You are on page 1of 9

‫‪Print‬‬

‫سلف ومشاہیر‬

‫بازیافت‬

‫سلف ومشاہیر‬

‫‪ ‬حصہ سوم حصہ دوم حصہ اول‬

‫سلطان العلماء‬

‫عز الدین بن عبدالسالم‬

‫قصہ ایک عالم ِدین کا کہ جس نے بادشاہ نیالم کئے‬

‫دوسری قسط‬

‫تالیف سلمان العودہ‬

‫ُا ردو استفادہ‪ :‬حامد کمال الدین‬

‫‪ ‬‬

‫حکمرانوں کیلئے ُد عائے خیر کرنا ایک نیک عمل ہے مگر حکمرانوں کو راِہ راست پر لے آنے‬
‫کیلئے ہیبِت علم کو بروئے کار النا ایک خاص مقام ہے جو کہ علمائے سنت کا تاریخی امتیاز رہا‬
‫آ‬
‫ہے۔ آئیے ایک عالم دین کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ مقالہ کے مصنف ہیں شیخ سلمان العودۃ‬
‫اور مقالہ کا عنوان ہے ”سلطان العلمائ“۔ امید ہے ایک مزیدقسط میں ہم اس کا ُا ردو استفادہ‬
‫مکمل کر لیں گے۔‬

‫‪:‬منکرات کے خالف سرگرم‬

‫امام عز بن عبد السالم منکرات کے خاتمہ کیلئے صرف زبان ہال دینا کافی نہ جانتے تھے‪ ،‬بلکہ‬
‫منکرات کے خاتمہ و سدباب کیلئے آپ اس سے کہیں آگے بڑھ کر ‪ ،‬جہاں تک ہوسکے یہ کام‬
‫بنفس نفیس کرنے میں یقین رکھتے تھے‪ ،‬جس کا کچھ ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے۔‬

‫‪:‬عز بن عبد السالم کا موقف وزیر فخر الدین کے ساتھ‬

‫منکرات کے خاتمہ کے سلسلہ میں ایک نہایت جراتمندانہ و نمایاں موقف جو امام عز الدین بن‬
‫‪:‬عبد السالم کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے‬

‫آپ کے کچھ شاگرد آپ کے پاس آئے اور بیان کیا کہ فالں مقام پر مصر کے وزیر‪ ،‬جو فخر‬
‫الدین لقب کرتا تھا‪ ،‬نے ایک طبل خانہ تعمیر کرایا ہے (یعنی ناچ گانے اور رقص و موسیقی اور‬
‫بے حیائی کا ایک اڈہ)‪ ،‬خاص بات یہ کہ یہ جگہ ایک مسجد کے قریب پڑتی تھی۔ عز بن عبد‬
‫السالم نے خبر کی تصدیق کی۔ توثیق ہونے پر آپ نے اپنے صاحبزادوں اور کچھ تالمذہ کو‬
‫ساتھ لیا اور ’طبل خانہ‘ کی طرف چل دیئے۔ شیخ بنفس نفیس کلہاڑا اٹھائے ہوئے تھے اور‬
‫’طبل خانہ‘ کو توڑنے میں مصروف۔ کچھ ہی دیر میں آپ کے ساتھ آملنے والے لوگ طبل خانہ‬
‫کی عمارت کو زمین کے برابر کرچکے تھے۔‬

‫کیا معاملہ یہاں ختم ہوگیا؟ نہیں۔ امام عز الدین نے اس کے ساتھ ہی یہ فتوٰی جاری کیا کہ‬
‫وزیر فخر الدین کی عدالت (یعنی مسلم معاشرے میں اس کا قابل اعتبار وقابل احترام ہونا)‬
‫ساقط ہوچکی ہے اب نہ اس کی شہادت قبول کی جائے اور نہ اس کا کوئی بیان۔ فتوٰی لوگوں‬
‫کے مابین نشر کروادیا گیا۔ وقت کے عالم دین کا فتوٰی امت میں ہر طرف پھیل گیااور ہر‬
‫شخص کو پہنچا دیا گیا۔‬

