Professional Documents
Culture Documents
زمیندار کی بیٹی (Fun - Club - s@)
زمیندار کی بیٹی (Fun - Club - s@)
==========
دوستو میں ذیشان آپ
سب کا دوست اپنی الئف کا
ایک اور شاہکار آپ کے لئیے
لیکر آیا ھوں میری اس آپ
بیتی میں بہت سارے واقعات
جو چڑھتی جوانی میں میرے
ساتھ رونما ھوۓ جس کی
وجہ میرے ٹھرکپن میں شدید
سارے نام جگ ہاضافہ ھوگیا
فرضی ھے تاکہ کسی کی عزت
نفس مجروح نہ ھو اراضی
خریدنے کے بعد میں ذیشان سے
کیسے زمیندار ذیشان بنا اور
نوابزادہ شاہد سے کیسے میری
دوستی ھوئی اور پھر کیا ھوا
کیسے ھوئی گاؤں میں
زمیندارنی کیساےھ محبت
چلیئے بڑھتے ھیں ایکشن کی
. جانب
میں ذیشان رفیق ھوں میری
شکل پاکستانی ایکٹر سہیل
سمیر سے بہت مشابہت رکھتی
ھے میں شرو ع سے ناول پڑھنے
اور کھیلوں کی سرگرمیوں
حصہ لینے کا شوقین رہا ھوں
پھر کیسے میری سونی زندگی
میں لبنی جسکی عمر اٹھارہ
سال ھے ایک مجارے کی بیٹی
جسکا تعارف بعد میں کروایا
جاۓ گا آئی لبنی انعم اور
مناہل جعفری شامل ھوئی یہ
سب کہاں کیسے اور کب ھوا
آپکے ساتھ گوش گزار کروں
.گا
دوستو میرا قد چھے فٹ ھے
گورا چٹا رنگ میرے والد آرمی
آفیسر ھیں اور ریٹائرڈ ھونے
کی قریب تر ھیں میں اپنے
والدین کا اکلوتا بچہ ھوں
اسلئیے ماں باپ نے مجھے بہت
پیار سے پاال ھے اور ابو نے
سوچ رکھا ھے کہ تعلیم مکمل
ھوجانے کے بعد مجھے
روالپنڈی کے میدانی عالقے
فتح جنگ میں کچھ زمین لیکر
دینگے تاکہ میرا مستقبل بن
سکے میں اس وقت پنڈی کے
پوش ایریا میں رہائش پذیر
تھا اورگورنمنٹ ہائی سکول
میں پڑھتا تھا
ھمارے پڑوس میں ایک شگفتہ
بھابھی رھتی تھی جو مجھے
میٹرک کے اچھے نتائج حاصل
کرنے میں میری مدد کرتی تھی
یا ایسے کہہ لیں کہ مجھے ھوم
ورک کرواتی تھی وہ کرسچن
تھی خوب پڑھی لکھی تھی
اسکا نام شگفتہ شمعون تھا وہ
پاکستانی اداکارہ مہوش حیات
سے مشابہت رکھتی تھی
شمعون اسکا خاوند تھا جو
ایک ٹیچر تھا
شگفتہ ایم اے انگلش کر چکی
تھی جسکی وجہ سے میری
قابلیت میں بھی نکھار آگیا تھا
میں اسے پیار سے بھابھی بولتا
تھا ان دنوں ھمارے گھر کے
پاس ایک الئبریری تھی جس
سے سیکسی کہانیوں کی بک
پڑھا کر تا تھا ایک ناول پڑھا
تھا رنگین راتیں جسے پڑھ کر
میرا لن کھڑا ہو گیااور مجھ
پہلی بار چوت ،ممے اور گانڈ
جیسی چیزوں کا پتہ چال تھا
اور لنڈ کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی
تھی۔ اب میں اکثر ایسی
کتابیں پڑھا کرتا تھااور میرا
عورتوں ،لڑکیوں کو دیکھنے کا
... نظریہ یکسر بدل چکا تھا
میری چھاتیوں میں جو کڑک
پن کا ابھار آیا ھے
یوں لگتا ھے جوانی پر خوب
نکھار آیا ھے
اس سے پہلے میں سب کو
بہنیں ہی بناتا تھا اور سمجھتا
تھا۔بس یہاں سے ہی کہانی
شروع ہوتی ہے۔ ہمارے گھر
میں لیپ ٹاپ تھا اور ہماری
شگفتہ سے خوب دوستی تھی۔
وہ ہمارے گھر میں فلم دیکھنے
بھی آتی تھی۔ایک دن میں ایک
فلم الیا ،انگلش فلم تھی رونگ
ٹرن جس میں کچھ نیوڈ سین
تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ
انگلش فلم میں نیوڈ سین ہوتے
ہیں لیکن شگفتہ بھابی کو نہیں
پتہ تھا۔ میں گھر آیا تو امی
گھر نہیں تھیں وہ بازار گئی
ہوئی تھیں اور چابیاں بھابی
کو دے کر گئی تھیں۔
میں لیپ ٹاپ پر فلم لگانے
لگاتب شگفتہ بھابی پوچھنے
لگی کہ کیا لگا رہے ہو ذیشان
میں نے کہا انگلش فلم ہے
جنات کی فلم ہے۔ بھابی بولی
میں بھی دیکھ لوں۔ میں نے
کہا نہیں بھابی آپ ڈر جاؤ گی۔
تو بھابی بولیں نہیں تم نہیں
ڈروگئے تو میں کیوں ڈروں
گی۔ تم لگا لو۔خیر میں نے فلم
لگالی اور بھابی کے ساتھ بیٹھ
کر دیکھنے لگا۔
فلم میں ایک سین آیا جس
میں ایک لڑکی نہا رہی ہوتی ہے
تو ایک سانپ آتا ہے اور لڑکی
کی چوچی پر کاٹتا ہے جس
سے لڑکی مرجاتی ہے۔ یہ دیکھ
کر بھابھی کہتیں ہیں ہٹاؤ اسے
یہ گندی فلم ہے۔ میں نے کہا
بھابھی آپ جاؤ یہ ایڈوینچر
فلم ہے۔
بھابھی بولی یہ کیسی فلم ہے
جس میں لڑکی نہا رہی ہے اور
وہ بھی ننگی۔ میں نے کہا یار
بھابھی جاؤ اور مجھے دیکھنے
دو۔بھابی گئیں نہیں اور
دیکھتی رہی۔ 15منٹ بعد ایک
کس سین آیا بھابھی چپ رہی۔
پھر آدھے گھنٹے بعد ایک اور
ننگا سین آیا۔ بھابھی پھر بھی
چپ رہی۔ آخر میں بھابھی ڈر
بھی گئیں جب سانپ کو مارتے
ہیں۔ وہ مجھ سے کہنے لگئیں
کہ بہت گندی فلم تھی۔ ایسی
فلمیں مت دیکھا کرو۔ وہ مجھ
سے آنکھیں بھی نہیں مال رہی
تھیں۔ خیر بات آئی گئی ہو
..گئی۔
کبھی کبھی بھابھی مجھے
پڑھاتی بھی تھیں۔ ایک دن
بھابھی مجھے بیالوجی پڑھا
رہی تھیں اورفراگ سیکس
چیپٹر تھا۔ بھابھی نے جو
کپڑے پہنے تھے وہ بھی سفید
تھے بالکل بھابھی کی طرح
اجلے۔ کپڑے سوراخوں والے
ڈیزائن کے تھے۔ بھابھی نیچے
برانہیں پہنتی تھی۔ مجھے اس
میں سے بھابی کے نپل دکھ
رہے تھے۔ میں نے بھابھی سے
پوچھا یہ سیکس میں کیا ہوتا
ہے اور فراگ کے بچے کس طرح
پیدا ہوتے ہیں۔ بھابھی ڈر گئی
کہ یہ میں نے کیا پوچھ لیا ہے۔
وہ بولی یہ ایک پراسس ہوتا
....ہے
جسے کرنے کے بعد فراگ انڈے
دیتا ہے۔ میں نے کہا یہ کیسے
ہوتا ہے تو بھابھی بولی کتاب
میں سب لکھا ہے پڑھ لو وہاں
سے۔ میں نے پوچھا بھابھی کیا
آدمی بھی سیکس کے بعد
انڈے دیتا ہے۔ یہ سن کر بھابی
ہنس دی اور بولی نہیں پاگل
عورتیں بچے پیدا کرتیں ہیں
اور میرے گال پر پیار سے
نوچنے کر بولی بہت بے وقوف
ہو تم تو۔میں نے پوچھا بھابھی
کیسے سیکس کیا جاتا ہے۔
بھابھی بولی ۔ یہ بھی پوچھا
.جاتا ھے بھال
بھابھی کے خواب اب دن رات
مجھے آنے لگے تھے پہال توڑ کی
شراب جیسا نشہ اب خمار بن
کر مجھ پر چڑھنے لگا تھا
میرے دماغ اور دھڑکنیں بتانے
لگیں کہ شگفتہ ھی وہ عورت
ھے میری جوانی کے جال کی
پہلی مچھلی ھے جسے اب
زندہ پکڑنا تھا مدھوش کرنے
سے جاگتی آنکھوں کی سپنے
اپنی اہمیت کھودیتے ھیں
میرے سونی زندگی میں چار
سو شگفتہ بھابھی اجاال بن کر
چھاگئ تھی تو میں نے بھابھی
شگفتہ شمعون پر ڈورے ڈالنا
شرو ع کر دئیے...
شگفتہ۔۔۔بھابھی بولی ۔ یہ بھی
پوچھا جاتا ہے۔ جب تو بڑا ہوگا
خودہی پتا چل جائے گا۔ میں
نے کہا بھابھی آپ نے کبھی
سیکس نہیں کیا ہے ؟ آپ کی
تو شادی ہو چکی ہے پر آپ نے
بچہ نہیں دیا ہے۔ بھابھی میرے
اس سوال پر دنگ ھو کر رہ
گئی۔ان کا چہرہ الل ہو گیا اور
وہ نیچے چلی گئی۔اس کے بعد
کافی دنوں تک میں نے بھابھی
کی شکل نہیں دیکھی۔جب
میں ان کے پاس پڑھنے کو گیا
تو
پھر ایک دن میں فلم
الیاسپائڈر۔۔مین اور شمعون
صاحب کو باللیا فلم دیکھنے
کے لیے۔ان کے ساتھ بھابھی
بھی آگئی۔سردیوں کے دن تھے۔
ہم سب ایک بستر میں لیٹے
ہوئے تھے۔ بھابھی میر ے اور
بھائی شمعون صاحب کے
درمیان میں تھی۔فلم دیکھتے
دیکھتے ہی بھابھی سو گئی۔
اور رضائی میں ہی ان کی
ٹانگوں سے قمیض ہٹ گئی۔
میں فلم دیکھ رہا تھا۔میں نے
لیٹے ہوئے کروٹ لی ۔
دیکھابھابھی سو رہی ہے۔میرا
ہاتھ نیچے بھابھی کی ٹانگوں
سے لگا۔ مجھے احساس ہو ا کہ
بھابھی کی قمیض اوپر اٹھی
ہے۔میں نے ہمت کرکے قمیض
تھوڑی اور اوپر اٹھاکربھابھی
کا پیٹ سہالنہ شروع کردیا۔
ان کے نرم و مالئم پیٹ پر ہاتھ
پھیرتے ہوئے مجھے عجیب سے
سرور مل رہا تھا۔ساتھ ساتھ
میں بھابھی کو بھی دیکھ رہا
تھاکہ وہ جاگ نہ جائیں۔
بھابھی گہری نیند میں تھی ۔
ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا۔
پھر میں نے بھابھی کی شلوار
میں آہستہ سے ہاتھ ڈاال اور ان
کی رانیں سہالنہ شروع کر
دیں۔ میرا لن شلوار میں کھڑا
ہو کر جھٹکے کھا رہا تھا۔
بھابھی کی رانیں سہالتے
سہالتے میں جھڑ گیا۔میں اٹھ
کر باتھ روم گیااور اور لن
صاف کیا۔ اور دوبارہ بستر میں
آکر لیٹ گیا۔ بھابھی اب جاگ
رہی تھی۔
میں ڈر رہا تھا کہ شاید ان کو
پتہ چل گیا ہے لیکن ان کی
طرف سے خاموشی پا کر
مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ فلم
ختم ہوئی تو بھائی صاحب اور
بھابھی اٹھ کر اپنے گھر چلے
گئے۔ اگلے دن میں بھابھی کے
پاس پڑھنے گیاتو وہ مجھے
غصے سے دیکھ رہی تھی۔ میں
پاس بیٹھا تو وہ مجھے کہنے
لگئیں کہ رات کو میری ٹانگوں
کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ میں
نے کہا کچھ نہیں ۔ وہ کہنے
لگی ابھی تمہاری امی کو
شکایت لگاتی ہوں۔ میں رونے
لگامجھ معاف کر دیں آئندہ
ایسا نہیں ہو گا۔پھر کتاب نکال
کر پڑھنے لگا۔ کچھ دیر بعد
بھابھی مجھ سے پوچھنے لگی
میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ یہ
بہت ہی عجیب سوال تھا۔ میں
پریشان ہو گیا۔
میں نے کہا بھابھی مجھے آپ
بہت اچھی لگتی ہو۔ آپ بہت
پیاری ہو۔بھابھی مجھ سے
پوچھنے لگی تمہیں میرے پیر
سہالنہ اچھا لگتا ہے۔ میں
بھابھی کی طرف دیکھنے
لگااور کہا ہاں بھابھی۔ بھابھی
نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ان کے نرم
نرم ہاتھ کا لمس پاتے ہی میرے
جسم میں چیونٹیاں رینگنے
لگئیں۔انہوں نے میرا ہاتھ اپنی
ٹانگوں پر رکھ دیا۔ میں ان کو
سہالنے لگا۔ مجھے بہت اچھا
لگ رہا تھا۔ بھابھی پوچھنے
لگی کیا تمہا را دل کرتا ہے کہ
اپنی بھابھی کو ننگا دیکھو۔
میں نےکہابھابھی کرتا تو ہے
اور کبھی کبھی زینے پر سے
جھانک کر آپ کو نہاتے ہوئے
بھی دیکھ لیتا ہوں۔ یہ سن کر
بھابھی شرما گئی۔ ہائے یہ سب
کب ہوا مجھے تو پتہ بھی نہیں
چال۔ میں نے کہا بھابھی بس
آپ کی کمر ہی نظر آتی ہے اور
کچھ نہیں دیکھا۔بھابھی بولی
کیا تم سچ میں اپنی بھابھی
کو ننگا دیکھناچاہتے ہو۔ تمہاری
بھابھی بہت سندر ہے؟ میں نے
شرماتے ہوئے کہا جی بھابھی۔
بھابھی بولی
ذیشان تم نے پہلے مجھ سے
کیوں نہیں کہا ۔ میں نے کہا کیا
بھابھی آپ سچ میں مجھے
ننگی ہو کر دکھاؤ گی۔یہ سن
کر بھابھی کھلکھال کر ہنس دی
اور کہنے لگی میرے
بھولے.ذیشان۔ کہو تو ابھی ہو
جاؤں۔ یہ سنتے ہی میں
بھابھی سے لپٹ گیا۔بھابھی
مجھے پیار کرتے ہوئے بولی لو
جیسا چاہے دیکھ لو۔ پر تم کو
قسم ہے چودنا نہیں۔ میں نے
پوچھا چودنا کیا ہوتا ہے۔ بھا
بھی بولی وہ بھی سکھادوں
گی ابھی صرف مجھے ننگاکرو
اور پیار کرو۔ میں نے بھابھی
کی قمیض اتاری اب بھابھی
برا اور شلوار میں تھی۔ نیٹ
کی برا میں سے دودھ کی طرح
سفید چھاتیاں جھلک رہی
تھی۔ بھابھی پھر گھوم کر
بولی لو اب بر ا اتا ر کر پورا
نظارہ کرو۔ میں نے برا کا ہک
کھول دیا اور بھابھی نے برا
اتار کر میرے سامنے منہ کیا۔
کیا مست نظارہ تھا۔ دو
خوبصورت تربوز کی طرح کی
چھاتیاں جن پر براؤن رنگ کے
نپل تھے۔ میں تو پاگل ہو رہا
تھا یہ منظر دیکھ کر۔ بھابھی
کا جسم بے داغ اور دودھ کی
طرح سفید تھا بس نپل براؤن
تھے باقی سب کچھ سفید تھا۔
میرا لن لوہے کی اکڑا ہو تھا ۔
شگفتہ بھابھی....نے مجھے
اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ساتھ میں
بھابھی نے میرے کپڑے بھی
اتروا دیئے ۔میں نے بے اختیار
بھابھی کے گالوں کو چومنا
شروع کر دیا۔ پھر میں نے
بھابھی کے ہونٹوں پر کس کیا۔
بھابھی بولی ایسے نہیں اور
میرے ہونٹ اپنے ہونٹ میں دبا
کر میرے ہونٹ چوسنا شروع
کر دیے۔مجھے بہت مزا آرہا تھا
میں نے بھی بھابھی کے ہونٹ
چوسنا شروع کر دیے ان کے
ہونٹوں کا رس مجھے بہت
اچھا لگ رہا تھا۔ میں لگا تار
بھابھی کے ہونٹو ں کا رس 10
منٹ تک پیتارہا۔ اس دوران
میرے لن نے جھٹکا کھاتے ہوئے
پانی چھوڑ دیا۔ بھابھی بولی
میرے چاندذیشان اتنی جلدی
خالص ہوگئے۔میں بوال بھابھی
مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا
تھا۔ بھابھی ہنس کر بولی کیا
اپنی بھابھی کا دودھ نہیں پیو
گئے۔میں نے کہا بھابھی کیوں
نہیں پیؤگا۔ یہ سنتے ہی
بھابھی نے اپنی چوچی میرے
منہ میں ڈال دی جسے میں
مزے سے چوسنے لگا۔بھابھی
کی میٹھی میٹھی چوچیاں
چوسنے کا بہت مزا آرہا تھا۔
میں لگاتار چوچی چوس رہا
تھا۔
بھابھی نے میرا ہاتھ اپنی
شلوار کے اندر چوت کے اوپر
رکھ دیااور بولی اس کو
سہالؤ۔میں نے ذورذور سے
سہالنہ شروع کر دیا۔ 5منٹ
بعد بھابھی کی چوت نے پانی
اگلنا شروع کر دیا اور بھابھی
نے مجھے پیار سے چومنا
شروع کر دیا۔ میں ذندگی میں
پہلی بار عورت کے جسم کی
لذت سے آشنا ہوا تھا۔میں پھر
فارغ ہو گیا۔
بھابھی شگفتہ بولی پاگل جب
دیکھو دھار مار دیتا ہے۔ ابھی
اناڑی ہے نا۔ کچھ نہیں ہوتا
سب سکھا دوں گی۔پھر
بھابھی نے اور میں نے کپڑے
پہن لیے ۔ بھابھی کہنے لگی۔اب
مجھ تنگ نہیں کرنا جب پیار
کرنا ہو ،دن میں میرے پاس
آجانا۔چلو اب پڑھائی کرتے
ہیں۔میں نے کہا بھابھی یہ تو
بتا دو چودنا کس کو کہتے ہیں
۔ بھابھی بولی یہ جو لن ہے
اس کو کھڑا ہونے کے بعد چوت
کے سوراخ میں ڈال کر جھٹکے
مارتے ہیں اور فارغ ہوتے ہیں
اس کو چودنا کہتے ہیں۔میں نے
پوچھا کیا بھائی صاحب بھی
آپ کو ایسے ہی چودتے ہیں۔
بھابھی بولی اور نہیں تو کیا۔
میں نے کہا بھابھی میں بھی
آپ کو چودوں گا۔
بھابھی بولی نہیں.ذیشان ابھی
تم بہت چھوٹے ہو۔جب بڑے ہو
جاؤ گئے پھر جیسے چاہے
چودنا۔ ابھی اوپر سے ایسے ہی
مزے لو۔ کیا اس طرح مزا نہیں
آتا۔ میں نے کہا آتا ہے۔تو
بھابھی بولی تو پھر اور کیا
چاہی ہے۔ پھر میں بھابھی سے
روز یوں ہی پڑھتا کبھی
چوچی چوستے ہوئے۔ کبھی
چوت میں انگلی کرتے ہوئے ،
کبھی ٹانگیں سہالتے ہوئے۔
چوچی تو روز ہی چوستا تھا
کیونکہ چوچی چوسنے میں
بہت مزا تھا۔
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎﻓﯽ
ﻣﺰﮮ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ
ﻣﺎﺟﺪ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ۔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’
ﺍﺗﻨﺎﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺐ
ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ‘‘ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ ﺍﺏ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﯿﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ
ﮨﮯ ‘‘ ﻭﮦ ﺑﻮﻻ ﯾﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮬﻮ ﮨﮯ
ﺗﻮ ،ﺍﺑﮯ ﺍﺏ ﭼﻮﺩ دے ﺍﭘﻨﯽ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ،ﺍﺻﻞ ﻣﺰﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ
ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ
ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻮﺩﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ‘‘ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ’’ ﯾﺎﺭ ﮐﯿﺴﺎ ﻣﺮﺩ ﮨﮯ ﺗﻮ؟
ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﭼﻮﺩﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’
ﯾﺎﺭ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ،ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ‘‘ ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ’’
ﯾﺎﺭ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ،ﺁﺝ ﺗﺠﮭﮯ
، ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮﺗﺠﮭﮯ ﺳﺐ ﺁﺟﺎﺋﮯ
ﮔﺎ ‘‘ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮈﯼ
ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ
ﻟﮕﺎ ’’ ﯾﮧ ﻟﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﯽ ﮈﯼ ﻟﯽ
ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﻣﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ
ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﮐﮯ
ﺳﮯ ﺍ ﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ،
ﺩﺭﻭﺍﺫﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯽ ﮈﯼ ﻟﮕﺎ
ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﻨﮕﮯ ﮨﻮ
ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ
ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﯽ
ﻓﻠﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﺳﺎ ﻣﺰﮦ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﻣﺮﺩ،
ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺗﯿﺎﮞ ﭼﻮﺳﺘﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺮﺩ ﮐﺎ ﻟﻦ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ
ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺮﺍﮨﯿﺖ
ﺳﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﺩ
ﮐﺎ ﻟﻦ ﺗﻦ ﮐﺮ ﺭﺍﮈ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮ
ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭﺍﺳﮯ زﻭﺭ زﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ
ﻣﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﻓﻠﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ
ﮨﭽﮑﻮﻟﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﮐﻤﯽ ﻓﯿﻞ ﮨﻮ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﺟﺪ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﯾﮟ۔ﺍﺏ
ﻣﯿﺮاﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﮯ
ﮐﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎﺟﻮ ﻓﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﮩﯿﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ
ﺗﮭﯽ۔ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ
ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﻧﺮﻡ ﻭ ﻣﻼﺋﻢ ﮨﺎﺗﮫ
ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ﺍﺱ
ﺩﻥ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﭘﻨﮏ ﮐﻠﺮ ﮐﯽ
ﻗﻤﯿﺾ ﺍﻭﺭ ﺳﻔﯿﺪ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﭘﮩﻨﯽ
ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﻨﮏ ﺭﻧﮓ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
ﮐﮯ ﮔﻮﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﻼ ﻟﮓ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺗﺎﺑﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ۔ﺁﺝ
ﻣﯿﺮﮮ.ذیشان ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ‘‘ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻣﯿﮟ
‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭼﻮﺩﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
شگفتہ بھابھی ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﮐﺐ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﻣﯿﮟﻧﮯﮐﮩﺎ
’’ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺁﺝ ﮨﯽ ‘‘ ۔ ﯾﮧ
