You are on page 1of 9

‫خالد بن ولید‬

‫عرب کے سپہ ساالر اور صحابی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬

‫ابو سلیمان خالد بن ولید ابن مغیرہ المخزومی عربی‪ :‬خالد بن الوليد بن المغيرة‬
‫کے ایک جلیل القدر صحابی‪ ،‬عظیم سپہ ساالر اور‬ ‫المخزومي؛ اسالمی پیغمبر محمد‬
‫تاریخ ساز فاتح تھے۔ اور خلفائے راشدین ابو بکر (د‪ )634–632 .‬اور عمر (د‪)644–634 .‬‬
‫کے عہد میں عرب فوجی کمانڈر تھے۔ انہوں نے ‪632‬ء‪633-‬ء میں عرب میں باغی قبائل‬
‫کے خالف جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔ ابتدائی مہمات‪633 ،‬ء‪634-‬ء میں ساسانی‬
‫عراق میں اور ‪634‬ء‪638-‬ء میں بازنطینی شام کی فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا۔‬

‫خالد بن ولید‬
‫سیف اللہ‪ ،‬اهلل کی تلوار‬

‫مکہ‬ ‫پیدائش‬

‫‪642‬ء‬ ‫وفات‬
‫مدینہ منورہ یا حمص‪ ،‬خالفت راشدہ‬

‫مسجد خالد بن ولید‪ ،‬حمص‪ ،‬سوریہ‬ ‫ممکنہ تدفین کی جگہ‬

‫قریش (‪625‬ء – ‪627‬ء یا ‪629‬ء)‬ ‫وفاداری‬


‫محمد بن عبد اللہ (‪627‬ء یا ‪629‬ء– ‪632‬ء)‬
‫خالفت راشدہ (‪632‬ء – ‪638‬ء)‬

‫خالفت راشدہ کی فوج‬ ‫سروس‪/‬شاخ‬

‫‪629‬ء–‪638‬ء‬ ‫سالہائے‪ ‬فعالیت‬

‫نجد اور یمامہ میں فیلڈ کمانڈر (‪632‬ء –‬ ‫آرمی عہدہ‬


‫‪633‬ء)‬
‫شام میں مسلم افواج کے کمانڈر ان چیف‬
‫(‪634‬ء – ‪636‬ء)‬
‫شمالی شام میں فیلڈ کمانڈر (‪636‬ء –‬
‫‪638‬ء)‬
‫قنسرین کے فوجی گورنر (ت ‪)638‬‬

‫مسلمانوں ک خالف‪:‬‬ ‫مقابلے‪/‬جنگیں‬


‫مسلمانوں کے خالف‪:‬‬ ‫مقابلے‪/‬جنگیں‬
‫غزوہ احد (‪625‬ء)‬

‫غزوہ خندق (‪627‬ء)‬


‫مسلمانوں کے لیے‪:‬‬
‫غزوہ موتہ (‪629‬ء)‬
‫فتح مکہ (‪629‬ء یا ‪630‬ء)‬
‫غزوہ حنین (‪630‬ء)‬
‫فتنۂ ارتداد کی جنگیں‬
‫بزاخہ کی لڑائی (‪632‬ء)‬
‫یمامہ کی لڑائی (‪633‬ء)‬
‫عراق میں ابتدائی مہمات‬
‫جنگ ذات السالسل (‪633‬ء)‬
‫جنگ مذار (‪633‬ء)‬
‫جنگ الیس (‪633‬ء)‬
‫جنگ ولجہ (‪633‬ء)‬
‫جنگ حیرہ (‪633‬ء)‬
‫جنگ االنبار (‪633‬ء)‬
‫جنگ عین تمر (‪633‬ء)‬
‫جنگ فراض (‪634‬ء)‬
‫فتح شام‬
‫جنگ مرج راہط (‪634‬ء)‬
‫محاصرہ بصرٰی (‪634‬ء)‬
‫اجنادین کی لڑائی (‪634‬ء)‬
‫جنگ فحل (‪634‬ء یا ‪635‬ء)‬
‫محاصرہ دمشق (‪634‬ء – ‪635‬ء)‬
‫یرموک کی لڑائی (‪)636‬‬
‫محاصرہ حمص (‪637‬ء – ‪638‬ء)‬
‫محاصرہ حلب (‪637‬ء)‬
‫جنگ قنسرین (‪637‬ء – ‪638‬ء)‬

‫اسماء بنت انس بن مدرک‬ ‫شریک حیات‬


‫ام تمیم بنت منھال‬

‫سلیمان‬ ‫اوالد‬
‫عبد الرحٰم ن‬
‫مہاجر‬

‫ابو سلیمان تاریخ کے ان چند فوجی کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ساری‬
‫زندگی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ خالد بازنطینی رومی سلطنت‪ ،‬فارسی ساسانی‬
‫سلطنت اور ان کے اتحادیوں کے اعلٰی افواج کے خالف سو سے زائد لڑائیوں میں‬
‫ناقابل شکست رہے۔‬

