You are on page 1of 10

‫▪صبح تاخیر سے بیدار ہو نے والے افراد درج ذیل تحریر کو غور سے پڑھیں۔‬

‫پچانوے فیصد سے زیادہ امریکی رات کا کھانا شام سات بجے تک کھا لیتے ہیں آٹھ‪-‬نو بجے تک بستر میں‬
‫ہوتے ہیں اور صبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہو جاتے ہیں بڑے سے بڑا ڈاکٹر چھ بجے صبح ہسپتال میں‬
‫موجود ہوتا ہے پورے یورپ امریکہ جاپان آسٹریلیا اورسنگاپور میں کوئی دفتر‪ ،‬کارخانہ‪ ،‬ادارہ‪ ،‬ہسپتال ایسا‬
‫نہیں جہاں اگر ڈیوٹی کا وقت نو بجے ہے تو لوگ ساڑھے نو بجے آئیں!‬
‫آجکل چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت بن چکی ہے پوری قوم صبح چھ سے سات بجے ناشتہ اور دوپہر‬
‫ساڑھے گیارہ بجے لنچ اور شام سات بجے تک ڈنر کر چکی ہوتی ہے‬
‫ہللا کی سنت کسی کیلئے نہیں بدلتی اسکا کوئی رشتہ دار نہیں نہ اس نے کسی کو جنا‪ ،‬نہ کسی نے اس کو‬
‫جنا جو محنت کریگا تو وہ کامیاب ہوگا عیسائی ورکر تھامسن میٹکاف سات بجے دفتر پہنچ جائیگا تو دن‬
‫کے ایک بجے تولیہ ب ردار کنیزوں سے چہرہ صاف کروانے واال‪ ،‬بہادر شاہ ظفر مسلمان بادشاہ ہی کیوں نہ‬
‫ہو' ناکام رہے گا‬
‫اسالم آباد مرکزی حکومت کے دفاتر ہیں یا صوبوں کے دفاتر یا نیم سرکاری ادارے‪ ،،‬ہر جگہ الل قلعہ کی‬
‫طرز زندگی کا دور دورہ ہے‪ ،،‬کتنے وزیر کتنے سیکرٹری کتنے انجینئر کتنے ڈاکٹر کتنے پولیس افسر‬
‫کتنے ڈی سی او کتنے کلرک آٹھ بجے ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں؟ کیا اس قوم کو تباہ وبرباد ہونے سے دنیا‬
‫کی کوئی قوم بچا سکتی ہے جس میں کسی کو تو اس لئے مسند پر نہیں بٹھایا جاسکتا کہ وہ دوپہر سے پہلے‬
‫اٹھتا ہی نہیں‪ ،‬اورکوئی اس پر فخر کرتا ہے کہ وہ دوپہر کو اٹھتا ہے لیکن سہ پہر تک ریموٹ کنٹرول‬
‫کھلونوں سے دل بہالتا ہے ‪ ،‬جبکہ کچھ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ دوپہر کے تین بجے اٹھتے ہیں‪ ،،‬کیا‬
‫اس معاشرے کی اخالقی پستی کی کوئی حد باقی ہے‪.‬جو بھی کام آپ دوپہر کو زوال کے وقت شروع کریں‬
‫گے وہ زوال ہی کی طرف جائے گا‪ .‬کبھی بھی اس میں برکت اور ترقی نہیں ہو گی‪.‬اور یہ مت سوچا کریں‬
‫کے میں صبح صبح اٹھ کر کام پر جاؤں گا تو اس وقت لوگ سو رہے ہونگے میرے پاس گاہک کدھر سے‬
‫آئے گا‪ .‬گاھک اور رزق ہللا رب العزت بھیجتے ہے ‪.‬‬
‫وطن عزیز کی بقاء اور ترقی کیخاطر اس پبلک ویلفئر میسج کو اپنے حلقہ احباب میں ضرور شیئر کریں۔‬
‫جزاک ہللا‬
‫نگے بدن واال۔۔‬
‫آئیں تاریخ میں چلتے ہیں۔‬
‫ایک انسان تھا جسے دنیا ضرار بن ازور ؓ کے نام سے جانتی تھی۔‬
‫یہ ایک ایسے انسان تھے کہ اس دور میں دشمن ان کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور ان کی راہ میں آنے‬
‫سے کتراتے تھے۔‬
‫جنگ ہوتی تھی تو سارےدشمن اور فوجیں زرہ اور جنگی لباس پہن کر جنگ لڑتے تھے۔‬
‫لیکن آفریں حضرت ضرار ؓ زرہ تو درکنار اپنا کرتا بھی اتار دیتے تھے۔‬
‫لمبے بال لہراتے چمکتے بدن کے ساتھ جب میدان میں اترتے تھے تو ان کے پیچھے دھول نظر آتی تھی‬
‫اور ان کے آگے الشیں۔ اتنی پھرتی‪ ،‬تیزی اور بہادری سے لڑتے تھے کہ دشمن کے صفیں چیر کر نکل‬
‫جاتے تھے۔ ان کی بہادری پر بےشمار مرتبہ حضرت خالد بن ولید ؓ کو تعریف کرنے اور انعام و کرام دینے‬
‫پر مجبور کیا۔‬
‫دشمنوں میں وہ ننگے بدن واال کے نام سے مشہور تھے۔‬
‫ضرار حسب معمول‬‫ؓ‬ ‫رومیوں کے الکھوں کی تعداد پر مشتمل لشکر سے جنگِ اجنادین جاری تھی۔ حضرت‬
‫میدان میں اترے اور صف آراء دشمن فوج پر طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے اتنی تیزی اور بہادری سے لڑے‬
