اثر النا جرمنی اور جاپان‬
‫کی معاشی قوت اور مسابقت کی طاقت کو عالمی اشتراکت کے کسی نظام‬
‫کے تابع کرکے حریف عالمی قوت بننے سے روکنا۔‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کے بنیادی اہداف اور تر جیحات‪:‬‬
‫یہ وہ بنیادی اہداف ہے جو امریکہ کے نئے عالمی نظام کی حدود اربعہ کی‬
‫نشان دہی کرتے ہیں انہیں اہداف کے نتیجے کے طور پر عالمی سیاست میں‬
‫امریکہ کی ترجیحات بدل چکی ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ روسی چیلنج کے خاتمے سے چونکہ اب افغانستان کی وہ پہلے جیسی اہمیت‬
‫نہیں رہی اس لیے پاکستان کی جیو اسٹرےٹیجک اہمیت میں بھی فرق آیا۔ تاہم‬
‫اب بھی ضرورت پڑی تو امریکہ ان دونوں ممالک کے سابقہ تعلقات کی تاریخ‬
‫دہرا کر ضردر مطلوبہ منافع حاصل کرے گا۔‬
‫‪2‬۔ روس اب مخالف نہیں حلیف قوت ہے اس لئے وسط ایشیا میں کسی ایسی‬
‫قوت کا ابھر نا جو روس کے لیے خطرہ بن سکتی ہو مغرب کے لئے قابل قبول‬
‫نہ ہوگا۔‬
‫‪3‬۔ اسرائیل کی باالدستی کیلئے ضروری ہے کہ فلسطین کے مسائل کو تحلیل‬
‫کردیا جائے یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ اپر ''اسالمی بنیاد پر ستوں '' کو‬
‫قابو میں الیا جائے یا کچل دیا جائے دوسری طرف اسرائیل کو اس کے سارے‬
‫ہمسایہ عرب ممالک سے کیمپ ڈیوڈ طرز کے معاہدے میں جوڑ دیا جائے۔ سب‬
‫سے بڑھ کر '' کویت امریکہ امریکی دفاعی معاہدہ '' کے انداز پر عالقے کے‬
‫دوسرے ممالک سے بھی دفاعی معا ہدے کیے جائیں تاکہ شرق اوسط میں‬
‫امریکی فوج کے قیام اسلحہ کے مستقبل ذخیروں اور اڈوں کا یقینی بندو بست‬
‫کیا جا سکے ۔‬
‫‪4‬۔ پوری دنیا میں احیائے اسالم کی تحریکوں کی مخالفت کی جائے اور امریکہ‬
‫مخالفت کی بنیاد پر ان تحریکوں کو دبانے اور ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔‬
‫‪5‬۔ بھارت کو جنوبی ایشیا میں ایک عالقائی قوت کی حیثیت سے تقویت دی‬
‫جائے تاکہ پاکستان ایران افغانستان اور خود عرب دنیا کے تجارتی و فوجی‬
‫اثرات کو محدود کر دیا جاسکے۔‬
‫‪6‬۔ اسرائیل اور بھارت کے درمیان گرم جوشی پر مبنی تعلقات کو فروغ دیا‬
‫جائے۔‬
‫نئی پولیسی کی یہ تمام شاخیں امریکی عالمی نظام کا الزمی حصہ ہے انہیں‬
‫نظر انداز کرکے پاکستان اور عالم اسالم جو حکمت عملی بھی بنائے گا وہ خطر‬
‫سے پر ہے۔‬
‫‪؎8‬‬
‫نیو ورلڈ آرڈر اور عزائم‪:‬‬
‫صدر بش نے دو مارچ ‪ 1990‬خلیج کی جنگ میں کامیابی کے فورا بعددعوی کیا‬
‫‪:‬‬
‫''اب ہم ایک نئی دنیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے ابھرتا دیکھ رہے ہیں''‬
‫بش صاحب نے اپنے اس نئے نظام کے خدوخال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫نئے عالمی نظام کے معنی یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی قومی حاکمیت سے دست کش‬
‫ہو جائیں یا اپنے قومی مفادات کو بھول جائیں یہ عالمی نظام دراصل صورت‬
‫گرری کرتاہے اس ذمہ داری کی جو اس کامیابی نے ہم پر عائد کی ہے جارحیت‬
‫کو روکنے اور استحکام خوشحالی اور امن و آشتی کو حصول کے لیے دوسرے‬
‫قوام سے تعاون کی نئی راہیں نکالنے سے یہ نظام عبارت ہے یہ ماحصل ہے‬
