You are on page 1of 11

‫تحریک ریشمی رومال کی سویں سالگرہ پر خصوصی پیشکش‬

‫بقلم‪ :‬برہان الدین قاسمی‬


‫ترجمہ‪ :‬حفظ الرحمن قاسمی‬
‫‪ /۱۵‬اگست ‪ ۲۰۱۲‬ء کو ہم پورے تزک و احتشام کے ساتھ اپنے پیارے‬
‫ملک ہندوستان کی آزادی کی ‪ ۶۵‬وینسال گرہ منا رہے ہیں‪ ،‬لیکن قابل ذکر بات یہ ہے‬
‫کہ ہماری آج کی مروجہ تاریخ میں تحریک آزادی کی جوداستان مرقوم ہے وہ ناقص‬
‫اور ادھوری ہے۔ تاریخ کے ایسے بھی اوراق ہیں جنھیں تعصب کی چادر میں لپیٹ‬
‫کر عمدا فراموش کر دیا گیا اور تاریخ ہند کی کتابوں سے حذف کر دیا گیا۔آزادی ہند‬
‫کی جوداستان ہم آپ کو سنانے جا رہے ہیں وہ شیخ الہند موالنا محمود الحسن دیوبندی ؒ‬
‫(‪۱۸۵۲‬۔‪ )۱۹۲۰‬کی حکیمانہ اور عظیم جد و جہد سے شروع ہوتی ہے۔ ویسے بھی‬
‫یہ رمضان شیخ الہند کی تحریک ’ریشمی رومال‘ کی ‪ ۱۰۰‬ویں سال گرہ ہے۔ تحریک‬
‫ریشمی رومال آزادی ہند کی ایک منصوبہ بند خفیہ کوشش تھی جس کا راز بد قسمتی‬
‫سے منصوبہ پورا ہونے سے قبل ہی افشا ہو گیا ‪،‬نتیجتا قائد تحریک سمیت سینکڑوں‬
‫علماء اور مجاہدین آزادی کو قید کی مشقتیں جھیلنا پڑیں۔ ہزاروں افراد کو وحشتناک‬
‫موت کی سزا دی گئی اور ان گنت لوگوں کو زندان مالٹا کی اسارت میں ڈال دیا گیا۔‬
‫دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم حضرت شیخ الہندؒ نے ‪ ۱۸۷۷‬ء میں‬
‫’ثمرۃ التربیت‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی‪ ،‬جس کا مقصد حکومت برطانیہ کے‬
‫خالف ایک مسلح بغاوت کی تیاری کرنا تھی۔ یہ تنظیم ‪/ ۳۰‬سالوں تک قائم رہی۔‬
‫(تحریک شیخ الہند ‪ ،‬ص ‪)۶۱‬لیکن ‪ ۱۸۸۰‬ء میں حضرت موالنا محمدقاسم نانوتوی ؒ‬
‫کی وفات سے تنظیمی ڈھانچہ میں ایسا خال پیداہوا جس کی وجہ سے تنظیم کا منصوبہ‬
‫فضا میں بکھرتا ہوا نظر آنے لگا۔ (اسیران مالٹا‪ ،‬ص ‪)۲۳‬چنانچہ ‪ ۱۹۰۹‬ء میں حضرت‬
‫شیخ الہند نے اپنے فدائیین کو جمعیۃ االنصار کے نئے بینر تلے جوڑا۔ اس نئی تنظیم‬
‫کے انتظامی امور کو سنبھالنے کے لئے موالنا عبید ہللا سندھی ؒ کو دیوبند طلب کیا‬
‫گیا۔ (عبید ہللا سندھی کی ذاتی ڈائری‪ ،‬ص ‪)۲۰‬‬
‫پہلی مرتبہ جمعیۃ االنصار کا اعالن‪۱۹۱۱‬ء میں دارالعلوم دیوبند کے‬
‫ساالنہ اجالس میں کیا گیااور غیر منقسم ہندوستان اور بیرون ہند کے تیس ہزارممتاز‬
‫علماء کے سامنے اس کے اغراض و مقاصد کے عالوہ جنگ آزادی کی ضرورت کو‬
‫پیش کیا گیا۔تنظیم کے کامیاب آغاز اور عوام الناس کی جانب سے مکمل حمایت کی‬
‫یقین دہانی سے حوصلہ پاکر جمعیۃ االنصار نے اپریل‪۱۹۱۱ ،‬ء میں پہلی حکومت‬
‫مخالف ریلی مرادآباد میں نکالی۔ علیگڑھ‪ ،‬لکھنو اور دیوبند سے شرکاء کا ایک جم‬
‫غفیر جمع ہو گیا۔‪ ۱۹۱۲‬ء اور ‪ ۱۹۱۳‬ء میں حکومت برطانیہ کے خالف کامیاب‬
‫عوامی شورش کے اظہارکے لئے اجالس عام منعقد کیا گیا جس میں میرٹھ اور شملہ‬
‫کے ہزاروں افراد نے پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔جمعیۃاالنصار نے‬
‫جس قدر عوامی قوت کا مظاہرہ کیا‪ ،‬اس نے حکومت برطانیہ کی جڑوں کو ہال کر‬
‫رکھ دیا‪ ،‬چنانچہ ارباب حکومت نے اس قوت کے سر چشمہ دارالعلوم دیوبند کو ہی‬
‫نشانہ بنا لیا جہاں سے اس طرح کی طاقتور تنظیم نے جنم لیاتھا اور ‪ ۱۹۱۳‬ء میں‬
‫جمعیۃ االنصار پر پابندی عائد کردی۔حضرت شیخ الہند کو اب دارالعلوم کی بقا اور‬
‫اس کے تشخص کی فکر الحق ہوئی چنانچہ انھوں نے تنظیم کے سر کردہ ممبران‬
‫سے اپنی ممبرشپ کو ختم کرنے کی تلقین کی تاکہ دارالعلوم دیوبند پر کوئی آنچ نہ‬
‫آئے۔ (علمائے حق‪ ،‬جلد‪ ،۱‬ص‪ ،۱۳۱‬یاد بیضاء ‪ ،۱۰۷‬مقام محمود ‪۴‬۔‪ ،۲۰۳‬نقش حیات‬
