You are on page 1of 26

‫سلطان صالح الدین ایوبی‪ :‬شیعہ فاطمی خلیفہ کے وزیر‬

‫سے صلیبی جنگوں کے ہیرو بننے تک‬


‫اسد علی‬ ‫‪‬‬
‫بی بی سی اردو‪ ،‬لندن‬ ‫‪‬‬

‫‪ 2‬اکتوبر ‪2020‬‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Culture Club/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صالح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر‬
‫میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے‬
‫میں'خون کا پیاسہ' اور شیطان کی اوالد!' کہا گیا تھا ‪20‬ویں اور ‪ 21‬ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔‬

‫وہ دو اکتوبر ‪ 1187‬کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا جب دنیا کے 'مذہبی دارالحکومت' اور سب سے 'متنازع' سمجھے‬
‫جانے والے شہر یروشلم میں تقریبا ً نو دہائیوں کے وقفے کے بعد سلطان صالح الدین ایوبی کی قیادت میں ایک بار پھر‬
‫مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا تھا۔‬

‫شہر کی فصیلوں پر ایوبی پرچم لہرایا گیا تھا اور مذہبی مقامات سے مسیحیت کی عالمات ہٹانے کا کام شروع کیا گیا تھا۔‬
‫ٹھیک ‪ 833‬برس قبل دو اکتوبر کی وہ رات شب معراج کی رات بھی تھی۔‬

‫یروشلم جنگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک محاصرے کے بعد شہر کے مسیحی منتظمین اور صالح الدین ایوبی کے‬
‫درمیان معاہدے کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ شہر کا ہر باسی معاہدے‪ o‬میں طے کی گئی رقم ادا کر‬
‫کے آزادی سے کسی دوسرے مسیحی عالقے میں جا سکتا تھا۔ جو لوگ پہلے ہونے والے ممکنہ ظلم کا سوچ کر پریشان‬
‫تھے اب اس فکر میں تھے کہ اپنی آزادی خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے الئیں۔‬

‫دو اکتوبر کے دن اور آنے والے کئی ہفتوں تک شہر سے لوگ رقم ادا کر کے جاتے رہے۔ جو نہیں‪ o‬ادا کر سکتے تھے‬
‫وہ مدد‪ o‬مانگتے رہے اور ان میں سے ہزاروں کی مدد خود سلطان صالح الدین ایوبی اور ان کے بھائی سیف الدین نے‬
‫ذاتی طور پر ان کا تاوان ادا کر کے کی اور بہت سے غربا کو شہر کے سابق مسیحی حکمرانوں کی درخواست پر بغیر‬
‫تاوان ادا کیے جانے دیا گیا۔‬

‫مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صالح الدین کی زندگی پر اپنی کتاب 'دی الئف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سالڈن (صالح الدین)'‬
‫میں لکھا ہے کہ 'یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے‪ o‬کو نہیں مال جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں‬
‫کے محاصرے کے دوران یروشلم کی خواتین نے اپنے بال کٹوا دیے‪ o‬تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں‬
‫نہ آئیں لیکن فلپس لکھتے ہیں کہ فتح اور یروشلم پر قبضے مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صالح‬
‫الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔۔۔سوال ذہن میں‬
‫اٹھتا ہے کہ ان کا یہ جذبہ سچا تھا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ وہ ان کو فروخت کر سکتے تھے یا اپنے فوجیوں‬
‫کے حوالے کر سکتے تھے۔'‬

‫یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صالح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر‬
‫میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے‬
‫میں'خون کا پیاسا' اور 'شیطان کی اوالد!' کہا گیا تھا‪ ،‬وہاں ‪ 20‬ویں اور ‪ 21‬ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔‬

‫یہ وہی یروشلم تھا جس کی سنہ ‪ 1099‬میں فتح کے بعد صلیبیوں کی یروشلم میں داخلے کے موقع پر یہاں ہر طرف‬
‫الشیں تھیں اور مرد‪ ،‬عورتیں اور بچے کوئی فاتحین کی تلواروں سے محفوظ نہیں تھا۔ مصنف جسٹن ماروزی نے اپنی‬
‫کتاب 'اسالمی سلطنتیں‪ 15 :‬شہر جو ایک تہذیب کو بیان کرتے ہیں' میں یروشلم کے بارے میں باب میں مسیحی ذرائع کا‬
‫حوالے دیتے‪ o‬ہوئے صلیبیوں کی فتح کے بعد شہر کے مناظر بیان کیے ہیں۔ انھوں نے صلیبیوں کے رویے کی مثال کے‬
‫طور پر ان کے ایک عہدیدار کا بیان نقل کیا 'زبردست مناظر تھے۔ ہمارے فوجیوں نے دشمنوں کے سر قلم کر دیے۔۔۔۔۔۔‬
‫کچھ کو زیادہ تکلیف دینے کے لیے آگ میں جھونکا گیا۔ گلیوں میں سروں‪ ،‬کٹے ہوئے پیروں اور ہاتھوں کے ڈھیر تھے۔'‬

‫سلطان صالح الدین ایوبی کا چیلنج یروشلم کی فتح پر ختم نہیں ہوا بلکہ انھیں اندازہ تھا کہ اب مسیحی دنیا جس پر یروشلم‬
‫جیسے مقدس شہر کے ہاتھ سے نکلنے کی خبر بجلی بن کر گری ہو گی اس کو واپس حاصل کر نے کی کوشش کرے‬
‫گی۔‬

‫سنہ ‪ 1187‬میں یروشلم کی فتح سے تیسری صلیبی جنگ میں اس کے کامیاب دفاع کا باب تقریبا ً پانچ برسوں پر محیط‬
‫ہے‪ ،‬وہ صلیبی جنگ جس میں مغربی یورپ کے بڑے بڑے بادشاہ خود شریک ہوئے اور یورپ بھر سے لوگوں کو‬
‫جنگ میں شرکت پر مائل کرنے کے لیے سلطان کی بدترین سے بدترین شبیہ پیش کی گئی لیکن جنگ کے لیے آنے‬
‫والے نہ صرف یروشلم حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ سلطان کی ایک مختلف تصویر لے کر واپس گئے جو تمام تر‬
‫پراپیگنڈے کے باوجود آج تک قائم ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪DEA / G. DAGLI ORTI/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫صالح الدین ایوبی کی یروشلم آمد کے بارے میں ‪ 20‬ویں صدی کی ایک پینٹنگ‪o‬‬

‫مثال کے طور پر اس اکتوبر ہی میں ناروے میں 'سیالڈن ڈے' (یوم صالح الدین) منایا جائے گا۔ بی بی سی اردو سروس‬
‫نے ناروے کے ایک ادارے ہاؤس آف لٹریچر سے رابطہ کیا جو سنہ ‪ 2009‬سے 'بین االقوامی سیالڈن ڈے' منا رہا ہے‪،‬‬
‫اور ان سے پوچھا کہ ناروے میں کسی کو صالح الدین ڈے منانے کا خیال کیسے آیا؟‬

‫اس ادارے کی رکن اور صالح الدین ڈے کی کیوریٹر اشلد الپےگارد الہن نے بتایا کہ اس خیال کا پہلی بار اظہار سنہ‬
‫‪ 2008‬میں ناروے کے ایک قومی شاعر ہینریک ویرگے لیند کی ‪ 200‬سالہ تقریبات کے دوران کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا‬
‫کہ ہینریک ویرگے لیند وہ شاعر تھے جنھوں نے ناروے کے آئین میں اس ترمیم کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا‬
‫کیا تھا جس کے بعد یہودیوں کو اس ملک میں آنے کی اجازت ملی تھی۔ وہ مذہبی رواداری کی عالمت سمجھے جاتے‬
‫ہیں۔‬

‫اشلد الہن نے بتایا کہ سنہ ‪ 2008‬میں اس تقریب کے دوران ناروے کے ایک مصنف تھوروالد سٹین نے تجویز پیش کی‬
‫کہ ویرگے لیند کی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں صالح الدین کی یاد میں بھی ایک دن منانا چاہیے کیونکہ انھوں‬
‫نے یروشلم کی فتح کے موقع پر جس کردار کا مظاہرہ کیا تھا وہ یہودیوں‪ ،‬مسیحیوں اور مسلمانوں کے مل کر رہنے کے‬
‫بارے میں ایک سبق ہے۔‬

‫یہ بھی پڑھیے‬

‫ارطغرل اصل میں کون تھے؟‬

‫سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا‬

‫اشلد الہن نے بتایا کہ 'ناروے کی طرح شاید یورپ میں بھی بہت کم لوگ صالح الدین کے بارے میں جانتے ہیں اور جو‬
‫جانتے بھی ہیں‪ ،‬ان کی نظر میں وہ ان کا موازنہ (صلیبی جنگوں کے یورپ میں ہیرو) رچرڈ شیردل سے کرتے ہیں اور‬
‫ان کے خیال میں صالح الدین ایک ِولن ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ 'صالح الدین ڈے' کے ذریعے ہم پیغام دینا چاہتے ہیں‬
‫کہ ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں۔'‬

‫بات صرف ناروے کی نہیں برطانیہ کی شاہی بحریہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک جنگی جہاز کو 'ایچ ایم ایس‬
‫سیالڈن' کا نام دیا اور پھر سنہ ‪ 1959‬اور ‪ 1994‬کے درمیان برطانوی فوج نے 'سیالڈن' کے نام سے ایک بکتر بند گاڑی‬
‫بھی بنائی۔ یہ وہی برطانیہ ہے جہاں سے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل نے تیسری صلیبی جنگ میں مسیحی فوج کی‬
‫قیادت کی تھی۔‬

‫جانتھن فلپس لکھتے ہیں کہ 'میں کہوں گا کہ تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال تالش کرنا ناممکن ہے جس میں ایک شخص‬
‫نے کسی قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اتنی چوٹ پہنچائی ہو اور پھر بھی وہ ان میں مقبول ہو گیا ہو۔'‬

‫یروشلم کو مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے یورپ سے پہنچنے والی فوج اور سلطان صالح الدین کے‬
‫درمیان تقریبا ً تین برس پر پھیلے ٹکراؤ (تیسری صلیبی جنگ) کی تفصیالت کے ذکر سے پہلے بات کریں گے صالح‬
‫وسطی کے لوگوں کی یروشلم کی‬
‫ٰ‬ ‫الدین اور ان کے خاندان کے ماضی کی اور جہاد کے اس ماحول کی جس میں مشرق‬
‫بحالی کی توقعات ان سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ ‘‬

‫مزید پڑھیے‬

‫صالح الدین ایوبی‪ :‬دریائے نیل میں پانی آنے کا جشن اور قرآن خوانی‬

‫اصل ڈریکوال کون تھا اور اس کا سلطنت عثمانیہ سے کیا جھگڑا تھا؟‬

‫تاہم اس شخص کو جس نے ‪ 800‬سال پہلے مغرب کو شکست دے کر یروشلم کو فتح کیا تھا ایک مثالی کردار کے طور‬
‫پر یاد کیا گیا۔ برطانیہ کی رائل نیوی نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک جنگی جہاز کو ’ایچ ایم ایس سیالڈن‘ کا نام‬
‫دیا اور پھر سنہ ‪ 1959‬اور ‪ 1994‬کے درمیان برطانوی فوج نے ’سیالڈن‘ کے نام سے ایک بکتر بند گاڑی بھی بنائی۔ یہ‬
‫وہی برطانیہ ہے جہاں سے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل نے تیسری صلیبی جنگ میں مسیحی فوج کی قیادت کی تھی۔‬
‫سلطان صالح الدین ایوبی کے اعزاز میں انگلینڈ کی فوجی بکتر بند گاڑی ملک کے نورفوک ٹینک میوزیم میں رکھی ہے۔‬
‫میوزیم سے رابطے پر انھوں نے تصدیق کی اس بکتر بند گاڑی کا نام ’سیالڈن‘ سلطان صالح الدین کے نام پر ہی رکھا‬
‫گیا ہے۔‬

‫جانتھن فلپس لکھتے ہیں کہ ’میں کہوں گا کہ تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال تالش کرنا ناممکن ہے جس میں ایک شخص‬
‫نے کسی قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اتنی چوٹ پہنچائی ہو اور پھر بھی وہ ان میں مقبول ہو گیا ہو۔‘‬

