You are on page 1of 12

‫عبد الملک بن مروان‬ ‫پانچویں اموی خلیفہ اور خالفت بنی امیہ کے حقیقی بانی‬

‫‪685‬ء میں عبد الملک مسند خالفت پر متمکن ہوا۔ اس کی پیدائش عثمان ابن عفان کے عہد خالف ‪26‬ھ کو ہوئی۔ تخت‬
‫نشینی کے وقت کی عمر ‪ 39‬سال تھی۔ مروان نے اپنی زندگی میں خالد بن یزید اور عمرو بن سعید کو ولی عہدی سے خارج‬
‫کرکے عبد الملک کے لیے بیعت حاصل کر لی تھی۔ مروان نے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف پوری توجہ دی۔ اس کی‬
‫پرورش مدینہ کے علمی ماحول میں ہوئی اور ارباب علم و فضل اور اہل کمال کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا۔ اسی وجہ‬
‫سے وہ اموی حکمرانوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا خلیفہ شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ عبد الملک انتہائی ناسازگار ماحول میں‬
‫تخت نشین ہوا لیکن وہ محض اپنے عزم و استقالل تدبر اور دوراندیشی کی بدولت مخالفین پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔‬
‫اس طر ح ایک مستحکم اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔‬
‫عبد الملک بن مروان‬

‫(عربی میں‪ :‬عبد الملك بن مروان)‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫معلومات شخصیت‬

‫سنہ ‪
 ]3[]2[]1[646‬‬ ‫پیدائش‬
‫مدینہ منورہ‪ ‬‬

‫‪ 4‬اکتوبر ‪ 59–58( 705‬سال)‪


 ‬‬ ‫وفات‬
‫دمشق‪ ‬‬

‫عاتکہ بنت یزید‪ ‬‬ ‫زوجہ‬

‫ولید بن عبدالملک‪  ،‬ہشام بن عبدالملک‪  ،‬یزید بن عبدالملک‪،‬‬ ‫اوالد‬


‫‪ ‬سلیمان بن عبدالملک‪  ،‬مسلمہ بن عبد الملک‪ ‬‬

‫مروان بن حکم‪ ‬‬ ‫والد‬

‫عائشہ بنت معاویہ بن المغیرہ‪ ‬‬ ‫والدہ‬

‫عبد العزیز بن مروان‪  ،‬محمد بن مروان‪  ،‬بشر بن مروان‪ ‬‬ ‫بہن‪/‬بھائی‬

‫خالفت امویہ‪ ‬‬ ‫خاندان‬

‫مناصب‬

‫خلیفہ سلطنت امویہ ‪ ‬‬


‫برسر عہدہ

‫‪ 12‬اپریل ‪ 4 –  685‬اکتوبر ‪ 705‬‬

‫ولید بن عبدالملک‪ ‬‬ ‫مروان بن حکم‪ ‬‬

‫عملی زندگی‬

‫سیاست دان‪  ،‬حاکم‪  ،‬خلیفہ‪ ‬‬ ‫پیشہ‬

‫عربی[‪ ]4‬‬ ‫پیشہ ورانہ زبان‬

‫درستی (‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%B9%D8%A8%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%84%DA%A9_%D8%A‬‬
‫‪ -‬ترمیم (‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php?titl‬‬ ‫‪)8%D9%86_%D9%85%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86&action=edit&section=0‬‬
‫‪e=%D8%B9%D8%A8%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%84%DA%A9_%D8%A8%D9%86_%D9%85%D8%B1%D9%88%D8%A7%‬‬
‫‪)D9%86&veaction=edit‬‬
‫‪ ‬‬

‫عبد الملک کی مشکالت‬


‫تخت نشین ہونے کے بعد عبد الملک کو مندرجہ ذیل مشکالت کا مقابلہ کرنا پڑا‬

‫عبد اللہ ابن زبیر کی خالفت‬


‫سانحہ کربال نے مسلمانوں میں ایک ہمہ گیر اضطراب پیدا کر دیا تھا۔ اہل حجاز نے مسلمانوں کے ان جذبات کی ترجمانی کی‬
‫اور امویوں کی خالفت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ عبداللہ ابن زبیر چونکہ چوٹی کے اکابرین میں شمار ہوتے تھے اور‬
‫لوگوں میں مقبول بھی تھی اس لیے جب آپ دعوہ خالفت لے کر اٹھے تو اہل مکہ اور مدینہ نے فورًا آپ کے ہاتھ پر بیعت کر‬
‫لی۔ مصعب ابن زبیر نے عراق‪ ،‬کوفہ‪ ،‬بصرہ‪ ،‬وغیرہ پر اپنا قبضہ جما لیا چنانچہ ان حاالت میں عبد اللہ ابن زبیر کی خالفت‬
‫امویوں کے لیے بہت بڑا چیلج تھی۔‬

