You are on page 1of 15

‫آزمائش‬

‫لیپ ٹاپ پہ کام کرتے ہوے میرے موبائل کی بیل بجی میں نے موبائل کی سکرین پی نظر ڈالی تو اسپے انجان نمبر نظر آ رہا‬
‫تھا‪ .‬میں نے توجہ نہی دی‪ .‬اور موبائل سائلنٹ کر کے رکھ دیا ‪ .‬کیوں کے آج کل مارکیٹنگ کمپنیوں والے ایویں پروموشن ک‬
‫لئے کالز کرتے رہتے ہیں اور میں اس وقت بہت ضروری کام کر رہا تھا‪ .‬اور ایک ایک منٹ بہت قیمتی تھا میرے لئے ‪ .‬اسی‬
‫اثنا میں موبائل بیل دوبارہ بجی میں نے تنگ آتے ہوے یہ سوچ کے کال پک کر لی کے جو بھی ہوا اچھی خاطر داری کرونگا‪.‬‬
‫میں نے کال پک کرتے ہوے موبائل کان سے لگایا تو کوئی لڑکی تھی‬
‫میں‪( :‬میں نے اسکی آواز سنتے ساتھ ہی اسے کہا) دیکھئے مس آپ جس بھی کمپنی سے ہیں‪ .‬کم از کم آپکو اتنی تمیز تو ہونی‬
‫چائیےکے اگر ایک بندا کال کاٹ رہا ہے تو آپکی بات میں انٹرسٹڈ نہی ہے‪.‬‬

‫یہ کہ کے میں نے کال کاٹ دی اور اپنے کام میں لگ گیا تھوڑی دیربعد میرے موبائل کی مسیج ٹون بجی تو میں نے موبائل‬
‫اٹھا کے میسج پڑھا تو میرے ٹٹے‬
‫شاٹ ہو گۓ کیوں کے میسج مجھے میری ڈائریکٹر کی طرف سے آیا تھا‪ .‬جس نمبر کو میں مارکیٹنگ کمپنی والو کا سمجھ رہا‬
‫تھا وہ ڈائریکٹر نے کیا تھا میں تو گھبرا گیا تھا کیوں کے میں اس کمپنی میں اپنے ماموں کی سفارش سے اپاینٹ ہوا تھا میرے‬
‫ماموں ہمارے کمپنی اونر کے ڈرائیور ہیں‪ .‬میں نے اپنی قابلیت کے بلبوتے پہ یہ سیٹ حاصل کی تھی جب میں اس کمپنی میں‬
‫بطور لوڈنگ سپروائزر اپاینٹ ہوا تھا اور ایک سال کی کڑی محنت کے بعد مجھے پروموشن مال تھا‪ .‬خیر مجھے گھبراہٹ تو‬
‫بہت ہوئی کیوں کے ڈائریکٹر ایک بہت ہی بد دماغ لڑکی ہے ‪ .‬ذرا ذرا سی بات پہ اسٹاف کو فارغ کر دیتی ہے اسکا نام بینش‬
‫ہے اور وہ نہ صرف میرے آفس میں ڈائریکٹرہے بلکے وہ ہمارے کمپنی اونر کی بھتیجی بھی ہے‪.‬اسکے والدین اسکے بچپن‬
‫میں ہی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گۓ تھے‪ .‬تب سے اسکو اسکے چچا نے بڑے نازوں سے پاال ہے یہی وجہ ہے کے وہ‬
‫بہت ضدی اور خود سر ہے‬

‫میں ایک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں الجسٹک مینیجر ہوں میرا نام دانش ہے میری باقی کی فیملی تو گاؤں میں رہتی ہے‬
‫اور من اسالم آباد میں کام کرتا ہوں اور فلیٹ میں دوست کے ساتھ شیئرنگ پی رہتا ہوں‪ .‬ویسے تو میرے ماموں کا گھر بھی ہے‬
‫لیکن انکا گھر اتنا چھوٹا ہے کے بمشکل انکی فیملی ہی رہتی اور ویسے بھی مجھے آزاد رہنا بہت پسند ہ جب چاہا جہاں چاہا‬
‫نکل گۓ ‪ .‬میں ایک پانچ فٹ آٹھ انچ قد کا مسکولر باڈی کے ساتھ صاف گورے رنگ کا ہینڈ سم لڑکا ہوں میں شروع سے ہی‬
‫اپنی فیملی کی تربیت کی وجہ سے اپنی لمٹس اور رولز کے مطابق زندگی گزرتا آ رہا ہوں لڑکیاں مجھے بھی پر کشش لگتی‬
‫ہیں لیکن میں اپنی رولز کی وجہ سے ہمیشہ لمٹس میں رہتا ہوں ہینڈ سم ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی اور اب آفس میں کم‬
‫کرنے والی کتنی لڑکیوں نے مجھے کئی بار رجھانے کی کوشش کی لیکن میں جانتے بوجھتے انھیں اگنور کردیا کرتا ہوں ‪ .‬دل‬
‫تو میرا بھی انھیں پٹانے کو کرتا ہے لیکن پتا نہی کیوں اگلے ہی لمحے ذھن مجھے ڈر لگتا تھا کے کہیں میری انسللٹ نہ ہو‬
‫جاۓ‪ .‬اور اپنی عزت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے‪ .‬یہی وجہ ہے کے میں اب تک کنوارہ ہوں نہ کوئی گرل فرینڈ‬
‫بنی اور نہ ہی کبھی کسی کے ساتھ سیکس کیا ہاں نوجوان ہوں اور مرد ہوں میرے پاس بھی لن ہے اور میرے اندر بھی گرمی‬
‫ہے لیکن مجھے اپنے اوپر کافی کنٹرول ہے ‪ .‬میں آج کل کے لڑکوں کی طرح نہی ہوں کے کسی لڑکی کو دیکھ کے آپے سے‬
‫باہر ہو جاؤں‪.‬‬

‫میں نے میسج دوبارہ پڑھا اس میں لکھا ہوا تھا‬


‫مسٹر دانش رپورٹ ان مائی آفس بینش‬
‫اب میں سوچ رہا تھا کے کیا بہانہ کرونگا میرے ذھن میں ان چند لمحوں میں پتا نہی کتنے خیاالت گزر گۓ‪ .‬خیر مارتا کیا نہ‬
‫کرتا جانا تو تھا اور میں جل تو جالل تو پڑھتا ہوا اپنی ٹیبل سے اٹھا اور اسکے آفس کی جانب چل پڑا‪.‬میری اس سے پہلے بس‬
‫دو تین سرسری سی بات چیت ہوئی تھی ‪ .‬کہتے ہیں نہ کے اپنے باس کے آگے سے اور گدھے کے پیچھے سے نہی گزرنا‬
‫چائیے نہی تو الت کا خطرہ ہوتا ہے‪.‬‬
‫میں نے اسکے آفس کے ڈور پہ ناک کیا تو اسنے کمنگ کہا اور میں نے ڈرتے ڈرتے اسکے آفس میں قدم رکھا‪ .‬وہ اپنے لیپ‬
‫ٹاپ پی کچھ کام کر رہی تھی اسکے ساتھ آفس بوی کھڑا تھا جو کے اسکے لئے جوس لے کے آیا تھا اسنے آفس بوۓ کو‬
‫جانے کا اشارہ کیا ‪ .‬اور میری طرف دیکھنے لگی‬
‫اور لیپ ٹاپ بند کرتے ہوے میرے طرف دیکھنے لگی‪ .‬مجھے اسکی خاموشی اور پریشان کر رہی تھی اور وہ میری حالت‬
‫کو دیکھ کے مزے لے رہی تھی میں نے اسکو ڈرتے ڈرتے کہا کے‬
‫میں‪ :‬ای یم سوری مس مجھے بلکل آئیڈیا نہی تھا کے کال آپ کی ہوگی ‪.‬‬
‫بینش‪ :‬ٹھیک ہے لیکن اٹل یسٹ آپکو پہلے کنفرم تو کرنا چائیے تھا کے کون کال کر رہا ہے‪.‬‬
‫میں‪( :‬میں نے جب اسکی یہ بات سنی تو کچھ تسلی ہوئی کے چلو موڈ اچھا ہے )سو سوری مس میں آیندہ خیال رکھونگا‬
‫بینش‪ :‬ٹھیک ہے میں نے آپکو یہ پوچھنے کے لئے کال کی تھی کے جو پروجیکٹ آپکو بنانے ک لئے جمیل صاحب(جنرل‬
‫مینیجر)نے کہا تھا اسکا کیا بنا‪.‬‬
‫میں ‪ :‬مس میں اسی کام میں لگا ہوا تھا جب آپکی کال ای تھی آلموسٹ ریڈی ہے‪ .‬کیا میں آپکو ہارڈ کاپی میں دے دوں یا آپکو‬
‫میل کر دون‪.‬‬
‫بینش‪ :‬نہی آپ مجھے یہیں پرزنٹشن دکھا دیں‪.‬‬
‫میں‪ :‬اچھا مس میں اپنا لیپ ٹاپ لے اتا ہوں یہیں‪.‬‬
‫بینش‪ :‬اوکے‬
‫میں اپنا لیپ ٹاپ لینے کے لئے اپنے ڈیسک کی طرف گیا اور لے کے دوبارہ واپس ڈائریکٹر آفس آ گیا‪ .‬اور اسے پرزنٹشن‬
‫دکھانے لگا اب پوزیشن یہ تھی کے میں ٹیبل کے اس طرف تھا اور وہ دوسری طرف اپنی سیٹ پی بیٹھی ہوئی تھی میں نے‬
‫لیپ ٹاپ سکرین اسکی طرف کر کے پرزنٹشن چال دی‪ .‬اب وہ مجھ سے‬
‫ڈسکشن کرنے لگی مختلف پوائنٹس پہ تو مجھے اٹھ کے سکرین اپنی طرف کر کے بار بار اسکو بتانا پڑتا تو اسنے مجھے‬
‫کہا کے آپ ٹیبل کے اس طرف آ جائیں تاکے دونوں کو آسانی ہو جاۓ‪ .‬اب میں اٹھ کے اسکی سائیڈ پہ چال گیا اور کھڑا ہو‬
‫کے اسک و پوائنٹس سمجھانے لگا‪ .‬اسنے بہت گہرے گلے والی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس سے اسکی کلیوج صاف نظر آ رہی‬
‫تھی اسکے جسم سے بہت بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی اسکا جسم بہت سفید ہے (جسموں میں رنگوں کے لہٰ ذ سے دو قسم‬
‫کے ہوتے ہن ایک انگلش لڑکیوں کا کولور ہوتا ہے وہ سفید تو ہوتی ہیں لیکن ان میں کوئی خاص کشش نہی ہوتی ایک‬
‫ہماری پاکستانی لڑکیوں کا کلر ہوتا ہ سفید جو شیشے جیسا ہوتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے خون کی روانی نظر اتی ہے بینش کا‬
‫جسم ایسا ہی ہے سفید چمکدار اور ان چھوا چھونے میال ہو جاۓ)‬
‫لیکن میں نے اپنی توجہہ اس کے جسم سے ہٹا کر پرزنٹشن پہ کر لی اور اسے پوائنٹس کلیر کرنے لگا‪.‬‬

‫بینش‪ :‬ویری امپر یسو مسٹر دانش آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے میں آپکے کام سے بہت مطمئن ہو گئی ہوں‬

