You are on page 1of 20

‫کورس ‪ :‬جدید دنیائے اسالم‬

‫کوڈ ‪9138 :‬‬


‫سمسٹرخزاں ‪2022‬‬
‫پروگرام ‪ :‬بی ایس‬
‫مشق نمبر‪2‬‬

‫سوال نمبر‪1‬۔ درج ذیل سواالت کے مختصر جواب تحریر کریں؟‬


‫‪1‬۔ شمالی اور جنوبی یمن کا اتحاد کب ہوا ؟‬
‫جواب‪1990" .‬ء " میں شمالی اور جنوبی یمن کا اتحاد ہوگیا ‪.‬‬

‫‪2‬۔ سعودی عرب کے شاہ خالد نے پاکستان کا دورہ کب کیا ؟‬


‫جواب‪ 1979" .‬ء میں سعودی عرب کے شاہ خالد نے پاکستان کا دورہ کیا ۔‬

‫‪3‬۔ مصر کے صدر ناصر کا انتقال کب ہوا ؟‬


‫جواب‪ 28 .‬ستمبر ‪ 1980‬میں صدر ناصر کو دل کا دورہ پڑا‬
‫اور انھوں نے وفات پائی ۔‬

‫‪4‬۔ شاہ فیصل سعودی عرب کا حکمران کب بنا ؟‬


‫جواب‪ 2 " .‬نومبر ‪ 1964‬ء " علماء کے فتوے کے پیش نظر شاہ فیصل کو سعودی عرب‬
‫کا مستقبل بادشاہ بنا دیا گیا۔‬

‫‪5‬۔ بیلفور اعالمیہ کب ہوا؟‬


‫جواب‪ 2 .‬نومبر ‪ 1917‬میں بیلفور ہوا ۔‬
‫‪6‬۔ روس نے شام کے ساتھ کب معاہدہ کیا ؟‬
‫جواب‪ .‬اکتوبر ‪ 1957‬میں روس نے شام کے ساتھ معاہدہ کیا ۔‬

‫‪7‬۔ متحدہ عرب امارات کی ریاست عرب لیگ کے رکن کب بنی؟‬


‫جواب‪ .‬متحدہ عرب امارات ‪ 7‬دسمبر ‪ " 1971‬کو عرب لیگ کی‬
‫ممبر بنی۔‬

‫‪8‬۔ سویز کینال کو قومی تحویل میں کب لیا گیا؟‬


‫جواب‪ 25 .‬جوالئی ‪ " 1956‬میں سویز کینال کو قومی تحویل میں لیا گیا۔‬

‫‪9‬۔ فرانس کو جرمنی سے کب شکست ہوئی ؟‬


‫جواب‪ 25 " .‬جون ‪ 1940‬میں فرانس کو جرمنی سے شکست‬
‫ہوئی۔‬

‫‪10‬۔ ساتویں اسالمی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کہاں ہوا ؟‬


‫جواب ساتویں اسالمی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ‪15 – 13‬‬
‫دسمبر ‪ 1994‬کو مراکش میں ہوا۔‬

‫سوال نمبر‪2‬۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عراق میں فوجی حکومت کے قیام کی‬
‫وجوہات بیان کریں نیز اس کی معیشت اورخارجہ پالیسی کی وضاحت کریں؟‬

