You are on page 1of 3

‫ارطغرل غازی کے نام سے ایک ترک ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو زبان میں نشر کیا جا رہا

ہے۔‬
‫ترکی زبان کا لفظ ہے اور دو لفظوں "ار" اور ))‪ (Ertuğ rul‬عثمانی ترک زبان‪ :‬ارطغرل؛ ارطغرل( امیر غازی ارطغرل بن سلیمان شاہ قایوی ترکمانی‬
‫کے معنی عقاب پرندے کے آتے ہیں‪ ]2[،‬جو "‪ tuğ rul‬کے معنی آدمی‪ ،‬سپاہی یا ہیرو کے ہیں جبکہ "طغرل "‪" er‬طغرل" سے مل کر بنا ہے‪" ،‬ار‬
‫مضبوط شکاری پرندہ کے طور پر مشہور ہے‪ ] 3[،‬یوں "ارطغرل" کے معنی عقابی شخص‪ ،‬عقابی سپاہی یا شکاری ہیرو وغیرہ ہوں گے)[‪( ]4‬وفات‪:‬‬
‫‪1280‬ء) ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔[‪ ]5‬والدت کا زمانہ سنہ‬
‫‪1191‬ء کے آس پاس کا ہے جبکہ سنہ وفات ‪ 1281‬ء بتائی جاتی ہے اور مدفن اناطولیہ کے شہر سوغوت میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی ایک بہادر‪ ،‬نڈر‪،‬‬
‫بے خوف‪ ،‬عقلمند‪ ،‬دلیر‪ ،‬ایماندار اور بارعب سپاہی تھے۔ وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے۔ سلطان عالء الدین کیقباد اول نے ارطغرل کی‬
‫اعلی" کا عہدہ بھی دیا۔ اس‬ ‫ٰ‬ ‫خدمات سے متاثر ہو کر ان کو سوغوت اور اس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطا کیے اور ساتھ ہی "سردار‬
‫کے بعد آس پاس کے تمام ترک قبائل ان کے ماتحت آگئے تھے۔‬
‫ترک قبائل کی ایک بڑی شاخ جو غز ترک کے ‪ 24‬قبائل میں سے ایک ہے۔ قائی ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی )‪: Kayı boyu‬ترکی( قائی قبیلہ‬
‫ہیں "وہ شخص جس کے پاس قوت و اقتدار ہو"۔ یہ ایک خانہ بدوش اور جنگجو قبیلہ تھا۔قائی قبیلہ گیارہویں صدی میں وسط ایشیا سے اناطولیہ آیا جہاں‬
‫اس وقت سلجوقی سلطنت کی حکمرانی تھی۔ اس کے عالوہ قبیلہ کے بعض خاندان چودہویں صدی سے بلقان میں بھی آباد ہیں۔‬
‫قائی قبیلہ کا مرکز سمجھا‪ ƒ‬جاتا ہے۔ دولت عثمانیہ کے عثمانی سالطین کا شجرہ نسب اسی قبیلے سے جا )‪ (Bilecik‬موجودہ ترکی میں صوبہ بیلیجک‬
‫ملتا ہے۔‬
‫عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔ اس کے عالوہ ان کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات نہ‬
‫ہونے کے برابر ہیں۔‬
‫کئی صدیوں تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر حکمرانی کرنے والے اس خاندان اور سلطنت کا آغاز تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکا ہے۔ تاریخ‬
‫کی کتابوں میں عثمانی روایات کے عالوہ اس دور کی دو ٹھوس نشانیاں (ایک سکہ اور بازنطینی سلطنت کے مؤرخ کی ایک تحریر) اور عثمان کے‬
‫ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔‬
‫جو بات طے ہے وہ یہ کہ عثمان کا تعلق آج کے ترکی میں اناطولیہ کے عالقے میں آباد ترک خانہ بدوش قبیلے سے تھا اور اس کی حکومت اناطولیہ‬
‫کی چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں سے ایک تھی جن کی طاقت میں زیادہ فرق نہیں تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عثمان یا پھر ان کے والد نے ایسا کیا‬
‫کیا کہ صرف اسی خاندان کا راج قبیلے سے چھوٹی ریاست اور پھر اناطولیہ کی بڑی سلطنت بننے سے‪   ‬اور پھر خالفت میں تبدیل ہوا۔سلطنت عثمانیہ‬