‫اس امید کی جو بڑی اور چھوٹی اقوام کے درمیان مشترک عزم پیدا کر رہی ہے‬
‫اس کی منزل ایک ایسی دنیا ہے جہاں تنازعات کا حل پر ذرائع سے ہو جہاں‬
‫جارحیت کا مقابلہ سب متحد ہوکر کریں جس میں اسلحہ کے ذخیروں کو قابو کیا‬
‫جا سکے اور جس میں تمام انسان کے ساتھ انصاف کا سلوک کیا جائے‬
‫ان حسین لفظوں اور دل پسند دعووں کے ساتھ اس نئے عالمی نظام کی سب‬
‫سے بڑی خصوصیت بھی امریکی حکمرانوں کی زبانوں پر آگئی کہ اب امریکا‬
‫دنیا کی واحد سپر پاور ہے خلیج کی جنگ میں عراق کے خالف یکطرفہ طور پر‬
‫فتح پا کر ویت نام کے ڈراؤ نے خواب سے نجات پا چکی ہے۔ اور آنے والے‬
‫دور کا نام اب امریکہ کی صدی کہالئے گا۔‬
‫‪؎9‬‬

‫دنیا میں ایک بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اور مسلم ممالک قدرتی وسائل‬
‫سے ماالمال ہیں۔ یورپی ممالک ان سے تعلقات بڑھانے اور مسلم قوت کو‬
‫بکھیرنےکے لیے نئے نئے طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ انہی میں سے ایک‬
‫نیوورلڈآرڈر ہےجس کا مقصد مسلمانوں پر اقتدر حاصل کرنا ہے۔ آج مسلم دنیا‬
‫کو ان چیلنجز کا سامنا کرنا ہے ۔ اس کے لیے انہیں متحد ہونے کی ضرورت‬
‫ہے۔‬
‫اسالمی احیاءاور نیو ورلڈآرڈر‪:‬‬
‫مسلمان محض ایک نئے عالمی نظام کےنہیں بلکہ ایک نئےمنصفانہ عالمی‬
‫نظام کے وجود می آنے کے شدت سے منتظر ہیں جس میں کسی ایک ملک کی‬
‫باالدستی مقصود نہ ہو ۔ اسالمی احیاء ناصرف منفرد شان کا حامل ہے بلکہ‬
‫عالمگیر بھی ہے۔اسالم میں تنوع کے ساتھ واحدت بھی ہےاور یہتنوں انفرادیت‬
‫کو مجروح نہیں کرتا اسالم ایک عالمگیر دین ہے۔ اس میں " عرب اسالم " ‪،‬‬
‫"پاکستانی اسالم"‪ ،‬ایرانی اسالم" یا"ترک اسالم" نام کی کوئی چیز نہیں‬
‫ہے۔اس طرح اسالمی عالمگیریت میں وحدت ہے یکسانیت نہیں۔‬
‫اسالم میں بعض نمایاں پہلو ہیں جو ہر جگہ مشترک ہیں لیکن اس سے اسالمی‬
‫تحریک احیاء کی زرخیزی متاثر نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر عربی قرآن اور‬
‫پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کیزبان ہے لیکنیہ الزمی طور پر تمام‬
‫مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔اگرچہ ہر ایک مسلمان کچھ نہ کچھ عربی زبان‬
‫بولتاہے لیکن دیگر زبانیں بولنا اور انہیں ایسے تصورات کو پروان چڑھانے‬
‫کے لئے جو اسالمی روایات سے مطابقت رکھتے ہیں بطور آلہ استعمال کرنا‬
‫کچھ کم اسالمی نہیں ہے۔‬
‫مسلمان اپنا احتساب خود کرتے ہیں اور سماجی زندگی کے سطحی مظاہر کا‬
‫جائزہ لیتے رہتے ہیں اور قرآن و سنت میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی طرف‬
‫رجوع کرتے ہیں۔اس عمل میں ان عالمات مثال بعض مخصوص رسوم یا فقہی‬
‫ضوابط کی بعض تفاصیل وغیرہ سے بے پرواہی بھی شامل ہو سکتی ہے جو‬
‫مذہبی روایات کا حصہ بن چکی ہیں۔‬
‫حالیہ تحریک احیاۓ اسالم کی بنیادی روح یہی" اصل کی جانب رجوع "ہے۔بنیا‬
‫دی منابع کی جانب رجوع ایکحریت بخش قوت ہے اسالم میں اس سے ایک‬
‫متحرک عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ بنیادی منابع کی جانب رجو ع "بنیاد پرستی" کو‬
‫جرم نہیں دیتا جو انسان کو وقت کے ساتھ چلنے نہیں دیتی۔بلکہ یہ عمل زاویہ‬