‫جنگ عظیم دوم (‪ )1939-45‬کے دوران ‪:‬‬


‫جنگ عظیم دوم (‪ ) 1939-45‬کے دوران عراق کی پوزیشن مسلسل تبدیل ہوتی رہی۔‬
‫کبھی ایک حکومت اتحادیوں کا ساتھ دیتی اور جب اس کے خالف دوسری حکومت آتی تو‬
‫و مچوری طاقتوں کی حمایت کرتی۔ جنگ کے دوران کوئی بھی حکومت مستحکم نہ ہو‬
‫سکی اور عراق در اصل بدامنی اور بے یقینی کی سی کیفیت میں مبتال رہا۔ پرنس عبد ہللا‬
‫اور رنوری السعید چوں کہ بر طانیہ کے حامی تھے۔ انہوں نے جنگ میں اتحادیوں کا‬
‫ساتھ د یا۔ جرمنی نے جب روس پر حملہ کیا تو روس کو سپالئی کا واحد ذریعہ عراق تھا‬
‫جسے اتحادی استعمال کرنا چاہتے تھے۔ قوم پرست حکومت کے خالف تھے اورد دبر‬
‫طانیہ کے بھی خالف تھے ان کی سربراہی رشید علی گیالنی کرتے تھے ۔ رشید علی‬
‫گیالنی کی وزارت مارچ ‪1940‬ء میں قائم ہوگئی تو حکومت نے غیر جانب داری کی‬
‫پالیسی اختیار کی لیکن جنوری ‪1941‬ء میں گیالنی وزارت ٹوٹ گئی ۔ تا ہم ‪ 13‬اپریل‬
‫‪ 1941‬ء کو گیالنی دوبارہ چار فوجی افسروں کی مدد سے انقالب بر پا کر کے بر سر‬
‫اقتدار آیا اور گیالنی وزارت دوبارہ قائم ہوگئی۔ نوری السعید اور شہزادہ عبد ہللا اردن‬
‫چلے گئے۔ برطانیہ کو یہ حکومت پسند نہ تھی اس لیے حکومت اور برطانوی فوج کے‬
‫درمیان مئی ‪ 1941‬ء میں جنگ چھڑ گئی ۔ بر طانوی فوجوں نے عراق پر قبضہ کر لیا۔‬
‫رشید گیالنی ایران چال گیا اور نوری السعید او رعبدہللا واپس عراق آگئے ۔ اکتوبر میں‬
‫نوری السعید نے نئی وزارت کی تشکیل کی حکومت نے ‪ 14‬جنوری ‪1943‬ءکو با قاعد‬
‫داتحادیوں کی حمایت کا اعالن کر دیا ۔ اگر چہ عمل عراق کے وسائل پر پہلے ہی بر‬
‫طانیہ قابض تھا لیکن رسمی طور پر جرمنی کے خالف اعالن جنگ کی وجہ سے عراق‬
‫بھی جنگ کے آخر پر فتح مندوں میں شامل ہو گیا۔ کیوں کہ اس نے یکم جنوری ‪1942‬ء‬
‫کو اقوام متحدہ کے اعالن پر دستخط کیے تھے ۔ اس وجہ سے جنگ کے بعد عراق خود‬
‫بخو داقوام متحدہ کا رکن بن گیا۔ نوری السعید وزارت نے روس کے ساتھ بھی سفارتی‬
‫تعلقات قائم کیے ۔ جنگ کے دوران ‪1944‬ء میں نوری السعید نے استعفی دیا تو حمدی‬
‫التباشی وزارت قائم ہوئی جس کی پالیسی نوری السعید کی پالیسی کی طرح تھی۔ اسی‬
‫دوران امیر عبدہللا نے امریکہ کا دورہ کیا اور اتحادیوں سے تعلقات مزید خوش گوار‬
‫بنائے ۔ ‪1945‬ء میں عراق نے عرب لیگ کی رکنیت اختیار کرلی۔‬
‫‪1945‬ء کے بعد ‪:‬‬
‫‪ .1‬جنگ کے بعد بھی عراق داخلی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔ جنوری ‪1946‬ء میں‬
‫حمدی التباشی کی وزارت نے استعفی دے دی ا تو پھر توفیق السعودی کی لبرل وزارت قائم‬
‫کی گئی لیکن یہ وزارت بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی کیوں کہ ترکی کے ساتھ تعلقات‬
‫استعفی دے دیا ۔ اس کے بعد‬
‫ٰ‬ ‫رکھنا وہ نزاع بن گیا ۔ آخر کا راس وزارت نے ‪ 30‬مئی کو‬
‫راشد المری نے وزارت بنائی۔ اگر چہ اندرونی حاالت کو بہتر کرنے کے لیے راشد نے‬
‫بعض تعمیری اقدام کیے لیکن وہ بھی ملک کے مختلف طبقہ خیال لوگوں کی حمایت‬
‫حاصل کرنے میں ناکام رہا اور ملک بدستور ہڑتالوں اور اندرونی انتشار کا شکار رہا۔‬
‫آخر کار راشد العمری کو بھی وزارت عظمی سے استعفی دینا پڑا۔ اس کے بعد ریجنٹ‬
‫امیر عبدہللا کے کہنے پر ملک کے پرانے سیاستدان نوری السعید نے وزارت بنائی۔ اگر‬
‫چہ یہ وزارت صرف چار مہینے رہی لیکن اس نے دو اہم کام کیے۔ ملک کی پانچ سیاسی‬
‫جماعتوں کو جو راشد وزارت کے دوران متحد ہو گئیں تھیں‪ ،‬کو آپس میں لڑا دیا ۔ان میں‬
‫سے دو (احرار اور قومی جمہوریہ پارٹی) کو حکومت میں شامل کر لیا اور تین (جن میں‬
‫استقالل اوراتحاد شعیہ بھی شامل تھیں ) کو مخالف کر لیا۔ اس طرح ملک کی اپوزیشن‬
‫کمزور ہوگئی ۔ دوسرے ملک میں انتخاب کروا کر صالح جابر کی وزارت ‪ 29‬مارچ‬
‫‪ 1947‬ء کو قائم کی گی جوامیر عبدہللا اور نوری السعید کے اشاروں پر کام کرتی تھی ۔‬
‫صالح جابہ نے داخلی معامات میں جبر و تشدد کی پالیسی پر عمل کیا۔ تین اپوزیشن‬
‫پارٹیوں نے اس کے خالف احتجاج کیا او روزارت کے خالف تحریک شروع کی۔‬
‫‪ .2‬کر کوک کے تیل کے کارخانوں میں ہڑتالیں ہوئیں۔ انہیں کنٹرول کرنے کے لیے بر‬
‫طانیہ نے اپنی فوج کو نقل و حرکت کی اجازت دی جس کے خالف پورے ملک میں‬
‫برطانیہ کے خالف شدید نفرت اور غم وغصہ کی لہر دوڑگئی ۔سید قدم بر طانیہ نے‬
‫‪ 1930‬ء کے معاہدے کے تحت کیا۔ برطانوی حکومت کے ساتھ طویل بات چیت کے بعد‬
‫جنوری ‪ 1948‬ء میں ایک معاہدے پر عراق اور برطانیہ کے دستخط ہوئے ۔ یہ معاہدہ‬
‫فریقین کے مابین بیس سال کے لیے طے ہوا جس کے تحت دونوں فریق جنگ کے دوران‬
‫ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ دونوں کے ہوائی اڈوں کی برتری تسلیم کر لی گئی لیکن‬
‫حاالت جنگ میں شاہ عراق کی دعوت پر برطانیہ کو اپنی فوجیں عراق میں اتارنے کا‬
‫اختیار دیا گیا۔‬
‫دونوں ملکوں کے مابین دفاعی امور کے لیے مشتر کہ دفاعی بورڈ کی تشکیل کی گئی ۔‬
‫اس سے برطانیہ کے لیے الزمی ہو گیا کہ وہ عراقی فوجیوں کی تربیت کرے اور ان کو‬
‫اسلحہ فراہم کرے۔ اس معاہدے کی تنسیخ کے لیے پندرہ سال بعد غور ہو سکتا تھا۔ معاہدہ‬
‫عراق کے عوام کو قبول نہ تھا۔ ملک میں اس کے خالف احتجاج ہوا‪ ،‬ہڑتالیں اور جلسے‬
‫ہوئے ۔ حکومت نے اگر چہ بختی سے امن و امان بحال کرنے کی کوشش کی لیکن نا کام‬
‫استعفی دے دیا۔‬
‫ٰ‬ ‫رہی۔ حاالت سے مجبور ہو کر صالح جاہد نے بھی جنوری ‪1948‬ء میں‬
‫عراقی پارلیمنٹ نے بھی اس معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا۔‬
‫‪ . 3‬اس کے بعد ملک میں یکے بعد دیگرے وزارتیں بنیں۔ محمد الصدر کی وزارت قائم‬
‫ہوئی۔ اس وزارت نے ‪ 15‬جون ‪ 1948‬ء تک ملک میں انتخابات مکمل کرا دیے۔ ‪138‬‬
‫ارکان میں سے ‪ 71‬بالکل نئے تھے سیاسی جماعتوں کو صرف چھ سیٹیں ملیں اور‬
‫استعفی دے دیا کہ میرا کام‬
‫ٰ‬ ‫انتخابات کے بعد ‪ 23‬جون کومحمد الصدر نے یہ کہہ کر‬
‫مکمل ہو گیا ہے اور اب حکومت نو منتخب نمائندوں کو چالنی چاہیے۔‬
‫اس کے بعد مزاہم الشباش کو جون ‪ 1948‬ء میں وزیر اعظم بنایا گیا ۔ آپ کی وزارت ‪4‬‬
‫جون ‪ 1949‬ء ت ک قائم رہی ۔ اس کے خالف رد عمل کی دو وجوہات تھیں ۔ ایک تو عرب‬
‫اسرائیل جنگ ‪ 1948‬ء میں اس نے مصر کی موثر مددنہ کی دوسرے شاکر الوا دی وزیر‬
‫دفاع مقرر ہوا کیوں کہ اسے بر طانیہ کا طرف دار سمجھا جاتا تھا۔‬
‫پھر نوری السعید نے ‪ 6‬جنوری ‪1949‬ء کو حکومت بنائی جو ‪ 10‬دسمبر ‪1949‬ء تک قائم‬
‫استعفی‬
‫ٰ‬ ‫رہی۔ نوری السعید کو اپنی وزارت میں شدید اختالف پیدا ہونے کی صورت میں‬
‫دینا پڑا ۔ ‪ 30‬جنوری ‪1950‬ء کوعلی جودت اال یوبی کی وزارت قائم ہوئی ۔ جو اگلے‬
‫مہینے فروری ‪ 1950‬ء میں مستعفی ہوگئی۔ اس مہینے تو فی السعیدی کی سربراہی میں‬
‫وزارت بنائی گئی جو چند ماہ قائم رہنے کے بعد ‪ 12‬سمبر ‪1950‬ء کو مستعفی ہوگئی ۔‬
‫اس کے بعد ‪ 16‬ستمبر ‪1950‬ء کونوری السعید کی وزارت قائم ہوئی ۔ یہ وزارت ‪ 23‬مئی‬
‫تک قائم رہنے کے بعد ‪ 10‬جوالئی ‪1952‬ء کومستعفی ہوگئی ۔‬
‫‪ 23‬نومبر ‪1952‬ء کو جنرل نور الدین محمود کو امیر عبد ہللا نے حکومت کے اختیارات‬
‫سونپ دیئے جس نے ملک میں مارشل الء لگا دیا۔ پانچوں سیاسی جماعتوں اور اخبارات‬
‫کو بند کر دیا ۔ ‪ 300‬لیڈ ر گرفتار کر لیے گئے ۔لیکن پھر بھی ملک کی امن و امان کی‬
‫صورت حال بہتر نہ ہو سکی۔‬
‫حاالت سے مجبور ہوکر امیر عبد ہللا نے ‪ 16‬دسمبر ‪1952‬ء کو فوج کو دوبارہ بارکوں‬
‫میں بھیج دیا اور ‪ 17‬جنوری ‪1953‬ء کو ملک میں عام انتخاب منعقد کرائے ۔ جنرل‬
‫نورالدین محمود کی جگہ جمیل الدفاعی نے ‪ 29‬جنوری ‪ 1953‬ء کوہ زارت بنائی۔ جنرل‬
‫محمود کو چیف آف سٹاف کے عہدے سے ہٹا کر سفیر مقرر کیا گیا۔ اس وزارت کے‬
‫دوران ‪ 2‬مئی ‪1953‬ء کو شاہ فیصل دوم کی رسم تاج پوشی ہوئی۔ شاہ فیصل نے ‪ 18‬سال‬
‫کی عمر میں سن بلوغت کو پہنچنے پر بادشاہت کے اختیارات حاصل کر لیے۔ امیر عبدہللا‬
‫کو ولی عہد مقرر کیا گیا لیکن شاہ فیصل کے اختیارات سنبھالنے کے باوجود بھی ملکی‬
‫حاالت بدستور خراب رہے ۔ جمیل الدفاعی کی وزارت اپریل ‪ 1954‬ء تک قائم رہی۔ اس‬
‫کے بعد راشد العمری نے عبوری حکومت بنائی۔ ‪ 12‬ستمبر ‪1954‬ء کو ملک میں انتخابات‬
‫کروائے۔ ان انتخابات میں نوری السعید کی پارٹی جیت گئی ۔ نوری السعید کے دور‬
‫وزارت میں چند اہم اقدامات کیے گئے۔ فروری ‪1955‬ء میں ترکی‪ ،‬عراق اور پاکستان کے‬
‫درمیا ن معاہد ہ بغداد ہوا جو ایک قسم کا دفاعی معاہد ہ تھا۔ مارچ میں بر طانیہ اور نومبر‬
‫میں ایران نے اس معاہدے میں شمولیت اختیار کی ۔ دوسرا اہم قدم ‪ 14‬فروری ‪1958‬ء کو‬
‫اردن اور عراق کی ایک فیڈریشن میں شمولیت تھی۔ نوری السعید کو اس فیڈ ریشن کا‬
