You are on page 1of 20

‫بچہ لڑکا آدمی‬

‫بچہ لڑکا آدمی‬


‫از اتھرا بھٹی‬
‫قسط نمبر ‪3‬‬
‫فاروق بوال او تہاڈی بہن نو اور زور‬
‫زور ہنسنے لگا ساتھ ہی اس نے سب‬
‫کی باریک للیوں کو باری باری ہالیا‬
‫وہ ہالتا جاتا اور ساتھ ساتھ ہنستا جاتا۔‬
‫کچھ دیر ایسی کی کرنے کے بعد اس‬
‫نے فلم دوبارہ سے چال دی‪.‬‬
‫‪2‬‬

‫‪ 1‬گھنٹے کی مووی نے میرے دماغ‬


‫میں وہ ساری باتیں ڈال دیں جن سے‬
‫میں اب تک نابلد تھا۔ اس سیکس فلم‬
‫نے میرے دماغ کو اتھل پتھل کر دیا‬
‫تھا۔‬
‫جب میں فاروق کے گھر سے نکال‬
‫تو مکمل بدل چکا تھا میری سوچ جو‬
‫پہلے تھی اب وہ نہیں رہی تھی اس‬
‫ایک گھنٹے کی سیکس فلم نے میری‬
‫سوچ تیا پانچا کر کے رکھ دیا۔‬
‫اب باہر سے میں وہ ہی پہلے واال وکی‬
‫تھا لیکن اندر سے سب بدل چکا تھا۔‬
‫‪2‬‬
‫‪3‬‬

‫گھر پہنچ کر میں چوروں کی طرح‬


‫ایسے ہی نظریں چراتے رہا تھا اور‬
‫ڈر بھی رہا تھا کہ میں نے جو کیا ہے‬
‫وہ سب کو میری نظروں میں دکھ‬
‫جائے گا لیکن یہ صرف میرے نچپنے‬
‫کا ڈر تھا حقیقت میں کچھ نہیں تھا۔‬
‫بچپن میں شاید ہر ایک کے ایسا ہوتا‬
‫ہے ۔جب بھی کویی غلط کام کر کے‬
‫گھر جاتا ہے تو ایسا ہی ردعمل ظاہر‬
‫کرتا ہے۔‬

‫‪3‬‬
‫‪4‬‬

‫اب تو میرا مخالف جنس کو‬


‫دیکھنے کا انداز ہی بدل چکا تھا فیملی‬
‫میں جو ہر ایک کے ساتھ کھیلتا رہتا‬
‫تھا کبھی غلط کا خیال نہیں آتا تھا اور‬
‫نہ ہی غلط کام کرنے کا کوئی پتہ تھا‬
‫اب جب سیکس فلم دیکھی تو وہ سب‬
‫کرنے کا دل کرنے لگا تھا۔‬

‫اب جب بھی میں سلمہ کے ساتھ‬


‫ہوتا میرے دماغ کی سکرین پر وہ‬
‫سارا منظر چلنے لگتا جو اس کے‬
‫ساتھ کیا تھا اور سوچتا کہ میں کتنا‬
‫‪4‬‬
‫‪5‬‬

‫بدھو ہوں مجھے کچھ نہیں پتہ اور یہ‬


‫سوچنے لگتا کہ میں نے کیا کچھ مس‬
‫کر دیا۔۔‬

‫اب تو میں نے سلمہ کے بارے‬


‫میں باقاعدہ سوچنا شروع کر دیا تھا‬
‫کہ جب بھی موقع مال وہ سب کروں گا‬
‫جو فلم میں دیکھا تھا ساتھ ہی فلم کا‬
‫ایک ایک سین نظر آنے لگتا فلم میں‬
‫گورے مرد کی جگہ خود کو محسوس‬
‫کرتا اور اس عورت کی جگہ سلمہ‬
‫ہوتی۔‬
‫‪5‬‬
‫‪6‬‬

‫اسی طرح دن گزرتے گئے اور‬


‫مجھے کوئی موقع نہ مال ہر وقت‬
‫کوئی نہ کوئی ساتھ ہوتا اور نہ ہی‬
‫گھر والے کہیں گئے۔‬
‫پھرایک شام میں چھت پر بیٹھا‬
‫تھا ہلکہ ہلکہ اندھیرا پھیل چکا تھا کہ‬
‫سلمہ چھت پر اپنا سکول کا یونیفارم‬
‫سکھانے آئی جو اس نے صبح سکول‬
‫پہن کر جانا تھا۔‬

‫‪6‬‬
‫‪7‬‬

‫میں اس کو دیکھ کر خوش ہو‬


‫گیا اس کی مسکراہٹ اچھالی وہ بھی‬
‫مجھے دیکھ کر مسکرائی اور‬
‫کپڑے چھت کے بیچوں بیچ ایک دیوار‬
‫کے کنارے سے دوسری کے کنارے‬
‫تک لگی تار پر ڈالنے لگی۔ جب اس‬
‫نے کپڑے اچھی طرح پھیال دییے تو‬
‫میرے پاس آ کر بولی نیچے نہیں جانا۔‬
‫میں نے کہا چلتے ہیں بیٹھ‬
‫جاو وہ میرے ساتھ چارپائی پر چپ‬
‫چاپ بیٹھ گئی۔ ہم دونوں خاموش‬
‫بیٹھے رہے کچھ پل گزرے میں نے‬
‫‪7‬‬
‫‪8‬‬

