Professional Documents
Culture Documents
417 2 Autumn2023
417 2 Autumn2023
Course Code:
Assignment:
Total Assignment:
Pakistan Studies
417
Level:
Semester:
BA-BCOM AD
Autumn 2023
2
2
Due Date:
01-04-2024
Late Date:
01-04-2024
جن طلبہ کی یونیورسٹی کی جانب سے کتابیں نہیں آرہی ہیں۔ وہ طلبہ ہماری
سروس کے ذریعے اسائنمنٹ اور امتحانات کی تیاری کے لیے کی بک
گھر بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔ کتب کی پرنٹڈ قیمت کے
عالوہ مزید ڈاک خرچہ 200ادا کر کے آرڈر کروا سکتے ہیں۔
نیز ہاتھ سے لکھی ہوئی اور ایل ایم ایس کی سوفٹ اسائمنٹس
آرڈر پر دستیاب ہیں۔ صرف واٹس ایپ پر رابطہ کریں
03096696159
اس کتاب کا خالصہ گھر بیٹھے حاصل کرنے کے لیے
رابطہ کریں۔ صرف واٹس ایپ پر رابطہ کریں
03096696159
سوال نمبر 1:مندرجہ ذیل خالی جگہ درست
جواب کی مدد سے پر کریں۔
.1
.2
.3
.4
.5
.6
.7
.8
.9
STUD
E
پاکستان کے حالیہ صدر کا نام محمد عارف علوی ہے۔ 23 10.مارچ 1940ء کو
قرار داد پاکستان منظور کی گئی۔
سوال نمبر 2 :پاکستان اور چین کے دو
طرفہ تعلقات پر بحث کریں۔
:جواب
پاکستان اور
:چین
پاکستان وہ واحد مسلم ملک تھا جس نے 1950ء میں چین کی حکومت کو تسلیم کر
لیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان سالمتی کونسل میں عوامی جمہوری چین کو مستقل
ممبر کی حیثیت دالنے کی بھر پور کوششیں شروع کر دیں۔ اس کوشش کو چین
نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا شاید یہی وجہ تھی کہ دونوں ملکوں کے
تعلقات صحیح خطوط پر استوار ہونے لگے۔
تعلقات کی
:استواری
.1
.2
.3
سہر وردی کی وزارت کے زمانے میں چندریگر حزب اختالف کے قائد تھے۔
سکندر مرزا کی نگاہ انتخاب ُان پر پڑی۔ سہر وردی کی برطرفی کے بعد صدر بہت
دلیر ہو گئے۔ سہر وردی کی برطرفی کے غیر آئینی فعل کی طرح چندریگر
کی تقرری بھی پارلیمانی جمہوریت کی روایت کے خالف تھی۔ صدر نے
اپنے ری پبلکن دوستوں کو ہدایت کی کہ وہ مسلم لیگ کے سربراہ کی حمایت
کریں۔ ابراہیم اسمعیل چندریگر ایک قابل وکیل تھے۔ وہ افغانستان میں سفیر
رہنے کے عالوہ کئی صوبوں کے گورنر بھی رہ چکے تھے۔ جب مولوی تمیز
الدین نے گورنر جنرل غالم محمد سے قانونی تنازعے کے بارے میں سندھ چیف
کورٹ میں اپیل کی تھی تو چند دیگر نے اس مقدمے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
تھا ،جس پر چیف جسٹس نے بھی اس کی تعریف کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ
چندریگر کو وزیر اعظم مقرر کر کے صدر اس عہدے کے وقار پر ضرب
کاری لگانا چاہتے تھے۔ چندریگر کی مخلوط حکومت مسلم لیگ ،ری پبلکن
پارٹی ،کرشک سرا مک اور نظام اسالم چار پارٹیوں پر مشتمل
تھی۔ قطع نظر اسکے کہ یہ کمزور اتحاد تھا ،اس کی وجہ سے
مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی پھر ایک جگہ جمع ہو گئیں
حاالنکہ دونوں میں کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ چندریگر نے اعالن کیا کہ