‫نسب اور ابتدائی زندگی‬


‫خالد کی کنیت ابو سلیمان اور سیف اللہ (اهلل کی تلوار) تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے‪ ،‬خالد‬
‫بن ولید بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم مخزومی۔‌ ماں کا نام لبانہ الصغرٰی‬
‫بنت حارث تھا جو ام المومنین حضرت میمونہ اور لبابہ بنت حارث‪ ،‬والدہ عبد اللہ بن‬
‫عباس کی ہمشیرہ تھیں۔ سلسلہ نسب ساتویں پشت (یعنی مرہ بن کعب بن لوی) میں‬
‫حضرت ابو بکر اور رسول اهلل سے جا ملتا ہے۔ خالد کے ولید بن مغیرہ قریش کے شرفا‬
‫اور سرداروں میں سے تھے اور مکے کے بڑے دولت مندوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔‌‬
‫خالد کا قبیلہ شجاعات و جنگ جوئی میں بھی ممتاز اور نامور تھا۔‌ قبیلہ قریش کی‬
‫مذہبی قیادت بنو ہاشم اور بنو عبد الدار‪ ،‬سیاسی قیادت بنو امیہ اور عسکری قیادت‬
‫خالد کے قبیلے‪ ،‬بنو مخزوم کے پاس تھی۔‌‬
‫ی‬

‫خالد کی والدت کی صحیح تاریخ کے بارے میں تاریخ کی کسی بھی کتاب میں ذکر‬
‫نہیں ملتا ہے۔ اے آئی اکرم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بچپن میں ایک دفعہ خالد بن‬
‫ولید اور عمر بن خطاب نے کشتی لڑی جس میں خالد نے عمر کی پنڈلی توڑ ڈالی جو‬

‫کافی عالج کے بعد ٹھیک ہو گئی۔[‪ ]1‬اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ہم عمر تھے۔‬
‫خالد کے والد ولید بن مغیرہ تھے‪ ،‬جو حجاز کے مکہ میں مقامی تنازعات کے ثالث تھے۔‬
‫خالد کا خاندان زمانہ جاہلیت سے معزز چال آتا تھا‪ ،‬فوج کی سپہ ساالری اور فوجی‬
‫کیمپ کے انتظام کا عہدہ ان ہی کے خاندان میں تھا۔ ظہور اسالم کے وقت خالد اس‬
‫عہدہ پر ممتاز تھے۔‬

‫قبوِل اسالم‬

‫حضرت خالؓد بن ولید کے قبوِل اسالم سے قبل بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلٖہ‬
‫وسلم ان کو بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم‬
‫کے سامنے حضرت خالؓد کی تعریف کی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم فرمایا‬
‫کرتے کہ جس شخص میں یہ خصوصیات ہوں گی وہ ضرور اسالم قبول کرے گا۔‬
‫جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے حضرت عمؓر کے بارے میں قبوِل اسالم کی‬
‫دعا فرمائی تھی‪ ،‬اسی طرح خواہش تھی کہ حضرت خالؓد بھی اسالم قبول کر لیں۔‬
‫آخر یہی ہوا ‪ 8‬ہجری میں فتح مکہ سے پہلے حضرت خالد بن ولیؓد ‪ ،‬حضرت عمرو بن‬
‫العاؓص اور حضرت عثمان بن طلحؓہ حضور علیہ الصلٰو ۃ والسالم کے پاس تشریف الئے‬
‫اور اسالم قبول کر لیا۔ تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے بہت خوشی سے‬
‫فرمایاکہ اے لوگو! مکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے دامن میں ڈال دیئے ہیں۔ قبوِل‬
‫اسالم کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے حضرت خالؓد بن ولید پر خاص نگاِہ‬
‫کرم فرمائی اور ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔ حارث بن ہشام روایت کرتے ہیں کہ‬
‫َم یں نے حضرت خالد بن ولیؓد کو کہتے سنا ’’اسالم قبول کرنے سے پہلے َم یں تقریبًا ہر‬
‫معرکے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کے سامنے نئے عزم و ولولے کے ساتھ‬
‫آتا لیکن ہر مرتبہ کچھ اس طرح میرے ِد ل پر آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کا ُر عب و‬
‫دبدبہ طاری ہوتا کہ میرے حوصلے پست ہو جاتے اور مجھے یوں محسوس ہوتا کہ‬
‫جیسے کوئی غیبی طاقت ُا ؐن کی حفاظت فرما رہی ہے۔ پس مجھے یقین ہو گیا کہ یہ‬
‫لوگ پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے۔‘‘ (طبقات ابِن سعد)‬

‫حضرت خالد کا ذہر پینا‬


‫حضرت خالد بن ولیؓد تاریخ اسالم کے ناقابل شکست سپہ ساالر تھے۔آؓپ نے جنگوں‬
‫میں اپنے سے کئی گنا طاقتور اور بڑے لشکروں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔‬
‫بارہویں صدی کے ایک مورخ ابن اسکر نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ جنگ میں دشمن کو‬
‫زیر کرنے کے لئے حضرت خالد بن ولیدؓ نے زہر پی لیا تھا ‪،‬اللہ کے حکم سے آپؓ پر زہر‬
‫کا اثر نہ ہوا۔اس واقعہ کا تذکرہ روایات کے مطابق کچھ یوں ہے کہ اسالمی لشکر نے‬
‫حضرت خالد بن ولیؓد کی قیادت میں کئی شب و روز عیسائیوں کے ایک قلعہ کا‬
‫محاصرہ کر رکھا تھا اور لڑائی اس لئے نہ چھیڑی کہ شائد یہ لوگ راہ راست پر‬
‫آجائیں ۔‬

‫ادھر عیسائیوں نے قلعہ پراپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ایک ترکیب سوچی۔انھوں‬
‫نے ایک ذہین اورمعمر پادری عمرو بن عبدالمسیح کو حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس‬
‫پاس بات چیت کے لئے بھیجا۔‬

