Professional Documents
Culture Documents
لیپ ٹاپ پہ کام کرتے ہوے میرے موبائل کی بیل بجی میں نے موبائل کی سکرین پی نظر ڈالی تو اسپے انجان نمبر نظر آ رہا
تھا .میں نے توجہ نہی دی .اور موبائل سائلنٹ کر کے رکھ دیا .کیوں کے آج کل مارکیٹنگ کمپنیوں والے ایویں پروموشن ک
لئے کالز کرتے رہتے ہیں اور میں اس وقت بہت ضروری کام کر رہا تھا .اور ایک ایک منٹ بہت قیمتی تھا میرے لئے .اسی
اثنا میں موبائل بیل دوبارہ بجی میں نے تنگ آتے ہوے یہ سوچ کے کال پک کر لی کے جو بھی ہوا اچھی خاطر داری کرونگا.
میں نے کال پک کرتے ہوے موبائل کان سے لگایا تو کوئی لڑکی تھی
میں( :میں نے اسکی آواز سنتے ساتھ ہی اسے کہا) دیکھئے مس آپ جس بھی کمپنی سے ہیں .کم از کم آپکو اتنی تمیز تو ہونی
چائیےکے اگر ایک بندا کال کاٹ رہا ہے تو آپکی بات میں انٹرسٹڈ نہی ہے.
یہ کہ کے میں نے کال کاٹ دی اور اپنے کام میں لگ گیا تھوڑی دیربعد میرے موبائل کی مسیج ٹون بجی تو میں نے موبائل
اٹھا کے میسج پڑھا تو میرے ٹٹے
شاٹ ہو گۓ کیوں کے میسج مجھے میری ڈائریکٹر کی طرف سے آیا تھا .جس نمبر کو میں مارکیٹنگ کمپنی والو کا سمجھ رہا
تھا وہ ڈائریکٹر نے کیا تھا میں تو گھبرا گیا تھا کیوں کے میں اس کمپنی میں اپنے ماموں کی سفارش سے اپاینٹ ہوا تھا میرے
ماموں ہمارے کمپنی اونر کے ڈرائیور ہیں .میں نے اپنی قابلیت کے بلبوتے پہ یہ سیٹ حاصل کی تھی جب میں اس کمپنی میں
بطور لوڈنگ سپروائزر اپاینٹ ہوا تھا اور ایک سال کی کڑی محنت کے بعد مجھے پروموشن مال تھا .خیر مجھے گھبراہٹ تو
بہت ہوئی کیوں کے ڈائریکٹر ایک بہت ہی بد دماغ لڑکی ہے .ذرا ذرا سی بات پہ اسٹاف کو فارغ کر دیتی ہے اسکا نام بینش
ہے اور وہ نہ صرف میرے آفس میں ڈائریکٹرہے بلکے وہ ہمارے کمپنی اونر کی بھتیجی بھی ہے.اسکے والدین اسکے بچپن
میں ہی ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں فوت ہو گۓ تھے .تب سے اسکو اسکے چچا نے بڑے نازوں سے پاال ہے یہی وجہ ہے کے وہ
بہت ضدی اور خود سر ہے
میں ایک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی میں الجسٹک مینیجر ہوں میرا نام دانش ہے میری باقی کی فیملی تو گاؤں میں رہتی ہے
اور من اسالم آباد میں کام کرتا ہوں اور فلیٹ میں دوست کے ساتھ شیئرنگ پی رہتا ہوں .ویسے تو میرے ماموں کا گھر بھی ہے
لیکن انکا گھر اتنا چھوٹا ہے کے بمشکل انکی فیملی ہی رہتی اور ویسے بھی مجھے آزاد رہنا بہت پسند ہ جب چاہا جہاں چاہا
نکل گۓ .میں ایک پانچ فٹ آٹھ انچ قد کا مسکولر باڈی کے ساتھ صاف گورے رنگ کا ہینڈ سم لڑکا ہوں میں شروع سے ہی
اپنی فیملی کی تربیت کی وجہ سے اپنی لمٹس اور رولز کے مطابق زندگی گزرتا آ رہا ہوں لڑکیاں مجھے بھی پر کشش لگتی
ہیں لیکن میں اپنی رولز کی وجہ سے ہمیشہ لمٹس میں رہتا ہوں ہینڈ سم ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی اور اب آفس میں کم
کرنے والی کتنی لڑکیوں نے مجھے کئی بار رجھانے کی کوشش کی لیکن میں جانتے بوجھتے انھیں اگنور کردیا کرتا ہوں .دل
تو میرا بھی انھیں پٹانے کو کرتا ہے لیکن پتا نہی کیوں اگلے ہی لمحے ذھن مجھے ڈر لگتا تھا کے کہیں میری انسللٹ نہ ہو
جاۓ .اور اپنی عزت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے .یہی وجہ ہے کے میں اب تک کنوارہ ہوں نہ کوئی گرل فرینڈ
بنی اور نہ ہی کبھی کسی کے ساتھ سیکس کیا ہاں نوجوان ہوں اور مرد ہوں میرے پاس بھی لن ہے اور میرے اندر بھی گرمی
ہے لیکن مجھے اپنے اوپر کافی کنٹرول ہے .میں آج کل کے لڑکوں کی طرح نہی ہوں کے کسی لڑکی کو دیکھ کے آپے سے
باہر ہو جاؤں.
بینش :ویری امپر یسو مسٹر دانش آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے میں آپکے کام سے بہت مطمئن ہو گئی ہوں
بینش :کم اون مسٹر دانش میں بہت الرجک ہوں ان ٹیپپیکل رسمی باتوں سے
میں :سوری مس لیکن انسانی زندگی میں ان رسمی باتوں کی اہمیت سے انکار نہی کیا جا سکتا
بینش ( :حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوے جیسے اسے مجھ سے ایسی بات کی امید نہ ہو .کیوں کے ان اونر ٹائپ
لوگوں کو بس جی حضوری کرنے والے ہی پس ند ہوتے ہیں ایسے میں کوئی انھیں اتنا و ا ضح جواب دے تو انھیں حیرانی تو
ہوگی ) آپ بحث کے موڈ میں ہیں.
میں :نہی نہی مس میرا ایسا کوئی ارادہ نہی ہ یہ تو پتا نہی کیسے میرے مونھ سے نکل گیا.
بینش :آپ نے مونھ میں ڈاال ہی کیوں تھا(یہ بات اسنے بہت آہستہ سے کی تھی مجھے کچھواضح نہی سنائی دیا اب پتا نہی
اسنے یہ کسی حساب میں کہا تھا)
میں :جی مس آپ نے کچھ کہا.
بینش :نہی تھنک یو آپ جا سکتے ہیں کیپ اٹ اپ آپ بہت اچھا کام کر رھےہیں باقی آپ تیار رہیں آپکو ہی شام کی میٹنگ
میں پرزنٹشن دینی ہے
میں :سوری مس لیکن میں کیسے پریزینٹ کرونگا مجھ سے کتنے سینئر لوگ وہاں ہونگے.
بینش :کیوں آپ پرزنٹ کر نہی سکتے یا کوئی اور مثال ہے
میں :نہی مس مجھے موئی پرابلم نہی ہے پریزینٹ کرنے میں لیکن شائد میرے بڑے آفیسرز کو میرا پریزینٹ کرنا پسند نہ
اے (کیوں کے میں بہت زیادہ سٹریٹ فارورڈ ہوں اس لئے کافی سارے لوگ مجھ سے دور ہی رہتے ہیں اور جو لوگ خود
بھی سچے اور ایماندار ہیں وہ میرے ساتھ بیٹھنا اور بات کرنا بہت پسند کرتے ہیں مجھے بھی ایسے لوگوں کے ساتھ وقت
گزرنا اچھا لگتا ہے )
بینش :کیوں باقی لوگو کو کیا پرابلم ہو سکتی ہے یہ پروجیکٹ آپنے اکیلے بنایا ہے اور جو بناتا ہے وہ کسی بھی دوسرے
بندے سے زیادہ بہتر طریقے سے اکسپلین کر سکتا ہے .باقی یہ میرا آرڈر ہے اگر کسی کو اعتراض ہوا بھی تو مجھے کوئی
فرق نہی پڑتا
میں :اوکے مس جیسے آپ کہیں.