‫فخر الدین کا خیال تھا کہ اس کی عدالت ساقط ہونے کا چرچا زیادہ سے زیادہ چلیں مصر تک‬
‫ہوگا۔ مگر لوگوں کو یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ عالم اسالم کے دیگر خطوں میں بھی‬
‫لوگ اس وزیر کی عدالت ساقط کئے بیٹھے ہیں!ہوا یوں کہ مصر کے بادشاہ الملک الصالح نے‬
‫بغداد میں عباسی خلیفہ المستعصم کے ہاں کسی شخص کے ہاتھ کوئی پیغام بھجوایا‪ ،‬جوکہ‬
‫زبانی کالمی تھا اور تحریر نہ کیا گیا تھا۔ خلیفہ مستعصم نے اس شخص سے تصدیق کرنا‬
‫چاہی کہ واقعی یہ پیغام مصر کے بادشاہ نے ہی بھجوایا ہے۔ آدمی نے جواب دیا‪ :‬بادشاہ سے‬
‫تو میرا آمنا سامنا نہیں ہوا البتہ بادشاہ کے حوالے سے یہ پیغام مجھے وزیر فخر الدین نے دیا‬
‫ہے کہ بغداد جاؤں تو یہ پیغام آپ کے گوش گزرا کردوں۔ خلیفہ کہنے لگا‪ :‬فخر الدین کی‬
‫عدالت تو عز الدین بن عبد السالم ساقط کرچکے ہیں! یہ کہہ کر خلیفہ نے یہ پیغام وصول‬
‫کرنے سے انکار کردیا۔‬

‫تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ صرف مصر کے لوگ نہیں پوری امت وقت کے اس عالم کے ساتھ‬
‫!کھڑی ہے‬
‫‪:‬ہم اس واقعہ پر تین پہلوؤں سے غور کریں گے‬

‫ایک بات اس واقعے میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پوری امت ہی کس طرح علمائے وقت کے )‪1‬‬
‫ساتھ وابستہ دکھائی دیتی ہے۔ کہیں کوئی مسئلہ ہے تو وہ علماءکے سامنے الیا جاتا ہے اور‬
‫علماءسے ہی اس بارے میں کسی مناسب اقدام کی امید کی جاتی ہے۔ کہیں پر کوئی منکر‬
‫پایا جاتا ہے‪ ،‬کہیں پر فساد کا کوئی اڈہ بن گیا ہے تو لوگ اس کی خبر لے کر وقت کے اس‬
‫عالم کے پاس آتے ہیں۔ عوام اور علما کے مابین تعلقات اور رابطے کے یہ پل تعمیر ہوئے ہونا بے‬
‫حد ضروری ہے۔‬

‫دوسری بات یہ کہ عز بن عبد السالم بعض اوقات منکرات کے خاتمہ کے عمل میں بذات )‪2‬‬
‫خود شریک ہوتے اور کسی وقت ہاتھ کا استعمال بھی کرتے۔ جوکہ رسول اللہ ﷺ کی اس‬
‫ٰی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‪ ،‬فان لم یستطع فبلسانہ‪ ،‬فان لم‪ É‬حدیث کا مصداق ہے‪ :‬من ر‬
‫ق ہے ن ر‬ ‫ی‬ ‫ن م‬ ‫ع ب‬ ‫ن می‬ ‫ی یر بی‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫ٰی‬
‫ضعف االیمان یعنی‪” :‬تم میں سے جو کوئی منکر کو دیکھے تو وہ اسے‪ É‬یستطع فبقلبہ‪ ،‬وذلک‬
‫ہاتھ سے تبدیل کرے‪ ،‬طاقت نہ رکھے تو زبان سے‪ ،‬یہ بھی طاقت نہ ہو تو دل سے‪ ،‬اور یہ ایمان‬
‫کا ضعیف ترین درجہ ہے“۔ جبکہ عز بن عبد السالم طاقت رکھتے تھے کہ وہ ہاتھ سے اس منکر‬
‫کو بدل ڈالیں۔آپ کا منصب اور مرتبہ و مقام آپ کو اس بات کا اہل بناتا تھا کہ وہ یہ کام کر‬
‫گزریں۔‬
‫امام عز بن عبد السالم کا ہاتھ کے استعمال سے اس انداز میں ایک منکر کا خاتمہ کر ڈالنا‬
‫منکرات کے خاتمہ کے باب میں وہ درست ترین اور معتدل ترین انداز ہے جوکہ آپ کے کرنے کا‬
‫‪:‬تھا۔ جبکہ اس باب میں لوگ عموما دو انتہاؤں پر پائے جاتے دیکھے گئے ہیں‬

