Professional Documents
Culture Documents
سلطان صلاح الدین ایوبی
سلطان صلاح الدین ایوبی
2اکتوبر 2020
،تصویر کا کیپشن
یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صالح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر
میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے
میں'خون کا پیاسہ' اور شیطان کی اوالد!' کہا گیا تھا 20ویں اور 21ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔
وہ دو اکتوبر 1187کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا جب دنیا کے 'مذہبی دارالحکومت' اور سب سے 'متنازع' سمجھے
جانے والے شہر یروشلم میں تقریبا ً نو دہائیوں کے وقفے کے بعد سلطان صالح الدین ایوبی کی قیادت میں ایک بار پھر
مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا تھا۔
شہر کی فصیلوں پر ایوبی پرچم لہرایا گیا تھا اور مذہبی مقامات سے مسیحیت کی عالمات ہٹانے کا کام شروع کیا گیا تھا۔
ٹھیک 833برس قبل دو اکتوبر کی وہ رات شب معراج کی رات بھی تھی۔
یروشلم جنگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک محاصرے کے بعد شہر کے مسیحی منتظمین اور صالح الدین ایوبی کے
درمیان معاہدے کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ شہر کا ہر باسی معاہدے oمیں طے کی گئی رقم ادا کر
کے آزادی سے کسی دوسرے مسیحی عالقے میں جا سکتا تھا۔ جو لوگ پہلے ہونے والے ممکنہ ظلم کا سوچ کر پریشان
تھے اب اس فکر میں تھے کہ اپنی آزادی خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے الئیں۔
دو اکتوبر کے دن اور آنے والے کئی ہفتوں تک شہر سے لوگ رقم ادا کر کے جاتے رہے۔ جو نہیں oادا کر سکتے تھے
وہ مدد oمانگتے رہے اور ان میں سے ہزاروں کی مدد خود سلطان صالح الدین ایوبی اور ان کے بھائی سیف الدین نے
ذاتی طور پر ان کا تاوان ادا کر کے کی اور بہت سے غربا کو شہر کے سابق مسیحی حکمرانوں کی درخواست پر بغیر
تاوان ادا کیے جانے دیا گیا۔
مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صالح الدین کی زندگی پر اپنی کتاب 'دی الئف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سالڈن (صالح الدین)'
میں لکھا ہے کہ 'یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے oکو نہیں مال جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں
کے محاصرے کے دوران یروشلم کی خواتین نے اپنے بال کٹوا دیے oتھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں
نہ آئیں لیکن فلپس لکھتے ہیں کہ فتح اور یروشلم پر قبضے مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صالح
الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔۔۔سوال ذہن میں
اٹھتا ہے کہ ان کا یہ جذبہ سچا تھا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ وہ ان کو فروخت کر سکتے تھے یا اپنے فوجیوں
کے حوالے کر سکتے تھے۔'
یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صالح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر
میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے
میں'خون کا پیاسا' اور 'شیطان کی اوالد!' کہا گیا تھا ،وہاں 20ویں اور 21ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔
یہ وہی یروشلم تھا جس کی سنہ 1099میں فتح کے بعد صلیبیوں کی یروشلم میں داخلے کے موقع پر یہاں ہر طرف
الشیں تھیں اور مرد ،عورتیں اور بچے کوئی فاتحین کی تلواروں سے محفوظ نہیں تھا۔ مصنف جسٹن ماروزی نے اپنی
کتاب 'اسالمی سلطنتیں 15 :شہر جو ایک تہذیب کو بیان کرتے ہیں' میں یروشلم کے بارے میں باب میں مسیحی ذرائع کا
حوالے دیتے oہوئے صلیبیوں کی فتح کے بعد شہر کے مناظر بیان کیے ہیں۔ انھوں نے صلیبیوں کے رویے کی مثال کے
طور پر ان کے ایک عہدیدار کا بیان نقل کیا 'زبردست مناظر تھے۔ ہمارے فوجیوں نے دشمنوں کے سر قلم کر دیے۔۔۔۔۔۔
کچھ کو زیادہ تکلیف دینے کے لیے آگ میں جھونکا گیا۔ گلیوں میں سروں ،کٹے ہوئے پیروں اور ہاتھوں کے ڈھیر تھے۔'
سلطان صالح الدین ایوبی کا چیلنج یروشلم کی فتح پر ختم نہیں ہوا بلکہ انھیں اندازہ تھا کہ اب مسیحی دنیا جس پر یروشلم
جیسے مقدس شہر کے ہاتھ سے نکلنے کی خبر بجلی بن کر گری ہو گی اس کو واپس حاصل کر نے کی کوشش کرے
گی۔
سنہ 1187میں یروشلم کی فتح سے تیسری صلیبی جنگ میں اس کے کامیاب دفاع کا باب تقریبا ً پانچ برسوں پر محیط
ہے ،وہ صلیبی جنگ جس میں مغربی یورپ کے بڑے بڑے بادشاہ خود شریک ہوئے اور یورپ بھر سے لوگوں کو
جنگ میں شرکت پر مائل کرنے کے لیے سلطان کی بدترین سے بدترین شبیہ پیش کی گئی لیکن جنگ کے لیے آنے
والے نہ صرف یروشلم حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ سلطان کی ایک مختلف تصویر لے کر واپس گئے جو تمام تر
پراپیگنڈے کے باوجود آج تک قائم ہے۔
،تصویر کا کیپشن
صالح الدین ایوبی کی یروشلم آمد کے بارے میں 20ویں صدی کی ایک پینٹنگo
مثال کے طور پر اس اکتوبر ہی میں ناروے میں 'سیالڈن ڈے' (یوم صالح الدین) منایا جائے گا۔ بی بی سی اردو سروس
نے ناروے کے ایک ادارے ہاؤس آف لٹریچر سے رابطہ کیا جو سنہ 2009سے 'بین االقوامی سیالڈن ڈے' منا رہا ہے،
اور ان سے پوچھا کہ ناروے میں کسی کو صالح الدین ڈے منانے کا خیال کیسے آیا؟
اس ادارے کی رکن اور صالح الدین ڈے کی کیوریٹر اشلد الپےگارد الہن نے بتایا کہ اس خیال کا پہلی بار اظہار سنہ
2008میں ناروے کے ایک قومی شاعر ہینریک ویرگے لیند کی 200سالہ تقریبات کے دوران کیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا
کہ ہینریک ویرگے لیند وہ شاعر تھے جنھوں نے ناروے کے آئین میں اس ترمیم کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا
کیا تھا جس کے بعد یہودیوں کو اس ملک میں آنے کی اجازت ملی تھی۔ وہ مذہبی رواداری کی عالمت سمجھے جاتے
ہیں۔
اشلد الہن نے بتایا کہ سنہ 2008میں اس تقریب کے دوران ناروے کے ایک مصنف تھوروالد سٹین نے تجویز پیش کی
کہ ویرگے لیند کی سوچ کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں صالح الدین کی یاد میں بھی ایک دن منانا چاہیے کیونکہ انھوں
نے یروشلم کی فتح کے موقع پر جس کردار کا مظاہرہ کیا تھا وہ یہودیوں ،مسیحیوں اور مسلمانوں کے مل کر رہنے کے
بارے میں ایک سبق ہے۔
اشلد الہن نے بتایا کہ 'ناروے کی طرح شاید یورپ میں بھی بہت کم لوگ صالح الدین کے بارے میں جانتے ہیں اور جو
جانتے بھی ہیں ،ان کی نظر میں وہ ان کا موازنہ (صلیبی جنگوں کے یورپ میں ہیرو) رچرڈ شیردل سے کرتے ہیں اور
ان کے خیال میں صالح الدین ایک ِولن ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ 'صالح الدین ڈے' کے ذریعے ہم پیغام دینا چاہتے ہیں
کہ ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں۔'
بات صرف ناروے کی نہیں برطانیہ کی شاہی بحریہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک جنگی جہاز کو 'ایچ ایم ایس