میں اسکے آفس سے نکل کر اپنے ڈیسک پہ بیٹھ کے باقی کا کام کمپلیٹ کرنے لگا .اتنے میں مجھے جمیل صاحب نے
اپنے آفس میں بالوا بھیجا میں نے کام کو فائنل ٹچ دیا اور جی ایم کے آفس کی طرف چل پڑا ڈور نوک کر کے اسکے آفس
میں انٹر ہوا تو آگے میرا سب سے بڑا مخالف بیٹھا ہوا تھا .ہارون جو کے ہماری کمپنی میں ایڈمن افسر ہے میرے ساتھ ایک
دو دفع اسکی مونھ ماری ہو چکی تھی انتہائی بد تمیز بندہ ہے کام ٹکے کا نہی آتا ہمیشہ بڑوں کے اٹھاتا رہتا ہے مجھے تو
لگا کے کوئی شکایت لے آئیگا ہوگا میرے خالف (میں اپنا کام بہت محنت اور یکسوئی سے کرتا ہوں اور ڈسپلن بھی مینتین
رکھتا ہوں اس لئے اسے میرے خال ف کچھ ملتا نہی ہے نہی تو میں اب تک کب کا اس کمپنی سے نکال دیا گیا ہوتا) میں نے
ہارون کو نظر انداز کرتے ہوے جی ایم کو سالم کیا
جی ایم :یار دانش وہ شام کی میٹنگ میں جو پروجیکٹ پری زینٹ کرنا ہے آپ اس پروجیکٹ کے پوائنٹس ہارون کو کلیر
کروا دیں تا کہ یہ اپنی تیاری کر سکیں .یہ اپنے پارٹ کے ساتھ ساتھ اپکا پارٹ بھی پریزینٹ کر دن گے.
میں :سر پروجیکٹ تو ریڈی ہے لیکن مس بینش نے کہا ہے کے اپنا پروجیکٹ میں نے خود پریزینٹ کرنا ہے کیوں کے
کالئنٹ کے لئے سب سے امپورٹنٹ پارٹ الجسٹک کا ہے باقی جیسے آپکا آرڈر.
جی ایم :آپ انکو دے دن پروجیکٹ .بینش کو میں سمجھا دونگا
میں :اوکے سر
میں نے ہارون کی طرف دیکھا تو وہ بری طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا میں نے دل میں کہا بچے جب پریزینٹ
کریگا تب پتا چلیگا میں اپنی ٹیبل پہ آیا تو ہارون بھی میرے پیچھے پیچھے آ گیا میں اسے کہا
میں :ہاں جی کیسے لینگے پروجیکٹ
ہارون :کیا مطلب ہے تمہارا ؟
میں :بڑے بد تمیز ہو یار میں تمہیں آپ کہہ کے مخاطب کر رہا ہوں اور تم تو تڑاک کر رہا ہے
ہارون :تم زیادہ تیز نہ بنو اور چپ کر کے پروجیکٹ کی پریزنٹشن دو
میں :ٹھیک ہے لے جاؤ لیکن سمجھ تو لو جو جو پوائنٹس وضاحت طلب ہیں
ہارون :تم خود کو زیادہ افالطون نہ سمجھا کرو کم از کم تم سے بہتر ہی سمجھا سکونگا
میں :میں نے تمہں ای میل کر دی ہے جا کے دیکھ لو اور کچھ نہ سمجھ اے تو آ کے پوچھ لینا میں سمجھا دونگا
ہارون چپ چاپ مڑ کے اپنے آفس چال گیا مجھے پتا تھا وہ سائکو ہے میں ایسی بات کرونگا تو وہ ضرور مجھ سے
الجھ جائیگا اور بنا کوئی پواینٹ سمجھے چال جائیگا اور ہوا بھی وہی اب مجھے شام کی میٹنگ کا انتظار تھا کیوں کے میں
نے جو جو پوائنٹس بنانے تھے وہ بہت مارکیٹ ریسرچ اور جس کمپنی سے ایگریمنٹہونا تھا کی تمام ضروریات کو مد نظر
رکھ کے تیار کیا تھا جو نہ صرف ہماری کمپنی کے لئے بلکے اس کمپنی کے لئے بھی بہت فائدہ مند ہوگا لیکن اسکو
پریزینٹ کرنے کا جو طر یقہ میں نے سوچا تھا اس سے مجھے پوری امید تھی کے وہ کمپنی یقینن ہمارے ساتھ لونگ ٹرم
ایگریمنٹ کریگی لیکن ہارون نے جی ایم صاحب کے اٹھا اٹھا کے ان سے پرمیشن لے لی تھی صرف مجھے نیچا دکھانے
کے لئے اب مجھے انتظار تھا کے بینش کیا کہتی ہے لیکن یہ سچ تھا کے میں کوئی اتنا اوٹ سٹینڈنگ بھی نہی تھا کے وہ
میرے لئے جی ایم کو بولےگی( کیوں کے ہر فرم میں اوپر کے لیول پی ایک دوسرے کے آرڈرز کو بری اہمیت دی جاتی
ہے) خیر ویسے بھی ہماری کمپنی ایک بڑی اور مشہور کمپنی ہے اتنی بڑی کمپنی کو اتنی آسانی سے کوئی نہ نہی کہ سکتا
زیادہ س ے زیادہ وہ الجسٹکس پرسنٹشن دوبارہ مانگ لیتے (یہ تھی تو میری بہت بڑی بدنامی کے اگر الجسٹکس کی
پرزنتشن دوبارہ مانگتے تو الزمی بات تھی کے میں نے پریزنٹشن سہی نہی بنائی) لیکن میرے لئے اطمینان کی بات یہ تھی
کے بینش میری پریزنٹشن دیکھ چکی تھی
میں نے گھڑی پہ ٹائم دیکھا ابھی پندرہ منٹ باقی تھے آفس کی چھٹی ہونے میں .لیکن میں ابھی جانا نی چاہتا تھا کسی بھی
وقت بالوا آ سکتا تھا .میں نے لیپ ٹاپ پی ایک مووی
ڈونلوڈنگ پی لگا دی میرا ٹائم پاس یہی ہوتا ہے جب کام نہ ہو تو میں مووی دیکھ لیتا ہوں .اور کبھی کبھی جب موڈ تھوڑا وہ
واال ہو تو پورن بھی دیکھ لیتا ہوں اور سٹوریز بھی پڑھتا ہوں لیکن مجھے انسیسٹ سٹوریس سخت نہ پسند ہیں اسکی وجہ یہ
ہے کے انسان اور جانور میں فرق ہونا چائے هللا نے جب ایک پوری دنیا لڑکیوں سے بھر دی ہے تو ضروری ہے کے اپنی
ہی ماں بہن پی بری نظر رکھی جانے ایسا تو جانوروں میں بھی نی ہوتا ٹھیک ہے باہر بھی کسی لڑکی کے ساتھ سیکس کرنا
غلط ہے لیکن کم از کم انسیسٹ سے تو بہت کم ہے نہ یہ جو لوگ آج کل انسیسٹ کی سٹوریز لکھ لکھ کے آج کل کے
نوجوانوں کے ذھن خراب کر رہے ہیں میں گارنٹی دیتا ہوں وہ یا تو خود کسی کوٹھے کی پیداوار ہیں یا پھر کسی گھٹیا
خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کے کوئی بھی خاندانی آدمی کسی غیر لڑکی کو بھی سیکس کے لئے سوچتے ہوے ہزار