‫وزیر اعظم ‪ ،‬شاہ فیصل ک و صد را در شاد حسین کو نا ئب صد ر بنایا گیا۔ بغداد اور اومان‬
‫کو سال میں چھ چھ ماہ کے لیے اس فیڈ ریشن کا دارالحکومت بنایا گیا۔ دونوں میں الگ‬
‫الگ وزارتیں قائم ہونا قرار پائیں۔ لیکن یہ فاق چند ماہ سے زیادہ بر قرار نہ رہ سکا۔ کیوں‬
‫کہ عراق جلد ہی فوجی انقالب کی نذر ہو گیا اور حاالت بدل گئے۔‬
‫فوجی حکومت ‪:‬‬
‫(الف) جنرل عبد الکریم قاسم‬
‫‪1‬۔ جنرل عبد الکریم قاسم نے ‪ 14‬جوالئی ‪1958‬ء کو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک‬
‫میں فوجی حکومت قائم کی نیز شاہ فیصل دوم اور شہزادہ عبدہللا سمیت شاہی خاندان کے‬
‫تمام افراد اور نوری السعید کوقتل کروا دیا۔ وزراء اور سیاست دانوں کو جیلوں میں ڈال‬
‫دیا گیا ۔ فوجی عدالتوں کے ذریعے ‪ 93‬افراد کو سزائے موت سنائی گئی اس طرح ملک‬
‫میں فوجی آمریت مسلط ہوئی۔ جنرل قاسم نے ملک کو ریپبلک قرار دیا۔ مارچ ‪1959‬ء‬
‫میں معاہد داغداد سے علیحدگی اختیار کی تو بر طانیہ کو عراق میں اپنے فوجی اڈے بند‬
‫کرنا پڑے۔‬
‫‪ .2‬ملک میں یہ فوجی انقالب کئی وجوہات سے رونما ہوا ۔ ان میں سے اہم یہ ہیں ۔‬
‫برطانیہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور ملک کی تیل کی تنصیبات پر بر طانوی کنٹرول کو‬
‫عوام اچھی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے۔ عوام کے حکومت کے خالف رد عمل کو پھر‬
‫سختی سے دبایا گیا تو گھٹن میں اورا ضافہ ہوا۔ ملک میں انتخابات بھی ہوئے لیکن نا اہل‬
‫سیاست دانوں کی وجہ سے حاالت سدھر نہ سکے اور ملک افراتفری اور بدامنی کا شکار‬
‫رہا۔ کوئی سیاست دان بھی اس قابل نہ ہو سکا کہ عوام کا اعتماد حاصل کر سکے۔ نا‬
‫اتفاقی کی یہ فضا فوجی حکمرانوں میں بھی جلد رونما ہوئی کیوں کہ وہ عراقی معاشرہ‬
‫کی پیداوار تھے اور معاشرتی حقیقوں سے علیحدہ نہ ہو سکتے تھے۔ جنرل عبد الکریم‬
‫قاسم کا گروہ کیمونسٹ نواز تھا جب کہ جنرل عبدالسالم عارف عرب اتحاد کا علمبر دار‬
‫تھا اور مصر کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا۔ جنرل قاسم کے حامی بعث پارٹی اور‬
‫جنرل عارف کے قوم پرستوں پر مشتمل تھے۔ جنرل قاسم کی پوزیشن زیادہ متحکم تھی‬
‫اس نے عارف کو نائب وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا کر پہلے سفیر بنا کر جرمنی‬
‫بھیجا‪ ،‬بعد میں فوجی مقدمہ چال کر سزائے موت دی جو عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔‬
‫لیکن کچھ عرصے بعد حج کرنے کی اجازت دے دی گئی۔‬
‫‪ .3‬جنرل قاسم کی حکومت کے خالف مارچ ‪1959‬ء میں کرنل عبد الوہاب شواف نے‬
‫بغاوت کی جسے سختی سے کچل دیا گیا۔ کرکوک اور موصول میں ہزاروں افراد اس‬
‫بغاوت کی وجہ سے مارے گئے ۔ اس طرح حک ومت نے باغیوں کو ختی سے دبایا۔ نا کام‬
‫بغاوت کے خالف انتقامی کاروائی کی وجہ سے عوام حکومت کے خالف ہو گئے اور‬
‫انہوں نے حکومت کے خالف مظاہرے شروع کر دیے ۔ ان سے مجبور ہو کر جنرل قاسم‬
‫نے ظلم و تشدد کی تمام ذمہ داری کیمونسٹوں پر عائد کر دی اور کچھ کیمونسٹ لیڈروں‬
‫کو مروا دیا اور بہت سے کیمونسٹ ملک سے بھاگ گئے ۔ اب قاسم نے اپنا رویہ بدل لیا‬
‫اور مغربی طاقتوں کے حق میں پالیسی وضع کی تا ہم وہ اخوان المسلمون پارٹی جو ملک‬
‫میں اسالمی نظام کے علمبر دار تھی ‪ ،‬کے خالف رہا لیکن پھر بھی یہ پارٹی قائم رہی۔‬
‫اس نے فروری ‪1960‬ء م یں بعض سر گرمیوں پر سے بھی عائد پابندی اٹھالی۔ ان حاالت‬
‫کی وجہ سے ملک کے اسالمی گروہوں نے حزب اسالمی قائم کرلی۔‬
‫‪ 1960 .4‬ء میں جب جنرل قاسم پر قاتالنہ حملہ ہوا تو اس نے اپنی پالیسی پھر تبدیل کر‬
‫کے کیمونسٹوں کے حق میں بنالی۔ اس طرح کیمونسٹ عناصر پھر اقتدار پر قابض ہو‬
‫گئے ۔ ملک میں کیمونسٹ نظام قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں‪ ،‬قوانین کو بدال گیا‬
‫صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔‬
‫‪ .5‬جنرل قاسم کی بدلتی ہوئی پالیسیوں کی وجہ سے اسے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو‬
‫سکی ۔باآل خر عوام اس کے خالف اٹھ کھڑے ہوئے۔ عبد السالم عارف کی سربراہی میں‬
‫‪8‬فروری ‪ 1963‬ءکو انقالب کے ذریعے قاسم کو قتل کر دیا گیا اور عبد السالم کی حکومت‬
‫قائم ہوگئی ۔‬
‫(ب) عبد السالم ععارف ‪:‬‬
‫‪1‬۔ جنرل عارف نے ایک نئی حکومت تشکیل دی۔ جس میں بعث پارٹی سمیت تمام سیاسی‬
‫جماعتوں کے ارکان بھی شامل کیے گئے ۔ عبد السالم عارف روس اور مغربی طاقتوں ‪،‬‬
‫دونوں کے خالف تھا۔ اس نے ناصر کے عرب سوشلزم کو بھی قبول کرنے سے انکار‬
‫کر کے اسالمی سوشلزم کا نعرہ لگایا جس کے تحت کچھ اور صنعتوں کو قومی ملکیت‬
‫میں لے لیا گیا ۔ چائے اور دواؤں کی تجارت کو بھی قومیا لیا گیا۔ انشورنس کمپنیاں اور‬
‫بنک بھی سرکاری تحویل میں لے لیے گئے ۔ اس کے بعد عوام کے ردعمل کی وجہ سے‬
‫بعد ازاں جنرل عارف نے عراق عرب سوشلسٹ پارٹی بنائی اور دیگر تمام جماعتوں کو‬
‫یقین دہانی کرائی گئی کہ اب مزید صنعتوں کو سر کاری تحویل میں نہیں لیا جائے گا۔ ‪13‬‬
‫اپریل ‪1966‬ء کو ہیلی کاپٹر کے ایک حادثہ میں جب عبد السالم عارف جاں بحق ہو گئے‬
‫تو ان کے بھائی میجر جنرل عبد الرحمن عارف کو صدر بنایا گیا جو اس وقت ماسکو میں‬
‫تھے۔ انہوں نے فوراواپس آ کر اقتدارسنبھال لیا ۔‬
‫‪ .2‬عبدالرحمن عارف نے حکومت سنبھالتے ہی طاہر بیٹی کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ اس‬
‫کے مشورے سے ملک کے تمام اخبارات بند کر دیے گئے۔ ان کی جگہ پانچ سرکاری‬
‫اخبارات جاری کیے گئے۔ سرکاری پرو پیگنڈا کے لیے مصری ماہرین کی خدمات حاصل‬
‫کی گئیں۔ اپنے تین سالہ دور اقتدار میں عبد الرحمن عارف نے ملک کی سیاسی گھٹن میں‬
‫مزید اضافہ کیا۔ ایسے حاالت پیدا ہو گئے جن سے فائد داٹھا کرمیجر جنرل احمد حسین‬
‫البکر نے جوالئی ‪ 1968‬ء میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ عبد الرحمن عارف کو جال وطن‬
‫کر دیا گیا اور روس کی حامی حکومت قائم کر دی گئی ۔‬
‫(ج) میجر احمد حسن البکر‬
‫میجر احمد حسن البکر کے ماتحت انقالبی کونسل نے مارچ ‪1970‬ء میں کردستان کے‬
‫مسئلے کے مکمل آئینی حل کا اعالن کیا۔ ‪1973‬ء میں آئین میں ترامیم کی گئیں۔ دوسری‬
‫ترمیم کے تحت کردستان کے عالقے کو خود مختاری دی گئی۔ اس طرح اس حکومت نے‬
‫کردستان کے دیرینہ مسئلے کو حل کر دیا ۔ حسن البکر کی حکومت نے ‪1973‬ء کی‬
‫عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے خالف عرب مفاد کی حمایت کی۔‬
‫صدر صدام حسین کا دور حکومت‬
‫‪ 1978‬ء میں صد را حمد حسن البکر کو اقتدار سے ہٹا کر صدام حسین بر سراقتدار آئے‬
‫صدر صدام حسین نے عوام کی فالح اور ملکی ترقی کے لیے کئی اہم اقدامات کیے جس‬
‫کی وجہ سے انہیں عوامی سطح پر خاصی پذیرائی ملی۔ صدر صدام نے ‪1970‬ء کے‬
‫عشرے کی تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک کی پرانی عمارتوں کی تعمیر نو‬
‫اور شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کو سرعت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ قدیم تاریخی‬
‫شہر بائل جو کہ صحرا میں تبدیل ہو چکا تھا‪ ،‬کی جدید تعمیر کے لیے بھی اقدامات‬
‫بروئے کار الئے گئے ۔ فروری ‪1980‬ء میں صدام حسین نے خلیج کو امریکی اثرات‬
‫سے محفوظ کرنے اور عرب دنیا میں با ہمی اختالفات کے خاتمے کے لیے آٹھ نکاتی‬
‫عرب چارٹر پیش کیا جسے مسلم دنیا میں سراہا گیا۔‬
‫معیشت ‪:‬‬
‫(الف) زراعت‬
‫زرخیز ہالل خطہ کے ملکوں میں زراعت کے لیے عراق کی سب سے زیادہ اہمیت ہے ۔‬
‫ملک کی زرعی معیشت کا انحصار دو دریاؤں دجلہ اور فرات پر ہے۔ جدید دور میں‬
‫ٹیکنالوجی کی بدولت زراعت میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔‬
‫‪ .1‬دریاؤں پر بند باندھ کر نہریں نکالی گئیں جن سے وسیع رقبے سیراب کیے جاتے ہیں۔‬
‫نہروں سے دور رقبوں میں ٹیوب ویل لگائے جاتے ہیں۔ ملک میں ‪ 50‬فی صد زراعت کا‬
‫انحصار مصنوعی آب پاشی پر ہے۔‬
‫‪ . 2‬ملک کی اہم فصلیں ‪،‬گندم‪ ،‬کپاس‪ ،‬کھجور‪ ،‬جوار‪ ،‬باحہ ‪ ،‬پھل‪ ،‬گنا اور ترکاریاں ہیں ۔‬
‫عراق میں کھجوروں کی پیداوار دنیا میں سب سے زیادہ (‪ )80%‬ہوتی ہے۔ کھجوروں‬
‫کے باغات زیادہ تر جنوب کے ساحلی عالقے شط العرب میں ہیں۔‬
‫‪ .3‬ملک میں ‪ 7000‬مربع میل رقبے پر جنگالت پائے جاتے ہی۔ زیادہ تر شمالی پہاڑوں‬
‫میں جہاں بارش ہوتی ہے‪ ،‬معیشت کے لیے جنگالت کی بڑی اہمیت ہے۔ ملک کی زرعی‬
‫معیشت میں ہیں سال میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ سب سے زیادہ اثر زرعی اصالحات پر پڑا ہے۔‬
‫زمین کی تقسیم پہلے غیر مساوی تھی‪1958 ،‬ء کی اصالحات نے انفرادی ملکیت کی حد‬
‫‪ 1000‬ایکٹر نہری اور ‪ 12000‬سیکٹر بارانی زمین کردی۔‬

