You are on page 1of 101

‫کچی کلی‬

‫قسط نمبر دو‬


‫بالل نے روہانسی آواز میں چیختے ہوئے‬
‫کہا اسد تم کیسے دوست ہو ؟؟ میں نے‬
‫تم پر اعتماد کیا ۔۔۔ اسد بوال چھوڑو‬
‫گانڈو تیری میری دوستی بھی ایسی‬
‫تھی تم میرے پاس بھی مروانے آتے تھے‬
‫۔۔۔ بالل رونے لگا تھا ۔۔ میرے سر میں‬
‫دھماکہ ہوا کیا بالل اتنا گندا لڑکا ہے ؟؟؟‬
‫لوہے جیسے سخت راڈ نے مجھے مزہ دینا‬
‫شروع کر دیا وہ پورا میرے اندر بھرا ہوا‬
‫تھا میں بالل کے سامنے اس حال میں‬
‫بہت شرمندگی محسوس کر رہی تھی‬
‫اس کے دل پر کیا بیت رہی اس کے رونے‬
‫سے اندازہ ہو رہا تھا وہ ایک بڑی سفید‬
‫چادر سے بندھا ہوا تھا جو شفیق تقریبًا‬
‫ہر وقت اپنے کندھے پر لٹکائے ہوتا تھا اگر‬
‫بالل بندھا ہوا بھی نہ ہوتا تو بھی ان کے‬
‫آگے کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ ان کے‬
‫سامنے ایک بچہ تھا شفیق نے میرے‬
‫پیچھے اپنا ببلو ڈالتے ھوئے بالل سے کہا‬
‫دیکھو ایسی کرتی ہے یہ روز ہمارے‬
‫ساتھ ۔۔۔ ئم اس کو کیسے جانیں دیں گے‬
‫ڈبل کی اس پوزیشن میں میں بہت‬
‫جلدی پانی چھوڑ دیتی تھی آج بھی‬
‫پورے پورے مزے کے ساتھ میں جلدی‬
‫پانی چھوڑ گئی تھی دو ہاتھیوں کے بیچ‬
‫دبی میں نے سانس لینے کے لئے اپنے‬
‫چہرے کو دائیں طرف سے باہر نکاال ۔۔‬
‫بالل نیم کھلی آنکھوں سے مجھے دیکھ‬
‫رہا تھا اس کے چہرے پر مایوسی چھائی‬
‫تھی اور اس کا ببلو کھڑا ہو چکا تھا ۔۔۔۔‬
‫وہ دونوں ہانپتے ہوئے مجھے مسل رہے‬
‫تھے میں وائی وائی کے ساتھ پھر سے‬
‫رونے لگی تھی ۔۔ اسد نے شفیق کو اشارہ‬
‫کیا اور شفیق نے اپنا ببلو نکال کر سائیڈ‬
‫پر ہو گیا اسد نے مجھے چارپائی پر لٹایا‬
‫اور میری ٹانگیں اٹھا کر اپنا ببلو میری‬
‫ببلی میں ڈاال اور مجھ پر لیٹ کر زور کے‬
‫جھٹکے مارنے لگا۔۔ اور کچھ دیر میں ہی‬
‫رک گیا اور اپنا الوا میرے اندر چھوڑ دیا‬
‫۔۔۔ چند سیکنڈ بعد وہ اٹھتے ہوئے شفیق‬
‫سے بوال آگے ڈالو۔۔۔ وہ دونوں جنگلیوں‬
‫کی طرح مجھے کھینچ کھیچ کے دشمنی‬
‫نکالتے ہوئے اپنی حوس پوری کر رہے تھے‬
‫شفیق نے اپنے ببلو کو ایک جھٹکے میں‬
‫میری ببلی میں اتارا اور اپنے بڑے پیٹ‬
‫کے نیچے مجھے دباتا ہوا میرے اوپر لیٹ‬
‫گیا وہ گھوٹ گھوٹ کر جھٹکے مارتا اپنا‬
‫پانی میرے اندر بھر گیا میرے کانوں میں‬
‫بالل کی ہلکی وائی کی آواز آئی میں نے‬
‫اس کی طرف دیکھا تو اس کا پانچ انچ‬
‫کا ببلو اس کے پیٹ کی طرف پانی گرا‬
‫رہا تھا ۔۔۔ اسد اور شفیق نے ایک دوسرے‬
‫کے ہاتھ سے تالی بجائی اور قہقہے لگانے‬
‫لگے ۔۔۔۔ وہ بہت بے شرمی سے بالل پر‬
‫طنز کر رہے تھے اس کا کپڑا کھول کر‬
‫اسے آزاد کر دیا تھا یہ دونوں چارپائی کے‬
‫بازو پر بیٹھ گئے اور مجھے دونوں نے‬
‫اپنی ٹانگوں پر لٹا لیا تھا جیسے کسی‬
‫بچے کو گود میں بھرا جاتا ہے اس کچے‬
‫چھوٹے کمرے میں ہم سب ننگے تھے بالل‬
‫ایک بار پھر ہاتھ جوڑ کر اور رو رو کر ان‬
‫کی منتیں کر رہا تھا شفیق نے بھی وہی‬
‫بات کی کہ آپ جا سکتے ہو ہم آپ کو‬
‫جانے دیتے لیکن نازی کو نہیں جانے دیں‬
‫گے یہ ہمارے پاس رہے گی ۔۔۔ اسد بوال‬
‫نہیں بالل بھی یہیں رہے گا ۔۔ یہ جا۔کر‬
‫کوئی مسئلہ بنا دے گا ہمارے لئے ۔۔۔ بس‬
‫کام نہیں کرو ادھر گھر میں رہو۔۔۔ اپنی‬
‫لیلٰی کو پورا مزہ لیتے دیکھو۔۔۔ دن ایک‬
‫بجے وہ دوبارہ سے شروع ہو گئے اس‬
‫وقت بالل کو نہیں باندھا تھا بالل بے‬
‫بس ہو کر بیٹھا تھا یہ دونوں میرے‬
‫جسم کو نوچ رہے تھے ۔۔۔ دوسری باری‬
‫میں بھی بالل کا پانی نکلتے دیکھا میں‬
‫نے تو مجھے اس کے حال لر بہت رحم آیا‬
‫۔۔۔ اسد اور شفیق نے ایک روٹین بنا لی ۔۔‬
‫رات کو ایک شفیق ہمارے ساتھ ہوتا اور‬
‫صبح اسد کے آنے پر وہ چال جاتا بالل اور‬
‫میں آپس میں کوئی بات نہیں کر سکتے‬
‫تھے دس دنوں میں بالل کا پانی جب‬
‫بھی نکال صرف مجھے ان کے ساتھ‬
‫سیکس کرتے ہوئے نکلتا تھا اذیت بھرے‬
‫ان دس دنوں میں ہم ہر طرح سے جائزہ‬
‫لے رہے تھے اور ہمیں یہاں سے نکلنے کا‬
‫کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا میں جب‬
‫بھی بالل سے نظر مالنے کی کوشش‬
‫کرتی ہم دونوں کی نظریں جھک جاتی‬
‫اسد نے صاف کہہ دیا تھا کہ پیسے زیور‬
‫ختم ہو گئے ہیں اور اسی روز سے بس ہم‬
‫یہاں سے بھاگنے کا رستہ ڈھونڈ رہے تھے‬
‫رات کو جب میری آنکھ کھلتی یا تو بالل‬
‫نیند میں ہوتا یا پھر شفیق جاگ جاتا اس‬
‫رات اسد دس بجے چال گیا تھا شفیق نے‬
‫مجھے اپنے ساتھ سال لیا آج سردی بہت‬
‫زیادہ تھی باتھ روم گئی تھی تو دھند‬
‫اتنی زیادہ تھی کہ وہاں سے کمرہ نظر‬
‫نہیں آ رہا تھا بارہ بجے شفیق میری ببلی‬
‫میں پانی چھوڑ کر لیٹ گیا اور پھر اس‬
‫کے خراٹے بلند ہونے لگے بالل جاگ رہا تھا‬
‫اس نے مجھے اشارہ کیا کہ بھاگتے ہیں‬
‫میں نے اسے ابھی سونے کا اشارہ کیا اور‬
‫آرام سے شفیق کے پاس سے اٹھ گئی میں‬
‫نے اپنے کپڑے پہنے ہمارے پاس سردی‬
‫سے بچاؤ کے کوئی گرم کپڑے یا کوٹ‬
‫نہیں تھے بس گزارا کر لیتے دن کو بھی‬
‫سردی سے بچاؤ کا واحد سہارا رضائی‬
‫ہی ہوتا تھا شفیق آج مجھے کچھ گہرے‬
‫نشے میں لگ رہا تھا اس کے خراٹے تواتر‬
‫سے چل رہے تھے میں نے اپنا دوپٹہ لپیٹا‬
‫اور آہستہ قدموں سے چلتی دروازے کے‬
‫پاس جا کر کنڈی کھولی میں شفیق اور‬
‫بالل کو دیکھتی باہر آنے لگی اور بالل‬
‫بھی اپنی چارپائی سے آہستہ سے اٹھنے‬
‫لگا تھا کمرے سے باہر آ کر میں دروازے‬
‫سے تھوڑا آگے بالل کا انتظار کرنے لگی ۔۔۔‬
‫وہ پانچ منٹ بعد شفیق کا موبائل اٹھائے‬
‫آہستہ سے باھر آیا اور اس نے دروازے کی‬
‫باہر سے کنڈی لگا دی ۔۔۔ وہ جلدی سے‬
‫میرا بازو پکڑ کر مین دروازے کی طرف‬
‫بڑھا دروازہ کھول کر ہم باہر آ گئے میں‬
‫جہاں پر آنے کے کئی ماہ بعد اس حویلی‬
‫سے باہر آئی تھی ۔۔ بالل نے ادھر ادھر سر‬
‫گھما کر دیکھا اس نے شفیق کے موبائل‬
‫کو آف کیا اور اپنی جیب میں ڈال کر‬
‫دائیں طرف مجھے پکڑ کر چلنے لگا ہمیں‬
‫کچھ نظر نہیں آ رہا تھا بس ہم گھاس‬
‫میں چل رہے تھے اور ہماری شلواریں‬
‫گھٹنوں تک پانی پانی ہو چکیں تھی‬
‫سردی ہمیں بے حال کر رہی تھی لیکن ہم‬
‫دونوں ہانپتے ہوئے چل رہے تھے ہر طرف‬
‫خاموشی تھی ہم اگر ایک فٹ دور ہوتے‬
‫تو ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکتے تھے‬
‫ہم کس طرف جا رہے تھے ہمیں علم نہیں‬
‫تھا بالل دکان کی طرف آتا جاتا رہتا تھا‬
‫لیکن ہم اس وقت اس سے مخالف سمیت‬
‫میں چل رہے تھے میرے پاؤں سردی سے‬
‫پتھر بن گئے تھے ہم میں کوئی بات چیت‬
‫نہیں ہو رہی تھی ہم اپنی سانسوں کی‬
‫آواز سن رہے تھے اور گھاس پر گھسیٹتے‬
‫پاؤں سے کچھ آواز پیدا ہو رہی تھی‬
‫اچانک ہمارے سامنے اونچی اونچی‬
‫لکڑیوں جیسے کچھ آ گیا بالل نے پہلی‬
‫بار سرگوشی کی ۔۔ گنے کی فصل ہے ۔۔‬
‫اس کے اندر سیدھا جانا ممکن نہیں تھا‬
‫کچھ لمحے بعد بالل میرے بازو کو پکڑ‬
‫کر لفٹ سائیڈ پر چلنے لگا میری ٹانگیں‬
‫جواب دے چکی تھیں اور میں اس گھٹن‬
‫وقت میں اپنے حوصلے بلند رکھنے کی‬
