You are on page 1of 19

‫سمسٹر بہار ‪2021‬‬ ‫کورس‪ :‬اصول صحافت (‪)5624‬‬

‫امتحانئ مشق نمبر ‪1‬‬

‫سوال نمبر ‪ :1‬کیا پروپیگنڈا ایک جنگی ہتھیار ہے نیز پروپیگنڈا کی مختلف صورتیں بیان کریں؟‬

‫‪1‬‬
‫پروپیگنڈہ‘ امن و جنگ دونوں صورتوں میں استعمال ہونیواال ہتھیا‬

‫تیر و تلوار کی جگہ بندوق و ٹینک اور منجنیق کی جگہ جدید جنگی طیاروں اور میزائلوں نے لے لی۔ جنگ ل‪BB‬ڑنے‬
‫کے اوزار و ہتھیار ہی تبدیل نہیں ہوئے دیگر امور بھی تبدیل ہو گئے لیکن پروپیگنڈہ ای‪BB‬ک ایس‪BB‬ا ک‪B‬ارگر ہتھی‪B‬ار ہے‬
‫جو تمام تر ترقیوں کے باوجود آج بھی موثر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے اسے زبانی کالمی اس‪B‬تعمال کی‪BB‬ا جات‪BB‬ا‬
‫تھا جس کے اثرات مہینوں تو کبھی سالوں میں ظاہر ہوتے۔ تاہم مواصالتی ترقی نے پروپیگنڈے کی تیز رفتاری ہی‬
‫میں اض‪BB‬افہ نہیں کی‪BB‬ا اس کی ق‪BB‬وت ک‪BB‬و بھی دو چن‪BB‬د ک‪BB‬ر دی‪BB‬ا ہے۔ اور پاکس‪BB‬تان ای‪BB‬ک ایس‪BB‬ا مل‪BB‬ک ہے جس کیخالف‬
‫پروپیگنڈے کا ہتھیار نصف صدی سے استعمال ہو رہا ہے۔‬

‫حیران کن بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے‬


‫باوجود کہ پاکستان کا ازلی دشمن بھ‪B‬ارت اس‪B‬ے پاکس‪B‬تان کےخالف اس‪B‬تعمال ک‪B‬رنے کیل‪B‬ئے ک‪B‬وئی موق‪B‬ع ض‪B‬ائع نہیں‬
‫کرتا۔ اس کا توڑ کرنے کےلئے ہماری کوششیں صفر نظر آتی ہیں۔ پاکس‪BB‬تان کی معاش‪BB‬ی بق‪BB‬ا کےل‪BB‬ئے ض‪BB‬روری ک‪BB‬اال‬
‫باغ ڈیم بھارت نواز عناصر کی کوششوں سے خواب بن ک‪BB‬ر رہ گی‪BB‬ا۔ مش‪BB‬رقی پاکس‪BB‬تان کی علیح‪BB‬دگی جس کے ب‪BB‬ارے‬
‫میں اب بنگلہ دیشی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ‪ 1971‬ءکی جنگ ایک بہت بڑی سازش تھی۔ بھ‪BB‬ارتی پروپیگن‪BB‬ڈے نے‬
‫مشرقی پاکستان کے عوام کو مغربی پاکستان سے متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔‬

‫‪2‬‬
‫بھارت نے پہلے یہ کھیل مشرقی پاکستان میں کھیال اور اب بلوچستان میں‬
‫کھیل رہا ہے۔ لیکن ہم بھارت کو پاکستان کا دش‪B‬من تس‪B‬لیم ک‪B‬رنے ک‪B‬و تی‪B‬ار ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھ‪B‬ارت دھ‪B‬ڑلے‬
‫کے ساتھ براستہ افغانستان پاکستان میں مسلح مداخلت کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔دہشت گردی کے ح‪BB‬والے‬
‫سے پاکستان کو بدنام کرنے کا آغاز بھارت نے ‪ 1984‬ءمیں پاکستان پر اسالمی بم بنانے کا الزام لگانے کے س‪BB‬اتھ‬
‫ہی کر دیا تھا۔ مئی ‪ 1974‬ءمیں بھارت نے پہال ایٹمی دھماکہ کیا تو یہ ج‪BB‬انتے ہ‪BB‬وئے کہ اس ک‪BB‬ا اس‪BB‬تعمال جب کبھی‬
‫بھی ہوا تو پاکستان اس کا نشانہ ہو گا کیونکہ قبل ازیں بھارت تین بار پاکس‪BB‬تان کے خالف ج‪BB‬ارحیت ک‪BB‬ا م‪BB‬رتکب ہ‪BB‬و‬
‫چکا تھا۔ اسکے باوجود پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کو ہندو بم کا نام کبھی نہیں دیا جبکہ بھارتی حکومت میڈیا اور‬
‫دانشور پاکستان کے ایٹمی اسلحہ سے متعلق ایک ہی پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ پاکستان کی ایٹمی ق‪BB‬وت مہ‪BB‬ذب دنی‪BB‬ا‬
‫کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی ک‪BB‬و ف‪BB‬روغ دی‪BB‬نے دہش‪BB‬ت گ‪BB‬ردوں ک‪BB‬و بط‪BB‬ور جنگی‬
‫حکمت عملی ہمسایہ ممالک کےخالف استعمال کرنے اور پاکستان ک‪BB‬ا ایٹمی اس‪BB‬لحہ انتہ‪BB‬ا پس‪BB‬ند مس‪BB‬لمانوں کے ہ‪BB‬اتھ‬
‫لگنے کا پروپیگنڈہ انتہائی مربوط اور منظم انداز سے کیا گیا اسکے زیر اثر مغ‪BB‬ربی ممال‪BB‬ک کے س‪BB‬ینکڑوں تھن‪BB‬ک‬
‫ٹینک دن رات پاکستانی ایٹمی اثاثوں پر شب خون مارنے‘ اسے عالمی کنٹرول میں لینے کی پالیسیاں م‪BB‬رتب ک‪BB‬رنے‬
‫میں جت گئیں۔ امریکی کانگرس کی دفاعی کمیٹی میں متعدد بار اس آپشن پر غور ہوا کہ ضرورت پڑنے پر امریکی‬
‫کمان‪BB‬ڈوز کب اور کس ط‪BB‬رح پاکس‪BB‬تان کے ان مقام‪BB‬ات ک‪BB‬ا کن‪BB‬ٹرول حاص‪BB‬ل ک‪BB‬رینگے جہ‪BB‬اں پاکس‪BB‬تانی ایٹمی اس‪BB‬لحہ کی‬
‫موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔ اور اس آپریشن کیخالف ممکنہ پاکستانی ردعمل اور مزاحمت کا معیار کیا ہو گا۔‬