‫کہ لڑتے لڑتےدشمن فوج کی صفیں چیرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر سے بچھڑ کر دشمن فوج کے‬
‫درمیان تک پہنچ گئے۔ دشمن نے انہیں اپنے درمیاں دیکھا تو ان کو نرغے میں لے کر بڑی مشکل سے قید‬
‫کر لیا۔‬
‫مسلمانوں تک بھی خبر پہنچ گئی کہ حضرت ضرار ؓ کو قید کر لیا گیا ہے۔‬
‫ضرار کو آزاد‬
‫ؓ‬ ‫حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنی فوج کے بہادر نوجوانوں کا دستہ تیار کیا اور حضرت‬
‫کروانے کے لیے ہدایات وغیرہ دینے لگے۔‬
‫اتنے میں انہوں نے ایک نقاب پوش سوار کو دیکھا جو گرد اڑاتا دشمن کی فوج پر حملہ آور ہونے جا رہا‬
‫ہے۔ اس سوار نے اتنی تند خوہی اور غضب ناکی سے حملہ کیا کہ اس کے سامنے سے دشمن پیچھے ہٹنے‬
‫پر مجبور ہو گیا۔ حضرت خالد ؓ اس کے وار دیکھ کر اور شجاعت دیکھ کر عش عش کر اٹھے اور ساتھیوں‬
‫سے پوچھا کہ یہ سوار کون ہے؟ لیکن سب نے العلمی ظاہر کی کہ وہ نہیں جانتے۔ حضرت خالد ؓ نے‬
‫جوانوں کو اس سوار کی مدد کرنے کو کہا اور خود بھی مدد کرنے اس سوار کی جانب لپکے۔‬
‫گھمسان کی جنگ جاری تھی کبھی حضرت خالد بن ولید ؓ اس سوار کو نرغے سے نکلنے میں مدد کرتے‬
‫اور کبھی وہ سوار حضرت خالد ؓ کی مدد کرتا۔‬
‫حضرت خالد ؓ اس سوار کی بہادری سے متاثر ہو کر اس کے پاس گئے اور پوچھا کون ہو تم؟ اس سوار نے‬
‫بجائے جواب دینے کے اپنا رخ موڑا اور دشمنوں پر جارحانہ حملے اور وار کرنے لگا موقع ملنے پر‬
‫دوسری بار پھر حضرت خالد ؓ نے پوچھا اے سوار تو کون ہے؟ اس سوار نے پھر جواب دینے کی بجائے‬
‫رخ بدل کر دشمن پر حملہ آور ہوا تیسری بار حضرت خالد ؓ نے اس سوار سے ہللا کا واسطہ دے کر پوچھا‬
‫کہ اے بہادر تو کون ہے؟ تو نقاب کے پیچھے سے نسوانی آواز آئی کہ میں ضرار ؓ کی بہن خولہ بنت ازور ؓ‬
‫ہوں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تک اپنے بھائی کو آزاد نہیں کروا لیتی۔ حضرت خالد ؓ‬
‫نے کہا کہ پہلے کیوں نہیں بتایا تو کہنے لگی آپ نے منع کر دینا تھا۔ حضرت خالد ؓ نے کہا آپ کو آنے کی‬
‫کیا ضرورت تھی ہم تھے آزاد کروانے کے لیے تو حضرت خولہ ؓ نے جواب دیا کہ جب بھائیوں پر مصیبت‬
‫آتی ہے تو بہنیں ہی آگے آیا کرتیں ہیں۔‬
‫پھر مسلمانوں اور حضرت خولہ ؓ نے مل کر حضرت ضرار ؓ کو آزاد کروا کر دم لیا۔۔۔‬
‫گزارش۔ اسالم خون اور قربانیوں کے دریا میں تیر کر پہنچا ہے اس کی قدر کریں جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں‬
‫کہ جب تک جہاد تھا مسلمان ہمیشہ غالب رہے جب جہاد چھوٹا تو مسلمانوں پر زوال آیا۔ کم از کم اپنے‬
‫بچوں کے نام ان اسالم کے ہیروز کے نام پر رکھیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ان کا نام کس کے نام پر ہے اور‬
‫نام کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔اور ان کی تربیت ایسے کریں کہ اسالم کا مستقبل روشن کرنے میں اپنا‬
‫کردار ادا کر سکیں۔‬
‫ایک شیعہ کی سچ بات نے زلزلہ برپا کر دیا ھے‪:‬‬
‫الجزیرہ عربی ٹی وی 📺 کے پروگرام "اتجاہ معاکس" کے اینکر پرسن "ڈاکٹر فیصل قاسم" نے کہا ھے کہ‬
‫‪ :‬عراق کے مشہور شیعہ عالم دین اور راھنما مقتدی الصدر کے معاون نے ایک مضمون لکھا ھے جس کا‬
‫نام ھے 📺📺📺📺‬
‫" ھم بے حیا قوم ھیں" مضمون میں مندرجہ ذیل حقائق پر روشنی ڈالی ھے‪:‬‬