‫میں‪ :‬تھنک یو سو مچ مس آپکی تعریف میرے لئے اعزاز ہے ‪.‬‬

‫بینش‪ :‬کم اون مسٹر دانش میں بہت الرجک ہوں ان ٹیپپیکل رسمی باتوں سے‬

‫میں‪ :‬سوری مس لیکن انسانی زندگی میں ان رسمی باتوں کی اہمیت سے انکار نہی کیا جا سکتا‬
‫بینش ‪( :‬حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوے جیسے اسے مجھ سے ایسی بات کی امید نہ ہو‪ .‬کیوں کے ان اونر ٹائپ‬
‫لوگوں کو بس جی حضوری کرنے والے ہی پس ند ہوتے ہیں ایسے میں کوئی انھیں اتنا و ا ضح جواب دے تو انھیں حیرانی تو‬
‫ہوگی ) آپ بحث کے موڈ میں ہیں‪.‬‬
‫میں ‪ :‬نہی نہی مس میرا ایسا کوئی ارادہ نہی ہ یہ تو پتا نہی کیسے میرے مونھ سے نکل گیا‪.‬‬
‫بینش ‪ :‬آپ نے مونھ میں ڈاال ہی کیوں تھا(یہ بات اسنے بہت آہستہ سے کی تھی مجھے کچھواضح نہی سنائی دیا اب پتا نہی‬
‫اسنے یہ کسی حساب میں کہا تھا)‬
‫میں‪ :‬جی مس آپ نے کچھ کہا‪.‬‬
‫بینش‪ :‬نہی تھنک یو آپ جا سکتے ہیں کیپ اٹ اپ آپ بہت اچھا کام کر رھےہیں باقی آپ تیار رہیں آپکو ہی شام کی میٹنگ‬
‫میں پرزنٹشن دینی ہے‬
‫میں‪ :‬سوری مس لیکن میں کیسے پریزینٹ کرونگا مجھ سے کتنے سینئر لوگ وہاں ہونگے‪.‬‬
‫بینش ‪ :‬کیوں آپ پرزنٹ کر نہی سکتے یا کوئی اور مثال ہے‬
‫میں‪ :‬نہی مس مجھے موئی پرابلم نہی ہے پریزینٹ کرنے میں لیکن شائد میرے بڑے آفیسرز کو میرا پریزینٹ کرنا پسند نہ‬
‫اے (کیوں کے میں بہت زیادہ سٹریٹ فارورڈ ہوں اس لئے کافی سارے لوگ مجھ سے دور ہی رہتے ہیں اور جو لوگ خود‬
‫بھی سچے اور ایماندار ہیں وہ میرے ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا بہت پسند کرتے ہیں مجھے بھی ایسے لوگوں کے ساتھ وقت‬
‫گزرنا اچھا لگتا ہے )‬
‫بینش ‪ :‬کیوں باقی لوگو کو کیا پرابلم ہو سکتی ہے یہ پروجیکٹ آپنے اکیلے بنایا ہے اور جو بناتا ہے وہ کسی بھی دوسرے‬
‫بندے سے زیادہ بہتر طریقے سے اکسپلین کر سکتا ہے ‪ .‬باقی یہ میرا آرڈر ہے اگر کسی کو اعتراض ہوا بھی تو مجھے کوئی‬
‫فرق نہی پڑتا‬
‫میں‪ :‬اوکے مس جیسے آپ کہیں‪.‬‬
‫میں اسکے آفس سے نکل کر اپنے ڈیسک پہ بیٹھ کے باقی کا کام کمپلیٹ کرنے لگا‪ .‬اتنے میں مجھے جمیل صاحب نے‬
‫اپنے آفس میں بالوا بھیجا میں نے کام کو فائنل ٹچ دیا اور جی ایم کے آفس کی طرف چل پڑا ڈور نوک کر کے اسکے آفس‬
‫میں انٹر ہوا تو آگے میرا سب سے بڑا مخالف بیٹھا ہوا تھا‪ .‬ہارون جو کے ہماری کمپنی میں ایڈمن افسر ہے میرے ساتھ ایک‬
‫دو دفع اسکی مونھ ماری ہو چکی تھی انتہائی بد تمیز بندہ ہے کام ٹکے کا نہی آتا ہمیشہ بڑوں کے اٹھاتا رہتا ہے مجھے تو‬
‫لگا کے کوئی شکایت لے آئیگا ہوگا میرے خالف (میں اپنا کام بہت محنت اور یکسوئی سے کرتا ہوں اور ڈسپلن بھی مینتین‬
‫رکھتا ہوں اس لئے اسے میرے خال ف کچھ ملتا نہی ہے نہی تو میں اب تک کب کا اس کمپنی سے نکال دیا گیا ہوتا) میں نے‬
‫ہارون کو نظر انداز کرتے ہوے جی ایم کو سالم کیا‬

‫جی ایم ‪ :‬کیسے ہیں دانش آپ ؟‬


‫میں‪ :‬سر هللا کا شکر ہے میں بلکل ٹھیک ہوں‬

‫جی ایم‪ :‬یار دانش وہ شام کی میٹنگ میں جو پروجیکٹ پری زینٹ کرنا ہے آپ اس پروجیکٹ کے پوائنٹس ہارون کو کلیر‬
‫کروا دیں تا کہ یہ اپنی تیاری کر سکیں‪ .‬یہ اپنے پارٹ کے ساتھ ساتھ اپکا پارٹ بھی پریزینٹ کر دن گے‪.‬‬

‫میں‪ :‬سر پروجیکٹ تو ریڈی ہے لیکن مس بینش نے کہا ہے کے اپنا پروجیکٹ میں نے خود پریزینٹ کرنا ہے کیوں کے‬
‫کالئنٹ کے لئے سب سے امپورٹنٹ پارٹ الجسٹک کا ہے باقی جیسے آپکا آرڈر‪.‬‬
‫جی ایم‪ :‬آپ انکو دے دن پروجیکٹ ‪ .‬بینش کو میں سمجھا دونگا‬
‫میں ‪ :‬اوکے سر‬

‫میں نے ہارون کی طرف دیکھا تو وہ بری طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا میں نے دل میں کہا بچے جب پریزینٹ‬
‫کریگا تب پتا چلیگا میں اپنی ٹیبل پہ آیا تو ہارون بھی میرے پیچھے پیچھے آ گیا میں اسے کہا‬
‫میں ‪ :‬ہاں جی کیسے لینگے پروجیکٹ‬
‫ہارون ‪ :‬کیا مطلب ہے تمہارا ؟‬
‫میں ‪ :‬بڑے بد تمیز ہو یار میں تمہیں آپ کہہ کے مخاطب کر رہا ہوں اور تم تو تڑاک کر رہا ہے‬
‫ہارون ‪ :‬تم زیادہ تیز نہ بنو اور چپ کر کے پروجیکٹ کی پریزنٹشن دو‬
‫میں ‪ :‬ٹھیک ہے لے جاؤ لیکن سمجھ تو لو جو جو پوائنٹس وضاحت طلب ہیں‬
‫ہارون‪ :‬تم خود کو زیادہ افالطون نہ سمجھا کرو کم از کم تم سے بہتر ہی سمجھا سکونگا‬
‫میں ‪ :‬میں نے تمہں ای میل کر دی ہے جا کے دیکھ لو اور کچھ نہ سمجھ اے تو آ کے پوچھ لینا میں سمجھا دونگا‬
‫ہارون چپ چاپ مڑ کے اپنے آفس چال گیا مجھے پتا تھا وہ سائکو ہے میں ایسی بات کرونگا تو وہ ضرور مجھ سے‬
‫الجھ جائیگا اور بنا کوئی پواینٹ سمجھے چال جائیگا اور ہوا بھی وہی اب مجھے شام کی میٹنگ کا انتظار تھا کیوں کے میں‬
‫نے جو جو پوائنٹس بنانے تھے وہ بہت مارکیٹ ریسرچ اور جس کمپنی سے ایگریمنٹہونا تھا کی تمام ضروریات کو مد نظر‬
‫رکھ کے تیار کیا تھا جو نہ صرف ہماری کمپنی کے لئے بلکے اس کمپنی کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہوگا لیکن اسکو‬
‫پریزینٹ کرنے کا جو طر یقہ میں نے سوچا تھا اس سے مجھے پوری امید تھی کے وہ کمپنی یقینن ہمارے ساتھ لونگ ٹرم‬
‫ایگریمنٹ کریگی لیکن ہارون نے جی ایم صاحب کے اٹھا اٹھا کے ان سے پرمیشن لے لی تھی صرف مجھے نیچا دکھانے‬
‫کے لئے اب مجھے انتظار تھا کے بینش کیا کہتی ہے لیکن یہ سچ تھا کے میں کوئی اتنا اوٹ سٹینڈنگ بھی نہی تھا کے وہ‬
‫میرے لئے جی ایم کو بولےگی( کیوں کے ہر فرم میں اوپر کے لیول پی ایک دوسرے کے آرڈرز کو بری اہمیت دی جاتی‬
‫ہے) خیر ویسے بھی ہماری کمپنی ایک بڑی اور مشہور کمپنی ہے اتنی بڑی کمپنی کو اتنی آسانی سے کوئی نہ نہی کہ سکتا‬
‫زیادہ س ے زیادہ وہ الجسٹکس پرسنٹشن دوبارہ مانگ لیتے (یہ تھی تو میری بہت بڑی بدنامی کے اگر الجسٹکس کی‬
‫پرزنتشن دوبارہ مانگتے تو الزمی بات تھی کے میں نے پریزنٹشن سہی نہی بنائی) لیکن میرے لئے اطمینان کی بات یہ تھی‬
‫کے بینش میری پریزنٹشن دیکھ چکی تھی‬
‫میں نے گھڑی پہ ٹائم دیکھا ابھی پندرہ منٹ باقی تھے آفس کی چھٹی ہونے میں‪ .‬لیکن میں ابھی جانا نی چاہتا تھا کسی بھی‬
‫وقت بالوا آ سکتا تھا ‪ .‬میں نے لیپ ٹاپ پی ایک مووی‬
‫ڈونلوڈنگ پی لگا دی میرا ٹائم پاس یہی ہوتا ہے جب کام نہ ہو تو میں مووی دیکھ لیتا ہوں‪ .‬اور کبھی کبھی جب موڈ تھوڑا وہ‬
‫واال ہو تو پورن بھی دیکھ لیتا ہوں اور سٹوریز بھی پڑھتا ہوں لیکن مجھے انسیسٹ سٹوریس سخت نہ پسند ہیں اسکی وجہ یہ‬
‫ہے کے انسان اور جانور میں فرق ہونا چائے هللا نے جب ایک پوری دنیا لڑکیوں سے بھر دی ہے تو ضروری ہے کے اپنی‬
‫ہی ماں بہن پی بری نظر رکھی جانے ایسا تو جانوروں میں بھی نی ہوتا ٹھیک ہے باہر بھی کسی لڑکی کے ساتھ سیکس کرنا‬
‫غلط ہے لیکن کم از کم انسیسٹ سے تو بہت کم ہے نہ یہ جو لوگ آج کل انسیسٹ کی سٹوریز لکھ لکھ کے آج کل کے‬
‫نوجوانوں کے ذھن خراب کر رہے ہیں میں گارنٹی دیتا ہوں وہ یا تو خود کسی کوٹھے کی پیداوار ہیں یا پھر کسی گھٹیا‬
‫خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کے کوئی بھی خاندانی آدمی کسی غیر لڑکی کو بھی سیکس کے لئے سوچتے ہوے ہزار‬
‫بار سوچتا ہے کجا یہ کے اپنی ہی ماں بہن کو ایسی گندی نظر سے دیکھ‪ .‬ایک بہن کے لئے اسکا بھائی اس دنیا میں سب سے‬
‫بڑا محافظ ہوت ا ہے جب گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاے تو پھر تو سب کو کھلی چھوٹ ہونی چائے پھر آپ کیسے کسی کو غلط‬
‫کہ سکتے اس تارہا تو جنسی چھوٹ ہونی چائے پورا معاشرہ ہی جنسی جانوروں سے بھر جائیگا‪ .‬سیکس جسم کی ضرورت‬
‫ہی جس طرھ پیٹ کو بھوک لگتی ہے تو ہم اچھا کھانا کھاتے ہیں جو بھی سامنے آ جانے وہ نئی کھانا شروع کردیتے بلکے‬
‫اچھا برا سعی پکا ہوا حالل دیکھ کے کھاتے ہیں تو پھر سیکس میں کیسے ہمارا کوئی میر نئی ہوتا ہر لڑکی کو دیکھ رالیں‬
‫کیوں تپکانا شروع کر دیتے ہیں‪ .‬خیر ہر کسی کا اپنا پواینٹ آف ویو ہوتا ہے یہ میرا پواینٹ ہے میری ڈکشنری میں زبردستی‬
‫کا کوئی لفظ ہی نئی ہے کیوں کے سیکس ایک خالص کیفیت ہوتی ہے جب دونو فریق راضی ہوں اور خود سپردگی کی‬
‫کیفیت طاری ہو دونو کے دماغ ایک دوسرے کا تسلط تسلیم کر رہے ہوں ذھن میں کسی قسم کا کوئی اور خیال نہ ہو بس ایک‬
‫ہی جذبہ پوری طرھ سے حاوی ہو کے ا پنے پارٹنر کو مکمل مزہ دینا ہے اسی طرھ جس لڑکی کے ساتھ آپ کر رہے ہیں‬
‫اسکے ذھن میں آپکا ایک کردار کا قد اتنا اونچا بنا حہوا ہونا چائے کے وہ ہر طرھ سے مطمئن ہو کے اپ کبھی بھی کسی‬
‫بھی طرھ سے اسے دھوکہ نئی دے سکتے جب ایک لڑکی کسی کو اپنا جسم پیش کرتی ہے تو وہ اپنی اپنے خاندان کی عزت‬
‫وقار اپنی جان مان سب کچھ لڑکے کے حوالے کر دیتی ہے پھر جو لڑکا اس لڑکی کا غلط استمال کرتا ہے اور اسے مجبور‬
‫کرتا ہے یقینا وہ لڑکا مرد کہالنے کے الئق نئی ہوتا‪ .‬اور جو بندا رازداری جیسی نعمت سے محروم ہوتا ہے وہ کسی بھی‬
‫طرھ اعتبارکے قاب ل نئی ہے میری آج کل کی لڑکیوں سے گزارش ہے کے پلیز کسی لڑکے کو سوچنے سے پہلے اسے ایک‬
‫بار ضرور آزما لیں جو لڑکا بھرے بازار میں آپکو نمبر پکڑا سکتا ہے تو یقین کریں آپ پہلی نئی ہیں جسکو اسنے نمبر دیا‬
‫ہوگا پھر آپ ایسے لڑکے پی کیسے اعتبار کر سکتی ہیں‪ .‬جو لڑکے سوشل میڈیا پہ آپکے ساتھ قسمیں وعدے کر رہے ہیں اور‬
‫آپ سے آپکی ننگی تصویریں مانگ رہے ہیں بھال کیا گارنٹی ہے کے انھوں نے کسی اور کو نئی دکھانی انٹرنیٹ بھرا پڑا‬
‫ہے پورن سٹار لڑکیوں کی تصویروں سے اور وہ بھی بہت کلیر تصویروں سے جو تصویریں لڑکیاں بھیجتی ہیں ان سے‬
‫کہیں زیادہ صاف ور اچھے طریقے کھینچی ہوئی تصویریں ہوتی ہیں یہ بس لڑکیوں اپنا پابند کرنے کا ایک بہت ہی عام سا‬
‫طریقہ ہے اور لڑکیاں ہمیشہ اس طریقے سے بیوقوف بنتی آئ ہیں اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو مجھے ای میل کر کے میری‬
‫غلط فہمی ضرور دور کیجیےگا میں آپکا بہت احسان مند ہونگا‪.‬‬
‫‪shezi.malik.stories@gmail.com‬‬