میری پارٹی حکومت میں صرف اس لئے شامل ہوئی ہے کہ نظریہ پاکستان کی
حفاظت کر سکے ،جسے مخلوط انتخابات کی وجہ سے خطرہ الحق ہو گیا ہے۔
مگر اپنے مختصر دور حکومت میں شامل پارٹیوں میں اختالفات کی وجہ سے
وہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے یہ ایک بھونڈا سا اتحاد تا اور
سکندر مرزا اس کی حمایت سے دستبردار ہونے کے لئے مناسب موقع کی
تالش میں تھے۔ یہ موقع انہیں جلد ہی حاصل ہو گیا اور انہوں نے مخلوط
حکومت توڑ دی ،جو محض چھ مہینے تک اقتدار میں رہ سکی۔
ملک فیروز خان نون ( 16دسمبر 1957ء
:سے 17اکتوبر 1958ء تک)
ری پبلکن پارٹی نے دوسری پارٹیوں کی وزارتوں کی حمایت کی تھی۔
اب س‹‹کندر م‹‹رزا کی نگ‹‹اہ انتخ‹‹اب ری پبلکن پ‹‹ارٹی کے مل‹‹ک ف‹‹یروز
خان نون پر پڑی۔ بظاہر مل‹‹ک ن‹‹ون ک‹‹و س‹‹ہر وردی کی ط‹‹رح ری پبلکن اور
ع‹‹وامی لی‹‹گ کی پارلیم‹‹انی حم‹‹ایت حاص‹‹ل تھی ،ت‹‹اہم ان کی ک‹‹ابینہ کی تش‹‹کیل
مختلف انداز سے ہوئی۔ ان کی کابینہ پر ری پبلکن ممبر ز غالب تھے۔ ری پبلکن
ممبروں کو اقتدار تو حاصل ہو گی‹‹ا مگ‹‹ر انہیں ع‹‹وامی لی‹‹گ اور مس‹‹لم لی‹‹گ کے
ممبروں کی پوزیشن میں رکھا گیا۔ عوامی لیگ کی مسلسل حمایت حاصل ک‹‹رنے
کے لئے انہیں عوامی لیگ کو خوش رکھن‹‹ا پڑت‹‹ا تھ‹‹ا یہ پ‹‹ارٹی چ‹‹ونکہ سازش‹‹ی
سیاست کی پیداوار تھی اس لئے اسے کوئی مقبولیت حاص‹‹ل نہ تھی۔ وزی‹‹ر اعظم
ملک فیروز خان نون کا تعلق پنجاب کے جاگیر دار سے تھا ،اس ل‹‹ئے وہ زرعی
اصالحات کے سخت مخالف تھے۔ انہ‹‹وں نے اعالنیہ ج‹‹اگیر داری نظ‹‹ام ک‹‹و ج‹‹ائز
قرار دی‹‹ا کی‹‹ونکہ ان کے خی‹‹ال میں یہ نظ‹‹ام ملکی اس‹‹تحکام کے ل‹‹ئے مفی‹‹د تھ‹‹ا۔ ن‹‹ون
حکومت نے جو اقتصادی پالیسیاں اختیار کیں ان کا بڑا مقصد
"
امراء کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ محصوالت کا بالواسطہ نظام برق‹‹رار رکھ‹‹ا گی‹‹ا
جس کا نتیجہ یہ نکال کہ بھاری ٹیکس لگانے کے باوجو د سر کاری آمدنی میں اض‹‹افہ نہ
ہوا۔ سمگلنگ اور چور بازاری کا بازار گرم رہا۔ عام آدمی پر بوجھ بڑھتا
گی‹‹ا اور ام‹‹یر اور غ‹‹ریب کے درمی‹‹ان خلیج وس‹‹یع ہ‹‹وتی گ‹‹ئی۔ مش‹‹رقی
پاکستان میں صورت حال مزید خراب ہو گئی۔ عوامی کی ک‹‹ابینہ میں ش‹‹ریک ہ‹‹و
کر مشرقی پاکستان میں اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس نے ری پبلکن پارٹی کی
حمایت کر کے کئی موقعوں پر مرکزی حکومت سے اس کی بھاری قیمت وصول
کی۔ جب عوامی لیگ کی صوبائی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک ک‹‹ا خط‹‹رہ
پیدا ہوا تو صوبے میں گ‹‹ورنر راج ناف‹ذ ک‹ر دی‹ا گی‹ا جب مش‹رقی پاکس‹تان کے
گ‹‹ورنر۔ اے۔ کے ۔ فض‹‹ل الح‹‹ق نے ان کی غ‹‹یر جمہ‹‹وری س‹‹ر گرمی‹‹وں کی
حمایت سے انکار کیا تو ان کی بے عزتی کی گئی لیکن سب سے ب‹‹ڑا فائ‹‹دہ ج‹‹و
عوامی لیگ کے ممبروں نے مرکزی حکومت سے حاصل کی‹‹ا وہ س‹‹مگلنگ ک‹‹ا کاروب‹‹ار
تھ‹‹ا۔ س‹‹ہر وردی کی حک‹‹ومت نے ع‹‹وامی لی‹‹گ کے بہت س‹‹ے مم‹‹بروں ک‹‹و اس غ‹‹یر