‫‪ 📺 ‬شام‪ ،‬عراق‪ ،‬فلسطین اور فارس کو فتح کرنے واال عمر بن الخطاب (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬سند‪ ،‬ھند اور ماوراء النہر کو فتح کرنے واال محمد بن قاسم (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬شمالی افریقہ کو فتح کرنے واال قتیبہ بن مسلم (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬اندلس کو فتح کرنے واال طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر دونوں (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬قسطنطینیہ کو فتح کرنے واال محمد الفاتح (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬صقلیہ کو فتح کرنے واال اسد بن الفرات (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬اندلس کو مینارہ نور اور تہذیبوں کا مرکز بنانے والی خالفت بنو امیہ کے حکمران (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬تاتاریوں کو عین جالوت میں شکست دینے واال سیف الدین قطز اور رکن الدین بیبرس دونوں‬
‫(سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬صلیبیوں کو حطین میں شکست دینے والے صالح الدین ایوبی (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬مراکش میں ھسپانویوں کا غرور خاک میں مالنے واال عبد الکریم الخطابی (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬اٹلی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے والے عمر المختار (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬چیچنیا میں روسی ریچھ کو زخمی کرنے اور گرزنی شہر کو فتح والے کمانڈر خطاب (سنی)‬
‫تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬افغانستان میں نیٹو کا ناگ زمین سے رگڑنے والے (سنی) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬عراق سے امریکہ کو بھاگنے پر مجبور کرنے والے (سنی تھے)۔‬
‫‪ 📺 ‬فلسطین میں یہود کی نیندیں حرام کرنے والے (سنی) ھیں۔‬
‫📺 ھم اپنے بچوں کو کیا بتائیں گے؟؟!!‬
‫‪ 📺 ‬حسین رضی ہللا عنہ کو عراق بھال کر کربالء میں بے یارومدد گار چھوڑنے والے مختار ثقفی‬
‫(شیعہ) تھے اور ان کو شھید کرنے والے بھی ( شیعہ ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬عباسی خلیفہ کے خالف سازش کر کے تاتاریوں سے ملنے والے ابن علقمی (شیعہ) تھے ۔‬
‫‪ 📺 ‬ھالکوخان کا میک اپ کرنے والے نصیر الدین طوسی (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬تاتاریوں کو بغداد میں خوش آمدید کہنے والے (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬شام پر تاتاریوں کے حملوں میں مدد کرنے والے (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬مسلمانوں کے خالف فرنگیوں کے اتحادی بننے والے فاطمیین (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬سلجوقی سلطان طغرل بیگ بساسیری سے عہد شکنی کرکے دشمنوں سے ملنے والے (شیعہ)‬
‫تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬فلسطین پر صلیبیوں کے حملے میں ا ن کی مدد کرنے واال احمد بن عطاء (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬صالح الدین ایوبی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے کنز الدولۃ (شیعہ)تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬شام میں ھالکوں خان کا استقبال کرنے واال کمال الدین بن بدر التفلیسی (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬حاجیوں کو قتل کر کے حجر اسود کو چرانے واال ابو طاھر قرمطی (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬شام پر محمد علی کے حملے میں مدد کرنے والے ( شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬یمن میں اسالمی مراکز پر حملے کرنے والے حوثی (شیعہ) ھیں۔‬
‫‪ 📺 ‬عراق پر امریکی حملے کو خوش آمدید کر کے ان کی مدد کرنے والے سیستانی اور حکیم‬
‫(شیعہ) ھیں۔‬
‫‪ 📺 ‬افغانستان پر نیٹو کے حملے کو خوش آئند کہہ کر ان کی مدد کرنے والے ایرانی حکمران‬
‫(شیعہ) ھیں۔‬
