Professional Documents
Culture Documents
71 War BBC Urdu
71 War BBC Urdu
ایک عام تاثر یہ تھا کہ عام فوجی بنگالیوں کو اپنے سے گھٹیا انسان سمجھتے تھے۔ مثالً یہ کہ ان کا قد چھوٹا ہے اور
وہ عام طور پر غریب ہیں۔ آپ کے پاس نوکری ہے اور رہن سہن قدرے بہتر ہے۔ شاید اس وجہ سے فوجی بنگالیوں کو
کوئی علیحدہ مخلوق سمجھتے تھے۔ بنگالی ثقافت کو اپنانے یا ان کی زبان سیکھنے کا شوق بھی کم کم ہی تھا۔ کچھ
گنے چنے افسروں نے بنگالی عورتوں سے شادیاں کر رکھی تھیں لیکن عام میل جول کی سطح اپنایت کے درجے سے
بہت نیچے تھی۔
1968میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا۔ اس کیس میں جو باتیں الزامات کے طور پر پیش کی جا رہی تھیں وہ تو
فوجی میسوں میں روز مرہ کے مذاق تھے۔ مثالً میرے ہم مرتبہ فوجی افسروں میں یہ مذاق عام تھا کہ اگر مشرقی
پاکستان علیحدہ ہو جائے تو سب کی ترقیاں ہو جائیں گی۔ سو جب شام کو ڈرنک کرنے بیٹھتے تو ایک دوسرے کو
ہلکے پھلکے انداز میں 'جنرل' یا 'بریگیڈیر' کہا جاتا تھا۔ جب اگرتلہ کیس کے بریفنگ افسر جنرل اعوان نے یہ غیر
سنجیدہ گفتگو بطور الزام پیش کی تو مجھے بڑی کوفت ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ سب تو مذاق تھا اور اسے سازش
سمجھنا تو بہت مضحکہ خیز بات ہے۔
شیخ مجیب الرحمٰ ن کو انڈین نواز ثابت کرنے کے لیے اس پر طرح طرح کے لیبل لگائے جاتے تھے۔ مجیب الرحمٰ ن
ایک عوامی لیڈر تھا۔ اس کی سیاست ہنگامہ آرائی کے گرد گھومتی تھی۔ عوامی لیگ کے رہنما سہروردی کی موت
کے بعد وہ پارٹی لیڈر بن گیا تھا۔ وہ ایک مقبول لیڈر تھا جو کبھی حکومت کا حصہ نہیں بنا۔ پھر اس نے فروری
1966ء میں چھ نکات پیش کیے جن کے گرد 1970ء کا الیکشن لڑا گیا۔
عوامی لیگ کے خالف زبردست پراپیگنڈہ جاری تھا۔ بہت کم لوگ یہ سیاسی شعور رکھتے تھے کہ بنگال میں ایکشن
نہیں ہونا چاہیے۔ عام آدمی یہی سمجھتا تھا کہ علیحدگی کی لہر ختم ہونی چاہیے ،یہ صورت حال ملک کے خالف
بغاوت اور ہندوستانی سازش ہے۔ عام لوگوں میں یہ تاثر تھا کہ بنگال کی بات کرنے والے محب وطن نہیں ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
ً
یحیی خان نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر بنایا جس میں ایسی باتیں تھیں مثال ’ملک یہاں ایک عجیب تضاد شروع ہوا۔ ٰ
کے خالف کوئی بات نہیں کی جائے گی ،آئین اور وفاق کے خالف کچھ نہیں کہا جائے گا ،وغیرہ‘۔ مجیب الرحمٰ ن کے
چھ نکات اس کے بالکل الٹ تھے جن کے مطابق کرنسی اور خارجی امور کو چھوڑ کر باقی تمام اختیارات صوبوں
کے پاس ہونا تھے اور پاکستان کے دونوں حصوں میں علیحدہ علیحدہ دارالحکومت بننا تھے۔
مجیب کی مقبولیت کو روکنے کے لیے عجیب عجیب اقدامات کیے جا رہے تھے۔ ڈھاکا میں اس وقت دارالحکومت ثانی
زیر تعمیر تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ وفاقی حکومت کا کچھ حصہ ڈھاکا منتقل کر دیا جائے۔ لیکن اس انتظام کی تفصیالت