قانونی تجارت کی اجازت دے کر ان کی خوشنودی حاصل کی تھی اس کہ مل‹‹ک
کے بہت سے وسائل سرحد پار پہنچ‹‹ادیئے گ‹‹ئے۔ ملکی دولت کے اس ض‹‹یاع ک‹‹و
روکنے کے لئے فوج مقرر کر دی گئی۔ انسداد سمگلنگ کی اس کارروائی کا خ‹‹اطر
خواہ نتیجہ نکال لیکن اس سے صوبائی اسمبلی میں ایک بااثر غیر مسلم
عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی معلومات کے لیے 9
یوٹیوب چینل کو سبسکرا بسکرائب ALOU Studio
< FREEتمام کالس کی حل شدہ مشقیں
حاصل کریں۔ aioustudio9.blogspot.com
دھڑ اسخت ناراض ہو گیا چنانچہ انسداد سمگلنگ کی کارروائی روک دی گئی۔ اس
کے عالوہ ایسے بہت سے شر پسند افراد کو بھی رہا کر دیا گیا جو پاکستان کے
خالف جاسوسی کرنے کے الزام میں ملوث تھے۔
قومی اور عوامی مفادات سے اس درجہ ال پرواہی کے خالف قانون سازاسمبلی میں
سخت رد عمل ہوا ممبروں نے ایوان میں کھلے بندوں تشدد کا مظاہرہ کیا۔ جب ڈپٹی
سپیکر نے نظم وضبط برقرار رکھنے کی کوشش کی تو اس پر بھی حملہ کر دیا گیا
اور وہ زخموں کی تاب نہ ال کر چل لیا۔ یہ واقعہ 23ستمبر 1958ء کو پیش آیا۔ نون
کی وزارت کے دوران سیاسی بحران اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ سیاستدانوں
نے جمہوری اداروں کے احترام کا کوئی لحاظ نہ کیا۔ سیاسی لیڈروں کا
اصل مطمع نظر اقتدار حاصل کرنا تھا اور جو کوئی اس مقصد کے حصول میں ان
کی مدد کرتا ،اس پر نوازشوں کی بارش کر دی جاتی۔ عوامی لیگ نے جو مفادات
حاصل کئے وہ اس سے مطمئن نہ تھی چنانچہ اس نے حکومت میں شامل ہونے کا
مطالبہ کر دیا۔ اس طرح جو کا بینہ وجود میں آئی اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔
انتخابات جو نومبر 1958ء میں ہونے والے تھے وہ حکومت نے اپنے کامیاب نہ ہونے
کے خوف سے مارچ 1959ء تک ملتوی کر دیئے جس سے مزید افرا تفری پیدا ہوئی۔
اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچ چکی تھیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو
چکے تھے۔ ڈاکٹر خان صاحب کو قتل کر دیا گیا تھا۔ سیاستدانوں نے ایک
دوسرے
معاملے کی طرف توجہ مبذول کی۔ مسلم لیگ نے
القانونیت کے خالف ایک ملک گیر مظاہرے کا انتظام کیا۔
سوال نمبر 5 :قیام پاکستان کے بعد نئی
مملکت کے مسائل کا تجزیہ کریں۔
:جواب
نئی مملکت کے
:مسائل
بر صغیر کے مسلمانوں کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں 14اگست 1947ء
کو پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ قائد
اعظم محمد علی جناح اس کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور لیاقت علی
خاں کی قیادت میں پاکستان کی پہلی کابینہ تشکیل پائی۔ اس نئی مملکت کو آغاز
ہی میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جن کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
مسئلہ
:کشمیر
قیام پاکستان کے بعد پاکستان کو جس سب سے بڑے مسئلے کا سامنا کر نا
پڑاوہ مسلہ کشمیر ہے۔ ریاست جموں و کشمیر بر صغیر کے شمال میں واقع
ہے۔ اس کا رقبہ 84471مربع میل ہے۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق اس