‫خوارج‬
‫اگرچہ خوارج نے شروع شروع میں امویوں کے مقابلہ میں عبد اللہ ابن زبیر کا ساتھ دیا لیکن بعد میں ان کے ساتھ بھی نہ‬
‫چل سکے۔ عبد اللہ ابن زبیر نے ان کے خاتمہ کی کوششیں کیں لیکن ان کی وفات کے بعد خوارج پھر امویوں کے خالف‬
‫شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہو گئے۔‬

‫توابین‬
‫توابین کے رہمنا سلیمان بن صرو تھے۔ ان لوگوں قصاص حسین کو اپنا مقصد بنا کر ‪685‬ء میں باقاعدہ تنظیم کی شکل‬
‫اختیار کر لی۔ ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لیے یہ تحریک بھی اموی اقتدار کے لیے زبردست خطرہ تھی۔‬
‫مختار ثقفی نے سلیمان کی وفات کے بعد توابین کو اپنے ساتھ مال کر سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔‬

‫عوامی رد عمل‬
‫اموی خالفت شخصی بادشاہت کا رنگ اختیار کر چکی تھی۔ مسلمان چونکہ اسالمی تعلیمات کی روشنی میں اسے خالفت‬
‫راشدہ کی راہ سے ہٹا ہوا سمجھتے تھے اس لیے وہ دل سے اموی خالفت کے قیام پر خوش نہیں تھے۔ سانحہ کربال نے نفرت‬
‫کے ان جذبات کو مزید تقویت دی چنانچہ جابجا بغاوتیں اورشورشیں اس اجتماعی رد عمل کا مظہر تھیں‬

‫ترکوں اور بربروں کی شورش پسندی‬


‫ترکستان اور شمالی افریقہ کے ترک اور بربر چونکہ خود سر تھے اس لیے ان کی طرف سے بغاوتیں اور شورشوں کا خطرہ‬
‫بھی عبد الملک کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھا۔ یہ لوگ کسی بھی ایسے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جس‬
‫کواستعمال میں ال کر وہ اپنی خود مختارانہ حیثیت برقرار رکھ سکیں‬

‫بنو امیہ‬

‫خلفائے بنو امیہ‬


‫معاویہ بن ابو سفیان‪680-661 ،‬‬
‫یزید بن معاویہ‪683-680 ،‬‬
‫معاویہ بن یزید‪684-683 ،‬‬
‫مروان بن حکم‪685-684 ،‬‬
‫عبدالملک بن مروان‪705-685 ،‬‬
‫ولید بن عبدالملک‪715-705 ،‬‬
‫سلیمان بن عبدالملک‪717-715 ،‬‬
‫عمر بن عبدالعزیز‪720-717 ،‬‬
‫یزید بن عبدالملک‪724-720 ،‬‬
‫ہشام بن عبدالملک‪743-724 ،‬‬
‫ولید بن یزید‪744-743 ،‬‬
‫یزید بن ولید‪744 ،‬‬
‫ابراہیم بن ولید‪744 ،‬‬
‫مروان بن محمد‪750-744 ،‬‬

‫بیرونی حملہ‬
‫رومی اپنے سابقہ عالقوں کو واپس حاصل کرنے کی خاطر اکثر اسالمی سرحدات پر حملے کرتے رہتے تھے اس وقت چونکہ‬
‫ملک میں افراتفری کا عالم تھااس لیے رومی حملہ کا خطرہ بھی عبد الملک کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔‬

‫اقدامات‬

‫جنگ توابین‬
‫توابین نے ایک تحریک کی شکل میں منظم ہو کر کوفہ سے خالفت امویہ ‪ ‬کے خالف اپنی جدوجہد کا اعالن کر دیا۔ عبد اللہ‬
‫ابن زیاد عبد املک کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا۔ عین الورہ کے مقام پر توابین کے گروہ اور عبید اللہ کی افواج کے‬
‫درمیان جنگ ہوئی یہ سلسلہ تین روز تک جاری۔ ابن زیاد کے لشکر کو دباراہ ناکامی لیکن باآلخر تیسری بار کامیاب رہا۔‬
‫سلیمان بن صرو میدا میں شہید ہوا جو لوگ بچ گئے وہ کوفہ واپس چلے گئے۔‬

