You are on page 1of 30

‫اسالم کی مختصر تاریخ‬

‫(کتاب)‬

‫مسلمانوں کا سیاسی عروج و زوال برطانیہ کی‬


‫معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ (‪Karen‬‬
‫‪ )Armstrong‬کی تحریر کردہ کتاب ‪Islam: A‬‬
‫‪ Short History‬کا اردو ترجمہ ہے۔ محمد احسن بٹ‬
‫کی ترجمہ شدہ یہ کتاب دور رسالت سے لے کر سن‬
‫‪ 2000‬عیسوی تک کی اسالمی تاریخ کا احاطہ کرتی‬
‫ہے۔ اس کے بارے میں بال مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ‬
‫یہ اسالم کی مختصر تاریخ کے حوالے سے یہ ایک‬
‫موزوں ترین کتاب ہے جس میں مصنفہ نے اسالم کا‬
‫مختصر مگر جامع تعارف پیش کیا ہے‪ ،‬مزید براآں‬
‫مصنفہ نے اسالم کے بنیادی عقائد کا بھی تجزیہ کیا‬
‫ہے اور مسلمانوں کے عروج اور زوال کی وجوہات بھی‬
‫بیان کی ہیں۔ کتاب جو نگارشات الہور کی شائع کردہ‬
‫ہے۔[‪]1‬‬ ‫ہے کے فلپر پر مندرجہ ذیل عبارت درج‬

‫فنانشل ٹائمز کا تبصرہ‬


‫برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے کتاب پر تبصرہ کرتے‬
‫ہوئے لکھا ہے کہ “دنیا کے عظیم ترین مذاہب میں سے‬
‫ایک‪ ،‬دین اسالم‪ ،‬کو اس کے وجود میں آنے کے بعد‬
‫‪ 1500‬برس کے دوران غلط سمجھا گیا ہے۔ حالیہ‬
‫صدیوں میں مغربی دنیا فکر کے ایک مکمل انقالب‬
‫سے گزرچکی ہے‪ ،‬تاہم اسالم کے حوالے سے اس کی بے‬
‫اعتمادی اب بھی جوہری طور پر وسطی عہد والی ہی‬
‫ہے۔ آخری صلیبی جنگ ‪ Crusade‬کے سات صدیوں‬
‫بعد سے اسالم کے مقدس مقامات تیل کی دولت سے‬
‫ماال مال ہیں۔ اس کی افواج جو کبھی الوہی جبروت‬
‫کا مظہر تھیں‪ ،‬اب سیکولرازم سے نبرد آزما ہیں۔‬
‫“بنیاد پرست“ جنونی‪ ،‬عورتوں پر جبر کرنے والے‪ ،‬بے‬
‫رحم‪ ،‬سفاک‪ ،‬دہشت گرد‪ ،‬استبداد کرنے والے یہ ہیں‬
‫نئی اسالمی قہاری کے بارے میں مغالطے۔ کیرن آرم‬
‫سٹرانگ کی یہ کتاب ‪Islam: A Short History‬‬
‫(یعنی اردو میں مسلمانوں کا سیاسی عروج و زوال)‬
‫ان سب مغالطوں کو رد کرتے ہوئے ایک ایسے عقیدے‬
‫کو روشنی میں لے کر آتی ہے جس نے سپاہیوں کے‬
‫ساتھ عالموں‪ ،‬صوفیوں اور شاعروں کو بھی متاثر کیا‬
‫ہے۔ اس کتاب سے واضع ہوتا ہے کہ اسالم نہ صرف‬
‫دنیا کا ایک سب سے زیادہ اہم اور بااثر مذہب ہے بلکہ‬
‫دنیا کی ایک سب سے زیادہ دلکش تہذیب کی بنیاد‬
‫بھی۔ یہ کتاب (اسالم کے بارے میں) ایک مکمل اور‬
‫رہنما گائیڈ ہے ۔۔۔۔۔۔ نیز تعصب کا تریاق بھی“۔‬
‫کتاب کے پیش لفط میں مصنفہ لکھتی ہیں “اسالم‬
‫میں مسلمانوں نے اللہ کو تاریخ میں دیکھا ہے۔ ان کی‬
‫مقدس کتاب قرآن نے انہیں ایک تاریخی‬
‫مقصد(مشن) سونپا ہے۔ ان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ‬
‫وہ ایسا عادالنہ معاشرہ قائم کریں جس کے تمام افراد‬
‫حٰت ی کہ انتہائی کمزور اور بے بس لوگوں سے بھی‬
‫انصاف اور احترام کے ساتھ برتائو کیا جائے۔ ایک‬
‫ایسے معاشرے کو قائم کرنے اور اس میں جینے کا‬
‫تجربہ انہیں الوہی ہستی سے آشنا کروائے گا کیونکہ‬
‫وہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔‬
‫ایک مسلمان کو تاریخ کے ساتھ قول نبھانا پڑتا تھا اور‬
‫اس کا مطلب تھا کہ ریاست کے معامالت روحانیت‬
‫سے الگ نہیں تھے۔ بلکہ بذات خود مذہب کا حصہ‬
‫تھے۔ (مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اسالم ایک نظام‬
‫حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کرتا ہے‪،‬‬
‫یہ چند رسومات پر مبنی دیگر مذاہب کی طرح صرف‬
‫ایک مذہب نہیں) مسلمان برادری کی سیاسی بہبود‬
‫ایک سب سے زیادہ اہمیت کا معاملہ تھا۔ کسی بھی‬
‫مذہبی آئیڈیل کے مانند تاریخ کے خراب اور الم ناک‬
‫حاالت میں اس کا نفاذ بھی ناممکن حد تک مشکل تھا‬
‫تاہم ہر ناکامی کے بعد مسلمانوں کو اٹھنا اور دوبارہ‬
‫آغاز کرنا ہوتا تھا“۔‬

