You are on page 1of 10

‫بنو امیہ کا نظام حکومت‬

‫اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔‬
‫مزید جانیں‬

‫اموی دور کا حکومتی اور انتظامی ڈھانچہ کچھ اس طرح سے تھا۔‬

‫مرکزی حکومت‬
‫درالخالفہ شام میں واقع ہونے کے سبب خلیفہ ملک شام میں رہائش پزیر رہتا اور وہیں پر مرکزی حکومت کے تمام ادارے‬
‫کام کیا کرتے تھے۔‬

‫خلیفہ‬
‫بنو امیہ کے زمانے میں خالفت اسالمیہ کو ملوکیت میں تبدیل کیا جا چکا تھا۔ خالفت جمہوری ہونے کی بجائے خاندانی‬
‫اور موروثی بن چکی تھی۔ ملک کا سب سے بڑا حاکم خلیفہ تھا جو خلفائے راشدین کی طرح اپنے آپ کو امیر المومنین‬
‫کہالتا تھا لیکن خلفائے راشدین اور خلفائے بنو امیہ میں بنیادی فرق یہ تھا کہ خلفاء راشدین عوامی مشورہ اور رائے سے‬
‫خلیفہ بناۓ جاتے تھے لیکن خلفائے بنو امیہ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورہ سے نہیں بلکہ اپنی طاقت اور قوت کے‬
‫بل بوتے پر بر سر اقتدار آتے تھے۔ ان کی حیثیت ایک مطلق العنان بادشاہ کی سی تھی۔ تمام عمال حکومت قاضی‪ ،‬جج‬
‫اور فوجی جرنیل خلیفہ کی طرف سے مقرر کیے جاتے اور وہ خلیفہ ہی کے سامنے جوابدہ تھے لیکن خود خلیفہ کسی‬
‫کے شامنے جوابدہ نہیں تھا۔ مجلس شورٰی کی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ اب خلیفہ کے مشیر اور مصاحبین‪ ،‬امرائے‬
‫دربار اور شاہی خاندان کے افراد تھے۔ عملی طور پر اگرچہ خالفت راشدہ کی بجائے ملوکیت کا آغاز ہو چکا تھا لیکن‬
‫نظری اعتبار سے منصب خالفت کو جمہوری رکھا گیا اور خلفاء کے لیے بیعت حاصل کرنا الزمی قرار دیا گیا اگرچہ یہ‬
‫بیعت اقتدار اور جبر ہی کا نتیجہ تھی اور اس میں دلی رضامندی کو دور دور کا بھی دخل نہ تھا۔‬
‫خلفائے بنو امیہ نے بظاہر وہ تمام رسوم برقرار رکھیں جن کا تعلق خلفائے راشدین سے تھا مثًال جمعہ کا خطبہ دیتے‬
‫نمازوں کی امامت کراتے اور اپنی دوسری مذہبی ذمہ داریاں بھی ادا کرتے لیکن ان کی اپنی زندگیاں قیصر و کسرٰی کے‬
‫نمونہ پر ڈھل چکی تھی۔ یہ خلفاء محلوں اور اونچے اونچے ایوانوں میں رہتے۔ عیش و عشرت کی محفلیں منعقد کرتے۔‬
‫اپنے دروازوں پر دربان اور حاجب رکھتے اور اپنے خالف اٹھائی جانے والی ہر آواز کو سختی سے دبا دیتے۔ ان خلفاء میں‬
‫عمر بن عبد العزیز واحد خلیفہ تھے جن کی شخصیت اور جن کا عہد حکومت خلفائے راشدین سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں‬
‫نے تمام ناجائز اور غصب شدہ جاگیریں اور امالک اپنے اصل مالکوں کو لوٹا کر اور دیگر اصالحات نافذ کرکے خالفت‬
‫راشدہ کی جمہوری روح بحال کرنے کی کوششیں کیں مگر ان کے بعد پھر وہی سا طرز عمل اختیار کر لیا گیا۔‬

‫بیت المال‬
‫خلفائے راشدین کے زمانہ میں بیت المال کو قومی خزانہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسی امانت تھی جسے خلیفہ اپنے من‬
‫مانے طریقے سے خرچ کرنے کا مجاز نہیں تھا۔ وہ اپنے گزارے کے لیے بیت المال سے صرف اتنی تنخواہ لینے کاحقدار تھا‬
‫جس سے ایک اوسط درجہ کے آدمی کا گزر اوقات ہو سکے۔‬

