Professional Documents
Culture Documents
5624 1
5624 1
سوال نمبر :1کیا پروپیگنڈا ایک جنگی ہتھیار ہے نیز پروپیگنڈا کی مختلف صورتیں بیان کریں؟
1
پروپیگنڈہ‘ امن و جنگ دونوں صورتوں میں استعمال ہونیواال ہتھیا
تیر و تلوار کی جگہ بندوق و ٹینک اور منجنیق کی جگہ جدید جنگی طیاروں اور میزائلوں نے لے لی۔ جنگ لBBڑنے
کے اوزار و ہتھیار ہی تبدیل نہیں ہوئے دیگر امور بھی تبدیل ہو گئے لیکن پروپیگنڈہ ایBBک ایسBBا کBارگر ہتھیBار ہے
جو تمام تر ترقیوں کے باوجود آج بھی موثر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اسے زبانی کالمی اسBتعمال کیBBا جاتBBا
تھا جس کے اثرات مہینوں تو کبھی سالوں میں ظاہر ہوتے۔ تاہم مواصالتی ترقی نے پروپیگنڈے کی تیز رفتاری ہی
میں اضBBافہ نہیں کیBBا اس کی قBBوت کBBو بھی دو چنBBد کBBر دیBBا ہے۔ اور پاکسBBتان ایBBک ایسBBا ملBBک ہے جس کیخالف
پروپیگنڈے کا ہتھیار نصف صدی سے استعمال ہو رہا ہے۔
2
بھارت نے پہلے یہ کھیل مشرقی پاکستان میں کھیال اور اب بلوچستان میں
کھیل رہا ہے۔ لیکن ہم بھارت کو پاکستان کا دشBمن تسBلیم کBرنے کBو تیBار ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھBارت دھBڑلے
کے ساتھ براستہ افغانستان پاکستان میں مسلح مداخلت کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔دہشت گردی کے حBBوالے
سے پاکستان کو بدنام کرنے کا آغاز بھارت نے 1984ءمیں پاکستان پر اسالمی بم بنانے کا الزام لگانے کے سBBاتھ
ہی کر دیا تھا۔ مئی 1974ءمیں بھارت نے پہال ایٹمی دھماکہ کیا تو یہ جBBانتے ہBBوئے کہ اس کBBا اسBBتعمال جب کبھی
بھی ہوا تو پاکستان اس کا نشانہ ہو گا کیونکہ قبل ازیں بھارت تین بار پاکسBBتان کے خالف جBBارحیت کBBا مBBرتکب ہBBو
چکا تھا۔ اسکے باوجود پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کو ہندو بم کا نام کبھی نہیں دیا جبکہ بھارتی حکومت میڈیا اور
دانشور پاکستان کے ایٹمی اسلحہ سے متعلق ایک ہی پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستان کی ایٹمی قBBوت مہBBذب دنیBBا
کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کBBو فBBروغ دیBBنے دہشBBت گBBردوں کBBو بطBBور جنگی
حکمت عملی ہمسایہ ممالک کےخالف استعمال کرنے اور پاکستان کBBا ایٹمی اسBBلحہ انتہBBا پسBBند مسBBلمانوں کے ہBBاتھ
لگنے کا پروپیگنڈہ انتہائی مربوط اور منظم انداز سے کیا گیا اسکے زیر اثر مغBBربی ممالBBک کے سBBینکڑوں تھنBBک
ٹینک دن رات پاکستانی ایٹمی اثاثوں پر شب خون مارنے‘ اسے عالمی کنٹرول میں لینے کی پالیسیاں مBBرتب کBBرنے
میں جت گئیں۔ امریکی کانگرس کی دفاعی کمیٹی میں متعدد بار اس آپشن پر غور ہوا کہ ضرورت پڑنے پر امریکی
کمانBBڈوز کب اور کس طBBرح پاکسBBتان کے ان مقامBBات کBBا کنBBٹرول حاصBBل کBBرینگے جہBBاں پاکسBBتانی ایٹمی اسBBلحہ کی
موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔ اور اس آپریشن کیخالف ممکنہ پاکستانی ردعمل اور مزاحمت کا معیار کیا ہو گا۔
3
گو دنیا کی کسی قوت کو اپنے ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی
جرا¿ت نہیں ہوئی کیونکہ امریکی جBBانتے تھے کہ اسBBکے اثBBرات انتہBBائی تبBBاہ کن ہBBونگے۔ البتہ دہشBBت گBBردی کے
حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کا سلسلہ ضروری جاری رکھBBا گیBBا۔دنیBBا میں دہشBBت گBBردی کی کہیں کBBوئی بھی
واردات ہوتی اسکی جڑیں پاکستان میں تالش کرنے اور دہشت گردوں کے پاکستان میں انتہBا پسBندوں سBے رابطے
تالش کر کے پاکستان سے متعلق عالمی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی۔ اب جبکہ پBBاک فBBوج کی