بار سوچتا ہے کجا یہ کے اپنی ہی ماں بہن کو ایسی گندی نظر سے دیکھ .ایک بہن کے لئے اسکا بھائی اس دنیا میں سب سے
بڑا محافظ ہوت ا ہے جب گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھاے تو پھر تو سب کو کھلی چھوٹ ہونی چائے پھر آپ کیسے کسی کو غلط
کہ سکتے اس تارہا تو جنسی چھوٹ ہونی چائے پورا معاشرہ ہی جنسی جانوروں سے بھر جائیگا .سیکس جسم کی ضرورت
ہی جس طرھ پیٹ کو بھوک لگتی ہے تو ہم اچھا کھانا کھاتے ہیں جو بھی سامنے آ جانے وہ نئی کھانا شروع کردیتے بلکے
اچھا برا سعی پکا ہوا حالل دیکھ کے کھاتے ہیں تو پھر سیکس میں کیسے ہمارا کوئی میر نئی ہوتا ہر لڑکی کو دیکھ رالیں
کیوں تپکانا شروع کر دیتے ہیں .خیر ہر کسی کا اپنا پواینٹ آف ویو ہوتا ہے یہ میرا پواینٹ ہے میری ڈکشنری میں زبردستی
کا کوئی لفظ ہی نئی ہے کیوں کے سیکس ایک خالص کیفیت ہوتی ہے جب دونو فریق راضی ہوں اور خود سپردگی کی
کیفیت طاری ہو دونو کے دماغ ایک دوسرے کا تسلط تسلیم کر رہے ہوں ذھن میں کسی قسم کا کوئی اور خیال نہ ہو بس ایک
ہی جذبہ پوری طرھ سے حاوی ہو کے ا پنے پارٹنر کو مکمل مزہ دینا ہے اسی طرھ جس لڑکی کے ساتھ آپ کر رہے ہیں
اسکے ذھن میں آپکا ایک کردار کا قد اتنا اونچا بنا حہوا ہونا چائے کے وہ ہر طرھ سے مطمئن ہو کے اپ کبھی بھی کسی
بھی طرھ سے اسے دھوکہ نئی دے سکتے جب ایک لڑکی کسی کو اپنا جسم پیش کرتی ہے تو وہ اپنی اپنے خاندان کی عزت
وقار اپنی جان مان سب کچھ لڑکے کے حوالے کر دیتی ہے پھر جو لڑکا اس لڑکی کا غلط استمال کرتا ہے اور اسے مجبور
کرتا ہے یقینا وہ لڑکا مرد کہالنے کے الئق نئی ہوتا .اور جو بندا رازداری جیسی نعمت سے محروم ہوتا ہے وہ کسی بھی
طرھ اعتبارکے قاب ل نئی ہے میری آج کل کی لڑکیوں سے گزارش ہے کے پلیز کسی لڑکے کو سوچنے سے پہلے اسے ایک
بار ضرور آزما لیں جو لڑکا بھرے بازار میں آپکو نمبر پکڑا سکتا ہے تو یقین کریں آپ پہلی نئی ہیں جسکو اسنے نمبر دیا
ہوگا پھر آپ ایسے لڑکے پی کیسے اعتبار کر سکتی ہیں .جو لڑکے سوشل میڈیا پہ آپکے ساتھ قسمیں وعدے کر رہے ہیں اور
آپ سے آپکی ننگی تصویریں مانگ رہے ہیں بھال کیا گارنٹی ہے کے انھوں نے کسی اور کو نئی دکھانی انٹرنیٹ بھرا پڑا
ہے پورن سٹار لڑکیوں کی تصویروں سے اور وہ بھی بہت کلیر تصویروں سے جو تصویریں لڑکیاں بھیجتی ہیں ان سے
کہیں زیادہ صاف ور اچھے طریقے کھینچی ہوئی تصویریں ہوتی ہیں یہ بس لڑکیوں اپنا پابند کرنے کا ایک بہت ہی عام سا
طریقہ ہے اور لڑکیاں ہمیشہ اس طریقے سے بیوقوف بنتی آئ ہیں اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو مجھے ای میل کر کے میری
غلط فہمی ضرور دور کیجیےگا میں آپکا بہت احسان مند ہونگا.
shezi.malik.stories@gmail.com
میرا مقصد آپکو چند منٹ کا مزہ دینا نئی ہے بلکے میں کوشش کرتا ہوں کے میری کہانیاں ایک تو آپکو حقیقت کے قریب
لگیں دوسرا آپکی کچھ نہ کچھ اصالح ہو سکے.
میں اتنا ڈوبا ہوا تھا اپنے خیالوں میں کے مجھے پتا ہی نئی چال بینش کب سے میرے ٹیبل کے پاس کھڑی تھی یہاں تک کے
اسے ٹیبل پہ نوک کرنی پڑی .میں نے ہڑ بڑا کے اپر دیکھا تو وہ ہنسنے لگی اور میں نے اسے پہلی بار ہنستے ہوے دیکھا
اسکے خوبصورت سفید دانت ہونٹوں سے جھانک رہے تھے کھلے بال ہلکے ہلکے کرلی .وائٹ کلر کی ٹائٹ ٹی شرٹ کے
اوپر بلیک کوٹ پہنے نیچے بلیک فارمل پنٹ پہنے مجھے وہ پہلی بار بہت حسین لگی لیکن یہ سب بس چند سیکنڈ میں ہی
میری نظر سے گزرا.
بینش :دانش صاحب کہاں کھوے ہوے ہیں دن میں سپنے دیکھ رہے ہیں
میں :نو نو مس ایسی کوئی بات نئی ہے میں بس پروجیکٹ کے پوائنٹس کو ایک بار ریوایز کر رہا تھا (موقع پی دماغ نے کام
کیا )
بینش :تو پھر چلیں میٹنگ کا ٹائم ہونے واال ہے آپ میرے ساتھ ہی آ جائیں
میں :مس میری جگا ہارون صاحب پرسنٹ کرینگے اس لئے میں اپکا ویٹ کر رہا تھا کے آپ آئینگی تو میں آپ سے پوچھ
کے گھر چال جاؤنگا
بینش :ہارون تو اپنا پارٹ پرسنٹ کریگا وہ کیسے اپکا پارٹ پریزنٹ کر سکتا ہے اور الجسٹک موسٹ امپورٹنٹ پارٹ ہے
اس ایگریمنٹکا
میں :مس میں کیا کہ سکتا ہوں مجھے تو جی ایم صاحب نے کہا ہے کے کے اپنی پرزنٹشن ہارون کو دے دوں
بینش :چلو سعی ہے خیر ہارون کو اچھے سے سمجھا تو دیا ہے کہیں وہ کوئی گڑ بڑ نہ کر دے
میں :ہارون صاحب نے کہا کے وہ خود ہی دیکھ لینگے اس لئے میں چپ کر گیا
بینش :اوکے پھر میں چلتی ہوں
میں :جی مس پلیز
میری نہ چاہتے ہوے بھی نظر بینش کی گانڈ پی چلی گئی اسکی گانڈ پنٹ میں کسی ہوئی ایک خاص ردھم کے ساتھ چلتے
ہوے تھرک رہی تھی .میں نے جلدی سے اور بڑی مشکل سے اسکے سراپے سے نظریں ہٹائیں.
میں نے بینش کے جانے کے بعد جلدی سے لیپ ٹاپ ور باقی ضروری سامان اپنے بیگ میں ڈاال اور باہر آ کر بائیک اسٹارٹ
کر کے اپنے فلیٹ کی طرف چل پڑا .
