Professional Documents
Culture Documents
Abdul Maliq Bin Marwaan
Abdul Maliq Bin Marwaan
685ء میں عبد الملک مسند خالفت پر متمکن ہوا۔ اس کی پیدائش عثمان ابن عفان کے عہد خالف 26ھ کو ہوئی۔ تخت
نشینی کے وقت کی عمر 39سال تھی۔ مروان نے اپنی زندگی میں خالد بن یزید اور عمرو بن سعید کو ولی عہدی سے خارج
کرکے عبد الملک کے لیے بیعت حاصل کر لی تھی۔ مروان نے اس کی تعلیم و تربیت کی طرف پوری توجہ دی۔ اس کی
پرورش مدینہ کے علمی ماحول میں ہوئی اور ارباب علم و فضل اور اہل کمال کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا۔ اسی وجہ
سے وہ اموی حکمرانوں میں سب سے زیادہ پڑھا لکھا خلیفہ شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ عبد الملک انتہائی ناسازگار ماحول میں
تخت نشین ہوا لیکن وہ محض اپنے عزم و استقالل تدبر اور دوراندیشی کی بدولت مخالفین پر قابو پانے میں کامیاب ہوا۔
اس طر ح ایک مستحکم اموی حکومت کی بنیاد رکھی۔
عبد الملک بن مروان
معلومات شخصیت
سنہ
]3[]2[]1[646 پیدائش
مدینہ منورہ
مناصب
عملی زندگی
درستی (https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%B9%D8%A8%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%84%DA%A9_%D8%A
-ترمیم (https://ur.wikipedia.org/w/index.php?titl )8%D9%86_%D9%85%D8%B1%D9%88%D8%A7%D9%86&action=edit§ion=0
e=%D8%B9%D8%A8%D8%AF_%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%84%DA%A9_%D8%A8%D9%86_%D9%85%D8%B1%D9%88%D8%A7%
)D9%86&veaction=edit
خوارج
اگرچہ خوارج نے شروع شروع میں امویوں کے مقابلہ میں عبد اللہ ابن زبیر کا ساتھ دیا لیکن بعد میں ان کے ساتھ بھی نہ
چل سکے۔ عبد اللہ ابن زبیر نے ان کے خاتمہ کی کوششیں کیں لیکن ان کی وفات کے بعد خوارج پھر امویوں کے خالف
شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہو گئے۔
توابین
توابین کے رہمنا سلیمان بن صرو تھے۔ ان لوگوں قصاص حسین کو اپنا مقصد بنا کر 685ء میں باقاعدہ تنظیم کی شکل
اختیار کر لی۔ ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔ اس لیے یہ تحریک بھی اموی اقتدار کے لیے زبردست خطرہ تھی۔
مختار ثقفی نے سلیمان کی وفات کے بعد توابین کو اپنے ساتھ مال کر سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
عوامی رد عمل
اموی خالفت شخصی بادشاہت کا رنگ اختیار کر چکی تھی۔ مسلمان چونکہ اسالمی تعلیمات کی روشنی میں اسے خالفت
راشدہ کی راہ سے ہٹا ہوا سمجھتے تھے اس لیے وہ دل سے اموی خالفت کے قیام پر خوش نہیں تھے۔ سانحہ کربال نے نفرت
کے ان جذبات کو مزید تقویت دی چنانچہ جابجا بغاوتیں اورشورشیں اس اجتماعی رد عمل کا مظہر تھیں
بنو امیہ
بیرونی حملہ
رومی اپنے سابقہ عالقوں کو واپس حاصل کرنے کی خاطر اکثر اسالمی سرحدات پر حملے کرتے رہتے تھے اس وقت چونکہ
ملک میں افراتفری کا عالم تھااس لیے رومی حملہ کا خطرہ بھی عبد الملک کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔
اقدامات
جنگ توابین
توابین نے ایک تحریک کی شکل میں منظم ہو کر کوفہ سے خالفت امویہ کے خالف اپنی جدوجہد کا اعالن کر دیا۔ عبد اللہ