‫میرا مقصد آپکو چند منٹ کا مزہ دینا نئی ہے بلکے میں کوشش کرتا ہوں کے میری کہانیاں ایک تو آپکو حقیقت کے قریب‬
‫لگیں دوسرا آپکی کچھ نہ کچھ اصالح ہو سکے‪.‬‬

‫میں اتنا ڈوبا ہوا تھا اپنے خیالوں میں کے مجھے پتا ہی نئی چال بینش کب سے میرے ٹیبل کے پاس کھڑی تھی یہاں تک کے‬
‫اسے ٹیبل پہ نوک کرنی پڑی‪ .‬میں نے ہڑ بڑا کے اپر دیکھا تو وہ ہنسنے لگی اور میں نے اسے پہلی بار ہنستے ہوے دیکھا‬
‫اسکے خوبصورت سفید دانت ہونٹوں سے جھانک رہے تھے کھلے بال ہلکے ہلکے کرلی‪ .‬وائٹ کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ کے‬
‫اوپر بلیک کوٹ پہنے نیچے بلیک فارمل پنٹ پہنے مجھے وہ پہلی بار بہت حسین لگی لیکن یہ سب بس چند سیکنڈ میں ہی‬
‫میری نظر سے گزرا‪.‬‬
‫بینش‪ :‬دانش صاحب کہاں کھوے ہوے ہیں دن میں سپنے دیکھ رہے ہیں‬
‫میں‪ :‬نو نو مس ایسی کوئی بات نئی ہے میں بس پروجیکٹ کے پوائنٹس کو ایک بار ریوایز کر رہا تھا (موقع پی دماغ نے کام‬
‫کیا )‬
‫بینش‪ :‬تو پھر چلیں میٹنگ کا ٹائم ہونے واال ہے آپ میرے ساتھ ہی آ جائیں‬
‫میں‪ :‬مس میری جگا ہارون صاحب پرسنٹ کرینگے اس لئے میں اپکا ویٹ کر رہا تھا کے آپ آئینگی تو میں آپ سے پوچھ‬
‫کے گھر چال جاؤنگا‬
‫بینش‪ :‬ہارون تو اپنا پارٹ پرسنٹ کریگا وہ کیسے اپکا پارٹ پریزنٹ کر سکتا ہے اور الجسٹک موسٹ امپورٹنٹ پارٹ ہے‬
‫اس ایگریمنٹکا‬
‫میں‪ :‬مس میں کیا کہ سکتا ہوں مجھے تو جی ایم صاحب نے کہا ہے کے کے اپنی پرزنٹشن ہارون کو دے دوں‬
‫بینش ‪ :‬چلو سعی ہے خیر ہارون کو اچھے سے سمجھا تو دیا ہے کہیں وہ کوئی گڑ بڑ نہ کر دے‬
‫میں‪ :‬ہارون صاحب نے کہا کے وہ خود ہی دیکھ لینگے اس لئے میں چپ کر گیا‬
‫بینش ‪ :‬اوکے پھر میں چلتی ہوں‬
‫میں‪ :‬جی مس پلیز‬

‫میری نہ چاہتے ہوے بھی نظر بینش کی گانڈ پی چلی گئی اسکی گانڈ پنٹ میں کسی ہوئی ایک خاص ردھم کے ساتھ چلتے‬
‫ہوے تھرک رہی تھی‪ .‬میں نے جلدی سے اور بڑی مشکل سے اسکے سراپے سے نظریں ہٹائیں‪.‬‬
‫میں نے بینش کے جانے کے بعد جلدی سے لیپ ٹاپ ور باقی ضروری سامان اپنے بیگ میں ڈاال اور باہر آ کر بائیک اسٹارٹ‬
‫کر کے اپنے فلیٹ کی طرف چل پڑا ‪.‬‬
‫❖‬

‫میں آفس سے آنے کے بعد سو جاتا ہوں دو گھنٹے کی نیند لینے کے بعد میں جم جاتا ہوں وہاں دو گھنٹے ایکسرسائز کرتا ہوں‬
‫یہی وجہ ہے کے میری باڈی خوبصورت مسلز کے ساتھ بہت اتراکٹو ہے وہاں سے آ کر فلیٹ پہ نہاتا ہوں‪ .‬اور پھر اپنے‬
‫دوست کے ساتھ کھانا کھا کے لیپ ٹاپ یا موبائل پہ مووی دیکھتے یا فیس بک سکرول کرتے ہوے بارہ بجے سوتا ہوں میری‬
‫یہی روٹین ہے میں مووی دیکھ رہ اٹھا کے میرے موبائل کی بیل ہوئی نمبر دیکھا تو وہ میرے ایک دوست کا تھا جو‬
‫مارکیٹنگ مینیجر ہے جو خود بھی میٹنگ میں گیا تھا اسکا نام حمزہ ہے مجھے شام سے میٹنگ کی ڈیٹیل جاننے کی کھجلی‬
‫ہو رہی تھی اسکی کال آئ تو میں نے لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پی رکھ کے جلدی سے کال پک کی‪.‬‬
‫حمزہ‪ :‬ہان جی جناب کیا ہو رہا ہے‬
‫میں‪ :‬کچھ نئی یار بس مووی دیکھ کے ٹائم پاس کر رہا تھا‬
‫حمزہ‪ :‬سالے ہارون کے ایل لگوا کے خود ٹائم پاس کر رہا ہے مزے سے‬
‫میں‪ :‬مجھ بیچارے معصوم کی اتنی مجال کے جناب ہارون صاحب کے ساتھ کچھ کر سکوں وہ تو انکو خود اڑتے تیر لینے‬
‫کے شوق ہیں‪ .‬ویسے کیا ہوا ہے وہاں‬
‫حمزہ ‪ :‬جیسے تجھے تو اندازہ بھی نئی ہوگا کے کیا ہوا ہوگا میٹنگ میں‪.‬‬
‫میں ‪ :‬یار بک چودی نہ کر اور بتا ہوا کیا وہاں‬
‫حمزہ‪ :‬دیکھو دیکھو جناب کو کیسے آگ لگی ہوئی ہے جاننے کی‬
‫میں‪ :‬نئی بتانا تونے تو نہ بتا کل مجھے پتا تو چل ہی جانا ہے‬
‫حمزہ ‪ :‬کل کوفی پالنے کا وعدہ کر تو بتاتا ہوں‬
‫میں‪ :‬کیوں جی میں کس خوشی میں کوفی پالؤں‬
‫حمزہ‪ :‬سوچ لے اندر کی باتیں کوئی نئی بتائیگا کیوں کے آتے ہوے میں اونر کی گاڑی میں ہی بیٹھا تھا اور بینش بھی اسی‬
‫گاڑی میں تھی‬
‫میں ‪( :‬اب مجھے اسکی باتوں میں دچسپی پیدا ہونے لگی تھی کیوں کے ویسے اوور آل تو میٹنگ کا احوال پتا چل جاتا لیکن‬
‫اندر کی باتیں تو نئی پتا چل سکتی تھی) یار تجھ سے کافی اچھی ہے بھال کبھی انکار کیا‬
‫حمزہ‪ :‬تو بہت بڑا کمینہ ہے تونے جان بوجھ کے اسے بنا سمجھانے پرزنٹشن دے دی اور وہ اتنا بڑا گدھا ہے کے ایسے ہی‬
‫جا کے پریزینٹ کرنے لگا‬
‫میں‪ :‬یار یقین کرو میں اسے کہا بھی تھا کے پوائنٹس کلیر کر لو اسنے مجھے کہا تم خود کو افالطون نہ سمجھا کرو ہر وقت‬
‫بس اتنی سی بات سے وہ تپ کے چال گیا اب بتاؤ اس میں میرا کیا قصور ہے اور میں نے اسے بتایا بھی تھا کے مجھے‬
‫بینش نے بوال ہے کے الجسٹک کو میں پریزنٹ کروں‬
‫ح مزہ‪ :‬ہاں ہاں جناب تو ستی ساوتری ہے میں تجھے اچھے سے جانتا ہوں بر حال وہاں جب ہاروں اسٹیج پہ گیا تو اپنی‬
‫پرزنٹشن تو جیسے تیسے دے دی جب الجسٹک کی بڑی ای تو اسکی ہوا ٹائٹ ہو گئی‬
‫میں‪ :‬کیوں اسکی ہوا کیوں ٹائٹ ہو گئی‬
‫حمزہ‪ :‬یار انکا جو جی ایم تھا وہ بہت تیز آدمی تھا یار اسنے ایسے ایسے سوال کے ایک ایک چیز کو کلیر کیا وہاں میں نے‬
‫خود بڑی مشکل سے اسے مطمئن کیا تھا تو ہارون کی کیا اوقات کے کسی اور کا پروجیکٹ اکسپلیں کر سکے‬
‫میں‪ :‬پھر تو اونر ور بینش دونوں سعی تپے ہوے ہونگے‬
‫حمزہ‪ :‬تو اور کیا وہ نئی تپینگے اتنی انسلٹ ہوئی ہاروں سے وہ سوال کرتے اور ہاروں ہونکوں کی طرھ اسکا منہ دیکھنے‬
‫لگ جاتا لیکن خیر جی ایم نے سمبھال لیا کے ہمارے الجسٹک مینیجر کی طبیت اچانک خراب ہو گئی تھی اس لئے وہ نئی آ‬
‫سکے براۓ مہربانی آپ الجسٹک کی پرزنٹشن کل کسی وقت کے لئے رکھ لیں پلیز ‪ .‬تب انہوں نے کہا کے کوئی پرابلم نئی‬
‫ہے الجسٹک کو کل کسی وقت دیکھ لیتے ہیں یا آپ اپنے مینیجر کو ہمارے آفس بھیج دیجئےگا‬
‫میں‪ :‬مطلب کل ساری ذمےداری میرے سر آنی ہے‬
‫حمزہ‪ :‬ہاں تو اور کیا سیٹھ بڑا تپا ہوا تھا تجھ پہ کے دانش کیوں نئی آیا میٹنگ میں اور جب پرزنٹشن اسنے تیار کی تھی تو‬
‫اسی کو کیوں نئی پریزینٹ کرنے کو کہا‬
‫تب بینش نے کہا تھا ک جی ایم نے دانش کوکو کہا تھا کے اپنی پرزنٹشن ہاروں کو دے دو وہ ہی پریزینٹ کریگا‪.‬‬
‫میں‪ :‬چلو شکر ہے سیٹھ کے غصے سے میری تو بچت ہوئی‬
‫حمزہ‪ :‬تو تو بچ گیا لیکن ہاروں کو ایک مہینے کا وارننگ ٹائم مل گیا ہے‬
‫میں‪ :‬کیا واقعی یار مجھے اتنی سیریس وارننگ کی بلکل امید نئی تھی‬
‫حمزہ‪ :‬بینش کو تپ ہی اتنی چڑھی ہوئی تھی اسپے اور تو تو جانتا ہے وہ ایک منٹ نئی لگاتی کسی کو فارغ کرنے میں یہ تو‬
‫پھر بھی اسکی بچت ہو گئی ایک مہینہ مل گیا نئی تو مجھے تو لگتا تھا کے کھرے کھرے فارغ کریگی‬
‫میں ‪:‬چل کل جا کے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‬
‫حمزہ‪ :‬ہاں سعی ہے میں نے سوچا مر رہا ہوگا بیچارے کو بتا دوں‬
‫میں‪ :‬چل اونے ایک کپ کافی کے بدلے تو بکا ہے سستے جاسوس‬
‫حمزہ‪ :‬اچھا بیٹا کوئی نئی پھر بھی تو واسطہ پڑیگا تیرا میرے ساتھ ہی‬