‫مختار ثقفی‬
‫مختار ثقفی‪ ،‬وہ لوگ جنہوں نے عبد الملک کے ابتدائی ایام میں سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھا کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں‬
‫میں لینے کی کوششیں کیں ان میں مختار ثقفی نہایت اہم ہے۔ اس شخص نے توابین کی کمان سنبھالی اور کوفہ پر قبضہ‬
‫کر لیا۔ جس کے بعد مختار نے چن چن کر ان لوگوں کو قتل کیا جو امام حسین کے قتل میں ملوث تھے۔ جن میں شمرو‬
‫الجوشن‪ ،‬عمرو ابن شعد اور سنان وغیرہ شامل تھے۔ ابن زیاد بھی دریائے زاب کے کنارے شکست کھا کر اپنی جان سے ہاتھ‬
‫دھو بیٹھا۔ امویوں سے فارغ ہونے کے بعد مختار عبد اللہ بن زبیر کی جانب متوجہ ہوئے۔ عبد اللہ بن زبیر نے مصعب بن زبیر‬
‫کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا اور کوفہ میں مصعب نے اس کو قتل کر دیا۔‬

‫کوفہ و عراق پر عبد الملک کا قبضہ‬


‫مختار ثقفی کے خالف جنگ سے مصعب کی قوت کمزور ہو گئی تو عبد الملک نے ‪637‬ء میں عراق پر حملہ کر دیا۔ مہلب بن‬
‫ابی صفرہ چونکہ فارس کے مہمات میں مشغول تھے اس لیے مصعب کو امداد نہ پہنچ سکی۔ دوسری طرف عراقیوں نے‬
‫اللچ میں آکر مصعب کا ساتھ چھوڑ دیا اور عبد الملک سے مل گئے۔ مصعب اور ابراہیم بن مالک االشتر بڑی پا مردی سے لڑتے‬
‫ہوئے شہید ہوئے۔ ان کا کٹا ہوا سر عبد الملک کو پیش کیا گیا تواس نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا۔‬

‫’’ اب قریش میں ایسے آدمی کہاں پیدا ہوں گے۔‘‘‬

‫محاصرہ مکہ‬
‫مصعب بن زبیر کی شکست عبد اللہ بن زبیر کے لیے ناقابل تالفی نقصان تھا۔ عراق پر عبد الملک کے قبضہ نے سیاسی‬
‫صورت حاالت یکسر بدل دی۔ اب زبیر کی مالی اور فوجی قوت کمزور ہو گئی۔ اب عبد الملک کے لیے سرزمین حجاز کو اپنے‬
‫تصرف میں ال کر عبد اللہ ابن زبیر کی قوت کو ختم کرنا آسان تھا۔ چنانچہ عبد الملک نے اپنے نامور سپہ ساالر حجاج بن‬
‫یوسف کو ‪693‬ء میں مکہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ حجاج نے محاصرہ کرکے سنگ باری شروع کر دی۔ یہ محاصرہ کئی‬
‫ماہ جاری رہا۔ اس حملہ کے دوران خانہ کعبہ بھی سنگ باری کا نشانہ بنا اور گر گیا یہاں تک کہ لوگ حجر اسود کے ٹکرے‬
‫اٹھا کر لے گئے۔ محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ باہر سے کسی قسم کی رسد اور امداد کا پہنچانا ناممکن تھا۔ سامان رسد کی‬
‫کمی۔ اشیاءے خور و نوش کی قلت‪ ،‬قمیتوں میں اضافہ عوام کے لیے قابل برداشت نہ رہا۔ اکثر لوگ ابن زبیر کا ساتھ چھوڑ‬
‫کرحجاج کے ہاں پناہ گزین ہو گئے۔ حتی کہ ان کے لڑکوں تک نے ساتھ چھوڑ دیا۔ مگر آپ کے پایہ استقالل میں سر مو فرق‬
‫نہ آیا۔ چنانچہ لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ آپ کی الش تین دن سولی پر لٹکی رہی۔ آپ کی وفات کے بعد مکہ پر‬
‫اموی اقتدار قائم ہو گیا۔‬

