Professional Documents
Culture Documents
اولڈورلڈ آرڈر:
حضرت عیسی علیہ السالم کے قتل کی سازش اور ان کے آسمان کی طرف
اٹھائے جانے کے واقعے سے جدید دنیا کا آغاز ہوتا ہے ۔جدید دنیا کی تاریخ کو
صوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اس میں سے ایک دنیا کی قدیم تربیت ہے دو ح ّ
عیسی علیہ
ٰ جسے انگریزی میں اولڈ ورلڈ آرڈر کہتے ہیں یہ تقسیم حضرت
السالم کے آسمان کی طرف اٹھائے جانے کے ستر سال بعد شروع ہو کر انقالب
فرانس تک چلتی ہے۔دنیا کی دوسری تقسیم انقالب فرانس سے شروع ہو کر
عصر حاضر تک جاری ہے اسے" نیو ورلڈ آرڈر" یعنی دنیا کی نئی ترتیب کہا
جاتا ہے ۔اولڈ ورلڈ آرڈر نیو ورلڈ آرڈر دونوں کی تاریخی جڑیں یہودیوں کی
عیسی علیہ السالم کی قتل کی سازش تیار کرنے اور حضرت عیسی ٰ حضرت
علیہ السالم کے آسمان کی طرف اٹھائے اٹھائے جانے سے ہی شروع ہوتی ہے
اولڈ ورلڈ آرڈر کے ادوار :
بنی اسرائیل( یہودیوں) کی قدیم تاریخ:
'' بنی اسرائیل کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں''
پہال دور :بنی اسرائیل کے کناروں سے مصر منتقل ہونے تک
دوسرا دور :خروج مصر سے لے کر فلسطین میں آبادکاری تک
تیسرادور :بخت نصر کا حملہ اور بابل میں پہلی جالوطنی
چوتھا دور :بابل سے واپس لے لے کر دوسری جالوطنی تک
؎1
دنیا میں ایک بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اور مسلم ممالک قدرتی وسائل
سے ماالمال ہیں۔ یورپی ممالک ان سے تعلقات بڑھانے اور مسلم قوت کو
بکھیرنےکے لیے نئے نئے طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ انہی میں سے ایک
نیوورلڈآرڈر ہےجس کا مقصد مسلمانوں پر اقتدر حاصل کرنا ہے۔ آج مسلم دنیا
کو ان چیلنجز کا سامنا کرنا ہے ۔ اس کے لیے انہیں متحد ہونے کی ضرورت
ہے۔
اسالمی احیاءاور نیو ورلڈآرڈر:
مسلمان محض ایک نئے عالمی نظام کےنہیں بلکہ ایک نئےمنصفانہ عالمی
نظام کے وجود می آنے کے شدت سے منتظر ہیں جس میں کسی ایک ملک کی
باالدستی مقصود نہ ہو ۔ اسالمی احیاء ناصرف منفرد شان کا حامل ہے بلکہ
عالمگیر بھی ہے۔اسالم میں تنوع کے ساتھ واحدت بھی ہےاور یہتنوں انفرادیت
کو مجروح نہیں کرتا اسالم ایک عالمگیر دین ہے۔ اس میں " عرب اسالم " ،
"پاکستانی اسالم" ،ایرانی اسالم" یا"ترک اسالم" نام کی کوئی چیز نہیں
ہے۔اس طرح اسالمی عالمگیریت میں وحدت ہے یکسانیت نہیں۔
اسالم میں بعض نمایاں پہلو ہیں جو ہر جگہ مشترک ہیں لیکن اس سے اسالمی
تحریک احیاء کی زرخیزی متاثر نہیں ہوتی۔مثال کے طور پر عربی قرآن اور
پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کیزبان ہے لیکنیہ الزمی طور پر تمام
مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔اگرچہ ہر ایک مسلمان کچھ نہ کچھ عربی زبان
بولتاہے لیکن دیگر زبانیں بولنا اور انہیں ایسے تصورات کو پروان چڑھانے
کے لئے جو اسالمی روایات سے مطابقت رکھتے ہیں بطور آلہ استعمال کرنا
کچھ کم اسالمی نہیں ہے۔
مسلمان اپنا احتساب خود کرتے ہیں اور سماجی زندگی کے سطحی مظاہر کا
جائزہ لیتے رہتے ہیں اور قرآن و سنت میں بیان کردہ بنیادی اصولوں کی طرف
رجوع کرتے ہیں۔اس عمل میں ان عالمات مثال بعض مخصوص رسوم یا فقہی
ضوابط کی بعض تفاصیل وغیرہ سے بے پرواہی بھی شامل ہو سکتی ہے جو
مذہبی روایات کا حصہ بن چکی ہیں۔