طرف سے شمالی وزیرستان و دیگر قبائلی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کیخالف جاری آپریشBBن کے ذریعے ان کے
تمام خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ پاکسBتان میں 2002ءسBBے جBBاری دہشBت
گردی اور پاکستان کے دشوار گزار قبائلی عالقوں میں چھپے دہشت گBردوں کBو بھBBارتی حمBایت و مBBدد حاصBBل تھی
اور بھارت ہی ان دہشت گردوں کو افغانستان سے کنٹرول کرتا تھBBا۔ اسBBکے بBBاوجود کبھی شBBام و عBBراق میں لBBڑنے
والے انتہا پسندوں یا حکومت کیخالف برسرپیکار افراد کا تعلق پاکستان سے بتBBا کBBر پاکسBBتان میں مسBBلکی اختالف
پیدا کرنے کی کوششیں ہوئیں اور اب حوثیوں کو شمالی وزیرسBتان میں روابBBط کی خBبریں آرہی ہیں جBBو کہ حBیران
کن ہیں۔ خاص طور پBر پاکسBتان کی پBارلیمنٹ میں سBBعودی عBرب فBوج بھیجBنے کے حBوالے سBے منظBBور کی گBBئی
قBBرارداد اور اس کے نBBتیجے میں پBBاک سBBعودی تعلقBBات میں پیBBدا ہBBونے والی غلBBط فہمیBBوں کے بعBBد جس طBBرح کی
صورتحال بنی بعد ازاں وزیراعظم نوازشریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل نے سعودی عBBرب جBBا کBر جس
انداز سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اس کے بعد اس طرح کی خبریں پاکستان میں ایBBک نBئی بحث کے آغBBاز کBا سBبب
بن سکتی ہیں جو پاکستان کے داخلی حاالت کے حوالے سے مناسب نہیں۔ دو برادر اسBBالمی ممالBBک کے ”پراکسBBی
وار“ کی پاکستان پہلے ہی کافی قیمت ادا کر چکا ہے جس کا پاکستان مزید متحمل نہیں ہBBو سBکتا۔ سوشBل میBڈیا پBر
اس حوالے سے جس طرح کے تبصرے و تجزیے جاری ہیں اسکے پیچھے ایک خاص ذہن کBBار فرمBBا ہے جوپBBاک
نے پاکستان کے خالف پروپیگنڈہ مہم کے لBBئے ایBBک Rawسعودی تعلقات پر خوش نہیں۔ بھارتی شہر چنائی میں
مکمل ادارہ قBائم کBر رکھBا ہے جس میں آئی ٹی انجینBئروں کBو خصوصBی طBور پBر تعینBات کیBا گیBا ان کBا کBام جعلی
شناخت و نام کے ساتھ ٹیوٹر اکانٹ‘ ای میل و فیس بک اکانٹس بنا کر پاکستان کےخالف پروپیگنڈہ پر مبنی خبروں
کو پھیالنا‘ ان پر تبصرے کرنا ہے۔ اس ادارے سے بھارت کے نامی گرامی دانشBBور قلمی نBBاموں کے سBBاتھ مغBBربی
پرنٹ میڈیا کےلئے جنوبی ایشیا سBے متعلBBق مضBBامین بھی لکھBBتے ہیں۔ ان میں پاکسBتان کBو ابھی تBک انتہBBا پسBند
ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مذکورہ مضBامین شBائع ہBونے کے بعBد ان پBر بعض پاکسBتانی دانشBوروں سBے
تجزیے لکھوائے جاتے ہیں جو پاکستان میں شائع نہیں ہوتے۔ تاہم مغربی اخبارات کی ویب سBBائٹ پBر پاکسBBتان کے
خالف لکھے گئے مضامین کے ساتھ شBامل کBر دئے جBاتے ہیں۔ جس کBو دیکھBتے ہBوئے ہمیں یمBنی حوثیBوں کے
پاکستان میں روابط کے حوالے سے پاکستان
4
مخالف پروپیگنڈہ مہم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
پروپیگنڈا تمام لوگوں پر ایک نظرئیے کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ پروپیگنڈا عام لوگوں پر ایک خیBBال"
کی حیثیت سے اثرانداز ہوتا ہے اور پھر اِس خیBال کی فتح کیلBئے اُنہیں تیBار کرتBا ہے"۔ یہ الفBاظ ایBڈولف ہٹلBر نے
اپنی کتاب مین کیمپف ( )1926میں لکھے تھے جس میں اُس نے پہلے قBBومی سوشBBلزم کے تصBBورات کBBو پھیالنے
کیلئے پروپیگنڈے کے استعمال کی وکالت کی جس میں نسلی امتیاز ،سام دشمنی اور بالشویکی تحریک کی مخالفت
شامل ہے۔
1933 میں نازیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہٹلر نے عوامی روشن خیالی اور
