You are on page 1of 30

‫بنگلہ دیش کے ‪ 50‬برس‪ :‬مشرقی پاکستان میں پاکستانی‬

‫فوج کا آپریشن اور ایک فوجی کی یادیں‬


‫‪ 5‬گھنٹے قبل‬
‫کرنل ریٹائرڈ نادر علی پنجابی زبان کے ایک جانے پہچانے شاعر اورمصنف تھے اور ‪ 2020‬میں ان‬
‫کی وفات ہوئی۔وہ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج میں مختلف عہدوں‬
‫پر فائز رہے تھے۔‬
‫سنہ ‪ 1971‬میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے آپریشن میں اپنے تجربات کی وجہ سے وہ نروس بریک ڈاؤن‬
‫کا شکار ہوئے جس سے وہ بعد میں مکمل طور پر صحت یاببھی ہوگئے۔ انھوں نے اپنی ان یاداشتوں میں اپنے ان‬
‫تجربات کاتفصیلی ذکر کیا تھا اور بی بی سی اردو پر پہلی بار دسمبر ‪ 2006‬میں شائع ہونے والی یہ تحریر اب دوبارہ‬
‫شائع کی جا رہی ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫سونار بانگلہ سے تعارف‬
‫میں ‪1962‬ء سے ‪ 1966‬ء تک مشرقی پاکستان میں تعینات رہا۔ اس وقت حاالت پرامن تھے اور ایک جوان میجر کے‬
‫طور پر میرا تجربہ خاصا خوشگوار رہا۔‬
‫میری ڈیوٹی سنٹرل آرڈیننس ڈپو میں تھی لیکن میں ‪ 1965‬ء کی جنگ میں رضاکارانہ طور پر کمانڈو بٹالین جوائن کر‬
‫کے دو سال تک چٹاگانگ میں رہا۔ اس دوران ہماری کمپنی شمالی بنگال میں تعینات تھی لیکن ‪1965‬ء میں ادھر کوئی‬
‫جنگی کارروائی ہی نہیں ہوئی۔‬
‫‪1967‬ء کے شروع میں واپس آنے کے بعد میں ‪1971‬ء میں چھ مہینے کے لیے دوبارہ مشرقی پاکستان گیا۔‬
‫ت عملی کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ 'مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے‬ ‫ساٹھ کی دہائی تک ہماری فوجی حکم ِ‬
‫کیا جائے گا'۔ اسی لیے وہاں صرف عالمتی طور پر ایک یا ڈیڑھ بریگیڈ فورس رکھی ہوئی تھی۔ چٹاگانگ میں ایسٹ‬
‫بنگال رائفلز کا ایک ٹریننگ سینٹر تھا۔ یہ نفری دفاعی طور پر بالکل غیر موثر تھی۔ میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ ناکافی‬
‫دفاعی قوت کے باعث ‪ 1965‬ء میں مشرقی پاکستان میں احساس عدم تحفظ پیدا ہوا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی‬
‫لہر آنے کی اصل وجہ مشرقی پاکستان کے سیاسی فیصلوں کو نظرانداز کرنا تھا۔‬
‫‪ 1964‬ء میں ایوب خان نے فاطمہ جناح کے خالف صدارتی الیکشن لڑا تو میں ڈھاکا کی سب ڈویژن مانک گنج میں‬
‫الیکشن ڈیوٹی کر رہا تھا‪ ،‬یہ عالقہ عوامی لیگ کا گڑھ مانا جاتا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ وہاں ایوب خان کے لیے‬
‫بھی حمایت موجود تھی۔ ان انتخابات میں صرف بنیادی جمہوریتوں کے ارکان ووٹ دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان کے‬
‫برعکس مشرقی پاکستان میں بی ڈی سسٹم خاصا کامیاب رہا تھا کیونکہ عام لوگوں میں سیاسی سوجھ سمجھ کے باعث‬
‫بی ڈی ارکان کو جو تر قیاتی فنڈ ملتے تھے وہ انہیں خرچ کرنا پڑتے تھے۔‬

‫ایک عام تاثر یہ تھا کہ عام فوجی بنگالیوں کو اپنے سے گھٹیا انسان سمجھتے تھے۔ مثالً یہ کہ ان کا قد چھوٹا ہے اور‬
‫وہ عام طور پر غریب ہیں۔ آپ کے پاس نوکری ہے اور رہن سہن قدرے بہتر ہے۔ شاید اس وجہ سے فوجی بنگالیوں کو‬
‫کوئی علیحدہ مخلوق سمجھتے تھے۔ بنگالی ثقافت کو اپنانے یا ان کی زبان سیکھنے کا شوق بھی کم کم ہی تھا۔ کچھ‬
‫گنے چنے افسروں نے بنگالی عورتوں سے شادیاں کر رکھی تھیں لیکن عام میل جول کی سطح اپنایت کے درجے سے‬
‫بہت نیچے تھی۔‬
‫‪1968‬میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا۔ اس کیس میں جو باتیں الزامات کے طور پر پیش کی جا رہی تھیں وہ تو‬
‫فوجی میسوں میں روز مرہ کے مذاق تھے۔ مثالً میرے ہم مرتبہ فوجی افسروں میں یہ مذاق عام تھا کہ اگر مشرقی‬
‫پاکستان علیحدہ ہو جائے تو سب کی ترقیاں ہو جائیں گی۔ سو جب شام کو ڈرنک کرنے بیٹھتے تو ایک دوسرے کو‬
‫ہلکے پھلکے انداز میں 'جنرل' یا 'بریگیڈیر' کہا جاتا تھا۔ جب اگرتلہ کیس کے بریفنگ افسر جنرل اعوان نے یہ غیر‬
‫سنجیدہ گفتگو بطور الزام پیش کی تو مجھے بڑی کوفت ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ سب تو مذاق تھا اور اسے سازش‬
‫سمجھنا تو بہت مضحکہ خیز بات ہے۔‬
‫شیخ مجیب الرحمٰ ن کو انڈین نواز ثابت کرنے کے لیے اس پر طرح طرح کے لیبل لگائے جاتے تھے۔ مجیب الرحمٰ ن‬
‫ایک عوامی لیڈر تھا۔ اس کی سیاست ہنگامہ آرائی کے گرد گھومتی تھی۔ عوامی لیگ کے رہنما سہروردی کی موت‬
‫کے بعد وہ پارٹی لیڈر بن گیا تھا۔ وہ ایک مقبول لیڈر تھا جو کبھی حکومت کا حصہ نہیں بنا۔ پھر اس نے فروری‬
‫‪1966‬ء میں چھ نکات پیش کیے جن کے گرد ‪1970‬ء کا الیکشن لڑا گیا۔‬
‫عوامی لیگ کے خالف زبردست پراپیگنڈہ جاری تھا۔ بہت کم لوگ یہ سیاسی شعور رکھتے تھے کہ بنگال میں ایکشن‬
‫نہیں ہونا چاہیے۔ عام آدمی یہی سمجھتا تھا کہ علیحدگی کی لہر ختم ہونی چاہیے‪ ،‬یہ صورت حال ملک کے خالف‬
‫بغاوت اور ہندوستانی سازش ہے۔ عام لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ بنگال کی بات کرنے والے محب وطن نہیں ہیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫ً‬
‫یحیی خان نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر بنایا جس میں ایسی باتیں تھیں مثال ’ملک‬ ‫یہاں ایک عجیب تضاد شروع ہوا۔ ٰ‬
‫کے خالف کوئی بات نہیں کی جائے گی‪ ،‬آئین اور وفاق کے خالف کچھ نہیں کہا جائے گا‪ ،‬وغیرہ‘۔ مجیب الرحمٰ ن کے‬
‫چھ نکات اس کے بالکل الٹ تھے جن کے مطابق کرنسی اور خارجی امور کو چھوڑ کر باقی تمام اختیارات صوبوں‬
‫کے پاس ہونا تھے اور پاکستان کے دونوں حصوں میں علیحدہ علیحدہ دارالحکومت بننا تھے۔‬
‫مجیب کی مقبولیت کو روکنے کے لیے عجیب عجیب اقدامات کیے جا رہے تھے۔ ڈھاکا میں اس وقت دارالحکومت ثانی‬
‫زیر تعمیر تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وفاقی حکومت کا کچھ حصہ ڈھاکا منتقل کر دیا جائے۔ لیکن اس انتظام کی تفصیالت‬
‫پر کب ھی کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت ہو تو ساری طاقت ایک شخص میں مرکوز ہو جاتی ہے۔‬
‫وہ شخص مغربی پاکستان میں تھا اور ایک ایسی فوج کا سربراہ تھا جس میں اکثریت مغربی پاکستان والوں کی تھی۔ یہ‬
‫تضاد تو پہلے دن سے تھا۔ اس کو دارالحکومت ثانی بنا کر کیسے دور کیا جاسکتا تھا؟‬
‫فوجی کارروائی‪ ،‬پاکستان بچانے کا یکطرفہ نسخہ‬
‫یہاں سے میرا اپنا تجربہ شروع ہوتا ہے۔ ‪ 25‬مارچ ‪ 1971‬ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع ہوئی تو‬
‫میں پی ایم اے میں انسٹرکٹر تھا۔ میری بٹالین مشرقی پاکستان میں تھی۔ میں نے رضاکارانہ طور پر مشرقی پاکستان‬
‫جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں سے جانے والے ایک میجر کو بتایا گیا کہ اگر تم نہیں جانا چاہتے تو اپنا نام کٹوا لو کیونکہ‬
‫یہ شخص جانا چاہ رہا ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو میں بہت خوش ہوا۔ اب یہ میری عاقبت نا اندیشی تھی کہ میں اس‬
‫فوج کا حصہ بن گیا جو ایک بغاوت کچلنے جا رہی تھی۔‬
‫اصل میں بات حب الوطنی کی نہیں ہوتی۔ فوجیوں کی نفسیات ہی ایسی ہوتی ہے جیسے کسی چور کو چوری کی عادت‬
‫ہو یا نشئی کو نشے کی۔ فوجیوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے یونٹ کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں۔ چونکہ میں ‪1965‬ء‬
‫میں جنگ میں زیادہ حصہ نہیں لے سکا تھا تو میرے دل میں بھی یہ خواہش تھی۔ لیکن اس وقت میرے لیے ایکشن میں‬
‫شرکت کے عالوہ کچھ اور سمجھنا ممکن نہ تھا۔ جس کے لیے مجھے بعد میں احساس جرم بھی ہوا۔‬

‫جب میں وہاں پہنچا تو مجھے عام فوجی کے مقابلے میں ایک برتری حاصل تھی کہ میں نے پہلے سے مشرقی پاکستان‬
‫دیکھا ہوا تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ ‪ 1968‬ء سے ناٹک ہو رہا ہے۔ نہ تو کوئی خفیہ تنظیم تھی اور نہ کوئی سازش۔‬
‫سچ تو یہ ہے کہ جون‪ ،‬جوالئی‪ ،‬اگست تک جب ہم بغاوت کی اطالعات پر کہیں جاتے اور فوج ان جگہوں کا کنٹرول‬
‫اپنے ہاتھ میں لیتی تو اصل میں وہاں ہوتا کچھ ب ھی نہیں تھا۔ نہ تو کوئی منظم مزاحمت تھی اور نہ ہی مزاحمت کاروں‬
‫کا کوئی جامع منصوبہ تھا۔ مزاحمت کرنے والے اصل لوگ بھاگ کر انڈیا چلے گئے تھے۔ انڈیا والے انھیں کچھ تربیت‬
‫دے دیتے‪ ،‬وہ بارڈر کے تھوڑا اندر آکر کچھ کارروائی کر کے واپس بھاگ جاتے۔ کافی عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔‬
‫ہوا یوں کہ کچھ مقامات پر مقامی پولیس‪ ،‬انصار اور ای پی آر نے سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر آزادی کا اعالن کر دیا۔‬
‫فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے ایک ایک کر کے کنٹرول ان سے واپس چھین لیا۔‬

‫باریسال اور سٹالن گراڈ میں کیا مماثلت نکلی؟‬


‫باریسال سب سے آخری ضلع تھا جسے ‪ 25‬اپریل کے قریب واپس لیا گیا کیونکہ یہ ڈھاکا سے بہت دور تھا اور یہاں‬
‫سڑک نہیں صرف دریائی راستہ جاتا تھا۔ میں نے اس کارروائی میں ‪ 6‬پنجاب بٹالین کے ساتھ بطور کمانڈو میجر حصہ‬
‫لیا۔ اس بٹالین کے کمانڈنگ افسر بریگیڈئیر عاطف تھے۔ ہم باریسال پہنچے تو وہاں بارش ہو گئی۔ میں نے تو کمانڈو‬
‫ایکشن کے لیے شہر کی دوسری جانب لینڈ کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے ہیلی کاپٹر اڑا ہی نہیں۔ ہم پچھلی رات‬
‫میجر نادر پرویز کے ساتھ اپنی گن بوٹس روانہ کر چکے تھے تاکہ وہ دوسری جانب ساحل پر کچھ عالقہ قبضے میں‬
‫لے لیں اور بٹالین کے ا ترنے کی جگہ بن جائے۔ بٹالین نے ایم آئی ایٹ ہیلی کاپٹروں میں جانا تھا۔ اب بارش کی وجہ‬
‫سے پالن میں یہ تبدیلی کی گئی کہ مجھے بٹالین کا گائیڈ بنا دیا گیا۔‬
‫اس دوران میجرنادر پرویز شہر کی دوسری جانب پہنچ چکا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے‬
‫وائرلیس پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن میں تو بارش کی وجہ سے پہنچ ہی نہیں پایا تھا۔ سو وہ اپنے چالیس‬
‫فوجیوں کے ساتھ پہلے شہر کی ایک جانب گیا پھر دوسری جانب اور پھر شہر میں داخل ہو گیا اور شہر فتح ہو گیا۔‬
‫ہم شام کو بٹالین لے کر دریا پر پہنچے اور باریسال پر حملے کی تیاریاں کرنے لگے۔ عاطف نے کہا کہ رات کو‬
‫ناواقف جگہ پر حملہ نہیں کرنا چاہیے‪ ،‬سو ہم نے رات وہیں گزاری۔ اگلی صبح ہم حملہ کرنے گئے۔ ہم مارچ کرتے‬
‫ہوئے شہر کی طرف جا رہے ہیں تو آگے سے نادر پرویز جیپ میں شہر سے باہر آ رہا ہے۔ ہم نے کہا 'تم کدھر؟ ہم تو‬
‫ساری رات تمہیں ڈھونڈتے رہے۔‘ تو اس نے کہا 'میں نے تو آپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے شہر فتح کر لیا ہے۔'‬
‫اب یہ انتہائی مضحکہ خیز ایکشن تھا جس میں ہم نے بٹالین کا حملہ کرنا تھا‪ ،‬دو ہوائی جہازوں نے عالقے پر گولیاں‬
‫بھی برسائیں تاکہ بٹالین کا راستہ صاف ہو سکے۔ یہ ساری کارروائی ہوئی اور آگے کچھ بھی نہیں تھا۔ شہر میں ہمارے‬
‫اپنے ہی بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ہفتے بعد کلکتہ سے ٹائمز آف انڈیا آیا تو اس میں سرخی تھی ’باریسال پر‬
‫فضائیہ‪ ،‬بحریہ اور بّری فوج کا سہ طرفہ حملہ پسپا‘۔ اس اخبار کو بنگالی آزادی پسند خبریں فراہم کرتے تھے۔‬

‫کچھ اپنا جھوٹ‪ ،‬کچھ ان کا سچ‬


‫بظاہر تو یہ کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن وہ بٹالین وہیں رہی اور اس نے بہت زیادتیاں کیں۔ اس ضلع کے مارشل الء‬
‫ایڈمنسٹریٹر سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ مجھے کسی کا فون آیا کہ فالں بندہ سونے کی بھری پیٹی مغربی پاکستان لے‬
‫کر جا رہا ہے‪ ،‬اسے روکو۔ میں نے کہا کئی بندے پیٹیاں لے کر جا رہے ہیں‪ ،‬یہ میرا کام تو نہیں کہ میں لوگوں کا‬
‫سامان چیک کروں؟ اکثر افسر ایک دوسرے کا نام لگا دیتے تھے کہ فالں افسر نے یہ زیادتی کی‪ ،‬فالں نے لوٹ مار‬
‫کی۔‬

‫کرنل (ر) نادر علی)‬


‫میں باریسال آپریشن میں اپنے ساتھ شریک ایک ممتاز فوجی افسر سے مال۔ میں نے اسے بتایا کہ ایک انڈین تاریخ دان‬
‫سے بنگلہ دیش کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ میں نے تو کوئی بنگالی نہیں مارا اور اگر کسی نے‬
‫مارنے کی کوشش کی تو میں نے اس کو روکا۔ میری طرح اور بھی پاکستانی افسر ہوں گے۔ کیونکہ مرنے والوں کی‬
‫تعداد کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ میری بات سن کر وہ ساتھی افسر بوال 'میں نے تو بہت مارے تھے۔'‬
‫میں ہکا بکا رہ گیا۔ اس شخص کو میں شریف آدمی سمجھتا تھا۔ اسے قتل و غارت کی کوئی ضرورت تھی بھی نہیں‬
‫کیونکہ باریسال آپری شن میں تو کوئی مزاحمت ہی نہیں تھی۔ بعد ازاں یہ شخص پاکستانی حکومت میں وزیر بھی رہا۔‬
‫بنگالیوں میں مزاحمت کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا تھا۔ مثالً یہ کہ کچھ لوگ رات کو بتیوں سے اشارے کر کے‬
‫ہندوستانی ہوائی جہازوں کو گائیڈ کرتے ہیں۔ حاالنکہ نہ وہاں ہندوستان کا جہاز آتا تھا اور نہ کوئی کسی کو گائیڈ کرتا‬
‫تھا۔ یہ سلسلہ ‪ 1965‬ء سے چال آرہا تھا جب ہم ساری رات پرچھائیوں کے پیچھے بھاگتے رہتے تھے۔‬