‫ایک انتہا وہ ہے جس میں کچھ جذباتی اور عجلت پسند طبقے پڑ جاتے ہیں۔یہ لوگ منکرات‬
‫کو ہاتھ سے ختم کرنے لگتے ہیں جبکہ نہ تو ان کے پاس طاقت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو کوئی‬
‫ایسا مرتبہ ومقام ہوتا ہے کہ انکا ایسا اقدام کرنا معاشرے کی نظر میں کوئی زبردست حیثیت‬
‫رکھے۔ تب ایک منکر کے بزوِر دست خاتمہ کے منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں اور خود اسی عمل‬
‫ہی کو نقصان پہنچاتے ہیں‪ ،‬جیسا کہ خاص طور پر آج کے اس دور میں کثیر مسلم ممالک کے‬
‫اندر یہ دیکھا گیا ہے۔ایک عوامی سے انداز میں کچھ لوگ برائی کو مٹانے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔‬
‫توڑ پھوڑ‪ ،‬مار دھاڑ‪ ،‬جالؤ گھیراؤ‪ ،‬محاذ آرائی وغیرہ کے اس عمل سے عموما اس برائی کو اور‬
‫بھی ترویج مل جاتی ہے جس کو ختم کرنے کیلئے یہ کام کیا گیا ہوتا ہے۔‬

‫دوسری انتہا وہ ہے جس میں بہت سے طلبہء علم وفکر اور وہ لوگ جو دعوت اور خیر کے‬
‫کام میں مصروِف عمل جانے جاتے ہیں‪ ،‬پڑے ہوتے ہیں۔ یہ جب کوئی برائی دیکھتے ہیں تو‬
‫وہاں سے سر نیچا کئے ال حول وال قوۃ اال باللہ اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے گزر جاتے‬
‫ہیں۔ ہوسکتا ہے اگلی بار گزریں تو یہاں سے راستہ بدل کر گزریں۔ لیکن کبھی اس بات کی‬
‫کوشش نہیں کریں گے کہ اس برائی کو مٹادینے کی بھی کوئی صورت نکالی جائے۔برائی‬
‫جہاں ہورہی ہے وہاں سے نگاہ پھیر کر گزر جانا یا وہاں سے روپوش ہوجانا اچھا ہے مگر اس‬
‫کا مطلب یہ نہیں کہ اس برائی کے خاتمے کا حق ادا ہوگیا۔ منکرات کو دیکھ کر انا للہ پڑھنا‬
‫اچھا ہے‪ ،‬اور یہ اللہ کا ذکر تو بہرحال ہے‪ ،‬مگر اس ’ذکر‘ کے ساتھ ایک ’عمل‘ اور ایک ’موقف‘‬
‫بھی شامل کردیا جائے جو کسی منکر کے خاتمہ کی جانب ایک پیشرفت ہو‪ ،‬تو یہ بھی یہ ایک‬
‫فرض ہے۔‬