سیالڈن' کا نام دیا اور پھر سنہ 1959اور 1994کے درمیان برطانوی فوج نے 'سیالڈن' کے نام سے ایک بکتر بند گاڑی
بھی بنائی۔ یہ وہی برطانیہ ہے جہاں سے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل نے تیسری صلیبی جنگ میں مسیحی فوج کی
قیادت کی تھی۔
جانتھن فلپس لکھتے ہیں کہ 'میں کہوں گا کہ تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال تالش کرنا ناممکن ہے جس میں ایک شخص
نے کسی قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اتنی چوٹ پہنچائی ہو اور پھر بھی وہ ان میں مقبول ہو گیا ہو۔'
یروشلم کو مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے یورپ سے پہنچنے والی فوج اور سلطان صالح الدین کے
درمیان تقریبا ً تین برس پر پھیلے ٹکراؤ (تیسری صلیبی جنگ) کی تفصیالت کے ذکر سے پہلے بات کریں گے صالح
وسطی کے لوگوں کی یروشلم کی
ٰ الدین اور ان کے خاندان کے ماضی کی اور جہاد کے اس ماحول کی جس میں مشرق
بحالی کی توقعات ان سے وابستہ ہو گئی تھیں۔ ‘
مزید پڑھیے
صالح الدین ایوبی :دریائے نیل میں پانی آنے کا جشن اور قرآن خوانی
اصل ڈریکوال کون تھا اور اس کا سلطنت عثمانیہ سے کیا جھگڑا تھا؟
تاہم اس شخص کو جس نے 800سال پہلے مغرب کو شکست دے کر یروشلم کو فتح کیا تھا ایک مثالی کردار کے طور
پر یاد کیا گیا۔ برطانیہ کی رائل نیوی نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک جنگی جہاز کو ’ایچ ایم ایس سیالڈن‘ کا نام
دیا اور پھر سنہ 1959اور 1994کے درمیان برطانوی فوج نے ’سیالڈن‘ کے نام سے ایک بکتر بند گاڑی بھی بنائی۔ یہ
وہی برطانیہ ہے جہاں سے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل نے تیسری صلیبی جنگ میں مسیحی فوج کی قیادت کی تھی۔
سلطان صالح الدین ایوبی کے اعزاز میں انگلینڈ کی فوجی بکتر بند گاڑی ملک کے نورفوک ٹینک میوزیم میں رکھی ہے۔
میوزیم سے رابطے پر انھوں نے تصدیق کی اس بکتر بند گاڑی کا نام ’سیالڈن‘ سلطان صالح الدین کے نام پر ہی رکھا
گیا ہے۔
جانتھن فلپس لکھتے ہیں کہ ’میں کہوں گا کہ تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال تالش کرنا ناممکن ہے جس میں ایک شخص
نے کسی قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اتنی چوٹ پہنچائی ہو اور پھر بھی وہ ان میں مقبول ہو گیا ہو۔‘
سلطان صالح الدین ایوبی کا سنی اسالمی دنیا کے روحانی رہنما بغداد کے خلیفہ اور مصر کے اسماعیلی شیعہ فاطمی
خلیفہ کے ساتھ تعلق خاص اہمیت کا حامل ہے اور آخر میں ان کا ذکر ایک اور مسلمان سلطان نور الدین زنگی کے ذکر
بغیر نامکمل ہے۔ ایوبی اور زنگی خاندانوں کے عروج کی کہانی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہے اور اس میں ایوبی
خاندان زنگی خاندان کے تابع تھا۔
فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صالح الدین کی سلطنت کے شمالی افریقہ سے شروع ہو کر مقدس مقامات اور شام کو اپنے
اندر سموتے ہوئے آج کے عراق میں دریائے دجلہ تک اپنی سرحدیں پھیالنے oکے عمل میں حیران کن حد تک مختلف
مذہبی ،نسلی اور سیاسی پس منظر کے لوگ شامل تھے۔ ان کی کہانی خونی جنگوں سے بھری ہے لیکن یہ جنگیں ہمیشہ
سیدھا سیدھا ایک مذہب کی دوسرے مذہب سے لڑائی نہیں oتھی۔’
مزید پڑھیے
سلطنت عثمانیہ :جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19بھائی مروا دیے‘o
حوریم سلطان سے قُسم سلطان :بازار میں بِکنے سے عثمانی سلطانوں کی مائیں بننے oتک
’اس کہانی میں مسیحی مسیحیوں سے اور مسلمان مسلمانوں سے لڑتے ہوئے ملیں گے۔ اس میں مسلمان اور مسیحی مل
کر دوسرے مسلمانوں اور مسیحیوں سے لڑتے ہوئے ملیں گے۔‘ اس کہانی میں لوگوں نے پارٹیاں بھی بدلیں اور لڑائی
نئے روپ میں اب بھی جاری رہی۔‘
’اس وقت بھی آج کی طرح کسی بھی معاملے میں زمینی صورتحال اس تصویر سے بہت مختلف اور الجھی ہوئی تھی
جو کہ دور سے نظر آتی ہے۔ نسلی ،سیاسی ،اقتصادی اور ذاتی مفادات کی کھچڑی تھی جو صرف مذہبی عقائد کی بنیاد
پر نہیں کھڑی تھی۔‘
کئی برس بعد سنہ 38-1137میں نجم الدین ایوب کے بھائی شیرکوہ نے ایک عورت کی توہین کرنے پر ایک مقامی
فوجی کمانڈر کو ہالک کر دیا اور اس کی پاداش میں نہ صرف ایوب سے عہدہ چھن گیا بلکہ پورے خاندان کو عالقہ بھی
چھوڑنا پڑا۔ اس وقت ترک سردار زنگی نے پرانے احسان کے بدلے اس کرد خاندان کو موصل میں بسایا اور انھیں
زمینیں بھی االٹ کر دیں۔
فلپس لکھتے ہیں کہ انھی دنوں میں نجم الدین ایوب اور ان کے خاندان کے تکریت چھوڑنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے
صالح الدین کی پیدائش ہوئی تھی۔
سردار زنگی کے عالقے کے مسلمان حکمرانوں سے تو جھگڑے تھے ہی لیکن ان کے عزائم نے انھیں فرنجیوں
(الفرنجہ/فرینکس) کے سامنے بھی ال کھڑا کیا۔ یہ وہ مسیحی تھے جنھوں نے سنہ 1099کی پہلی صلیبی جنگ کے بعد
یورپ سے آ کر اس عالقے میں آزاد ریاستیں قائم کی تھیں۔ ان مسیحیوں کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے جہاد کا پہلو اہم ہو
گیا۔
فلپس لکھتے ہیں کہ سنہ 1105دمشق میں ایک عالم السلیمی نے جہاد کی تبلیغ کی تھی اور مسلمان اشرافیہ کو اسالم کے
اس پہلو کو نظر انداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا پیغام آہستہ آہستہ زور پکڑتا گیا اور پھر 1140کی دہائی میں
دمشق کے ایک مدرسے کی دیوار پر زنگی کے لیے مجاہد اور سرحدوں کے محافظ کے الفاظ لکھے ہوئے نظر آئے۔
انھوں نے سنہ 1144میں الرُّ هَا شہر بھی فرینکس کے قبضے سے چھین لیا جس پر انھوں نے پہلی صلیبی جنگ کے
دوران قبضہ کیا تھا۔ اس کامیابی پر انھیں بغداد oمیں خلیفہ کی طرف سے سند بھی ملی۔
دمشق میں بیمارستان النوری :نور الدین زنگی کے دور میں 12ویں صدی میں بنایا گیا ہسپتال
سنہ 1160کی دہائی کے دوران صالح الدین اپنے بھائی تران شاہ کی جگہ دمشق کے پولیس چیف بنے اور اس طرح
انھیں انتظامیہ کا کچھ تجربہ حاصل ہوا۔ اس دوران وہ اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے نورالدین زنگی کے
قریبی حلقوں کا حصہ بن چکے تھے اور حکمرانی کے طور طریقوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع مال۔
فلپس لکھتے ہیں کہ 'نور الدین عظیم حکمران تھے اور ہوشیار کرد نوجوان کے لیے بہترین oمثال۔'
’جو بھی مصر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا وہ اس دولت کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ مشرقی بحیرۂ روم کو بھی
کنٹرول کرتا۔‘
اس چیز کا سب سے زیادہ احساس شیرکوہ کو تھا جنھوں نے نورالدین زنگی کو مصر فوج بھیجنے oپر آمادہ کر لیا۔
فرینکس بھی خاموش نہیں oرہ سکتے تھے اور دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔
فلپس لکھتے ہیں کہ یہ پہال موقع ہے جب صالح الدین کسی میدان جنگ میں قائدانہ کردار میں سامنے آتے ہیں۔ شیرکوہ
نے انھیں مرکزی دستوں کا کمانڈر بنایا جسے فرنگیوں کے زوردار گھڑسوار دستوں کا سامنا کرنا تھا۔ انھیں حکم تھا کہ