‫میں نے ہنستے ہوے کال کاٹ دی اور اطمینان سے لیپ ٹاپ پی مووی دیکھنے لگا میں نے ہاروں کے ساتھ کچھ غلط نئی‬
‫کیا تھا میں نے اسے حقیقت بتا دی تھی باقی اسنے خود ہی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی ماری تھی‪.‬‬

‫ویسے بھی جو لوگ خوشامند کر کر کے اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمیشہ منہ کے بل گرتے ہیں‪ .‬کبھی‬
‫بھی کوئی انسان خوشامند کے ساتھ زیادہ دیر کسی جگہ نئی ٹک سکتا‪ .‬کیوں کے ہر جگہ کام منگا جاتا ہے اپکا افسر صرف‬
‫خوشامند سے تو خوش نئی ہوگا نہ کچھ نہ کچھ کام تو کر کے دینا ہی پڑتا ہے‬

‫اگلے دن میں صبح صبح تیار ہوا آج مجھ ے پرزنٹشن دینی تھی اس لئے میں نے اچھے کپڑے پہنے بلیک پنٹ کے ساتھ وائٹ‬
‫شرٹ پہنی یہ شرٹ مجھ پہ بہت سوٹ کرتی ہے‪ .‬میں آفس پہنچ کر اپنی ٹیبل پہ بیٹھا اور لیپ ٹاپ سٹارٹ کیا ‪ .‬اہستہ اہستہ‬
‫سب لوگ آنا شروع ہو گے‪ .‬تھوڑی دیر بعد میرے موبائل پی مسیج بیل بجی میں نے دیکھا تو بینش کا مسیج تھا اسنے‬
‫مجھے اپنے آفس میں بالیا تھا‪ .‬میں اٹھ کے اسکے آفس گیا میں اپنا لیپ ٹاپ بھی ساتھ ہی لے گیا دروازے پی نوک کر کے‬
‫اجازت طلب کی اور پھر اندر گیا تو بینش کسی کال پی بزی تھی اسنے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو میں وزیٹر چیر پی بیٹھ‬
‫گ یا کال ختم کر کے اسنے میری طرف دیکھا‪ .‬مجھے اسکی نظروں میں اپنے لئے پسندیدگی نظر ای اسنے مجھ سے پوچھا‬
‫بینش‪ :‬جی مسٹر دانش کیسے ہیں آپ‬
‫میں‪ :‬جی مس میں بلکل ٹھیک ہوں‬
‫بینش ‪ :‬مجھے کل کا بڑا افسوس ہے ہمارے لئے بہت شرم کی بات ہے کسی ڈیپارٹمنٹ کی بھیپرزنٹشن کو آوٹ سٹینڈنگ نی‬
‫کہا جا سکتا انکل بھی بہت مایوس تھے اس پرفارمنس سے مجھے آپکی پرزنٹشن سے بہت پسند ای تھی لیکن اسکا بھی‬
‫ہارون نے بیڑا غرق کر دیا تھا وہ جمیل صاحب کی حاضر دماغی کی وجہ سے بچت ہو گئی تھی ‪.‬‬
‫میں‪ :‬مس میں نے تو بہت محنت سے تیاری کی تھی لیکن من نیا ہوں ابھی شائد اسی لئے جی ایم صاحب نے جیسے حکم دیا‬
‫بینش‪ :‬میں جی ایم صاحب سے اس مسلے پی بات کی تھی انھیں امید نی تھی کے ہارون اتنی بری تارہا پرفارم کریگا چلو جو‬
‫ہوا سو ہوا ہمیں اب آگے دیکھنا ہے ‪ .‬میں نے آپ کو اس لئے بالیا ہے کے ہمیں آج بارہ بجے جانا ہے انکے آفس آپ اپنی‬
‫تیاری کر لیں میں اور اپ ہی جائینگے‬
‫میں‪ :‬جی مس میں تیار ہوں‬
‫بینش‪ :‬تھنک یو‬
‫میں بینش کے آفس سے نکل کر اپنی ٹیبل پہ آیا اور پرزنٹشن کو ایک بار پھر سے دیکھنے لگا جہاں جہاں سے کمی لگ‬
‫رہی تھی اس میں تبدیلیاں کرنے لگا‪ .‬آخری بار ایک نظر ڈالنے ک بعد میں نے مطمئن ہو کے لیپ ٹاپ بند کیا اور جا کے‬
‫ایک کپ چاے لینے کے لئے مشین کے پاس گیا تبھی میں نے ہارون کو دیکھا اسنے جیسے ہی مجھے دیکھا تو نظریں چرا‬
‫کے واپس مڑ گیا‪ .‬کیوں کے پورے آفس کو پتا چل چکا تھا کے کل کی میٹنگ میں اس نے کیا گل کھال ے تھے‪ .‬میں نے‬
‫زیادہ توج ہ نہ دی اس پہ اور اپنی چاے لے کے واپس آ گیا کیوں کے میرا اصول ہے میں اپنے مخالفین کی چا لوں کا صرف‬
‫اس وقت تک جواب دیتا ہوں جب تک وہ میرے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے ہوں جب وہ ہار مان جائیں تب میں بھی‬
‫پیچھے ہو جاتا ہوں لیکن اسکا ہر گز یہ مطلب نی کے میں اسکی ط رف سے بلکل ہی آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہوں‪ .‬ابھی‬
‫میں چاے لے کے اپنی چیر پہ بیٹھا ہی تھا سدرہ آ گئی سدرہ ہمارے آفس میں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہے اور میرے‬
‫ساتھ اکثر آ کے گپ شپ کرنے آ جاتی ہے اسکی رپوٹشن کچھ خاص اچھی نی ہے لوز کریکٹر ہے اس لئے میں اسے زیادہ‬
‫پسند نی کرتا‪ .‬لیکن ایسی بھی کوئی بات نی ہے کے میں اسے دیکھ کے اپنا موڈ خراب کر لوں‪ .‬میں خود سے کبھی اسکو‬
‫زیادہ بالتا ہی نی ہوں نہ ہی کوئی انٹرسٹ شو کرتا ہوں اسکا اس کہانی میں کوئی کردار نی ہے اس لئے اسکا زیادہ تعارف‬
‫کرانے کا فائدہ نی ہے‬
‫سدرہ‪ :‬سنیں جناب کیسے ہیں‬
‫میں‪ :‬ہان جی ہمارے حال تو هللا کا بہت شکر ہے ٹھیک ہیں آپ باتیں کسی ہیں‬
‫سدرہ ‪ :‬اپنے پوچھ لیا تو حال ٹھیک ہو گیا‪.‬‬
‫میں‪ :‬خیریت ہے اپ آج ہمارے غریب خانے پہ‪.‬‬
‫سدرہ ‪ :‬سنا ہے ہارون صاحب کو نوٹس مل گیا ہے‬
‫میں‪ :‬پتا نی سنا تو میں نے بھی ہے‬
‫سدرہ‪ :‬کمال ہے اپکا سب سے بڑا مخالف جا رہا ہے اور آپکو کوئی خوشی نی ہو رہی‬
‫میں‪ :‬تم مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو کے ایک بندے کی جاب جانے کا خطرہ ہے اور میں اس پہ خوشی مناؤں‬
‫سدرہ ‪ :‬ارے میرا یہ مطلب نی تھا میں تو اس لئے کہ رہی تھی اسنے ہر بار آپکے ساتھ بہت زیادتی کی ہے تو‬
‫میں‪ :‬تو کیا میں اب میں جشن مناؤں ہم دونوں ہی اس کمپنی میں مالزم ہیں آج اسکو نوٹس مال ہے تو کل مجھے بھی مل سکتا‬
‫ہے‬
‫سدرہ‪ :‬آپ مجھ سے اتنی رفلی کیسے بات کر سکتے ہیں‬
‫میں‪ :‬دیکھیں مس آپکو بھی پتا ہے کے اسکو نوٹس مل چکا ہے آپکے ڈیپارٹمنٹ کو پہلے اطال دی جاتی ہے پھر میرے پاس‬
‫اپ چسکے لینے کیوں ای ہیں‬
‫سدرہ‪ :‬آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں میں اگر آپکے پاس ای ہوں تو کیا اتنی گئی گزری ہوں کے اپ مجھ سے ایسے بات‬
‫کریں‪ .‬آپ جیسے کتنے میرے آگے پیچھے پھرتے ہیں‬
‫میں‪ :‬جی جی مجھے پتا آپ بہت اونچی چیز ہیں اسی لئے آپ پلیز اپنے آگے پیچھے والوں سے ہی چسکے لیا کریں مجھے‬
‫ایسے گھٹیا کاموں میں کوئی انٹرسٹ نی ہے‬
‫وہ پاؤں پٹختے ہوے واپس چلی گئی اور میں نے شکر کیا لیکن‬
‫بینش نہ جانے کب سے ہماری باتیں کھڑی سن رہی تھی میں جب اسکو دیکھا تو میرا رنگ اڑ گیا‪.‬میں کھڑا ہو گیا اور اسکو‬
‫ہکالتے ہوے سالم کیا‪ .‬مجھے اس لئے ٹینشن ہو گئی تھی کے کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کے میں نے کہیں سدرہ کو کوئی‬
‫غلط بات نہ کی ہو جسکی وجہ سے وہ یوں غصّے سے گئی ہے‬
‫بینش نے بہت غور سے میری طرف دیکھا‪ .‬اور کہا کے چلیں میٹنگ کا ٹائم ہونے واال ہے میں نے بھی کہا جی مس چلیں‬
‫ہم آفس سے باہر ے تو بینش کا ڈرائیور نیو ماڈل کی مرسڈیز لے کے انٹرنس پی پنچ گیا اور گاڑی سے اتر کر بینش کے لئے‬
‫گاڑی کا دروازہ کھوال‬
‫میں آگے بیٹھنے لگا تو بینش نے کہا پیچھے بیٹھ جائیں میرے ساتھ‬
‫میں‪ :‬جی مس (اور میں پچھال دروازہ کھول کے اسکے ساتھ بیٹھ گیا )‬
‫بینش‪ :‬اپنے پرزنٹشن کو پوری تارہا سے دیکھ لیا ہے نہ؟‬
‫میں‪ :‬جی مس اپ بے فکر رہیں ان شا هللا اچھا ہی ہوگا (لیپ ٹاپ آن کر کے اسکو سرسری طور پی بتانے لگا میں نے اتنی‬
‫بار اس پرزنٹشن کو دیکھا ور سرچ کیا تھا کے مجھے سب کچھ اپنے فنگر ٹپس پہ تھا اس لئے مجھے ذرا بھی ٹینشن نی تھی‬
‫)‬
‫بینش لیپ ٹاپ لے کے پرزنٹشن دیکھنے لگی اور میں اسے دیکھنے لگا پتا نی کل سے میں کیوں اسکی طرف کھنچا چال جا‬
‫رہا ہوں اسنے آج بلیوکلر کی جینز پہنی ہوئی تھی جس میں سے اسکی بھری بھری رانیں نظر آ رہی تھیں اوپر اسنے الئٹ‬
‫پنک کلر کی ہاف سلیو شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں سے اسکے ٹائٹ بوبز تنے ہوے نظر آ رھے تھے کسی شاہکار کی‬
‫طرھ وہ ان کپڑوں میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی سب سے بڑھ کر اسکے پرفیوم کی خوشبو مجھے بہت اچھی لگ رہی‬
‫تھی‪ .‬میرا دماغ مجھے مالمت کرنے لگا اور میری اوقات یاد دالنے لگا‪ .‬اتنے میں ہم آفس کے قریب پنچ گے‪ .‬میں سب کچھ‬
‫اپنے دماغ سے نکال کے پروجیکٹ پی کونسنتریٹ کرنے لگا ‪ .‬ہمیں خوش آمدید کہنے کے لئے انکا منجمنٹ اسٹاف آیا تھا یہ‬
‫سب پروٹوکول بینش کو مل رہا تھا کیوں کے کچھ بھی تھا وہ ایک ڈائریکٹر اور اپنی کمپنی ک اونر کی بھتیجی تھی ہم لوگ‬
‫جب میٹنگ روم میں پنچے تو ہمیں کافی چاے کا پوچھا گیا پھر میٹنگ شروع ہوئی میں نے پروجیکٹر پہ پرزنٹشن کی‬
‫وضاحت شرو کردی انکا سارا منجمنٹ اسٹاف اپنے اپنے سوال پوچھنے لگے اور میں سب کے سوالوں کے تفصیل اور بہت‬
‫اعتماد سے جواب دینے لگا کیوں ک میں یہ پوری پ رازنٹشن ایک چیز خود ریسرچ کر کے بنی تھی‪ .‬اس لئے میرے لئے‬
‫انکے تمام سوال متوقع تھے اس لئے میں نے پہلے ہی تیاری کی ہوئی تھی‪ .‬انکی کمپنی کی الجسٹک مینیجر ایک لڑکی تھی‬
‫جو سب سے زیادہ سوال کر رہی تھی اور میں کیوں نچلے لیول سے اس پوسٹ تک آیا تھا تو ظاہر ہے مجھے زمینی حقیقتوں‬
‫کا اس سے زیادہ پتا تھا آخر یہ میٹنگ اختتام پذیر ہوئی اور تمام لوگ میرے جوابوں سے بہت مطمئن ہوے‪ .‬میں نے بینش کی‬
‫طرف دیکھا تو وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی دراصل یہ پروجیکٹ بینش کا ٹیسٹ پروجیکٹ تھا جو کے بینش کے انکل نے‬
‫بینش کو دیا تھا‪ .‬دوسری کمپ نی کا اونر اور جی ایم نے بینش اور مجھے مبارک باد دی اور ایگریمنٹپی سائن کرتے ہوے‪.‬‬
‫بینش کو ایک اور پروجیکٹ کی آفر کردی ‪ .‬اس پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد ہمارا کام بہت بڑھ جانا ہے‪ .‬یہ ہماری توقع‬
‫سے بھی بہت اچھا گیا تھا‪ .‬واپسی پہ بینش بہت خوش تھی اسنے مجھ سے گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی ہاتھ مالیا اور مبارک‬
‫دی‬
‫بینش‪ :‬دانش آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے مجھے انکل کے سامنے سرخ رو کر دیا ہے‬
‫میں‪ :‬مس یہ میرا بھی تو امتحان تھا میری مینیجر کی پوسٹ پی اپائنٹمنٹ کے بعد سے یہ پہال اتنا بڑا پروجیکٹ ہے اور هللا کا‬
‫شکر ہے اسنے ہمیں کامیاب فرمایا‬
‫بینش‪ :‬بیشک آپ سہی کہ رھے ہیں آج میں بہت خوش ہوں اس لئے میں اپنی خوشی کو سیلیبریٹ کرنا چاہتی ہوں تو آج رات‬
‫کو ہم ڈنر اکٹھا کرینگے آپکا کوئی پالن ہے بھی تو کینسل کر دیں‬
‫میں‪( :‬کچھ سوچتے ہوے یہ تو اسنے آرڈر دے دیا ہے اب کیا کریں میں تو ویسے ہی اسکی قربت میں اپنے آپ پی کنٹرول‬
‫کھونے لگتا ہوں میں نے ہچکچاتے ہوے کہا) اوکے‬
‫بینش‪ :‬تو ٹھیک ہے پھر رات کو ‪ ٨‬بجے ملتے ہیں‬

