You are on page 1of 6

‫!

جب بھٹو زندہ‪ ‬تھا‬

‫آئیں اب ان کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں کہ جن کے الڑکانہ میں تاج محل جیسے مزار‬
‫بنے ہوئے ہیں‪ ،‬یعنی بھٹو خاندان۔آج پاکستان کی اکثریت نے نہ بھٹو کو دیکھا ہے نہ بھٹو کا‬
‫دور‪ ،‬صرف پیپلز پارٹی کی غالظت کو آج سب جانتے ہیں۔ ہم نے بھٹو کو بھی دیکھا ہے اور‬
‫بھٹو کے دور کو بھی۔ ‪ 65‬ءکی جنگ میں بھٹو کی غداری کی بھی دیکھی اور تاشقند معاہدے‬
‫میں اس کی خیانت بھی۔ پھر ایوب خان کے خالف اس کی بغاوت بھی‪ ،‬اور مجیب الرحمن‬
‫جیسے غدار کی حمایت بھی۔ اور ‪ 71‬ءکی جنگ میں بھٹو کا ناپاک کردار کہ جس کے نتیجے‬
‫میں پاکستان دولخت ہوا۔ ”یہاں ہم‪ ،‬وہاں تم“ کا نعرہ لگانے واال بھٹو کہ جس نے الیکشن میں‬
‫ہارنے کے بعد یہ فیصلہ کرلیا کہ کسی صورت میں بھی اقتدار مجیب کے حوالے نہیں کرے‬
‫گا چاہے اس کے لیے ملک ہی کیوں نہ توڑ دیا جائے۔ وہ دوسری بات ہے کہ مجیب خود غدار‬
‫تھا۔‬
‫لیکن آج ہم آپ سے اس دور کی بات کریں گے کہ جب بھٹو پاکستان کا مطلق العنان سول‬
‫‪ ‬ڈکٹیٹر تھا۔ ایسا بھی دور آیا کہ جب بھٹو خود چیف مارشل الءایڈمنسٹریٹر بھی تھا۔‬
‫ہمیں وہ دور بہت اچھی طرح یاد ہے۔ فیڈرل سیکورٹی فورس کے نام سے بھٹو نے اپنی ایک‬
‫ذاتی دہشت گرد تنظیم بنائی کہ جس کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو اغواءاور قتل کروانا تھا۔‬
‫ہزاروں کی تعداد میں مخالفین کو پورے پاکستان سے اٹھایا جاتا‪ ،‬دہشت گردی کے مراکز میں‬
‫اذیتیں دی جاتیں اور قتل کرکے الشیں ویرانوں میں پھنکوا دی جاتیں۔ اپنے بڑوں سے پوچھیں‬
‫انہوں نے آزاد کشمیر میں قائم ”دوالئی کیمپ“ کا نام ضرور سنا ہوگا۔ یہ وہ بدنام زمانہ‬
‫عقوبت خانہ تھا کہ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ لوگوں کو الکر اذیت کا نشانہ بنایا‬
‫جاتا۔ اسی فیڈرل سیکورٹی فورس نے مشہور وکیل احمد رضا قصوری کے والد کو قتل کرنے‬
‫کیلئے الہور میں ان پر حملہ کیا۔ یہی وہ قتل بعد میں بھٹو کی پھانسی کا باعث بھی بنا۔ فیڈرل‬
‫سیکورٹی فورس کے تمام افسران بھٹو کے خالف گواہ بن گئے اور انہی کی شہادتوں پر احمد‬
‫رضا قصوری نے بھٹو کے خالف مقدمہ لڑا اور سزائے موت دلوائی۔ احمد رضا قصوری آج‬
‫بھی زندہ ہیں اور اسالم آباد کے مشہور و کیل ہیں۔ ان کے جسم میں آج بھی وہ گولیاں پیوست‬
‫ہیں کہ جو بھٹو کے حکم پر فیڈرل سیکورٹی فورس کے دہشت گردوں نے ان پر چالئی تھیں۔‬
‫لہذا اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اور وہ بے گناہ تھا تو وہ صرف ایک‬
‫فحش اور جھوٹ کلمہ ادا کرتا ہے۔ بھٹو نے پاکستان بھی توڑا تھا‪ ،‬پاکستان سے غداری بھی‬
‫کی تھی‪ ،‬ہزاروں لوگوں کو قتل بھی کروایا تھا‪ ،‬ہزاروں کو اغواءبھی کروایا تھا‪ ،‬دوالئی کیمپ‬
‫جیسے دہشت گردی کے مراکز بھی بنائے تھے‪ ،‬اور پھر جب وہ ہللا کے عذاب میں آیا تو ایک‬