❖
میں آفس سے آنے کے بعد سو جاتا ہوں دو گھنٹے کی نیند لینے کے بعد میں جم جاتا ہوں وہاں دو گھنٹے ایکسرسائز کرتا ہوں
یہی وجہ ہے کے میری باڈی خوبصورت مسلز کے ساتھ بہت اتراکٹو ہے وہاں سے آ کر فلیٹ پہ نہاتا ہوں .اور پھر اپنے
دوست کے ساتھ کھانا کھا کے لیپ ٹاپ یا موبائل پہ مووی دیکھتے یا فیس بک سکرول کرتے ہوے بارہ بجے سوتا ہوں میری
یہی روٹین ہے میں مووی دیکھ رہ اٹھا کے میرے موبائل کی بیل ہوئی نمبر دیکھا تو وہ میرے ایک دوست کا تھا جو
مارکیٹنگ مینیجر ہے جو خود بھی میٹنگ میں گیا تھا اسکا نام حمزہ ہے مجھے شام سے میٹنگ کی ڈیٹیل جاننے کی کھجلی
ہو رہی تھی اسکی کال آئ تو میں نے لیپ ٹاپ ایک سائیڈ پی رکھ کے جلدی سے کال پک کی.
حمزہ :ہان جی جناب کیا ہو رہا ہے
میں :کچھ نئی یار بس مووی دیکھ کے ٹائم پاس کر رہا تھا
حمزہ :سالے ہارون کے ایل لگوا کے خود ٹائم پاس کر رہا ہے مزے سے
میں :مجھ بیچارے معصوم کی اتنی مجال کے جناب ہارون صاحب کے ساتھ کچھ کر سکوں وہ تو انکو خود اڑتے تیر لینے
کے شوق ہیں .ویسے کیا ہوا ہے وہاں
حمزہ :جیسے تجھے تو اندازہ بھی نئی ہوگا کے کیا ہوا ہوگا میٹنگ میں.
میں :یار بک چودی نہ کر اور بتا ہوا کیا وہاں
حمزہ :دیکھو دیکھو جناب کو کیسے آگ لگی ہوئی ہے جاننے کی
میں :نئی بتانا تونے تو نہ بتا کل مجھے پتا تو چل ہی جانا ہے
حمزہ :کل کوفی پالنے کا وعدہ کر تو بتاتا ہوں
میں :کیوں جی میں کس خوشی میں کوفی پالؤں
حمزہ :سوچ لے اندر کی باتیں کوئی نئی بتائیگا کیوں کے آتے ہوے میں اونر کی گاڑی میں ہی بیٹھا تھا اور بینش بھی اسی
گاڑی میں تھی
میں ( :اب مجھے اسکی باتوں میں دچسپی پیدا ہونے لگی تھی کیوں کے ویسے اوور آل تو میٹنگ کا احوال پتا چل جاتا لیکن
اندر کی باتیں تو نئی پتا چل سکتی تھی) یار تجھ سے کافی اچھی ہے بھال کبھی انکار کیا
حمزہ :تو بہت بڑا کمینہ ہے تونے جان بوجھ کے اسے بنا سمجھانے پرزنٹشن دے دی اور وہ اتنا بڑا گدھا ہے کے ایسے ہی
جا کے پریزینٹ کرنے لگا
میں :یار یقین کرو میں اسے کہا بھی تھا کے پوائنٹس کلیر کر لو اسنے مجھے کہا تم خود کو افالطون نہ سمجھا کرو ہر وقت
بس اتنی سی بات سے وہ تپ کے چال گیا اب بتاؤ اس میں میرا کیا قصور ہے اور میں نے اسے بتایا بھی تھا کے مجھے
بینش نے بوال ہے کے الجسٹک کو میں پریزنٹ کروں
ح مزہ :ہاں ہاں جناب تو ستی ساوتری ہے میں تجھے اچھے سے جانتا ہوں بر حال وہاں جب ہاروں اسٹیج پہ گیا تو اپنی
پرزنٹشن تو جیسے تیسے دے دی جب الجسٹک کی بڑی ای تو اسکی ہوا ٹائٹ ہو گئی
میں :کیوں اسکی ہوا کیوں ٹائٹ ہو گئی
حمزہ :یار انکا جو جی ایم تھا وہ بہت تیز آدمی تھا یار اسنے ایسے ایسے سوال کے ایک ایک چیز کو کلیر کیا وہاں میں نے
خود بڑی مشکل سے اسے مطمئن کیا تھا تو ہارون کی کیا اوقات کے کسی اور کا پروجیکٹ اکسپلیں کر سکے
میں :پھر تو اونر ور بینش دونوں سعی تپے ہوے ہونگے
حمزہ :تو اور کیا وہ نئی تپینگے اتنی انسلٹ ہوئی ہاروں سے وہ سوال کرتے اور ہاروں ہونکوں کی طرھ اسکا منہ دیکھنے
لگ جاتا لیکن خیر جی ایم نے سمبھال لیا کے ہمارے الجسٹک مینیجر کی طبیت اچانک خراب ہو گئی تھی اس لئے وہ نئی آ
سکے براۓ مہربانی آپ الجسٹک کی پرزنٹشن کل کسی وقت کے لئے رکھ لیں پلیز .تب انہوں نے کہا کے کوئی پرابلم نئی
ہے الجسٹک کو کل کسی وقت دیکھ لیتے ہیں یا آپ اپنے مینیجر کو ہمارے آفس بھیج دیجئےگا
میں :مطلب کل ساری ذمےداری میرے سر آنی ہے
حمزہ :ہاں تو اور کیا سیٹھ بڑا تپا ہوا تھا تجھ پہ کے دانش کیوں نئی آیا میٹنگ میں اور جب پرزنٹشن اسنے تیار کی تھی تو
اسی کو کیوں نئی پریزینٹ کرنے کو کہا
تب بینش نے کہا تھا ک جی ایم نے دانش کوکو کہا تھا کے اپنی پرزنٹشن ہاروں کو دے دو وہ ہی پریزینٹ کریگا.
میں :چلو شکر ہے سیٹھ کے غصے سے میری تو بچت ہوئی
حمزہ :تو تو بچ گیا لیکن ہاروں کو ایک مہینے کا وارننگ ٹائم مل گیا ہے
میں :کیا واقعی یار مجھے اتنی سیریس وارننگ کی بلکل امید نئی تھی
حمزہ :بینش کو تپ ہی اتنی چڑھی ہوئی تھی اسپے اور تو تو جانتا ہے وہ ایک منٹ نئی لگاتی کسی کو فارغ کرنے میں یہ تو
پھر بھی اسکی بچت ہو گئی ایک مہینہ مل گیا نئی تو مجھے تو لگتا تھا کے کھرے کھرے فارغ کریگی
میں :چل کل جا کے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے
حمزہ :ہاں سعی ہے میں نے سوچا مر رہا ہوگا بیچارے کو بتا دوں
میں :چل اونے ایک کپ کافی کے بدلے تو بکا ہے سستے جاسوس
حمزہ :اچھا بیٹا کوئی نئی پھر بھی تو واسطہ پڑیگا تیرا میرے ساتھ ہی
میں نے ہنستے ہوے کال کاٹ دی اور اطمینان سے لیپ ٹاپ پی مووی دیکھنے لگا میں نے ہاروں کے ساتھ کچھ غلط نئی
کیا تھا میں نے اسے حقیقت بتا دی تھی باقی اسنے خود ہی اپنے پاؤں پہ کلہاڑی ماری تھی.