‫نظر کی تازگی ایک نئی لگن نئی تحریک اور نئی لچک دیتا ہے‪،‬نیز نئے‬
‫چیلنجوں کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لوگ اسالم کو تہذیب اور ثقافت‬
‫کے ماخذ کے طور پر دوبارہ دریافت کررہے ہیں اس دریافت کو معاشرے کی‬
‫تشکیل میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔‬
‫میری رائے میں جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں عرب کی غالمانہ نقالی‬
‫سے دوری پیدا ہوتی جا رہی ہے جو کچھ ہم کرتے ہیں اس میں فرق آتا جا رہا‬
‫ہےمغربی تجربے سے ہم متعدد طریقونسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر ہم غیر‬
‫ملکی ثقافتوں کو اپنے ہاں مسلط کرنے کے لیے بطور اعلی کا استعمال ہونے‬
‫کو تیار نہیں۔‬
‫بالشبہ تمام مسلم ممالک کا مغربی ثقافت کی جانب رویہیکساں نہیں ہے وہ‬
‫ملک جو کچھ عرصے پہلے مغربیت پرستی کے ہراول دستے میں شامل تھے‬
‫وہ اب اسالمی احیاءکے علمبردار ہیں۔بلکہ ایسے ممالک جو دنیا سے کافی‬
‫پیچھے دکھائی دیتے تھے وہ اپنی روایات کے ساتھ سختی سے جڑے ہوئے‬
‫تھے اب مغربی طرز زندگی اور ثقافت کے دلدادہ ہیں ‪؎11‬‬
‫اسالمی تہذیب کا چیلنج‪:‬‬
‫مسلمان اپنا سماجی اور اقتصادی نظام اسالمی اقدار کےمطابق استوار کرنا‬
‫چاہتے ہیں۔تاہم مسلمانوں کی ان قوتوں سے کشمکش الزمی ہیں جو موجودہ‬
‫حاالت کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے حق میں ہیں‪،‬اس سلسلے مینیہ واضح‬
‫کردینا ضروری ہے کہ مغربی تہذیب پر مسلمانوں کی تنقید بنیادی طور پر‬
‫سیاسی تصادم کی کوئی مشق نہیں ہے۔بلکہ یہ معرکہ دو ثقافتوں اور تہذیبوں‬
‫کی سطح پر ہوگا ایک تہذیب اسالمی اقدار پر مبنی ہوگی اور دوسری کی اساس‬
‫مادیت قومیت پرستی اور سیاسی اور اقتصادی لبرل ازم پر ہوگی۔اگر مغربی‬
‫ثقافت ‪ ،‬عیسائیت‪ ،‬اخالق کی مستقل اقدار اور ایمان پر مبنی ہوتی تو ربطیا‬
‫مقابلے کی زبان اور طریقکی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن صورتحال یہ نہیں‬
‫ہے۔‬
‫انتخاب‪" ،‬الہامی اصول" اور ایکسیکولر مادی کلچر کے درمیان ہے اور‬
‫یہماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس مقابلے کو تمام باشعور انسان محض‬
‫مغرب اور مشرق کی جغرافیائی سیاسی حدبندیونیا عیسائیت بمقابلہ اسالم کے‬
‫انداز میں دیکھیں گے۔ درحقیقت تو تمام انسان ‪،‬چاہے وہ دنیا کے کسی خطے‬
‫میں رہتے ہیں جنہیں ہمارے دور کے روحانی اور اخالقی بحران پر تشویش ہے‬
‫وہ اسالمی احیاء پر اطمینان کا سانس لیں گے ناکہ وہ اس سے خائف ہوں گے۔‬
‫مسلم تحریک احیاء میں عصبیت پر مبنی مغرب مخالف جراثیم نہیں ہیں۔مغربی‬
‫ملکوں اور مسلم دنیا کے درمیان سیاسی تعلق کے حوالے سے یہ تحریک نہ تو‬
‫آنکھیں بند کرکے مغر ب کے حق میں ہے‪ ،‬نا سرتاپا اس کے خالف۔حالنکہ‬
‫مسلم ممالک اور مغرب کے درمیان دور استعمار کیتلخ یادیں موجود ہیں جو‬
‫تعلقات کو مجروح کرنے کے امکانات رکھتی ہیں۔اگر امریکہ اور چین کسی‬
‫مشترکہ ثقافت اور یکساں سیاسی و اقتصادی نظام کے بغیر ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرسکتے ہیں تو مغرب اور مسلم دنیا میں ایسا‬