‫‪ 📺 ‬شام میں امریکہ کی مدد اور بشار سے مل کر الکھوں مسلمانوں کو قتل کر نے والے اور‬
‫مسلمانوں کی آزادی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کرنے والے عراقی حکمران‪ ،‬ایرانی حکمران اور‬
‫لبنان کی حزب ہللا (شیعہ) ھیں۔‬
‫‪ 📺 ‬خالفت عثمانیہ کے خالف بغاوت کر کے الکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے واال اسماعیل صفوی‬
‫(شیعہ) تھے۔‬
‫‪ 📺 ‬برما کے مسلمانوں کے قتل پر بت پرستوں کی حمایت کا اعالن کرنے واال احمد نجاد (شیعہ)‬
‫ھے۔‬
‫‪ 📺 ‬شام کے لوگوں پر بشاری کی بمباری کی حمایت کرنے واال اور اس کو سرخ لکیر قرار دینے‬
‫واال خامنئی (شیعہ) ھے۔‬
‫‪ 📺 ‬صحابہ کو گالیاں دینے والے اور خلفائے راشدین اور اور امہات المومنین کے بارے میں‬
‫شرمناک باتیں لکھنے والے قلم (شیعہ) ھی ھیں۔‬
‫‪ 📺 ‬سلطان ٹیپو کے خالف انگریزوں سے ملنے والے میر جعفر اور میر صادق (شیعہ) تھے۔‬
‫‪ ‬اگر یہ سارے واقعات لکھے جائیں تو کئی جلدوں 📺 کی کتابیں تیار ھو سکتی ھیں‪ ،‬ھم اپنی نسلوں‬
‫کو کیا جواب دیں گے ؟؟!!‬
‫‪ ‬یہ ☝ سب خود ایک شیعہ عالم دین کہہ رھا ھے‬

‫زلیــخا تو بہــت ہیں‪ ،‬تم یوســف بنو📺‬


‫✍ آج کے نوجوانوں کے لیے زبردست تحریر ‪-‬‬
‫والد صاحب نے فرمایا‪:‬‬
‫بیٹا ‪ !!!.....‬کبھی کسی کی عزت سے مت کھیلنا۔‬
‫کہیں ایسا نہ ہو ۔۔۔۔۔۔‬
‫کسی کی بیٹی تمہارے احساسات کے لیے رف کاپی ہو جائے۔‬
‫ایک روز میں نے اپنے والد کی ان تمام نصیحتوں کا‬
‫جواب طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس طرح دیا کہ‪:‬‬
‫ان باتوں کا دور گزر گیا ہے۔ بابا جان ۔۔۔۔۔ !!!‬
‫آج کے دور کی لڑکیاں خود چل کر آتی ہیں۔‬
‫اور وہ تو خود ایسا چاہتی ہیں __‬
‫میرے والد نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا‪:‬‬
‫بیٹا زلـیـخـا تو بہت زیادہ ہیں۔‬
‫مگر ۔۔۔۔۔*‬
‫آپ ” یـوسـف “ بن جاؤ ۔۔۔۔۔ !!!‬
‫جیسے ہی میں نے یہ جملہ سنا۔‬
‫میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔‬
‫قینچی کی طرح چلتی زبان بند ہو گئی۔‬
‫میرے پاس اب کوئی بھی جواب نہیں تھا‪...‬‬
‫جو بابا جان کے سامنے پیش کر سکتا۔‬
‫واقعی وہ حق اور سچ کہہ رہے تھے۔‬
‫ہمیشہ زلـیـخـا زیادہ ہی رہی ہیں اور ہیں؛‬
‫مجھے چاہیئے کہ میں "یـوسـف "بنوں ۔۔۔۔۔‬
‫تیرے یـــــوســـــف بننے سے‪ ،‬زلیخـــــا بھی‬
‫ہوش و حواس میں آ جائے گی_ __‬
‫آج کے معاشرے کے لیے ایک زبردست اخالقی پیغام‬
‫📺📺📺معذرت اگر کسی کو بُرا لگا ہو‬
‫جب پورے عیسائی یورپ کی سب سے بڑی الئبریری میں کتابوں کی تعداد ‪ 6‬ہزار تھی تو اسالمی یورپ‬
‫کے صرف ایک شہر قرطبہ میں ساالنہ ‪ 60‬ہزار کتابیں ہاتھ سے لکھی جارہی تھی‪ .‬کہا جاتا ہے کہ اس وقت‬
‫مسلم حکمران کی الئبریری میں کتابوں کی تعداد ‪ 4‬الکھ تھی‪ .‬قائرہ‪ ،‬بغداد‪ ،‬دمشق‪ ،‬بخارا اور فاز کے کتب‬
‫خانوں کا ذکر اس کے عالوہ ہے‪.‬‬
‫تو اگر قوم کی ترقی‪ ،‬عروج و زوال کا تعلق صرف علم سے ہوتا تو اندلس پستی کی طرف کیوں گیا؟ سائنس‬
‫و علم پر ہنر رکھنے والے نہانے کو بیماری کا سبب سمجھنے والوں سے شکست کیوں کھا گیے؟‬
‫دراصل قوم کے عروج اور زوال کا تعلق اس کی کتابوں‪ ،‬اس کے فوجی لشکر یا اس کے ڈگری ہولڈرز‬
‫سے نہیں ہوتا بلکہ قوم اس وقت ترقی کرتی ہے جب وہ اپنے نظریے پر کاربند ہو اور جب وہ نظریے میں‬
‫سستی دکھائے‪..‬اس میں مالوٹ کرے تو وہ ناکام ہوتی ہے‪.‬‬
‫یہی وجہ ہے خلفاء راشدین کے دور میں مسلمان عروج پر تھے‪ ،‬حاالنکہ اس وقت مدینہ روم و فارس کے‬
‫دارلخالفہ کے سامنے کچھ نہیں تھا‪ .‬محالت‪ ،‬معیشت‪ ،‬آرٹ‪ ،‬فوج اور علم و ہنر کے باوجود روم و فارس‬