‫قتل اس کی پھانسی کا باعث بن گیا۔ بے شک اس کو ایک مقدمے میں سزائے موت ہوئی مگر‬
‫حقیقت یہ ہے کہ اس کو ہزاروں بلکہ الکھوں افراد کے قتل پر الکھوں دفعہ لٹکانا چاہیے‬
‫تھے۔‬
‫ءکی دہائی کا آغاز پاکستان ٹوٹنے سے ہوا تھا۔ پھر بھٹو کا دور حکومت شروع ہوتا ہے‪70 ،‬‬
‫اور ساتھ ہی فحاشی اور عریانی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوتا ہے کہ االمان الحفیظ! شرم‪،‬‬
‫حیائ‪ ،‬دین اور شریعت کو بحیرہ عرب میں غرق کردیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں گلی گلی‬
‫شراب خانے کھولے جاتے ہیں‪ ،‬زناءاور بدکاری کے اڈے قائم کیے جاتے ہیں‪ ،‬پی ٹی وی کے‬
‫اوپر رات دس بجے کے بعد فحش فلموں کا آغاز ہوتا ہے۔ آج بھی کراچی کے ساحل پر‬
‫مشہور سند باد کے نام سے بچوں کا پلے لینڈ ہے۔ یہ بھٹو کے دور میں ایشیاءکا سب سے‬
‫بڑا جوا خانہ بن رہا تھا‪ ،‬کہ جو بعد میں اس کے دفعہ ہونے کے بعد بچوں کے پارک میں‬
‫تبدیل کردیا گیا۔‬
‫نظریاتی طور پر بھٹو ایک الدین سوشلسٹ مکتبہءفکر سے تعلق رکھتا تھا‪ ،‬کہ جو ہر صورت‬
‫میں مذہب کو سیاست اور ریاست سے دور رکھتے ہوئے ملک کو مکمل طور پر ایک سیکولر‬
‫ریاست بنا رہا تھا۔ اس کا مشہور نعرہ تھا ”اسالم ہمارا مذہب ہے‪ ،‬جمہوریت ہماری سیاست‬
‫ہے اور سوشلزم ہماری معیشت“۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں نظریہءپاکستان اور‬
‫اسالم کو مکمل طور پر دفن کردیا گیا تھا‪ ،‬اور معاشرے کے ہر طبقے میں کرپشن‪ ،‬بدکاری‪،‬‬
‫شراب اور زناءمکمل طور پر فروغ پاچکا تھا۔ ایک ایسی قوم کہ جو چند سال پہلے ہی ہللا کے‬
‫عذاب میں گرفتار ہو کر آدھے ملک سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی‪ ،‬اب ایک عذاب سے نکل کر‬
‫دوسرے عذاب میں گرفتار ہوچکی تھی۔یہی وجہ تھی کہ ‪ 1977‬ءمیں جب بھٹو کے خالف‬
‫تحریک چلی تو اس کا نام ”نظام مصطفی تحریک“ تھا۔ پوری قوم اس الدینیت‪ ،‬بے حیائی اور بے‬
‫غیرتی کے خالف شریعت کے نام پر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اسی آخری دور میں کہ جب بھٹو‬
‫کو اپنے اقتدار کی کرسی ڈوبتی ہوئی نظر آئی تو اس کے عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا‬
‫کرنے کیلئے شراب پر پابندی لگائی اور جمعے کی چھٹی کا اعالن\ کیا‪ ،‬ورنہ اس سے پہلے‬
‫وہ اپنی مشہور تقریر میں پوری قوم کے سامنے اپنی شراب نوشی کا اقرار ان الفاظ میں‬
‫کرچکا تھا کہ ” تھوڑی سی پیتا ہوں کوئی زیادہ تو نہیں پیتا“۔‬
‫اپنے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے بھٹو نے پاکستان کی تمام تر صنعت کو مکمل طور پر‬
‫تباہ کردیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان میں بڑے بڑے کارخانے کام کررہے تھے‪ ،‬جدید‬
‫ملیں لگائی جارہی تھیں‪ ،‬اور صنعتی اعتبار سے پاکستان بہت ترقی کررہا تھا۔ بھٹو نے آتے‬
