Professional Documents
Culture Documents
9138 History
9138 History
سوال نمبر2۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عراق میں فوجی حکومت کے قیام کی
وجوہات بیان کریں نیز اس کی معیشت اورخارجہ پالیسی کی وضاحت کریں؟
(ب) معدنیات
.1عراق میں م عدنیات کے ذخیرے کثرت سے ملتے ہیں ۔ ان میں لوہا ،کرومائیٹ ،تانبا،
سیسہ ،فاسفیٹ ،جپسم اور گندھک قابل ذکر ہیں ۔
1927 .2ء میں کرکوک کے مقام پر تیل دریافت ہوا۔ بعد میں 1952ء میں موصل میں تیل
نکاال گیا۔ تیل کی پیداوار سے عراق کی معیشت کا رخ بدل گیا اور تبدیلی کی رفتار تیز
ہوگئی ۔ ایک اندازے کے مطابق عراق میں دنیا کا 6%تیل پایا جاتا ہے۔ عراق کا شمار
مشرق وسطی میں تیل کی پیدا وار کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اگست 2002ء میں تیل
کی پیداوار 1.6ملین بیرل یومیہ رہی ہے جب کہ عراق کے تیل کے محفوظ ذخائر 712
بلین بیرل ہیں۔
(ج) صنعت
ملک میں مختلف چھوٹی اور بڑی صنعتیں ہیں۔ ان میں لوہا اور فوالد سیمنٹ ،کھاد ،پارچہ
بانی ،کاغذ ،چینی ،پھلوں کی صنعت ،کیمیکلز قابل ذکر ہیں۔ کرکوک میں تیل صاف کرنے
کے کارخانے ہیں۔ صنعت کے بڑے مرکز بغداد ،بصرہ ،موصل اور کرکوک ہیں۔ صنعت
قومی تحویل میں ہے۔ 1998ء کے اعداد و شمار کے مطابق عراق کی درآمدات 3بلین
اور بر آمدات 5.0بلین ڈالر ساال نہ تھیں لیکن موجودہ حاالت کے پیش نظر ملکی معیشت
تباہ حالی کا شکار ہے۔
1958ء سے قبل عراق نے کوئی واضح خارجہ حکمت عملی اختیار نہیں کی کیوں کہ بر
طانیہ کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے برطانیہ ہی زیادہ تر خارجہ پالیسی پر اثر انداز رہا۔
1958ء کے فوجی انقالب کے بعد ملک نے واضح خارجہ پالیسی اپنائی تاہم 1961ء تک
پالیسی مصر کے خالف رہی۔ عراق نے مصر اور شام کے خالف پروپیگنڈا کیا اور اس
کے یر عکس اردن کے ساتھ فیڈریشن میں 1958ء میں شمولیت اختیار کی۔ 1961ء میں
جنرل قاسم نے کو بیت پر عراق کی ملکیت کا دعوی کیا لیکن دوسرے عرب ممالک نے
اس بات کو پسند نہ کیا ۔ 20جوالئی 1961ءکو کو بیت عرب لیگ کارکن بنا دیا گیا۔ قاسم
دعوی واپس لے لیا ۔
ٰ نے اپنا
فیلڈ مارشل عبد السالم عارف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عرب لیگ کے ساتھ اچھے
تعلقات قائم کرنا شروع کیے۔ ان کے بھائی عبد الرحمن عارف کے دور اقتدار میں جب
1967ء میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو عراق نے عربوں کی حمایت میں اسرائیل
کے خالف جنگ میں حصہ لیا۔ 1973ء کی جنگ میں بھی اسرائیل کے خالف عراق نے
اقدامات کیے۔ ملک کی زیا دہ تر پالیسی روس کی طرف جھکی ہوئی ہے اور سوشلسٹ
ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رہے ہیں۔ عراق کے حکمران حسن البکر نے اسالمی
اتحاد کی کوششوں کا ساتھ دیا اور اسالمی ممالک کے ساتھ تعاون کیا۔
نومبر 1980ء سے عراق کی ایران کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی۔ یہ جنگ شط العرب پر
دونوں ملکوں کے مابین تنازع کا نتیجہ تھی۔ امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد سے
ملک خانہ جنگی کا شکار ہے۔
سوال نمبر3۔ شام میں مصطفی حمدون کے دور حکومت کا تنقیدی جائزہ لیں؟