حملہ ہوتے ہی وہ درمیان سے جگہ چھوڑ دیں گے اور جب مسیحی گھڑسواروں کی تنظیم خراب ہو گی تو شیرکوہ اپنے
گھڑسواروں کے ساتھ دوسری جانب سے حملہ کر دیں گے۔
منصوبہ کامیاب رہا اور مسیحیوں کے کمانڈر قیدی بنا لیے گئے۔
،تصویر کا ذریعہIpsumpix/Getty Images
،تصویر کا کیپشن
مصر میں صالح الدین کا دور ان کی آنے والی کامیابیوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بحیثیت وزیر ان کےدور کی پہچان
ان کی سخاوت ،خوش قسمتی ،قوت ارادی اور دیگر بڑے حکمرانوں کی طرح ایک بڑا منصوبہ تھا
عظمی
ٰ عظمی کی لڑائی نے نورالدین زنگی کو مصر کی سیاست میں مداخلت کا موقع دے دیا۔ وزارت
ٰ ت
مصر میں وزار ِ
کی لڑائی میں بڑی تعداد oمیں اہم لوگ متحارب دھڑوں کے ہاتھوں ہالک ہوئے اور یہ فاطمی سلطنت کے لیے آگے چل
کر بہت نقصان دہ ثابت ہوا۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’یہ وہ زمانہ تھا جب ہم صالح الدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ ان کی مصروفیات کیا
تھیں۔‘ عام خیال ہے کہ ان کا زیادہ وقت دمشق میں پولو کھیلتے oاور شکار کرتے گزرتا ہوگا اور یقینا ً انھوں نے کچھ
فوجی مہمات میں بھی اپنے چچا شیرکوہ کے ساتھ حصہ لیا ہوگا۔ انھوں نے دمشق میں شدت اختیار کرتا جہادی ماحول
بھی دیکھا ہوگا۔
نورالدین کے لیے یہ ایک نئی صورتحال تھی۔ وہ مصر کو مسیحیوں کے ہاتھوں میں جاتا تو نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن
اب ان کے شیرکوہ کے ساتھ تعلق پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ’نورالدین نے شیرکوہ اور صالح الدین کی شام میں جاگیریں
ختم کر دیں لیکن شیرکوہ اس کے بعد زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور بیماریوں کا شکار ہو کر اسی سال 1169میں انتقال کر
گئے۔‘
اس بار فاطمی خلیفہ نے صالح الدین کو منتخب کیا ’کیونکہ ان میں شاہانہ صفات کے ساتھ ساتھ فقیر کی عاجزی بھی
تھی۔‘ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ فاطمی خلیفہ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جسے وہ سیاسی طور پر کمزور
سمجھتے تھے اور جسے اُن کا خیال تھا وہ اپنے زیر اثر رکھ سکیں گے۔ اگر واقعی انھوں نے ایسا سوچا تھا تو تاریخ
نے انھیں غلط ثابت کیا۔
مزید پڑھیے
مصر میں صالح الدین کا دور ان کی آنے والی کامیابیوں کے لیے بہت اہم ثابت ہوا۔ بحیثیت وزیر ان کے دور کی پہچان
ان کی سخاوت ،خوش قسمتی ،قوت ارادی اور دیگر بڑے حکمرانوں کی طرح ایک بڑا منصوبہ تھا۔ برسوں بعد oاس دور
کے مؤرخ بہاؤالدین نے لکھا کہ وزیر بننے پر انھوں نے شراب اور ’وقت ضائع کرنے والے مشاغل چھوڑ دیے oتھے۔‘
تاہم مصر پر فرنگی ،آرمینیائی اور نوبیا کے فاطمی مخالفین کے حملے کا خطرہ بدستور موجود تھا۔ صالح الدین نے
قاہرہ کی تقریبا ً سو سال پرانی دیواروں کی مرمت کروائی۔ ایوبی قاہرہ کا مذہبی اور سیاسی منظرنامہ ہی تبدیل نہیں کر
رہے تھے بلکہ اس کی شکل صورت بھی بدل رہے تھے۔
تاہم اسی زمانے میں خلیفہ بیمار پڑ گئے۔ اس وقت تک ایوبی خاندان نے مصر میں بہت کچھ تبدیل oکر دیا تھا ،خلیفہ کی
عمالً گرفت کمزور ہو چکی تھی لیکن ان کے مذہبی منصب سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس ماحول میں ایران سے
مصر آنے والے ایک عالم نے منبر سے تین ستبر سنہ 1171کو بغداد کے خلیفہ کے لیے دعا کروا دی۔ اس پر کوئی رد
عمل نہ دیکھ کر صالح الدین کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی اور انھوں نے آئندہ جمعے سے قاہرہ اور فسطاط کی تمام
مساجد سے ایسا ہی کرنے کا حکم دے دیا۔
صالح الدین اور ان کے ساتھیوں کی توقعات کے برعکس اس بار پھر کوئی ردعمل نھیں تھا اتنی بڑی تبدیلی پر یہ
خاموشی بظاہر حیران کن لگتی ہے۔ لیکن اس زمانے میں فرقہ وارانہ تقسیم اتنی شدید نھیں تھی۔ اس وقت بغداد میں رہنے
والے ایک شیعہ عالم ابو تراب نے صالح الدین کو برا بھال ضرور کہا تھا لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھی دنوں میں
صالح الدین کی سوانح لکھنے والے ابن ابی طیب شیعہ تھے اور ان کے مداح تھے۔ اس کے عالوہ اس وقت مصر کی
آبادی کا ایک بڑا حصہ سنی تھا۔ اسکندریہ میں دہائیوں سے سنی مدرسے قائم تھے۔
مزید پڑھیے
جب یورپ کھالوں پر لکھتا تھا تو مسلمان دانشور کاغذ استعمال کرتے تھے
فسطاط اکثریتی طور پر سنی شہر تھا جہاں یہودی ،قبط ،مغربی ،سوڈانی اور غیرملکی تاجر بھی رہتے تھے۔ قاہرہ میں
آرمینیائی ،ترک غالم دستے موجود تھے اور فاطمی خود کئی بار شمالی افریقی بربروں کا سہارا لے چکے تھے۔ ان
اہل تسنن کے درمیان حدود کو مبہم کر چکے تھے۔حقیقتوں کی روشنی میں فاطمی اسماعیلی خلیفہ اہ ِل تشیع اور ِ
فاطمی خلیفہ العاضد کی صحت اتنی خراب تھی کہ کسی نے انھیں خطبے کی تبدیلی سے آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ جلد
ہی ان کا بغیر یہ جانے انتقال ہو گیا کہ ان کے دارالحکومت میں کسی اور کے نام کا خطبہ پڑھا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ
ہی فاطمی خالفت ختم ہو گئی۔
مصر میں اب اصل طاقت صالح الدین تھے۔ وہ خلیفہ العاضد کو اچھا اور سخی انسان سمجھتے تھے۔
مصر کے وزیر صالح الدین نے خلیفہ کے بیٹے oسے مالقات کی اور انھیں کہا کہ ’خالفت کے معاملے میں آپ کے والد
کا ایجنٹ ہوں اور انھوں نے آپ کی وراثت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی‘۔ اس طرح وہ اپنے والد کے بعد oخلیفہ
نہیں بن سکے۔
مصر میں اب سکوں پر بغداد کے خلیفہ اور نورالدین زنگی کا نام نظر آنے لگا۔ بغداد سے نورالدین اور صالح الدین
ایوبی کے لیے خلعتیں روانہ کی گئیں۔ شعراء نے دونوں کی شان میں قصیدے لکھے۔ یہ صالح الدین کے لیے نیا میدان
تھا۔
،تصویر کا ذریعہPrint Collector/getty Images
،تصویر کا کیپشن
جرمنی کے بادشاہ فریڈرک بارباروسا تیسری صلیبی جنگ کے لیے یروشلم روانہ ہونے سے پہلے o:یاد رہے جرمن
بادشاہ کی یروشلم پہنچنے سے پہلے ہی اچانک موت واقع ہو گئئ تھی
تاریخ بتاتی ہے کہ انھی دنوں میں سٹراسبورگ سے ایک جرمن پادری نے بھی مصر اور شام کا دورہ کیا اور مذہبی
مقامات پر گئے جن میں سے کئی ایسے تھے جنھیں مسلمانوں اور مسیحی دونوں مقدس سمجھتے تھے۔ انھوں نے
مصری قبطیوں ،شامی مسیحیوں اور ان کے مسلمان حکمرانوں کے درمیان اچھے تعلقات کا ذکر کیا۔
اس کا نتیجہ جرمنی کے بادشاہ کا صالح الدین کے ساتھ سمجھوتے کی صورت میں سامنے آیا جو سنہ 1188تک قائم
رہا جب فریڈرک نے تیسری صلیبی جنگ کا عزم کیا۔ فریڈرک نے اس موقع پر تعلقات کے خاتمے کا باقاعدہ اعالن کیا۔
نورالدین زنگی اب ایک مخمصے کا شکار تھے۔ ان کا ایک سابق کمانڈر اب ایسے عالقوں پر قابض تھا جو ان کے اپنے
عالقوں سے مالدار تھے۔ دوسری طرف صالح الدین اور ان کے خاندان نے اسماعیلی خالفت کے خاتمے میں اور بغدادo