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ
ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
ﮐﮯ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺲ ﮐﯽ ۔ ﻭﯾﺴﮯ
ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ
ﻣﺰﮮ ﻟﮯ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺩﻥ
ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻟﮓ ﮨﯽ ﻓﯿﻠﻨﮕﺰ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ زﺑﺎﻥ ﺭﮐﮫ
ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺳﮩﻼﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﭧ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﺲ
ﮐﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﺮ ﭼﻮﺳﻨﺎ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ۔ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ زﻭﺭ
ﺳﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺱ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ زﺑﺎﻥ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﯽ۔ﺍﻑ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﮮ ﺩﺍﺭ ﺗﮭﯽ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ زﺑﺎﻥ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ ﺷﮑﺮ ﭼﺎﭦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ 15
ﻣﻨﭧ ﮨﻮﻧﭧ ﺍﻭﺭ زﺑﺎﻥ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﻗﻤﯿﺾ
ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﻮﻻ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﺴﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ
ﺗﮭﯽ۔ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ’’
خود ﮨﯽﮐﺮﻟﻮ ﻧﺎ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ
ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ
.ذیشان ! ﭘﮭﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ
ﻗﻤﯿﺾ ،ﭨﮭﺮﻭ ﻣﯿﮟ خود ﮨﯽ
ﺍﺗﺎﺭﺗﯽ ﮨﻮﮞ ‘‘ ۔ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﭦ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ﺍﻭﺭ
ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﮐﺲ ﮐﺮﻧﮯ
ﻟﮕﺘﺎ۔ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﺩن ﭼﺎﭨﺘﺎﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ
ﮔﺎﻝ۔ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ
ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﺣﺼﮯ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ
ﭼﻮﺳﺎ۔ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ لذﺕ ﺳﮯ ﮐﺮﺍﮦ
ﺍﭨﮭﯽ۔ﻭﮦ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ
ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺑﺮﺍ ﺑﮭﯽ
ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﻧﻮﮐﺪﺍﺭ
ﭼﻮﭼﯿﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﮐﮍ
ﮔﯿﺎ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺗﻨﯽ ﭼﻮﭼﯿﺎﮞ
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﮔﺮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﺑﺎنہوﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ
ﻟﮕﺎﺗﺎﺭ ﭼﻮﻣﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﻨﯽ
ﺑﮭﯿﻨﯽ ﻣﮩﮏ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺣﺸﯽ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ
ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﭼﻮﺗﮍﺑﮭﯽ ﺩﺑﺎ ﺭﮨﺎ
ﺗﮭﺎ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ
ﺳﺴﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ .شگفتہ بھابھی ﮐﻮ
ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭼﻮﻣﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ
ﭼﮭﺎﺗﯿﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﯾﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ
ﻧﭙﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ
ﺩﺑﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﮐﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﭙﻞ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ
ﺳﮯ ﭼﺒﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ’’ ﺁﮦ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﮭﺎ
ﻟﻮﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ‘‘ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻣﺰﮮ
ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎﮐﮧ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮔﺮﻡ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺏ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﭙﻞ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ
ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﺳﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎﭦ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺘﺎ
ﺗﮭﺎ۔ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﻼ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﮐﮩﺘﯽ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﭼﻮﺳﻮ ،ﮐﺎﭨﻮ
ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎﺗﺎﺭ
ﻧﭙﻞ ﭼﻮﺳﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ
ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭼﻮﺳﺘﺎ ﺭﮨﺎ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﭙﻞ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﻮ
ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﭙﻞ۔ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮯ
ﺩﺭﺩﯼ ﺳﮯ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻧﭙﻞ ﮔﻼﺑﯽ ﺳﮯ ﻻﻝ
ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﻮﺭﮮ
ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺯﮎ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﭨﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻧﺮﻡ ﻧﺮﻡ
ﺍﮔﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻮﺱ
ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺩﮬﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﺍ
ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ
ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺍﻭﺭ
ﺍﻧﮉﺭ ﻭﯾﺌﺮ ﺍﺗﺎﺭﺩﯼ ﺍﻭﺭ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽﮐﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﺎﺭ
ﺩﯼ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎﺍﻭﺭ ﺳﮩﻼﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔
بھابھی بولی واہ ارے ذیشان
تمہارے لن کے کیپ کی بڑی
چمک ھے اور کتنا صاف ستھرا
ھے ماس بھی نہیں ھے اسکے
اوپر جبکہ شمعون کے لنڈ پر
ماس ھے میں بوال بھابھی
شمعون کا ختنہ نہیں ھو ھوگا
شاید بھابھی مسکرا دیں
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺁﭘﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﮬﮑﺎ
ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ
ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ
ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ۔ﺳﯿﮑﺴﯽ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ
ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ
ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ
ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺳﻮﺭﺍﺥ
ﭼﻮﺩﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﮔﻼﺑﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
ﮐﺮ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺲ ﺩﺍﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ
ﺑﮭﯿﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ
ﺳﮩﻼﻧﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺎﻝ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭘﮭﯿﻼﺋﮯ
۔ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮔﻼﺏ ﮐﯽ ﭘﻨﮑﮭﮍﯾﺎﮞ ﻟﮓ
ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻼ
ﺟﺴﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻮﭼﯿﺎﮞ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ
ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉﮐﮯ
ﻧﯿﭽﮯ ﺗﮑﯿﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ۔ﺍﺏ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻦ ﮐﯽ ﭨﻮﭘﯽ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ
ﺩﮬﮑﺎ ﻟﮕﺎﯾﺎ۔ ﻟﻦ ﺳﻨﺴﻨﺎﺗﺎﮨﻮ ﺍ
ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺫﯾﺎﺩﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺦ
نکل ﮔﺌﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺑﺎ ﻟﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ
.ذیشان ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮐﺮﻭ۔ﯾﮧ ﮐﺎﻡ
ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﯽ
ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ
ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ زﻭﺭﺩﺍﺭ ﺟﮭﭩﮑﺎ
ﺩﯾﺎﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ
ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﮍ ﺗﮏ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ
ﮔﯿﺎﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ
ﺩﻟﺨﺮﺍﺵ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ ااسس
سسسسسی ذذذذ ذیشان ننننن
نکالو
Aaaah mar gay zeeshan
aaaah nikalo bahir
ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﯽ ﺭﮦ
ﮔﺌﯽ۔ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﺍﺗﻨﺎ زﻭﺭ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ
ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺎ
ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺳﺎ ۔ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﮐﻢ ﮨﻮﺍﺗﻮﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﮨﻠﮑﮯ ﮨﻠﮑﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ۔ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺍﺅﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﮌ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ پہلی بار تو
چوت کا درشن ھوا تھا مجھے۔
شگفتہ بھابھی ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﺑﺎنہوﮞ ﻣﯿﮟ زﻭﺭ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ زﻭﺭ ﮐﮯ
ﺟﮭﭩﮑﮯﻟﮕﺎﻧﮯﮐﻮ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﭙﯿﮉﺗﯿﺰ ﮐﺮﺩﯼ۔ﭼﻮﻧﮑﮧ
ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮩﻠﯽ ﭼﺪﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ
ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ،
ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﯿﮟ 5ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ
ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎﺍﻭﺭ ﻣﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ
ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌﺩﯼ۔
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﯽ 2ﻣﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺭﮎ
ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﮍ ﺟﺎﺗﯽ،ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ
ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﭘﮩﻼ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ،
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﮑﮭﺎﺩﻭﮞ ﮔﯽ ‘‘
۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﻮ
ﮐﮩﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ زﻭﺭ
ﺳﮯ ﮨﻼنا ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ
ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻧﮯ
ﻣﻨﯽ ﮐﺎ ﻓﻮﺍﺭﮦ ﺍﮔﻞ ﺩﯾﺎﺍﻭﺭ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ
ﻣﯿﮟ ﮈﮬﯿﻼ ﭘﮍﮔﯿﺎ۔
شگفتہ بھابھی ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﻣﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ
ﺑﮩﺖ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭼﻮﺩﺍ ﮨﮯ ۔میں نے
میٹرک کر لیا اچھے نمبروں
کیساتھ اور ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺑﻮ ﮐﯽ
ریٹائرڈ منٹ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ
ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ
ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔اور پھر ھم نے پنڈی کے
عالقے فتح جنگ میں بیس ایکڑ
زمین خرید لی اور میں بطور
جاگیر دار اپنا مستقبل بنانے
لگ گیا۔۔۔۔۔
ھمارے ساتھ ھی جو ڈیرہ تھا
وہ بھی ایک نوجوان زمیندار
تھا میری طرح اپنے ماں باپ کا
اکلوتا بیٹا تھا جب میں انکے
کھیت میں گیا تو وہ لوگ
کرکٹ کھیل رھے تھے مجھے
دیکھ کر اس نے مجھے بھی
کھیلنے کی پیشکش کی اور
اپنا ھاتھ بڑھاتے ھوئے کہا میرا
نام شاہد ھے مجھے نک نیم
نوابزادہ سے پکارتے ھیں میں
نے مصافحہ کرتے ھوئے کہا میں
ذیشان رفیق نیو گایئز ان یوئیر
ویلج ھم دونوں مسکرا
دئیے۔۔۔۔۔۔
اس دن ھم لوگ شام تک کرکٹ
کھیلتے رھے اور میں پہلی بار
گاؤں کے کھلے میدانوں میں
بھاگ دوڑ کر بہت تھک گیا تھا
اسی لئیے ھم دونوں چلتے چلتے
کھیت کی ایک پگڈنڈی پر
بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے
شاہد نے مجھے بوال کہ آپ روز
ھمارے ساتھ کھیال کرو آپکے
جلد ھی سب لوگ دوست بن
جائینگے تو گا ؤں کے سرسبز و
شاداب کھیتوں کا دل فریب
نظارہ دیکھتے ھوۓ میں بوال
کہ یار میں تو تھک گیا ھوں
آپ لوگوں کا ھی حوصلہ ھے
فیلڈنگ بھی کرو اور باؤلنگ
بھی اور کھیتوں کی جھاڑیوں
سے گیند بھی ڈھونڈ کر الؤ
شاہد میری بات کا جواب دیتے
ھوۓ بوال دیکھ ذیشان ادھر
جو بندہ مار کھا جاتا ھے وہ
سخت جان بن جاتاھے دنیا
ایویں نئ پینڈو زندگی کی فین
ھوتی جارھی ھے
میں نے بوال یار لمبی مت
چھوڑا کر شاہد ایسا جو تجھے
گاؤں بہت پسند ھیں تو وہ
دبنگ لہجے میں بوال ھم پینڈو
لوگ نہ ایک دوسرے کے دکھ
سکھ کے ساتھی ھوتے ھیں اور
ھماری پہچان ھماری گلی نمبر
سے نہیں بلکہ باپ دادا کے نام
سے ھوتی ھے اور تم شہری
لوگ ساتھ والے میت پڑی
ھوتی ھے اور دوسرے گھر میں
میوزک چل رہا ھوتا ھے میں
جل کر بوال بس بس بس میری
جان آپکی بات سو فیصد
درست ھے مگر ھمارے گاؤں کے
تو چند گھر ھیں قریب پچاس
گھر کوئی بڑا گاؤں ھوتا تو
سب کچھ ٹھیک ھوتا
میری بات سن کر شاہد بوال
پاگل ھمارا گاؤں چھوٹا ضرور
ھے پر اس میں بسنے والے
لوگوں کے دل چھوٹے نہیں ھیں
تم چاھتے ھو شہری کلچر کہ
یہاں لڑکیاں شارٹ پہن کر
گھومیں اور میں اپنی آنکھوں
کو خیرہ کرلوں شاہد کی اس
بات پر میں کھلکھال کر مسکرا
دیا اور بوال تو بڑا شرارتی ھے
یار بھال اس عمرمیں یہ سب
نہیں ھوگا تو پھر کب ھوگا
شام ڈھل رھی تھی اور پرندوں
کی قطاریں آسمان پر رخت
سفر باندھے گھونسلوں کو لوٹ
رھیں تھیں بہت دلفریب منظر
تھا شاہد کی پیش گوئی سچ
ثابت ھو رھی تھی وہ مجھے
آسمان کی طرف دیکھتے ھوۓ
بوال ذیشان کیا دیکھ رھے ھو
تو میں بوال شاہد یار بال کا
حسن ھے تیرے گاؤں میں شاہد
کیوں مان گئے نہ جو مزہ پنڈ
میں ھے وہ نہ شہرمیں ھے نہ
ٹنڈ میں ھے
شاھد بوال ذیشان جگر ابھی تم
نے حسن دیکھا ھی کب ھے
میں بوال کیوں کیا ھوا تو وہ
بوال وہ دیکھ میں نے کھالے
کیساتھ بنی ڈنڈی پر دیکھا تو
دو حسین لڑکیاں ھمارے طرف
ھی آرھی تھیں ان کے کندھوں
پر کئ تھی جو کھیتوں کو
پانی لگانے کے استعمال میں
آتی ھے اردو میں شاید اسے
کسی بولتے ھیں
شاھد بوال اسمیں جو کالے
سوٹ والی ھے وہ انعم
شہزادی ھے اور جو اسکے
پیچھے والی ھے وہ لبنی
شہزادی ھے چاچے شیرو کی
دو ھی بیٹیاں ھیں جن کی
ادھر سات ایکڑ زمیں ھے جسے
اپنے باپ کیساتھ یہ بھی
کاشت کرتی ھیں میں بوال واہ
بھئ اب یہ کدھر جارھی ھیں
اس سے پہلے شاہد کچھ بولتا
وہ دونوں ھمارے عین سر پر
پہنچ گئیں اور شاہد کو بولیں
نوابزادے تم ادھر بیٹھے ھو
گھر نئیں جے جانا چاچی نے
مجھے کہا کہ اسکو جاتے ھی
بھیج دو دودھ نکالنا ھے
بھینسوں کا تو شاہد اٹھ کر
کھڑا ھوگیا اور بوال ہاۓ میری
راولپنڈی ایکپریس ذرا سانس
تو لے لو دودھ بھی نکال لوں
گا بھینسیں کونسا بھاگی
جارھی ھیں انعم شاہدکی
ذومعنی بات سن کر بولی یہ
اجنبی کون ھے تو اس نے میرا
تعارف کرواتے ھوۓ کہا یہ
ذیشان رفیق ھے اس گاؤں کا
نیا کسان اور نیا باشندہ اور
ذیشان یہ ھمارے شیرو چاچا
کی بڑی بیٹی انعم شہزادی
اورمیں لبنی شہزادی دوسری
نے اپنا تعارف خود ھی کرو دیا
تو میں بوال جی انعم ویسے آپ
کو ڈر نہیں لگتا اتنے رات گئے
کھیتوں میں
میری بات کاٹتے ھوۓ لبنی
بولی اج ساڈی پانی دی واری
اے اسیں پانی الن چلیاں واں
یعنی اسکامطلب تھا کہ آج
ھماری کھیتوں کو پانی دینے
کی باری ھے اور ٹائم پیریڈ ھے
سات بجے سے نوبجے تک ھمارا
باپ اکیال ھوتا ھے اور ھم نے
اپنی تعلیم مکمل کرلی ھے اور
اب انہیں ریسٹ دیا ھے اور اب
ھم فارمر ھیں انعم نے سینے کو
تان کر کہا تو میں سوچنے لگا
کہ جب کسان اتنے حسین ھوں
تو گھوبھی کتنی حسین ھوگی
مجھے سوچوں میں گم دیکھ
کر انعم شہزادی بولی ذیشان
صاحب آپکی زمین کدھر ھے تو
شاہد نے کہا انعم آپکا جو
سبزی واال ایکڑھے جس پر
امرودوں کے دو پودے بھی
ھیں دراصل اسکے اگلے کھیت
ذیشان کے ھیں اس کا ابو
ریٹائرڈ فوجی ھے اور اس کے
ماموں نے اسے یہ زمیں خرید
کر دی ھے جس اب ذیشان آباد
کرے گا
انعم بولی تو تم بھی آرمی
جوائن کرلیتے تو لبنی بولی
اسکا نشانہ کچا ھوگا اس لئیے
کسان بن گیا بے چارۂ تو میں
بوال نشانہ تو میرا بہت پکا ھے
کبھی آزما کر تو دیکھ لومیری