‫میں‪ :‬ٹھیک مس میں ‪ ٨‬بجے آ جاؤنگا‬

‫بینش‪ :‬چلیں میں آپکو کال کر لونگی پھر پروگرام بنا لینگے‬
‫ہم آفس پنچ گے تو وہاں سب نے ہمیں مبارک باد دی‪ .‬اونر نے خصوصی کلیپنگ کروائی میرے لئے‪.‬سب کے جانے کے بعد‬
‫حمزہ میرے پاس آیا اور مبارک باد دینے کے بعد اپنا وداع یاد دالیا میں نے اسے تھوڑا تانگ کیا پھر ہم آفس کے پاس موجود‬
‫کافی ہاؤس چلے گے ‪.‬‬

‫ساڑھے سات بجے میں جم سے واپس آیا تو ابھی نہا کے فریش ہی ہوا تھا کے بینش کی کال آگئی میں نے کال ریسیو کی‬
‫بینش‪ :‬ہیلو‬
‫میں‪ :‬ہاۓ مس کسی ہیں آپ‬
‫بینش‪ :‬میں ٹھیک ہوں جلدی سے بتائیں تیار ہیں؟‬
‫میں‪ :‬جی مس میں تیار ہو گیا سمجھیں‬
‫بینش‪ :‬تو میں آ جاؤں آپکو لینے؟‬
‫میں‪ :‬مس اپ تکلف نہ کریں میں آ جاتا ہوں‬
‫بینش‪ :‬ارے یار پھر رسمی باتیں‬
‫میں‪ :‬نی نی مس میں واقعی سچ میں آ جاتا ہوں وہاں سے آپ جہاں کہیں چلے جائینگے‬
‫بینش‪ :‬اپ بتاؤ کہاں رہتے ہو‬
‫میں ‪ :‬مس میں ای ‪ ١١‬میں رہتا ہوں‬