موصل میں حمدانیوں کی حکومت کے بانی ابو الہیجاء عبدہللا بن حمدان اور
حکومت شام (حلب) کی حمدانی حکومت کے بانی ابو الحسن علی المعروف بہ سیف
الدولہ تھے۔ آل حمدان کا اہم ترین کردار یہ تھا کہ انھوں نے رومیوں کے حملوں کے
مقابلے میں اسالمی سرحدوں کی حفاظت کی۔ حمدانی دور کے بعض س ّکوں پر اہل
بیت کے اسماء گرامی کندہ کرنا ،ابوالہیجاء کے توسط سے حرم امیر المؤمنین کے گرد
مضبوط حصار اور آپ کی قبر شریف پر بڑے قبے کی تعمیر ،آل حمدان کی دینی خدمات
میں سے ہیں۔ حمدانیوں کے بنو تغلب ،بنو عباس ،فاطمیون اور قرامطہ سمیت دوسری
حکومت کے ساتھ تعلقات تھے۔
سنہ 260ہجری میں حمدان نے یحیی بن سلیمان کی سرکردگی میں موصل کی تحریک کو
کچلنے کے لئے جانے والی اسحق بن ایوب تغلبی کی سپاہ کا ساتھ دیا۔ یہ سپاہ اپنی مہم میں
ناکام رہی۔ سنہ 263ہجری میں حمدان نے ہارون الشاری کا ساتھ دیا جو خوارج کی قیادت
حاصل کرنے کے درپے تھا۔ سنہ 266ہجری میں علی بن داؤد (قائد کبیر) ،اسحق بن ایوب
تغلبی اور اسحق بن کنداجیق کے ساتھ مل کر عباسی حکومت کے خالف جنگ میں شریک
ہوئے اور شکست کھانے کے بعد فرار ہوکر نیشابور چلے گئے۔ طبری نے اس جنگ میں
حمدان کی شرکت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ سنہ 267ہجری میں حمدان نے اسحق بن
ایوب کے ساتھ مل کر ربیعہ ،تغلب اور بکر نامی قبائل کا لشکر تشکیل دیا اور کنداجیق
کے مقابلے کے لئے عزیمت کی لیکن پھر بھی شکست کھا گئے اور فرار
ہوکر نصیبین اور آمد چلے گئے۔سنہ 272ہجری میں حمدان ہارون الشاری کے ساتھ متحد
ہوئے۔ وہ مل کر موصل چلے گئے اور سنہ 279ہجری میں بنو شیبان کے خالف جنگ
میں شریک ہوئے۔سنہ 281ہجری میں ،عباسی خلیفہ معتضد نے حمدان اور ہارون الشاری
کی سرکوبی کے لئے موصل کی طرف عزیمت کی۔ اور "قلعۂ ماردین" پر ـ جو حمدان کا
ٹھکانہ تھا ـ قبضہ کیا اور اس کو تباہ کردیا۔ کچھ افراد کو حمدان کے تعاقب میں روانہ کیا ـ
جو اپنے بیٹے حسین کو جانشین قرار دے کر فرار ہوگئے تھے ـ اور خود موصل کی
طرف پلٹ گیا۔ معتضد نے موصل پہنچنے کے بعد حمدان کے نام خط لکھا اور ان سے کہا
کہ خلیفہ کی اطاعت کریں لیکن حمدان نے انکار کیا اور قلعہ بند ہوئے حتی کہ کچھ
عرصہ فرار اور خلیفہ کے تعاقب کے بعد سنہ 282میں خلیفہ کی اطاعت قبول کرلی اور
انہیں اپنے بیٹے حسین کی وساطت سے رہا کیا گیا۔
اس کے بعد ،مآخذ میں حمدان کا ذکر موجود نہیں ہے اور نظر یوں آتا ہے کہ وہ سیاسی
سرگرمیوں سے دور رہے۔ ان کی وفات کی تاریخ بھی واضح نہیں ہے۔
موصل میں حمدانیوں کی حکومت کے بنی ابو الہیجاء عبدہللا بن حمدان تھے۔ وہ سنہ 293
ہجری میں موصل کے حاکم مقرر ہوئے۔ انہیں اپنی حکومت کے شروع میں ہَذْبانی کردوں
کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے لشکر کو کردوں کے خالف لڑتے ہوئے بھاری
نقصانات سے دوچار ہونا پڑا؛ چنانچہ انھوں نے بغداد سے کمک مانگی اور سنہ 294
ہجری میں کمک پہنچتے ہیں انھوں نے کرد باغیوں کا تعاقب شروع کیا اور انہیں اطاعت
گزاری پر مجبور کیا،لیکن چند سال بعد خلیفہ کے خالف اقدام کی بنا پر معزول کئے گئے۔