‫‪)۲:۱۴۴‬‬
‫‪ ۱۹۱۳‬ء میں جمعیۃ االنصار پر پابندی کے فورا بعد آزادی ہند کے‬
‫متوالے ایک نئے نام ’نظارۃ المعارف‘ کے ساتھ دہلی میں اکٹھا ہوئے۔ موالنا عبید ہللا‬
‫سندھی اور حضرت شیخ الہند اس نئے بینر کے روح رواں تھے۔ اس نئی تنظیم کی‬
‫روح اور اس کا مقصد صرف آزادی ہند تھی۔ مجاہدین نے جہاناس تنظیم کو دہلی تک‬
‫پہونچے کے لئے وسیلہ کے طور پر استعمال کیاوہیں یہ رابطہ عامہ اور مالیاتی‬
‫اعتبار سے بھی کافی کار آمد رہی۔ موالنا محمد علی جوہر‪ ،‬موالنا ابوالکالم‬
‫آزاد‪ ،‬موالنا عبید ہللا سندھی اور حضرت شیخ الہند اسی تنظیم میں خفیہ مالقات کیا‬
‫کرتے تھے۔ (اسیران مالٹا‪ ۲۷ ،‬اور علماء حق‪ ،‬جلد ‪ ،۱‬ص ‪)۱۳۶‬‬
‫جب ‪ ۱۹۴۱‬ء میں جرمنی اور برطانیہ کے درمیان پہلی عالمی جنگ‬
‫شروع ہوئی تو مجاہدین آزادی نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر دیا۔انھوں نے اندرون ملک‬
‫کی کارروائیوں سے توجہ ہٹا لی اور مکمل طور پر جرمنی کا ساتھ دینے لگے۔ (نقش‬
‫حیات جلد ‪ ،۲‬ص‪)۲۱۰‬‬
‫شیخ الہند کا سفر حجاز‬
‫یہ عالمی جنگ مجاہدین آزادی کے لئے ایک سنہرا موقع تھا جب وہ‬
‫برطانوی مفادات کی جڑوں کو کھوکھلی کر سکتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے حکومت‬
‫برطانیہ کے خالف مسلح بغاوت کا منصوبہ بنایا۔ حاجی صاحب ترنگ زئی اور موالنا‬
‫سیف الرحمن کابلی حضرت شیخ الہند کے رضا کار جماعت کے ممبر تھے۔ یاغستان‬
‫کے مرکز باجور میں واقع زائیگی میں ان دونوں حضرات کا انتخاب فیلڈ کمانڈر کی‬
‫حیثیت سے ہوا۔ (الجمعیۃ‪ ،‬شمارہ ‪ ۶‬جنوری‪)۱۹۸۵ ،‬حضرت شیخ الہند نے اپنے نائب‬
‫موالنا عبید ہللا سندھی کو کابل روانہ کر دیا اور خود سعودی عرب تشریف لے گئے۔‬
‫اس سفر کا مقصد مسلم ممالک سے تعاون طلب کرنا تھا‪ ،‬اس لئے کہ ہتھیار اور ان‬
‫ممالک کے عملی تعاون کے بغیر آزادی ہند محض ایک خواب تھا۔ اور یہی سفر‬
‫برطانوی استعمار کے خالف تحریک آزادی کا سب سے پہال کامیاب قدم تھا جو بعد‬
‫میں تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوا۔‬
‫حضرت شیخ الہند ‪ ۹‬ا‪/‬کتوبر ‪ ۱۹۱۵‬ء کو مکہ پہونچے اور وہان ترک‬
‫گورنر غالب پاشا سے مالقات کی۔ حضرت شیخ الہند کی درخواست پر خالفت عثمانیہ‬
‫کے گورنر نے حکومت برطانیہ کے خالف تعاون کا وعدہ کیا۔ برصغیر ہند کے‬
‫مسلمانوں کو اس تعاون کی جانکاری دینے کے لئے گورنر نے عوام الناس کے نام‬
‫ایک طویل خط لکھا جس میں انھیں آزادی کی جد و جہد جاری رکھنے کی تلقین کی‬
‫گئی اور اپنی طرف سے عالنیہ تعاون کا یقین دالیا گیا۔‬
‫یہ بات اس وقت کی ہے جب تک ریاستہائے متحدہ امریکا نے عالمی‬
‫جنگ میں کسی بھی متحارب پارٹی کی حمایت کا اعالن نہیں کیا تھا۔ بعد میں جب‬
‫امریکا نے روس‪ ،‬فرانس اور برطانیہ کی متحدہ افواج کی حمایت کی تو جنگ کا نقشہ‬
‫ہی پلٹ گیا۔ ترکی اور جرمنی کو شکست ہوئی اور بد قسمتی سے خالفت عثمانیہ خود‬
‫ہی زوال پذیر ہو گئی۔ اب سر زمین ہند سے انگریزی استعمار کے خاتمہ کا حضرت‬
‫شیخ الہند کا خواب فضا میں بکھرتا ہوا نظر آنے لگا۔ (اسیران مالٹا ‪ ،۳۴‬نقش حیات‬
‫جلد ‪ ،۲۱۲ ،۲‬تحریک شیخ الہند ‪)۷۲‬‬
‫ہندوستان کی پہلی جال وطن حکومت‬
‫جب موالنا سندھی کابل پہونچے تو انھوں نے وہاں ایک حکومت قائم کی‬
‫جس مینموالنا سندھی خود اور موالنا برکت ہللا بھوپالی نے عہدہ وزارت سنبھاال‪ ،‬جب‬
‫کہ مہاراجا پرتاپ سنگھ صدر مقرر ہوئے۔ نومبر‪ ۱۹۱۵ ،‬ء میں ’لشکر نجات‬
‫دہندہ‘کے نام سے ایک فوجی جماعت کی تشکیل عمل میں آئی جس کا مرکز مدینہ‬