‫بینش‪ :‬ارے تو میں ایف‪ ١١‬میں رہتی ہوں کون سا چاند پی آنا ہے آپکو لینے‬

‫میں‪ :‬اوکے آپ آ جائیں میں آپکو لوکیشن بھیج دیتا ہوں‬


‫بینش اوکے میں بس دس منٹ میں آ رہی ہوں‬
‫میں‪ :‬اوکے مس‬
‫میں جلدی سے کپڑے پہنے جینز کی ڈارک بلیو پنٹ کے اوپر وائٹ ہاف سلیو شرٹ پہن کے آئنے میں ایک نظر دیکھا اور‬
‫پوری طرھ مطمئن ہو کے فلیٹ کو الک کیا اور نیچے آ گیا شرٹ میں سے میری مسکولر باڈی جھانک رہی تھی اور میرے‬
‫بازوں کی مچھلیاں بہت اچھی لگ رہی تھی جو کسی بھی لڑکی اپنی کشش کی لپیٹ میں لے لیں‪ .‬جو لوگ اسالم آباد سے ہیں‬
‫وہ جانتے ہونگے کے ای ‪ ١١‬میں بہت سی یونی ورسٹیوں کے سٹوڈنٹس اور کی بچلر رہتے ہیں مجھے بھی گزرتے ہوے‬
‫کافی لڑکیوں نے الئنیں کروائیں پر میں نے کسی پہ کوئی خاص توجہ نہ دی مجھے انتظار کرتے تھوڑی در ہی گزری ہوگی‬
‫کے بلیک مرسسدیز میرے پاس آ کے رکی ڈرائیونگ سیٹ پہ بینش تھی جسکی مجھے ذرا بھی امید نی تھی میں نے اگلی‬
‫سیٹ کا دروازہ کھوال اور بیٹھ گیا اسنے مجھ سے ہاتھ مالیا اسکے ہاتھ بہت نرم تھے ایسے جیسے بلکل ریشم ہو اور بکل‬
‫بھرے بھرے دودھ جیسے سفید اسنے مجھے دیکھا اور کہا‬
‫بینش‪:‬واؤ امپرسو آپ تو باڈی بلڈر ہیں‪ .‬اچھے لگ رھے ہیں‬
‫میں‪ :‬تھنک یو مس بس ایسے ہی کالج ٹائم سے ہی شوق تھا تو ڈیلی کی روٹین بنی ہوئی ہے‬
‫بینش‪ :‬یہ مس مس کیا ہوتا ہے اب ہم آفس میں نی ہیں اپ مجھے بینش کہ سکتے ہیں‬
‫میں‪ :‬مس بینش میں آپکو نام سے کیسے بال سکتا ہوں اپ مجھ سے بڑی ہیں‪ .‬میرا مطلب ہے دزگنیشن میں کافی بڑی ہیں‬
‫بینش‪( :‬ہنستے ہوے)مجھے لگا آپ مجھے اتنا بوڑھا سمجھتے ہیں ‪.‬‬
‫میں‪ :‬ارے نی میری اتنی ہ ّمت کے میں کسی لڑکی کو اسکی عمر سے مطلق کچھ کہوں‬
‫بینش (گاڑی کو چالتے ہوے)ہان بلکل دانش سب اس بات کو ذھن میں رکھنا لڑکیوں کو سب کچھ برداشت ہوتا ہے یہ نی‬
‫میں‪ :‬جی ضرور ویسے بھی میں کسی لڑکی کے ساتھ اتنا فری ہی نی ہوتا کے معاملہ یہاں تک پنچے‬
‫بینش‪ :‬ارے ہاں یاد آیا دن میں سدرہ کے ساتھ کیا کیا تھا بڑی تپی ہوئی تمہارے پاس سے گئی تھی‬
‫میں‪( :‬اب میں اسے کیا جواب دوں یار پتا نی اسنے کہاں تک بات سنی تھی) نی ایسی تو کوئی بات نی تھی مس پتا نی کیا ہوا‬
‫تھا وہ خود ہی تپ کے گئی تھی‬
‫بینش‪ :‬اچھا نی بتانا چاہتے تو کوئی بات نی ویسے میں نے ساری بات سن لی تھی‬
‫میں ‪ :‬مس وہ بات یہ ہے کہ میری اور ہارون کی نی بنتی ہماری تین چار دفع منہ ماری ہو چکی ہے تو آفس میں کچھ لوگ‬
‫سمجھتے ہیں کے پریزنٹیشن میں اسکو بھیجنا میری کوئی سازش تھی بس وہ اسی بات کو ٹوہ لینے ای تھی اور مجھے ایسے‬
‫لوگ ذرا بھی پسند نی ہیں جو کسی کو آپس میں لڑایں بس اسی بات پہ میں نے اسے کوئی سخت بات کہ دی تو وہ پاؤں‬
‫پٹختی ہوئی چلی گئی‬
‫بینش‪ :‬میں کچھ اور سمجھی تھی‬
‫میں‪ :‬آپ کیا سمجھی تھیں؟‬
‫بینش‪ :‬کچھ نی چلو ہوٹل آ گیا مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے‬
‫ہم ہوٹل گے وہاں آرڈر کروایا اورکھانےکا ویٹ کرنے لگے‬
‫بینش‪ :‬تو دانش اپ اپنے بارے میں بتائیں کچھ‬
‫میں‪ :‬میری الئف میں کچھ ایسا خاص تو نی ہے گھر والے سا رے گاؤں میں رہتے ہیں‪.‬میری دو بہنیں ہیں جو مجھ سے‬
‫بڑی ہیں‪ .‬ماں ہے ابو ہیں‪ .‬ہیپی بگ فیملی ہے‪ .‬میں یہاں رہتا ہوں‪ .‬اور سنڈے ماموں کے گھر گزرتا ہوں میری چھوٹی کزنز‬
‫ہیں بس یہی الئف ہے دوست بھی بہت ہیں تو مست گزر رہی ہے‬
‫بینش‪ :‬واؤ آپ تو لکی ہیں (تھوڑا دکھی ہو گئی مجھے بھی لگا میں نے فیملی کا ذکر کر کے غلطی کردی اب جو ہو گیا تھا‬
‫اب اسے کور کرنا تھا لیکن کیسے)‬
‫میں‪ :‬آپ اپنے بارے میں بتائیں نہ‪.‬‬
‫بینش‪ :‬میرے بارے میں تو سب آپ جانتے ہیں‪.‬‬
‫میں‪ :‬وہ سب تو ڈائریکٹر کے بارے جانتا ہوں‬
‫بینش‪ :‬تو ڈائریکٹر بھی تو میں ہی ہوں‬
‫میں‪ :‬میں تو انکے بارے جاننا چاہتا ہوں جو میرے سامنے اس وقت بیٹھی ہیں‪.‬‬
‫بینش‪ :‬تو کیا میں کوئی بدل گئی ہوں وہی تو ہوں‪.‬‬
‫میں‪ :‬بہت فرق ہے آفس میں تو سب آپ سے ڈرتے ہیں‬
‫بینش‪ :‬کیوں میں کوئی چڑیل ہوں جو سب ڈرتے ہیں(مصنوئی غصّے سے)‬
‫میں‪ :‬میں نے تو کہانیوں میں سنا ہے کے چڑیلیں تو انتہائی بدصورت ہوتی ہیں پھر اس حساب سے تو آپ چڑیل نی ہو‬
‫سکتیں‬
‫بینش‪ :‬بہت استاد بندے ہو آپ تعریف بھی کی تو گھما پھرا کے‬
‫میں (ہنستے ہوے ) میں نے تو جو سنا تھا وہ ہی کہا ہے‬
‫بینش‪ :‬اچھا اور بتائیں آپکی کوئی گرل فرینڈ ہے؟‬
‫میں‪ :‬آپکو کیا لگتا ہے؟‬
‫بینش مجھے تو بہت کچھ لگتا ہے آپ اپنا جواب بتاؤ‬
‫میں‪ :‬نی مس میری کوئی گرل فرینڈ نی ہے‬
‫بینش‪( :‬حیران ہوتے ہوے) مجھے بلکل بھی یقین نی آ رہا‬
‫میں‪ :‬وہ کیوں‬
‫بینش‪ :‬وہ اس لئے خود کو دیکھو کسی بھی لڑکی کے لئے تمہں اگنور کرنا نہ ممکن نی تو مشکل ضرور ہوگا‪.‬‬
‫میں‪ :‬جو میری طرف اتریکٹ ہوتی ہیں مجھے وہ پسند نی‬
‫بینش‪ :‬تو آپ کیا ڈھونڈھ رہے ہو‬
‫میں‪ :‬اس معاملے میں میرا ایک بڑا واضح اصول ہے‪ .‬میرے نزدیک وفاداری اور کردار بہت اہمیت رکھتے ہیں جس بندے‬
‫میں کردار نہ ہو میں اسے جانوروں سے بھی بد تر سمجھتا ہوں‪.‬‬
‫بینش‪ :‬یہ تو ہر لڑکا چاہتا ہے کے اسکی الئف میں آنے والی لڑکی ان چھوئی ہو‬
‫میں‪ :‬مس میں نے کردار اور واداری کہا ہے کنواری نی‪ .‬اور میں نے کبھی سپنے میں بھی ایسا نی سوچا کے میں خود تو بد‬
‫کردار ہو جاؤں اور لڑکی ان چھوئی مانگوں‪.‬بلکے مجھے تو ان لڑکوں سے سخت نفرت ہے جو کسی لڑکی کو اسکے‬
‫کنوارے پن سے جج کریں‪.‬‬
‫بینش‪ :‬اچھا اگر میں کنواری نہ ہوں تو آپ میرے بارے میں کیا سمجھینگے‪.‬‬
‫میں‪ :‬مس اول تو میری اتنی حیثیت نی ہے کے آپ کے بارے ایسا کچھ سوچوں اور اگر آپ اس سوال کا جواب جاننا چاہتی‬
‫ہیں تو آپ کو پہلے یہ بات سمجھنی ہوگی کے کردار کا مطلب کنوارپن سے نی ہوتا کبھی بھی‪.‬‬
‫بینش‪ :‬تو پھر کس سے ہوتا ہے لڑکیوں کو تو اسی بات سے پرکھا جاتا ہے‬
‫میں‪ :‬ارے مس میں وہ ہی بات تو کر رہا ہوں کے جو لوگ خود بدکردار ہوتے ہیں وہ ان باتوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں‬
‫بینش ‪ :‬آپ نی دیتے ‪.‬‬
‫میں ‪ :‬جو لوگ کسی ایک کے بن کے رہتے ہیں اسی کے وفادار ہوں میں ان لوگو کی بہت ریسپیکٹ کرتا ہوں‬
‫بینش‪ :‬مطلب ایک بندے کے ساتھ بندھے رہیں چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو‬
‫میں‪ :‬نی بلکل بھی نی غلط بندے کو چھوڑنے کا راستہ تو هللا نے بھی عطا کیا ہے‪ .‬میں یہاں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں‬
‫جو چیٹ کر رہے ہوتے ہیں کسی کے ہوتے ہوے دوسرے کو بطور سٹپنی استمال کر رہے ہوں‪.‬‬
‫بینش‪ :‬ہان یہ تو آپ بلکل سی کہ رہے ہے اکثر لڑکے ایسا ہی کرتے ہیں‪.‬‬
‫میں‪ :‬مس چیٹ تو کوئی بھی کر سکتا ہے اس میں جینڈر کو مخصوس نی کیا جا سکتا ‪.‬‬
‫بینش‪ :‬اچھا جی چلیں پہلے کھانا کھا لیں یہ بحث ہم پھر یہیں سے شرو کرینگے‬
‫ہم لوگ کھانا کھانے لگ گے‪ .‬کھانا کھانے کے بعد میٹھا کھانے کے بعد ہم لوگ ہوٹل سے باہر آے تو اسنے کہا چلو کہیں‬
‫لونگ ڈرائیو پہ چلتے ہیں میرا ابھی گھر جانے کا دل نی کر رہا‪ .‬ہم لوگ گاڑی میں مونال کی طرف نکل گۓ پہاڑی راستہ‬
‫بہت خوبصورت موسم دو جوان جسم کار میں فل آواز میں پاپ میوزک کیا خوبصورت سماں تھا‪.‬‬
‫سڑک کنارے گاڑی روک کر وہ نیچے آ گئی اور گاڑی کے بونٹ پی بیٹھ کے اسالم آباد جیسے خوبصورت شہر کا نظارہ‬
‫کرنے لگی اور مجھے اشارہ کیا اپنے ساتھ بیٹھنے کا میں جو پہلے ہی اس سے دور رہنے کی کوشش میں تھا کیوں کے میں‬
‫اسکی قربت میں خود پہ کنٹرول کھوتا جا رہا تھا مجھے آج بھی سمجھ نی اتی آخر بینش کے پاس ایسا کون سا جادو ہے کے‬
‫آج بھی میں اسکی قربت میں بہک جاتا ہوں‪.‬اسنکی خوبصورتی اسکی معصوم صورت اسکی غزالی آنکھیں مجھے اپنے آپ‬
‫میں رہنے ہی نی دیتیں اسکی آنکھوں کی مقناطیسی کشش مجھے اپنے ٹرانس مینلے کے اپنی ہر بات منوا لیتی ہے‪ .‬چارو نہ‬
‫چار میں اسکے پاس جا کے بیٹھ گیا‪ .‬ہم دونوں بونٹ پہ بیٹھے تھے ہماری رہنے سائیڈ سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹچ ہو رہی‬
‫تھیں‪ .‬اسکا تو پتا نی لیکن میرے سارے اصول اور تربیت اس لمحے کہیں کھو رہی تھیں اس لمحے میں خود کو کسی بھی‬
‫طرھ کنٹرول نہیں کر پا رہا تھا‪ .‬بیٹھے بیٹھے اسنے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنا سر میرے کندھے پہ رکھ دیا‪ .‬اور اپنی آنکھیں بینڈ‬
‫کرلیں‪ .‬میں اپنی جگہ شاک کی کیفیت میں اپنی بلکل ساکت بیٹھا رہا‪ .‬کے اگر زور سے سانس بھی لونگا تو یہ تسلسل ٹوٹ‬
‫جائیگا‪ .‬میرے ہاتھ پی اسکی گرفت سخت ہونے لگی اس لمحے مجھے وہ بلکل ایک معصوم بچی لگ رہی تھی جو بہت‬
‫اکیلی ہو جسکے پاس اسکا اپنا کوئی نہ ہو‪ .‬اسنے آنکھیں کھول کر میری آنکھوں میں دیکھا اور میرے چہرے کو اپنے ایک‬
‫ہاتھ سے پکڑ کر اپنے مونہ کی طرف کیا اور میری آنکھیں میں دیکھنے لگی ‪ .‬اسکی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے‬
‫جیسے کسی شرابی کی آنکھیں ہوتی ہیں‪ .‬میں تو کل سے ان آنکھوں کی گہرائیوں میں غوطے کھا رہا تھا اتنے گہرے بھنور‬
‫سے ن کلنا وہ بھی اتنے قریب آ کر کسی بڑے سے بڑے زاہد و عابد کے لئے بھی نا ممکن تھا تو مجھ جیسا گنہگار بھال‬
‫کیسے بچ پاتا‪ .‬مجھے کچھ پاتا نہی چال ہ‪،‬ارے ہونٹ آپس میں جڑ گۓ‪ .‬ہم لوگ ایک بے خودی کی کیفیت میں ایک دوسرے‬
‫کو چومتے جا رہے تھے اس لمحے نا میں اسکا مالزم تھا نا وہ میری باس بس ہم ایک لڑکی اور لڑکا تھے ہمارے جذبات‬
‫ہمیں جس طرف لے کے جا رہے تھے ہم اپنے جذباتوں کے دھارے میں بہتے جا رہے تھے‪ .‬اسنے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے‬
‫بائیں بوب پر رکھ دیا میرے ہاتھوں نے زندگی میں پہلی بار ایسی کسی چیز کو چھوا تھا‪ .‬یہ لڑکیوں کے جسم کا واحد حصّہ‬
‫ہوتا ہے جو بیک وقت نرم بھی ہوتا ہے اور ایک عجب طرھ کی سختی لئے بھی ہوتا ہے‪ .‬نرم اتنا کے شائد ہی اس دنا میں اتنا‬
‫نرم ریشم کبھی بنا ہو‬
‫اور سخت اتنا کے اپنی ایک ضرب سے کسی بھی پتھر دل مرد کے ٹکرے اڑا کے رکھ دے‪ .‬اس دن میں نے جانا کے‬
‫سیکس ایک خودکار عمل ہے اس سے فرق نہی پڑتا کے پہلے کبھی کیا ہے یا نہی یہ تو ایک فطرتی عمل ہے جیسے‬
‫ہمارے اندر اسکا سوفٹ ویر پہلے انسٹال ہو‪ .‬ہماری سانسیں دھونکنی کی مانند چل رہی تھی‪ .‬میرے ہاتھ مشینی انداز میں‬
‫اسکے بوبز کو پریس کر رہے تھے‪ .‬اور وہ بس میرے سر کے پچھلے حصّے پی پاگلوں کی ترھا انگلیاں چال رہی تھی‪.‬‬
‫اچانک کسی گاڑی کے ٹائروں کے چرچرانے کی آواز ائی تو ہم ہوش کی دنیا میں واپس آے‪.‬ہم ایک دوسرے سے نظرے‬
‫چراتے ہوے گاڑی میں بیٹھے اور وہاں سے واپس چل پڑے‪ .‬نیچے پنچنے تک گاڑی میں مکمل خاموشی طاری رہی میں‬
‫اپنی ج گہ شرمندہ تھا اور شائد وہ اپنی جگہ خود کو مالمت کر رہی تھی‪ .‬نیچے پونچھ کر مارگلہ روڈ ایک سنسان جگہ پی‬
‫گاڑی روک کے اپنا سر سٹیرنگ پی تک دیا ‪ .‬اور تھوڑی دیر ایسے ہی بیٹھی رہی پھر اسنے سر اٹھا کے میری طرف دیکھا‬
‫اور میں کسی مجرم کی طرھ اپنا سر جھکانے سزا کا م نتظر تھا میرے کان اسکے زہریلے الفاظ سننے کے لئے خود کو تیار‬
‫کر رہے تھے‪ .‬تبھی اسنے مجھے مخاطب کیا‬
‫بینش‪ :‬دانش شائد یہ موقع تو سی نہی ہے لیکن میں ایک راز سے پردہ اٹھانا چاہتی ہوں‬
‫(انتہائی حیرانی سے ہونکوں کی ترھا منہ اٹھا کے اسکی طرف دیکھنے لگا‪) .‬‬ ‫میں‪:‬‬
‫بینش‪ :‬پلیز میری بات پوری سننا اور کسی بات کو کاٹنا مت‬
‫میں نے بس سر کے اشارے سے ہان میں جواب دیا‬
‫بینش‪ :‬یہ بات آج سے آٹھ یا نو مہینے پہلے کی بات ہے جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا پتا ہے تم میں ایسی کوئی خاص‬
‫بات تھی کے میں تمہں ذھن سے نہی نکال سکی‪ .‬بہت کوشش کی ہر طرھ سے اپنی توجہ تم سے ہٹا کے کہیں اور لگانے کی‬
‫لیکن تم ایسے دماغ سے چپکے کے میں تمہں اپنے ذھن سے نہی نکال پائی‪ .‬تمہارے نزدیک تو ہماری پہلی بار تفصیلی‬
‫مالقات کل ہوئی تھی لیکن میں تو تمہاری ایک ایک چیز کے بارے آٹھ نو مہینوں سے جانتی ہوں میں جتنا تمہیں جاننے لگی‬
‫اتنا ہی تمہاری طرف کھچی چلی گئی‪ .‬تمہں دیکھنے کے لئے مجھے گودام جانا پڑتا تھا‪ .‬جو کے بہت مشکل تھا اور لوگو کی‬
‫نظر میں آنے کا خطرہ تھا‪ .‬لیکن میرا دل تمہں بار بار دیکھنے کو چاہتا تھا‪ .‬تمہارا کام بھی بہتر اور پرفیکٹ تھا اور تمہاری‬
‫کو آ لیفکی شن بھی تھی اور انہی دنوں ہمارے الجسٹک مینیجر بھی چھوڑ کے چلے گۓ تو میں نے اپنے ایچ آر سے که کے‬
‫اپنی فرم کے پڑھے لکھے اور قابل لوگوں کی فائلز منگوائی اور تمہں سلیکٹ کر کے آفس میں لے ائی‪ .‬پھر سیٹنگ چینج‬
‫کروا کے تمہں ‪ CCTV‬کیمرے کے سامنے بٹھایا‪ .‬میں تمہں دیکھنے کے لئے اتنی پاگل ہوں کے سارا سارا دن تمہں اپنے ‪IP‬‬
‫لنک کے ذریے دیکھتی ہوں‪ .‬یے میرا پاگل پن صرف مجھ تک محدود تھا لیکن کل جب سے تم میرے قریب ے ہو مجھ سے‬
‫کنٹرول نہی ہو رہا میں پاگل ہوئی جا رہی ہوں مجھے نہی پتا مجھے کیا ہو رہا ہے لیکن آج میں تمہارے سامنے یے ماننے پہ‬
‫مجبور ہوں کے مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے‪ .‬یہ سب میری پالننگ نی تھی میری محبت کی سچائی تھی جس میں قدرت‬
‫نے میری مدد کی‪ .‬اور تم میرے قریب آتے گۓ‪.‬‬