‫‪3‬‬
‫گو دنیا کی کسی قوت کو اپنے ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی‬
‫جرا¿ت نہیں ہوئی کیونکہ امریکی ج‪BB‬انتے تھے کہ اس‪BB‬کے اث‪BB‬رات انتہ‪BB‬ائی تب‪BB‬اہ کن ہ‪BB‬ونگے۔ البتہ دہش‪BB‬ت گ‪BB‬ردی کے‬
‫حوالے سے پاکستان کو بدنام کرنے کا سلسلہ ضروری جاری رکھ‪BB‬ا گی‪BB‬ا۔دنی‪BB‬ا میں دہش‪BB‬ت گ‪BB‬ردی کی کہیں ک‪BB‬وئی بھی‬
‫واردات ہوتی اسکی جڑیں پاکستان میں تالش کرنے اور دہشت گردوں کے پاکستان میں انتہ‪B‬ا پس‪B‬ندوں س‪B‬ے رابطے‬
‫تالش کر کے پاکستان سے متعلق عالمی رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی۔ اب جبکہ پ‪BB‬اک ف‪BB‬وج کی‬
‫طرف سے شمالی وزیرستان و دیگر قبائلی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کیخالف جاری آپریش‪BB‬ن کے ذریعے ان کے‬
‫تمام خفیہ ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ پاکس‪B‬تان میں ‪ 2002‬ءس‪BB‬ے ج‪BB‬اری دہش‪B‬ت‬
‫گردی اور پاکستان کے دشوار گزار قبائلی عالقوں میں چھپے دہشت گ‪B‬ردوں ک‪B‬و بھ‪BB‬ارتی حم‪B‬ایت و م‪BB‬دد حاص‪BB‬ل تھی‬
‫اور بھارت ہی ان دہشت گردوں کو افغانستان سے کنٹرول کرتا تھ‪BB‬ا۔ اس‪BB‬کے ب‪BB‬اوجود کبھی ش‪BB‬ام و ع‪BB‬راق میں ل‪BB‬ڑنے‬
‫والے انتہا پسندوں یا حکومت کیخالف برسرپیکار افراد کا تعلق پاکستان سے بت‪BB‬ا ک‪BB‬ر پاکس‪BB‬تان میں مس‪BB‬لکی اختالف‬
‫پیدا کرنے کی کوششیں ہوئیں اور اب حوثیوں کو شمالی وزیرس‪B‬تان میں رواب‪BB‬ط کی خ‪B‬بریں آرہی ہیں ج‪BB‬و کہ ح‪B‬یران‬
‫کن ہیں۔ خاص طور پ‪B‬ر پاکس‪B‬تان کی پ‪B‬ارلیمنٹ میں س‪BB‬عودی ع‪B‬رب ف‪B‬وج بھیج‪B‬نے کے ح‪B‬والے س‪B‬ے منظ‪BB‬ور کی گ‪BB‬ئی‬
‫ق‪BB‬رارداد اور اس کے ن‪BB‬تیجے میں پ‪BB‬اک س‪BB‬عودی تعلق‪BB‬ات میں پی‪BB‬دا ہ‪BB‬ونے والی غل‪BB‬ط فہمی‪BB‬وں کے بع‪BB‬د جس ط‪BB‬رح کی‬
‫صورتحال بنی بعد ازاں وزیراعظم نوازشریف اور پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل نے سعودی ع‪BB‬رب ج‪BB‬ا ک‪B‬ر جس‬
‫انداز سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اس کے بعد اس طرح کی خبریں پاکستان میں ای‪BB‬ک ن‪B‬ئی بحث کے آغ‪BB‬از ک‪B‬ا س‪B‬بب‬
‫بن سکتی ہیں جو پاکستان کے داخلی حاالت کے حوالے سے مناسب نہیں۔ دو برادر اس‪BB‬المی ممال‪BB‬ک کے ”پراکس‪BB‬ی‬
‫وار“ کی پاکستان پہلے ہی کافی قیمت ادا کر چکا ہے جس کا پاکستان مزید متحمل نہیں ہ‪BB‬و س‪B‬کتا۔ سوش‪B‬ل می‪B‬ڈیا پ‪B‬ر‬
‫اس حوالے سے جس طرح کے تبصرے و تجزیے جاری ہیں اسکے پیچھے ایک خاص ذہن ک‪BB‬ار فرم‪BB‬ا ہے جوپ‪BB‬اک‬
‫نے پاکستان کے خالف پروپیگنڈہ مہم کے ل‪BB‬ئے ای‪BB‬ک ‪ Raw‬سعودی تعلقات پر خوش نہیں۔ بھارتی شہر چنائی میں‬
‫مکمل ادارہ ق‪B‬ائم ک‪B‬ر رکھ‪B‬ا ہے جس میں آئی ٹی انجین‪B‬ئروں ک‪B‬و خصوص‪B‬ی ط‪B‬ور پ‪B‬ر تعین‪B‬ات کی‪B‬ا گی‪B‬ا ان ک‪B‬ا ک‪B‬ام جعلی‬
‫شناخت و نام کے ساتھ ٹیوٹر اکانٹ‘ ای میل و فیس بک اکانٹس بنا کر پاکستان کےخالف پروپیگنڈہ پر مبنی خبروں‬
‫کو پھیالنا‘ ان پر تبصرے کرنا ہے۔ اس ادارے سے بھارت کے نامی گرامی دانش‪BB‬ور قلمی ن‪BB‬اموں کے س‪BB‬اتھ مغ‪BB‬ربی‬
‫پرنٹ میڈیا کےلئے جنوبی ایشیا س‪B‬ے متعل‪BB‬ق مض‪BB‬امین بھی لکھ‪BB‬تے ہیں۔ ان میں پاکس‪B‬تان ک‪B‬و ابھی ت‪B‬ک انتہ‪BB‬ا پس‪B‬ند‬
‫ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مذکورہ مض‪B‬امین ش‪B‬ائع ہ‪B‬ونے کے بع‪B‬د ان پ‪B‬ر بعض پاکس‪B‬تانی دانش‪B‬وروں س‪B‬ے‬
‫تجزیے لکھوائے جاتے ہیں جو پاکستان میں شائع نہیں ہوتے۔ تاہم مغربی اخبارات کی ویب س‪BB‬ائٹ پ‪B‬ر پاکس‪BB‬تان کے‬
‫خالف لکھے گئے مضامین کے ساتھ ش‪B‬امل ک‪B‬ر دئے ج‪B‬اتے ہیں۔ جس ک‪B‬و دیکھ‪B‬تے ہ‪B‬وئے ہمیں یم‪B‬نی حوثی‪B‬وں کے‬
‫پاکستان میں روابط کے حوالے سے پاکستان‬

‫‪4‬‬
‫مخالف پروپیگنڈہ مہم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔‬

‫پروپیگنڈا تمام لوگوں پر ایک نظرئیے کو مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ پروپیگنڈا عام لوگوں پر ایک خی‪BB‬ال"‬
‫کی حیثیت سے اثرانداز ہوتا ہے اور پھر اِس خی‪B‬ال کی فتح کیل‪B‬ئے اُنہیں تی‪B‬ار کرت‪B‬ا ہے"۔ یہ الف‪B‬اظ ای‪B‬ڈولف ہٹل‪B‬ر نے‬
‫اپنی کتاب مین کیمپف (‪ )1926‬میں لکھے تھے جس میں اُس نے پہلے ق‪BB‬ومی سوش‪BB‬لزم کے تص‪BB‬ورات ک‪BB‬و پھیالنے‬
‫کیلئے پروپیگنڈے کے استعمال کی وکالت کی جس میں نسلی امتیاز‪ ،‬سام دشمنی اور بالشویکی تحریک کی مخالفت‬
‫شامل ہے۔‬

‫‪1933‬‬ ‫میں نازیوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہٹلر نے عوامی روشن خیالی اور‬
‫پروپیگنڈے کی ریخ وزارت قائم کی جس کا سربراہ جوزف گیبیلز تھا۔ وزارت کا مقصد اِس ب‪B‬ات ک‪B‬و یقی‪B‬نی بنان‪B‬ا تھ‪B‬ا‬
‫کہ آرٹ‪ ،‬موسیقی‪ ،‬تھیٹر‪ ،‬فلموں‪ ،‬کتابوں‪ ،‬ریڈیو‪ ،‬تعلیمی م‪BB‬واد اور ذرائ‪BB‬ع ابالغ کے ذریعے ن‪BB‬ازی پیغ‪BB‬ام ک‪BB‬و کامی‪BB‬ابی‬
‫کے ساتھ فروغ دیا جائے۔‬

‫نازی پروگینڈے کی رسائی کئی طرح کے لوگوں کیلئے تھی۔ جرمنوں کو غیر‬
‫ملکی دشمنوں اور یہودی بغاوت کے خالف جدوجہد سے روشناس کرای‪BB‬ا گی‪BB‬ا۔ یہودی‪BB‬وں کے خالف ق‪BB‬انون س‪BB‬ازی ی‪BB‬ا‬
‫سرکاری اقدامات سے پہلے کے زمانے میں پروپیگن‪BB‬دا مہم‪BB‬وں س‪BB‬ے ایس‪BB‬ا م‪BB‬احول تی‪BB‬ار گی‪BB‬ا جس میں یہودی‪BB‬وں کے‬
‫خالف تشدد کو برداشت کیا جائے خاص طور پر ‪( 1935‬ستمبر کے نیورم برگ نسلی قوانین سے پہلے) اور ‪1938‬‬
‫(کرسٹل ناخٹ کے بعد سام دشمنی پر مبنی اقتصادی قانون سازی سے پہلے)۔ پروپیگن‪BB‬دا غ‪BB‬یر فع‪BB‬الیت اور یہودی‪BB‬وں‬
‫کے خالف ہونے والے ایسے اقدامات کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتا تھا جن سے بظ‪BB‬اہر یہ ت‪BB‬اثر دی‪BB‬ا جات‪BB‬ا کہ ن‪BB‬ازی‬
‫حکومت اقدامات کرتے ہوئے "نظم و نسق کی بحالی" کی کوشش کر رہی ہے۔‬

‫‪5‬‬
‫پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی کی ایماء پر چیکوسلواکیہ اور پولینڈ‬
‫جیسے مشرقی یورپ کے جن ممالک نے مزید عالقے ہتھیا ل‪BB‬ئے تھے اُن میں نس‪BB‬لی جرمن‪BB‬وں کے خالف حقیقی ی‪BB‬ا‬
‫پھر تصوراتی امتیاز ہی نازی پروپیگنڈے کا موضوع تھا۔ اِس پروپیگنڈے کے ذریعے جرمن نسلی آب‪BB‬ادی کی ط‪BB‬رف‬
‫سے سیاسی وفاداری اور نسلی احساس کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اِس نے یورپ کی ب‪BB‬ڑی قوت‪BB‬وں س‪BB‬میت‬
‫بیرونی ممالک کی حکومتوں کو بھی یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی کہ نازی جرمنی دیگر ممالک سے رع‪BB‬ایتوں‬
‫اور اُن کے عالقوں پر قبضے سے متعلق قابل فہم اور منصفانہ مطالبات کر رہا ہے۔‬