خلیفہ کا حکمنامہ ابو الہیجاء کے شدید رد عمل کا سبب بنا؛ لیکن خلیفہ کی سپاہ کے مقابلے
میں مزاحمت سے اجتناب کیا۔ انھوں نے امان مانگی اور عباسی خلیفہ کے لشکر کے
ہمراہ بغداد پہنچے اور خلیفہ کی تکریم کے الئق ٹہرے۔ چند مہینے بعد انہیں موصل کی
حکومت لوٹا دی گئی۔ سنہ 303ہجری میں حسین بن حمدان کی گرفتاری کے بعد ابو
الہیجاء اور ان کے بھائی ابراہیم بھی گرفتار اور قید کرلئے گئے لیکن دو سال بعد ـ جبکہ
حسین بدستور قیدخانے میں تھے ـ وہ دونوں رہا کئے گئے۔ سنہ 307میں ابو الہیجاء مؤنس
خادم کے ہمراہ باغی سپہ ساالر یوسف بن ابی ساج کے خالف جنگ میں شریک ہوئے جو
ابو ساج کی شکست پر منتج ہوئی۔ سنہ 308ہجری میں خلیفہ نے انہیں خراسان اور دینور
روانہ کیا اور ان کے بھائیوں ابو السرایا اور ابو العالء کو خلعت بخشی۔
سنہ 309ہجری میں ابو الہیجاء کو حجاج کے لئے راستہ پرامن بنانے کا فریضہ سونپا؛ وہ
سنہ 312تک اسی منصب پر فائز رہے؛ کیونکہ اسی سال قرمطیوں نے ابو طاہر جنابی کی
سرکردگی میں حجاج کے قافلے پر حملہ کیا اور ابو الہیجاء ان کے خالف لڑتے ہوئے ان
کے ہاتھوں اسیر ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد قرمطیوں نے انہیں رہا کردیا۔
سنہ 314ہجری کے وقائع میں ابو الہیجاء کو موصل کے حکمران کے طور پر یاد کیا گیا
ہے اور کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے حسن ناصرالدولہ کو جانشین مقرر کیا
لیکن ناصر الدولہ مخالفین کی سرکوبی میں ناکام رہے چنانچہ ابو الیہجاء نے خود جاکر
مخالفین کو کچل دیا اور عالقے میں امن و سکون بحال کیا۔
سنہ 315ہجری میں ابو الہیجاء اور ان کے بھائیوں نے عراق کا رخ کرنے والے قرمطی
ساالر ابوطاہر جنابی کے خالف (عباسی دربار کے) مونس خادم کی لشکر کشی میں حصہ
لیا۔ اس جنگ میں عباسی لشکر کو شکست ہوئی اور ابو الہیجاء کی تجویز پر دریائے
ُزبارہُ /زبارا کا پل کاٹ دیا گیا تا کہ قرمطی بغداد میں داخل نہ ہوسکیں۔
باذ کے قتل کے بعد اس کے بھانجے ابو علی حسن بن مروان نے ناصر الدولہ کے بیٹوں
پر مسلسل جنگیں مسلط کیں۔ ان جنگوں میں ابو عبدہللا ابن مروانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے
لیکن کچھ عرصہ بعد رہا ہوگئے اور مصر چلے گئے اور فاطمیون نے انہیں حلب کا حاکم
قرار دیا۔ دوسری طرف سے ابو طاہر ابراہیم بھی ـ جو ابن مروان کے ہاتھ سے چھوٹ
(ابوذواد) ،کے
ّ گئے تھے ـ نصیبین کے عالقے میں بنو عقیل کے سربراہ محمد بن المسیب
ہاتھوں گرفتار ہوئے اور مارے گئے۔ ان کے قتل کے ساتھ ہی موصل میں آل حمدان کی
حکومت زوال پذیر ہوئی۔
شام میں حمدانیوں (بنو حمدان یا آل حمدان) کی حکمرانی کی تاریخ سنہ 333ہجری کی
طرف پلٹتی ہے۔ اس سال ناصر الدولہ کے بھائی سیف الدولہ نے شام پر قبضہ کرنے کے
لئے بھائی ناصر الدولہ سے مدد مانگی[ ]70انھوں نے ابتداء میں حلب پر قبضہ کیا اور
رفتہ رفتہ شام کے دوسرے عالقوں کو اپنے قلمرو میں شامل کرلیا اور اپنی حکومت کو
استحکام بخشا۔ سنہ 356ہجری میں سیف الدولہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ابو
المعالی نے حاجب ابو الحسن قرغُ َویہ کے تمہیدی اقدامات کے نتیجے میں ،حکومت
سنبھالی۔ ان کی حکومت کے ابتدائی مہینے اندرونی حساب بےباق کرنے میں صرف