ویسے بھی جو لوگ خوشامند کر کر کے اوپر جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمیشہ منہ کے بل گرتے ہیں .کبھی
بھی کوئی انسان خوشامند کے ساتھ زیادہ دیر کسی جگہ نئی ٹک سکتا .کیوں کے ہر جگہ کام منگا جاتا ہے اپکا افسر صرف
خوشامند سے تو خوش نئی ہوگا نہ کچھ نہ کچھ کام تو کر کے دینا ہی پڑتا ہے
اگلے دن میں صبح صبح تیار ہوا آج مجھ ے پرزنٹشن دینی تھی اس لئے میں نے اچھے کپڑے پہنے بلیک پنٹ کے ساتھ وائٹ
شرٹ پہنی یہ شرٹ مجھ پہ بہت سوٹ کرتی ہے .میں آفس پہنچ کر اپنی ٹیبل پہ بیٹھا اور لیپ ٹاپ سٹارٹ کیا .اہستہ اہستہ
سب لوگ آنا شروع ہو گے .تھوڑی دیر بعد میرے موبائل پی مسیج بیل بجی میں نے دیکھا تو بینش کا مسیج تھا اسنے
مجھے اپنے آفس میں بالیا تھا .میں اٹھ کے اسکے آفس گیا میں اپنا لیپ ٹاپ بھی ساتھ ہی لے گیا دروازے پی نوک کر کے
اجازت طلب کی اور پھر اندر گیا تو بینش کسی کال پی بزی تھی اسنے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو میں وزیٹر چیر پی بیٹھ
گ یا کال ختم کر کے اسنے میری طرف دیکھا .مجھے اسکی نظروں میں اپنے لئے پسندیدگی نظر ای اسنے مجھ سے پوچھا
بینش :جی مسٹر دانش کیسے ہیں آپ
میں :جی مس میں بلکل ٹھیک ہوں
بینش :مجھے کل کا بڑا افسوس ہے ہمارے لئے بہت شرم کی بات ہے کسی ڈیپارٹمنٹ کی بھیپرزنٹشن کو آوٹ سٹینڈنگ نی
کہا جا سکتا انکل بھی بہت مایوس تھے اس پرفارمنس سے مجھے آپکی پرزنٹشن سے بہت پسند ای تھی لیکن اسکا بھی
ہارون نے بیڑا غرق کر دیا تھا وہ جمیل صاحب کی حاضر دماغی کی وجہ سے بچت ہو گئی تھی .
میں :مس میں نے تو بہت محنت سے تیاری کی تھی لیکن من نیا ہوں ابھی شائد اسی لئے جی ایم صاحب نے جیسے حکم دیا
بینش :میں جی ایم صاحب سے اس مسلے پی بات کی تھی انھیں امید نی تھی کے ہارون اتنی بری تارہا پرفارم کریگا چلو جو
ہوا سو ہوا ہمیں اب آگے دیکھنا ہے .میں نے آپ کو اس لئے بالیا ہے کے ہمیں آج بارہ بجے جانا ہے انکے آفس آپ اپنی
تیاری کر لیں میں اور اپ ہی جائینگے
میں :جی مس میں تیار ہوں
بینش :تھنک یو
میں بینش کے آفس سے نکل کر اپنی ٹیبل پہ آیا اور پرزنٹشن کو ایک بار پھر سے دیکھنے لگا جہاں جہاں سے کمی لگ
رہی تھی اس میں تبدیلیاں کرنے لگا .آخری بار ایک نظر ڈالنے ک بعد میں نے مطمئن ہو کے لیپ ٹاپ بند کیا اور جا کے
ایک کپ چاے لینے کے لئے مشین کے پاس گیا تبھی میں نے ہارون کو دیکھا اسنے جیسے ہی مجھے دیکھا تو نظریں چرا
کے واپس مڑ گیا .کیوں کے پورے آفس کو پتا چل چکا تھا کے کل کی میٹنگ میں اس نے کیا گل کھال ے تھے .میں نے
زیادہ توج ہ نہ دی اس پہ اور اپنی چاے لے کے واپس آ گیا کیوں کے میرا اصول ہے میں اپنے مخالفین کی چا لوں کا صرف
اس وقت تک جواب دیتا ہوں جب تک وہ میرے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے ہوں جب وہ ہار مان جائیں تب میں بھی
پیچھے ہو جاتا ہوں لیکن اسکا ہر گز یہ مطلب نی کے میں اسکی ط رف سے بلکل ہی آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہوں .ابھی
میں چاے لے کے اپنی چیر پہ بیٹھا ہی تھا سدرہ آ گئی سدرہ ہمارے آفس میں اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتی ہے اور میرے
ساتھ اکثر آ کے گپ شپ کرنے آ جاتی ہے اسکی رپوٹشن کچھ خاص اچھی نی ہے لوز کریکٹر ہے اس لئے میں اسے زیادہ
پسند نی کرتا .لیکن ایسی بھی کوئی بات نی ہے کے میں اسے دیکھ کے اپنا موڈ خراب کر لوں .میں خود سے کبھی اسکو
زیادہ بالتا ہی نی ہوں نہ ہی کوئی انٹرسٹ شو کرتا ہوں اسکا اس کہانی میں کوئی کردار نی ہے اس لئے اسکا زیادہ تعارف
کرانے کا فائدہ نی ہے
سدرہ :سنیں جناب کیسے ہیں
میں :ہان جی ہمارے حال تو هللا کا بہت شکر ہے ٹھیک ہیں آپ باتیں کسی ہیں
سدرہ :اپنے پوچھ لیا تو حال ٹھیک ہو گیا.
میں :خیریت ہے اپ آج ہمارے غریب خانے پہ.
سدرہ :سنا ہے ہارون صاحب کو نوٹس مل گیا ہے
میں :پتا نی سنا تو میں نے بھی ہے
سدرہ :کمال ہے اپکا سب سے بڑا مخالف جا رہا ہے اور آپکو کوئی خوشی نی ہو رہی
میں :تم مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو کے ایک بندے کی جاب جانے کا خطرہ ہے اور میں اس پہ خوشی مناؤں
سدرہ :ارے میرا یہ مطلب نی تھا میں تو اس لئے کہ رہی تھی اسنے ہر بار آپکے ساتھ بہت زیادتی کی ہے تو
میں :تو کیا میں اب میں جشن مناؤں ہم دونوں ہی اس کمپنی میں مالزم ہیں آج اسکو نوٹس مال ہے تو کل مجھے بھی مل سکتا
ہے
سدرہ :آپ مجھ سے اتنی رفلی کیسے بات کر سکتے ہیں
میں :دیکھیں مس آپکو بھی پتا ہے کے اسکو نوٹس مل چکا ہے آپکے ڈیپارٹمنٹ کو پہلے اطال دی جاتی ہے پھر میرے پاس
اپ چسکے لینے کیوں ای ہیں
سدرہ :آپ خود کو کیا سمجھتے ہیں میں اگر آپکے پاس ای ہوں تو کیا اتنی گئی گزری ہوں کے اپ مجھ سے ایسے بات
کریں .آپ جیسے کتنے میرے آگے پیچھے پھرتے ہیں
میں :جی جی مجھے پتا آپ بہت اونچی چیز ہیں اسی لئے آپ پلیز اپنے آگے پیچھے والوں سے ہی چسکے لیا کریں مجھے
ایسے گھٹیا کاموں میں کوئی انٹرسٹ نی ہے
وہ پاؤں پٹختے ہوے واپس چلی گئی اور میں نے شکر کیا لیکن
بینش نہ جانے کب سے ہماری باتیں کھڑی سن رہی تھی میں جب اسکو دیکھا تو میرا رنگ اڑ گیا.میں کھڑا ہو گیا اور اسکو
ہکالتے ہوے سالم کیا .مجھے اس لئے ٹینشن ہو گئی تھی کے کہیں وہ یہ نہ سمجھ لے کے میں نے کہیں سدرہ کو کوئی
غلط بات نہ کی ہو جسکی وجہ سے وہ یوں غصّے سے گئی ہے
بینش نے بہت غور سے میری طرف دیکھا .اور کہا کے چلیں میٹنگ کا ٹائم ہونے واال ہے میں نے بھی کہا جی مس چلیں