‫(ب) معدنیات‬

‫‪ .1‬عراق میں م عدنیات کے ذخیرے کثرت سے ملتے ہیں ۔ ان میں لوہا‪ ،‬کرومائیٹ‪ ،‬تانبا‪،‬‬
‫سیسہ‪ ،‬فاسفیٹ ‪ ،‬جپسم اور گندھک قابل ذکر ہیں ۔‬

‫‪1927 .2‬ء میں کرکوک کے مقام پر تیل دریافت ہوا۔ بعد میں ‪1952‬ء میں موصل میں تیل‬
‫نکاال گیا۔ تیل کی پیداوار سے عراق کی معیشت کا رخ بدل گیا اور تبدیلی کی رفتار تیز‬
‫ہوگئی ۔ ایک اندازے کے مطابق عراق میں دنیا کا ‪ 6%‬تیل پایا جاتا ہے۔ عراق کا شمار‬
‫مشرق وسطی میں تیل کی پیدا وار کے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اگست ‪2002‬ء میں تیل‬
‫کی پیداوار ‪ 1.6‬ملین بیرل یومیہ رہی ہے جب کہ عراق کے تیل کے محفوظ ذخائر ‪712‬‬
‫بلین بیرل ہیں۔‬

‫(ج) صنعت‬

‫ملک میں مختلف چھوٹی اور بڑی صنعتیں ہیں۔ ان میں لوہا اور فوالد سیمنٹ‪ ،‬کھاد‪ ،‬پارچہ‬
‫بانی‪ ،‬کاغذ‪ ،‬چینی‪ ،‬پھلوں کی صنعت‪ ،‬کیمیکلز قابل ذکر ہیں۔ کرکوک میں تیل صاف کرنے‬
‫کے کارخانے ہیں۔ صنعت کے بڑے مرکز بغداد‪ ،‬بصرہ‪ ،‬موصل اور کرکوک ہیں۔ صنعت‬
‫قومی تحویل میں ہے۔ ‪1998‬ء کے اعداد و شمار کے مطابق عراق کی درآمدات ‪ 3‬بلین‬
‫اور بر آمدات ‪ 5.0‬بلین ڈالر ساال نہ تھیں لیکن موجودہ حاالت کے پیش نظر ملکی معیشت‬
‫تباہ حالی کا شکار ہے۔‬

‫خارجہ پالیسی ‪:‬‬

‫‪ 1958‬ء سے قبل عراق نے کوئی واضح خارجہ حکمت عملی اختیار نہیں کی کیوں کہ بر‬
‫طانیہ کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے برطانیہ ہی زیادہ تر خارجہ پالیسی پر اثر انداز رہا۔‬
‫‪1958‬ء کے فوجی انقالب کے بعد ملک نے واضح خارجہ پالیسی اپنائی تاہم ‪ 1961‬ء تک‬
‫پالیسی مصر کے خالف رہی۔ عراق نے مصر اور شام کے خالف پروپیگنڈا کیا اور اس‬
‫کے یر عکس اردن کے ساتھ فیڈریشن میں ‪1958‬ء میں شمولیت اختیار کی۔ ‪1961‬ء میں‬
‫جنرل قاسم نے کو بیت پر عراق کی ملکیت کا دعوی کیا لیکن دوسرے عرب ممالک نے‬
‫اس بات کو پسند نہ کیا ۔ ‪ 20‬جوالئی ‪ 1961‬ءکو کو بیت عرب لیگ کارکن بنا دیا گیا۔ قاسم‬
‫دعوی واپس لے لیا ۔‬
‫ٰ‬ ‫نے اپنا‬
‫فیلڈ مارشل عبد السالم عارف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد عرب لیگ کے ساتھ اچھے‬
‫تعلقات قائم کرنا شروع کیے۔ ان کے بھائی عبد الرحمن عارف کے دور اقتدار میں جب‬
‫‪ 1967‬ء میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو عراق نے عربوں کی حمایت میں اسرائیل‬
‫کے خالف جنگ میں حصہ لیا۔ ‪1973‬ء کی جنگ میں بھی اسرائیل کے خالف عراق نے‬
‫اقدامات کیے۔ ملک کی زیا دہ تر پالیسی روس کی طرف جھکی ہوئی ہے اور سوشلسٹ‬
‫ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رہے ہیں۔ عراق کے حکمران حسن البکر نے اسالمی‬
‫اتحاد کی کوششوں کا ساتھ دیا اور اسالمی ممالک کے ساتھ تعاون کیا۔‬
‫نومبر ‪ 1980‬ء سے عراق کی ایران کے ساتھ جنگ شروع ہو گئی۔ یہ جنگ شط العرب پر‬
‫دونوں ملکوں کے مابین تنازع کا نتیجہ تھی۔ امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد سے‬
‫ملک خانہ جنگی کا شکار ہے۔‬