پروپیگنڈے کی ریخ وزارت قائم کی جس کا سربراہ جوزف گیبیلز تھا۔ وزارت کا مقصد اِس بBات کBو یقیBنی بنانBا تھBا
کہ آرٹ ،موسیقی ،تھیٹر ،فلموں ،کتابوں ،ریڈیو ،تعلیمی مBBواد اور ذرائBBع ابالغ کے ذریعے نBBازی پیغBBام کBBو کامیBBابی
کے ساتھ فروغ دیا جائے۔
نازی پروگینڈے کی رسائی کئی طرح کے لوگوں کیلئے تھی۔ جرمنوں کو غیر
ملکی دشمنوں اور یہودی بغاوت کے خالف جدوجہد سے روشناس کرایBBا گیBBا۔ یہودیBBوں کے خالف قBBانون سBBازی یBBا
سرکاری اقدامات سے پہلے کے زمانے میں پروپیگنBBدا مہمBBوں سBBے ایسBBا مBBاحول تیBBار گیBBا جس میں یہودیBBوں کے
خالف تشدد کو برداشت کیا جائے خاص طور پر ( 1935ستمبر کے نیورم برگ نسلی قوانین سے پہلے) اور 1938
(کرسٹل ناخٹ کے بعد سام دشمنی پر مبنی اقتصادی قانون سازی سے پہلے)۔ پروپیگنBBدا غBBیر فعBBالیت اور یہودیBBوں
کے خالف ہونے والے ایسے اقدامات کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتا تھا جن سے بظBBاہر یہ تBBاثر دیBBا جاتBBا کہ نBBازی
حکومت اقدامات کرتے ہوئے "نظم و نسق کی بحالی" کی کوشش کر رہی ہے۔
5
پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی ایماء پر چیکوسلواکیہ اور پولینڈ
جیسے مشرقی یورپ کے جن ممالک نے مزید عالقے ہتھیا لBBئے تھے اُن میں نسBBلی جرمنBBوں کے خالف حقیقی یBBا
پھر تصوراتی امتیاز ہی نازی پروپیگنڈے کا موضوع تھا۔ اِس پروپیگنڈے کے ذریعے جرمن نسلی آبBBادی کی طBBرف
سے سیاسی وفاداری اور نسلی احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اِس نے یورپ کی بBBڑی قوتBBوں سBBمیت
بیرونی ممالک کی حکومتوں کو بھی یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ نازی جرمنی دیگر ممالک سے رعBBایتوں
اور اُن کے عالقوں پر قبضے سے متعلق قابل فہم اور منصفانہ مطالبات کر رہا ہے۔
6
جرمنی کے اخبارات خاص طور پر دئر شٹرمر (حملہ آور) نے ایسے
کارٹون شائع کئے جن میں یہودیوں کو دکھانے کیلئے سBام دشBمنی پBر مبBنی مسBBخ شBدہ خBBاکے شBامل کBBئے گBئے۔
ستمبر 1939میں جرمنوں کی طرف سے پولینڈ پر حملے کے سBاتھ دوسBری عBالمی جنBگ شBروع کBرنے کے بعBد
نازی حکومت نے جرمن شہریوں اور فوجیوں کو یہ باور کBBرانے کیلBBئے پراپیگنBBڈے کBBا اسBBتعمال کیBBا کہ یہBBودی نہ
صرف گھٹیا انسان ہیں بلکہ جرمن ریخ کیلئے خطرناک دشمن بھی ہیں۔ نازی حکومت نے جرمن بستیوں میں سBBے
یہودیوں کو مستقل طور پر نکالنے کیلئے حمایت یا پھر خاموش تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔
نام نہاد حتمی حل پر عمل درآمد یعنی یورپی یہودیوں کے قتل عام کے
دوران قتل گاہوں میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ہالوکاسٹ کے شکار افراد کو مجبور کیBا کہ وہ جرمBنی اور مقبوضBہ
یورپ سے یہودیوں کو ممکن حد تک سہولت کے ساتھ جال وطن کرنے کے عمل کBBو الزمی طBBور پBBر مخفی رکھیں۔
حراستی کیمپ اور قتل گاہ کے اہکار قیدیوں پر دباؤ ڈالتے کہ وہ اپنے گھروں کBBو ایسBBے پوسBBٹ کBBارڈ روانہ کBBریں
جن میں وہ کہیں کہ اُن کے ساتھ بہترین سلوک کیا جا رہا ہے اور وہ نہایت شاندار مBBاحول میں رہ رہے ہیں اگBBرچہ
ان میں سے اکثر کو جلد ہی گیس چیمبرز میں ہالک کر دیا جانا تھا۔ یوں کیمپ حکBBام نے اپBBنے ظلم و سBBتم اور قتBBل
عام کے اقدامات کو چھپانے کیلئے پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔
7
جون 1944میں جرمن سیکورٹی پولیس نے بین االقوامی ریڈ کراس کی
ٹیم کو تھیریسئن شٹٹ کیمپ گھیٹو کے معائنے کی اجازت دے دی جو بوہیمیBBا اور مBBوراویہ کے پروٹیکٹBوریٹ میں
