You are on page 1of 3

‫‪1970‬ء کے انتخابات‪:‬‬

‫انیس سو ستر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف اور غیر‬
‫جانبدار انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫پچیس مارچ انیس سو انہتر کو جب جنرل یح ٰیی خان نے ایوب خان کو ایجی ٹیشن کے نتیجے میں آئین‬
‫سمیت معزول کر کےون یونٹ توڑ دیا تو ساتھ ہی یہ اعالن بھی کر دیا کہ پہلی دفعہ بالغ رائے دہی‬
‫کی بنیاد پر ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول کے تحت اکتوبر انیس سوستر میں انتخابات منعقد ہوں گے‬
‫جن میں کسی بھی سیاسی جماعت کو حصہ لینے کی آزادی ہوگی۔‬
‫پورے ملک میں کل وؤٹروں کی تعداد ‪ 5‬کروڑ ‪ 69 ،‬الکھ ‪ 41 ،‬ہزار ‪ 500 ،‬تھی جن میں سے تین‬
‫کروڑ ‪ ،‬بارہ الکھ ‪ ،‬گیارہ ہزار ‪ 200‬وؤٹرز (کل ‪ 55‬فیصد) مشرقی پاکستان میں تھے اور ‪ 2‬کروڑ ‪،‬‬
‫‪ 57‬الکھ ‪ 30 ،‬ہزار ‪ 280 ،‬وؤٹرز (کل ‪ 45‬فیصد) مغربی پاکستان میں تھے۔ حکومتی اعدادوشمار کے‬
‫مطابق ان میں سے تین کروڑ ‪ 30 ،‬الکھ ‪ 23 ،‬ہزار ‪ 41 ،‬وؤٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا‬
‫تھا جو ڈالے گئے کل وؤٹوں کا ‪63‬فیصد بنتا ہے۔‬
‫جسٹس عبدالستار کی سربراہی میں ایک انتخابی کمیشن تشکیل دیا گیا۔اکیس برس سے زائد عمر کے‬
‫پانچ کروڑ ستر الکھ ووٹروں کی فہرستیں بنیں۔لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت قومی و صوبائی‬
‫اسمب لیوں کی حلقہ بندی ہوئی اور اٹھائیس سیاسی جماعتوں نے یکم جنوری انیس سو ستر سے تین سو‬
‫نشستوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے لئے انتخابی مہم شروع کی۔ نئی اسمبلی میں ایک سو باسٹھ‬
‫نشستیں مشرقی پاکستان کے لئے اور ایک سو اڑتیس مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لئے‬
‫مختص کی گئیں۔‬
‫لیکن کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں تھی جس نے ساری نشستوں پر انتخاب لڑا ہو۔عوامی لیگ نے‬
‫سب سے زیادہ یعنی ایک سو ستر امیدوار کھڑے کئے جن میں سے ایک سو باسٹھ مشرقی پاکستان‬
‫سے انتخاب لڑ رہے تھے۔‬
‫ت اسالمی تھی جس‬ ‫عوامی لیگ کے بعد امیدواروں کی تعداد کے حساب سے دوسری بڑی پارٹی جماع ِ‬
‫نے قومی اسمبلی کے لئے ایک سو پچپن امیدوار کھڑے کئے۔خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ نے‬
‫ایک سو تینتیس ‪ ،‬کنونشن مسلم لیگ نے ایک سو چوبیس اورکونسل مسلم لیگ نے ایک سو انیس‬
‫امیدوار کھڑے کیے۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے ایک سو بیس امیدواروں کو ٹکٹ‬
‫دیئے۔ جن میں سے ایک سو تین پنجاب اور سندھ میں اور سترہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں‬
‫تھے۔مشرقی پاکستان سے پیپلز پارٹی کا ایک بھی امیدوار نہیں کھڑا ہوا۔‬
‫انیس سو ستر کے انتخابات کے نتیجے میں مغربی پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل جو پارلیمنٹ وجود‬
‫میں آئی۔اس نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ آئین بنایا اور یہ آئین چودہ اگست انیس سو تہتر سے نافذ‬
‫ہوگیا۔ یہ بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے پاکستان کے پہلے انتخابات تھے اور ان کے متعلق‬
‫یہ بھی کہا جارہا تھا کہ یہ ملکی تاریخ میں ہونے والے سب سے زیادہ منصفانہ اور شفاف انتخابات‬
‫ہوں گے۔ قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پولنگ ‪ 7‬دسمبر‪1970 ،‬ء جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے‬
‫پولنگ ‪ 17‬دسمبر کو ہوئی۔ پاکستان کے مغربی اور مشرقی حصوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے‬
‫یحی خان کے لیگل فریم ورک‬ ‫ساتھ ساتھ اس موقع سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔ یہ انتخابات ٰ‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪1‬‬