کے سنی خلیفہ کے رتبے میں اضافے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ بھی درست ہے کہ اس پیشرفت میں نورالدین کا
بھی کچھ ہاتھ تھا۔
مؤرخ ابن االثیر لکھتے ہیں کہ ’نورالدین کی رائے صالح الدین کے بارے میں بدل گئی اور انھوں نے مصر جا کر ان کو
بے دخل کرنے کا عہد کر لیا تھا۔‘ ان کے اختالفات منظر عام پر بھی آ گئے۔ لیکن وہ شدید بیمار ہو گئے اور 15مئی
1174کو 60سال کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔
فلپس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں oہو گی کہ جہاد کے نقطہ نظر سے نورالدین زنگی نے وہ
بنیاد فراہم کی جس کے بغیر صالح الدین کا منظر پر آنا مشکل ہوتا۔ انھوں نے وہ ماحول پیدا کیا جس میں صالح الدین
اور ایوبی خاندان نے پیشرفت کی۔
صالح الدین ایوبی کے اگلے کچھ سال شام میں اپنا اختیار قائم کرنے میں لگ گئے۔ نورالدین کی موت سے مصر اور شام
کے درمیان خانہ جنگی کا خطرہ بھی ٹل گیا تھا لیکن نورالدین زنگی کے اہل خانہ کو صالح الدین پر اعتماد نہیں تھا اور
وہ نہیں oچاہتے تھے کہ نورالدین کی وراثت صالح الدین کے پاس جائے۔ یہ صورتحال اگلے سال اپریل تک چلی جب
نورالدین زنگی کے بیٹے oالصالح حلب کے عالوہ شام کے تمام عالقوں پر صالح الدین کا حق تسلیم کرنے پر مجبور ہو
گئے۔
فلپس بتاتے ہیں کہ اپریل کے آخر میں صالح الدین نے اہم پیشرفت میں الصالح کے نام کے سکے بند کروا دیے اور اپنے
عالقوں میں جمعہ کے خطبوں میں بھی ان کا نام رکوا دیا۔
سنہ 1175کے موسم گرما میں سلطان نے فرینکس سے بھی وقتی صلح کر لی۔ وہ بظاہر جنگی مہمات کے طویل سلسلے
کے بعد oکچھ دیر کے لیے رکنا چاہ رہے تھے۔ اس کے عالوہ خطے میں قحط نے بھی صورتحال مشکل کر دی تھی۔
مگر صالح الدین کے لیے مایوسی کی بات یہ تھی کہ اسی طرح کی سند حلب میں الصالح کے لیے بھی جاری کی گئی
تھی۔
مؤرخ فلپس کے مطابق یہ خلیفہ کی طرف سے سلطان کے لیے پیغام تھا کہ نورالدین زنگی کے وارثوں اور حلب کے
لوگوں کی رائے کا احترام کیا جائے اور وہ خود اب یروشلم کو دوبارہ فتح کرنے کی تیاری کریں۔
سنہ 1187تک سلطان صالح الدین کو یروشلم آزاد کروانے کے عزم کا اعادہ کرتے ایک دہائی گزر چکی تھی۔ اب ان
کے پاس شام اور مصر اور ’جزیرہ‘ کے عالقے کے وسائل کے ساتھ ایک وسیع سفارتی نیٹ ورک بھی تھا کہ وہ پوری
توجہ اس مشن پر لگا سکیں۔
فلپس لکھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں اور سرداروں سے نمٹنے oمیں صالح الدین کا اتنا وقت لگ گیا کہ لوگ کہنے oلگے
کہ وہ اپنا مقصد بھول کر مسلمانوں سے ہی لڑتے رہتے ہیں۔ ’سالوں کے پروپیگنڈے oکے بعد اب سلطان کے لیے فیصلہ
کن وار کرنا ضروری ہو گیا تھا۔‘
اسی سال ایک مقامی مسیحی نواب رینلڈ نے ایک تجارتی کارواں پر حملہ کر کے امن معاہدے کی خالف ورزی کی اور
پھر قیدیوں کو واپس کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
اب سلطان کے پاس حملہ کرنے کا جواز تھا اور انھوں نے اپنے اقتدار کی سب سے بڑی فوج جمع کی۔ ’ہر طرف ایوبی
خاندان کے زرد پرچم لہرا رہے تھے۔‘ فلپس نے سلطان کے قریبی مؤرخ عماد الدین کے حوالے سے لکھا کہ ایسے لگتا
تھا جیسے زمین نے نے نیا لباس پہن لیا ہو۔ صالح الدین نے کہا کہ یہی وہ دن ہے جس کا میں انتظار کر رہا تھا۔
دو جوالئی کو سلطان کے فوجیوں نے طبریا (ٹائبیریاس) نامی ایک شہر کا گھیراؤ کر لیا جس کا حکمران الرڈ ریمنڈ
مرکزی مسیحی فوج کے ساتھ تھا اور شہر کا انتظام ان کے اہلیہ کے ہاتھ میں تھا۔ الرڈ ریمنڈ کی بیوی نے شہر پر سلطان
کے قبضے کے وقت ایک قلعے میں پناہ لے لی۔ ایک الرڈ کی بیوی کو تحفظ فراہم کرنا عالقے کے مسیحی اشرافیہ کے
لیے عزت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔
فلپس نے مسلمان مؤرخ ابن االثیر کا حوالہ دیا ہے کہ ’سلطان کے طبریا پر حملے کا صرف ایک مقصد تھا کہ مسیحی
فوج کو اپنی پوزیشن چھوڑنے پر مجبور کیا جائے‘ اور اس میں وہ کامیاب ہو گئے تھے۔ اس جنگ کو معرکہ حطین کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہDEA / G. DAGLI ORTI/Getty Images
،تصویر کا کیپشن
سلطان صالح الدین ایوبی کی یروشلم کی طرف پیشقدمی سے پہلے صلیبیوں کے خالف معرکہ حطین میں اہم کامیابی
فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صالح الدین کی معرکہ حطین میں کامیابی اور اس میں فرینکس کی فوج کی تباہی نے خطے
میں طاقت کا توازن بدل دیا۔ لیکن یروشلم حاصل کرنے کے لیے ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ’اگلے سات
ہفتے انھوں نے سلطنت یروشلم میں کئی زبردست مہمات کیں جن میں سے کئی کی قیادت انھوں نے خود کی۔‘
عکا کا شہر 8جوالئی کو فتح ہوا اور کئی دہائیوں میں پہلی بار وہاں 10جوالئی سنہ 1187کو جمعے کی نماز ادا کی
گئی۔ اس کے بعد بیروت فتح ہونے میں بھی زیادہ دن نھیں لگے۔
اشکیلون کو فتح کرنے میں دو ہفتے لگے۔ یہاں بھی صالح الدین نے شہر والوں کے ساتھ سختی نہیں کی۔ ’وہ قتل عام کا
سلسلہ نہیں چاہتے تھے اور چاہتے تھے کہ کہیں پر ان کے خالف زیادہ مزاحمت نہ ہو اور ان شہروں کے قریب
مسلمانوں کی بھی آبادیاں تھیں۔‘
اشکیلون کے باسیوں کو یروشلم جانے کا موقع دیا گیا جہاں وہ پناہ گزینوں کی اس بڑی تعداد oکا حصہ بن گئے جو مذہبی
جذبے سے یروشلم کے دفاع میں حصہ ڈالنے کے لیے وہاں پہنچ رہے تھے۔
سلطان نے کہا کہ معرکہ حطین میں کامیابی اور یروشلم کی دیواروں کے باہر ان کی موجودگی خدا کی نصرت کا ثبوت
ہیں۔ سلطان نے اپنی تقریر کا اختتام اس عزم پر کیا کہ ’وہ یروشلم سے اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک ڈوم آف دی
راک یا قبۃ الصخرہ پر ان کا قبضہ نہیں ہو جاتا۔‘
معرکہ حطین میں شکست کے بعد oکسی مسیحی امدادی فوج کی آمد کا امکان ختم ہو چکا تھا۔ یروشلم کے بادشاہ تو معرکہ
حطین میں قیدی بن گئے تھے اور ان کی جگہ شہر کے منتظم بالیان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے اور
ہتھیار ڈالنے کے مذاکرات شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
شہر پر قبضے کے لیے خونی ٹکراؤ سے بچنے کے فوائد ،مسلمان قیدیوں کی زندگی اور مقدس مقامات کی سالمتی کی
صورت میں واضح تھے۔ اس کے عالوہ اس صورت میں مسیحی قیدیوں oکے لیے ملنے والے ممکنہ تاوان کی شکل میں
مالی فائدے کا بھی امکان تھا۔
ہتھیار ڈالنے کی تاریخ دو اکتوبر طے کی گئی جو جمعے کا دن تھا اور سنہ 1187کی یہ رات معراج کی رات بھی تھی۔
اس تاریخ کی وجہ سے یروشلم کی فتح کا منظر دیکھنے oکے لیے صوفیوں ،درویشوں اور علما کو بھی وہاں پہنچنے کا
وقت مل گیا۔
فلپس نے لکھا ہے کہ سب کے لیے دس دینار قیمت طے کرنے پر صالح الدین تنقید کا نشانہ بھی بنے کیونکہ امیر لوگ
با آسانی یہ پیسے دے کر اپنے قیمتی سامان کے ساتھ یروشلم سے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ لوگوں نے ایسے ایک امیر