‫کی بنیاد ‪ 14‬ویں صدی کے اوائل میں رکھی گئی اور یہ ‪ 20‬ویں صدی میں ختم ہوئی۔ اس دوران ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ‪ 37‬سلطان اس‬
‫کی مسند پر بیٹھے۔‬
‫ایک مؤرخ کے مطابق کسی خاندان کا مسلسل اتنی دیر حکومت کرنا معجزے سے کم نہیں ہے۔‬
‫مؤرخ کیروالئن فنکل اپنی کتاب ’عثمان کا خواب‪ :‬سلطنت عثمانیہ کی کہانی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’عثمانیوں کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ان‬
‫کی اناطولیہ (وہ عالقہ جو کسی حد تک آج کے ترکی کی حدود سے مطابقت رکھتا ہے) میں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دو صدیوں پر پھیلی ہوئی لڑائی‬
‫‘انتہائی سخت تھی۔‬
‫مؤرخ سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب ’سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اور جدید ترکی‘ میں اسی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’سلطنت عثمانیہ کی‬
‫شروعات تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ سے اہم سوال رہا ہے لیکن اس دور کے ذرائع کی کمی اور بعد کے ادوار میں لکھی گئی روایات میں‬
‫تضاد کی وجہ سے پورے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔‘انھوں نے اسی مشہور روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ عثمانیوں کا جد امجد سلمان شاہ‬
‫تھے جو قائی قبیلے کے سردار تھے اور ‪ 12‬ویں صدی کے آخر میں شمالی ایران کے ایک عالقے میں آباد رہےروایت کے مطابق منگول حملوں کے‬
‫پیش نظر دیگر بہت سے ترک قبائل کی طرح یہ قبیلہ بھی غالمی اور تباہی سے بچنے کے لیے نئے عالقوں کی طرف روانہ ہوا اور جے شا کے مطابق‬
‫خیال ہے کہ سلمان شاہ شام میں داخل ہوتے ہوئے دریائے فرات میں ڈوب گئے اور اس کے بعد ان کے دو بیٹے واپس چلے گئے۔جبکہ ارطغرل نے‬
‫مغرب کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اناطولیہ کے عالقے میں داخل ہوگئے جہاں سلجوق حکمرانوں نے ان کی مدد کے بدلے انھیں اناطولیہ کے‬
‫مغربی عالقے میں زمین دے دی۔جے شاہ کی کتاب میں درج اس روایت کے مطابق ارطغرل ‪ 1280‬میں چل بسے اور قبیلے کی قیادت ان کے بیٹے‬
‫عثمان کو مل گئی۔فنکل لکھتی ہیں کہ عثمانی روایات کے مطابق ارطغرل نامی ایک قبائلی سردار شمال مغربی اناطولیہ میں آ کر سلجوق اور بازنطینی‬
‫سلطنتوں کے بیچ کے عالقے میں آباد ہوا اور اس روایت کے مطابق سلجوق سلطان نے ارطغرل کو سوگت میں کچھ عالقہ عطا کیا تھا۔ لیکن ارطغرل کا‬
‫عثمان سے کیا تعلق تھا؟‬
‫نامعلوم تاریخ واال سکہ فنکل لکھتی ہیں کہ عثمان کے دور سے ملنے واال واحد سکہ اگر اصلی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ارطغرل یقینا ً‬
‫تاریخی شخصیت تھے۔ اس سکے پر درج ہے ’جاری کردہ برائے عثمان ولد ارطغرل‘ درج ہے۔‬
‫فنکل مزید لکھتی ہیں کہ عثمان کا اپنے نام پر سکہ جاری کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ اس وقت صرف ایک قبائلی سردار نہیں تھے بلکہ اناطولیہ میں اپنے‬
‫آپ کو سلجوق منگول سلطنت کے سائے سے باہر ایک خود مختار امیر سمجھنا شروع ہو چکے تھے۔‬