‫میجر صاحب ہیرو کیسے بنے؟‬


‫فوجی آپریشن ‪ 25‬مارچ کو شروع ہوا اور میں ‪ 10‬اپریل کو ڈھاکا پہنچا۔ ڈھاکا کے دونوں طرف میگھنا اور بوڑھی‬
‫گنگا نامی دو دریا ہیں۔ میگھنا کے اوپر ایک بڑا پل تھا جو کمانڈوز نے مزاحمت کاروں سے کچھ ہی روز پہلے چھینا‬
‫تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو جوش و خروش کا عالم تھا۔ ایک پرجوش شخص مجھ سے کہنے لگا کہ کمانڈوز نے تو‬
‫کمال کر دیا۔ تم خوش قسمت ہو کہ اسی بٹالین میں جا رہے ہو۔ یہ سنتے ہی میں ایک اور دنیا میں داخل ہو گیا اور‬
‫حقیقت سے میرا رشتہ کٹ گیا۔‬
‫جب بھی کوئی فوجی مشرقی پاکستان پہنچتا‪ ،‬اس کو مکتی باہنی کے مظالم کی تصویروں پر مشتمل ایک فوٹو البم‬
‫دکھائی جاتی۔ مثالً ایک تصویر مغربی پاکستانیوں کی مسخ شدہ الشوں کی تھی۔ یہ واقعات چٹاگانگ میں آرمی کے‬
‫پہنچنے سے پہلے ہوئے۔ مجھے بھی یہ البم دکھائی گئی مگر میری ذہنی حالت ایسی نہ ہوئی کہ میں اندھا دھند بندے‬
‫مارنے شروع کر دوں۔ میں نے سوچا ٹھیک ہے‪ ،‬ان کو پرانا غصہ تھا‪ ،‬جو اب باہر آیا ہے۔‬
‫یہاں سے کہانی ‪ 1947‬کی طرح ہو جاتی ہے۔ جس وقت سارے ضبط ٹوٹ جاتے ہیں۔ بندے کے اندر دبے ہوئے پرانے‬
‫تعصبات باہر آ جاتے ہیں۔ کسی کے اندر جہاد کا جذبہ‪ ،‬کسی میں بغاوت کا‪ ،‬کسی میں کافروں کو مارنے کا جوش۔‬
‫انسان نے تہذیبی طور پر صدیوں میں جو سیکھا ہوتا ہے‪ ،‬اسے بھول جاتا ہے۔ اس کی سماجی اور ثقافتی جڑیں اکھڑ‬
‫جاتی ہ یں۔ وہ انسان سے پھر حیوان بن جاتا ہے اور بغیر کسی خلش کے تمام ظالمانہ حرکتیں کر بیٹھتا ہے۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫انڈیا کی مشرقی کمان کے سٹاف آفیسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب نے ‪ 1971‬میں بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران اہم‬
‫کردار ادا کیا تھا۔ ان کے مطابق اس وقت ڈھاکہ میں پاکستان کے پاس ‪ 26400‬فوجی تھے جبکہ انڈیا کے پاس صرف تین‬
‫ہزار‬
‫کسی فعل میں مل کر شریک ہونا بنگالیوں کی نفسیات کا حصہ ہے۔ کسی بھی واقعہ پر مشتعل ہو کر وہ ایک دم گروہ‬
‫بنا لیتے ہیں۔ ان کی یہ خصوصیت بھی کچھ حد تک پرتشدد واقعات کی وجہ بنی۔ میں ساٹھ کے عشرے میں ڈھاکا میں‬
‫تھا۔ ایک دفعہ بازار گیا تو دیکھا کہ ایک ہجوم جمع ہے۔ نزدیک جانے پر معلوم ہوا کہ ہجوم ایک ڈرائیور کی پٹائی کر‬
‫رہا ہے جس کی بس کے نیچے آ کر ایک بندہ مر گیا ہے۔ میں وہاں کھڑا تھا تو ایک بندے نے بے دھیانی میں مجھے‬
‫اپنی ٹوکری پکڑائی اور جا کر ڈرائیور کو دو چار ٹھوکریں لگائیں۔ واپس آیا اور اپنی ٹوکری لے کر چال گیا۔‬
‫چھ جون کو میں چٹاگانگ کے شمال میں بلونیہ پہنچا۔ یہاں زمین کی ایک تکون اٹھارہ میل تک انڈین بارڈر کے اندر‬
‫چلی گئی ہے۔ یہاں ایسٹ پاکستان رجمنٹ کے باغی فوجیوں نے مورچہ لگا رکھا تھا۔ پاکستان فوج نے حملہ کیا تو آس‬
‫پاس کے پہاڑوں سے انڈین آرٹلری نے ہمارے پچیس تیس فوجی مار ڈالے۔‬
‫جب مجھے بالیا گیا تو بلونیہ پر تین بٹالین کے ساتھ حملے کا منصوبہ تھا۔ میں نے کہا آپ مجھے رات ہی کو بھیج دیں‬
‫تاکہ میں تاریکی کا فائدہ اٹھا سکوں۔ رات کو ہم ادھر ادھر فائر کرتے رہے‪ ،‬ہم پر بھی فائر ہوا۔ اس افراتفری میں باغی‬
‫فوجی بھاگ نکلے۔ صبح جب ہماری فوج کا حملہ ہوا تو سارا عالقہ خالی تھا اور میں اپنے چالیس فوجیوں کے ساتھ‬
‫ایک خراش بھی لگے بغیر واپس آ گیا۔‬
‫میرا کمانڈنگ افسر یہ ایکشن کرنے سے انکار کر چکا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جہاں اتنے بندے مرے ہیں وہاں اور‬
‫بندے بھیجنا خودکشی کے مترادف ہے۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر میں دشمن کے پیچھے پہنچ جاؤں تو وہ لوگ اپنے‬
‫ہی عقب میں تو فائر نہیں کریں گے۔ میرا منصوبہ تھا کہ ان کے بیچ پہنچ کر کنفیوژن پھیالؤں اور راتوں رات واپس‬
‫نکل آؤں۔ م یرا ایکشن کامیاب ہوا اور میرے سی او کو ایکشن سے انکار کرنے پر معطل کر دیا گیا۔ میں ہیرو بن گیا۔‬
‫مجھے اطالع دی گئی کہ آج سے میں بٹالین کمانڈ کروں گا۔‬
‫یہ بہت بڑی بات تھی کہ ایک میجر بٹالین کمانڈ کر رہا ہے۔ اب میں براہ راست نیازی صاحب سے آرڈر لیتا اور روز‬
‫ڈھا کا میں جرنیلوں سے مالقات کرتا تھا۔ زیادہ آپریشن میرے عالقے میں ہوئے اور میں اکثر جنرل قاضی کے ساتھ‬
‫ہوائی جہاز میں سفر کرتا۔ ایک نوجوان میجر ہوتے ہوئے مجھے بہت زیادہ اہمیت مل رہی تھی۔‬

‫سرحد ایک لکیر ہی تو ہے‬


‫کسی نے مشورہ دیا کہ انڈین بارڈر کے پار آپریشن کروائے جائیں تو میں نے سویلین رضا کار بھیجنا شروع کر دیے۔‬
‫آپ اسے کارنامہ سمجھیں یا بیوقوفی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری جنگ میں صرف میں نے ہی بارڈر پار ایکشن منظم‬
‫کیے۔ یہ بڑا آسان کام تھا۔ آپ دو تین بندوں سے کہتے تھے ادھر جا کر اس طرح ریلوے الئن پر چارج لگا دو اور‬
‫سوئچ کھینچ کر واپس آ جاؤ۔ باقی کام خود ہی ہو جائے گا۔‬
‫میں ایک دن سلہٹ گیا۔ وہاں قریب ہی بارڈر کے اس طرف کشن گنج کی ریلوے الئن گزرتی ہے۔ میں نے دو تین‬
‫رضاکار تیار کیے جنہوں نے دھوتیاں پہن رکھی تھیں۔ ان کو بتایا کہ ٹرین کے پہیوں میں بیس فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے‪،‬‬
‫اگر پٹڑی پر دو چارج اتنے وقفے سے لگائے جائیں‪ ،‬تو پہیہ گزرنے سے ‪ 20‬فٹ کا ٹکڑا اڑ جائے گا اور انجن پٹڑی‬
‫سے اتر جائے گا۔ میں ان کو یہ سبق پڑھا کر ڈھاکا آ گیا۔ رات کو گیارہ بجے بی بی سی پر خبریں سنیں کہ پاکستانی‬
‫کمانڈوز نے کشن گنج میں ایکشن کیا ہے جس میں ‪ 56‬بندے ہالک ہو گئے۔‬
‫رات کو مجھے گورنر ہاؤس بالیا گیا کہ تم نے تو کمال کر دیا ہے‪ ،‬انڈین سرحد کے اندر اتنی بڑی سبوتاژ کی ہے۔‬
‫ہمارے مخالف تو اپنی خبریں لگواتے رہتے ہیں اور ہم کچھ کرتے ہی نہیں۔ اس کے بعد میجر صدیق سالک کو میرے‬
‫ساتھ اٹیچ کر دیا گیا تاکہ ہماری کارروائیوں کی رپورٹ اخبار میں چھپے اور لوگوں کے حوصلے برقرار رہیں۔ اس‬
‫سلسلے نے میرا نشہ اور بڑھا دیا۔ اب میں روزانہ بریفنگ دیتا تھا۔ اس کے عالوہ کسی کو مشرقی پاکستان کی‬
‫جغرافیائی‪ ،‬موسمی یا عالقائی معلومات درکار ہوتیں تو میں ان کو بھی مشورہ دیتا۔‬
‫میں ہفتے م یں کم از کم دو دفعہ بنگال میں کہیں نہ کہیں جاتا تھا۔ اپریل یا مئی میں سنت ہرنام جگہ پر گیا۔ اطالع تھی‬
‫کہ یہاں بنگالیوں نے ریلوے کالونی پر حملہ کر کے تمام بہاریوں کو قتل کر دیا ہے۔ اب اس طرح کا واقعہ ہو تو کوئی‬
‫آثار تو نظر آئیں لیکن مجھے تو کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آیا۔ سو یہ بھی تھا کہ رپورٹیں مل رہی تھیں لیکن میں‬
‫نے اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ ایک طرح سے یہ بھی احمقوں کی جنت میں رہنا تھا۔‬

‫’ہندو ختم کر دو‪ ،‬مسئلہ ختم ہو جائے گا‘‬


‫ہر روز صبح میرا کمانڈنگ افسر بریفنگ لینے ہیڈکوارٹر جاتا تھا‪ ،‬میں سیکنڈ ان کمانڈ تھا۔ وہ بریفنگ لے کر آتا کہ ہم‬
‫نے فالں جگہ فورس بھیجنی ہے‪ ،‬وہاں بہت مزاحمت ہو رہی ہے۔ ‪ 18‬اپریل کو میرا پہال ایکشن طے ہوا فرید پور میں۔‬
‫جانے سے پہلے کمانڈنگ افسر نے ہدایات دیں کہ تم جاؤ اور ایک دفعہ ان کو 'تاونی چڑھاؤ۔ اس کے لہجے سے‬
‫مجھے لگا کہ وہ چاہ رہا ہے کہ میں جا کر بندے ماروں۔ میں نے کہا سر ’تاونی‘ کس طرح چڑھاوں؟ اگر کسی نے‬
‫مجھ پر حملہ کیا تو میں جوابی گولی چالؤں گا‪ ،‬لیکن ایسے ہی بال وجہ بندوں کو مارنا مجھ سے نہیں ہوگا۔‬
‫بریفنگ افسر بوال 'سنو نادر‪ ،‬ہم نے اس مسئلے کی جڑ ڈھونڈ لی ہے اور وہ ہے ہندو۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہندوؤں کو‬
‫مارا جائے۔ ہندو ختم کر دیے گئے تو یہ پرابلم ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔‘‬
‫میں نے کہا 'سر‪ ،‬میں کسی نہتے سویلین کو نہیں ماروں گا چاہے وہ ہندو ہو‪ ،‬سکھ ہو یا عیسائی۔ سب لوگ ملک کے‬
‫برابر شہری ہیں۔ '‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫اس نے کہا 'بات سنو‪ ،‬تم مغربی پاکستان سے آئے ہو‪ ،‬میں تمہارے خیاالت سمجھتا ہوں لیکن حقیقت اس طرح نہیں۔ ان‬
‫لوگوں نے ہماری چھاؤنیوں کو گھیرا ڈاال‪ ،‬ہمارا پانی بند کیا۔ اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سختی کرنا ہوگی۔‬
‫ڈنڈا چالنا ہو گا۔ فیصلہ ہوا ہے کہ ہم ہندوؤں کو ماریں گے۔ میں نے کہا ’سر‪ ،‬مجھ سے ایسی کوئی توقع نہ رکھیں۔‬
‫مجھے جہاں کہیں گے‪ ،‬چال جاوں گا‪ ،‬جہاں پھینکیں گے‪ ،‬بیٹھ جاوں گا لیکن مجھ سے ظلم نہیں ہو گا۔ '‬
‫ہندوؤں کو مارنے کے دور رس نتائج برآمد ہوئے۔ کچھ مارے گئے‪ ،‬کچھ کے گھر لوٹے گئے لیکن تقریبا ایک کروڑ‬
‫ہندو ہجرت کر کے انڈیا چلے گئے اور انہی کی بنیاد پر انڈیا کو عالمی سطح پر بنگلہ دیش کا مقدمہ بنانے کا موقع مل‬
‫گیا۔ حمودالرحمٰ ن کمیشن رپورٹ میں بھی لکھا ہے کہ ہندوؤں کو مارنے کی سرکاری پالیسی بنائی گئی تھی۔ یہ فیصلہ‬
‫کس سطح پر ہوا‪ ،‬اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔‬
‫‪ 90‬کی دہائی میں حمودالرحمٰ ن کمیشن رپورٹ آنے سے پہلے کی بات ہے‪ ،‬میں نے ایک جرنیل سے کہا کہ ہندوؤں کو‬
‫مارنے کا فیصلہ بہت غلط تھا۔ تو وہ کہنے لگا کہ ایسا تو کوئی آرڈر نہیں دیا گیا۔ میں نے کہا سر آپ معائنے کے لیے‬
‫بنگال آئے تھے۔ میں بھی وہاں کھڑا تھا۔ آپ نے ف وجیوں سے ہاتھ مالتے ہوئے ایک سپاہی سے پوچھا تھا 'کتنا ہندو مارا‬
‫ہے؟‘ یہ مجھ گناہ گار نے خود سنا ہے۔ لیکن وہ نہیں مانا۔‬
‫جب ‪ 90‬الکھ ہندو بھاگ کر گئے تو وہ بڑی بڑی گاڑیاں دریا کے اس پار ہی الوارث چھوڑ گئے۔ میں پرانی ٹیوٹا چالتا‬
‫تھا۔ ہم فیری سائیڈ سے کوئی چار پانچ میل دور شہر جا رہے تھے۔ میرے ڈرائیور نے کہا سر آپ کمانڈو ہیں‪ ،‬کوئی‬
‫مرسیڈیز وغیرہ لے لیں۔ میں نے کہا نہیں میرے لیے یہی گاڑی ٹھیک ہے۔ ایک دفعہ سڑک پر میرے ڈرائیور نے ایک‬
‫غریب آدمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا 'سر وہ ہندو جا رہا ہے'۔ جیسے مجھے شکار کے لیے نایاب پرندہ دکھا‬
‫رہا ہو۔‬
‫فوج میں تربیتی مشقوں کے دوران مورچوں میں چند فوجی بہروپیے ہندوؤں اور سکھوں کا میک اپ کر کے بٹھا دیے‬
‫جاتے ہیں۔ پاکستانی فوجی ہللا اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ان مورچوں پر دھاوا بولتے ہیں تو یہ اداکار ست سری اکال اور‬
‫ہائے رام چالتے ہوئے اپنی دھوتیاں چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک جرنیل نے غلطی سے کہہ دیا کہ یہ‬
‫روایت اب بند کر دینی چاہیے کیونکہ ہم نے دو جنگوں میں دیکھ لیا ہے کہ ہندو بھی اتنا ہی اچھا لڑتے ہیں جیسا ہم۔ اس‬
‫جرنیل کی ترقی روک دی گئی۔‬
‫ایک دفعہ ایک بریگیڈیئر نے مجھ سے کہا کہ ہندوؤں سے ہاتھ نہیں مالنا چاہیے‪ ،‬ان سے تو بو آتی ہے۔ میں نے کہا کہ‬
‫نہانا تو ان کی عبادت کا حصہ ہے‪ ،‬وہ تو شاید ہم سے بھی زیادہ نہاتے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم کبھی‬
‫کسی ہندو سے ملے ہو تو بوال 'نہیں'۔‬

‫ہیرو بننے سے پاگل پن کی دہلیز پر‬


‫ڈھاکا میں سوشل الئف کیا تھی۔ دن کو کسی دوسرے شہر جا کر کوئی مشورہ وغیرہ دینا اور شام کو لوٹ آنا۔ شام کو‬
‫پی اے ایف میس چلے گئے۔ پی آئی اے میس یا ڈھاکا کلب چلے گئے۔ وہاں بنگالیوں کے ساتھ ڈرنک کرنا۔ ہم ڈھاکا‬
‫انٹرکانٹی نینٹل جاتے تھے تو بال روم ڈانسنگ روک کر اعالن کیا جاتا 'گڈ ایوننگ میجر نادر' اور پھر میوزک شروع‬
‫ہو جاتا۔ رات کو چائنیز کھانا کھایا اور سو گئے۔ زندگی اسی طرح چل رہی تھی کہ آپ کو کوئی پرواہ نہیں کہ باہر کیا‬
‫ہو رہا ہے۔ میں ایک سن حالت میں تھا۔ بظاہر میں ایک اہم شخصیت بن گیا تھا لیکن حقیقت سے میرا رشتہ کٹ چکا تھا۔‬
‫ایک جوان میجر جو بنگال جانے سے پہلے کچھ کچھ اندھا تھا اب مکمل طور پر اندھا ہو چکا تھا۔ اس طرح میری‬
‫احمقوں کی جنت کی بنیاد پڑی اور ساتھ ساتھ میرے پاگل پن کی بھی۔‬