‫پادری نے چاالکی سے آپؓ کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ آؓپ فی الوقت‬
‫ہمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں‪،‬اگر آؓپ نے دوسرے قلعے فتح کرلئے تو ہم اپنے قلعہ کا‬
‫قبضہ بغیر کسی لڑائی اور مزاحمت کے آؓپ کے حوالے کردیں گے حضرت خالد بن ولید‬
‫ےؓرسود یسک ںیم دعبرھپ روا ےگ ںیرک حتف وک ہعلق یسا ےلہپ مہ ںیہن ہک ایامرف ےنے فرمایا کہ نہیں ہم پہلے اسی قلعہ کو فتح کریں گے اور پھربعد میں کسی دوسر‬
‫قلعے کا رخ کریں گے۔ یہ سن کر بوڑھے پادری نے اپنے پاس سے زہر کی ایک پڑیا نکالی‬
‫ا کا‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫قل‬ ‫ا‬ ‫الاگ آ ؓپ‬ ‫ا‬
‫اور بوالاگر آؓپ ہمارے قلعے کا محاصرہ ابھی ختم نہیں کریں گے تو میں اس پڑیا کا‬
‫زہر کھا کر خودکشی کر لوں گا اورپھر میرا خون تمہاری گردن پر ہو گا۔حضرت خالد‬
‫بن ولیدؓ نے فرمایا ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ہو اور تو مر جائے۔‬

‫بوڑھا پادری بوالاگر تم ایسا یقین رکھتے ہے تو لو پھر یہ زہر کی پڑیا پھانک کر دکھاؤ۔‬
‫یہ سن کر حضرت خالد بن ولیؓد نے زہر کی پڑیا پادری کے ہاتھوں سے لی اور یہ‬

‫دعا(ِب ْس ِم اللہ اَّلِذ ْی اَل َی ُض ُّر َم َع اْس ِم ٖہ َش ْی ٌء ِف ی اَاْلْر ِض َو اَل ِف ی الَّس َم اءِ َو ُھ َو الَّس ِم ْی ُع‬
‫اْلَع ِل ْی م)پڑھ کر زہر کی پڑیا پھانک لی اور اوپر سے پانی پی لیا۔ اب تو بوڑھے پادری کو‬
‫مکمل یقین ہوگیاتھا کہ آپؓ اس خطرناک زہرکو پی کر چند لمحوں میں موت کی‬
‫وادی میں پہنچ جائیں گے ‪،‬یوں کسی نہ کسی طرح قلعہ کا محاصرہ بھی ختم ہو‬
‫جائے گا۔زہر کا اثردیکھنے کے لئے پادری غور سے ٹکٹکی باندھے آؓپ کو دیکھنے لگا۔آؓپ‬
‫کے بدن سے پسینہ نمودار ہونے لگا‪،‬پادری دل ہی دل میں خوش ہونے لگا کہ زہر کا اثر‬
‫شروع ہوچکا ہے لیکن اللہ نے آؓپ کو زہرکی ہالکت سے محفوظ رکھا‪،‬آؓپ کے بدن سے‬
‫چند منٹ پسینہ نمودار ہونے کے بعد آؓپ کی کیفیت بالکل نارمل ہوگئی۔‬

‫پادری نے اپنی آنکھوں کے سامنے حضرت خالد بن ولیدؓ کا جذبہ ایمانی دیکھا تو‬
‫حیران پریشان رہ گیا۔حضرت خالد بن ولیؓد نے پادری سے مخاطب ہو کر فرمایادیکھ‬
‫لو ‪ ،‬اگر موت نہ آئی ہو تو زہر بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔'‬

‫پادری کوئی جواب دئیے بغیر آؓپ کے پاس سے واپس قلعہ بھاگ کھڑا ہوا اوراپنی قوم‬
‫سے کہااے لوگو‪،‬میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں‪ ،‬خدا تعالٰی کی قسم ‪،‬اسے مرنا تو‬
‫آتا ہی نہیں‪ ،‬وہ صرف مارنا ہی جانتے ہیں۔ جتنا زہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیاہے اگر‬
‫اتنا پانی میں مال کر ہم تمام اہل قلعہ پی لیتے تو یقینََا مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا‬
‫تو درکنار ‪ ،‬وہ بے ہوش بھی نہیں ہوا‪ ،‬میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان‬
‫سے لڑائی نہ کرو۔معمر پادری کی بات سن کر عیسائیوں نے وہ قلعہ بغیر لڑائی کے‬
‫حضرت خالد بن ولیؓد کے حوالے کردیا۔مسلمانوں کو یہ فتح بغیر کسی جنگ کے صرف‬
‫حضرت خالد بن ولیؓد کی قوت ایمانی کی بدولت حاصل ہوئی تھی ۔‬

‫حضرت خالد اور ُج رجہ نامی سپہ ساالر کی گفتگو‬

‫عالمہ ابن کثیر نے البدایۃ والنہایہ جلد نمبر ‪ ٧‬اور صفحہ نمبر ‪ ١٦‬میں ایک دلچسپ اور‬
‫ایمان افروز واقعہ ذکر کیا ہے‪ : ‬جب جنگ یرموک میں دونوں لشکر آمنے سامنے صف‬