‫فتوحات‬

‫شمالی افریقہ کی فتوحات‬


‫یزید اول کے زمانہ میں ایک بربری سردار کسیلہ بن مکرم نے سرکشی اختیار کی اور افریقہ کے والی عقبہ کو قتل کرکے خود‬
‫شمالی افریقہ پر قابض ہو گیا۔ عبد الملک نے شمالی افریقہ کی ازسرنو تسخیر کے لیے ‪69‬ھ میں ایک آزمودہ کار جرنیل زہیر‬
‫بن قیس کو روانہ کیا۔ کسیلہ قروان چھوڑ کر حمص چال گیا۔ زبیر بھی اس کے تعاقب میں وہاں پہنچ گیا۔ ایک خونریز جنگ‬
‫کے بعد خود برقہ میں قیام پزیر ہوا اور فوج کو قروان کے اردگرد کے عالقوں کی فتح پر مامور کیا۔ اس دوران رومیوں نے‬
‫ایک زبردست لشکر کے ساتھ برقہ پر اچانک حملہ کر دیا۔ زہیر میدان جنگ میں مارا گیا اس کی موت کے بعد رومی سارے‬
‫عالقے پر قابض ہو گئے۔‬

‫عبد الملک نے عبد اللہ ابن زبیر کے خالفت مہمات سے فارغ ہو کر ‪694‬ء میں حسن بن نعمان کو ‪ 40‬ہزار فوج کے ساتھ‬
‫افریقہ روانہ کیا۔ شمالی افریقہ کے بربروں کو رمیوں کی تمام باج گزار ریاستوں کی حمایت حاصل تھی۔ حسان نے ان میں‬
‫سے قرطاحبنہ کی اہم ریاست پر قبضہ کرکے ان مراکز پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں سے رومی اسالمی سرحدات پر‬
‫حملے کرتے تھے۔ بعد ازاں حسان عالقہ جیل کی ملکہ وامیہ کی طرف متواجہ ہوا۔ بربریوں اور رومیوں میں عام تاثر یہ تھا‬
‫کہ ملکہ کی ساحران قوتوں کی وجہ سے اسے شکست دینا مشکل ہے۔ اس کے خالف پہلی جنگ میں مسلمانوں کو شکست‬
‫ہوئی۔ اس واقعہ سے شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کو ایک دھکا لگا۔ حسان برقہ میں قیام پزیر ہو کر پانچ‬
‫سال تک مرکز کی امداد اور کمک کا منتظر رہا۔ باالخر اس دوران ملکہ کے حامیوں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔ انہوں نے توڑ‬
‫پھوڑ کی پالیسی اختیار کی۔ آباد اور پر رونق شہر مسمار کر دیے۔ لہلہاتے ہوئے کھیت‪ ،‬سرسبز و شاداب وادیاں اور زرخیز‬
‫عالقے تباہ و برباد کر دیے گئے جس کی وجہ سے ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہو گئی۔ مفلوک الحال رعایا نے اسالمی‬
‫لشکر کو ان کا نجات دہدنہ قرار دے کر خوش آمدید کہا۔ ملکہ نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن شکست کھائی۔ ملکہ کی‬
‫شکست کے بعد تمام شمالی افریقہ پر اموی حکومت دوبارہ قائم ہو گئی ۔‬

‫ترکستان کی فتح‬
‫خارجیوں کے خالف کامیاب مہموں کے بعد مہلب نے ترکستان کا رخ کیا۔ امیر سبل کو شکست دینے کے بعد مہلب نے مزید‬
‫پیش قدمی کو جاری رکھا تاکہ ترکستان کی فتح مکمل کی جا سکے۔ بخارا کا بادشاہ مہلب کا مقابلہ کرنے کے لیے ‪ 40‬ہزار‬
‫فوج لے کر آیا۔ مہلب نے اپنے بیٹے حبیب کو اس کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان کئی ایک جنگیں لڑی‬
‫گئیں لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس دوران مہلب نے وفات پائی۔ عبد الملک نے یزید بن مہلب کو والئی خراسان مقرر‬
‫کرکے ترکستان کی فتح پر مامور کیا۔ یزید کے بھائی فضل نے بادغیس اور اردگرد کے بہت سے عالقوں کو فتح کر لیا اور‬
‫اس طرح ترکستان بھی اموی سلطنت کا جزو بنا۔‬

‫اہل روما کے خالف جنگیں‬


‫مسلمانوں کے باہمی اختالفات اور اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر قیصر روم نے اسالمی سرحدوں پر یلغار شروع کر دی‬
‫تھی۔ عبد الملک نے قیساریہ کے مقام پر رومیوں کو زبردست شکست دے کر ان کے کئی عالقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس‬
‫کے بعد کافی عرصہ تک رومی سر نہ اٹھا سکے۔‬