‫بنو امیہ کے دور میں بیت المال کو خزانہ شاہی سمجھتے ہوئے خلیفہ اور اس کے خاندان کی ذاتی ملکیت قرار دیا گیا۔‬
‫اس کی آمد و خرچ کے بارے میں وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ بیت المال کی آمدنی کا کثیر حصہ خلفاء اور اس‬
‫کے رشتہ داروں پر وظائف‪ ،‬انعامات اور جاگیروں اور امالک کی صورت میں صرف ہوتا۔ شاعروں اور گویوں کی‬
‫سرپرستی کی گئی اور ضرورت مند اور نادار لوگوں کے وظائف کی تعداد میں کمی کر دی گئی۔ اخراجات کے عالوہ بیت‬
‫المال کی آمدنی کے ضمن میں اب حالل و حرام کی تمیز اور تخصیص بھی ختم کر دی گئی۔ طرح طرح کے نئے ٹیکس‬
‫لگائے گئے جن کی شرعی اور عوامی بہبود کے نقطۂ نظر سے کوئی حیثیت نہ تھی۔ نو مسلموں سے جزیہ تک وصول کیا‬
‫جاتا تھا۔‬

‫دربار‬
‫خلفائے راشدین کی زندگی سادگی کا مجسمہ تھی۔ خلیفہ کی حیثیت سے تمام اہم امور ملکی کا فیصلہ مسجد نبوی کے‬
‫صحن میں بیٹھ کرکیا جاتا لیکن جب مسند اقتدار بنو امیہ کے ہاتھ میں آئی تو خالفت راشدہ کے زمانے کی سادگی اور‬
‫پاکیزگی ترک کر دی گئی۔ امیر معاویہ نے اپنے بیٹھنے کے لیے تخت کی سی ایک نشست گاہ بنوائی۔ امیر معاویہ کے بعد‬
‫اکثر و بیشتر خلفا نے سوائے عمر بن عبدالعزیز کے قیصر و کسرٰی کا سا طرز زندگی اختیار کر لیا اور اس طریقے کو‬
‫چھوڑ دیا جس پر نبی اکرم اور چاروں خلفائے راشدین چلتے رہے۔‬

‫شان و شوکت‪ ،‬خدام و حشم اور شاہانہ وقار دربار خالفت کا امتیازی وصف تھا۔ خلیفہ کی موجودگی میں کسی کو‬
‫بولنے کی جرءت اور اجازت نہ تھی۔ شاہی محالت کے دروازوں پر حاجب اور دربان مقرر تھے لوگ اب براہ راست ان کے‬
‫پاس اپنی فریاد اور درخواست لے کر نہ جا سکتے تھے۔ عوام اور خلفاء کے درمیان تعلق ٹوٹ چکا تھا اور جو روابط باقی‬
‫تھے وہ بھی حاجبوں اور دربانوں کے ذریعہ سے تھے۔ یہ سب روایات امیر معاویہ کے زمانہ میں قائم ہو چکی تھیں۔‬
‫خوارج کے قاتالنہ حملہ کے بعد خلیفہ کا حفاظتی دستہ بھی بنایا جا چکا تھا جسے الحرس کہتے تھے۔ امیر معاویہ کے‬
‫جانشیوں کے ہاتھوں دربار داری کے لوازمات میں مزید اضافے ہوئے۔ اور شاعر‪ ،‬مسخرے‪ ،‬گویے اور موسیقار دربار کی‬
‫زینت بنے مگر اموی دربار اور خلفائے بنو عباس کے دربار میں بنیادی فرق تھا۔ اموی دربار عربی روایات اور اقتدار کا‬
‫علمبردار تھا لیکن عباسیوں پر عجمیوں کے اثرات بے حد گہرے تھے۔‬

‫مرکزی شعبہ جات‬


‫مرکزی حکومت مندرجہ ذیل ذیلی شعبوں یا اداروں میں تقسیم کی گئی تھی۔‬

‫دیوان الجند‬
‫اس کی حیثیت ایک ملٹری بورڈ کی سی تھی جس کے ذمہ فوج کا انتظام تھا۔ اس کی ابتدا جناب حضرت عمر کے زمانہ‬
‫میں ہو چکی تھی۔ فوجیوں اور ملت اسالمیہ کے دیگر مستحق افراد میں وظائف دۓ جاتے۔ بنو امیہ نے اس میں تبدیلی‬
‫کر دی اور اپنے آدمیوں کو اس سے فائدہ پہنچانا شروع کر دیا اور مخالفین کے وظائف بھی منسوخ کرنے شروع کر دیے۔‬
‫غیر عرب سپاہیوں کے نام تو اس رجسٹر سے سرے سے غائب کر دیے گئے۔ پہلے یہ وظائف فوجی معاوضہ کے طور پر‬
‫دیے جاتے تھے۔ لیکن لوگ انھیں پینشن تصور کرنے لگے۔ ہشام نے اپنے عہد میں اس غلط مفروضے کا خاتمہ کیا اور وہ‬
‫تمام لوگ جو فوجی خدمات سر انجام نہیں دے رہے تھے ان کے نام اس رجسٹر سے خارج کر دیے گئے۔‬