‫کوشش کر رہی تھی ہم ایک چھوٹی‬
‫پگڈنڈی پر چل رہے تھے کبھی کبھی‬
‫خشک کچی مٹی پر پاؤں سلپ ہو جاتا‬
‫تھا اور بالل مجھے سنبھال لیتا اور کبھی‬
‫بالل لڑکھڑا جاتا تو میں اسے پکڑنے کی‬
‫کوشش کرتی میں درد بھری مدھم آواز‬
‫کہ ساتھ جھکنے لگی تھی بالل نے مجھے‬
‫اپنی باہوں میں بھرتے ہوئے سنبھاال اور‬
‫پوچھا کیا ہوا ۔۔۔ میرا بائیں پاؤں میں‬
‫شدید درد تھا میں بیٹھنے لگی تھی بالل‬
‫نے شاید جیب سے شفیق واال موبائل‬
‫نکاال اور اس کی بیٹری نکال کے شاید‬
‫سم نکال پھینکی تھی اور اس کے بعد‬
‫موبائل کو آن کر دیا بالل نے اس کی ٹارچ‬
‫روشن کی اور میرے پاؤں پر جھک گیا‬
‫چپل کے اندر سے کانٹے نے میرے پاؤں کو‬
‫بری طرح کاٹ دیا تھا پاؤں گھاس میں‬
‫چلتے ہو گیلے اور سردی سے پتھر بنے‬
‫ہوئے تھے اور اب کانٹے کے درد نے مجھے‬
‫بےحال کر دیا تھا بالل نے کانٹا نکال‬
‫پھینکا تھا اور سیدھا ہوتے ہوئے موبائل‬
‫ٹارچ کو بند کر دیا تھا میری ہمت جواب‬
‫دے چکی تھی ہم بہت دیر سے چل رہے‬
‫تھے اور مذید کتنا چلنا تھا ہمیں معلوم‬
‫نہیں تھا سردی نے میرے جسم کو کاڑ‬
‫ڈاال تھا اور بالل کی حالت بھی کچھ اس‬
‫طرح تھی ۔۔ میں نے بالل کو کچھ دیر‬
‫رکنے کا کہا تو بوال رکنا ٹھیک نہیں ہو گا‬
‫نازیہ ہمت کرو تھی ۔۔ شفیق کے موبائل‬
‫پر ٹائم صحیح نہیں آ رہا تھا شاید اس‬
‫کے بیٹری نکالنے کے بعد ٹائم کی سیٹنگ‬
‫خراب ہو گئی تھی بالل کا اپنا موبائل‬
‫ہمارے یہاں آنے کے تین دن بعد ہی اس‬
‫فرنیچر دکان سے چوری ہو گیا تھا اور ان‬
‫دنوں مجھے یقین ہو چال تھا کہ وہ بھی‬
‫اسد نے چرا لیا تھا تاکہ ہمارا کسی سے‬
‫کوئی رابطہ نہ رہے میں اپنے پاؤں‬
‫گھسیٹ کر لنگڑاتی بالل کے ساتھ چلنے‬
‫لگی تھی چند قدم چلنے کے بعد ہمیں‬
‫اپنے دائیں طرف سے ایک ہارن سنائی دیا‬
‫آواز سے انداز ہو گیا کہ مین روڈ ہم سے‬
‫ہماری دائیں طرف اب بھی کافی فاصلے‬
‫پر ہے بھاری ہارن کی مدھم سی آواز ہم‬
‫تک پہنچی تھی بہرحال ہم میں ایک امید‬
‫کی کرن پیدا ہو گئی تھی دائیں طرف اب‬
‫بھی گنے کی فصل تھی سو ہم سیدھے‬
‫آگے چل رہے تھے پانی کے نالے میں بالل‬
‫داخل ہو چکا تھا اور مجھے ہاتھ سے‬
‫ادھر ہی روک دیا اس نے آہستہ سے دو‬
‫مذید قدم اٹھائے اور پھر ایک قدم‬
‫پیچھے آ کر اس نے دوبارہ سے میرا ہاتھ‬
‫تھاما اور مجھے آگے کھینچا پانی میرے‬
‫گھٹنوں تک آ گیا اور ہم پانچ سات قدم‬
‫اٹھانے کے بعد نالے سے باہر آ گیا یہ راستہ‬
‫کچہ لیکن ہموار تھا اور دائیں طرف ہی‬
‫جانے لگا تھا بالل نے مجھے تیز چلنے کا‬
‫بوال ہم بری طرح سے ہانپتے آگے بڑھ رہے‬
‫تھے تقریبًا بیس منٹ بعد ہمیں ہارن کے‬
‫ساتھ ایک بڑی گاڑی کی ہلکی آواز سنائی‬
‫دی اور دھند میں بہت آگے یہ سائید‬
‫کچھ روشن نظر آئی بالل نے سرگوشی‬
‫کی کہ ہم روڈ کے قریب ہو رہے شاید یہ‬
‫کچہ رستہ اسی روڈ کی طرف ہی جا رہا‬
‫تھا پیچھے سے کچھ روشنی اور‬
‫موٹرسائیکل کی آواز آنے لگی بالل مجھے‬
‫کھینچتا ہوا پھر سے دائیں جانب بڑھ گیا‬
‫شاید ہم دوبارہ اسی نالے کو عبور کر کے‬
‫گنے کی فصل میں بیٹھ گئے تھے‬
‫موٹرسائیکل آہستہ سے گزرتا ہوا آگے چال‬
‫گیا تھا ماسوائے اس کی الئٹ کے ہم اور‬
‫کچھ نہیں دیکھ سکے ایک منٹ بعد ہی‬
‫ہم اٹھ گئے اور نالے کے کنارے پر ہی چلنے‬
‫لگے ۔۔۔اب ہماری رفتار اس غیر ہموار نالے‬
‫کے کنارے پر تھی بہت آہستہ ہو گئی‬
‫تھی کیا یہ اسد کا موٹرسائیکل تھا ؟؟‬
‫میں نے بالل سے سرگوشی کی ۔۔۔ تیز‬
‫لمبی سانسوں کہ بیچ بوال لگتا ایسا ہی‬
‫ہے ۔۔۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا‬
‫شفیق روم سے باہر آ گیا تھا ؟؟ مگر‬
‫کیسے ہمیں وہاں سے نکلے شاید دو‬
‫گھنٹے سے زیادہ وقت ہو چکا تھا ۔۔۔کچھ‬
‫ہی دیر بعد موٹرسائیکل واپس آنے لگا تھا‬
‫ہم ایک بار پھر گنے کی فصل میں بیٹھ‬
‫گئے تھے اس بار اس کی سپیڈ کچھ‬
‫زیادہ تھی موٹرسائیکل ایک بار پھر سے‬
‫پیچھے ا گیا تھا بالل بوال یہ اسد ہی ہے‬
‫بس اٹھو جلدی چلیں ۔۔۔۔ ہم نالے کے‬
‫کنارے چلتے آگے بڑھ گئے نالہ بائیں جانب‬
‫مڑا اور ایک پل میں سے ہوتا ہوا آگے جا‬
‫رہا تھا پل پر چڑھنے کے بعد بالل نے یہ‬
‫جگہ پہچان لی تھی وہ روز اس پل پر‬
‫سے گزر کر دوسری طرف دکان پر جایا‬
‫کرتا تھا روڈ یہاں سے نزدیک ہے بالل نے‬
‫سرگوشی کی اور قدرے تیز قدم اٹھانے‬
‫لگا۔۔۔۔ میں کیسے چل رہی تھی مجھے‬
‫معلوم نہیں تھا حاالنکہ ان چند مہینوں‬
‫میں میرے ہپس بہت بھاری ہو گئے تھے‬
‫اور میرا اندر مجھے خالی لگتا تھا جیسے‬
‫ساری انرجیاں ختم ہو چکی ہوں روشنی‬
‫اس گاڑی کی آواز نے ہماری ہمت بڑھا دی‬
‫تھی اور ہم تقریبًا بھاگتے ہوئے اس طرف‬
‫بڑھنے لگے ہم پانچ منٹ میں روڈ پر پہنچ‬
‫چکے تھے کہیں دور سے روشنی کا آالؤ‬
‫محسوس ہونے لگے ہمارا دھیان پیچھے‬
‫کی طرف بھی تھا یہ اہم اس خطرناک‬
‫پوائنٹ تھا ہم روشنی کی طرف روڈ‬
‫کنارے بڑھنے لگے تھے اور اپنی رفتار بڑھا‬
‫دی تھی روشنی شاید ہماری ہی طرف‬
‫بڑھ رہی تھی اور ہم اسی طرف بھاگ‬
‫رہے تھے گیلے کپڑوں کےباوجود بھی ہمارا‬
‫سردی کا احساس کم ہو گیا تھا ہمیں‬
‫یہاں سے نکلنا تھا مجھے اس جگہ کے ہوا‬
‫اور مٹی سے بھی نفرت ہو گئی تھی‬
‫جس پر میری زندگی مکمل طور پر تباہ‬
‫ہو گئی تھی ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟ ہم‬
‫کیا کریں گے کچھ معلوم نہیں تھا ھمارے‬
‫پاس ایک روپے کی نقدی موجود نہیں‬
‫تھی ہم کیسے جائیں گے ہمارے ذہن میں‬
‫اس پر کوئی سوال نہیں تھا بس ایک ہی‬
‫جستجو تھی کہ ہمیں یہاں سے نکلنا ہے‬
‫اور بس۔۔۔ دھند میں الئٹس قریب آ رہی‬
‫تھی اور گاڑی کا آواز بھی بڑھ رہا تھا‬
‫سپیڈ اتنی نہیں تھی گاڑی کے قریب آنے‬
‫پر ہم تقریبًا روڈ کے درمیان کھڑے ہو گئے‬
‫بالل نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا دئیے‬
‫گاڑی کی رفتار ایک دم کم ہو گئی اور‬
‫اگلے لمحے ہی وہ تھوڑا کٹ کر کے ہمارے‬
‫پاس سے ایک ٹرک گزر گیا اور ہم مایوس‬
‫ہو گئے لیکن بالل نے ایک بار پھر میرا‬
‫ہاتھ پکڑا اور ہم اسی سمت بھگنے لگے‬
‫میرے پاؤں بہت درد کر رہے تھے چپل بار‬
‫بار پھسل رہے تھے گیلے ہونے کے ساتھ ان‬
‫میں مٹی بھر آئی تھی جس سے کیچڑ‬
‫سا بن گیا تھا ۔۔۔ ایک روشنی کے ساتھ ہم‬
‫میں امید بھر آئی اس بار بھی ہم نے اسے‬
‫روکنے کی کوشش کی وہ آہستہ ہونے کے‬
‫ساتھ ہم سے گزر گیا اور پھر تھوڑا آگے‬
‫جا کر رک گیا یہ بھی ٹرک تھا اور اس‬
‫کی بریک کی آواز سن کر ہم نے اس کی‬
‫طرف دوڑ لگا دی۔۔۔‬

‫بالل اور میں بھاگتے ہوئے ٹرک کے پاس‬


‫پہنچے تو ایک بندہ اس سے پہلے اتر چکا‬
‫تھا اندھیرے میں اس کا چہرہ صاف نظر‬
‫نہیں آ رہا تھا ہم دونوں سردی اور خوف‬
‫سے‬
‫تھرتھرا رہے تھے وہ پٹھان تھا پشتو‬
‫لہجے میں بوال کون ہو آپ اور کدھر جانا‬
‫ہے ۔۔ میں نے بالل سے پہلے بوال انکل پلیز‬
‫ہمیں یہاں سے لے جائیں ہماری جان کو‬
‫خطرہ ہے ہم آپ کو سب سچ بتا دیں گے‬
‫اس آدمی نے ٹرک کے اندر بیٹھے کسی‬