ہوئے۔ سنہ 357ہجری میں ابو المعالی اور ان کے ماموں اور مشہور شاعر ابو فراس
حمدانی کے درمیان تنازعہ جنگ پر منتج ہوا جس کے نتیجے میں ابو فراس مارے
گئے۔ کچھ عرصہ بعد قرغُ َویہ نے بکجور یا بجکور نامی غالم کی مدد سے بغاوت کی
اور محرم سنہ 358ہجری میں حلب پر مسلط ہوا۔ ابو المعالی حران کی طرف چلے گئے
جبکہ ان کے انصار و اعوان منتشر ہوئے اور ان کے چچیرے ابو تغلب سے جا
ملے۔ تاہم ابو المعالی نے حلب کے قریب معرۃ النعمان کے کارگزار کی مدد سے لشکر
فراہم کیا اور حلب کی طرف روانہ ہوئے۔ قرغویہ نے رومیوں سے مدد مانگی اور جب
رومی لشکر کے پہنچنے کی خبر ابو المعالی کو ملی تو انھوں نے مجبور ہوکر حلب کا
محاصرہ ختم کیا اور معرۃ النعمان واپس چلے گئے۔
حمدانی حکومت کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے سیاسی روابط کو منفعت پسندانہ اور غیر
مستحکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے۔ ان کا سب سے پہال اقدام سنہ 263ہجری میں
"ہارون الشاری کے ساتھ "حمدان بن حمدن" کا اتحاد تھا جو کافی عرصے تک جاری تھا
اور حمدان نے نہ صرف اپنی عسکری قوت بلکہ اپنی تشہیری قوت کو بھی خوارج کے
لئے استعمال کیا۔ لیکن چونکہ یہ اتحاد فریقین کے سیاسی مفادات کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا
اور اس کا سرچشمہ بنو تغلب کے استقالل پسندانہ (اور آزادی خواہانہ) رجحانات تھے (اور
جیسا کہ مضمون کے آغاز میں اشارہ ہوا ،بنو حمدان بھی بنو تغلب میں شمار ہوتے
تھے) ،بہت حساس موقع پر ختم ہوا اور ان کے دوستانہ تعلقات ـ تقریبا دو عشروں تک قائم
تھے ـ دشمنی میں بدل گئے اور حسین بن حمدان عباسیوں کی طرف سے ان کا قلع قمع
کرنے میں مصروف ہوا۔
جیسا کہ سطور باال میں اشارہ ہوا حمدانیوں کے قرامطہ کے ساتھ بھی غیر مستحکم تعلقات
تھے؛ حتی حسین بن حمدان نے قرمطیوں کے خالف متعدد فوجی کاروائیاں انجام دیں،
لیکن حمدانیوں اور فاطمیوں کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کے بعد قرمطیوں کو
ـ فاطمیوں کے خالف ـ حمدانیوں کی سیاسی اور عسکری حمایت حاصل ہوئی۔
تعلقات میں یہ عدم استحکام حمدانیوں کے عباسیوں کے تعلقات میں زیادہ نمایاں
تھا۔ خالفت کے مرکز کے حاالت و رجحانات اور دربار پر مسلط امراء کے ساتھ حمدانیوں
کے تعلقات ،ان تعلقات کے تعین میں کردار ادا کرتے تھے۔ عباسی خلیفہ کے دربار میں
حسین بن حمدان کی حیثیت بہت اہم اور مستحکم تھی ،اور ناصر الدولہ کو عباسی دربار
نے "امیر االمراء" کا منصب عطا کیا تھا لیکن اس کے باوجود حمدانیوں کی روش ہمیشہ
شورش اور استقالل پسندی اور خودمختاری کی طرف مائل تھی۔اس کے باوجود روم شرق
کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کی سالمتی کے تحفظ نیز کرد اور عالقہ "جزیرہ" کے
عرب قبائل کی دست اندازی سے عباسی قلمرو کی اندرونی سالمتی کے تحفظجیسے
مسائل عباسیوں مجبور کررہے تھے کہ وہ حمدانیوں کے ساتھ روادارانہ طرز سلوک
اپنائے رکھیں۔
حمدانی حکومت ہمیشہ فاطمی خالفت کے ساتھ تعاون اور تفاہم کے خواہاں تھے
لیکن فاطمی نے کبھی بھی ان کی خواہش کا چنداں خیر مقدم نہیں کیا وہ ان پر بےاعتماد