‫آرڈر(ایل ایف او)برائے تیس مارچ ‪1970‬ء کے تحت منعقد کیے گئے۔ جس میں راۓئے دہی کے‬
‫حوالے سے اصول بھی طے کیے گئے تھے۔ مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰ ن کی عوامی‬
‫لیگ اور مغربی پاکستان سے ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی مہم میں صف اول پر‬
‫تھیں۔ پاکستان کے پہلے براہ راست انتخابات ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف ہی ماحول دوستانہ رہا‬
‫اور انہوں نےاس کے طریقہ کار کا توجہ کے ساتھ مشاہدہ نہیں کیا۔ چنانچہ جب عوام نے اپنے‬
‫ووٹوں کے ذریعے عوامی لیگ نے قومی اسمبلی کی تین سو تیرہ نشستوں میں سے ‪ 167‬نشستیں‬
‫حاصل کر کے میدان مار لیا ‪،‬اور اس طرح یہ واحد سب سے بڑی جماعت بن گئی جسے حکومت‬
‫بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہوا تو مغربی پاکستان میں سب حیران رہ گئے کہ اب کیا ہوگا؟ اس لیے کہ‬
‫ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی جو عوامی لیگ کے مدمقابل تھی‪ ،‬قومی اسمبلی کی ‪80‬‬
‫نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی۔ اس وقت کی مقتدر طاقتوں نے ایک نیا کھیل شروع کردیا‪ ،‬عوامی‬
‫لیگ کو حق رکھنے کے باوجودحکومت نہیں بنانے دی گئی‪ ،‬ظاہر ہے کہ جس کا نتیجہ پاکستان کے‬
‫مشرقی حصے میں احتجاج کی صورت میں ہی نکلنا تھا‪ ،‬یہ احتجاج بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی میں‬
‫تبدیل ہوگیا جو باآلخر پاکستان کو دو لخت کرنے کا سبب بنی اور بنگلہ دیش ایک آزاد ریاست بن کر‬
‫دسمبر ‪1970‬ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔‬
‫مغربی پاکستان میں صدارت بھٹو کے سپرد کر دی گئی‪ ،‬یہی نہیں بلکہ انہوں نے ملک کے پہلے غیر‬
‫فوجی مارشل الء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے چارج سنبھاال اور ‪1972‬ء میں انہوں نے مختصر مدتی‬
‫قومی اسمبلی کو ایک دستور ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا‪ ،‬جو کہ مغربی پاکستان‬
‫میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے والے ‪ 138‬ارکان‪ ،‬خواتین کی نشستوں سے ‪ ،6‬اور‬
‫مشرقی پاکستان کی نشستوں پر منتخب ہونے والے ‪ 2‬ارکان‪ ،‬جن کا تعلق عوامی لیگ سے نہیں تھا‪ ،‬پر‬
‫مشتمل تھی۔ باآلخر وہ اسمبلی‪ ،‬جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم منتخب کیا اور ‪1973‬ء‬
‫کے آئین کا مسودہ تیار کیا‪ ،‬کی مدّت ‪1977‬ء تک بڑھادی گئی۔‬
‫‪1977‬ء کے انتخابات‪:‬‬
‫‪1977‬ء کے انتخابات سال کے دوسرے نصف میں منعقد ہونا تھے‪ ،‬لیکن بھٹو نے اپنا استحقاق‬
‫استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ یہ انتخابات سال کے اوائل میں ‪ 7‬مارچ کو ہی منعقد ہوں گے ۔‬
‫جنوری ‪1977‬ء میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی بھٹو نے ایک بہت بڑی انتخابی‬
‫مہم کا آغاز کر دیا‪،‬عوامی اجتماعات اور پُرہجوم جلسوں سے خطاب کے دوران انہوں نے اپنے نام‬
‫نہاد اسالمی اشتراکیت کی تشہیر کی‪ ،‬یہی نہیں بلکہ مذہبی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے‬
‫مذہبی حقوق کے نام پر مختلف احکامات بھی جاری کرنے شروع کر دیے ۔‬
‫اس وقت دائیں بازو کی نو سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان نیشنل االئنس بھٹو کے مدّمقابل تھا۔ یہ‬
‫سیاسی ومذہبی جماعتیں ‪1977‬ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت حاصل کرنے سے‬
‫روکنے کے لیے اس کے خالف متحد ہوگئی تھیں۔ انہوں نے بھٹو اور ان کے ساتھیوں پر بدعنوانی‪،‬‬
‫بد انتظامی اور ملک کو بحرا ن میں مبتال کرنے کا الزام عائد کیا۔ پی این اے نے مذہب کو اپنا بنیادی‬
‫نعرہ بنایا تھا اور ساتھ ہی بھٹو کے خالف مہم بھی جاری رکھی‪ ،‬ان کی تنقید کا ہدف ذوالفقار علی‬
‫بھٹو کی ذاتی خامیاں تھیں۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪2‬‬


