Professional Documents
Culture Documents
میثاق لکھنؤ - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
میثاق لکھنؤ - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
پس منظر
غیر منقسم ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں معاہدہ
لکھنؤ کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ یہ معاہدہ آل
انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان پہال
اور آخری سیاسی سمجھوتہ تھا ۔انگریز کے دور
اقتدار میں اگر ہندوستانیوں کی سیاست کا تجزیہ
کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانیوں کی ایک
خاص تعداد اس مفروضے پر یقین رکھتے تھے اگر
ہندو اور مسلمان متحد ہو جائیں تو برطانوی
سامراجیت کا خاتمہ اور غالمی کی زنجیروں کو توڑنا
ممکن ہے۔ مختلف رہنماؤں نے مختلف اوقات میں اس
نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں بھی کی
ہیں۔ ایک زمانے تک خود آل انڈیا مسلم لیگ اور آل
انڈیا کانگریس میں ایسے رہنما موجود تھے جو اس
خیال کے بہت بڑے مدعی تھے۔ مگر بیسویں صدی کے
اوائل میں ہندوستان کے اندر اور ہندوستان سے باہر
چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنا پر ہندوستان
کی سیاست کی کایہ پلٹ گئی اورہندوؤں اور
مسلمانوں کے درمیان مفاہمت پیدا ہونے کے لیے
حاالت سازگار ہو ئے۔ مسلمانوں میں تیزی سے انگریز
سرکار کے خالف نفرت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا۔
جس کی وجہ انگریز سرکار کی کچھ پالیسیاں تھیں۔
تریپولی میں اٹلی کی کارروائی کی حمایت ،کانپور
میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور بلقان کی جنگوں میں
انگریز کی اسالم دشمن سرگرمیاں اور پالیسوں نے
مخالفت کو مزید ہوا دی۔
معاہدہ لکھنؤ
غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ میں معاہدہ لکھنؤ کو
ایک اہم سیاسی دستاویز قرار د یا جاسکتا ہے۔ اس
کے تحت آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے
رہنماؤں نے نہ صرف ایک دوسرے کے مؤقف کے جاننے
اور برداشت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ انہوں نے
اپنے رویوں میں بھی خاصی لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
تبصرہ
معاہدہ لکھنؤ انگریز کی پالیسی “Divide and
”Ruleکے خالف ایک مؤثر اور بہترین حکمِت عملی
تھی ہم اسے (Be united and get ruined the
)British Imperialism in Indiaکا نام دے سکتے
ہیں۔ اس حکمِت عملی کو اپنانے اور اسے عملی جامہ
پہنانے میں جن زعماء نے بنیادی کردار ادا کیا ہے ان
میں معماِر پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا نام
سرفہرست ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کو ان کی اپنی
خدمات کے اعتراف کے طور پر Ambassador of
Hindu Muslim unityکے خطابات سے نوازا گیا۔
عالوہ ازیں اس یادگار واقعے کی یاد میں آپ ہی کے
نام پر بمبئی میں ’’جناح ہال‘‘ بھی تعمیر کیا گیا۔ یہ
قائداعظم کی سیاسی زندگی کا پہال دور تھا اس پہلے
دور میں آپ ہندو ،مسلم اتحاد کے داعی تھے۔ یہ
معاہدہ آپ کی طرف سے ہندو مسلم اتحاد کا پہال
تجربہ تھا۔ لیکن بعد کے حاالت و واقعات اور خاص کر
ہندوؤں کے رویے نے آپ کو اس نظریے سے منحرف کر
دیا۔
انجام
معاہدہ لکھنؤ پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اگر اس
معاہدے کی شرائط پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ
یہ معاہدہ قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی ایک بہت
بڑی سیاسی جیت تھی۔ کیونکہ اس کی رو سے انہوں
نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک عالحدہ اور کامل قوم
منوایا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد
نمائندہ جماعت بھی تسلیم کروایا۔ انہوں نے
مسلمانوں کے لیے اس معاہدے کے ذریعے ویٹو کا حق
حاصل کیا وہ بالشبہ ان کے بہترین مفاد میں تھا
کیونکہ اس کے ذریعے وہ ہر ایسے بل کو ویٹو کر
سکتے تھے جو ان کے مذہب ،ثقافت یا روایات پر اثر
انداز ہو سکتا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاہدے
کی رو سے ہندوؤں کی کوشش یہ تھی کہ کسی
طریقے سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان نفاق
کے بیج بو دیے جائیں۔ ان کے خیال میں اس کا جو
بھی نتیجہ برآمد ہوگا وہ ہندوؤں کے مفاد میں ہوگا
لیکن جب پہلی جنگ عظیم کے بعد حاالت تبدیل ہو
گئے ،تحریک ہجرت اور تحریک خالفت کے ذریعے
انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں براہ راست
تصادم کا آغاز ہوا تو اس صورِت حال میں ہندوؤں کے
لیے معاہدہ لکھنؤ کی اہمیت ختم ہو گئی اس لیے
کانگریسی قیادت نے اس معاہدے کو پس پشت ڈال
دیا۔
اخذ کردہ از «?https://ur.wikipedia.org/w/index.php
&oldid=5412614میثاق_لکھنؤ=»title