‫سلطان صالح الدین ایوبی کا سنی اسالمی دنیا کے روحانی رہنما بغداد کے خلیفہ اور مصر کے اسماعیلی شیعہ فاطمی‬
‫خلیفہ کے ساتھ تعلق خاص اہمیت کا حامل ہے اور آخر میں ان کا ذکر ایک اور مسلمان سلطان نور الدین زنگی کے ذکر‬
‫بغیر نامکمل ہے۔ ایوبی اور زنگی خاندانوں کے عروج کی کہانی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہے اور اس میں ایوبی‬
‫خاندان زنگی خاندان کے تابع تھا۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صالح الدین کی سلطنت کے شمالی افریقہ سے شروع ہو کر مقدس مقامات اور شام کو اپنے‬
‫اندر سموتے ہوئے آج کے عراق میں دریائے دجلہ تک اپنی سرحدیں پھیالنے‪ o‬کے عمل میں حیران کن حد تک مختلف‬
‫مذہبی‪ ،‬نسلی اور سیاسی پس منظر کے لوگ شامل تھے۔ ان کی کہانی خونی جنگوں سے بھری ہے لیکن یہ جنگیں ہمیشہ‬
‫سیدھا سیدھا ایک مذہب کی دوسرے مذہب سے لڑائی نہیں‪ o‬تھی۔’‬

‫مزید پڑھیے‬

‫صالح الدین ایوبی نے یہ کہا بھی تھا یا نہیں!‪o‬‬

‫سلطنت عثمانیہ‪ :‬جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے ‪ 19‬بھائی مروا دیے‘‪o‬‬

‫حوریم سلطان سے قُسم سلطان‪ :‬بازار میں بِکنے سے عثمانی سلطانوں کی مائیں بننے‪ o‬تک‬

‫’اس کہانی میں مسیحی مسیحیوں سے اور مسلمان مسلمانوں سے لڑتے ہوئے ملیں گے۔ اس میں مسلمان اور مسیحی مل‬
‫کر دوسرے مسلمانوں اور مسیحیوں سے لڑتے ہوئے ملیں گے۔‘ اس کہانی میں لوگوں نے پارٹیاں بھی بدلیں اور لڑائی‬
‫نئے روپ میں اب بھی جاری رہی۔‘‬

‫’اس وقت بھی آج کی طرح کسی بھی معاملے میں زمینی صورتحال اس تصویر سے بہت مختلف اور الجھی ہوئی تھی‬
‫جو کہ دور سے نظر آتی ہے۔ نسلی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬اقتصادی اور ذاتی مفادات کی کھچڑی تھی جو صرف مذہبی عقائد کی بنیاد‬
‫پر نہیں کھڑی تھی۔‘‬

‫ایوبی اور زنگی بزرگوں کی مالقات‪ :‬احسان کا بدلہ احسان‬


‫اس کہانی کی بنیاد سنہ ‪ 1132‬میں صالح الدین ایوبی کی پیدائش سے بہت پہلے رکھی گئی تھی جب ان کے والد نجم‬
‫الدین ایوب عراق کے شہر تِکریت کے گورنر تھے۔ فلپس کے مطابق ایک روز زنگی نامی ایک طاقتور ترک جنگجو‬
‫سردار دشمنوں سے بچتے ہوئے دریائے دجلہ کے کنارے ان کے شہر کے دروازے پر آئے۔ ایوب نے انھیں پناہ دی اور‬
‫ان کا یہی فعل بعد میں تاریخی ثابت ہوا۔‬

‫کئی برس بعد سنہ ‪ 38-1137‬میں نجم الدین ایوب کے بھائی شیرکوہ نے ایک عورت کی توہین کرنے پر ایک مقامی‬
‫فوجی کمانڈر کو ہالک کر دیا اور اس کی پاداش میں نہ صرف ایوب سے عہدہ چھن گیا بلکہ پورے خاندان کو عالقہ بھی‬
‫چھوڑنا پڑا۔ اس وقت ترک سردار زنگی نے پرانے احسان کے بدلے اس کرد خاندان کو موصل میں بسایا اور انھیں‬
‫زمینیں بھی االٹ کر دیں۔‬
‫فلپس لکھتے ہیں کہ انھی دنوں میں نجم الدین ایوب اور ان کے خاندان کے تکریت چھوڑنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے‬
‫صالح الدین کی پیدائش ہوئی تھی۔‬

‫سردار زنگی کے عالقے کے مسلمان حکمرانوں سے تو جھگڑے تھے ہی لیکن ان کے عزائم نے انھیں فرنجیوں‬
‫(الفرنجہ‪/‬فرینکس) کے سامنے بھی ال کھڑا کیا۔ یہ وہ مسیحی تھے جنھوں نے سنہ ‪ 1099‬کی پہلی صلیبی جنگ کے بعد‬
‫یورپ سے آ کر اس عالقے میں آزاد ریاستیں قائم کی تھیں۔ ان مسیحیوں کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے جہاد کا پہلو اہم ہو‬
‫گیا۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ سنہ ‪ 1105‬دمشق میں ایک عالم السلیمی نے جہاد کی تبلیغ کی تھی اور مسلمان اشرافیہ کو اسالم کے‬
‫اس پہلو کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا پیغام آہستہ آہستہ زور پکڑتا گیا اور پھر ‪ 1140‬کی دہائی میں‬
‫دمشق کے ایک مدرسے کی دیوار پر زنگی کے لیے مجاہد اور سرحدوں کے محافظ کے الفاظ لکھے ہوئے نظر آئے۔‬
‫انھوں نے سنہ ‪ 1144‬میں الرُّ هَا شہر بھی فرینکس کے قبضے سے چھین لیا جس پر انھوں نے پہلی صلیبی جنگ کے‬
‫دوران قبضہ کیا تھا۔ اس کامیابی پر انھیں بغداد‪ o‬میں خلیفہ کی طرف سے سند بھی ملی۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪LOUAI BESHARA/Getty Images‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫دمشق میں بیمارستان النوری‪ :‬نور الدین زنگی کے دور میں ‪12‬ویں صدی میں بنایا گیا ہسپتال‬

‫نور الدین زنگی اور جہاد‬


‫سنہ ‪ 1146‬میں سردار زنگی کے اچانک انتقال کے بعد ان کی جگہ ان کے چھوٹے بیٹے نور الدین زنگی نے لی جو آئندہ‬
‫‪ 30‬برسوں تک بہت بڑی صلیبی مخالف قوت بن کر ابھرے۔ صالح الدین کی زندگی پر ان کا بہت اثر تھا۔ نورالدین نے‬
‫خطے میں جہاد کی ایسی بنیاد ڈالی جسے پھر صالح الدین ایوبی آگے لے کر چلے۔ جہاد کے جذبے میں شدت کے ساتھ‬
‫ساتھ مسلمانوں میں دوبارہ فتح کی خواہش بھی پیدا ہو گئی۔‬

‫سنہ ‪ 1160‬کی دہائی کے دوران صالح الدین اپنے بھائی تران شاہ کی جگہ دمشق کے پولیس چیف بنے اور اس طرح‬
‫انھیں انتظامیہ کا کچھ تجربہ حاصل ہوا۔ اس دوران وہ اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے نورالدین زنگی کے‬
‫قریبی حلقوں کا حصہ بن چکے تھے اور حکمرانی کے طور طریقوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع مال۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ 'نور الدین عظیم حکمران تھے اور ہوشیار کرد نوجوان کے لیے بہترین‪ o‬مثال۔'‬

‫فرینکس‪ ،‬زنگی اور مصر کی کشش‬


‫تقریبا ً دو صدیوں سے اسماعیلی شیعہ فاطمی خالفت کے ِ‬
‫زیر کنٹرول مصر خطے کا دولت مند عالقہ تھا۔ وقت گزرنے‬
‫کے ساتھ ساتھ فرینکس اور دمشق کے حکمران نورالدین زنگی کو احساس ہو گیا کہ فاطمی خالفت کمزور ہو رہی ہے‬
‫اور جو اس پر قبضہ کرے گا وہ دوسرے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‬

‫’جو بھی مصر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا وہ اس دولت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی بحیرۂ روم کو بھی‬
‫کنٹرول کرتا۔‘‬

‫اس چیز کا سب سے زیادہ احساس شیرکوہ کو تھا جنھوں نے نورالدین زنگی کو مصر فوج بھیجنے‪ o‬پر آمادہ کر لیا۔‬
‫فرینکس بھی خاموش نہیں‪ o‬رہ سکتے تھے اور دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ یہ پہال موقع ہے جب صالح الدین کسی میدان جنگ میں قائدانہ کردار میں سامنے آتے ہیں۔ شیرکوہ‬
‫نے انھیں مرکزی دستوں کا کمانڈر بنایا جسے فرنگیوں کے زوردار گھڑسوار دستوں کا سامنا کرنا تھا۔ انھیں حکم تھا کہ‬
‫حملہ ہوتے ہی وہ درمیان سے جگہ چھوڑ دیں گے اور جب مسیحی گھڑسواروں کی تنظیم خراب ہو گی تو شیرکوہ اپنے‬
‫گھڑسواروں کے ساتھ دوسری جانب سے حملہ کر دیں گے۔‬

‫منصوبہ کامیاب رہا اور مسیحیوں کے کمانڈر قیدی بنا لیے گئے۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Ipsumpix/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫مصر میں صالح الدین کا دور ان کی آنے والی کامیابیوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بحیثیت وزیر ان کےدور کی پہچان‬
‫ان کی سخاوت‪ ،‬خوش قسمتی‪ ،‬قوت ارادی اور دیگر بڑے حکمرانوں کی طرح ایک بڑا منصوبہ تھا‬

‫ایوبی خاندان کی ترقی‬


‫دریں اثنا ایوبی خاندان ترقی کرتا رہا اور سنہ ‪ 38-1137‬میں زنگی سے پناہ حاصل کرنے والے ‪ 1157‬میں نورالدین‬
‫زنگی کے سب سے قابل اعتبار ساتھیوں میں شامل تھے۔‬

‫عظمی‬
‫ٰ‬ ‫عظمی کی لڑائی نے نورالدین زنگی کو مصر کی سیاست میں مداخلت کا موقع دے دیا۔ وزارت‬
‫ٰ‬ ‫ت‬
‫مصر میں وزار ِ‬
‫کی لڑائی میں بڑی تعداد‪ o‬میں اہم لوگ متحارب دھڑوں کے ہاتھوں ہالک ہوئے اور یہ فاطمی سلطنت کے لیے آگے چل‬
‫کر بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔‬
‫انھوں نے لکھا ہے کہ ’یہ وہ زمانہ تھا جب ہم صالح الدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ ان کی مصروفیات کیا‬
‫تھیں۔‘ عام خیال ہے کہ ان کا زیادہ وقت دمشق میں پولو کھیلتے‪ o‬اور شکار کرتے گزرتا ہوگا اور یقینا ً انھوں نے کچھ‬
‫فوجی مہمات میں بھی اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ حصہ لیا ہوگا۔ انھوں نے دمشق میں شدت اختیار کرتا جہادی ماحول‬
‫بھی دیکھا ہوگا۔‬

‫صالح الدین شیعہ فاطمی خلیفہ کے وزیر‬


‫تاریخ بتاتی ہے کہ دو سال میں دو بار شیرکوہ کی قیادت میں فوج نے مصر کو مسیحی فوج کے حملے سے بچایا۔ فاطمی‬
‫خلیفہ العاضد نے ‪ 1169‬میں شیرکوہ سے مالقات کے بعد نہ صرف انھیں اپنا وزیر بنا لیا بلکہ فوج کی کمان بھی انھیں‬
‫سونپ دی۔ غیرملکی اور غیر شیعہ اس سے پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے تھے لیکن ایک فاتح فوج کے سپہ‬
‫ساالر کو یہ عہدہ دیا جانا نئی بات تھی۔‬

‫نورالدین کے لیے یہ ایک نئی صورتحال تھی۔ وہ مصر کو مسیحیوں کے ہاتھوں میں جاتا تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن‬
‫اب ان کے شیرکوہ کے ساتھ تعلق پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ’نورالدین نے شیرکوہ اور صالح الدین کی شام میں جاگیریں‬
‫ختم کر دیں لیکن شیرکوہ اس کے بعد زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور بیماریوں کا شکار ہو کر اسی سال ‪ 1169‬میں انتقال کر‬
‫گئے۔‘‬