بات سن کر وہ شرما سی گئ
اور انعم بولی کاشتکاری میں
اب کسانوں کو کچھ نہیں بچتا
ڈے اے پی بوری سات ھزار
سے تجاوز کرگئ ھے سارا اناج
تو آڑھتی خرید لیتے ھیں اور
دام کماتے ھیں کسان بے چارہ
تو محنت ھی کرتا رہ جاتا ھے
میں بوال میں ایک الگ ذھن کا
بندہ ھوں دیکھنا اس فیلڈ میں
بھی بہت کچھ الگ سے کروں
گامیرے پاس وسیع پالن ھے
جس سے میں کسان کی زندگی
خوشحال بنا سکتاھوں تو انعم
بولی آپکی پرفامنس بھی
دیکھ لینگے اور لبنی کو بولی
چل نی چلئیے انکی باتیں ختم
نہیں ھونی انعم نے اپنے ایک
ہاتھ میں ٹار چ پکڑی ھوئی
تھی اور دوسرے میں کئ
پکڑے آکے چل پڑی اس کے
پیچھے پیچھے ناک چڑھی لبنی
اپنے ہاتھ میں چاۓ کا
تھرماس پکڑ کر آگے بڑھ گئیں
انکے آ گے بڑھتے ھی میں شاھد
کو بوال یار ان کو ڈر نہیں لگتا
اگر سانپ نکل آۓ تو پھر کہاں
جائینگی بے چاری تو شاھد بوال
اوہ میرے بھولے بادشاہ اس
انعم نے بہت دفعہ سانپ مارے
ھیں اور یہ کھیتوں میں بچپن
سے ھی آرھی ھیں اسی لئیے ڈر
کا تناسب بہت ھی کم رہ گیا
..ان کے ذھن میں
شاہد اپنے گھر چال گیا اور میں
اپنے گھر چال گیا اور ان دو
شہزادیوں کے بارے میں
سوچتا رھامیرا دل کر رھا تھا
کہ میں انکی مدد کروں مگر وہ
بہت خود دار تھیں شاید مدد
کی پیشکش ٹھکرا دیتیں میں
اس رات جلد سو گیا کیونکہ
حویلی نما اس گھر میں شہر
کی طرح پرسکون رات کی
سیاھی پوری طرح سے پھیل
...چکی تھی
اردو رومانٹک بولڈ اور خوفناک
کہانیاں اور ناول پڑھنے اور
وٹس ایپ پر حاصل کرنے کے
لئیے وٹس ایپ پر ناول کا نام
لے کر طلب کریں
میں صبح جب اٹھا تو ھمارے
گھر کے سامنے بیری کے درخت
تھے ان پر چڑیاں چہچہا رھی
تھیں اور کوئل کی کوک سنائی
دے رھی تھی میرا گاؤں میں
آج ایک ھفتہ مکمل ھوگیا تھا
اور آج پہلی صبح میری آنکھ
جلد کھل گئ تھی تو میں نے
سوچا چلو مارننگ واک کرنے
جاتا ھوں میں نے ٹی شرٹ
پہنی اور پھر واش روم جاکر
ھاتھ منہ دھویا اور باھر کا بڑا
گیٹ کھوال اور باہر نکل گیا
میرا کمرہ اوپر والے پورشن
میں تھا اور ممی پاپا نیچے
والے دو روم میں رھتے تھے اور
گھر کے پچھلے گیٹ کیساتھ
مامو سمیر کا روم تھامیرا
ماموں ھمارے ساتھ رھتا تھا
کیونکہ انکی اپنی اوالد نہیں
تھی اور انکی وائف پچھلے
.سال ھی چل بسی تھی
خیر سب گھر والے صبح کی
وقت خواب خرگوش تھے تو
میں نے جب اپنے روم کے گالس
ڈور سے لوگوں کو واک کرتے
دیکھا تو میرا دل بھی واک
کرنے کو کیا اور میں نکل گیا
پھر اور یہ میری پہلی واک
تھی میں سلو موشن میں
گنگناتا ھوا ایک طرف بھاگتا
ھوا جارہا تھا کھیتوں کی
پگڈنڈیوں پر سرسبز گھاس
میرے نرم پاؤں کو ٹھنڈک
پہنچا رھی تھیں گھاس ھر سو
ایک دلفریب نظارہ پیش کرتی
جب ان پر پڑی شبنم چمک
دمک دکھا رھی ھوتی میں
پرندوں کے منفرد سنگیت اور
شور کو سنتا ھوا اب اپنے
کھیتوں سے نکل کر انعم
شہزادی کے امردوں والے ایریا
میں آ گیا تھا سامنے امرودوں
کے کچھ پیڑ نظر آرھے تھے جو
اپنی بہار کے کچے پکے
امرودوں سے لدے ھوۓ تھے تو
میں نے دل ھی دل میں سوچا
اچھا ذیشان کاکا یہ ھیں تیری
محبوبہ انعم شہزادی کے
امرودوں کے درخت اور ساتھ
ھی میں نے ایک امرود توڑ لیا
اور دانتوںتلے کڑ چ کرکے اپنے
منہ میں اسکا میٹھا پن
محسوس کرنے لگا ہاۓ انعم
تیری طر ح تیرے سارے امرود
بھی میٹھے ھیں پھر میرے دل
نے کہا اوۓ ظالماں اسے تو پتہ
ھی نہیں ھے اور تم اسے اپنی
محبوبہ مان رھے ھو میں نے
اسی پگڈنڈی کو پکڑا اور
سیدھا نہر کے پل کی طرف
دوڑنے لگا
امرودوں والی یہ وٹ جسے
اردو میں پگڈنڈی یا ڈنڈی
بولتے ھیں سیدھا ھمارے اور
انعم کے کھیتوں کی طرف سے
نکل کر ایک چھوٹی نہر پر
چلی جاتی میں اسی وٹ پر
دوڑتا جارھا تھا آس پاس
بوڑھے جوان اور عورتیں بھی
اس حسین صبح کا درشن کرتے
ھوۓ میڈم پیس پر بھا گ
رھی تھیں مجھے یہ نظارہ
پہلی بار دیکھنے کو مال تھا
مجھے یقین نہیں ھورھا تھا کہ
ھمارے پاکستان کے دیہاتی
لوگ بھی واک کرنے کی اہمیت
سے پوری طر ح سے واقف ھیں
شکر ھے ان کو بھی احساس
ھے فٹنس کا خیر کھلی فضاؤں
میں خاص کرکے صبح کی
رننگ کا اپنا ھی مزہ ھے جب
بھاگتے ھوۓ آپکے پھیپھڑے
تازہ ھوا حاصل کرتے ھیں اور
سرسبز و شاداب فصلیں نظر
کو بڑھا دیتی ھیں
گاؤں کے افرا اسی وجہ سے
تندرست اور توانا ھوتے ھیں کہ
وہ کثرت سے واک کرتے ھیں
اور شہر کے لوگ بہت کم واک
کرتے ھیں اسی لئیے عمر سے
بڑے انکے پیٹ ھوتے ھیں
سارے نہیں تو بہت زیادہ لوگ
موٹاپے کا شکار ھو جاتے ھیں
اگرچہ اسمیں فاسٹ فوڈ اور
میٹھے کا بہت زیادہ رول
امرودوں والی یہ وٹ جسے
اردو میں پگڈنڈی یا ڈنڈی
بولتے ھیں سیدھا ھمارے اور
انعم کے کھیتوں کی طرف سے
نکل کر ایک چھوٹی نہر پر
چلی جاتی میں اسی وٹ پر
دوڑتا جارھا تھا آس پاس
بوڑھے جوان اور عورتیں بھی
اس حسین صبح کا درشن کرتے
ھوۓ میڈم پیس پر بھا گ
رھی تھیں مجھے یہ نظارہ
پہلی بار دیکھنے کو مال تھا
مجھے یقین نہیں ھورھا تھا
کہ ھمارے پاکستان کے دیہاتی
لوگ بھی واک کرنے کی اہمیت
سے پوری طر ح سے واقف ھیں
شکر ھے ان کو بھی احساس
ھے فٹنس کا خیر کھلی فضاؤں
میں خاص کرکے صبح کی
رننگ کا اپنا ھی مزہ ھے جب
بھاگتے ھوۓ آپکے پھیپھڑے
تازہ ھوا حاصل کرتے ھیں اور
سرسبز و شاداب فصلیں نظر
کو بڑھا دیتی ھیں گاؤں کے
افرا اسی وجہ سے تندرست
اور توانا ھوتے ھیں کہ وہ
کثرت سے واک کرتے ھیں اور
شہر کے لوگ بہت کم واک کرتے
ھیں اسی لئیے عمر سے بڑے
انکے پیٹ ھوتے ھیں سارے
نہیں تو بہت زیادہ لوگ
موٹاپے کا شکار ھو جاتے ھیں
اگرچہ اسمیں فاسٹ فوڈ اور
میٹھے کا بہت زیادہ رول ھے
گاؤں کے لوگ فاسٹ فوڈ کو
بہت زیادہ نہیں کھاتے اور پہلے
پہر ھی سو جاتے ھیں دوستو
گاؤں میں رات اور دن کا الگ
الگ پتہ چلتا ھے آسمان پر رات
کو تارے ھوتے ھیں اور دن کو
دوستوں کی محفل بھی میسر
آجاتی ھے مگر شہر میں گزرتے
وقت کا احساس نہیں ھوتا
وقت سپیڈ سے گزرتا ھے اور
مل بیٹھنے کی گھڑیاں بہت کم
میسر آتی ھیں اسی لئیے ہر
بندہ تنہائی اور ڈپریشن کا
شکار رھتا گاؤں کے لوگ فاسٹ
فوڈ کو بہت زیادہ نہیں کھاتے
اور پہلے پہر ھی سو جاتے ھیں
دوستو گاؤں میں رات اور دن
کا الگ الگ پتہ چلتا ھے آسمان
پر رات کو تارے ھوتے ھیں اور
دن کو دوستوں کی محفل بھی
میسر آجاتی ھے مگر شہر میں
گزرتے وقت کا احساس نہیں
ھوتا وقت سپیڈ سے گزرتا ھے
اور مل بیٹھنے کی گھڑیاں بہت
کم میسر آتی ھیں اسی لئیے ہر
بندہ تنہائی اور ڈپریشن کا
شکار رھا ہے ۔
میں بھاگتا ھوا اب نہر کے
قریب پہنچ چکا تھا میرے دل
کی دھڑکن تیز چل رھی تھی
اتنی دور سے بھاگتا ھوا آرہا
تھا اور یہ دھڑکن اب اور بھی
تیز ھوگئ جب سامنے سے انعم
اور لبنی بھاگتی ھوئی آرھی
تھیں اور لبنی اسکے آ گے آگے
دوڑتی آرھی تھی اور انعم
تھوڑی دھیرے دھیرے بھاگ
رھی تھی اور بلیک کلر کی کٹ
ان دونوں نے زیب تن کی ھوئی
تھی دونوں کی عقابی نظروں
نے مجھے دیکھ لیا اور میں
اس سویر کو سالم پیش کرتے
ھوۓ ان دونوں کے قریب جا
کھڑا ھوا ہاۓ کیا منظر تھا
دونوں طرف اکھڑی ھوئی
سانسیں تھیں بس نظریں ایک
ھوئیں اور انعم ہانپتے ھوۓ
بولی اوۓ تو وی اسی سائیڈ
تے واک کرنا ایں بہت سانس
چڑھا ھوا ھے نکے فوجی کو
مجھے انعم کی بات سن کر
بہت ھنسی آئی اور مجھے بہت
اچھا لگا کیونکہ اس نے میری
شناخت یاد رکھی کہ میں
فوجی کا بیٹا ھوں
میں بوال جناب آج ھی واک
کرنے آیا ھوں اور آج صبح کا
درشن بہت اچھا ھوا تمہارا
چہرہ دیکھ لیا میری بات سن
کر لبنی مسکرا دی اور بولی
واہ اے گالں وی کرلینداے میں
بوال جی کرلیتا ھوں باتیں اگر
کوئی کرنے دو تو پھر میری
بات سن کر حیا کی اللی انعم
کے گالوں پر امڈ آئی تھی وہ
کچھ سبنھلتی تو میں نے کہا
مجھ سے دوستی کروگی اور
اپنا ھاتھ بڑھا دیا اسکی طرف
وہ تو پہلے چھوئی موئی بن
کربیٹھی تھی بے چینی کے
عالم میں اس نے بھی اپنا ہاتھ
میرے ہاتھ میں دے دیا اور
بولی میں ایسی ویسی لڑکی
نہیں ھوں ذیشان اپنے باپ کی
تپگ ھوں میں
مجھے بدنام م
کرنا
میں بوال میرا باپ فوجی ھے
اور میں ایک فوجی کا خون
ھوں محبت اور دوستی اصول
کیساتھ کروں گا دھوکہ دینا
میری فطرت نہیں اور آپ میرا
چناؤ کرکے فخر محسوس
کروگی میں بھی تمکو بہت
پسند کرتی ھوں میری چاھت
کا مان رکھنا
لبنی بولی واہ ذیشان بھائی
آپکا پرپوز کرنے کا انداز بہت
پسند آیا میں نے اسکا ہاتھ
چھوڑا اور وہ آ گے بڑھ گئیں
اور بولیں سوری ھم نے جاکر
بھی دودھ بھی نکالنا ھے پھر
مالقات ھوگی اور وہ چلی
گئیں میں تھوڑا آگےگیا تو وہ
اپنے گھر کو چل پڑیں...دراصل
انعم سے ایک دو مالقاتیں ھو
چکی تھیں میری اور میں
محسوس کیا کہ محبت کی
چنگاری ادھر بھی سلگ رھی
ھے اسی لئیے میں نے پرپوز
کردیا کہ ھوسکتا ھے انعم مان
جاۓ میرا اندازہ صیح ثابت ھو
رہا تھا وہ بھی چوری چوری
مجھے دیکھ رھی تھی اور میں
بھی ۔
میں جب واپس آیا تو مما
ناشتے کی میز پر میرا انتظار
کر رھی تھیں ھم نے ناشتہ کیا
اور پھر ابو پوچھنے لگے کہ
ذیشان بیٹا کیسے لگے گاؤں کے
لوگ اور کیا تم خوش ھو یہاں
تو میں بوال جی پاپا میں اس
نئ شروعات سے بہت خوش
ھوں تو پھر کیا پالن ھے ابا
جان میں بوال
اباجان بولے پالن یہ ھے کہ
کسان زمین کا سینہ چیر کر
اناج اگاتا ھے اور میں اس
عمرمیں زمیں کا سینا چیرنا
میرے بس کی بات نہیں ھے
میری ماں بولی میرا پتر بہت
سیانا ایں آپے کرلے گا سب
تسی فکرنہ کرو
ایک دن میں کھیتوں میں جوار
کے کھیتوں سے ھوتا ھوا اپنے
دوست شاہد کی طرف جارھا
تھا دوپہر کا وقت تھا ستمبر
کی نیم گرم دھوپ تھی اور
اتنی زیادہ گرمی نہیں تھی
فصلیں جوان ھوچکیں تھیں
ان کے درمیاں سے گزرتے ھوۓ
بھی خوف آتا تھا
میں جب جوارکی فصل کے
درمیان پہنچا تو مجھے ایک
نسوانی آواز سنائی دی اور
کچھ گڑ بڑ سی محسوس
ھوئی اور میری چھٹی حس نے
محسوس کیا کہ ضرور اس
جوان فصل میں کوئی پریمی
جوڑا ھے مگر ھے کدھر اس کا
معلوم کرنا میرے لئیے مشکل
تھا میں نے ان کی پیش قدمی
جاری رکھنے کا فیصلہ کیا
میں نے کان لگا کر سنا تو مکئ
کی فصل میں کچھ کھسر پسر
اب سسکیوں میں بدل چکی
تھی مجھے اس طرح اوپن
ماحول میں اس طرح کی
مدھوش سسکیاں بہت متاثر
کر رھی تھیں
میری عقل نے کام کیا میں نے
نیچے بیٹھ کر جوار کے پودوں
کے درمیانی فاصلوں سے
دیکھنا شرو ع کیا تو ایک
طرف مجھے ایک لڑکی گھوڑی
بنے ھوۓ نظر آئی..مجھے
تعجب ھورہاتھا کہ ایک تو
پاگل اوپن سیکس کر رھے ھیں
اور دوسرایہ ڈر ذرا بھی نہیں
کہ پکڑے جائینگے تو پھر کیا
ھوگا دور کسی نے کھیتوں میں
ہل چالتے ھوۓ سرائیکی گانا
لگایا ھوا تھا ونگاں لے بھانویں
لے چھال سوہنا ڈھول چل دویں
چلئیے سنارے کول جسکی آواز
دور تک جارھی تھی میں
سمجھ گیا کہ چودنے واال
کوئی جدید قسم کا لونڈا ھے
جسکو شاید معلوم تھا کہ ادھر
کسی نے نہیں آنا اور لڑکی بھی
شاید دیسی پورن سٹار تھی
جو شاید سمجھ رھی تھی کہ
ٹریکٹر پر لگے اس گانے کے شور
میں بھال کون سنے گا اسکی
شہوت بھری سسکاریاں
مگراسے کیامعلوم تھا کہ آج
چھاپہ پڑ چکا ھے میں رینگتے
رینگتے ان کے بہت قریب تر چال
گیا تھا میں نے جب دیکھا تو
میرے حوش وحواس گم ھو
گئے یہ لڑکا کوئی اور نہیں تھا
میرا دوست نوابزادہ شاہد ھی
تھا اور لڑکی ھمارے قریبی
گھر کی نادیہ تھی
میں چپ چاپ دیکھتارھا اور
نادیہ کی شلوار پر جب میری
نظر پڑی تو میں نے وہ اٹھالی
اور تب شاہد نے اپنالنڈ اسکی
چوت سے نکاال اور نیچے
گھاس پر اپنا پانی گرا دیا تب
میں بولے شاباش تمہارے شرم
نہیں آتی تم دونوں کو تو شاہد
....کا رنگ اڑ گیااور
وہ بوال ذا ذا ذیشان تت تت
تم میں نے اسے میں نے اسے
آنکھ ماری اور کہا آپ لوگ
شرم کرو کچھ اور نادیہ تمہیں
شرم نہیں آتی تم نے یہ کب سے
شرو ع کر رکھا ھے وہ مجھے
دیکھ کر بہت ڈرگئ اور بولی
پلیزمیری شلوار تم واپس کردو
اور مجھے جانے دو تومیں نے
اسے کہا ایسے کیسے جانے دوں
آپکو شاید یہ نہیں معلوم کے
پکڑے جانے پر حصہ دینا پڑتا
ھے تم مجھے ایک بار کرنے دو
پھر بیشک چلی جانا تو وہ
بولی نہیں ذیشان تم تو میرے
بھائیوں جیسے ھو تم میرے
...ساتھ ایسامت کرو
میں بوال بھائی کا اندر نہیں
جاتا اور میں کب سے تمہارا
بھائی ھوگیا اور چل جلدی کر
اور مجھے بھی کرنے دو ورنہ
میں نے جو ویڈیو بنائی ھے وہ
نیٹ پر اپلوڈ کردوں گا تو وہ
بولی نہیں ذیشان تم ایسامت
کرنا میرا منگیتر مجھے مار
ڈالے گا اور میرا رشتہ بھی
ٹوٹ جاۓ گا تو میں بوال پھر
تم میری بات مان لو میں کسی
....کو نہیں بتاؤں گا
وہ بولی کہ پکا تم کسی کو
نہیں بتاؤ گے توشاہد بوال نادیہ
ذیشان میرا دوست ھے اگر تم
اسے دے بھی دوگی تو آپکا
کچھ نہیں جاۓگا بلکہ اسکا
منہ بند ھوجاۓگا نادیہ بولی
اچھا ٹھیک ھے میں نے نادیہ
کو اپنی بانہوں کے حصارمیں
لےلیا اور اسے چومنے لگا
نادیہ مزے سے سسکاریاں
بھرتی ھوی پھدی سے پانی کا
سیالب نکال کر میرے لن کو
متاثر کرتی رھی ۔
میں نے.نادیہ کے مموں کو
چھوڑا اور اسکو کندھوں سے
پکڑ کر اوپر کو کھینچا اور
اسکو اٹھا کر بیٹھا دیا ۔
اور .نادیہ کی قمیض پکڑ کر
اتارنے لگا تو .نادیہ بولی نہیں
ذیشان قمیض نہیں اتارنی
کوئی آگیا تو اتنی جلدی
سنبھال نہیں جانا میں نے کہا
....یار کوئی نہیں آتا
نادیہ بولی ایسے ھی اوپر کر لو
مگر میرے اصرار پر اسے ہار
ماننی پڑی اور یہ کہتے ھوے
اس نے بازو اوپر کردیے کہ
مرواو گے مجھے
میں
نے بنا کچھ بولے اسکی قمیض
پکڑ کر اوپر کر کے اسکے سر
سے نکال دی باقی کی اس نے
خود ھی بازوں سے نکال کر
سیدھی کر کے پھینک دی میں
نے جلدی سے اپنی شرٹ اتاری
اور اسکی قمیض کی طرف
پھینکنے لگا تو .نادیہ نے میری
شرٹ راستے میں ھی کیچ کر
کے پکڑ لی اور شرٹ کو سیدھا
کر کے پھر اپنی قمیض کے اوپر
پھینک دیا ۔
نادیہ کا دودھیا ممے کالے
بریزیر میں چمک رھے تھے۔
نادیہ کا جسم دیکھا تھا تو
عجیب سی کیفیت ھورھی
تھی جیسے پہلی دفعہ اسکا
گورا جسم دیکھ رھا ھوں
.نادیہ نے جب میری نظروں کو
اپنے مموں کو گھورتے دیکھا تو
بریزیر کی طرف اشارہ کر کے
بولی اسے بھی اتار دوں کہ
ایسے ھی کام چل جاے گا ۔
نادیہ کی طنز پر مجھے ہنسی.
آگئی میں نے مسکراتے ھوے
کہا
اتار دو گی تو مہربانی ۔
عرصہ دراز سے دودھ کے
پیالوں کا درشن نصیب نہیں
ھوا۔۔
نادیہ طنزیہ انداز میں.
مسکراتے ھوے ھاتھ پیچھے
کمر کی طرف لیجاکر بریزیر کی
ہک کھولتے ھوے مموں پر آے
اپنے سلکی اور لمبے بالوں کو
جھٹک کر پیچھے لیجاتے ھوے
بولی لو کرلو درشن تم خوش
ھو جاو۔
اس کے ساتھ ھی بریزیر کی
ہک کھلی اور بریزیر نے مموں
کو رھائی دی ۔
اور .نادیہ نے بڑے نخرے اور
ادا سے بریزیر کو بازوں سے
باری باری نکاال اور بڑا احسان
کرتے ھوے مموں کے آگے سے
پردہ ہٹا کر مموں کو جلوہ گر
کیا۔
اففففففف کیا چٹے سفید ممے
گول مٹول اوپر ہلکے براون
رنگ کا گول دائرہ اوپر چھوٹا
سا مگر تنا ھوا نپل مموں پر
بریزیر کے نشان مموں کے
احساس نرم نازک ھونے کی
دلیل پیش کررھے تھے ۔
بریزیر پھینکتے ہی دھڑام سے
پیچھے تکیے پر سر کو گراتے
ھوے جب لیٹی تو
اففففففففففف کیا سین تھا کیا
نظارا تھا کیا غضب ڈھاتے
ھوے ممے چھلکے جیسے ابھی
سارا دودھ باہر کو گر جاے گا۔
نادیہ جس انداز سے پیچھے کو
گری اسکے گول مٹول نرم ممے
بھی اپنے بڑے اور جوان ھونے
کا احساس دالتے ھوے چھلک
رہے تھے۔
مموں کا یہ منظر دیکھ کر
میرے ھاتھ خود با خود مموں
کی طرف بڑھے اور میرے
ھاتھوں نے ان چھلکتے جاموں
کو مٹھیوں میں بھینچ لیا
اففففففف کیا سوفٹنس تھی
کیا سیکسی ممے تھے میں مزے
لے لے کر مموں کو مٹھیوں میں
بھینچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ
انگوٹھوں سے مموں پر لگے
انگور کے دانوں پر مساج کر
رھا تھا
نادیہ پھر تتڑپنے لگ گئی اسکی
آنکھوں میں نشے کے ڈورے
تیرنے لگ گئے آنکھوں اور
گالًو ں کی اللی بڑھنا شروع
ھوگئی .نادیہ کی سانسیں تیز
اور منہ سے سسکاریاں بلند ہونا
شروع ھوگئی ۔
نادیہ کو لٹا دیا اور وہ شرماکر
بولی ذیشان تم نے آرام آرام
سے کرنا ہے میں بوال کہ تم فکر
مت کرو میری جان ِپ ھر نادیہ
نے کہا آہستہ اندر کرو میں نے
آہستہ آہستہ لن کو اندر دبانا
شروع کیا نادیہ نے اپنے ہاتھ
بھی میرے سینے پے رکھے ہوئے
تھے تا کہ میں زیادہ زور سے
جھٹکا نہ مار سکوں اس سے
ظاہر ھورہا تھا کہ وہ ایک
پورن سٹار تھی مطلب وہ
تجربہ کار تھی
میں اب اپنالنڈ آہستہ آہستہ
نادیہ کے اندر کر رہا تھا تقریبًا
میرا 2انچ سے زیادہ لن اندر
جا چکا تھا لیکن نادیہ کا منہ
الل سرخ ہو چکا تھا آنکھیں
اور زیادہ پھیل گئی تھیں .اور
درد اس کے چہرے پے عیاں
تھاجب میرا آدھا لن اندر گھس
چکا تھا تو نادیہ نے مجھے
روک دیا اس کی آنکھوں میں
نمی تھی مجھے اس پے بہت
پیار آیا ساتھ کھڑا ھوا شاہد
بوال سالے کڑی مارنی آں اپنی
باجی سمجھ کے کر تو بوال یار
تم تو وٹ پر جاؤ ورنہ پھر
کوئی آجاۓگا میں نے کہا میں
...اور اندر نہیں کرتا ہوں
بس یہاں تک ہی اندر باہر کر
لیتا ہوں .تو نادیہ درد بھری
آواز میں بولی نہیں ذیشان لن
تو میں اب تمہارا پورا اندر لے
کر رہوں گی چاہے جتنی مرضی
درد ہو لیکن تم تھوڑا رک جاؤ
مجھے تھوڑا سا سکون ملنے دو
ِپ ھر دوبارہ اندر کرنا .میں ِپ ھر
وہاں تھوڑی دیر رک گیا کچھ
منٹ مزید انتظار کے بعد نادیہ
نے کہا ذیشان اب اندر باہر کرو
لیکن مجھ سے بار بار کا درد
برداشت نہیں ہوتا بس باقی کا
لن ایک ہی جھٹکے میں اندر
کردو .میں نے کہا نادیہ جی
سوچ لو تو اس نے کہا میں نے
سوچ لیا
اب بس ایک جھٹکے میں اندر
کر دو .میں نے آگے ہو کر
اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹ
میں بھینچ لیا اور ِپ ھر اپنے
بازو نادیہ کی کمر میں ڈال کر
ایک زور دار جھٹکا مارا میرا
پورا لن نادیہ کی پھدی کو
چیرتا ہوا اندر گہرائی میں ُا َت ر
گیا اسکا منہ میرے منہ میں
ہونے کی وجہ سے اس کی ایک
زور دار چیخ میرے منہ میں ہی
رہ گئی لیکن اس کی آنکھوں
سے پانی کا سیالب نکل آیا تھا
وہ دردسےبلبال اٹھی تھی اور
اس نے مجھے پیچھے سے میری
کمر میں ہاتھ ڈال کر جھکڑ لیا
تھا اور سختی کے ساتھ اپنے
ساتھ چمٹا لیا تھا .میں بھی
کافی دیر تک اس کے اوپر
ایسے ہی پڑا رہا اور ہال نہیں
تقریبًا 10منٹ کے بعد درد
بھری آواز آئی یار آج تو تم
دونوں نے میری جان نکال دی
ہے .لن پھدی کے اندر جکڑا ھوا
محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے
کوئی لوہےکی گرم بھٹی میں
ڈال دیا گیا ھو لن اسکی پھدی
کوِچ یر تا ہوا اندر گھس گیا .