مسیحی عہدیدار کا قیمتی سامان ضبط کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن صالح الدین نے جواب دیا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ
انھوں نے اُن لوگوں کو اُن کی منزل تک سکیورٹی بھی فراہم کی۔
مؤرخ لکھتے ہیں اس کے باوجود ’ 16ہزار غریب لوگ شام اور مصر کی غالموں کی منڈیوں میں بکے۔‘
جمعہ کی نماز کی امامت کے لیے سلطان کا فیصلہ دمشق کے قاضی اور شاعر محی الدین کے حق میں تھا جنھوں نے
چار سال قبل سنہ 1183میں حلب کی فتح کے موقع پر یروشلم کی فتح کی پیشینگوئی کی تھی۔ جمعہ کا خطبہ مسجد
االقصی میں دیا گیا۔ قاضی محی الدین نے سنہ 1187کی یروشلم کی فتح کا موازنہ تقریبا ً ساڑھے پانچ سو سال قبل سنہ
638میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ کے دور میں اس شہر کی فتح سے کیا۔
انھوں نے سلطان صالح الدین کو اسالم کا نیا ہیرو قرار دیا۔ ادھر سلطان صالح الدین کو احساس تھا کہ اب انھیں ایک اور
صلیبی جنگ کا سامنا کرنا ہوگا جو یروشلم کو مسلمانوں کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے لڑی جائے گی۔ انھیں
معلوم تھا کہ اس خطرے سے نمٹنے oکے لیے انھیں مزید فرنگی عالقوں پر قبضہ کرنا ہوگا۔
سلطان نے جواب میں مصر ،یمن اور یروشلم میں اپنی کامیابیاں گنوائیں۔ ’کیا میں نے یروشلم کو حاصل کر کے مکہ
سے نھیں جوڑا۔۔۔۔کیا میں نے اپنی کارروائیوں سے مغرب کو مرعوب نھیں کیا۔‘
فلپس لکھتے ہیں کہ ایک اور صلیبی جنگ آتے دیکھ کر وہ سنی اسالمی دنیا کے روحانی پیشوا کو ناراض نہیں کر
سکتے تھے۔
ان کے سیکرٹری کے مطابق سلطان کی جہاد کے لیے تیاری کا یہ عالم تھا کہ وہ رمضان کے مہینے oمیں بھی آرام نھیں
کرتے تھے۔ ’یہ جتنا بھی قابل تعریف تھا حقیقت یہ ہے کہ جیسا آگے چل کر ہوا اس چیز نے ان اور ان کے قریبی
ساتھیوں کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔‘
فلپس لکھتے ہیں کہ پادریوں اور مسیحی امرا نے مغربی یورپ کے دورے کیے اور لوگوں سے کہا کہ مشرق میں
مسلمانوں کے ہاتھوں بہت مسیحی خون بہا ہے اور مقدس مقامات کی توہین معمول بن گیا ہے۔ سلطان کے بارے میں کہا
گیا کہ وہ مسیحیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
’یروشلم کی شکست الطینی مسیحی دنیا کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا جس کی اس سے پہلے الطینی دنیا میں مثال نھیں
تھی اور واقعے کا موجب اور مرکزی کردار کے طور پر سلطان صالح الدین سے برا شخص کوئی نھیں ہو سکتا تھا۔‘
یورپ میں فرانس کے بادشاہ فلپ آگستس ،انگلینڈ کے بادشاہ ہنری دوم ،جرمنی کے بادشاہ فریڈرک بارباروسا اور کئی
دیگر حکمران صلیب تھام چکے تھے۔ اب صلیبی جنگ کی تبلیغ ،فوجیوں کی بھرتی اور مقدس مقامات تک پہنچنے oکے
لیے ایک سال کا وقت درکار تھا۔ کچھ چھوٹی مہمات پہلے ہی روانہ ہو چکی تھیں۔ ان کی پہلی منزل صور کا شہر تھا۔
جرمنی کے بادشاہ مئی 1189میں روانہ ہوئے۔
،تصویر کا کیپشن
عکا کا طویل محاصرہ :مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان سب کے عالوہ سب سے اہم پہلو بیماری ہے۔ خوراک کی کمی ،خراب
ادنی سپاہی سے جرنیلوں تک سب کو متاثر کرتے ہیں۔ 'تیروں ،تلواروں اور آگرہائشی حاالت ،جسمانی اور ذہنی تھکان ٰ
برساتے ہتھیاروں سے کہیں زیادہ جانیں بیماری کے ہاتھوں ضائع ہوئی تھیں۔ '
عکا کا طویل محاصرہ اور محاذ پر جوش و خروش
مسیحی فوج نے عکا شہر کی طرف پیش قدمی کی۔ انھوں نے اگست کے آخری ہفتے میں عکا کے سامنے ایسی جگہ
پڑاؤ ڈاال کہ انھیں ساحل سے امداد حاصل کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ اب بیچ میں عکا شہر تھا اس کے گرد مسیحی
فوج جو خود صالح الدین کے فوجیوں کے گھیرے میں تھی۔
فلپس لکھتے ہیں کہ عکا شہر کے لیے یہ لڑائی قرون وسطی کے طویل ترین محاصرے پر مشتمل تھی جو تقریبا ً دو سال
تک جاری رہا۔ سب کو معلوم تھا کہ جو بھی یہاں کامیاب ہو گا اسے یروشلم پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی میں
واضح برتری حاصل ہو گی۔
دونوں طرف اتنا جوش و خروش تھا کہ سمندر پار مغربی یورپ سے اور اسالمی دنیا سے ہزاروں مرد اور عورتوں اس
محاذ پر جمع ہو رہے تھے۔ ایک طرف انگلینڈ ،فرانس ،ویلز ،ڈنمارک ،فلینڈرز ،ہالینڈ o،بیلجیم اور جرمن سلطنت بشمول
شمالی اٹلی ،پولینڈ o،ہنگری ،جنوبی اٹلی ،سسلی ،جنووا ،وینس اور پیسا سے مسیحی صلیبی جنگ میں حصہ لینے کے
لیے آئے تھے اور ان کے مقابلے کے لیے مصر ،شام ،یمن ،ایشیائے کوچک ،آذربائیجان اور خراسان سے آنے والوں
کے عالوہ ترک ،کرد ،عرب ،نوبی ،آرمینیائی اور بدو مسلمان بھی وہاں موجود تھے۔
فلپس لکتھے ہیں کہ کسی بھی جنگ کے کچھ ادوار اس کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن اتنی طویل جنگ میں پورا سال ہر
روز لڑا نھیں جا سکتا۔ اس میں سفارتکاری کے باب آتے ہیں ،تھکی ہوئی فوجیں آرام کرنے کے لیے رکتی ہیں ،ہفتوں
تک خراب موسم جنگ نھیں ہونے دیتا اور جنگوں کے دوران بوریت سے سب واقف ہیں۔
مؤرخ بہاؤالدین لکھتے ہیں کہ کئی بار بوریت کے ہاتھوں مجبور ہو کر دونوں طرف کے فوجی لڑائی بھول کر ایک
دوسرے سے بات چیت میں لگ جاتے اور بات مل کر گانے اور ناچنے تک بھی پہنچ جاتی۔
فوجی کیمپوں میں گرم پانی کے ٹب میں لیٹنے کی قیمت ایک درھم
مؤرخ لکھتے ہیں کہ حیران کن طور پر دونوں کیمپوں کے درمیان خوراک کی خرید و فروخت بھی جاری تھی۔
محاصرے کا ایک سال ہورا ہوا تو لوگ اس کی حقیقتوں سے سمجھوتہ کر چکے تھے۔ فلپس لکھتے ہیں کہ جنگ کی
تھکان اتارنے کے خواہشمندوں کو صرف مغربی تاجروں کے پاس جانے کی ضرورت تھی جن کے گرم پانی کے ٹب
میں لیٹنے oکی قیمت ایک درہم تھی۔‘
صلیبیوں کا بیماری سے خاص طور پر زیادہ نقصان ہوا کیونکہ انھیں خطے کے ماحول ،بیماریوں اور موسم کی عادت
نھیں تھی۔ ان میں تین اہم لوگ جو ہالک ہوئے تھے ان میں یروشلم کی سلطنت کی ملکہ سبیال اور ان کی دو بیٹیاں بھی
شامل تھیں۔
سردیوں میں مسلم ذرائع بتاتے ہیں صلیبی فوج میں روزانہ 100فوجی ہالک ہو رہے تھے۔ مغربی ذرائع لکھتے ہیں ہر
کوئی کھانس رہا تھا ،لوگوں کی ٹانگیں اور منہ سوجے ہوئے تھے اور ان کے دانت گر رہے تھے۔ مکئی اور انڈے حد
سے مہنگے ہو چکے تھے اور مرا ہوا گھوڑا زندہ گھوڑے سے مہنگا تھا۔ تاہم ان تکالیف کے باوجود صلیبی پر امید
تھے۔ انھیں یقین تھا کہ مزید کمک آرہی ہے۔
وسطی ستمبر تک عکا شہر میں خوراک کی شدید قلت بھی پیدا ہو گئی۔ شہر کے منتظمین oنے سلطان تک یہ خبر پہنچائی
تو انھوں نے مکمل رازداری کا حکم دیا۔ انھیں معلوم تھا کہ مصر سے تین بحری جہاز خوراک کا بڑا ذخیرہ لے کر عکا
آ رہے ہیں۔ اتنا وقت نھیں تھا کہ ان جہازوں کو رازداری سے شہر کی طرف الیا جائے اور انھوں نے سیدھا بندرگاہ کا
رخ کیا۔ سلطان اس دوران بے چینی سے ساحل پر انتظار کر رہے تھے۔ ’وہ ایک گھبرائی ہوئی ماں کی طرح خدا سے
فتح مانگ رہے تھے۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان کی فوج میں زیادہ تر تنخواہ دار سپاہی تھے۔ سنہ 1187اور 1188کی کامیابیاں سب