‫دیوان الخراج‬
‫یہ حکومت کا محکمہ مالیات تھے۔ یہ زرخیز صوبوں کا خراج وصول کرتا تھا تمام مملکت کے مالیات اور حکومت کی‬
‫آمدنی اور خرچ کا حساب رکھنا اس محکمہ کے فرائض میں تھا‬

‫دیوان الرسائل‬
‫اس کی حیثیت سکرٹریٹ کی سی تھی۔ ہر قسم کی کتابت‪ ،‬فرمان شاہی جاری کرنا اور اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھنا اس‬
‫محکمہ کی ذمہ داری تھی۔ اس کے عالوہ ملک کے تمام محکموں میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کرنا بھی اسی محکمہ کا‬
‫کام تھا‬

‫دیوان البرید‬
‫دیوان البرید یا محکمہ ڈاک کا آغاز بھی امیر معاویہ نے کیا۔ ابتدا میں اس محکمہ کا کام سرکاری ڈاک وغیرہ لے کر ملک‬
‫کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک پہنچانا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ محکمہ عوامی حیثیت اختیار کر گیا۔ ملک کے‬
‫طول وعرض میں ڈاک چوکیاں قائم کی گئیں۔ جہاں برق رفتار گھوڑے ہر وقت موجود رہتے جو ایک چوکی کی ڈاک‬
‫دوسری چوکی تک پہنچاتے۔ عبد الملک نے اپنے زمانے میں اس میں مزید ترقی دی۔ اس محکمہ کے ذریعہ سراغ رسانی کا‬
‫کام بھی تھا۔ ملک کے طول و عرض میں ہونے والے واقعات اور اہم خبریں اس محکمہ کے ذریعہ خلیفہ تک پہنچائی‬
‫جاتیں۔‬
‫دیوان الخاتم‬
‫دیوان الخاتم کی ابتدا بھی امیرمعاویہ کے زمانہ ہی سے ہوئی۔ ایک بار امیر معاویہ نے عمر بن زبیر کو زیاد بن ابی سفیان‬
‫کے نام ایک فرمان میں عراق کے عالقہ سے ایک الکھ درہم وصول کرنے کا اختیار دیا۔ عمر بن زبیر نے اس رقم کو ایک‬
‫الکھ کی بجائے دو لکاھ میں تبدیل کرکے خزانہ سے فاضل رقم حاصل کر لی۔ بعد میں جب پڑتال کے دوران اس جعلسازی‬
‫کا انکشاف ہوا تو امیر معاویہ نے جعلسازی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے دیوان الخاتم قائم کیا جو فرمان شاہی جاری‬
‫ہوتا۔ اس کی دستخط شدہ نقل اسی محکمہ کے پاس بطور ریکارڈ رہتی اور دار الخالفہ سے باہر جانے والے فرامین کو‬
‫سربمہر کرکے روانہ کیا جاتا اور اس کی کاپی اس محکمہ کے ریکارڈ میں محفوظ رکھی جاتی۔ عبد الملک بن مروان نے‬
‫اس میں مزید ترقی دی۔‬

‫دیوان االحداث‬
‫محکمہ پولیس یا دیوان االحداث کی ابتدا اگرچہ خالفت راشدہ کے زمانہ میں ہو چکی تھی لیکن اموی دور میں اس کی‬
‫تنظیم کی گئی۔ ملک میں اکثر شورشیں برپا ہوتی رہتی تھیں اس لیے امن و امان کے قیام کی ذمہ داری اسی محکمہ کے‬
‫سپرد تھی۔ صرف کوفہ میں زیاد بن ابی سفیان کے پاس پولیس کے چالیس ہزار سپاہی تھے۔ امن و امان کے عالوہ لوگوں‬
‫کے مال اور امالک کی حفاظت بھی اسی محکمہ کے ذمہ تھی افراد اعلٰی کو صاحب االحداث کہا جاتا تھا۔‬

‫صوبائی حکومت‬
‫اموی سلطنت مندرجہ ذیل چھ بڑے صوبوں پر مشتمل تھی۔ ان صوبوں کو اقالیم عرب کہا جاتا تھا۔‬