‫ہی تمام کارخانوں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ نتیجت ًا جیسا کہ سرکاری اداروں کے ساتھ ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬ایک دو سال کے اندر اندر ہی تمام منافع بخش کارخانے کھنڈر بن کر یا تو بند ہوگئے یا‬
‫نقصان میں چلنے لگے۔ ملکی معیشت کو اس سے زیادہ کاری ضرب اور نہیں لگائی جاسکتی‬
‫کہ جتنی بھٹو نے لگائی۔ اس دن سے لیکر آج تک پاکستان صنعتی میدان میں دوبارہ اپنے پاﺅں‬
‫پر کھڑا نہیں ہوسکا۔‬
‫بھٹو ایک جنونی فاشسٹ تھا اور چینی سوشلزم کا پیروکار۔ اس نے اپنا لباس بھی ماوزے تنگ‬
‫جیسا بنا لیا تھا۔ سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے وہ قذافی‪ ،‬حافظ االسد اور یاسر عرفات کے‬
‫بھی بہت نزدیک تھا۔ اسی لیے الہور میں سٹیڈیم کا نام بھی قذافی سٹیڈیم رکھا گیا تھا۔ ‪1973‬‬
‫ءمیں اسالمی سربراہی اجالس نے الہور میں ہی ہونا تھا اور چونکہ اس وقت بھٹو کی حکومت‬
‫تھی لہذا بھٹو نے اس کا سارا کریڈٹ اپنے سر لے لیا۔‬
‫اسی دور میں اس ”جمہوری“ وزیراعظم نے مارشل الءبھی لگایا اور خود چیف مارشل‬
‫الءایڈمنسٹریٹر بھی بنا۔‬
‫بھٹو کی تمام تر خباثت اور نجاست کے باوجود ہللا نے اس کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کیلئے‬
‫کچھ کام بھی کرے۔ چونکہ بھارت ایٹمی دھماکہ کرچکا تھا لہذا اب بھٹو بھی مجبور تھا کہ‬
‫پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرے۔‬
‫دوسری جانب چونکہ افغانستان مسلسل پشتونستان بنانے کیلئے پاکستان میں دخل اندازی کررہا‬
‫تھا تو اس کے جواب میں بھٹو نے بھی افغانستان کے اندر مسلح گروہوں کی تیاری کا سلسلہ‬
‫شروع کیا کہ جو بعد میں آگے جا کر روسی جارحیت کے خالف مجاہدین کے نام سے‬
‫مشہور ہوئے۔‬
‫اس دور میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان فسادات شروع ہوگئے تھے اور بھٹو کو‬
‫مجبور ًا پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو بال کر ان کا موقف پوچھنا پڑا۔ جب قادیانیوں نے پوری‬
‫پارلیمان کے سامنے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا تو جذبات بہت زیادہ بھڑک گئے اور بھٹو‬
‫کیلئے ممکن نہ رہا کہ وہ عوام کے جذبات کے سامنے کوئی مزاحمت کرسکتا۔ لہذا مجبور ًا‬
‫پوری پارلیمان کے فیصلے کے مطابق اسے قادیانیوں کو کافر قرار دینا پڑا‪ ،‬حاالنکہ وہ خود‬
‫مکمل طور پر سیکولر سوشلسٹ نظریات کا حامل تھا۔‬
‫ءکے الیکشنز میں دھاندلی کے بعد بھٹو کے خالف نظام مصطفیٰ تحریک چل پڑی۔ بھٹو ‪1977‬‬
‫نے اپنی مخالفت\ کو دبانے کیلئے فیڈرل سیکورٹی فورس کے غنڈوں کے ذریعے بے دریغ‬
‫طاقت کا استعمال کیا۔ سینکڑوں لوگوں کو شہید اور زخمی کیا گیا اور ہزاروں کو گرفتار۔ مگر‬
‫مظاہرے بڑھتے ہی رہے ۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آگیا کہ فوج کو بال لیا گیا۔ بھٹو نے فوج کو‬
‫براہ راست حکم دیا کہ عوام پر گولیاں چالئے۔ الہور میں چار بریگیڈیئروں نے اس حکم کو‬