حالیہ تحریک احیاۓ اسالم کی بنیادی روح یہی" اصل کی جانب رجوع "ہے۔بنیا
دی منابع کی جانب رجوع ایکحریت بخش قوت ہے اسالم میں اس سے ایک
متحرک عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ بنیادی منابع کی جانب رجو ع "بنیاد پرستی" کو
جرم نہیں دیتا جو انسان کو وقت کے ساتھ چلنے نہیں دیتی۔بلکہ یہ عمل زاویہ
نظر کی تازگی ایک نئی لگن نئی تحریک اور نئی لچک دیتا ہے،نیز نئے
چیلنجوں کا سامنا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لوگ اسالم کو تہذیب اور ثقافت
کے ماخذ کے طور پر دوبارہ دریافت کررہے ہیں اس دریافت کو معاشرے کی
تشکیل میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔
میری رائے میں جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں عرب کی غالمانہ نقالی
سے دوری پیدا ہوتی جا رہی ہے جو کچھ ہم کرتے ہیں اس میں فرق آتا جا رہا
ہےمغربی تجربے سے ہم متعدد طریقونسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر ہم غیر
ملکی ثقافتوں کو اپنے ہاں مسلط کرنے کے لیے بطور اعلی کا استعمال ہونے
کو تیار نہیں۔
بالشبہ تمام مسلم ممالک کا مغربی ثقافت کی جانب رویہیکساں نہیں ہے وہ
ملک جو کچھ عرصے پہلے مغربیت پرستی کے ہراول دستے میں شامل تھے
وہ اب اسالمی احیاءکے علمبردار ہیں۔بلکہ ایسے ممالک جو دنیا سے کافی
پیچھے دکھائی دیتے تھے وہ اپنی روایات کے ساتھ سختی سے جڑے ہوئے
تھے اب مغربی طرز زندگی اور ثقافت کے دلدادہ ہیں ؎11
اسالمی تہذیب کا چیلنج:
مسلمان اپنا سماجی اور اقتصادی نظام اسالمی اقدار کےمطابق استوار کرنا
چاہتے ہیں۔تاہم مسلمانوں کی ان قوتوں سے کشمکش الزمی ہیں جو موجودہ
حاالت کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے حق میں ہیں،اس سلسلے مینیہ واضح
کردینا ضروری ہے کہ مغربی تہذیب پر مسلمانوں کی تنقید بنیادی طور پر
سیاسی تصادم کی کوئی مشق نہیں ہے۔بلکہ یہ معرکہ دو ثقافتوں اور تہذیبوں
کی سطح پر ہوگا ایک تہذیب اسالمی اقدار پر مبنی ہوگی اور دوسری کی اساس
مادیت قومیت پرستی اور سیاسی اور اقتصادی لبرل ازم پر ہوگی۔اگر مغربی
ثقافت ،عیسائیت ،اخالق کی مستقل اقدار اور ایمان پر مبنی ہوتی تو ربطیا
مقابلے کی زبان اور طریقکی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن صورتحال یہ نہیں
ہے۔
انتخاب" ،الہامی اصول" اور ایکسیکولر مادی کلچر کے درمیان ہے اور
یہماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس مقابلے کو تمام باشعور انسان محض
مغرب اور مشرق کی جغرافیائی سیاسی حدبندیونیا عیسائیت بمقابلہ اسالم کے
انداز میں دیکھیں گے۔ درحقیقت تو تمام انسان ،چاہے وہ دنیا کے کسی خطے
میں رہتے ہیں جنہیں ہمارے دور کے روحانی اور اخالقی بحران پر تشویش ہے
وہ اسالمی احیاء پر اطمینان کا سانس لیں گے ناکہ وہ اس سے خائف ہوں گے۔
مسلم تحریک احیاء میں عصبیت پر مبنی مغرب مخالف جراثیم نہیں ہیں۔مغربی
ملکوں اور مسلم دنیا کے درمیان سیاسی تعلق کے حوالے سے یہ تحریک نہ تو
آنکھیں بند کرکے مغر ب کے حق میں ہے ،نا سرتاپا اس کے خالف۔حالنکہ
مسلم ممالک اور مغرب کے درمیان دور استعمار کیتلخ یادیں موجود ہیں جو
تعلقات کو مجروح کرنے کے امکانات رکھتی ہیں۔اگر امریکہ اور چین کسی
مشترکہ ثقافت اور یکساں سیاسی و اقتصادی نظام کے بغیر ایک دوسرے کے
ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرسکتے ہیں تو مغرب اور مسلم دنیا میں ایسا
کیوں نہیں کر سکتے؟ بہت حد تک اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مغرب
اسالمی احیاء کو کس نظر سے دیکھتا ہے اگر مسلم ذہن اور مسلم نقطہ نظر
سے مغربی طاقتیں ،مسلم معاشرے پر مغربی ماڈل مسلط کرنے اور مسلمانوں
کو قومی و بین االقوامیسطح پر مغربی غلبے کے نظام میں جگڑ رکھنے اور
مسلم کلچر اور سوسائٹی کو براہ راست یا بالواسطہ غیرمستحکمکرنے کی
کوششیں جاری رکھتی ہے تو الزمی طور پر کشیدگی بڑھے گی اور باہمی
اختالفات مینکئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
اور اگر معامالت مکالمے اور افہام و تفہیم کے ذریعے پرامن طور پر اور ایک
دوسرے کے حقوق کے احترام کے جذبات سے حل نہ ہوئے تو ان معامالت کے
حل کے لیے دوسرے طریقوں پر چل پڑنا ناگزیر ہے۔
دوسری طرف ہم تسلیم کریں گے کہ یہ ایک مختلف طرح کے معاشروں کی دنیا
ہے مغربی کلچر دوسری ثقافتوں اور تہذیبوں کے شانہ بشانہ ہے ان پر غلبہ
پائے بغیر پھل پھول سکتا ہے اور دوسرے لوگ الزمی طورپر دشمن نہیں
ہیں۔اس صورتحال میں اس بات کا حقیقیامکان ہے کہ ہم اختالف رکھتے ہیں
ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھیں۔اگر ہم اس نکتہ نظر کی پیروی کیلئے تیار
ہیں تو ہم بہت سی مشترکہ بنیادیں اور مشترک چیلنجتالش کرنے میں کامیاب ہو
جائیں گے۔یہی مستقبل کے عالمی نظام کی کلید ہے۔ ؎12
مسلم ورلڈ اور عالم اسالم
نیو ورلڈآرڈر نے مسلم دنیا میں انقالب برپا کر دیا ہے ۔ امریکہ کو سپر پاور
بنانے میں مسلم دنیا کی عدم توجہ کا ہاتھ ہے۔ آج امریکہ کو خوف ہے تو
صرف مسلمانوں کے ایمان اور جذبہ جہاد کا ،اسی لیے تو مسلمانوں کو
دبانے کے لیے نیا عالمی مظام قا ئم کیا گیا
مسئلہ فلسطین اور نیوورلڈآڈر:
عالم اسالم کے مسائل میں فلسطینی عوام کی آزادی اور ان کے وطن کی بازیابی
کا مسئلہ بیسویں صدی کی علمی سیاست میں اہم ترین مسئلہ رہا ہےجس کا آج
تک کوئی حل نہیں نکل سکا اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل امریکہ گٹھ
جوڑ ہے۔امریکہ کی مدد اور سرپرستی کے باعث صیہونی جارحیت کے طویل
دور کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت
ستمبر1993ء میں پی ایل او اور اسرائیل کے درمیان جو معاہدہ طے پایا(جسے
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نیو ورلڈ آرڈر کی ایک بہت بڑی کامیابی اور
مشرقی وسط ٰیمیں قیام امن کے لیےایک خوشخبری قرار دیا تھا) اور خود یو این
او کی متعدد قراردادوں کی کھلی خالف ورزیاور مسلمہ بین االقوامی فیصلوں
سے انحراف ہےاور ایک فریق کی کمزوریومجبوری پر ایک قوم کے مسلمہ
حق کی تذلیل ہے اس کے باوجود پوری دنیا گواہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل
اس معاہدے پر بھی عمل درآمد نہیں کر پائےاور پی ایل او کے سربراہ
یاسرعرفات کے پر زور اسرار کے باوجود اسرائیل نے محض عالمتی طور پر
بھی اپنی فوجوں کو واپس نہیں بالیا ۔ اس معاہدے کی خالف ورزی اسرائیل کے
نزدیک کوئی بات نہیں ہے جس ریاست کا کام ہی بین اال قوامی قوانین اور
بنیادی اصولوں کی خالف ورزی کے نتیجہ میں ہوا ہو کسی ایک معاہدے کی
خالف ورزی پر پیشماں کیوں ہو؟
اسرائیل مشرق وسطی میں 1948ء سے انسانی حقوق ،بین اال قوامی قوانین
اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحا ً خالف ورزی کر رہاہے۔ مگر امریکہ
کے سامراجی دور میں ہمیشہ اسرئیل کے مفاد کو تحفظ فراہم کیا ہے۔وہ سر
زمین جو مسلمانوں ،یہودیوں ،عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر مقدس تھی
مسلسل قتل و غارت ،بدامنی دہشت گردی کی آماجگاہ بنی رہی ہے۔ ا س بدامنی
کا آغاز 1948ء میں امریکہ ،برطانیہ اور اقوام متحدہ کی ملی بھگت
سےاسرائیل کی ریاست کے باضابطہ قیام کی وجہ سے ہوا جس نے فلسطینی
عربوں کو اپنے حقوق کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیا۔
1967ء میں عرب اسرئیل جنگ ہوئی اس چھ روزہ جنگ میں عربوں کو
شکست ہوئی ۔ مصر شام اور اردن کے عالقے بھی اسرئیل کے قبضہ میں
آگئے۔ الکھوں فلسطینیوں کو ملک دربدر ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ یوں
اسرائیل جارہیت کے ایک طویل دور کا آغاز ہو گیا۔ 1973ء میں ایک بارپھر
عرب اسرئیل جنگ ہوئی جس میں عربوں نے پہلی مرتبہ دنیا کو تیل کی ترسیل
بند کر دی ۔ جس سے بڑی طاقتوں کی معیشت بری طرح ،متاثر ہوئی اورانہیں
مشرق و سطہ کے عرب وسائل کی اہمیت کا احساس ہوا اور یہ عالقہ ہمیشہ
کےلیے ان کی ترجیحات اور قومی مفادات میں سر فہرست آگیا۔
اقوام متحدہ کے تمام ادارے بھی امریکہ کی منشاء و رضا ددیکھ کر کوئی
ایسی کاروائی کرنے پر آمادہ نہیں جس سے اسرائیلی مفادات کو زر پہنچے
جب کہ عراق کے خالف اقوام متحدہ کی صرف ایک قرارداد پر امریکہ نے
اتنے بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کی جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔
امریکہ نے دوسال کے نا ،نہاد امن مذاکرات کے بعد 17ستمبر 1993ء کو
وائٹ ہاوئس میں " پی ایل او اسرائیل امن معاہدے " پر یاسر عرفات نے
اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابین سے دستخط کروائے اس معاہدے کے
ذریعے پی ایل او سے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کروالیا گیا ۔
اسرائیل نے معاہدے کے تین ماہ بعد اپنی فورسیز کو بعض مقبوضہ عالقوں
میں محدود حق خود اختیاری دینے کا وعدہ کیا ۔
یہسمجھوتا دراصل مشرق وسط ٰی میں امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا عملی اطالق
تھا۔جس کے تحت پی ایل او بلکہ آزادی فلسطین کی پوری تحریک کو ایک بڑے
بحران کا شکار کر دیا گیااور عربوں کی اسرئیل کے بارے میں تمام مخالفانہ
پالیسیوں کو ختم کروا دیا گیا۔اسرائیل کے وجود کو پی ایل او سمیت اکثر ممالک
سے تسلیم کروا لیا گیا۔ انتفاضہ کی تحریر کا خاتمہ کردیا گیا اور تمام انتہاپسند
گروہوں کو پی ایل او کا دشمن بنادیا گیاہے۔اس طرح امریکی نیو ورلڈ آرڈر کے
عین مطابق فلسطینی اور عرب آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بن چکے
ہیں۔ حماس ،حزب ہللا اور پی ایل اوکے اختالفات ایک بڑی خانہ جنگی کا
پیشخیمہ ہے اس طرح فلسطین کی آزادی کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا
ہے۔؎
امریکہ نے جس وسیع پیمانے پر اسرئیل کی اقتصادی ،سیاسی اور فوجی
امداد کی ہےاس کے نتیجے میں اسرائیل دنیا کی چوتھی بڑی طاقت بن گیا ہے
اگر یہ امریکی امداد نہیں ملتی تو اسرائیل کے لیے فلسطینی مقبوضہ عالقوں
پر تسلط جاری نہ رکھ سکتا اور بیت المقدس بھی آزاد ہو چکا ہوتا مگراب نیو