‫تاریخ میں عثمانیوں کا پہال ذکرفنکل لکھتی ہیں کہ عثمانیوں کا پہلی بار ذکر سنہ ‪ 1300‬کے قریب ملتا ہے۔اس وقت کے ایک بازنطینی‬
‫مؤرخ نے لکھا کہ سنہ ‪ 1301‬میں بازنطینی فوج کا سامنا عثمان نامی ایک شخص کی فوج سے ہوا۔ ’جنگ بافیوس‘ کہالنے والی یہ لڑائی قسطنطنیہ‬
‫(استنبول) کے قریب لڑی گئی تھی اور اس میں بازنطینی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔لیکن عثمانیوں کا بازنطینی سلطنت کی برابری کرنے میں ابھی‬
‫بہت وقت تھا۔ اور جب ایسا ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک خاندان کا اچانک گمنامی سے نکل کر اتنا آگے آنے کے بارے میں کئی کہانیوں نے بھی جنم لیا۔‬
‫مؤرخ کہتے ہیں کہ عثمانی اس لحاظ سے خوش قسمت‪ ƒ‬تھے کہ ان کا عالقہ قسطنطنیہ کے قریب تھا جس سے کبھی بھی کامیابی کی صورت میں بڑا‬
‫انعام یقینی تھا۔‬
‫عثمان کا خوابمؤر ُخ لیسلی پی پیرس نے اپنی کتاب ’دی امپیریل حرم‪ :‬ویمن اینڈ سوورینٹی اِن دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ‬
‫کے آغاز کے بارے میں سب سے زیادہ سنی جانے والی روایت کے مطابق عثمان نے اپنی ابتدائی کامیابیوں کے بعد ایک خواب دیکھا تھا۔‬
‫اس خواب میں انھوں نے دیکھا کہ ایک درویش شیخ ادیبالی کے سینے سے چاند نمودار ہوتا ہے اور اس کے اپنے سینے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے‬
‫ساتھ ہی اس پیٹ سے ایک بہت بڑا درخت نکلتا ہے جس کا سایہ پوری دنیا پر چھا جاتا ہے۔‬
‫اس درخت کی شاخوں کے نیچے چشمے بہتے ہیں جن سے لوگ پانی پیتے ہیں اور کھیت سیراب ہوتے ہیں۔ عثمان نے جب شیخ ادیبالی سے تعبیر‬
‫پوچھی تو انھوں نے کہا کہ خدا نے عثمان اور اس کی اوالد کو دنیا کی حکمرانی کے لیے چن لیا ہے اور انھوں نے کہا کہ ان کے سینے سے نکل کر‬
‫عثمان کے سینے میں داخل ہونے واال چاند ان کی بیٹی ہے اور جو اس خواب کے بعد عثمان کی اہلیہ بن گئیں۔‬
‫فنکل لکھتی ہیں کہ ابتدائی عثمانی سلطانوں کو اپنے آغاز کی تاریخ معلوم کرنے سے زیادہ دلچپسی دوسروں پر حکومت کے اپنے حق کو ثابت کرنے‬
‫میں تھی اور ان کے نزدیک ان کی سلطنت کا آغاز ایک خواب سے ہوا تھا جو عثمان نے ایک بزرگ درویش کے گھر میں قیام کے دوران دیکھا تھا۔‬
‫وہ مزید لکھتی ہیں کہ اس خواب کی کہانی کے حق میں دستاویزی ثبوت بھی تاریخ میں ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے‬
‫زمینوں کے کاغذات سے اندازہ ہوتا ہے کہ عثمان کے دور میں ادیبالی نامی بزرگ موجود تھے اور اس بات کی بھی کچھ شہادت‪ ƒ‬ہے کہ ان کی بیٹی‬
‫عثمان کی دو بیویوں میں سے ایک تھیں۔‬
‫ارطغرل کا اناطولیہارطغرل کا اناطولیہ ‪ 13‬ویں صدی کا اناطولیہ تھا۔کیروالئن فنکل لکھتی ہیں کہ جس اناطولیہ میں یہ ترک قبائل پہنچے تھے‬
‫وہاں بہت عرصے سے کئی نسلوں اور مذاہب کے لوگ آباد تھے جن میں یہودی‪ ،‬آرمینیائی‪ ،‬کرد‪ ،‬یونانی اور عرب شامل تھے۔اس عالقے کے مغرب‬
‫میں ماضی کے مقابلے میں بہت کمزور بازنطینی سلطنت تھی (جس کا اختیار اچھے دنوں میں اناطولیہ سے ہوتا ہوا شام تک تھا) اور مشرق میں سلجوق‬
‫جو اپنے آپ کو رومی سلجوق کہتے تھے۔‪ 13‬ویں صدی کے وسط میں منگولوں کے ہاتھوں شکست نے سلجوقوں کو کمزور کر دیا اور وہ منگولوں کو‬