‫سوال نمبر‪3‬۔ شام میں مصطفی حمدون کے دور حکومت کا تنقیدی جائزہ لیں؟‬

‫موصل میں حمدانیوں کی حکومت کے بانی ابو الہیجاء عبدہللا بن حمدان اور‬
‫حکومت شام (حلب) کی حمدانی حکومت کے بانی ابو الحسن علی المعروف بہ سیف‬
‫الدولہ تھے۔ آل حمدان کا اہم ترین کردار یہ تھا کہ انھوں نے رومیوں کے حملوں کے‬
‫مقابلے میں اسالمی سرحدوں کی حفاظت کی۔ حمدانی دور کے بعض س ّکوں پر اہل‬
‫بیت کے اسماء گرامی کندہ کرنا‪ ،‬ابوالہیجاء کے توسط سے حرم امیر المؤمنین کے گرد‬
‫مضبوط حصار اور آپ کی قبر شریف پر بڑے قبے کی تعمیر‪ ،‬آل حمدان کی دینی خدمات‬
‫میں سے ہیں۔ حمدانیوں کے بنو تغلب‪ ،‬بنو عباس‪ ،‬فاطمیون اور قرامطہ سمیت دوسری‬
‫حکومت کے ساتھ تعلقات تھے۔‬
‫سنہ ‪ 260‬ہجری میں حمدان نے یحیی بن سلیمان کی سرکردگی میں موصل کی تحریک کو‬
‫کچلنے کے لئے جانے والی اسحق بن ایوب تغلبی کی سپاہ کا ساتھ دیا۔ یہ سپاہ اپنی مہم میں‬
‫ناکام رہی۔ سنہ ‪ 263‬ہجری میں حمدان نے ہارون الشاری کا ساتھ دیا جو خوارج کی قیادت‬
‫حاصل کرنے کے درپے تھا۔ سنہ ‪ 266‬ہجری میں علی بن داؤد (قائد کبیر)‪ ،‬اسحق بن ایوب‬
‫تغلبی اور اسحق بن کنداجیق کے ساتھ مل کر عباسی حکومت کے خالف جنگ میں شریک‬
‫ہوئے اور شکست کھانے کے بعد فرار ہوکر نیشابور چلے گئے۔ طبری نے اس جنگ میں‬
‫حمدان کی شرکت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔ سنہ ‪ 267‬ہجری میں حمدان نے اسحق بن‬
‫ایوب کے ساتھ مل کر ربیعہ‪ ،‬تغلب اور بکر نامی قبائل کا لشکر تشکیل دیا اور کنداجیق‬
‫کے مقابلے کے لئے عزیمت کی لیکن پھر بھی شکست کھا گئے اور فرار‬
‫ہوکر نصیبین اور آمد چلے گئے۔سنہ ‪ 272‬ہجری میں حمدان ہارون الشاری کے ساتھ متحد‬
‫ہوئے۔ وہ مل کر موصل چلے گئے اور سنہ ‪ 279‬ہجری میں بنو شیبان کے خالف جنگ‬
‫میں شریک ہوئے۔سنہ ‪ 281‬ہجری میں‪ ،‬عباسی خلیفہ معتضد نے حمدان اور ہارون الشاری‬
‫کی سرکوبی کے لئے موصل کی طرف عزیمت کی۔ اور "قلعۂ ماردین" پر ـ جو حمدان کا‬
‫ٹھکانہ تھا ـ قبضہ کیا اور اس کو تباہ کردیا۔ کچھ افراد کو حمدان کے تعاقب میں روانہ کیا ـ‬
‫جو اپنے بیٹے حسین کو جانشین قرار دے کر فرار ہوگئے تھے ـ اور خود موصل کی‬
‫طرف پلٹ گیا۔ معتضد نے موصل پہنچنے کے بعد حمدان کے نام خط لکھا اور ان سے کہا‬
‫کہ خلیفہ کی اطاعت کریں لیکن حمدان نے انکار کیا اور قلعہ بند ہوئے حتی کہ کچھ‬
‫عرصہ فرار اور خلیفہ کے تعاقب کے بعد سنہ ‪ 282‬میں خلیفہ کی اطاعت قبول کرلی اور‬
‫انہیں اپنے بیٹے حسین کی وساطت سے رہا کیا گیا۔‬
‫اس کے بعد‪ ،‬مآخذ میں حمدان کا ذکر موجود نہیں ہے اور نظر یوں آتا ہے کہ وہ سیاسی‬
‫سرگرمیوں سے دور رہے۔ ان کی وفات کی تاریخ بھی واضح نہیں ہے۔‬
‫موصل میں حمدانیوں کی حکومت کے بنی ابو الہیجاء عبدہللا بن حمدان تھے۔ وہ سنہ ‪293‬‬
‫ہجری میں موصل کے حاکم مقرر ہوئے۔ انہیں اپنی حکومت کے شروع میں ہَذْبانی کردوں‬
‫کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے لشکر کو کردوں کے خالف لڑتے ہوئے بھاری‬
‫نقصانات سے دوچار ہونا پڑا؛ چنانچہ انھوں نے بغداد سے کمک مانگی اور سنہ ‪294‬‬
‫ہجری میں کمک پہنچتے ہیں انھوں نے کرد باغیوں کا تعاقب شروع کیا اور انہیں اطاعت‬
‫گزاری پر مجبور کیا‪،‬لیکن چند سال بعد خلیفہ کے خالف اقدام کی بنا پر معزول کئے گئے۔‬
‫خلیفہ کا حکمنامہ ابو الہیجاء کے شدید رد عمل کا سبب بنا؛ لیکن خلیفہ کی سپاہ کے مقابلے‬
‫میں مزاحمت سے اجتناب کیا۔ انھوں نے امان مانگی اور عباسی خلیفہ کے لشکر کے‬
‫ہمراہ بغداد پہنچے اور خلیفہ کی تکریم کے الئق ٹہرے۔ چند مہینے بعد انہیں موصل کی‬
‫حکومت لوٹا دی گئی۔ سنہ ‪ 303‬ہجری میں حسین بن حمدان کی گرفتاری کے بعد ابو‬
‫الہیجاء اور ان کے بھائی ابراہیم بھی گرفتار اور قید کرلئے گئے لیکن دو سال بعد ـ جبکہ‬
‫حسین بدستور قیدخانے میں تھے ـ وہ دونوں رہا کئے گئے۔ سنہ ‪ 307‬میں ابو الہیجاء مؤنس‬
‫خادم کے ہمراہ باغی سپہ ساالر یوسف بن ابی ساج کے خالف جنگ میں شریک ہوئے جو‬
‫ابو ساج کی شکست پر منتج ہوئی۔ سنہ ‪ 308‬ہجری میں خلیفہ نے انہیں خراسان اور دینور‬
‫روانہ کیا اور ان کے بھائیوں ابو السرایا اور ابو العالء کو خلعت بخشی۔‬
‫سنہ ‪ 309‬ہجری میں ابو الہیجاء کو حجاج کے لئے راستہ پرامن بنانے کا فریضہ سونپا؛ وہ‬
‫سنہ ‪ 312‬تک اسی منصب پر فائز رہے؛ کیونکہ اسی سال قرمطیوں نے ابو طاہر جنابی کی‬
‫سرکردگی میں حجاج کے قافلے پر حملہ کیا اور ابو الہیجاء ان کے خالف لڑتے ہوئے ان‬
‫کے ہاتھوں اسیر ہوئے لیکن کچھ عرصہ بعد قرمطیوں نے انہیں رہا کردیا۔‬
‫سنہ ‪ 314‬ہجری کے وقائع میں ابو الہیجاء کو موصل کے حکمران کے طور پر یاد کیا گیا‬
‫ہے اور کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے حسن ناصرالدولہ کو جانشین مقرر کیا‬
‫لیکن ناصر الدولہ مخالفین کی سرکوبی میں ناکام رہے چنانچہ ابو الیہجاء نے خود جاکر‬
‫مخالفین کو کچل دیا اور عالقے میں امن و سکون بحال کیا۔‬
‫سنہ ‪ 315‬ہجری میں ابو الہیجاء اور ان کے بھائیوں نے عراق کا رخ کرنے والے قرمطی‬
‫ساالر ابوطاہر جنابی کے خالف (عباسی دربار کے) مونس خادم کی لشکر کشی میں حصہ‬
‫لیا۔ اس جنگ میں عباسی لشکر کو شکست ہوئی اور ابو الہیجاء کی تجویز پر دریائے‬
‫ُزبارہ‪ُ /‬زبارا کا پل کاٹ دیا گیا تا کہ قرمطی بغداد میں داخل نہ ہوسکیں۔‬
‫باذ کے قتل کے بعد اس کے بھانجے ابو علی حسن بن مروان نے ناصر الدولہ کے بیٹوں‬
‫پر مسلسل جنگیں مسلط کیں۔ ان جنگوں میں ابو عبدہللا ابن مروانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئے‬
‫لیکن کچھ عرصہ بعد رہا ہوگئے اور مصر چلے گئے اور فاطمیون نے انہیں حلب کا حاکم‬
‫قرار دیا۔ دوسری طرف سے ابو طاہر ابراہیم بھی ـ جو ابن مروان کے ہاتھ سے چھوٹ‬
‫(ابوذواد)‪ ،‬کے‬
‫ّ‬ ‫گئے تھے ـ نصیبین کے عالقے میں بنو عقیل کے سربراہ محمد بن المسیب‬
‫ہاتھوں گرفتار ہوئے اور مارے گئے۔ ان کے قتل کے ساتھ ہی موصل میں آل حمدان کی‬
‫حکومت زوال پذیر ہوئی۔‬
‫شام میں حمدانیوں (بنو حمدان یا آل حمدان) کی حکمرانی کی تاریخ سنہ ‪ 333‬ہجری کی‬
‫طرف پلٹتی ہے۔ اس سال ناصر الدولہ کے بھائی سیف الدولہ نے شام پر قبضہ کرنے کے‬
‫لئے بھائی ناصر الدولہ سے مدد مانگی[‪ ]70‬انھوں نے ابتداء میں حلب پر قبضہ کیا اور‬
‫رفتہ رفتہ شام کے دوسرے عالقوں کو اپنے قلمرو میں شامل کرلیا اور اپنی حکومت کو‬
‫استحکام بخشا۔ سنہ ‪ 356‬ہجری میں سیف الدولہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ابو‬
‫المعالی نے حاجب ابو الحسن قرغُ َویہ کے تمہیدی اقدامات کے نتیجے میں‪ ،‬حکومت‬
‫سنبھالی۔ ان کی حکومت کے ابتدائی مہینے اندرونی حساب بےباق کرنے میں صرف‬
‫ہوئے۔ سنہ ‪ 357‬ہجری میں ابو المعالی اور ان کے ماموں اور مشہور شاعر ابو فراس‬
‫حمدانی کے درمیان تنازعہ جنگ پر منتج ہوا جس کے نتیجے میں ابو فراس مارے‬
‫گئے۔ کچھ عرصہ بعد قرغُ َویہ نے بکجور یا بجکور نامی غالم کی مدد سے بغاوت کی‬
‫اور محرم سنہ ‪ 358‬ہجری میں حلب پر مسلط ہوا۔ ابو المعالی حران کی طرف چلے گئے‬
‫جبکہ ان کے انصار و اعوان منتشر ہوئے اور ان کے چچیرے ابو تغلب سے جا‬
‫ملے۔ تاہم ابو المعالی نے حلب کے قریب معرۃ النعمان کے کارگزار کی مدد سے لشکر‬
‫فراہم کیا اور حلب کی طرف روانہ ہوئے۔ قرغویہ نے رومیوں سے مدد مانگی اور جب‬
‫رومی لشکر کے پہنچنے کی خبر ابو المعالی کو ملی تو انھوں نے مجبور ہوکر حلب کا‬
‫محاصرہ ختم کیا اور معرۃ النعمان واپس چلے گئے۔‬