‫ماننے سے انکار کردیا اور فوج میں بغاوت پھیل گئی۔ اب صورتحال بہت نازک ہوچکی تھی۔‬
‫فوج کا ڈسپلن ٹوٹ رہا تھا‪ ،‬پورے ملک میں مظاہرے ہورہے تھے‪ ،‬اور بھٹو بضد تھا کہ فوج‬
‫اپنے ہی عوام کا قتل عام کرے۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب مجبور ًا اس وقت کے سپہ ساالر جنرل‬
‫ضیاءالحق کو ملک میں مارشل الءلگانا پڑا۔ لوگ ضیاءالحق کو مارشل لگانے پر تو گالیاں دیتے‬
‫ہیں مگر کوئی ان اسباب کا ذکر نہیں کرتا‪ ،‬نہ بھٹو کے جرائم کی بات کرتا ہے کہ جن کی‬
‫وجہ سے فوج مجبور ہوئی کہ عوام کو بچانے کیلئے مارشل الءلگائے۔‬
‫بھٹو کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد اس کے بیٹوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے ایک ‪ ‬‬
‫باقاعدہ ایشیاءکی سب سے پہلی اور منظم دہشت گرد تنظیم ”الذوالفقار“ بنائی اور پاکستان کے‬
‫خالف باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا۔ الذوالفقار نے پشاور سے پی آئی اے کا جہاز اغواءکیا اور‬
‫اسے کابل لے گئے‪ ،‬کہ جہاں اس وقت روسی موجود تھے۔ کابل ایئر پورٹ پر الذوالفقار کے‬
‫دہشت گرد سالم ہللا ٹیپو نے طارق رحیم نامی پاکستانی سفارتکار کو گولی مار کر جہاز سے‬
‫نیچے پھینک دیا۔ کابل سے جہاز اڑ کر دمشق لے جایا گیا کہ جہاں حافظ االسد حکومت مکمل‬
‫طور پر پاکستان کے خالف الذوالفقار کے دہشت گردوں کی حمایت کررہی تھی۔ جہاز کے بے‬
‫گناہ مسافروں کو بازیاب کرانے کیلئے مجبور ًا کئی سو پیپلز پارٹی کے جیالوں اور دہشت‬
‫گردوں کو پاکستان کی جیلوں سے آزاد کیا گیا اور انہیں شام روانہ کردیا گیا کہ جس کے بعد‬
‫پی آئی اے کا اغواءکردہ جہاز اور اس کے مسافر بحفاظت پاکستان پہنچ سکے۔‬
‫ٰ‬
‫غنوی‬ ‫مرتضیٰ بھٹو نے ایک شامی لبنانی عورت سے شادی کی‪ ،‬کہ جو آج بھی پاکستان میں‬
‫بھٹو کے نام سے رہتی ہے۔ شاہ نواز سے افغانی کمیونسٹ عورت سے شادی کی۔ الذوالفقار‬
‫پورے پاکستان میں کئی برس تک دہشت گردی کی خونریز کارروائیاں کرتی رہی۔ بینظیر بھٹو‬
‫مکمل طور پر اپنے بھائیوں کے ساتھ اس دہشت گردی میں شامل تھی۔ بینظیر نے کبھی بھی‬
‫اپنے بھائیوں کے خالف نہ کوئی کارروائی کی‪ ،‬نہ ان کو دہشت گردی سے روکا اور نہ ہی‬
‫بعد میں ان پر مقدمے چالئے کہ جب وہ خود وزیراعظم بن چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کے وہ تمام‬
‫دہشت گرد کہ جو جہاز اغواءکرنے کے نتیجے میں رہا کیے گئے تھے آج بھی پاکستان میں‬
‫مختلف سیاسی جماعتوں کے جیالے ہیں۔بعد میں ہللا نے ہی شاہ نواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو‬
‫سے انتقام لیا۔ شاہ نواز اور مرتضیٰ کی پیسوں کے تنازعے پر لڑائی ہوئی اور اسی جھڑپ‬
‫میں شاہ نواز مارا گیا۔ اس کی موت کو چھپانے کیلئے خودکشی کا نام دیا گیا۔ پیپلز پارٹی والے‬
‫کہتے ہیں کہ اس کو اس کی بیوی نے زہر دیا‪ ،‬مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مرتضیٰ سے لڑائی‬