‫شخص سے پشتو میں بات کی اور کچھ‬
‫دیر اس سے باتیں کرتا رہا پھر اس نے‬
‫کھڑکی کھولی اور ہمیں اندر جانے کا بوال‬
‫بالل کو میں نے آگے جانے کا اشارہ کیا وہ‬
‫لرزتے جسم کے ساتھ اوپر چڑھنے لگا وہ‬
‫اندر چال گیا تھا اور میں اس کھڑکی کے‬
‫ہینڈل کو پکڑ کر اوپر چڑھنے لگی لیکن‬
‫میرے ہاتھ اور ٹانگیں میرا وزن اٹھانے‬
‫سے بے بس ہو چکے تھے دو بار کی‬
‫کوشش کے بعد بھی میں اپنے کولہے‬
‫اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئی تو پیچھے‬
‫کھڑے اس پٹھان نے میرے ہپس کو پکڑ‬
‫کر مجھے اوپر اٹھایا اس کے سخت بڑے‬
‫ہاتھ میرے ہپس میں پیوست ہو کر‬
‫کرنٹ چھوڑ گیا ۔۔۔ پٹھان نے وخ خ خ خ‬
‫خ کی آواز کے ساتھ گہری سانس لی میں‬
‫اندر آ چکی تھی اور اس پٹھان کے‬
‫کھڑکی میں آنے کے ساتھ ہی ٹرک چل پڑا‬
‫تھا ہمارے کپڑے گیلے تھا اور یہ دیکھتے‬
‫ہوئے ڈرائیور اور دوسرا بندہ پشتو میں‬
‫کوئی بات کرتے ہوئے اس بڑی سیٹ کے‬
‫پیچھے لیٹے کسی تیسرے بندے کو‬
‫جگانے لگے وہ آنکھیں ملتا حیرت سے‬
‫ہمیں دیکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے‬
‫کوئی بات کرنے لگا تھا اور پھر ہماری‬
‫طرف آنے لگا اندر جلتی الئٹ میں ان‬
‫سب کی سرخ آنکھیں اور ڈرونے چہرے‬
‫دیکھ کر ہم کچھ زیادہ پریشان ہو گئے‬
‫تھے لیکن تقریر اب ہمارے ساتھ کیا کرنے‬
‫جا رہی ہے ہمیں معلوم نہیں تھا اور ہم‬
‫بےبسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے ہمارے‬
‫پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا ۔۔‬
‫ہمارے پاس پیسے نہیں تھے اور ان گیلے‬
‫کپڑوں کے عالوہ اور کپڑے نہیں تھے ۔۔۔‬
‫ان لوگوں نے ہم دونوں سے بوال کہ آپ‬
‫پیچھے چلے جاؤ۔۔۔ میرے بعد بالل بھی‬
‫اس تنگ گلی نما جگہ میں آ گیا تھا اس‬
‫آدمی نے ہمیں کمبل لپیٹنے کا بوال اور ہم‬
‫فورًا کمبل لپیٹ کر بیٹھ گئے ٹرک کے‬
‫اندر اتنی ہیٹ تھی کہ ہمیں رفتہ رفتہ‬
‫سکون ملنے لگا ۔۔۔۔ وہ بہت دیر تک ہمیں‬
‫دیکھ کر آپس میں باتیں کرتے رہے پھر‬
‫اسی پٹھان نے جس نے ہمیں ریسیو کیا‬
‫تھا ہم سے بات کرتے ہوئے بوال کہ آپ‬
‫ہمیں سچ سچ بتاؤ گے تو ہم آپ کی مدد‬
‫کریں گے ورنہ آگے ہم آپ کو پولیس کے‬
‫حوالے کر دیں گے ۔۔۔۔ میرے جسم میں‬
‫سرد لہر دوڑ گئی اور میں نے آہستہ سے‬
‫بالل کو کہنی مار کر اسے بولنے کا اشارہ‬
‫کیا بالل نے ان کو اتنا بتا دیا کہ ہم پیار‬
‫کرتے ہیں اور شادی کے لئے کراچی سے‬
‫نکل آئے تھے اور جہاں دوست کے پاس‬
‫آئے تو اس نے ہمارا چھ الکھ اور دس‬
‫تولے سونا لوٹ لیا اب ہمیں مارنا چاہتا‬
‫تھا تو ہم بھاگ آئے ۔۔۔ پٹھان نے پوچھا‬
‫اب آپ کہاں جاؤ گے ؟؟ بالل نے بوال ہم‬
‫کراچی واپس جانا چاہتے ۔۔۔۔ وہ بہت دیر‬
‫تک آپس میں لڑنے جیسے انداز میں باتیں‬
‫کرتے رہے پھر ہمیں بوال کہ ہم باجوڑ جا‬
‫رہے دو دن بعد واپس کراچی جائیں گے‬
‫تو آپ کو وہاں چھوڑ دیں گے اگر آپ‬
‫کہیں اترنا چاہو تو اتر سکتے لیکن آپ‬
‫پولیس یا کسی اور کے ہتھے چڑھ گئے تو‬
‫پھر خود ذمے دار ہوں گے ۔۔۔ پٹھان کے‬
‫اس آپشن پر ہم دونوں مطمئن ہو گئے کہ‬
‫ہم کہیں اترنا چاہیں تو اتر سکتے ۔۔۔ بالل‬
‫بوال اگر آپ ن‪ ،‬واپس کراچی جانا ہے تو‬
‫دو دن کی کوئی بات نہیں ہے ہم آپ کے‬
‫ساتھ چلیں گے پٹھان نے ہمیں سونے کا‬
‫بوال دیا کہ آپ کمبل لپیٹو اور سو جاؤ‬
‫ہمارے کپڑے گیلے تھے لیکن کمبل لپیٹ‬
‫کر ہم لیٹ گئے اور ہمیں نیند آ گئی۔۔۔۔۔‬
‫جب میری آنکھ کھلی تو بالل بیٹھا ان‬
‫سے باتیں کر رہا تھا باہر ہلکی سی دھند‬
‫اب بھی موجود تھی لیکن صاف معلوم‬
‫ہو رہا تھا کہ دن کافی چڑھ چکا ہے‬
‫میرے اٹھ بیٹھنے پر سب میری طرف‬
‫متوجہ ہو گئے بالل نے مسکرا کر میری‬
‫طرف دیکھا حاالت نارمل لگ رہے تھے ہم‬
‫اس مصیبت زدہ عالقے سے کافی دور آ‬
‫چکے تھے مجھے ان تینوں پٹھانوں کی‬
‫نگاہوں میں حوس صاف نظر آ رہا تھا‬
‫لیکن میں پریشان نہیں ہو رہی تھی یہ‬
‫سب کچھ میں گزار چکی تھی اور میرے‬
‫دل میں تھا کہ یہ دو تین دن بعد اگر‬
‫ہمیں کراچی پہنچا دیں تو بھی ان تین‬
‫کے ساتھ سودا مہنگا نہیں تھا میں بہت‬
‫عرصے بعد اس قید سے باہر آ چکی تھی‬
‫اور میں اپنی آنکھوں سے ہر لمحے بدلتے‬
‫سین دیکھ کر دل میں بہت خوش ہو‬
‫رہی تھی چھوٹے شہروں اور بستیوں سے‬
‫گزرتے یہ ٹرک جانے کہاں جا رہا تھا ہمیں‬
‫معلوم نہیں تھا ہم نے یہ عالقے کبھی‬
‫خوابوں میں بھی نہیں دیکھے تھے بالل‬
‫اور میں اس خوش فہمی میں خوش‬
‫تھے کہ ہم ایک قید سے نکل کر آزاد ہو‬
‫گئے ہیں اور بس دو چار روز میں کراچی‬
‫پہنچ جائیں گے ۔۔ کراچی پہنچ کر ہم نے‬
‫کیا کرنا ہے کہاں جانا ہے ہمیں کچھ‬
‫معلوم نہیں تھا ٹرک روڈ کنارے ایک‬
‫جنگل میں رک چکا تھا آسمان پر سورج‬
‫اب بھی کچھ دھند کی لہروں میں نظر آ‬
‫رہا تھا سب اس جنگل میں ادھر ادھر‬
‫پھیل چکے تھے بالل مجھے بھی اتار کر‬
‫لے گیا تھا کچھ دیر میں واپس آئی اور‬
‫بالل اور میں ان لوگوں کا انتظار کرنے‬
‫لگے باری باری یہ تینوں بھی آ گئے تھے۔۔‬
‫مجھے ڈرائیور سمیت ان تینوں کی‬
‫نظریں اپنے ہپس پر چبھتی محسوس ہو‬
‫رہی تھی اور وہ آپس میں کچھ باتیں کر‬
‫رہے تھے ٹرک ہمارے سمیت منزل کی‬
‫جانب چل پڑا تھا ہم دونوں کو ہدایت دی‬
‫گئی تھی کہ جب پولیس ناکہ آ جائے تو‬
‫ہم کمبل لپیٹ کر سو جائیں کوئی اےک‬
‫گھنٹے بعد ٹرک ایک ہوٹل پر رک چکا تھا‬
‫ڈرائیور نے اسے باقی گاڑیوں سے الگ‬
‫تھلگ کھڑا کیا تھا ہمیں اندر رہنے کا بول‬
‫کر وہ تینوں چلے گئے تھے کچھ دیر بعد‬
‫ان میں ایک بندہ ہمیں کھانا دے کر‬
‫واپس چالگیا تھا ہمیں بھوک لگی ہوئی‬
‫تھی اور کھانا بھی اچھا تھا سو ہم نے‬
‫پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور آپس میں‬
‫باتیں کرنے لگے میں نے بالل سے پوچھا‬
‫کہ کراچی جا کر کیا کریں گے بوال بس‬
‫اپنے گھروں کو جائیں گے باقی دیکھا جا‬
‫گا یا ہمیں مار دیں گے یا ہم دونوں کی۔‬
‫شادی کر دیں گے اگر مر بھی گئے تو اس‬
‫ستم بھری دنیا میں ذلت سے روز روز کے‬
‫مرنے سے بہتر ہے ۔۔۔ میں بھی یہی چاہتی‬
‫تھی سو خاموش رہی شام سے کچھ‬
‫پہلے پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا تھا نہ تو‬
‫ہم کسی عالقے خو جانتے تھے اور نہ‬
‫جاننے کی کوشش کر رہے تھے بس‬
‫خاموشی سے دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے‬
‫رات دیر سے انہوں نے ٹرک ایک ہوٹل پر‬
‫روک دیا اور ہمیں بھی اتار کر اس ہوٹل‬
‫کے ایک کمرے میں لے گئے اس کا اٹےچ‬
‫باتھ روم بھی تھا ہم فریش ہونے کے بعد‬
‫یہی بیٹھے رہے اور ایک لڑکا ہمیں کھانا‬
‫دے گیا ٹرک کا عملہ کہاں تھا ہمیں معلوم‬
‫نہیں تھا ۔۔۔ کھانے کے کچھ دیر بعد ہم‬
‫ایک بار پھر سے اپنے انجان سفر کی‬
‫جانب روانہ ہو گئے رات دیر سے بالل نے‬
‫مجھے سونے کا کہا اور مجھ پر کمبل‬
‫ڈال دیا وہ ٹرک کے عملے سے باتیں کر رہا‬
‫تھا ہمیں اسد کی اس قید سے نکلے تقریبًا‬