ہم آفس سے باہر ے تو بینش کا ڈرائیور نیو ماڈل کی مرسڈیز لے کے انٹرنس پی پنچ گیا اور گاڑی سے اتر کر بینش کے لئے
گاڑی کا دروازہ کھوال
میں آگے بیٹھنے لگا تو بینش نے کہا پیچھے بیٹھ جائیں میرے ساتھ
میں :جی مس (اور میں پچھال دروازہ کھول کے اسکے ساتھ بیٹھ گیا )
بینش :اپنے پرزنٹشن کو پوری تارہا سے دیکھ لیا ہے نہ؟
میں :جی مس اپ بے فکر رہیں ان شا هللا اچھا ہی ہوگا (لیپ ٹاپ آن کر کے اسکو سرسری طور پی بتانے لگا میں نے اتنی
بار اس پرزنٹشن کو دیکھا ور سرچ کیا تھا کے مجھے سب کچھ اپنے فنگر ٹپس پہ تھا اس لئے مجھے ذرا بھی ٹینشن نی تھی
)
بینش لیپ ٹاپ لے کے پرزنٹشن دیکھنے لگی اور میں اسے دیکھنے لگا پتا نی کل سے میں کیوں اسکی طرف کھنچا چال جا
رہا ہوں اسنے آج بلیوکلر کی جینز پہنی ہوئی تھی جس میں سے اسکی بھری بھری رانیں نظر آ رہی تھیں اوپر اسنے الئٹ
پنک کلر کی ہاف سلیو شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں سے اسکے ٹائٹ بوبز تنے ہوے نظر آ رھے تھے کسی شاہکار کی
طرھ وہ ان کپڑوں میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی سب سے بڑھ کر اسکے پرفیوم کی خوشبو مجھے بہت اچھی لگ رہی
تھی .میرا دماغ مجھے مالمت کرنے لگا اور میری اوقات یاد دالنے لگا .اتنے میں ہم آفس کے قریب پنچ گے .میں سب کچھ
اپنے دماغ سے نکال کے پروجیکٹ پی کونسنتریٹ کرنے لگا .ہمیں خوش آمدید کہنے کے لئے انکا منجمنٹ اسٹاف آیا تھا یہ
سب پروٹوکول بینش کو مل رہا تھا کیوں کے کچھ بھی تھا وہ ایک ڈائریکٹر اور اپنی کمپنی ک اونر کی بھتیجی تھی ہم لوگ
جب میٹنگ روم میں پنچے تو ہمیں کافی چاے کا پوچھا گیا پھر میٹنگ شروع ہوئی میں نے پروجیکٹر پہ پرزنٹشن کی
وضاحت شرو کردی انکا سارا منجمنٹ اسٹاف اپنے اپنے سوال پوچھنے لگے اور میں سب کے سوالوں کے تفصیل اور بہت
اعتماد سے جواب دینے لگا کیوں ک میں یہ پوری پ رازنٹشن ایک چیز خود ریسرچ کر کے بنی تھی .اس لئے میرے لئے
انکے تمام سوال متوقع تھے اس لئے میں نے پہلے ہی تیاری کی ہوئی تھی .انکی کمپنی کی الجسٹک مینیجر ایک لڑکی تھی
جو سب سے زیادہ سوال کر رہی تھی اور میں کیوں نچلے لیول سے اس پوسٹ تک آیا تھا تو ظاہر ہے مجھے زمینی حقیقتوں
کا اس سے زیادہ پتا تھا آخر یہ میٹنگ اختتام پذیر ہوئی اور تمام لوگ میرے جوابوں سے بہت مطمئن ہوے .میں نے بینش کی
طرف دیکھا تو وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی دراصل یہ پروجیکٹ بینش کا ٹیسٹ پروجیکٹ تھا جو کے بینش کے انکل نے
بینش کو دیا تھا .دوسری کمپ نی کا اونر اور جی ایم نے بینش اور مجھے مبارک باد دی اور ایگریمنٹپی سائن کرتے ہوے.
بینش کو ایک اور پروجیکٹ کی آفر کردی .اس پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد ہمارا کام بہت بڑھ جانا ہے .یہ ہماری توقع
سے بھی بہت اچھا گیا تھا .واپسی پہ بینش بہت خوش تھی اسنے مجھ سے گاڑی میں بیٹھتے ساتھ ہی ہاتھ مالیا اور مبارک
دی
بینش :دانش آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے مجھے انکل کے سامنے سرخ رو کر دیا ہے
میں :مس یہ میرا بھی تو امتحان تھا میری مینیجر کی پوسٹ پی اپائنٹمنٹ کے بعد سے یہ پہال اتنا بڑا پروجیکٹ ہے اور هللا کا
شکر ہے اسنے ہمیں کامیاب فرمایا
بینش :بیشک آپ سہی کہ رھے ہیں آج میں بہت خوش ہوں اس لئے میں اپنی خوشی کو سیلیبریٹ کرنا چاہتی ہوں تو آج رات
کو ہم ڈنر اکٹھا کرینگے آپکا کوئی پالن ہے بھی تو کینسل کر دیں
میں( :کچھ سوچتے ہوے یہ تو اسنے آرڈر دے دیا ہے اب کیا کریں میں تو ویسے ہی اسکی قربت میں اپنے آپ پی کنٹرول
کھونے لگتا ہوں میں نے ہچکچاتے ہوے کہا) اوکے
بینش :تو ٹھیک ہے پھر رات کو ٨بجے ملتے ہیں
بینش :چلیں میں آپکو کال کر لونگی پھر پروگرام بنا لینگے
ہم آفس پنچ گے تو وہاں سب نے ہمیں مبارک باد دی .اونر نے خصوصی کلیپنگ کروائی میرے لئے.سب کے جانے کے بعد
حمزہ میرے پاس آیا اور مبارک باد دینے کے بعد اپنا وداع یاد دالیا میں نے اسے تھوڑا تانگ کیا پھر ہم آفس کے پاس موجود
کافی ہاؤس چلے گے .
ساڑھے سات بجے میں جم سے واپس آیا تو ابھی نہا کے فریش ہی ہوا تھا کے بینش کی کال آگئی میں نے کال ریسیو کی
بینش :ہیلو
میں :ہاۓ مس کسی ہیں آپ
بینش :میں ٹھیک ہوں جلدی سے بتائیں تیار ہیں؟
میں :جی مس میں تیار ہو گیا سمجھیں
بینش :تو میں آ جاؤں آپکو لینے؟
میں :مس اپ تکلف نہ کریں میں آ جاتا ہوں
بینش :ارے یار پھر رسمی باتیں
میں :نی نی مس میں واقعی سچ میں آ جاتا ہوں وہاں سے آپ جہاں کہیں چلے جائینگے
بینش :اپ بتاؤ کہاں رہتے ہو
میں :مس میں ای ١١میں رہتا ہوں
بینش :ارے تو میں ایف ١١میں رہتی ہوں کون سا چاند پی آنا ہے آپکو لینے
یہ سب سن کے میں تو ہکا بکا رہ گیا بھال کوئی لڑکی یوں اپنے منہ سے کسی لڑکے سے محبت کا اظہار بھی کر سکتی ہے
میں تو کل سے اسکی طرف کھنچا چال جا رہا تھا .مجھے کیا خبر تھی کے یے تو اسکی آٹھ مہینوں کی محبت تھی جو مجھے
خود میں سمو رہی تھی .میں جس بات کا جواب کل سے ڈھونڈھ رہا تھا وہ جواب میرے لئے اتنا حیران کن ہو گا میں نے تو
ایسا کبھی سوچا بھی نی تھا .میں اتنا حیران بیٹھا تھا کے میرے مونہ سے الفاظ نی نکل رہے تھے.
میں بھی محبت میں زبردستی کی قائل نی ہوں .تم اپنے فیصلے میں آزاد ہو .میں تو شائد کبھی بھی تم تک اس راز کو نہ
پنچنے دیتی لیکن قدرت کی اپنی بھی ایک پالننگ ہوتی ہے.