‫کیوں نہیں کر سکتے؟ بہت حد تک اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مغرب‬
‫اسالمی احیاء کو کس نظر سے دیکھتا ہے اگر مسلم ذہن اور مسلم نقطہ نظر‬
‫سے مغربی طاقتیں ‪ ،‬مسلم معاشرے پر مغربی ماڈل مسلط کرنے اور مسلمانوں‬
‫کو قومی و بین االقوامیسطح پر مغربی غلبے کے نظام میں جگڑ رکھنے اور‬
‫مسلم کلچر اور سوسائٹی کو براہ راست یا بالواسطہ غیرمستحکمکرنے کی‬
‫کوششیں جاری رکھتی ہے تو الزمی طور پر کشیدگی بڑھے گی اور باہمی‬
‫اختالفات مینکئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔‬
‫اور اگر معامالت مکالمے اور افہام و تفہیم کے ذریعے پرامن طور پر اور ایک‬
‫دوسرے کے حقوق کے احترام کے جذبات سے حل نہ ہوئے تو ان معامالت کے‬
‫حل کے لیے دوسرے طریقوں پر چل پڑنا ناگزیر ہے۔‬
‫دوسری طرف ہم تسلیم کریں گے کہ یہ ایک مختلف طرح کے معاشروں کی دنیا‬
‫ہے مغربی کلچر دوسری ثقافتوں اور تہذیبوں کے شانہ بشانہ ہے ان پر غلبہ‬
‫پائے بغیر پھل پھول سکتا ہے اور دوسرے لوگ الزمی طورپر دشمن نہیں‬
‫ہیں۔اس صورتحال میں اس بات کا حقیقیامکان ہے کہ ہم اختالف رکھتے ہیں‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھیں۔اگر ہم اس نکتہ نظر کی پیروی کیلئے تیار‬
‫ہیں تو ہم بہت سی مشترکہ بنیادیں اور مشترک چیلنجتالش کرنے میں کامیاب ہو‬
‫جائیں گے۔یہی مستقبل کے عالمی نظام کی کلید ہے۔ ‪؎12‬‬
‫مسلم ورلڈ اور عالم اسالم‬
‫نیو ورلڈآرڈر نے مسلم دنیا میں انقالب برپا کر دیا ہے ۔ امریکہ کو سپر پاور‬
‫بنانے میں مسلم دنیا کی عدم توجہ کا ہاتھ ہے۔ آج امریکہ کو خوف ہے تو‬
‫صرف مسلمانوں کے ایمان اور جذبہ جہاد کا ‪ ،‬اسی لیے تو مسلمانوں کو‬
‫دبانے کے لیے نیا عالمی مظام قا ئم کیا گیا‬
‫مسئلہ فلسطین اور نیوورلڈآڈر‪:‬‬
‫عالم اسالم کے مسائل میں فلسطینی عوام کی آزادی اور ان کے وطن کی بازیابی‬
‫کا مسئلہ بیسویں صدی کی علمی سیاست میں اہم ترین مسئلہ رہا ہےجس کا آج‬
‫تک کوئی حل نہیں نکل سکا اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل امریکہ گٹھ‬
‫جوڑ ہے۔امریکہ کی مدد اور سرپرستی کے باعث صیہونی جارحیت کے طویل‬
‫دور کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت‬
‫ستمبر‪1993‬ء میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان جو معاہدہ طے پایا(جسے‬
‫امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نیو ورلڈ آرڈر کی ایک بہت بڑی کامیابی اور‬
‫مشرقی وسط ٰیمیں قیام امن کے لیےایک خوشخبری قرار دیا تھا) اور خود یو این‬
‫او کی متعدد قراردادوں کی کھلی خالف ورزیاور مسلمہ بین االقوامی فیصلوں‬
‫سے انحراف ہےاور ایک فریق کی کمزوریومجبوری پر ایک قوم کے مسلمہ‬
‫حق کی تذلیل ہے اس کے باوجود پوری دنیا گواہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل‬
‫اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہیں کر پائےاور پی ایل او کے سربراہ‬
‫یاسرعرفات کے پر زور اسرار کے باوجود اسرائیل نے محض عالمتی طور پر‬
‫بھی اپنی فوجوں کو واپس نہیں بالیا ۔ اس معاہدے کی خالف ورزی اسرائیل کے‬