‫اس بار فاطمی خلیفہ نے صالح الدین کو منتخب کیا ’کیونکہ ان میں شاہانہ صفات کے ساتھ ساتھ فقیر کی عاجزی بھی‬
‫تھی۔‘ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ فاطمی خلیفہ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جسے وہ سیاسی طور پر کمزور‬
‫سمجھتے تھے اور جسے اُن کا خیال تھا وہ اپنے زیر اثر رکھ سکیں گے۔ اگر واقعی انھوں نے ایسا سوچا تھا تو تاریخ‬
‫نے انھیں غلط ثابت کیا۔‬

‫مزید پڑھیے‬

‫سنہرا اسالمی دور‪ :‬امام بخاری اور ان کی علمیت پسندی‬

‫خلیفہ ہارون الرشید کی زندگی کی کہانی‪ :‬کتنی حقیقت‪ ،‬کتنا افسانہ؟‬

‫مصر میں صالح الدین کا دور ان کی آنے والی کامیابیوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بحیثیت وزیر ان کے دور کی پہچان‬
‫ان کی سخاوت‪ ،‬خوش قسمتی‪ ،‬قوت ارادی اور دیگر بڑے حکمرانوں کی طرح ایک بڑا منصوبہ تھا۔ برسوں بعد‪ o‬اس دور‬
‫کے مؤرخ بہاؤالدین نے لکھا کہ وزیر بننے پر انھوں نے شراب اور ’وقت ضائع کرنے والے مشاغل چھوڑ دیے‪ o‬تھے۔‘‬

‫صالح الدین اور سنی اسالم‬


‫صالح الدین کو جلد ہی خزانے پر بھی اختیار مل چکا تھا۔ انھوں نے سنی انتظامیہ کے فروغ کے لیے کافی کام کیا۔ انھوں‬
‫نے شافعی مدرسے بنوائے۔ جب قاہرہ کے شیعہ قاضی تبدیل ہوئے تو ان کی جگہ بھی ایک سنی قاضی نے لی۔ قاہرہ میں‬
‫ایک نئی اشرافیہ جگہ بنا رہی تھی۔ صالح الدین کا حلقہ وسیع ہو رہا تھا۔‬

‫تاہم مصر پر فرنگی‪ ،‬آرمینیائی اور نوبیا کے فاطمی مخالفین کے حملے کا خطرہ بدستور موجود تھا۔ صالح الدین نے‬
‫قاہرہ کی تقریبا ً سو سال پرانی دیواروں کی مرمت کروائی۔ ایوبی قاہرہ کا مذہبی اور سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل نہیں کر‬
‫رہے تھے بلکہ اس کی شکل صورت بھی بدل رہے تھے۔‬

‫تاہم اسی زمانے میں خلیفہ بیمار پڑ گئے۔ اس وقت تک ایوبی خاندان نے مصر میں بہت کچھ تبدیل‪ o‬کر دیا تھا‪ ،‬خلیفہ کی‬
‫عمالً گرفت کمزور ہو چکی تھی لیکن ان کے مذہبی منصب سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس ماحول میں ایران سے‬
‫مصر آنے والے ایک عالم نے منبر سے تین ستبر سنہ ‪ 1171‬کو بغداد کے خلیفہ کے لیے دعا کروا دی۔ اس پر کوئی رد‬
‫عمل نہ دیکھ کر صالح الدین کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی اور انھوں نے آئندہ جمعے سے قاہرہ اور فسطاط کی تمام‬
‫مساجد سے ایسا ہی کرنے کا حکم دے دیا۔‬

‫صالح الدین اور ان کے ساتھیوں کی توقعات کے برعکس اس بار پھر کوئی ردعمل نھیں تھا اتنی بڑی تبدیلی پر یہ‬
‫خاموشی بظاہر حیران کن لگتی ہے۔ لیکن اس زمانے میں فرقہ وارانہ تقسیم اتنی شدید نھیں تھی۔ اس وقت بغداد میں رہنے‬
‫والے ایک شیعہ عالم ابو تراب نے صالح الدین کو برا بھال ضرور کہا تھا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھی دنوں میں‬
‫صالح الدین کی سوانح لکھنے والے ابن ابی طیب شیعہ تھے اور ان کے مداح تھے۔ اس کے عالوہ اس وقت مصر کی‬
‫آبادی کا ایک بڑا حصہ سنی تھا۔ اسکندریہ میں دہائیوں سے سنی مدرسے قائم تھے۔‬

‫مزید پڑھیے‬

‫وسطی کی فارسی شاعرائیں جنھوں نے محبت کو ایک نئی زبان دی‬


‫ٰ‬ ‫قرون‬

‫جب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا تو مسلمان دانشور کاغذ استعمال کرتے تھے‬

‫فسطاط اکثریتی طور پر سنی شہر تھا جہاں یہودی‪ ،‬قبط‪ ،‬مغربی‪ ،‬سوڈانی اور غیرملکی تاجر بھی رہتے تھے۔ قاہرہ میں‬
‫آرمینیائی‪ ،‬ترک غالم دستے موجود تھے اور فاطمی خود کئی بار شمالی افریقی بربروں کا سہارا لے چکے تھے۔ ان‬
‫اہل تسنن کے درمیان حدود کو مبہم کر چکے تھے۔‬‫حقیقتوں کی روشنی میں فاطمی اسماعیلی خلیفہ اہ ِل تشیع اور ِ‬

‫فاطمی خلیفہ العاضد کی صحت اتنی خراب تھی کہ کسی نے انھیں خطبے کی تبدیلی سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جلد‬
‫ہی ان کا بغیر یہ جانے انتقال ہو گیا کہ ان کے دارالحکومت میں کسی اور کے نام کا خطبہ پڑھا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ‬
‫ہی فاطمی خالفت ختم ہو گئی۔‬

‫مصر میں اب اصل طاقت صالح الدین تھے۔ وہ خلیفہ العاضد کو اچھا اور سخی انسان سمجھتے تھے۔‬

‫مصر کے وزیر صالح الدین نے خلیفہ کے بیٹے‪ o‬سے مالقات کی اور انھیں کہا کہ ’خالفت کے معاملے میں آپ کے والد‬
‫کا ایجنٹ ہوں اور انھوں نے آپ کی وراثت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی‘۔ اس طرح وہ اپنے والد کے بعد‪ o‬خلیفہ‬
‫نہیں بن سکے۔‬

‫مصر میں اب سکوں پر بغداد کے خلیفہ اور نورالدین زنگی کا نام نظر آنے لگا۔ بغداد سے نورالدین اور صالح الدین‬
‫ایوبی کے لیے خلعتیں روانہ کی گئیں۔ شعراء نے دونوں کی شان میں قصیدے لکھے۔ یہ صالح الدین کے لیے نیا میدان‬
‫تھا۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Print Collector/getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫جرمنی کے بادشاہ فریڈرک بارباروسا تیسری صلیبی جنگ کے لیے یروشلم روانہ ہونے سے پہلے‪ o:‬یاد رہے جرمن‬
‫بادشاہ کی یروشلم پہنچنے سے پہلے ہی اچانک موت واقع ہو گئئ تھی‬

‫صالح الدین کا بیٹا اور جرمنی کے بادشاہ کی بیٹی‬


‫تاریخ بتاتی ہے کہ صالح الدین کے بڑھتے ہوئے رتبے کا مغرب میں بھی نوٹس لیا گیا۔ جرمنی کے بادشاہ فریڈرک‬
‫بارباروسا نے سنہ ‪ 1172‬میں انھیں قاہرہ میں تحائف بھیجے۔ سلطان صالح الدین کی طرف سے بھی ‪ 1173‬کی خزاں‬
‫میں جرمنی میں شاہی دربار میں تحائف پیش کیے گئے۔ فلپس لکھتے ہیں کہ ان دنوں صالح الدین کے ایک بیٹے اور‬
‫فریڈرک کی بیٹی کی شادی کا بھی ذکر ہوا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جرمن بادشاہ نے صالح الدین سے نورالدین کا‬
‫ذکر کیے بغیر خود مختار حکمران کے طور پر رابطہ کیا۔‬
‫مؤرخ جانتھن فلپس کہتے ہیں کہ صالح الدین اور بادشاہ فریڈرک کے درمیان رابطے صلیبی جنگوں کے زمانے میں‬
‫مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔ انھوں نے لکھا یہ سچ ہے کہ‬
‫دونوں فریق وسیع تناظر میں ان رابطوں کے ذریعے‪ o‬اپنے لیے بہتر پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اس‬
‫کے باوجود یہ رابطے اہم تھے۔‬

‫تاریخ بتاتی ہے کہ انھی دنوں میں سٹراسبورگ سے ایک جرمن پادری نے بھی مصر اور شام کا دورہ کیا اور مذہبی‬
‫مقامات پر گئے جن میں سے کئی ایسے تھے جنھیں مسلمانوں اور مسیحی دونوں مقدس سمجھتے تھے۔ انھوں نے‬
‫مصری قبطیوں‪ ،‬شامی مسیحیوں اور ان کے مسلمان حکمرانوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر کیا۔‬

‫اس کا نتیجہ جرمنی کے بادشاہ کا صالح الدین کے ساتھ سمجھوتے کی صورت میں سامنے آیا جو سنہ ‪ 1188‬تک قائم‬
‫رہا جب فریڈرک نے تیسری صلیبی جنگ کا عزم کیا۔ فریڈرک نے اس موقع پر تعلقات کے خاتمے کا باقاعدہ اعالن کیا۔‬

‫نور الدین کے ساتھ رشتے میں پہلی دراڑ‬


‫ان کا سب سے اہم سیاسی رشتہ نورالدین کے ساتھ تھا‪ ،‬جس میں پہلی بڑی دراڑ سنہ ‪ 1171‬میں اس وقت آئی جب‬
‫نورالدین نے ایک محاذ پر جاتے ہوئے انھیں بھی ساتھ طلب کیا مگر صالح الدین اُن کے ساتھ نہیں‪ o‬گئے۔ صالح الدین نے‬
‫مصر میں رکنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ممکنہ اسماعیلی بغاوت کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔‬

‫نورالدین زنگی اب ایک مخمصے کا شکار تھے۔ ان کا ایک سابق کمانڈر اب ایسے عالقوں پر قابض تھا جو ان کے اپنے‬
‫عالقوں سے مالدار تھے۔ دوسری طرف صالح الدین اور ان کے خاندان نے اسماعیلی خالفت کے خاتمے میں اور بغداد‪o‬‬
‫کے سنی خلیفہ کے رتبے میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ بھی درست ہے کہ اس پیشرفت میں نورالدین کا‬
‫بھی کچھ ہاتھ تھا۔‬

‫مؤرخ ابن االثیر لکھتے ہیں کہ ’نورالدین کی رائے صالح الدین کے بارے میں بدل گئی اور انھوں نے مصر جا کر ان کو‬
‫بے دخل کرنے کا عہد کر لیا تھا۔‘ ان کے اختالفات منظر عام پر بھی آ گئے۔ لیکن وہ شدید بیمار ہو گئے اور ‪ 15‬مئی‬
‫‪ 1174‬کو ‪ 60‬سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔‬

‫فلپس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں‪ o‬ہو گی کہ جہاد کے نقطہ نظر سے نورالدین زنگی نے وہ‬
‫بنیاد فراہم کی جس کے بغیر صالح الدین کا منظر پر آنا مشکل ہوتا۔ انھوں نے وہ ماحول پیدا کیا جس میں صالح الدین‬
‫اور ایوبی خاندان نے پیشرفت کی۔‬

‫صالح الدین ایوبی کے اگلے کچھ سال شام میں اپنا اختیار قائم کرنے میں لگ گئے۔ نورالدین کی موت سے مصر اور شام‬
‫کے درمیان خانہ جنگی کا خطرہ بھی ٹل گیا تھا لیکن نورالدین زنگی کے اہل خانہ کو صالح الدین پر اعتماد نہیں تھا اور‬
‫وہ نہیں‪ o‬چاہتے تھے کہ نورالدین کی وراثت صالح الدین کے پاس جائے۔ یہ صورتحال اگلے سال اپریل تک چلی جب‬
‫نورالدین زنگی کے بیٹے‪ o‬الصالح حلب کے عالوہ شام کے تمام عالقوں پر صالح الدین کا حق تسلیم کرنے پر مجبور ہو‬
‫گئے۔‬