پر کب ھی کسی نے غور نہیں کیا تھا۔ فوجی ڈکٹیٹر کی حکومت ہو تو ساری طاقت ایک شخص میں مرکوز ہو جاتی ہے۔
وہ شخص مغربی پاکستان میں تھا اور ایک ایسی فوج کا سربراہ تھا جس میں اکثریت مغربی پاکستان والوں کی تھی۔ یہ
تضاد تو پہلے دن سے تھا۔ اس کو دارالحکومت ثانی بنا کر کیسے دور کیا جاسکتا تھا؟
فوجی کارروائی ،پاکستان بچانے کا یکطرفہ نسخہ
یہاں سے میرا اپنا تجربہ شروع ہوتا ہے۔ 25مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع ہوئی تو
میں پی ایم اے میں انسٹرکٹر تھا۔ میری بٹالین مشرقی پاکستان میں تھی۔ میں نے رضاکارانہ طور پر مشرقی پاکستان
جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں سے جانے والے ایک میجر کو بتایا گیا کہ اگر تم نہیں جانا چاہتے تو اپنا نام کٹوا لو کیونکہ
یہ شخص جانا چاہ رہا ہے۔ جب مجھے خبر ملی تو میں بہت خوش ہوا۔ اب یہ میری عاقبت نا اندیشی تھی کہ میں اس
فوج کا حصہ بن گیا جو ایک بغاوت کچلنے جا رہی تھی۔
اصل میں بات حب الوطنی کی نہیں ہوتی۔ فوجیوں کی نفسیات ہی ایسی ہوتی ہے جیسے کسی چور کو چوری کی عادت
ہو یا نشئی کو نشے کی۔ فوجیوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ اپنے یونٹ کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں۔ چونکہ میں 1965ء
میں جنگ میں زیادہ حصہ نہیں لے سکا تھا تو میرے دل میں بھی یہ خواہش تھی۔ لیکن اس وقت میرے لیے ایکشن میں
شرکت کے عالوہ کچھ اور سمجھنا ممکن نہ تھا۔ جس کے لیے مجھے بعد میں احساس جرم بھی ہوا۔
جب میں وہاں پہنچا تو مجھے عام فوجی کے مقابلے میں ایک برتری حاصل تھی کہ میں نے پہلے سے مشرقی پاکستان
دیکھا ہوا تھا۔ میں یہ بھی جانتا تھا کہ 1968ء سے ناٹک ہو رہا ہے۔ نہ تو کوئی خفیہ تنظیم تھی اور نہ کوئی سازش۔
سچ تو یہ ہے کہ جون ،جوالئی ،اگست تک جب ہم بغاوت کی اطالعات پر کہیں جاتے اور فوج ان جگہوں کا کنٹرول
اپنے ہاتھ میں لیتی تو اصل میں وہاں ہوتا کچھ ب ھی نہیں تھا۔ نہ تو کوئی منظم مزاحمت تھی اور نہ ہی مزاحمت کاروں
کا کوئی جامع منصوبہ تھا۔ مزاحمت کرنے والے اصل لوگ بھاگ کر انڈیا چلے گئے تھے۔ انڈیا والے انھیں کچھ تربیت
دے دیتے ،وہ بارڈر کے تھوڑا اندر آکر کچھ کارروائی کر کے واپس بھاگ جاتے۔ کافی عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔
ہوا یوں کہ کچھ مقامات پر مقامی پولیس ،انصار اور ای پی آر نے سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر آزادی کا اعالن کر دیا۔
فوج نے بغیر کسی مزاحمت کے ایک ایک کر کے کنٹرول ان سے واپس چھین لیا۔
اس دوران مجھ سے کہا گیا کہ میں واپس مغربی پاکستان جاؤں تاکہ میری کرنل کے عہدے پر ترقی ہو سکے۔ میں
واپس نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں ڈھاکا میں انتہائی اہم شخص بن چکا تھا اور اپنے اس ہیرو جیسے کردار کو
انجوائے کر رہا تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ اصل میں اتنی مزاحمت یا خطرہ نہیں ہے