‫پہال صوبہ شام براہ راست مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور اس کے لیے الگ گورنر مقرر نہیں کیا جاتا تھا۔ حجاز‬
‫کے صوبے میں یمن اور نجد کے عالقے بھی شامل تھے‬

‫عراق کا صوبہ عراق عرب‪ ،‬عراق عجم‪ ،‬عمان‪ ،‬بحرین‪ ،‬امان‪ ،‬سیستان‪ ،‬کابل‪ ،‬خراسان‪ ،‬ماورالنہر اور سندھ کے عالقوں پر‬
‫مشتمل تھا۔ صوبہ عراق کے والی کی حیثیت بہت اہم تھی۔ اسے عمومًا خلیفہ کا نائب سمجھا جاتا تھا۔ بعض اوقات اس‬
‫صوبہ کے مختلف حصوں کو الگ والیت قرار دے کر عراق کے والی کے تحت نائب گورنروں کے سپرد کر دیا گیا‬

‫آرمینیہ کا صوبہ خود آرمینیہ‪ ،‬آزربائجان‪ ،‬جزیرہ اور اشیائے کوچک کے عالقوں پر مشتمل تھا‬

‫افریقہ کے صوبے میں شمالی افریقہ‪ ،‬سپین‪ ،‬جنوبی فرانس اور جزائر بحیرہ روم شامل تھے۔ افریقہ کے والی کی حیثیت‬
‫بھی عراق کے گورنر کی طرح بہت اہم شمار کی جاتی تھی‬

‫مصر کے صوبے میں زیریں اور باالئی مصر دونوں حصے شامل تھے۔‬

‫ان تمام صوبوں کے انتظامی حدود بعض اوقات تبدیل ہوتی تھیں۔ جہاں تک اختیارات کا تعلق ہے صوبائی حکومتیں‬
‫داخلی معامالت میں کافی حد تک خود مختار تھیں۔‬

‫صوبائی حکام‬
‫صوبائی نظم و نسق کی مشینری مندرجہ ذیل حکام پر مبنی تھی‬

‫والی یا امیر‬
‫صوبائی حکام میں سب سے اہم گورنر تھا جسے والی یا امیر کہتے تھے۔ اسے خود خلیفہ مقرر کرتا اور خلیفہ کے ماتحت‬
‫کے حیثیت سے تقریبًا وہی فرائض سر انجام دینے پڑتے جو مرکز میں خود خلیفہ کے ذمہ تھے۔ اپنے ماتحت افسر چننے‬
‫میں اسے پوری آزادی حاصل تھی۔ یہ بیک وقت صوبے کا انتظامی اور فوجی سربراہ تصور کیا جاتا تھا۔ ان کے اختیارات‬
‫بے پایاں تھے۔ حجاج بن یوسف اور زیاد کی شخصیتیں المحدود اختیارات کی حامل تھیں۔ صوبائی معامالت میں انہیں‬
‫بہت زیادہ آزادی حاصل تھی اس کی ایک وجہ ذرائع نقل و حمل میں دشواری تھی کیونکہ عراق اور افریقہ وغیرہ جیسے‬
‫اہم صوبوں کے لیے بار بار قصر خالفت سے اجازت اور منظوری لینا ناممکن العمل تھا ٰل ہذا خلیفہ کی ماتحتی میں والی‬
‫صوبہ حاالت کے مطابق بڑے بڑے اقدامات اٹھاتے اور انھیں اپنے خلفاء کی پوری سرپرستی حاصل ہوتی۔ بغاوتوں اور‬
‫شورشوں کا خاتمہ‪ ،‬امن و امان کا قیام‪ ،‬محاصل کا جمع کیا جانا۔ سڑکوں‪ ،‬نہروں اور پلوں وغیرہ کی تعمیرات کا فریضہ‬
‫ان کے ذمے تھا۔‬

‫عامل‬
‫اس کے عالوہ دوسرے عہدے داروں میں والی کے بعد سب سے اہم شخصیت عامل کی تھی یہ صوبائی مالی امور اور‬
‫بیت المال کا انچارج ہوتا۔ چونکہ اپنے شعبہ میں اسے مکمل اختیارات حاصل تھے اس لیے بعض اوقات والی بھی اس کا‬
‫محتاج ہوتا یہ براہ راست خلیفہ کے سامنے جوابدہ ہوتا اور تمام حساب کتاب خلیفہ کے سامنے پیش کرتا‬

‫صاحب الخراج‬
‫شروع میں صرف مالیہ زمین کی وصولی اور نگرانی اس کے ذمہ تھی۔ جب بعد کے ادوار میں عامل اور صاحب الخراج‬
‫دونوں عہدوں کو مال کر ایک کر دیا گیا تو صاحب الخراج کی حیثیت مالی شعبہ میں بہت بڑھ گئی اور تمام امور کا‬
‫انچارج قرار دیا گیا‬