‫نزدیک کوئی بات نہیں ہے جس ریاست کا کام ہی بین اال قوامی قوانین اور‬
‫بنیادی اصولوں کی خالف ورزی کے نتیجہ میں ہوا ہو کسی ایک معاہدے کی‬
‫خالف ورزی پر پیشماں کیوں ہو؟‬
‫اسرائیل مشرق وسطی میں ‪1948‬ء سے انسانی حقوق ‪ ،‬بین اال قوامی قوانین‬
‫اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحا ً خالف ورزی کر رہاہے۔ مگر امریکہ‬
‫کے سامراجی دور میں ہمیشہ اسرئیل کے مفاد کو تحفظ فراہم کیا ہے۔وہ سر‬
‫زمین جو مسلمانوں ‪ ،‬یہودیوں ‪ ،‬عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر مقدس تھی‬
‫مسلسل قتل و غارت ‪ ،‬بدامنی دہشت گردی کی آماجگاہ بنی رہی ہے۔ ا س بدامنی‬
‫کا آغاز ‪1948‬ء میں امریکہ‪ ،‬برطانیہ اور اقوام متحدہ کی ملی بھگت‬
‫سےاسرائیل کی ریاست کے باضابطہ قیام کی وجہ سے ہوا جس نے فلسطینی‬
‫عربوں کو اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا۔‬
‫‪1967‬ء میں عرب اسرئیل جنگ ہوئی اس چھ روزہ جنگ میں عربوں کو‬
‫شکست ہوئی ۔ مصر شام اور اردن کے عالقے بھی اسرئیل کے قبضہ میں‬
‫آگئے۔ الکھوں فلسطینیوں کو ملک دربدر ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ یوں‬
‫اسرائیل جارہیت کے ایک طویل دور کا آغاز ہو گیا۔ ‪1973‬ء میں ایک بارپھر‬
‫عرب اسرئیل جنگ ہوئی جس میں عربوں نے پہلی مرتبہ دنیا کو تیل کی ترسیل‬
‫بند کر دی ۔ جس سے بڑی طاقتوں کی معیشت بری طرح ‪،‬متاثر ہوئی اورانہیں‬
‫مشرق و سطہ کے عرب وسائل کی اہمیت کا احساس ہوا اور یہ عالقہ ہمیشہ‬
‫کےلیے ان کی ترجیحات اور قومی مفادات میں سر فہرست آگیا۔‬
‫اقوام متحدہ کے تمام ادارے بھی امریکہ کی منشاء و رضا ددیکھ کر کوئی‬
‫ایسی کاروائی کرنے پر آمادہ نہیں جس سے اسرائیلی مفادات کو زر پہنچے‬
‫جب کہ عراق کے خالف اقوام متحدہ کی صرف ایک قرارداد پر امریکہ نے‬
‫اتنے بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔‬
‫امریکہ نے دوسال کے نا‪ ،‬نہاد امن مذاکرات کے بعد ‪ 17‬ستمبر ‪1993‬ء کو‬
‫وائٹ ہاوئس میں " پی ایل او اسرائیل امن معاہدے " پر یاسر عرفات نے‬
‫اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین سے دستخط کروائے اس معاہدے کے‬
‫ذریعے پی ایل او سے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کروالیا گیا ۔‬
‫اسرائیل نے معاہدے کے تین ماہ بعد اپنی فورسیز کو بعض مقبوضہ عالقوں‬
‫میں محدود حق خود اختیاری دینے کا وعدہ کیا ۔‬
‫یہسمجھوتا دراصل مشرق وسط ٰی میں امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا عملی اطالق‬
‫تھا۔جس کے تحت پی ایل او بلکہ آزادی فلسطین کی پوری تحریک کو ایک بڑے‬
‫بحران کا شکار کر دیا گیااور عربوں کی اسرئیل کے بارے میں تمام مخالفانہ‬
‫پالیسیوں کو ختم کروا دیا گیا۔اسرائیل کے وجود کو پی ایل او سمیت اکثر ممالک‬
‫سے تسلیم کروا لیا گیا۔ انتفاضہ کی تحریر کا خاتمہ کردیا گیا اور تمام انتہاپسند‬
‫گروہوں کو پی ایل او کا دشمن بنادیا گیاہے۔اس طرح امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے‬
‫عین مطابق فلسطینی اور عرب آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن چکے‬
‫ہیں۔ حماس ‪ ،‬حزب ہللا اور پی ایل اوکے اختالفات ایک بڑی خانہ جنگی کا‬