‫یہ سب سن کے میں تو ہکا بکا رہ گیا بھال کوئی لڑکی یوں اپنے منہ سے کسی لڑکے سے محبت کا اظہار بھی کر سکتی ہے‬
‫میں تو کل سے اسکی طرف کھنچا چال جا رہا تھا‪ .‬مجھے کیا خبر تھی کے یے تو اسکی آٹھ مہینوں کی محبت تھی جو مجھے‬
‫خود میں سمو رہی تھی‪ .‬میں جس بات کا جواب کل سے ڈھونڈھ رہا تھا وہ جواب میرے لئے اتنا حیران کن ہو گا میں نے تو‬
‫ایسا کبھی سوچا بھی نی تھا‪ .‬میں اتنا حیران بیٹھا تھا کے میرے مونہ سے الفاظ نی نکل رہے تھے‪.‬‬

‫میں بھی محبت میں زبردستی کی قائل نی ہوں‪ .‬تم اپنے فیصلے میں آزاد ہو‪ .‬میں تو شائد کبھی بھی تم تک اس راز کو نہ‬
‫پنچنے دیتی لیکن قدرت کی اپنی بھی ایک پالننگ ہوتی ہے‪.‬‬
‫میں نے اسکی طرف دیکھتے ہوے ایک گہرا سانس لیا اور اسے بوال‬
‫آپ میری حیثیت جانتی ہیں نہ میں آپکی کمپنی میں ایک مالزم ہوں اور آپ کمپنی کی اونر ہیں‪ .‬میں آپکی دولت کے اللچ میں‬
‫آ کے ہاں کر دوں تو‬
‫بینش‪ :‬میں جانتی ہوں میں ایک حقیقت پسند لڑکی ہوں اس لئے میں نے اتنے مہینوں سے تمہں پرکھا ہے اگر میں کوئی‬
‫جذباتی لڑکی ہوتی تو تمہں کسی بھی ترھا حاصل کر چکی ہوتی‪ .‬مجھے تمہاری پسند نہ پسند اور طبیعت تم کیا سوچتے ہو‬
‫کیسا مزاج ہے ان سب کا پتا ہے‪ .‬تمہارے اندر اللچ نی ہے تم ایک ایماندار بندے ہو اور جو ایماندار ہوتا ہے وہ اور تو کچھ‬
‫ہو سکتا ہے لیکن اللچی نی ہو سکتا‬
‫میرے دل نے اسکی جنونی محبت کے آگے ہتھیار ڈال دے تھے لیکن پھر بھی ہم ایک مشرقی معاشرے کا حصّہ ہیں یہ سب‬
‫اتنا آسان نی ہے‪ .‬اسکے انکل مجھے بیشک مالزم کے طور پے تو پسند کرتے ہیں لیکن ایک داماد کے طور پے شائد کبھی‬
‫قبول نہ کریں میں نے اس خدشے کا اظہار بینش سے کیا‬
‫بینش‪ :‬میرے انکل کے مجھ پے بہت احسان ہیں وہ ایک سخت گیر انسان ہیں لیکن مجھے انہوں نے بچپن سے ایک دوست‬
‫کی ترھا پاال ہے‪ .‬جب مجھے پتا چل گیا تھا کے میرا تمہارے بغیر رہنا ناگزیر ہے اور میرے دماغ نے تمہاری محبت کو‬
‫قبول کر لیا تو میں نے یہ بات انکل سے کی انہوں نے اسی وقت تم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن میں نے انھیں منع‬
‫کر دیا اور تمہں پہلے پرکھنے کا فیصلہ کیا‪ .‬انکل نے تو پہلے دن ہی تمہں پسند کر لیا تھا‬