‫فلپس بتاتے ہیں کہ اپریل کے آخر میں صالح الدین نے اہم پیشرفت میں الصالح کے نام کے سکے بند کروا دیے اور اپنے‬
‫عالقوں میں جمعہ کے خطبوں میں بھی ان کا نام رکوا دیا۔‬

‫سنہ ‪ 1175‬کے موسم گرما میں سلطان نے فرینکس سے بھی وقتی صلح کر لی۔ وہ بظاہر جنگی مہمات کے طویل سلسلے‬
‫کے بعد‪ o‬کچھ دیر کے لیے رکنا چاہ رہے تھے۔ اس کے عالوہ خطے میں قحط نے بھی صورتحال مشکل کر دی تھی۔‬

‫خلیفہ کی طرف سے صالح الدین کو ’یروشلم فتح کرنے کی تیاری کا پیغام‘‬


‫دریں اثنا بغداد‪ o‬سے صالح الدین کو شام کا حکمران تسلیم کرنے کی درخواست کا بھی جواب آ گیا۔ فلپس بتاتے ہیں کہ خط‬
‫کے ساتھ عباسی خالفت کا سیاہ پرچم‪ ،‬ان کے لیے خصوصی لباس اور انھیں مصر‪ ،‬یمن اور شام کے اُن عالقوں کا‬
‫حکمران تسلیم کرنے والی سند بھیجی گئی جو اُس وقت اُن کے قبضے میں تھے۔‬

‫مگر صالح الدین کے لیے مایوسی کی بات یہ تھی کہ اسی طرح کی سند حلب میں الصالح کے لیے بھی جاری کی گئی‬
‫تھی۔‬

‫مؤرخ فلپس کے مطابق یہ خلیفہ کی طرف سے سلطان کے لیے پیغام تھا کہ نورالدین زنگی کے وارثوں اور حلب کے‬
‫لوگوں کی رائے کا احترام کیا جائے اور وہ خود اب یروشلم کو دوبارہ فتح کرنے کی تیاری کریں۔‬

‫سنہ ‪ 1187‬تک سلطان صالح الدین کو یروشلم آزاد کروانے کے عزم کا اعادہ کرتے ایک دہائی گزر چکی تھی۔ اب ان‬
‫کے پاس شام اور مصر اور ’جزیرہ‘ کے عالقے کے وسائل کے ساتھ ایک وسیع سفارتی نیٹ ورک بھی تھا کہ وہ پوری‬
‫توجہ اس مشن پر لگا سکیں۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں اور سرداروں سے نمٹنے‪ o‬میں صالح الدین کا اتنا وقت لگ گیا کہ لوگ کہنے‪ o‬لگے‬
‫کہ وہ اپنا مقصد بھول کر مسلمانوں سے ہی لڑتے رہتے ہیں۔ ’سالوں کے پروپیگنڈے‪ o‬کے بعد اب سلطان کے لیے فیصلہ‬
‫کن وار کرنا ضروری ہو گیا تھا۔‘‬

‫اسی سال ایک مقامی مسیحی نواب رینلڈ نے ایک تجارتی کارواں پر حملہ کر کے امن معاہدے کی خالف ورزی کی اور‬
‫پھر قیدیوں کو واپس کرنے سے بھی انکار کر دیا۔‬

‫اب سلطان کے پاس حملہ کرنے کا جواز تھا اور انھوں نے اپنے اقتدار کی سب سے بڑی فوج جمع کی۔ ’ہر طرف ایوبی‬
‫خاندان کے زرد پرچم لہرا رہے تھے۔‘ فلپس نے سلطان کے قریبی مؤرخ عماد الدین کے حوالے سے لکھا کہ ایسے لگتا‬
‫تھا جیسے زمین نے نے نیا لباس پہن لیا ہو۔ صالح الدین نے کہا کہ یہی وہ دن ہے جس کا میں انتظار کر رہا تھا۔‬

‫دو جوالئی کو سلطان کے فوجیوں نے طبریا (ٹائبیریاس) نامی ایک شہر کا گھیراؤ کر لیا جس کا حکمران الرڈ ریمنڈ‬
‫مرکزی مسیحی فوج کے ساتھ تھا اور شہر کا انتظام ان کے اہلیہ کے ہاتھ میں تھا۔ الرڈ ریمنڈ کی بیوی نے شہر پر سلطان‬
‫کے قبضے کے وقت ایک قلعے میں پناہ لے لی۔ ایک الرڈ کی بیوی کو تحفظ فراہم کرنا عالقے کے مسیحی اشرافیہ کے‬
‫لیے عزت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔‬

‫فلپس نے مسلمان مؤرخ ابن االثیر کا حوالہ دیا ہے کہ ’سلطان کے طبریا پر حملے کا صرف ایک مقصد تھا کہ مسیحی‬
‫فوج کو اپنی پوزیشن چھوڑنے پر مجبور کیا جائے‘ اور اس میں وہ کامیاب ہو گئے تھے۔ اس جنگ کو معرکہ حطین کے‬
‫نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪DEA / G. DAGLI ORTI/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫سلطان صالح الدین ایوبی کی یروشلم کی طرف پیشقدمی سے پہلے صلیبیوں کے خالف معرکہ حطین میں اہم کامیابی‬

‫معرکہ حطین کی اہمیت اور عکا شہر پر قبضہ‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صالح الدین کی معرکہ حطین میں کامیابی اور اس میں فرینکس کی فوج کی تباہی نے خطے‬
‫میں طاقت کا توازن بدل دیا۔ لیکن یروشلم حاصل کرنے کے لیے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ’اگلے سات‬
‫ہفتے انھوں نے سلطنت یروشلم میں کئی زبردست مہمات کیں جن میں سے کئی کی قیادت انھوں نے خود کی۔‘‬

‫عکا کا شہر ‪ 8‬جوالئی کو فتح ہوا اور کئی دہائیوں میں پہلی بار وہاں ‪ 10‬جوالئی سنہ ‪ 1187‬کو جمعے کی نماز ادا کی‬
‫گئی۔ اس کے بعد بیروت فتح ہونے میں بھی زیادہ دن نھیں لگے۔‬
‫اشکیلون کو فتح کرنے میں دو ہفتے لگے۔ یہاں بھی صالح الدین نے شہر والوں کے ساتھ سختی نہیں کی۔ ’وہ قتل عام کا‬
‫سلسلہ نہیں چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ کہیں پر ان کے خالف زیادہ مزاحمت نہ ہو اور ان شہروں کے قریب‬
‫مسلمانوں کی بھی آبادیاں تھیں۔‘‬

‫اشکیلون کے باسیوں کو یروشلم جانے کا موقع دیا گیا جہاں وہ پناہ گزینوں کی اس بڑی تعداد‪ o‬کا حصہ بن گئے جو مذہبی‬
‫جذبے سے یروشلم کے دفاع میں حصہ ڈالنے کے لیے وہاں پہنچ رہے تھے۔‬

‫سلطان صالح الدین کی یروشلم آمد‬


‫صالح الدین ‪ 20‬ستمبر ‪ 1187‬کو یروشلم پہنچے۔ شہر پر تیروں کی بارش تھی۔ ہر طرف نقاروں‪ ،‬ڈھول اور شدید نعروں‬
‫کا شور گونج رہا تھا۔ شہر میں تیروں سے اتنا نقصان ہوا کہ اس وقت الطینی مسیحی دنیا کے سب سے بڑے ہسپتال سینٹ‬
‫جان ہسپتال کو بھی زخمیوں سے نمٹنے‪ o‬میں مشکالت پیش آنے لگیں۔‬

‫سلطان نے کہا کہ معرکہ حطین میں کامیابی اور یروشلم کی دیواروں کے باہر ان کی موجودگی خدا کی نصرت کا ثبوت‬
‫ہیں۔ سلطان نے اپنی تقریر کا اختتام اس عزم پر کیا کہ ’وہ یروشلم سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ڈوم آف دی‬
‫راک یا قبۃ الصخرہ پر ان کا قبضہ نہیں ہو جاتا۔‘‬

‫معرکہ حطین میں شکست کے بعد‪ o‬کسی مسیحی امدادی فوج کی آمد کا امکان ختم ہو چکا تھا۔ یروشلم کے بادشاہ تو معرکہ‬
‫حطین میں قیدی بن گئے تھے اور ان کی جگہ شہر کے منتظم بالیان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے اور‬
‫ہتھیار ڈالنے کے مذاکرات شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‬

‫شہر پر قبضے کے لیے خونی ٹکراؤ سے بچنے کے فوائد‪ ،‬مسلمان قیدیوں کی زندگی اور مقدس مقامات کی سالمتی کی‬
‫صورت میں واضح تھے۔ اس کے عالوہ اس صورت میں مسیحی قیدیوں‪ o‬کے لیے ملنے والے ممکنہ تاوان کی شکل میں‬
‫مالی فائدے کا بھی امکان تھا۔‬

‫ہتھیار ڈالنے کی تاریخ دو اکتوبر طے کی گئی جو جمعے کا دن تھا اور سنہ ‪ 1187‬کی یہ رات معراج کی رات بھی تھی۔‬
‫اس تاریخ کی وجہ سے یروشلم کی فتح کا منظر دیکھنے‪ o‬کے لیے صوفیوں‪ ،‬درویشوں اور علما کو بھی وہاں پہنچنے کا‬
‫وقت مل گیا۔‬

‫یروشلم اور عورتیں‬


‫ذرائع کے مطابق شہر میں بچوں اور عورتوں کے عالوہ ‪ 60‬ہزار مرد تھے۔ شہر کے مسیحی حکمران بالیان نے مختلف‬
‫طبقات کی مدد‪ o‬سے ‪ 18‬ہزار غریب افراد کے لیے ‪ 30‬ہزار دینار کا بندوبست کیا۔ ’اگلے کچھ ہفتوں تک شہر میں لوگ‬
‫اپنا سامان بیچ کر اپنی آزادی کے لیے پیسوں کا بندوبست کرتے رہے۔‘‬

‫فلپس نے لکھا ہے کہ سب کے لیے دس دینار قیمت طے کرنے پر صالح الدین تنقید کا نشانہ بھی بنے کیونکہ امیر لوگ‬
‫با آسانی یہ پیسے دے کر اپنے قیمتی سامان کے ساتھ یروشلم سے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ لوگوں نے ایسے ایک امیر‬
‫مسیحی عہدیدار کا قیمتی سامان ضبط کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن صالح الدین نے جواب دیا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ‬
‫انھوں نے اُن لوگوں کو اُن کی منزل تک سکیورٹی بھی فراہم کی۔‬

‫مؤرخ لکھتے ہیں اس کے باوجود ’‪ 16‬ہزار غریب لوگ شام اور مصر کی غالموں کی منڈیوں میں بکے۔‘‬

‫پہال جمعہ اور ’اسالم کے نئے ہیرو‘‬


‫مسیحی قبضے میں تقریبا ً نو دہائیوں میں تمام مقدس مقامات پر مسیحیت کی چھاپ لگ چکی تھی۔ سلطان نے ہر جگہ کو‬
‫اسالمی تقاضوں کے مطابق بحال کرنے کا حکم دیا۔ مسلمانوں کی حکمرانی میں یروشلم میں نو اکتوبر پہال جمعہ تھا۔‬

‫جمعہ کی نماز کی امامت کے لیے سلطان کا فیصلہ دمشق کے قاضی اور شاعر محی الدین کے حق میں تھا جنھوں نے‬
‫چار سال قبل سنہ ‪ 1183‬میں حلب کی فتح کے موقع پر یروشلم کی فتح کی پیشینگوئی کی تھی۔ جمعہ کا خطبہ مسجد‬
‫االقصی میں دیا گیا۔ قاضی محی الدین نے سنہ ‪ 1187‬کی یروشلم کی فتح کا موازنہ تقریبا ً ساڑھے پانچ سو سال قبل سنہ‬
‫‪ 638‬میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کے دور میں اس شہر کی فتح سے کیا۔‬

‫انھوں نے سلطان صالح الدین کو اسالم کا نیا ہیرو قرار دیا۔ ادھر سلطان صالح الدین کو احساس تھا کہ اب انھیں ایک اور‬
‫صلیبی جنگ کا سامنا کرنا ہوگا جو یروشلم کو مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے لڑی جائے گی۔ انھیں‬
‫معلوم تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے‪ o‬کے لیے انھیں مزید فرنگی عالقوں پر قبضہ کرنا ہوگا۔‬