ابن زیاد عبد املک کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا۔ عین الورہ کے مقام پر توابین کے گروہ اور عبید اللہ کی افواج کے
درمیان جنگ ہوئی یہ سلسلہ تین روز تک جاری۔ ابن زیاد کے لشکر کو دباراہ ناکامی لیکن باآلخر تیسری بار کامیاب رہا۔
سلیمان بن صرو میدا میں شہید ہوا جو لوگ بچ گئے وہ کوفہ واپس چلے گئے۔
مختار ثقفی
مختار ثقفی ،وہ لوگ جنہوں نے عبد الملک کے ابتدائی ایام میں سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھا کر عنان حکومت اپنے ہاتھوں
میں لینے کی کوششیں کیں ان میں مختار ثقفی نہایت اہم ہے۔ اس شخص نے توابین کی کمان سنبھالی اور کوفہ پر قبضہ
کر لیا۔ جس کے بعد مختار نے چن چن کر ان لوگوں کو قتل کیا جو امام حسین کے قتل میں ملوث تھے۔ جن میں شمرو
الجوشن ،عمرو ابن شعد اور سنان وغیرہ شامل تھے۔ ابن زیاد بھی دریائے زاب کے کنارے شکست کھا کر اپنی جان سے ہاتھ
دھو بیٹھا۔ امویوں سے فارغ ہونے کے بعد مختار عبد اللہ بن زبیر کی جانب متوجہ ہوئے۔ عبد اللہ بن زبیر نے مصعب بن زبیر
کو اس کی سرکوبی کے لیے بھیجا اور کوفہ میں مصعب نے اس کو قتل کر دیا۔
محاصرہ مکہ
مصعب بن زبیر کی شکست عبد اللہ بن زبیر کے لیے ناقابل تالفی نقصان تھا۔ عراق پر عبد الملک کے قبضہ نے سیاسی
صورت حاالت یکسر بدل دی۔ اب زبیر کی مالی اور فوجی قوت کمزور ہو گئی۔ اب عبد الملک کے لیے سرزمین حجاز کو اپنے
تصرف میں ال کر عبد اللہ ابن زبیر کی قوت کو ختم کرنا آسان تھا۔ چنانچہ عبد الملک نے اپنے نامور سپہ ساالر حجاج بن
یوسف کو 693ء میں مکہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ حجاج نے محاصرہ کرکے سنگ باری شروع کر دی۔ یہ محاصرہ کئی
ماہ جاری رہا۔ اس حملہ کے دوران خانہ کعبہ بھی سنگ باری کا نشانہ بنا اور گر گیا یہاں تک کہ لوگ حجر اسود کے ٹکرے
اٹھا کر لے گئے۔ محاصرہ اس قدر شدید تھا کہ باہر سے کسی قسم کی رسد اور امداد کا پہنچانا ناممکن تھا۔ سامان رسد کی
کمی۔ اشیاءے خور و نوش کی قلت ،قمیتوں میں اضافہ عوام کے لیے قابل برداشت نہ رہا۔ اکثر لوگ ابن زبیر کا ساتھ چھوڑ
کرحجاج کے ہاں پناہ گزین ہو گئے۔ حتی کہ ان کے لڑکوں تک نے ساتھ چھوڑ دیا۔ مگر آپ کے پایہ استقالل میں سر مو فرق
نہ آیا۔ چنانچہ لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ آپ کی الش تین دن سولی پر لٹکی رہی۔ آپ کی وفات کے بعد مکہ پر
اموی اقتدار قائم ہو گیا۔
فتوحات
عبد الملک نے عبد اللہ ابن زبیر کے خالفت مہمات سے فارغ ہو کر 694ء میں حسن بن نعمان کو 40ہزار فوج کے ساتھ
افریقہ روانہ کیا۔ شمالی افریقہ کے بربروں کو رمیوں کی تمام باج گزار ریاستوں کی حمایت حاصل تھی۔ حسان نے ان میں
سے قرطاحبنہ کی اہم ریاست پر قبضہ کرکے ان مراکز پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں سے رومی اسالمی سرحدات پر
حملے کرتے تھے۔ بعد ازاں حسان عالقہ جیل کی ملکہ وامیہ کی طرف متواجہ ہوا۔ بربریوں اور رومیوں میں عام تاثر یہ تھا
کہ ملکہ کی ساحران قوتوں کی وجہ سے اسے شکست دینا مشکل ہے۔ اس کے خالف پہلی جنگ میں مسلمانوں کو شکست
ہوئی۔ اس واقعہ سے شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کو ایک دھکا لگا۔ حسان برقہ میں قیام پزیر ہو کر پانچ