واقع تھا۔ (یہ عالقہ اب جمہوریہ چیک کہالتا ہے)۔ ایس۔ ایس اور پولیس نے تھیریسئن شٹٹ نومبر 1941میں قBBائم
کیا تھا جس کا مقصد جرمن ریخ میں داخلی طور پBر پروپیگنBڈے کیلBئے اسBBے اسBتعمال کرنBBا تھBا۔ کیمپ گھیٹBو کBBو
جرمن شہریوں کو مطمئن کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا جBBو اِس بBBات پBBر حBBیرت کBBا شBBکار تھے کہ جنBBگ میں حصBBہ
لیتے ہوئے جسمانی طور پر معزور ہونے والے یا مقامی طور پر معBBروف فنکBBاروں اور موسBBیقاروں سBBمیت زیBBادہ
عمر کے جرمن اور آسٹرئن یہودیوں کو جالوطن کر کے "مشرق کی جانب" "جبری مشقت" کیلئے کیوں بھجا جBBا
رہBBا ہے۔ 1944کے اِس دورے کی تیBBاری میں گھیٹBBو میں "آرائش و زیبBBائش" کے ایBBک پروگBBرام کے تحت اسBBے
سجایا گیا۔ معائنے کے تناظر میں پروٹیکٹوریٹ میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ایک فلم تیBBار کی جس میں گھیٹBBو کے
رہائشیوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ تھیریسئن شٹٹ کے یہBBودی "رہائشBBیوں" کے
ساتھ فرضی طور پر کس قدر فراخدلی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب فلم تیار ہBBو گBBئی تBBو ایس۔ ایس اہلکBBاروں نے اِس
فلم کی "کاسٹ" کے بیشتر لوگوں کو آشوٹز۔ برکیناؤ قتل گاہ روانہ کر دیا۔
سوال نمبر :2انٹرویو سے کیا مراد ہے؟ نیز انٹرویو کے اہتمام کے اصول واضح کریں۔
انٹرویو کی تعریف
ان ٹرویو ک ا لفظی مطلب خی االت ٓاراء اور نقطہ نظ ر ک ا تب ادلہ کرن ا ہے۔ یہ تقریب ا ً تم ام امتحان ات اور
ہیں
مالزمتوں کے لیے مشترک ہوتے َ
انٹرویو کی بہت سی اقسام ہیں جو تخمینی انٹرویو مشاورتی انٹرویو‘ ش کایت ک ا ان ٹرویو‘ ب یرون مل ک
مالزمت کا انٹرویو معلومات جمع کرنے کا انٹرویو‘ سیاسی انٹرویو اور ادبی انٹرویو وغ یرہ ہ وتی ہیں۔
8
انٹرویو کا بنیادی مقصدامیدوا ر کی صالحیت قابلیت ذہنی میالن اظہ ار کے ط ریقہ ک اراور گفتگ و کے
اسلوب کا جائز ہ لے کر حتمی رائے قائم کرتاہوں۔
چ ونکہ محکمے اورادارے قاب ل اور باص الحیت امی دواروں کے چ نئو کے ل یے اپ نے ص وابدیدی
اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے امیدوار کا حتمی چنائو ک رتے ہیں اس ل یے ان ٹرویو ن گ کے بنی ادی
اصول ان تمام اقسام کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔
انٹرویو کی اقسام
انٹرویو کی متعدد اقسام ہیں جن کی تکنیک اور ساخت کے مط ابق درجہ بن دی کی جاس کتی
ہے ۔ انٹرویو کی اہم اقسام درج ذیل ہیں:
٭ منصوبہ بند انٹرویو
٭ وضع کردہ انٹرویو
٭ تاکیدی انٹرویو
٭ پینل انٹرویو
منصوبہ بند انٹرویو
منصوبہ بند انٹرویو میں ان ٹرویو لی نے واال پہلے ہی س ے موض وعاتی می دانوں ک ا
خاکہ تیار کرتا ہے۔ اس طریقہ میں انٹرویو لیینے واال جو ابات تحریری طور پر ریکارڈ کرے گ ا۔ کہنہ
مشق انٹرویو لینے واال اپنے تجربے کی بدولت امیدوار کے تمام رجحانات اور ذہنی معلوم ات ک و ج ان
لیتا ہے وہ جن مضامین پرغور کرتاہے ان میں گھریلو زندگی تعلیم سابقہ کام ک ا تج ربہ س ماجی تس ویہ
رویے اور تفریحی دلچسپیاں شامل ہیں۔ جن کا مقصد امیدوار کے س اتھ خ وش دلی اور ٓازادی کے س اتھ
کھل کر بات چیت کرنا ہوتاہے۔ ایس ا ان ٹرویو لی نے واال مکم ل ج ائز ہ لے کرامی دوار کی مالزمت کے
سلسلہ میں کامیابی یا ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔
ایسے انٹرویو میں امیدوار کو تنظیم؍ ادارے کے ک ام کی ن وعیت تنخ واہ ت رقی کے
مواقع او ر مالزمین پر عائد شرائط کے بارے میں معلومات مہیا کی جا سکتی ہیں۔
وضع کردہ انٹرویو
ایسے انٹرویوز کو کہت ہین جو انتہائی جامع سوالنامہ کی بنیادوں پر کی ا جات اہے۔ اس ان ٹرویو کی م دد