‫سلطان اور بغداد کے خلیفہ‬


‫فلپ لکھتے ہیں کہ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ بغداد‪ o‬سے خلیفہ کا ایک پیغام آیا۔ سلطان اپنی فتح کے پیغام کے بعد‬
‫مبارکباد کی توقع کر رہے تھے لیکن ہوا اس کے برعکس۔ دراصل سلطان نے فتح کی اطالع ایک نوجوان اور ناتجربہ‬
‫کار ایلچی کے ہاتھوں بھیجا تھی جس کو بغداد میں پسند نھیں کیا گیا۔ بظاہر اس بات کو خلیفہ کو نیچا دکھانے کی کوشش‬
‫سمجھا گیا۔‘‬

‫سلطان نے جواب میں مصر‪ ،‬یمن اور یروشلم میں اپنی کامیابیاں گنوائیں۔ ’کیا میں نے یروشلم کو حاصل کر کے مکہ‬
‫سے نھیں جوڑا۔۔۔۔کیا میں نے اپنی کارروائیوں سے مغرب کو مرعوب نھیں کیا۔‘‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ ایک اور صلیبی جنگ آتے دیکھ کر وہ سنی اسالمی دنیا کے روحانی پیشوا کو ناراض نہیں کر‬
‫سکتے تھے۔‬

‫صلیبی جنگ کی تیاری اور سلطان کی صحت‬


‫ستمبر کے مہینے تک صالح الدین ایک بہت بڑے عالقے پر قبضہ کر چکے تھے۔ فلپس سلطان کے حلقے میں شامل‬
‫مؤرخوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس وقت تک مسلمان فوجیں تھک چکی تھیں اور انھیں آرام کی ضرورت تھی۔‬
‫سپاہیوں کے ساتھ ساتھ سلطان کو خود بھی آرام کی ضرورت تھی۔‬

‫ان کے سیکرٹری کے مطابق سلطان کی جہاد کے لیے تیاری کا یہ عالم تھا کہ وہ رمضان کے مہینے‪ o‬میں بھی آرام نھیں‬
‫کرتے تھے۔ ’یہ جتنا بھی قابل تعریف تھا حقیقت یہ ہے کہ جیسا آگے چل کر ہوا اس چیز نے ان اور ان کے قریبی‬
‫ساتھیوں کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔‘‬

‫یورپ میں صلیبی جنگ کی تیاری‬


‫ادھر یورپ میں تیسری صلیبی جنگ کی تیاری زوروں پر تھی اور گرمیوں کے آغاز میں پہلے صلیبی دستے کی آمد‬
‫متوقع تھی۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ پادریوں اور مسیحی امرا نے مغربی یورپ کے دورے کیے اور لوگوں سے کہا کہ مشرق میں‬
‫مسلمانوں کے ہاتھوں بہت مسیحی خون بہا ہے اور مقدس مقامات کی توہین معمول بن گیا ہے۔ سلطان کے بارے میں کہا‬
‫گیا کہ وہ مسیحیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔‬
‫’یروشلم کی شکست الطینی مسیحی دنیا کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا جس کی اس سے پہلے الطینی دنیا میں مثال نھیں‬
‫تھی اور واقعے کا موجب اور مرکزی کردار کے طور پر سلطان صالح الدین سے برا شخص کوئی نھیں ہو سکتا تھا۔‘‬

‫یورپ میں فرانس کے بادشاہ فلپ آگستس‪ ،‬انگلینڈ کے بادشاہ ہنری دوم‪ ،‬جرمنی کے بادشاہ فریڈرک بارباروسا اور کئی‬
‫دیگر حکمران صلیب تھام چکے تھے۔ اب صلیبی جنگ کی تبلیغ‪ ،‬فوجیوں کی بھرتی اور مقدس مقامات تک پہنچنے‪ o‬کے‬
‫لیے ایک سال کا وقت درکار تھا۔ کچھ چھوٹی مہمات پہلے ہی روانہ ہو چکی تھیں۔ ان کی پہلی منزل صور کا شہر تھا۔‬
‫جرمنی کے بادشاہ مئی ‪ 1189‬میں روانہ ہوئے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Bildagentur-online/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫عکا کا طویل محاصرہ‪ :‬مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان سب کے عالوہ سب سے اہم پہلو بیماری ہے۔ خوراک کی کمی‪ ،‬خراب‬
‫ادنی سپاہی سے جرنیلوں تک سب کو متاثر کرتے ہیں۔ 'تیروں‪ ،‬تلواروں اور آگ‬‫رہائشی حاالت‪ ،‬جسمانی اور ذہنی تھکان ٰ‬
‫برساتے ہتھیاروں سے کہیں زیادہ جانیں بیماری کے ہاتھوں ضائع ہوئی تھیں۔ '‬
‫عکا کا طویل محاصرہ اور محاذ پر جوش و خروش‬

‫مسیحی فوج نے عکا شہر کی طرف پیش قدمی کی۔ انھوں نے اگست کے آخری ہفتے میں عکا کے سامنے ایسی جگہ‬
‫پڑاؤ ڈاال کہ انھیں ساحل سے امداد حاصل کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اب بیچ میں عکا شہر تھا اس کے گرد مسیحی‬
‫فوج جو خود صالح الدین کے فوجیوں کے گھیرے میں تھی۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ عکا شہر کے لیے یہ لڑائی قرون وسطی کے طویل ترین محاصرے پر مشتمل تھی جو تقریبا ً دو سال‬
‫تک جاری رہا۔ سب کو معلوم تھا کہ جو بھی یہاں کامیاب ہو گا اسے یروشلم پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی میں‬
‫واضح برتری حاصل ہو گی۔‬

‫دونوں طرف اتنا جوش و خروش تھا کہ سمندر پار مغربی یورپ سے اور اسالمی دنیا سے ہزاروں مرد اور عورتوں اس‬
‫محاذ پر جمع ہو رہے تھے۔ ایک طرف انگلینڈ‪ ،‬فرانس‪ ،‬ویلز‪ ،‬ڈنمارک‪ ،‬فلینڈرز ‪ ،‬ہالینڈ‪ o،‬بیلجیم اور جرمن سلطنت بشمول‬
‫شمالی اٹلی‪ ،‬پولینڈ‪ o،‬ہنگری‪ ،‬جنوبی اٹلی‪ ،‬سسلی‪ ،‬جنووا‪ ،‬وینس اور پیسا سے مسیحی صلیبی جنگ میں حصہ لینے کے‬
‫لیے آئے تھے اور ان کے مقابلے کے لیے مصر‪ ،‬شام‪ ،‬یمن‪ ،‬ایشیائے کوچک‪ ،‬آذربائیجان اور خراسان سے آنے والوں‬
‫کے عالوہ ترک‪ ،‬کرد‪ ،‬عرب‪ ،‬نوبی‪ ،‬آرمینیائی اور بدو مسلمان بھی وہاں موجود تھے۔‬

‫مسلمان اور مسیحی فوجیوں کی گپ شپ اور ناچ گانا‬


‫عکا کے طویل محاصرے کے سب سے یادگار واقعات سنہ ‪ 1191‬کے گرمیوں کے موسم میں فرانس کے بادشاہ فلپ‬
‫آگستس اور انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کے وہاں پہنچنے‪ o‬کے بعد پیش آئے۔ ان کی آمد سے پہلے کے ‪ 20‬ماہ تیزی‬
‫سے بیان ہوتے طویل جنگ نامے کے منظر کی طرح تھے۔‬

‫فلپس لکتھے ہیں کہ کسی بھی جنگ کے کچھ ادوار اس کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن اتنی طویل جنگ میں پورا سال ہر‬
‫روز لڑا نھیں جا سکتا۔ اس میں سفارتکاری کے باب آتے ہیں‪ ،‬تھکی ہوئی فوجیں آرام کرنے کے لیے رکتی ہیں‪ ،‬ہفتوں‬
‫تک خراب موسم جنگ نھیں ہونے دیتا اور جنگوں کے دوران بوریت سے سب واقف ہیں۔‬

‫مؤرخ بہاؤالدین لکھتے ہیں کہ کئی بار بوریت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دونوں طرف کے فوجی لڑائی بھول کر ایک‬
‫دوسرے سے بات چیت میں لگ جاتے اور بات مل کر گانے اور ناچنے تک بھی پہنچ جاتی۔‬

‫فوجی کیمپوں میں گرم پانی کے ٹب میں لیٹنے کی قیمت ایک درھم‬
‫مؤرخ لکھتے ہیں کہ حیران کن طور پر دونوں کیمپوں کے درمیان خوراک کی خرید و فروخت بھی جاری تھی۔‬
‫محاصرے کا ایک سال ہورا ہوا تو لوگ اس کی حقیقتوں سے سمجھوتہ کر چکے تھے۔ فلپس لکھتے ہیں کہ جنگ کی‬
‫تھکان اتارنے کے خواہشمندوں کو صرف مغربی تاجروں کے پاس جانے کی ضرورت تھی جن کے گرم پانی کے ٹب‬
‫میں لیٹنے‪ o‬کی قیمت ایک درہم تھی۔‘‬

‫مسیحی اور مسلمان فوجی کیمپوں میں بیماری‬


‫بیماری بھی دونوں کیمپوں کے لیے ایک مسئلہ تھا جس سے کئی اہم رہنما بھی متاثر ہوئے اور کئی جان کی بازی ہار‬
‫گئے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ’تیروں‪ ،‬تلواروں اور آگ برساتے ہتھیاروں سے کہیں زیادہ جانیں بیماری کے ہاتھوں ضائع‬
‫ہوئی تھیں اور دونوں طرف کی اعلی قیادت کے بہت سے فیصلے افواج کی صورتحال سے متاثر ہو کر کیے گئے تھے۔‘‬

‫صلیبیوں کا بیماری سے خاص طور پر زیادہ نقصان ہوا کیونکہ انھیں خطے کے ماحول‪ ،‬بیماریوں اور موسم کی عادت‬
‫نھیں تھی۔ ان میں تین اہم لوگ جو ہالک ہوئے تھے ان میں یروشلم کی سلطنت کی ملکہ سبیال اور ان کی دو بیٹیاں بھی‬
‫شامل تھیں۔‬
‫سردیوں میں مسلم ذرائع بتاتے ہیں صلیبی فوج میں روزانہ ‪ 100‬فوجی ہالک ہو رہے تھے۔ مغربی ذرائع لکھتے ہیں ہر‬
‫کوئی کھانس رہا تھا‪ ،‬لوگوں کی ٹانگیں اور منہ سوجے ہوئے تھے اور ان کے دانت گر رہے تھے۔ مکئی اور انڈے حد‬
‫سے مہنگے ہو چکے تھے اور مرا ہوا گھوڑا زندہ گھوڑے سے مہنگا تھا۔ تاہم ان تکالیف کے باوجود صلیبی پر امید‬
‫تھے۔ انھیں یقین تھا کہ مزید کمک آرہی ہے۔‬

‫وسطی ستمبر تک عکا شہر میں خوراک کی شدید قلت بھی پیدا ہو گئی۔ شہر کے منتظمین‪ o‬نے سلطان تک یہ خبر پہنچائی‬
‫تو انھوں نے مکمل رازداری کا حکم دیا۔ انھیں معلوم تھا کہ مصر سے تین بحری جہاز خوراک کا بڑا ذخیرہ لے کر عکا‬
‫آ رہے ہیں۔ اتنا وقت نھیں تھا کہ ان جہازوں کو رازداری سے شہر کی طرف الیا جائے اور انھوں نے سیدھا بندرگاہ کا‬
‫رخ کیا۔ سلطان اس دوران بے چینی سے ساحل پر انتظار کر رہے تھے۔ ’وہ ایک گھبرائی ہوئی ماں کی طرح خدا سے‬
‫فتح مانگ رہے تھے۔‘‬

‫یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان کی فوج میں زیادہ تر تنخواہ دار سپاہی تھے۔ سنہ ‪ 1187‬اور ‪ 1188‬کی کامیابیاں سب‬
‫کے لیے فائدہ مند تھیں لیکن عکا کے طویل ہوتے محاصرے کی کشش کم ہو رہی تھی۔‬