‫بنو تغلب کے ساتھ تعلقات ‪:‬‬

‫حمدانی حکومت کی تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے سیاسی روابط کو منفعت پسندانہ اور غیر‬
‫مستحکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہئے۔ ان کا سب سے پہال اقدام سنہ ‪ 263‬ہجری میں‬
‫"ہارون الشاری کے ساتھ "حمدان بن حمدن" کا اتحاد تھا جو کافی عرصے تک جاری تھا‬
‫اور حمدان نے نہ صرف اپنی عسکری قوت بلکہ اپنی تشہیری قوت کو بھی خوارج کے‬
‫لئے استعمال کیا۔ لیکن چونکہ یہ اتحاد فریقین کے سیاسی مفادات کی بنیاد پر تشکیل پایا تھا‬
‫اور اس کا سرچشمہ بنو تغلب کے استقالل پسندانہ (اور آزادی خواہانہ) رجحانات تھے (اور‬
‫جیسا کہ مضمون کے آغاز میں اشارہ ہوا‪ ،‬بنو حمدان بھی بنو تغلب میں شمار ہوتے‬
‫تھے)‪ ،‬بہت حساس موقع پر ختم ہوا اور ان کے دوستانہ تعلقات ـ تقریبا دو عشروں تک قائم‬
‫تھے ـ دشمنی میں بدل گئے اور حسین بن حمدان عباسیوں کی طرف سے ان کا قلع قمع‬
‫کرنے میں مصروف ہوا۔‬

‫قرامطہ کے ساتھ تعلقات ‪:‬‬

‫جیسا کہ سطور باال میں اشارہ ہوا حمدانیوں کے قرامطہ کے ساتھ بھی غیر مستحکم تعلقات‬
‫تھے؛ حتی حسین بن حمدان نے قرمطیوں کے خالف متعدد فوجی کاروائیاں انجام دیں‪،‬‬
‫لیکن حمدانیوں اور فاطمیوں کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کے بعد قرمطیوں کو‬
‫ـ فاطمیوں کے خالف ـ حمدانیوں کی سیاسی اور عسکری حمایت حاصل ہوئی۔‬

‫عباسیوں کے ساتھ تعلقات ‪:‬‬

‫تعلقات میں یہ عدم استحکام حمدانیوں کے عباسیوں کے تعلقات میں زیادہ نمایاں‬
‫تھا۔ خالفت کے مرکز کے حاالت و رجحانات اور دربار پر مسلط امراء کے ساتھ حمدانیوں‬
‫کے تعلقات‪ ،‬ان تعلقات کے تعین میں کردار ادا کرتے تھے۔ عباسی خلیفہ کے دربار میں‬
‫حسین بن حمدان کی حیثیت بہت اہم اور مستحکم تھی‪ ،‬اور ناصر الدولہ کو عباسی دربار‬
‫نے "امیر االمراء" کا منصب عطا کیا تھا لیکن اس کے باوجود حمدانیوں کی روش ہمیشہ‬
‫شورش اور استقالل پسندی اور خودمختاری کی طرف مائل تھی۔اس کے باوجود روم شرق‬
‫کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کی سالمتی کے تحفظ نیز کرد اور عالقہ "جزیرہ" کے‬
‫عرب قبائل کی دست اندازی سے عباسی قلمرو کی اندرونی سالمتی کے تحفظجیسے‬
‫مسائل عباسیوں مجبور کررہے تھے کہ وہ حمدانیوں کے ساتھ روادارانہ طرز سلوک‬
‫اپنائے رکھیں۔‬

‫فاطمیوں کے ساتھ تعلقات ‪:‬‬

‫حمدانی حکومت ہمیشہ فاطمی خالفت کے ساتھ تعاون اور تفاہم کے خواہاں تھے‬
‫لیکن فاطمی نے کبھی بھی ان کی خواہش کا چنداں خیر مقدم نہیں کیا وہ ان پر بےاعتماد‬
‫تھے۔حقیقت یہ ہے کہ فاطمی حمدانیوں کے مخالف محاذ میں کھڑے تھے (جیسا کہ‬
‫مندرجہ باال سطور میں اشارہ ہوا)۔ اس کے باوجود کہ کبھی کبھار حمدانی سیاسی تقاضوں‬
‫کی بنیاد پر فاطمیوں سے مدد کی درخواست کیا کرتے تھے۔یہ روش آل حمدان کی‬
‫حکومت کے آخر تک برقرار رہی۔ گوکہ خاندان حمدان کے بعض پسماندگان نے‬
‫ـ شام میں حمدانی حکومت کے زوال کے بعد ـ مصر میں قیام کیا اور پانچویں صدی‬
‫ہجری کے نصف دوئم میں ان ہی افراد کی اوالد میں سے ایک فرد‪ ،‬مستنصر فاطمی کے‬
‫دور خالفت میں فاطمی دربار میں صاحب اقتدار ہوا اور طویل عرصے تک امور حکومت‬
‫پر مسلط رہا اور مصر کے اہم ترین کارگزار کے عنوان سے پہچانا گیا۔‬
‫مصطفی حمدون کا دور‪:‬‬
‫مصطفی حمدون نے عنان حکومت سنبھالتے ہی اعالن کیا کہ وہ فوجی حکومت کا سر‬
‫براہ نہیں رہنا چاہتا۔ اس طرح فوج نے اقتدار ہاشم العطاشی کے حوالے کر دیا۔ ہاشم نے‬
‫‪ 1950‬ء کے آئین کو بحال کر دیا۔ اس طرح ملک میں آئینی حکومت بحال ہو گئی اور‬
‫دیگر جمہوری اداروں کا قیام عمل میں الیا گیا ۔ستمبر ‪1954‬ء میں سابق صدر شکری‬
‫القواتلی کو مصر سے واپس بال کر دو بار صدر مقرر کر دیا گیا۔ اس آئینی حکومت نے‬
‫عرب ممالک کے ساتھ اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا اور عرب مسلم اتحاد پر زور دیا ۔‬
‫اسرائیل کے قیام کی وجہ سے یہ حکومت اس کے خالف تھی ۔ ‪1955‬ء میں اس حکومت‬
‫نے مصر کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ کیا جس کے ماتحت دونوں ملکوں کی فوجوں کو‬
‫ایک مشترکہ فوجی کمان میں دے دیا تا کہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا جائے ۔اس کے‬
‫باوجود شکری القواتلی نے شام کو بڑی کشمکش سے دور رکھا اور ایک غیر جانب دار‬
‫پالیسی پر عمل کیا اور تمام ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ۔ جس‬
‫ملک سے فوجی سامان بال شرط مال‪ ،‬حاصل بھی کیا۔ اس صورت حال سے روس نے فائد‬
‫ہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ عالقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور اس طرح رومانیہ‪ ،‬چین‬
‫اور دیگر روی اتحادیوں سے شام نے تجارتی معاہدے بھی کیسے جن سے روسی اثر میں‬
‫اضافہ ہو گیا ۔ روسی امداد سے ہی شام نے اپنے دفاع کو مضبوط بنایا جس کی ضرورت‬
‫امریکہ اور یور پی امداد سے اسرائیل کی فوجی قوت میں اضافے کی وجہ سے ہوئی ۔‬
‫شام نے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے شہری دفاع کے پروگرام پر عمل کیا۔‬