‫ایسے نارمل سے انداز میں پوچھ لیا‬


‫نیچے سب کیا کر رہے ہیں۔‬

‫وہ بولی ابو باہر گئے ہیں امی‬


‫شان کو دودھ پال رہی ہیں یہ بتا کر وہ‬
‫پھر خاموش کو گئی اور سامنے‬
‫دیکھنے لگی۔‬
‫میں نے اپنا ہاتھ اس کی رانوں‬
‫پر رکھ دیا اور میں بھی اسی کی طرح‬
‫سامنے دیکھنے لگ گیا ہم پھر‬
‫خاموش ہو گئے کچھ لمحات پھر‬
‫خاموشی سے سرک گئے۔ میں ہمت‬
‫‪8‬‬
‫‪9‬‬

‫کرتے ہوئے اس کی شلوار میں ہاتھ‬


‫ڈاال اور اس کی پھدی پر رکھ دیا اس‬
‫کی پھدی بالکل صاف نرم اور چھوٹی‬
‫سی تھی ‪ 9،10‬کی لڑکی کی ہو بھی‬
‫کیسی سکتی تھی۔‬
‫میں جب یہ سب کر رہا تو وہ‬
‫اپنی انگلی منہ میں ڈالے ناخن چبا‬
‫رہی تھی جیسے اس کو کچھ محسوس‬
‫نہ ہو رہا ہو اور نہ ہی اس نے مجھے‬
‫کچھ کہا اور یہ حقیقت ہی تھی اس‬
‫عمر میں کچھ محسوس نہیں ہو سکتا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫‪9‬‬
‫‪10‬‬

‫اس کو چلو مان لیا کہ کچھ‬


‫محسوس نہیں ہو رہا تھا مجھے بھی‬
‫کچھ نہیں ہو رہا تھا۔۔۔‬

‫یہ ہی عجیب بات تھی کہ ہم‬


‫دونوں کچھ محسوس نہیں کر رہے‬
‫تھے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ‬
‫درست تھی کہ بچوں کو جس کام سے‬
‫روکا جائے یا جس کے کام کے بارے‬

‫‪10‬‬
‫‪11‬‬

‫میں کہا جائے کہ یہ غلط ہے وہ الزمی‬


‫کرتے ہیں۔۔‬

‫میرا چھوٹو اب‬


‫اکڑ چکا تھا لیکن میں آگے نے بڑھ پا‬
‫رہا تھا کچھ نا سمجھی اور کچھ‬
‫ججھک ‪..‬‬
‫کوئی ایک منٹ بعد ہی اس نے‬
‫کہا نیچے چلتے کیں اندھیرا ہو چکا‬
‫ہے وپ کھڑی ہوئی میرا ہاتھ جو کہ‬
‫اس کی شلوار کے اندر تھا اس کے‬

‫‪11‬‬
‫‪12‬‬

‫اٹھنے سے اس کی پھدی پر اوپر سے‬


‫نیچے تک رگڑ لگاتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔‬

‫وہ بغیر میری طرف دیکھے‬


‫نیچے چلی گئی تھوڑی دیر بعد میں‬
‫بھی نیچے آ گیا اسی طرح ہلکہ پھلکہ‬
‫چھونا چھیڑنا گلے لگانا چلتا رہا اور‬
‫وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھتا گیا‬
‫لیکن مجھے کوئی خاص موقع نہ‬
‫مال۔۔۔‬
‫ایک دن کی بات ہے میں باہر‬
‫دوستوں کے پاس گیا ہوا تھا جب‬
‫‪12‬‬
‫‪13‬‬

‫واپس گھر آیا تو مجھے پتہ چال کہ‬


‫گھر میں سلمہ اور سونیا کے عالوہ‬
‫کوئی نہیں ہے۔ آج موقع تو بن سکتا‬
‫تھا لیکن سونیا کی وجہ سے کوئی‬
‫خاطرخواہ کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔‬
‫حاالنکہ کہ گھر میں ہم تین لوگ ہی‬
‫تھے کوئی تیسرہ ذی روح نہیں تھا۔‬
‫ہم لوگ ٹی وی والے کمرے میں پی‬
‫ٹی وی پر اس وقت کا مشہور ڈرامہ‬
‫الف نون دیکھ رہے تھے اور ہنس‬
‫ہنس کر برا حال ہو گیا تھا ۔‬