جتنا بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے۔ بعد میں جو میرا بریک ڈاؤن ہوا اس کی اصل وجہ بھی یہی تھی کہ میرے
جیسے غریب بندے کو ایک دم اتنی لفٹ مل جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ٰ
الرحمن کو کیسے گرفتار کیا گیا؟ مجیب
اب مجیب الرحمٰ ن کی کہانی سن لیں۔ 25مارچ کی رات میری ہی بٹالین کے بندے مجیب الرحمٰ ن کو گرفتار کرنے
گئے۔ میں اس وقت مغربی پاکستان ہی میں تھا۔ بٹالین کے کمانڈنگ افسر کرنل زیڈ اے خان تھے۔ 'بانگلہ بندھو' کا گھر
مزاحمت کاروں کی حفاظت میں تھا۔ جب اتنی طاقتور فورس مشین گن کا فائر کرتے ہوئے وہاں پہنچی تو تمام گارڈ اور
مزاحمت کار بھاگ گئے۔ زیڈ اے خان نے مجھے بتایا کہ میں نے مجیب الرحمٰ ن کو سیلوٹ کیا اور کہا 'سر مجھے آپ
کی گرفتاری کے آرڈر ہیں'۔ مجیب الرحمٰ ن نے کچھ مہلت مانگی اور اپنا بکس وغیرہ پیک کیا۔ پھر سب لوگ جب
سیڑھیاں اتر رہے تھے تو کرنل زیڈ اے خان آگے تھے ،ان کے پیچھے مجیب الرحمٰ ن اور سب سے پیچھے دو سپاہی
تھے۔ ان میں سے ایک سپاہی نے مجیب الرحمٰ ن کو تھپڑ دے مارا۔
لیفٹیننٹ کرنل بیگ ان کا سٹاف افسر تھا۔ کرنل بیگ سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا میں نے تو گالب کے پھول
لگائے ہوئے ہیں۔ بس ان کو دیکھتا رہتا ہوں۔ ٹونی میسکیریناس بھی وہیں کہیں ان کے پاس تھا۔ وہ ادھر سے بھاگ کر
براستہ کلکتہ ،لندن پہنچ گیا۔ وہاں جا کر اس نے اپنی کہانی ٹائمز آف لندن کو بیچی۔ اس میں کہا گیا کہ کرنل بیگ
لوگوں کو اپنے پھول وغیرہ دکھاتا ہے لیکن اس کا سگنل افسر روایت کرتا ہے کہ 'میں تجربہ کر رہا تھا کہ اگر بنگالی
ایک قطار میں کھڑے کیے جائیں تو کتنے بنگالیوں میں سے گولی گزرتی ہے۔ میں نے آٹھ بندے ایک الئن میں کھڑے
کروا کر ایم ون بندوق سے فائر کیا تو گولی آٹھوں میں سے گزر گئی'۔
ہم سب کو ٹونی میسکیریناس کی کہانی کی فوٹو کاپی بانٹی گئی اور ساتھ میں آرڈر آیا کہ صحافیوں سے غیر ضروری
باتیں نہ کی جائیں۔
محب وطن حلقوں کے تعاون کی حقیقت
وہاں ہندوؤں کی جتنی جائیداد تھی ،لوٹ لی گئی۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوا کہ مقامی مسلم لیگ یا جماعت اسالمی والے
ہمارے پاس آ کر کہتے کہ فالں پراپرٹی ہمیں االٹ کر دو۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب فوج کا کسی جگہ پر قبضہ ہو
جائے خاص طور پر اگر کوئی خاص مزاحمت بھی نہ ہو تو اس کے حمایتی بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
’کسی کی ماں کو دکھ مت دینا‘
قیام بنگلہ دیش کی وجوہات کو پاکستان کے تعلیمی نصاب میں کیسے پیش کیا جاتا ہے؟
مشرقی پاکستان اسمبلی کے خوں چکاں واقعات اور ڈپٹی سپیکر کا پراسرار قتل
سو سالہ شیخ مجیب اور آج کا پاکستان
مثالً جماعت اس المی والے میرے پاس آتے تھے ،پروفیسر غالم اعظم وغیرہ۔ وہ مجھے سویلین رضاکار دیتے تھے جن
سے میں نے انڈین بارڈر کے پار کئی سبوتاژ آپریشن کروائے۔ لیکن رضاکار دینے کے بعد ان کی کوئی نہ کوئی