‫خوارج کا استیصال‬
‫خوارج کے قلع قمع کے لیے سب سے پہلی مہم مہلب ابن ابی صفرہ اور عبد العزیز بن عبد اللہ کی ماتحتی میں روانہ کی‬
‫گئی۔ شامی افواج کو شکست ہوئی اور عبد اللہ میدان جنگ میں کام آیا۔ اس پر عبد الملک خود میدان جنگ میں اترا۔‬
‫شامی افواج اہواز کے خوارج پر قابو پانے کے بعد بحرین کے خارجی سردار ابوفدیک کے خالف سرگرم عمل ہوئیں۔ اس کے‬
‫بعد ہرمز کے خوارج کو شکستیں دے کر ان کی قوت کا خاتمہ کیا گیا۔‬

‫سب سے خطرناک بغاوت حجاز میں شبیب خارجی کی تھی۔ جسے ایک بااثر بزرگ صالح تمیمی کی تائید بھی حاصل تھی‬
‫مروان بن محمد کے ساتھ شبیب کا پہلی بار مقابلہ ہوا تو وہ قلعہ بند ہو گیا۔ لیکن ایک دن اچانک حملہ کرکے شامی افواج‬
‫کوبھاگنے پر مجبور کر دیا۔ حجاج بن یوسف نے غضب آلودہ ہو کر تین مہمات یکے بعد دیگرے روانہ کیں جو ناکام ہوئیں۔‬
‫اس دوران اموی افواج کے سپہ ساالر محمد بن اشعث نے حج کے دونوں میں جنگ بند کر دی۔ حجاج نے ناراض ہو کر اسے‬
‫معزول کرکے عثمان بن قطن کو شامی فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔ عثمان نے جنگ کا دوبارہ آغاز کیا لیکن شکست کھا کر مارا‬
‫گیا۔ حجاج نے اب ایک دوسرا لشکر جرار عباب بن ورقا کی ماتحتی میں روانہ کیا لیکن شبیب نے کمال بہادری سے کام لے‬
‫کر صرف ایک ہزار جان نثاروں کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کو بھی شکست دی۔ حجاج تنگ آکر خود میدان جنگ میں اترا۔ ایک‬
‫خونریز جنگ کے بعد شبیب کو شکست ہوئی لیکن شبیب کرمان ہوتا ہوا ہواز نکل گیا۔ شامی افواج نے تعاقب کیا۔ خوارج نے‬
‫پامردی سے مقابلہ کیا لیکن ایک رات دریا عبور کرتے ہوئے شبیب ڈوب کر مر گیا۔ اس کی موت کے بعد خوارج کی قوت‬
‫مزاحمت دم توڑ گئی ۔‬

‫رتبیل کی بغاوت‬
‫حاکم سیستان رتبیل نے ملکی انتشار سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کر دی۔ پہلی مہم اس کے خالف عبد اللہ کی سرکردگی میں‬
‫روانہ کی گئی یہ عالقہ چونکہ پہاڑی تھا اس لیے رتبیل نے اسے نہ روکا۔ عبد اللہ غلط فہمی میں مسلسل آگے بڑھتا رہا‬
‫چنانچہ رتبیل نے اسے پہاڑی دروں کے درمیان گھیرے میں لے کر ہتھیار ڈالے پر مجبور کر دیا۔ عبد اللہ جنگ نہ کرنے کا وعدہ‬
‫کرکے واپس لوٹا۔ دوسری مہم بھی ناکام لوٹی۔ تنگ آکر حجاج نے تیسرا لشکر محمد بن اشعث کے ماتحت روانہ کیا۔ اس نے‬
‫تبیل کے نصف سے زیادہ عالقہ پر قبضہ کر لیا۔ کوفی فوج مسلسل جنگوں میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھک چکے تھے‬
‫اس لیے ابن اشعث نے تھوڑے عرصہ کے لیے جنگ ملتوی کر دی۔ حجاج نے اس پر ابن اشعث کی سرزنش کی اسے معزول‬
‫کرنے کی دھمکی دی۔ ابن زشعث نے اس رویہ کو توہین آمیز سمجھتے ہوئے بغاوت کر دی۔ جس کی وجہ سے رتبیل کے‬
‫خالف مہمات کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔‬

‫ابن اشعث کی بغاوت‬


‫ابن اشعث نے اعالن کیا کہ چونکہ اموی حکومت خالف شرع ہے اس لیے وہ خالفت راشدہ کی بحالی کے لیے ان کے خالف‬
‫لڑے گا۔ سپاہیوں نے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ابن اشعث نے بصرہ پر قبضہ کر لیا۔ حجاج کے جوابی حملہ کے بعد بصرہ‬
‫سے نکل کر کوفہ پر قابض ہو گیا۔ بصرہ سے بچے کچھے سپاہی بھی اس کے ساتھ کوفہ میں آملے۔ یہ بغاوت چونکہ‬
‫خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی تھی اس لیے عبد الملک نے خود مداخلت کی اور اشعث کو مندرجہ ذیل شرائط پیش‬
‫کیں‬