‫چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے کمبل میں‬
‫جسم کے گرم ہونے کے ساتھ مجھے نیند آ‬
‫گئی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو میں ایک‬
‫چھوٹے کمرے میں نیچے سوئی ہوئی‬
‫تھی مجھے چکر آ رہے تھے اور میں نے‬
‫ایک بار پھر اپنی آنکھیں بند کر گئی جب‬
‫میں نیند سے پوری طرح بیدار ہوئی تو‬
‫رات ہی تھی وہی راٹ جس میں میں‬
‫سوئی تھی یا اس کے بعد والی رات ؟؟‬
‫مجھے معلوم نہیں تھا میں نے سر اٹھا کر‬
‫دیکھا میں قالین پر رضائی میں سوئی‬
‫ہوئی تھی جبکہ میرے آس پاس تین اور‬
‫لوگ بھی سو رہے تھے جنہوں نے‬
‫رضائیاں لپیٹ رکھی تھی ۔ان میں بالل‬
‫کونسا تھا میں رضائی اٹھا کر کسی کو‬
‫دیکھ نہیں سکتی تھی میں لیٹ گئی‬
‫مجھے اب بھی چکر آتے محسوس ہو رہے‬
‫تھے بہت دیر بعد دور کہیں سے آذان کی‬
‫آواز آ رہی تھی ۔۔ میں اس چھوٹی‬
‫کوٹھڑی کے کونے میں لگے ایک سنگل‬
‫دروازے کی طرف بڑھ گئی یہ باتھ روم‬
‫تھا میں اس سے واپس آنے کے بعد کچھ‬
‫پریشان سی ہو گئی تھی آس پاس لیٹے‬
‫ان تینوں کے جسم بالل سے بہت بڑے لگ‬
‫رہے تھے اگر بالل ان میں نہیں تھا تو پھر‬
‫کہاں تھا راستے میں ان لوگوں نے بوال‬
‫تھا کہ ہم کل دوپہر کو اپنی منزل پر‬
‫پہنچیں گے میں سو گئی تھی کیا میں‬
‫میں تھوڑی دیر بعد یعنی فجر سے پہلے‬
‫اٹھ گئی تھی ؟؟ کیا دوپہر کے پہنچنے‬
‫کے بجائے ہم ایک گھنٹے میں اسی رات‬
‫پہنچ گئے تھے ؟؟ یا یہ اس سے اگلی رات‬
‫ہے کیا میں چوبیس گھنٹے سوتی رہی‬
‫تھی ؟؟ تو میں ٹرک کے اندر سے یہاں‬
‫کیسے پہنچی تھی ؟۔ بالل کہاں تھا ۔۔ کیا‬
‫میں پہلے سے بھی زیادہ مصیبت میں‬
‫پھنس گئے تھی ؟؟؟ کیا میں ان وحشی‬
‫شکل والے پٹھانوں میں اکیلی رہ گئی‬
‫تھی ؟؟؟ افففففف سب کچھ غلط ہو گیا‬
‫تھا بالل ان میں نہیں تھا تو بالل کہاں رہ‬
‫گیا میں بیٹھتے ہوئے اٹھی اور دروازے‬
‫کی طرف بڑھ گئی پردہ ہٹایا تو بھاری‬
‫تالے نے میرے منہ پر جیسے طمانچہ مارا‬
‫۔۔ میں اس کوٹھڑی ک‪ ،‬دھندلے مناظر‬
‫میں اپنی جگہ پر واپس آنے لگی تھی‬
‫میں نے اپنے اوپر رضائی تان لی اور بغیر‬
‫آواز کے اپنی قسمت پر رونے لگی تھی ۔۔۔‬
‫بہت دیر بعد کمرے میں کچھ موومنٹ‬
‫محسوس ہوئی میں نے اپنی آنکھیں‬
‫صاف کر لیں اور رضائی سے اپنا چہرہ‬
‫نکال کر باہر کے مناظر دیکھنے چاہیے‬
‫سرخ آنکھوں اور بکھرے بالوں واال‬
‫ڈرائیور رضائی سے اپنا چہرہ نکال کر‬
‫میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ میں نے باقی‬
‫دو کی طرف دیکھا تو وہ ابھی سو رہے‬
‫تھے اس نے مجھے اشارہ کر کے اپنے پاس‬
‫بالیا میری آنکھوں میں نمی آ گئی اس‬
‫نے میری رضائی کھینچ کر غصے سے‬
‫دیکھتے ہوئے کہا اےےےےےے ادھر آ ۔۔۔‬
‫میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ‬
‫گئی اور میں کانپتی اس کے پاس چلی‬
‫گئی اس نے مجھے اپنی رضائی کے اندر‬
‫کھینچ لیا اس بندے سے کچھ عجیب‬
‫سی بو آ رہی تھی میں نے پوچھا بالل‬
‫کدھر ہے وہ میری بات کا جواب دینے کے‬
‫بجائے مجھے کسنگ کرنے لگا میں نے‬
‫لرزتے جسم اور کانپتی آواز میں پھر وہی‬
‫سوال دھرایا ۔۔۔ بوال آ جائے گا ادھر‬
‫دوسرے کمرے میں ہے وہ وحشیوں کی‬
‫طرح میرے نرم بھرے ہپس کھینچ کر‬
‫ہلکی آواز میں وخ خ خ خ خ‬
‫وخخخخججج کرنے لگا اس نے ایک دم‬
‫میں قمیض اوپر کر دی اور میرے بوبز‬
‫سے اپنے منہ کو بھرنے لگا وہ مسلسل‬
‫میرے ہپس سے اپنے بہت سخت ہاتھوں‬
‫سے مٹھیاں بھرے جا رہا تھا پھر اس نے‬
‫میری پیٹھ اپنی طرف پھیر لی اور میری‬
‫شلوار کو گھٹنوں تک نیچے کیا اور اپنے‬
‫آپ کو سیٹ کرتا ہوا کوئی بہت موٹی‬
‫گرم اور سخت چیز لوہے کی طرح میرے‬
‫ہپس کے درمیان دبانے لگا افففففففف یہ‬
‫کیا ہے کیا یہ اس کا ببلو ہی میں نے اپنا‬
‫ہاتھ پیچھے کرکے اس کو پکڑنا چاہا لیکن‬
‫اس گندے پٹھان نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگے‬
‫کیا اور میرے ہلس کو پکڑتے ہوئے لوہے کا‬
‫موٹا راڈ میرے ہول کے اندر دبانے لگا ۔۔‬
‫اممممھھھھ اونہہ آئی آئی آئی کی میری‬
‫آوازیں اس چھوٹی کوٹھڑی میں گونج‬
‫رہی تھی وہ خود آگے آنے کے بجائے‬
‫مجھے کھینچ رہا تھا ساتھ میں‬
‫وخخخخخ آہاہا ووووی وووی وووی کرتا‬
‫جا رہا تھا اس کا ببلو اسد سے بھی کہیں‬
‫زیادہ بڑا موٹا اور سخت تھا اور آگے آنے‬
‫پر میری آوازیں گلے میں پھنس گئیں‬
‫میری زبان اور آنکھیں باہر آنے لگی لیکن‬
‫وہ پورا اندر کرنے کے بعد جھٹکوں کی‬
‫صورت مجھے ہالنے لگا تھا میرا جسم لٹ‬
‫رہا تھا اور بے حال اس کے ہاتھ کی‬
‫سخت پکڑ کے ساتھ اچھل کر اس کے‬
‫ببلو کو اپنی برداشت سے بےقابو ہوتے‬
‫اندر باہر کر رہی تھی بہت وقت گزر چکا‬
‫تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں پانی‬
‫چھوڑ چکی تھی یا۔نہیں لیکن ستم کا‬
‫شکار بنے اس کا کھلونا بنی ہوئی تھی‬
‫اتنی دیر میں تو اسد بھی اپنا الوا نکال‬
‫فیتا تھا لیکن یہ انسان تھا یا کچھ اور‬
‫ابھی تک ویسی ہی سپیڈ میں مجھے‬
‫کاٹتا جا رہا تھا پھر وہ رک گیا اور اپنی‬
‫لفٹ ٹانگ میرے اوپر پھیرتا ہوا مجھے‬
‫الٹا کر گیا اور میرے اوپر لیٹ کر زور کے‬
‫جھٹکے مارنے لگا مجھے لگ رہا تھا کہ‬
‫میری ہڈیاں سرمہ بن جائیں گی میں‬
‫کچھ بول نہیں سکتی تھی میری آنکھیں‬
‫مسلسل دکھوں کی وجہ سے اب خشک‬
‫ہونے لگیں تھی جو چند آنسو بہانے کے‬
‫بعد خشک ہو جاتی تھیں ۔۔۔ بہت دیر بعد‬
‫اوی اوی اوی کی آواز کے ساتھ اس نے‬
‫بہت گرم اور عجیب سی چیز میرے اندر‬
‫گرا دی تھی اور ساکت ہو گیا تھا اس کا‬
‫جسم بھٹی کی طرح گرم تھا اور وہ بری‬
‫طرح ہانپ رہا تھا ساتھ والی رضائی کے‬
‫اندر سے آنے والی آواز پر وہ پشتو میں‬
‫الفاظ کو لمبا کر کے مزے سے اسے کچھ‬
‫بتا رہا تھا میں کیا کروں مجھے کیا کرنا‬
‫ہے میں نے کروٹ لے کر اپنے ٹوٹے بدن کو‬
‫سیدھا کیا اور روتے ہوئے ان سے ایک بار‬
‫پھر پوچھا بالل کہاں ہے ۔۔۔ وہ ہنسنے لگے‬
‫۔۔ ہائے او لیلٰی مجنوں کو بال الؤ۔۔۔ وہ‬
‫ہنستے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے‬
‫پھر میرے قریب والی رضائی سے بھاری‬
‫آواز میں کسی نے اووووممممم کیا وہ‬
‫دونوں اس سے ہنس کر ماما او ماما ۔۔‬
‫کہہ کر کوئی بات کرتا اور ماما پھر‬
‫اوووووھھھھم کہہ دیتا اور یہ دونوں‬
‫پھر سے ہنسنے لگتے ۔۔ جس وحشی نے‬
‫مجھے اپنی درندگی کا بہت ظلم سے‬
‫نشانہ بنایا تھا اس نے مجھے تھپڑ مارا‬
‫اور بوال جاؤ ماما کے پاس جاؤ ۔۔ ماما‬
‫اس کو مجنوں کا بتاؤ۔۔۔ماما نے پھر سے‬
‫زیادہ بھاری آواز میں اووووھھھھھمممم‬
‫کہہ دیا میں رونے لگی اور اسی وحشی‬
‫نے مجھے اٹھا کر ماما کی رضائی میں‬
‫بھر دیا تھا۔۔۔‬

‫میں غم اور درد سے چور بے حال سی‬


‫اس ماما کے پہلو میں پڑی تھی میں اپنی‬
‫قسمت پر رونا بھی چاہتی تھی تو اب‬
‫مجھے رونا بھی نہیں آتا تھا لوگ کیسے‬
‫مر جاتے ہیں میں کیسے مروں گی ؟؟؟‬
‫میں مر کیوں نہیں جاتی ؟؟ مجھے کوئی‬
‫مار کیوں نہیں دیتے مجھے اس وقت‬
‫اسد اور شفیق ان وحشیوں کے مقابلے‬
