You are on page 1of 2

‫‪Sa;ahuddin Ayubi‬‬

‫دنیائے ا سالم کی تاریخ میں بڑے بڑے فاتحین نے جنم لیا ہے۔محمد بن قاسم جیسا سپہ ساالر‪،‬محمود غزنوی‬
‫زیاد‪،‬موسی بن نصیر اور یوسف بن تاشفین جیسے‬
‫ٰ‬ ‫جیسا شہسوار‪،‬ٹیپو سلطان جیسا نڈر حکمران‪،‬طارق بن‬
‫رکھا۔اقبال نے بڑے‬
‫ؒ‬ ‫فاتح۔ ان تمام ہستیوں نے عرصہ دراز تک عالم کفر کی رات کی نیند کو حرام کیے‬
‫پرسوز انداز میں ان کی ہیبت کو الفاظ کا روپ دیا ہے۔‬
‫؂ دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا‬
‫سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی‬

‫لیکن تاریخ اسالم میں صالح الدین جیسا حکمران آج تک روئے زمین پردوبارہ پیدا نہیں ہوا۔یہ کہانی اس‬
‫وسطی کی فضائیں صلیبیوں کا عروج دیکھ رہی تھیں۔جب مسلمان‬ ‫ٰ‬ ‫دور سے شروع ہوتی ہے جب مشرق‬
‫اپنی کٹھ پتلی حکومت کے رحم و کرم پر تھے اور ایوبی جیسے بطل عظیم کی راہ تاک رہے تھے۔ کہا جاتا‬
‫ہے کہ صالح الدین کے والد نجم الدین نے ایک ایسی عورت سے شادی کی خواہش کی تھی کہ جس سے‬
‫اسے ایک بیٹا عطاہو اور وہ فاتح بیت المقدس بنے اور پھر اس کے ہاں صالح الدین کی پیدائش ہوئی جس‬
‫ٰ‬
‫نصاری اس کو میلی آنکھ سے نہ دیکھ‬ ‫نے بیت المقدس ایسے فتح کیا کہ انیسویں صدی تک دوبارہ یہود و‬
‫سکے۔‬

‫صالح الدین ایوبی بیک وقت حکمران بھی تھا اور سپہ ساالر بھی۔انھوں نے ایک ایسے دور میں ہوش‬
‫وسطی کے‬
‫ٰ‬ ‫سنبھاال جب مسلمان ہر طرف سے کفر کے محراب میں گھرے ہوئے تھے ۔ جب مشرق‬
‫حکمران صلیبیوں کو اپنی آغوش میں جگہ دے چکے تھے اور جب غداری کا بازار گرم تھا ۔ ایسے میں وہ‬
‫لوگ جن کے دلوں میں شمع ایمان کی لو ابھی جگمگا رہی تھی کسی ایسے ہی معجزہ کے رونما ہونے کا‬
‫انتظار کر رہے تھے جو انہیں اوران کے ایمان کو جائے پناہ دے۔ یہ وہ وقت تھا جب قبلہ اول ایک بار پھر‬
‫نصاری کی توجہ کا محور بن چکاتھا اور مسلمان پھر اس کی آزادی کے لیے جد و جہد کر رہے تھے اور‬ ‫ٰ‬
‫مالک کائنات کو یہ کام صالح الدین سے لینا ہی منظور تھا۔‬

‫لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایوبی کو اندرونی جنگ بھی لڑنا تھی کیوں کہ اس کی اپنی قوم کے لوگ ہی‬
‫غداروں کے ساتھ مل چکے تھے جو مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو گمراہ کر رہے تھے یہ ایک‬
‫بہت بڑا فتنہ تھا جس پر وقت پر قابو پانا ایسے ہی ضروری تھا جنگل میں بھڑکتی ہوئی آگ پر قابو پانا‬
‫ضروری ہے۔ کیوں کہ ایک بار پھر نضر بن حارث کی سوچ کے حامل افراد ایکمشت ہو چکے تھے جو‬
‫اہل ایمان کو گمراہ کرنے کے لیے عورت کا سہارا لیتے تھے ۔ مسلمان نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹانے‬
‫کی تمام تر کوششیں زور و شور سے جاری تھیں۔ کمزور ایمان والے تیزی سے اس فتنے کا شکار ہو رہے‬
‫تھے ۔ خود صالح الدین ایوبی کو اس فتنے کی آڑ میں سات بار قتل کرنے کی ناکام سی کوشش کی جا چکی‬
‫تعالی نے اپنے اس بندے کی مدد کے تمام تر انتطامات اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ کیوں کہ‬‫ٰ‬ ‫تھی۔لیکن اﷲ‬
‫ان کی نیت خالص اور کوشش سچی تھی اور مقصد رضائے خدا اور پرچم اسالم کی سربلندی تھا۔‬