‫‪1‬۔ حجاج کی بجائے محمد بن مروان کو عراق کاگورنر مقرر کیا جائے گا‬

‫‪2‬۔ عراقی فوج کوشامی فوج کے برابر تنخواہ دی جائے گی‬

‫‪3‬۔ ابن اشعث نے یہ شرائط عراقیوں کے سامنے پیش کیں تو فوج نے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ جنگ‬
‫دوبارہ چھڑ گئی۔ ابن اشعث کوفہ سے شکست کھا کر بصرہ پہنچا لیکن وہاں بھی نہ ٹھہر سکا باالخر رتبیل کے ہاں پناہ‬
‫گزیں ہوا لیکن رتبیل نے بے وفائی کی اور اس کا سر کاٹ کر خلیفہ کو روانہ کر دیا اس طرح عراق اور سیستان میں امن و‬
‫امام قائم ہوا۔‬

‫عبد الملک کی اصالحات‬

‫عربی بطور دفتری زبان‬


‫ان اصالحات میں سب سے زیادہ اہم اور نمایاں عربی زبان کو بطور دفتری زبان کے اختیار کیا جانا تھا۔ اگرچہ حضرت عمر‬
‫فاروق کے زمانہ میں ایران‪ ،‬شام اور افریقہ کے بیشتر عالقے فتح کیے جا چکے تھے۔ لیکن دفتری نظام بعض انتظامی‬
‫دشواریوں کی وجہ سے عبد الملک کے زمانہ تک عالقائی زبانوں میں ہوتا تھا۔ قدیم ساسانی سلطنت کے اہم صوبوں ایران‬
‫اور عراق میں پہلوی زبان رائج تھی۔ شام میں شریانی زبان مستعمل تھی اور مصر میں قدیم مصری زبان یا یونانی دفتری‬
‫زبان تھی۔ ٰل ہذا ان تمام عالقوں میں دفتری نظام کے تمام شعبوں بالخصوص مالیہ‪ ،‬لگان داری اور مالی شعبوں میں مقامی‬
‫غیر مسلم باشندے چھائے ہوئے تھے۔ چونکہ یہ لوگ مقامی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اس لیے عربی عمال حکومت ان کا‬
‫خاطر خواہ محاسبہ نہ کر سکتے تھے۔ عبد الملک کے زمانہ میں اموی حکومت مستحکم تھی اور اصالحات ملکی کے لیے‬
‫حاالت بھی سازگار تھے۔ اس لیے اس نے نظم و نسق ملکی میں انقالبی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی سب سے پہلی‬
‫کڑی عربی زبان کابطور دفتری زبان کے نافذ کیا جانا تھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس تبدیلی کا حقیقی سہرا حجاج بن یوسف‬
‫کے سر ہے۔ ایک بار اس نے صالح بن عبد الرحمن ایرانی کلرک کو ایرانی اور عربی دونوں زبانوں میں لکھتے ہوئے دیکھا اور‬
‫اس کی سرپرستی شروع کر دی تاکہ وہ پوری دفتری زبان کا عربی میں ترجمہ کر دے۔ عجمیوں کو جب اس تجویز کا علم‬
‫ہوا تو انھوں نے صالح کو اس کام سے باز رکھنے کے لیے بھاری رقوم بطور رشوت پیش کیں لیکن وہ اپنی سازش میں‬
‫کامیاب نہ ہو سکے۔‬
‫عربی زبان اگرچہ ملکی اور سرکاری زبان قرار دی جاچکی تھی۔ لیکن اس کے رسم الخط میں ابھی کچھ خامیاں تھیں جو‬
‫زبان دانی میں رکاوٹ تھیں۔ مثًال عربی حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے جن کیوجہ سے مشابہ الفاظ کے پڑھنے میں دقت‬
‫ہوتی تھی۔ جیسے (ب‪ ،‬ت‪ ،‬ث‪ ،‬ج‪ ،‬ح‪ ،‬خ وغیرہ) اس کے عالوہ حروف پر اعراب یعنی زیر زبر اور پیش لگوائے تاکہ عربی زبان‬
‫کی تحصیل میں عجمیوں کو کوئی دقت پیش نہ آئے ۔‬