‫آراء ہوئے تو رومیوں کا ایک سپہ ساالر جرجہ آگے بڑھا اور حضرت خالد کو دعوت‬
‫مبارزت دی جب دونوں شاہسوار ایک دوسرے کے قریب آگئے تو جرجہ کہنے لگا خالد‬
‫میں جرجہ ہوں تم سے کچھ سوال کرنا چاہتاہوں جناِب خالد فرمانے لگے ہاں پوچھو‬
‫جرجہ کہنے لگا خالد جو بہادر انسان ہوتا ہے وہ کبھی دھوکہ نہیں دیتا اور سچا‬
‫انسان کبھی جھوٹ نہیں بولتا پھر دونوں کے درمیان مکالمہ شروع ہوا جسکا خالصہ‬
‫کچھ یوں ہے‪ : ‬جرجہ‪ : ‬خالد کیا تمہارے نبیﷺ پر آسمان سے کوئی تلوار نازل ہوئی‬
‫جو انہوں نے تمہیں دی لہذا اب جس لشکر میں بھی تم ہوتے وہ کبھی شکست نہیں‬
‫کھاتا؟ خالد‪ : ‬نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ جرجہ‪ : ‬خالد تو پھر تمہیں سیف اللہ کیوں‬
‫کہا جاتا ہے ؟ خالد‪ : ‬جب میں اسالم الیا تھا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫میرے لیے دعا کی تھی اور فرمایا تھا کہ تم اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہو‬
‫جس کو اللہ نے مشرکین پر سونت رکھا ہے ۔ اسی وجہ سے میرا لقب سیف اللہ پڑ گیا‬
‫ہے جرجہ‪ : ‬تم کس بات کی دعوت دینے نکلے ہو ؟ خالد‪ : ‬ہم اللہ اور اس کے رسول پر‬
‫ایمان النے کی دعوت دیتے ہیں ۔ جرجہ‪ : ‬اگر کوئی دعوت ماننے سے انکار کردے تو ؟‬
‫خالد‪ : ‬اس کے لیے جزیہ دینا ضروری ہے ۔ جرجہ‪ : ‬اگر جزیہ سے بھی انکار کردے تو ؟‬
‫خالد‪ : ‬پھر ہم اسے جنگ کے لیے للکارتےہیں ۔ جرجہ‪ : ‬اگر اب کوئی تمہارے ساتھ شامل‬
‫ہو تو اس کا درجہ کیا ہوگا ؟ خالد‪ : ‬ہم میں سب کا ایک ہی درجہ ہے امیر ‪ ،‬غریب سب‬
‫ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد کچھ مزید ایک دو سوالوں کے بعد‬
‫اس نےکہا مجھے بھی اسالم سکھا دو اور وہ حضرت خالد کے ساتھ چل دیا اور‬
‫اس نےکہا مجھے بھی اسالم سکھا دو اور وہ حضرت خالد کے ساتھ چل دیا اور‬
‫مسلمان لشکر میں آگیا حضرت خالد نے اس کو اسالم کی بنیادی باتیں بتائیں اور اس‬
‫نے اسالم قبول کرنے کے بعد حضرت خالد کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور مسلمان‬
‫لشکر میں شامل ہو کر خوب بہادری سے جنگ لڑی اور اسی جنگ میں زخمی ہو کر‬
‫شہید ہوگیا۔‬

‫جنِگ موتٓہ‬
‫جو معرکے حضرت خالؓد بن ولید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کے حکم اور‬
‫اجازت سے لڑے ان میں ایک جنِگ موتہ تھی جس میں حضرت خالؓد بن ولید مسلمان‬
‫ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایک سپاہی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ جنگِ موتہ کے بارے‬
‫میں ایک اہم بات یہ ہے کہ جب حضرت زیؓد بن حارثہ نے لشکر کی قیادت کی تو‬
‫حضور صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے پہلے ہی بشارت دے دی تھی کہ اگر زیؓد شہید ہو‬
‫جائیں تو جعفر بن ابی طالؓب َع لم سنبھال لیں‪ ،‬اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو عبداللہ‬
‫بن رواحؓہ کو امیر بنا لیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو مسلمان اپنے میں سے‬
‫کسی کو امیر منتخب کر لیں۔‘‘ اسالمی لشکر موتہ پہنچا تو شاِہ روم ہرقل ایک الکھ‬
‫جنگجوؤں کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا منتظر تھا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور‬
‫مسلمانوں کے تینوں سپہ ساالر شہید ہو گئے۔ مجاہدین کے لیے یہ مایوس ُکن صورِت‬
‫حال تھی۔ میداِن جنگ پر رومیوں کا قبضہ تھا‪ ،‬ایسے میں مسلمانوں نے فوج کے ایک‬
‫سپاہی خالؓد بن ولید کو اپنا سپہ ساالر منتخب کیا اور جھنڈا ُا ن کے ہاتھ میں تھما‬
‫دیا۔ حضرت خالؓد بن ولید نے میداِن جنگ میں ایک ُپ رجوش اور ولولہ انگیز تقریر کی‬
‫اور اچانک رومیوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رومی اس اچانک اور بھرپور حملے کے لیے‬
‫ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ چنانچہ وہ بدحواس ہو گئے اور شکست ُا ن کا مقدر بن گئی۔‬
‫صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت خالؓد نے فرمایا ’’جنگِ موتہ کے روز میرے ہاتھ سے‬
‫نو تلواریں ٹوٹ گئیں۔ پھر میرے ہاتھ میں صرف ایک یمنی بانا (چھوٹی تلوار) باقی‬
‫بچی۔‘‘ ُا دھر مدینہ میں جنگِ موتہ ہی کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے‬
‫وحی کی بنا پر فرمایا ’’جھنڈا زیؓد نے لیا اور وہ شہید کر دیے گئے‪ ،‬پھر جعفؓر نے لیا اور‬
‫وہ بھی شہید کر دیے گئے‪ ،‬پھر ابنِ رواحؓہ نے لیا اور وہ بھی شہید کر دیے گئے (اس‬
‫َد وران آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی آنکھیں اشک بار تھیں) یہاں تک کہ جھنڈا اللہ‬
‫کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا (اور ایسی جنگ لڑی کہ) اللہ نے ان پر فتح‬
‫عطا فرمائی‘‘۔ اسی دن سے حضرت خالؓد بن ولید کا لقب ’’سیف اللہ‘‘ ہو گیا۔ (صحیح‬
‫بخاری‪ ،‬باب غزوۂ موتہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا‬
‫’’یہ اللہ کا بندہ بھی کیا خوب آدمی ہے۔ یہ اللہ تعالٰی کی تلواروں میں سے ایک تلوار‬
‫ہے جسے اس نے کفار اور منافقین پر کھینچا ہے۔‘‘‬