میں نے اسکی طرف دیکھتے ہوے ایک گہرا سانس لیا اور اسے بوال
آپ میری حیثیت جانتی ہیں نہ میں آپکی کمپنی میں ایک مالزم ہوں اور آپ کمپنی کی اونر ہیں .میں آپکی دولت کے اللچ میں
آ کے ہاں کر دوں تو
بینش :میں جانتی ہوں میں ایک حقیقت پسند لڑکی ہوں اس لئے میں نے اتنے مہینوں سے تمہں پرکھا ہے اگر میں کوئی
جذباتی لڑکی ہوتی تو تمہں کسی بھی ترھا حاصل کر چکی ہوتی .مجھے تمہاری پسند نہ پسند اور طبیعت تم کیا سوچتے ہو
کیسا مزاج ہے ان سب کا پتا ہے .تمہارے اندر اللچ نی ہے تم ایک ایماندار بندے ہو اور جو ایماندار ہوتا ہے وہ اور تو کچھ
ہو سکتا ہے لیکن اللچی نی ہو سکتا
میرے دل نے اسکی جنونی محبت کے آگے ہتھیار ڈال دے تھے لیکن پھر بھی ہم ایک مشرقی معاشرے کا حصّہ ہیں یہ سب
اتنا آسان نی ہے .اسکے انکل مجھے بیشک مالزم کے طور پے تو پسند کرتے ہیں لیکن ایک داماد کے طور پے شائد کبھی
قبول نہ کریں میں نے اس خدشے کا اظہار بینش سے کیا
بینش :میرے انکل کے مجھ پے بہت احسان ہیں وہ ایک سخت گیر انسان ہیں لیکن مجھے انہوں نے بچپن سے ایک دوست
کی ترھا پاال ہے .جب مجھے پتا چل گیا تھا کے میرا تمہارے بغیر رہنا ناگزیر ہے اور میرے دماغ نے تمہاری محبت کو
قبول کر لیا تو میں نے یہ بات انکل سے کی انہوں نے اسی وقت تم سے بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن میں نے انھیں منع
کر دیا اور تمہں پہلے پرکھنے کا فیصلہ کیا .انکل نے تو پہلے دن ہی تمہں پسند کر لیا تھا
مجھے پتا ہی نی تھا اور میں پچھلے سات آٹھ مہینوں سے ایک امتحان میں سے گزر رہا تھا .میں اپنے خیالوں میں کھویا ہوا
تھا کے اسنے میرے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا اور میرے خیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا .میں تو پہلے ہی اپنے ہتھیار ڈال کے ہار تسلیم
کر چکا تھا .ایسے میں میں انکار کیسے کر سکتا تھا .اسنے میری آنکھوں میں اقرار پڑھ لیا تھا .اس لمحے اسکی آنکھوں
میں نمی تھی ،چہرے پے طمانیت اور ہونٹوں پہ ایک دل فریب مسکراہٹ .آج اس کالی رات میں ایک انوکھی محبت کی
داستان شروع ہونے جا رہی تھی .ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ رات اقرار کے ساتھ تھم گئی ہو اسنے گاڑی سٹارٹ کی اور
میرا ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں تھامتے ہوے اپنے گھر کی طرف چل پڑی میں جو اسکے اقرار سے ہواؤں میں اڑ رہا تھا
مجھے کچھ ہوش نی تھا اس پل میں خود میں تھا ہی کب مجھے نی پتا چال کب اسکا گھر آیا کب چوکیدار نے دروازہ کھوال
اور کب کار پورچ میں پنچی .نا جانے ہماری آنکھوں کب سے ایک دوسرے کی باتیں سمجھنی شروع کر دی تھیں اسکی
آنکھوں نے کہا
دانش مجھے اپنی بانہوں میں اٹھا کے میرے کمرے میں لے جاؤ نا
میری آنکھوں نے جواب دیا
میری جان آپکا حکم سر آنکھوں پے
میں نے کار سے اتر کر اسکی طرف کا دروازہ کھوال اور اسکو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا .میں جم میں 145کے جی تک کی
ڈیڈ لفٹ کرتا ہوں تو اسکا پھول جیسا وزن مجھے کیا کہ سکتا تھا بھال.
اسنے
اسنے اپنا سر میرے کندھے پے رکھا اور اپنی بانہیں میرے گلے میں ڈال دی میں کس روبوٹ کی طرھ بس اسکا ہر حکم بجا
ال رہا تھا .اس وقت میری اپنی کوئی شخصیت نی تھی میرے جسم کے اندر بھی وہ ہی تھی .اسکے روم میں پنہچ کے میں
نے اسے آرام سے بیڈ پے لیٹا دیا.اسنے میرا ہاتھ پکڑا اور خود پے کھینچ لیا اور میں اسکے اوپر گرتا چال گیا جیسے میں
کوئی موم کا گڈا ہوں جسے وہ جیسے چاہے جس طرف چاہے موڑ دے .اسنے مجھے بہت آسانی سے نیچے پلٹ دیا اور
خود میرے پیٹ پی دونو طرف گٹنے ٹیک کے بیٹھ گئی اور کسی جنونی کی طرح میرے چہرے پی بوسوں کی بوچھار کر
دی .جیسے کسی صدیوں کے بھوکے کے آگے اچانک انواع و اقسام کے کھانے آ جائیں اور اسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہا سے
شروع کرے .میں بھی مقدور بھر اسکا ساتھ دینے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اسکے جنوں کا مقابلہ کرنا نا ممکن لگ رہا
تھا .وہ کسی جنگلی بلی کی طرح مجھ پی حملہ آور تھی .میں اسکی کمر پی ہاتھ پھر رہا تھا .اسکے جذباتوں کے تند و تیز
ریلے مجھے کسی حقیر تنکے کی طرح بہا کے لے جا رہے تھے .اور میں بھی ان لہروں کی طاقت کے زیر اثر بہتا چال جا
رہا تھا .اسن ے میری ٹی شرٹ کو اوپر کیا تو میں نے بھی اسکی مدد کرتے ہوے تھوڑا سا اوپر ہو کے شرٹ اتار دی اب
اسکے جنون کا رخ میری چھاتی کی طرف ہو گیا اسکے ہر ہر بوسے کے ساتھ میں مزے کے ایک سمندر میں غرق ہوتا جا
رہا تھا .میں مزے کی نئی نئی دنیاؤں سے روشناس ہو رہا تھا .جیس ے جیسے یہ کھل آگے بڑھتا جا رہا تھا .اسکے جنون میں
ٹھہراؤ آتا جا رہا تھا .جیسے کوئی مشین چلتے چلتے ایک ردھم پکڑ لیتی ہے .میں نے بلکل کسی مکانیکی انداز میں اسکی
شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کئے اسنے مسکراتے ہوے اپنی شرٹ خود ہی اتار دی .اسکے دودھیا جسم پہ بلیک کلر کی
برا ایسی لگ رہی تھی جیسے نظر سے بچنے کے لئے کاال ٹیکا لگا ہوا ہو .میں نے برا کے اوپر سے ہی اسکے بوبز پریس
کرنے شروع کر دے جس سے اسکو شائد مزہ آنے لگا تھا کیوں کے مجھے اسکی سسکیاں صاف سنائی دینے لگی تھیں .اب
میری بری تھی میں نے اسے پلٹ کر اپنے نیچے کر لیا اور اسکے چہرے کو چومنے لگا .اور پھر چومتے چومتے اسکی
کان کی لو کو اپنے منہ میں لے لیا جس سے اسکو اور مزہ آنے لگا .میں جیسے جیسے نیچے اتا جا رہا تھا وہ مدہوش ہوتی
جا رہی تھی میں نے اسکی برا اوپر کر کے بوبز کو بھر نکال لیا .میرا یقین کریں دوستو میں نے بہت پورن اسٹارز کے بوبز