‫جرمنی کے سوویت یونین پر حملے بعد جرمن پروپیگنڈے نے اندرون‬


‫ملک س‪B‬ویلین اف‪B‬راد اور فوجی‪B‬وں‪ ،‬پ‪B‬ولیس افس‪B‬روں اور مقبوض‪B‬ہ عالق‪B‬وں میں متعین غ‪B‬یر ج‪B‬رمن ذیلی فوجی‪B‬وں پ‪B‬ر‬
‫ایسے تاثر کو تھوپنے کی کوشش کی کہ جس میں سوویت اشتراکیت کو یورپ کے یہودیوں کے س‪BB‬اتھ ج‪BB‬وڑنے کی‬
‫کوشش کی گئی اور ایسا کرتے ہ‪BB‬وئے جرم‪BB‬نی ک‪BB‬و یہ‪BB‬ودی ب‪BB‬ورژوائی خط‪BB‬رے کے خالف "مغ‪BB‬ربی" ثق‪BB‬افت ک‪BB‬ا دف‪BB‬اع‬
‫کرنے والے کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور سوویت یونین کی طرف س‪B‬ے جن‪B‬گ جیت ج‪B‬انے کی ص‪B‬ورت میں ای‪B‬ک‬
‫خوفناک تص‪B‬ویر پیش ک‪B‬رنے کی کوش‪B‬ش کی گ‪B‬ئی۔ یہ اق‪B‬دام اُس وقت زی‪B‬ادہ ش‪B‬دت س‪B‬ے س‪B‬امنے آی‪B‬ا جب جرم‪B‬نی ک‪B‬و‬
‫فروری ‪ 1943‬میں اسٹالن گراڈ میں شکست ہو گئی۔ یہ پروپیگنڈا ن‪BB‬ازیوں اور غ‪B‬یر ن‪BB‬ازی جرمن‪BB‬وں کے س‪BB‬اتھ س‪BB‬اتھ‬
‫مقامی حامیوں کو آخری وقت تک لڑتے رہنے کیلئے ترغیب دینے میں شاید سودمند رہا ہو گا۔‬

‫فلموں نے نسلی بنیادوں پر سام دشمنی‪ ،‬جرمن فوجی طاقت‬


‫کی برت‪BB‬ری اور ن‪B‬ازی نص‪B‬ب العین کے تحت واض‪B‬ع کی ج‪BB‬انے والی دش‪B‬منوں کی مخفی ب‪B‬رائی ک‪B‬و اج‪BB‬اگر ک‪BB‬رنے میں‬
‫خاص طور پر اہم کردار ادا کیا۔ نازی فملوں میں یہودیوں کو "گھٹیا انسانی" مخلوق کے طور پ‪B‬ر پیش کی‪BB‬ا گی‪BB‬ا ج‪BB‬و‬
‫آرین سوسائٹی میں در آیا تھا۔ مثال کے طور پر فرٹ‪BB‬ز ہپل‪BB‬ر کی ڈائریکش‪BB‬ن میں بن‪BB‬نے والی فلم "دی ایٹرن‪BB‬ل جی‪BB‬و" (‬
‫‪ ) 1940‬میں یہودیوں کو ایسی ثقافتی جونکوں سے تعبیر کیا گیا ج‪BB‬و جنس‪BB‬یت اور روپے پیس‪BB‬ے کی لت میں مبتالء‬
‫تھے۔ لی‪BBB‬نی رائے فینس‪BBB‬ٹاہل کی فلم "دی ٹرائم‪BBB‬ف آف دی ول" (‪ )1935‬جیس‪BBB‬ی کچھ فلم‪BBB‬وں میں ہٹل‪BBB‬ر اور ق‪BBB‬ومی‬
‫سوشلسٹ تحریک کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گی‪BB‬ا۔ رائے فینس‪BB‬ٹاہل کی دو دیگ‪BB‬ر فمل‪BB‬وں "فیس‪BB‬ٹول آف دا نیش‪BB‬نز" اور‬
‫"فیسٹول آف بیوٹی" (‪ ) 1938‬میں ‪ 1936‬کے برلن اولمپک کھیل دکھائے گئے اور اِن اولمپک کھیلوں کے دوران‬
‫نازی حکومت کی کامیابیوں کے حوالے سے قومی عظمت کو اجاگر کیا گیا۔‬

‫‪6‬‬
‫جرمنی کے اخبارات خاص طور پر دئر شٹرمر (حملہ آور) نے ایسے‬
‫کارٹون شائع کئے جن میں یہودیوں کو دکھانے کیلئے س‪B‬ام دش‪B‬منی پ‪B‬ر مب‪B‬نی مس‪BB‬خ ش‪B‬دہ خ‪BB‬اکے ش‪B‬امل ک‪BB‬ئے گ‪B‬ئے۔‬
‫ستمبر ‪ 1939‬میں جرمنوں کی طرف سے پولینڈ پر حملے کے س‪B‬اتھ دوس‪B‬ری ع‪B‬المی جن‪B‬گ ش‪B‬روع ک‪B‬رنے کے بع‪B‬د‬
‫نازی حکومت نے جرمن شہریوں اور فوجیوں کو یہ باور ک‪BB‬رانے کیل‪BB‬ئے پراپیگن‪BB‬ڈے ک‪BB‬ا اس‪BB‬تعمال کی‪BB‬ا کہ یہ‪BB‬ودی نہ‬
‫صرف گھٹیا انسان ہیں بلکہ جرمن ریخ کیلئے خطرناک دشمن بھی ہیں۔ نازی حکومت نے جرمن بستیوں میں س‪BB‬ے‬
‫یہودیوں کو مستقل طور پر نکالنے کیلئے حمایت یا پھر خاموش تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔‬

‫نام نہاد حتمی حل پر عمل درآمد یعنی یورپی یہودیوں کے قتل عام کے‬
‫دوران قتل گاہوں میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ہالوکاسٹ کے شکار افراد کو مجبور کی‪B‬ا کہ وہ جرم‪B‬نی اور مقبوض‪B‬ہ‬
‫یورپ سے یہودیوں کو ممکن حد تک سہولت کے ساتھ جال وطن کرنے کے عمل ک‪BB‬و الزمی ط‪BB‬ور پ‪BB‬ر مخفی رکھیں۔‬
‫حراستی کیمپ اور قتل گاہ کے اہکار قیدیوں پر دباؤ ڈالتے کہ وہ اپنے گھروں ک‪BB‬و ایس‪BB‬ے پوس‪BB‬ٹ ک‪BB‬ارڈ روانہ ک‪BB‬ریں‬
‫جن میں وہ کہیں کہ اُن کے ساتھ بہترین سلوک کیا جا رہا ہے اور وہ نہایت شاندار م‪BB‬احول میں رہ رہے ہیں اگ‪BB‬رچہ‬
‫ان میں سے اکثر کو جلد ہی گیس چیمبرز میں ہالک کر دیا جانا تھا۔ یوں کیمپ حک‪BB‬ام نے اپ‪BB‬نے ظلم و س‪BB‬تم اور قت‪BB‬ل‬
‫عام کے اقدامات کو چھپانے کیلئے پروپیگنڈے کا سہارا لیا۔‬