ہیں ان ٹرویو ٔؤووالے کی بہت زی ادہ احتی اطی ت ربیت
سے جواز مطالعات نے اچھے نتائج حاص ل ک یے َ
اور ٹھوس انتخابی طریق کار امیدوار کی اہلیت اور نا اہلیت کا فیصلہ کرنے میں خاطر خواہ م دد ف راہم
کرتے ہیں۔
تاکیدی انٹرویو
9
تاکیدی انٹرویوو کا طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے دوران خفیہ ع املوں
کے انتخاب کے لیے امریکی حکومت نے وضع کیا۔ اس میں ان ٹرویو لی نے واال دش من کے ک ردار ک و
فرض کر کے انہیں مدافعت کرنے اور دانستہ طور پر تن گ ک رنے پریش ان ک رنے اور م ایوس ک رنے
کے لیے انٹرویو کرتے ہیں بعض اوقات امیدوار پر غصہ جھاڑ کر اسے مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
تاکیدی انٹرویو کا مقصد ان لوگوں کی تالش ہے جو اپنے رویے پر قابوپ انے
کے اہل ہوں خواہ انہیں جان بوجھ کر جذباتی کر دی ا ج ائے۔ اس ط ریقہ ان ٹرویو ک و بہت زی ادہ ت ربیت
یافتہ شخص استعمال کر سکتا ہے۔
پینل انٹرویو
ہیں پین ل طری ق ک ار ک و
پینل انٹریو میں تین بار یا اس سے زائ د اف راد ان ٹرویو لی تے َ
عموما ً سرکاری دائرہ اختیار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینل تکنیک درخوات دہندگان کی زیادہ کی زیادہ
ج امع تحقی ق ک رنے انف رادی ک ارکردگی کی وض احت ک و بٓاس انی ممکن بنات ا ہے۔ قی اس کے ط ورپر
انٹرویو لینے والے کے تاثرات اور میالن کو کھلے عام زیر بحث الیا جا سکتا ہے۔
انٹرویو کے مقاصد
انتخابی انٹرویو کے مقاصد تین درجات میں منقسم ہیں۔
1۔ انٹرویو لینے واال امیدوار کے ارادوں کے بار ے میں علم حاصل ک رکے اس کے تنظیم؍ ادارے کی
مالزمت اور خاص مالزمت کے لیے موزوں ہونے کا تعین کر سکتاہے۔
2۔ جس طرح ٓاجر اپنے ادارے کے استحکام اور ترقی کے ل یے ای ک مالزم ک و منتخب کرت ا ہے بلکہ
اس ی ط رح امی دوار مالزمت کے متالش ی ٓاج ر ک ا انتخ اب کرت ا ہے۔ ج و اپ نی ض رورت ک و م دنظر
رکھتیہوئے بہت سے لوگوں کو مسترد کرتا ہے ایک انٹرویو ک ا ای ک مقص د ادارہ مالزمت اور لوگ وں
کے بارے میں معلومات مہیا کرتا ہے۔
3۔ تیسرا مقصد انٹرویو لینے واال امیدوار کے ساتھ اس انداز میں مقابلہ کرن ا ہے جیس ا کہ کمپ نی بہ تر
ماحول کے لیے خیر سگالی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔
غیر قانونی سواالت
ایس ے س واالت جن کے جواب وں کی ض رورت نہ ہ و ت و غ یر ق انونی کہالتے ہیں۔ اور ایس ے س واالت
انٹرویو لینے والے کو پوچھنے نہیں چاہیے تاہم کبھی کبھار انڑی ور اس ط رح کے چن د س واالت پ وچھ
سکتا ہے۔
10
اب یہ امیدوار کا فرض ہے کہ وہ یہ اندازہ لگائے کہ یہ سوال کا جواب دینے کے قابل بھی ہے ی ا نہیں۔
امیدوار کو ہرگز ایس ا نہیں کہن ا چ اہیے کہ س وال ناج ائز؍ غ یر ق انونی ہے۔ اس قس م کے س واالت کچھ
ایسے ہوتے ہیں۔
٭ٓ اپ کی عمر کیا ہے؟
٭ کیا ٓاپ شادی شدہ ہیں یا منگنی ہوئی ہے؟
٭ٓ ا پ کا وزن کتنا ہے؟
٭ٓ اپ کے ساتھ کون رہتا ہے؟
٭ٓ ا پ کے بچے کتنے بڑے ہیں؟
٭ کیآاپ نے بچے زیادہ پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے؟
٭ جب ٓاپ کام پر ہوں تو بچوں کی حفاظت کون کرے گا؟
سوال نمبر :3صحافتی ضابط اخالق کیوں ضروری ہے؟ کارکن صحافیوں کا ضابط اخالق بیان کریں؟
صحافیوں کا ضابطہ اخالق
،جس ”اے پی این ایس“ کے سپرد صحافیوں کا ضابطہ اخالق مرتب کرنے کی ذمہ داری کی گئی ہے
11
کمرشل ازم کو شدید زد پہنچنے ک ا خط رہ ہے ،چن انچہ امی دکامل یہی رکھ نی چ اہیے کہ اس مع املے میں ڈھ اک کے
دوپ ات ،رہیں گے اور وقت گ زرنے کے س اتھ س اتھ ض ابطہ اخالق کی ح الت ب دتر ہ وئی چلی ج ائے گی کہ اب ت و