میرے لن میں بہت سخت جلن
. ہو رہی ہے
میں نے کہا نادیہ جان یہ درد
ھوتا ھے تم ذرا سا تھوڑا سا
صبر کرو ابھی یہ درداور جلن
کم ہو جائے گی یہ ایک دفعہ
ہی ہوتی ہے ِا س کی بعد تو مزہ
ہی مزہ ہے ِ .پ ھر میں مزید 5
منٹ تک کوئی حرکت نہ کی .
کچھ دیر بعد نادیہ نے کہا
ذیشان اب تم آہستہ آہستہ
میرے اندر باہر کرو میں نے
اپنے جسم کو حرکت دی اور
اپنے لن کو آہستہ آہستہ اندر
باہر حرکت دینے لگا میں تقریبًا
5سے 7منٹ تک لن کو آرام
سے اندر باہر کر رہا تھا اب لن
نے اپنا رستہ بنا لیا تھا اور لن
آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا
اور اسکی درد بھری سسکیاں
بھی اب لّذ ت میں َب َد ل رہیں
تھیں میں اسکو چودنے میں
مصروف تھا دور سے کہیں
ٹریکٹر کے اوپر لگے سونگ
نیڑے آہ آہ ظالماں وے لگا ھوا
تھا
میں بھی مستی میں مفت میں
ملی اس چوت کا مزہ لینے لگا
میرے گھسے مارنے کی وجہ
سے جوار کے کچھ پودے ٹوٹ
پھوٹ گئے تھےِ پ ھرنادیہ کو
بھی شاید تھوڑی راحت
محسوس ہو رہی تھی اس نے
اپنی ٹانگوں کو میری کمر کے
پیچھے کر کے جڑولیا اور بولی
ذیشان اب تھوڑا تیز کرو اب
مزہ آ رہا ہے .میں نے اپنی
رفتار میں تھوڑی تیزی لے آیا
تھا .نادیہ کے منہ سے ہی
سسکیاں نکل رہیں تھیں آہ اوہ
آہ آہ آہ ذیشان مار ڈاال یار اوہ
اوہ آہ ِ .پ ھر میں نے دیکھا ا
سکو مزہ آ رہا ہے میں اور تیز
تیز جھٹکے مارنے لگا نادیہ بھی
اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر لن اندر
کروا رہی تھی وہ بولی آہ آؤچ
ذیشان مے ڈسچارج ھوگئ ھوں
میں نے اپنا لنڈ باہرنکال لیا اور
ایک زور دار پریشر نکال اور
میں ایک دم سے خوش باش
ھوگیا میں اپنے آپ کو صاف
کرکے باہر نکلنے لگا تو میں نے
نادیہ سے کہا کہ اس بات کا
ذکر کسی سے مت کرنا تو وہ
بولی میں نے بھال کسی کو بتا
..کر مار کھانی ھے
میں نے اسے ایک کس کی اور
پانچ سو کا نوٹ اسکی مٹھی
میں دے دیا وہ بولی نئیں
ذیشان بھال آپ نے تو مجھے
طوائف سمجھ لیا میں نے
اسکا گال اپنے ھاتھوں سے
سہالنے لگا اور بوال میری جان
میں نے تجھے کب طوائف کہا
آپ تو میری جان ھو آپ نے
رضامندی کیساتھ مجھے موقع
فراہم کیا کہ میں آپکے جسم کا
.رس پی سکوں
میں_نے کہا کہ تم اس سے
کوئی چیز کھالینا تو وہ میرے
ہاتھ سے پانچ سو پکڑ کر چلی
گئ اور شاہد بوال سالے تو کدھر
سے آ گیا سارے رنگ میں بھنگ
ڈال دیا تم نے تو میں بوال
جناب قسمت میں ایک سانولی
سلونی لڑکی کی پھدی مارنا
لکھا تھا تو بس نکل آیا اس
طرف تم مجھے چھوڑو اپنا
بتاؤ کتنی لڑکیوں کو چود چکے
ھو اور سب سے پہلی بار کس
کی ٹانگیں اٹھائیں تھیں آپ نے
تو شاہد شرما کر بوال یار یہ
کونسا جیتو پاکستان پروگرام
کا سوال ھے جو میں بڑے فخر
سے بتا دوں کہ میں کتنی
لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا
ھوں تو میں بوال یار دوستی
بھی کوئی چیز ھوتی ھے تم
بتادو پھرمیں بتا دیتا
......ھوں
شاہد بوال اب تک صرف تین
لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا
ھوں میں نے بوال کون کون سی
ھم اس وقت چلتے چلتے انعم
کے امرودوں کے پودوں کی
طرف چلے گئے اور امرود توڑ
کر کھانے لگے اور پھر میرے
اسرار پر شاہد بوال کہ پہلی
بارلبنی کی سیل توڑی تھی اور
اسکی ٹانگیں اٹھائیں اور
دوسری بار نادیہ کے ساتھ کیا
تھا جب یہ مجھے ڈیرے پر
اکیلے میں مجھے ملی تھی میں
لبنی کا نام سن کر پریشان
ھوگیا اور بوال اب تیسری کون
.....ھے...تو وہ بوال کہ
شاہد میری بات سن کر بوال کہ
تیسری لبنی کی ایک دوست
ھے تو میں پھر بڑے اشتیاق
سے اسے پوچھنے لگا آپ کھل
کر بتاؤ اس کا نام کیا تھا تو
وہ بوال یار ذیشان تم میرا سارا
ڈیٹا اکٹھا کرنے لگ پڑے
چھوڑو اس بات کو کسی اور
موضوع پر بات کر تے ھیں تو
میں بوال اگر تم نے نہ بتایا تو
میں تم سے ناراض ھو جاؤں گا
میری بات سن کر شاہد بوال
سالیا تو نادیہ اور لبنی کا تو
پوچھ چکا اب کیوں تیسری کا
نام سننے کے لئیے اتنا باؤلہ ھو
چکا ھے
میں اٹھ کر شاہد کے پیچھے
لگ گیا اور بوال ٹھہرو تیری تو
تجھے میں بتاتا ھوں اتنی بات
سننا تھا کہ شاہد میرے آ گے
آگے اور میں اس کے پیچھے
بھاگنے لگے مجھے غصہ آرہا تھا
کہ شاید شاہد نے انعم کو بھی
چود ڈاال ھو اور اسی وجہ سے
مجھے نہیں بتارہا کہ میں انعم
کو پسند کرتا ھوں جیسے میاں
صاحب کا ایک شعر ھے جو
آپکی نذرکرتا ھوں
جو وی کسے دا عاشق ھوندا
اوسے دی اوہ گل کردا
سو سو مکر بہانے کرکے اوہدے
مرنے مردا
قصہ مختصر دوستو شاعرکہتا
ھے جب پیار ھوجاتا ھے کسی
سے تو دنیاکی سب باتیں اسی
کی باتیں لگتی ھیں ھم چھوٹے
سے کھالے کے ساتھ بنی
پگڈنڈی پر بھاگ رھے تھے گاؤں
کی طرف اور شاہد بوال بچو تو
مجھ نہیں پکڑ سکتا میں ان
کچے راستوں کا پکا کھالڑی
ھوں تو تم ٹھہرے شہری بابو
پیزا ہٹ کی پیداوار میں بوال
تم رکو تو سہی میں نکالتا ھوں
تمہارا دیسی پن ھم جب گاؤں
کی پہلی گلی میں داخل ھوۓ
تو سامنے سے لبنی آرھی تھی
اپنے پانچ چھے بھینسوں کو
لیکر جسے وہ نہر پر لے جاکر
نہالتی اور کچھ دیر ان کو
.....چراتی تھی اور
پھر واپس اپنے باڑے میں لے
جاتی تھی اور باندھ دیتی یہ
اس کا روز کا معمول تھا اور
آج وہ ھمیں دیکھ کر بولی کہ
کدھر بھاگ کر جارھے ھیں
ھمارے سانڈ بہت مستی چڑھی
ھے تم دونوں کو تو میں بوال یہ
شاہد بہت شرارتی ھے تم اسے
بولو رک جاۓ تو شاہد بوال چل
سالے تم سے پکڑا ھی نہیں گیا
تم نہیں پکڑ سکتے تو میں
غصے سے شاہد کی ذومعنی
بات کا جواب دیتے ھوۓ بوال
کہ تمہیں تو عادت ھے پکڑنے
کی میں بھال کیوں پکڑوں ھم
ایک دوسرے کو پکڑنے کی
خاطر لبنی شہزادی کی
بھینسوں کے بیچ میں سے ادھر
ادھر بھاگ رھے تھے دوسری
طرف کاال سوٹ سر پر حیا کا
ڈوپٹہ پاؤں میں چم کا کھسہ
اور گورے گورے ہاتھوں میں
ایک بڑا ساڈندا ایسے پکڑا ھوا
تھا
جیسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی
کھالڑی ثنامیر ھو اور بیٹنگ
کرنے چلی ھو وہ ثنامیر تو نہیں
تھی البتہ لبنی شہزادی گاؤں
کی ایک الہڑ مٹیار تھی جو
ھمارے باتوں سے لطف اندوز
ھوتے ھوۓ بولی ویکھو کھاں
کیسے مستی چڑھی ھوئی ھے
ان دونوں سانڈوں کو لبنی
کیساتھ میں اتنا فری نہیں تھا
مگراسکی گالبی اردو سن کر
بوال اب سانڈ کی کو بھینس
ملے تو اسکو کچھ بنے تو وہ
بولے شرم نئیں آتی ایسی باتیں
کرتے ھو تم تو میں بوال شرم تو
بہت آتی ھے مگر جب حسن
اپنا سراپا لیکر دستک دے رہا
ھوں تو ڈور کھولنے واال خود
کو خوش نصیب ھی سمجھے
....گا
میں بوال تم بتاؤ کدھر جارھی
ھو اس وقت اور انعم کہاں ھے
تو وہ بولی انعم گھر پر ھے
اسے بخار ھے اسی لئیے تو
مجھے سب کچھ کرنا پڑ رہا
ھے اور ایک بوری بھینس کو
ڈنڈا مارتے ھوۓ بولی میں
انہیں نہر پر لیکر جارھی ھوں
کچھ دیر یہ ادھر گھاس چر
لینگی پھر انکو واپس لے
آئینگے تو میں بوال یار ھم کو
ایک اچھے گھرکی ضرورت ھے
جو دودھ فروخت کرتے ھوں
اور پانی سے پاک خالص دودھ
بیچتے ھوں تو وہ بولی ذیشان
ھمارا دودھ خالص ھوتا ھے تم
...لوگ ایک بار چیک کرلو تو
میں بوال صیح کہا تم نے لبنی
کسی دن چیک کروادو نہ تاکہ
اندازہ ھو سکے کہ آپکا دودھ
واقعی خالص ھے تو وہ بولی
تم مجھ سے ڈنڈا کھاؤگے تو
پھر عقل آۓ گی تمکو تو میں
بوال اب بھال میں نے کونسی
غلط بات کردی دودھ چیک ھی
تو کرنا ھے ارے یہ شاہد کدھر
بھاگ گیا تووہ بولی کہ شاہد
بھی اس وقت اپنی بھینسوں
کو نہر پر چرانے لے جاتا ھے آج
شاید تمہارے ساتھ باتوں
باتوں میں وہ لیٹ ھوگیا ھوگا
تبھی تو جلدی گھر بھاگ
گیا....
میں نے کہا تمہیں ڈر نہیں لگتا
اکیلی جاتی ھو چاروں طرف
فصلیں جوان ھیں مطلب کماد
چری اور جوار وغیرہ تو وہ
بولی کہ جب رات کو پانی
لگاتی ھوں تب ڈرنئیں لگتا اب
تو دن کی روشنی ھے اور میں
نے شام سے پہلے پہلے واپس آنا
ھے میں بوال انعم کو بولو نہ
کہ مجھے اس سے پیار ھوگیا
ھے تو وہ بولی تم خود بات کر
چکے ھوں اس سے اب میری
سفارش کی ضرورت نہیں ھے
تو میں بوال یار تم بتادو بندہ
واقعی معصوم ھے کھل کر
نہیں کہہ سکتا تو وہ بولی
ذیشان تم جاؤکسی نے دیکھ
لیا تو باتیں بنائینگے یہ گاؤں
ھے شہر نہیں یہاں پر سر راہ
لڑکی لڑکا باتیں کرینگے تو
گاؤں کے لوگ انہیں اچھا نہیں
سمجھتے تم گھر جاؤ اور
دودھ کی بات بھی فائنل کرلو
اور اپنی محبوبہ کا حال
احوال بھی پوچھ لو تومیں
بوال کہ آپکی بات میں دم ھے
مجھے اسکی باتوں کی سمجھ
لگ چکی تھی کہ وہ صیح کہہ
رھی تھی اور میں انکے گھر
چال گیا انعم کا گھر ایک
حویلی نما گھر تھا بہت کھلے
کھلے روم تھے اور گھر کے ایک
طرف بھینسوں کا اور بکریوں
کا باڑہ تھا تو دوسری طرف
انعم کے گھر کی باؤنڈری کی
شکل میں گول کمرے اور
صحن میں نیم کا درخت تھا
جب میں نے گیٹ پر دستک دی
تو اندر سے انعم اور لبنی کی
ماں باہر نکلی سرپر چادر اور
منہ پر نقاب ساکرکے بولی بیٹا
کون ھوتم اور کس سے ملنا ھے
تو میں بوال جی وہ وہ چاچا
شیرو صاحب ھیں گھر پر تو
وہ بولی کہ وہ گھر پر ھی
....ھیں
میں نے کہا ان سے ملنا ھے تو
انہوں نے کہا وہ سامنے برآمدے
میں لیٹے ھیں چلے جاؤ انکے
پاس تو میں چال گیا اندر اور
جاکر ایک موڑھے پر بیٹھ گیا
اور سامنے چارپائی پر بیٹھے
ایک شخص جو انعم کا باپ
تھا
ان سے ہاتھ مالتے ھوۓ تھوڑا
اونچی آواز میں بوال انکل جی
میں ذیشان ھوں اور پچھلے دو
ماہ سے آپکے ساتھ والے ڈیرے
پر آباد ھوا ھوں وہاں کچھ
زمین خریدی ھے اور آپکے
ساتھ کچھ دعاسالم کرنے چال
آیا انعم کا باپ کوئی چالیس
پینتالیس سال کاتھا اسکو ہل
چالتے ھوۓ کچھ چوٹیں آئی
تھیں جسکی وجہ سے وہ ان
فٹ تھے
ذیشان کا نام سن کر انعم
جلدی سے باہر آئی اس نے
بوال ذیشان تم اور یہاں تو..