‫فتح مکہ‬
‫سّی دنا خالد بن ولیؓد کے اسالم قبول کرنے کے بعد دوسرااہم واقعہ فتح مکہ پیش آیا۔‬
‫جس میں باقاعدہ فخر امم‪،‬سروِر انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلٖہ‬
‫وسلم نے سّی دنا خالؓد بن ولیدکو ایک دستے کاامیر مقرر کیا۔ ‪20‬رمضان المبارک ‪8‬ہجری‬
‫کو فتح مکہ کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے وادی ذی طوٰی میں‬
‫لشکر کی تربیت و تقسیم فرمائی۔ حضرت خالؓد بن ولید کو بنو سلیم‪ ،‬بنوغفار‪،‬‬
‫بنوخزیمہ اور کچھ دوسرے عرب قبائل کی قیادت کرتے ہوئے مکے کے باالئی عالقے‬
‫کی جانب سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا اور فرمایا ’’اگر قریش میں سے کوئی‬
‫آڑے آئے تو اپنی تلوار کے جوہر دکھانے کی اجازت ہے اور اگر کوئی مزاحمت نہ ہو تو‬
‫اپنی جانب سے کسی سے مقابلہ کرنے میں پہل نہ کرنا۔ ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے‬
‫کہ ہم بغیر خون بہائے ُپ رامن طریقے سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوں اور اس مبارک‬
‫شہر کی حرمت کو پامال کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔‘‘ حضرت خالؓد اور ُا ن کے رفقا کی‬
‫راہ میں جو مشرک آیا ُا سے جہنم رسید کرتے کوِہ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وآلٖہ وسلم سے جا ملے۔ اس موقعہ پر حضرت خالؓد بن ولید سے جھڑپ میں ‪12‬مشرک‬
‫مارے گئے جب کہ دو صحابؓی شہید ہوئے وہ بھی راستہ بھول کر لشکر سے جدا ہو‬
‫جانے کی وجہ سے۔ فتح مکہ کو ابھی پانچ دن ہی گزرے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ‬
‫علیہ وآلٖہ وسلم نے حضرت خالؓد کو تیس مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر مقام ُن خلہ‬
‫کی جانب روانہ کیا تاکہ وہاں مشرکین عرب کے ’’عزٰی ‘‘ نامی ُبت کو گرا سکیں۔ عزٰی‬
‫قریشِ مکہ کا ایک مشہور اور بڑا بت تھا جس کی پوجا بڑے اہتمام کے ساتھ کی‬
‫جاتی تھی۔ جذبہ توحید سے سرشار حضرت خالؓد بن ولید نے بت کے پرخچے ُا ڑا دیئے۔‬

‫غزوہ حنین‬
‫ماِہ شوال ‪8‬ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے قبیلہ ہوازن کی سرکوبی‬
‫کے لیے مّکہ مکّر مہ سے وادٔی حنین کی جانب کوچ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ‬

‫وسلم کے ساتھ بارہ ہزار جنگجو تھے۔ ‪10‬ہزار وہ جو فتح مکہ کے وقت آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وآلٖہ وسلم کے ہمراہ تھے اور دو ہزار مکہ کے نو مسلم۔ حضرت خالد بن ولیؓد بھی‬
‫ایک لشکر کے ساالر کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب‬
‫فرمائی اور بہت سا ماِل غنیمت ہاتھ آیا۔ غزوۂ حنین کے بہت سے شکست خوردہ‬
‫مشرک طائف میں قلعہ بند ہو گئے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے‬
‫حضرت خالؓد بن ولید کو ایک ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر ہراول دستے کے‬
‫طور پر طائف روانہ کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے بقیہ فوج کے ساتھ خود‬
‫بھی طائف کا ُر خ فرمایا۔‬