کی آبادی کوئی چالیس الکھ افراد تھی جس میں سے 85فیصد آبادی مسلمانوں پر
مشتمل تھی اور کثیر جغرافیائی طور پر تین راستوں سے پاکستان سے مال ہوا
تھا۔ اس کی تقریبًا ایک ہزار میں میل سرحد پاکستان سے ملی ہوئی تھی لیکن
وہاں کے ہندو راجہ نے الحاق کے بنیادی اصولوں کی خالف ورزی کرتے ہوئے
ہندوستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو انگریزوں نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔
اس نا انصافی پر کشمیر کے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔
کشمیر کے ڈوگرہ راجہ نے اپنی اور ہندوستانی فوج کی مدد سے احتجاج کو دبانا
شروع کر دیا جب نہتے کشمیری دونوں افواج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوئے
تو انہوں نے پاکستانی عوام سے مدد کی اپیل کی۔ اس اپیل پر صوبہ سرحد سے
عوامی لشکر کشمیری عوام کی مد کو پہنچ گئے ۔ ہندوستان نے اس صورت
حال کو پاکستان کی طرف سے حملے سے تعبیر کیا اور اس طرح دونوں
ممالک میں کشمیر کے مسئلے پر 1948ء میں پہلی جنگ ہوئی۔ اس جنگ
کے دوران مجاہدین نے ہندوستان سے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کر والیا اور
اس طرح آزاد جموں و کشمیر نام کی ایک حکومت قائم کی گئی۔ بھارت یہ
صورت حال دیکھ کر مسئلے کو اقوام متحدہ کی سالمتی کونسل میں لے گیا جہاں
متفقہ طور پر یہ قرار داد پیش کی گئی کہ فوری طور پر جنگ بند کی جائے اور
کشمیر کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے
اس مقصد کے لئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرانے کا فیصلہ
ہوا۔ بھارت نے اس وقت یہ فیصلہ قبول کر لیا لیکن کچھ عرصے کے بعد کشمیر
میں استصواب رائے کروانے کے وعدے سے مکر گیا۔ کشمیر کے مسئلے پر
اب تک دونوں ملکوں میں تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ مسلہ
حل طلب ہے اور بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورے خطے کی
سالمتی کے لئے خطر دینا ہوا ہے۔
پاکستان جن عالقوں پر قائم ہوا تھا وہ عالقے معاشی طور پر پسماندگی کا
شکار تھے کیونکہ انگریز حکومت نے ان عالقوں کی معاشی خوشحالی
اور ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ اکثر کار خانے ہندو اکثریت والے عالقوں
میں لگائے گئے تھے جبکہ ان کار خانوں کا خام مال مسلم عالقوں میں پیدا ہوتا تھا۔
آزادی کے بعد ہندوؤں کے یہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ عالقے بھارت کے حصے میں
چلے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق بر صغیر کے کل 394کارخانوں میں سے صرف
14پاکستان کے حصے میں آئے۔ پاکستان کے پاس کوئی خاص صنعت نہیں
تھی ،اس لئے حکومت مجبور تھی کہ اپنی خام پیداوار بھارت کو دے۔ اس پر
بھارت نے پاکستان کی معیشت کو کمزور کرنے کے لئے اقتصادی بلیک میلنگ شروع
کر دی۔ جب ستمبر 1949ء میں پاکستان نے بھارت کی تقلید میں اپنی کرنسی کی قیمت کم