‫نئے سکوں کا اجرا‬

‫سونے کا دینار جو عبد الملک بن مروان(‪75‬ھ) کے دور میں ڈھالہ گیا‪ ،‬جس کا وزن ‪25‬۔‪ 4‬گرام ہے۔‬

‫عبد ا لملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ اسالمی سکوں کا اجرا ہے ابھی تک اسالمی مملکت کے تمام عالقوں میں رومی اور‬
‫فارسی سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں‬
‫کے توسط سے ہوتا تھا۔ خالفت راشدہ کے زمانہ میں ابھی فارسی درہم کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔‬
‫امیر معاویہ نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد‬
‫کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف‬
‫توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبد الملک نے خالص‬
‫اسالمی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے رومی دینار و فارسی درہم کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کیے جن پر‬
‫(قل ھو اللہ احد) کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے عالوہ ان سکوں پر تاریخ‬
‫اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ بازنطینی سلطنت نے اس انقالبی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبد الملک نے‬
‫اسالمی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے رسول اللہ کی شان میں‬
‫گستاخی ہو۔ عبد الملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اسی وجہ سے شہشاہ بازنطینی‬
‫سلطنت‪ ،‬جستینی دوم نے اعالن جنگ کر دیا‪ ،‬جس کے نتیجے میں جنگ سباستوپولیس ‪692‬ء میں لڑی گئی جس میں عبد‬
‫الملک بن مروان کے سوتیلے بھائی محمد بن مروان نے بازنطینی سپہ ساالر لئونتیوس کو شکست دے کر اس بحث کا خاتمہ‬
‫کر دیا‪-‬‬

‫‪695‬ء‪76 ،‬ھ میں دمشق میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ حجاج بن یوسف نے کوفہ میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔‬
‫سونے اور چاندی کے دینار میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی‬
‫رہیں۔ اسالمی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔‬
‫محکمہ برید کی توسیع‬
‫حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں محکمہ ڈاک قائم ہو چکا تھا۔ عبد الملک نے اس میں مزید اصالح اور توسیع کی۔ دار‬
‫الخالفہ دمشق سے گھوڑے ڈاک اور خطوط مملکت کے مختلف حصوں اور اطراف کی جانب لے کر روانہ ہوتے اور منزل‬
‫مقصود تک بحفاظت پہنچاتے۔ محکمہ برید کی اس تنظیم جدید سے ملک کے دور نزدیک عالقے ایک دوسرے سے منسلک ہو‬
‫گئے۔ اس کے عالوہ محکمہ برید خلیفہ وقت کو ملکی معامالت اور وقوع پزیر ہونے والے واقعات بھی باخبر رکھتا۔ گویا‬
‫جاسوسی کا کام بھی اس محکمہ کے سپرد تھا۔‬

‫خانہ کعبہ کی تعمیر نو‬


‫حضرت عبد اللہ بن زبیر کے زمانہ حکومت میں خانہ کعبہ کی تعمیر کی طرف توجہ دی گئی تھی۔ اور اس میں کچھ اضافے‬
‫بھی کیے گئے تھے عبد الملک نے خانہ کعبہ کی عمارت کو گرا کر ازسرنو قدیم نقشہ کے مطابق دوبارہ تعمیر کی۔ نیز خانہ‬
‫کعبہ پر ہر سال نیا غالف چڑھانے کی رسم کی ابتدا بھی کی۔ یہ ریشمی غالف ہر سال دمشق سے روانہ کیا جاتا تھا‬

‫دیگر تعمیرات‬
‫مسلم فن تعمیر کے نادر نمونے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامع دمشق اور قبتہ الضحرہ اس دور کی اہم تاریخی‬
‫یادگاریں ہیں۔ اس کے عالوہ جامع مصر اور کئی ایک دیگر مساجد کی توسیع اور مرمت بھی اسی دور میں کی گئی۔‬

‫شہروں کی آبادی‬
‫فوجہ نقطہ نظر سے کوفہ اور بصرہ کے درمیان عبد الملک نے واسطہ کا نیا شہر تعمیر کرایا جو بعد میں مشہور چھاونی اور‬
‫تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ عالوہ ازیں وہ شہر جو امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ مٹتے جا رہے تھے ان کی آبادی‬
‫کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی مثًال آذربائیجان اور اردبیل وغیرہ‬