سال تک مرکز کی امداد اور کمک کا منتظر رہا۔ باالخر اس دوران ملکہ کے حامیوں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔ انہوں نے توڑ
پھوڑ کی پالیسی اختیار کی۔ آباد اور پر رونق شہر مسمار کر دیے۔ لہلہاتے ہوئے کھیت ،سرسبز و شاداب وادیاں اور زرخیز
عالقے تباہ و برباد کر دیے گئے جس کی وجہ سے ملک میں قحط کی سی حالت پیدا ہو گئی۔ مفلوک الحال رعایا نے اسالمی
لشکر کو ان کا نجات دہدنہ قرار دے کر خوش آمدید کہا۔ ملکہ نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن شکست کھائی۔ ملکہ کی
شکست کے بعد تمام شمالی افریقہ پر اموی حکومت دوبارہ قائم ہو گئی ۔
ترکستان کی فتح
خارجیوں کے خالف کامیاب مہموں کے بعد مہلب نے ترکستان کا رخ کیا۔ امیر سبل کو شکست دینے کے بعد مہلب نے مزید
پیش قدمی کو جاری رکھا تاکہ ترکستان کی فتح مکمل کی جا سکے۔ بخارا کا بادشاہ مہلب کا مقابلہ کرنے کے لیے 40ہزار
فوج لے کر آیا۔ مہلب نے اپنے بیٹے حبیب کو اس کے مقابلہ کے لیے روانہ کیا۔ دونوں فوجوں کے درمیان کئی ایک جنگیں لڑی
گئیں لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ اس دوران مہلب نے وفات پائی۔ عبد الملک نے یزید بن مہلب کو والئی خراسان مقرر
کرکے ترکستان کی فتح پر مامور کیا۔ یزید کے بھائی فضل نے بادغیس اور اردگرد کے بہت سے عالقوں کو فتح کر لیا اور
اس طرح ترکستان بھی اموی سلطنت کا جزو بنا۔
خوارج کا استیصال
خوارج کے قلع قمع کے لیے سب سے پہلی مہم مہلب ابن ابی صفرہ اور عبد العزیز بن عبد اللہ کی ماتحتی میں روانہ کی
گئی۔ شامی افواج کو شکست ہوئی اور عبد اللہ میدان جنگ میں کام آیا۔ اس پر عبد الملک خود میدان جنگ میں اترا۔
شامی افواج اہواز کے خوارج پر قابو پانے کے بعد بحرین کے خارجی سردار ابوفدیک کے خالف سرگرم عمل ہوئیں۔ اس کے
بعد ہرمز کے خوارج کو شکستیں دے کر ان کی قوت کا خاتمہ کیا گیا۔
سب سے خطرناک بغاوت حجاز میں شبیب خارجی کی تھی۔ جسے ایک بااثر بزرگ صالح تمیمی کی تائید بھی حاصل تھی
مروان بن محمد کے ساتھ شبیب کا پہلی بار مقابلہ ہوا تو وہ قلعہ بند ہو گیا۔ لیکن ایک دن اچانک حملہ کرکے شامی افواج
کوبھاگنے پر مجبور کر دیا۔ حجاج بن یوسف نے غضب آلودہ ہو کر تین مہمات یکے بعد دیگرے روانہ کیں جو ناکام ہوئیں۔
اس دوران اموی افواج کے سپہ ساالر محمد بن اشعث نے حج کے دونوں میں جنگ بند کر دی۔ حجاج نے ناراض ہو کر اسے
معزول کرکے عثمان بن قطن کو شامی فوج کا کمانڈر مقرر کیا۔ عثمان نے جنگ کا دوبارہ آغاز کیا لیکن شکست کھا کر مارا
گیا۔ حجاج نے اب ایک دوسرا لشکر جرار عباب بن ورقا کی ماتحتی میں روانہ کیا لیکن شبیب نے کمال بہادری سے کام لے
کر صرف ایک ہزار جان نثاروں کے ساتھ اتنے بڑے لشکر کو بھی شکست دی۔ حجاج تنگ آکر خود میدان جنگ میں اترا۔ ایک
خونریز جنگ کے بعد شبیب کو شکست ہوئی لیکن شبیب کرمان ہوتا ہوا ہواز نکل گیا۔ شامی افواج نے تعاقب کیا۔ خوارج نے
پامردی سے مقابلہ کیا لیکن ایک رات دریا عبور کرتے ہوئے شبیب ڈوب کر مر گیا۔ اس کی موت کے بعد خوارج کی قوت
مزاحمت دم توڑ گئی ۔
رتبیل کی بغاوت