‫پستی میں تھا جبکہ کچے گھر‪ ،‬پھٹے کپڑے اور محدود لشکر کے ساتھ خالفت راشدہ عروج پر تھی کیونکہ‬
‫ان کا اپنے نظریے سے تعلق خالص اور شفاف تھا‪.‬‬
‫جب اندلس میں مسلمانوں نے اسالمی نظریے سے غفلت برتی‪ ،‬جب آپس میں اختالفات کا شکار ہوئے‪ ،‬جب‬
‫ایک امام کے بجائے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی شکل اختیار کی‪ ،‬جب ہللا کے حکم تفرقے میں نہ پڑو کو‬
‫بھول گئے‪ ...‬تو وہ پستی میں گئے‪.‬‬
‫تو آج جو لوگ دعوی کرتے ہیں کہ صرف علم اور ریسرچ کے فقدان کی وجہ سے مسلمان پستی میں ہیں تو‬
‫ان سے عرض ہے کہ دراصل جس دن مسلمان اپنے نظریے کو تھام لیں اس دن وہ غالب آئیں گے اور پھر‬
‫قائرہ‪ ،‬بغداد‪ ،‬بخارا‪ ،‬کراچی‪ ،‬ڈھاکہ‪ ،‬جدہ اور خرطوم علم اور آرٹ کے مرکز ہوں گے‪ .‬ان شاء ہللا‬
‫ایک دن پروفیسر صاحب سے جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا‬
‫’’ماسٹر صاحب! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں‘‘‬
‫پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‬
‫’’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘‬
‫بچے کا اگال سوال تھا‬
‫’’کیسے؟‘‘‬
‫پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکاال‘اوراسکےکھوکھے کی دیوار پر‬
‫دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں‘‬
‫پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘‬
‫دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا‬
‫اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر )‪ (Skill‬لکھا۔‬
‫بچہ پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا‘ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد بچے کی طرف مڑا اور بوال‪:‬‬
‫ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں‘‬
‫پہال زینہ محنت ہے‪.‬‬
‫آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب‬
‫ہو جائیں گے‪.‬‬
‫آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں‪ ،‬آپ کی دکان‘ فیکٹری‘ دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے‬
‫اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے‘‬
‫آپ کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔‬
‫پروفیسر نے کہا ’’ہمارے اردگرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی‬
‫محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے‬
‫ہیں‘ آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں"‪.‬‬
‫اگال مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے‪.‬‬
‫ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے‪.‬‬
‫وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔‬
‫آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو‘ وعدہ کرو تو پورا کرو‘ جھوٹ کسی قیمت پر نہ‬
‫بولو‘‬
‫زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی‬
‫کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘‬
‫تم ایماندار ہو جاؤ گے۔‬
‫کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح ‪ 50‬فیصد ہوتی ہے‪.‬‬
‫آپ پہال تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں‪ .‬آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے‪.‬‬
‫اور پیچھے رہ گیا ‪ 20‬فیصد تو یہ ‪ 20‬فیصد ہنر ہوتا ہے‪.‬‬
‫آپ کا پروفیشنل ازم‘ آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی ‪ 20‬فیصد بھی دے دے گا‪.‬‬
‫"آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے‘‘‪.‬‬
‫پروفیسر نے بچے کو بتایا۔‬