الیکٹرانک میڈیا کا تڑکہ بھی لگ چکا ہے اور پھر کون نہیں جانتا کہ جس مل ک کے %84ع وام ک و پی نے ک ا ص اف
پانی میسر نہیں،غریب عوام ہسپتالوں کے گندے فرشوں پر ایڑھیاں رگڑ کر مر رہے ہوں ،بھوک و غربت کے ہاتھوں
خودکشیاں اور اپنے بچوں کو بیچ رہے ہوں۔ اس ملک کی فقط وفاقی حکومت گزشتہ صرف چار سال کے دوران میڈیا
کو آٹھ سو کروڑ روپے کے اشتہارات دے چکی ہو ،صوبائی حکومتیں اس کے عالوہ ہیں
ود اﺅ اور وہ بھی خ ابطہ اخالق بن ے کہے کہ ض ڈیا س وئی می االت میں ک انچہ ان ح چن
اگلے روز پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم جو بذات خود ایک معروف ص حافی ہیں نے حک ومت ک و دہ ائی دی ہے کہ
انہیں اور ان کے دیگر سٹاف کو جان کا خطرہ ہے ،انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکس تان الیکٹران ک می ڈیا ریگولی ٹری
اتھارٹی جس کا کام الیکٹرانک میڈیا کو اخالقی و سماجی حدود و قیود کے اندر رکھنا ہے چن انچہ اگ ر اس اتھ ارٹی ک ا
چیئرمین حکومت سے یہ کہے کہ اسے دھمکیاں مل رہی ہیں اور اگر حکومت اسے مکم ل اختی ارات نہیں دے س کتی
تو اس ادارے کو بندکر دیا جائے۔ گو کہ ابصار عالم کے مطابق انہیں اوران کے سٹاف ک و یہ دھمکی اں ن امعلوم اف راد
کی طرف سے دی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ابصار سمیت ”نظ ر“ رکھ نے والے ل وگ ج انتے ہیں کہ انہیں یہ
دھمکیاں کہاں سے اور کون کون دے رہا ہے۔
13
سوال نمبر :4پاکستان میں صحافت کے پس منظر میں قانون ہتک عزت اور قانون توہین
عدالت کے مختلف پہلوؤں کا جائزا لیں؟
پاکسBBتان میں ہتBBک عBBزت کے مجBBوزہ قBBانون کے خالف اتBBوار کے روز اسBBالم آبBBاد اور جBBڑواں شBBہر راولپنBBڈی کے
صحافیوں کی تنظیم "آر آئی یو جے" نے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہتک عزت کے مجوزہ قانون کو کBBاال
قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ فی الفور مسودہ قانون واپس لیا جائے۔
شمسی کے مطابق ہتک عزت کے نافذ قانون کے تحت مقدمہ دیوانی یا سول عدالت میں چالی ا جات ا ہے
لیکن مجوزہ قانون میں ضابطہ فوج داری کے تحت مق دمہ سیش ن جج چالئیں گے اور دو م اہ کے ان در
14
سزا سنانے کے وہ پابند بھی ہوں گے۔ ان کا دع ٰ
وی تھ ا کہ پاکس تان میں پہلے س ے س ولہ ایس ے ق انون
موجود ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کے منافی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کا مجوزہ قانون ایک خطرناک قانون ہے جو ان کے بقول صحافت کو مفلوج
اور گونگا بنادے گا۔
حک ومت ک ا متعلقہ ب ل پیش ک رتے وقت دع ٰوی تھ ا کہ اس س ے اخب ارات مت اثر نہیں ہ وں گے
ا۔ ڑے گ رق نہیں پ وئی ف ر بھی ک ار رائے کی آزادی پ ے اظہ انون س اور اس ق
اخب اری مالک ان کی تنظیم ’اے پی این ایس’ کے س رکردہ رہنم ا حمی د ہ ارون ک ا اس ق انون کے متعل ق کہن ا ہے کہ
حکومت اس قانون کے ذریعے صحافیوں اور عدالتوں پر زیادہ پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
سوال نمبر :5اخبار کے مختلف ایڈیشن کیسے تیار کئے جاتے ہیں؟ تفصیالت بیان کریں؟
اخبارات شروع میں خبروں کے لیے محدود ذرائع سے استفادہ کرتے تھے۔ دور دراز کی خبریں آہس تہ
آہستہ آتی تھیں۔ جب کہ مق امی خ بریں مخ بر،خ بری،وغ یرہ کے ذریعہ س ے حاص ل کی ج اتی تھیں۔ان
خبروں کی تصدیق الزمی جز تھا جس کے لیے بغیر خبری کو مطلع کئے دوسرے خبری کو بھی اس ی
خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کیا جاتا تھا اور دونوں کی خبروں کی اگر تضاد نہ ہو تو اس ک و ص حیح