‫چنانچہ ہم دیکھتے ہیں عز بن عبد السالم کا موقف ان دو انتہاؤں کے بیچ ایک صورِت وسط‬
‫و اعتدال ہے جوایک منکر کے خاتمہ کیلئے اختیار کی گئی‪ ،‬کیونکہ عز بن عبد السالم ایک‬
‫حیثیت اور ایک ساکھ رکھتے ہیں جو آپ کو یہ قدرت دیتی ہے کہ وہ ایک برائی کو مٹا‬
‫ڈالیں۔ چنانچہ اپنی اس قوت سے کام لے کر‪ ،‬جس کو بنانے میں ایک وقت اور ایک محنت‬
‫صرف ہوئی‪ ،‬آپ ایک منکر کو ہاتھ کے استعمال سے ختم کر ڈالتے ہیں۔‬
‫جس بات نے امام عز بن عبد السالم کو یہ جراتمندانہ موقف اختیار کرنے میں مدد دی وہ )‪3‬‬
‫یہ کہ امت سب کی سب آپ کے ساتھ کھڑی تھی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں جب اس عالِم ربانی‬
‫کی طرف سے وقت کے ایک وزیر کی عدالت ساقط کر دی جاتی ہے تو وہ ہر جگہ بے اعتبار‬
‫‪ ‬ٹھہرتا ہے اور کوئی اس کی تصدیق تک نہیں کرتا۔‬
‫چنانچہ امت اگر علما کے گرد مجتمع ہونے لگے اور اپنی ان قیادتوں سے وابستہ ہو جوکہ ان‬
‫کی قیادت کا جائز طور پر حق رکھتی ہوں تو امت اپنے ان علما اور اپنی ان قیادتوں کے‬
‫‪:‬ذریعے قوت پکڑتی ہے اور علما اور قیادتیں امت کے ذریعے مضبوط ہوتے ہیں‬

‫علما مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ ان کو امت کی تائید حاصل ہو اور لوگ ان کے گردا گرد اکٹھے ‪-‬‬
‫ہوں تو وہ اعتماد کے ساتھ امر و نہی کرسکتے ہیںاور منکرات کے ازالہ میں کامیاب ہوسکتے‬
‫ہیں۔ ایک ایسا عالم جو لوگوں کے دلوں میں بستا ہو اس سے محاذ آرائی کرنے والے جانتے ہوں‬
‫گے کہ اس کا غصے میں آنا ہزاروں الکھوں کے غصے کو دعوت دینا ہے۔‬

‫امت قوت پکڑتی ہے کیونکہ علما کی پزیرائی کے پیچھے جو بات کارفرما ہے وہ یہ کہ علما ‪-‬‬
‫نے ہی امت کے مفادات اور مصالح کا درحقیقت دفاع کیا ہوتا ہے‪ ،‬جیسا کہ اگلے مبحث میں‬
‫بیان کیا جائے گا۔‬

‫٭٭٭٭٭‬
‫‪:‬امت کے ہاں عز بن عبد السالم کی حیثیت‬

‫غالبا سب سے نمایاں چیز جو عز بن عبد السالم کی سوانح میں غور کئے جانے کے قابل ہے وہ‬
‫یہی کہ امت کے ہاں آپ نے کیا حیثیت اختیار کی اور ہر خاص و عام‪ ،‬حتی کہ سالطین و‬
‫حکام تک‪ ،‬آپ کی بابت کیا تفکیر رکھتے ہیں۔‬

‫عز بن عبد ا لسالم واقعتا معاشرے کے اندر ایک پل بن گئے تھے۔ عوام سے خواص تک اور‬
‫حاکم سے محکوم تک‪ ،‬سب کے مابین وہ ایک جوڑ کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ حاکم کو عز‬
‫بن عبد السالم کی ضرورت ہے کیونکہ عز بن عبد السالم کا اس کے ساتھ کھڑا ہونا اس کے لئے‬
‫ایک بڑا معنٰی رکھتا ہے اور لوگ بھی اس کو تبھی ملتے ہیں اور اعتبار بھی اس کا تبھی قائم‬
‫ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ممالیک میں سے جب بھی کوئی حاکم اقتدار سنبھالتا ہے‬
‫سب سے پہلے عز بن عبد السالم اس کی بیعت کرتے ہیں‪ ،‬ان کے بعد پھر وزراءبیعت کیلئے آگے‬
‫بڑھتے ہیں اور پھر عام لوگوں کی باری آتی ہے۔ یوں حاکم کو احساس رہتا ہے کہ وہ ایک‬
‫ایسی قوم کا حکمران ہے جو شہادِت ان ال الہ اال اﷲ و ان محمدا رسول اﷲ پر قائم ہے‬
‫اوریہ کہ اس کا یہاں اقتدار رہنا اور اس امت کے اندر پزیرائی پانا اس بات پر منحصر ہے کہ‬
‫وہ ان کے مالک کی کتاب اور ان کے نبی کی سنت کے مطابق ان پر حکمرانی کرے اور ان علما‬
‫کو مطمئن کرے جو اس کے اور قوم کے مابین اعتماد اور تعلق کا ایک مضبوط ذریعہ ہیں۔‬