‫‪7‬‬
‫جون ‪ 1944‬میں جرمن سیکورٹی پولیس نے بین االقوامی ریڈ کراس کی‬
‫ٹیم کو تھیریسئن شٹٹ کیمپ گھیٹو کے معائنے کی اجازت دے دی جو بوہیمی‪BB‬ا اور م‪BB‬وراویہ کے پروٹیکٹ‪B‬وریٹ میں‬
‫واقع تھا۔ (یہ عالقہ اب جمہوریہ چیک کہالتا ہے)۔ ایس۔ ایس اور پولیس نے تھیریسئن شٹٹ نومبر ‪ 1941‬میں ق‪BB‬ائم‬
‫کیا تھا جس کا مقصد جرمن ریخ میں داخلی طور پ‪B‬ر پروپیگن‪B‬ڈے کیل‪B‬ئے اس‪BB‬ے اس‪B‬تعمال کرن‪BB‬ا تھ‪B‬ا۔ کیمپ گھیٹ‪B‬و ک‪BB‬و‬
‫جرمن شہریوں کو مطمئن کرنے کیلئے قائم کیا گیا تھا ج‪BB‬و اِس ب‪BB‬ات پ‪BB‬ر ح‪BB‬یرت ک‪BB‬ا ش‪BB‬کار تھے کہ جن‪BB‬گ میں حص‪BB‬ہ‬
‫لیتے ہوئے جسمانی طور پر معزور ہونے والے یا مقامی طور پر مع‪BB‬روف فنک‪BB‬اروں اور موس‪BB‬یقاروں س‪BB‬میت زی‪BB‬ادہ‬
‫عمر کے جرمن اور آسٹرئن یہودیوں کو جالوطن کر کے "مشرق کی جانب" "جبری مشقت" کیلئے کیوں بھجا ج‪BB‬ا‬
‫رہ‪BB‬ا ہے۔ ‪ 1944‬کے اِس دورے کی تی‪BB‬اری میں گھیٹ‪BB‬و میں "آرائش و زیب‪BB‬ائش" کے ای‪BB‬ک پروگ‪BB‬رام کے تحت اس‪BB‬ے‬
‫سجایا گیا۔ معائنے کے تناظر میں پروٹیکٹوریٹ میں ایس۔ ایس اہلکاروں نے ایک فلم تی‪BB‬ار کی جس میں گھیٹ‪BB‬و کے‬
‫رہائشیوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ تھیریسئن شٹٹ کے یہ‪BB‬ودی "رہائش‪BB‬یوں" کے‬
‫ساتھ فرضی طور پر کس قدر فراخدلی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ جب فلم تیار ہ‪BB‬و گ‪BB‬ئی ت‪BB‬و ایس۔ ایس اہلک‪BB‬اروں نے اِس‬
‫فلم کی "کاسٹ" کے بیشتر لوگوں کو آشوٹز۔ برکیناؤ قتل گاہ روانہ کر دیا۔‬

‫نازی حکومت نے جنگیں جیتنے کے سلسلے میں جرمن عوام کی تائید و‬


‫حمایت کے حص‪BB‬ول کی خ‪BB‬اطر اپ‪B‬نی حک‪BB‬ومت کے آخ‪B‬ر ت‪BB‬ک پروپیگن‪BB‬ڈے ک‪BB‬ا م‪BB‬ؤثر اس‪BB‬تعمال کی‪BB‬ا۔ اس‪BB‬ی ط‪BB‬رح ی‪BB‬ورپین‬
‫یہودیوں اور نازی حکومت کے شکار دیگر افراد کے قتل عام پ‪BB‬ر معم‪BB‬ور اف‪BB‬راد ک‪BB‬ا حوص‪BB‬لہ بڑھ‪BB‬انے کیل‪BB‬ئے بھی یہ‬
‫پروپیگنڈا بہت ضروری تھا۔ اسے نسلی طور پر ہدف بنا کر ہراس‪BB‬اں ک‪BB‬رنے اور قت‪BB‬ل ع‪BB‬ام کے اق‪BB‬دامات کے سلس‪BB‬لے‬
‫میں تمائشایوں کی حیثیت سے الکھوں دیگر افراد کی تائید حاصل کرنے کی خاطر بھی استعمال کیا گیا۔‬

‫سوال نمبر ‪ :2‬انٹرویو سے کیا مراد ہے؟ نیز انٹرویو کے اہتمام کے اصول واضح کریں۔‬

‫انٹرویو کی تعریف‬
‫ان ٹرویو ک ا لفظی مطلب خی االت ٓاراء اور نقطہ نظ ر ک ا تب ادلہ کرن ا ہے۔ یہ تقریب ا ً تم ام امتحان ات اور‬
‫ہیں‬
‫مالزمتوں کے لیے مشترک ہوتے َ‬
‫انٹرویو کی بہت سی اقسام ہیں جو تخمینی انٹرویو مشاورتی انٹرویو‘ ش کایت ک ا ان ٹرویو‘ ب یرون مل ک‬
‫مالزمت کا انٹرویو معلومات جمع کرنے کا انٹرویو‘ سیاسی انٹرویو اور ادبی انٹرویو وغ یرہ ہ وتی ہیں۔‬

‫‪8‬‬
‫انٹرویو کا بنیادی مقصدامیدوا ر کی صالحیت قابلیت ذہنی میالن اظہ ار کے ط ریقہ ک اراور گفتگ و کے‬
‫اسلوب کا جائز ہ لے کر حتمی رائے قائم کرتاہوں۔‬
‫چ ونکہ محکمے اورادارے قاب ل اور باص الحیت امی دواروں کے چ نئو کے ل یے اپ نے ص وابدیدی‬
‫اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے امیدوار کا حتمی چنائو ک رتے ہیں اس ل یے ان ٹرویو ن گ کے بنی ادی‬
‫اصول ان تمام اقسام کے لیے یکساں ہوتے ہیں۔‬
‫انٹرویو کی اقسام‬
‫انٹرویو کی متعدد اقسام ہیں جن کی تکنیک اور ساخت کے مط ابق درجہ بن دی کی جاس کتی‬
‫ہے ۔ انٹرویو کی اہم اقسام درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫٭‪  ‬منصوبہ بند انٹرویو‬
‫٭‪  ‬وضع کردہ انٹرویو‬
‫٭‪  ‬تاکیدی انٹرویو‬
‫٭ پینل انٹرویو‬
‫منصوبہ بند انٹرویو‬
‫منصوبہ بند انٹرویو میں ان ٹرویو لی نے واال پہلے ہی س ے موض وعاتی می دانوں ک ا‬
‫خاکہ تیار کرتا ہے۔ اس طریقہ میں انٹرویو لیینے واال جو ابات تحریری طور پر ریکارڈ کرے گ ا۔ کہنہ‬
‫مشق انٹرویو لینے واال اپنے تجربے کی بدولت امیدوار کے تمام رجحانات اور ذہنی معلوم ات ک و ج ان‬
‫لیتا ہے وہ جن مضامین پرغور کرتاہے ان میں گھریلو زندگی تعلیم سابقہ کام ک ا تج ربہ س ماجی تس ویہ‬
‫رویے اور تفریحی دلچسپیاں شامل ہیں۔ جن کا مقصد امیدوار کے س اتھ خ وش دلی اور ٓازادی کے س اتھ‬
‫کھل کر بات چیت کرنا ہوتاہے۔ ایس ا ان ٹرویو لی نے واال مکم ل ج ائز ہ لے کرامی دوار کی مالزمت کے‬
‫سلسلہ میں کامیابی یا ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔‬
‫ایسے انٹرویو میں امیدوار کو تنظیم؍ ادارے کے ک ام کی ن وعیت تنخ واہ ت رقی کے‬
‫مواقع او ر مالزمین پر عائد شرائط کے بارے میں معلومات مہیا کی جا سکتی ہیں۔‬
‫وضع کردہ انٹرویو‬
‫ایسے انٹرویوز کو کہت ہین جو انتہائی جامع سوالنامہ کی بنیادوں پر کی ا جات اہے۔ اس ان ٹرویو کی م دد‬
‫ہیں ان ٹرویو ٔؤووالے کی بہت زی ادہ احتی اطی ت ربیت‬
‫سے جواز مطالعات نے اچھے نتائج حاص ل ک یے َ‬
‫اور ٹھوس انتخابی طریق کار امیدوار کی اہلیت اور نا اہلیت کا فیصلہ کرنے میں خاطر خواہ م دد ف راہم‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫تاکیدی انٹرویو‬
‫‪9‬‬
‫تاکیدی انٹرویوو کا طریقہ کار دوسری جنگ عظیم کے دوران خفیہ ع املوں‬
‫کے انتخاب کے لیے امریکی حکومت نے وضع کیا۔ اس میں ان ٹرویو لی نے واال دش من کے ک ردار ک و‬
‫فرض کر کے انہیں مدافعت کرنے اور دانستہ طور پر تن گ ک رنے پریش ان ک رنے اور م ایوس ک رنے‬
‫کے لیے انٹرویو کرتے ہیں بعض اوقات امیدوار پر غصہ جھاڑ‪  ‬کر اسے مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے۔‬
‫تاکیدی انٹرویو کا مقصد ان لوگوں کی تالش ہے جو اپنے رویے پر قابوپ انے‬
‫کے اہل ہوں خواہ انہیں جان بوجھ کر جذباتی کر دی ا ج ائے۔ اس ط ریقہ ان ٹرویو ک و بہت زی ادہ ت ربیت‬
‫یافتہ شخص استعمال کر سکتا ہے۔‬
‫پینل انٹرویو‬
‫ہیں پین ل طری ق ک ار ک و‬
‫پینل انٹریو میں تین بار یا اس سے زائ د اف راد ان ٹرویو لی تے َ‬
‫عموما ً سرکاری دائرہ اختیار میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینل تکنیک درخوات دہندگان کی زیادہ کی زیادہ‬
‫ج امع تحقی ق ک رنے انف رادی ک ارکردگی کی وض احت ک و بٓاس انی ممکن بنات ا ہے۔ قی اس کے ط ورپر‬
‫انٹرویو لینے والے کے تاثرات اور میالن کو کھلے عام زیر بحث الیا جا سکتا ہے۔‬
‫انٹرویو کے مقاصد‬
‫انتخابی انٹرویو کے مقاصد تین درجات میں منقسم ہیں۔‬
‫‪1‬۔‪  ‬انٹرویو لینے واال امیدوار کے ارادوں کے بار ے میں علم حاصل ک رکے اس کے تنظیم؍ ادارے کی‬
‫مالزمت اور خاص مالزمت کے لیے موزوں ہونے کا تعین کر سکتاہے۔‬
‫‪2‬۔‪  ‬جس طرح ٓاجر اپنے ادارے کے استحکام اور ترقی کے ل یے ای ک مالزم ک و منتخب کرت ا ہے بلکہ‬
‫اس ی ط رح امی دوار مالزمت کے متالش ی ٓاج ر ک ا انتخ اب کرت ا ہے۔ ج و اپ نی ض رورت ک و م دنظر‬
‫رکھتیہوئے بہت سے لوگوں کو مسترد کرتا ہے ایک انٹرویو ک ا ای ک مقص د ادارہ مالزمت اور لوگ وں‬
‫کے بارے میں معلومات مہیا کرتا ہے۔‬
‫‪3‬۔‪  ‬تیسرا مقصد انٹرویو لینے واال امیدوار کے ساتھ اس انداز میں مقابلہ کرن ا ہے جیس ا کہ کمپ نی بہ تر‬
‫ماحول کے لیے خیر سگالی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔‬
‫غیر قانونی سواالت‬