سفارش بھی ہوتی تھی کہ فالں بندے کی دکان ہمیں دے دی جائے یا ہمارے فالں بندے کا خیال رکھا جائے۔
ایسے مقبول عوامی لیڈر بھی تھے مثالً فضل القادر چوہدری یا موالنا فرید احمد وغیرہ۔ یہ لوگ ہمارے پاس آ کر کہتے
تھے کہ فالں بندے کو مار دو یا فالں بندے کے ساتھ یہ کر دو۔
16دسمبر کو انڈین فوج کے ڈھاکہ میں داخل ہونے پر خوشی منائی جا رہی ہے
جب میں شمالی بنگال پہنچا تو مجھے ٹھاکر گنج کے مختلف واقعات سنائے گئے۔ یہ ایسٹ پاکستان رائفلز کا عالقہ تھا۔
جب رات کو میرے لیے کھانا الیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس گھر میں مغربی پاکستانی میجر محمد حسین رہتے تھے۔ میجر
محمد حسین اور ان کے اہل خانہ کو بنگالی سپاہیوں نے مار دیا تھا۔ ان کے خاندان کی صرف ایک بچی زندہ بچ سکی
تھی اور میں اس بچی سے ڈھاکا میں مال۔ وہ بچی بول نہیں سکتی تھی۔ جب مجھے یہ کہانی سنائی گئی تو مجھے جگہ
جگہ اس واقعے کے آثار دکھائی دینے لگے۔ گھر میں کئی جگہ خون کے دھبے تھے۔
باتھ روم میں گیا تو وہاں کھڑکیوں میں گولیوں سے بچاؤ کے لیے تکیے ٹھنسے تھے۔ بچوں کی کتابیں ،کھلونے اور
جوتیاں ہر جگہ بکھری ہوئی تھیں۔ سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے
احساس جرم بھی تھا کہ میں یہاں آیا کیوں؟ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جس وقت میں بطور ہیرو اپنی پرستش سے
لطف اندوز ہو رہا تھا ،اس وقت میرے آس پاس لوگ مارے ج ارہے تھے۔ اس کے عالوہ مجھے یہ بھی لگتا تھا کہ ہم
ٹھیک جا رہے ہیں۔ میری توجہ محدود ہوکر بس سرحد پار ایکشن تک ہی رہ گئی تھی۔ کسی قسم کے حملے یا جنرل
نیازی کے منصوبوں کے بارے میں تو کبھی سوچا نہ تھا۔
https://www.bbc.com/urdu/india-
59139620?at_medium=custom7&at_custom2=twitter&at_campaign=64&at_custom4=A37F67DC-5C94-
11EC-8E46-59550EDC252D&at_custom1=%5Bpost+type%5D&at_custom3=BBC+Urdu
7فروری 2021
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
یہ تحریر پہلی مرتبہ فروری 2021میں شائع کی گئی تھی اور قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اسے دوبارہ پیش کیا
جا رہا ہے۔
’الشالم علیکم ،ریشپیکٹیڈ لیڈرز!‘
شیخ مجیب الرحمٰ ن نے بھاری آواز میں مخاطب کیا تو حاضرین مجلس چوکنا ہو گئے۔ شیخ صاحب نے دائیں بائیں نگاہ
گھما کر جلیل القدر سامعین کو دیکھا اور فائل کھولتے ہوئے کہا:
’ میری عرض داشت کا مقصد پاکستان کے دونوں حصوں کو ایک ہی سیاسی وحدت کے طور پر برقرار رکھنے کی
سنجیدہ کوشش ہے۔‘
پہلے سے متوجہ کان مزید متوجہ ہو گئے۔ شیخ صاحب نے یہ کہا اور ایک مسودہ نیشنل کانفرنس کی ’مجلس
موضوعات‘ (سبجیکٹ کمیٹی) کے سپرد کر دیا۔ مجلس نے دستاویز بصد شکریہ وصول کی اور مشکل میں پڑ گئی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب معاہدہ تاشقند ہو چکا تھا اور اس معاہدے کے ردعمل میں ہونے والے احتجاجی