‫کتاب کی ابتدا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم‬


‫کی ذات گرامی پر وحی کے واقعہ ‪610‬ء سے ہوتی ہے۔‬
‫بعد ازاں خلفائے راشدین کے سنہری دور کے بعد پہلے‬
‫فتنے کا ذکر کرتے ہوئے تمام ادوار کا احاظہ کیا گیا ہے‬
‫جس میں مسلمانوں کو صلیبیوں اور منگولوں کے‬
‫مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اسالم کی شروعات‪ ،‬ارتقا‪،‬‬
‫عروج‪ ،‬تاتح اسالم کے بعد حالیہ تین صدیوں پر‬
‫مشتمل واقعات الم زدہ اسالم کا نام دیا گیا ہے۔‬
‫مسلمانوں کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے مصنفہ نے‬
‫(صفحہ نمبر ‪ 123‬پر ) لکھا ہے کہ “ اسالم ایک‬
‫مستحکم عقیدہ ہے۔ مسلمانوں نے تاریخ میں تباہیوں‬
‫کا مقابلہ مثبت انداز میں کیا ہے اور ان کو تعمیری‬
‫طور پر استعمال کرتے ہوئے تازہ مذہبی بصیرتیں‬
‫حاصل کی ہیں۔ ایسا ہی منگول یورش کے بعد ہوا‬
‫جب لوگ واضع طور پر محسوس کر رہے تھے کہ دنیا‬
‫کا خاتمہ قریب ہے تاہم ایک بالکل نیا عالمی نظام بھی‬
‫ممکن تھا“۔‬

‫مغلوں پر تبصرہ‬
‫مغلیہ سلطنت کے بارے میں ان کا تبصرہ ہے کہ ایران‬
‫میں شاہ اسماعیل صفوی (‪July 17, 1487 - May‬‬
‫‪ )23, 1524‬نے جب سنی مسلمانوں کا قتل عام کیا تو‬
‫اس کی شیعہ علما نے بھی مخالفت کی مگر شاہ‬
‫اسماعیل نے ایک نہ سنی۔ ان حاالت میں بابر نے فرار‬
‫ہوکر ہندوستان میں پناہ لی اور اقتدار بھی حاصل کر‬
‫لیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کو عیش و عشرت میں‬
‫مبتال ا ور فضولیات پر سرمایہ کے ضیاع کو قرار‬
‫دیتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ سترہویں صدی کے‬
‫آغاز میں دربار کے مصارف بہت بڑھ چکے تھے بادشاہ‬
‫ثقافتی سرگرمیوں پر سرمایہ لٹا رہے تھے۔ مگر انہوں‬
‫نے زراعت کو نظر انداز کر رکھا تھا جن پر ان کی‬
‫دولت کا انحصار تھا۔‬