‫اس دوران مجھ سے کہا گیا کہ میں واپس مغربی پاکستان جاؤں تاکہ میری کرنل کے عہدے پر ترقی ہو سکے۔ میں‬
‫واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں ڈھاکا میں انتہائی اہم شخص بن چکا تھا اور اپنے اس ہیرو جیسے کردار کو‬
‫انجوائے کر رہا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل میں اتنی مزاحمت یا خطرہ نہیں ہے‬
‫جتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے۔ بعد میں جو میرا بریک ڈاؤن ہوا اس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ میرے‬
‫جیسے غریب بندے کو ایک دم اتنی لفٹ مل جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔‬

‫جنگ کیسے لڑی گئی؟‬


‫سوال یہ ہے کہ کیا مشرقی پاکستان کو بچایا جا سکتا تھا؟ بالکل بچایا جا سکتا تھا۔ اگر سارا ایکشن اپریل میں بند کر دیا‬
‫جاتا تو ایک موقع تھا۔ عوامی لیگ کے ابھی بھی بہت سے ایم این اے تھے جن کو منایا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ صورتحال‬
‫حتی کہ دسمبر آگیا۔‬
‫تو بدستور چلتی ہی گئی ٰ‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫اس جنگ میں الکھوں لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی‬
‫جب کسی فوج کا یہ کردار بن جائے کہ لوگوں کی زندگی اور موت اس کے اختیار میں ہو اور اسے من مانی کرنے کی‬
‫آزادی ہو تو وہ فوج آہستہ آہستہ اخالقی طور پر تباہ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس وقت ہی نظر آرہا تھا کہ جنگ‬
‫ہوئی تو یہ لوگ لڑ نہیں سکیں گے۔‬
‫فو ج پورے عالقے میں چھوٹے چھوٹے دستوں میں بٹی ہوئی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ کسی ایک جگہ پر قبضہ کر کے‬
‫اعالن کر دیا جائے کہ یہ بنگلہ دیش ہے اور متوازی حکومت بنائی جائے گی۔ یہ امکان تو کسی کے خیال میں بھی‬
‫نہیں تھا کہ اگر حملہ ہوا تو کیا کریں گے۔‬
‫نیازی صاحب نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ حاالنکہ ادھر اتنے دریا ہیں کہ اگر کوئی کسی کو روکنا چاہے تو بہت‬
‫کچھ ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ دیکھیں کہ وہاں ہمارے کسی بندے نے مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی بھاگنے کی کوشش کی۔‬
‫سوائے دو ہیلی کاپٹروں کے جو اڑ کر برما پہنچ گئے اور پھر مغربی پاکستان واپس آئے۔ ان ہیلی کاپٹروں میں کچھ‬
‫زخمی‪ ،‬کچھ نرسیں اور ایک جرنیل صاحب بھی شامل تھے جو بظاہر زخمی تھے۔ لوگوں نے ان پر بہت لعن طعن بھی‬
‫کی۔ کیونکہ یہ بات پھیل گئی کہ کسی شخص کو ہیلی کاپٹر سے اتار کر جرنیل صاحب کو سوار کیا گیا تھا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫ہندوستان آرمی ہماری ایک پوری ڈویژن بائی پاس کرگئی۔ ان جرنیل صاحب کے پاس تین بٹالین تھیں لیکن انہوں نے‬
‫کسی ایکشن میں حصہ نہیں لیا۔ اس لیے ان کو خراش تک نہیں آئی۔ ڈھاکا پر انڈین آرمی کا قبضہ ہونے کے ایک دو دن‬
‫بعد تک یہ ڈویژن وہیں بیٹھی رہی۔ نہ تو انہوں نے کسی طرف نکلنے کی کوشش کی اور نہ ہی ہندوستان آرمی پر‬
‫حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس جرنیل نے ڈھاکا فون کر کے پوچھا۔ ’ہم نے کس کے پاس ہتھیار ڈالنے ہیں‘۔ جیسے کوئی‬
‫جائیداد منتقل کی جا رہی ہو کہ بھائی ہم نے کس کو ہینڈ اوور کرنا ہے۔‬
‫لیکن یہ بھی ہے کہ میجر اکرم ج یسے فوجیوں نے مزاحمت بھی کی۔ ان کی بٹالین بوگرہ میں بہت دلیری سے لڑی اور‬
‫میجر اکرم کو نشان حیدر مال۔ ان کی تعریف انڈین آرمی نے بھی کی۔ لیکن یہ اکادکا واقعات ہیں ورنہ نیازی صاحب نے‬
‫نہ تو دفاع کا کوئی انتظام کیا تھا اور نہ ہی کوئی پالننگ۔‬

‫’بنگال فتح نہ ہو‪ ،‬بنگالن تو فتح ہو سکتی ہے‘‬


‫آسام سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ڈاکٹر یاسمین سیکھیا امریکہ میں ہندوستان کی تاریخ پڑھا رہی ہیں۔ حال ہی میں‬
‫اس نے ‪ 71‬کی جنگ کے دوران صرف عورتوں کے تجربات پر ریسرچ کی ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ‪ 71‬میں دس‬
‫الکھ عورتوں کو ریپ کیا گیا۔ ل یکن بہت کوشش کے باوجود اس کو ایسی کوئی عورت نہ مل سکی۔ آخر وہ ہائی کورٹ‬
‫کے اس جج سے ملی جسے ان عورتوں کی بحالی کا انچارج بنایا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم پالیسی کے طور پر کسی کا‬
‫نام نہیں بتاتے تاکہ ان خواتین کے لیے مشکالت پیدا نہ ہوں۔‬
‫ڈاکٹر یاسمین نے کہا یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسا بین االاقوامی سانحہ ہوا ہو اور اس کے بارے میں بات کرنے‬
‫واال کوئی بھی نہ ہو؟ آخر اس نے ایک عورت کو ڈھونڈ ہی لیا۔ اس نے کہا 'ہاں‪ ،‬میری عزت لوٹی گئی تھی'۔ پھر ڈاکٹر‬
‫یاسمین نے زور دے کر پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ کوئی اس واقعے کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تو اس نے کہا‬
‫'کوئی بات کس طرح کرے۔ آج کل یہاں جو ایم این اے ہے وہی تو ان فوجیوں کو اپنے ساتھ الیا تھا جنہوں نے میرے‬
‫ساتھ یہ حرکت کی تھی'۔‬
‫خالدہ ضیا جب پاکستان آئیں تو ان کے ساتھ ایک ریٹائرڈ بریگیڈیر آئے ہوئے تھے۔ یہاں الہور میں ان سے مالقات ہوئی۔‬
‫میں نے ان سے کہا کہ سنا ہے بنگلہ دیش میں ہندوستان کے خالف شدید جذبات کی وجہ سے فوج میں بھی پاکستان کی‬
‫حمایت بڑھ گئی ہے۔‬
‫کچھ وقفے کے بعد وہ بولے لیکن میں کس طرح پاکستان کا حامی ہو سکتا ہوں۔ میری کہانی تو تمھیں یاد ہوگی۔ اس‬
‫بریگیڈیر کی بہن پاکست ان آرمی کی واحد بنگالی لیڈی ڈاکٹر تھی۔ مغربی پاکستان کے فوجیوں نے مبینہ طور پر اس کو‬
‫جیسور میں ریپ کیا اور پھر قتل کر دیا۔ وہ بریگیڈیر کہنے لگا ’اس زخم کی یاد تو دن رات ہمارے خاندان کے ساتھ‬
‫ہوتی ہے۔ ہمارے لیے تو جنگ ابھی تک جاری ہے۔‘‬

‫ٰ‬
‫الرحمن کو کیسے گرفتار کیا گیا؟‬ ‫مجیب‬
‫اب مجیب الرحمٰ ن کی کہانی سن لیں۔ ‪ 25‬مارچ کی رات میری ہی بٹالین کے بندے مجیب الرحمٰ ن کو گرفتار کرنے‬
‫گئے۔ میں اس وقت مغربی پاکستان ہی میں تھا۔ بٹالین کے کمانڈنگ افسر کرنل زیڈ اے خان تھے۔ 'بانگلہ بندھو' کا گھر‬
‫مزاحمت کاروں کی حفاظت میں تھا۔ جب اتنی طاقتور فورس مشین گن کا فائر کرتے ہوئے وہاں پہنچی تو تمام گارڈ اور‬
‫مزاحمت کار بھاگ گئے۔ زیڈ اے خان نے مجھے بتایا کہ میں نے مجیب الرحمٰ ن کو سیلوٹ کیا اور کہا 'سر مجھے آپ‬
‫کی گرفتاری کے آرڈر ہیں'۔ مجیب الرحمٰ ن نے کچھ مہلت مانگی اور اپنا بکس وغیرہ پیک کیا۔ پھر سب لوگ جب‬
‫سیڑھیاں اتر رہے تھے تو کرنل زیڈ اے خان آگے تھے‪ ،‬ان کے پیچھے مجیب الرحمٰ ن اور سب سے پیچھے دو سپاہی‬
‫تھے۔ ان میں سے ایک سپاہی نے مجیب الرحمٰ ن کو تھپڑ دے مارا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫پاکستان اور انڈیا کے درمیان سنہ ‪ 1971‬میں ہونے والی جنگ کے بعد بنگلہ دیش وجود میں آیا‬
‫کرنل زیڈ اے خان نے مجیب الرحمٰ ن کو وہ پروٹوکول دیا جو ایک پڑھا لکھا مہذب انسان پاکستان کی قومی اسمبلی کے‬
‫ایک رکن کو گرفتار کرتے وقت دے گا۔ لیکن وہ سپاہی ایک اور سطح پر تھا۔ اسے اس آدمی پر بہت غصہ تھا جو اس‬
‫کے خیال میں ساری شرارت کی جڑ تھا۔‬
‫کرنل زیڈ اے خان نے بتایا کہ شام تک مجیب الرحمٰ ن ہمارے پاس رہا پھر ہم نے اسے ہینڈ اوور کر دیا اور اسی رات‬
‫اسے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا۔ لیکن اس وقت تک وہ اتنا خوف زدہ ہو چکا تھا کہ اس سے کوئی بھی بات کرتا تو وہ‬
‫چونک کر اپنے چہرے کے آگے ہاتھ کر لیتا۔‬
‫بہت سال بیت گئے۔ کرنل زیڈ اے خان بریگیڈئیر بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ‪ 71‬کی جنگ پر کتاب بھی لکھی۔ انہوں‬
‫نے مجھے بتایا کہ ایک سینئر جنرل نے ان سے پوچھا 'تم نے اس کو مارا کیوں نہیں؟‘ تو میں نے جواب دیا 'سر‬
‫مجھے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا گیا اور نہ ہی آ پ ایسی کوئی توقع رکھیں کہ میں ایسا آرڈر پورا کرتا'۔ اس پر جنرل بوال‬
‫'تم عجیب بیوقوف ہو۔ کیا ہم اس کو اس وقت مار سکتے تھے جب ساری دنیا کو پتہ چل چکا تھا کہ ہم نے اس کو‬
‫حراست میں لے لیا ہے؟ تمھارے پاس اس حرامزادے کو مارنے کا سنہری موقع تھا'۔ زیڈ اے خان کہنے لگے کہ ’میں‬
‫اپنے سپاہی کو برا بھال کہہ رہا تھا کہ اس نے تھپڑ کیوں مارا اور ادھر یہ حال ہے۔‘‬

‫ایک گولی کتنے بنگالیوں میں سے گزرتی ہے؟‬


‫کومیال میں اے پی پی کا نمائندہ ٹونی میسکیریناس تھا۔ کومیال ہمارا ڈویژنل ہیڈکوارٹر تھا جہاں جنرل شوکت رضا‬
‫تعینات تھے۔ جنرل شوکت رضا واحد آدمی تھے جو پورے ایکشن سے الگ تھلگ رہے۔ جنرل شوکت رضا میرے‬
‫پرانے انسٹرکٹر تھے۔ ان سے مالقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ جو بھی ہو رہا ہے ان لوگوں کو کوئی سمجھ نہیں کہ‬
‫یہ کیا کر رہے ہیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫‪ 1971‬میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا منظر‬

‫لیفٹیننٹ کرنل بیگ ان کا سٹاف افسر تھا۔ کرنل بیگ سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا میں نے تو گالب کے پھول‬
‫لگائے ہوئے ہیں۔ بس ان کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ٹونی میسکیریناس بھی وہیں کہیں ان کے پاس تھا۔ وہ ادھر سے بھاگ کر‬
‫براستہ کلکتہ‪ ،‬لندن پہنچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنی کہانی ٹائمز آف لندن کو بیچی۔ اس میں کہا گیا کہ کرنل بیگ‬
‫لوگوں کو اپنے پھول وغیرہ دکھاتا ہے لیکن اس کا سگنل افسر روایت کرتا ہے کہ 'میں تجربہ کر رہا تھا کہ اگر بنگالی‬
‫ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں تو کتنے بنگالیوں میں سے گولی گزرتی ہے۔ میں نے آٹھ بندے ایک الئن میں کھڑے‬
‫کروا کر ایم ون بندوق سے فائر کیا تو گولی آٹھوں میں سے گزر گئی'۔‬
‫ہم سب کو ٹونی میسکیریناس کی کہانی کی فوٹو کاپی بانٹی گئی اور ساتھ میں آرڈر آیا کہ صحافیوں سے غیر ضروری‬
‫باتیں نہ کی جائیں۔‬
‫محب وطن حلقوں کے تعاون کی حقیقت‬
‫وہاں ہندوؤں کی جتنی جائیداد تھی‪ ،‬لوٹ لی گئی۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوا کہ مقامی مسلم لیگ یا جماعت اسالمی والے‬
‫ہمارے پاس آ کر کہتے کہ فالں پراپرٹی ہمیں االٹ کر دو۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب فوج کا کسی جگہ پر قبضہ ہو‬
‫جائے خاص طور پر اگر کوئی خاص مزاحمت بھی نہ ہو تو اس کے حمایتی بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔‬
‫یہ بھی پڑھیے‬
‫’کسی کی ماں کو دکھ مت دینا‘‬
‫قیام بنگلہ دیش کی وجوہات کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟‬
‫مشرقی پاکستان اسمبلی کے خوں چکاں واقعات اور ڈپٹی سپیکر کا پراسرار قتل‬
‫سو سالہ شیخ مجیب اور آج کا پاکستان‬
‫مثالً جماعت اس المی والے میرے پاس آتے تھے‪ ،‬پروفیسر غالم اعظم وغیرہ۔ وہ مجھے سویلین رضاکار دیتے تھے جن‬
‫سے میں نے انڈین بارڈر کے پار کئی سبوتاژ آپریشن کروائے۔ لیکن رضاکار دینے کے بعد ان کی کوئی نہ کوئی‬
‫سفارش بھی ہوتی تھی کہ فالں بندے کی دکان ہمیں دے دی جائے یا ہمارے فالں بندے کا خیال رکھا جائے۔‬
‫ایسے مقبول عوامی لیڈر بھی تھے مثالً فضل القادر چوہدری یا موالنا فرید احمد وغیرہ۔ یہ لوگ ہمارے پاس آ کر کہتے‬
‫تھے کہ فالں بندے کو مار دو یا فالں بندے کے ساتھ یہ کر دو۔‬

‫تصویر کے دونوں رخ یکساں سیاہ ہیں‬


‫ہماری بٹالین کا ہیڈ کوارٹر ڈھاکا میں تھا۔ اس کے عالوہ کچھ حصے کومیال اور رنگامتی میں بھی تھے جہاں کا میں‬
‫مارشل ال ایڈمنسٹریٹر تھا۔ اس کے عالوہ مختلف نوعیت کے مشن ہوتے تھے۔ کہیں سرحد پار ایکشن کی پالننگ کرنی‬
‫ہوتی تھی تو کہیں پر کمانڈوز کی ضرورت ہوتی تھی۔‬
‫میرے اپنے ہاتھوں سے کسی بے گناہ کو تکلیف نہیں پہنچی لیکن میں جہاں جاتا‪ ،‬وہاں کسی نہ کسی سانحہ کی کہانی‬
‫آپ کے لیے تیار کھڑی ہوتی۔ جیسے میں سنتہار پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ آپ کے آنے سے پہلے اس شہر کے ہر‬
‫آدمی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ خیر اس طرح کی کہانیوں نے مجھ میں احساس جرم شدید کر دیا۔ میں کسی گاؤں وغیرہ‬
‫جاتا تو وہاں کے انتہائی غریب لوگ فوج سے دب کر بیٹھے ہوتے۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬

‫‪ 16‬دسمبر کو انڈین فوج کے ڈھاکہ میں داخل ہونے پر خوشی منائی جا رہی ہے‬
‫جب میں شمالی بنگال پہنچا تو مجھے ٹھاکر گنج کے مختلف واقعات سنائے گئے۔ یہ ایسٹ پاکستان رائفلز کا عالقہ تھا۔‬
‫جب رات کو میرے لیے کھانا الیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں مغربی پاکستانی میجر محمد حسین رہتے تھے۔ میجر‬
‫محمد حسین اور ان کے اہل خانہ کو بنگالی سپاہیوں نے مار دیا تھا۔ ان کے خاندان کی صرف ایک بچی زندہ بچ سکی‬
‫تھی اور میں اس بچی سے ڈھاکا میں مال۔ وہ بچی بول نہیں سکتی تھی۔ جب مجھے یہ کہانی سنائی گئی تو مجھے جگہ‬
‫جگہ اس واقعے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ گھر میں کئی جگہ خون کے دھبے تھے۔‬
‫باتھ روم میں گیا تو وہاں کھڑکیوں میں گولیوں سے بچاؤ کے لیے تکیے ٹھنسے تھے۔ بچوں کی کتابیں‪ ،‬کھلونے اور‬
‫جوتیاں ہر جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے‬
‫احساس جرم بھی تھا کہ میں یہاں آیا کیوں؟ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جس وقت میں بطور ہیرو اپنی پرستش سے‬
‫لطف اندوز ہو رہا تھا‪ ،‬اس وقت میرے آس پاس لوگ مارے ج ارہے تھے۔ اس کے عالوہ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ ہم‬
‫ٹھیک جا رہے ہیں۔ میری توجہ محدود ہوکر بس سرحد پار ایکشن تک ہی رہ گئی تھی۔ کسی قسم کے حملے یا جنرل‬
‫نیازی کے منصوبوں کے بارے میں تو کبھی سوچا نہ تھا۔‬

‫اب لوٹ کے آئے ہو تو گھر کیسا لگا ہے؟‬


‫اب میں بٹالین سے فارغ ہوا تو میرے الوداعی ڈنر شروع ہو گئے۔ مجھے جنرل نیازی نے بھی گھر بالیا۔ اس دوران‬
‫میں نے بہت زیادہ شراب پینا شروع کردی اور آہستہ آہستہ مجھ پر اجاگر ہونا شروع ہوا کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟‬
‫اس دوران مجھے مغربی پاکستان سے ایک فوجی دوست کا خط مال جس میں اس نے مشرقی پاکستان میں کسی بائیں‬
‫بازو کی جماعت سے رابطہ کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اگلی صبح میری فالًئٹ تھی تو انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں‬
‫ڈرنک کرنے کے بعد مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ فالًں نمبر کمرے میں آپ کو کوئی ملنا چاہتا ہے۔‬
‫تو مجھے لگا کہ شاید یہ بائیں بازو کی جماعت کی طرف سے کوئی پیغام ہے۔ مجھے اپنا دماغ حقیقت سے کٹا ہوا‬
‫محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ اگلی صبح جہاز میں بھی میں اس کیفیت میں ڈوبتا ابھرتا رہا۔ میرے ذہن میں ایک ایسی‬
‫کہانی نے جنم لینا شروع کیا جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ میں عام انسانوں کا مسیحا‬
‫ہوں۔ ان کو ظلم سے نجات دالنے واال ہوں اور میرے خالف کچھ لوگ سازش کر رہے ہیں۔‬
‫جب میں کراچی لینڈ کیا تو کچھ لمحوں کے لیے میں اس کیفیت سے نکل آیا اور میں نے اپنے آپ کو کہا کہ تم یہ کیا‬
‫بکواس سوچ رہے تھے۔ لیکن الہور پہنچنے تک میں واپس اسی خیالی دنیا میں جا چکا تھا۔ یہاں ایک اور بات کہنی‬
‫ضروری ہے کہ میرے اس ذہنی کیفیت میں واپس جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان میں کسی کو خبر تک نہ تھی‬
‫کہ مشرقی پاکستان میں کیا ظلم اور بربادی ہو رہی ہے۔‬
‫کراچی شہر ویسے ہی رواں دواں تھا۔ الہور میں ہم جم خانہ جا کر ڈرنک کرتے تھے اور وہاں سلہری صاحب‬
‫قائداعظم اور نظریہ پاکستان کے کسی باریک نکتے پر لیکچر دے رہے ہوتے۔ پورا ملک اصل حقیقت سے بے خبر‬
‫روزمرہ کے معمول پر چل رہا تھا۔ یہاں مجھے ایک انکوئری پر بٹھا دیا گیا جس میں ڈیڑھ کروڑ کا گھٹیا صابن‬
‫خریدے جانے کی تفتیش کرنی تھی۔‬
‫اب آپ خود سوچیں کہ میں ایک جنگی کیفیت میں سے اٹھ کر ایک ایسی جگہ پر آ گیا ہوں جہاں پر لوگ اپنی اپنی‬
‫زندگی میں مصروف ہیں اور ان سے اگر مشرقی پاکستان کی بات کرو تو وہ کہتے ہیں کہ چھوڑیں جی کوئی اور بات‬
‫کریں۔ اب میں نے اور زیادہ شراب پینا شروع کر دی۔‬
‫فرزانہ وہی ٹھہرا جو پاگل ہو گیا‬
‫میں دن میں کم از کم ایک بوتل پی جاتا۔ میں نے کھانا بھی چھوڑ دیا۔ اب میری حالت اور بدتر ہونا شروع ہو گئی اور‬
‫میں آہستہ آہستہ دیوانگی کی حدود میں داخل ہوگیا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ہی دنیا کا اہم ترین انسان ہوں جس نے پوری‬
‫دنیا کو بچانا ہے۔ میں اپنی خیالی دنیا ہی میں رہتا تھا۔‬
‫میری جو دفتری خط و کتابت ہوتی تھی اس میں مجھے خفیہ پیغام نظر آنا شروع ہو گئے۔ مجھے لگتا تھا کہ ٹی وی‬
‫اور ریڈیو مجھ سے مخاطب ہیں۔ پوری دنیا مجھ سے مخاطب ہے۔ تو اس طرح میں نے دو سال دنیا پر حکومت کر کے‬
‫دیکھا۔ یہ میری بیوی اور بچوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ وقت تھا۔ لیکن کیونکہ میں فطرتا ً تشدد کو پسند نہیں کرتا تھا‬
‫اس لیے میری یہ کیفیت لوگوں پر ظاہر نہ ہوئی۔ بچوں کے ساتھ میں بالکل ٹھیک تھا اور پیار کرتا تھا لیکن آہستہ آہستہ‬
‫میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا گیا کیونکہ مجھے اپنے خیالی ساتھیوں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا جبکہ‬
‫میرے خیال میں آدھی دنیا میرے ساتھ تھی۔ میں اپنی ٹو ٹو رائفل لے کر روسی سفارتخانے کے باہر چال گیا جہاں باہر‬
‫بیٹھے ایک کوے کو میں نے فائر کرکے مار دیا۔ یہ میرا خفیہ سگنل تھا کہ چلو باہر نکلو اور پیپلز ری پبلک کا اعالن‬
‫کرو۔ لیکن انھوں نے بھی اس پاگل پر کوئی توجہ نہیں دی۔ باآلخر مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔ میں ہسپتال میں تقریبا ً چار‬
‫مہینے رہا۔ اس طرح کے حاالت میں آپ کا عہدہ واپس لے لیا جاتا ہے لیکن انہوں نے اس طرح نہیں کیا اور میں کرنل‬
‫ہی رہا۔‬
‫پھر جب ہ وش آیا تو یاد آیا کہ میں نے کس طرح خیالی چیزوں کا تصور کرنا شروع کیا تھا۔ پھر مجھے وہ خط بھی یاد‬
‫آیا جو مجھے ڈھاکا کے انٹر کانٹی نینٹل میں مال تھا۔ وہ کال اور مایا کا جو گھیرا تھا وہ مجھے نظر آنا شروع ہوگیا۔‬
‫ڈاکٹر کو میں نے کہانی سنائی تو اس نے کہا کہ میں نے کبھی ایسا مریض نہیں دیکھا جس کو کہانی کا پتہ بھی ہے اور‬
‫پھر بھی وہ پاگل ہو گیا۔ میں نے کہا کہ مجھے وہ کہانی تو اب یاد آئی ہے۔‬
‫گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے‬
‫اس دوران میرے ساتھ ایک سانحہ یہ ہوا کہ میرے والد مجھے دیکھنے ہسپتال آئے تو میری حالت بہت خراب تھی۔ میں‬
‫اپنی یادداشت کھو چکا تھا اور میرا منہ کھال رہتا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ گاؤں گئے۔ رات کو سونے لیٹے اور پھر کبھی‬
‫نہ اٹھے۔ مجھے ڈاکٹر نے کہا کہ تم اپنی ایک نئی سویلین زندگی شروع کرو۔ فوج میں تو کوئی تمھیں ترقی نہیں دے‬
‫گا۔ سو میں نے ریٹائرمنٹ لے لی۔‬
‫ا س کے بعد بھی میں کافی عرصے تک دیوانگی کی سرحد کے آس پاس ہی رہتا تھا لیکن کچھ اچھے لوگوں کا ساتھ مل‬
‫گیا جن کی وجہ سے میں بچا رہا۔ میں نے اپنے ذہنی انتشار کے بارے میں بہت سوچا اور مجھے یہی سمجھ آیا کہ یہ‬
‫کسی احساس جرم کا نتیجہ تھا۔ اب میں پنجابی میں کہانیاں اور نظمیں لکھتا ہوں جن میں غیر شعوری طور پر بنگال‬
‫کے تجربات اور واقعات کا ذکر ہوتا ہے۔ واپس بنگلہ دیش جانے کا بھی سوچتا ہوں۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟‬

‫‪https://www.bbc.com/urdu/india-‬‬
‫‪59139620?at_medium=custom7&at_custom2=twitter&at_campaign=64&at_custom4=A37F67DC-5C94-‬‬
‫‪11EC-8E46-59550EDC252D&at_custom1=%5Bpost+type%5D&at_custom3=BBC+Urdu‬‬

‫شیخ مجیب کے چھ نکات‪’ :‬انڈین سازش‘ کہالئے جانے‬


‫والے چھ نکات جنھیں نظر انداز کرنے سے ’معامالت ہاتھ‬
‫سے نکل گئے‘‬
‫فاروق عادل‬ ‫‪‬‬
‫مصنف‪ ،‬کالم نگار‬ ‫‪‬‬

‫‪ 7‬فروری ‪2021‬‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫یہ تحریر پہلی مرتبہ فروری ‪ 2021‬میں شائع کی گئی تھی اور قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اسے دوبارہ پیش کیا‬
‫جا رہا ہے۔‬
‫’الشالم علیکم‪ ،‬ریشپیکٹیڈ لیڈرز!‘‬
‫شیخ مجیب الرحمٰ ن نے بھاری آواز میں مخاطب کیا تو حاضرین مجلس چوکنا ہو گئے۔ شیخ صاحب نے دائیں بائیں نگاہ‬
‫گھما کر جلیل القدر سامعین کو دیکھا اور فائل کھولتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫’ میری عرض داشت کا مقصد پاکستان کے دونوں حصوں کو ایک ہی سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رکھنے کی‬
‫سنجیدہ کوشش ہے۔‘‬
‫پہلے سے متوجہ کان مزید متوجہ ہو گئے۔ شیخ صاحب نے یہ کہا اور ایک مسودہ نیشنل کانفرنس کی ’مجلس‬
‫موضوعات‘ (سبجیکٹ کمیٹی) کے سپرد کر دیا۔ مجلس نے دستاویز بصد شکریہ وصول کی اور مشکل میں پڑ گئی۔‬
‫یہ اس زمانے کی بات ہے جب معاہدہ تاشقند ہو چکا تھا اور اس معاہدے کے ردعمل میں ہونے والے احتجاجی‬
‫مظاہروں پر تشدد کے نتیجے میں کئی جانوں کا نقصان بھی۔‬
‫اب حزب اختالف اس فکر میں تھی کہ ملک کے دونوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) صوبوں کی اپوزیشن پارٹیوں کو‬
‫ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے کوئی ایسی حکمت عملی وضع کی جائے کہ معاہدہ تاشقند کے ذریعے (ان کے خیال‬
‫میں) جیتی ہ وئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر ہار دینے والی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔‬
‫اس مقصد کے لیے ایک غیر معمولی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے دونوں حصوں سے تعلق رکھنے‬
‫والی حزب اختالف کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا۔‬
‫یہ سبجیکٹ کمیٹی اسی کانفرنس میں ایجنڈے کے تعین کے لیے بیٹھی تھی‪ ،‬لیکن شیخ مجیب کی جمع کی ہوئی ایک‬
‫دستاویز سے وہاں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔‬
‫یہ سبجیکٹ کمیٹی معمولی لوگوں پر مشتمل نہ تھی۔ اس میں پاکستانی سیاست اور تاریخ کے چند ایسے ممتاز سیاست‬
‫داں شامل تھے جن کا نام نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود احترام سے لیا جاتا ہے۔‬
‫اس کمیٹی کے ارکان میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور اس زمانے کی ایک بڑی سیاسی جماعت نظام اسالم پارٹی‬
‫کے سربراہ چوہدری محمد علی‪ ،‬مشرقی اور مغربی پاکستان کی مقبول جماعت عوامی لیگ کے سربراہ نواب زادہ‬
‫ابواالعلی مودودی‪ ،‬مشرقی پاکستان کے مولوی فرید احمد‪ ،‬سردار‬
‫ٰ‬ ‫نصرہللا خان‪ ،‬جماعت اسالمی کے امیر موالنا سید‬
‫یحیی بختیار‪ ،‬خواجہ محمد رفیق (خواجہ سعد رفیق کے والد) اور جنرل‬ ‫ٰ‬ ‫شوکت حیات‪ ،‬موالنا عبدالستار خان نیازی‪،‬‬
‫اعظم خان شامل تھے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪NAWAE WAQT‬‬


‫نیشنل کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی جس میں شیخ مجیب الرحمٰ ن نے چھ نکات پر مشتمل اپنی تجاویز پیش کیں‪ ،‬تصویر‬
‫میں شیخ صاحب کے عالوہ کمیٹی کے اراکین نواب زادہ نصرہللا خان‪ ،‬موالنا مودودی اور دیگر موجود ہیں۔ تصویر‬
‫نوائے وقت فائل‪ ،‬نیشنل الئبریری آف پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‬
‫اعلی ترین دماغوں نے کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کے لیے شیخ‬ ‫ٰ‬ ‫ملک کے ان سینیئر سیاست دانوں اور‬
‫مجیب الرحمٰ ن کی طرف سے پیش کی جانے والی دستاویز کا مطالعہ کیا اور متفقہ فیصلہ کیا انھیں ایجنڈے میں شامل‬
‫نہیں کیا جا سکتا۔‬
‫سبجیکٹ کمیٹی کا کام کانفرنس کی قراردادوں اور مشترکہ اعالمیے کی تیاری تھی۔ ایک راستہ یہ ہو سکتا تھا کہ اس‬
‫مسودے میں پیش کی گئی تجاویز کو ایجنڈے اور حتمی دستاویزات کا حصہ نہ بنایا جاتا‪ ،‬اِن پر صرف غور کر لیا‬
‫جائے لیکن سبجیکٹ کمیٹی نے مسودے کو غور کے لیے بھی پیش کرنے کی اجازت نہ دی۔‬
‫شیخ مجیب نے اپنی تجا ویز کے سلسلے میں ایسے بے لچک اور غیر مفاہمانہ طرز عمل کو دیکھتے ہوئے کانفرنس کا‬
‫بائیکاٹ کر دیا اور ڈھاکہ واپس جا کر ایک بیان میں کہا‪’ :‬اپوزیشن لیڈروں کے ایک ٹولے نے میری تجاویز کو پیش ہی‬
‫نہیں ہونے دیا۔‘‬
‫اس ٹولے میں دوسروں کے عالوہ (ان کی اپنی جماعت کے مرکزی رہنما) نواب زادہ نصرہللا خان بھی شامل تھے۔‬
‫شیخ مجیب نے مخالفت کرنے والے گروہ کو بھی بے نقاب کرنے کے عالوہ کئی چونکا دینے والی باتیں اور بھی کہیں۔‬
‫شیخ صاحب کا یہی بیان ہے جس سے پہلی بار معلوم ہوا کہ انھوں نے نیشنل کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی میں جو‬
‫دستاویز جم ع کرائی تھی‪ ،‬وہ چھ نکات پر مشتمل تھیں اور بقول شیخ مجیب کے وہ نیشنل کانفرنس میں شرکت پر آمادہ‬
‫ہی اس شرط پر ہوئے تھے کہ ان کی تجاویز پر غور کیا جائے گا لیکن ان کے ساتھ بدعہدی کی گئی۔‬
‫یہ تجاویز کیا تھیں اور حزب اختالف کیوں ان پر غور کرنے پر آمادہ نہیں تھی‪ ،‬اور کانفرنس کے دوران ہی جب شیخ‬
‫مجیب الرحمٰ ن اور مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان کے عوامی لیگ کے ساتھیوں نے کانفرنس کا بائیکاٹ‬
‫کیا‪ ،‬تو ان تجاویز کی سن گن ہونے لگی اور بعض اخبارات نے دو روزہ کانفرنس کے اختتام کے چند روز کے بعد اس‬
‫کے کچھ نکات شائع کیے جبکہ اخبار ’نوائے وقت‘ نے اپنے ایک اداریے میں اشارتا ً ان کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا‪:‬‬
‫بجنسہ قبول‬
‫ٖ‬ ‫’ایک مکتبہ فکر کی طرف سے کچھ ایسے خیاالت ظاہر کیے گئے جنھیں قومی اور ملی نکتہ نظر سے‬
‫کرنا ناممکن ہی نہیں بلکہ ناقابل تصور بھی ہے۔‘‬
‫اخبار نے مزید لکھا کہ ایسی تجاو یز کے جو نتائج ہو سکتے ہیں‪ ،‬انھیں نظر انداز کر دینا کوتاہ اندیشی ہو گی۔‬
‫حتی کہ الہور میں دیے گئے انٹرویو کے باوجود نہ‬ ‫شیخ مجیب کی تجاویز کیا تھیں‪ ،‬ان کا بھرپور اندازہ ان تبصروں‪ٰ ،‬‬
‫ہو سکا۔ حیرت انگیز طور پر شیخ مجیب کا یہ انٹرویو بھی اُن کی تجاویز پر تنقید کرنے والے روزنامے ’نوائے وقت‘‬
‫ہی میں شائع ہوا۔ اپنے اس انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا‪:‬‬
‫’عالقائی خود مختاری کی اہمیت اور افادیت کو حالیہ (ستمبر ‪ 1965‬کی) جنگ نے واضح کر دیا ہے کیوں کہ اس‬
‫دوران دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ کٹ گیا تھا۔ ایسی صورت حال میں یہ ممکن نہیں رہتا کہ مرکز ایک صوبے پر‬
‫کنٹرول کر سکے لیکن یہ مشرقی پاکستان کے عوام کی حب الوطنی ہے کہ اس دوران میں انھوں نے ملک کی وحدت‬
‫پر کوئی آنچ نہ آنے دی۔ ہمیں قومی اتحاد اور سالمیت کو برقرار رکھنا ہے لیکن یہ مقصد صحیح جمہوری حکومت اور‬
‫عالقائی خود مختاری سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‬
‫شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ صوبائی خود مختاری اس لیے بھی ضروری ہے تا کہ صوبوں کی اقتصادی ترقی میں‬
‫یکسانیت پیدا ہو سکے۔‬
‫انھوں نے کہا کہ مشرقی پاکستان کی آبادی پانچ کروڑ ہے‪ ،‬اس لیے ملک کے دفاع میں بھی اس کا حصہ آبادی کے‬
‫تناسب سے ہونا چاہیے‪ ،‬اس طرح ملک کا اتحاد مضبوط ہو گا‪ ،‬کمزور نہیں۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪NATIONAL LIBRARY OF PAKISTAN‬‬
‫‪ 12‬فروری ‪1966‬ء کو شائع ہونے والے شیخ مجیب الرحمٰ ن کا بیان جس سے پہلی بار معلوم ہوا کہ شیخ مجیب نے نیشنل‬
‫کانفرنس میں جو تجاویز پیش کی تھیں‪ ،‬وہ چھ نکات پر مشتمل تھیں‪ ،‬اسی وجہ سے ان نکات کا نام چھ نکات پڑا۔ تصویر‬
‫نوائے وقت فائل‪ ،‬نیشنل الئبریری آف پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‬
‫ان خبروں اور تبصروں کے ذریعے شیخ صاحب کی تجاویز کا کسی قدر اندازہ تو ہو گیا لیکن ان کی حقیقی تصویر‬
‫پہلی بار اس وقت سامنے آئی جب 'نوائے وقت' نے ‪ 14‬فروری ‪1966‬ء کو اپنے ایک نوٹ کے ساتھ ان کا ترجمہ‬
‫ادارتی صفحے پر شائع کیا۔‬
‫شیخ مجیب کے پیش کردہ چھ نکات تھے کیا؟‬
‫شیخ صاحب نے اپنے ان نکات میں کہا تھا کہ ‪ 1965‬میں انڈیا کے ساتھ سترہ روزہ جنگ کے نتیجے میں جو تجربہ‬
‫حاصل ہوا ہے اس کی روشنی میں ملک کے آئینی ڈھانچے کی تشکیل پر نظر ثانی ضروری معلوم ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے‪:‬‬