تھے۔حقیقت یہ ہے کہ فاطمی حمدانیوں کے مخالف محاذ میں کھڑے تھے (جیسا کہ
مندرجہ باال سطور میں اشارہ ہوا)۔ اس کے باوجود کہ کبھی کبھار حمدانی سیاسی تقاضوں
کی بنیاد پر فاطمیوں سے مدد کی درخواست کیا کرتے تھے۔یہ روش آل حمدان کی
حکومت کے آخر تک برقرار رہی۔ گوکہ خاندان حمدان کے بعض پسماندگان نے
ـ شام میں حمدانی حکومت کے زوال کے بعد ـ مصر میں قیام کیا اور پانچویں صدی
ہجری کے نصف دوئم میں ان ہی افراد کی اوالد میں سے ایک فرد ،مستنصر فاطمی کے
دور خالفت میں فاطمی دربار میں صاحب اقتدار ہوا اور طویل عرصے تک امور حکومت
پر مسلط رہا اور مصر کے اہم ترین کارگزار کے عنوان سے پہچانا گیا۔
مصطفی حمدون کا دور:
مصطفی حمدون نے عنان حکومت سنبھالتے ہی اعالن کیا کہ وہ فوجی حکومت کا سر
براہ نہیں رہنا چاہتا۔ اس طرح فوج نے اقتدار ہاشم العطاشی کے حوالے کر دیا۔ ہاشم نے
1950ء کے آئین کو بحال کر دیا۔ اس طرح ملک میں آئینی حکومت بحال ہو گئی اور
دیگر جمہوری اداروں کا قیام عمل میں الیا گیا ۔ستمبر 1954ء میں سابق صدر شکری
القواتلی کو مصر سے واپس بال کر دو بار صدر مقرر کر دیا گیا۔ اس آئینی حکومت نے
عرب ممالک کے ساتھ اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا اور عرب مسلم اتحاد پر زور دیا ۔
اسرائیل کے قیام کی وجہ سے یہ حکومت اس کے خالف تھی ۔ 1955ء میں اس حکومت
نے مصر کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا جس کے ماتحت دونوں ملکوں کی فوجوں کو
ایک مشترکہ فوجی کمان میں دے دیا تا کہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا جائے ۔اس کے
باوجود شکری القواتلی نے شام کو بڑی کشمکش سے دور رکھا اور ایک غیر جانب دار
پالیسی پر عمل کیا اور تمام ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ۔ جس
ملک سے فوجی سامان بال شرط مال ،حاصل بھی کیا۔ اس صورت حال سے روس نے فائد
ہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ عالقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور اس طرح رومانیہ ،چین
اور دیگر روی اتحادیوں سے شام نے تجارتی معاہدے بھی کیسے جن سے روسی اثر میں
اضافہ ہو گیا ۔ روسی امداد سے ہی شام نے اپنے دفاع کو مضبوط بنایا جس کی ضرورت
امریکہ اور یور پی امداد سے اسرائیل کی فوجی قوت میں اضافے کی وجہ سے ہوئی ۔
شام نے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے شہری دفاع کے پروگرام پر عمل کیا۔
سوال نمبر4۔ مصر میں صدر انوارالسادات کے دور حکومت کے اہم واقعات قلمبند
کریں؟
صدر انور السادات ( 1970ء سے 1980ء)
اندرونی حکمت عملی :
انور السادات نے اقتدار سنبھالتے ہی محمود فوزی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ 1952ء کے بعد
یہ پہال وزیر اعظم تھا جو غیر فوجی تھا۔ اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی تھی کہ صدر
کی حکمت عملی ماضی سے مختلف ہو گی ۔ اس نے عرب دنیا کے مسائل میں مداخلت
کی بجائے مصر کے مسائل کو اولیت دی۔ گزشتہ دور میں مصری شہریوں کی جو
جائیدادیں ضبط کر لی گئی تھیں انھیں واگزار کر دیا۔ اس نے اعالن کیا کہ آئندہ مصر کو
پولیس سٹیٹ نہیں رہنے دیا جائے گا اور قانونی حکمرانی بحال کی جائے گی۔ علی