‫ایس ے س واالت جن کے جواب وں کی ض رورت نہ ہ و ت و غ یر ق انونی کہالتے ہیں۔ اور ایس ے س واالت‬
‫انٹرویو لینے والے کو پوچھنے نہیں چاہیے تاہم کبھی کبھار انڑی ور اس ط رح کے چن د س واالت پ وچھ‬
‫سکتا ہے۔‬

‫‪10‬‬
‫اب یہ امیدوار کا فرض ہے کہ وہ یہ اندازہ لگائے کہ یہ سوال کا جواب دینے کے قابل بھی ہے ی ا نہیں۔‬
‫امیدوار کو ہرگز ایس ا نہیں کہن ا چ اہیے کہ س وال ناج ائز؍ غ یر ق انونی ہے۔ اس قس م کے س واالت کچھ‬
‫ایسے ہوتے ہیں۔‬
‫٭‪ٓ  ‬اپ کی عمر کیا ہے؟‬
‫٭‪  ‬کیا ٓاپ شادی شدہ ہیں یا منگنی ہوئی ہے؟‬
‫٭‪ٓ  ‬ا پ کا وزن کتنا ہے؟‬
‫٭‪ٓ  ‬اپ کے ساتھ کون رہتا ہے؟‬
‫٭‪ٓ  ‬ا پ کے بچے کتنے بڑے ہیں؟‬
‫٭‪  ‬کیآاپ نے بچے زیادہ پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے؟‬
‫٭‪  ‬جب ٓاپ کام پر ہوں تو بچوں کی حفاظت کون کرے گا؟‬

‫سوال نمبر ‪ :3‬صحافتی ضابط اخالق کیوں ضروری ہے؟ کارکن صحافیوں کا ضابط اخالق بیان کریں؟‬
‫صحافیوں کا ضابطہ اخالق‬

‫‪،‬جس ”اے پی این ایس“ کے سپرد صحافیوں کا ضابطہ اخالق مرتب کرنے کی ذمہ داری کی گئی ہے‬

‫پاکستان کے صحافتی اداروں کے مالکان کی‬


‫اس تنظیم کی عم ر بھی تقریب ا ً پاکس تان جت نی ہی ہے لیکن ‪ 67‬س ال گ زر ج انے کے بع د بھی اگ ر یہ کہن ا پ ڑے کہ‬
‫صحافیوں کا کوئی ضابطہ اخالق بنایا یا طے کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی زیادہ مش کل نہیں ہے کہ س ات دہ ائیوں‬
‫کے بعدبھی ضابطہ اخالق پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا جبکہ ‪1950‬ءمیں بنائی گئی ”اے پی این ایس“ کی س ربراہی‬
‫حمید نظامی‪ ،‬میر خلیل الرحمن‪ ،‬حمید اے ہارون‪ ،‬الطاف حس ین‪ ،‬قاض ی محم داکبر اور س ید حمی د حس ین نق وی ایس ے‬
‫صحافی اور اخباری مالک ان ک رتے رہے ہیں‪ ،‬لیکن ان جیس ے جی د اص حاب کی س ربراہی کے ب اوجود ص حافیوں ک ا‬
‫ض ابطہ اخالق کاغ ذوں کی ح د ت ک ہی رہ ا اور عجلت ت ک ک وئی ب ات ماض ی میں تھی بھی ت و ج اری زم انے کے‬
‫کارپوریٹ کلچر نے صحافت سے رہی سہی تمیز بھی‪ ،‬چھین کر کمرشل ازم کی ”ڈگ ڈگی“ اس کے ہ اتھ میں تھم ا دی‬
‫ہے‪ ،‬ان حاالت میں کیا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ ”اے پی این ایس“ جو کلی طور پر میڈیا مالکان کی ای ک‬
‫تنظیم ہے وہ صحافیوں کا کوئی ضابطہ اخالق مرتب کرنے کی سعی کرے گی جبکہ ان کو اس بات کا بھی یقین ہو کہ‬
‫اس میںان کیلئے کوئی منافع بخش سودا نہیں بلکہ چند نکات اگر حکومت کی طرف سے نافذکر دی ئے گ ئے ت و ان کے‬

‫‪11‬‬
‫کمرشل ازم کو شدید زد پہنچنے ک ا خط رہ ہے‪ ،‬چن انچہ امی دکامل یہی رکھ نی چ اہیے کہ اس مع املے میں ڈھ اک کے‬
‫دوپ ات‪ ،‬رہیں گے اور وقت گ زرنے کے س اتھ س اتھ ض ابطہ اخالق کی ح الت ب دتر ہ وئی چلی ج ائے گی کہ اب ت و‬
‫الیکٹرانک میڈیا کا تڑکہ بھی لگ چکا ہے اور پھر کون نہیں جانتا کہ جس مل ک کے ‪ %84‬ع وام ک و پی نے ک ا ص اف‬
‫پانی میسر نہیں‪،‬غریب عوام ہسپتالوں کے گندے فرشوں پر ایڑھیاں رگڑ کر مر رہے ہوں‪ ،‬بھوک و غربت کے ہاتھوں‬
‫خودکشیاں اور اپنے بچوں کو بیچ رہے ہوں۔ اس ملک کی فقط وفاقی حکومت گزشتہ صرف چار سال کے دوران میڈیا‬
‫کو آٹھ سو کروڑ روپے کے اشتہارات دے چکی ہو‪ ،‬صوبائی حکومتیں اس کے عالوہ ہیں‬

‫ود‬ ‫اﺅ اور وہ بھی خ‬ ‫ابطہ اخالق بن‬ ‫ے کہے کہ ض‬ ‫ڈیا س‬ ‫وئی می‬ ‫االت میں ک‬ ‫انچہ ان ح‬ ‫چن‬
‫اگلے روز پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم جو بذات خود ایک معروف ص حافی ہیں نے حک ومت ک و دہ ائی دی ہے کہ‬
‫انہیں اور ان کے دیگر سٹاف کو جان کا خطرہ ہے‪ ،‬انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکس تان الیکٹران ک می ڈیا ریگولی ٹری‬
‫اتھارٹی جس کا کام الیکٹرانک میڈیا کو اخالقی و سماجی حدود و قیود کے اندر رکھنا ہے چن انچہ اگ ر اس اتھ ارٹی ک ا‬
‫چیئرمین حکومت سے یہ کہے کہ اسے دھمکیاں مل رہی ہیں اور اگر حکومت اسے مکم ل اختی ارات نہیں دے س کتی‬
‫تو اس ادارے کو بندکر دیا جائے۔ گو کہ ابصار عالم کے مطابق انہیں اوران کے سٹاف ک و یہ دھمکی اں ن امعلوم اف راد‬
‫کی طرف سے دی جا رہی ہیں لیکن اس کے باوجود ابصار سمیت ”نظ ر“ رکھ نے والے ل وگ ج انتے ہیں کہ انہیں یہ‬
‫دھمکیاں کہاں سے اور کون کون دے رہا ہے۔‬

‫انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیمرا کی اتھارٹی بحیثیت چیئرمین بظاہرتو‬