‫میں مارا گیا تھا۔‬
‫مرتضیٰ بھٹو پاکستان واپس آیا کہ جب اس کی بہن ملک کی وزیراعظم بن چکی تھی۔ آصف‬
‫زرداری جیسا ناپاک اور پلید ڈاکو بینظیر کا شوہر تھا۔ بینظیر کے شوہر اور بھائی میں‬
‫اختیارات اور دولت کی تقسیم کے تنازعے شدت اختیار کرتے جارہے تھے اور باآلخر ایک دن‬
‫زرداری نے دن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر مرتضی کو بھی اپنے ساتھیوں سمیت قتل‬
‫کروادیا۔ مرتضی کی بیٹی فاطمہ بھٹو آج بھی کھل کر کہتی پھرتی ہے کہ اس کے باپ کو‬
‫زرداری نے قتل کروایا‪ ،‬مگر آج بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور کسی عدالت یا‬
‫پولیس کی اتنی جرا ¿ت نہیں ہے کہ مرتضی کے قتل کا مقدمہ زرداری پر قائم کرسکے۔‬
‫مرتضی کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو آج ایک ہیجڑہ ہے جو کھل کر اپنے قوم لوط میں سے ہونے‬
‫کا اقرار کرتا ہے۔ زرداری کا بیٹا ایک دوسرا ہیجڑہ ہے کہ جس کو اب زرداری آئندہ پاکستان‬
‫کا وزیراعظم بنانے کیلئے تیار کررہا ہے۔‬
‫بھٹو کی بیٹی پاکستان کی وزیراعظم بنی مگر پاکستان کو اسی طرح لوٹا اور تباہ و برباد کیا کہ‬
‫جیسے پہلے اس کا باپ کرچکا تھا۔ باآلخر وہ بھی اپنے عبرتناک انجام کو پہنچی۔ ابھی یہ‬
‫تحقیق ہونا باقی ہے کہ بینظیر کا قاتل وہ خودکش حملہ آور تھا یا اس کا وہ شوہر کہ جو بعد‬
‫میں ایک فرضی وصیت لے کر ملک کا صدر بن بیٹھا۔‬
‫پورا اندرون سندھ‪ ،‬کہ جہاں ”آج بھی بھٹو زندہ ہے“ ‪ ،‬غربت اور افالس کی عبرتناک تصویر‬
‫ہے۔ اربوں روپے کی الگت سے قائم کردہ بھٹو خاندان کے مقبرے کے ساتھ ہی وہ پانی کا‬
‫جوہڑ ہے کہ جہاں انسان اور حیوان اکٹھے پانی پیتے ہیں۔ جبکہ زرداری اور بھٹو خاندان کی‬
‫باقیات کا یہ عالم ہے کہ قارون کے خزانے ان کے آگے کم نظر آتے ہیں۔ پوری دنیا میں ان‬
‫کی دولت بکھری ہوئی ہے کہ جس کا حساب کرنا بھی ناممکن ہے۔‬
‫تو یہ ہے مختصر سی تاریخ بھٹو اور اس کے خاندان کی کہ جو پچھلے تقریب ًا پچاس برس‬
‫سے پاکستان پر ہللا کے عذاب کی طرح مسلط ہے۔ پہلے بھٹو‪ ،‬پھر مرتضی اور شاہنواز‪ ،‬پھر‬
‫بینظیر‪ ،‬پھر زرداری‪ ،‬اور اب بالول۔ ہر آنے والی نسل پچھلی سے زیادہ ناپاک‪ ،‬زیادہ حرام‬
‫خور اور زیادہ جہنمی ہے۔‬
‫ان شاءہللا‪ ،‬اب وقت آگیا ہے کہ جس طرح بھٹو ہللا کی گرفت میں آیا اور پھانسی چڑھا‪ ،‬اسی‬
‫طرح اب زرداری جیسا ڈاکو ہللا کی گرفت میں الیا جائے گا‪ ،‬ان شاءہللا۔ اس سے زیادہ ناپاک‬
‫خاندان پاکستان کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ ایک سے ایک بڑھ کر غدار‪ ،‬قاتل‪ ،‬ڈاکو اور بدکار۔‬
‫اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ہللا زرداری اور اس کی باقیات اپنی گرفت میں لیتا ہے یا پاکستان‬
‫سے پیار کرنے والی کی گرفت میں دیتا ہے۔ اس فتنے کو اب دفن کرنا الزم ہے ‪ ،‬ان شاءہللا۔‬
‫٭٭٭٭‬

You might also like