‫سوال نمبر‪4‬۔ مصر میں صدر انوارالسادات کے دور حکومت کے اہم واقعات قلمبند‬
‫کریں؟‬
‫صدر انور السادات ( ‪1970‬ء سے ‪1980‬ء)‬
‫اندرونی حکمت عملی ‪:‬‬
‫انور السادات نے اقتدار سنبھالتے ہی محمود فوزی کو وزیر اعظم بنا دیا۔ ‪1952‬ء کے بعد‬
‫یہ پہال وزیر اعظم تھا جو غیر فوجی تھا۔ اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی تھی کہ صدر‬
‫کی حکمت عملی ماضی سے مختلف ہو گی ۔ اس نے عرب دنیا کے مسائل میں مداخلت‬
‫کی بجائے مصر کے مسائل کو اولیت دی۔ گزشتہ دور میں مصری شہریوں کی جو‬
‫جائیدادیں ضبط کر لی گئی تھیں انھیں واگزار کر دیا۔ اس نے اعالن کیا کہ آئندہ مصر کو‬
‫پولیس سٹیٹ نہیں رہنے دیا جائے گا اور قانونی حکمرانی بحال کی جائے گی۔ علی‬
‫صابری در اس کے ہم خیال گروہ‪ ،‬جو روس کے ہم نوا تھے‪ ،‬کی اقتدار سے علیحدگی‬
‫ظاہر کرتی تھی کہ انور السادات کارجحان دائیں بازو کی طرف ہے۔ اخوان المسلمون پر‬
‫ظلم و جور کا دور ختم ہوا۔ تمام اخوانی قیدی رہا کیے گئے اور صد ر نے بیرون ملک‬
‫اخوان پناہ گزینوں سے اپیل کی کہ وہ وطن واپس آ جائیں ۔ جن قیدیوں کے ساتھ جیل میں‬
‫نا رہ سلوک کیا گیا تھا‪ ،‬انھیں مع اوضہ دیا گیا ۔ اس جماعت کے اخبار روزنامہ الدعوہ کی‬
‫اشاعت بحال کر دی گئی ۔ مارچ ‪1976‬ء میں اخوان المسلمون کو سیاسی جماعت کی‬
‫حیثیت سے کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔‬
‫عرب اسرائیل جنگ ‪1973‬ء ‪:‬‬
‫‪ 1967‬ء کی جنگ کے بعد اسرائیل سینائی کے عالقے اور نہر سویز کے مشرقی‬
‫کنارے پر قابض تھا۔ کشیدگی بدستور موجود تھی اور مستقل امن کی کوئی صورت‬
‫نظر نہیں آ رہی تھی۔ چنانچہ ‪ 6‬اکتوبر ‪1973‬ء کو اسرائیل کے خالف چوتھی بار‬
‫جنگ کا آغاز ہوا۔ اس سے قبل ہمیشہ اسرائیلی فوجوں نے پہل کی تھی مگر اس دفعہ‬
‫مصر نے حملہ کیا اور بڑی ہوشیاری سے ہزاروں آدمی نہر سویز کے پار پہنچا‬
‫دیئے۔ نہر سویز کے مشرق میں اسرائیلی دفاع جسے "بارلے الئن“ کہا جاتا تھا‪ ،‬بالکل‬
‫نا کام ہو گیا ۔ ایک ہفتے میں مصری ایک ہزار ٹینکوں اور ایک الکھ فوج کے ساتھ نہ‬
‫صرف نہر کے کنارے پر قابض ہو چکے تھے بلکہ سینائی میں دس میل اندر تک بڑھ‬
‫گئے تھے ۔‬
‫ساتھ ہی شامی محاذ پر بھی جنگ چھڑ گئی۔ جہاں ابتدا میں عربوں کو کامیابی ہوئی مگر‬
‫پھر گوالن کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے پیش قدمی شروع کر دی اور دمشق کو خطرہ الحق‬
‫ہو گیا تا ہم دوسرے عرب ممالک ( عراق‪ ،‬اردن‪ ،‬سعودی عرب‪ ،‬مراکش‪ ،‬تیونس ) کی‬
‫فوجیں آگئیں اور حاالت سن بھل گئے۔ ایک ہفتے کی جنگ کے بعد مصری محاذ پر بھی‬
‫اسرائیل کا جوابی حملہ شروع ہو گیا۔ کڑوی جھیل کے قریب اسرائیل کی پندرہ ہزار فوج‬
‫اور ساڑھے تین سوئینک سویز کے مغربی کنارے پر آ گئے اور انھوں نے مصر کے‬
‫اندرپندرہ میل تک پیش قدمی کی۔‬
‫‪ 11‬نومبر کو سیکورٹی کونسل کی کوشش سے جنگ بند ہو گئی ۔ مصر و اسرائیل کے‬
‫نمائندوں کے درمیان طویل گفت و شنید کے بعد ‪ 18‬جنوری ‪1974‬ء کو فوجوں کی واپسی‬
‫کا معاہدہ طے پایا۔ اس کی رو سے نہر کے مشرق میں مصر کی فوج سات ہزار افراد‬
‫اور تمیں ٹینکوں تک محدود کر دی گئی اور فضائیہ کو مارنے والے میزائل نہر کے‬
‫مغرب میں بارہ کلومیٹر پیچھے ہٹ گئے۔ اسرائیل نے نہر کے مغرب سے اپنی فوجیں‬
‫واپس باللیں اور بینائی میں اس کی فوجیں نہر سے ‪ 28‬تا ‪ 48‬کلومیٹر پیچھے ہٹ گئیں۔‬
‫بعد میں امریکہ کے ڈاکٹر کیسنجر کی کوشش سے اسرائیل اور شام میں بھی عارضی‬
‫مصالحت ہو گئی۔‬
‫معاہدہ بینائی ‪1975‬ء ‪:‬‬
‫جنوری ‪ 1975‬ء میں صدر سادات نے اعالن کیا کہ اگر با قاعدہ معاہدہ طے نہ ہوا تو‬
‫جنگ کا چھڑ جانا الزمی ہے اس لیے کہ نہ جنگ نہ امن کی کیفیت زیادہ دیر تک جاری‬
‫نہیں رہ سکتی۔ اسی سال صدرسادات نے امریکہ کے صدر فورڈ سے اس مسئلے پر‬
‫آسٹریلیا میں بات چیت کی۔ بعد میں اسرائیلی وزیر اعظم را بن کو واشنگٹن میں طلب کر‬
‫لیا گیا اور باآلخر نفورڈ پالن مرتب کیا گیا۔‬
‫ادھر مصر نے اعالن کیا کہ اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج میں مزید توسیع نہیں کی جائے‬
‫گی۔ اس سے جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ۔ آخر میں بین االقوامی دباؤ کے تحت صرف تین‬
‫ماہ کی توسیع کی گئی بلکہ اب سفارتی کوششوں میں تیزی پیدا ہو گئی۔ امریکہ نے‬
‫اسرائیل پر دباؤ ڈاال اور باآلخر مصر اور اسرائیل کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ‬
‫طے پایا ۔ستمبر ‪ 1975‬ء میں جنیوا کے مقام پر اس پر دستخط ہو گئے۔ اس معاہدے کی‬
‫رو سے طے پایا کہ ‪ :‬اسرائیلی فوجیں درہ مطالبہ سے ہٹ جائیں گی اور اس عالقے کے‬
‫تیل کے چشمے مصر کے حوالے کر دیئے جائیں گے۔ سینائی میں دونوں ملکوں کی‬
‫بالمقابل فوج کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اسرائیل کا غیر فوجی سامان نہر‬
‫سویز سے گزر سکے گا۔ اقوام متحدہ کی ہنگامی فوج فی الحال اس عالقے میں موجود‬
‫رہے گی۔ اچانک حملوں کی روک تھام کے لیے ایک وارننگ سٹم قائم کیا گیا جس میں‬
‫دوسو امریکی ماہرین متعین کیے گئے۔‬
‫اگر عرب ممالک نے اسرائیل سے جنگ چھیڑ دی تو مصران کا ساتھ نہیں دے گا۔ ڈاکٹر‬
‫کیسینجر نے ایک موقعے پر کہا کہ اس معاہدے میں چند خفیہ دفعات بھی شامل ہیں۔ بہر‬
‫حال یہ معاہد ہ اسرائیل کے حق میں تھا کیوں کہ اس کے بعد بھی سینائی کا ‪ 87‬فیصد‬
‫حصہ اس کے پاس رہا۔ دوسری طرف مصر کا اب تک یہ موقف رہا تھا کہ اسرائیل کو‬
‫تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ باقی عرب ممالک سے الگ ہو کر اسرائیل سے صلح نہیں کی‬
‫جائے گی اور فلسطینیوں کے حقوق تسلیم کرائے جائیں گے ۔ مگراب مصر اس سے ہٹ‬
‫گیا۔ عرب ممالک کسی ایسے معاہدے کے سخت خالف تھے۔ تاہم مصر کے اندر اس کے‬
‫خالف کوئی رد عمل نہ ہوا ۔ شاید مصری عوام مسلسل کشیدگی اور بار بار کی جنگوں‬
‫سے تنگ آچکے تھے ۔‬
‫اسرائیل کا دورہ ‪:‬‬
‫نومبر ‪ 1977‬ء میں صد ر سادات نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ پہال موقع تھا کہ کسی عرب‬
‫سر براہ نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا ۔ اس معاملے میں اسے مغربی ممالک کا تعاون‬
‫حاصل تھا۔ تا ہم مسلم ممالک میں سے صرف عمان‪ ،‬مراکش اور سوڈان کی تائید حاصل‬
‫ہوسکی۔ عرب ممالک میں بالخصوص ردعمل ہوا۔ صد رسادات نے اسرائیل کی قومی‬
‫اسمبلی سے بھی خطاب کیا اور امن کا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کرتے ہوئے مقبوضہ‬
‫عرب عالقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی فلسطینیوں کے حقوق‪ ،‬ہر ملک کے تحفظ کی‬
‫ضمانت ‪ ،‬اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق باہمی تعلقات اور حالت جنگ کے خاتمے پر‬
‫زور دیا۔ دسمبر ‪ 1977‬ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نے اسماعیلیہ میں صدر سادات سے‬
‫مالقات کی لیکن یہ مذاکرات ناکام رہے کیونکہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ‪242‬‬
‫کو تسلیم کرنے اور فلسطینیوں کو اُن کے حق خودارادیت دینے سے انکاری تھا۔‬
‫کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ ‪:‬‬
‫‪ 1979‬ء صد را نور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیگن کے درمیان یہ معاہدہ امن ‪20‬‬
‫مارچ ‪ 1979‬ء کو طے پایا۔ یوں باآلخر تمہیں سالہ جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ مس معاہدے کی‬
‫رو سے تمام سینائی میں مصر کی باال دسی کو تسلیم کیا گیا اور طے پایا کہ اسرائیلی فو‬
‫ج یں بتدریج واپس باللی جائیں گی ۔ اسرائیل کو تمام دوسری اقوام کی طرح نہر سویز‬
‫استعمال کرنے کی اجازت ہوگی ۔ عریش‪ ،‬شرم الشیخ وغیرہ کے ہوائی اڈے تمام اقوام کی‬
‫تجارتی پردازوں کے لیے کھلے رہیں گے۔ اسرائیل جنوبی سینائی میں تیل کے چشمے‬
‫واپس کر دے گا اور اس کے عوض مصر سے اتنی ہی مقدار میں تیل فراہم کرے گا ۔‬
‫دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ کے عالقے کی خود مختاری کو اصولی طور‬
‫پر تسلیم کر لیا گیا تا ہم اس سلسلے میں یہ کہا گیا کہ مصر‪ ،‬اسرائیل اور اردن با ہمی بات‬
‫چیت کے ذریعے سے تفصیالت طے کریں گئے۔‬
‫اس معاہدے پر مرحلہ وار پروگرام کے تحت عمل درآمد شروع ہوا ۔ نومبر ‪1979‬ء میں‬
‫کوہ سینائی مصر کی تحویل میں دے دیا گیا ۔ ‪ 1980‬ء کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے‬
‫مزید عالقے خالی کیسے یہاں تک کہ وہ شمال میں امریش سے لے کر جنوب میں محمد‬
‫راس تک کی الئن سے پیچھے ہٹ گئی۔ اس طرح سینائی کا دو تہائی حصہ مصر کے‬
‫قبضے میں آ گیا ۔ اس معاہد ہ امن کے خالف تمام عرب ممالک میں شدید احتجاج اور‬
‫مظاہرے ہوئے ۔ عرب ممالک نے متفقہ طور پر اس معاہدے کو مستر د کر دیا اور‬
‫اسالمی کانفرنس اور افریقی ممالک کی تنظیم سے مصر کی رکنیت کو خارج کر دیا۔‬
‫مصر کے اندر بھی صدر سادات کے خالف مخالفت کی شدید لہر دوڑ گئی ۔ مصر کے‬
‫مذہبی حلقوں نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے خالف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ‬
‫حکومت نے بآلخر ‪ 1600‬سے زائد مذہبی کارکنوں کو گرفتار اور چالیس ہزار مساجد‬
‫کوسرکاری تحویل میں لے لیا ۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل وائلڈ بائم نے بھی‬
‫اعتراف کیا کہ کوئی بھی معاہدہ اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کا‬
‫مسئلہ حل نہ ہو‪ ،‬جب کہ اس معاہدے میں فلسطینیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان کا‬
‫موقف بھی یہی رہا ہے کہ مشرق وسطی میں اس وقت تک پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا‬
‫جب تک کہ اسرائیل سارے مقبوضہ عرب عالقے خالی نہ کرے‪ ،‬بیت المقدس کو عربوں‬
‫کے حوالے نہ کیا جائے اور فلسطینیوں کے حقوق بحال نہ کیے جائیں۔ ‪ 6‬اکتوبر ‪1980‬ء‬
‫کو فوجی پریڈ کے معائنہ کے دوران صدرا نور سادات قتل کر دیئے گئے ۔ نائب صدر‬
‫حسنی مبارک صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ صدر حسنی مبارک نے عرب دنیا‬
‫بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ مصر کے تعلقات کو معمول پر النے کے لیے اہم‬
‫اقدامات کیے اور اب مصر کے تعلقات عرب دنیا کے ساتھ نہایت خوشگوار بنیا دوں پر‬
‫استوار ہیں۔‬