‫’’لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف ‪ 20‬فیصد ہے اور یہ ‪ 20‬فیصد بھی آخر‬
‫میں آتا ہے‘ آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے ‪ 80‬فیصد کامیاب ہو‬
‫سکتے ہیں‪.‬‬
‫لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔‬
‫آپ کو محنت ہی سے سٹارٹ لینا ہو گا‘‬
‫ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا'‬
‫آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا‘‘۔‬
‫پروفیسر نے بچے کو بتایا۔‬
‫"میں نے دنیا کے بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا‘‬
‫کیوں؟‬
‫کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی'‬
‫اور میں نے دنیا کے بے شمار بےہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا‘‪-‬‬
‫’تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو‘‬
‫منقول‬ ‫تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے‘‘۔📺📺📺‪.‬‬
‫مکہ میں ابوسفیان بہت بے چین تھا ‪،‬‬
‫" آج کچھ ھونے واال ھے " ( وہ بڑبڑایا ) اسکی نظر آسمان کی طرف باربار اٹھ رھی تھی ۔‬
‫اسکی بیوی " ھند " جس نے حضرت امیر حمزہ کا کلیجہ چبایا تھا اسکی پریشانی دیکھ کر اسکے پاس آگئ‬
‫تھی‬
‫" کیا بات ھے ؟ کیوں پریشان ھو ؟ "‬
‫ھوں " وہ یہ کہہ کر‬ ‫سفیان چونکا ۔ ُکچھ نہیں ۔۔ " طبیعت گھبرا رھی ھے میں ذرا ُ‬
‫گھوم کر آتا ُ‬ ‫ابو ُ‬
‫" ھُوں ؟ " ُ‬
‫گھر کے بیرونی دروازے سے باھر نکل گیا‬
‫مکہ کی گلیوں میں سے گھومتے گھومتے وہ اسکی حد تک پہنچ گیا تھا‬
‫اچانک اسکی نظر شہر سے باھر ایک وسیع میدان پر پڑی ‪،‬‬
‫ھزاروں مشعلیں روشن تھیں ‪ ،‬لوگوں کی چہل پہل انکی روشنی میں نظر آرھی تھی‬
‫اور بھنبھناھٹ کی آواز تھی جیسے سینکڑوں لوگ دھیمی آواز میں کچھ پڑھ رھے ھوں‬
‫اسکا دل دھک سے رہ گیا تھا ۔۔۔‬
‫اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قریب جاکر دیکھے گا کہ یہ کون لوگ ھیں‬
‫اتنا تو وہ سمجھ ھی چکا تھا کہ مکہ کے لوگ تو غافلوں کی نیند سو رھے ھیں اور یہ لشکر یقینا مکہ پر‬
‫چڑھائ کیلیئے ھی آیا ھے‬
‫وہ جاننا چاھتا تھا کہ یہ کون ھیں ؟‬
‫وہ آھستہ آھستہ اوٹ لیتا اس لشکر کے کافی قریب پہنچ چکا تھا‬
‫کچھ لوگوں کو اس نے پہچان لیا تھا‬
‫یہ اسکے اپنے ھی لوگ تھے جو مسلمان ھوچکے تھے اور مدینہ ھجرت کرچکے تھے‬
‫اس کا دل ڈوب رھا تھا ‪ ،‬وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا ھے‬
‫اور یقینا " ُمحمد ﷺ اپنے جانثاروں کیساتھ مکہ آپہنچے تھے "‬
‫وہ چھپ کر حاالت کا جائزہ لے ھی رھا تھا کہ عقب سے کسی نے اسکی گردن پر تلوار رکھ دی‬
‫اسکا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا‬
‫لشکر کے پہرے داروں نے اسے پکڑ لیا تھا‬
‫اور اب اسے " بارگاہ محمد ﷺ میں لیجا رھے تھے "‬
‫اسکا ایک ایک قدم کئ کئ من کا ھوچکا تھا‬
‫ھر قدم پر اسے اپنے کرتوت یاد آرھے تھے‬
‫جنگ بدر ‪ ،‬احد ‪ ،‬خندق ‪ ،‬خیبر سب اسکی آنکھوں کے سامنے ناچ رھی تھیں‬
‫اسے یاد آرھا تھا کہ اس کیسے سرداران مکہ کو اکٹھا کیا تھا " محمد کو قتل کرنے کیلیئے "‬
‫کیسے نجاشی کے دربار میں جاکر تقریر کی تھی کہ ۔۔۔۔‬
‫" یہ مسلمان ھمارے غالم اور باغی ھیں انکو ھمیں واپس دو "‬
‫کیسے اسکی بیوی ھندہ نے امیر حمزہ کو اپنے غالم حبشی کے ذریعے شہید کروا کر انکا سینہ چاک‬
‫کرکے انکا کلیجہ نکال کر چبایا اور ناک اور کان کاٹ کر گلے میں ھار بنا کر ڈالے تھے‬
‫اور اب اسے اسی محمد ﷺ کے سامنے پیش کیا جارھا تھا‬
‫اسے یقین تھا کہ ۔۔۔‬
‫ُ‬
‫اسکی روایات کے مطابق اس جیسے " دھشت گرد " کو فورا تہہ تیغ کردیا جاۓ گا ۔‬
‫اُدھر ۔۔۔۔‬