‫پیشخیمہ ہے اس طرح فلسطین کی آزادی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا‬
‫ہے۔؎‬
‫امریکہ نے جس وسیع پیمانے پر اسرئیل کی اقتصادی ‪ ،‬سیاسی اور فوجی‬
‫امداد کی ہےاس کے نتیجے میں اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی طاقت بن گیا ہے‬
‫اگر یہ امریکی امداد نہیں ملتی تو اسرائیل کے لیے فلسطینی مقبوضہ عالقوں‬
‫پر تسلط جاری نہ رکھ سکتا اور بیت المقدس بھی آزاد ہو چکا ہوتا مگراب نیو‬
‫ورلڈ آرڈر کے تحت نام نہاد امن معاہدے نے فلسطین کی آزادی کیبقیہ داستان‬
‫بھی ختم کر دی ہے۔ اور امت مسلمہ بےحسی سے بیت ا لمقدس کا سودا‬
‫ہونے پر خاموش تماشہ بنی بیھٹی ہے ۔‬
‫مسئلہ کشمیر اور نیو ورلڈآرڈر‪:‬‬
‫کشمیرمسئلہ بھی مسئلہ فلسطین کی طرح ‪46‬سالوں سے بڑی طاقتوں اور‬
‫عالمی اداروں کے استحصال اور سامراجی ہتھکنڈوں کی بدولت سسک رہا‬
‫ہے۔کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا‬
‫مطالبہ کررہے ہیں بھارت گزشتہ ‪46‬سالوں سےکشمیر میں بین االقوامی قوانین‬
‫کی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خالف ورزی کررہا ہے خون کے دریابہ‬
‫چکے ہیں ہزاروں عزتیں لٹ گئی ہیں ‪،‬الکھوں جانیں قربان ہوگئی ہیں بستیاں‬
‫اجڑ گئی ہیں مگر امریکہ اور اقوام متحدہ کی ترجیحات میں کشمیر کے عوام‬
‫کی آزادی کے مطالبہ کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے کیونکہیہانامریکی عادات کو‬
‫خطرہ نہیں ہے ۔ اس لیےنیو ورلڈ آرڈر کا وادی کشمیر پر اطالق نہیں ہوگا‬
‫بھارت جو گزشتہ‪ 46‬برس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس" کشمیر‬
‫ہندوستان کا اٹوٹ انگ "کے نعرے کے ساتھ اقوام متحدہ کا مذاق اڑاتا رہا اور‬
‫کشمیریوں کا قتل عام کرتا رہا آج بھی اپنی تشدد آمیز اور انسانیت سوز‬
‫پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ‪1957‬ء سے اقوام متحدہ‬
‫کے سرد خانے میں پڑا ہے اس عرصہ میں بھارت نے ‪1965‬ء اور ‪1971‬ء‬
‫میں پاکستان پر دو جنگیں مسلط کیں اور پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا مگر‬
‫امریکہ سٹیو اور سینٹو میں پاکستان کی شمولیت کے باوجود اس مسلے کے‬
‫حل میں کوئی دلدار نہ ادا کرسکا۔‬
‫نیو ورلڈ آرڈر کے تحت امریکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو وہی کردار سونپنا‬
‫چاہتا ہے جو اس نے مشرق وسط ٰی میں اسرائیل کے سپرد کیا ہے امریکہ کے‬
‫امتیازی رویے کی نشاندہی کے لیےیہی کافی ہے کہجنوبی ایشیا میں بھارت‬
‫‪1974‬ءمیں ایٹمی دھماکہ کر چکا ہے۔ اور سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق‬
‫بھارت کے پاس ‪100‬ایٹم بم بنانے کیلئے افزودہ یورینیم موجود ہے۔لیکن پھر‬
‫بھی بھارت سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا امریکہ بھارت کی ‪ 50‬ملین ڈالر‬
‫ساالنہ امداد کررہا ہے۔بھارت کشمیر میں اور پورے ملک میں مسلمانوں سے‬
‫انسانیت سوز سلوک کے مظاہرہ کر رہا ہے بابری مسجد اور درگاہ حضرت بل‬
‫کے تقدس کی وسیع پیمانے پر توہین کی گئی ہے۔مگر امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر‬