‫سوال نمبر‪5‬۔ سوڈان میں جعفرالنمیری کے دور حکومت کے اہم واقعات بیان کریں نیز‬
‫اس کے دور میں خارجہ پالیسی کی وضاحت کریں؟‬

‫جعفر النمیری کا اقتدار ‪:‬‬


‫‪ 1964‬ء میں سوڈان میں پارلیمانی جمہوری حکومت قائم ہوئی لیکن سیاسی پارٹیوں کی‬
‫کھینچا تانی کی وجہ سے ملک کو سیاسی استحکام حاصل نہ ہو سکا ۔ صدارتی نظام اور‬
‫اسالمی دستور ج یسے آئینی معامالت پر رائے عامہ انتشار کا شکار تھی۔ ان حاالت میں‬
‫مئی ‪ 1969‬ء میں اچانک فوج نے کرنل جعفر انمیری کی قیادت میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔‬
‫جعفر النمیری کا پہال دور حکومت‪:‬‬
‫یہ فوجی انقالب بالکل غیر متوقع تھا۔ گو ابتداء میں اس کیخالف بظاہر کوئی ردعمل نہ‬
‫ہوا تاہم نئی کابینہ کے ارکان کے نام سن کر قوم کے دل میں خدشات پیدا ہونے لگے اس‬
‫لئے کمیونسٹوں کو اقتدار پر مسلط کیا جانے لگا تھا۔ انقالب کے ساتھ ہی تمام سیاسی‬
‫جماعتیں کالعدم قرار دے دی گئیں مگر کمیونسٹ پارٹی کا وجود باقی رہا۔ اکتوبر میں‬
‫النمیری خود ہی وزیر اعظم بھی بن گئے۔ جون ‪1969‬ء میں حکومت نے جنوبی عالقے‬
‫کیلئے متحدہ سوڈان کے اندر رہتے ہوئے عالقائی خود مختاری کے پروگرام کا اعالن‬
‫کیا۔ اس کے باوجود بغاوت میں کمی نہ آئی اور انیانیا" کی شورش جاری رہی ۔ فرقہ‬
‫وارانہ اختالفات ملک کا سنگین مسئلہ بنے ہوئے تھے ۔ اسے بہانہ بنا کر انمیر ی نے‬
‫دائیں بازو کے عناصر کو دبانے کا ارادہ کیا۔ اخوان المسلمون نے شروع سے انقالب کی‬
‫مخالفت کی تھی چنانچہ انہیں قید و بند میں ڈال دیا گیا۔ امہ پارٹی کے اہم لیڈ ر امام الہادی‬
‫نے ایک جزیرہ میں پناہ لی تھی ۔ مارچ ‪1970‬ء میں النمیری نے جزیرہ میں فوج داخل‬
‫کر دی اور امام الہادی کو شہید کر دیا۔ یوں وقتی طور پر اخوان المسلمون اور انصار کا‬
‫زور ٹوٹ گیا۔‬
‫جوابی انقالب ‪1971‬ء‪:‬‬
‫فوجی افسروں کے ذہن میں کوئی متفقہ نصب العین نہیں تھا اور ان کے اندر اختالفات‬
‫موجود تھے۔ دوسری طرف یو نیورسٹی میں اضطراب بڑھ رہا تھا۔ وہاں اخوان المسلمون‬
‫چھاچکے تھے اس لئے حکومت کی حکمت عملی کی کھلم کھال مخالفت ہونے لگتی ۔‬
‫چنانچہ ‪ 1971‬ء میں فوج کے ہی ایک دوسرے گروپ نے میجر العطار کی قیادت میں‬
‫اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس جوابی انقالب کے پیچھے کمیونسٹوں کا ہاتھ تھا۔ تا ہم تین روز‬
‫بع د حاالت نے پلٹا کھایا اور جونیئر افسروں نے کارروائی کر کے اقتدار دوبارہ انمیری‬
‫کے ہاتھ میں دے دیا۔‬
‫جعفر النمیر ی کا دوسرا دور حکومت‪:‬‬
‫ان واقعات نے انمیری کی آنکھیں کھول دیں۔ اب کمیونسٹوں پر اس کا اعتماد جاتا رہا۔‬
‫باغیوں پر بند کمروں میں مقدمے چالئے گئے اور متعدد فوجی افسروں اور شہریوں کو‬
‫موت کی سزا دی گئی ۔ کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری جنرل عبدالحق محبوب اور جوزف‬
‫گیر بینگ ان میں شامل تھے۔ النمیر ی کا رجحان اب دائیں طرف ہونے لگا اور اس نے‬
‫سول حکومت قائم کرنے کی تیاری شروع کر دی۔‬
‫ستمبر ‪1971‬ء میں عام انتخابات کرائے گئے جن کے نتیجے میں النمیری سوڈان کا پہال‬
‫صدر بن گیا۔ مصر کے ساتھ دوستانہ روابط میں اضافہ ہوا۔ اندرون ملک نئے صدر نے‬
‫اخوان المسلمون کے ساتھ مصالحت کی پالیسی اختیار کی کیوں کہ اس کے سوشلسٹ‬
‫ساتھیوں نے بار بار بغاوت کر کے اسے پریشان کیا ۔ آخر کا راس نے تسلیم کیا کہ‬
‫اسالمی قوانین ہی ملکی اتحاد کی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ ایک دستوری کمیٹی‬
‫قائم کی گئی جس کا مقصد اسالمی دستور کی تدوین کے لیے بنیادیں فراہم کرنا ہے۔‬
‫اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر حسن ترابی کو آخری بار ‪1977‬ء میں رہا کیا گیا‬
‫اور دستوری کمیٹی کارکن مقر رکیا گیا۔‬
‫اپریل ‪ 1972‬ء میں عدلیس ابابا کے مقام پر حکومت سوڈان اور جنوب کے باغی عناصر‬
‫کے درمیان گفت و شنید ہوئی اور ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت جنوب کی عالقائی‬
‫حکومت اور بغاوت کے خاتمے پر اتفاق ہو گیا۔ یوں سولہ سال کی طویل جنگ کے بعد‬
‫جنوبی سوڈان کے حاالت معمول پر آگئے۔‬
‫جنرل عمر حسن البشیر کا دور حکومت‪:‬‬
‫‪1989‬ء میں جنرل عمر حسن البشر اقتدار میں آئے ۔ مارچ ‪1996‬ء کے عام انتخابات کے‬
‫بعد جنرل عمر البشر صدر مملکت منتخب ہوئے اور اسالمی آئین تشکیل دیا گیا ۔ سوڈان‬
‫میں حزب اختالف کو جمہوری آزادی حاصل ہے ۔ ‪1997‬ء میں حکومت نے حزب‬
‫اختالف کے ساتھ ایک سمجھوتے کے نتیجے میں حزب اختالف کی پیش کردہ بیشتر‬
‫شرائط کو ملکی دستور اور قانون کا حصہ بنادیا جبکہ یکم جنوری ‪1999‬ء سے نافذ ہونے‬
‫والے نئے سیاسی نظام کے مطابق سیاسی جماعت سازی کا مکمل حق تسلیم کر لیا گیا‬
‫ہے۔ جنوری ‪ 2001‬ء میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں جنرل عمر حسن البشیر‬
‫دوسری مرتبہ مسند صدارت پر فائز ہوئے ۔‬

You might also like