کے لیے فائدہ مند تھیں لیکن عکا کے طویل ہوتے محاصرے کی کشش کم ہو رہی تھی۔
مارچ 1190کے آخر تک سلطان کو شام کے شہروں حمص اور حما سے امداد پہنچ چکی تھی۔ ان کے بھائی سیف الدین
بھی مصر سے فوج کے ساتھ پہنچ oچکے تھے۔
لیکن اس دوران بغداد oمیں خلیفہ کی خاموشی سلطان کے لیے پریشان کن تھی۔ ان کی طرف سے ’آتش یونانی‘ کچھ مقدار
میں ،محاصرے کی جنگ کے ماہر کچھ انجنیئر اور 20ہزار دینار بھیجے گئے جو سلطان نے انتہائی ادب کے ساتھ
وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ ’مسئلہ امداد کی مقدار سے زیادہ ان کی طرف سے سلطان کی مشرق قریب کو جہاد کے
لیے اکٹھا کرنے کی کوششوں کو مکمل اخالقی حمایت نہ ملنا تھا۔‘
فلپس لکھتے ہیں مسلمان حکمران جنھوں نے ان کا ساتھ نھیں دیا یا ان کی مدد نھیں کر سکے یہ فعل ان میں مذہبی جذبے
کی کمی کی بجائے عالقائی مجبوریوں کا عکاس ہے ،جیسا کہ بہت سے سلجوق سرداروں کے ساتھ ہوا۔ اس کے عالوہ
کچھ حکمران خاندان شاید ایوبی خاندان کو فائدہ بھی نھیں پہنچانا چاہتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہUniversalImagesGroup
،تصویر کا کیپشن
عکا کا محاصرہ ختم ہونے کے بعد انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کے ہاتھوں 2600مسلمان قیدی قتل ہوئے
مسیحیوں کا پانچ منزلہ چلتا ہوا ٹاور اور نوجوان مسلمان تانبہ گر کا جوابی وار
سردیوں کے موسم میں بارش اور کیچڑ نے کیمپوں میں زندگی مشکل کر دی لیکن اس دوران مسیحیوں نے محاصرہ
توڑنے کے لیے تین دیو ہیکل ٹاور تعمیر کر لیے۔ ہر ٹاور پانچ منزل اونچا تھا۔ لکڑی کی قیمت بہت زیادہ تھی اور ان کو
کسی حملے سے بچانے کے لیے مٹی اور سرکہ لگے چمڑے سے لپیٹا گیا تھا۔ اس کا سب سے اونچا پلیٹ فارم اتنا بڑا
تھا کہ اس پر منجنیق رکھی جا سکتی تھی۔
آتش گیر مادہ فائر کر کے ان کو جالنے کی کوشش کی گئی لیکن بے سود۔ صالح الدین کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے
عملے میں ایک تانبہ گر کا بیٹا موجود تھا جو ’آتش یونانی‘ کے ساتھ تجربے کر کے اس کی طاقت بڑھانے کی کوشش
کر رہا تھا۔ اس نے سلطان کو منا لیا کہ اسے کسی بھی طرح شہر کے اندر داخل کروایا جائے۔
اس نوجوان نے اپنے تجربات کی روشنی میں کیمیائی مادہ تیار کیا جسے برتنوں میں بھر کر ایک ٹاور کی طرف داغا
گیا لیکن ٹاور کو کوئی فرق نھیں پڑا۔ فلپس لکھتے ہیں کہ وہ لڑکا مایوس نھیں ہوا۔ شہر کی دیوار سے ٹاور تک فاصلے
کا اندازہ تو اسے ہو چکا تھا۔ دوسری بار اس نے برتن میں مقدار بڑھا کر فائر کروایا اور اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی
جب ٹاور میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس کے بعد دوسرا اور تیسرا ٹاور بھی اسی طرح تباہ کر دیا گیا۔ اس لڑکے کو اب شہر
سے باہر سمگل کر کے صالح الدین کے سامنے پیش کیا گیا جنھوں نے اسے زمین اور پیسہ انعام میں دیا لیکن اس نے
یہ کہتے ہوئے وہ سب لینے سے انکار کر دیا کہ اس نے جو کیا خدا کی رضا کے لیے کیا۔
نومبر میں جنگ کا سیزن ختم ہونے سے پہلے دو بڑے معرکے ہوئے۔ سلطان ایک بار پھر بیماری کی وجہ سے دور
سے ہی معرکے کی کارروائی دیکھنے oپر مجبور تھے۔
انھیں سردیوں کے لیے کھالوں سے بنے کوٹ دیے گئے بلکہ کمانڈر کو تو سلطان نے اپنا کوٹ دے دیا۔ انھیں کھانا دیا
گیا اور سلطان کے ساتھ والے خیمے میں ٹھہرایا گیا۔ کمانڈر کو کھانے کے لیے سلطان کے ساتھ جگہ ملی۔
فلپس لکھتے ہیں کہ ’بے شک اس کا مقصد صلیبیوں کے منصوبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا بھی تھا لیکن
سلطان کے لیے اس طرح کا رویہ نئی بات نھیں تھی۔‘
محاصرے کی ان تمام مشکالت میں سلطان کی رحم دلی اور سخاوت کی کہانیاں مسلسل سننے کو ملتی رہیں۔ ایک بار
صلیبی کیمپ سے ایک عورت کا نوزائیدہ بچہ کوئی اٹھا کر لے گیا اور پھر اسے بیچ دیا۔ معاملہ سلطان تک پہنچا۔ مؤرخ
بہاؤالدین موقع پر موجود تھے۔ سلطان نے بچہ برآمد کروایا اور اس کے خریدار کو قیمت ادا کر کے بچے کو ماں کے
حوالے کر دیا۔
،تصویر کا کیپشن
انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل یروشلم کے راستے میں ایک معرکے کے دوران
فرانس کے بادشاہ فلپ آگستس اور انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل کی آمد
20اپریل کو فرانس کے بادشاہ فلپ فوجیوں ،گھوڑوں اور اسلحے کے ساتھ چھ جہازوں پر پہنچ گئے۔ مئی کے آخر تک
انھوں نے سات نئی منجنیقیں تعمیر کروائیں جو شہر کی دیواروں کو شدید نقصان پہنچا رہی تھیں۔ دوسری طرف سلطان
مسلسل اہنے بیٹوں اور افسروں کے ذریعے صلیبیوں پر حملے کرواتے رہے لیکن اتنے مہینوں میں ان کی دفاعی
پوزیشنیں مضبوط ہو چکی تھیں۔
آٹھ جون 1191کو انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیردل بھی عکا پہنچ گئے۔ بہاؤالدین بتاتے ہیں کہ وہ 25بحری جہازوں میں
پہنچے۔ مغربی یورپ میں طویل جنگی مہمات کے تجربے ،انتہائی باریکی سے پالننگ کی مہارت ہونے کے ساتھ وہ
زبردست جنگجو تھے۔ ان کے ساتھ 17000فوجیوں کی آمد نے صلیبی فوج کے حوصلے بہت بلند کر دیے۔ سلطان نے
ایک بار پھر مشرق قریب میں پیغام بھیجا کہ ’عکا شہر شدید خطرے میں ہے۔۔۔اگر اب امداد نہ آئی تو کب آئے گی۔‘
20جون کو بادشاہ رچرڈ کا ایلچی سلطان کے سامنے پیش ہوا اور انگریز بادشاہ کی طرف سے مالقات کی خواہش کا
اظہار کیا۔ سلطان نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ بادشاہوں میں مالقات کسی معاہدے کے بعد ہوتی ہے کیونکہ مالقات اور
ایک میز پر کھانا کھانے کے بعد آپس میں جنگ نھیں لڑی جاتی۔ یاد رہے کہ تیسری صلیبی جنگ کا سب سے اہم پہلو
سفارتکاری تھا۔
دریں اثنا سنجار ،موصل اور موصل سے امداد کیمپ میں پہنچی لیکن بقول بہاؤالدین کہ شہر کے گرد شکنجا کسا جا چکا
تھا۔
فرانسیسی اور انگریز صلیبی اتنے زیادہ تھے کہ وہ شفٹوں میں کام کر سکتے تھے اور شہر کا دفاع کرنے والوں کو
بالکل آرام نھیں مل رہا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ شہر کے باہر اپنے کیمپوں کے گرد خندقیں بنا چکے تھے جس سے سلطان کا
ان پر حملہ کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
صالح الدین ’بےچین ماں کی طرح گھوڑے پر ایک ڈویژن سے دوسری ڈویژن تک جاتےاور لوگوں کو جہاد میں اہنا
فرض ادا کرنے کی تلقین کرتے۔‘ ’ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ انھوں نے ان دونوں میں کوئی کھانا نھیں کھایا
اور ان پر تھکان اور غم طاری تھا۔‘
شہر سے پیغام آیا کہ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو وہ صلیبیوں سے صلح کا معاہدہ کر لیں گے۔
تاریخ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ شہر میں مایوسی پھیل رہی تھی۔ شہر کا حصار کمزور پڑتا جا رہا تھا اور ان کی طرف
سے سخت مزاحمت کے باوجود صلیبوں کی فتح یقینی ہوتی جا رہی تھی۔ 12جوالئی کو شہر سے تیراک نے سلطان کو