مظاہروں پر تشدد کے نتیجے میں کئی جانوں کا نقصان بھی۔
اب حزب اختالف اس فکر میں تھی کہ ملک کے دونوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) صوبوں کی اپوزیشن پارٹیوں کو
ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے کوئی ایسی حکمت عملی وضع کی جائے کہ معاہدہ تاشقند کے ذریعے (ان کے خیال
میں) جیتی ہ وئی جنگ کو مذاکرات کی میز پر ہار دینے والی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے۔
اس مقصد کے لیے ایک غیر معمولی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے دونوں حصوں سے تعلق رکھنے
والی حزب اختالف کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو مدعو کیا گیا۔
یہ سبجیکٹ کمیٹی اسی کانفرنس میں ایجنڈے کے تعین کے لیے بیٹھی تھی ،لیکن شیخ مجیب کی جمع کی ہوئی ایک
دستاویز سے وہاں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
یہ سبجیکٹ کمیٹی معمولی لوگوں پر مشتمل نہ تھی۔ اس میں پاکستانی سیاست اور تاریخ کے چند ایسے ممتاز سیاست
داں شامل تھے جن کا نام نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود احترام سے لیا جاتا ہے۔
اس کمیٹی کے ارکان میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور اس زمانے کی ایک بڑی سیاسی جماعت نظام اسالم پارٹی
کے سربراہ چوہدری محمد علی ،مشرقی اور مغربی پاکستان کی مقبول جماعت عوامی لیگ کے سربراہ نواب زادہ
ابواالعلی مودودی ،مشرقی پاکستان کے مولوی فرید احمد ،سردار
ٰ نصرہللا خان ،جماعت اسالمی کے امیر موالنا سید
یحیی بختیار ،خواجہ محمد رفیق (خواجہ سعد رفیق کے والد) اور جنرل ٰ شوکت حیات ،موالنا عبدالستار خان نیازی،
اعظم خان شامل تھے۔
آئین میں حقیقی معنوں میں قرارداد الہور کی بنیاد پر پاکستان کے ایک وفاق کا اہتمام ہونا چاہیے۔ نظام حکومت
پارلیمانی ہونا چاہیے ،براہ راست طریقہ انتخاب اور عام بالغ دہی کی اساس پر منتخب قانون ساز اداروں کو
پوری فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔
وفاقی حکومت کا تعلق صرف دو امور یعنی دفاع اور امور خارجہ سے ہونا چاہیے۔ باقی سب امور وفاق کو
تشکیل دینے والی ریاستوں کی تحویل میں ہونے چاہییں۔
نظام زر اور کرنسی کے بارے میں حسب ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کی جا سکتی
ہے۔ اول :دو علیحدہ اور پوری آزادی سے قابل مبادلہ نظام ہائے زر رائج کیے جائیں۔ دوئم :ملک بھر کے لیے
ایک ہی نظام زر رکھا جائے ،اس صورت میں آئین میں مؤثر اہتمام کیا جائے تاکہ مشرقی اور مغربی پاکستان
سے سرمائے کے فرار کو روکا جاسکے۔ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ بینکنگ ریزرو قائم کیا جائے اور
علیحدہ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے۔
وفاق کی تشکیل کرنے والی ریاستوں کو ہی ٹیکس وصول کرنے اور محاصل حاصل کرنے کا تمام تر اختیار
ہو گا ،البتہ اسے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ریاستوں کے ٹیکسوں سے اسے حصہ ملے گا اور