‫سلطنت عثمانیہ پر مصنفہ کی رائے‬


‫عثمانیوں نے ‪1453‬ء میں قسطنطنیہ (موجودہ‬
‫استنبول) کو فتح کیا اور ایک سلطنت قائم کی۔‬
‫سلطان سلیم اول ‪ 1467-1520‬جس نے ایرانی‬
‫صفویوں کی پیش رفت کو روکا تھا‪ ،‬ایک فاتحانہ‬
‫جنگ میں تبدیل ہو گئی جس کے نتیجے میں شام اور‬
‫مصر اور بعد ازاں شمالی افریقہ اور عرب ریاستیں‬
‫بھی عثمانی کے زیر تسلط آگئیں۔ ادھر مغرب میں‬
‫بھی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور ‪1530‬ء میں‬
‫ترک ویانا تک پہنچ گئے۔ وسیع و عریض سلطنت کی‬
‫کامیابی کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے مصنفہ نے لکھا‬
‫ہے کہ “سلطان نے نہ تو اپنی رعایا پر یک رنگی مسلط‬
‫کی اور نہ اپنی سلطنت کے الگ الگ عناصر کو ایک ہی‬
‫بڑی جماعت میں ڈھلنے پر مجبور کیا۔ حکومت صرف‬
‫ال ئحہ عمل مرتب کردیتی جس کے تحت مختلف‬
‫گروہ مسیحی‪ ،‬یہودی‪ ،‬عرب‪ ،‬ترک‪ ،‬بربر‪ ،‬تاجر‪ ،‬علما‪،‬‬
‫صوفیا اور تجارتی تنظیمیں —امن و امان کے ساتھ‬
‫رہتے۔ ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کرتا اور اپنے عقائد‬
‫اور رسوم و روایات پر عمل کرتا۔ اہم بات یہ تھی کہ‬
‫عثمانی رعایا ایک شرعی ریاست سے تعلق رکھنے پر‬
‫فخر محسوس کرتی۔ قرآن کی تعلیمات تھیں کہ امت‬
‫اگر قرآن کے قوانین کے مطابق چلے تو خوشحال‬
‫ہوگی۔‬

‫ترکوں کے زوال کی وجہ بھی باآلخر حکمرانوں‬


‫کی عیش و عشرت بنی زرعی معاشرے کی‬
‫حامل سلطنت مملکت کی توسیع کا ساتھ نہ دے‬
‫سکی جس کے نتیجے میں عسکری نظام کمزور‬
‫ہوتا گیا۔ معاشی عدم استحکام نے جنم لیا جس‬
‫نے بدعنوانی اور ٹیکس چوری کو فروغ دیا۔ ایک‬
‫جانب محصوالت میں کمی ہو رہی تھی مگر‬
‫دوسری جانب حکمرانوں کی عیش و عشرت‬
‫اسی طرح جاری تھی۔‬

‫ترکوں کا یورپیوں کو مراعات کا نتیجہ‬

‫عثمانیوں نے ابتدا میں یورپی طاقتوں کو زبردست‬


‫شکست سے دوچار کیا مگر اٹھارویں صدی کے آخر تک‬
‫وہ ان کا سامنا کرنے کے اہل رہے اور نہ ہی برابری کی‬
‫بنیاد پر ان سے معاملہ کرنے کے قابل رہے۔ ان حاالت‬
‫میں وہ یورپی تاجر جنہیں عثمانیوں نے خصوصی‬
‫مراعات دے اور قانون کی پابندیوں سے مست شٰن ی‬
‫قرار دے کر رہنے کی اجازت دی گئی تھی وہ سر‬
‫اٹھانے لگے۔ ان یورپیوں کے جرائم پر انہی کے قوانین‬
‫کے مطابق انہی کی عدالتوں میں مقدمات چالئے جاتے‬
‫تھے اور ان عدالتوں میں یورپی وکال ہی پیش ہوا‬
‫کرتے تھے۔ عثمانیوں کے یہ مہمان کمزور ہوتی‬
‫سلطنت کو دیکھ کر کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے اور‬
‫باغیانہ روش اپنا رہے تھے۔‬

‫مذہب اسالم پر اظہار خیال‬


‫مذہب اسالم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیرن‬
‫آرم سٹرانگ لکھتی ہیں کہ اگرچہ اٹھارویں صدی کے‬
‫اواخر تک تین عظیم مسلم سلطنتیں زوال پزیر‬
‫ہوچکی تھیں مگر یہ اسالم کی جوہری نااہلی یا‬
‫بدقسمتی نہ تھی جیسا کہ یورپی اکثر تکبر کے ساتھ‬
‫سوچتے ہیں۔ ہر زرعی معاشرے کا دور حیات محدود‬
‫ہی ہوا کرتا ہے اور یہ مسلمان ریاستیں جو زرعی‬
‫معاشرے کا آخری نمونہ تھیں‪ ،‬اپنے فطری اور ناگزیر‬
‫انجام سے دوچار تھیں۔ جدید دور سے پہلے خود‬
‫مغربی اور مسیحی طاقتیں بھی اسی طرح کے زوال‬
‫سے گزرچکی تھیں۔ اس سے پہلے بھی مسلمان‬
‫ریاستیں زوال کا شکار ہوچکی تھیں اور ہر مرتبہ‬
‫مسلمان قفس کی طرح خاک سے اٹھ کر آسمان تک‬
‫پہنچ گئے تھے اور عظیم ترین کارنامے سر انجام دیتے‬
‫رہے تھے۔‬