‫نذرانے دینے پر مجبور ہو گئے تھے۔ ماضی کی دو طاقتور حکومتوں کا اختیار ان کی سرحدوں کے درمیان واقع ’غیر یقینی صورتحال‘ کے اس عالقے‬
‫میں نہ ہونے کے برابر تھا۔لیکن یہ صرف جنگجوؤں کی آماجگاہ نہیں تھا۔ مہم جوئی کرنے والوں کے عالوہ یہاں وہ لوگ بھی تھے جن کے پاس جانے‬
‫کے لیے کوئی اور جگہ نہیں تھی۔‬
‫فنکل ’فرنٹیئر‘ کے اس عالقے کی‪ ،‬جہاں سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی گئی‪ ،‬تصویر کھینچتی ہوئے بتاتی ہیں کہ ’۔۔۔ اس عالقے میں خانہ بدوشوں‪ ،‬نیم‬
‫خانہ بدوشوں‪ ،‬لٹیروں‪ ،‬فوجی مہمات کے شوقینوں‪ ،‬مختلف پس منظر والے غالموں‪ ،‬درویشوں‪ ،‬راہبوں اور بکھری ہوئی آبادیوں کے دورے کرتے‬
‫پادریوں‪ ،‬پناہ کی تالش میں نکلے ہوئے بے گھر کسانوں‪ ،‬شہر والوں‪ ،‬سکون اور مقدس مقامات کی متالشی بے چین روحوں‪ ،‬سرپرستی کے متالشی‬
‫‘مسلمان اساتذہ اور خطرات سے نہ ڈرنے والے تاجروں کی گزرگاہوں کے جال بچھے ہوئے تھے۔‬
‫فنکل لکھتی ہیں کہ اس بدانتظامی والے عالقے کی خاص بات مسلمان درویشوں کی موجودگی تھی۔ مسیحی راہبوں کی طرح وہ بھی ہر وقت سفر میں‬
‫رہتے یا پھر اپنے پیروکاروں کے درمیان قیام کرتے اور ان کی زندگی روایات کا حصہ بن گئی۔‬
‫‘درویشوں کی کھولیاں عالقے میں اسالم کی اس تصویر کی نشانی تھیں جو اناطولیہ میں سلجوقوں کی سلطنت کے سنی اسالم کے ساتھ عام تھا۔’‬
‫سٹینفورڈ جے شا اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ترک (خانہ بدوش) جب اناطولیہ آئے تو صوفی بزرگ بھی ان کے ساتھ ہی آ گئے جس پر طاقتور‬
‫‘سلجوق حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا کیونکہ وہ ان صوفیوں کی لوگوں میں مقبولیت کی وجہ سے اپنے عالقوں سے نکل جانے پر خوش تھے۔‬
‫جے شا مزید لکھتے ہیں کہ ’اس عمل میں کچھ مسیحی ہالک اور اپنا عالقہ چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے لیکن زیادہ تر اپنی جگہ پر رہے۔۔۔ کچھ نے‬
‫اسالم بھی قبول کیا۔۔۔ کچھ ترک صوفی سلسلے مسیحی مذہبی مقامات میں بھی داخل ہوئے جہاں مسیحی اور مسلمان ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر عبادت‬
‫‘کرتے نظر آتے تھے۔‬
‫ارطغرل کا مزارسوگت کے عالقے (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ارطغرل کو سلجوق سلطان سے مال تھا) میں ارطغرل کے نام کی ایک‬
‫چھوٹی سی مسجد اور ایک مزار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ارطغرل کے بیٹے نے ان کے لیے بنائی اور پھر جس میں عثمان کے بیٹے‬
‫ارہان نے اضافہ کیا۔‬
‫کیروالئن فنکل لکھتی ہیں کہ اس مسجد اور مزار پر اتنی بار کام ہوا ہے کہ اس کی پہلی تعمیر سے کوئی نشانی نہیں بچی اس لیے کسی عمارت کے‬
‫بارے میں پورے اعتبار سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عثمان کے دور کی ہے۔‬
‫انھوں نے مزید لکھا کہ ‪ 19‬ویں صدی کے آخر میں سلطان عبدالحمید دوم نے کمزور ہوتی سلطنت کی ساکھ‪ ƒ‬بہتر کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کی‬
‫شہرت کا سہارا لینے کی کوشش کی اور سوگت میں ارطغرل کا مزار از سر نو تعمیر کیا اور ’عثمانی شہیدوں‘ کا ایک قبرستان بنایا۔‬
‫ارطغرل کی زندگی پر ٹی وی ڈرامہ کیوں؟ امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں‬