آکر شہر کی طرف سے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور معاہدے oکی خبر دی۔ فلپس بتاتے ہیں کہ انھوں نے قتل عام
سے بچنے کے لیے ایسا کیا۔ معاہدے کے تحت انھیں ’اصل صلیب‘ 1500قیدی چھوڑنے کے عالوہ صلیبیوں کو دو الکھ
دینار بھی دینے oتھے۔‘
صالح الدین نے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا لیکن اس پر دستخط انھیں کے ہونے تھے
معاہدے میں سلطان کے لیے سب سے مشکل سوال دو الکھ دینار کا تھا۔ اس جنگ میں بہت زیادہ وسائل استعمال ہو چکے
تھے اور سلطان کو بار بار مالی مدد کی درخواست کرنی پڑی تھی۔ ان کی دریا دلی بہت سے اتحادیوں کو اکٹھا رکھنے
کا اہم ذریعہ ثابت ہوئی تھی اور اب جب ان کے پاس ذاتی وسائل ختم ہو رہے تھے یہ مطالبہ مشکل تھا۔ بظاہر ایسا لگتا
ہے کہ سلطان نے آدھی رقم ادا کر دی اور ان کی طرف سے طے شدہ تعداد سے آدھے قیدی آزاد کرنے کی پیشکش قبول
کر لی گئی۔
مسلمان قیدیوں کا قتل عام
تاریخ بتاتی ہے کہ سلطان کا اصرار تھا کہ مسلمان قیدیوں میں اہم عہدیدار بھی شامل ہونے چاہیں اور یہ صرف عام قیدی
نہ ہوں۔ اس معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ قیدیوں کے تبادلے میں تاخیر ہونے لگی۔ رچرڈ نے ان کی تحویل میں مسلمان
قیدیوں کو جن کی تعداد 2600تھی ایک جگہ اکٹھے کر کے ہالک کر دیا۔ جب تک مسلمانوں کو اس کی خبر پہنچی بہت
دیر ہو چکی تھی۔
فلپس لکھتے ہیں کہ ان کا مقصد سلطان صالح الدین کو بدنام کرنا تھا کہ وہ تو اپنے لوگوں کی حفاظت بھی نھیں کر
سکتے۔ بہاؤالدین نے لکھا رچرڈ تیزی سے یروشلم کی طرف بڑھنا چاہتے تھے اور ان قیدیوں کے لیے اپنے کچھ سپاہی
پیچھے چھوڑنے پڑنے تھے۔ سلطان نے بھی ماضی میں قیدی ہالک کیے تھے لیکن انھوں نے ایسا جنگوں کے بعد کیا
تھا نہ کہ کبھی کسی معاہدے oپر بات چیت شروع ہونے کے بعد۔
عکا سے روانہ ہوتے ہی مسلمان تیر اندازوں نے صلیبیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ سلطان کے بیٹے االفضل نے اس
میں اہم کردار ادا کیا۔ ان دنوں جو صلیبی قیدی بنتا اس کے ساتھ سخت سلوک کیا جاتا اور اس میں عہدے اور رتبے کی
کوئی تفریق نھیں کی گئی۔
سلطان کی فوج سے مارچ کے دوران روایتی انداز میں ڈھول اور بگل بجائے جا رہے تھے۔ صلیبی فوج میں دور سے
بادشاہ رچرڈ کا پرچم دیکھا جا سکتا تھا جو ایک اونچے پول سے لہرا رہا تھا۔ ان کی انفنٹری تیروں کی بارش سے بچنے
کے لیے سر سے پاؤں تک زرہ بکتر میں ملبوس تھی اور گھڑسواروں کے باہر کی طرف مارچ کر رہی تھی تاکہ قیمتی
گھوڑوں کو سلطان کی فوج سے برسائے جانے والے تیروں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
فلپس لکھتے ہیں کہ کون سے سپاہی ساحل والی طرف مارچ کریں گے اور کون سے باہر کی طرف اس میں بھی باریاں
لگی تھیں تاکہ سب کو سلطان کی فوج حملوں سے بچ کے چلنے کا موقع ملے۔
اس دوران سلطان کی صحت کے مسائل جاری تھے۔ وہ کئی بار گھڑسواری بھی نھیں کر پا رہے تھے اور گرمی سے
بچنے کے لیے رات کو فوج کا معائنہ کرتے تھے۔
اس دوران انھوں نے تیزی سے شہر میں خوراک اور دیگر ضروری اشیا کے معائنے کے لیے یروشلم کا ایک ہنگامی
دورہ بھی کیا اور واپس آ کر اپنے امرا سے صورتحال پر مشاورت کی۔
انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ کی بھی صحت اچھی نھیں تھی جس کی وجہ سے انھیں ایک بار واپس عکا بھی جانا پڑا۔ اس
کے عالوہ عکا کی کامیابی کے بعد ان کے سپاہی وہاں شراب اور لڑکیوں کی کشش میں بھی وقت ضائع کر رہے تھے۔
رچرڈ کو خود جا کر انھیں صلیبی جنگ کے فرائض یاد کروانے پڑے۔
اس دوران صلیبی کچھ دیر کے جافا کی تعمیر نو کے لیے بھی رکے کیونکہ انھیں یروشلم تک راستے کو محفوظ کرنا
تھا۔ پیسوں کی کمی بھی ہونا شروع ہو گئی تھی اور رچرڈ نے مغربی یورپ امداد کے لیے پیغامات بھیجے۔
تیسری صلیبی جنگ کا سب سے اہم پہلو اس کے دوران ہونے والی سفارتی مالقاتوں کی تعداد oتھی۔ اہم واقعات کے ساتھ
صلیبیوں کے ساتھ سفارتی رابطے بھی جاری تھے خاص طور پر ان کے ایک اہم رہنما کونراڈ کے ساتھ جو اپنے آپ کو
مستقبل میں یروشلم کا بادشاہ دیکھ رہے تھے۔
ستمبر 1191کے آخر سے اکتوبر کے وسط تک رچرڈ اور سلطان کے بھائی سیف الدین کے درمیان بھی رابطے جاری
رہے جن میں دونوں طرف سے نفاست اور درباری آداب سے ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کی پوری کوشش کی
جاتی رہی۔
مذہبی اور لسانی فرق اپنی جگہ دونوں میں سلطان صالح الدین میں بہت کچھ مشترک تھا مثالً گھوڑوں کا شوق۔ مالقاتوں
کے ان ادوار میں رچرڈ اور سیف الدین کے تعلقات ابتدائی تکلفات سے آگے بڑھ چکے تھے۔ لیکن اس سب سے یروشلم
کے مستقبل کا سوال اپنی جگہ موجود تھا۔
سلطان نے اپنے امرا سے مشاورت کے بعد جواب دیا ’یروشلم جتنا آپ کا ہے اتنا ہی ہمارا بھی ہے ،بلکہ ہمارے لیے
زیادہ اہم ہے کیونکہ یہاں سے ہمارے پیغمبر معراج پر گئے تھے۔ بادشاہ کو یہ بلکل خیال نھیں آنا چاہیے کہ ہم اسے
چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے بیچ میں اس طرح کا ایک لفظ بھی نھیں نکال سکتے۔ جہان تک زمین کا تعلق ہے یہ
شروع سے ہماری تھی۔ آپ لوگوں کے ہاتھوں اس کی فتح ایک غیر متوقع حادثہ تھا جو مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ
سے پیش آیا۔۔۔۔‘
صلیبی اور مسلمان کیمپوں میں نرمی اور سلطان کے بھائی اور رچرڈ کی بہن کی شادی کی تجویز
فلپس لکھتے ہیں کہ یروشلم کے بارے میں دونوں طرف کے جذبات کی روشنی میں کسی کے لیے بھی پیچھے ہٹنا آسان
نھیں تھا۔ لیکن اگلے ایک سال میں دونوں کی پوزیشن میں کافی نرمی آ چکی تھی۔
کچھ روز تک دونوں طرف سے پیغام آتے رہے جس کے بعد سلطان کے بھائی سیف الدین نے اپنے خاص امرا کی
میٹنگ بال کر رچرڈ کی صلح کے لیے بنیادی تجویز ان کے سامنے رکھی جس کے مطابق سیف الدین رچرڈ کی بہن جو
این سے شادی کریں گے جو حال ہی میں بیوہ ہوئی تھیں اور صالح الدین انھیں ساحلی عالقوں کا بادشاہ تسلیم کر لیں
گے۔ یروشلم ان کا دارالحکومت ہو گا اور دیہات مسیحی فوجی گروپوں کے زیر انتظام چلیں گے اور قلعے نو بیاہتا
جوڑے کی ملکیت ہوں گے۔ تمام قیدی رہا کر دیے جائیں گے اور مقدس صلیب مسیحیوں کے حوالے کر دی جائے گی
اور بادشاہ رچرڈ واپس یورپ چلے جائیں گے۔
جب صالح الدین نے تجویز سنی پہلے تو انھیں اس کے سچ ہونے پر یقین نہ آیا لیکن انھوں نے اشارہ دیا کہ وہ اصوالً
اس پر راضی ہو سکتے ہیں۔
تاہم بعد میں رچرڈ کی بہن کی شادی کا معاملہ دیگر صلیبیوں کی طرف سے اعتراض کے بعد پاپائے روم کے سامنے
رکھ دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر پاپائے روم نے منع کر دیا تو اہنی نوجوان بھتیجی کی شادی سیف الدین سے کر
سکتے ہیں اور اس کے لیے ان کو کسی کی اجازت کی ضرورت نھیں۔
صلیبی یروشلم پر حملے کے لیے تیار اور رچرڈ اور سیف الدین کی مالقات
خبر آنے پر کہ صلیبی یروشلم پر حملے کے لیے تیار ہیں مسلمان بھی جنگی حالت میں آ گئے۔ سیف الدین ہراول دستے