‫آئین میں حقیقی معنوں میں قرارداد الہور کی بنیاد پر پاکستان کے ایک وفاق کا اہتمام ہونا چاہیے۔ نظام حکومت‬ ‫‪‬‬
‫پارلیمانی ہونا چاہیے‪ ،‬براہ راست طریقہ انتخاب اور عام بالغ دہی کی اساس پر منتخب قانون ساز اداروں کو‬
‫پوری فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔‬
‫وفاقی حکومت کا تعلق صرف دو امور یعنی دفاع اور امور خارجہ سے ہونا چاہیے۔ باقی سب امور وفاق کو‬ ‫‪‬‬
‫تشکیل دینے والی ریاستوں کی تحویل میں ہونے چاہییں۔‬
‫نظام زر اور کرنسی کے بارے میں حسب ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کی جا سکتی‬ ‫‪‬‬
‫ہے۔ اول‪ :‬دو علیحدہ اور پوری آزادی سے قابل مبادلہ نظام ہائے زر رائج کیے جائیں۔ دوئم‪ :‬ملک بھر کے لیے‬
‫ایک ہی نظام زر رکھا جائے‪ ،‬اس صورت میں آئین میں مؤثر اہتمام کیا جائے تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان‬
‫سے سرمائے کے فرار کو روکا جاسکے۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریزرو قائم کیا جائے اور‬
‫علیحدہ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔‬
‫وفاق کی تشکیل کرنے والی ریاستوں کو ہی ٹیکس وصول کرنے اور محاصل حاصل کرنے کا تمام تر اختیار‬ ‫‪‬‬
‫ہو گا‪ ،‬البتہ اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریاستوں کے ٹیکسوں سے اسے حصہ ملے گا اور‬
‫مجموعی وفاقی فنڈ کے قیام کے لیے ریاستوں کے تمام ٹیکسوں پر طے شدہ شرح سے اضافی محصول عائد‬
‫کیا جا سکے گا۔‬
‫بیرونی تجارت کے سلسلہ میں‪ :‬الف۔ وفاق کی تشکیل کرنے والی ہر ریاست کے لیے خارجہ تجارت کا علیحدہ‬ ‫‪‬‬
‫حساب رکھا جائے گا۔ ب‪ :‬خارجہ تجارت سے جو زرمبادلہ حاصل ہوگا‪ ،‬وہ ریاستوں کی تحویل میں رہے گا۔‬
‫ج‪ :‬وفاقی حکومت کی زرمبادلہ کی ضروریات دونوں ریاستوں(مشرقی اور مغربی پاکستان) کی طرف سے‬
‫مساوی طور پر یا کسی متفق علیہ شرح سے پوری کی جائیں گی۔ د‪ :‬دونوں ریاستوں سے مقامی اشیا کی کسی‬
‫ٹیکس یا محصول کی پابندی کے بغیر نقل و حمل ہو سکے گی۔ ہ‪ :‬ریاستوں (صوبوں) کو آئین کے ذریعے اس‬
‫امر کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ دوسرے ملکوں میں اپنے تجارتی نمائندے مقرر کر سکیں جو اپنی ریاست‬
‫کے مفاد میں سودے کر سکیں۔‬
‫آئین کے تحت ریاستوں کو نیم فوجی یا عالقائی فوجی دستے قائم کرنے اور انھیں برقرار رکھنے کی اجازت‬ ‫‪‬‬
‫ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی عالقائی سالمیت کے ساتھ آئین کا تحفظ بھی کر سکیں۔‬

‫حزب اختالف کی نیشنل کانفرنس میں ان نکات کے پیش ہونے کے بعد بند کمروں میں جو طوفان اٹھا ہو گا‪ ،‬اس کے‬
‫آثار اور چنگاریاں کسی قدر باہر بھی آئیں جن پر تبصرہ کرتے ہوئے ’نوائے وقت نے لکھا کہ قومی مسائل کا ایسا‬
‫عالج تجویز کیا گیا ہے جس سے مرض کا تو نہیں مریض ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‬
‫کچھ اسی قسم کے تبصرے حزب اختالف کی قیادت کی طرف سے بھی سامنے آئے۔ مشرقی پاکستان کونسل مسلم لیگ‬
‫کے سربراہ ایم شفیق االسالم نے ڈھاکہ میں کہا کہ اگر شیخ مجیب کے چھ نکات تسلیم کر لیے گئے تو اس سے ملک‬
‫میں انتشار اور عدم استحکام پیدا ہو گا۔‬
‫کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی کے رکن اور امیر جماعت اسالمی موالنا مودودی نے ڈھاکا میں ایک اجتماع سے خطاب‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ہم ایسی صوبائی خود مختاری کے حامی ہیں‬
‫جس سے ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ نہ آئے۔‬
‫ایوب خان نے جو حزب اختالف کی قومی کانفرنس کا اصل ہدف تھے‪ ،‬کانفرنس کے بارے میں کہا کہ وہ کوئی متبادل‬
‫پروگرام پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ چھ نکات کا ذکر کیے بغیر انھوں نے انھیں ملک میں انتشار پیدا کرنے کا ذریعہ‬
‫اور قومی یک جہتی کے خالف سازش قرار دیا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪NAWAE WAQT‬‬


‫حزب اختالف کی قومی کانفرنس نے شیخ مجیب کی ان تجاویز کو نظر انداز کیوں کر دیا تھا‪ ،‬اس کا سبب ایوب خان‬
‫کے اس بیان میں دیکھا جا سکتا ہے۔‬

‫ممتاز صحافی اور روزنامہ 'پاکستان' کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمٰ ن شامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن راہ نما خطرہ محسوس‬
‫کرتے تھے کہ اگر ان کے پلیٹ فارم سے یہ تجاویز سامنے آ گئیں تو اس کے نتیجے میں ایوب خان انھیں علیحدگی‬
‫پسند اور علیحدگی پسندوں کا ساتھی قرار دے کر پوری حزب اختالف پر چڑھ دوڑیں گے‪ ،‬اس طرح ایوب آمریت کے‬
‫خالف ان کی تحریک ایک متنازع معاملے کی وجہ سے دم توڑ جائے گی۔‬

‫شیخ مجیب کے چھ نکات کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا‬


‫ایوب خان حکومت نے کانفرنس میں کی جانے والے تقریروں کی اخبارات میں اشاعت پر ڈیفنس رولز آف پاکستان کے‬
‫آمرانہ قانون کے تحت پابندی عائد کر دی تھی لیکن کئی روز گزرنے کے بعد بعض اخبارات نے ان تقریروں کے اہم‬
‫نکات اپنے خبری صفحات پر شائع کر دیے۔‬
‫ان تقریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کانفرنس کے دوران شیخ مجیب الرحمٰ ن کی تجاویز حزب اختالف کی‬
‫قیادت کے اعصاب پر سوار رہیں۔‬
‫سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کو دفاع میں خود کفیل بنانا‬
‫ضروری ہے۔‬
‫عبدالباقی بلوچ نے مشرقی پاکستان میں اسلحہ کے کارخانے قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے فوج میں بھرتی کے‬
‫معیار پر تنقید کی کہ چھوٹا قد بھرتی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‬
‫جماعت اسالمی مشرقی پاکستان کے امیر ابوالکالم محمد یوسف نے مطالبہ کیا کہ مشرقی پاکستان میں فوجی اکیڈمی قائم‬
‫کی جائے اور دینی مدارس کے طلبہ کو بھی فوجی تربیت دی جائے۔‬
‫شیخ مجیب کے چھ نکات کا جادو اتنا سر پر چڑھ کر بول رہا تھا کہ کانفرنس کے دوران ہی فیصلہ کیا گیا کہ کانفرنس‬
‫کے فورا ً بعد حزب اختالف کے قائدین عوام کو چھ نکات کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے مشرقی پاکستان جائیں‬
‫گے۔‬
‫اس مقصد کے لیے ایک چھ رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی جس میں چوہدری محمد علی‪ ،‬موالنا مودودی‪ ،‬نواب زادہ‬
‫نصرہللا خان‪ ،‬سید محمد افضل (کونسل مسلم لیگ) اور ایم انور ایڈوکیٹ شامل تھے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪NAWAE WAQT‬‬


‫کانفرنس کے چند ہی روز کے بعد موالنا مودودی مشرقی پاکستان کے ‪ 12‬روزہ دورے پر روانہ ہو گئے جبکہ نواب‬
‫زادہ نصرہللا خان اور دیگر قائدین روانہ ہونے ہی والے تھے کہ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔‬
‫چھ نکات کے خالف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مشرقی پاکستان جانے والی قیادت کی گرفتاری حیران کن‬
‫تھی۔‬
‫موالنا مودودی اور چوہدری محمد علی گرفتاریوں سے پہلے ہی مشرقی پاکستان روانہ ہو چکے تھے‪ ،‬اس لیے وہ‬
‫گرفتاری سے تو بچ گئے لیکن ان کی آمد پر مشرقی پاکستان کے گورنر نے بیان دیا کہ عوام مغربی پاکستان سے آنے‬
‫والے شرپسندوں سے ہوشیار رہیں۔‬
‫الطاف حسن قریشی نے 'اردو ڈائجسٹ' میں ’چھ نکات کی سچی تصویر‘ کے عنوان سے ان واقعات پر تبصرہ کرتے‬
‫ہوئے لکھا کہ جن شخصیتوں کو شیخ صاحب گھائل کرنا چاہتے تھے‪ ،‬ان ہی پر حکومت کی طرف سے تیر چال اور‬
‫اگر حکو مت کی طرف سے بیان بازی شروع نہ ہو جاتی تو چوہدری محمد علی اور موالنا مودودی کم از کم چھ نکات‬
‫کی حد تک شیخ مجیب الرحمٰ ن کے سامنے ایک بند ثابت ہوتے۔‬
‫اس زمانے کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں چھ نکات کو مشرقی پاکستان میں‬
‫بھی زیادہ پذیرائی نہ مل سکی کیونکہ مشرقی پاکستان کی قیادت کی طرف سے بھی انھیں مسترد کیا گیا تھا۔‬
‫لیکن عین اسی زمانے میں جب مغربی پاکستان میں حزب اختالف کی قیادت کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی‪ ،‬مشرقی‬
‫پاکستان عوامی لیگ کی مجلس عاملہ نے ان نکات کی حمایت کر دی اور اس کے بعد منظر بدلتا چال گیا اور عوامی‬
‫لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔‬
‫مشرقی پاکستان عوامی لیگ چھ نکاتی گروپ کہالیا جب کہ نواب زادہ نصرہللا خان کا گروپ آٹھ نکاتی کہالیا اور اس‬
‫تقسیم نے حزب اختالف کی قوت کو بے پناہ ضعف پہنچایا۔‬
‫اس سے قبل الہور کانفرنس میں چھ نکات پیش کرنے کی اجازت نہ ملنے پر مشرقی پاکستان کے اخبارات تند و تیز‬
‫خبریں شائع کر کے ایک خاص ماحول بنا چکے تھے‪ ،‬ان خبروں کا جائزہ چھ نکات کے موضوع اور اس پر مشرقی‬
‫پاکستان کے ردعمل کو سمجھنے میں ٰ‬
‫بڑی مدد دیتا ہے ۔‬
‫روزنامہ ’اتفاق‘ کی سرخی تھی‪:‬‬
‫'مشرقی پاکستان کے پانچ کروڑ عوام کے خالف سازش'‬
‫' ڈینک پاکستان ' کی سرخی تھی‪:‬‬
‫'الہور کے حزب اختالف ٹولے نے ہمارے ساتھ غداری کی‪ :‬شیخ مجیب‘‬
‫مشرقی پاکستان کے دیگر بڑے اخبارات کا رویہ بھی اسی قسم کا تھا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫چھ نکات کس کی تصنیف تھے؟‬
‫چھ نکات کے خالف مضبوط موقف اختیار کرنے والے سیاسی قائدین کے خالف ریاستی کارروائیوں سے عمومی توجہ‬
‫حکومت کی طرف ہی گئی۔‬
‫چوہدری محمد علی کی نظام اسالم پارٹی کے مرکزی رہنما رانا نذر الرحمٰ ن نے اپنی سرگزشت ’صبح کرنا شام کا‘ میں‬
‫بھی کچھ ایسے انکشافات کیے ہیں جن سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے۔‬
‫رانا نذر الرحمٰ ن نے لکھا ہے کہ وہ حزب اختالف کی نیشنل کانفرنس میں شریک تھے اور شیخ مجیب کی آمد اور‬
‫واپسی کے دونوں مناظر انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ان کے دعوے کے مطابق شیخ صاحب مسلم کمرشمل‬
‫بینک کی گاڑی میں آئے تھے اور ان کی واپسی محمکہ اطالعات حکومت پاکستان کی گاڑی میں ہوئی تھی۔‬
‫ان کے مطابق کہا جاتا تھا کہ یہ چھ نکات ایوب خان کے سیکریٹری اطالعات الطاف گوہر کے ذہن کی پیدا وار تھے‬
‫تاکہ حزب اختالف کی صفوں میں شگاف ڈاال جا سکے۔‬
‫شعبہ ابالغ عامہ جامعہ کراچی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر طاہر مسعود نے مجھے بتایا کہ جن دنوں وہ کورٹ رپورٹنگ‬
‫کرتے تھے‪ ،‬ان ہی دنوں عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ان کے مطابق ایک صحافی نے الطاف گوہر کے‬
‫بارے میں یہی بات لکھ دی جس پر انھوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔‬
‫صحافی اپنا الزام ثابت نہ کرسکے‪ ،‬لہٰ ذا عدالت نے فیصلہ ان کے خالف دے دیا‪ ،‬صحافی پر ‪ 80‬ہزار روپے جرمانہ‬
‫بھی ہوا۔‬
‫مجیب الرحمٰ ن شامی بھی الطاف گوہر والی کہانی کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰ ن کو الطاف‬
‫گوہر یا مغربی پاکستان کے کسی دانشور کی ضرورت ہی نہ تھی کیوں کہ مشرقی پاکستان میں ایسی صالحیت رکھنے‬
‫والے لوگوں کی کمی نہ تھی۔‬
‫چھ نکات کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ معروف بنگالی بیوروکریٹ رحمٰ ن سبحان یا بنگالی اکانومسٹ نذراالسالم‬
‫کی تصنیف ہو سکتے ہیں۔‬
‫چھ نکات کیا زہر قاتل تھے اور اسی طرح پھینک دینے کے قابل تھے جیسے حزب اختالف نے انھیں پھینکا؟‬
‫مجیب الرحمٰ ن شام ی کہتے ہیں کہ اس وقت کی صورت حال کے مطابق عمومی خیال یہی تھا کہ ان تجاویز کے پیچھے‬
‫انڈیا کا ذہن کام کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جس کی وجہ سے توجہ کسی اور طرف جا ہی نہ سکی۔‬
‫چھ نکات پر عالمی ردعمل سے حزب اختالف مزید محتاط ہوا‬
‫حزب اختالف کی یہ پریشانی قابل فہم لگتی ہے کیوں کہ ان نکات کے بارے میں عالمی پریس‪ ،‬خاص طور پر انڈین‬
‫اخبارات کے رویے نے انھیں محتاط کر دیا ہو گا۔‬
‫کلکتہ کے ’سٹیٹس مین‘ نے ان دنوں لکھا کہ حکومت پاکستان مشرقی پاکستان میں خود مختاری کی ابھرتی ہوئی‬
‫تحریک کو کبھی دبا نہ سکے گی۔ کلکتہ ہی کے ایک اور اخبار 'کمپاس' نے شیخ مجیب الرحمٰ ن کے بارے میں لکھا‪:‬‬
‫'مشرقی پاکستان کا محبوب ترین جواں سال قائد'‬
‫چھ نکات کے بارے میں لندن ٹائمز کی سرخی تھی‪:‬‬
‫' مشرقی پاکستان میں طوفان کا سگنل'‬
‫دنیا کے بڑے اخبارات و جرائد جن میں اکانومسٹ‪ ،‬نیویارک ٹائمز‪ ،‬لی مونڈ اور ہیرالڈ ٹریبیون شامل ہیں‪ ،‬چھ نکات کی‬
‫تجاویز پر اداریے تحریر کیے‪ ،‬ظاہر ہے کہ چھ نکات کی ایسی غیر معمولی کوریج کسی کو بھی الجھن میں مبتال کر‬
‫سکتی تھی۔‬
‫شامی صاحب کا خیال ہے کہ اگر الہور کانفرنس میں ان نکات پر غور کر لیا جاتا تو یہ حکمت عملی بارگیننگ چپ بن‬
‫جاتی جس کی مدد سے شیخ مجیب الرحمٰ ن کے ساتھ معامالت طے کرنے نسبتا ً آسان ہو جاتے لیکن اس معاندانہ رویے‬
‫کے بعد جب انھوں نے ‪ 1970‬کے انتخابات ہی چھ نکات کے نعرے پر لڑے تو انھیں اس پر عوام کا بھرپور مینڈیٹ‬
‫مل گیا‪ ،‬یوں معامالت ہاتھ سے نکل گئے۔‬
‫انتخابات کے بعد بھٹو صاحب نے حکومت سازی کے لیے شیخ صاحب سے مذاکرات ضرور کیے لیکن اس وقت تک‬
‫بہت دیر ہو چکی تھی۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55966938‬‬