‫مجھے پتا ہی نی تھا اور میں پچھلے سات آٹھ مہینوں سے ایک امتحان میں سے گزر رہا تھا‪ .‬میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا‬
‫تھا کے اسنے میرے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا اور میرے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا‪ .‬میں تو پہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال کے ہار تسلیم‬
‫کر چکا تھا‪ .‬ایسے میں میں انکار کیسے کر سکتا تھا‪ .‬اسنے میری آنکھوں میں اقرار پڑھ لیا تھا‪ .‬اس لمحے اسکی آنکھوں‬
‫میں نمی تھی‪ ،‬چہرے پے طمانیت اور ہونٹوں پہ ایک دل فریب مسکراہٹ‪ .‬آج اس کالی رات میں ایک انوکھی محبت کی‬
‫داستان شروع ہونے جا رہی تھی‪ .‬ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ رات اقرار کے ساتھ تھم گئی ہو اسنے گاڑی سٹارٹ کی اور‬
‫میرا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں تھامتے ہوے اپنے گھر کی طرف چل پڑی میں جو اسکے اقرار سے ہواؤں میں اڑ رہا تھا‬
‫مجھے کچھ ہوش نی تھا اس پل میں خود میں تھا ہی کب مجھے نی پتا چال کب اسکا گھر آیا کب چوکیدار نے دروازہ کھوال‬
‫اور کب کار پورچ میں پنچی‪ .‬نا جانے ہماری آنکھوں کب سے ایک دوسرے کی باتیں سمجھنی شروع کر دی تھیں اسکی‬
‫آنکھوں نے کہا‬
‫دانش مجھے اپنی بانہوں میں اٹھا کے میرے کمرے میں لے جاؤ نا‬
‫میری آنکھوں نے جواب دیا‬
‫میری جان آپکا حکم سر آنکھوں پے‬
‫میں نے کار سے اتر کر اسکی طرف کا دروازہ کھوال اور اسکو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا‪ .‬میں جم میں ‪ 145‬کے جی تک کی‬
‫ڈیڈ لفٹ کرتا ہوں تو اسکا پھول جیسا وزن مجھے کیا کہ سکتا تھا بھال‪.‬‬
‫اسنے‬
‫اسنے اپنا سر میرے کندھے پے رکھا اور اپنی بانہیں میرے گلے میں ڈال دی میں کس روبوٹ کی طرھ بس اسکا ہر حکم بجا‬
‫ال رہا تھا‪ .‬اس وقت میری اپنی کوئی شخصیت نی تھی میرے جسم کے اندر بھی وہ ہی تھی‪ .‬اسکے روم میں پنہچ کے میں‬
‫نے اسے آرام سے بیڈ پے لیٹا دیا‪.‬اسنے میرا ہاتھ پکڑا اور خود پے کھینچ لیا اور میں اسکے اوپر گرتا چال گیا جیسے میں‬
‫کوئی موم کا گڈا ہوں جسے وہ جیسے چاہے جس طرف چاہے موڑ دے ‪.‬اسنے مجھے بہت آسانی سے نیچے پلٹ دیا اور‬
‫خود میرے پیٹ پی دونو طرف گٹنے ٹیک کے بیٹھ گئی اور کسی جنونی کی طرح میرے چہرے پی بوسوں کی بوچھار کر‬
‫دی‪ .‬جیسے کسی صدیوں کے بھوکے کے آگے اچانک انواع و اقسام کے کھانے آ جائیں اور اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہا سے‬
‫شروع کرے ‪ .‬میں بھی مقدور بھر اسکا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسکے جنوں کا مقابلہ کرنا نا ممکن لگ رہا‬
‫تھا‪ .‬وہ کسی جنگلی بلی کی طرح مجھ پی حملہ آور تھی‪ .‬میں اسکی کمر پی ہاتھ پھر رہا تھا‪ .‬اسکے جذباتوں کے تند و تیز‬
‫ریلے مجھے کسی حقیر تنکے کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے‪ .‬اور میں بھی ان لہروں کی طاقت کے زیر اثر بہتا چال جا‬
‫رہا تھا ‪ .‬اسن ے میری ٹی شرٹ کو اوپر کیا تو میں نے بھی اسکی مدد کرتے ہوے تھوڑا سا اوپر ہو کے شرٹ اتار دی اب‬
‫اسکے جنون کا رخ میری چھاتی کی طرف ہو گیا اسکے ہر ہر بوسے کے ساتھ میں مزے کے ایک سمندر میں غرق ہوتا جا‬
‫رہا تھا‪ .‬میں مزے کی نئی نئی دنیاؤں سے روشناس ہو رہا تھا‪ .‬جیس ے جیسے یہ کھل آگے بڑھتا جا رہا تھا‪ .‬اسکے جنون میں‬
‫ٹھہراؤ آتا جا رہا تھا‪ .‬جیسے کوئی مشین چلتے چلتے ایک ردھم پکڑ لیتی ہے‪ .‬میں نے بلکل کسی مکانیکی انداز میں اسکی‬
‫شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کئے اسنے مسکراتے ہوے اپنی شرٹ خود ہی اتار دی‪ .‬اسکے دودھیا جسم پہ بلیک کلر کی‬
‫برا ایسی لگ رہی تھی جیسے نظر سے بچنے کے لئے کاال ٹیکا لگا ہوا ہو‪ .‬میں نے برا کے اوپر سے ہی اسکے بوبز پریس‬
‫کرنے شروع کر دے جس سے اسکو شائد مزہ آنے لگا تھا کیوں کے مجھے اسکی سسکیاں صاف سنائی دینے لگی تھیں‪ .‬اب‬
‫میری بری تھی میں نے اسے پلٹ کر اپنے نیچے کر لیا اور اسکے چہرے کو چومنے لگا ‪ .‬اور پھر چومتے چومتے اسکی‬
‫کان کی لو کو اپنے منہ میں لے لیا جس سے اسکو اور مزہ آنے لگا‪ .‬میں جیسے جیسے نیچے اتا جا رہا تھا وہ مدہوش ہوتی‬
‫جا رہی تھی میں نے اسکی برا اوپر کر کے بوبز کو بھر نکال لیا‪ .‬میرا یقین کریں دوستو میں نے بہت پورن اسٹارز کے بوبز‬
‫دیکھ ہیں لیکن جیسے بوبز میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں ویسے تو میں نے کبھی خوب میں بھی نہیں سوچے ہونگے ‪ .‬میں‬
‫انکی خوبصورتی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں‪ .‬چاندی جیسے چمکدار گول مٹول کسی شاندار عمارت کے گمبد‬
‫کی ترھا اپنی جگا تنے ہوے ان پی الئٹ پنک کلر کے چھوٹے چھوٹے کسی بیش قیمت موتی جیسے نپل‪ .‬مجھے مدہوش‬
‫کرنے کے لئے کافی تھے اسنے آنکھیں کھول کے مجھے دیکھا شائد میرا سکوت اسے بھی محسوس ہوا تھا اسنے اپنی‬
‫آنکھوں سے میری انکھو کو پیغام دیا کے بس دیکھتے ہی رہوگے یا ان عظیم و شان بیش قیمت خزانے کو خراج تحسین پیش‬
‫کروگے‪ .‬میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے اسکے دائیں بوب کو اپنے منہ میں لے لیا اور جیسے ہی میری زبان نے‬
‫اسکے نپل کو ٹچ کیا تو اسکے منہ سے ایک گہرا سانس نکال‪ .‬اسکے دونو بوبز کو اچھے طرح چوسنے کے بعد جب میری‬
‫زبان نے نیچے کا سفر شروع کیا تو وہ بہت بچیں ہونے لگی میری زبان اسکی ناف میں ٹچ ہوئی تو اس کی برداشت جواب‬
‫دینے لگی اسنے میرا منہ پکڑ کر اپنی طرف کیا اور اسکی آنکھوں نے میری آنکھوں کو منت بھری نظروں سے دیکھا‪ .‬میں‬
‫نے اسکی آنکھوں کا حکم مانتے ہوے اسکی پینٹ کا بٹن کھوال اور اسکو نیچے کرنے لگا اسنے اپنی کمر اٹھا کر اپنی پینٹ‬
‫گانڈ سے نیچے اتار دی جس سے وہ آسانی سے اتار گئی اور میں نے اسکی پینٹ کو اسکی ٹانگوں سے نکال کر سائیڈ پی‬
‫رکھ دیا‪ .‬اسکی دودھیا رانیں انرجی سیور کی روشنی میں چمک رہی تھیں اسنے اپنی ٹانگیں کراس کر کے اپنی پھدی کو‬
‫چھپایا ہوا تھا میں نے اسکی ٹانگوں کو پکڑ کر چومنا شروع کیا تو وہ سر ادھر ادھر پٹخنے لگی‪ .‬اور اکھڑ اپنی ٹانگیں‬
‫کھول دن یہ اسکی طرف سے ہار ماننے کا اشارہ تھا میں نے بھی اپنی پینٹ اتار دی اور اندر ویر بھی ساتھ ہی اتار دیا میرا‬
‫لن فل تن کے کھڑا تھا اور اس میں سے پر ی کیوم کے قطرے نکال رہے تھے جو کے یہ ظاہر کر رہے تھے کے میں مزے‬
‫کے ساتویں آسمان پی ہوں‪ .‬بینش نے ہاتھ بڑھا کے میرے لن کو اپنے نرم ہاتھوں میں پکڑا تو میرا لن جھٹکے لینے لگا میں‬
‫اپنے لن پی اچھی طرح تھوک لگایا اور اسکی ٹانگیں پکڑ کے گٹنے موڑ کے پیٹ سے لگا دے جنہیں اسنے اپنے ہاتھوں میں‬
‫پکڑ لیا میں نے لن اسکی پھدی کے سرخ پی سیٹ کیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھا وہ بھی میری سری کاروائی دیکھ رہی‬
‫تھی‪ .‬میری آنکھوں نے اسکی آنکھوں میں اجازت طلب نظروں سے دیکھا تو اسنے اپنی آنکھیں آہستہ سے بینڈ کرتے ہوے‬
‫اپنا جواب ہاں میں دی ا تو میں نے بھی آرام سے اپنے لن کو اسکی پھدی میں دبایا تو لن پھسل کر نیچے کی طرف نکل گیا میں‬
‫نے دوبارہ سیٹ کیا اور تھوڑا زور سے دبایا تو میرے لن کی کیپ اندر چلی گئی ‪ .‬جیسے ہی لن اندر گیا بینش کے منہ سے‬
‫ایک درد بھری آہ نکلی‪ .‬میں وہیں رک گیا‪ .‬اور آگے ہو کے اسکی نم آنکھوں کو چوم لیا تھوڑی در رکنے سے وہ کافی‬
‫ریلکس ہو گئی تو میں نے لن کو تھوڑا سا آگے کی طرف دبایا تو آگے پردہ بکارت نے رکاوٹ دہلی ہوئی تھی‪ .‬میں نے ذرا‬
‫سا لن کو پیچھے کھینچ کے ایک زور دار جھٹکا مرا تو لن اسکی پھدی کو چیرتا ہوا اپنی منزل تک پنہچ گیا‪ .‬اور میں اسکے‬
‫اوپر لیٹتاگیا اسے بہت تکلیف ہوئی جسکا ثبوت اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو تھے میں نے اپنے نچلے دھڑ کو ساکت رکھتے‬
‫ھوۓ اسکے چہرے کو چومنا شروع کر دیا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکے دونو بوبز پکڑ کر انتہائی پیار سے سہالنے‬
‫لگ گیا کافی دیر میں اپنی ج گا روکا رہا‪ .‬جب تک کے اسنے خود مجھے اشارہ نئی کر دیا‪ .‬میں نے نہایت آرام سے آگے‬
‫پیچھے کرنا شروع کر دیا کچھ دیر بعد اسکی پھدی نے میرے لن کو قبول کر لیا اور اسے راستہ دے دیا اب میرا لن آسانی‬
‫سے اور روانی کے ساتھ آگے پیچھے ہونا شروع ہو گیا‪ .‬تو میں نے بھی تھوڑی سپیڈ بڑھا دی‪ .‬اسکے منہ سے گہری‬
‫سسکیاں نکل رہی تھیں اسکی آنکھیں اپر چڑھی ہوئی تھے اور سانسیں ایسے چل رہی تھیں جیسے بہت ہی تیز رفتار آندھی‬
‫چل رہی ہو‪ .‬وہ واقعی آندھی ہی تھی اتنی تیز آندھی کے ہم دونو کو اڑا کر مزے کے نۓ نۓ جہانوں کی سیر کروا رہی‬
‫تھی‪ .‬لیکن اسکے ساتھ یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے‪ .‬ہر طوفان نے تھمنا ہی ہوتا ہے ہر آندھی نے بھی رکنا ہوتا ہے‪ .‬ہماری‬
‫بھی اس دیوانگی کی مسافت کی آخر منزل آ گئی اور میں اور وہ دونو ایک ساتھ ہی جھڑ گۓ‪ .‬جونہی ہمارا پانی نکال میں‬
‫اور وہ دونو ہی بے سد ہو کے لیٹ گۓ‬

‫کافی دی ر بعد وہ اٹھی اور اسنے میرے چہرہ چوم لیا جب کے میری آنکھیں بند تھیں اور میرا ضمیر مجھے اپنے بے رحم‬
‫شکنجے میں جکڑ رہا تھا اور میں ندامت کے سمندر میں غرق ہوتا جا رہا تھا‪ .‬میرا ایک ایک اصول مجھے لعن طعن کرنے‬
‫لگے اسنے جب میرے چہرے کو چوما میں نے ٹیب بھی آنکھیں نا کھولیں تو اسنے میرے کان کے پاس آ کے مجھے کہا‬

‫بینش‪ :‬تمہں خود کو مجرم سمجھنے کی ضرورت نئی ہے بے شک سے ہم نے ایک گناہ کیا ہے لیکن تم نے میرے ساتھ‬
‫کوئی زبردستی نہیں کی بلکے اپنی ہونی والی بیوی کے ساتھ کیا ہے‪ .‬کل ہی ہمارا نکاح ہو جائیگا‪.‬‬
‫میں نے اسکی طرف دیکھا تو مجھے بھی کچھ تسلی ہوئی اس واقعہ کے بعد اب ہم میاں بیوی ہیں ہم دونوں ایک دوسرے سے‬
‫بہت محبت کرتے ہیں ہمارا ایک بہت پیارا سا بیٹا بھی ہے‬
‫آخر میں اپ لوگوں کو بتاتا چلوں کے جو لوگ آوارہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں‪ .‬ہزار جتن کرتے ہیں‬
‫یا پھر اپنی پیاس بجھانے کے لئے کوئی بھی غلط ذریعہ استمال کرتے ہیں انکے ہاتھ کچھ بھی نئی آتا‪ .‬میری انکو ایک‬
‫نصیحت ہے دوستو یہ جو سیکس کی آگ ہوتی ہے یہ بجھانے سے کبھی بھی نہیں بجھتی اسے جتنا بجھانے کی کوشش‬
‫کروگے اتنا ہی یہ بھڑکے گی‪.‬‬
‫پھر ملینگے ایک نئی کہانی کے ساتھ تب تک کے لئے اپنے دوست شہزی کو دیں اجازت باۓ‬

You might also like