‫منورہ بنا اور حضرت شیخ الہندؒ اس کے چیف کمانڈر مقرر ہوئے۔ اسی دوران ’جنود‬
‫ربانیہ ‘ کے نام سے ایک بین االقوامی جماعت کی تشکیل ہوئی۔ اس جماعت کا مقصد‬
‫انگریزی استعمار کے خالف آزادی کی تحریک کے سلسلے میں عالمی برادری سے‬
‫تعاون طلب کرنا تھا۔ حضرت شیخ الہند اس جماعت کے قائد منتخب ہوئے۔ (تحریک‬
‫شیخ الہند‪)۲۸۲ ،۲۸۱ ،۲۷۱ ،‬‬
‫موالنا عبید ہللا سندھی نے سعودی عرب میں مقیم حضرت شیخ الہند کے‬
‫نام ایک خط لکھا جس میں کابل میں جاری سرگرمیوں اور آزادی کی جد و جہد کے‬
‫تفصیلی خاکہ کے عالوہ ان مقامات اور افراد کے نام بھی ذکر کئے جو ہندوستان میں‬
‫حکومت بر طانیہ کے خالف مسلح جد و جہد کی قیادت کرنے والے تھے۔ منصوبہ یہ‬
‫تھا کہ ملک کے ہر خطہ سے عوامی شورش کے ساتھ مسلح جد و جہد کی جائے۔ یہ‬
‫خط ایک ریشمی رومال پر تحریر کیا گیا تھا‪ ،‬اس لئے اس تحریک کا نام ہی ’تحریک‬
‫ریشمی رومال‘ پڑ گیا۔ اس خط کے ساتھ موالنا محمد میاں انصاری نے بھی ایک خط‬
‫لگا دیا جس میں جال وطن حکومت کے عہدیداروں کے نام کے ساتھ ساتھ جنود ربانیہ‬
‫کے آئندہ منصوبوں کا ذکر تھا۔ یہ خطوط شیخ عبد الرحیم سندھی کی معرفت مدینہ‬
‫منورہ روانہ کر دیے گئے۔‬
‫بد قسمتی سے یہ خطوط رب نواز نامی ایک نو مسلم کے ہاتھ لگ گئے‬
‫جو در حقیقت شیخ الہند کے نو مسلم عقیدتمند کے روپ میں برطانوی حکومت کا‬
‫جاسوس تھا۔ بعد ازاں یہ خطوط ملتان کے برطانوی کمشنر کے پاس بھیج دئے گئے۔‬
‫خط پر مندرجہ تاریخ ‪/ ۹ ،/۸‬رمضان المبارک ‪ ۱۳۳۴‬ہجری مطابق ‪/ ۱۰ ،/۹‬جوالئی‬
‫‪ ۱۹۱۶‬ء ہے۔ یہ خط کمشنر کے ہاتھوں میں اگست‪ ۱۹۱۶ ،‬ء کے پہلے ہفتہ میں‬
‫پہونچا۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی غلطی کس سے اور کیسے ہوئی؟ اس کا جواب‬
‫اب تک کوئی نہیں دے سکا۔ (نقش حیات‪ ،‬جلد ‪ ،۲‬ص ‪ ،۲۱۳‬تحریک شیخ الہند‪،۲۲۸ ،‬‬
‫‪)۲۲۹‬۔ بہر کیف ہجری کیلنڈر کے مطابق رواں رمضان ‪ ۱۴۳۳‬تحریک ریشمی رومال‬
‫کی سویں سالگرہ ہے۔‬
‫ریشمی رومال پر مرقوم خط کے پکڑے جانے کے نتیجہ میں برطانوی رکارڈ کے‬
‫مطابق برطانوی سلطنت کے خالف بغاوت اور شورش کے جرم میں ملک بھر سے‬
‫‪ /۲۲۲‬قائد علماء گرفتار کئے گئے۔ (مقام محمود‪ )۲۹۸ ،۲۹۷ ،‬حضرت شیخ الہند اور‬
‫ان کے رفقاموالنا وحید احمد فیض آبادی‪ ،‬موالنا عزیز گل‪ ،‬حکیم سید نصرت حسین‬
‫اور موالنا حسین احمد مدنی ‪/ ۲۳‬صفر ‪ ۱۳۳۵‬کومکہ مینگرفتار ہوئے اور انھیں ‪۲۹‬‬
‫‪/‬ربیع الثانی ‪ ۱۳۳۵‬ہجری مطابق ‪/ ۱۲‬فروری ‪۱۹۱۷‬ء کو قاہرہ کے راستے بذریعہ‬
‫بحری جہاز مالٹا بھیج دیا گیا جہاں انھیں تین سال چار ماہ کے لئے قید و بند کی‬
‫صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔رہائی کے بعد وہ ‪/ ۸‬جون ‪ ۱۹۲۰‬ء کو ممبئی پہونچے۔ مگر‬
‫موالنا عبید ہللا سندھی اور موالنا محمد میاں منصور انصاری کو کئی برسوں تک جال‬
‫وطن رہنا پڑا۔ (سفرنامہ مالٹا‪ ، ۱۲۷ ،۱۱۸ :‬اسیران مالٹا ‪ ،۵۱‬نقش حیات جلد ‪ ،۲‬ص‬
‫‪)۱۳۵‬‬
‫جمعیۃ علماے ہند کا قیام‬
‫‪ ۱۸۸۵‬ء میں انڈین نیشنل کانگریس کی تشکیل ہوئی‪ ،‬اس کا مقصد تحریک‬
‫آزادی میں شرکت کرنے یا کم سے کم حکومت میں برابر کی حصہ داری کے لئے‬
‫ہندو مسلم اتحاد پیدا کرنا تھا۔ تین سو سے زائد علماء نے تحریک آزادی کے لئے ہندو‬
‫مسلم اتحاد کے حق میں فتوے دئے جو متعدد بار ’نصرۃ االبرار‘ نامی اخبار میں شائع‬
‫ہوئے۔ موالنا ابوالکالم آزاد نے ہفتہ واری ’الہالل‘ جاری کیا جس کے ذریعہ انھوں‬
‫نے تحریک آزادی کی تشہیر کی۔‬
‫ریشمی رومال کا پردو فاش ہوجانے اور شیخ الہند اور ان کے رفقا کی‬