‫غزوۂ طائف‬
‫ہوازن کی شکست خوردہ فوج طائف جا کر پناہ گزیں ہو گئی اور جنگ کی تیاریاں‬
‫کرنے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے وہاں پہنچ کر ان سے جنگ کرنے‬
‫کاارادہ کیا۔ سّی دنا خالؓد زخمی ہونے کے باوجود جنگ میں شامل تھے اور بدستور لشکر‬
‫کے افسر تھے۔ اسالمی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی۔ طائف پہنچ کر قلعے کا محاصرہ‬
‫کر لیا گیا اور سّی دنا خالؓد باربار کفار کو نعرہ لگا کر مقابلے کے لیے دعوت دیتے تھے‬
‫لیکن کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ باربار کے چیلنج کے بعد قبیلہ ثقیف کے سردار‬
‫عبدیالیل نے جواب دیا ’’ہم میں سے کوئی شخص تمہارے مقابلے کے لیے نہیں ُا ترے گا‬
‫ہم بدستور قلعے میں مقیم رہیں گے کیونکہ ہمارے پاس اتنا سامان خوردونوش‬
‫موجود ہے جو دوسال کے لیے کافی ہے۔‘‘ چونکہ طائف والوں سے کوئی خطرہ نہ تھا‬
‫لٰہ ذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے محاصرہ اٹھا لیا۔'‬

‫غزوہ تبوک‬
‫تبوک میں دشمن کو مسلمانوں کے مقابل ہونے کی ہمت نہ پڑی بلکہ آس پاس کے‬
‫عیسائی حاکموں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اطاعت‬
‫قبول کر لی۔ پاس کی ایک ریاست دومۃ الجندل کا عرب حاکم اکیدر قیصر روم کے اثر‬

‫میں تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے حضرت خالؓد بن ولید کو چار سو‬
‫سوار دے کر اس کو مطیع کرنے کے لیے بھیجا۔ حضرت خالؓد نے اکیدر کو شکست دی‬
‫اور گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم نے اس کو چند‬
‫شرائط پر معافی دے دی۔ اس ُم ہم کے سلسلے میں مسلمانوں کو جن تکلیفوں اور‬
‫مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ان کی بنا پر اس کو جیش الُع سرۃ اور غزوۃ الُع سرۃ بھی‬
‫کہا جاتا ہے۔'‬

‫جنِگ یمامہ‬
‫ذی الحجہ ‪11‬ہجری کو خلیفۂ اّو ل سّی دنا صدیقِ اکبؓر نے حضرت خالد بن ولیؓد کو تیرہ‬
‫ہزار مجاہدین کے لشکر کا امیر بنا کر نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب کی‬
‫سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ مسیلمہ اپنے قبیلے ربیعہ کے چالیس ہزار جنگجوؤں کے‬
‫لشکر کے ساتھ’’یمامہ‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کے مّد ِ مقابل آیا۔ اس موقعے پر حضرت‬
‫خالد بن ولیؓد نے بہترین جنگی حکمتِ عملی‪ ،‬سیاسی بصیرت اور ولولہ انگیز تقاریر‬
‫کے ذریعے مجاہدین میں شوِق شہادت کو بڑھاوا دیا اور پھر بپھرے شیر کی طرح‬
‫ح‬ ‫ی‬ ‫ن ں ِق‬
‫ُا‬
‫مسیلمہ کی فوج کے پرخچے ڑا دیئے۔ حضرت حمزؓہ کے قاتل وحشی نے اپنا نیزہ‬
‫مسیلمہ کے سینے میں ُا تار کر ُا سے جہنم رسید کر دیا۔‬

‫حضرت خالؓد عراق اور ایران میں‬


‫ابھی حضرت خالؓد بن ولید جنگِ یمامہ سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت صدیقِ اکبؓر‬
‫نے آؓپ کو عراق اور ایران کی جانب پیش قدمی کا حکم صادر فرما دیا۔ چنانچہ محرم‬
‫‪12‬ہجری میں حضرت خالؓد عراق کے عالقے ’’ابلہ‘‘ کو فتح کرتے ہوئے ایرانی صوبے‬
‫’’حضیر‘‘ جا پہنچے۔ اس صوبہ کا حاکم ہرمز نہایت دلیر جنگجو سردار تھا جس کی‬
‫دھاک عرب‪ ،‬عراق‪ ،‬ایران اور ہندوستان تک بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ ُا س کے جنگی‬
‫بیڑے ہندوستان پر بھی حملہ آور ہو چکے تھے۔ ہرمز کی مدد کے لیے شاِہ ایران نے‬
‫مزید ایک الکھ فوجی بھیج دئیے جب کہ اسالمی لشکر صرف تیرہ ہزار مجاہدین پر‬

‫مشتمل تھا۔ یہاں حضرت خالؓد نے ایک اور جنگی حکمتِ عملی اپنائی اور سب سے‬
‫پہلے خود میداِن جنگ میں گئے۔ اپنے گھوڑے کو ہرمز کے خیمے کے پاس کھڑا کر کے‬
‫ُا سے مقابلے کی دعوت دی۔ وہ باہر نکال‪ ،‬دونوں میں دوبدو لڑائی ہوئی اور پھر حضرت‬
‫خالؓد نے ُا سے زمین پر گرا دیا اور ُا س کے سینے پر سوار ہو کر سر تن سے جدا کر دیا۔‬
‫یہ سب اتنا اچانک اور تیزی سے ہوا کہ ایرانی فوج بدحواس ہو کر بھاگ نکلی۔ اس‬
‫جنگ میں بہت زیادہ ماِل غنیمت اور ہیرے جواہرات مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ حضرت‬
‫خالؓد نے عراق میں دو سال قیام کیا۔ فوج اور ساماِن حرب کی قّلت کے باوجود ان دو‬
‫برسوں میں ‪15‬جنگیں لڑیں اور سرزمینِ عراق کو دشمنوں سے پاک کر دیا۔‬