‫ان کا ایک راز دار ہم نوا علی بن ابی سفیان تھا جو ہر وقت اس کو ساتھ رہتا تھا۔ علی بن ابی سفیان کو خدا‬
‫نے یہ صالحیت دے رکھی تھی کہ وہ خبر رسانی و خبر گیری بہت اچھی کرتا تھا۔ آج کل کی زبان میں‬
‫اسے انٹیلی جینس کہا جاتا ہے۔ اندر کی جنگ لڑنے میں ایوبی کے ساتھ اس کا بہت بڑا ہاتھ تھا بلکہ اگر‬
‫یوں کہا جا ئے کہ اندر کی جنگ اور باقی تمام امور علی بن ابی سفیان نے سنبھالے تھے تو بے جا نہ ہوگا ۔‬
‫اعظم کے بعد بیت المقدس کی فتح کا‬‫ؓ‬ ‫کیوں کہ صالح الدین باہر کی جنگ لڑنے میں مصروف تھے ۔ فاروق‬
‫سہرا ایوبی کے سر جاتا ہے۔ نہ صرف علی بن ابی سفیان بلکہ ایوبی کی پوری ٹیم خداد صالحیتوں کی‬
‫مالک تھی امت اسالم کا درد رکھنے والی تھی اور خلوص دل کے ساتھ بغیر کسی مفاد کے اپنی قوم کے‬
‫لیے کام کرنے والی تھی ۔ صالح الدین خود بھی غیرت مند انسان تھے اور اس بات کے تحت وہ اپنی قوم‬
‫کے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دیا کرتا تھا۔ انھوں نے کبھی مال جمع نہیں کیا تھاصدقہ و خیرات ایک‬
‫طرف ایوبی اپنا ذاتی مال بھی جہاد کی راہ میں جتنا ہو سکے لگاتے تھے۔ یہاں تک کہ حج کرنا ان کی‬
‫دیرینہ خواہش تھی مگر ان کے پاس حج کے لیے زاد راہ نہ تھا ۔‬

‫ایوبی کا نظریہ تھا کہ سلطنت اسالمیہ کی کوئی سرحد نہیں۔ جس روز امت محمدﷺ نے‬
‫اپنے آپ کو سرحدوں کا پابند کر لیا اس روز امت کا زوال شروع ہو جائے گا اور سلطنت اسالمیہ کی‬
‫سرحدیں سکڑنے لگیں گی۔‪ 4‬مارچ ؁‪1139‬ء کو سلطان صالح الدین ایوبی اپنے فجر کی اذان کی صدا کی‬
‫اعلی سے جاملے ۔ کہا جاتا ہے کہ خلفائے راشدین کے بعد اگر قوم پر کوئی ضرب کاری پڑی‬‫ٰ‬ ‫ساتھ رفیق‬
‫ہے تو وہ صالح الدین ایوبی کے انتقال کی ہے ۔اس وقت امت مسلمہ پر غم کی جو گھٹا چھائی وہ صرف اﷲ‬
‫ہی جانتا ہے۔‬

‫آج کی نوجوان نسل اور موجودہ حکومت کے لیے صالح الدین ایوبی کی سیرت و کردار میں بہت سے‬
‫پیغامات پنہاں ہیں‪.‬جس نے بیک وقت راہنمائی‪ ،‬سپہ ساالری اور حکمرانی کے اصول سے دنیا کو آشنا‬
‫کرایا۔ مگر افسوس ہے کہ آج غیر تو ہمارے اسالف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں مگر ہم غیروں کے‬
‫اسالف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ آج ہمارے بچے کیا بلکہ نوجوان بھی ان فاتحین کے ناموں تک سے‬
‫ناآشنا ہیں۔مگر پھر بھی انہیں نصاب میں چنگیز خاں اور ایڈولف ہٹلر پڑھایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں میں‬
‫حکوت سے کچھ نہیں کہوں گی بلکہ والدین سے درخواست کروں گی کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم و‬
‫تربیت کا بند وبست خود کریں نہ کہ تعلیمی ادارو ں کو اس کا قصور وار ٹھہرائیں۔ اس لیے کہ تعلیمی‬
‫ادارے آپ کے اختیار میں نہیں لیکن بچے آپ کے اختیار میں ہیں۔ انہیں اپنی تاریخ اور حقیقی ہیروز سے‬
‫آگاہ کریں کہ ہم کن لوگوں کی نسل ہیں ۔ ہمارے اسالف کون ہیں اور انہوں نے کیا کیا عظیم کارنامے سر‬
‫انجام دیے۔‬

You might also like