‫چنانچہ مسلم معاشروں کے اندر عالم کی یہ حیثیت ہوتی تھی کہ ایک طرف حاکم کو عالم‬
‫کی ضرورت کیونکہ عالم ساتھ نہیں تو حاکم کا کام ہی نہیں چلتا بلکہ اس کا کوئی اعتبار ہی‬
‫قائم نہیں ہوتا۔ دوسری طرف رعایا کو عالم کی ضرورت کیونکہ رعایا کی ضرورتیں‪ ،‬مسائل‪،‬‬
‫آرا اور مواقف حکمرانوں تک پہنچنے کیلئے بڑی حد تک علما ہی کا ذریعہ پاتے اور علما ہی کے‬
‫ذریعے قوت پکڑتے۔ چنانچہ ’عالم‘ تب اس مقام پر تھا کہ وہ لوگوں اور ان کے حکام و‬
‫مسؤلین اور افسروں کے مابین تعلق اور مفاہمت قائم رہنے کا ایک بہترین پل ہوتا تھا۔‬
‫یہ وہ زمانہ تھا کہ ایک عالم ‪،‬خصوصا عز بن عبد السالم جیسا ایک عالم‪ ،‬قوم کے مفادات کا‬
‫دفاع کرانے کا ایک بہترین فورم ہوتا۔ کتنے ہی موقعوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی قوم‬
‫رگرم‬ ‫کوکوئ معاش چ لنج آتا دکھائ دیاوہا عز ب ع د ال الم کو قوم ک حقوق ک لئ‬
‫کوکوئی معاشی چیلنج آتا دکھائی دیاوہاں عز بن عبد السالم کو قوم کے حقوق کیلئے سرگرم‬
‫پایا گیا۔ ’معاش‘ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ لوگوں کی غمیاں اور خوشیاں اس سے براِہ راست‬
‫منسلک ہیں۔ معاشی دشواری عوام کو بر انگیخت کرتی ہے اور معاشی بہتری پر لوگ آپ کے‬
‫ساتھ ہولیتے ہیں‪ ،‬نیک کیا اور بد کیا۔‬

‫چنانچہ لوگوں کو ظالمانہ مالی قوانین اور ضابطوں سے نجات دال کر رکھنا اور ان کے معاشی‬
‫مصالح کیلئے پریشان اور سرگرم رہنا ایک ایسا عمل تھا جو کبھی عز بن عبد السالم کی توجہ‬
‫سے غائب نہ ہو پایا۔ جو بن پاتا لوگوں کی مالی مدد کیلئے خود کرتے اور جہاں تک ہو سکتا‬
‫‪:‬مقتدر طبقوں میں ان کے حقوق کی جنگ لڑتے‬

‫‪:‬ذاتی حیثیت میں لوگوں کی مالی اعانت‬

‫یہ تو واضح ہے کہ عز بن عبد السالم کوئی لمبے چوڑے ذرائِع آمدن نہ رکھتے تھے۔ کوئی‬
‫خاص مشاہرہ نہ تھا۔ جاگیریں لیتے تھے اور نہ محالت۔ بلکہ جیسا کہ پیچھے ہم دیکھ آئے‬
‫جب آپ کو مصر چھوڑنا پڑا تو آپ کیلئے دو گدھے حاصل کئے گئے۔ آپ کا کل اثاثہ دو‬
‫گٹھڑیوں میں آجاتا اور دو گدھوں پہ الدا جاسکتا۔ ا س کے باوجود ایسا نہیں ہوا کہ اس‬
‫تنگِی دست کے باوجود لوگوں کی مالی دشواریوں میں آپ لوگوں کے کام نہ آئے ہوں۔‬