‫جنِگ یرموک‬
‫حضرت خالد بن ولیؓد کی قیادت میں لڑی جانے والی اس جنگ میں رومی جرنیل‬
‫ہامان دو الکھ چالیس ہزار کا لشکر لے کر میدان میں ُا ترا جب کہ مجاہدین کی تعداد‬
‫چالیس ہزار تھی۔ مسلمان نہایت َج م کر لڑے اور فتح نصیب ہوئی۔ اس جنگ میں ایک‬
‫الکھ تیس ہزار رومی مارے گئے۔‬

‫دمشق کی جنگ‬
‫حضرت خالؓد کی قیادت میں مسلمانوں نے دمشق کو فتح کر لیا اور مدینہ میں خلیفۃ‬
‫الرسول حضرت ابو بکر صدیؓق کی وفات کے بعد امیر المومنین حضرت عمر فاروؓق ان‬
‫کی جگہ خلیفہ مقرر ہوئے۔ دمشق کی جنگ کے دوران ہی حضرت عمؓر نے ایک مکتوب‬
‫حضرت ابو عبیدؓہ کو لکھا جس میں حضرت خالؓد کی کمانڈر انچیف کی حیثیت سے‬
‫معزولی کے احکامات تھے اور حکم دیا گیا کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراؓح مسلمانوں‬
‫کے نئے کمانڈر ہوں گے۔ امیر المومنین حضرت عمؓر کے حکم کی تعمیل کی گئی اور آؓپ‬
‫کو معزول کر کے عام سپاہی بنایا جا رہا تھا تو آؓپ اس حکم کو سر آنکھوں پر تسلیم‬
‫کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اگر میں عمؓر کے لیے لڑتا تھا تو اب نہیں لڑوں گا لیکن اگر میں‬
‫اللہ رّب العزت کے لیے لڑتا تھا تو اسی طرح ایک سپاہی کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ‬

‫داریاں سرانجام دیتا رہوں گا۔‘‘ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ خالؓد کی تلوار اسی طرح‬
‫چلتی رہی جس طرح ایک مجاہد اور اللہ کے سپاہی کی تلوار چلتی ہے۔ حضرت خالؓد‬
‫کی معزولی کا مسلمانوں کو شدید دکھ تھا لیکن حضرت عمؓر کے پیش نظر ایک‬
‫حکمت تھی کہ لوگوں کو شاید یہ خیال ہونے لگا تھا کہ مسلمانوں کو فتح خالؓد کی‬
‫وجہ سے ہوتی ہے اور ان کا اللہ پر توکل اور یقین کمزور پڑ رہا ہے اس لیے انہوں نے یہ‬
‫قدم اٹھایا۔ سّی دنا عمؓر لوگوں کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ فتح بس اللہ کی مدد سے‬
‫ہوتی ہے۔ خالؓد کی شجاعت اور بہادری پر نہیں۔ اللہ ہر حال میں اپنے دین کی حفاظت‬
‫کرتا ہے چاہے حضرت خالؓد ہوں یا نہ ہوں۔ حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت‬
‫سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس بھی یہی فرماتے ہیں کہ کامیابی‬
‫یا ناکامی کے لیے کسی سیاست دان یا کسی سربراہ کو خدا نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ‬
‫صرف اللہ پاک پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ حضرت خالد بن ولیؓد کی طرح طالباِن مولٰی کو‬
‫ر ت ل م خم کرنا چاہئ حضرت عمؓر‬ ‫بھ الل تعال ٰی ک ہر ف صل پر دل وجان‬
‫بھی اللہ تعالٰی کے ہر فیصلے پر دل وجان سے سرِ تسلیم خم کرنا چاہئے۔ حضرت عمؓر‬
‫نے مسلمانوں کو اللہ پر توکل سکھانے کی خاطر کچھ عرصے کے لیے حضرت خالؓد کو‬
‫عہدے سے ہٹا دیا۔‬

‫وفات‬
‫‪21‬ہجری کی ایک غمناک رات تھی جب حمص شہر میں بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے دنیا‬
‫کے سب سے عظیم سپہ ساالر اور فاتح حسرت و یاس کی تصویر بنے کہہ رہے تھے‬
‫’’اللہ گواہ ہے کہ َم یں نے ایک سو سے زیادہ جنگوں میں شرکت کی۔ میرے جسم کا‬
‫کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں تیر کے نشان اور نیزے کے گھاؤ نہ ہوں مگر ہائے افسوس‬
‫کہ آج َم یں میداِن جنگ کی بجائے بستر پر مر رہا ہوں۔‘‘ حضرت خالؓد بن ولید کا انتقال‬
‫ہوا تو ُا ن کے ورثے میں ایک غالم‪ ،‬ایک گھوڑا اور ساماِن حرب کے سوا کچھ نہ تھا۔ راِہ‬
‫خدا میں شہادت کی طلب ہی ان کا مقصدِ حیات تھا۔ ان کی جان اللہ کی راہ میں‬
‫وقف تھی اور مال بھی اللہ تعالٰی کی راہ میں َص رف ہوا۔ انہوں نے اپنے مقصد کے‬
‫مقابلے میں اپنی زندگی کو کبھی عزیز نہیں رکھا۔ انکی شدید خواہش کے باوجود‬
‫انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ مطلب کوئی بھی اللہ کی تلوار کو نہ توڑ سکا۔ اسی‬
‫طرح طالبِ مولٰی کو جہاِد اکبر یعنی نفس کے خالف جہاد میں اتنا جری اور قوی ہونا‬
‫چاہیے کہ نفس‪ ،‬دنیا اور شیطان اسے توڑ نہ سکیں۔ جب حضرت عمؓر کو ان کی وفات‬
‫کی اطالع ملی تو بے حد غمگین ہوئے اور فرمایا‪’’ ':‬مسلمانوں کو ایسا نقصان پہنچا ہے‬
‫جس کی تالفی ناممکن ہے۔ حضرت خالؓد ایسے جرنیل تھے کہ اب شاید ہی کوئی ان‬
‫کی جگہ لے سکے وہ دشمن کے لیے مصیبت تھے۔‘‘‬