‫فلسطین اور اسالمی دنیا‬


‫وہ لکھتی ہیں کہ فلسطین کا چھینا جانا‪ ،‬مغربی‬
‫طاقتوں کے ہاتھوں اسالمی دنیا کی تذلیل کی ایک‬
‫عالمت بن گیا‪ ،‬جس کا ضمیر الکھوں فلسطینیوں کی‬
‫مستقل بے وطنی پر ذرا بھی مالمت کرتا دکھائی‬
‫نہیں دیتا۔‬

‫اسالمی دنیا میں سیکولرازم کی آمد‬


‫مصنفہ لکھتی ہیں کہ ابتدائی زمانے میں ہی کچھ‬
‫مسلمان مغرب کی محبت میں مبتال تھے ان میں‬
‫ایرانی دانشور ملکوم خان (‪ )1833-1908‬اور آقاخان‬
‫کرمانی (‪ )1853-1896‬نے ایرانیوں کو تاکید کہ‬
‫شریعت کی جگہ جدید سیکولر قانونی نظام اپنائیں‬
‫کیونکہ ترقی کا واحد راستہ یہی ہے۔ مصر کے ادیب‬
‫رفاح التحتوی (‪ )1801-1873‬بھی اسی نظریے کے‬
‫حامی تھے۔‬
‫سیکولر ازم کا نفاذ اور سفاکیت‬

‫وہ لکھتی ہیں کہ جدیدیت کا زیادہ ڈرامائی پروگرام‬


‫مصر کے محمد علی پاشا (‪ )1769-1848‬کا تھا‪ ،‬جس‬
‫نے مصر کو استبول سے درحقیقت آزاد کرایا اور اس‬
‫پسماندہ صوبے کو جدید دنیا میں شامل کیا لیکن اس‬
‫کے طریقہ کار کی سفاکی نے ظاہر کر دیا کہ اس جان‬
‫لیوا رفتار کے ساتھ جدیدیت کو اپنانا کتنا دشوار ہے۔‬
‫اس نے اپنے سیاسی مخالفوں کا قتل عام کروایا۔‬
‫کہاجاتا ہے کہ مصر کے آب پاشی کے نظام کی بہتری‬
‫کے لیے لی جانے والی جبری مزدوری کے نتیجے میں‬
‫‪ 23‬ہزار کسان ہالک ہو گئے۔ دیگر کسان محمد علی‬
‫کی جدید فوج میں جبری بھرتی سے خوف زدہ ہوکر‬
‫اپنی اعضاء کاٹنے لگے‪ ،‬بعض نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں‬
‫اور بعض نے اپنی آنکھیں پھوڑ لیں۔ ملک کو سیکولر‬
‫بنانے کے لیے محمد علی نے مزہبی طور پر وقف شدہ‬
‫جائیدادوں کو ضبط کر لیا۔ ایک منظم طریقے سے‬
‫علما کو محدود کر دیا اور ان سے ہرطرح کے‬
‫اختیارات واپس لے لیے۔ ۔۔۔ محمد علی مصر کو ایک‬
‫جدید آزاد ریاست بنانے کے خواہش مند تھے۔ اس کی‬
‫بجائے جدیدیت پذیری کا نتیجہ یہ نکال کہ وہ حقیتا‬
‫برطانوی نوآبادی بن گیا۔‬

‫مغربی غلبے کا خطرہ اور جمال الدین‬


‫افغانی‬
‫اسالمی دنیا میں مغرب سے آنے والے طوفان کا اندازہ‬
‫ایرانی مصلح جمال الدین ‪ 1839-1897‬جو خود کو‬
‫االفغانی کہالتے تھے کرچکے تھے۔ وہ ‪ 1857‬کی جنگ‬
‫آزادی کے وقت ہندوستان میں ہی موجود تھے۔ وہ‬
‫عرب‪ ،‬ترکی‪ ،‬روس یا یورپ جہاں بھی گئے انہوں نے‬
‫مغرب کی بے انتہا طاقت کا مشاہدہ کیا اور انہیں‬
‫یقین ہو گیا کہ مغرب جلد ہی اسالمی دنیا پر غالب‬
‫آجائے گا اور اسے کچل دے گا۔ وہ مسلمان حکمرانوں‬
‫کی جانب سے مغربی طرز زندگی کی کھوکھلی نقالی‬
‫کے خطرات کا مشاہدہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے یورپی‬
‫خطرے کے خالف اسالمی دنیا کے لوگوں کو متحد‬
‫ہوجانے کی تلقین کی۔‬