ورلڈ آرڈر کے تحت نام نہاد امن معاہدے نے فلسطین کی آزادی کیبقیہ داستان
بھی ختم کر دی ہے۔ اور امت مسلمہ بےحسی سے بیت ا لمقدس کا سودا
ہونے پر خاموش تماشہ بنی بیھٹی ہے ۔
مسئلہ کشمیر اور نیو ورلڈآرڈر:
کشمیرمسئلہ بھی مسئلہ فلسطین کی طرح 46سالوں سے بڑی طاقتوں اور
عالمی اداروں کے استحصال اور سامراجی ہتھکنڈوں کی بدولت سسک رہا
ہے۔کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا
مطالبہ کررہے ہیں بھارت گزشتہ 46سالوں سےکشمیر میں بین االقوامی قوانین
کی انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خالف ورزی کررہا ہے خون کے دریابہ
چکے ہیں ہزاروں عزتیں لٹ گئی ہیں ،الکھوں جانیں قربان ہوگئی ہیں بستیاں
اجڑ گئی ہیں مگر امریکہ اور اقوام متحدہ کی ترجیحات میں کشمیر کے عوام
کی آزادی کے مطالبہ کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے کیونکہیہانامریکی عادات کو
خطرہ نہیں ہے ۔ اس لیےنیو ورلڈ آرڈر کا وادی کشمیر پر اطالق نہیں ہوگا
بھارت جو گزشتہ 46برس اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس" کشمیر
ہندوستان کا اٹوٹ انگ "کے نعرے کے ساتھ اقوام متحدہ کا مذاق اڑاتا رہا اور
کشمیریوں کا قتل عام کرتا رہا آج بھی اپنی تشدد آمیز اور انسانیت سوز
پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ 1957ء سے اقوام متحدہ
کے سرد خانے میں پڑا ہے اس عرصہ میں بھارت نے 1965ء اور 1971ء
میں پاکستان پر دو جنگیں مسلط کیں اور پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا مگر
امریکہ سٹیو اور سینٹو میں پاکستان کی شمولیت کے باوجود اس مسلے کے
حل میں کوئی دلدار نہ ادا کرسکا۔
نیو ورلڈ آرڈر کے تحت امریکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو وہی کردار سونپنا
چاہتا ہے جو اس نے مشرق وسط ٰی میں اسرائیل کے سپرد کیا ہے امریکہ کے
امتیازی رویے کی نشاندہی کے لیےیہی کافی ہے کہجنوبی ایشیا میں بھارت
1974ءمیں ایٹمی دھماکہ کر چکا ہے۔ اور سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق
بھارت کے پاس 100ایٹم بم بنانے کیلئے افزودہ یورینیم موجود ہے۔لیکن پھر
بھی بھارت سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا امریکہ بھارت کی 50ملین ڈالر
ساالنہ امداد کررہا ہے۔بھارت کشمیر میں اور پورے ملک میں مسلمانوں سے
انسانیت سوز سلوک کے مظاہرہ کر رہا ہے بابری مسجد اور درگاہ حضرت بل
کے تقدس کی وسیع پیمانے پر توہین کی گئی ہے۔مگر امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر
میں نہ تو یہ دہشتگردی ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی خالف ورزی اور نہ ہی
بھارت پر پریسلرترمیم کی طرح کسی امداد کی بندش کے قانون کا اطالق ہوتا
ہے۔اس طرح جنوبی ایشیا مینچونکہ بھارت کو امریکہ اپنی نئی سامراجیت کا
نگران بنانا چاہتا ہے اس لیے امریکہنے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے
پاکستانکے ایٹمی پروگرام کو مشروط قرار دے دیا گیا ہے تاکہ مشرق وسطی
کے معاہدے کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی کوئی ایسا معاہدہ عمل میں الیا
جائےجو امریکی اور بھارتی مفادات کے عین مطابق ہو ۔ اس طرح امریکہ کی
خواہش ہے کہ فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کی انتفاضہ بھی سسک سسک
کر دم توڑ جائے۔ ؎13