‫کاتب‬
‫ہر صوبائی دیوان (محکمہ) کا افسر اعلٰی کاتب کہالتا۔ اس کی حیثیت موجودہ زمانہ کے سیکرٹری کی سی تھی۔ اس کا‬
‫تقرر صوبائی گورنر خود کرتا‬

‫صاحب البرید‬
‫صوبائی محکمہ ڈاک کا بڑا افسر صاحب البرید کہالتا۔ خط و کتاب کی ترسیل کے انتظامات کے عالوہ خلیفہ کو خفیہ‬
‫طور پر تمام ملکی حاالت اور اہم واقعات سے باخبر رکھنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا‬
‫صاحب الشرطہ‬
‫ملک کے اہم حصوں میں جہاں جہاں پولیس فورس قائم تھی اس کے افسر اعلٰی کو صاحب الشرط کہتے تھے۔ ان کافرض‬
‫ملک کے اندر امن و امان کا قیام تھا۔ صرف کوفہ میں زیاد بن ابی سفیان کے ماتحت چالیس ہزار ملٹری پولیس قیام امن‬
‫کے لیے موجود تھی جو مشکوک لوگوں کی کڑی نگرانی کرتی اور بے امنی کو سختی سے کچل دیتی۔‬

‫قاضی‬
‫لوگوں کی داد رسی اورعدل و انصاف کے قیام کے لیے تمام صوبائی اضالع میں قاضی مقرر کیے جاتے تھے۔‬

‫مرکز کی طرح صوبوں میں بھی دیوان الجند‪ ،‬دیوان الرسائل‪ ،‬دیوان المستغالت (مالی امور ) جہاں آمد و خرچ کا حساب‬
‫رکھا جاتا تھا‪ ،‬دیوان البرید اور دیوان االحدث قائم تھے۔ ان کے اختیارات اور فرائض تقریبًا وہی تھے جو ان مرکزی‬
‫محکموں کے تھے۔‬

‫ذرائع آمدنی‬
‫بنو امیہ کی حکومت کے ذرائع آمدنی تقریبًا وہی تھے جو اس سے پہلے عہد رسالت اور خلفائے راشدین میں تھے۔ پہلے‬
‫ذرائع آمدنی تو بدستور قائم رہے لیکن اس کے عالوہ اس دور میں کچھ ایسے ذرائع بھی اختیار کیے گئے جو اسالمی‬
‫نقطہ نظر سے درست نہ تھے‬

‫زکواۃ‬
‫ہر مسلمان کے لیے مذہبی طور پر فرض تھا کہ اپنے مال اور امالک پر ‪.‬ڈھائی فیصد کے حساب سے زکواۃ ادا کرے۔ تاکہ‬
‫اسے مستحق لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔ زکواۃ کی وصولی اسالمی حکومت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اسالمی قانون‬
‫اور مالی امور میں زکواۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‬

‫خراج‬
‫مفتوحہ عالقوں کی زمین پر جو مالیہ وصول کیا جاتا اسے خراج کہتے تھے۔ خراج کی شرح میں یکسانی نہ تھی بلکہ‬
‫مفتوحہ عالقے سے اسی شرح سے خراج وصول کیا جاتا تھا جو فتح کے وقت معاہدہ میں طے کی جاتی تھیں۔ اس کے‬
‫عالوہ مالیہ بھی وصول کیا جاتا تھااس کی شرح مختلف زمانوں میں مختلف تھی اور ہر خلیفہ حسب منشا اس میں کمی‬
‫و بیشی کر سکتا تھا۔‬

‫جزیہ‬
‫فوجی امداد کے عوضانہ کے طور پر غیر مسلموں سے معمولی قسم کا ٹیکس وصول کیاجاتا تھا۔ اس میں بھی عورتوں‪،‬‬
‫بوڑھوں‪ ،‬بچوں اور ناداروں‪ ،‬غریبوں اور بعض مذہبی حلقوں کے لیے معاف تھی۔ حجاج کے زمانہ میں موالیوں یعنی نو‬
‫مسلموں سے خزانہ کی کمی کو دور کرنے کے لیے بدستور جزیہ وصول کیا جاتا رہا جسے انھوں نے پسند نہ کیا اور اس‬
‫کے خالف بطور رد عمل کئی ایک بغاوتیں کیں‬