‫گرفتاری کے بعد مارچ‪ ۱۹۱۹ ،‬ء میں علمانے جمعیۃ علمائے ہند کے نام سے ایک‬
‫ہللا منتخب ہوئے۔ پہلی جنگ‬ ‫تنظیم قائم کی جس کے پہلے صدر موالنا مفتی کفایت ؒ‬
‫عظیم کے اختتام تک ہندستان میں مقیم مجاہدین آزادی نے مسلح جد و جہد کی راہ‬
‫ہموار کی۔ انھوں نے حصول آزادی کے لئے ’عدم تشدد‘ کے طریقے کو اپنایا۔‬
‫’خالفت کانفرنس‘ منعقدہ ‪/ ۱۳‬نومبر‪ ۱۹۱۹ ،‬ء زیر صدارت موالنا فضل‬
‫خیرآبادی نے حکومت برطانیہ کے ’جشن فتح‘ کا بائیکاٹ کیا۔ اس تجویز کو سیٹھ‬
‫ؒ‬ ‫حق‬
‫ہللا نے‬
‫گوتانی اور مہاتما گاندھی کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد مفتی کفایت ؒ‬
‫ایک فتوی جاری کیا جس پر ‪/ ۲۰‬علماء نے دستخط کئے۔ فتوی یوں تھا‪’ :‬مسلمانوں‬
‫کے لئے حکومت برطانیہ کی ’جشن فتح‘ میں شرکت کرنا نا جائزہے یہاں تک کہ‬
‫ہزیمت خوردہ سلطنت عثمانیہ کے حکام کے ساتھ سمجھوتا شریعت اور مسلم عوام‬
‫کے جذبات کے موافق نہ ہو۔‘(جمعیۃ علماء پر ایک تاریخی نظر‪)۵۹ ،‬‬
‫تحریک عدم مواالت‬
‫اس نئی جمعیۃ کی پہلی کانفرنس ‪/ ۲۸‬دسمبر ‪ ۱۹۱۹‬ء کو موالنا عبد‬
‫الباری فرنگی محلی کی صدارت میں امرتسر میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس نے‬
‫حضرت شیخ الہند اور موالنا ابو الکالم آزاد کی عدم رہائی کے خالف احتجاج کرتے‬
‫ہوئے تشویش کا اظہار کیا۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟ جلد ‪)۱۶ ، ۵ :۲‬‬
‫خالفت کانفرنس منعقدہ الہ آباد‪/ ۹ ،‬جون‪ ۱۹۲۰ ،‬ء میں ’تحریک عدم‬
‫مواالت‘ کے اجرا کا فیصلہ لیا گیا۔ (تحریک خالفت‪ /۱۹ )۱۵۶ ،۱۵۵ ،‬جوالئی‪،‬‬
‫‪ ۱۹۲۰‬ء کو ایک بیان جاری کیا جس میں ’تحریک عدم مواالت‘ کی حمایت کا اعالن‬
‫کیاگیا تھا۔ رسمی طور پر اس تحریک کا آغاز ‪ /۳۱‬اگست‪ ۱۹۲۰ ،‬ء کو ہوا۔ (اسیران‬
‫مالٹا‪ )۵۳ ،‬بعد میں ‪/ ۲۹‬اکتوبر‪۱۹۲۰ ،‬ء کو دوبارہ ایک مفصل فرمان جاری ہوا جس‬
‫کو الجمعیۃ نے ‪/ ۵۰۰‬علماء کے دستخط کے ساتھ شائع کیا۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟ ‪:۲‬‬
‫‪)۳۰‬اس فتوی سے شہ پاکر خالفت کمیٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے قائدین و‬
‫رضاکار نے برطانوی استعمار کے خالف عالنیہ بغاوت شروع کردی۔ کلکتہ میں‪/۶‬‬
‫ستمبر ‪۱۹۲۰‬ء کو موالنا تاج محمد سندھی کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کی ایک‬
‫خاص کانفرنس منعقد ہوئی جس میں عدم مواالت کی تجویز پیش کی گئی اور یہ پاس‬
‫ہوئی۔ اس تجویز میں یہ اعالن کیا گیا تھاکہ حکومت برطانیہ سے کسی بھی قسم کا‬
‫تعلق اور تعاون حرام ہے۔ (جمعیۃ علما پر تاریخی تبصرہ‪)۵۸ :‬‬
‫غیر ملکی اشیاء کے بائیکاٹ کی تحریک‬
‫‪ /۸‬اگست ‪ ۱۹۲۱‬ء کو برطانوی حکومت نے خالفت کمیٹی کے اس فتوے‬
‫کو غیر قانونی قرار دیااور ‪/ ۱۸‬ستمبر کو اس فتوی کی اشاعت اور تقسیم کے جرم‬
‫میں موالنا حسین احمد مدنی‪ ،‬موالنا محمد علی جوہر‪ ،‬موالنا شوکت علی‪ ،‬موالنا نثار‬
‫احمد کانپوری‪ ،‬پیر غالم مجددی اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو گرفتار کر لیا گیا۔‬
‫( )‪/ ۲۰ ،۱۸Shaikhul Islam: a Political Analyses, 99‬نومبر‪ ۲۹۲۱ ،‬ء کو‬
‫جمعیۃ کی تیسری کانفرنس میں غیر ملکی اشیاء کے بائیکاٹ کی تجویز پاس ہوئی۔‬
‫اس بائیکاٹ کی حمایت کے جرم میں تیس ہزار افراد کو قید میں ڈال دیا گیا۔ ان میں‬
‫سے بیشتر علماء اور مسلم مجاہدین آزادی تھے۔ اس کے بعد ’چوری چورا‘ کا حادثہ‬
‫پیش آیا جس میں برطانوی فوج نے تین مجاہدین کو قتل کر دیاتھا اور اس کے جواب‬