‫‪13‬‬
‫‪14‬‬

‫اسی دوران سلمہ اٹھی اور باہر نکل‬


‫گئی سونیا ڈرامہ دیکھنے میں بہت‬
‫مگن تھی میں نے بھی موقع کا فائدہ‬
‫اٹھایا سلمہ کے پیچھے باہر آ گیا باہر‬
‫آکر سلمہ کو دیکھا تو وہ اپنے کمرے‬
‫کی طرف جا رہی تھی۔‬
‫میں تیزی سے اس کے پاس گیا اس‬
‫کو کمرے میں داخل ہونے سے جا‬
‫لکڑا ااور اس کو بازو سے پکڑ کر کہا‬
‫آو ادھر کم سٹور میں چلتے ہیں۔‬
‫وہ بھی جیسے تیار تھی میرے‬
‫ساتھ چل پڑی ہم لوگ سٹور میں پہنچ‬
‫‪14‬‬
‫‪15‬‬

‫گئے سٹور میں فالتو سامان‪ ،‬بستر اور‬


‫اناج کے ساتھ ساتھ ایک چارپائی‬
‫بھی پڑی تھی۔‬
‫میں چارپائی کو بچھایا اور سلمہ‬
‫کو اس پر لٹا کر خود کپڑوں سمیت ہی‬
‫اس پر لیٹ گیا‬
‫اور اپنے چھوٹو کو اس کی ٹانگوں‬
‫میں رکھ کر گھسے مارنے شروع کر‬
‫دییے کچھ دیر ایسے ہی گھسے مارتا‬
‫رہا ۔‬

‫‪15‬‬
‫‪16‬‬

‫وہ بالکل سیدھی لیٹی تھی میں نے‬


‫اس کی شلوار جلدی سی نیچے کی‬
‫کیونکہ ہم نے االسٹک ڈاال ہوا تھا۔ اس‬
‫لیے دونوں کی شلوار آسانی سے‬
‫نیچے اتر گئی۔‬

‫میں اپنی قمیض ایک سائیڈ پر‬


‫کی اور اس کے اوپر لیٹ کر اپنا‬
‫چھوٹا سا لن اس کی پھدی پر رکھ کر‬
‫دھکے لگانے لگا ۔‬
‫ایک تو اس کی پھدی تنگ‬
‫تھی دوسرا مجھے اتنی جلدی تھی کہ‬
‫‪16‬‬
‫‪17‬‬

‫اس کی ٹانگیں بھی اوپر اٹھانے کا نہ‬


‫سوچا اور تو اور تو مجھے تو کسنگ‬
‫کرنے کا بھی کوئی خیال نہیں تھا اور‬
‫نہ ہی یہ پتہ تھا کہ لن کو تیل سے یا‬
‫تھوک سے گیال بھی کیا جا سکتا ہے‬
‫تاکہ آسانی سے اندر چال جائے۔ میں‬
‫تو بس اس کی پھدی میں لن رگڑ رہا‬
‫تھا میں رک رک کر گھسے لگا رہا‬
‫تھا۔‬

‫سلمہ کمرے میں دائیں بائیں‬


‫دیکھ رہی تھی جیسے اس کو کچھ‬
‫‪17‬‬
‫‪18‬‬

‫محسوس نہ ہو رہا ہو ۔ یہ عمر اس کی‬


‫پھدی سے پانی آنے کی بھی نہیں تھی‬
‫اس کی پھدی ابھی بہت کچی تھی ابھی‬
‫تک تو اس پر بال بھی نہیں آئے تھے۔‬
‫یہ ہی حاالت میرے تھے میں‬
‫بھی بالکل اناڑی تھا میں اسی اناڑی‬
‫پن سے اس کی پھدی میں دھکے لگا‬
‫رہا تھا ۔‬
‫میں تیز تیز دھکے لگا رہا‬
‫مجھے خاک بھی مزا نہیں آ رہا تھا‬
‫بس دھکے لگانے کا شوق پورا کر‬
‫رہا تھا۔‬
‫‪18‬‬
‫‪19‬‬

‫اچانک باہر سے قدموں کی‬


‫آواز آئی میں جلدی سے اس کے اوپر‬
‫سے اترا اور سلمہ بھی کھڑی ہو گئی‬
‫اور ہم نے اپنے کپڑے درست کیے‬
‫اور خود کو سنبھالنے لگے۔‬
‫کہ سونیا کمرے میں داخل‬
‫ہوئی وہ ہم دونوں کو پریشان دیکھ کر‬
‫حیرانی سے ہماری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولی تم دونوں کیا کر رہے ہو۔‬
‫ہم دونوں خاموشی سے اس‬
‫کی طرف دیکھ رہے تھے بولنا تو‬
‫بھول چکے تھے کچھ لمحات بعد میں‬
‫‪19‬‬
‫‪20‬‬

‫نے لڑکھڑاتی آواز میں کہا ہم کپڑے‬


‫رکھ رہے تھے جب کہ سلمہ چپ رہی۔‬
‫سونیا نے عججب سی‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا اور‬
‫باہر چلی گئی۔۔‬

‫‪20‬‬

You might also like