مجموعی وفاقی فنڈ کے قیام کے لیے ریاستوں کے تمام ٹیکسوں پر طے شدہ شرح سے اضافی محصول عائد
کیا جا سکے گا۔
بیرونی تجارت کے سلسلہ میں :الف۔ وفاق کی تشکیل کرنے والی ہر ریاست کے لیے خارجہ تجارت کا علیحدہ
حساب رکھا جائے گا۔ ب :خارجہ تجارت سے جو زرمبادلہ حاصل ہوگا ،وہ ریاستوں کی تحویل میں رہے گا۔
ج :وفاقی حکومت کی زرمبادلہ کی ضروریات دونوں ریاستوں(مشرقی اور مغربی پاکستان) کی طرف سے
مساوی طور پر یا کسی متفق علیہ شرح سے پوری کی جائیں گی۔ د :دونوں ریاستوں سے مقامی اشیا کی کسی
ٹیکس یا محصول کی پابندی کے بغیر نقل و حمل ہو سکے گی۔ ہ :ریاستوں (صوبوں) کو آئین کے ذریعے اس
امر کا مجاز قرار دیا جائے کہ وہ دوسرے ملکوں میں اپنے تجارتی نمائندے مقرر کر سکیں جو اپنی ریاست
کے مفاد میں سودے کر سکیں۔
آئین کے تحت ریاستوں کو نیم فوجی یا عالقائی فوجی دستے قائم کرنے اور انھیں برقرار رکھنے کی اجازت
ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی عالقائی سالمیت کے ساتھ آئین کا تحفظ بھی کر سکیں۔
حزب اختالف کی نیشنل کانفرنس میں ان نکات کے پیش ہونے کے بعد بند کمروں میں جو طوفان اٹھا ہو گا ،اس کے
آثار اور چنگاریاں کسی قدر باہر بھی آئیں جن پر تبصرہ کرتے ہوئے ’نوائے وقت نے لکھا کہ قومی مسائل کا ایسا
عالج تجویز کیا گیا ہے جس سے مرض کا تو نہیں مریض ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘
کچھ اسی قسم کے تبصرے حزب اختالف کی قیادت کی طرف سے بھی سامنے آئے۔ مشرقی پاکستان کونسل مسلم لیگ
کے سربراہ ایم شفیق االسالم نے ڈھاکہ میں کہا کہ اگر شیخ مجیب کے چھ نکات تسلیم کر لیے گئے تو اس سے ملک
میں انتشار اور عدم استحکام پیدا ہو گا۔
کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی کے رکن اور امیر جماعت اسالمی موالنا مودودی نے ڈھاکا میں ایک اجتماع سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ہم ایسی صوبائی خود مختاری کے حامی ہیں
جس سے ملک کی سالمیت پر کوئی آنچ نہ آئے۔
ایوب خان نے جو حزب اختالف کی قومی کانفرنس کا اصل ہدف تھے ،کانفرنس کے بارے میں کہا کہ وہ کوئی متبادل
پروگرام پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔ چھ نکات کا ذکر کیے بغیر انھوں نے انھیں ملک میں انتشار پیدا کرنے کا ذریعہ
اور قومی یک جہتی کے خالف سازش قرار دیا۔
ممتاز صحافی اور روزنامہ 'پاکستان' کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمٰ ن شامی کہتے ہیں کہ اپوزیشن راہ نما خطرہ محسوس
کرتے تھے کہ اگر ان کے پلیٹ فارم سے یہ تجاویز سامنے آ گئیں تو اس کے نتیجے میں ایوب خان انھیں علیحدگی
پسند اور علیحدگی پسندوں کا ساتھی قرار دے کر پوری حزب اختالف پر چڑھ دوڑیں گے ،اس طرح ایوب آمریت کے
خالف ان کی تحریک ایک متنازع معاملے کی وجہ سے دم توڑ جائے گی۔
13دسمبر 2021
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-59565548