‫مغربی غلبے کو روکنے کے لیے افغانی کی تجویز‬

‫جمال الدین افغانی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو نئی‬


‫دنیا کی سائنسی ثقافت کو الزمی مان لینا چاہیے مگر‬
‫اپنی شرائط پر۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کو اپنی‬
‫ثقافتی روایات کو ترویج دینی چاہیے اور اس کا‬
‫مطلب تھا کہ اسالم کو ترویج دینی چاہیے۔ ان کا‬
‫نظریہ تھا کہ اسالم کو بدلے ہوئے حاالت کا حل الزمی‬
‫پیش کرنا اور زیادہ عقلیت پسندانہ اور جدید بننا‬
‫ہوگا۔ ان کی سوچ کی سب اہم بات یہ تھی کہ اننہوں‬
‫نے مسلمانوں سے کہا کہ تمہیں اجتہاد کے مدت دراز‬
‫سے بند دروازوں کو کھولنا ہوگا اور رسول کریم صلی‬
‫اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن دونوں کی ہدایت کے‬
‫مطابق اپنی آزاد عقل کو استعمال کرنا ہوگا۔‬

‫سیکولر ازم کی مخالفت‬


‫نوجوان صحافی رشید رضا ‪ 1865-1935‬کا ذکر کرتے‬
‫ہوئے وہ لکھتی ہیں کہ رضا سیکولرازم کی جانب‬
‫بڑھتے ہوئے عرب دانشوروں پر مشتعل تھے جن کے‬
‫خیال میں اسالم عوام کی پسماندگی کا سبب تھا۔‬
‫رضا کا ایمان تھا کہ ان دانشوروں کے رویئے کا نتیجہ‬
‫یہ نکلے گا کہ امت مسلمہ مغربی استمعاریت کے‬
‫شکنجے میں مزید پھنس جائے گی۔ رضا ان پہلھے‬
‫مسلمانوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ایک مکمل‬
‫طور پر جدید لیکن اصالح شدہ کی بنیادوں پر‬
‫اسالمی ریاست کے قیام کی وکالت کی۔‬

‫اقبال تصوف اور سیکولرازم‬

‫کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہیں کہ مسلم مصلحین کو‬


‫مستقل احساس تھا کہ انہیں اسالم پر یورپی تنقید‬
‫کا جواب دینا ہے۔ ہندوستان میں شاعر اور فلسفی‬
‫عالمہ محمد اقبال ‪ 1876-1938‬نے اس حقیقت کو‬
‫واضع کیا کہ اسالم کسی بھی مغربی نظام کے مانند‬
‫عقلی ہے۔ اقبال کا عقلیت پر اسرار انہیں تصوف کو‬
‫مسترد کرنے کی جانب لے گیا۔ انہوں نے اسالمی دنیا‬
‫میں فووغ پاتی ہوئی باطنیت کے برعکس ایک نئے‬
‫رجحان کی ترجمانی کی کیونکہ ترقی کا واحد راستہ‬
‫جدید عقلیت پسندی ہی دکھائی دے رہی تھی۔ عالمہ‬
‫اقبال کا ایمان تھا کہ مغرب نے تسلسل (یعنی روایت)‬
‫کی قیمت پر ترقی کی ہے اور مغرب کی سیکولر‬
‫انفرادیت پسندی نے شخصیت کے تصور کو خدا سے‬
‫الگ کر دیا ہے اور اسے بت پرست اور شیطانی بنادیا‬
‫ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مغرب آخر کار اپنے آپ‬
‫کو تباہ و برباد کرلے گا۔ اقبال کی تائید کرتے ہوئے وہ‬
‫لکھتی ہیں کہ اس حقیقت کو پہلی عالمی جنگ کے‬
‫بعد سمجھ لینا آسان تھا اور اسے یورپ کی اجتماعی‬
‫خود کشی کے طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ چنانچہ‬
‫مسلمانوں کا مشن ہے کہ و دنیا کو چھوڑ کر مراقبے‬
‫کرنے کی بجائے شریعت کے مثالیوں کو نافذ کرنے والے‬
‫عمل کے ذریعے زندگی کی الوہی جہت کا مشاہدہ‬
‫کریں‬