‫میں نہ تو یہ دہشتگردی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی خالف ورزی اور نہ ہی‬
‫بھارت پر پریسلرترمیم کی طرح کسی امداد کی بندش کے قانون کا اطالق ہوتا‬
‫ہے۔اس طرح جنوبی ایشیا مینچونکہ بھارت کو امریکہ اپنی نئی سامراجیت کا‬
‫نگران بنانا چاہتا ہے اس لیے امریکہنے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے‬
‫پاکستانکے ایٹمی پروگرام کو مشروط قرار دے دیا گیا ہے تاکہ مشرق وسطی‬
‫کے معاہدے کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی کوئی ایسا معاہدہ عمل میں الیا‬
‫جائےجو امریکی اور بھارتی مفادات کے عین مطابق ہو ۔ اس طرح امریکہ کی‬
‫خواہش ہے کہ فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کی انتفاضہ بھی سسک سسک‬
‫کر دم توڑ جائے۔ ؎‪13‬‬

‫بوسینیا کا مسئلہ اور نیو ورلڈ آرڈر‪:‬‬


‫بوسنیا ہرزگوینا کی اسالمی ریاست مشرقییورپ کی واحد مسلمان ریاست ہے۔کا‬
‫وجود بلقان کی جنگوں کے وقت سے یورپی غیر مسلم اقوام کو برداشت نہیں‬
‫تھا۔گزشتہ دو سالوں میں بین االقوامی تبدیلیوں کے باعث روس کے‬
‫مشرقییورپ پر سے اثر و رسوخ کا خاتمہ ہونے کے بعدبوسنیا کے مسلمانوں‬
‫کو امید کی کرن نظر آئی تھی۔مگر یوگوسالویہ کے سربوں اور کروٹوں کو اس‬
‫خطہ میں مسلمانوں کا وجود گوارا نہیں۔کیونکہیہ وہ خطہ ہے جہاں عثمانی‬
‫فوج کے ہاتھوں انہیں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔لہذا سربی اور‬
‫کروشیائی درندے مسلمانوں سے اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے انسانی‬
‫تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام کر رہے ہیناور بوسنیا کے مسلمانوں کی نسلی‬
‫تطہیر کے ذریعے اس خطہ کو مسلمانوں کے وجود سے خالی کر رہے‬
‫ہیں۔امریکہاور یورپ کی بیشترتنظیمیں سرب انتہا پسندوں کو امداد دے رہی ہیں‬
‫جبکہ مسلمانوں کے لئے مسلمان ممالککی طرف سے بھیجے جانے والی امداد‬
‫پر بھی پابندیعائد ہے تمام امدادی قافلے سربوں کے ہاتھ سے ہوکر مسلمانوں‬
‫تک پہنچتے ہیں۔جن میں سے تین چوتھائی حصہ سرب اپنے پاس رکھ لیتے‬
‫ہیں۔بوسینیا کے شہروں اور قصبوں میں سرب درندوں نے مسلمان بچوں اور‬
‫عورتوں کے ساتھ وہ انسانیت سوز سلوک اور پرتشدد قتل عام جاری کر رکھا‬
‫ہوا ہے کہجس کو احاطہ تحریر میں نہیں الیا جاسکتا مگر اتنے وسیع پیمانے‬
‫پر ظلم و بربریت کے باوجود امریکہاور یورپی اقوام خاموش تماشائی بن کر‬
‫مسلمانوں کے نسلی تطہیر کے مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔امریکہ کے‬
‫نیو ورلڈ آرڈر مینبوسینیا کے مسلمانوں کے درد کا مداوا نہیں ہےکیونکہ اس‬
‫خطہ میں امریکہ کے مفادات کو کوئی خطرہ الحق نہیں ہے اس لیے حقوق‪،‬‬
‫مساوات اور خود ارادیت کا چیمئین اس خطہ میں اتنے وسیع پیمانے پر‬
‫انسانیت کے قتل عام کو اہمیت نہیں دیتا۔‬

‫دیگر اسالمی ممالک اور نیوورلڈ آرڈر‬


‫عراق‪:‬‬
‫خلیج کی جنگ میں عراق کے خالف امریکہ اور اس کے ‪ 30‬اتحا‬
‫دیوں کی مشترکہ کاروائی کے نتیجے میں عراق کی وسیع‬
‫پیمانے پر تباہی ہوئیبین االقوامی اعدادوشمار کے مطابق دو الکھ‬
‫کے قریب عراقی اس جنگ مینلقمہ اجل بنے جب کہ امریکہ اور‬