کرنے سے انکار کر دیا۔ تو بھارت نے مشرقی پاکستان کے خام پٹ سن کی خریداری
روک دی۔ اس سلسلے میں جب پاکستان نے بھارت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس
مسئلے کو حل کرنا چاہا تو بھارتی نمائندے نے کہا آپ کے پاس اپنے پٹ سن کو
استعمال کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ سوائے اس کے کہ آپ اسے ہمارے ہاتھ بیچ دیں۔
جالد میں یا پھر خلیج بنگال میں پھینک دیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مشرقی پاکستان کے
پٹ سن کے کاشت کار بالکل تباہ ہو جائیں گے ۔ اس پر عالمه اقبال اوپن
یوٹیوب AlOU Studioیونیورسٹی کی معلومات کے لیے 9
چینل کو سبسکرائب کریں
حکومت نے ایک بورڈ قائم کیا۔ اور FREEتمام کالس کی حل شدہ مشقیں
کاشتکاروں سے نیشنل بنک آف پاکستان کے ذریعے پٹ سن خریدا اور ان کو
دوسری ضروری سہولتیں بہم پہنچائیں۔ اس سے بھارت کی ایک اور گھناؤنی
:حرکت سامنے آگئی۔ مالی اثاثوں کی تقسیم اور ذمہ داریاں
حاصل کریں۔ aioustudio9.blogspot.com
.2
.3
.4
اکثریتی عالقے
شامل تھے۔
اسی طرح سلہٹ سے ملحق بہت سا مسلم اکثریتی عالقہ کاٹ کر ہندوستان کے
حوالے کر دیا گیا۔ مسئلہ کشمیر :پنجاب کی حد بندی اس طرح کی
گئی کہ ہندوستان کو کشمیر کی ریاست تک ایک آسمان اور محفوظ
راستہ مل گیا۔ جس کا بعد میں ہندوستان نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کرنے
کیلئے استعمال کیا۔
نظام آبپاشی پر کنڑول :امر تسر ،جالندھر اور فیروز پر مسلم اکثریتی عالقے
ہندوستان کو دینے کا ایک مقصد یہ تھا۔ کہ پنجاب کے نظام آب پاشی کو
ہندوستان کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ کیونکہ پنجاب کے شہری نظام کے ہیڈور کس
انہی عالقوں میں واقع تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ باؤنڈری کمیشن کی تشکیل
ایک دکھاوا تھی۔ برطانیہ اور ہندو دونوں پاکستان کو مفلوج بنا دینے پر
تلے ہوئے تھے اور ان کی پوری کوشش تھی۔ کہ وہ تمام اہم مقامات ہندوستان
کے ہاتھ آجائیں۔ جو پاکستان کی معیشت اور دفاع کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ریڈ کلف ایوارڈ کے پاکستان پر مندرجہ ذیل اثرات مرتب ہوئے :
پاکستان کو ایک متحد اور خود مختار
ریاست کے طور پر وجود میں آنے کا
موقع مال۔
.1
.2
AIO
ریڈ کلف ایوارڈ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس ایوارڈ نے پاکستان کو
ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر وجود میں آنے کا موقع فراہم کیا،
لیکن
اس کے کچھ منفی اثرات بھی مرتب
ہوئے ،جن سے پاکستان کو آج بھی نمٹنا پڑ رہا ہے۔ عالمہ اقبال اوپن
یوٹیوب AlOU Studioیونیورسٹی کی معلومات کے لیے 9
چینل کو سبسکرائب کریں۔
FREE aioustudio9.blogspot.comتمام کالس کی حل شدہ مشقیں
حاصل کریں۔
سوال نمبر 7 :برطانوی انداز فکر اور ہندوستانی
حقائق کے متعلق نوٹ لکھیں۔
:جواب
ہندوستان کے برے میں برطانوی انداز فکر اور
:ہندوستان چھوڑنے کی خواہش
انگریزوں کو اپنے حقوق کے تحفظ اور دوسری عالمی جنگ کے دوران بین اال