‫اسالم جدید مذہب ہے‬


‫اسالم کو جدید مذہب قرار دیتے ہوئے وہ کچھ یوں‬
‫رقم طراز ہیں۔ درحقیقت اسالم تو تمام اعترافی‬
‫مذاہب میں سب سے زیادہ عقلی اور ترقی یافتہ ہے۔‬
‫اس کی کڑی وحدت پرستی نے انسانیت کو اساطیر‬
‫کی خرافات سے نجات دالئی اور قرآن مسلمانوں کو‬
‫ہدایت کرتا ہے کہ و فطرت کا قریبی مشاہدہ اور غور و‬
‫فکر کریں نیز اپنے اعمال کا مستقبل تجزیہ کرتے‬
‫رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقلیت پسندانہ روح‬
‫جس نے جدیدیت کو جنم دیا ہے‪ ،‬حقیقت میں اسالم‬
‫سے نکلی تھی۔‬

‫انقالبی مسلم رہنما اور مصفنہ کے رائے‬


‫ماضی قریب اور حال کے معروف و انقالبی مسلم‬
‫رہنماؤں پر بھی مصنفہ نے رائے دی ہے۔ ان رہنماؤں کو‬
‫وہ لبرل‪ ،‬سکیولر اور بنیاد پرست کی تین حصوں میں‬
‫تقسیم کرتی ہیں۔‬

‫حسن البنا‬

‫مصر کے نوجوان اسکول ٹیچر حسن البنا ‪-1949‬‬


‫‪ 1906‬کے بارے میں لکھتی ہیں کہ انہوں نے ایک‬
‫تنظیم اخوان المسلون قائم کی اور اپنا پیغام تعلیم‬
‫یافتہ اشرافیہ کی بجائے عام لوگوں تک پہنچایا۔ جلد‬
‫ہی یہ تنظیم پورے مشرق وسٰط ی میں پھیل کر‬
‫عوامی تحریک بن گئی۔ ان کا نظریہ واحد ایسا نظریہ‬
‫تھا جومعاشرے کے تمام طبقوں کو متاثر کرنے کا اہل‬
‫تھا۔ حسن البنا جانتے تھے کہ مسلمانوں کو مغربی‬
‫سائنس اور ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اور یہ کہ انہیں‬
‫اپنے سیا سی او سماجی اداروں کی اصالح الزمی‬
‫کرنی چاہیے۔‬
‫جب حسن البنا نے نہر سویز کے عالقے میں‬
‫برطانویوں کو عیش و عشرت کے ساتھ رہتے ہوئے‬
‫دیکھا تو وہ مصری محنت کشوں کی المناک حالت‬
‫سے اس تضاد کو دیکھ کر روپڑے۔ حسن البنا نے عوام‬
‫میں ناانصافی اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے‬
‫اسالمی نظام کے نفاذ کو حل سمجھا۔ ادھر مسیحیت‬
‫نے جدیدیت کے مقابلے کے چیلنج کو قبول کیا تو‬
‫دوسری جانب مسلمانوں نے اس کا مقابلہ ایک سماجی‬
‫یا سیاسی جدوجہد اور کوشش (جہاد) کے ذریعے دیا۔‬
‫حسن البنا کا کہنا تھا کہ اسالم ایک مکمل طرز‬
‫(ضابطہ) حیات ہے اور مذہب کو مغرب کی طرح نجی‬
‫معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔‬

‫اخوان المسلمین کا کردار‬


‫کیرن آرم سٹرانگ لکھتی ہیں کہ اخوان المسلمین نے‬
‫نہ صرف نئے دور کی روح کے مطابق قرآن کی تعبیر‬
‫کرنے کی کوشش کی بلکہ مسلم امہ کے اتحاد‪ ،‬معیار‬
‫زندگی کو بہتر کرنے‪ ،‬معاشرتی انصاف کے حصول‪،‬‬
‫غربت‪ ،‬جہالت کے خالف جنگ اور غیر ملکی تسلط‬
‫سے مسلمان ملکوں کو آزادی دالنے کے لیے بھی‬
‫جدوجہد کی۔ نو آبادیاتی نظام کی حکمرانی اور‬
‫مغرب کی نقالی کی وجہ سے مسلمان اپنی بنیادی‬
‫اسالمی اقدار و تعلیمات سے ہٹ گئے تھے۔ جتنی‬
‫زیادہ انہوں نے دوسروں کی نقل کی وہ ثقافتی اعتبار‬
‫سے دوغلے ہوتے گئے۔‬