‫آپ کی سوانح میں ذکر ہوتا ہے کہ ایک بار دمشق میں چیزوں کی قیمتیں بے حد گر گئیں اور‬
‫ہر طرف مندہ دیکھا جانے لگا۔ یہاں تک کہ باغات تک اتنے سستے ہوگئے کہ تھوڑے پیسوں‬
‫میں خرید ہوجائیں۔ عز بن عبد السالم کی زوجہ اپنا جو کوئی زیور و جوہر جمع کر رکھا تھا‪،‬‬
‫نکال الئیں اور عز بن عبد السالم سے کہنے لگیں‪ :‬یہ زیور و جواہرات بیچ کر ہمارے لئے کوئی‬
‫چھوٹا سا باغ خرید فرمایئے جہاں کبھی موسِم گرما میں خوب وقت گزرے اور بچوں کا‬
‫کچھ شغل ہو جایا کرے۔ عز بن عبد السالم نے یہ سونا اور جوہر اٹھایا اور بازار میں اسے‬
‫فروخت کرکے ابھی رقم لی ہی تھی کہ دیکھا لوگ تنگ دستی کی شکایت کر رہے ہیں۔ سارا‬
‫مال صدقہ کردیا اور خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے۔ زوجہ گھر آئے شوہر سے پوچھتی ہیں‪ :‬میرے‬
‫آقا! کیا باغ خریدا گیا؟ فرماتے ہیں‪ :‬ہاں خریدا تو گیا مگر جنت میں! بات یہ ہے میں نے لوگوں‬
‫آ‬
‫کو بڑی دشواری میں دیکھا تو وہ روپیہ ان میں ہی تقسیم کردیا۔ زوجہ کہتی ہیں‪ :‬خدا آپ کو‬
‫!خوب بدلہ دے‬

‫چنانچہ عز بن عبد السالم کی صورت میں قوم ایک ایسے عالم کو دیکھتی ہے جو اپنا مال‬
‫لٹاتا ہے اور امت کے محتاجوں اور تنگ دستوں کے مشکل وقت میں ان کے کام آتا ہے‪ ،‬چاہے وہ‬
‫اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر کیوں نہ ہو۔ ایسے عالم کا حق کیوں نہ بنے کہ ساری قوم پھر‬
‫اس کے پیچھے کھڑی ہوجائے۔‬

‫یہ تھا آپ کا اپنی ذاتی حیثیت میں لوگوں کی مالی دشواریوں میں ان کے کام آنا‪ ،‬گو یہ کتنا‬
‫بھی کم ہو‪ ،‬مگر یہ ایک چیز ہے جو عالم کو عوام کے ساتھ جوڑتی ہے۔ کیونکہ لوگوں کو‬
‫معلوم ہی ہے کہ ایک عالم کے پاس کتنا مال ہو سکتا ہے۔ تاریخ میں کم ہی کبھی ہوا کہ عالم‬
‫کے پاس اتنے پیسے ہوں کو وہ لوگوں میں مال لٹا رہا ہو۔ عالم کے پاس لٹانے کیلئے جو چیز ہے‬
‫وہ ہے ہدایت۔ ہدایت اس معنٰی میں بھی کہ وہ لوگوں کو بھلی راہ کی نشاندہی کرکے دے اور‬
‫ہدایت اس معنٰی میں بھی کہ وہ مشکل مقامات پر ان کی عملی راہنمائی کرے۔‬

‫‪:‬عمومی سطح پر لوگوں کی معاشی خدمت‬

‫عمومی حییثیت میں بھی عز بن عبد السالم لوگوں کے معاشی امور ومفادات کے محافظ‬
‫تھے۔ آپ غریب طبقوں کے حقوق کی باقاعدہ وکالت کرتے۔ ان پر ظلم ہوجانے کی ہرگز اجازت‬
‫‪:‬نہ دیتے اور ان پر زیادتی کی ہر صورت کے آڑے آتے۔ اس کی بھی ایک مثال دیکھئے‬