‫" بارگاہ رحمت للعالمین ﷺ میں اصحاب رض جمع تھے اور صبح کے اقدامات کے بارے میں مشاورت چل‬
‫رھی تھی کہ کسی نے آکر ابوسفیان کی گرفتاری کی خبر دے دی‬
‫" ہللا اکبر " خیمہ میں نعرہ تکبیر بلند ھوا‬
‫ابوسفیان کی گرفتاری ایک بہت بڑی خبر اور کامیابی تھی‬
‫خیمہ میں موجود عمر ابن الخطاب اٹھ کر کھڑے ھوۓ اور تلوار کو میان سے نکال کر انتہائ جوش کے‬
‫عالم میں بولے ۔۔‬
‫" اس بدبخت کو قتل کردینا چاھیئے شروع سے سارے فساد کی جڑ یہی رھا ھے "‬
‫چہرہ مبارک رحمت للعالمین ﷺ پر تبسم نمودار ھوا‬
‫اور انکی دلوں میں اترتی ھوئ آواز گونجی‬
‫" بیٹھ جاؤ عمر ۔۔ اسے آنے دو "‬
‫عمر ابن خطاب آنکھوں میں غیض لیئے حکم رسول ﷺ کی اطاعت میں بیٹھ تو گۓ لیکن ان کے چہرے‬
‫کی سرخی بتا رھی تھی کہ انکا بس چلتا تو ابوسفیان کے ٹکڑے کرڈالتے‬
‫اتنے میں پہرے داروں نے بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ھونے کی اجازت چاھی‬
‫اجازت ملنے پر ابوسفیان کو رحمت للعالمین کے سامنے اس حال میں پیش کیا گیا کہ اسکے ھاتھ اسی کے‬
‫عمامے سے اسکی پشت پر بندھے ھوۓ تھے‬
‫چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی‬
‫اور اسکی آنکھوں میں موت کے ساۓ لہرا رھے تھے‬
‫لب ھاۓ رسالت مآب ﷺ وا ھوۓ ۔۔۔‬
‫اور اصحاب رض نے ایک عجیب جملہ سنا‬
‫" اسکے ھاتھ کھول دو اور اسکو پانی پالؤ ‪ ،‬بیٹھ جاؤ ابوسفیان ۔۔ !! "‬
‫ابوسفیان ھارے ھوۓ جواری کی طرح گرنے کے انداز میں خیمہ کے فرش پر بچھے قالین پر بیٹھ گیا ۔‬
‫پانی پی کر اسکو کچھ حوصلہ ھوا تو نظر اٹھا کر خیمہ میں موجود لوگوں کی طرف دیکھا‬
‫عمر ابن خطاب کی آنکھیں غصہ سے سرخ تھیں‬
‫ابوبکر ابن قحافہ کی آنکھوں میں اسکے لیئے افسوس کا تاثر تھا‬
‫عثمان بن عفان کے چہرے پر عزیزداری کی ھمدردی اور افسوس کا مال جال تاثر تھا‬
‫علی ابن ابوطالب کا چہرہ سپاٹ تھا‬
‫اسی طرح باقی تما اصحاب کے چہروں کو دیکھتا دیکھتا آخر اسکی نظر محمد ﷺ کے چہرہ مبارک پر آکر‬
‫ٹھر گئ‬
‫جہاں جاللت و رحمت کے خوبصورت امتزاج کیساتھ کائنات کی خوبصورت ترین مسکراھٹ تھی‬
‫" کہو ابوسفیان ؟ کیسے آنا ھوا ؟؟ "‬
‫ابوسفیان کے گلے میں جیسے آواز ھی نہیں رھی تھی‬
‫بہت ھمت کرکے بوال ۔۔ " مم ۔۔ میں اسالم قبول کرنا چاھتا ھوں ؟؟ "‬
‫عمر ابن خطاب ایک بار پھر اٹھ کھڑے ھوۓ‬
‫" یارسول ہللا ﷺ یہ شخص مکاری کررھا ھے ‪ ،‬جان بچانے کیلیئے اسالم قبول کرنا چاھتا ھے ‪ ،‬مجھے‬
‫اجازت دیجیئے ‪ ،‬میں آج اس دشمن ازلی کا خاتمہ کر ھی دوں " انکے مونہہ سے کف جاری تھا ۔۔۔‬
‫" بیٹھ جاؤ عمر ۔۔۔ " رسالت مآب ﷺ نے نرمی سے پھر فرمایا‬
‫" بولو ابوسفیان ۔۔ کیا تم واقعی اسالم قبول کرنا چاھتے ھو ؟ "‬
‫" جج ۔۔ جی یا رسول ہللا ﷺ ۔۔ میں اسالم قبول کرنا چاھتا ھوں میں سمجھ گیا ھوں کہ آپ اور آپکا دین بھی‬
‫سچا ھے اور آپ کا خدا بھی سچا ھے ‪ ،‬اسکا وعدہ پورا ھوا ۔ میں جان گیا ھوں کہ صبح مکہ کو فتح ھونے‬
‫سے کوئ نہیں بچا سکے گا "‬
‫چہرہ رسالت مآب ﷺ پر مسکراھٹ پھیلی ۔۔‬
‫" ٹھیک ھے ابوسفیان ۔۔‬
‫تو میں تمہیں اسالم کی دعوت دیتا ھوں اور تمہاری درخواست قبول کرتا ھوں جاؤ تم آزاد ھو ‪ ،‬صبح ھم‬
‫مکہ میں داخل ھونگے انشاء ہللا‬
‫میں تمہارے گھر کو جہاں آج تک اسالم اور ھمارے خالف سازشیں ھوتی رھیں ‪ ،‬جاۓ امن قرار دیتا ھوں ‪،‬‬
‫جو تمہارے گھر میں پناہ لےلے گا وہ محفوظ ھے ‪" ،‬‬
‫۔ابوسفیان کی آنکھیں حیرت سے پھٹتی جا رھی تھیں‬
‫۔" اور مکہ والوں سے کہنا ۔۔ جو بیت ہللا میں داخل ھوگیا اسکو امان ھے ‪ ،‬جو اپنی کسی عبادت گاہ میں چال‬
‫گیا ‪ ،‬اسکو امان ھے ‪ ،‬یہاں تک کہ جو اپنے گھروں میں بیٹھ رھا اسکو امان ھے ‪،‬‬
‫جاؤ ابوسفیان ۔۔۔ جاؤ اور جاکر صبح ھماری آمد کا انتظار کرو‬