‫میں بہت اچھے لگ رہے تھے بالل بھی‬
‫میرے ساتھ تھا وہ کوئی بات کر لیتے‬
‫کچھ وقفہ مل جاتا کبھی ان کے دل میں‬
‫احساس پیدا ہو جاتا جس کی اب یہاں‬
‫کوئی امید باقی نہیں تھی بالل کو ان‬
‫لوگوں نے کہاں کر دیا مجھے کوئی جواب‬
‫نہیں مل رہا تھا ماما نے اپنے بازو میں‬
‫بھرتے ہوئے میرے چہرے کو اوپر اٹھا کر‬
‫اپنے لبوں کے قریب کرتے ہوئے میرے گال‬
‫کو اپنے دانتوں سے ایسے کاٹا کہ میری‬
‫چیخ نکل گئی یہ سب قہقہے لگانے لگے‬
‫ماما میری آواز کی کاپی کرتے ہوئے‬
‫ووووئی ووووئی وووئی بولتا اور یہ‬
‫دونوں قہقہے لگانے لگتے ماما نے میرے‬
‫ہپس کو اپنے ہاتھوں میں دبایا اور پشتو‬
‫میں کوئی بات کہہ دی تو وہ سب ہنسی‬
‫میں جیسے ٹوٹ پڑے تھے ماما نے میری‬
‫قمیض اتار دی اور اس کے بعد اور بریزر‬
‫بھی اتار کر رضائی سے باہر پھینک دی‬
‫کمرے میں بیٹھے باقی دو افراد ہنستے‬
‫ہوئے پشتو میں ایسے پوچھا جیسے وہ‬
‫کہہ رہے ہوں ماما آج بڑی جنگ لڑنی ہے‬
‫کیا ؟۔ ماما نے جوش میں کوئی بات کہہ‬
‫دی وہ دونوں ماما کی ہر بات پر کھلکھال‬
‫کر ہنس دیتے تھے ماما میرے بوبز کو‬
‫جوستے اور ساتھ مدہوشی جیسے کچھ‬
‫بولتا جا رہا تھا یہ وہی بندہ تھا جس نے‬
‫ہمیں سب سے پہلے ریسیو کیا تھا میں‬
‫پہلے سے بھی بڑی مصیبت میں پھنس‬
‫چکی تھی ماما نے اپنے کپڑے بھی اتار‬
‫دئیے وہ میرے جسم کے انگ انگ کو‬
‫پاگلوں کی طرح کاٹ رہا تھا میں نے اسے‬
‫رحم بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنے‬
‫ہاتھوں کو جوڑ دیا میرے حلق سے کوئی‬
‫آواز نہیں نکل سکی ۔۔۔ وہ قہقہے لگاتے‬
‫ہوئے پشتو میں کچھ کہہ رہا تھا جس پر‬
‫باقی دونوں قہقہے لگانے لگے تھے میں‬
‫بس آنکھیں بند کرکے بغیر کسی سوچ کے‬
‫ساکت ہو گئی تھی ماما نے میرا ہاتھ پکڑ‬
‫کر اپنے ببلو پر رکھ دیا یہ پہلے والے‬
‫وحشی سے موٹائی میں کم تھا لیکن‬
‫لمبائی میں زیادہ تھا میں نے خود کو ان‬
‫کے حوالے کر دیا تھا اور سوچ رہی تھی‬
‫کہ جیسے کوئی موقع ملے گا میں اپنی‬
‫زندگی کا خاتمہ کر دوں گی ۔۔۔ ماما نے‬
‫مجھے الٹا لٹاتے ہوئے میرے اوپر سوار ہو‬
‫گیا اور ببلو کو میرے پیچھے پورا پورا‬
‫اتار دیا وہ جھٹکے لگانے سے پہلے کچھ‬
‫بول گیا جس پر باقی دونوں آدمی‬
‫کھکھال کر ہنس دئیے ماما مستی میں‬
‫کچھ بولے جا رہا تھا اور جھٹکے مار رہا‬
‫تھا مجھے یاد نہیں کہ میں کیا محسوس‬
‫کر رہی تھی اب مجھے یھ سب کچھ‬
‫ایک ڈرونا خواب لگتا ہے کچھ دیر بعد‬
‫اس نے اپنا ببلو باہر نکاال اور میری ببلی‬
‫میں ڈالنے لگا ساتھ اس نے میری ٹانگوں‬
‫کو تھوڑا کھول دیا ببلو کے اس طرح‬
‫میری ببلی میں اندر آنے سے میرا پیٹ‬
‫آگے سے پھٹنے لگا تھا ماما کچھ دیر میں‬
‫مستی کی اوی اوی اوی کرتا میرے اندر‬
‫پانی چھوڑ دیا اب میں نیم بےہوشی کے‬
‫عالم میں اگلے شکاری کے انتظار میں‬
‫تھی کہ وہ کب مجھے اپنی حوس کا‬
‫شکار بنا کر مجھے کچھ دیر سانس لینے‬
‫کا موقع ملے گا ماما اور وحشی آواز دینے‬
‫لگے زرولی او زرولی ۔۔۔۔ اس کے بعد پشتو‬
‫میں کیا بوال کہ وہ اس رضائی کے اندر آ‬
‫گیا اور ماما دوسری طرف سے باہر نکل‬
‫گیا میں ویسے ہی الٹی لیتی ہوئی تھی‬
‫کمرہ کسی بھیانک بو کے ساتھ دھویں‬
‫سے بھر گیا تھا مجھے ناشتے میں خوب‬
‫تحفے مل رہے تھے زرولی نے میرے ہپس‬
‫پر بیٹھتے ہی میرے پیچھے سخت راڈ‬
‫اتار دیا تھا لیکن مجھے کچھ محسوس‬
‫نہیں ہو رہا تھا میرا جسم شل ہو چکا تھا‬
‫بہت دیر بعد وہ بھی میرے پیچھے کوئی‬
‫پرانی عداوت نکال کر الگ ہو گیا تھا‬
‫جہاں سردی کی شدت بہت زیادہ تھی‬
‫رضائی تھوڑی جسم سے اٹھتی تو برف‬
‫جیسا جھونکا جسم کو پتھرا دیتا تھا ۔۔‬
‫زرولی نے میرے اوپر سے رضائی ہٹا دی‬
‫تھی اور میرے ہپس پر یہ تینوں اپنے‬
‫ہاتھوں پھیر کر اور تھپکی دے کر کچھ‬
‫بولتے جا رہے تھے ۔۔۔۔ وہ وقفے وقفے سے‬
‫باتھ روم جا رہے تھے پھر مجھے بوال اور‬
‫لیلٰی نہا لو ۔۔۔۔ میں پڑی رہی بہت دیر بعد‬
‫میں نے سسکی بھر کر اس ماما سے‬
‫پوچھا بالل کہاں ہے۔۔۔ بوال وہ تمھیں بیچ‬
‫گیا ہے ہم پر ایک الکھ میں ۔۔۔۔۔ دوسرا‬
‫بوال نہیں وہ ہمیں بوال کہ میری لیلٰی‬
‫چھوٹی ہے اسے بڑا کر دو پھر میں لے‬
‫جاؤں گا تم سے ۔۔ وہ مسلسل مذاق بنا‬
‫رہے تھے اور مجھے کوئی ایک بات نہیں‬
‫کر رہے تھے کبھی بولتے وہ گم ہو گیا تھا‬
‫راستے کے ایک ہوٹل میں ۔۔۔ یہ بات بھی‬
‫بعید نہیں تھی کہ انہوں نے بالگنگ کو‬
‫قتل کر دیا ہو ۔۔۔ ان میں سے ایک آدمی‬
‫کہیں چال گیا تھا اور بہت دیر بعد وہ‬
‫واپس آیا تھا وہ اپنے ساتھ کھانا الیا تھا‬
‫مجھے یہ لوگ باہر لے آئے کہ آج مزے کی‬
‫دھوپ نکلی ہے میں صحن میں آئی تو‬
‫آس پاس بلند پہاڑ تھے اور ان کے بیچ یہ‬
‫گھر میں اکیال لگ رہا تھا دیوار کے ساتھ‬
‫دو چارپائیاں پڑی ہوئی تھی جن پر‬
‫انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا میرا‬
‫کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا لیکن یہ‬
‫مجھے مجبور کر رہے تھے ایک ماما اس‬
‫وحشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بوال‬
‫یہ بہت ظالم بندہ ہے اس سے بچ کے رہنا‬
‫یہ گدھے کی نسل سے ہے یہ احساس‬
‫نہیں کرتا ۔۔۔ شام کے بعد وہ وحشی‬
‫میرے ساتھ سو گیا تھا مجھے نیند آ گئی‬
‫تھی میرے ہونٹوں سے نکلنے والی درد‬
‫بھری آواز کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی‬
‫وحشی میرے پیچھے لگا ہوا تھا یہ تینوں‬
‫مجھے ایک ہفتے تک اس طرح اپنے‬
‫حوس کا نشانہ بناتے رہے ایک ہفتے بعد‬
‫وہے ٹرک ادھر آ گیا تھا اس سے بھی تین‬
‫آدمی اس گھر میں آ گئے تھے یہ چھ‬
‫افراد شام تک بیٹھے آپس میں باتیں کرتے‬
‫رہے اور شام کے فورًا بعد ماما وحشی اور‬
‫زرولی۔ٹرک لے کر چلے گئے تھے اور نئے‬
‫آنے والے ان تینوں افراد نے بھی میرے‬
‫ساتھ وہی سلوک برقرار رکھا۔۔۔۔ ایک‬
‫ہفتے بعد پہال گروپ واپس آ گیا تھا اور‬
‫یہ تینوں ٹرک کے ساتھ چلے گئے تھے اب‬
‫میں سمجھ چکی تھی کہ یہ چھ بندوں‬
‫کا گروپ ہے یہ سلسلہ چلتا رہا کبھی ایک‬
‫ہفتے میں تین کبھی دو اور کبھی ایک‬
‫بندہ ضرور ہوتا اور کبھی کبھی یہ چار‬
‫بھی ہوتے تھے مجھے کوئی پتا نہیں تھا‬
‫ہفتے کا کونسا دن ہے مہینہ کونسا چل رہا‬
‫دن رات کا ہوش نہیں ہوتا تھا کبھی دن‬
‫کو چند گھنٹے سو جاتی تو کبھی رات کو‬
‫اذیت بھرے دن کا پل پل مشکل ہو گیا‬
‫تھا میرا جسم بہت بڑھ گیا تھا میری‬
‫جلد خراب ہونے لگی تھی رنگت کالی ہو‬
‫رہی تھی مجھ سے چال نہیں جاتا تھا‬
‫میں وقت سے پہلے ایک بڑی عمر کی‬
‫عورت بن چکی تھی پتا نہیں تھا ماہ گزر‬
‫گئے یا سال گزر گئے تھے کوئی طوفان‬
‫بھی نہیں آ رہا تھا جو مجھے اڑا لے جائے‬
‫کو سیالب نہیں آ رہا تھا جو مجھے بہا لے‬
‫جائے ان دنوں میں بہت بیمار ہو گئی‬
‫تھی مجھے شدید کھانسی کے ساتھ بخار‬
‫تھا میرے پیٹ میں مڑوڑ اٹھ رہے تھے‬
‫میرے جسم پر پیپ بھرے دانے نکل آئے‬
‫تھے میری ہڈیوں میں ایسا درد تھا‬
‫جیسے انہیں کو آڑے سے کاٹ رہا ہو یہ‬