‫سلطان کا خلیفہ کی بھیجی ہوئی مدد لینے سے انکار‬


‫انتظار کا یہ کھیل یقینا ً ’سلطان کے لیے بہت تھکا دینے واال تھا جنھیں معلوم تھا کہ اس وقت مغربی یورپ کے بادشاہ ان‬
‫خالف بہت بڑی فوج کھڑی کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ سلطان کے طرف سے ہر طرف مسلم طاقتوں سے رابطہ کیا‬
‫گیا۔ عماد الدین نے بغداد‪ o‬میں خلیفہ کو بھی مدد‪ o‬کے لیے پیغام بھیجا۔‬

‫مارچ ‪ 1190‬کے آخر تک سلطان کو شام کے شہروں حمص اور حما سے امداد پہنچ چکی تھی۔ ان کے بھائی سیف الدین‬
‫بھی مصر سے فوج کے ساتھ پہنچ‪ o‬چکے تھے۔‬

‫لیکن اس دوران بغداد‪ o‬میں خلیفہ کی خاموشی سلطان کے لیے پریشان کن تھی۔ ان کی طرف سے ’آتش یونانی‘ کچھ مقدار‬
‫میں‪ ،‬محاصرے کی جنگ کے ماہر کچھ انجنیئر اور ‪ 20‬ہزار دینار بھیجے گئے جو سلطان نے انتہائی ادب کے ساتھ‬
‫وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ ’مسئلہ امداد کی مقدار سے زیادہ ان کی طرف سے سلطان کی مشرق قریب کو جہاد کے‬
‫لیے اکٹھا کرنے کی کوششوں کو مکمل اخالقی حمایت نہ ملنا تھا۔‘‬

‫فلپس لکھتے ہیں مسلمان حکمران جنھوں نے ان کا ساتھ نھیں دیا یا ان کی مدد نھیں کر سکے یہ فعل ان میں مذہبی جذبے‬
‫کی کمی کی بجائے عالقائی مجبوریوں کا عکاس ہے‪ ،‬جیسا کہ بہت سے سلجوق سرداروں کے ساتھ ہوا۔ اس کے عالوہ‬
‫کچھ حکمران خاندان شاید ایوبی خاندان کو فائدہ بھی نھیں پہنچانا چاہتے تھے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪UniversalImagesGroup‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫عکا کا محاصرہ ختم ہونے کے بعد انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کے ہاتھوں ‪ 2600‬مسلمان قیدی قتل ہوئے‬

‫مسیحیوں کا پانچ منزلہ چلتا ہوا ٹاور اور نوجوان مسلمان تانبہ گر کا جوابی وار‬
‫سردیوں کے موسم میں بارش اور کیچڑ نے کیمپوں میں زندگی مشکل کر دی لیکن اس دوران مسیحیوں نے محاصرہ‬
‫توڑنے کے لیے تین دیو ہیکل ٹاور تعمیر کر لیے۔ ہر ٹاور پانچ منزل اونچا تھا۔ لکڑی کی قیمت بہت زیادہ تھی اور ان کو‬
‫کسی حملے سے بچانے کے لیے مٹی اور سرکہ لگے چمڑے سے لپیٹا گیا تھا۔ اس کا سب سے اونچا پلیٹ فارم اتنا بڑا‬
‫تھا کہ اس پر منجنیق رکھی جا سکتی تھی۔‬
‫آتش گیر مادہ فائر کر کے ان کو جالنے کی کوشش کی گئی لیکن بے سود۔ صالح الدین کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے‬
‫عملے میں ایک تانبہ گر کا بیٹا موجود تھا جو ’آتش یونانی‘ کے ساتھ تجربے کر کے اس کی طاقت بڑھانے کی کوشش‬
‫کر رہا تھا۔ اس نے سلطان کو منا لیا کہ اسے کسی بھی طرح شہر کے اندر داخل کروایا جائے۔‬

‫اس نوجوان نے اپنے تجربات کی روشنی میں کیمیائی مادہ تیار کیا جسے برتنوں میں بھر کر ایک ٹاور کی طرف داغا‬
‫گیا لیکن ٹاور کو کوئی فرق نھیں پڑا۔ فلپس لکھتے ہیں کہ وہ لڑکا مایوس نھیں ہوا۔ شہر کی دیوار سے ٹاور تک فاصلے‬
‫کا اندازہ تو اسے ہو چکا تھا۔ دوسری بار اس نے برتن میں مقدار بڑھا کر فائر کروایا اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی‬
‫جب ٹاور میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس کے بعد دوسرا اور تیسرا ٹاور بھی اسی طرح تباہ کر دیا گیا۔ اس لڑکے کو اب شہر‬
‫سے باہر سمگل کر کے صالح الدین کے سامنے پیش کیا گیا جنھوں نے اسے زمین اور پیسہ انعام میں دیا لیکن اس نے‬
‫یہ کہتے ہوئے وہ سب لینے سے انکار کر دیا کہ اس نے جو کیا خدا کی رضا کے لیے کیا۔‬

‫نومبر میں جنگ کا سیزن ختم ہونے سے پہلے دو بڑے معرکے ہوئے۔ سلطان ایک بار پھر بیماری کی وجہ سے دور‬
‫سے ہی معرکے کی کارروائی دیکھنے‪ o‬پر مجبور تھے۔‬

‫سلطان صالح الدین نے جب قیدی صلیبی کمانڈر کو اپنا کوٹ دے دیا‬


‫‪ 23‬نومبر کو مسلمانوں نے حملہ کر کے تقریبا ً ‪ 200‬صلیبی نائٹس کو سامنے آنے ہر مجبور کر دیا اور ان میں سے بہت‬
‫سوں کو قیدی بنا لیا۔ ان میں ایک کمانڈر بھی تھا۔ انھیں سلطان کے سامنے پیش کیا گیا اور سلطان ان افسران سے باقاعدہ‬
‫عزت کے ساتھ ملے۔‬

‫انھیں سردیوں کے لیے کھالوں سے بنے کوٹ دیے گئے بلکہ کمانڈر کو تو سلطان نے اپنا کوٹ دے دیا۔ انھیں کھانا دیا‬
‫گیا اور سلطان کے ساتھ والے خیمے میں ٹھہرایا گیا۔ کمانڈر کو کھانے کے لیے سلطان کے ساتھ جگہ ملی۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ ’بے شک اس کا مقصد صلیبیوں کے منصوبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی تھا لیکن‬
‫سلطان کے لیے اس طرح کا رویہ نئی بات نھیں تھی۔‘‬

‫محاصرے کی مشکالت اور سلطان کی رحم دلی‬


‫سردیاں ختم ہوئیں تو صلیبیوں کو فرانس اور انگلینڈ کے بادشاہوں کی آمد قریب نظر آنے لگی۔ دوسری طرف سلطان‬
‫خلیفہ کی سرد مہری سے پریشان تھے۔ ’اسالم آپ سے مدد‪ o‬مانگ رہا ہے جیسے ڈوبتا ہوا آدمی سہارا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ‬
‫وہ اپنی تمام ذاتی آمدن جہاد پر لگا رہے ہیں اور خلیفہ کو چاہیے کہ وہ ان کی ہر طرح مدد کرے۔‬

‫محاصرے کی ان تمام مشکالت میں سلطان کی رحم دلی اور سخاوت کی کہانیاں مسلسل سننے کو ملتی رہیں۔ ایک بار‬
‫صلیبی کیمپ سے ایک عورت کا نوزائیدہ بچہ کوئی اٹھا کر لے گیا اور پھر اسے بیچ دیا۔ معاملہ سلطان تک پہنچا۔ مؤرخ‬
‫بہاؤالدین موقع پر موجود تھے۔ سلطان نے بچہ برآمد کروایا اور اس کے خریدار کو قیمت ادا کر کے بچے کو ماں کے‬
‫حوالے کر دیا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Print Collector/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل یروشلم کے راستے میں ایک معرکے کے دوران‬

‫فرانس کے بادشاہ فلپ آگستس اور انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کی آمد‬
‫‪ 20‬اپریل کو فرانس کے بادشاہ فلپ فوجیوں‪ ،‬گھوڑوں اور اسلحے کے ساتھ چھ جہازوں پر پہنچ گئے۔ مئی کے آخر تک‬
‫انھوں نے سات نئی منجنیقیں تعمیر کروائیں جو شہر کی دیواروں کو شدید نقصان پہنچا رہی تھیں۔ دوسری طرف سلطان‬
‫مسلسل اہنے بیٹوں اور افسروں کے ذریعے صلیبیوں پر حملے کرواتے رہے لیکن اتنے مہینوں میں ان کی دفاعی‬
‫پوزیشنیں مضبوط ہو چکی تھیں۔‬

‫آٹھ جون ‪ 1191‬کو انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل بھی عکا پہنچ گئے۔ بہاؤالدین بتاتے ہیں کہ وہ ‪ 25‬بحری جہازوں میں‬
‫پہنچے۔ مغربی یورپ میں طویل جنگی مہمات کے تجربے‪ ،‬انتہائی باریکی سے پالننگ کی مہارت ہونے کے ساتھ وہ‬
‫زبردست جنگجو تھے۔ ان کے ساتھ ‪ 17000‬فوجیوں کی آمد نے صلیبی فوج کے حوصلے بہت بلند کر دیے۔ سلطان نے‬
‫ایک بار پھر مشرق قریب میں پیغام بھیجا کہ ’عکا شہر شدید خطرے میں ہے۔۔۔اگر اب امداد نہ آئی تو کب آئے گی۔‘‬

‫رچرڈ کی سلطان سے ملنے کی خواہش اور سلطان کا انکار؟‬

‫‪ 20‬جون کو بادشاہ رچرڈ کا ایلچی سلطان کے سامنے پیش ہوا اور انگریز بادشاہ کی طرف سے مالقات کی خواہش کا‬
‫اظہار کیا۔ سلطان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بادشاہوں میں مالقات کسی معاہدے کے بعد ہوتی ہے کیونکہ مالقات اور‬
‫ایک میز پر کھانا کھانے کے بعد آپس میں جنگ نھیں لڑی جاتی۔ یاد رہے کہ تیسری صلیبی جنگ کا سب سے اہم پہلو‬
‫سفارتکاری تھا۔‬

‫دریں اثنا سنجار‪ ،‬موصل اور موصل سے امداد کیمپ میں پہنچی لیکن بقول بہاؤالدین کہ شہر کے گرد شکنجا کسا جا چکا‬
‫تھا۔‬

‫فرانسیسی اور انگریز صلیبی اتنے زیادہ تھے کہ وہ شفٹوں میں کام کر سکتے تھے اور شہر کا دفاع کرنے والوں کو‬
‫بالکل آرام نھیں مل رہا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ شہر کے باہر اپنے کیمپوں کے گرد خندقیں بنا چکے تھے جس سے سلطان کا‬
‫ان پر حملہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔‬

‫صالح الدین ’بےچین ماں کی طرح گھوڑے پر ایک ڈویژن سے دوسری ڈویژن تک جاتےاور لوگوں کو جہاد میں اہنا‬
‫فرض ادا کرنے کی تلقین کرتے۔‘ ’ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے ان دونوں میں کوئی کھانا نھیں کھایا‬
‫اور ان پر تھکان اور غم طاری تھا۔‘‬

‫شہر سے پیغام آیا کہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو وہ صلیبیوں سے صلح کا معاہدہ کر لیں گے۔‬

‫سلطان سے پوچھے بغیر عکا شہر کا ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ‬

‫تاریخ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ شہر میں مایوسی پھیل رہی تھی۔ شہر کا حصار کمزور پڑتا جا رہا تھا اور ان کی طرف‬
‫سے سخت مزاحمت کے باوجود صلیبوں کی فتح یقینی ہوتی جا رہی تھی۔ ‪ 12‬جوالئی کو شہر سے تیراک نے سلطان کو‬
‫آکر شہر کی طرف سے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور معاہدے‪ o‬کی خبر دی۔ فلپس بتاتے ہیں کہ انھوں نے قتل عام‬
‫سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ معاہدے کے تحت انھیں ’اصل صلیب‘ ‪ 1500‬قیدی چھوڑنے کے عالوہ صلیبیوں کو دو الکھ‬
‫دینار بھی دینے‪ o‬تھے۔‘‬

‫صالح الدین نے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا لیکن اس پر دستخط انھیں کے ہونے تھے‬