اسکی ماں بولی انعم تم اسے
جانتی ھوں بیٹا تو انعم بولی
ماں یہ ھمارے ساتھ کالج میں
پڑھتے رھے ھیں تو انعم کی
ماں بولی یہ بڑی اچھی بات ھے
تو پھر ان کے لئیے کوئی چاۓ
وغیرہ کا بندوبست کرو بیٹا تو
وہ بولی کہ ابھی لیکر آتی
... ھوں ماں جی
انعم اندر چلی گئ اور میں
چاچا شیرو سے باتیں کرنے لگا
اور سوچنے لگا کہ انعم نے بڑی
مہارت سے میرے ساتھ کالس
...فیلو واال رشتہ جوڑ لیا ھے
میں بیٹھا ھوا چاچا شیرو سے
باتیں کر رہا تھا تب انعم کولڈ
ڈرنک لیکر آ گئ اور میرے
سامنے والی چارپائی پر بیٹھ
گئ اور اپنی انگلیاں مروڑتے
ھوۓ میری طرف دیکھنے لگی
اور اشارے سے پوچھنے لگی کہ
آپ کس وجہ سے آۓ ھو اور
وہ وجہ اب بیان بھی کرو
کالے رنگ کا سوٹ اور گورے
گورے پیر جسمیں گولڈن رنگ
کی پائل بہت خوبصورت لگ
رھی تھی اور جس کا سراپا
دیکھ کر مجھے ایک خمار سا
چڑھ جاتا اور میں اپنے حواس
کھو دیتا انعم نے کھانستے
ھوۓ مجھے خیالی دنیا سے
واپس موڑا تو ہڑبڑا کر بوال جی
انکل اصل میں میں اس سلسلے
میں حاضر ھواتھا کہ مجھے
دودھ چاھئیے تھا آپ لوگ
ھمیں دودھ دے دیا کرو اور
جتنا بل بنے گا وہ ھم ھفتہ وار
....آپکو ادا کر دیا کرینگے
میری بات سن کر انعم کی مما
بولیں بیٹا آپ جتنا چاھو دودھ
لے جایا کرو ہمارا دودھ سارا
پنڈ شوق سے لیکر جاتا ھے آپ
پیسوں کی فکرنہ کرنا ماسی
پیسے تہانوں ہرہفتے مل جان
گئے ویسے صرف ایک ماہ کی
تو بات ھے پھر ھم فارم
بنائینگے بھینسوں کا اور شہر
میں دودھ کی سپالئی کیا
کرینگے تو ماسی بولی چنگی
گل اے بیٹا اپنے کاروبار و چ
ای برکت اے ھماری بات سن کر
چاچا شیرو تکیے سے ٹیک لگا
کر بیٹھ گیا اور بوال بیٹااگر تم
فارم بنانا چاہتے ھو تو
بھینسیں نیلی راوی یعنی
ساہیوال شہر سے لیکر آؤ اور
پھر دیکھنا کہ جانور کتنے نسل
دار ھوتے ھیں اور دودھ بھی
دیتے ھیں
میں بوال چاچو جی اب اتنی
دور بھال کون جاۓ گا اور
کرایۂ بھی بہت پڑ جاۓ گا تو
چاچا شیرو بوال بیٹا بزنس کرنا
ھے تو پھر اچھی جگہ پر تو
پیسہ خر چ کرو بار بار کیا
فائدہ انعم جو کافی دیر سے
ہماری باتیں سن رھی تھی وہ
بولی ذیشان میرے ابو صیح
کہہ رھے ھیں آپ نسل دار
جانور رکھو پھر دیکھنا دعائیں
دو گے میری ابو کو دونوں ماں
بیٹی ہنسنے لگ گئیں ھم دونوں
ایک دوسرے کو نظریں چرا
چرا کر دیکھ رھے تھے اور
نظروں نے دل کے سارے سرتال
چھیڑ دئیے تھے دونوں ماں
بیٹی میرے سامنے والی
چارپائی پر بیٹھیں تھیں اور
شاید آپس میں
کھسرپسرکررھی تھیں کیونکہ
میرا اور انکا بہت فرق تھا
جدھر ھم بیٹھے ھوۓ تھے
میں بوال انکل جی آپ سناؤ
کیسی طبیعت ھے آج کل اور
کھیتی باڑی کون کرتا ھے میں
نے آپ کو کبھی کھیتوں میں
دیکھا نہیں...انکل بولے
یارمیرے جسم میں اب وہ جان
نہیں رھی اس لئیے میں تو
زمین بیچ کر اپنی دونوں
بیٹیوں کی شادی کر دینا چاہتا
تھا پرمیری بیٹیاں بولیں
پاپاجانی ھم زمیں نہیں بیچیں
گے بلکہ اسے آباد کرینگے اب
میری دونوں بیٹیاں زمین
سنبھال چکی ھیں انعم اور
لبنی میرے بیٹے ھیں اور بیٹوں
کی طر ح ھی گھر بار سنبھال
رکھا ھے انہوں نے انعم کے گھر
ایک کلٹس کار کھڑی تھی
جو انعم اور لبنی کالج جاتے
وقت استعمال کرتی رھی اور
میں بوال اب آپ کی انکم بہت
کم ھوگئ ھوگی بھال بچیوں
کو کیا پتہ آپ لوگ سبزیاں
اگاؤ اور آنٹی آپ گھر پر اسے
سیل کر دیا کرو پھر دیکھنا
سارا گاؤں شہر کی بجاۓ آپ
سے سبزی لیا کرے گا اور
حاالت بھی سدھر جائیں گے
انعم بولی ھمارا ارادہ تو یہی
ھے پر ھمارے پاس اپنا ٹریکٹر
نہیں ھےسبزیاں کاشت کرنی
ھیں تو پھرے کھیتوں کو بہت
زیادہ وقت دینا پڑتا ھے اور
ٹریکٹر ھوناالزمی ھے کھال
بنانے کے لئیے اور سپرے کرنے
کے لئیے اور شہر سپالئی کے
لئیے تو میں بوال قدم بڑھاؤ ھم
تمہارے ساتھ ھیں وہ بڑ بڑا کر
بولی کیا مطلب تو میں بوال
ٹریکٹر آپ ہمارا استعمال کرلیا
کرو کچھ ہمت تو کرو پھر
دیکھو جلوہ
سرہانے کو فولڈ کرکے اپنی گود
میں لیکر بیٹھی ھوئی انعم
بولی اچھا آپکا آئیڈیا بہت
زبردست ھے پھر اس پر کچھ
دنوں بعد عمل درآمد بھی کرلیا
جاۓ گا شام کو میں دودھ
لیکر واپس آ گیا تھا اور مما
میرا ھی انتظار کررھی تھی
کیونکہ میرے ماموں نے اپنی
جان پہچان والی ایک فیملی
کو کھیتوں میں کام کاج کرنے
کے لئیے بالیا تھا صرف میری
پرمیشن درکار تھی یہ بھی
ایک کرسچن فیملی تھی
جوبرسوں سے میرے نانا جی
کیساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ
بٹاتی تھی اور اسکا انہیں
معاوضہ ملتا تھا یہ فیملی بہت
چھوٹی سی تھی انکل سمیر
کی دو بیٹیاں تھیں جن کا نام
سحر اور شیال تھا اور ایک بیٹا
تھا جن کا نام سلمون تھا جو
میری ھی عمر کا تھا پر بے
چارہ گونگا تھا اور کام کرنے
کی مہارت رکھتا تھا مطلب
دودھ نکالنا کھیتوں میں ہل
چالنا اور فصلوں کی کٹائی تک
کا مرحلہ یہ ساری فیملی بڑی
آسانی کیساتھ طے کرلیتی
انکل سمیر کالے رنگ کا مالک
تھا عمر چھتیس سال اور انکی
وائف مریم بھی انکی ھم عمر
تھیں وہ تیز نین نقش والی
گورے رنگ کی مالک تھی
اپنی ماں کی طر ح شیال اور
سحر گوری چٹی تھیں شیال
کی عمربائیس سال تھی اور
سحر ابھی اٹھارہ سال کی
تھی شیال کی شادی پچھلے
سال اسکے مامو ں زاد سے
ھوئی تھی اور اس وقت ان
میں ناراضگی چل رھی تھی وہ
اپنے شوہر سے ناراض ھو کر
اپنے میکے میں بیٹھی تھی
جس کا چاچا سمیر کو اور
خود میرے ابو کو بہت دکھ
تھا ابو چاھتے تھے کہ کسی طر
ح انکی صلح ھو جاۓ اور
شوخ چینچل شیال کا شوہر
فرحان اسے اپنے گھر واپس
چلی جاۓ ابو کے اس خاندان
سے بہت پرانے مراسم تھے اور
اب بھی قائم و دائم ھیں
ابو نے سب کو کھانے کی میز
پر بالیا اور گھر کے سارے ممبر
ڈائننگ ٹیبل پر میرا انتظار
کررھے تھے جبکہ شاہد میرا
دوست میرا انتطار کر رہا تھا
باہر کہتا ذیشان تمہیں ایک
نیوز دینی ھے میں نے اسے
میسج کیا کہ ابھی ڈنر کرنے
چال ھوں بعد میں تم سے بات
کرتا ھوں
ھم کھانے کی میز پر سب ڈنر
کررھے تھے امی جان اور
ابوجان میرے سامنے بیٹھے
تھے اور سمیرانکل اور انکے
سامنے شیال اور سحر اپنے
بھائی سلمون کیساتھ بیٹھ کر
کھانا کھارھے تھے میری امی
بولی دیکھو ذیشان مجھے
شوگر کی وجہ سے اب بہت
کمزوری محسوس ھوتی ھے
لہذا تمہارے ابو اور میں نے
فیصلہ کیا ھے کہ گھر کا سب
کھانا اور کچن ہماری بیٹی
....شیال ھی سنبھالے گی
اگر آپکو کوئی اعتراض ھے یا
کسی کو بھی اعتراض ھے تو
وہ بتا سکتا ھے آج سے ان کا
سب خرچہ ہمارے ذمے ھے اور
جب تک ڈیرے پر فارم اور
رومز آباد نہیں ھو جاتے تب تک
یہ لوگ اوپر والی منزل پر ھی
رھیں گے انکی رہائش کا کوئی
بڑا مسئلہ نہیں تھا ویسے تو
نیچے بھی بہت کمرے خالی
تھے پر بزرگوں کے فیصلے
صیح اور کچھ سو چ سمجھ
کر ھی کئیے جاتے ھیں ھم سب
کھانا کھا کر اپنے اپنے روم میں
چلے گئے اور بڑے آپس میں
.....باتیں کرنے لگے
ھم رات کو باہر گھومنے جاتے
تھے جس کا ایک مقصد تھا کہ
کھایا پیا ہضم ھو جاۓ اس
رات جب میں نکال واک کرنے تو
سحر اور شیال بولی ذیشان ھم
بھی آپکے ساتھ جائیں
....... گے
ھم جب باہر کو گھومنے گئے
تب گاؤں میں اندھیرا چھا چکا
تھا اور ھم شہر کو جانے والی
سڑک پر پیدل چلنے لگے اور
اس سڑک کے دونوں طرف ھی
مالٹوں کے باغات تھے اسی
وجہ سے اندھیرا کچھ زیادہ
محسوس ھورہا تھا ھم سب
گاؤں کی محل وقوع اور طرز
زندگی پر باتیں کر رھے تھے
اور آ گے بڑھتے ھوۓ جارھے
تھے
سحر اور سلمون اکٹھے چلے
آرھے تھے جبکہ شیال میرے
ساتھ ساتھ چل رھی تھی سب
اپنے اپنے موضوع پر بات کر
رھے تھے تب شیال میرے کان
میں سرگوشی کرنے کے
اندازمیں بولی کہ ذیشان
تمہاری کوئی گرل فرینڈ ھے تو
میں بوال کہ اس بے چارے کو
کون لفٹ کرواتا ھے میری
کوئی گرل فرینڈ نہیں ھے تم
سناؤ تمہارا کوئی بواۓ فرینڈ
ھے تو وہ بولی جناب ادھر بھی
یہی حال ھے
میں بوال میں سمجھا جناب
میں سمجھا نہیں تو وہ میرے
ہاتھ کو پکڑتے ھوۓ بولی تم
بھی بدھو ھو پاگل میرا مطلب
ھے ادھر بھی سیٹ خالی ھی
ھے تو میں بوال تو پھر کوئی
چن لو اپنا بواۓ فرینڈ بلکہ
اپنے شوہر کو مناؤ اور یہی
بہتر ھے
میرا کان کھینچ کر بولی اس
نکمے نال تے میں کدی وی نہ
جاواں میں نے کہا ایسی بھی
کیا بات ھے جو تم اس سے
نفرت کرتی ھو تو وہ بولی بہت
چاہ اور مان کیساتھ اپنے
ارمانوں کا سہرا باندھا تھا
میں نے اسکے سر پر مگر اسے
میری ذرا بھی پرواہ نہیں ھے
اور وہ اپنی ماں کیساتھ بس
اسی کا کہنا مانتا ھے میں اس
کے لئیے سجتی سنورتی ھوں
بھال اسے کیا پرواہ اسکی تو
سحر بولی ساال الٹا ھماری
..کمیٹی بھی کھا گیا
ننگا فقیر میں نے کہا شرم کرو
سحر وہ تو تمہارا جیجا جی
ھے تم اسکے لیئے اچھے الفاظ
کا چناؤ نہیں کر رھی سحر
بولی ذیشان تم دیکھنا جس
دن تمہارے ساتھ اسکی
مالقات ھوگی نہ اس دن وہ
ننگ فقیر جھوٹوں کے پل
باندھ دے گا ھوسکتا ھے آپکو
بھی چونا لگا جاۓ تو میں بوال
کہ میں جس کالج میں پڑھا
ھوں وہاں کے سسٹم اور تعلیم
نے مجھے بہت کچھ سکھایا
ھے میں نوسربازوں کو جلد
جان جاتا ھوں سحر بولی کہ
پڑھے لکھے تو ھم بھی مگر
ھمیں وہ چکردے گیا
میں بولو چلو بہت دور آ گئے
ھیں ھم اور اب واپس چلتے
ھیں تو شیال بولی کہ شاید تم
تھک گئے ھو اس لئیے تو میں
بوال جی آپ سہی فرما رھی
ھومیں بہت تھک گیا ھوں شیال
بولی اس عمربھی تھکان ھو
جاتی ھے تمہیں تو میں بوال
ابھی نیا نیا کاروبار ھے اس
لئیے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی
ھے تو شیال بولی کوئی بات
نہیں آنٹی کو بولنا آپکا
سرسوں کے تیل کیساتھ مساج
کرے تم جلد بہت اچھا
محسوس کرو گے میں بوال کہ
مجھے شرم آتی ھے اور مما
جان بہت کمزور ھوگئ ھیں اور
....اب وہ میرا حق ھے کہ
میں انکی دیکھ بھال کرنی ھے
تم اب اسکا خیال رکھا کرو تم
شیال بولی میں حاضر ھوں آپ
کی ماں کی دیکھ بھال
کرونگی اور ساتھ میں تمہاری
بھی کردیا کرونگی میں بوال کہ
آپ میرا کیا کروگی تو وہ بولی
وہ سب کچھ جو ایک گرل
فرینڈ اپنے بواۓ فریند کے لئیے
کرتی ھے تو میں بوال یار میں
گرل فرینڈ کے نخرے نہیں
اٹھاسکتا انہی چکروں میں پڑ
گیا تو پھر میں تو گیا کام سے
تو شیال بولی نخرے نہیں
اٹھاسکتے پر ٹانگیں تو اٹھا
سکتے ھونہ میں بوال اگرکسی
نے دیکھ لیا تو پھر بہت
بدنامی ھوجاۓ گی...
ہم واپس آ گئے اور راستے میں
نے شاپ سے مونگ پھلی لی
اور مل بانٹ کر کھانے لگے
اورگھر واپس پہنچ گئے واپس
آۓ تو امی نے بوال ذیشان آپکے
پاپا پوچھ رھے تھے کہ دودھ
کدھر سے الۓ آج دودھ اچھا
تھا تو میں بوال کہ ہمارے
پڑوس میں چاچا شیرو کے گھر
سے جس کا ڈیرہ بھی ھمارے
ڈیرے کیساتھ ہی ھے تو ماں
بولی کہ صبح جاکر ان کو
ایڈوانس دے آؤ اورانکو بوال
کہ ھمارے لئیے رکھ لیا کریں
میں بوال ماں جی آپ بے فکر
رھیں سارا کام ھوگیا ھے آپ
بس گرما گرم ایک گالس دودھ
دے دیں تو میری ماں کچن
میں چلی گئ میں ٹی وی
الؤنج میں بیٹھ گیا اور پھر
مما دودھ لیکر حاضر ھوئیں تو
بولیں بیٹا ذیشان ایک بات
میری سن لویہ لڑکیاں ہماری
مہمان ھیں تم ان سے کوئی
..بھی غیراخالقی بات مت کرنا
میں بوال مما آپ بس بے فکر
رھیں میں پوری کوشش کروں
کہ آپکو شکایت کا موقع ھی نہ
دوں گا تو مما بولی مجھے
یقین ھے تم میری امیدوں پر
پورا اتروگےمیں اپنے روم میں
چال گیا اور جاکر لیپ ٹاپ آن
کرکے ایک سائٹس پر چال گیا
اور ایک ناول پڑھنے لگا
نوابزادہ کا تھا جس کا ٹائٹل
نام پوری رات کا ملن تھا اور
انسیسٹ تھا میں ڈور الک کرنا
بھول گیا تب میرے روم میں
سحر اور شیال آ گئیں اور بیڈ
پر بیٹھ گئیں مجھے ایک دم
شاک لگا میں نے فائل کو منی
مائز کر دیا اور بوال جی آپ
دونوں خیریت سے حاضر ھوئی
ھیں تو شیال ھنسنے لگیں اور
بولیں کہ ھم دونوں آپکا روم
دیکھنے آئی ھیں اور اگر آپکو
اعتراض ھو تو ھم واپس چلی
جاتی ھیں تو میں نے شیال کا
ہاتھ پکڑلیا اور بوال بیٹھ جاؤ
تم لوگ بوال کیا خدمت کرسکتا
ھوں میں تم دونوں کی تو
سحر بولی ھمیں ابھی نیند
....نہیں آرھی ھے
اسی لیئے آپ کے لڈو کھیلنے آ
گئیں میں بوال یار تم لوگ لڈو
آپس میں کھیل لو مجھے بہت
نیند آرھی ھے تو شیال بولی
ایک دو راؤنڈ لگا لو پھر سو
جائیں میں دل میں سوچنے لگا
سالی کی چوت بہت گرم ھے
دو راؤنڈ سے کب شانت ھوگی
وہ لڈو لیکر بیڈپر چڑھ کر بیٹھ
گئ اور بولی چلیں لٹ سٹارٹ
میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور ھم
لڈو کھیلنے لگے شیال کو لگا تار
تین بار چھے آ گیا تھا
اس لئیے وہ اپنی دو گھوٹیاں
لیکر بڑھنے لگی میرے سامنے
سحر بیٹھی تھی اور دوسری
طرف شیال تھی شیال سے
محسوس ھورہا تھا کہ وہ لڈو
سٹار ھے خیر شاہد کیساتھ
میں کھیلتارہا ھوں تجربہ میرا
بھی بہت تھا پھر سحر نے
شیال کی گوٹی مار دی اور وہ
دونوں ایک دوسرے پر بہت
غصہ ھوگئیں تب میں نے
سحرکی گوٹی مار دی تو شیال
بہت خوش ھوئی اور بولی
تمہاری تو ذیشان نے ماری دی
سحر رونے جیسا منہ بناتے
ھوۓ بولی آہ شانی بھائی تم
نے میری کیوں ماری تم شیال
کی مار دیتے میں بوال اف یار
میں نے کب ماری ھے تمہاری تو
وہ بولی ابھی تو ماری ھے میں
بوال چپ کرو یار ورنہ امی سن
کر سوچے گی کہ نجانے
کیاماردی ھے
شیال بولی سحر تم بہت
پرجوش ھوجاتی ھو کھیلتے
وقت اتنا سیرس مت ھوا کرو
میری جان یہ صرف ایک
انٹرٹینمنٹ ھے کونسا یہ جوا
ھے جو تم نے لگایا ھے اور تم
ہار جاؤگی سحر نے اب لگاتار
دو بار چھے لے لیا تھا اور وہ
پھر سے شیال کے سرپر جا
پہنچی تھی اسے شیال کی سب
سے تیز رفتار کی گوٹی مارنے
کا موقع ملنے واال تھا مگر ان
دونوں کی گولڈن گوٹیوں کے
پیچھے میں تھا اسکو شیال کی
مارنے کے لئیے دو چاھئیے تھے
جو اس نے حاصل کرلئیے اور
اس نے شیال کی گوٹی مار کر
اپنے دونوں بازو فضا میں بلند
کردئیے اور بولی دیکھا میں نے
ایک بار پھر شیال کی ماردی
ھے
ابھی سحرکا جشن پورا نہیں
ھوا تھا کہ میں نے پانچ رنز
حاصل کرکے دوسری بار سحر
کی مڈل گوٹی مار دی اور وہ
منہ بسورتے ھوۓ بولی اف
ذیشان اب تم نے دوسری بار
میری مار دی ھے تو شیال بولی
سالی تم تو سیل پیک ھو
تمہاری دو بار کیسے مار دی
اس نے جس دن اصل میں
مارے گا اس دن تجھے پتہ چلے
گا
اب جب بھی شیال یا
سحرمجھے بولتی کے تم نے
میری ماردی تو میرا دھیان
انکی چوت کی طرف چال جاتا
اور میں بہت گرم ھوجاتا میں
ایک گیم لگا کر سوگیا اور وہ
دونوں بہنیں لگی رھیں۔
اب کنڈیشن یہ تھی کہ ایک
سائڈ پر سلمون کی چارپائی
تھی اسکے بعد میری اور میرے
ساتھ والی چارپائی پر سکسی
شہال اور.سحر کی چارپائی
تھی ہم لوگ کچھ دیر باتیں
کرتے رہے اور اسی دوران میں
نے دیکھا کہ شہال اور سحر سو
گئی ہیں اور سحر کو بھی نیند
محسوس ہو رہی تھی اس لیے
میں نے کہا یار باقی باتیں
صبح کریں گے ابھی تو مجھے
بھی نیند آ رہی ہے.سحرشیال نے
کہا ہاں یار مجھے بھی نیند
محسوس ہو رہی ہے ٹھیک ہے
صبح بات کریں گے اور وہ
دوسری طرف منہ کر کے لیٹ
گیاابھی پانچ منٹ ہی گزرے
ہوں گے ۔
مجھے ایسے لگا جیسے شہال
کی چارپائی ہلی ہے میں نے
آنکھیں کھول کر دیکھا تو
سکسی شیال اٹھ کر الئٹ کا
سوئچ آف کر نے جا رہی تھی
اور اس نے الئٹ آف کر دی جب
وہ اندھیرے میں واپس اپنی
چارپائی پر آئی تو میں نے کہا
شہال الئٹ کیوں آف کری اس
نے کہا بھائی .ذیشان مجھے
روشنی میں نیند نہیں آتی اس
لیے میں نے الئٹ بند کر دی
ہےمیں نے کہا چلو ٹھیک ہےاور
میں بھی آنکھیں بند کر کے
سونے کی کوشش کرنے لگاا
بھی کچھ دیر ہی گزری تھی
کہ مجھے اپنے جسم پر کسی
کا ہاتھ محسوس ہوا جو کہ
دھیرے دھیرے میری پنڈلی پر
سے پھسلتا ہوا میرے لوڑے کی
طرف جا رہا تھا۔مجھے اب
اکٹھے سونے کی اور الئٹ بند
کرنے کی وجہ کا معلوم ھو گیا
تھا کہ کس وجہ سے اس نے
الئٹس بند کیں ھیں۔۔
میں نے اندھیرے میں اس ہاتھ
پر ہاتھ رکھا تو پتا چال کہ وہ
شہال کا ہاتھ ہے اس نے میرا
ہاتھ دبا کر مجھے خاموش
رہنے کا اشارہ دیامیں حیران
تھا کہ یہ لڑکی کیا کر رہی
ہےشہال کا ہاتھ پھسلتا ہوا
میرے لوڑے تک پہنچ گیا اس
نے بہت پیار سے میرے اکڑتے
ہوئے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں لیا
اور اس کی ٹوپی کو سہالنے
لگیتا قریبًا پندرہ منٹ تک وہ
سکسی میرے لوڑے سے
کھیلتی رہی جس کی وجہ سے
میرا لوڑا تن کر کھڑا ہو گیا
اسی دوران میں نے بھی اپنا
ایک ہاتھ آگے بڑھایا اور پہلے
دھیرے دھیرے شہال کے پیٹ
پر پھیرا اور پھر اس کے بعد
اس کی چھاتی تک پہنچ گیا ۔
شیال نے اپنے چھتیس سائز کے
مموں کی حفاظت کے لیے فوم
والی برا پہنی ہوئی تھی یہ
پہال موقع تھا کہ میرے ہاتھ
کسی کی برا کو چھو رہے تھے
میں نے بھی برا کے اوپر سے
ہی سکسی شہال کے نرم اور
گرم مموں کو دبانا شروع کر
دیالوڑے سے کھیلتے اور مموں
کو سہالتے ہوئے تقریبًا آدھا
گھنٹہ گزر چکا تھا اچانک میں
نے محسوس کیا کہ سکسی
شہال اپنی چارپائی سے اٹھ
رہی ہےاور دوسرے ہی لمحے وہ
دھیرے سے میرے برابر میں آ
کر لیٹ گئی اور آتے ہی اس نے
میرے چہرے پر اپنے ہونٹوں
سے بوسوں کی بوچھاڑکر دی ۔
یک تو اس کا نرم اور گرم
جوانی سے بھر پور جسم
میرے جسم کے ساتھ جڑا ہوا
تھا جو میرے جذبات میں آگ
لگا رہا تھا اور دوسری جانب
اس کے رسیلے اور گداز ہونٹ
میرے گالوں اور ہونٹوں کو
چوم رہے تھےمیں نے شہال کے
کان کے بالکل قریب جا کر کہا
کہ .شیالکہیں سلمون اور
.سحر جاگ نہ رہے ہوں شہال نے
بھی اسی طرح دھیرے سے
میرے کان میں جواب دیا کہ
نہیں..ذیشان کوئی بات نہیں
سلمون تو کافی گہری نیند
سوتا ہے اس کو تو اب تک
ہوش بھی نہیں ہو گاتم بے فکر
ہو جاؤ
میں نے کہا شہال کیا یہ سب
ٹھیک رہے گا جو ہم کر رہے ہیں
شہال نے کہا ذیشان میں تم سے
بہت پیار کرتی ہوں تم مجھے
بہت اچھے لگتے ہو میں کب
سے تمہیں اسطرح پیار کرنے
اور تم سے پیار کروانے کیلئے
بیتاب تھی آج سب کچھ بھول
جاؤ اور بس مجھے پیار کرو
ایسے جیسے کوئی اپنی بیوی
کو کرتا ہے شہال نے یہ بات کہہ
تو دی مگر مجھے ڈر لگ رہا تھا
کہ اگر .سلمون جاگ گیا اور
اس کو یہ سب پتا چل گیا تو
کیا ہو گا۔