‫میرے پاس ہے لیکن عمالً یہ اتھارٹی ہائیکورٹس کے پاس ہے ۔ اس ل ئے می ڈیا ک و دی ئے گ ئے ہم ارے ہ ر ن وٹس پ ر‬
‫عدالت شوکاز ایشو کردیتی ہے تو ایسی صورت میں ہم اری اتھ ارٹی ک دھر گ ئی؟ ح االنکہ پیم را ای ک آزاد اور آئن یی‬
‫وفاقی ادارہ ہے۔ پندرہ سال پہلے جب اس کا وجود عمل میں الی ا گی ا ت و اس کی ذمہ داری وں میں الیکٹران ک می ڈیاکے‬
‫الئسنس جاری اور چینلز پر براڈکاسٹ ہونے والے مواد کی چھان بین کرنا تھا۔ درست ہے کہ پیمرا قدرے نیا ادارہ ہے‬
‫کہ پندرہ سال میں اس کا مشاہدہ و تجربہ اس قدر عمیق نہیں ہو سکتا۔ جس قدر اخباری صنعت کی ریگولیٹری اتھارٹیز‬
‫کو ہوسکتا ہے۔ اس لیے انہیں بھی میڈیا کے ضابطہ اخالق کے نہ ہونے کی شکایت رہے گی اور اگر وہ باریک بی نی‬
‫سے الیکٹرانک میڈیا پر دکھائے ج انے والے م وادپر انہیں ن وٹس پہ ن وٹس ج اری ک رتے رہیں گے ت و پھ ر انہیں ہ ر‬
‫س خت و گ رم کیل ئے تی ار رہن ا ہوگ ا۔‬
‫”‬
‫نیشنل یونین آف جرنلسٹس“ آئرلینڈ اور برطانیہ بھر کے ‪ 38‬ہزار‬
‫صحافیوں کی یونین ہے جسے ‪1907‬ءمیں قائم کیا گیا تھا‪ ،‬ی ونین کے ک وڈ آف کن ڈیکٹ ی ا ض ابطہ اخالق کے مط ابق‬
‫‪12‬‬
‫کوئی بارہ نکات ایسے ہیں جن کی پابندی صحافیوں یا ارکان ”این یو جے“ کو کرنا ض روری ہے۔ ان نک ات میں س ب‬
‫سے اہم ترین نکتہ ایمانداری اور سچائی ہے۔ صحافی ہمہ وقت میڈیا کی آزادی کے طے کردہ اصولوں ک ا دف اع ک رے‬
‫لیکن عوام کے حق کا بھی خیال رکھے کہ انہیں درست خبر مہیا کرے‪،‬منص فانہ معلوم ات ک و یقی نی بن ائے‪ ،‬خ بر کی‬
‫حقیقت اور اپنے ذاتی تجزیے میں فرق رکھے‪ ،‬خبر کیلئے مواد حاص ل ک رنے میں ع وامی مف اد ک و مق دم رکھے اور‬
‫سچائی کے ساتھ ثبوت حاصل کرے‪ ،‬عوامی مفاد کے تحت کس ی کی نجی زن دگی‪ ،‬غم ی ا تکلی ف میں س ے خ بر تالش‬
‫کرنے کی کوشش نہ کرے‪ ،‬اپنے ذرائع کی شناخت کسی پر ظاہر نہ کرے‪ ،‬اسے خفیہ رکھے ‪ ،‬دھمکیوں ک و برداش ت‬
‫کرے اور اپنے کسی ذاتی اللچ یا فائدے کیلئے معلومات کو عوام تک پہنچنے سے نہ روکے ‪ ،‬کسی شخص ک و عم ر‪،‬‬
‫جنس‪ ،‬رنگ و نسل‪ ،‬معذوری‪ ،‬ق انونی حی ثیت‪ ،‬ازدواجی حی ثیت ی ا اس کے جنس ی رجح ان کی بنی اد پ ر اس کے س اتھ‬
‫امتیازی س لوک نہ ک رے‪ ،‬کس ی ناب الغ بچے س ے گفتگ و‪ ،‬ان ٹرویو ک رنے س ے پہلے اس کے گ ارڈین ی ا ل واحقین کی‬
‫رضامندی ضرور حاصل کرے ‪،‬کسی قسم کی رپورٹنگ کرتے ہوئے یا تصویر حاص ل ی ا حق ائق ک و ت وڑ م روڑ ک ر‬
‫پیش کرنے سے اختراز اور رشوت لینے سے قطعی پرہیز کرے۔‬

‫ایک طویل فہرست کے بجائے صحافیوں کے ضابطہ‬


‫اخالق کیلئے یہ مختصر نکات ہیں جو صحافت اور ص حافیوں کے پیش ہ وارانہ تم ام ت ر ام ور اور ذمہ‬
‫داریوں کا احاطہ کرتے ہیں‪ ،‬پاکستان سے ب اہر پاکس تانی سیاس تدانوں کی اگ ر س ب س ے زی ادہ سیاس ی‬
‫سرگرمیاں ہوتی ہیں تو وہ برطانیہ بلکہ لندن میں ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے ص حافتی ادارے‬
‫بھی س ب س ے زی ادہ اگ ر مل ک س ے ب اہر ہیں ت و وہ بھی لن دن میں ہی ہیں لیکن ص د افس وس کہ یہ اں‬
‫صحافت و صحافیوں کی صورتحال پاکستان سے بھی بدتر ہے ۔‬

‫اول تو یہاں صحافت نام کو نہیںہو رہی اور اگر کوئی‬


‫ٹٹ بٹ ٹائپ اس نے کہا‪ ،‬یا انہوں نے فرمایا جیسی پریس ریلیز ص حافت ہ و بھی رہی ہے ت و بھی بیس‬
‫سے لیکر سو ڈیڑھ سو پاﺅن ڈ ت ک اپ نی اپ نی اوق ات کے مط ابق سیاس ی‪ ،‬س ماجی و م ذہبی رہنم اﺅں ی ا‬
‫کمیونٹی کے دیگر افراد سے ”منہ دکھائی“ وصول کرنے کے بعد ہی کوئی تقریب میڈیا کی زینت بن تی‬
‫ہے۔ یقینا اس قسم کے کاسہ لیسوں کے درمی ان چن دایک س کہ بن د ص حافی بھی موج ود ہیں ج و واقعت ا ً‬
‫کسی قسم کے مالی مفاد سے قطع نظر خبر کو اس کی صحت کے مطابق اپنے ٹیلی ویژن ی ا اخب ار کی‬
‫زینت بناتے ہیں‪ ،‬ورنہ زیادہ تر ت و ب ا‪ ،‬ب ا بلی ک ش یپش ہی ہیں ج و ہمہ وقت ص حافت کی بے ع زتی و‬
‫بدنامی کا باعث بنتی ہیں‪،‬کیونکہ ان کیلئے نہ کوئی ضابطہ ہے اور نہ اخالق سے ان کا کوئی واسطہ۔‬

‫‪13‬‬
‫سوال نمبر‪ :4‬پاکستان میں صحافت کے پس منظر میں قانون ہتک عزت اور قانون توہین‬
‫عدالت کے مختلف پہلوؤں کا جائزا لیں؟‬

‫ہتک عزت قانون کے خالف احتجاج‬

‫پاکس‪BB‬تان میں ہت‪BB‬ک ع‪BB‬زت کے مج‪BB‬وزہ ق‪BB‬انون کے خالف ات‪BB‬وار کے روز اس‪BB‬الم آب‪BB‬اد اور ج‪BB‬ڑواں ش‪BB‬ہر راولپن‪BB‬ڈی کے‬
‫صحافیوں کی تنظیم "آر آئی یو جے" نے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے ہتک عزت کے مجوزہ قانون کو ک‪BB‬اال‬
‫قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ فی الفور مسودہ قانون واپس لیا جائے۔‬

‫نواز رضا جو کہ پریس کلب کے صدر بھی ہیں‪ ،‬کی‬


‫سربراہی میں کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے کے شرکاء نے حکومت کے خالف نع رہ ب ازی بھی‬
‫کی۔ حکومت نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں قومی اسمبلی میں ہت ک ع زت کے ق انون میں ت رمیم ک ا ب ل‬
‫پیش کیا تھا جس میں الزام تراشی اور بدنام کرنے کی غرض سے شائع کی ج انے والی جھ وٹی خ بریں‬
‫دینے والوں کے خالف سخت کاروائی کی تجویزیں دی گئیں ہیں۔ وہ ب ل ق ومی اس مبلی کی متعلقہ ق ائمہ‬
‫کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے۔‬

‫بل پیش کرنے کے وقت صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ‬


‫کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم چودھری شجاعت حسین نے صحافیوں کے نمائندہ وفد سے مالقات میں‬
‫انہیں یقین دالیا تھا کہ حکومت ان کے خدشات دور کرے گی۔‬