‫ظالم پھر بھی اپنی حوس پوری کر رہے‬
‫تھے بیچ میں میں کھانا پکانے کے ساتھ‬
‫کپڑے دھونا اور باقی کام بھی سیکھ‬
‫چکی تھی لیکن اس وقت وہ پھر سے‬
‫کھانا پتا نہیں کہاں سے لے کر آتے تھے‬
‫م‪،‬حالت بگڑتی دیکھ کر وہ پریشان ہو‬
‫گئے تھے پچھلے چار روز سے میں ان کے‬
‫حوس سے بچی ہوئی تھی لیکن میری‬
‫حالت بگڑتی جا رہی تھی مجھے لگتا تھا‬
‫میں کچھ وقت کے لئے بےہوش ہو جاتی‬
‫تھی اس رات یہ چھ اکٹھے تھے اور آپس‬
‫میں باتیں کرتے جارہے تھے صبح سورج‬
‫نکلنے کے ساتھ ہی یہ کچھ تیاری کر رہے‬
‫تھے مجھے بڑی چادر پہنائی اور مجھے‬
‫اٹھا کر جاتے ہوئے مجھ بولے کہ ڈاکٹر کے‬
‫پاس جاتے ہیں میں مر جانا چاہتی تھی‬
‫مجھ سے بوال نہیں جا رہا تھا‬
‫موٹرسائیکل پر مجھے درمیان میں بٹھایا‬
‫اور یہ دو بندے پہاڑی پر آگے چل پڑے‬
‫میں کبھی کبھی آنکھیں کھول کر دیکھ‬
‫لیتی تھی لیکن کہاں جا رہے ہیں مجھے‬
‫کچھ معلوم نہیں تھا میں تھک چکی‬
‫تھی اور میری کمر بہت درد کر رہی تھی‬
‫بہت دیر بعد ایک اور پہاڑی پر چڑھتے‬
‫اس کچے رستے پر وہ رک چکے تھے آپس‬
‫میں مدھم سے گفتگو کرتے وہ مجھے اتار‬
‫چکے تھے اور اس رستے کی ایک سائیڈ‬
‫پر مجھے لٹا کر میرے اوپر کمبل ڈاال اور‬
‫موٹرسائیکل کو پیچھے موڑ کر چلے گئے‬
‫تھے مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میں اب‬
‫کسی کام کی نہیں رہی تھی اور بس‬
‫مرنے کے قریب تھی مجھے سکون مل رہا‬
‫تھا کہ۔میں اب اذیت بھری زندگی سے‬
‫چھٹکارا پا چکی ہوں اور بس اب کسی‬
‫ظلم کے قابل نہیں رہی ہوں ۔۔۔ دھوپ سے‬
‫مجھے سکون مل رہا تھا کبھی کبھی‬
‫میری آنکھیں کھل جاتی تھی شاید‬
‫دوپہر کے بعد کا ٹائم تھا مجھے اپنے‬
‫پاس کچھ آوازیں آتی سنائی دیں میں نے‬
‫اس خدشے کے پیش نظر آنکھیں کھول‬
‫دیں کہیں وہ ظالم واپس تو نہیں لوٹ‬
‫آئے ۔۔۔ ایک بزرگ اور ایک خاتون آپس‬
‫میں باتیں کرتے مجھے اٹھا رہے تھے بزرگ‬

‫ّٰل‬ ‫ّٰل‬
‫کی الّٰلہ الّٰلہ کی آوازیں مجھے کسی‬
‫محبت کا احساس دے رہے تھے وہ دونوں‬
‫مل کر مجھے تقریبًا گھسیٹتے ہوئے اس‬
‫چھوٹے رستے پر پہاڑی کے اوپر گھسیٹتے‬
‫جا رہے تھے مجھے ایک کمرے میں گھاس‬
‫کے بنے قالین پر لٹا دیا گیا اور کچھ‬
‫فاصلے پر آگ جال دی گئی مجھ پر‬
‫رضائی ڈال کر بزرگ خاتون میرا سر‬
‫دبانے لگی۔۔۔۔۔ خاتون چمچ سے مجھے‬
‫دودھ پالنے لگی تھی مجھے لگا وہ اپنا‬
‫سب کچھ بھول کر میری خدمت میں لگ‬
‫گئے تھے کچھ دیر بعد مجھے قہوہ‬
‫جیسی کوئی بہت کڑوی چیز پالئی اور‬
‫اس کے کچھ دیر بعد مجھے میٹھا قہوہ‬
‫پالیا گیا بزرگ ایک چارپائی پر سو گیا‬
‫تھا اور خاتون میرے ساتھ مجھ میں‬
‫بولنے کی ہمت نہیں تھی میں کبھی خود‬
‫کو جاگتا تو کبھی گہری نیند میں اترتا‬
‫محسوس کر رہی تھی پتھروں کی‬
‫دیواروں والے اس چھوٹے کمرے کے۔‬
‫دروازے سے اوپر چوکور چھوٹے سوراخ‬
‫سے سورج کی روشنی آنے لگی تھی‬
‫مجھے بدن میں درد کی شدت قدرے کم‬
‫محسوس ہو رہی تھی ان کی آپس کی‬
‫گفتگو میں سن تو رہی تھی لیکن سمجھ‬
‫نہیں پا رہی تھی یہ کوئی عجیب طرح‬
‫کی پشتو تھی شاید کا کوئی اور پہاڑی‬
‫زبان تھی ۔۔۔ میں تین دن بعد کافی‬
‫سنبھل چکی تھی کھیر میکس ٹائپ کی‬
‫کوئی چیز مجھے دن میں تین بار کھالنے‬
‫کے ساتھ قہوہ اور اس کے ساتھ وہ بہت‬
‫کڑوا قہوہ بھی پالیا جا رہا تھا تیسرے‬
‫دن رات کو مجھے الٹیاں آنے لگیں تھی‬
‫اور اس کے بعد میں خود کو بہت ہلکا‬
‫محسوس کر رہی تھی اگلی صبح میں‬
‫تکیہ کی ٹیک لگ لر ان دونوں میاں بیوی‬
‫کو محبت کے ساتھ دیکھ رہی تھی بزرگ‬
‫آج کچھ مطمئن تھا اس نے اپنی بیگم‬
‫سے کوئی بات کی وہ دونوں محبت سے‬
‫مجھے دیکھ کر باتیں کر رہے تھے اس سے‬
‫اگلے روز سے ہی بزرگ کلہاڑی اٹھا کر نکل‬
‫جاتا اور شام سے کچھ دیر قبل واپس آتا‬
‫یہ اس کی روزمرہ کی روٹین تھی شاید‬
‫وہ کچھ دن میرے لئے گھر رکا رہا تھا یہ‬
‫ظلمت بھری دنیا شاید اس لئے ابھی تک‬
‫قائم تھی کہ اس میں اس بزرگ جوڑی‬
‫جیسے لوگ موجود تھے کڑوے قہوے کا‬
‫ایک کپ مجھے رات کو سونے سے قبل‬
‫ضرور پالیا جاتا بزرگ خاتون اس کو‬
‫بہت سی جڑی بوٹیاں ڈال کر بناتی تھی‬
‫۔۔۔۔ مجھے اس بزرگ جوڑی میں امی ابو‬
‫جیسی شفقت نظر آتی تھی لیکن مجھے‬
‫خود سے گھن آنے لگتی تھی میرا وجود‬
‫میری نفرت کا سب سے بڑا مرکز تھا اسی‬
‫وجود کی آگ نے مجھے جیتے جی مار‬
‫دیا تھا غلطی کس کی تھی ؟؟ ابو کی‬
‫جس نے مجھے ناسمجھی کی اس عمر‬
‫میں موبائل دے کر آزاد چھوڑ دیا تھا ۔۔۔۔‬
‫امی کی ؟؟؟ س نے مجھ سے کبھی نہیں‬
‫پوچھا تھا کہ موبائل پر دن رات کیا‬
‫کرتی رہتی ہو ؟؟؟ میری دوست شکیلہ‬
‫کی جس نے مجھے موویز سنڈ کر کے‬
‫مجھ کو پیاسی چڑیل بنا دیا تھا ۔۔۔ بالل‬
‫کی جس نے سب سے پہلے میرے جسم‬
‫کے ساتھ کھیال تھا ۔۔ میری ممانی کی جو‬
‫میری امی کے ڈاکٹر کے پاس جانے کہ بعد‬
‫الپرواہ سو گئی تھی یا خود میری غلطی‬
‫تھی جو میں چند دنوں میں ہی اتنا غلط‬
‫فیصلہ کرتے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھا گئی‬
‫تھی بالل کے دوست اسد کی غلطی تھی‬
‫یا خود بالل کی غلطی تھی جس نے اس‬
‫جیسے حوس بھرے انسان پر اتنا بڑا‬
‫اعتماد کر لیا تھا ۔۔ بالل بھی میری طرح‬
‫بچہ تھا اور اس دنیا کے فراڈ اور ظلم‬
‫سے بے خبر تھا ۔۔۔۔ بالل کہاں ہو گا کیا وہ‬
‫زندہ بھی ہوگا کا ان ظالموں نے اسے بھی‬
‫مآر دیا تھا بظاہر یہ۔مجھے ماڑ کر ہی‬
‫درندوں کی خوراک کے طور پر جہاں‬
‫پھینک گئے تھے مجھے پکا یقین تھا کہ‬
‫میرے امی ابو میرے ایسے اقدام کے بعد‬
‫اگر ہارٹ اٹیک سے نہیں مرے ہونگے تو‬
‫خودکشی کرکے مر گئے ہوں گے اب میرے‬
‫سارے راستے بند تھے میں کہاں تھی‬
‫مجھے علم نہیں تھا نہ بزرگ جوڑی میری‬
‫کوئی بات سمجھتے تھے اور نہ میں انکی‬
‫کوئی بات سمجھ پاتی تھی گونگے‬
‫جیسے اشاروں کے بعد ہمارے درمیان‬
‫مسکراہٹ کا تبادلہ ہوتا اور کام چل جاتا‬
‫اشاروں سے پوچھنے پر ہی بزرگ خاتون‬
‫نے چند آنسوؤں کے بیچ بتا دیا تھا کہ‬
‫اس کے دو بیٹے گلے کٹنے سے شہید ہو‬
‫گئے کس نے کیسے شہید کیا اس سے آگے‬
‫میں جان نہیں پائی تھی وہ مجھے ایک‬
‫بیٹی جتنا پیار دیتے تھے بزرگ خاتون کو‬
‫میں چںد اشاروں سے بتا چکی تھی کہ‬
‫میں ظلم کا شکار ہوتے ہوتے آخری‬
‫سانسوں میں آپ کے ہاتھ لگ گئی تھی‬
‫شاید ایک سال سے بھی بھی بہت زیادہ‬
‫میں ان کے پاس رہی میری رنگت نکھر‬
‫چکی تھی صحت بہت بہتر ہو چکی تھی‬
‫سیکس کا بھوت جانے کب سے اتر چکا‬
‫تھا اس گھر سے تھوڑے فاصلے پر پہاڑی‬
‫پر ہی چند گھر موجود تھے جن کی‬
‫خواتین کبھی کبھار ادھر آ جاتی تھی‬
‫اس روز بزرگ خاتون نماز پڑھتے ہوئے‬
‫بےچین ہوتی گئی اور کچھ دیر میں ہی‬
‫زندگی کی بازی ہار گئی۔۔۔‬
‫مجھے ایسے لگا جیسے میری سگی ماں‬
‫مر گئی ہو میں بہت عرصے بعد روئی‬
‫تھی خود دکھوں سے چور اس خاتون نے‬
‫مجھے پل پل عزت دی احترام دیا پیار‬
‫دیا بابا جی بھی بہت اچھے تھے لیکن‬
‫اس خاتون نے مجھے مرا ہوا اٹھایا تھا‬