قوامی سیاست میں اپنی باال دستی کے لیے ایک متحد ہندوستان کی اہمیت کا
احساس ہو چکا تھا۔ ہندوستانی فوج نے مشرق وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا
میں ان کے لیے جنگیں لڑیں اور محوری طاقتوں کے مقابلے میں اتحادیوں کو
فتح و نصرت سے ہمکنار کرایا۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی
شمولیت اور سر گرم شرکت اس کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی اور
صاف دکھائی دینے لگا کہ تمام وسائل پر دسترس کے باوجود وہ اس پوزیشن
میں نہیں رہے گا کہ جنوبی ایشیاء میں اپنی مملکت کا انتظام چال سکے۔ مزید برآں
برطانوی حکومت کو اس دباؤ کا بھی احساس تھا جو نو آبادیوں کی آزادی کیلئے آنے
والوں وقتوں میں متوقع تھا۔ ان تمام عوامل کے پیش نظر برطانیہ نے ہندوستان کو آزاد
:کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ متحدہ جنوبی ایشیاء کے لئے برطانوی خواہش
برطانیہ بر صغیر جنوبی ایشیاء کو چھوڑنا چاہتا تھا لیکن آزاد جنوبی ایشیاء اس کی
نظر میں ایک ایسی وحدت تھی جس میں ہندو اکثریت کا غلبہ ہو۔ اس کے عالمی
مفادات اور اس کا وقار ،بحیثیت سر بر او دولت مشترکہ صرف اسی
صورت میں محفوظ رہ سکتا تھا جب سارا جنوبی ایشیا ایک وحدت کی طرح
اس کی پشت پر ہو۔ برطانوی وائسرائے دیول نے ترغیب تحریص اور سازش ہر
طرح سے اپنی پوری کوشش کی کہ جنوبی ایشیاء کے مسلم طبقے کو پاکستان کا
خیال دل سے نکالنے پر مجبور کیا جائے۔ وہ جنوبی ایشیاء کی جغرافیائی وحدت کا
زبردست حامی تھا اور کئی موقعوں پر ان لوگوں سے شدید اختالف رائے کا اظہار کر
چکا تھا۔ جو یہاں کے مسلمانوں کے لئے پاکستان کی صورت میں ایک آزاد
اور الگ وطن چاہتے تھے۔ ویول کے آخری ایام اس اعتبار سے نمایاں تھے
کہ اس نے اپنی اس شدید خواہش کو بروئے کار النے کے لئے کسی قسم کا
آئینی یا سیاسی فارموال بنانے کی بے حد کوشش کی تاکہ انگریزوں کے
مفادات کی خاطر اس وسیع مملکت کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکے اور اپنی
ان کوششوں میں اس نے سیاسی حقائق کو کلیت نظر انداز کر دیا۔
جن‹‹‹وبی ایش‹‹‹یاء میں
متص‹‹ادم نظری‹‹ات آزادی :آل ان‹‹ڈیا مس‹‹لم لی‹‹گ اس ام‹‹ر کی م‹‹دعی تھی کہ وہ
مسلمانان ہندوستان کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ دعوی 1946ء کے انتخابات
میں صحیح ث‹‹ابت ہ‹‹وا اور مس‹‹لم لی‹‹گ مس‹‹لمانوں کی واح‹‹د نمائن‹‹دہ جم‹‹اعت کی
حیثیت سے ابھری۔ مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان اب چند افراد ک‹‹ا مط‹‹البہ نہ رہ‹‹ا تھ‹‹ا
بلکہ جنوبی ایشیا کے مس‹‹لمانوں کے دل‹‹وں کی دھ‹‹ڑکن بن چکJJا تھJJا۔ دوس‹‹ری ط‹‹رف
انڈین نیشنل کانگریس ایک سیکولر جماعت ہونے کے دعوی کے باوجود ای‹‹ک ف‹‹رقہ
وارانہ جم‹‹اعت کی حی‹‹ثیت س‹‹ے ابھ‹‹ری جس کی رہنم‹‹ائی ہن‹‹د و فالس‹‹فی اور م‹‹الی
معاونت ہندو مہ‹‹اجن ک‹‹ر رہے تھے۔ یہ جم‹‹اعت ہن‹‹دو ان‹‹ڈیا کی نمائن‹‹دہ تھی اور ای‹‹ک
ایسے متحدہ انڈیا کی علم بردار تھی جس میں
اور