‫اس کے عالوہ کسٹم ڈیوٹی بھی موجود تھی جو غیر ممالک درآمد شدہ مال پر لگائی جاتی تھی۔ خمس مال غنیمت کا‬
‫پانچواں حصہ تھا جو سرکاری خزانے میں داخل کیا جاتا تھا۔ اور خلیفہ کی ذاتی جاگیر کی آمدنی بھی براہ راست بیت‬
‫المل میں جمع کی جاتی تھی۔‬

‫فوجی نظام‬
‫بنو امیہ کی عظمت اور طاقت کا سرچشمہ ان کی فوج تھی۔ ان کی کامیابیوں اور عظیم الشان فتوحات کا سبب ان کی‬
‫زبردست فوجی قوت تھی۔ زمانہ جاہلیت میں بھی قریش کی طرف سے فوجی تنظیم کے ذمہ دار بنو امیہ والے ہی تھے۔‬
‫سپہ ساالر عمومًا ان ہی میں سے ہوا کرتا تھا چنانچہ فوجی امور میں بنو امیہ کو خاصی مہارت حاصل تھی۔ خلفائے‬
‫راشدین کے بعد امیر معاویہ نے خالفت بزور شمشیر حاصل کی اور جب تک ان کی فوج تنظیم میں کوئی صعف اور‬
‫کمزوری پیدا نہ ہوئی حکومت ان کے ہاتھ رہی۔ بنو امیہ نے اپنے عہد میں عظیم الشان کارنامے اور فتوحات سر انجام‬
‫دیں۔ یہ تمام کامرانیاں ان کی اعلٰی فوجی تنظیم کی بدولت تھیں۔‬

‫تنظیم‬
‫اقتدار حاصل کرنے کے بعد بنو امیہ نے فوجی نظام میں کئی تبدیلیاں کیں۔ بازنطینی حکومتوں کے ساتھ معرکہ آرائیوں‬
‫کے دوران ان کے جنگی قواعد اور حربی تنظیم کا اچھی طرح مشاہدہ کر کیا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی فوج تنظیم کو ان‬
‫تجربات کی روشنی میں منظم کیا۔ پیش قدمی کے دوران جب فوجیں قیام کرتیں تو ان کے کیمپ بازنطینی طریقے کے‬
‫مطابق ترتیب دیے جاتے۔ ان کی حفاظت کے لیے اردگرد خندقیں وغیرہ کھودی جاتیں۔ گرمائی اور سرمائی فوج الگ الگ‬
‫ہوتی تھی۔ لڑائی کے وقت فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاتا جو مرکز (قلب) دائیں بازو (میمنا) بائیں بازو (میسرہ)‬
‫ہراول دستے (مقدمہ) اور حفاظتی دستے اور عقب پر مشتمل ہوتا۔ میدان جنگ میں فوجوں کی صف بندی کی جاتی اور‬
‫دو دو یا ایک ایک الئن میں دشمن کے خالف پیش قدمی کی جاتی۔ آخری خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ میں صف بندی کے‬
‫اس قدیم طریقہ کی بجائے فوج کو چھوٹے دستوں میں تقسیم کرکے نئے طریقے کی ابتدا کی گئی۔ فوجی تنظیم اور‬
‫مراتب میں اعشاری نظام قائم تھا۔ اس نظام کے مطابق دس سپاہیوں پر ایک افسر مقرر تھا۔ جسے عارف یا امیر العشرہ‬
‫کہتے تھے۔ دس عارف ( یا سو سپاہی) ایک نائب کے ماتحت ہوتے تھے اور دس نائبوں پر ایک قائد ہوتا تھا۔ ایک ایک امیر‬
‫کے ماتحت دس قائد یعنی دس ہزار سپاہی ہوتے تھے۔ اس کے بعد سب سے بڑا افسر ساالر کہالتا تھا جس کے تحت بہت‬
‫سے امیر ہوا کرتے تھے۔ ان فوجی عہدیداروں کے عالوہ فوج کے عالوہ فوج میں دیگر افسر بھی تھے۔ مثًال قاضی‪،‬‬
‫ترجمان‪ ،‬خزانچی‪ ،‬پرچہ نویس وغیرہ۔ صوبائی فوج گورنر کے ماتحت تھی۔ صوبائی فوج کی تنظیم کے لیے مرکز سے الگ‬
‫ہر صوبہ میں دیوان الجند کا محکمہ باقاعدہ قائم تھا جس کے ذمہ فوج کی تنظیم تھی۔‬