‫اور دیسی ٹوٹکوں سے مجھ میں جان‬
‫بھر دی تھی میں صحت مند ہو چکی‬
‫تھی مجھے اماں نے جینا سکھا دیا تھا‬
‫اور خود مر گئی تھی میں کئی دن تک‬
‫روتی رہی تھی ان کے گھر محلے داروں‬
‫کے عالوہ کچھ دور دراز کے مہمان بھی‬
‫آئے تھے جن میں کچھ خواتین کو باباجی‬
‫نے روک لیا تھا انہی خواتین میں میری‬
‫ہم عمر ایک لڑکی آئی تھی جسے کسی‬
‫حد تک اردو بولنا آتا تھا میں لمبے عرصے‬
‫سے بولنا بھول چکی تھی اور اب اماں‬
‫اور بابا کے ساتھ گونگوں والی زندگی‬
‫گزار رہی تھی جہاں تقریبًا ہر بات اشارے‬
‫اور مسکراہٹ سے ہوتی تھی کچھ روز‬
‫بعد ہی بابا جی کے گھر کچھ مرد مہمان‬
‫آئے تو میری دوست اس لڑکی نے جو‬
‫اردو بول سکتی نے بتایا کہ بابا جی‬
‫میری شادی کر رہے ہیں وہ چاہتے تھے کہ۔‬
‫مہمانوں کے جانے سے قبل میں اپنے گھر‬
‫چلی جاؤں کیونکہ اماں کی وفات کے‬
‫بعد وہ مجھے اکیال نہیں رکھنا چاہتے‬
‫تھے میں ایک بار پھر وسوسوں کا شکار‬
‫ہو گئی میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں‬
‫یہی اسی گھر میں مر جاؤں گی اور یہاں‬
‫سے کبھی نہیں نکلوں گی لیکن ایک دم‬
‫سے حاالت نے ایک بار پھر کروٹ لے لی‬
‫تھی میں بابا جی کو انکار نہیں کر‬
‫سکتی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے‬
‫زندگی دی تھی بہرحال لفظ شادی اب‬
‫سے پہلے کی زندگی سے بہت حوصلہ افزا‬
‫تھا اور میں خاموش رہی ان کی رسم و‬
‫روایات کے مطابق مجھے دو الکھ کے‬
‫عوض میرا ایک مولوی ٹائپ بندے سے‬
‫نکاح کر لیا تھا مجھے اسی لڑکی نے بتایا‬
‫تھا کہ میں اب تک وزیرستان کے آخری‬
‫حصے یعنی افغان بارڈر کے قریب تھی‬
‫اور اب بیاہ کر بنوں جا رہی تھی بنوں‬
‫ایسا شہر تھا جس کو نام میں جانتی‬
‫تھی کراچی میں ہمارے محلے میں ایک‬
‫کرایہ دار فیملی کا تعلق بنوں سے تھا اور‬
‫اس گھر کی خاتون میری امی کی دوست‬
‫رہ چکی تھی اگلی صبح مجھے دو سوٹ‬
‫کپڑوں کے ساتھ اس گھر سے روانہ کر‬
‫دیا گیا تھا میں بابا جی سے اور بابا جی‬
‫مجھ سے حقیقی بیٹی کی طرح تڑپ کر‬
‫ملے تھے اور ہم بہت دیر روتے رہے تھے‬
‫میرے میاں کا نام نظام تھا اور میرے‬
‫ساتھ اس کی دوسری شادی تھی پہلی‬
‫بیوی سے اس کی تین بیٹیاں اور ایک‬
‫بیٹا تھا اس کی بڑی بیٹی میری ہم عمر‬
‫تھی اس کی پہلی بیوی بیمار رہتی تھی‬
‫اس کا بیٹا میرے سے دوسال بڑا تھا ایک‬
‫خاتون کے ساتھ میں اپنے میاں نظام کے‬
‫ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئی تو گھر‬
‫کے کسی فرد نے مجھے برداشت نہیں کیا‬
‫نظام کی عمر اس وقت ‪ 45‬سال تھی اور‬
‫میں شاید ‪ 16‬برس کی ہو چکی تھی‬
‫میں نے پچھلے تقریبًا تین سال ایک‬
‫ڈرونے خواب جیسے گزارے تھے ۔۔۔ مجھ‬
‫سے ملنے کوئی نہیں آیا اور نظام کے‬
‫بچوں نے اس سے بھی منہ موڑ لیا وہ‬
‫اپنی ماں کے ساتھ اس کے کمرے میں‬
‫ہوتے تھے نظام نے مجھے سمجھایا کے‬
‫وقت کے ساتھ یہ ٹھیک ہو جائیں گے‬
‫وزیرستان سے ہمارے ساتھ آنے والی‬
‫خاتون جو نظام کی بہن تھی شام سے‬
‫قبل اپنے گھر چلی گئی تھی شام کے بعد‬
‫نظام بازار سے کھانا لینے گیا تو اس کی‬
‫پہلی بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ میری‬
‫کمرے میں آ گئی اور اپنے بیٹے سے پشتو‬
‫میں بات کرتی اور اس کا بیٹا اردو‬
‫ٹرانسلیشن کے ساتھ مجھے کہتا خہ‬
‫اےے لڑکی میری امی کہتی ہے یہاں سے‬
‫بھاگ جاؤ ورنہ میں تیرا قیمہ بنا کے‬
‫نظام کو ہی پکا کے کھال دونگی ۔۔ وہ‬
‫کچھ دیر کھڑے اپنے بازو ہوا میں لہرا کر‬
‫مجھے دھمکیاں دے رہے تھے نظام کی‬
‫تینوں بیٹیاں بھی اپنی امی اور بھائی‬
‫کے ساتھ کھڑی تھی میں سر جھکائے‬
‫اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی یہ لوگ‬
‫میرے اس کمرے سے چلے گئے تھے جس‬
‫کے تھوڑی دیر بعد نظام آ گیا تھا اس نے‬
‫مجھے روتا دیکھ کر پوچھا کہ کیا ہوا‬
‫کسی نے کوئی بات بولی ؟؟ میں نے اس‬
‫کے بار بار کے اصرار پر بس روتے ہوئے‬
‫اثبات میں اپنا سر ہال دیا وہ اٹھ کر‬
‫کمرے سے باہر چلے گئے اور اس گھر کا۔‬
‫ماحول جنگ زدہ ہو گیا نظام کے بلند آواز‬
‫سے باتیں کرنے سے شاید پورا محلہ دھل‬
‫گیا تھا وہ کچھ دیر بعد غصے سے کانپتا‬
‫کمرے میں آ گیا تھا میں نے اس کے ساتھ‬
‫ہلکا سا کھانا کھایا اور اس سے باتیں‬
‫کرتی رہی نظام کو بابا جی نے بتایا تھا‬
‫کہ میں ان کو کیسے ملی تھی نظام نے‬
‫پوچھا تو میں نے اسے بتایا کہ میں‬
‫کراچی سے اغواء ہوئی تھی اور اغواء‬
‫کاروں نے مجھے جہاں رکھا تھا میں اسی‬
‫رات وھاں سے بھاگ نکلی تھی میں‬
‫زخمی ہو گئی تھی پتھروں سے ٹکراتے‬
‫ہوئے اور سردی سے بےہوش ہوکر کہیں‬
‫گری پڑی تھی کہ اس بزرگ جوڑے نے‬
‫مجھے اٹھایا اور گھر لے گئے نظام بہت‬
‫بڑی جسامت کے مالک تھے رات کو باتوں‬
‫کے دوران اس نے مجھے اپنی گود میں‬
‫بھر لیا تھا میں اس وقت کافی صحت‬
‫مند ہو چکی تھی میری جلد شفاف ہو‬
‫گئی تھی پیٹ کم ہو گیا تھا اور جسم‬
‫میں طاقت بھی محسوس ہوتی تھی اس‬
‫بزرگ جوڑے نے مجھے بہت پیار سے رکھا‬
‫تھا میرا عالج بس وہی کڑوا قہوہ تھا‬
‫جسے امں کاڑھا بولتی تھی جو ایک سال‬
‫سے بھی زیادہ عرصے تک چلتا رہا اور‬
‫اماں کی موت تک مجھے ہر رات کو‬
‫سونے سے قبل اس کاڑھے کا ایک کپ پینا‬
‫ہوتا تھا ۔۔۔نظام نے مجھے کسنگ شروع‬
‫کر دی تھی اور وہ کسی منجھے ہوئے‬
‫کھالڑی کی طرح آگے بڑھ رہا تھا میرے‬
‫بوبز پر اس کے چلتے ہاتھوں نے مجھے‬
‫بہت عرصے بعد مزے کی وادیوں میں‬
‫دھکیلنا شروع کر دیا تھا وہ میرا سارا‬
‫لباس اتار کر مجھے بیڈ پر لٹا گیا اور اپنے‬
‫کپڑے اتار کر تیل کی بوتل کے ساتھ بیڈ‬
‫پر آ گیا اس کا ببلو تقریبًا سات انچ تھا‬
‫لیکن موٹا کافی تھا مجھے کوئی ٹینشن‬
‫نہیں تھی کیونکہ اس جیسے بہت سے‬
‫ببلو میں پہلے گزار چکی تھی اب ایک ہی‬
‫تھا اور شادی سکون اور فخر کا نام تھا‬
‫میں نے اب سے کچھ دیر پیدا ہونے والے‬
‫حاالت خو ذہن سے نکال دیا اور اس‬
‫ماحول کو انجوائے کرنے لگی نظام میری‬
‫ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور میری ببلی‬
‫کے ہونٹوں کو اپنے ہاتھ کے انگوٹھوں سے‬
‫کھول کر دیکھنے لگا میں گھبرا چکی‬
‫تھی کیونکہ میری ببلی بہت گھٹن حاالت‬
‫کا سامنا کر چکی تھی نظام نے اپنا جھکا‬
‫سر اوپر اٹھایا اور مسکراتے ہوئے اپنے‬
‫ببلو پر تیل لگا کر ببلی خے ہونٹوں میں‬
‫پھیرتا ہوا اندر اتارنے لگا۔۔ مجھے بالکل‬
‫ویسے درد ہونے لگا جیسے شروع کے‬
‫دنوں میں اسد کے ساتھ کرتے ہوئے ہوا‬
‫کرتا تھا ایسا کیوں ہے کیا لمبے عرصے تک‬
‫سیکس نہ کرنے کے سبب ایسا ہو رہا تھا‬
‫یا اس دیسی کاڑھے کے سبب ایسا ہوا تھا‬
‫یس قدرت مجھے شرمندگی سے بچا رہی‬
‫تھی بالکل میرا کنوارہ پن اتر آیا تھا نظام‬
‫جیسے ببلو سے بڑے ببلو آسانی سے میری‬
‫وادی کا سفر کیا کرتے تھے لیکن آج بہت‬
‫تکلیف کے ساتھ کچھ ایسا مزہ آنے لگا‬
‫تھا جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا‬
‫اسد کے ساتھ کچھ عرصہ میں نے‬