‫اور کہنا مکہ والوں سے کہ ھماری کوئ تلوار میان سے باھر نہیں ھوگی ‪ ،‬ھمارا کوئ تیر ترکش سے باھر‬
‫نہیں ھوگا‬
‫ھمارا کوئ نیزہ کسی کی طرف سیدھا نہیں ھوگا جب تک کہ کوئ ھمارے ساتھ لڑنا نہ چاھے "‬
‫۔ابوسفیان نے حیرت سے محمد ﷺ کی طرف دیکھا اور کانپتے ھوۓ ھونٹوں سے بولنا شروع کیا ۔۔‬
‫" اشھد ان الالہ اال ہللا و اشھد ان محمد عبدہُ و رسولہُ "‬
‫۔سب سے پہلے عمر ابن خطاب آگے بڑھے ۔۔ اور ابوسفیان کو گلے سے لگایا‬
‫" مرحبا اے ابوسفیان ‪ ،‬اب سے تم ھمارے دینی بھائ ھوگۓ ‪ ،‬تمہاری جان ‪ ،‬مال ھمارے اوپر ویسے ھی‬
‫حرام ھوگیا جیسا کہ ھر مسلمان کا دوسرے پر حرام ھے ‪ ،‬تم کو مبارک ھو کہ تمہاری پچھلی ساری خطائیں‬
‫معاف کردی گئیں اور ہللا تبارک و تعالی تمہارے پچھلے گناہ معاف فرماۓ "‬
‫ابوسفیان حیرت سے خطاب کے بیٹے کو دیکھ رھا تھا‬
‫یہ وھی تھا کہ چند لمحے پہلے جسکی آنکھوں میں اس کیلیئے شدید نفرت اور غصہ تھا اور جو اسکی جان‬
‫لینا چاھتا تھا‬
‫اب وھی اسکو گلے سے لگا کر بھائ بول رھا تھا ؟‬
‫یہ کیسا دین ھے ؟‬
‫یہ کیسے لوگ ھیں ؟‬
‫سب سے گلے مل کر اور رسول ہللا ﷺ کے ھاتھوں پر بوسہ دے کر ابوسفیان خیمہ سے باھر نکل گیا‬
‫" وہ دھشت گرد ابوسفیان کہ جس کے شر سے مسلمان آج تک تنگ تھے انہی کے درمیان سے سالمتی سے‬
‫گزرتا ھوا جارھا تھا ‪ ،‬جہاں سے گزرتا ‪ ،‬اس اسالمی لشکر کا ھر فرد ‪ ،‬ھر جنگجو ‪ ،‬ھر سپاھی جو تھوڑی‬
‫دیر پہلے اسکی جان کے دشمن تھے اب آگے بڑھ بڑھ کر اس سے مصافحہ کررھے تھے ‪ ،‬اسے مبارکباد‬
‫دے رھے تھے ‪ ،‬خوش آمدید کہہ رھے تھے ۔۔ "‬
‫اگلے دن ۔۔۔‬
‫مکہ شہر کی حد پر جو لوگ کھڑے تھے ان میں سب سے نمایاں ابوسفیان تھا‬
‫مسلمانوں کا لشکر مکہ میں داخل ھوچکا تھا‬
‫کسی ایک تلوار ‪ ،‬کسی ایک نیزے کی انی ‪ ،‬کسی ایک تیر کی نوک پر خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا‬
‫لشکر اسالم کو ھدایات مل چکی تھیں‬
‫کسی کے گھر میں داخل مت ھونا‬
‫کسی کی عبادت گاہ کو نقصان مت پہنچانا‬
‫کسی کا پیچھا مت کرنا‬
‫عورتوں اور بچوں پر ھاتھ نہ اٹھانا‬
‫کسی کا مال نہ لوٹنا‬
‫بالل حبشئ آگے آگے اعالن کرتا جارھا تھا‬
‫" مکہ والو ۔۔۔ رسول خدا ﷺ کی طرف سے ۔۔۔‬
‫آج تم سب کیلیئے عام معافی کا اعالن ھے ۔۔‬
‫کسی سے اسکے سابقہ اعمال کی بازپرس نہیں کی جاۓ گی ‪،‬‬
‫جو اسالم قبول کرنا چاھے وہ کرسکتا ھے‬
‫جو نہ کرنا چاھے وہ اپنے سابقہ دین پر رہ سکتا ھے‬
‫سب کو انکے مذھب کے مطابق عبادت کی کھلی اجازت ھوگی‬
‫صرف مسجد الحرام اور اسکی حدود کے اندر بت پرستی کی اجازت نہیں ھوگی‬
‫کسی کا ذریعہ معاش چھینا نہیں جاۓ گا‬
‫کسی کو اسکی ارضی و جائیداد سے محروم نہیں کیا جاۓ گا‬
‫غیر مسلموں کے جان و مال کی حفاظت مسلمان کریں گے‬
‫اے مکہ کے لوگو ۔۔۔۔ !! "‬
‫۔ھندہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی لشکر اسالم کو گزرتے دیکھ رھی تھی‬
‫اسکا دل گواھی نہیں دے رھا تھا کہ " حضرت حمزہ " کا قتل اسکو معاف کردیا جاۓ گا‬
‫لیکن ابوسفیان نے تو رات یہی کہا تھا کہ ۔۔۔‬
‫" اسالم قبول کرلو ۔۔ سب غلطیاں معاف ھوجائیں گی "‬
‫مکہ فتح ھوچکا تھا‬
‫بنا ظلم و تشدد ‪ ،‬بنا خون بہاۓ ‪ ،‬بنا تیر و تلوار چالۓ ‪،‬‬
‫لو گ جوق در جوق اس آفاقی مذھب کو اختیار کرنے اور ہللا کی توحید اور رسول ہللا ﷺ کی رسالت کا‬
‫اقرار کرنے مسجد حرام کے صحن میں جمع ھورھے تھے‬
‫اور تبھی مکہ والوں نے دیکھا ۔۔۔‬
‫" اس ھجوم میں ھندہ بھی شامل تھی "‬
‫۔یہ ھوا کرتا تھا اسالم ۔۔ یہ تھی اسکی تعلیمات ۔۔ یہ سکھایا تھا رحمت للعالمین ﷺ نے‪...‬‬

You might also like