جب میں نے شہال سے یہ بات
کہی تو اس کے کہا چلو پھر
چپ کر کے چھت پر چلتے ہیں
اور اس بات سے بے فکر ہو جاؤ
کہ گھر میں سے کوئی اٹھ
جائےگا اور ہم پکڑے جائیں گے
یہ کہہ کر شہال میرے پاس سے
اٹھی اور اندھیرے میں غائب
ہو گئی تھوڑی دیر بعد میں نے
محسوس کیا کہ کمرے کا
دروازہ کھال اور شہال مجھے
پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کر
کے دروازے سے ہٹ گئی ۔
میں سمجھ گیا کہ .شیال چھت
پر گئی ہے میں بھی ہمت کر
کے اٹھا اور شہال کے پیچھے
پیچھے چھت پر چال گیا چھت
پر ایک سٹور روم بنا ہوا تھا
چاند کی ہلکی ہلکی روشنی
میں میں نے دیکھا کہ شہال
سٹور روم کے دروازے پر کھڑی
ہوئی تھی اور اس نے اپنی
قمیض اتاری ہوئی تھی اب وہ
صرف شلوار اور بریزیر پہنے
ہوئے تھی چاند کی رومانوی
روشنی میں شہال کا روپ بہت
بھال لگ رہا تھا چاند کی ہلکی
ہلکی چاندنی میں اس کا گورا
جسم میرے اندر آگ سی لگا رہا
تھا جیسے ہی میں شہال کے
قریب پہنچا اس نے مجھے زور
سے اپنی طرف کھینچا ۔ٹیچر
شگفتہ گاؤں کی دیسی گرل
فرینڈ نادیہ کے بعد میرا یہ
تیسرا شکار تھا
شہال اب مجھے بانہوں میں لے
کر میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ
جوڑ لیے وہ کب کی ترسی
ھوئی تھی شہوانی ،شہوت
انگیز باتوں سے شہال بہت
زیادہ گرم ہو رہی تھی وہ
کھڑے کھڑے ہی اپنے جسم کو
اسطرح حرکت دے رہی تھی
کہ میرا کھڑا ہوا لوڑا بار بار
اس کی چوت کے ساتھ رگڑ
کھا رہا تھا میں نے ایک ہاتھ
میں اس کا مما پکڑا ہوا تھا
جس کو میں دھیرے دھیرے
دبا اور مسل رہا تھا اور
دوسرے ہاتھ سے اس کی گول
اور نرم گانڈ سے کھیل رہا تھا
اور اس نے دونوں ہاتھوں سے
میرا چہرا تھاما ہوا تھا اور ہم
دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ
اور زبان چوس رہے تھے۔
میں نے شہال کے مست سکسی
ممے پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور
دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ شہال
کی شلوار میں ڈال دیا جہاں
میرا استقبال چوت پر اگے ہوئے
بالوں کی رگڑ نے کیا میں نے
شہال سے کہا یار تم چوت کے
بال صاف نہیں کرتی ہو کیاتو
شہال نے کہا میری جان اگر
مجھے معلوم ہوتا تو میں اپنی
چوت کو ویٹ کریم سے مکھن
کی طرح مالئم کر لیتی مگر تم
اچانک ہی آئے ھمارے حصے ائے
ہوبالوں کے اوپر سے گزر کر
جب میری انگلیاں شہال کی
چوت کے دانے تک پہنچی تو
میں نے محسوس کیا کہ شہال
کو چوت مکمل طور پر گیلی ہو
رہی تھی۔
جب میں نے اس کی چوت کے
دانے کو چھوا تو شہال کا
سکسی چکنا جسم ایک دم سے
کانپ سا گیاشہال نشیلی سی
آواز میں سسکاری بھر کی
بولی شانی تمھاری انگلیوں
میں جادو ہے میری چوت جلنے
لگی ہےپلیز کچھ کرو مجھے
اور مت تڑپاؤ پھر ہم سٹور
روم کے دروازے سے ہٹ کر
سٹور روم میں داخل ہو
گئےجہاں پر ایک پرانا صوفہ
پڑا ہوا تھا شہال صوفے کے
پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور
مجھے دروازہ بند کرنے کا
اشارہ کیا ۔
میں نے دروازہ بند کر کے اس
کے آگے ایک کرسی رکھ دی
کیوں کہ دروازے کو اندر سے
بند کرنے کا کوئی سسٹم نہیں
تھا اندر زیرو واٹ کا بلب جل
رہا تھا جس کی وجہ سے سٹور
میں اچھی خاصی روشنی ہو
رہی تھی شہال نے اپنی شلوار
بھی اتار کر صوفے پر رکھ دی
اور اپنی ٹانگیں کھول کر
صوفے پر اسطرح بیٹھ گئی کہ
اس کی چوت پوری کھل کر
میرے سامنے آ گئی میں بھی
قریب آ کر اس کی چوت کے
سامنے پیروں کے بل بیٹھ گیا ۔
شہال کی چوت باہر سے گوری
تھی اور اس کی چوت کا دانہ
چمکدار تھا جب کہ اندر سے
چوت کا رنگ گالبی تھامیں نے
پہلے دھیرے دھیرے شہال کو
چوت کو ہاتھ سے سہالیا اور
اسکے بعد دو انگلیوں سے اس
کی چوت کو کھول کر اندر کے
گالبی حصے پر زبان سے مساج
شروع کر دیا میں نے کہا شہال
تمہاری چوت کی خوشبو بہت
اچھی ہے اور یہ گرم کتنی ہو
رہی ہے شہال نے ہنستے ہوئے کہا
اس کی سب خوبصورتی صرف
تمہارے لیے ہے میری جان کھا
جاؤ میری پھدی کو اور مٹا دو
میری گرمی کو۔
یہ گرم اسلیے ہو رہی ہے تاکہ
اس کی گرمی سے تم بھی گرم
ہوجاؤ اور میری پھدی کو کھا
جاؤ شہال کے منہ سے اسطرح
کے گندے گندےلفظ سن کر
مجھے بہت مزا آرہا تھا میں
دیوانوں کی طرح شہال کی
چوت کو چاٹتا رہا دو بار شہال
کی چوت نے چکنا چکنا سا
پانی چھوڑا
جو سب کا سب میں نے چاٹ
لیا شہال نے اپنا بریزیر بھی
اتار کر پھینک دیا تھا اور وہ
سسکاریاں بھرتے ہوئے اپنے
ممے دبا اور سہال رہی تھی اور
میں دیوانوں کی طرح اس کی
سکسی جوان پھدی کی بھول
بھلیوں میں گھوم رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد شہال نے کہا
چلو کچھ اور ٹرائی کرتے ہیں
میں نے کہا ٹھیک ہے میں بتاتا
ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے
میں نے اسے صوفے پر لیٹنے کو
کہا اور جلدی جلدی اپنے سارے
کپڑے اتار کر خود اس کےاوپر
میں لیٹ گیا کہ میرا لوڑا بالکل
شہال کے ہونٹوں کے قریب تھا
اور اس کی چوت میرے منہ
کے پاس بس پھر کیا تھا میں
پھر سے بھوکوں کسی طرح
شہال کی چوت کےساتھ چپک
گیا اور اسکی چوت کے اندر
زبان ڈال کر اس کی چوت کو
زبان سے چودنے لگا۔
شہال نے میرا لوڑا دیکھا تو
کہنے لگی شانی یہ تو بہت موٹا
ہو گیا ہے اور کٹا ھوا ھے ٹوپی
بہت چمکدار ھے واہ امممم اس
کی گرم گرم سانسیں مجھے
اپنے لوڑے پر محسوس ہو رہی
تھیں اس نے پہلے میرے لوڑے
کی ٹوپی کو ہلکا سا چوما اور
پھر ایک ہاتھ سے لوڑا اور ایک
ہاتھ سے میرے بڑے بڑے ٹٹے
پکڑ کر دھیرے سے لوڑے کی
ٹوپی کو پورا منہ میں لے لیا
لوڑے کو اس کی زبان کی
گرمی بہت مزا دے رہی تھی وہ
بولی ساڈے نال رھو گے تاں
عیش کروگے۔
اس نے بہت پیار سے میرے
لوڑے کو چوسنا شروع کر دیا
شاید سکسی شہال کو بہت مزا
آ رہا تھا کیونکہ وہ لوڑا
چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنی
چوت کو دھیرے دھیرے ہال
بھی رہی تھی پندرہ منٹ تک
میں اس کی چوت چاٹتا رہا
اور وہ میرا لوڑا چوستی رہی
اس کی چوت سے بار بار چکنا
چکنا پانی نکل رہا تھا جسے
چاٹنا مجھے بہت اچھا لگ رہا
تھا اور میرے لوڑے میں سے
بھی چکنا چکنا نمکین سا پانی
نکل رہا تھا جو سارے کا ساری
شہال پئے جا رہی تھی
میں نے شہال کو اس انداز میں
لٹا لیا کہ میں اس کی چوت
میں اپنا لوڑا داخل کر سکوں
شہال نے کہا شانی کیا تم
مجھے چودو گے یا صرف
سیکس ھی کروگےمیں نے کہا
ہاں شہال اب میں خود کو
تمہیں چودنے سے نہیں روک
سکتاپلیز مجھے کہو ناں کہ
میں تمہیں چودوں شہال نے کہا
ہاں میری جان میں تو خود
چاہتی ہوں کہ تم اپنے اس تنے
ہوئے لوڑے سے میری پھدی
مارو میں نے لوڑے کی ٹوپی کو
شہال کی چوت پر رگڑ کر تھوڑا
س کوچکنا کیا ۔
اور اس کو چوت کے منہ پر
رکھ دیا شہال کی پھدی میرے
لوڑے کی ٹوپی کے نیچے پوری
چھپ گئی شہال نے مستی میں
آ کر آنکھیں بند کر لیں اور
دونوں ہاتھوں سے اپنے چھوٹے
چھوٹے اور سخت مموں کو
دبانا شروع کر دیا اور اس نے
مستی بھری آواز میں سسکاری
بھرتے ہوئے
مجھے کہا شانی ڈالو نا میری
گرم پھدی میں اپنا مسلم لوڑا
کیوں ترسا رہے ہو میری اس
معصوم پھدی کو شہال کی بات
سن کر میں نے شہال کے اوپر
لیٹ کر اس کے ہونٹوں سے اپنے
ہونٹ مال دئے اور دھیرے
دھیرے لوڑے کو اس کی
سکسی جوان پھدی کے اندر
دھکیلنا شروع کر دیا۔
شہال کی چوت بہت ٹائٹ
تھی اور بہت گرم بھی تھی
اس کی نرم نرم اور ٹائٹ
پھدی میں دھیرے دھیرے میرا
لوڑا گھس رہا تھا اور تکلیف
کی وجہ سے شہال نے اپنی
آنکھیں کس کے بند کی ہوئی
تھیں جب لوڑا اندر آدھا اندر
گھس گیا تو اس نے مجھے
رکنے کو کہا میں نے لوڑے کو
وہیں روک لیا اور شہال کے
مست سکسی چھتیس سائزکے
مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
اس کے باریک باریک نپل
چدائی کی آگ میں جل کر
کافی سخت ہو گئے تھے میں
تھوڑی دیر تک اس کے دونوں
مموں کو باری باری چومتا اور
چوستا رہا تھوڑی دیر بعد شہال
نے نیچے سے اپنی پھدی کو
حرکت دینا شروع کر دی میں
نے بھی لوڑے کو دھیرے
دھیرے اور اندر کرنا شروع کر
دیا تھا اس مرتبہ شاید شہال
کو درد کم ہو رہا تھا کیونکہ
جسیے جیسے لوڑا پھدی میں
گھستا جا رہا تھا وہ اپنی
ٹانگوں کو اور زیادہ کھولتی
جا رہی تھی۔اور بولی بہت
دنوں بعد سکون مل رہا ھے
جب لوڑا پورا اندر داخل ہو
گیا تو شہال کے مونہہ سے درد
بھری سسکاری نکل گئیاااااہ
مممم ممممم ممم مممم مر
گگگگ گگگگگ گئی ذذذذ
زذذزززز ذیشان
کیونکہ میرا لوڑا جا کر اس
کی بچہ دانی سے ٹکرا گیا تھا
میں نے لوڑے کو پھر سے روک
لیا اور اسکے زبردست مموں
سے کھیلنا شروع کر دیا
تھوڑی دیر بعد پھر سے شہال
کی پھدی نے نیچے سے حرکت
شروع کر دی میں نے بھی
لوڑے کو دھیرے دھیرے باہر
کھینچا اور پورا لوڑا باہر آنے
سے پہلے ہی دوبار اس کو اندر
کی جانب دھکیل دیا شہال کے
منہ سے ہلکی سی چیخ نکل
گئی ہائے میری چوت ۔
میرا لوڑا ایک ہی جھٹکے میں
پورے کا پورا شہال کی پھدی
میں فکس ہو گیا شہال نے کہا
شانی تمہارا لن بہت ظالم ہے
اس سے تو میری پھدی پھٹتی
ہوئی محسوس ہو رہی ہے میں
نے کہا میری جان میرا لوڑا
موٹا نہیں ہے تمہاری چوت ہی
بہت ٹائٹ ہے
بس یہی سوچتے ہوئے میں ..
نے دھیرے دھیرے شہال کی
چوت میں گھسے لگانے شروع
کر دیئےمیں دھیرے دھیرے
گھسے لگا رہا تھا اور شہال
چدائی کے مزے میں سسکاریاں
بھر رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ
آہ ہائے میری چوت دھیرے
دھیرے چودو...ذیشان آہ آہ آہ
میری چوت پھٹ رہی ہے ۔۔۔ آہ
آہ آہ پلیز ذیشان دھیرے
چودو میری پھدی پھٹ رہی ہے
آہ آہ آہ اوئی اوئی آہ آہ اس
کے مونہہ سے ایسی سیکسی
اور گندی گندی سسکاریاں سن
کر میرے اندر اور بھی آگ لگ
رہی تھی ۔
میں نے اپنے گھسوں کی رفتار
بڑھا دی اور زور زور سے پھدی
پر گھسے مارنے لگا دس منٹ
کی اس سکسی چدائی نے ہم
دونوں کو پسینے میں شرابور
کر دیا تھا کیونکہ سٹور میں
پنکھا وغیرہ نہیں تھا میرا لوڑا
کس کس کے شہال کو چود رہا
تھا میں اپنے لوڑے کو سکسی
شہال کی چوت سے نکالتا اور
پھر سے ایک دم اس کو چوت
میں گھسیڑ دیتا جس کی وجہ
سے شہال کی چوت دو بار پانی
چھوڑ چکی تھی اس کی چوت
سے پچک پچک کی آوازیں آ
رہی تھیں سکسی شہال کی
چوت اتنی ٹائٹ اور جسم اتنا
سیکسی تھا کہ پندرہ منٹ کی
چدائی کے بعد ہی مجھے لگا کہ
میرا لوڑا ڈسچارج ہونے واال
ہےمیں نے لوڑے کو شہال کی
چوت سے باہر نکال لیا اور میں
نے شہال کو ڈوگی سٹائل میں
گھوڑی بننے کو کہا ۔
وہ اٹھی اور صوفے پر
اسسطرح گھوڑی بن گئی کہ
میں زمین پر کھڑا ہو کر اس
کو چود سکتا تھا میں نے پہلے
ڈوگی سٹائل میں ہی اس کی
پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا
جو کہ میرے لن اور اسکی
چوت کے پانی سے چکنی ہو
رہی تھی میں نے اسکی چوت
کو چاٹ کر خوب صاف کیا اور
پھر اسکی گول مٹول چھوٹی
سی گانڈ کو اپنے دونوں
ہاتھوں سے پکڑ کر لوڑے کی
اس کی چوت کے منہ پر رکھا
ہی تھا کہ شہال نے پیچھے کو
ایک گھسا مارا جسکی وجہ
سے میرا پورے کا پورا لوڑا
شہال کی چوت میں غرق ہو گیا
اور اس کے منہ سے چیخ نکل
گئی اور اسی دوران دروازے
پہ ہلکی سی ناک ہوئی اور ہم
حیرت اور خوف میں ڈوبتے
چلے گئے
دروازے پہ دوبارہ ناک ہوئی
لیکن ہم خاموش تھے اسی لیے
آنے والے نے ہلکی آواز لگائی
اور کہا میں سحر ہوں ذیشان
ہیلو ڈرو مت میں سحر ھوں
اور اکیلی ہوں دروازہ کھولو
اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے
میں کب سے باہر کھڑی ھوں
اور مجھے سب پتہ چل چکا ھے
سکسی چدائی لگتی محسوس
کر رہی ہوں شیال تم نہیں رہ
سکی نہ لن تیری مجبوری اے
تم نے ذیشان کو بھی نہیں
بخشا مجھے بھی یہ سب
دیکھنا ھے
اور یہ ہماری جان میں جان
آئی میں نے ننگے بدن کے ساتھ
ہی دروازہ کھول دیا وہ آئی
اور بولی کیا تم مجھے بھی
ساتھ شامل کر سکتے ہوں اس
کھیل میں مجھے بھی بڑا شوق
ہے۔
شہال کچھ شرمندہ تھی لیکن
میں نے انہیں کہا کوئی بات
نہیں آجکل تو بھائی بہن بھی
تو ایک ساتھ بھی انجوائے کر
لیتے ہیں اس میں کوئی برائی
نہیں ہے تب شہال نارمل ہو
گئی اور میں نے حوصلہ کر کے
اس سکسی سحرکو کسنگ
شروع کر دی تھی اور پھر
دھیرے دھیرے اس کے بھی
سارے کپڑے اتر چکے تھے اور
وہ میرا لن چوس رہی تھی اب
ہم شرم سے کوسوں دور جا
چکے تھے اور شہال کی ایک بار
پھر چدائی لگ رہی تھی ۔
میں نے زور سے لن ڈاال تو
شہال بولی ہائے میں مر گئی آہ
میری چوت پھٹ گئی آہ آہ آہ
اور پھر اس نے خود ہی دھیرے
دھیرے سے گھسے لگانا شروع
کر دئے جب اس کے گھسوں
کی رفتار کچھ کم ہوئی تو میں
نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے
ہوئے اس کی چوت میں لوڑا
اندر باہر کرنا شروع کر
دیاگھوڑی بننے کی وجہ سے
اسکی چوت اور بھی ٹائٹ
محسوس ہو رہی تھی ابھی
اسطرح چدائی کرتے ہوئے
پانچ منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ
مجھے لگا کہ کسی بھی لمحے
میرا لن شہال کی چوت میں
منی اگل دے گا میں شہال کو
کہا جانی میرا لوڑا تمہاری
چوت میں منی چھوڑنے واال
ہے ۔
اس نے کہا میری چوت میں
فارغ مت ہونا پلیز مگر مجھ پر
تو جنون سوار تھا میں زور
زور سے گھسے مار رہا تھا اور
کب میرے لوڑے نےسکسی
شہال کی چوت میں گرم گرم
منی چھوڑ دی مجھے پتا نہیں
چال میں لوڑے کواس کی
چوت میں ہی رکھ کر کھڑا ہو
گیا اور جب ہماری حالت کچھ
....سنبھلی تو
میں نے اپنےلوڑے کو شہال کی
چوت سے باہر نکاال اور اپنی
بنیان سے اپنے لوڑے اور شہال
کی چوت کو صاف کیا اور
شہال کو اپنے سامنے کھڑا کر
کے اس کو اپنے سینے سے لگا
کر اس کے ہونٹوں پر کس کرنے
لگا ۔
اب شہال سکون سے لیٹ گئی
تھی اور میں نے اس کی
سکسی جوان کم عمر .سحرکے
ساتھ چدائی شروع کر دینی
تھی اور میری حیرت کی انتہا
نہیں تھی جب میں نے دیکھا
کہ سحر اب پوری طرح
اندھیرے میں شاید ننگی ھو
چکی ھے اور بولی ذیشان میں
ورجن ھوں اسلئیے پورا سیکس
نہیں کرونگی۔۔۔۔شیال بولی تم
پہلے میری چدائی دیکھ لو پھر
تیری سیل اوپننگ ھوگی۔۔۔
سحر اور شیال بہت ہاٹ
سیکسی لڑکیاں تھیں شیال ایک
گوری چٹی لمبے قد کی لڑکی
تھی اور شہال کا قد چھوٹا تھا
پر نیرو باجوہ جیسی شکل و
صورت تھی پھر کچھ باتیں
کیں اور .سلمون کے ڈر سے
جلدی ھم رومانس کرنے لگے
آ ج الئیو شو تھا اسلیئے صبر
کرنا مشکل تھا ھمارے لئیے
یہ دیکھ کر میں نے .سحر کو
اپنی گود سے اتارا اور .شیال
کو پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر اپنے
ہونٹ رکھ دیے۔ ابھی میں
نے.شیال کو پیار کرنا شروع ہی
کیا تھا کہ.سحرنے میری قمیص
کے بٹن کھول کر میری قمیص
اتار دی۔
میں اب مکمل ننگا کھڑا تھا
اور.سحرکے ہونٹوں کو اپنے
ہونٹوں سے چوس رہا تھا،
جبکہ .سحرنے اب پہلی بار میرا
ننگا لن دیکھا تھا اور وہ اب
نیچے بیٹھ کر میرے لن کو
ہاتھ میں پکڑ کر اسکی لمبائی
دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔
اب میں نے .شیال کو بھی اپنی
گود میں اٹھایا تو اس نے اپنی
دونوں ٹانگیں میری کمر کے
گرد لپیٹ لیں اور .سحر نیچے
بیٹھ کر میرے لن کی مٹھ
مارنے لگی۔ میں نے کچھ دیر
.شیال کے ہونٹ چوسنے کے بعد
اسکی گردن پر اپنے دانت گاڑھ
دیے اور اسے وحشیوں کی
طرح پیار کرنے لگا۔ میرے اس
پیار سے .شیالکی سسکیاں
نکلنا شروع ہوگئی تھیں
جبکہ نیچے .سحر نے میرے لن
کی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھ کر
اس پر ایک بوسہ دیا اور پھر
اپنی زبان نکال کر میرے لن پر
پھیرنا شروع کر دی اور بولی
میں ایک تحفہ دونگی تمہیں
اس رات۔ میں نے .شیال سے
توجہ ہٹا کر اسکی طرف دیکھا
اور کہا کیسا لگا تمہیں میرا
......لن؟؟؟ یہ سن کر
سحر بولی.ذیشان بہت
، زبردست ہے
ایسے لن کے لیے تو لڑکیاں
ترستی ہیں ،اور جو مجھے
.شیال نے بتایا اگر تمہاری اتنی
ٹائمنگ بھی ہے تو پھر تو کیا
ہی بات ہے۔ میں نے کہا ٹائمنگ
کی تم فکر نہ کرو ،جب تک تم
تھکو گی نہیں میں تمہاری
چدائی جاری رکھوں گا ،بس تم
ایک زبردست سا چوپا لگا دو
میرے لن کا۔ یہ سن کر .سحر
...بولی
ذیشان تم فکر نہ کرو ،ایسا
چوپا لگاوں گی کہ یاد کرو گے۔
یہ کر کر .سحر نے اپنا منہ
کھوال اور میرے لن کا ٹوپا اپنے
منہ میں لیکر اس پر اپنی زبان
پھیرنا شروع کر دی۔
میں نے.سحر کو اسکا کام کرنے
دیا اور خود اب.شیال کے مموں
پر اپنی زبان چالنا شروع کر
دی جو اسکے برا سے باہر نکلے
ہوئے تھے۔ پھر میں نے .شیال
کی کمر سے اسکے برا کی ہک
کھولی اور اسکا برا اتار کر
ایک سائیڈ پر پھینک دیا اور
.شیال کے خوبصورت مموں کو
اپنے منہ میں لیکر چوسنا
شروع کر دیا۔
شیال کے چھوٹے چھوٹے مگر
سخت نپل اس وقت میرے منہ
میں تھے اور میں کبھی انکو
چوس کر ان سے دودھ پیتا تو
کبھی انکو اپنے دانتوں سے ہلکا
سا کاٹ کر .شیال کی سسکیاں
نکالتا۔
نیچے بیٹھی ..سحر میرا لن اب
اپنے منہ میں ڈال کر چوپے
لگانا شروع ہوچکی تھی۔ اسکو
چوپے لگانے کا کوئی اتنا خاص
تجربہ تو نہیں تھا مگر پھر
بھی مجھے اس کا اناڑی پن
اچھا لگ رہا تھا۔
شیالکے چوپوں میں اور .سحر
کی چوپوں میں بہت فرق تھا،
مگر دونوں کی لن کے لیے طلب
ایک جیسی ہی تھی۔ بلکہ
.سحر میں نےشیال سے پوچھا
کہ آج وہ میرے لن کا چوپا
لگائے گی یا نہیں؟؟؟
تو .شیالنے پھر سے کہا
کہ .ذیشاننہیں وہ لن اپنے منہ
میں نہیں ڈال سکتی اسے
نفرت آتی ہے۔ اسکی بات سن
کر .سحر بولی ارے پاگل ایک
بار چوپا لگا کر تو دیکھ ،بہت
مزہ آتا ہے۔ یہ کہ کر .سحر نے
دوبارہ لن منہ میں ڈال لیا اور
اسکواللی پاپ کی طرح
چوسنے لگی۔
میں نے .شیال کو کہا آج تو تم
سے چوپا لگوانا ہے ،البتہ میں
کنڈوم چڑھا لیتا ہوں جو بنانا
فلیور کا ہے تو تمہیں میرے لن
کی بجائے کیلے کا ذائقہ ملے گا۔
اس بات پر .شیال راضی ہوگئی
تو میں نے اسکو اپنی گود سے
نیچے اتار دیا اور کنڈوم اٹھا
کر .سحر کو پکڑایا تو اس نے
جلدی جلدی میرے لن پر کنڈوم
چڑھا دیا اور ایک بار پھر سے
میرا لن اپنے منہ میں لیکر
چوسنے لگی۔
سحر بھی اب اسکے ساتھ .