‫انجوائے کیا تھا کیونکہ اس وقت تک‬
‫حوس کا بھوت مجھ پر ابھی سوار تھا‬
‫لیکن اس کے جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ‬
‫دھرانے کے قابل بھی نہیں نظام بغیر رکے‬
‫اپنا ببلو لبالب مجھ میں بھر گیا میری‬
‫مستی بھری آوازوں میں وہ میرے اوپر‬
‫لیٹ کر جھٹکے لگانے لگا مزے کی لہروں‬
‫میں میں نظام کو اپنی باہوں میں بھر‬
‫رہی تھی وہ نارمل ٹائم میں اپنا پانی‬
‫مجھ میں بھر گیا اور کچھ دیر میں‬
‫مجھ سے الگ ہو کر پھر سے باتیں کرنے‬
‫لگا نظام مجھ سے مطمئن ہو چکا تھا اور‬
‫میرے لئے لگایا دو الکھ روپیہ کارآمد‬
‫تصور کر رہا تھا رات ایک بجے اس نے‬
‫دوسرا شاٹ لگایا اور پھر ہم نہا کر سو‬
‫گئے صبح سے پھر ٹینشن نے گھر میں‬
‫ڈیرے ڈال لئے نظام اور اس کی بیوی‬
‫بچوں سے جھڑپیں چلتی رہی محلے کی‬
‫ایک دو خواتین مجھے دیکھنے آئیں تھی‬
‫اور یہاں کے رواج کے مطابق کچھ پیسے‬
‫دے کر گئیں تھیں اگلے روز خواتین کا‬
‫ہجوم ہمارے گھر امڈ آیا تھا سب مجھے‬
‫دیکھ کر نظام کی قسمت پر رشک کر رہے‬
‫تھے میں واقعی بہت حسین ہو گئی تھی‬
‫بس گزرے دنوں کی جب یاد آتی تو میرا‬
‫دل تڑپ جاتا اور ٹرک عملے کے ساتھ اسد‬
‫اور شفیق کےلیے میرے لبوں سے بدعائیں‬
‫نکل جاتی تھیں بالل کا کچھ معلوم نہ ہو‬
‫سکا تھا اور وہ ایک بھولی۔داستان بن گیا‬
‫تھا ٹینشن زدہ ماحول میں میں نے چھ‬
‫ماہ گزار دئیے تھے محلے کی ایک خاتون‬
‫مجھے کہہ گئی تھی کھ آپ محتاط رہا‬
‫کرو کسی دن یہ لوگ تجھے قتل کر دیں‬
‫گے گھر میں موجود نظام کے بیوی بچے‬
‫ہمہ وقت مجھ پر۔نظر رکھتے تھے اور‬
‫ایک روز میں نے تنگ آ کر نظام سے الگ‬
‫گھر کی فرمائش کر دی وہ مان گیا تھا‬
‫لیکن کچھ عرصے تک انتظار کا۔بوال ۔۔۔‬
‫میں نے گھر والوں کے دل میں اپنی‬
‫محبت پیدا کرنے کے سو جتن کئے تھے‬
‫لیکن ناکام رہی اب مجھے ان کی نظروں‬
‫سے وحشت ہونے لگی تھی مجھے واقعی‬
‫لگتا تھا کہ یہ مجھے نظام کی غیر‬
‫موجودگی میں قتل کر دیں گے انہی‬
‫دنوں نظام کا بیٹا اقبال گھر سے بھاگ‬
‫گیا تھا اور کسی محلے والی خاتون کو‬
‫میرے لئے پیغام دے گیا تھا کہ اب میرا‬
‫انتظار کرنا تمھارے ٹکڑے واپس کراچی‬
‫پہنچاؤں گا اور اگر میرا باپ بھی رستے‬
‫میں آیا تو اسے بھی قتل کر دونگا یہ دن‬
‫بہت اذیت کے تھے کئی دن تک گھر میں‬
‫فساد برپا رہا نظام اپنی پہلی بیوی کو‬
‫قصور وار ٹھہرا رہا تھا کہ دوسری شادی‬
‫میرا حق ہے اور بیٹے کو میرے خالف‬
‫بھڑکانے میں اس کا کردار ہے جبکہ اس‬
‫کی بیوی اس کو قصوروار ٹھہرا رہی‬
‫تھی میں اب پشتو سمجھ لیتی تھی اور‬
‫کسی حد بول بھی لیتی تھی نظام بہت‬
‫دن سے میرے پاس تھا اور کام پر نہیں‬
‫جا رہا تھا ایک روز نظام کے کچھ رشتے‬
‫دار گھر آئے اور کئی بار اس کے اور اس‬
‫کی بیوی کے پاس جاکر اسے سمجھاتے‬
‫رہے لیکن وہ نہیں مانی اور اس روز رات‬
‫گئے ان رشتے کے جانے سے قبل نظام کی‬
‫بیٹیوں نے بھی دھمکی دے دی کہ اگر‬
‫ہمارے ابو نے اسے نہ چھوڑا تو وہ بھی‬
‫گھر سے بھاگ جائیں گی بیٹیوں کی اس‬
‫دھمکی کے بعد نظام بہت پریشان ہو گیا‬
‫تھا اور ان رشتے داروں کے ہاتھ بیوی‬
‫بیٹیوں اور بیٹے کو پیغام دیا کہ مجھے‬
‫ایک ہفتے کا ٹائم دے دو ۔۔۔ اس سے قبل‬
‫نظام کے یہ رشتے دار اسے الگ لے جا کر‬
‫کسی بات پر راضی کر چکے تھے نظام‬
‫کی آنکھوں میں کچھ الجھن میرے لئے‬
‫خطرے کی گھنٹی تھی میرے ذہن میں‬
‫ایک ہی سوال تھا اگر نظام نے مجھے‬
‫طالق دے دی تو میں کہاں جاؤں گی‬
‫رات کو لیٹتے ہوئے میرے لبوں سے‬
‫بےاختیار اونچی آواز میں امی جی‬
‫نکال۔۔۔ صبح نظام کہیں چال گیا تھا اور‬
‫میں سارا دن لیٹی روتی رہی نظام نے‬
‫ابھی تک مجھ سے اس پر کوئی بات‬
‫نہیں کی تھی لیکن بیٹیوں کی دھمکی‬
‫کے بعد مجھے یقین تھا کہ وہ بےبس ہو‬
‫چکا ہے اور مجھے چھوڑنے کی تیاری کر‬
‫رہا ہے ۔۔۔شام سے کچھ دیر قبل نظام‬
‫واپس آ گیا تھا اور اسی رات نظام نے‬
‫مجھے اپنے سامنے بٹھا کر بتا دیا کہ وہ‬
‫مجھے طالق دینے جا رہا ہے کیونکہ اگر‬
‫اس کی بیٹیوں میں سے کوئی ایک بھی‬
‫گھر سے چلی گئی تو وہ کہیں منہ‬
‫دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور اس کا‬
‫گھر مکمل طور پر برباد ہو جائے گا میں‬
‫پہلے ہی سب کچھ جان چکی تھی اور‬
‫سارا دن اس پر رو چکی تھی سو میں‬
‫کوئی رسپانس دئیے بغیر اپنی قسمت کو‬
‫کوستے ساکت بیٹھی رہی ۔۔۔ بہت دیر‬
‫بعد میں نے نظام سے پوچھا کہ مجھے‬
‫بابا کے پاس پہنچاؤ گے ؟؟؟ بوال نہیں‬
‫میں تمھاری کہیں شادی کر رہا ۔۔۔۔ ویسے‬
‫بھی میں کیا کر سکتی تھی میں دکھوں‬
‫کی عادی ہو چکی تھی میں نے اپنے‬
‫دوپٹے سے سر کو پٹی کی طرح باندھا‬
‫جیسے بوڑھی خواتین باندھتی ہیں اور‬
‫میں نظام سے پہلے سو گئی صبح پھر‬
‫نظام ایک رشتے دار کے ساتھ کہیں چال‬
‫گیا اور شام کو واپس آنے پر کچھ‬
‫مطمئن تھا ۔لیکن مجھ سے کوئی خاص‬
‫بات نہیں کی دو روز بعد نظام نے مجھے‬
‫جی بھر کے سیکس کیا لیکن میرا دل اس‬
‫سے بھی اکتا چکا تھا اور مجھے اس کا‬
‫یہ سں کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔‬
‫دوسرے دن اس کے کوئی مہمان آنے تھے‬
‫اور ان کے گھر میں کھانا تیار ہو رہا تھا‬
‫اس کی۔بیٹیاں بھاگ بھاگ کے کام کر‬
‫رہی تھی اور نظام بھی ان کے روم میں‬
‫بار بار جا رہا تھا اسکی پہلی بیوی نے نیا‬
‫سوٹ پہنا اور بیٹیوں سے چارپائی میرے‬
‫کمرے کے سامنے رکھوا کر اس پر بیٹھ‬
‫گئی اور بار بار مسکرا کر میرے کلیجے پر‬
‫تیر برسانے لگی مہمان مین گیٹ کے‬
‫ساتھ والی بیٹھک میں آ چکے تھے کھانے‬
‫کھالکے بعد نظام میرے پاس آیا اور‬
‫مجھے اچھا سوٹ پہن کر آنے کو کہا میں‬
‫خاموشی سے اپنے کپڑے بدل کر اس کے‬
‫ساتھ ایسے چل رہی تھی جیسے قربانی‬
‫کا بیل منڈی جاتے ہوئے اپنے مالک کے‬
‫پیچھے چلتا ہے بیٹھک میں نظام کے ایک‬
‫رشتے دار کے ایک رشتے دار کے عالوہ دو‬
‫اور افراد موجود تھے بڑی مونچھوں والے‬
‫خوفناک شکل والے اس مرد نے حوس‬
‫بھری نظروں سے میرا سر سے پاؤں تک‬
‫جائزہ لیا اور بوال ۔۔۔ھھھھممممممم نام‬
‫کیا ہے تمھارا ۔۔میں نے کانپتے لبوں سے‬
‫کہا نازیہ ۔۔۔۔ ساتھ بیٹھے اس کے ساتھی‬
‫نے اس کو ہلکی سی کہنی ماری تو یہ‬
‫دوبارہ بوال مجھے پانی پال دو میں نے‬
‫ادھر ادھر دیکھا اور ٹیبل پر پڑے جگ‬
‫گالس کی طرف بڑھ گئی میں نے اسے‬
‫پانی سے بھرا گالس تھمایا اور اس نے‬
‫گالس لے کر میری طرف سالم کے انداز‬
‫میں ہاتھ بڑھایا اور میرے نازک ہاتھ کو‬
‫اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے بوال ساڑھے تےن‬
‫الکھ ٹھیک ہے نظام صاحب ۔۔۔۔ بس آپ‬
‫تیاری کریں ۔۔۔۔ نظام بوال بس ٹھیک ہے‬
‫میں طالق دے دیتا آپ وہیں اپنے عالقے‬
‫میں وقت پر نکاح پڑھ لینا۔۔۔۔ میں شام‬
‫کے فورًا بعد میانوالی کے ایک سوداگر کو‬
‫بیچ دی گئی تھی اور ایک جیپ میں ان‬
‫دونوں کے ساتھ بیٹھ کر پانچ سوٹ‬
‫کپڑوں کے ساتھ روانہ ہو چکی تھی۔۔۔‬
‫جاری ہے۔۔۔۔۔‬

You might also like