‫معاہدے میں سلطان کے لیے سب سے مشکل سوال دو الکھ دینار کا تھا۔ اس جنگ میں بہت زیادہ وسائل استعمال ہو چکے‬
‫تھے اور سلطان کو بار بار مالی مدد کی درخواست کرنی پڑی تھی۔ ان کی دریا دلی بہت سے اتحادیوں کو اکٹھا رکھنے‬
‫کا اہم ذریعہ ثابت ہوئی تھی اور اب جب ان کے پاس ذاتی وسائل ختم ہو رہے تھے یہ مطالبہ مشکل تھا۔ بظاہر ایسا لگتا‬
‫ہے کہ سلطان نے آدھی رقم ادا کر دی اور ان کی طرف سے طے شدہ تعداد سے آدھے قیدی آزاد کرنے کی پیشکش قبول‬
‫کر لی گئی۔‬
‫مسلمان قیدیوں کا قتل عام‬
‫تاریخ بتاتی ہے کہ سلطان کا اصرار تھا کہ مسلمان قیدیوں میں اہم عہدیدار بھی شامل ہونے چاہیں اور یہ صرف عام قیدی‬
‫نہ ہوں۔ اس معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر ہونے لگی۔ رچرڈ نے ان کی تحویل میں مسلمان‬
‫قیدیوں کو جن کی تعداد ‪ 2600‬تھی ایک جگہ اکٹھے کر کے ہالک کر دیا۔ جب تک مسلمانوں کو اس کی خبر پہنچی بہت‬
‫دیر ہو چکی تھی۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد سلطان صالح الدین کو بدنام کرنا تھا کہ وہ تو اپنے لوگوں کی حفاظت بھی نھیں کر‬
‫سکتے۔ بہاؤالدین نے لکھا رچرڈ تیزی سے یروشلم کی طرف بڑھنا چاہتے تھے اور ان قیدیوں کے لیے اپنے کچھ سپاہی‬
‫پیچھے چھوڑنے پڑنے تھے۔ سلطان نے بھی ماضی میں قیدی ہالک کیے تھے لیکن انھوں نے ایسا جنگوں کے بعد کیا‬
‫تھا نہ کہ کبھی کسی معاہدے‪ o‬پر بات چیت شروع ہونے کے بعد۔‬

‫عکا شہر سے یروشلم تک‬


‫یروشلم کی طرف بڑھتے ہوئے صلیبی فوج کے ایک طرف ساحل تھا جہاں سے انھیں سمندر کے ذریعے‪ o‬امداد ملتی‬
‫رہی۔ رچرڈ نے اس کا خصوصی بندوبست کیا تھا اور عکا کی لڑائی میں مسلمان بحریہ کو نقصان کی وجہ سے وہ اس‬
‫کے خالف کچھ نھیں کر سکتے تھے۔‬

‫عکا سے روانہ ہوتے ہی مسلمان تیر اندازوں نے صلیبیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سلطان کے بیٹے االفضل نے اس‬
‫میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دنوں جو صلیبی قیدی بنتا اس کے ساتھ سخت سلوک کیا جاتا اور اس میں عہدے اور رتبے کی‬
‫کوئی تفریق نھیں کی گئی۔‬

‫رچرڈ کی صلیبی فوجیوں کو سلطان کے تیروں سے بچانے کی حکمت عملی‬


‫ستمبر کے مہینے میں درجہ ‪ 30‬سنٹی گریڈ سے زیادہ تھا اور دونوں طرف کی تحریریں بتاتی ہیں گرم کی موسم کی وجہ‬
‫سے بھی کافی جانی نقصان ہوا۔ صالح الدین اور رچرڈ اپنے دستوں کا حوصلہ بڑھاتے گھوڑے پر آگے اور پیچھے‬
‫جاتے دیکھے جا سکتے تھے۔‬

‫سلطان کی فوج سے مارچ کے دوران روایتی انداز میں ڈھول اور بگل بجائے جا رہے تھے۔ صلیبی فوج میں دور سے‬
‫بادشاہ رچرڈ کا پرچم دیکھا جا سکتا تھا جو ایک اونچے پول سے لہرا رہا تھا۔ ان کی انفنٹری تیروں کی بارش سے بچنے‬
‫کے لیے سر سے پاؤں تک زرہ بکتر میں ملبوس تھی اور گھڑسواروں کے باہر کی طرف مارچ کر رہی تھی تاکہ قیمتی‬
‫گھوڑوں کو سلطان کی فوج سے برسائے جانے والے تیروں سے محفوظ رکھا جا سکے۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ کون سے سپاہی ساحل والی طرف مارچ کریں گے اور کون سے باہر کی طرف اس میں بھی باریاں‬
‫لگی تھیں تاکہ سب کو سلطان کی فوج حملوں سے بچ کے چلنے کا موقع ملے۔‬

‫سلطان اور رچرڈ شیردل کی خراب صحت‬

‫اس دوران سلطان کی صحت کے مسائل جاری تھے۔ وہ کئی بار گھڑسواری بھی نھیں کر پا رہے تھے اور گرمی سے‬
‫بچنے کے لیے رات کو فوج کا معائنہ کرتے تھے۔‬

‫اس دوران انھوں نے تیزی سے شہر میں خوراک اور دیگر ضروری اشیا کے معائنے کے لیے یروشلم کا ایک ہنگامی‬
‫دورہ بھی کیا اور واپس آ کر اپنے امرا سے صورتحال پر مشاورت کی۔‬
‫انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ کی بھی صحت اچھی نھیں تھی جس کی وجہ سے انھیں ایک بار واپس عکا بھی جانا پڑا۔ اس‬
‫کے عالوہ عکا کی کامیابی کے بعد ان کے سپاہی وہاں شراب اور لڑکیوں کی کشش میں بھی وقت ضائع کر رہے تھے۔‬
‫رچرڈ کو خود جا کر انھیں صلیبی جنگ کے فرائض یاد کروانے پڑے۔‬

‫اس دوران صلیبی کچھ دیر کے جافا کی تعمیر نو کے لیے بھی رکے کیونکہ انھیں یروشلم تک راستے کو محفوظ کرنا‬
‫تھا۔ پیسوں کی کمی بھی ہونا شروع ہو گئی تھی اور رچرڈ نے مغربی یورپ امداد کے لیے پیغامات بھیجے۔‬

‫تیسری صلی جنگ کا سب سے اہم پہلو سفارتکاری‬

‫تیسری صلیبی جنگ کا سب سے اہم پہلو اس کے دوران ہونے والی سفارتی مالقاتوں کی تعداد‪ o‬تھی۔ اہم واقعات کے ساتھ‬
‫صلیبیوں کے ساتھ سفارتی رابطے بھی جاری تھے خاص طور پر ان کے ایک اہم رہنما کونراڈ کے ساتھ جو اپنے آپ کو‬
‫مستقبل میں یروشلم کا بادشاہ دیکھ رہے تھے۔‬

‫ستمبر ‪ 1191‬کے آخر سے اکتوبر کے وسط تک رچرڈ اور سلطان کے بھائی سیف الدین کے درمیان بھی رابطے جاری‬
‫رہے جن میں دونوں طرف سے نفاست اور درباری آداب سے ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کی پوری کوشش کی‬
‫جاتی رہی۔‬

‫مذہبی اور لسانی فرق اپنی جگہ دونوں میں سلطان صالح الدین میں بہت کچھ مشترک تھا مثالً گھوڑوں کا شوق۔ مالقاتوں‬
‫کے ان ادوار میں رچرڈ اور سیف الدین کے تعلقات ابتدائی تکلفات سے آگے بڑھ چکے تھے۔ لیکن اس سب سے یروشلم‬
‫کے مستقبل کا سوال اپنی جگہ موجود تھا۔‬

‫رچرڈ نے کیا پیغام بھیجا‬


‫سیف الدین کی عدم موجودگی میں رچرڈ کی جافا کے قریب ایک اہم مالقات ان کے سیکرٹری الثانیہ سے ہوئی۔ بہاؤ الدین‬
‫کے مطابق رچرڈ نے لکھا ’مسلمانوں اورفرینکس کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔ دونوں کے ہاتھوں زمین تباہ ہو چکی ہے‪،‬‬
‫مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ دونوں طرف جائدادیں اور امالک تباہ ہو چکی ہیں۔ اب ہماری عبادت کا مرکز یروشلم بچا‬
‫جسے ہم کبھی نھیں چھوڑ سکتے۔۔۔۔۔ان شرائط پر صلح ہو سکتی ہے جس کے بعد ہمیں اس مشکل صورتحال سے نجات‬
‫مل سکتی ہے۔"‬

‫سلطان نے اپنے امرا سے مشاورت کے بعد جواب دیا ’یروشلم جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ہمارا بھی ہے‪ ،‬بلکہ ہمارے لیے‬
‫زیادہ اہم ہے کیونکہ یہاں سے ہمارے پیغمبر معراج پر گئے تھے۔ بادشاہ کو یہ بلکل خیال نھیں آنا چاہیے کہ ہم اسے‬
‫چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے بیچ میں اس طرح کا ایک لفظ بھی نھیں نکال سکتے۔ جہان تک زمین کا تعلق ہے یہ‬
‫شروع سے ہماری تھی۔ آپ لوگوں کے ہاتھوں اس کی فتح ایک غیر متوقع حادثہ تھا جو مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ‬
‫سے پیش آیا۔۔۔۔‘‬

‫صلیبی اور مسلمان کیمپوں میں نرمی اور سلطان کے بھائی اور رچرڈ کی بہن کی شادی کی تجویز‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ یروشلم کے بارے میں دونوں طرف کے جذبات کی روشنی میں کسی کے لیے بھی پیچھے ہٹنا آسان‬
‫نھیں تھا۔ لیکن اگلے ایک سال میں دونوں کی پوزیشن میں کافی نرمی آ چکی تھی۔‬

‫کچھ روز تک دونوں طرف سے پیغام آتے رہے جس کے بعد سلطان کے بھائی سیف الدین نے اپنے خاص امرا کی‬
‫میٹنگ بال کر رچرڈ کی صلح کے لیے بنیادی تجویز ان کے سامنے رکھی جس کے مطابق سیف الدین رچرڈ کی بہن جو‬
‫این سے شادی کریں گے جو حال ہی میں بیوہ ہوئی تھیں اور صالح الدین انھیں ساحلی عالقوں کا بادشاہ تسلیم کر لیں‬
‫گے۔ یروشلم ان کا دارالحکومت ہو گا اور دیہات مسیحی فوجی گروپوں کے زیر انتظام چلیں گے اور قلعے نو بیاہتا‬
‫جوڑے کی ملکیت ہوں گے۔ تمام قیدی رہا کر دیے جائیں گے اور مقدس صلیب مسیحیوں کے حوالے کر دی جائے گی‬
‫اور بادشاہ رچرڈ واپس یورپ چلے جائیں گے۔‬
‫جب صالح الدین نے تجویز سنی پہلے تو انھیں اس کے سچ ہونے پر یقین نہ آیا لیکن انھوں نے اشارہ دیا کہ وہ اصوالً‬
‫اس پر راضی ہو سکتے ہیں۔‬

‫تاہم بعد میں رچرڈ کی بہن کی شادی کا معاملہ دیگر صلیبیوں کی طرف سے اعتراض کے بعد پاپائے روم کے سامنے‬
‫رکھ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پاپائے روم نے منع کر دیا تو اہنی نوجوان بھتیجی کی شادی سیف الدین سے کر‬
‫سکتے ہیں اور اس کے لیے ان کو کسی کی اجازت کی ضرورت نھیں۔‬

‫صلیبی یروشلم پر حملے کے لیے تیار اور رچرڈ اور سیف الدین کی مالقات‬

‫خبر آنے پر کہ صلیبی یروشلم پر حملے کے لیے تیار ہیں مسلمان بھی جنگی حالت میں آ گئے۔ سیف الدین ہراول دستے‬
‫کے انچارج تھے۔ رچرڈ شہر سے چھبیس کلومیٹر دور تھے۔ شہر کی طرف جانے والے راستے پر سفر آسان نھیں تھا۔‬
‫لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس دوران بھی ایسے سیاسی اور نجی واقعات جاری تھے جن کا قیادت پر بوجھ پڑ سکتا تھا۔‬