‫میں عالقائی عوام نے ‪/ ۲۳‬برطانوی پولس اہلکاروں کو جہنم رسید کیا۔ اس حادثہ کی‬
‫وجہ سے مہاتما گاندھی نے ‪/ ۵‬فروری‪ ۱۹۲۲ ،‬ء کو بائیکاٹ اٹھانے کا اعالن کیا۔‬
‫چونکہ برطانوی پولس اہلکاروں کا قتل تحریک آزادی کی ’عدم تشدد‘ پالیسی کے‬
‫خالف تھا‪ ،‬اس لئے مہاتما گاندھی نے تحریک عدم مواالت اور سول نافرمانی پر روک‬
‫لگادی۔ (تحریک خالفت‪)۲۴۴ ،۲۴۳ :‬‬
‫شدھی کرن تحریک ‪ :‬فرقہ وارانہ منافرت کا پہال بیج‬
‫تحریک عدم مواالت اورسول نافرمانی کا آغاز مشترکہ طور پرہندو مسلم‬
‫قائدین کے اتفاق سے ہوا تھا۔ ‪ ۱۸۵۷‬ء کی متحدہ جنگ کے بعد اب دوسری مرتبہ‬
‫ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی‪ ،‬مزید یہ کہ تحریک‬
‫سول نا فرمانی کو عوام الناس کی طرف سے بے پناہ مقبولیت بھی مل رہی تھی‪ ،‬اس‬
‫لئے برطانوی حکومت کو دوسری مرتبہ ایک غیر متوقع مگر زبردست چلینج کا سامنا‬
‫کرنا پڑ رہا تھا۔ اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے انگریزوں نے اپنے سنگھی‬
‫ایجنٹوں کے ذریعہ ’شدھی کرن‘ (مسلمانوں کو ہندو بنانے) کا سلسلہ شروع کیا۔ ہندو‬
‫انتہا پسند جماعتوں کے ذریعہ انگریزوں کی شدھی کرن پالیسی جمعیۃ علماء‪ ،‬انڈین‬
‫نیشنل کانگریس اور تحریک آزادی کی راہ میں زبر دست رکاوٹ بن گئی۔‬
‫چونکہ ہزاروں غریب مسلم کنبے شدھی کرن کے نام پر ہندو مذہب میں‬
‫داخل کر لئے گئے تھے‪ ،‬اس کی وجہ سے دونوں مضبوط طبقوں کے درمیان‬
‫زبردست فرقہ وارانہ خلیج پیدا ہو گئی۔ اور جمعیۃ علماء تحریک آزادی کے اپنے‬
‫حقیقی مشن کو انجام نہ دے سکی۔ جمعیۃ نے اس چلینج کو سنجیدگی کے ساتھ قبول‬
‫کیا اور ان غریب مسلم کنبوں کو اپنے اصلی مذہب اسالم کی طرف واپس بالنا شروع‬
‫کیا۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے؟)مگر اس چیز نے پہلے ہی کچھ ہندو اور مسلم عوام کے‬
‫ذہن میں تفریق اور عدم اعتمادی کا بیج بو دیا تھا۔ برطانوی سازش کاروں نے اپنے‬
‫مقصد کو پا لیا تھا۔ اس کا الزمی نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارا عظیم ملک ٹکڑوں میں تقسیم‬
‫ہو کر رہ گیا اور اس کے تلخ اثرات سے اب تک ہماری فضا مسموم ہے۔ فرقہ واریت‬
‫اور تعصب ہمارے ملک کے طول وعرض میں پھیال ہوا ہے۔‬
‫مکمل آزادی کا مطالبہ‬
‫دسمبر‪ ۱۹۲۲ ،‬ء میں موالنا حبیب الرحمن عثمانی کے زیر صدارت‬
‫جمعیۃ علماء کا چوتھا اجالس ہوا‪ ،‬جس میں اسمبلی کے بائیکاٹ کی تجویز پاس ہوئی۔‬
‫مدنی کی صدارت میں جمعیۃ کا‬ ‫ؒ‬ ‫کاکیناڑا میں جنوری ‪ ۱۹۲۴‬کو موالنا حسین احمد‬
‫مدنی نے مکمل آزادی کا مطالبہ‬‫ؒ‬ ‫پانچواں اجالس ہوا۔ اپنے خطبہ صدارت میں حضرت‬
‫کیا۔ (مسلم علماء کا کردار‪ )۳۳ :‬جمعیۃ علماء کے ساتویں اجالس منعقدہ‪ ۱۱‬تا ‪۱۴‬‬
‫ندوی میں پہلی مرتبہ‬‫ؒ‬ ‫‪/‬مارچ‪۱۹۲۶ ،‬ء بمقام کلکتہ‪ ،‬زیر صدارت عالمہ سید سلیمان‬
‫باضابطہ طور پرمکمل آزادی کی تجویز پاس ہوئی۔ (تجویز کی تفصیل کے لئے‬
‫مالحظہ ہو‪ ،‬جمعیۃ علماء کیا ہے؟ جلد ‪ ۱۱۹ :۲‬تا ‪/ ۶ ،۵ )۱۲۱‬دسمبر ‪ ۱۹۲۶‬ء کو‬
‫پیشاور میں جمعیۃ علماء کا آٹھواں اجالس عام زیر صدارت حضرت عالمہ انور شاہ‬
‫کشمیری منعقد ہوا۔ اس اجالس میں سائمن کمیشن کی مخالفت کی تجویز پیش کی گئی‬ ‫ؒ‬
‫اور پھرزبردست حمایت کے ساتھ پاس ہوئی۔ اس تجویز میں ایک جملہ تھا ’آزادی‬
‫طبق میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی‪ ،‬اسے چھیننا پڑتا ہے۔‘ یہ جملہ پوری وضاحت‬
‫کے ساتھ ان مجاہدین آزادی کے مزاج اور طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔ (جمعیۃ علماء‬