بیٹھ گئی تھی،شیال نے بھی
تھوڑا ہچکچاتے ہوئے میرا لن
اپنے منہ میں لیا ،اسے واقعی
میں کیلے کا ذائقہ مال تو اسکی
ہچکچاہٹ ختم ہوگئی اور اب
اس نے بھی میرا لن اپنے منہ
میں لیکر چوسنا شروع کر دیا
تھا جبکہ .سحر کے منہ میں اب
میرے ٹٹے تھے جنہیں وہ چو
س رہی تھی۔
شیال کو چوپے لگاتا دیکھ کر
اب میں نے .کو کھڑا کیا اور
اسکی قمیص کے براکھول کر
، اسکی قمیص اتار دی
جبکہ نیچے سے .سحر نے شیال
کی شلوار اتار دی۔
سحر نے سرخ رنگ کا
خوبصورت برا پہن رکھا
تھا32سائز کے .سحر کے ممے
دیکھ کر میری طبیعت خوش
ہوگئی۔ میں نے بغیر وقت ضائع
کیے اسکا برا بھی اتار دیا اور
اسکے بڑے بڑے مموں کو منہ
میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔
کچھ دیر تک .سحر کے ممے
چوسنے کے بعد میں نے اسے
بھی اپنی گود سے اتارا اور
اسکی پینٹی اتار دی۔ پینٹی
اتارنے کے بعد میں خود صوفے
پر لیٹ گیا اور .سحرکی ایک
ٹانگ اٹھا کر صوفے پر اپنے
چہرے کے دوسری سائیڈ پر
رکھ دی اور اسے نیچے جھکنے
کو کہا۔
سحر نیچے جھکی تو اسکی
چکنی اور تنگ چوت میرے
چہرے کے بالکل سامنے
تھی۔.سحرکی چوت بالوں سے
بالکل صاف تھی جیسے
اس نے آج ہی اپنی چوت کے
بال صاف کیے ہوں۔ یہ دیکھ کر
مین نے اپنی زبان نکالی اور
.سحر نے مزید جھک کر اپنی
چوت کو میرے زبان کے ساتھ
مال دیا.سحر کی چوت سے
گالب کی مہک آرہی تھی ،وہ
شاید اپنی چوت کو عرِق گالب
سے دھو کر ہی آئی تھی۔ میں
نے اپنی زبان کو .سحر کی
چوت کے لبوں کے درمیان میں
داخل کیا اور اسکو چوسنا
شروع کر دیا ،جبکہ نیچے وہ
میرے 8انچ کے لوڑے کو منہ
میں لیکر چوسنے میں مصروف
تھی۔ نیچے سحر کے چوپے اور
اوپر شیال کی چکنی چوت
مجھے بہت مزہ دے رہی تھی۔
اسکی سسکیاں بہت وحشی
تھیں جن سے مجھے اندازہ
ہورہا تھا کہ وہ سیکس کو
انجوائے کرنے والی لڑکی ہے ۔
سحر ساتھ ساتھ اپنی چوت
کے دانے پر اپنا ہاتھ پھیر رہی
تھی جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ
اپنی چوت کے لب کھول کر
مجھے اپنی زبان زور زور سے
رگڑنے کا کہ رہی تھی.سحر کی
چوت کے لن اسکی چوت کے
پانی سے چکنے ہورہے تھے ۔ 2
منٹ تک میں .سحر کی چوت
کو چاٹتا رہا ،پھر .سحر نے
اپنی ٹانگ واپس نیچے رکھ لی
اور میری زبان اپنے منہ میں
لیکر میری زبان سے اپنی چوت
کا ذائقہ چکھنے لگی۔
نیچے .شیال نے میرا لن چھوڑ
کر اپنے لبوں پر زبان پھیر کر
بولی ایک راونڈ اور ھو جائے۔۔
وہ اب .سحر والی پوزیشن
میں میرے اوپر آکر بولی چلو
اب میری چوت کو بھی ایسے
ہی چاٹو جیسے .سحرکی چوت
چاٹی ہے۔ اسکی چوت بھی
بالوں سے صاف تھی البتہ
اسکی چوت سے گالب کی
خوشبو نہیں آرہی تھی بلکہ
اسکی چوت کے پانی بو تھی
جسکو میں نے کچھ لمحے
سونگھ کر اپنے ناک کو معطر
کیا اور پھر اپنی زبان .شیالکی
چکنی چوت پر رکھ کر اسکو
، چوسنا شروع کر دیا
جبکہ میں بوال کہ سحر اب میں
تمہاری لینا چاہتا ھوں شیال
بولی وہ سیل پیک ھے اسکی
سیل اوپننگ بعد میں ھوگی
پہلے اسے الئیو میچ دیکھنے دو
اور تم بیٹنگ کرو شیال اب
میرے اوپرآکر بیٹھ گئی تھی،
میرے اوپر بیٹھنے کے بعد اس
نے میرے لن کو پکڑ کر اپنی
پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا
اور اس پر ہلکا سا دباو ڈاال تو
میرے لن کی ٹوپی اسکی
پھدی میں داخل ہوگئی جس
پر شیال کے منہ سے ایک
سسکی نکلی۔ ۔۔۔۔
اف۔۔...ذیشان۔۔ بہت موٹی ہے
ذیشان تمہارے لن کی....
ٹوپی۔۔۔ یہ کہ کر .شیال نے ایک
جھٹکا لیا میرے لن پر اور
پوری کی پوری میرے لن پر
بیٹھ گئی۔ میرا لن اسکی چوت
کی دیواروں کو چیرتا ہوا
اسکی چوت کی گہرائیوں میں
،اتر چکا تھا
Night rayederڈاٹس واال
کنڈوم ہونے کی وجہ سے
.شیالکی چوت کی دیواروں پر
رگڑ کچھ زیادہ ہی لگی تھی
جس سے اسکی ایک دلخراچ
چیخ نکلی اور وہ کچھ لمحے
بغیر ہلے میرے لن کے اوپر
بیٹھی رہی اور آہ ہ ہ آہ ہ
ہ.....ذیشان فک می ہارڈ آہ ہ ہ
کی سسکیاں نکالتی رہی۔ جبکہ
.شیال بھی اپنی چوت میں
میری زبان کی رگڑ کی وجہ سے
سسک رہی تھی جبکہ میرے
ایک ہاتھ کی انگلی .شیال کے
چوتڑوں کو کھول کر اسکی
.....چوت کا درشن کرنے لگے
اب شہال بولی کہ ذیشان کبھی
کسی لڑکی کی سیل توڑی ھے
تم نے تو میں بوال شیال یار اب
تک تو میں نے صرف شادی
شدہ لڑکیوں کوہی چودہ ھے آج
پہلی بار سیل پیک چوت ملنے
والی ھے اور وہ بھی صرف
آپکی وجہ سے شیال اپنی
تعریف سن کر بولی چلو میں
تجھے سکھاتی ھو ں کہ تھری
سم کا مزہ دوباال کیسے کیا
جاتا ھے اس نے سحر کو بوال
کہ تم لیٹ جاؤ اور سحر بیڈ پر
سیدھا لیٹ گئ اور مجھے
:شیال نے بوال کہ
تم سحر کی ٹانگیں اٹھا کر
اپنے کندھے پر رکھ لو میں نے
شیال کا حکم بجاالتے ھوۓ
سحرکی گوری گوری ٹانگیں
اٹھا دیں اور شیال نے اپنی
چوت سحر کے منہ پر رکھ کر
اپنا منہ سحرکی چوت پر رکھ
دیا اور اس نے سحرکی چوت
پر اپنا تھوک لگایا اور اسکی
چوت کو گیال کر دیا اور مجھے
بولی سحرتو پہلے ھی بہت گرم
ھے اسکی چوت تو پہلے ھی
گیلی ھے سحر بولی شیال آپی
ذیشان کو بولو کہ بنا کنڈوم کے
میری سیل توڑے ھم محبت کی
یہ جنگ بنا تلواروں کے لڑنا
چاھتے ھیں
شیال بولی بڑا پرجوش ھو بچی
تم تو جب اتنالمبا تیرے اندر
جاۓ گا تب جنگ میں خون
خرابہ بہت ھوگا شیال نے
میرالن پکڑکر سحر کی کنواری
چوت پر رگڑا تو میرا کیپ
چکنا ھوگیا اور شیال نے لنڈ
اپنی چھوٹی بہن کی چوت کے
سوراخ پر رکھا اور مجھے
اشارے سے کہا کہ ایک جھٹکے
.....میں ھی سارا اندر ڈال دو
میرالن اب نرم چوت کے تنگ
سوراخ پر تھا میں نے جوش
میں آ کر ایک جٹھکا مارا اور
میرا لن دو انچ تک سحرکی
کنواری چوت کھول کر اسکے
اندر چال گیا سحر درد سے
چالئی آؤچ آہ آہ بہت موٹا ھے
تیرا تو ذیشان تو میں نے
دوسرا شارٹ بھی مار دیا آہ
میں مرگئ شیال نے دیکھا کہ
میرا لنڈ اسکی چھوٹی بہن کی
سیل توڑتا ھوا اسکی ناف تک
چال گیا
سحرکی چوت اب خون سے لت
پت ھوچکی تھی مجھے شیال
نے کس کرنا شروع کردیا اور
میں نے اپنالنڈ اسکی چھوٹی
بہن کی چوت میں بنا شارٹ
مارے اندر ھی رہنے دیا ہماری
کچھ دیرکسنگ ھوئی اور پھر
شیال سحر کے اوپر سے نیچے
اترگئ اور بولی ذیشان اب یہ
کھیل آپ دونوں کا ھے آپکو
سحرکی سیل توڑناکیسالگا سچ
بتانا تو میں بوال سحرکی
چمکتی دمکتی نرم اور
مخروطی سیپی جیسی چوت
کا دراوزہ کھول کا میں بہت
خوش ھوں
جیسے ہی میں نے سحر کو
چودنا شروع کیا اسکے چہرے
پر خوشی کے واضح آثار نظر
آنے لگے ،اسکے چہرے پر ہلکی
مسکراہٹ تھی اور ہر دھکے کے
ساتھ وہ آہ ہ ہ ہ بہت مزہ ارہا
ھے ،آہ ہ ہ ۔۔۔ اف ف ف ۔۔۔ آہ
ہ ہ ہ کی آوازیں نکال ری تھی۔
اسکی چوت بہت ٹائٹ تھی
جسکی وجہ سے مجھے اسکو
چودنے میں بہت مزہ مل رہا
تھا۔
نئی چوت کا ہمیشہ اپنا ہی
ایک نشہ ہوتا ہے ،یہی وجہ
تحھی کہ سحر کی چوت مارنے
کا مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور
اسکےجسم سے آںے والی گالب
کی مہک مجھے سکون دے رہی
تھی۔ کچھ دیر تک اسے ایسے
ہی چودنے کے بعد میں نے
اسکے چوتڑوں کو تھوڑا اور
اوپر اٹھا لیا اور اسے تھوڑا
آگے کی طرف دھکیال تو
اسکےبتیس سائز کے ممے میرے
منہ کی پہنچ میں آگئے جنہیں
میں نے فورا ہی منہ کھول کر
اپنے منہ میں لے لیا اور نیچے
سے اسکی چوت میں دھکوں کا
سلسلہ جاری رکھا۔ 5منٹ تک
میں سحر کو اسی پوزیشن
میں چودتا رہا 5 ،منٹ بعد
مجھے محسوس ہوا جیسے
سحر کی پھدی کی گرپ پہلے
کی نسبت بہت ٹائٹ ہورہی ہے۔
اسکی چوت کی دیواروں کی
گرفت میرے لن کے گرد کافی
سخت ہوچکی تھی اور پھر
ایک دم سے سحر کی چوت سے
ڈھیر سارا پانی نکال جس سے
میری ٹانگیں اور میرا پیٹ
بھیگ گیا۔
اسکی چوت کا پانی نکلتے ہی
میں اسے سائیڈ پر کیا تو وہ
سائیڈ پر ہوکر بھی گہرے
گہرے سانس لے رہی تھی جبکہ
میں نے اب فورا شیال کو پکڑا
اور اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔
میری گود میں بیٹھتے ہی اسنے
اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر
رکھ کر انکو چوسنا شروع کر
،دیا
جبکہ میں نے اسکو گانڈ اٹھا
کر اوپر کرنے کے بعد اپنا لن
اسکی چوت میں ڈالکر ایک ہی
دھکے میں اسے نیچے بٹھا دیا۔
سحر کی طرح شیال کی بھی
ایک دلخراش چیخ نکلی،
کنڈوم کے ڈاٹ نے کافی رگڑ دی
تھی دونوں کی پھدیوں کو۔
مگر شیال کے لیے میں نے زیادہ
انتظار نہیں کیا اور کچھ ہی
لمحوں کے بعد اسکی چوت
میں دھکے لگانے شروع کر دیے۔
شیال اپنے گھٹنوں کے بل میری
گود میں بیٹھی تھی اسکے ممے
میرے منہ کے سامنے ہل رہے
، تھے
میرے ہر دھکے کے ساتھ اسکے
ممے اچھل کر میرے چہرے سے
ٹکراتے اور ساتھ ہی اسکی
سسکیوں کی آواز بھی آتی۔
شیال کو چودتے ہوئے میں نے
ایک ہاتھ اسکے چوتڑوں کے
نیچے رکھ دیا تھا اور اس ہاتھ
کی انگلی میں اسکی گانڈ میں
ڈال چکا تھا جس سے شیال کو
تکلیف بھی ہورہی تھی اور
اسکی سسکیوں میں بھی بے
پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔ شیال کی
چوت میں میرا موٹا لن اور
گانڈ میں میری انگلی کی وجہ
سے اسکی چوت کی دیواریں
آپس میں مل کر بہت ٹائٹ
ہوگئی تھیں اور مجھے لگ رہا
تھا کہ اگلے کچھ ہی جھٹکوں
میں شیال کی چوت پانی چھوڑ
دے گی۔
میرا اندازہ درست ثابت ہوا اور
گانڈ میں انگلی ہونے کی
وجہ سے شیال کی چوت نے
محض 2منٹ کی چودائی کے
بعد ہی پانی چھوڑ دیا۔ شیالکو
فارغ کرنے کے بعد میں نے
دوبارہ سے سحر کی طرف رخ
کیا جو چدائی کے لیے بے چین
بیٹھی تھی ،مجھے اپنی جانب
متوجہ ہوتا دیکھ کر بولی ساڈا
وی حق بن دا اے
سحر میری طرف بڑھی اور
نیچے بیٹھ کر اس نے میرے لن
سے کنڈوم اتار دیا۔
میں نے کہا یہ کیوں؟؟ سحر
بولی
ذیشان میری چوت تمہارے لن
کا اصلی لمس محسوس کرنا
چاہتی ہے ،یہ کہ کر سحرنے
ایک بار پھر میرا لن اپنے منہ
میں لے لیا اور اسکے کچھ
چوپے لگانے کے بعد بولی
بولو جانو اب کیسے چودو گے
مجھے؟؟؟
میں نے کہا گھوڑی بن جاو۔
میری بات سن کر سحر فورا ہی
صوفے پر گھوڑی بن گئی۔
اسکی 32انچ کی گانڈ بہت
بھلی لگ رہی تھی اور اسکی
گانڈ دیکھتے ہی میں نے تہیہ
کر لیا کہ آج چوت کے ساتھ
ساتھ اسکی گانڈ بھی الزمی
مارنی ہے۔ میں نے سحر کے
گوشے سے بھرے ہوئے چوتڑوں
پر ایک تھپڑ مارا اور پھر
اسکی چوت میں اپنا لن ڈال کر
اسکو چودنا شروع کر دیا۔
میرے ہر دھکے پر میرا جسم
سحر کے گوشت کے پہاڑوں سے
ٹکراتا تو دھپ دھپ کی آوازیں
گونجتی جبکہ ان آوازوں کے
ساتھ سحر کی آہ ہ ہ ہ ہ ،آہ ہ
ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ او یس
شانی۔۔۔۔۔ فک می ہارڈ۔۔۔۔۔۔
شانی زور سے دھکے مارو۔۔۔۔ آہ
ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ زور زور سے
چودو۔۔۔۔ فک می۔۔۔۔ فک
می۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ کی آوازوں کا
ردھم تو کمال کا تھا۔ سحر کو
چودتے ہوئے میں نے ایک انگلی
اسکی گانڈ میں بھی ڈال دی ۔
جیسے ہی میں نے سحر کی
گانڈ میں انگلی ڈال دی اسنے
ایک لمبی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی
آواز نکالی جسکا مطلب تھا کہ
اسکو مزہ آیا ہے انگلی ڈالنے
سے۔
اسکی گانڈ میں انگلی ڈال کر
مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ
پہلے بھی گانڈ مروا چکی ہے
صرف چوت بچی ھوئی تھی ۔
میں نے سحر سے پوچھا پہلے
کس کس سے گانڈ مروائی ہے،
نیلم نے کہا بس شانی ہمارے
ایک ٹیچر ہیں ،ایک بار میں
فیل ہوگئی تو پاس ہونے کے
لیے ان سے صرف گانڈ مروائی
تھی ،تبھی انہوں نے گانڈ ماری
تھی۔ اور تب سے وہ میری گانڈ
کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ جب بھی
موقع ملتا ہے میری گانڈ مار
دیتے ہیں۔ میں نے کہا ،یعنی آج
تمہاری چوت کے ساتھ ساتھ
تمہاری گانڈ بھی مارنے کا
موقع ملے گا ۔۔۔۔ اس پر سحر
بولی ،رحم کرو
شانی مجھ پر ،تمہارے اس
گھوڑے جیسے لن کے سامنے
میری ٹیچر کا لن تو کچھ بھی
نہیں۔ وہ بہت پتال لن ہے۔
مجھے اس سے اتنی تکلیف
ہوتی ہے تو تمہارا لن تو بہت
بڑا اور موٹا ہے۔ اس سے تو
میری گانڈ پھٹ جائے گی۔
ابھی میں کچھ کہنے ہی لگا
تھا کہ اسکی آواز آئی اور اس
لن کے بارے میں کیا خیال ہے۔
میں نے مڑ کر شیالکی سحرنے
بھی مڑ کر اسکی طرف دیکھا
اور بولی یہ تو میں تمہاری
گانڈ میں ڈلواتی ہوں ابھی۔ یہ
سن کر شیال ہنسنے لگی جبکہ
وہ میرے لن کی دھکوں کو
اپنی چوت میں برداشت کرتے
ہوئے سسکیاں لیتی رہی۔
شیاللن والی پینٹی پہنے
کھیرے کو لن بنا کر کو اپن
ہاتھ میں لیکر مسلتے ہوئے
سحرکے سامنے آکر بیٹھ گئی۔
سحر جو پہلے میرے لن سے
اپنی چوت مروا رہی تھی اب
اس نے چوت مروانے کے ساتھ
ساتھ شیالنے بھی لن چوسنا
شروع کر دیا تھا۔
کچھ دیر تک میں سحر کو
چودتا رہا ،پھر میں نے سحر
کی چوت سے لن نکاال اور شیال
کو کہا کہ وہ میرے پاس
آجائے۔ وہ اتر کر میرے پاس
آئی ،شیال سیدھی ہونے لگی تو
میں نے اسے کہا تم گھوڑی بنی
رہو۔ وہ اب گھوڑی بن گئی تو
میں نے چودنا شروع کردیا