‫اسکے اتحادیوں کے صرف ‪ 143‬افراد ہالک ہوئے ۔شہری آبادی‬
‫پر بمباری کے نتیجے میں ‪ 41‬ہسپتال ‪ 20 ،‬ہیلتھ سینٹر‪50 ،‬‬
‫سوشل ویلفیئر کے مراکز تباہ ہوئے۔ عراق کو سب سے بڑی‬
‫سزا اقتصادی پابندیوں کی شکل میں ملی۔ ان پابندیوں کے باعث‬
‫عراق کو خوراک اور ادویات کی سپالئی پر مکمل پابندی عائد‬
‫ہے۔ ان پابندیوں کے باعث اگست ‪90‬ء سے اگست ‪92‬ء تک‬
‫‪ 61442‬بچوں کی اموات ہوئی ہیں ۔‬
‫امریکا نے کویت میں سابق صدر جارج بش کے دورہ کے موقع‬
‫پر ایک مبینہ سازشکے انکشاف پر عراق کو مورد الزام ٹھہرایا‬
‫اور اس جرم کی پاداش مینعراقی انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر پر‬
‫میزائلوں سے حملہ کردیاجس کے نتیجے میں سینکڑوں معصوم‬
‫اور بے گناہ شہری ہالک ہوئے۔ اس موقع ر امریکہ کے صدر بل‬
‫کلٹن نے اقوام متحدہ کے آرٹیکل ‪ 51‬کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے‬
‫اس اقدام کو جائز قرار دیا۔‬
‫صومالیہ‪:‬‬
‫صومالیہ مینخانہ جنگی ایک عرصہ سے جاری ہے اقوام متحدہ‬
‫کے زیراہتمام ‪ 20‬ممالک کی فوجوں میں مشتمل فورسزصومالیہ‬
‫میں خانہ جنگی کی روک تھام میں ناکام ثابت ہوئیں۔ جارج بش‬
‫نے ‪4‬دسمبر‪1992‬ء کو ‪ 30000‬امریکی فوجیوں کو صومالیہ‬
‫میں اقوام متحدہ کی قیادت میں انسانی امداد کے کام میں‬
‫معاونت کے لیے داخل ہونے کا حکم دیا ا۔ امریکہ کی صومالیہ‬
‫میں مداخلت پر امریکی حلقوں میں گہری تشویش کا اظہار کیا‬
‫گیا کہ صومالیہ میں امریکی مفادات کو کئی خطرہ الحق نہیں ۔‬
‫‪؎18‬‬
‫پاکستان اور نیو ورلڈ آرڈر‪:‬‬
‫امریکی نیو ورلڈ آرڈر میں"پاکستان کے ایٹمی پروگرام" کا‬
‫خاتمہ" امریکی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ پاکستان کے‬
‫ایٹمی پروگرام کی تصدیق ‪1987‬ء میں امریکہ کے اسالم آباد‬
‫میں متین ایک اہم سفارت کار چرڈ بارلو نے اپنی رپورٹ میں‬
‫کر دی گئی۔‬
‫اس طرح مصلتوں کی اسیراور اصولوں سے عاری جارج بش‬
‫انتظامیہ تین سال تک یعنی(‪1987‬ء‪1988 ،‬ء‪1989 ،‬ء)مینیہ‬
‫تصدیق کرتی رہی کہ پاکستان کے پاس کوئی ایٹمی صالحیت‬
‫موجود نہینمگر جینوا معاہدے پر دستخط کے بعد جیسے ہی‬
‫افغانستان سے روسی فوجوں کا انخالء ہوا امریکہ نے پاکستان‬
‫کےایٹمی پروگرام کے خالف ایک خوفناک پروپیگنڈا مہم شروع‬
‫کر دیاور ریچرڈ بالوکی‪1987‬ء کی رپورٹ کو سند کے طور پر‬
‫پیش کیا گیا۔ چناچہ ‪1990‬ء میں پریسلر ترمیم کا سہارا‬
‫لیکرامریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد کلی طورپر اور اقتصادی‬
‫امداد جزوی طور پر بند کر دی۔ اور پاکستان پر امریکی دباؤ میں‬
‫مسلسل اضافہ ہوتا گیا جس کا واحد مقصد پاکستان کو ایٹمی‬
‫پروگرام سے دستبردار کروانا تھا۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام جو‬
‫کے پرامن مقاصد کو توانائی کے حصول کے لیے تھا۔‪1990‬ء‬
‫میں کسی امریکی دباؤ کی وجہ سے منجمد کردیا گیا۔‬
‫امریکا نے حال ہی میں سینیٹر لیری پریسلر جوتییہودی البی (اے‬
‫ائی پی اے سی) کا سرگرم رکن ہے کو ایک خصوصی مشن پر‬
‫پاکستان اور بھارت کے دورہ پر بھیجا تھا۔ ‪؎19‬‬

You might also like