‫‘شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اٹھایا کہ ’ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‬
‫جوش کارنی کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں سلطان سلیمان (‪ )1520-1566‬اور عبدالحمید دوم (‪ )1876-1909‬کی شہرت ارطغرل سے بہت زیادہ ہے‬
‫لیکن ارطغرل پر ٹی وی سیریل بننا بغیر وجہ نہیں۔‬
‫ترک ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کی دنیا بھر میں انتہائی کامیاب سیریز ’دیریلیس ارطغرل‘ ان کے قائی قبیلے کی اناطولیہ میں مختلف دشمنوں سے لڑتے‬
‫ہوئے پیشرفت‪ ƒ‬پر مبنی ہے۔‬
‫نتیجتا ً جبکہ تاریخی کردار ارطغرل کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ٹی آر ٹی کا کردار ترکی میں اور ترکی سے باہر مقبول ہے اور لوگ اس’‬
‫‘سے پیار کرتے ہیں۔‬
‫سنہ ‪ 2018‬میں لکھے گئے اس مضمون میں کارنی کہتے ہیں کہ اس سیریز کے کئی پہلو ترکی میں ہونے والے آئینی ریفرنڈنم کے اشتہاروں میں واضح‬
‫‘تھے جس سے ’کوئی شک نہیں رہتا کہ تاریخ اور پاپولر کلچر کو سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا کر دیا گیا ہے۔‬
‫کارنی کہتے ہیں کہ ایک ایسے کردار کے بارے میں ٹی وی سیریل بنانے میں‪ ،‬جسے لوگ نہیں جانتے ‘آسانی یہ ہے کہ اس کو کسی بھی رنگ میں‬
‫‘پیش کیا جا سکتا ہے۔۔۔ (جبکہ) مقبول شخصیات کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔‬
‫کارنی کہتے ہیں کہ اس سے پہلے سلطان سلیمان کے بارے میں سیریز اسی لیے اس طرح کامیاب‪ ƒ‬نہیں ہو سکی تھی۔ ’ارطغرل کے بارے میں سیریز‬
‫بنانا ایسے ہی تھا جیسے خالی سلیٹ پر مرضی کے رنگ بھرنا۔‬

‫مشرقی سلطنت روم۔ چوتھی صدی عیسوی میں سلطنت روم دو حصوں‪ ،‬مغربی اور مشرقی میں تقسیم ہو گئی۔ مشرقی حصہ اپنے دار الحکومت‪ ƒ‬بازنطین کے نام پر‬
‫بازنطینی سلطنت کہالیا۔ (‪330‬ء میں بازنطینی شہنشاہ قسطنطین نے بازنطیم کا نام اپنے نام پر قسطنطنیہ‪ ƒ‬رکھ دیا اور ‪1930‬ء میں ترکی حکومت نے بدل کر استنبول کر‬
‫دیا۔‬
‫بازنطینی سلطنت میں شام‪ ،‬ایشیائے کوچک‪ ،‬مصر‪ ،‬تھریس اوریونان کے ممالک شامل تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں بلقان کے سالؤ قبائل اور جرمنی کے ونڈال‬
‫قوموں نے قسطنطنیہ پر کئی حملے کیے۔ چھٹی صدی عیسوی اس کے عروج کا زمانہ تھا۔ خصوصا ً شہنشاہ جسٹینین کا دور حکومت‪ ƒ‬لیکن ساتویں صدی میں یہ زوال‬
‫پزیر ہوئی اور شمالی اطالیہ کے میدان لمبارڈی میں بسنے‪ ƒ‬والوں‪ ،‬ایرانیوں اور عربوں نے اس پر پے درپے حملے کیے جس کے باعث یہاں طوائف الملوکی اور انتشار‬
‫کا دور دورہ رہا۔ ساتویں صدی کے اختتام پر شمالی افریقا‪ ،‬مصر‪ ،‬شام‪ ،‬فلسطین اور قبرص وغیرہ عربوں نے قبضے میں چلے گئے اور بازنطینی سلطنت حقیقت میں‬
‫یونانی سلطنت بن کر رہ گئی۔ آخر ‪1453‬ء میں سلطنت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان محمد فاتح کی افواج نے قسطنطنیہ‪ ƒ‬فتح کر لیا اور آخری بازنطینی‪ ƒ‬بادشاہ قسطنطین‬
‫یاز دہم مارا گیا۔ فتح قسطنطنیہ سے زمانہ وسطی کا خاتمہ اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا۔‬

You might also like