‫عالمہ محمؐد اقبال اور جناِب حضرت خالد‬


‫عالِم اسالم کے اس بہادر و ناقابِل شکست سپہ ساالر کو حضرِت عالمہ ڈاکٹر‬
‫محمؐد اقباؒل نے خراِج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا‪.:‬‬

‫قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن‪.‬‬

‫یا خالِؓد جانباز ہے یا حیدؓر کرار‪.‬‬

‫در مسلماں شاِن محبوبی نماند‪.‬‬

‫خالد و فاروق و ایوبی نماند‪.‬‬

‫خالد کے قبیلے‪ ،‬بنی مخزوم کا شجرہ نسب‬

‫مغیرہ‬

‫ابو امیہ‬ ‫فقیہ‬ ‫ولید (وفات‪)622 .‬‬ ‫ابو ربیعہ‬ ‫ہشام (وفات‪)598 .‬‬

‫محمد بن عبد اللہ‬ ‫ام سلمہ (وفات‪.‬‬ ‫الولید (وفات‪.‬‬ ‫عیاش (وفات‪.‬‬ ‫حارث (وفات‪.‬‬
‫مہاجر (دف‪633–630 .‬‬ ‫خالد (وفات ‪)642‬‬ ‫ہشام‬ ‫ابوجہل (وفات‪)624 .‬‬
‫(اسالمی پیغمبر)‬ ‫‪)680s‬‬ ‫‪)620s‬‬ ‫‪)636‬‬ ‫‪)639‬‬
‫عبد الرحمان (وفات‪.‬‬
‫مہاجر (وفات‪)657 .‬‬ ‫اسماعیل‬ ‫عبد للہ‬ ‫عبد الرحمان‬ ‫عکرمہ (وفات‪ 634 .‬یا ‪)636‬‬
‫‪)666‬‬

‫ہشام‬
‫خالد‬ ‫خالد(دف‪)669 .‬‬ ‫سالمہ‬
‫(دف‪)706–691 .‬‬

‫ایوب‬

‫کتابیات‬

‫ابتدائی ماخذ‬

‫ثانوی ماخذ‬

‫شبلی‪ ،‬ابو زید (‪ .]1933[ )2003‬اللہ کی تلوار (بزبان عربی)‪ .‬الہور‪ :‬دار االبالغ‪ ،‬الہور‪.‬‬

‫شبلی‪ ،‬ابو زید (‪ .]1933[ )1961‬خالد سیف اللہ حضرت خالد بن ولید زندگی اور‬
‫فتوحات (‪https://www.rekhta.org/ebooks/detail/khalid-saifullah-hazrat-e-k‬‬
‫‪( )halid-bin-waleed-ebooks?lang=ur‬بزبان عربی ‪ .)242‬ترجمہ بذریعہ شیخ محمد‬
‫احمد پانی پتی‪ .‬الہور‪ :‬مکتبہ میری الئبریری‪ ،‬الہور‪.‬‬
‫ہیکل‪ ،‬محمد حسین (‪ .)1990‬ابوبکر صدیق (بزبان عربی)‪ .‬دار المعارف‪.‬‬
‫‪.ISBN 977023074X‬‬
‫ہیکل‪ ،‬محمد حسین (‪ .)1986‬فاروق عمر (بزبان عربی)‪ .‬دار المعارف‪.ISBN 9770216194 .‬‬

‫انگریزی‬

‫اکرم‪ ،‬اے‪ .‬آئی‪ .)2007( .‬خالد بن ولید‪ ،‬اللہ کی تلوار (‪https://www.worldcat.org/ocl‬‬


‫‪( )c/896826522‬بزبان انگریزی)‪ .‬برمنگھم‪ISBN 978-0-9548665-2-5. .‬‬
‫)‪.OCLC  896826522 (https://www.worldcat.org/oclc/896826522‬‬
‫دائرۃ المعارف االسالمیہ‪( )https://www.worldcat.org/oclc/399624( .‬بزبان‬
‫انگریزی)‪ .H. A. R. Gibb, P. J. Bearman .‬الئیڈن‪ :‬بریل پبلشرز‪.2009–1960 .‬‬
‫صفحات‪ISBN 90-04-16121-X. OCLC 399624 (https://www.worldcat. .929 – 928 ‬‬
‫)‪. org/oclc/399624‬‬

‫حوالہ جات‬
‫‪ .1‬اکرم ‪ ،2007‬ص‪1 :‬۔‬

‫اخذ کردہ از «‪&oldid=5412879‬خالد_بن_ولید=‪»https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 10‬جون ‪2023‬ء کو ‪ 09:21‬بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 4.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like