‫کیا ہے؟ ‪)۱۴۵ :۲‬‬
‫جب جمعیۃ علماء نے سائمن کمیشن کے خالف تجویز پاس کردی تو انڈین‬
‫نیشنل کانگریس کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ مدراس کنونشن منعقدہ ‪/۲۶‬دسمبر‪،‬‬
‫‪ ۱۹۲۷‬ء میں کانگریس نے ایک تجویز پاس کی جس میں برطانوی حکومت سے‬
‫سائمن کمیشن کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ سائمن ناکام و نامراد ‪ /۳۱‬مارچ‪،‬‬
‫‪ ۱۹۲۸‬ء کو برطانیہ لوٹ گیا۔ (موالنا آزاد کی سیاسی ڈائری‪)۲۱۴ ،۲۱۳ :‬‬
‫جمعیۃ اور کانگریس میں فرق‬
‫‪ ۱۹۲۸‬ء میں لکھنؤ میں آل پارٹی کانفرنس منعقد ہوئی‪ ،‬جمعیۃ علماء اس‬
‫کی اہم ممبر تھی۔ کانفرنس نے’ نہرو رپورٹ‘ پرسخت تنقید کی جس میں برطانوی‬
‫حکومت کے تحت خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کانگریس پارٹی کی یہ تجویز‬
‫جمعیۃ کی پالیسی ’مکمل آزادی‘ کے بالکل خالف تھی۔ نتیجتا جمعیۃ نے کانگریس‬
‫کے ساتھ تعاون ختم کر دیا یہاں تک کہ کانگریس نے موتی الل نہرو کی رپورٹ سے‬
‫رجوع کیا۔ کانگریس کے الہور اجالس منعقدہ ‪/ ۳۱‬دسمبر‪ ۱۹۲۹ ،‬ء میں کانگریس‬
‫نے پانچ سال کے بعد جمعیۃ کے ’مکمل آزادی‘ کے مطالبہ کے حق میں ووٹ دیا۔‬
‫‪ ۱۹۲۹‬ء میں گاندھی جی کے ڈانڈی مارچ کے لئے موالنا ابو الکالم آزاد‪،‬‬
‫موالنا حفظ الرحمن سیوہاروی‪ ،‬موالنا فخرالدین‪ ،‬موالنا سید محمد میاں اور موالنا بشیر‬
‫احمد بھٹیا سمیت جمعیۃ کے متعدد قائدین گرفتار ہوئے۔ جمعیۃ علماء کے نویں اجالس‬
‫منعقدہ ‪ ۳‬تا ‪/ ۵‬مئی‪ ۱۹۳۰ ،‬ء زیر صدارت موالنا معین الدین اجمیری‪ ،‬میں ایک تازہ‬
‫تجویز پاس ہوئی جس کی رو سے کانگریس کے ساتھ اتحاد اور مکمل تعاون کا معاملہ‬
‫کرنا تھا۔ (تحریک آزادی ہند میں مسلم علماء اور عوام کا کردار‪)۹۹ :‬‬
‫سول نا فرمانی تحریک‬
‫‪ ۱۹۳۰‬ء کی تحریک عوامی نا فرمانی کے زمانے میں جمعیۃ علماء ہند‬
‫دہلوی گرفتار ہوئے۔‬
‫ؒ‬ ‫ہللا اور جنرل سکریٹری موالنا احمدسعید‬‫کے صدر مفتی کفایت ؒ‬
‫‪ ۱۹۳۲‬ء کی دوسری تحریک’سول نا فرمانی‘ کے زمانے میں کانگریس کی طرح‬
‫جمعیۃ نے بھی ایک ترجمان مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ ادارہ حربیہ کا قیام عمل‬
‫ہللا‬
‫میں آیا جس کی ذمہ داری موالنا ابوالمحاسن سجادؒ کو سونپی گئی۔ مفتی کفایت ؒ‬
‫جمعیۃ کے سب سے پہلے ترجمان مقرر ہوئے۔ انھوں نے ‪/ ۱۱‬مارچ ‪ ۱۹۳۲‬ء کو‬
‫ایک الکھ سے زائد افراد پر مشتمل ایک جلوس کی قیادت کی اور دہلی کے آزاد پارک‬
‫میں گرفتاری درج کروائی۔ وہ جیل میں ‪/ ۱۸‬ماہ تک رہے۔ (الجمعیۃ‪ ،‬مفتی اعظم نمبر‪:‬‬
‫مدنی دہلی سے دیوبند جاتے ہوئے‬ ‫ؒ‬ ‫‪)۴۵ ،۴۴‬دوسرے ترجمان موالنا حسین احمد‬
‫راستے میں گرفتار کر لئے گئے۔پھر ایک کے بعد دوسرے ترجمان موالنا احمد سعید‬
‫دہلوی‪ ،‬موالنا حفظ الرحمن سیوہاروی‪ ،‬موالنا سید محمد میاں دیوبندی‪ ،‬موالنا حبیب‬
‫الرحمن لدھیانوی وغیرہ گرفتار ہوتے رہے۔ ان میں سے بیشتر حضرات نے ایک سے‬
‫دو سال تک جیل کی سالخوں کے پیچھے زندگی گذاری۔ تقریبا نوے ہزار لوگ گرفتار‬
‫ہوئے جن میں سے پینتالیس ہزار علماء اور مسلم تھے۔ (کاروان احرار‪)۱۰۶ ،۱ :‬‬
‫فرقہ واریت کی بنیاد‬
‫تحریک آزادی آئے دن اپنی جڑ مضبوط تر کرتی جا رہی تھی۔ گرچہ‬
‫برطانیہ نے خالفت عثمانیہ اور جرمنی کے مقابلے میں فتح حاصل کر لی تھی‪ ،‬لیکن‬
‫وہ ہندوستان میں حاالت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھی۔ قومی پیمانے پر شورش‬
‫اور مجاہدین آزادی کی طرف سے سول نا فرمانی جیسے چلنج کا سامنا کرنے کے‬