کے انچارج تھے۔ رچرڈ شہر سے چھبیس کلومیٹر دور تھے۔ شہر کی طرف جانے والے راستے پر سفر آسان نھیں تھا۔
لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اس دوران بھی ایسے سیاسی اور نجی واقعات جاری تھے جن کا قیادت پر بوجھ پڑ سکتا تھا۔
سلطان کے ایک کزن کا دمشق میں انتقال ہو گیا اور بہاؤالدین لکھتے ہیں سلطان کو اس کا بہت غم تھا۔ اس کے بعد نومبر
کے آغاز میں جب دونوں فوجیں رام ہللا میں آمنے سامنے تھیں اور کشیدگی بڑھ چکی تھی سلطان کو ایک خط موصول
ہوا جسے پڑھ کر وہ رونے لگے اور انھیں اس حالت میں دیکھ کر ان کے کئی ساتھیوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔
باآلخر سلطان نے مخصوص لوگوں کے سامنے اپنے بھتیجے oتقی الدین کی شمال میں ایک مہم میں موت کا اعالن کر
کے سب کی تشویش ختم کی۔ لیکن انھوں نے اس خبر کی تشہیر سے سب کو منع کر دیا۔
لیکن اس دوران بھی سفارتی مالقاتیں جاری تھیں۔ سیف الدین اور رچرڈ کی نومبر میں دوستانہ ماحول میں ایک مالقات
ہوئی۔ دونوں طرف سے بڑے بڑے خیمے نصب کیے گئے اور تحائف اور خاص طور پر تیار کیے گئے پکوانوں کے
تبادلے ہوئے۔ سیف الدین کی طرف سے سات قیمتی اونٹ اور ایک خیمہ تحفے میں دیا گیا۔
رچرڈ نے مسلمانوں کی موسیقی سننے کی خواہش کا اظہار کیا تو سیف الدین نے خاتون کو طلب کیا جس نے ہارپ بجایا
جسے بہت پسند کیا گیا۔ دونوں بظاہر ایک دوسرے سے مل کرخوش تھے لیکن دونوں طرف کے کاتب ان دونوں رہنماؤں
کی نیت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے رہے۔
رچرڈ کی طرف سے ایک بار پھر صالح الدین سے ملنے کی خواہش کا اظہار اور سلطان کا انکار
بادشاہ رچرڈ نے سیف الدین کے سامنے ایک بار صالح الدین سے مالقات کی خواہش ظاہر کی اور جب صالح الدین تک
یہ دعوت نامہ پہنچا تو انھوں نے پھر یہ کہہ کر منع کر دیا کہ بادشاہ بغیر کسی معاہدے کے نھیں ملتے۔
فلپس لکھتے ہیں کہ ’ایوبی خوش مزاجی ایک بار مسیحی کیمپ میں خوف کا باعث بن رہی تھی۔‘ سفارتی گنجل میں ایک
اور الجھاؤ کا اضافہ اسی رات رچرڈ کی طرف سے نئی تجاویز کی آمد تھی۔
رچرڈ شیر دل کی نئی تجویز میں سلطان کے بارے میں کیا لکھا تھا؟
مؤرخین کے مطابق رچرڈ نے لکھا کہ اگر سیف الدین ساحلی عالقے لے لیتے ہیں تو ان کے اور رچرڈ کے درمیان کسی
تنازعے کی صورت میں سلطان صالح الدین منصف کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ’یہ ضروری ہے کہ یروشلم میں ہمارا
بھی کچھ کنٹرول ہو۔ میرا مقصد ہے کہ آپ اس طرح عالقے تقسیم کریں کہ سیف الدین پر مسلمانوں اور مجھ پر فرنگیوں
کی طرف سے کوئی تنقید کی گنجائش نہ نکلے۔‘
نومبر کا وسط آ چکا تھا اور رچرڈ کی طرف سے سردیوں میں یروشلم کے محاصرے کا امکان بہت کم تھا لیکن ساتھ ہی
یہ بھی طے تھا کہ اس صورت میں وہ سنہ 1192تک ادھر ہی موجود رہیں گے۔
سلطان کی مشاورت
سلطان نے اپنے امرا کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا اور سب امکانات ان کے سامنے رکھے۔ فلپس کہتے ہیں کہ امرا
کے جواب جو تاریخ کے حوالوں میں درج ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر حاضرین کی رائے میں بادشاہ رچرڈ پر
اعتبار کیا جا سکتا تھا لیکن ان کے بعد پیچھے رہ جانے والے فرینکس پر نھیں۔ ان کی باتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے
کہ عکا کی شکست سے کا غصہ اب کم ہو چکا تھا۔
ہمیشہ کی طرح ان مالقاتوں اور پیغامات کے ساتھ جھڑپیں اور فوجی کارروائیاں جاری تھیں اور ایک بار تو رچرڈ
مسلمانوں کے مورچوں کے اتنے قریب آ گئے کہ ان کے وہاں سے بحفاظت واپس جانے کے لیے ان ایک سپاہی کو ان کا
روپ اختیار کرنا پڑا۔
عسکری اعتبار سے ان کی سپالئی الئن بہت لمبی ہو چکی تھی۔ عکا کی کامیابی میں بندرگاہ تک رسائی کا اہم کردار تھا۔
یہاں وہ کسی قسم کی امداد سے 50کلومیٹر دور تھے۔ قریب کے چھوٹے شہر اور قصبے سلطان صالح الدین حکمت
عملی کے تحت خود ہی تباہ اور خالی کروا چکے تھے۔
فلپس لکھتے ہیں کہ ’مسلمان عکا کی کامیابی کے بعد صلیبیوں کو الجھا دینے oمیں کامیاب رہے تھے۔ سردی کے موسم
میں کسی قسم کا محاصرہ کسی بھی فوج کے لیے مشکل ہونا تھا۔ فلپس لکھتے ہیں کہ مسیح کے شہر کو مسلمانوں سے
آزاد کروانے کا خواب پورا کی خواہش لیے وہ اس کے سامنے آ چکے تھے لیکن بحیثیت لیڈر ان پر اپنے ہزاروں لوگوں
کی بھاری ذمہداری بھی تھی۔
مارچ سنہ 1192میں انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ نے ایک بار پھر سلطان کے بھائی سیف الدین سے رابطہ کیا اور
سفارتکاری کا نیا دور شروع ہو گیا۔
فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان کو اپنے ویٹے االفضل کو روانہ کرنا پڑا۔ رچرڈ کو اس پیشرفت کا پتہ تھا اور ان کی طرف
سے بھی معامالت میں سستی دکھائی جانے لگی۔ معامالت نے اتنا طول پکڑا کہ سلطان کے بھائی سیف الدین کو مسئلے
کو حل کرنے کے لیے یروشلم سے جانا پڑا۔ اس دوران سلطان کے اپنے بیٹے oاالفضل سے بھی اختالفات پیدا ہو گئے۔
تیسری صلیبی جنگ کے آخری مرحلے میں سنہ 1192جافا کا معرکہ ہوا جس کے کے بعد رچرڈ شیر دل اور سلطان
صالح الدین ایوبی کے درمیان معاہدے یہ صلیبی جنگ اختتام کو پہنچی
دریں اثنا انگلینڈ سے رچرڈ کے بھائی جان کی شکایات آنے لگیں کہ وہ انتظامی معامالت میں مداخلت کر رہے ہیں اور
اب ان پر معامالت کو جلد نمٹانے کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یروشلم کی بادشاہت کے بارے میں مسیحی کیمپ
میں پھوٹ پڑ گئی اور رچرڈ کی طرف سے اس عہدے کے نامزد امیدوار کونراڈ قتل ہو گئے۔ تاہم رچرڈ نے حاالت پر
قابو پا لیا اور مئی میں صلیبی ایک بار یروشلم کی طرف پیشقدمی کے لیے تیار تھے۔ اس بار وہ تیزی سے آگے بڑھے۔
اس دوران سلطان کے بھائی سیف الدین اور کچھ اہم لوگ بھی مخبری کی وجہ سے ان کے قیدی بن گئے۔ لیکن سلطان
کے لیے اچھی خبر یہ تھی کہ ان کے بیٹے oاختالفات کو بھال کر دو جوالئی یروشلم پہنچ گئے۔ مسلمانوں نے یروشلم کے
قریبی کنووں میں زہر مال دیا اور اس پتھریلی زمین پر نئے کنوییں کھودنا آسان نھیں تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بالکل اس طرح جیسے سلطان کے کیمپ میں شہر کے اندر دفاع کرنے یا باہر نکل کر لڑائی کرنے
کے معاملے میں بحث چل رہی تھی اسی طرح صلیبی کیمپ میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان بھی حکمت
عملی کے معاملے پر اختالفات سامنے آ چکے تھے اور 4جوالئی کو خبر آئی کہ ایک بار پھر صلیبی یروشلم کا
محاصرہ ختم کر کے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ فلپس لکھتے ہیں کہ سلطان صالح الدین ایک بار پھر سرخرو ہو گئے تھے۔
لیکن مسئلہ ابھی ختم نھیں ہوا تھا۔
صلح کے اس معاہدے oکے پانچ ماہ بعد سلطان صالح الدین آخری بار 19فروری 1193کو دمشق میں ایک عوامی تقریب
دار فانی سے کوچ کر گئے۔
میں نظر آئے اور چار مارچ 1193کو اس ِ