حاکم سیستان رتبیل نے ملکی انتشار سے فائدہ اٹھا کر بغاوت کر دی۔ پہلی مہم اس کے خالف عبد اللہ کی سرکردگی میں
روانہ کی گئی یہ عالقہ چونکہ پہاڑی تھا اس لیے رتبیل نے اسے نہ روکا۔ عبد اللہ غلط فہمی میں مسلسل آگے بڑھتا رہا
چنانچہ رتبیل نے اسے پہاڑی دروں کے درمیان گھیرے میں لے کر ہتھیار ڈالے پر مجبور کر دیا۔ عبد اللہ جنگ نہ کرنے کا وعدہ
کرکے واپس لوٹا۔ دوسری مہم بھی ناکام لوٹی۔ تنگ آکر حجاج نے تیسرا لشکر محمد بن اشعث کے ماتحت روانہ کیا۔ اس نے
تبیل کے نصف سے زیادہ عالقہ پر قبضہ کر لیا۔ کوفی فوج مسلسل جنگوں میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھک چکے تھے
اس لیے ابن اشعث نے تھوڑے عرصہ کے لیے جنگ ملتوی کر دی۔ حجاج نے اس پر ابن اشعث کی سرزنش کی اسے معزول
کرنے کی دھمکی دی۔ ابن زشعث نے اس رویہ کو توہین آمیز سمجھتے ہوئے بغاوت کر دی۔ جس کی وجہ سے رتبیل کے
خالف مہمات کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
1۔ حجاج کی بجائے محمد بن مروان کو عراق کاگورنر مقرر کیا جائے گا
3۔ ابن اشعث نے یہ شرائط عراقیوں کے سامنے پیش کیں تو فوج نے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ جنگ
دوبارہ چھڑ گئی۔ ابن اشعث کوفہ سے شکست کھا کر بصرہ پہنچا لیکن وہاں بھی نہ ٹھہر سکا باالخر رتبیل کے ہاں پناہ
گزیں ہوا لیکن رتبیل نے بے وفائی کی اور اس کا سر کاٹ کر خلیفہ کو روانہ کر دیا اس طرح عراق اور سیستان میں امن و
امام قائم ہوا۔
سونے کا دینار جو عبد الملک بن مروان(75ھ) کے دور میں ڈھالہ گیا ،جس کا وزن 25۔ 4گرام ہے۔
عبد ا لملک کا دوسرا قابل فخر کارنامہ اسالمی سکوں کا اجرا ہے ابھی تک اسالمی مملکت کے تمام عالقوں میں رومی اور
فارسی سکے رائج تھے۔ یہ سکے سونے اور چاندی سے بنائے جاتے تھے۔ اور تمام تجارتی اور سرکاری لین دین ان ہی سکوں
کے توسط سے ہوتا تھا۔ خالفت راشدہ کے زمانہ میں ابھی فارسی درہم کے نمونہ پر سکے بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
امیر معاویہ نے بھی اپنی عہد حکومت میں اپنے سکے جاری کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس ناتمام کوشش کے بعد
کسی بھی مسلمان حکمران سوائے حضرت عبداللہ ابن زبیر کے بھائی مصعب بن زبیر کے اس اہم قومی ضرورت کی طرف
توجہ نہ دی مگر مصعب کے جاری شدہ سکے معیاری نہ تھے اور انھیں قبول عام حاصل نہ ہو سکا۔ عبد الملک نے خالص
اسالمی سکوں کی ترویج کا آغاز کیا۔ اس نے رومی دینار و فارسی درہم کے مقابلہ میں نئے درہم اور دینار جاری کیے جن پر
(قل ھو اللہ احد) کی عبارت کندہ تھی۔ یہ سکے علی الترتیب چاندی اور سونے کے تھے۔ اس کے عالوہ ان سکوں پر تاریخ
اور ٹکسال کا نام بھی درج کیا جاتا تھا۔ شہشاہ بازنطینی سلطنت نے اس انقالبی تبدیلی پر دھمکی دی کہ اگر عبد الملک نے
اسالمی سکوں کا ڈھالنا بند نہ کیا تو وہ اپنے سکوں پر ایسے نازبیا کلمات درج کروائے گا جن سے رسول اللہ کی شان میں
گستاخی ہو۔ عبد الملک نے اس دھمکی کا کوئی اثر نہ لیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اسی وجہ سے شہشاہ بازنطینی
سلطنت ،جستینی دوم نے اعالن جنگ کر دیا ،جس کے نتیجے میں جنگ سباستوپولیس 692ء میں لڑی گئی جس میں عبد