‫جس وقت حاکِم مصر (قطز) تاتاریوں کے خالف عازِم جنگ ہوا (وہ بھی عز بن عبد السالم ہی‬
‫کی تحریک پر)‪ ،‬تو اس نے دیکھا کہ سلطنت کا خزانہ اس جنگ کے اخراجات کیلئے کفایت‬
‫نہیں کرتا لٰہ ذا اس کے خیال میں کوئی چارہ اس کے سوا نہیں رہ گیا تھا کہ وہ لوگوں کے‬
‫اموال سے کٹوتیاں کرے۔ تب اس نے علما کو اکٹھا کیا اور کہنے لگا‪ :‬آپ حضرات کیا رائے دیتے‬
‫ہیں؟ ہمیں ضرورت پڑ گئی ہے کہ لوگوں کے اموال سے وصولیاں کریں تاکہ لشکر تیار‬
‫کرسکیں‪ ،‬ہتھیار فراہم کرسکیں اور افواج کو تنخواہیں اور معاوضے ادا ہوں۔ یہ ایسے‬
‫ا ال‬ ‫کا ا ا‬ ‫ا کا‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ک ئ‬ ‫ا ا‬ ‫ا‬
‫اخراجات ہیں جن سے کوئی چارہ نہیں۔ ہمیں ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو پورا عالم‬
‫اسالم تاراج کرآیا ہے اور عراق تا شام گزر کر ہم تک پہنچ گیا ہے۔ خزانے میں اس وقت جو‬
‫کچھ ہے وہ ہرگز اس کیلئے کافی نہیں کہ ایک بھاری جیش تیار ہوجائے۔ تب عز بن عبد السالم‬
‫گویا ہوئے‪ :‬جتنا مال تمہارے اپنے پاس ہے پہلے اگر وہ لے آؤ‪ ،‬اور تمہارے امراءنے جتنا حرام‬
‫سونا چاندی اکٹھا کر رکھا ہے وہ لے آؤ‪ ،‬اس کے سکے ڈھلوا لو اور اس سے حاصل ہونے والی‬
‫اشرفیاں اور درہم خرچ میں لے آؤ اور مجاہد فوج میں لٹادو‪ ،‬پھر اگر یہ سب‪ ،‬لشکر کو کفایت‬
‫نہ کرے او رضرورت بدستور باقی رہے تو تب لوگوں سے قرض طلب کر لینا۔ البتہ اس سے‬
‫پہلے ہرگز نہیں۔ تب یوں ہوا کہ سلطان نے اپنا سونا چاندی الکر امام کے سامنے ڈھیر کردیا اور‬
‫امراءاپنا اپنا سیم وزر اٹھا الئے ۔ شیخ کی اللہ تعالٰی نے ہیبت کچھ ایسی رکھی تھی کہ کسی‬
‫کو انکار کا یارا نہ ہوا۔ یہ مال الیا گیا اور شیخ کی زیر نگرانی جہاد میں خرچ کر دیا گیا۔ آخر‬
‫اللہ نے مصر کے اس لشکِر اسالم کو تاتاریوں پر فتح دے دی‪ ..‬ان تاتاریوں پر جو شکست کا‬
‫!نام تک سننا نہ جانتے تھے‬

‫دربار‘ کے اندر ایک ’عالم‘ کا یہ ایک ایسا موقف تھا کہ جس کی خبر پوری قوم کو پہنچی‪’،‬‬
‫یہاں تک کہ اس کے قصے دور دراز کے ملکوں میں سنے گئے۔ ہر شخص کی زبان پر تھا کہ وہ‬
‫شخص جس نے آج ان کے اموال کا دفاع کیا تھا اور جس نے عوام الناس کے منہ کا لقمہ ان‬
‫کے بچوں کیلئے بچا لینے میں ایک ہمدردانہ کردار ادا کیا تھا اور ناحق اس پر سلطان کا ہاتھ‬
‫نہیں پڑنے دیا وہ ہے ”عز بن عبد السالم“ ‪ ..‬وقت کا ایک عالم جو مسند ِ علم کی حرمت سے‬
‫!واقف ہے‬

‫٭٭٭٭٭٭٭‬
‫‪ ‬‬
‫حصہ سوم حصہ دوم حصہ اول‬
‫‪ ‬‬

You might also like