‫سقوط ڈھاکہ‪’ :‬جب اطالعات کا بہاؤ رک گیا اور مغربی‬


‫پاکستان والوں نے کہا‪ ،‬شیخ مجیب غدار ہے‘‬
‫فاروق عادل‬ ‫‪‬‬
‫مصنف‪ ،‬کالم نگار‬ ‫‪‬‬

‫‪ 13‬دسمبر ‪2021‬‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫’ٹیلی پرنٹر ٹک ٹک کرتا بے تکان چلے اور اس کا دہانہ کریڈ اُگلے جا رہا تھا‪ ،‬کپڑے کے تھان کی طرح جس کی تہہ‬
‫زمین سے لگتی جاتی تھی۔ نیوز روم کے ہر چھوٹے کی طرح میں اٹھا اور کریڈ پھاڑ کر اسے میز کر کنارے پر رکھ‬
‫کر خبروں کے حساب سے کاٹنے لگا۔ اسی دوران میں تین سطروں کی ایک خبر پر نگاہ پڑی۔ میرے منھ سے‬
‫سسکاری نکلی اور ہاتھ پاؤں سن ہو کر رہ گئے۔ وہ خبر میں نے نیوز ایڈیٹر کے سامنے رکھی‪ ،‬ایک نگاہ انھوں نے‬
‫اس پر ڈالی اور سر جھک ا لیا۔ میں جہاں کھڑا تھا‪ ،‬وہیں (زمین پر) بیٹھ گیا۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور‬
‫میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کیفیت میں کوئی مجھے دیکھے۔‘‬
‫جب جب سقوط ڈھاکہ کی یاد منانے کے لیے لوگ کراچی یونین آف جرنلسٹس کے دفتر میں اکٹھے ہوئے تو اکثر‬
‫صحافی ادریس بختیار عینک اتار کر بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے دائرے میں رکھ کر اور نہایت‬
‫دھیمی لیکن دکھی آواز میں یہ واقعہ دہرایا کرتے تھے۔‬
‫وہ پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) کا نیوز روم تھا جہاں ادریس بختیار اپنے کیریئر کے ابتدائی دنوں میں کام‬
‫کرتے تھے اور تین س طری خبر تھی‪ ،‬لیفٹیننٹ جنرل امیر عبدہللا خان نیازی اور لیفٹینٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے‬
‫درمیان اس دستاویز پر دستخط کی جس کے تحت پہلے جرنیل نے دوسرے جرنیل کے سامنے پستول رکھا اور اپنے‬
‫زیر کمان عالقہ اس کے حوالے کر دیا۔‬
‫سیاسی اور صحافتی زبان میں اس معاہدے کو سقوط ڈھاکہ یا سقوط مشرقی پاکستان کی دستاویز کا نام دیا گیا۔‬
‫ادریس بختیار‪ ،‬جن کی حال ہی میں موت ہوئی ہے‪ ،‬اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’پاکستانی عوام کے‬
‫سامنے یہ خبر کس الفاظ میں جائے گی‪ ،‬اس سے بے نیاز میں آنسو بہاتا جاتا تھا اور وہ شخص (نیوز ایڈیٹر)‪ ،‬ہر خبر‬
‫کریڈ ہونے سے پہلے جس کے اشارہ ابرو کی محتاج ہوتی تھی‪ ،‬ہاتھ پہ ہاتھ دھرے یوں بیٹھا تھا جیسے اسے اب کوئی‬
‫کام ہی نہیں کرنا۔‘‬
‫پھر یہ خبر کس انداز میں عوام کے سامنے گئی‪ ،‬یہ راز بزرگ صحافی اور اپنے زمانے کے مقبول انگریزی اخبار‬
‫اعلی حسین نقی نے کھوال۔‬‫ٰ‬ ‫’پنجاب پنچ' کے مدیر‬
‫حسین نقی پاکستانی صحافت کی چند نمایاں ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کے ستر کی دہائی کے بحرانی حاالت‬
‫کی کلیدی شخصیات یعنی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰ ن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو‬
‫سے بے تکلفی کی حد تک ذاتی تعلقات تھے۔‬
‫سنہ ‪ 1970‬کے انتخابات کے بعد آئین سازی کے سلسلے میں شیخ مجیب سے ابتدائی بات چیت کے لیے ذوالفقار علی‬
‫بھٹو ڈھاکہ پہنچے تو اس موقع پر اپنے انگریزی اخبار 'سن' کی طرف سے وہ بھی ڈھاکہ گئے۔‬
‫بات چیت کے بعد چائے پر صحافیوں سے بات چیت کے موقع شیخ مجیب الرحمٰ ن نے انھیں دیکھا تو اردو میں کہا‪:‬‬
‫’اشے دو رش گلے اور چائے دو‪ ،‬کیوں کہ یہ میرا دوست بھی ہے اور دشمن بھی۔‘‬
‫حسین نقی کے بے الگ تجزیوں پر شیخ مجیب الرحمٰ ن کی طرف سے یہ دوستانہ قسم کی رسید یا احتجاج تھا۔‬
‫حسین نقی نے میرے سوال پر بتایا‪’ :‬سقوط ڈھاکہ کی خبر جب مغربی پاکستان میں لینڈ ہوئی تو سرکاری ذرائع ابالغ‬
‫کے لیے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا کہ اسے کس طریقے سے نشر کیا جائے؟ اس موقع پر ریڈیو پاکستان کے ایک بہت‬
‫بڑے افسر جن کا نام میں اس وقت بھولتا ہوں‪ ،‬بروئے کار آئے اور انھوں نے سرکاری میڈیا پر کام کرنے کے اپنے‬
‫دیرینہ تجرب ے کے زور پر اس خبر کو ایسا جامہ پہنایا جس پر وہ تادیر کریڈٹ لیتے رہے کہ دیکھا‪ ،‬بات بھی کہہ دی‬
‫اور کسی کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آیا۔‘‬
‫انھوں نے اپنے وقت کی سب سے بڑی یعنی سقوط ڈھاکہ کی خبر کو اس قسم کے الفاظ عطا کیے‪’ :‬دو مقامی کمانڈروں‬
‫کے درمیان سمجھوتہ طے پانے کے بعد جنگ بند ہو گئی۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی میں ‪ 17‬دسمبر ‪1971‬ء کو شائع ہونے والی خبر کا تراشا جس میں جنگ بندی کی اطالع‬
‫اعلی کے دفتر میں تیار ہوا۔ خبر کی مرکزی سرخی میں‬
‫ٰ‬ ‫دی گئی‪ ،‬اس خبر یہ مسودہ وفاقی وزارت اطالعات کے افسر‬
‫سقوط ڈھاکہ یا جنگ بندی کا ذکر نہیں کیا گیا۔‬
‫بعض اخبارات میں اس خبر میں یہ اطالع بھی فراہم کی گئی تھی کہ سمجھوتے کے بعد انڈین فوج ڈھاکہ میں داخل ہو‬
‫گئی ہے۔‬
‫پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک سابق ڈائریکٹر نیوز جو اس زمانے میں ان ہی واقعات کی رپورٹنگ کر رہے تھے نے‬
‫افسراعلی کے دفتر سے شعبہ خبر کے سربراہ زبیر علی شاہ نے ٹیلی فون پر‬
‫ٰ‬ ‫بتایا‪’ :‬یہ خبر وفاقی وزارت اطالعات کے‬
‫لکھوائی تھی۔‘‬
‫وہ مزید کہتے ہیں‪’ :‬گمان کیا جاسکتا ہے کہ اس دفتر کے بابؤں نے اُس وقت دنیا کی اس سب سے بڑی خبر کو جو‬
‫الفاظ دیے ہوں گے‪ ،‬وہاں م لک کے تین سرکاری اداروں کے نمائندوں کو اس کی نقول دے دی گئی ہوں گی جو انھوں‬
‫نے اپنے اپنے اداروں کو ٹیلی فون پر لکھوا دیں۔‘‬
‫اعلی کے دفتر اس خبر کو جو الفاظ دیے گئے تھے‪ ،‬بعد میں پورے پاکستانی ذرائع ابالغ میں ان ہی کی‬ ‫ٰ‬ ‫اس افسر‬
‫جگالی ہوئی۔‬
‫لیکن جس روز پاکستانی اخبارات کے صفحہ اول کے نچلے نصف میں یہ خبر شائع ہوئی‪ ،‬اسی روز ان ہی صفحات پر‬
‫یحیی خان کے سرکاری ذرائع ابالغ سے شائع ہونے والی تقریر آٹھ کالمی شہ‬ ‫ٰ‬ ‫اس وقت کے فوجی حکمراں جنرل محمد‬
‫سرخیوں میں شائع ہوئی جس میں انھوں نے دشمن کے خالف جنگ جاری رکھنے کا اعالن کیا تھا۔‬
‫یحیی خان نے اپنی اس تقریر میں مقامی کمانڈروں کے سمجھوتے والی خبر کا ذکر ان میں الفاظ میں کیا تھا کہ وقتی‬ ‫ٰ‬
‫طور پر ایک محاذ پر پیچھے ہٹنے کے باوجود باقی محاذوں پر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا جب کہ اگلے روز‬
‫یحیی خان کی طرف سے جنگ بندی کا اعالن اخبارات کی زینت بنا۔‬ ‫ٰ‬ ‫ان ہی‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫روزنامہ مشرق الہور کا ‪ 17‬دسمبر ‪1971‬ء کے صفحہ ۤاول کا وہ حصہ جس میں مارشل ال حکومت کے سربراہ جنرل‬
‫یحیی خان کی تقریر جلی سرخیوں میں شائع ہوئی‪ ،‬اپنی تقریر میں انھوں نے جنگ جاری رکھنے کا اعالن کیا اور اسی‬
‫ٰ‬
‫خبر کے متن میں سقوط ڈھاکہ کو ایک محاذ سے عارضی طور سے پیچھے ہٹنے کا نام دیا گیا اور اعالن کیا کہ جنگ‬
‫جاری رہے گی۔‬
‫پاکستان کے حکمراں طبقات اور ذرائع ابالغ کا طرز عمل‬
‫یحیی خان نے ‪ 25‬مارچ ‪1971‬ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا اعالن کیا تھا۔ تقریبا ً تین ماہ قبل دسمبر‬ ‫ٰ‬
‫‪1970‬ء میں ملک میں عام انتخابات ہو چکے تھے جن میں شیخ مجیب الرحمٰ ن کی عوامی لیگ بھاری اکثریت سے‬
‫کامیاب ہوئی تھی۔‬
‫اب وہ توقع کر رہی تھی کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق چھ نکات کی روشنی میں نہ صرف وہ ملک کو نیا آئین‬
‫دے سکے گی بلکہ اس جماعت کو حق حکمرانی بھی حاصل ہو جائے گا۔‬
‫مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا‪ ،‬اس کے خد و خال کے تعین کے لیے اکثریتی جماعت عوامی لیگ اور دوسرے‬
‫نمبر پر آنے والی جماعت پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے درمیان بات چیت جاری تھی۔‬
‫یحیی خان بھی ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب الرحمٰ ن سے بات چیت کر چکے تھے‬ ‫ٰ‬ ‫اس دوران میں فوجی حکمران جنرل‬
‫لیکن معامالت طے نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔‬
‫یحیی خان‪ ،‬وہ دونوں چاہتے تھے کہ شیخ مجیب‬ ‫ٰ‬ ‫حسین نقی کی نظر میں‪’ :‬ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا فوجی حکمراں‬
‫الرحمٰ ن کی بھاری اکثریت کے باوجود مستقبل کے سیاسی نظام میں انھیں بھی غالب حصہ مل جائے۔ ان دونوں کی یہ‬
‫خواہش پوری ہونی چونکہ ممکن نہیں ہو رہی تھی‪ ،‬اس وجہ سے بحران سنگین ہو گیا۔‘‬
‫یحیی خان نے ‪ 22‬مارچ ‪ 1971‬ء کو قومی اسمبلی کا اجالس دوسری مرتبہ ملتوی کر دیا جس پر عوامی لیگ کا‬ ‫ٰ‬ ‫جنرل‬
‫احتجاج فطری تھا۔‬
‫اس احتجاج کے بارے میں حکومت کے زیر انتظام پریس ٹرسٹ کے زیر انتظام شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار‬
‫'مشرق‘ کی تین اپریل کی اشاعت میں ادارتی صفحے پر مضمون شائع ہوا جس کے مصنف اختراالسالم صدیقی ہیں۔‬
‫انھوں نے لکھا‪' :‬جب صدر مملکت کی پر خلوص کوش شوں کے باوجود شیخ مجیب اڑے رہے اور علیحدگی پسندانہ‬
‫پالیسی کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی‪ ،‬پاکستانی پرچم کی توہین کی‪ ،‬قائد اعظم کی تصویر کو پھاڑا۔‘‬
‫معامالت اس نہج پر کیوں پہنچے ہوں گے؟ ‪ 26‬مارچ ‪1971‬ء کے نوائے وقت کی شہ سرخی کے مطابق مشرقی‬
‫پاکستان کے مخت لف شہروں میں جن میں رنگ پور‪ ،‬چاٹگام‪ ،‬سید پور اور دیو پور وغیرہ شامل تھے‪ ،‬مظاہرین اور فوج‬
‫کے درمیان تصادم کی خبر شائع ہوئی جن میں ‪ 64‬افراد مارے گئے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫شیخ مجیب الرحمٰ ن کی طرف سے بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں اس بیان کے باوجود میں مغربی پاکستان میں ان‬
‫کے مؤقف کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر تھی ۔‬
‫خبر میں بتایا گیا کہ یہ جھڑپیں اس وقت ہوئیں جب فوجی اہل کار ایک بحری جہاز سے اسلحہ منتقل کر رہے تھے۔‬
‫اس سے اگلے روز کے اخبار اس سے بھی بڑی خبر کے ساتھ شائع ہوئے جن میں بتایا گیا‪:‬‬
‫‪1‬۔ ملک بھر میں سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے‬
‫‪2‬۔ شیخ مجیب الرحمٰ ن اور ان کے ساتھیوں کو غدار قرار دے کر عوامی لیگ کو خالف قانون قرار دے دیا گیا ہے۔‬
‫‪ 3‬۔ مشرقی پاکستان کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے مارشل ال کے تحت فوج کو ذمہ داری سونپ دی گئی جب کہ‬
‫صوبے بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔‬
‫‪4‬۔ ملک بھر میں سنسر شپ نافذ کر دی گئی۔‬
‫مارشل ال انتظامیہ کے اعالمیے کے مطابق اس کارروائی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مشرقی پاکستان میں قومی‬
‫سالمیت خطرے میں پڑ چکی تھی۔‬
‫یحیی خان اور ان کی مارشل ال انتظامیہ اس انتہائی کارروائی پر مجبور کیوں ہوئی؟ اس کی کچھ تفصیالت مشرقی‬ ‫ٰ‬
‫پاکستان کے مختلف حصوں میں تصادم اور تشدد کے واقعات کی صورت میں رپورٹ ہوئیں لیکن الطاف حسن قریشی‬
‫ایک مختلف بات کہتے ہیں۔‬
‫'یحیی خان‪ ،‬عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان بات چیت ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی معاہدے پر‬ ‫ٰ‬
‫پہنچنے میں ناکامی کے بعد شیخ مجیب الرحمٰ ن نے ‪ 23‬مارچ ‪1971‬ء کو اپنے طور پر آئینی تجاویز پیش کر دیں جس‬
‫میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی گئی تھی۔‬
‫یحیی خان اور پیپلز پارٹی نے یہ تجویز اس لیے مسترد کر دی کہ ان کے خیال میں ان دونوں قوتوں کا حلقہ انتخاب‬ ‫ٰ‬
‫اسے قبول کرنے کی صورت میں ان کے خالف بغاوت کر دیتا حاالنکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت حاالت جس نہج‬
‫پر پہنچ چکے تھے‪ ،‬ملک کو متحد رکھنے کا یہی ایک راستہ باقی رہ گیا تھا۔'‬
‫تو آپ کنفیڈریشن کی جس تجویز کا ذکر کر رہے ہیں‪ ،‬اس زمانے کے اخبارات میں تو اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا؟‬
‫اس سوال پر الطاف حسن قریشی نے کہا کہ ’آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ مارشل ال کا زمانہ تھا‪ ،‬سنسر شپ کا‬
‫نفاذ تھا‪ ،‬اطالعات کی روانی ختم ہو چکی تھی اور مغربی پاکستان کے عوام بالکل نہیں جانتے تھے کہ مشرقی پاکستان‬
‫میں کیا ہو رہا ہے اور نہ لوگ یہ جانتے تھے کہ وہاں کے عوام بدلے ہوئے کے جذبات کا رخ کیا ہے۔‘‬
‫جس دن مشرقی پاکستان میں کارروائی کے لیے فوج کو اختیارات دیے گئے‪ ،‬اسی روز کے اخبارات کے صفحہ اول پر‬
‫یہ اطالع بھی شائع ہوئی کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ڈھاکہ سے کراچی واپس پہنچ گئے۔‬
‫اس موقع پر انھوں صحافیوں سے تفصیلی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا‪ ،‬البتہ ایک جملہ کہا جو مِن و عن اخبارات‬
‫میں رپورٹ ہو گیا‪' :‬خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کو بچا لیا گیا۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی کی ‪ 27‬مارچ ‪1971‬ء کی اشاعت کے صفحہ اول کا وہ حصہ جس میں مشرقی پاکستان میں‬
‫آپریشن اور عوامی لیگ پر پابندی کی اطالع دی گئی ہے۔ اسی صفحے کے نچلے میں حصے میں ذوالفقار علی بھٹو کا‬
‫وہ معروف بیان دیکھا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہللا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔‬
‫ملک کے حاالت میں پیدا ہونے والی اس غیر معمولی پیش رفت پر دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کا ردعمل بھی اس‬
‫سے مختلف نہیں تھا۔‬
‫آنے والے دنوں میں مشرقی پاکستان میں انڈیا سے مسلح جتھوں کے داخلے‪ ،‬علیحدگی پسندوں کو اسلحے اور بھاری‬
‫مالی وسائل کی فراہمی کے خبریں پے درپے شائع ہوئیں۔‬
‫ریڈیو رپورٹ کے ذریعے سے شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا کہ مشرقی پاکستان میں مداخلت کی خبریں‬
‫سامنے آنے پر انڈین ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے ان سے سخت احتجاج کیا گیا اور متنبہ کیا گیا کہ اس‬
‫طرز عمل کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔‬
‫مشرقی پاکستان کی صورت حال میں انڈیا کی مداخلت کی خبریں آنے کے بعد مغربی پاکستان کا سیاسی منظر نامہ‬
‫مکمل طور پر بدل گیا۔‬
‫حکومت کے زیر انتظام چلنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی جاری کردہ ایک خبر‬
‫تین اپریل کے اخبارات میں شائع ہوئی‪ ،‬اس خبر کے دو نکات قابل توجہ تھے‪:‬‬
‫‪1‬۔ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰ ن نے چاٹگام کی بندر گاہ کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے ناکام بنا‬
‫دیا گیا ہے۔‬
‫‪2‬۔ مشرقی پاکستان میں انڈین اسلحہ بڑے پیمانے پر تقسیم کیا جارہا ہے۔‬
‫اسی روز روزنامہ مشرق کے سٹاف رپورٹر نے ایک خبر دی جس میں انکشاف کیا گیا کہ اطالعات کے مطابق ’انڈین‬
‫حکومت نے ایک نام نہاد جالوطن بنگلہ دیشی حکومت کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور جیسے ہی جال وطن حکومت‬
‫کے قیام کا اعالن ہو گا‪ ،‬بھارتی حکومت فوری طور پر اسے تسلیم کر لے گی۔‘‬
‫اسی اخبار میں ریڈیو پاکستان کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک اور خبر کے مطابق مشرقی پاکستان کے علیحدگی‬
‫پسندوں اور خاص طور پر ہندوؤں کو اسلحہ کی فراہمی کی ایک بڑی انڈین سازش کا انکشاف ہوا۔‬
‫مشرق اخبار کی ایک اور خبر میں انکشاف کیا گیا کہ انڈین فوج نے مشرقی پاکستان کی سرحد کے ساتھ اپنے کیمپ‬
‫قائم کر لیے ہیں جن میں دہشت گردوں کو تربیت دی جا رہی ہے‪ ،‬اسلحہ فراہم کیا جا رہا ہے اور انھیں مشرقی پاکستان‬
‫میں داخل کیا جا رہا ہے۔‬
‫مشرقی پاکستان کی پیچیدہ صورت حال علیحدگی کی تحریک اور پر تشدد ہنگاموں میں کیسے بدلی‪ ،‬اس سوال کا جواب‬
‫سرکاری اخبار' مشرق' نے ‪ 27‬مارچ کے اداریے میں دیا جس میں انکشاف کیا گیا‪:‬‬
‫'امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پاکستان کو چین کے ساتھ اس کے تعلقات کا مزہ چکھانے کے لیے مشرقی پاکستان‬
‫کو علیحدہ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔‘‬
‫اس بحران میں ملک کی سب سے بڑی جماعت عوامی لیگ اور اس کی قیادت کا کردار کیا تھا‪ ،‬اس سوال کا جواب‬
‫یحیی خان نے قوم سے اس نشری خطاب میں دے دیا تھا جس میں شیخ مجب الرحمٰ ن اور ان کے ساتھیوں کو‬ ‫ٰ‬ ‫اگرچہ‬
‫پاکستان کا غدار قرار دیا گیا تھا۔‬
‫لیکن شیخ مجیب الرحمٰ ن کی حب الوطنی کے بارے میں بھی ذرائع ابالغ میں کافی کچھ شائع ہو رہا تھا۔‬
‫اس کی ایک مثال اختر االسالم صدیقی کا مشرق میں ہی شائع ہونے واال مضمون ہے جس میں قارئین کو بتایا گیا‪' :‬شیخ‬
‫مجیب الرحمٰ ن کو ہندوستان کی ہمیشہ بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق صدر ایوب کے زمانے میں جب ان پر‬
‫مقدمہ چال یا جا رہا تھا‪ ،‬اس وقت بھی ہندوستان نے ان کی حمایت کی تھی‪ ،‬پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں شیخ‬
‫صاحب سب سے بڑی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھرے تو ہندوستانی خبر رساں ایجنسیوں نے مسرت کا جشن‬
‫منایا۔'‬
‫اسی مضمون میں وہ مزید لکھتے ہیں‪' :‬غداری اور بغاوت کے جرم میں جب شیخ صاحب کو گرفتار کیا گیا تو یہ‬
‫‪ 12‬کروڑ پاکستانیوں کے دل کی آواز تھی مگر ہندوستان نے اس کے خالف زور شور سے واویال کیا‪ ،‬اب بھی ریڈیو کا‬
‫زیادہ وقت پاکستان کے خالف زہر اگلنے میں صرف ہو رہا ہے۔'‬
‫اس مضمون میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ کلکتہ میں دریائے ہگلی کے کنارے انڈیا نے ایک خفیہ ریڈیو سٹیشن قائم کیا‬
‫ہے جسے ' صدائے بنگلہ دیش' کا نام دیا گیا ہے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫مغربی پاکستان کے اخبارات کے پیدا کردہ اس تاثر کی نمائندگی کرنے واال یہ کارٹون کہ شیخ مجیب الرحمٰ ن بھارت کے‬
‫ایجنٹ ہیں‪ ،‬یہ کارٹون روزنامہ مشرق الہور کے ادارتی صفحے پرمیں ‪ 2‬جون ‪1971‬ء کو شائع ہوا‬
‫مغربی پاکستان کے پریس میں جن دنوں اس نوعیت کی خبریں شائع ہو رہی تھیں‪ ،‬اس صورت حال کی مذمت کے لیے‬