الملک بن مروان کے سوتیلے بھائی محمد بن مروان نے بازنطینی سپہ ساالر لئونتیوس کو شکست دے کر اس بحث کا خاتمہ
کر دیا-
695ء76 ،ھ میں دمشق میں ٹکسال تعمیر کی گئی۔ حجاج بن یوسف نے کوفہ میں بھی ایسی ہی ایک ٹکسال قائم کی۔
سونے اور چاندی کے دینار میں بالعموم ایک اور دس کی نسبت تھی۔ اگرچہ اس نسبت میں بعض اوقات تبدیلیاں بھی ہوتی
رہیں۔ اسالمی سکے کی معیار قدرو قیمت اور خوبصورتی کی بدولت بہت جلد اقوام عالم نے ان کو قبول کر لیا۔
محکمہ برید کی توسیع
حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں محکمہ ڈاک قائم ہو چکا تھا۔ عبد الملک نے اس میں مزید اصالح اور توسیع کی۔ دار
الخالفہ دمشق سے گھوڑے ڈاک اور خطوط مملکت کے مختلف حصوں اور اطراف کی جانب لے کر روانہ ہوتے اور منزل
مقصود تک بحفاظت پہنچاتے۔ محکمہ برید کی اس تنظیم جدید سے ملک کے دور نزدیک عالقے ایک دوسرے سے منسلک ہو
گئے۔ اس کے عالوہ محکمہ برید خلیفہ وقت کو ملکی معامالت اور وقوع پزیر ہونے والے واقعات بھی باخبر رکھتا۔ گویا
جاسوسی کا کام بھی اس محکمہ کے سپرد تھا۔
دیگر تعمیرات
مسلم فن تعمیر کے نادر نمونے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامع دمشق اور قبتہ الضحرہ اس دور کی اہم تاریخی
یادگاریں ہیں۔ اس کے عالوہ جامع مصر اور کئی ایک دیگر مساجد کی توسیع اور مرمت بھی اسی دور میں کی گئی۔
شہروں کی آبادی
فوجہ نقطہ نظر سے کوفہ اور بصرہ کے درمیان عبد الملک نے واسطہ کا نیا شہر تعمیر کرایا جو بعد میں مشہور چھاونی اور
تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ عالوہ ازیں وہ شہر جو امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ مٹتے جا رہے تھے ان کی آبادی
کی طرف بھی خاص توجہ دی گئی مثًال آذربائیجان اور اردبیل وغیرہ
رفاہ عامہ
عوامی بہبود اور خوشحالی کے لیے عمومی اور خصوصی اقدامات اختیار کیے گئے۔ 80ھ میں مکہ میں زبردست سیالب آیا
جس کی وجہ سے عوام کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ خانہ کعبہ کی دیواروں تک پانی بہ نکال۔ مکہ کے چاروں طرف
پہاڑیاں ہیں ٰل ہذا سیالب کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے عبد الملک نے وادی کے کنارے مستحکم بند تعمیر کروائے تاکہ اہل
شہر محفوظ مامون رہیں۔ اس کے عالوہ جابجا سڑکیں بنائیں اور پرانی سڑکوں کی مرمت کی گئی۔ تاکہ رسل و رسائل اور
نقل و حمل میں آسانیاں پیدا ہوں۔
اصالحات کے اثرات
ملکی وحدت کا تصور
مملکت اسالمیہ کے تمام عالقوں میں عربی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کی وجہ سے ملکی اور قومی وحدت کے تصور
کو فروغ حاصل ہوا چونکہ تمام ملک کی سرکاری زبان ایک تھی ٰل ہذا عوام میں یگانگت اور وحدت کے تصورات کا پیدا ہونا
الزمی تھا۔ اس سے ملکی استحکام میں اضافہ ہوا۔
وفات
705ء میں مختصر سی عاللت کے بعد عبد الملک نے وفات پائی اور دمشق میں دفن ہوا۔ مدت خالفت تقریبًا 21برس ہے۔
اپنی زندگی میں اپنے دونوں لڑکوں ولید بن عبدالملک اور سلیمان بن عبدالملک کو یکے بعد دیگرے جانشین نامزد کر چکا تھا
چنانچہ وفات سے قبل ولید کو بالیا اور اسے ملکی معامالت اور حکومت کے بارے میں نصیحتیں کیں۔
سیرت و کردار