‫بعد برطانوی حکام کے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ وہ ہندو مسلم کے درمیان فرقہ‬
‫واریت کے بیج بو دے‪ ،‬کیونکہ ان دونوں کمیونٹی کے کار کنان متحد ہوکر برطانوی‬
‫مفادات کی راہ مین سیسہ پالئی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے تھے۔ ‪۱۹۳۵‬ء میں‬
‫“‪ ”Divide and Rule‬کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برطانوی حکومت‬
‫نے مذہبی تناسب کی بنیاد پر نمائندگی کے لئے اسمبلی الیکشن کا اعالن کیا۔ ایک ہندو‬
‫کو صرف ایک ہندو کے لئے اسی طرح ایک مسلم کو صرف ایک مسلم کے لئے‬
‫ووٹ کرنے کی اجازت تھی۔ (تحریک آزادی ہند میں مسلم علماء اور عوام کا کردار‪:‬‬
‫‪ )۱۰۰‬یہ الیکشن ہی شاید وہ زہریال بیج تھا جس نے بعد میں ایک تناور درخت کی‬
‫شکل اختیار کرکے بڑی تعداد میں تلخ پھل دئے۔ ہندو اور مسلم مجاہدین آزادی جو اس‬
‫ملک کی آزادی کے لئے دوش بدوش لڑ رہے تھے‪ ،‬اب ان کے دلوں میں ایک دوسرے‬
‫کے لئے شکوک پیدا ہو گئے تھے۔ اس کا نتیجہ صرف خون ریزی اور فرقہ واریت‬
‫پر مبنی سیاست ہی نہیں تھی‪ ،‬بلکہ یہی چیز بعد میں تقسیم ہند کا بھی اصل سبب بنی۔‬
‫مسلم لیگ کو پنپنے کا غیر متوقع موقع‬
‫مسلم لیگ کا وجود سیاسی جماعت کی حیثیت سے ‪ ۱۹۰۶‬ء میں ہوا۔ مگر‬
‫انڈیا ایکٹ ‪ ۱۹۳۵‬ء کے اعالن سے قبل تک یہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ‬
‫کر سکی۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ عوامی حمایت اور مسلمانوں کے دلوں‬
‫میں عزت حاصل کرنے میں بہت سست رفتار ثابت ہوئی۔ چونکہ انتخابات مذہب‬
‫اورقومیت کی بنیاد پر ہونا تھے‪ ،‬اس لئے جمعیۃ قیادت کے سامنے کار کردگی کے‬
‫کوئی واضح خطوط نظر نہیں آرہے تھے کہ اسے اس طرح کے سیاسی حاالت میں‬
‫کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور یہ بات تو یقینی ہے کہ جمعیۃ اس ان چاہے انتخاب میں‬
‫بالواسطہ شرکت ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‬
‫جمعیۃ نے مسلم لیگ کو انتخابات میں آگے بڑھاکر پس پشت اس کی‬
‫مکمل حمایت کا فیصلہ کیا۔ جمعیۃ علماء کے پاس مستقبل کے لئے کوئی واضح سیاسی‬
‫منشور نہیں تھا‪ ،‬مزید یہ کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے کچھ ممبران انتہا پسندانہ‬
‫موقف رکھتے تھے‪ ،‬اس لئے ان دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان دوریانبڑھتی‬
‫چلی گئیں۔ حاالت بد سے بد تر ہو گئے۔ اس لئے کہ دو سیاسی پارٹی (ہندو اور مسلم)‬
‫کے نظریہ کے تحت دونوں میں سے ایک حکمراں ہوتی اور دوسری حزب اختالف۔‬
‫اور دونوں قوموں کے درمیان جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور محبت کا جذبہ پایا جاتا‬
‫تھا وہ ختم ہو جاتا۔ اور یہی ہوا بھی کہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو بدنام‬
‫کرنے کے لئے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا‪ ،‬یہاں تک ایک دوسرے پر حملہ کرنے‬
‫کے لئے مذہب کو بھی بنیاد بنایا۔ نتیجہ کے طور پر ایک جماعت کو دوسری جماعت‬
‫کے ہاتھوں نقصان پہونچانے والے سازش گرونکو اپنا کھیل کھیلنے کا خوب موقع‬
‫مال۔‬
‫رفتہ رفتہ دونوں کمیونٹی نے اس جماعت کی عالنیہ حمایت شروع کردی‬
‫جس کے حق میں ا س نے ووٹ دیا تھا۔ اس طرح کے نازک سیاسی حاالت میں فرقہ‬
‫وارانہ ہم آہنگی‪ ،‬سیاسی اتحاد اور ملک کی مکمل آزادی کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی‬
‫آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔ موالنا مدنی‪ ،‬موالنا آزاد اور مہاتما گاندھی کو بڑی دیر‬