‫بل کے مسودے کے حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف‬


‫جرنلسٹس کے مرکزی جنرل سیکریٹری سی آر شمسی نے بی بی سی اردو ڈاٹ ک ام ک و بتای ا کہ کس ی‬
‫اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی بنیاد پر مبینہ ط ور پ ر مت اثرہ ش خص خ بر ک و جھوٹ ا ق رار دی تے‬
‫ہوئے فوجداری مقدمہ داخل کراسکتا ہے۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ پہلے سے موجود ہتک عزت کے قانون کے‬


‫مطابق تین ماہ کی سزا اور پچاس ہزار روپوں تک جرم انہ کی ا جاس کتا ہے لیکن ت رمیمی ب ل میں س زا‬
‫تین سال اور جرمانہ ایک الکھ روپوں تک کرنے کی تجویز ہے۔‬

‫شمسی کے مطابق ہتک عزت کے نافذ قانون کے تحت مقدمہ دیوانی یا سول عدالت میں چالی ا جات ا ہے‬
‫لیکن مجوزہ قانون میں ضابطہ فوج داری کے تحت مق دمہ سیش ن جج چالئیں گے اور دو م اہ کے ان در‬

‫‪14‬‬
‫سزا سنانے کے وہ پابند بھی ہوں گے۔ ان کا دع ٰ‬
‫وی تھ ا کہ پاکس تان میں پہلے س ے س ولہ ایس ے ق انون‬
‫موجود ہیں جو اظہار رائے کی آزادی کے منافی ہیں۔‬

‫انہوں نے بتایا کہ حکومت کا مجوزہ قانون ایک خطرناک قانون ہے جو ان کے بقول صحافت کو مفلوج‬
‫اور گونگا بنادے گا۔‬

‫حک ومت ک ا متعلقہ ب ل پیش ک رتے وقت دع ٰوی تھ ا کہ اس س ے اخب ارات مت اثر نہیں ہ وں گے‬
‫ا۔‬ ‫ڑے گ‬ ‫رق نہیں پ‬ ‫وئی ف‬ ‫ر بھی ک‬ ‫ار رائے کی آزادی پ‬ ‫ے اظہ‬ ‫انون س‬ ‫اور اس ق‬
‫اخب اری مالک ان کی تنظیم ’اے پی این ایس’ کے س رکردہ رہنم ا حمی د ہ ارون ک ا اس ق انون کے متعل ق کہن ا ہے کہ‬
‫حکومت اس قانون کے ذریعے صحافیوں اور عدالتوں پر زیادہ پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪ :5‬اخبار کے مختلف ایڈیشن کیسے تیار کئے جاتے ہیں؟ تفصیالت بیان کریں؟‬

‫خبارات کی ابتداء کاغذ کی ابتداء کے بعد ہوئی۔ ویسے ابتداء سے ہی ما‬


‫عیسی ؑ سے ہزاروں‬
‫ٰ‬ ‫قبل تاریخ کے زمانے سے انسان خبروں کی ترسیل مختلف انداز میں کرتا رہا ہے۔‬
‫سال قبل بھی انس ان دش من س ے بچ نے کی ت دبیریں نکالت ا اور دھ واں وغ یرہ کے ذریعہ اطالع ات کی‬
‫ترسیل کرتا تھا۔ چین میں سب سے پہلے کاغذ ایجاد کی ا گی ا اس کے بع د اخب ارات ک ا وج ود عم ل میں۔‬
‫ہندوستان میں اخبارات کی تاریخ ڈھائی س و (‪ )250‬س ال پ رانی س مجھی ج اتی ہے۔ انگری زوں کی آم د‬
‫سے ہی اخبارات کی آمد ہوئی اور اٹھارویں صدی کی ابتداء میں ہندوستان سے پہال اخبار شائع ہوا جس‬
‫کے ایڈیٹر‪ ،‬نامہ نگار اور سب کچھ ایک ہی شخص تھا جیسے انگریزوں س ے س رویس س ے بے دخ ل‬
‫کر دیا تھا۔‬

‫اخبارات شروع میں خبروں کے لیے محدود ذرائع سے استفادہ کرتے تھے۔ دور دراز کی خبریں آہس تہ‬
‫آہستہ آتی تھیں۔ جب کہ مق امی خ بریں مخ بر‪،‬خ بری‪،‬وغ یرہ کے ذریعہ س ے حاص ل کی ج اتی تھیں۔ان‬
‫خبروں کی تصدیق الزمی جز تھا جس کے لیے بغیر خبری کو مطلع کئے دوسرے خبری کو بھی اس ی‬
‫خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کیا جاتا تھا اور دونوں کی خبروں کی اگر تضاد نہ ہو تو اس ک و ص حیح‬
‫تسلیم کر لیا جاتا اور اس کو شائع کر لیا جاتا تھا۔‬

‫‪15‬‬
‫آج کا میڈیا وسیع ہو چک ا ہے اور لمح وں میں دنی ا کے ای ک ک ونے س ے دوس رے ک ونے ت ک خ بریں‬
‫پہنچتی ہیں۔ اخبارات کے ل یے مختل ف ذرائ ع س ے خ بریں پہنچ تی ہیں اس کی تفص یل ہم اس مض مون‬
‫پراجکٹ رپورٹ میں پڑھیں گے۔‬

‫ایڈیٹر اپنے اپنے شعبہ کے اسٹاف رپورٹر‪ ،‬نیوز کے عملہ اور دیگر متعلقہ عملہ کا نگران ہوتا ہے۔ بہت سے اخبارات‬
‫مختلف شعبوں کے لیے خصوصی ایڈیٹروں یا کالم نویسوں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ جیسے مش اورتی ک الم‪،‬‬
‫مزاحیہ کالم‪ ،‬عام معلوماتی کالم۔‬

‫ادارتی عملہ کے تعاون کے لیے بہت سی خصوصی سہولتیں‬


‫فراہم کی جاتی ہیں۔ مثالً اخبار کے کتب خانے میں حوالہ جاتی کتب کے عالوہ ماضی کے شمارے‪ ،‬اشاعتوں میں ک ام‬
‫آنے والی تصاویر‪ ،‬خاکے‪ ،‬اہم تواریخ وغیرہ موجود رہتے ہیں جن کو عملہ بوقت ضرورت فوری حاصل ک ر کے ک ام‬
‫میں التا ہے۔ اس کے عالوہ آج کل کمپیوٹر کی مدد سے بھی عصری اور ماضی کے ریکارڈ کو فوری حاص ل ک رنے‬
‫کے بندوبست کیے جانے لگے ہیں۔ اخبارات میں فوٹو لیباریٹری بھی ہوتی ہیں جو تصاویر کو چھ اپنے کے ل یے تی ار‬
‫بھی بہت مع اون رول ادا ک ر )‪ (Digital Cameras‬کرتی ہے۔ فی زمانہ روایتی کیم روں کے عالوہ ع ددی کیم رے‬
‫رہے ہیں۔‬

‫کاروباری شعبہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اخب ار ک و مجم وعی ط ور پ ر من افع حاص ل ہ و رہ ا ہے۔‬
‫کاروباری شعبہ کا منیجر‪ ،‬شعبہ اشتہارات‪ ،‬شعبہ تقسیم یعنی سرکیولیشن اور شعبہ ترقی و ت رویج یع نی‬
‫پروموشن کے منیجروں کے تعاون کے ساتھ کام کرتا ہے۔ شعبہ اشتہارات اخب ار میں ش ائع ک رنے کے‬
‫لیے مختلف الن وع اش تہارات کی وص ولی ک ا اہم فریض ہ انج ام دیت ا ہے۔ سرکیولیش ن م نیجر اخب ار کی‬
‫مناسب اور مطلوبہ تقسیم کی ذمہ داری نبھاتا ہے۔ جب کہ شعبہ ترقی و ترویج کا منیجر اخبار کی جانب‬
‫عوام کی توجہ مبذول کروانے یعنی اخبار کو عوام میں مقبول بنانے اور ن ئے خری دار بن انے کے ل یے‬
‫مختل ف طریق وں اور اُم ور ک و رو بہ عم ل الت ا ہے۔ کاروب اری ش عبہ کے تحت اخب ار کی آم دنی و‬
‫اخراجات کے حسابات کا شعبہ بھی کام کرتا ہے۔‬

‫یکانکی شعبہ اخبار کو چھاپنے کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ اس شعبہ کا منیجر صفحات کی تش کیل س ے‬
‫لے کر چھپائی کے لیے پلیٹ کی تیاری اور چھپائی کے سبھی مرحلوں کی نگرانی کرتا ہے اور متعلقہ‬

‫‪16‬‬
‫عملہ کی ک اروائیوں میں ت ال می ل پی دا کرت ا ہے۔ اخب ار کی چھپ ائی کے بع د تقس یم ک ا عملہ اخب ار کی‬
‫مطلوبہ کاپیوں کو متعلقہ عالقوں اور تقسیم کے مراکز کو روانہ کرتا ہے۔‬