تسلیم کر لیا جاتا اور اس کو شائع کر لیا جاتا تھا۔
15
آج کا میڈیا وسیع ہو چک ا ہے اور لمح وں میں دنی ا کے ای ک ک ونے س ے دوس رے ک ونے ت ک خ بریں
پہنچتی ہیں۔ اخبارات کے ل یے مختل ف ذرائ ع س ے خ بریں پہنچ تی ہیں اس کی تفص یل ہم اس مض مون
پراجکٹ رپورٹ میں پڑھیں گے۔
ایڈیٹر اپنے اپنے شعبہ کے اسٹاف رپورٹر ،نیوز کے عملہ اور دیگر متعلقہ عملہ کا نگران ہوتا ہے۔ بہت سے اخبارات
مختلف شعبوں کے لیے خصوصی ایڈیٹروں یا کالم نویسوں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ جیسے مش اورتی ک الم،
مزاحیہ کالم ،عام معلوماتی کالم۔
کاروباری شعبہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اخب ار ک و مجم وعی ط ور پ ر من افع حاص ل ہ و رہ ا ہے۔
کاروباری شعبہ کا منیجر ،شعبہ اشتہارات ،شعبہ تقسیم یعنی سرکیولیشن اور شعبہ ترقی و ت رویج یع نی
پروموشن کے منیجروں کے تعاون کے ساتھ کام کرتا ہے۔ شعبہ اشتہارات اخب ار میں ش ائع ک رنے کے
لیے مختلف الن وع اش تہارات کی وص ولی ک ا اہم فریض ہ انج ام دیت ا ہے۔ سرکیولیش ن م نیجر اخب ار کی
مناسب اور مطلوبہ تقسیم کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ جب کہ شعبہ ترقی و ترویج کا منیجر اخبار کی جانب
عوام کی توجہ مبذول کروانے یعنی اخبار کو عوام میں مقبول بنانے اور ن ئے خری دار بن انے کے ل یے
مختل ف طریق وں اور اُم ور ک و رو بہ عم ل الت ا ہے۔ کاروب اری ش عبہ کے تحت اخب ار کی آم دنی و
اخراجات کے حسابات کا شعبہ بھی کام کرتا ہے۔
یکانکی شعبہ اخبار کو چھاپنے کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ اس شعبہ کا منیجر صفحات کی تش کیل س ے
لے کر چھپائی کے لیے پلیٹ کی تیاری اور چھپائی کے سبھی مرحلوں کی نگرانی کرتا ہے اور متعلقہ
16
عملہ کی ک اروائیوں میں ت ال می ل پی دا کرت ا ہے۔ اخب ار کی چھپ ائی کے بع د تقس یم ک ا عملہ اخب ار کی
مطلوبہ کاپیوں کو متعلقہ عالقوں اور تقسیم کے مراکز کو روانہ کرتا ہے۔
اخبار کی تیاری میں معلومات کو اکٹھا کرنا پہال مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ معلومات مختلف ذرائع سے حاص ل
:ہوتی ہیں۔ تاہم اس کے دو اہم ذرائع ہوتے ہیں
رپ ورٹرس اپ نی تحقیق ات ،چھ ان بین اور ان ٹرویوز وغ یرہ کے ذریعہ معلوم ات حاص ل ک رتے ہیں۔
معلومات کی نوعیت کے لحاظ سے بھی مختلف رپورٹرس متعین کیے جاتے ہیں۔ اخبار کے رپ ورٹرس
زیادہ تر مقامی خبروں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔
قومی اور بین االقوامی خبروں کے لیے نیوز ایجنسیاں معلومات ف راہم ک رتی ہیں۔ بعض اخب ارات نی وز
سے بھی خبریں حاصل کرتے ہیں۔ نیوز سنڈیکیٹ ک و ک وئی ب ڑا اخب ار چالت ا ) (Syndicateسنڈیکیٹ
ہے یا چند اخبارات باہم مل کر سنڈیکیٹ تشکیل دیتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی معلوم ات س ے اس تفادہ
کر سکیں اور دوسروں کو بھی معلومات فروخت کر کے منافع حاصل کریں۔
اخبار کے لیے لکھنا یا ایڈیٹ کرنا :کسی بھی خبر کو لکھنے کے لیے رپورٹر پہلے پ یراگراف میں اس
کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ) (Leadخبر کی اہم بات کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کو خبر کا پہال ٹکڑا یا سبقت
کے حصہ میں خبر کی ساری تفصیل پیش کر دی جاتی ہے۔ یہ خبر اب ایڈیٹر کو بھیجی ج اتی ہے ج و
اس کو پڑھ کر اور اس میں ضروری ہو تو رد و قداح کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے لیے ای ک م وزوں
سرخی بھی دیتا ہے۔ ایڈیٹر خبر کے مواد کو کچھ حد تک یا پورے کا پ ورا رپ ورٹرس اور ای ڈیٹرس یہ