صابری در اس کے ہم خیال گروہ ،جو روس کے ہم نوا تھے ،کی اقتدار سے علیحدگی
ظاہر کرتی تھی کہ انور السادات کارجحان دائیں بازو کی طرف ہے۔ اخوان المسلمون پر
ظلم و جور کا دور ختم ہوا۔ تمام اخوانی قیدی رہا کیے گئے اور صد ر نے بیرون ملک
اخوان پناہ گزینوں سے اپیل کی کہ وہ وطن واپس آ جائیں ۔ جن قیدیوں کے ساتھ جیل میں
نا رہ سلوک کیا گیا تھا ،انھیں مع اوضہ دیا گیا ۔ اس جماعت کے اخبار روزنامہ الدعوہ کی
اشاعت بحال کر دی گئی ۔ مارچ 1976ء میں اخوان المسلمون کو سیاسی جماعت کی
حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
عرب اسرائیل جنگ 1973ء :
1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل سینائی کے عالقے اور نہر سویز کے مشرقی
کنارے پر قابض تھا۔ کشیدگی بدستور موجود تھی اور مستقل امن کی کوئی صورت
نظر نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ 6اکتوبر 1973ء کو اسرائیل کے خالف چوتھی بار
جنگ کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل ہمیشہ اسرائیلی فوجوں نے پہل کی تھی مگر اس دفعہ
مصر نے حملہ کیا اور بڑی ہوشیاری سے ہزاروں آدمی نہر سویز کے پار پہنچا
دیئے۔ نہر سویز کے مشرق میں اسرائیلی دفاع جسے "بارلے الئن“ کہا جاتا تھا ،بالکل
نا کام ہو گیا ۔ ایک ہفتے میں مصری ایک ہزار ٹینکوں اور ایک الکھ فوج کے ساتھ نہ
صرف نہر کے کنارے پر قابض ہو چکے تھے بلکہ سینائی میں دس میل اندر تک بڑھ
گئے تھے ۔
ساتھ ہی شامی محاذ پر بھی جنگ چھڑ گئی۔ جہاں ابتدا میں عربوں کو کامیابی ہوئی مگر
پھر گوالن کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے پیش قدمی شروع کر دی اور دمشق کو خطرہ الحق
ہو گیا تا ہم دوسرے عرب ممالک ( عراق ،اردن ،سعودی عرب ،مراکش ،تیونس ) کی
فوجیں آگئیں اور حاالت سن بھل گئے۔ ایک ہفتے کی جنگ کے بعد مصری محاذ پر بھی
اسرائیل کا جوابی حملہ شروع ہو گیا۔ کڑوی جھیل کے قریب اسرائیل کی پندرہ ہزار فوج
اور ساڑھے تین سوئینک سویز کے مغربی کنارے پر آ گئے اور انھوں نے مصر کے
اندرپندرہ میل تک پیش قدمی کی۔
11نومبر کو سیکورٹی کونسل کی کوشش سے جنگ بند ہو گئی ۔ مصر و اسرائیل کے
نمائندوں کے درمیان طویل گفت و شنید کے بعد 18جنوری 1974ء کو فوجوں کی واپسی
کا معاہدہ طے پایا۔ اس کی رو سے نہر کے مشرق میں مصر کی فوج سات ہزار افراد
اور تمیں ٹینکوں تک محدود کر دی گئی اور فضائیہ کو مارنے والے میزائل نہر کے
مغرب میں بارہ کلومیٹر پیچھے ہٹ گئے۔ اسرائیل نے نہر کے مغرب سے اپنی فوجیں
واپس باللیں اور بینائی میں اس کی فوجیں نہر سے 28تا 48کلومیٹر پیچھے ہٹ گئیں۔
بعد میں امریکہ کے ڈاکٹر کیسنجر کی کوشش سے اسرائیل اور شام میں بھی عارضی
مصالحت ہو گئی۔
معاہدہ بینائی 1975ء :
جنوری 1975ء میں صدر سادات نے اعالن کیا کہ اگر با قاعدہ معاہدہ طے نہ ہوا تو
جنگ کا چھڑ جانا الزمی ہے اس لیے کہ نہ جنگ نہ امن کی کیفیت زیادہ دیر تک جاری
نہیں رہ سکتی۔ اسی سال صدرسادات نے امریکہ کے صدر فورڈ سے اس مسئلے پر
آسٹریلیا میں بات چیت کی۔ بعد میں اسرائیلی وزیر اعظم را بن کو واشنگٹن میں طلب کر
لیا گیا اور باآلخر نفورڈ پالن مرتب کیا گیا۔