‫ہو چکی تھی۔ناچار جمعیۃ علماء نے مسلم لیگ سے اتحاد ختم کر لیااور اس کے ساتھ‬
‫نہ‬ ‫تعلق‬ ‫کا‬ ‫قسم‬ ‫بھی‬ ‫کسی‬
‫کا‬ ‫رکھنے‬
‫فیصلہ کیا۔ مگر مسلم لیگ نے عوام الناس کی جانب سے مطلوبہ حمایت حاصل کر‬
‫لی تھی تاکہ وہ حکومت برطانیہ پر یہ تاثر دے سکے کہ وہی مسلمانوں کی صحیح‬
‫نمائندہ جماعت ہے۔ (تاریخ جمعیۃ علماء ہند‪ )۹۴ :‬دوسری جانب حکومت برطانیہ نے‬
‫“‪ ”Divid and Rule‬کا جو پود لگا یا تھااب وہ دو قوموں کو آپس میں تقسیم کر کے‬
‫ایک تناور پھلدار درخت بن چکا تھا اور حکومت اس کا مزہ لے رہی تھی۔‬
‫دوسری عالمی جنگ میں جبری فوجی بھرتی کی مخالفت‬
‫دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں جمعیۃ علماء ہند نے فوج میں جبری‬
‫بھرتی کی زبردست مخالفت کی۔ انھوں نے برطانوی جنگ میں مکمل عدم تعاون کا‬
‫اعالن کیا۔ ’علماء ہند کا شاندار ماضی‘ کتاب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس‬
‫میاں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ‪/ ۱۴ ،۱۳‬جوالئی‪ ۱۹۴۰ ،‬ء‬ ‫کے مصنف موالنا محمد ؒ‬
‫کو جمعیۃ علماء کی مجلس عاملہ نے کتاب پر پابندی اور مصنف کی گرفتاری کو‬
‫ایک جابرانہ قدم قرار دیا۔ موالنا حفظ الرحمن سیوہاروی‪ ،‬موالنا احمد علی الہوری‪،‬‬
‫موالنا محمد قاسم شاہجہاں پوری‪ ،‬موالنا ابوالوفا شاہجہاں پوری‪ ،‬موالنا شاہد میاں‬
‫فخری الہ آبادی‪ ،‬موالنا محمد اسمعیل سنبھلی‪ ،‬موالنا سید اختر االسالم اور دوسرے‬
‫قائدین جمعیۃ فوج میں جبری بھرتی اور برطانوی فوجی جد جہد کی مخالفت کے جرم‬
‫میں گرفتار کر لئے گئے۔ (تاریخ جمعیۃ علماء ہند‪)۱۰۳ :‬‬
‫ہندوستان چھوڑو تحریک‬
‫جمعیۃ کے ایک نجی اجالس منعقدہ ‪ ۲۳‬تا ‪ /۲۵‬اپریل‪ ۱۹۴۰ ،‬ء بمقام‬
‫مدنی نے ہندوستان کی مکمل آزادی کے سوال کو‬ ‫ؒ‬ ‫بچھراؤں‪ ،‬میں موالنا حسین احمد‬
‫دوبارہ اٹھایا۔ اس کی وجہ سے ‪/ ۲۴‬جون کو اتحاد کانفرنس میں شرکت کے لئے جاتے‬
‫ہوئے راستے میں ہی موالنا کو گرفتار کر لیا گیااور چھ ماہ قید کی سزا دی گئی۔ یہ‬
‫چھ ماہ کی مدت پوری ہونے والی تھی کہ ‪/ ۴‬جنوری ‪ ۱۹۴۳‬ء کو محکمہ دفاع کی‬
‫جانب سے دوسری نوٹس آئی اور انھیں ‪ /۲۲‬اگست‪ ۱۹۴۴ ،‬ء تک کے لئے نینی تال‬
‫جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد ان کی غیر مشروط رہائی ہوئی۔ ‪ ۵‬ا‪/‬گست‪۱۹۴۲ ،‬‬
‫ء کو جمعیۃ علماء کی مجلس عاملہ نے ایک تجویز پاس کر کے انگریزوں کو ہندوستان‬
‫چھوڑنے کا حکم دیا۔ اس تجویز پر مفتی کفایت ہللا‪ ،‬موالنا احمد سعید‪ ،‬موالنا حفظ‬
‫الرحمن سیوہاروی اور موالنا عبد العلیم صدیقی کے دستخط تھے۔ جمعیۃ کے بعد‬
‫کانگریس نے بھی ‪/ ۹‬اگست کو اپنے اجالس میں ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک کی‬
‫تجویز پاس کی جس کے نتیجہ میں کانگریس اور جمعیۃ کے قائدین کو جیل کی‬
‫سالخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔‬
‫عظیم ہندوستان کی آزادی کا جشن اور تقسیم کا ماتم‬
‫پھر ایک دن ایسا آیا کہ ہمارا ملک جو ایک ملک ہندوستان تھا‪ ،‬عظیم‬
‫ہندوستان‪ ،‬وہ برطانیہ عظمی کے جابرانہ اور غاصبانہ پنجہ سے مکمل طور پر آزاد‬
‫ہو گیا‪ ،‬لیکن سازشی ذہنیت رکھنے والے انگریز ہمیں ایک داغ دے گئے جو آج بھی‬
‫نہ مٹ سکاایک درد دے گئے جس کی ٹیس آج بھی محسوس ہوتی ہے‪ ،‬وہ تھا تقسیم‬
‫ہند کا داغ۔ تقسیم ہند ایک ایسا نا خوشگوار حادثہ تھا جس نے ‪/ ۱۴‬اگست ‪ ۱۹۴۷‬ء کو‬
‫اسالمی جمہوریہ پاکستان اور ‪/ ۱۵‬اگست ‪ ۱۹۴۷‬ء کو ریپبلک آف انڈیا کو جنم دیا۔‬

You might also like