‫حسن البنا کا فالحی کردار‬

‫حسن البنا نے اپنے ساتھیوں کو تصوف کے طرز پر‬


‫رائج روایتی مشقوں اور تعلیمات کی بجائے اسکول‬
‫بنائے‪ ،‬ایک جدید اسکاؤٹ تحریک کی بنیاد رکھی‪،‬‬
‫محنت کشوں کے لیے شام کے اسکول کھولے اور سول‬
‫سروس کے امتحان کے لیے ٹیوٹوریل کالج قائم کیے۔‬
‫اخوانوں نے دیہی عالقوں میں کلینک اور ہسپتال قائم‬
‫کیے‪ ،‬کارخانے بنائے جہاں مسلمانوں کو سرکاری شعبے‬
‫کے مقابلے میں بہتر اجرت دی جاتی۔ وہاں صحت کی‬
‫انشورنس ہوتی اور چھٹیاں ملتیں۔ البنا نے مسلمانوں‬
‫کو جدید لیبر قوانین سکھائے تاکہ وہ اپنے حقوق کا‬
‫دفاع کرسکیں۔ دوسری جنگ عظیم تک اخوان کے‬
‫الکھوں ارکان تھے۔ ان کی کامیابی نے ثابت کیا کہ‬
‫دانشور اور سیکولر حکومت کچھ بھی کرتی رہے‬
‫عوام کی اکثریت جدید اور مذہبی ہونے کی خواہاں‬
‫تھی۔ اس انداز کی سماجی خدمات بہت سے جدید‬
‫اسالمی تحریکوں کی بھی خصوصیت بن گئی تھیں۔‬
‫جن میں شیخ احمد یاسین (حماس کے بانی) کی غزہ‬
‫میں قائم کردہ المجامعہ (اسالمی کانگرس) اہم تنظیم‬
‫ہے۔‬

‫جدید اسالمی ریاست یعنی کیا؟‬


‫نو آبادیاتی تجربے اور یورپ سے ٹکرائو نے اسالمی‬
‫معاشرے کو ہالکر رکھ دیا۔ مسلمانوں کے لیے یہ جاننا‬
‫دشوار تھا کہ مغرب کا جواب کیسے دیا جائے چونکہ‬
‫درپیش چیلنچ نیا تھا‪ ،‬اس کی پہلے کوئی نظیر نہیں‬
‫ملتی تھی۔ مغرب نے ترقی کے لیے سیاست اور مذہب‬
‫کو الگ کر دیا تھا اور مذہب کی جگہ قوم پرستی کو‬
‫فروغ دیا گیا تھا۔ پہلے تو اس نظریے نے یورپ کو‬
‫متحد رکھا مگر بعد ازاں یہ نظریہ بھی ناکام ہوا اور‬
‫‪ 1870‬میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہوئی جو دو عالمی‬
‫جنگوں کا باعث بنی۔ ہولوکاسٹ اور روسی گوالگ‬
‫‪ Gulag‬نے ثابت کیا کہ سیکولر نظریات قدیم مذہبی‬
‫تعصبات ہی کی طرح ہالکت انگیز ہیں۔ روشن خیال‬
‫فلسفیوں کا یہ نظریہ خام خیالی ثابت ہوا کہ قوم‬
‫جتنی تعلیم یافتہ ہوگی اتنی ہی مہذب‪ ،‬روادار اور‬
‫عقلیت پسند ہوگی۔‬

‫مسلمانوں کے سیاسی نظام کا مطلب‬

‫کرین اآرم سٹرانگ لکھتی ہیں کہ مسیحیوں کی طرح‬


‫مسلمانوں کے نزدیک سیاست ثانوی معاملہ کبھی بھی‬
‫نہ تھا۔ ہم دیکھ آئے ہیں کہ یہ تو ان کی مذہبی‬
‫جستجو کی آماجگاہ رہی تھی۔ اسالم میں نجات کا‬
‫مطلب صرف گناہ سے نجات نہیں تھا بلکہ ایک ایسے‬
‫منصفانہ معاشرے کی تخلیق بھی مقصود تھی جہاں‬
‫کوئی فرد آسانی سے اپنی پوری ہستی کو وجودی‬
‫اطاعت کے لیے وقف کر دے۔ جس سے اسے سکون و‬
‫طمانیت حاصل ہو۔ چنانچہ سیاست انتہائی اہم‬
‫معاملہ تھا اور پوری بیسویں صدی کے دوران ایک‬
‫حقیقی اسالمی ریاست کے قیام کے لیے یکے بعد دیگر‬
‫کوششیں کی جاتی رہیں۔ مگر ایسا ہمیشہ دشوار ہی‬
‫رہا۔ یہ تو ایک ایسی آرزو تھی جس کے لیے جہاد‬
‫ضروری تھا۔‬