‫جب ‪1977‬ء انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو پیپلز پارٹی ایک بڑی اکثریت کے ساتھ جیت گئی‪ ،‬اس‬
‫نے قومی اسمبلی کی ‪ 200‬نشستوں میں سے ‪ 100‬پر کامیابی حاصل کی۔ پی این اے جس نے‬
‫صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا‪ ،‬اس نے قومی اسمبلی میں صرف ‪ 36‬نشستیں حاصل کیں ۔‬
‫االئنس نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور ایک بڑی سول نافرمانی کی ملک گیر مہم شروع‬
‫کردی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ‪ ،‬اور پیپلز پارٹی کے صدر اور‬
‫چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے عالوہ قومی اتحاد نے انتخابات کے‬
‫دوبارہ انعقاد کا بھی مطالبہ کیا ۔‬
‫ابتداء میں تو بھٹو نے قومی اتحاد کے مطالبات مسترد کر دیے‪ ،‬لیکن بعد میں ان کے ساتھ مذاکرات‬
‫پر آمادگی ظاہر کی‪ ،‬دونوں جانب سے گفت و شنید کےسلسلے کے بعد انتخابات دوبارہ کرانے پر‬
‫اتفاق کی کچھ اُمید پیدا ہوئی ۔ لیکن اس سے پہلے کہ اس کا موقع آتا‪ ،‬بھٹو کے منتخب کردہ چیف آف‬
‫آرمی اسٹاف ضیاء الحق نے جوالئی ‪1977‬ء کو ایک فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا‬
‫۔‬
‫چنانچہ افسوسناک واقعات ایک سلسلہ ہے جو یکے بعد دیگرے سامنے آتا رہا اورپہلے بھٹو کی‬
‫گرفتاری اور آخر میں مح ّمد احمد قصوری (ایک مشہور وکیل اور بھٹو کے سابقہ وفادار احمد رضا‬
‫قصوری کے والد) کے قتل کے مقدمے میں پھانسی تک اختتام پذیر ہوا۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪3‬‬

You might also like