‫اخبار کی تیاری میں معلومات کو اکٹھا کرنا پہال مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ معلومات مختلف ذرائع سے حاص ل‬
‫‪:‬ہوتی ہیں۔ تاہم اس کے دو اہم ذرائع ہوتے ہیں‬

‫‪1.‬‬ ‫خود اخبار کے رپورٹرس‬

‫‪2.‬‬ ‫نیوز سرویس کی ایجنسیاں۔‬

‫رپ ورٹرس اپ نی تحقیق ات‪ ،‬چھ ان بین اور ان ٹرویوز وغ یرہ کے ذریعہ معلوم ات حاص ل ک رتے ہیں۔‬
‫معلومات کی نوعیت کے لحاظ سے بھی مختلف رپورٹرس متعین کیے جاتے ہیں۔ اخبار کے رپ ورٹرس‬
‫زیادہ تر مقامی خبروں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔‬

‫قومی اور بین االقوامی خبروں کے لیے نیوز ایجنسیاں معلومات ف راہم ک رتی ہیں۔ بعض اخب ارات نی وز‬
‫سے بھی خبریں حاصل کرتے ہیں۔ نیوز سنڈیکیٹ ک و ک وئی ب ڑا اخب ار چالت ا )‪ (Syndicate‬سنڈیکیٹ‬
‫ہے یا چند اخبارات باہم مل کر سنڈیکیٹ تشکیل دیتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی معلوم ات س ے اس تفادہ‬
‫کر سکیں اور دوسروں کو بھی معلومات فروخت کر کے منافع حاصل کریں۔‬

‫اخبار کے لیے لکھنا یا ایڈیٹ کرنا‪ :‬کسی بھی خبر کو لکھنے کے لیے رپورٹر پہلے پ یراگراف میں اس‬
‫کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد )‪ (Lead‬خبر کی اہم بات کو اجاگر کرتا ہے۔ اس کو خبر کا پہال ٹکڑا یا سبقت‬
‫کے حصہ میں خبر کی ساری تفصیل پیش کر دی جاتی ہے۔ یہ خبر اب ایڈیٹر کو بھیجی ج اتی ہے ج و‬
‫اس کو پڑھ کر اور اس میں ضروری ہو تو رد و قداح کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے لیے ای ک م وزوں‬
‫سرخی بھی دیتا ہے۔ ایڈیٹر خبر کے مواد کو کچھ حد تک یا پورے کا پ ورا رپ ورٹرس اور ای ڈیٹرس یہ‬
‫کام کمپیوٹر پر بھی انجام دینے لگے ہیں جس سے کام میں سرعت پیدا ہو گئی ہے اور سرعت اخبار کا‬
‫ایک اہم تقاضہ ہوا کرتی ہے۔‬

‫اخبارات عموما ً اپنی‬


‫پیش کش میں غیر طرفدارانہ انداز ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان میں ایک اجتماعی اور ادارہ جاتی ط رز ک ار‬
‫فرما ہوتا ہے۔ یہ عموما ً متوسط طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اخب ارات کے زی ادہ ت ر ناش ر‬
‫خود متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ صفحات کی تعلیم کے عام ہونے اور صحافیوں کے لیے پیش ہ‬
‫ورانہ اداروں کو قائم ہونے اور ان کی ترقی کے باعث ص حافیوں ک و ب ا وق ار ان داز میں اور بے ل وث‬

‫‪17‬‬
‫طریقہ سے نڈر ہو کر خبریں وغیرہ پیش کرنے میں مدد ملی ہے۔ صحافت کی تعلیم و تربیت نے جہ اں‬
‫ایک ج انب ت ربیت ی افتہ ص حافیوں ک و تی ار ک رنے میں تع اون دی ا وہیں مختل ف اخب ارات میں متن کی‬
‫کے ایک نقص کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ خبر لکھنے کی تکنیکیں اور اصول )‪ (similarity‬یکسانیت‬
‫چوں کہ ایک جیسے ہوتے ہیں ل ٰہذا کسی عالقے کے مختل ف اخب ارات کے مختل ف ص حافی جب کس ی‬
‫خبر کو تحریر کرتے ہیں تو اس خبر کے متن کا انداز‪ ،‬اس کی زبان اور استعمال اصطالحات میں بڑی‬
‫حد تک یکسانیت آ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ خبریں ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہوں۔‬

‫ساری دُنیا میں چھپنے والے اخبارات میں امریکہ کے اخبارات بہت ضخیم ہ وتے ہیں۔ اخب ار بی نی کے‬
‫سر فہرست ہے۔ یہاں ہر ایک ہزار اف راد میں تقریب ا ً ‪ 610‬کاپی اں )‪ (Norway‬معاملہ میں ملک ناروے‬
‫فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے جاپان‪ ،‬جرمنی اور فن لینڈ کا۔ اس سے یہ ن تیجہ اخ ذ کی ا ج ا‬
‫سکتا ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں اخبارات کی پذیرائی زیادہ ہ وتی ہیں۔ جب کہ ت رقی‬
‫پذیر ممالک میں غربت اور ناخواندگی کے باعث اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔‬

‫براعظم ایشیا میں جاپان اور چین ایسے ممالک ہیں جہ اں چھ اپے خ انے ک ا نظ ام بہت ت رقی ی افتہ ہے۔‬
‫جاپان کا یومیوری شمبن ساری دُنیا میں سب سے زیادہ چھپنے واال اخبار ہے۔ یہ روزنامہ فی دن تقریبا ً‬
‫‪ 140‬الکھ کاپیاں چھاپتا ہے۔‬

‫ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے تقریبا ً دو ہزار اخبار ‪ 80‬سے زائد زب انوں میں چھپ تے ہیں۔ ان کی جملہ‬
‫نکاسی تقریبا ً ‪ 170‬الکھ ہے۔ ملک پر انگریزی اخبارات کا غلبہ ہے۔‬

‫آسٹریلیا میں تقریبا ً ‪ 60‬روزنامے چھپتے ہیں جن کی مجموعی نکاسی ‪ 35‬الکھ کے ق ریب ہے۔ ی وروپ‬
‫میں برطانوی جزائر کے باشندے‪ ،‬روزناموں کے مطالعے کے بڑے شوقین ہ وتے ہیں۔ س لطنت متح دہ‬
‫برط انیہ اور جمہ وریہ آئرلین ڈ میں ی وں ت و چھپ نے والے روزن اموں کی تع داد کم ہے لیکن ان کی‬
‫سرکیولیشن بہت زیادہ ہے۔ یہاں سے تقریبا ً ‪ 120‬روزنامے نکلتے ہیں۔‬

‫دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس سے نکل نے والے اخب ار کس ی نہ کس ی سیاس ی پ ارٹی ی ا س ماجی‬
‫گ روہ س ے وابس تہ رہ ا ک رتے تھے۔ جرم نی میں ‪ 357‬روزن امے ش ائع ہ وتے ہیں۔ ان کی مجم وعی‬
‫سرکیولیشن ‪ 20‬ملین سے زیادہ ہے۔ الطینی امریکہ میں پریس پر حکومت کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔‬

‫ریاست ہائے متح دہ ام ریکہ میں تقریب ا ً ‪ 1,700‬روزن امے اور ‪ 7,500‬ہفتہ وار اخب ار ش ائع ہ وتے ہیں۔‬
‫یہاں کے اخبارات کی مجموعی سرکیولیشن ‪ 60‬ملین سے زائد ہے۔‬

‫‪18‬‬
‫اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے تین اہم ذرائع ہیں۔‬

‫‪1.‬‬ ‫نامہ نگار۔‬

‫‪2.‬‬ ‫صحافتی انجمنیں۔‬

‫‪3.‬‬ ‫سرکاری ایجنسیاں۔‬

‫آئندہ صفحات میں اس کی تفصیل کا بغور مطالعہ کریں گے۔ نامہ نگار کسی بھی اخبار کے لیے اہم ہوتا‬
‫ہے۔ہوتا ہے۔ اخباروں میں کام ک رنے واال عملہ تم ام ہی اہم ہوت ا ہے لیکن خ بریں ج و اخب ار ک ا الزمی‬
‫عنصر ہوتی ہیں اور عوام جس کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرے اخبار خری دتے ہیں ت اکہ آس‬
‫پاس کی جانکار ی اور معلومات حاص ل ہ و س کے۔ خ بروں کے پیچھے دوڑ ن ا خ بر کی حقیقت معل وم‬
‫کرنا‪،‬سچائی کو عام کرنا اور جھوٹ کا پلندہ پھوڑنا یہی ہمارے رپورٹرس کا کام ہوتا ہے۔‬

‫‪19‬‬

You might also like