‫سیکولرازم اور اسالم پر مغربی رائے کی غلطی‬

‫مصفنہ سیکولرازم اور اسالم کے بارے میں اپنے‬


‫مغربی معاشرے کی رائے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی‬
‫ہیں کہ یہ غلط تھا‪ ،‬جیسا کہ مغربی لوگ بعض اوقات‬
‫تصور کرتے ہیں اسالم مسلمانوں کے لیے ایک جدید‬
‫سیکولر معاشرے کو تخلیق کرنا ناممکن بنا دیتا ہے‬
‫بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسالمی دنیا میں سیکولرپذیری‬
‫کا عمل بہت مختلف رہا ہے۔ مغرب میں عمومی طور‬
‫پر موافق سمجھتے ہوئے اس کا تجربہ کیا گیا۔‬
‫ابتدائی ایام میں تو سیکولرازم کو جان الک (‪-1704‬‬
‫‪ )1632‬جیسے فلسفیوں نے مذہبی ہونے کا ایک نیا‬
‫اور بہتر طریقہ تصور کیا تھا‪ ،‬کیونکہ یہ مذہب کو‬
‫ریاستی گرفت سے آزاد کرواتا تھا اور اسے اپنے‬
‫روحانی آدرشوں کو سچائی کے ساتھ بروئے عمل النے‬
‫کے قابل بناتا تھا تاہم اسالمی دنیا میں سیکولرازم‬
‫میں مذہب اور مذہبی لوگوں کو ہمیشہ ہی تنقید اور‬
‫مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔‬

‫سیکولر مسلم حکمرانوں کے مظالم کا‬


‫تذکرہ‬
‫وہ سیکولر مسلم حکمرانوں کے مظالم کا تذکرہ کرتے‬
‫ہوئے مختلف حکمرانوں کی مثال یتے ہوئے لکھتی یں‬
‫کہ مذہبی لوگوں کو شدید مظالم کا شکار بنایا گیا۔‬
‫جن حکمرانوں کو وہ بطور مثال پیش کرتی ہیں ان‬
‫میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔‬

‫کمال اتاترک کے مظالم‬

‫اتاترک نے ترکی میں تمام مدارس کو بند کر دیا‪ ،‬تمام‬


‫صوفی سلسلوں کو دبایا اور ترکی کے مردوں اور‬
‫عورتوں کو مجبور کیا کہ وہ جدید مغربی طرز زندگی‬
‫اختیار کریں اور مغرب کے لوگوں جیسا لباس زیب تن‬
‫کریں۔‬

‫ایک اسالمی اسکالر خرم جاہ مراد مرحوم کا کہنا ہے‬


‫کہ ترکی میں نہ صرف یہ کہ لباس کو جبری طور پر‬
‫مغربی کروایا گیا بلکہ قوم پرستی کے دھارے میں بہہ‬
‫کر عربی اور اسالم سے بھی نفرت پیدا کی گئی۔ ترکی‬
‫میں ‪ 28‬برس تک اذان نہ ہو سکی۔ نمازوں پر پاببدی‬
‫عائد کی گئی مگر جب ‪ 28‬برس بعد اذان ہوئی تو‬
‫بچے‪ ،‬بوڑھے اورجوان مسجد کی جانب روتے ہوئے‬
‫بھاگے۔ بعد ازاں اذان کی پابندی ختم کرنے والے‬
‫حکمران کو فوج نے پھانسی دے دی تھی۔ ترکی نے‬
‫بیسویں صدی کی ابتدا میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ‬
‫ترقی مغرب کے طور طریقوں میں ہے لٰہ ذا وہاں پر‬
‫شادی و نکاح بھی مغربی طرز پر ہونے لگے چونکہ‬
‫اسالمی طرز کے ہر اقدام پر پابندی عائد تھی۔ (بحوالہ‬
‫عروج کا راستہ)‬

‫کیرن آرم سٹرانگ کا بھی تجزیہ ہے کہ ایسے اقدامات‬


‫ہمیشہ تخریبی ہوا کرتے ہیں اور ترکی میں بھی اس‬
‫قسم کی پابندیوں سے اسالم ختم نہیں ہوا بلکہ‬
‫زیرزمین چال گیا۔‬

‫حوالہ جات‬
‫‪Armstrong، Karen (2000). Islam: A Short .1‬‬
‫‪History. ISBN 0-8129-6618-X. Preface. xi‬‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪)&oldid=4639673‬اسالم_کی_مختصر_تاریخ_(کتاب=‪»title‬‬

‫اس صفحہ میں آخری بار مورخہ ‪ 22‬جون ‪2021‬ء کو ‪07:51‬‬


‫بجے ترمیم کی گئی۔ •‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 4.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like