دیکھ ہیں لیکن جیسے بوبز میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں ویسے تو میں نے کبھی خوب میں بھی نہیں سوچے ہونگے .میں
انکی خوبصورتی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں .چاندی جیسے چمکدار گول مٹول کسی شاندار عمارت کے گمبد
کی ترھا اپنی جگا تنے ہوے ان پی الئٹ پنک کلر کے چھوٹے چھوٹے کسی بیش قیمت موتی جیسے نپل .مجھے مدہوش
کرنے کے لئے کافی تھے اسنے آنکھیں کھول کے مجھے دیکھا شائد میرا سکوت اسے بھی محسوس ہوا تھا اسنے اپنی
آنکھوں سے میری انکھو کو پیغام دیا کے بس دیکھتے ہی رہوگے یا ان عظیم و شان بیش قیمت خزانے کو خراج تحسین پیش
کروگے .میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے اسکے دائیں بوب کو اپنے منہ میں لے لیا اور جیسے ہی میری زبان نے
اسکے نپل کو ٹچ کیا تو اسکے منہ سے ایک گہرا سانس نکال .اسکے دونو بوبز کو اچھے طرح چوسنے کے بعد جب میری
زبان نے نیچے کا سفر شروع کیا تو وہ بہت بچیں ہونے لگی میری زبان اسکی ناف میں ٹچ ہوئی تو اس کی برداشت جواب
دینے لگی اسنے میرا منہ پکڑ کر اپنی طرف کیا اور اسکی آنکھوں نے میری آنکھوں کو منت بھری نظروں سے دیکھا .میں
نے اسکی آنکھوں کا حکم مانتے ہوے اسکی پینٹ کا بٹن کھوال اور اسکو نیچے کرنے لگا اسنے اپنی کمر اٹھا کر اپنی پینٹ
گانڈ سے نیچے اتار دی جس سے وہ آسانی سے اتار گئی اور میں نے اسکی پینٹ کو اسکی ٹانگوں سے نکال کر سائیڈ پی
رکھ دیا .اسکی دودھیا رانیں انرجی سیور کی روشنی میں چمک رہی تھیں اسنے اپنی ٹانگیں کراس کر کے اپنی پھدی کو
چھپایا ہوا تھا میں نے اسکی ٹانگوں کو پکڑ کر چومنا شروع کیا تو وہ سر ادھر ادھر پٹخنے لگی .اور اکھڑ اپنی ٹانگیں
کھول دن یہ اسکی طرف سے ہار ماننے کا اشارہ تھا میں نے بھی اپنی پینٹ اتار دی اور اندر ویر بھی ساتھ ہی اتار دیا میرا
لن فل تن کے کھڑا تھا اور اس میں سے پر ی کیوم کے قطرے نکال رہے تھے جو کے یہ ظاہر کر رہے تھے کے میں مزے
کے ساتویں آسمان پی ہوں .بینش نے ہاتھ بڑھا کے میرے لن کو اپنے نرم ہاتھوں میں پکڑا تو میرا لن جھٹکے لینے لگا میں
اپنے لن پی اچھی طرح تھوک لگایا اور اسکی ٹانگیں پکڑ کے گٹنے موڑ کے پیٹ سے لگا دے جنہیں اسنے اپنے ہاتھوں میں
پکڑ لیا میں نے لن اسکی پھدی کے سرخ پی سیٹ کیا اور اسکی آنکھوں میں دیکھا وہ بھی میری سری کاروائی دیکھ رہی
تھی .میری آنکھوں نے اسکی آنکھوں میں اجازت طلب نظروں سے دیکھا تو اسنے اپنی آنکھیں آہستہ سے بینڈ کرتے ہوے
اپنا جواب ہاں میں دی ا تو میں نے بھی آرام سے اپنے لن کو اسکی پھدی میں دبایا تو لن پھسل کر نیچے کی طرف نکل گیا میں
نے دوبارہ سیٹ کیا اور تھوڑا زور سے دبایا تو میرے لن کی کیپ اندر چلی گئی .جیسے ہی لن اندر گیا بینش کے منہ سے
ایک درد بھری آہ نکلی .میں وہیں رک گیا .اور آگے ہو کے اسکی نم آنکھوں کو چوم لیا تھوڑی در رکنے سے وہ کافی
ریلکس ہو گئی تو میں نے لن کو تھوڑا سا آگے کی طرف دبایا تو آگے پردہ بکارت نے رکاوٹ دہلی ہوئی تھی .میں نے ذرا
سا لن کو پیچھے کھینچ کے ایک زور دار جھٹکا مرا تو لن اسکی پھدی کو چیرتا ہوا اپنی منزل تک پنہچ گیا .اور میں اسکے
اوپر لیٹتاگیا اسے بہت تکلیف ہوئی جسکا ثبوت اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو تھے میں نے اپنے نچلے دھڑ کو ساکت رکھتے
ھوۓ اسکے چہرے کو چومنا شروع کر دیا اور اپنے دونوں ہاتھوں میں اسکے دونو بوبز پکڑ کر انتہائی پیار سے سہالنے
لگ گیا کافی دیر میں اپنی ج گا روکا رہا .جب تک کے اسنے خود مجھے اشارہ نئی کر دیا .میں نے نہایت آرام سے آگے
پیچھے کرنا شروع کر دیا کچھ دیر بعد اسکی پھدی نے میرے لن کو قبول کر لیا اور اسے راستہ دے دیا اب میرا لن آسانی
سے اور روانی کے ساتھ آگے پیچھے ہونا شروع ہو گیا .تو میں نے بھی تھوڑی سپیڈ بڑھا دی .اسکے منہ سے گہری
سسکیاں نکل رہی تھیں اسکی آنکھیں اپر چڑھی ہوئی تھے اور سانسیں ایسے چل رہی تھیں جیسے بہت ہی تیز رفتار آندھی
چل رہی ہو .وہ واقعی آندھی ہی تھی اتنی تیز آندھی کے ہم دونو کو اڑا کر مزے کے نۓ نۓ جہانوں کی سیر کروا رہی
تھی .لیکن اسکے ساتھ یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے .ہر طوفان نے تھمنا ہی ہوتا ہے ہر آندھی نے بھی رکنا ہوتا ہے .ہماری
بھی اس دیوانگی کی مسافت کی آخر منزل آ گئی اور میں اور وہ دونو ایک ساتھ ہی جھڑ گۓ .جونہی ہمارا پانی نکال میں
اور وہ دونو ہی بے سد ہو کے لیٹ گۓ
کافی دی ر بعد وہ اٹھی اور اسنے میرے چہرہ چوم لیا جب کے میری آنکھیں بند تھیں اور میرا ضمیر مجھے اپنے بے رحم
شکنجے میں جکڑ رہا تھا اور میں ندامت کے سمندر میں غرق ہوتا جا رہا تھا .میرا ایک ایک اصول مجھے لعن طعن کرنے
لگے اسنے جب میرے چہرے کو چوما میں نے ٹیب بھی آنکھیں نا کھولیں تو اسنے میرے کان کے پاس آ کے مجھے کہا
بینش :تمہں خود کو مجرم سمجھنے کی ضرورت نئی ہے بے شک سے ہم نے ایک گناہ کیا ہے لیکن تم نے میرے ساتھ
کوئی زبردستی نہیں کی بلکے اپنی ہونی والی بیوی کے ساتھ کیا ہے .کل ہی ہمارا نکاح ہو جائیگا.
میں نے اسکی طرف دیکھا تو مجھے بھی کچھ تسلی ہوئی اس واقعہ کے بعد اب ہم میاں بیوی ہیں ہم دونوں ایک دوسرے سے
بہت محبت کرتے ہیں ہمارا ایک بہت پیارا سا بیٹا بھی ہے
آخر میں اپ لوگوں کو بتاتا چلوں کے جو لوگ آوارہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں .ہزار جتن کرتے ہیں
یا پھر اپنی پیاس بجھانے کے لئے کوئی بھی غلط ذریعہ استمال کرتے ہیں انکے ہاتھ کچھ بھی نئی آتا .میری انکو ایک
نصیحت ہے دوستو یہ جو سیکس کی آگ ہوتی ہے یہ بجھانے سے کبھی بھی نہیں بجھتی اسے جتنا بجھانے کی کوشش
کروگے اتنا ہی یہ بھڑکے گی.
پھر ملینگے ایک نئی کہانی کے ساتھ تب تک کے لئے اپنے دوست شہزی کو دیں اجازت باۓ