‫مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین بھی بہت پرجوش تھے۔‬
‫مارچ سے دسمبر ‪1971‬ء تک ای سی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن قومی اسمبلی کے اجالس کے التوا اور‬
‫اس کے بعد کے آپریشن کے زمانے میں ان کی تعداد دیگر ایام کی نسبت زیادہ ہے۔‬
‫تین اپریل کو 'مشرق' کے صفحہ اول پر اے پی پی کا جاری کردہ سیاسی رہنماؤں کا ایک مشترکہ بیان جاری ہوا جس‬
‫یحیی خان کے فیصلے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کا‬ ‫ٰ‬ ‫میں مشرقی پاکستان میں آپریشن کے سلسلے میں‬
‫اعالن کیا گیا۔‬
‫یہ بیان جس میں قومی اسمبلی کے ایک رکن اور چند دوسری صف کے رہنما تھے‪ ،‬الزام عائد کیا کہ عوامی لیگ اور‬
‫اس کے رہنما پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔‬
‫اسی زمانے میں نیشنل عوامی پارٹی (بعد میں کالعدم) کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن ولی خان نے ایک بیان‬
‫میں مسلح انڈین باشندوں کی مشرقی پاکستان کے سرحدی عالقوں میں داخلے کی مذمت کی اور اسے عالمی قوانین کی‬
‫خالف ورزی قرار دیتے ہو ئے اقوام متحدہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے اس مشکل وقت میں عوام سے متحد‬
‫ہونے کی اپیپل بھی کی۔‬
‫اعلی موالنا مفتی محمود نے کہا کہ مشرقی پاکستان میں غیر ملکی مداخلت کو جائز‬ ‫ٰ‬ ‫ناظم‬ ‫کے‬ ‫جمیعت علمائے اسالم‬
‫تسلیم کر لیا گیا تو دنیا کا کوئی ملک بھی آزاد نہیں رہ سکے گا۔‬
‫مسلم لیگی رہنما خان عبدالقیوم خان نے بھارتی کارروائیوں کو اعالن جنگ کے مماثل قرار دیا۔ آزاد کشمیر کے صدر‬
‫سردار عبدالقیوم خان مشرقی پاکستان میں انڈین کی مداخلت کو ایک خوفناک سازش قرار دیا۔‬
‫ان رہنماؤں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا ردعمل زیادہ سخت تھا۔ اس جماعت کے رکن قومی اسمبلی موالنا‬
‫کوثر نیازی نے اپنے بیان میں کہا‪ ’ :‬پاکستان کی سالمیت کے خالف انڈین کی سازش واضح ہو گئی ہے اور شیخ مجیب‬
‫الرحمٰ ن نے دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا ہے۔‘‬
‫مشرقی پاکستان میں بڑھتے ہوئے تشدد اور خاص طور پر صوبے کے مختلف شہروں میں کارروائیوں کے دوران میں‬
‫‪ 64‬افراد کے قتل کی خبر جس روز یعنی ‪ 22‬مارچ ‪ 1971‬کو شائع ہوئی‪ ،‬شیخ مجیب الرحمٰ ن نے کہا کہ بحران کے‬
‫حل میں تاخیر تباہ کن ہو گی۔ ' نوائے وقت' میں ان کا بیان ان الفاظ میں شائع ہوا‪’ :‬شیخ مجیب الرحمٰ ن نے موجودہ‬
‫یحیی اور ان کے‬‫ٰ‬ ‫بحران کے حل میں تاخیر پر تاسف کا اظہار کیا ہے اور اس تاخیر کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔ اگر صدر‬
‫مشیر بحران کا کوئی سیاسی حل چاہتے ہیں تو انھیں معامالت کو فی الفور کسی نتیجے پر پہنچا دینا چاہیے۔ ورنہ تاخیر‬
‫کی صورت میں ملک اور عوام کے لیے سنگین خطرات پیدا ہو جائیں گے۔`‬
‫اس بیان میں انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر طاقت سے کوئی فیصلہ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو اسے قبول نہیں‬
‫کیا جائے گا۔‬
‫متحدہ پاکستان کی تاریخ میں یہ دن یعنی ‪ 22‬مارچ ‪ 1971‬کئی اعتبار سے اہم تھا کیوں کہ اس روز مغربی پاکستان کے‬
‫ایک بڑے شہر الئل پور(موجو دہ فیصل آباد) میں شدید ہنگامے‪ ،‬لوٹ مار اور جالؤ گھیراؤ ہوا جس سے نمٹنے کے لیے‬
‫کرفیو لگانا پڑا۔ اخبار کے مطابق ان ہنگاموں کی ذمہ دار پیپلز پارٹی تھی۔‬
‫شیخ مجیب الرحمٰ ن کی طرف سے بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں اس بیان کے باوجود میں مغربی پاکستان میں ان‬
‫کے مؤقف کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر تھی۔‬
‫اس فضا میں مشرقی پاکستان کی صورت حال کو علیحدگی کی تحریک اور عوامی لیگ کی قیادت کے غیر محب وطن‬
‫قرار دینے کا مؤقف مقبول ہو رہا تھا۔‬
‫مارچ ‪ 1971‬ء سے لے کر دسمبر تک پھیلی جنگ کے دوران متحدہ پاکستان کی حامی اور فوج کے ساتھ مل کر جنگ‬
‫میں شرکت کرنے والی رضا کار تنظیم البدر کی سرگرمیوں کو کتاب 'البدر' میں ریکارڈ کرنے والے سلیم منصور خالد‬
‫نے اس سوال کا جواب یوں دیا‪:‬‬
‫’ سچی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو اگر آپ آج کے ماحول میں جمع تفریق کر کے دیکھیں گے تو سوال کے جواب میں‬
‫بالکل غلط نتیجے پر پہ نچیں گے کیوں کہ یک طرفہ بیانیہ اور جمہوری رویے کی باتیں بعد کی سوچ (آفٹر تھاٹ) تھیں۔‬
‫اس صورت حال کی ابتدا انڈین میں ہونے والی اس پیش رفت سے ہوئی‪ ،‬جب لوک سبھا میں غالبا ً ‪ 29‬مارچ ‪1971‬ء ہی‬
‫کو اندرا گاندھی کی پیش کردہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی اور اپوزیشن لیڈر جے پر کاش نارائن نے اس‬
‫کی بھر پور حمایت کی۔‬
‫اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ انڈیا بنگلہ دیش میں جاری تحریک (آزادی) کا بھرپور ساتھ دے گا۔ یہ بات ذہن میں رہنی‬
‫چاہیے کہ اس وقت تک دنیا میں کہیں بنگلہ دیش کا کوئی وجود نہیں تھا مگر انڈین پارلیمنٹ اس لہجے میں بات کر رہی‬
‫تھی۔ ‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫سقوط ڈھاکہ سے قبل بھارتی پارلیمنٹ کی طرف سے بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی حمایت کے سلسلے میں‬
‫ٰ‬
‫راولپنڈی کے صفحہ اول پر شائع ہونے واال‬ ‫قرارداد میں منظوری کے بعد ‪ 2‬اپریل ‪1971‬ء کو روزنامہ نوائے وقت‬
‫کارٹون۔‬
‫اس قرارداد نے پاکستان اور خاص طور مغربی پاکستان میں سرخ‪ ،‬سبز‪ ،‬لبرل‪ ،‬سوشلسٹ اور پاکستانی قوم پرستوں اور‬
‫مذہبی جماعتوں اور ان کے حامیوں کے درمیان خطرے کی گھنٹی بجا دی‪ ،‬اور ظاہری شواہد کی بنیاد پر یہ سمجھا گیا‬
‫کہ انڈیا نے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ہے۔‬
‫اس صورت حال میں پاکستان کی سالمیت کے نکتے پر مغربی پاکستان کے دائیں اور بائیں بازؤں کو متحد کر دیا اور‬
‫وہ ملک کی سالمتی کے لیے یک آواز ہو گئے۔`‬
‫سلیم منصور خالد کی اس عہد کی صحافت پر بھی گہری نظر ہے‪ ،‬انھوں نے اس زمانے کے اخبارات و جرائد کے‬
‫بارے میں ایک دلچسپ جملہ کہا‪’ :‬جماعت اسالمی کا (ہفت روزہ) ’ایشیا' ہو یا بائیں بازو کا (ہفت روزہ) 'الفتح' ‪ ،‬اس‬
‫زمانے میں مشرقی پاکستان پر انڈین یلغار اور سبوتاژ کی کارروائیوں کی مذمت اور پاکستان کی سالمیت پر فکر مندی‬
‫کے اعتبار سے ان کے مزاج اور مواد میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ اگر کوئی ان دونوں پرچوں کے سرورق پھاڑ دیتا‪،‬‬
‫تو مشرقی پاکستان کی نسبت سے انھیں الگ الگ پہچاننا مشکل ہو جاتا۔‘‬
‫بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے بزرگ صحافی حسین نقی ذرا سے فرق کے ساتھ اس تاثر کی تصدیق کرتے ہیں‪،‬‬
‫وہ کہتے ہیں‪’ :‬دیگر تمام اخبارات ایک ہی روش پر گامزن تھے سوائے روزنامہ 'آزاد' کے جس کی ادارتی پالیسی‬
‫مظہر علی خان کی نگرانی میں تشکیل پائی تھی۔ اس اخبار میں تصویر کا دوسرا رخ شامل کرنے کی کوشش کی جاتی‬
‫تھی۔‘‬
‫انڈین پارلیمنٹ میں قرارداد کی منظوری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں پروفیسر سلیم منصور خالد‬
‫کا تاثر درست محسوس ہوتا ہے۔‬
‫اگرچہ اس واقعے کی خبر مغربی پاکستان کے اخبارات میں شائع نہیں ہوئی لیکن اداریوں اور کالموں کے عالوہ‬
‫کارٹونوں کی شکل میں اس پر تند و تیز تبصروں کے عالوہ سیاسی قائدین نے بھی سخت الفاظ میں تنقید کی جن میں‬
‫سے کچھ کا تذکرہ اس جائزے میں ہو چکا ہے۔‬
‫سیاسی رہنماؤں میں کونسل مسلم لیگ کے رہنما میاں ممتاز محمد خان دولتانہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنھوں نے‬
‫اپنے بیان میں اسے شرم ناک اور پاکستان کے خالف منظم دھمکی قرار دیا۔‬
‫پرنٹ میڈیم کے عالوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اس ص ورت حال پر ردعمل کی کیا صورت تھی‪ ،‬پاکستان ٹیلی ویژن کے‬
‫ایک سابق ڈائریکٹر نیوز نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’خال ہی کوئی رہنما اور صحافی ہو گا جس نے اس‬
‫زمانے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آ کر سرکاری بیانیے کے حق میں بات نہ کی ہو۔‬
‫’خبری پروگراموں کے عال وہ ان دنوں کوئی دوسرا پروگرام نشر نہیں ہوا۔ خبری بلیٹن کے بعد خبروں پر تبصرہ کے‬
‫نام سے ان پانچ سے سات منٹ کے پروگرام نشر ہوا کرتے تھے اور یہ سب لوگ ان پروگراموں میں سرکار کا مؤقف‬
‫ہی اجاگر کیا کرتے تھے۔‘‬
‫لیکن کیا سبب تھا کہ اس زمانے کے ذرائع ابالغ میں صرف ا یک ہی مؤقف دکھائی دیتا تھا‪ ،‬ملک دشمنی اور علیحدگی‬
‫پسندی کے تعلق سے فریق مخالف کی بات کو کوئی جگہ نہ ملی؟‬
‫پی ٹی وی میں اہم ذمہ داریوں پر فائز بزرگ صحافی نے اس سوال کے جواب میں بتایا‪’ :‬اس سلسلے میں سرکاری‬
‫ذرائع ابالغ ہی نہیں بلکہ اخبارات کی مجبوری بھی سمجھنی چاہیے کہ ملک حالت جنگ میں تھا اور خبر کے حصول‬
‫کے ذرائع محدود تھے۔ سرکاری ذرائع اور آئی ایس پی آر سے جو خبر انھیں ملتی‪ ،‬ذرائع ابالغ کا تمام تر انحصار اسی‬
‫پر تھا۔'‬
‫ذرائع ابالغ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری‪ ،‬انھیں خبریں کس طرح مال کرتی تھیں‪ ،‬انھوں نے یہ کہانی بھی بیان کی‪:‬‬
‫’ راولپنڈی میں ان دنوں آر اے بازار میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کا پریس روم ہوا کرتا تھا‪ ،‬روزانہ دن میں ایک یا‬
‫اگر ضرورت ہوتی تو دوبار صحافیوں کو یہاں بریفنگ دی جاتی‪ ،‬بعد میں جگہ کم پڑ گئی تو یہی بریفنگ ہوٹل‬
‫انٹرکانٹی نینٹل میں دی جانے لگی۔‬
‫اس بری فنگ میں وزارت خارجہ کے ایک ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مقبول بھٹی اور تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کے‬
‫عالوہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے سربراہ بریگیڈئر اے آر صدیقی بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں‬
‫آپریشن اور اس کے بعد جنگ سے متعلق تمام تر خبروں کے حصول کا یہی ایک ذریعہ تھا۔ اس کے عالوہ اگر کسی‬
‫وقت ضرورت ہوتی تو آئی ایس پی آر بھی بیان جاری کر دیا کرتا تھا۔‘‬
‫اس ہنگامہ خیز ماحول میں مغربی پاکستان کے عوام کم و بیش کیسے ایک ہی طرح سوچنے لگے‪ ،‬اس سوال کا جواب‬
‫اس گواہی میں مل جاتا ہے اور چوں کہ ملک میں سنسر شپ کا نفاذ بھی کر دیا گیا تھا‪ ،‬اس لیے کسی متوازی آواز کو‬
‫جگہ ملنے کا امکان کم سے کم رہ جاتا ہے۔‬
‫فریق مخالف کا نکتہ نظر سامنے النے کے سلسلے میں اخبارات کو اس زمانے میں کس قسم کی مشکالت کا سامنا رہا‬
‫ہوگا‪ ،‬اس کا اندازہ روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے یکم اپریل ‪1971‬ء کے شمارے کے مطالعے سے ہوتا ہے جس میں اس‬
‫روز اکٹھے دو صفحات کسی مواد کے بغیر بالکل خالی شائع ہوئے‪ ،‬ان میں ایک ادارتی صفحہ بھی تھا۔‬
‫مغربی پاکستان کی رائے عامہ تک سرکاری مؤقف یا بیانیہ پہنچانے کے لیے صرف خبروں کی یک طرفہ اشاعت سے‬
‫ہی کام نہیں لیا گیا بلکہ ان خبروں کی بنیاد پر عوام کے خیاالت کو ایک خاص رخ دینے کے لیے خصوصی طور پر‬
‫مضامین بھی لکھوائے گئے جن میں عوامی لیگ اور اس کی قیادت پر حب الوطنی کے سواالت اٹھانے کے عالوہ اس‬
‫کے مینڈیٹ کی نفی کی بات بھی کہی جاتی۔‬
‫حسین نقی اس سلسلے میں خصوصی طور پر لکھوائے گئے چودہ مضامین کا ذکر کرتے ہیں۔ ان مضامین کے مصنفین‬
‫کی شناخت کے بارے میں حسین نقی نے کہا‪ ’ :‬کوئی نہیں جانتا ان مضامین کا لکھنے واال کون تھا؟ انگریزی میں یہ‬
‫مضامین نیوز ایجنسیوں سے کریڈ کیے جاتے جنھیں انگریزی اخبارات میں حرف بحرف اور اردو اخبارات میں ترجمہ‬
‫کر کے شائع کیا جاتا۔‘‬
‫اعلی الطاف حسن قریشی کا ایک سلسلہ مضامین‬ ‫ٰ‬ ‫مدیر‬ ‫کے‬ ‫ڈائجسٹ‬ ‫اردو‬ ‫سے‬ ‫عنوان‬ ‫کے‬ ‫‘‬‫ہے‬ ‫رہا‬ ‫’محبت کا زمزمہ بہہ‬
‫شائع ہوا تھا۔ حسین نقی اسے بھی اسی مہم کا حصہ قرار دیتے ہیں۔‬
‫الطاف حسن قریشی اس تاثر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں‪’ :‬اردو ڈائجسٹ میں میرے مضامین کا یہ سلسلہ‬
‫یحیی خان کی یک طرفہ پروپیگنڈا مہم کا حصہ قرار دینا غلط ہی نہیں بلکہ شرم‬ ‫ٰ‬ ‫‪1966‬ء میں شائع ہوا اس لیے انھیں‬
‫ناک ہے۔‘‬
‫اس سوال پر کہ انھوں نے مشرقی پاکستان کے دورے کس کی تحریک پر کیے‪ ،‬الطاف حسن قریشی نے کہا‪' :‬خود اپنی‬
‫تحریک پر۔ میں ‪1964‬ء سے ہر سال مشرقی پاکستان جاتا اور پورے مشرقی پاکستان چھوٹے بڑے شہروں میں جا کر‬
‫لوگوں سے ملتا۔ ان کے مسائل معلوم کرتا اور قومی صورت حال کے بارے میں ان کے تاثرات سے براہ راست آگاہی‬
‫حاصل کر کے اپنے ماہ نامے میں لکھا کرتا۔ مشرقی پاکستان کی طرف میری توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب چھ نکات‬
‫کا سامنے آئے اور الہور میں حزب اختالف کی قومی کانفرنس میں ان پر غور کیے بغیر انھیں مسترد کر دیا۔‬
‫ابواالعلی‬
‫ٰ‬ ‫میرے لیے یہ بڑی حیرت بلکہ دکھ کی بات تھی کہ سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی بوگرہ اور سید‬
‫مودودی جیسی سنجیدہ شخصیات نے ان نکات کو غداری قرار دے کر شیخ مجیب الرحمٰ ن کو کانفرنس سے نکال دیا۔‬
‫سنہ ‪1966‬ء میں ‪ 65‬ء کی جنگ کے بعد میرا خاص طور پر مشرقی پاکستان جانا ہوا۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪NAWAE WAQT‬‬
‫نیشنل کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی جس میں شیخ مجیب الرحمٰ ن نے چھ نکات پر مشتمل اپنی تجاویز پیش کیں‪ ،‬تصویر‬
‫میں شیخ صاحب کے عالوہ کمیٹی کے اراکین نواب زادہ نصرہللا خان‪ ،‬موالنا مودودی اور دیگر موجود ہیں۔ تصویر‬
‫نوائے وقت فائل‪ ،‬نیشنل الئبریری آف پاکستان‪ ،‬اسالم آباد‬
‫میرا مشاہدہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی شکایتیں ہیں۔ ان کی شکایتوں کا آغاز ‪1962‬ء کے دستور سے ہوا‬
‫تھا جس میں صوبائی خود مختاری کو مکمل طور پر سلب کر لیا گیا تھا جب کہ ان کا مطالبہ صوبائی خود مختاری تھا۔‬
‫اسی طرح وہاں کے سنجیدہ ترین لوگوں کے ذہنوں میں بھی یہ تصور راسخ ہو گیا تھا کہ ہر خرابی کی ابتدا مغربی‬
‫پاکستان سے ہی ہوتی ہے۔‬
‫اسی طرح ان کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی پٹ سن کی آمدنی سے بھی مغربی پاکستان ہی فائدہ‬
‫اٹھاتا ہے۔ اس قسم کی شکایات کے باوجود مشرقی پاکستان کے لوگ پاکستان کے ساتھ محبت کرتے تھے اور وہ اس‬
‫کے ساتھ رہنا چاہتے تھے اور وہ علیحدگی نہیں چاہتے تھے لیکن واضح رہے کہ یہ تاثر ‪ 1966‬کا ہے۔ میرا یہی‬
‫مشاہدہ تھا جس کی بنا پر میں نے وہ معروف مضمون لکھا جس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ محبت کا زمزمہ بہہ رہا‬
‫ہے۔‘‬
‫الطاف حسن قریشی کے سلسلہ وار مضامین کی بحث اپنی جگہ لیکن اس زمانے کے مغربی نہیں بلکہ مشرقی پاکستان‬
‫کے اخبارات میں بھی اس قسم کے مضامین ملتے ہیں جن میں عوامی لیگ پر زور دیا گیا کہ وہ انتخابی کامیابی کے‬
‫باوجود اپنے انتخابی منشور کو نظر انداز کر دے۔‬
‫یکم جنوری ‪ 1971‬ء کو 'نوائے وقت' کے ادارتی صفحہ پر سعدی سنگروری کا مضمون شائع ہوا جس میں انھوں نے‬
‫یہ مؤقف اختیار کیا کہ پارلمینٹ کے انتخاب کے بعد حزب اختالف اور حزب اقتدار کا تصور بےمعنی اور غیر اسالمی‬
‫ہے اور مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اب وہ اپنی جماعتوں کے ایجنڈے اور‬
‫منشور سے التعلق ہو کر صرف اور قومی مفاد میں آئین سازی کریں۔‬
‫روزنامہ 'مشرق' میں کیپٹن ممتاز ملک کے نام سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ تحریک آزادی کے‬
‫دوران قائد اعظم نے انگریز حکمرانوں سے جداگانہ انتخابات کا اصول منوایا تھا‪ ،‬بالکل اسی طرح ‪1970‬ء کے‬
‫انتخابات بھی اسی اصول کے تحت ہونے چاہیے تھے اور اگر ایسا ہو جاتا تو مشرقی پاکستان کا ہندو ووٹر عوامی لیگ‬
‫کے چھ نکات کے حق میں ووٹ نہ دے سکتا۔‬
‫روزنامہ 'مشرق' میں میاں دل نواز نامی ایک مضمون نگار نے لکھا‪' :‬غالب اکثریت کے باوجود یہ مناسب نہیں کہ‬
‫عوامی لیگ اب اپنے چھ نکات پر اصرار برقرار رکھے۔‘‬
‫‪ 17‬دسمبر ‪1971‬ء کو تجدید عہد کے عنوان سے نوائے وقت نے ایک مضمون میں جس پر مصنف کا نام درج نہیں‬
‫تھا‪ ،‬لکھا کہ ایک سپر طاقت نے پاکستان کو توڑنے کے لیے یہ جنگ پاکستان پر مسلط کی ہے۔‬
‫'نوائے وقت' نے ایک اداریے میں لکھا کہ شیخ مجیب الرحمٰ ن نے جب بنگلہ دیش کے خواب کو عملی شکل دینے کے‬
‫لیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی اور متوازی حکومت قائم کر دی تو ان کے محسن انڈین حکمرانوں نے‬
‫اپنی امداد و اعانت فزوں تر کر دی۔‘‬
‫یحیی خان نے‬‫ٰ‬ ‫اسی اخبار میں 'مبصر' کے قلمی نام سے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے مضمون میں لکھا گیا کہ‬
‫ملک کے آئینی مسئلہ میں عوامی لیگ کے غیر مصالحانہ رویے کے پیش نظر جو قدم اٹھایا ہے‪ ،‬وہ ناگزیر اور حاالت‬
‫کا منطقی نتیجہ تھا۔‘‬
‫شیخ مجیب الرحمٰ ن اور ان کی جماعت کے خالف ملک توڑنے کا بیانیہ مغربی پاکستان میں کیوں مقبولیت اختیار کر‬
‫گیا‪ ،‬پروفیسر سلیم منصور خالد کے خیال میں اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ عوامی لیگ کے طلبہ ونگ چھاترو‬
‫لیگ کے دباؤ کا شکار تھے بلکہ یرغمال تھے اور کچھ ایسی باتیں کہنے پر بھی مجبور ہوجاتے تھے جو وہ نہیں کہنا‬
‫چاہتے تھے۔‬
‫وہ کہتے ہیں کہ عوامی لیگ کے چھ نکات مقابلے میں چھاترو لیگ گیارہ نکات رکھتی تھی جن میں چھ نکات سے بھی‬
‫زیادہ شدت تھی۔‬
‫ڈھاکہ کے بعض اخبارات میں شیخ مجیب الرحمٰ ن کی شائع ہونے والی تقریروں کی تفصیالت سے پروفیسر خالد کے‬
‫دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔‬
‫اس سلسلے میں ڈھاکہ سے شائع ہونے واال انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں چار‬
‫جنوری ‪1971‬ء کو ان کی ایک تقریر شائع ہوئی جو انھوں نے اپنے نومنتخب اراکین پارلیمنٹ کے حلف برداری کی‬
‫تقریب کے موقع پر کی۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ ‪COURTESY FAROOQ ADIL‬‬


‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫ڈھاکہ کے اخبار مارننگ نیوز کا ‪ 4‬جنوری ‪1971‬ء کا صفحہ اول جس میں شیخ مجیب الرحمٰ ن کی وہ تقریر شہہ‬
‫سرخیوں میں شائع کی گئی جس میں انھوں نے چھ نکات اور بنگلہ دیش پر کسی سمجھوتے سے انکار کیا ہے۔‬
‫اس خطاب میں انھوں نے کہا کہ چھ نکات اور بنگلہ دیش پر کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ ان ہی دنوں ایک استقبالیے‬
‫سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا کہ ان کے مینڈیٹ کے خالف سازشیں جاری ہیں اور ان سازشوں سے‬
‫نمٹنے کے لیے انھوں نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ ڈنڈے تیار رکھیں۔‬
‫سیاسی قائدین مذاکرات میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے عوامی اجتماعات میں اکثر بے لچک باتیں کیا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫شیخ مجیب کی اس قسم کی تقریریں بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہیں لیکن انڈین پارلیمنٹ میں بنگلہ دیش‬
‫کی آزادی کی حمایت کی قرارداد‪ ،‬مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے آغاز اور اس کے ساتھ ہی سنسر شپ کے نفاذ‬
‫کی وجہ سے ذرائع ابالغ کے تمام میڈیم یک طرفہ ہو چکے تھے۔‬
‫مشرقی پاکستان میں آپریشن کے اعالن سے پہلے تک عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰ ن یا ان کے ایک دو‬
‫نائبین یا اس جماعت کے مؤقف کو مغربی پاکستان کے ذرائع ابالغ میں ایک حد تک جگہ ملی لیکن آپریشن شروع ہو‬
‫جانے کے بعد اس پر ملک دشمنی‪ ،‬انڈیا کا آلہۤ کار بن جانے یا دہشت گردی کے جو سنگین الزامات عائد کیے گئے‪ ،‬اس‬
‫کی صفائی دینے کا کوئی موقع اسے میسر نہیں تھا۔‬
‫اس زمانے میں جو مواد سامنے آیا اوراس کے اثرات عوام پر محسوس کیے گئے۔ ان ہی اثرات کو سمجھنے کے لیے‬
‫میں نے ایک بزرگ خاتون کشور سلطانہ سے سوال کیا۔ ‪ 80‬برس کی یہ خاتون ان دنوں بھرپور جوان تھیں اور اس‬
‫زمانے کی روایت کے مطابق خاتون خانہ کی حیثیت سے گھرداری کیا کرتی تھیں۔ میں ان سے سوال کیا کہ ان کے‬
‫خیال میں بنگلہ دیش کیسے بنا؟بزرگ خاتون نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا‪' :‬میرے مرحوم شوہر بتایا کرتے تھے‬
‫کہ مشرقی پاکستان کے ہندو اگر مجیب کو ووٹ نہ دیتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔'‬

‫‪https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59565548‬‬

You might also like