‫جہاں تک فوج کی بھرتی کا تعلق تھا اس میں عرب اور غیر عرب سب شامل تھے۔ شامیوں عراقیوں اور بربریوں کی کثیر‬
‫تعداد اموی فوج کا جزو تھی۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں بھرتی کی رفتار تیز تر کر دی گئی تھی اور تقریبًا ایک الکھ اسی‬
‫ہزار مستقل فوج موجود تھی جس میں سے ساٹھ ہزار سپاہی مستقل فوج سے تعلق رکھتے تھے جن میں شامیوں کی‬
‫اکثریت تھی۔ دار الخالفہ دمشق میں مرکزی فوج ہروقت موجود رہتی تھی۔ مرکز میں ایک الگ محکمہ فوج (دیوان‬
‫الجند) قائم تھا جو براہ راست خلیفہ کی نگرانی میں کام کرتا تھا۔ اموی فوج میں عربی عنصر کو بنیادی حیثیت حاصل‬
‫تھی اور وہی تمام بڑے بڑے عہدوں پرفائز تھے۔ فوجیوں کو بیت المال سے وظائف اور خاص تنخواہیں بھی دی جاتی‬
‫تھیں۔ امیر معاویہ کے زمانہ میں ایک سپاہی کی تنخواہ ایک ہزار درہم ساالنہ تھی۔ ولید ثانی کے زمانے میں اس شرح میں‬
‫معمولی سا اضافہ کیا گیا لیکن مالی مشکالت کی بنا پر یزید ثالث کے زمانہ میں اس میں کچھ کمی کر دی گئی۔ یہ بات‬
‫قابل ذکر ہے کہ مروان ثانی کے زمانہ میں بنو امیہ کا دور انحطاط شمار کیا جاتا ہے۔ اموی مستقل فوج کی تعداد تقریبًا‬
‫ایک الکھ بیس ہزار تھی۔ اس غیر اور مستقل فوج کے عالوہ بنو امیہ کی سپاہ میں رضاکار بھی شامل تھے۔ اگرچہ انھیں‬
‫تنخواہ تو نہ دی جاتی لیکن مال غنیمت میں انھیں حصہ دیا جاتا۔ ڈاکٹر حسینی کے بقول یہ رضاکار بالعموم اپن ساتھ‬
‫اسلحہ اور وردی التے اور جنگ کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے۔ بعض اوقات عورتیں بھی فوج کے ساتھ شامل‬
‫ہوتیں تاکہ وہ زخمی فوجیوں کی خدمت کر سکیں۔ کئی مواقع پر ان عورتوں نے بھاگتے ہوئے مسلمان سپاہیوں کو غیرت‬
‫دال کر پھر میدان جنگ میں دھکیل دیا۔‬

‫فوجی چھاؤنیاں‬
‫بنو امیہ کے عہد حکومت میں دمشق‪ ،‬بصرہ‪ ،‬واسط اور قیروان اہم فوجی چھاؤنیاں اور بھرتی کے مراکز تھے۔ ان فوج‬
‫چھاؤنیوں میں ہر وقت تازہ دم فوج تیار رہتی۔ ان کی حفاظت کے لیے اردگرد محفوظ فصلیں تعمیر کی جاتی تھیں۔‬
‫سرحدوں پر جابجا پختہ قلعے بنائے جاتے جن میں حفاظتی دستے مقیم رہتے تاکہ بیرونی حملہ کی صورت میں فوج‬
‫بروقت کارروائی کر سکے۔‬

‫اسلحہ‬
‫اس زمانہ کے رواج کے مطابق اسلحہ میں نیزے‪ ،‬بھالے‪ ،‬تیر کمان‪ ،‬تلواریں ز رہیں‪ ،‬ڈھالیں‪ ،‬کلہاڑے وغیرہ بکثرت استعمال‬
‫ہوتے تھے۔ قلعوں کی فصیلوں کو توڑنے کے لیے قلعہ شکن آالت کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ منجنیق سے قلعے کی‬
‫فصلیوں پر بڑے بڑے پتھروں کی بارش کی جاتی تھی لیکن کبشن کا آلہ ٹکریں مار مار کر قلعہ کی دیوار توڑ دیتا تھا۔‬
‫اس کے عالوہ آگ لگانے والے آتش گیر مادے کا بھی رواج تھا‬