‫رفاہ عامہ‬
‫عوامی بہبود اور خوشحالی کے لیے عمومی اور خصوصی اقدامات اختیار کیے گئے۔ ‪ 80‬ھ میں مکہ میں زبردست سیالب آیا‬
‫جس کی وجہ سے عوام کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ خانہ کعبہ کی دیواروں تک پانی بہ نکال۔ مکہ کے چاروں طرف‬
‫پہاڑیاں ہیں ٰل ہذا سیالب کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے عبد الملک نے وادی کے کنارے مستحکم بند تعمیر کروائے تاکہ اہل‬
‫شہر محفوظ مامون رہیں۔ اس کے عالوہ جابجا سڑکیں بنائیں اور پرانی سڑکوں کی مرمت کی گئی۔ تاکہ رسل و رسائل اور‬
‫نقل و حمل میں آسانیاں پیدا ہوں۔‬

‫اصالحات کے اثرات‬
‫ملکی وحدت کا تصور‬
‫مملکت اسالمیہ کے تمام عالقوں میں عربی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کی وجہ سے ملکی اور قومی وحدت کے تصور‬
‫کو فروغ حاصل ہوا چونکہ تمام ملک کی سرکاری زبان ایک تھی ٰل ہذا عوام میں یگانگت اور وحدت کے تصورات کا پیدا ہونا‬
‫الزمی تھا۔ اس سے ملکی استحکام میں اضافہ ہوا۔‬

‫نظم و نسق کی اصالح‬


‫عربی زبان کے سرکاری درجہ ملنے سے قبل چونکہ عالقائی زبانیں دفتری زبان شمار کی جاتی تھیں اس لیے مقامی لوگوں‬
‫کو دفاتر میں باالدستی حاصل تھی لیکن اب فوج کے عالوہ سول میں بھی عربی عنصر عجمیوں کے ساتھ ساتھ مختلف‬
‫انتظامی شعبوں میں داخل ہو کر حکومتی ذمہ داریوں کی تربیت پانے لگا۔ نیز غلط دفتری مالزمین کامحاسبہ بھی آسان ہو‬
‫گیا۔‬

‫عربی زبان و تہذیب کا فروغ‬


‫عربی زبان کی سرکاری حیثیت کے تعین کے بعد مقامی باشندوں نے عربی زبان کو سیکھنا شروع کر دیا حتی کہ شمالی‬
‫افریقہ کے لوگوں کی زبان بھی عربی ہو گئی فارسی زبان کی ترقی وقتی طور ر رک گئی۔ اس دور میں بڑے بڑے عجمی‬
‫عربی دان پیدا ہوئے۔ اس کے عالوہ قرآن قوافی اور قرآن فہمی کے لیے راہیں ہموار ہوئیں اور اشاعت اسالم میں بھی ترقی‬
‫ہوئی‬

‫ملکی معیشت میں استحکام‬


‫اسالمی سکہ کے رواج سے نہ صرف تجارت ہی کوفروغ حاصل ہوا بلکہ ملکی معیشت مستحکم ہوئی۔ اور خوشحالی میں‬
‫بھی قابل قدر اضافہ ہوا۔‬

‫عربی عجمی آویزش کا آغاز‬


‫ایرانی بڑے قوم پرست تھے۔ انھوں نے جب اپنی زبان و ادب اور تہذیب کو عربی زبان اور تمدن کے غلبہ کی بنا پر مٹتے‬
‫دیکھا تو ان کے اندر قومی شعور کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی حکومتی شعبوں میں بھی جب عربی عناصر ہر جگہ غالب آنے‬
‫لگے تو یہیں سے عرب و عجم کی باہمی آویزش کا آغاز ہوا۔ بنو ہاشم کی تحریک کو بھی اس وجہ سے ایرانیوں کی مکمل‬
‫ہمدردیاں حاصل تھیں۔ شاہنامہ فردوی فارسی ادب میں اس جذبہ کی شاندار مثال ہے۔‬

‫وفات‬
‫‪705‬ء میں مختصر سی عاللت کے بعد عبد الملک نے وفات پائی اور دمشق میں دفن ہوا۔ مدت خالفت تقریبًا ‪ 21‬برس ہے۔‬
‫اپنی زندگی میں اپنے دونوں لڑکوں ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کو یکے بعد دیگرے جانشین نامزد کر چکا تھا‬
‫چنانچہ وفات سے قبل ولید کو بالیا اور اسے ملکی معامالت اور حکومت کے بارے میں نصیحتیں کیں۔‬
‫سیرت و کردار‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=5048486‬عبد_الملک_بن_مروان=‪»title‬‬

‫آخری ترمیم ‪ 10‬دن قبل بدست ‪


2402:8100:2060:4AF0:0:0:F57D:CB39‬‬ ‫

You might also like