‫سلطان کے ایک کزن کا دمشق میں انتقال ہو گیا اور بہاؤالدین لکھتے ہیں سلطان کو اس کا بہت غم تھا۔ اس کے بعد نومبر‬
‫کے آغاز میں جب دونوں فوجیں رام ہللا میں آمنے سامنے تھیں اور کشیدگی بڑھ چکی تھی سلطان کو ایک خط موصول‬
‫ہوا جسے پڑھ کر وہ رونے لگے اور انھیں اس حالت میں دیکھ کر ان کے کئی ساتھیوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔‬
‫باآلخر سلطان نے مخصوص لوگوں کے سامنے اپنے بھتیجے‪ o‬تقی الدین کی شمال میں ایک مہم میں موت کا اعالن کر‬
‫کے سب کی تشویش ختم کی۔ لیکن انھوں نے اس خبر کی تشہیر سے سب کو منع کر دیا۔‬

‫لیکن اس دوران بھی سفارتی مالقاتیں جاری تھیں۔ سیف الدین اور رچرڈ کی نومبر میں دوستانہ ماحول میں ایک مالقات‬
‫ہوئی۔ دونوں طرف سے بڑے بڑے خیمے نصب کیے گئے اور تحائف اور خاص طور پر تیار کیے گئے پکوانوں کے‬
‫تبادلے ہوئے۔ سیف الدین کی طرف سے سات قیمتی اونٹ اور ایک خیمہ تحفے میں دیا گیا۔‬

‫رچرڈ نے مسلمانوں کی موسیقی سننے کی خواہش کا اظہار کیا تو سیف الدین نے خاتون کو طلب کیا جس نے ہارپ بجایا‬
‫جسے بہت پسند کیا گیا۔ دونوں بظاہر ایک دوسرے سے مل کرخوش تھے لیکن دونوں طرف کے کاتب ان دونوں رہنماؤں‬
‫کی نیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے رہے۔‬

‫رچرڈ کی طرف سے ایک بار پھر صالح الدین سے ملنے کی خواہش کا اظہار اور سلطان کا انکار‬

‫بادشاہ رچرڈ نے سیف الدین کے سامنے ایک بار صالح الدین سے مالقات کی خواہش ظاہر کی اور جب صالح الدین تک‬
‫یہ دعوت نامہ پہنچا تو انھوں نے پھر یہ کہہ کر منع کر دیا کہ بادشاہ بغیر کسی معاہدے کے نھیں ملتے۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ ’ایوبی خوش مزاجی ایک بار مسیحی کیمپ میں خوف کا باعث بن رہی تھی۔‘ سفارتی گنجل میں ایک‬
‫اور الجھاؤ کا اضافہ اسی رات رچرڈ کی طرف سے نئی تجاویز کی آمد تھی۔‬

‫رچرڈ شیر دل کی نئی تجویز میں سلطان کے بارے میں کیا لکھا تھا؟‬
‫مؤرخین کے مطابق رچرڈ نے لکھا کہ اگر سیف الدین ساحلی عالقے لے لیتے ہیں تو ان کے اور رچرڈ کے درمیان کسی‬
‫تنازعے کی صورت میں سلطان صالح الدین منصف کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ’یہ ضروری ہے کہ یروشلم میں ہمارا‬
‫بھی کچھ کنٹرول ہو۔ میرا مقصد ہے کہ آپ اس طرح عالقے تقسیم کریں کہ سیف الدین پر مسلمانوں اور مجھ پر فرنگیوں‬
‫کی طرف سے کوئی تنقید کی گنجائش نہ نکلے۔‘‬

‫نومبر کا وسط آ چکا تھا اور رچرڈ کی طرف سے سردیوں میں یروشلم کے محاصرے کا امکان بہت کم تھا لیکن ساتھ ہی‬
‫یہ بھی طے تھا کہ اس صورت میں وہ سنہ ‪ 1192‬تک ادھر ہی موجود رہیں گے۔‬

‫سلطان کی مشاورت‬
‫سلطان نے اپنے امرا کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا اور سب امکانات ان کے سامنے رکھے۔ فلپس کہتے ہیں کہ امرا‬
‫کے جواب جو تاریخ کے حوالوں میں درج ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر حاضرین کی رائے میں بادشاہ رچرڈ پر‬
‫اعتبار کیا جا سکتا تھا لیکن ان کے بعد پیچھے رہ جانے والے فرینکس پر نھیں۔ ان کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے‬
‫کہ عکا کی شکست سے کا غصہ اب کم ہو چکا تھا۔‬

‫ہمیشہ کی طرح ان مالقاتوں اور پیغامات کے ساتھ جھڑپیں اور فوجی کارروائیاں جاری تھیں اور ایک بار تو رچرڈ‬
‫مسلمانوں کے مورچوں کے اتنے قریب آ گئے کہ ان کے وہاں سے بحفاظت واپس جانے کے لیے ان ایک سپاہی کو ان کا‬
‫روپ اختیار کرنا پڑا۔‬

‫رچرڈ شیر دل کی مشکل‬


‫مؤرخ لکھتے ہیں کہ رچرڈ کے لیے یہ فیصلہ کی گھڑی تھی۔ کئی سالوں کی مہم‪ ،‬ہزاروں میل کے سفر اور عکا شہر‬
‫کی فتح کے بعد اب وہ یروشلم سے چند میل دور تھے۔ ان کے رفقا اور فوجی آگے بڑھنے کے لیے بیچین تھے لیکن ان‬
‫کے لیے یہ آسان فیصلہ نھیں تھا۔‬

‫عسکری اعتبار سے ان کی سپالئی الئن بہت لمبی ہو چکی تھی۔ عکا کی کامیابی میں بندرگاہ تک رسائی کا اہم کردار تھا۔‬
‫یہاں وہ کسی قسم کی امداد سے ‪ 50‬کلومیٹر دور تھے۔ قریب کے چھوٹے شہر اور قصبے سلطان صالح الدین حکمت‬
‫عملی کے تحت خود ہی تباہ اور خالی کروا چکے تھے۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ ’مسلمان عکا کی کامیابی کے بعد صلیبیوں کو الجھا دینے‪ o‬میں کامیاب رہے تھے۔ سردی کے موسم‬
‫میں کسی قسم کا محاصرہ کسی بھی فوج کے لیے مشکل ہونا تھا۔ فلپس لکھتے ہیں کہ مسیح کے شہر کو مسلمانوں سے‬
‫آزاد کروانے کا خواب پورا کی خواہش لیے وہ اس کے سامنے آ چکے تھے لیکن بحیثیت لیڈر ان پر اپنے ہزاروں لوگوں‬
‫کی بھاری ذمہداری بھی تھی۔‬

‫رچرڈ شیر دل کی یروشلم سے پسپائی‬


‫فلپس لکھتے ہیں کہ چھ اور ‪ 13‬جنوری ‪ 1192‬نے اپنی فوج کو ساحل سمندر سے ‪ 15‬کلومیٹر دور رام ہللا کی طرف‬
‫پسپائی کا حکم دیا۔ سلطان صالح الدین نے پوری سردیاں اپنی فوج کے ساتھ یروشلم میں گزاریں۔ فوجیوں کو اپنے‬
‫گھروں کو جانے کا موقع دیا گیا۔‬

‫مارچ سنہ ‪ 1192‬میں انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ نے ایک بار پھر سلطان کے بھائی سیف الدین سے رابطہ کیا اور‬
‫سفارتکاری کا نیا دور شروع ہو گیا۔‬

‫سلطان صالح الدین کے خاندان میں اختالفات‬


‫دریں اثنا سلطان صالح الدین کو خاندان کے اندر اختالفات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اب تک ان کی کامیابی یہیں تھی کہ اہم‬
‫مواقع پر ان کے خاندان نے مل کر فیصلے کیے تھے لیکن اب ان کے بھتیجے تقی الدین کا بیٹا المنصور کچھ ایسے‬
‫عالقے مانگ رہا تھا جو اس کی کم عمر میں سلطان کے لیے اسے دینا مشکل تھا۔‬

‫فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان کو اپنے ویٹے االفضل کو روانہ کرنا پڑا۔ رچرڈ کو اس پیشرفت کا پتہ تھا اور ان کی طرف‬
‫سے بھی معامالت میں سستی دکھائی جانے لگی۔ معامالت نے اتنا طول پکڑا کہ سلطان کے بھائی سیف الدین کو مسئلے‬
‫کو حل کرنے کے لیے یروشلم سے جانا پڑا۔ اس دوران سلطان کے اپنے بیٹے‪ o‬االفضل سے بھی اختالفات پیدا ہو گئے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Print Collector/Getty Images‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫تیسری صلیبی جنگ کے آخری مرحلے میں سنہ ‪ 1192‬جافا کا معرکہ ہوا جس کے کے بعد رچرڈ شیر دل اور سلطان‬
‫صالح الدین ایوبی کے درمیان معاہدے یہ صلیبی جنگ اختتام کو پہنچی‬

‫صلیبیوں کی یروشلم کی طرف پیشقدمی‬

‫دریں اثنا انگلینڈ سے رچرڈ کے بھائی جان کی شکایات آنے لگیں کہ وہ انتظامی معامالت میں مداخلت کر رہے ہیں اور‬
‫اب ان پر معامالت کو جلد نمٹانے کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یروشلم کی بادشاہت کے بارے میں مسیحی کیمپ‬
‫میں پھوٹ پڑ گئی اور رچرڈ کی طرف سے اس عہدے کے نامزد امیدوار کونراڈ قتل ہو گئے۔ تاہم رچرڈ نے حاالت پر‬
‫قابو پا لیا اور مئی میں صلیبی ایک بار یروشلم کی طرف پیشقدمی کے لیے تیار تھے۔ اس بار وہ تیزی سے آگے بڑھے۔‬

‫اس دوران سلطان کے بھائی سیف الدین اور کچھ اہم لوگ بھی مخبری کی وجہ سے ان کے قیدی بن گئے۔ لیکن سلطان‬
‫کے لیے اچھی خبر یہ تھی کہ ان کے بیٹے‪ o‬اختالفات کو بھال کر دو جوالئی یروشلم پہنچ گئے۔ مسلمانوں نے یروشلم کے‬
‫قریبی کنووں میں زہر مال دیا اور اس پتھریلی زمین پر نئے کنوییں کھودنا آسان نھیں تھا۔‬

‫صلیبی ایک بار پھر پسپائی پر مجبور‬

‫تاریخ بتاتی ہے کہ بالکل اس طرح جیسے سلطان کے کیمپ میں شہر کے اندر دفاع کرنے یا باہر نکل کر لڑائی کرنے‬
‫کے معاملے میں بحث چل رہی تھی اسی طرح صلیبی کیمپ میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان بھی حکمت‬
‫عملی کے معاملے پر اختالفات سامنے آ چکے تھے اور ‪ 4‬جوالئی کو خبر آئی کہ ایک بار پھر صلیبی یروشلم کا‬
‫محاصرہ ختم کر کے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صالح الدین ایک بار پھر سرخرو ہو گئے تھے۔‬
‫لیکن مسئلہ ابھی ختم نھیں ہوا تھا۔‬

‫معاہدہ‪ ،‬رچرڈ کی واپسی اور صالح الدین کا انتقال‬


‫صلح کی کوششوں کے ساتھ عسکری کارروائیاں جاری رہیں اور اس بار سلطان ضالح الدین نے یروشلم سے پیش قدمی‬
‫کی اور حملہ کیا۔ فلپس لکھتے ہیں کہ رچرڈ شیر دل سمجھ چکے تھے کے دو بار پسپائی کے بعد یروشلم پر حملہ ممکن‬
‫نھیں۔ اس کے عالوہ ان پر انگلینڈ سے گھر واپس آنے کا بھی دباؤ تھا۔ دو ستمبر سنہ ‪ 1192‬کو صلح کے معاہدے پر‬
‫دستخط ہو گئے اور ‪ 10‬اکتوبر ‪ 1192‬کو رچرڈ واپس روانہ ہو گئے۔‬

‫صلح کے اس معاہدے‪ o‬کے پانچ ماہ بعد سلطان صالح الدین آخری بار ‪ 19‬فروری ‪ 1193‬کو دمشق میں ایک عوامی تقریب‬
‫دار فانی سے کوچ کر گئے۔‬
‫میں نظر آئے اور چار مارچ ‪ 1193‬کو اس ِ‬

You might also like