ادھر مصر نے اعالن کیا کہ اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج میں مزید توسیع نہیں کی جائے
گی۔ اس سے جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ۔ آخر میں بین االقوامی دباؤ کے تحت صرف تین
ماہ کی توسیع کی گئی بلکہ اب سفارتی کوششوں میں تیزی پیدا ہو گئی۔ امریکہ نے
اسرائیل پر دباؤ ڈاال اور باآلخر مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ
طے پایا ۔ستمبر 1975ء میں جنیوا کے مقام پر اس پر دستخط ہو گئے۔ اس معاہدے کی
رو سے طے پایا کہ :اسرائیلی فوجیں درہ مطالبہ سے ہٹ جائیں گی اور اس عالقے کے
تیل کے چشمے مصر کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔ سینائی میں دونوں ملکوں کی
بالمقابل فوج کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اسرائیل کا غیر فوجی سامان نہر
سویز سے گزر سکے گا۔ اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج فی الحال اس عالقے میں موجود
رہے گی۔ اچانک حملوں کی روک تھام کے لیے ایک وارننگ سٹم قائم کیا گیا جس میں
دوسو امریکی ماہرین متعین کیے گئے۔
اگر عرب ممالک نے اسرائیل سے جنگ چھیڑ دی تو مصران کا ساتھ نہیں دے گا۔ ڈاکٹر
کیسینجر نے ایک موقعے پر کہا کہ اس معاہدے میں چند خفیہ دفعات بھی شامل ہیں۔ بہر
حال یہ معاہد ہ اسرائیل کے حق میں تھا کیوں کہ اس کے بعد بھی سینائی کا 87فیصد
حصہ اس کے پاس رہا۔ دوسری طرف مصر کا اب تک یہ موقف رہا تھا کہ اسرائیل کو
تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ باقی عرب ممالک سے الگ ہو کر اسرائیل سے صلح نہیں کی
جائے گی اور فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرائے جائیں گے ۔ مگراب مصر اس سے ہٹ
گیا۔ عرب ممالک کسی ایسے معاہدے کے سخت خالف تھے۔ تاہم مصر کے اندر اس کے
خالف کوئی رد عمل نہ ہوا ۔ شاید مصری عوام مسلسل کشیدگی اور بار بار کی جنگوں
سے تنگ آچکے تھے ۔
اسرائیل کا دورہ :
نومبر 1977ء میں صد ر سادات نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ پہال موقع تھا کہ کسی عرب
سر براہ نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا ۔ اس معاملے میں اسے مغربی ممالک کا تعاون
حاصل تھا۔ تا ہم مسلم ممالک میں سے صرف عمان ،مراکش اور سوڈان کی تائید حاصل
ہوسکی۔ عرب ممالک میں بالخصوص ردعمل ہوا۔ صد رسادات نے اسرائیل کی قومی
اسمبلی سے بھی خطاب کیا اور امن کا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کرتے ہوئے مقبوضہ
عرب عالقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی فلسطینیوں کے حقوق ،ہر ملک کے تحفظ کی
ضمانت ،اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق باہمی تعلقات اور حالت جنگ کے خاتمے پر
زور دیا۔ دسمبر 1977ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نے اسماعیلیہ میں صدر سادات سے
مالقات کی لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے کیونکہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 242
کو تسلیم کرنے اور فلسطینیوں کو اُن کے حق خودارادیت دینے سے انکاری تھا۔
کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ :
1979ء صد را نور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیگن کے درمیان یہ معاہدہ امن 20
مارچ 1979ء کو طے پایا۔ یوں باآلخر تمہیں سالہ جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ مس معاہدے کی
رو سے تمام سینائی میں مصر کی باال دسی کو تسلیم کیا گیا اور طے پایا کہ اسرائیلی فو
ج یں بتدریج واپس باللی جائیں گی ۔ اسرائیل کو تمام دوسری اقوام کی طرح نہر سویز
استعمال کرنے کی اجازت ہوگی ۔ عریش ،شرم الشیخ وغیرہ کے ہوائی اڈے تمام اقوام کی
تجارتی پردازوں کے لیے کھلے رہیں گے۔ اسرائیل جنوبی سینائی میں تیل کے چشمے
واپس کر دے گا اور اس کے عوض مصر سے اتنی ہی مقدار میں تیل فراہم کرے گا ۔
دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کے عالقے کی خود مختاری کو اصولی طور
پر تسلیم کر لیا گیا تا ہم اس سلسلے میں یہ کہا گیا کہ مصر ،اسرائیل اور اردن با ہمی بات
چیت کے ذریعے سے تفصیالت طے کریں گئے۔
اس معاہدے پر مرحلہ وار پروگرام کے تحت عمل درآمد شروع ہوا ۔ نومبر 1979ء میں
کوہ سینائی مصر کی تحویل میں دے دیا گیا ۔ 1980ء کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے
مزید عالقے خالی کیسے یہاں تک کہ وہ شمال میں امریش سے لے کر جنوب میں محمد
راس تک کی الئن سے پیچھے ہٹ گئی۔ اس طرح سینائی کا دو تہائی حصہ مصر کے
قبضے میں آ گیا ۔ اس معاہد ہ امن کے خالف تمام عرب ممالک میں شدید احتجاج اور
مظاہرے ہوئے ۔ عرب ممالک نے متفقہ طور پر اس معاہدے کو مستر د کر دیا اور
اسالمی کانفرنس اور افریقی ممالک کی تنظیم سے مصر کی رکنیت کو خارج کر دیا۔
مصر کے اندر بھی صدر سادات کے خالف مخالفت کی شدید لہر دوڑ گئی ۔ مصر کے
مذہبی حلقوں نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے خالف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ
حکومت نے بآلخر 1600سے زائد مذہبی کارکنوں کو گرفتار اور چالیس ہزار مساجد
کوسرکاری تحویل میں لے لیا ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل وائلڈ بائم نے بھی
اعتراف کیا کہ کوئی بھی معاہدہ اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کا
مسئلہ حل نہ ہو ،جب کہ اس معاہدے میں فلسطینیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان کا
موقف بھی یہی رہا ہے کہ مشرق وسطی میں اس وقت تک پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا
جب تک کہ اسرائیل سارے مقبوضہ عرب عالقے خالی نہ کرے ،بیت المقدس کو عربوں
کے حوالے نہ کیا جائے اور فلسطینیوں کے حقوق بحال نہ کیے جائیں۔ 6اکتوبر 1980ء
کو فوجی پریڈ کے معائنہ کے دوران صدرا نور سادات قتل کر دیئے گئے ۔ نائب صدر
حسنی مبارک صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ صدر حسنی مبارک نے عرب دنیا
بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ مصر کے تعلقات کو معمول پر النے کے لیے اہم
اقدامات کیے اور اب مصر کے تعلقات عرب دنیا کے ساتھ نہایت خوشگوار بنیا دوں پر
استوار ہیں۔
سوال نمبر5۔ سوڈان میں جعفرالنمیری کے دور حکومت کے اہم واقعات بیان کریں نیز
اس کے دور میں خارجہ پالیسی کی وضاحت کریں؟