کام کمپیوٹر پر بھی انجام دینے لگے ہیں جس سے کام میں سرعت پیدا ہو گئی ہے اور سرعت اخبار کا
ایک اہم تقاضہ ہوا کرتی ہے۔
17
طریقہ سے نڈر ہو کر خبریں وغیرہ پیش کرنے میں مدد ملی ہے۔ صحافت کی تعلیم و تربیت نے جہ اں
ایک ج انب ت ربیت ی افتہ ص حافیوں ک و تی ار ک رنے میں تع اون دی ا وہیں مختل ف اخب ارات میں متن کی
کے ایک نقص کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ خبر لکھنے کی تکنیکیں اور اصول ) (similarityیکسانیت
چوں کہ ایک جیسے ہوتے ہیں ل ٰہذا کسی عالقے کے مختل ف اخب ارات کے مختل ف ص حافی جب کس ی
خبر کو تحریر کرتے ہیں تو اس خبر کے متن کا انداز ،اس کی زبان اور استعمال اصطالحات میں بڑی
حد تک یکسانیت آ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ خبریں ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہوں۔
ساری دُنیا میں چھپنے والے اخبارات میں امریکہ کے اخبارات بہت ضخیم ہ وتے ہیں۔ اخب ار بی نی کے
سر فہرست ہے۔ یہاں ہر ایک ہزار اف راد میں تقریب ا ً 610کاپی اں ) (Norwayمعاملہ میں ملک ناروے
فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے جاپان ،جرمنی اور فن لینڈ کا۔ اس سے یہ ن تیجہ اخ ذ کی ا ج ا
سکتا ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اخبارات کی پذیرائی زیادہ ہ وتی ہیں۔ جب کہ ت رقی
پذیر ممالک میں غربت اور ناخواندگی کے باعث اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
براعظم ایشیا میں جاپان اور چین ایسے ممالک ہیں جہ اں چھ اپے خ انے ک ا نظ ام بہت ت رقی ی افتہ ہے۔
جاپان کا یومیوری شمبن ساری دُنیا میں سب سے زیادہ چھپنے واال اخبار ہے۔ یہ روزنامہ فی دن تقریبا ً
140الکھ کاپیاں چھاپتا ہے۔
ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے تقریبا ً دو ہزار اخبار 80سے زائد زب انوں میں چھپ تے ہیں۔ ان کی جملہ
نکاسی تقریبا ً 170الکھ ہے۔ ملک پر انگریزی اخبارات کا غلبہ ہے۔
آسٹریلیا میں تقریبا ً 60روزنامے چھپتے ہیں جن کی مجموعی نکاسی 35الکھ کے ق ریب ہے۔ ی وروپ
میں برطانوی جزائر کے باشندے ،روزناموں کے مطالعے کے بڑے شوقین ہ وتے ہیں۔ س لطنت متح دہ
برط انیہ اور جمہ وریہ آئرلین ڈ میں ی وں ت و چھپ نے والے روزن اموں کی تع داد کم ہے لیکن ان کی
سرکیولیشن بہت زیادہ ہے۔ یہاں سے تقریبا ً 120روزنامے نکلتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس سے نکل نے والے اخب ار کس ی نہ کس ی سیاس ی پ ارٹی ی ا س ماجی
گ روہ س ے وابس تہ رہ ا ک رتے تھے۔ جرم نی میں 357روزن امے ش ائع ہ وتے ہیں۔ ان کی مجم وعی
سرکیولیشن 20ملین سے زیادہ ہے۔ الطینی امریکہ میں پریس پر حکومت کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
ریاست ہائے متح دہ ام ریکہ میں تقریب ا ً 1,700روزن امے اور 7,500ہفتہ وار اخب ار ش ائع ہ وتے ہیں۔
یہاں کے اخبارات کی مجموعی سرکیولیشن 60ملین سے زائد ہے۔
18
اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے تین اہم ذرائع ہیں۔
آئندہ صفحات میں اس کی تفصیل کا بغور مطالعہ کریں گے۔ نامہ نگار کسی بھی اخبار کے لیے اہم ہوتا
ہے۔ہوتا ہے۔ اخباروں میں کام ک رنے واال عملہ تم ام ہی اہم ہوت ا ہے لیکن خ بریں ج و اخب ار ک ا الزمی
عنصر ہوتی ہیں اور عوام جس کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرے اخبار خری دتے ہیں ت اکہ آس
پاس کی جانکار ی اور معلومات حاص ل ہ و س کے۔ خ بروں کے پیچھے دوڑ ن ا خ بر کی حقیقت معل وم
کرنا،سچائی کو عام کرنا اور جھوٹ کا پلندہ پھوڑنا یہی ہمارے رپورٹرس کا کام ہوتا ہے۔
19