‫بحری فوج‬
‫امیر معاویہ کے زمانہ میں بحری فوج کا قیام ایک زبردست کارنامہ ہے۔ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جب آپ شام کے‬
‫گورنر تھے تو آپ نے بحری فوج کی تنظیم کی طرف توجہ مبذول کی تھی۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ نے طاقتور بحریہ کی‬
‫ضرورت کو شدت سے محسوس کیا کیونکہ رومی اکثر شام کے ساحلی عالقوں پر یلغار کرتے رہتے تھے۔ ‪49‬ھ (‪669‬ء) تک‬
‫عربوں کے پاس مصر میں بحری جہاز تیار کرنے کا ایک کارخانہ تھا۔ ایک ایسے ہی کارخانہ کی شام میں بھی ضرورت‬
‫محسوس کی گئی۔ چنانچہ ساحل شام پر جہاز سازی کے کارخانہ کو قائم کرکے فن جہاز سازی کی ضرورت محسوس‬
‫کی گئی۔ چنانچہ ساحل شام پر جہاز سازی کے کارخانہ کو قائم کرکے فن جہاز سازی کی ترقی کے لیے زبردست اقدامات‬
‫کیے گئے۔ عکہ کی بندرگاہ کو بحری سرگرمیوں کے لیے مرکز بنا کر امیر معاویہ نے رومیوں کے حملوں کی روک تھام اور‬
‫ان کے خالف جنگی کاروائیوں کے لیے کئی اقدامات کیے۔ امیر معاویہ کی وفات کے وقت اسالمی بحریہ کے پاس تقریبًا‬
‫سترہ ہزار بحری جہاز موجود تھے۔ شام کے عالوہ مصر میں بھی کئی کارخانے بحری جہاز بنانے میں مصروف تھے۔‬
‫عدلیہ‬
‫مسلمانوں کی حکومت میں عدلیہ ہمیشہ بہت اہم شعبہ رہا ہے۔ بنو امیہ نے بھی اس اہمیت کے پیش نظر اس شعبہ کے لیے‬
‫صالح ترین افراد منتخب کیے۔ زیاد والی بصرہ نے سیاسی معموالت میں جو کردار ادا کیا ہو عدلیہ کے لیے اس نے حضرت‬
‫انس بن مالک‪ ،‬حضرت عبد الرحمن بن سمرو جیسے صحابہ کا انتخاب کیا۔ بنو امیہ کو اس کا احساس تھا کہ ایماندار اور‬
‫ذمہ دار عدلیہ عوام کا اعتماد بحال رکھنے میں کیا حصہ ادا کرتی ہے۔‬

‫عدلیہ کی تنظیم بالعموم خالفت راشدہ کے طرز پر ہی قائم رکھی گئی۔ ہر ضلع میں قاضی مقرر کیا جاتا تھا اور صوبہ‬
‫میں ایک بڑا قاضی مقرر ہوتا تھا۔ قاضی کو بعض اوقات اوقاف وغیرہ کی نگرانی کے فرائض بھی سونپ دیے جاتے تھے‬
‫البتہ اموی دور میں قاضیوں کا تقرر صوبائی گورنر ہی کی طرف سے ہوتا تھا جو اسے معزول کرنے کا اختیار بھی رکھتا‬
‫تھا۔ خالفت راشدہ کی طرف سے خلیفہ کو قاضی کی عدالت مں طلب نہیں کیا جا سکتا تھا۔ خلیفہ کا رعب و جالل اس‬
‫حد تک ہوتا تھا کہ کوئی شخص خلیفہ سے جھگڑا کرنے یا اس کے خالف استغاثہ دائر کرنے کی ہمت ہی اپنے اندر نہ‬
‫رکھتا تھا۔ صوبائی گورنر بھی قاضی کے سامنے جوابدہ نہ ہوتے۔ گویا عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی مکمل نہیں رہی‬
‫تھی بلکہ عدلیہ پر انتظامیہ کی ایک گونہ برتری قائم ہو گئی تھی تاہم جہاں عوام کا تعلق ہے ان کے فیصلے بدستور نہایت‬
‫دیانتداری سے اور اسالمی قانون کے تحت ہی ہوت تھے۔ اور ذمیوں کے فیصلے ان کے ذاتی قانون ‪ PERSONAL LAW‬کے‬
‫تحت ہوتے تھے۔‬

‫بنو امیہ نے گورنروں اور بااثر لوگوں کے مظآلم کے انسداد کے لیے دیوان مظالم کے نام سے ایک الگ عدالت بھی قائم کی‬
‫تھی جس کی صدارت بالعموم خلیفہ خود کرتا۔ کبھی کبھار قاضی القضاہ بھی اس کی صدارت کرتا تھا۔ اس عدالت کی‬
‫موجودگی کی وجہ سے اموی اعمال مظالم کرنے سے ہچکچاتے ضرورت تھے لیکن خلیفہ کے معتمد علیہ ہونے کی صورت‬
‫میں یہ عدالت ان کے خالف کارروائی نہیں کرتی تھی۔‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=4823547‬بنو_امیہ_کا_نظام_حکومت=‪»title‬‬

‫آخری ترمیم ‪ 2‬مہینے قبل بدست ‪


SARJEEL‬‬ ‫

You might also like