جبکہ میں دونوں بہنوں کو
سیکس کرتے دیکھ کر خوش
ہورہا تھا۔ کچھ دیر تک میں
ایسے ہی پیچھے کھڑا شیال کی
کھیرے سے چدائی کو دیکھتا
رہا ،پھر میں شیال کے پیچھے
آیا اور اسکو کچھ دیر رکنے کو
کہا۔ شیال نے سحر کی چوداِئ
روک دی مگر اسکا کھیرا ابھی
تک سحر کی چوت میں تھا۔
میں نے شیال کو تھوڑا سا
جھکا کر اسکی گانڈ کو باہر کی
طرف نکاال اور اسکی لن والی
پینٹی کو اسکی چوت سے
تھوڑا سا ہٹا کر اپنے لن کی
ٹوپی اسکی چوت پر رکھ کر
ایک زور دار دھکا مارا تو میرا
لن اسکی چوت میں اتر گیا اور
میرے دھکے کی وجہ سےاس
کے چوتڑ آگے کی جانب ہوئے تو
اسکی چوت میں بھی شیال کے
کھیرے کا دھکا لگا جس سے
دونوں کی ہی سسکی نکلی۔
پھر میں نے سحر کو اسکے
مموں سے پکڑ کر اسکی خوب
جاندار چدائی شروع کر دی۔
سحر کھڑی تھی جسکی وجہ
سے اسکی چوت بہت ٹائٹ
تھی اور اسکی چوت میں میرا
لن اسکی چوت کی دیواروں کو
چیرتا ہوا اسکی گہرائی تک
چود رہا تھا۔
شانی آہ ہ ہ ہ آ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور زور
سے چودو۔ذیشان ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ
ہ۔۔۔ زور سے ۔۔۔۔۔ اور زور سے۔۔۔
آہ ہ ہ ہ کی آوازیں لگا رہی
تھیں۔ شیال کی چوت میں
کھیرے کے دھکے زیادہ شدت
سے لگ رہے تھے جبکہ کی
چوت میں دھکوں کی رفتار وہ
نہیں تھی کیونکہ اسکی چوت
میں دھکا میرے دھکے کی وجہ
سے لگتا تھا۔
میں نے سحر سے پوچھا کہ مزہ
آرہا ہے اس چدائی کا؟؟؟ تو
اسنے کہا ہاں،ذیشان تم
طاقت سے چودو تاکہ میری
چوت میں بھی تیز تیز دھکے
لگیں۔
سحر کی بات سن کر شہال نے
کہا ہاں اور زور سے چودو
مجھے ،شانی۔۔۔۔بہت مزہ آرہا
ہے۔۔۔ آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ
۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ۔۔۔شانی ۔
کیا زبردست لن ہے تمہارا۔۔۔ آہ
ہ ہ ہ ہ زور زور سے دھکے
لگاو۔۔۔۔۔ 5منٹ تک میں سحر
کو اسی طرح چودتا رہا اور
سحر کی مٹھی پر لگا کھیر لن
بن کر شیال کو چودتا رہا۔ 5
منٹ بعد مجھے محسوس ہوا
کہ سحر کی چوت پانی
چھوڑنے والی ہے اور اگلے کچھ
ہی دھکوں کے بعدسحر نے اپنی
چوت کو زور سے جکڑ لیا اور
پھر ایک دم سے اسکی چوت
سے گرما گرم پانی نکال جس نے
میرے لن کو بھگو دیا۔ جیسے
ہی سحر کی چوت نے الوا اگال،
اسکے ساتھ ہی کھیرے سے
چدائی کرواتی ہوئی شیال کی
چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا
اور یوں
ایک لن سے 2چوتوں کو
چودنے کا سلسلہ ختم ہوگیا یہ
میرا پہال تھری سم تھا جو
کامیاب رہا۔
شاہد اپنے کھیتوں میں صبح
صبح ہل چال رھا تھا اور میں
واک کرنے نکال تو اسکو ہل
چالتے ھوۓ دیکھ کر میں آم
کے نیچے درخت پر بیٹھ گیا
گھر سے نوکرانی ناشتہ لیکر
آرھی تھی جسے دیکھ کر میں
نے شاہد کو زور سے آواز دی
اور بوال اوۓ ناشتہ کرلو تم کو
صبح صبح پتہ نہیں کونسا
بخار چڑھا ھے تو اس نے
ٹریکٹر بند کیا اور میری طرف
آتے ھوۓ بوال یار ابو نے کہا کہ
ادھر سرسوں کا ساگ لگانا ھے
اسی لئیے آج صبح صبح اس
کھیت کو تیار کرنا ھے شام کو
پانی کی واری بھی ھے ابو
بولتے ھیں
شام تک سب فصلوں پر بوائی
مکمل کرلو منشی چاچا آج
شہرسے بیج لینے گئے ھیں وہ
بھی دوپہر تک آجائینگے شاہد
کے پاس بھی میسی ٹریکٹر تھا
اچھی حالت تھی ٹریکٹر کی
ھم آپس میں گپ شپ کر رھے
تھے تب گالبو ناشتہ لیکر
ھمارے پاس آپہنچی اور مجھے
بولی شانی بھائی تسی دونویں
بھراہ بیٹھ کے ناشتہ کرو میں
سبزی توڑنے جارھی ھوںگالبو
بائیس سالۂ ایک خوبرو لڑکی
تھی جو شاہد کے کھیتوں پر
منشی چاچاکی بڑی بیٹی تھی
اسکی شکل پاکستانی ٹیلی
ویژن اداکارہ حبابخاری جیسی
تھی بڑی بڑی آنکھیں چمکتے
دانت جوانی کی بہار شاید
شاہد نے اس کلی کا رس چوسا
ھوگا تبھی تو صبح سویرے
ہیرسیال بن کر روٹی لیکر آئی
....تھی خیر
شاہد بوال سالیا ہن شرمائی
جاویں گا یا پھر ناشتہ وی
کریں گا تو میں بوال یار اے دو
پراٹھے تے صرف تو کھاجاۓ
گا میں کیا کھاؤں گا تو وہ
بوال کردی نہ وہی بات اوہ یار
میں صبح ایک پراٹھا ھی کھاتا
ھوں تو پھر میں بوال دوسرا
پھرکیوں الئی ھے گالبو تو
شاہد بوال شانی تو واقعی
کمینہ ایں اب ساری باتیں
پوچھے گا تو پھر میں بوال کہ
بتادو نہ پھرمیں نے پراٹھا
دھی کیساتھ کھاتے ھوۓ کہا
تو وہ بوال یار جس دن میں
کھیتوں میں جلدی آجاتا ھوں
تو گالبو ناشتہ لیکر آتی ھے اور
ایک پراٹھا وہ کھاتی میرے
ساتھ میں نے جھٹ سے اپنا
ہاتھ سے نوالہ چنگیر میں رکھ
کر کہا مطلب میں تمہاری
اس ....ہیر.....سلیٹی کا حصہ
کھارہا ھوں شاہد بوال یار تم
کھاؤ
وہ تو گھر جاکر کھالے گی میں
بوال کہ تم سے بہت پیار کرتی
ھے پھر تو یہ تو شاہد بوال ہاں
یار بچپن کی دوست ھے میری
اس لیئے بہت انڈر سٹینگ ھے
اس کیساتھ تو میں بوال تم نے
لی اسکی کہ نہیں تو شاہد
مسکرا کر بوال ابھی تک تو
نہیں لی اسکی پر ھم کافی دفع
بوس وکنار ھوچکے ھیں
پرسوں میری سالگرہ ھے تو
اس نے وعدہ کیا ھے کہ وہ اس
رات اپنے کنوارے پن کا تحفہ
مجھے دیگی میں بوال واہ بھئ
تیری تو موجیں ھیں تو
شاہد بوال شانی تم نے بھی تو
اپنی زمینوں کے مجارے کی
بچیاں تاڑ رکھی ھیں وہ تجھے
نظر نہیں آتیں تو میں بوال یار
تیرا منہ بھی ان سے میٹھا
کروا دوں گا پہلے تم مجھے
ایک بات سچ سچ بتادے بس
میں بہت ٹینشن میں ھوں تو
شاہد میرے ماتھے پر پڑی
شکنیں دیکھ کر بوال شانی یار
تم میرے بھائی ھو بتاؤ کیا
پریشانی ھے تجھے میں سچ
ھی بتاؤنگا
تو میں بوال شاہد یار تم اس
دن بول رھے تھے کہ تم نے تین
لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھائی ھیں
ان میں شامل ایک تو نادیہ ھے
اور دوسری لبنی ھے بھال
تیسری کون ھے تو شاہد سر
پکڑ کر بیٹھ گیا اور بوال لو جی
کھودا پہاڑ اور نکال چوہا میرے
شانوں پر ہاتھ مارکر مسکرانے
لگا دور سے سبزی توڑتے ھوۓ
گالبو بھی ھماری طرف دیکھنے
لگی تب شاہد بوال بھال اس
بات کیساتھ تیرا کیا لینا دینا
تو میں بوال یار وہ میں تجھے
بعد میں بتادوں گا
پہلے تم اس بدبخت کانام
بتادو تو شاھد بوال اسطر ح
مت کہو تم وہ بد بخت نہیں
ھے میں بوال پھر کون ھے وہ
تو شاہد بوال یار وہ ہماری
پڑوسن ھے نہ ڈاکٹر مناہل
کاظمی تم اسے تو جانتے ھی
ھو میں بوال ہاں کیا ھوا اسے
تو شاہد بوال اسکو شادی کے
ایک سال بعد پریگنٹ کیا
تھامیں نے تو میں بوال وہ تو
بہت معصوم لگتی ھے اور وہ
تو لیڈی ڈاکٹر ھے تم اسکے
پاس کیسے چلے گئے تو شاہد
بوال یار اس نے مجھے قسم دی
....تھی کہ
تم نے اس بات کا ذکرنہیں کرنا
تو میں نے یہ بات اب تک کسی
سے بھی نہیں کہی ھے اور آج
تک ہمارے مراسم قائم و دائم
ھیں اور وہ میرا ایک بچہ بھی
پیدا کر چکی ھے میں سر
کجھاتے ھوۓ بوال یہ سب ھوا
کیسے تو وہ بوال اس دن جب
اس کے کلینک پر میں خون
دینے کے بہانے گیا تھا اور یہ
سب کہانی کو ترتیب دینے
والی بھی ہماری دوست لبنی
ھی ھے اس نے سب سے پہلے
میری مناہل کیساتھ پر فون پر
بات کروائی اور پھر مناہل نے
مجھے کافی دن کی بات چیت
پر اپنا نام بتایا اور لبنی
کاحوالہ دیکر کہا کہ میں نے
تجھے دیکھا ھوا ھے اور میں
اپنے شوہر سے پریگنٹ نہیں
ھوناچاہتی کیونکہ وہ چھوٹے
قد کا ایک کاال سا شخص ھے
میں شاہد کی بات سن کر بوال
یار کیا بات ھے تو پھر اس نے
کالے شخص سے شادی کیوں
کی ھے تو شاہد میری الجھن
...کو سلجھاتے ھوۓ بوال
یار ان کے ہاں خاندان سے باہر
شادی کرنے کا رواج نہیں ھے
اس لئیے اس نے فون پر مجھے
پرکھا اور قابل اعتماد دوست
مل جانے پر مجھے اس نے اپنے
کلینک پر بالیا اور پھر اپنا
جسم مجھے سونپ دیا قسم
سے یار ایسی عورت میں نے آج
تک نہیں دیکھی یار اس کے
شرم و حیا نے ھی بہت مزہ دیا
تھا
میں بوال پھرکیسے چودا اسکو
تم نے تو شاہد بوال کہ یار میں
جب ایک مریض کو خون دینے
کے بہانے اسکے کلینک گیا تو
اسکی نرس نے مجھے اوپر والے
پورشن میں ایک روم میں
بھیج دیا میں اندر گیا اور بیڈ
پر جاکر بیٹھ گیا تب روم کا
ڈور کھال اور مناہل نرس کے
سفید شرٹ اور پاجامے
کیساتھ آئی اور میں نے کچھ
دیر اسکو پیار کیا اور پھر وہ
بولی کہ شاہد میں تمہارے
جیسا بچہ جنم دینا چاھتی
ھوں اور شرم سے اس نے اپنا
چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپالیا
میں نے اسکو بوال کہ چلو اپنے
کپڑے نکال دو تو وہ بولی تم
یہ گرم گرم دودھ پیو میں
فیلڈنگ سیٹ کرکے آتی ھوں
میں دودھ پی کراسکا انتظار
کرنے لگا اور میرا لنڈ تپ کا لوہا
بن چکا تھا کوئی آدھے گھنے
بعد وہ آئی اب وہ سرخ کلرکی
نائٹی پہن کر روم میں آئی تو
کسی پری سے کم نہیں لگ رھی
...تھی
شاہد بوال جب میں نے مناہل کو
پوری طر ح ننگا کر دیا تو اس
نے شرماتے ھوۓ اپنی حجاب
کو اپنے چہرے پر رکھ کر کہا
شاہد تم پہلے مرد ھو جسے نے
میرا وجود اس حالت میں
دیکھا اور پھر ایک شعر پڑھا
اپنے احساس سے چھو کر
مجھے صندل کردو
اسطر ح کرو محبت کی
برسات اور مجھے مکمل کردو
شاہد بوال جب ڈاکٹر مناہل لیٹ
گئ تو میں نے اسکی گوری
گوری رانوں کو چومنا شرو ع
کردیا وہ سسکیاں بھرتے ھوۓ
میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے
لگی میں اسکی کالے رنگ کی
پینٹی اسکی ٹانگوں سے نکال
دی اور میرے حوش گم ھوگئے
جب میں نے ایک شادی شدہ
لڑکی کی اتنی تنگ اور پنک
چوت کا نظارہ کیا
شاہد بوال میں نے اپنا ہاتھ بڑھا
کر اسکی کلین شیو چوت کے
پنک لبوں پر پھیرا اور چوت
کے لبوں کے درمیان ایک چھوٹا
سا سوراخ نظرآیا جو اندر سے
گالبی چمک مار رہا تھا میں نے
اسکی چوت میں اپنی مڈل
فنگر ڈال دی اور خود اسکے
گورے گورے مموں پر ٹوٹ پڑا
اور اسکے نپل چوسنے لگا
مناہل نے اب اپنی ٹانگیں پوری
طر ح سےکھول دیں تھیں اور
میرالن اسکی نرم چوت کے
لبوں کو چوم کر اندر چلے جانے
کی اجازت مانگ رہا تھا تب
مناہل بولی سس شش شش
شاہد اب مت تڑپاؤ مجھے اور
پرفامنس دو میرے شوہر حیدر
نے تو کبھی اتنا پیار نہیں دیا
تھا آج تمہارا پیار اور تمہاری
مردانگی دونوں کا امتحان ھے
شاہد بوال میں نے اسے کہا میں
تمہاری گوری چوت اور تمہارے
بدن پر فدا ھوگیا ھوں تو ڈاکٹر
مناہل میرے منہ چوم کر بولی
میں بھی فدا ھوں اس چھوٹے
کسان کی باڈی پر
مناہل نے میرا لن پکڑ کر اپنی
چوت پر رکھا اور بولی شاہد
چل اب ہل چال کر اپنا بیج بو
دے اس کھیتی میں اور مجھے
پریگنٹ کرو میں نے اپنے شوہر
کو کنڈوم استعمال کرواتے
ھوۓ بچہ پیدا نہیں کرنے دیا
کیونکہ میں اپنا ھونے واال بچہ
تمہارے جیسا گھبرو جوان
دیکھنا چاھتی ھوں نہ کہ حیدر
جیسا کاال
شاہد_بوال میں نے اسے کہا
میڈم اگر ایک بار کرنے سے بچہ
پیدا نہ ھوا تو مناہل بولی کہ
آپکی پرفامنس اچھی رھی تو
آپکو بار بار موقع دوں گی تم
تو مجھ سے بھی جوان ھو
امید ھے تم مجھے جلد پریگنٹ
کر دو گے چلو اب دھیرے
دھیرے اپنا گھوڑے جیسالنڈ
میری چوت کے سنگھم میں
اتار دو اور میرا دامن خوشیوں
سے بھردو
وہ اپنی ٹانگیں کھول کر اپنی
چوت کو اچھالنے لگی اور میں
نے اپنی کمر کو ایک زور دار
جھٹکا دیا اور میرے لنڈ نے
مناہل کی چوت کے لبوں کو
چوم کر اپنی ٹوپی اندر سما کر
سالمی دی مناہل ایک دم کانپ
...کر رہ گئ اور
ڈاکٹر مناہل بولی
آؤچ.......شاھد بہت موٹا ھے
آہ اف مار ڈاال تم نے شاہد نے
ایک اور جھٹکامارا اور اسکا
آدھالنڈ مناہل کی نرم چوت کے
تنگ راستوں کو وسیع کرتا ھوا
اندر تک چال گیا
ڈاکٹر مناہل میرے لن کو سہی
طرح سے دیکھ نہیں پارھی
تھی ۔۔
میں نے .ڈاکٹر مناہل کی
ٹانگوں کو تھوڑا سا کھوال اور
ٹوپا پھدی کے لبوں میں رکھا
اور کمر کو پکڑ کر گھسا مارا
تو کافی لن .ڈاکٹر مناہل کی
گیلی پھدی میں چال گیا مناہل
نے آہہہہہہہہہہہہہ.شاھد کرتے
ھوے میرے کندھوں کو
مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔
اور سیییییی کرتے ھوے بولی
آرااااممممممم سے .شاھد درد
ھورھا ھے ۔
میں گھسا مار کر ادھر ھی رک
گیا مجھے اس پوزیشن میں
سہی طرح سے کھڑا نہیں ھوا
جارھا تھا ۔
میں نے لن واپس کھینچا تو
.ڈاکٹر مناہل کے منہ سے پھر
ھاےےےےےے نکال۔
اور میں نے جھک کر .ڈاکٹر
مناہل کا پاجامہ اسکے پیروں
میں کر کے ایک پیر سے نکال
دیا۔۔
ڈاکٹر مناہل بولی.شاھد .یہ کیا
کررھے ھو اگر کوئی آگیا تو
میں کیسے اتنی جلدی پاجامہ
پہنوں گی ۔۔
مگر مجھ پر تو جنون سوار
تھا۔۔
میں نے کہا یار ایسے ڈر رھی
ھو ادھر کس نے آنا ھے ۔۔
اور ساتھ ھی میں نے .ڈاکٹر
مناہل کی ایک ٹانگ پاجامے سے
آزاد کردی اور پھر اسکی ٹانگ
اٹھ کر اوپر کی تو .ڈاکٹر
مناہل نے دونوں بازو پیچھے کر
کے ۔
اب پوزیشن کچھ بہتر ہوگئی
تھی
میں نے .ڈاکٹر مناہل کی ٹانگ
اوپر کی اور لن پکڑ کر پھر
پھدی کے پاس کیا اور پھر ایک
گھسا مار کر لن آدھا اندر کر
دیا ۔۔
ڈاکٹر مناہل پھر
ھاےےےےےے امیییییی کر
کے سر دائیں بائیں مارنے لگ
گئی ۔۔
میں نے ایک ھاتھ .ڈاکٹر مناہل
کی کمر پر رکھ کر اسکی کمر
کو پکڑا ھوا تھا اور دوسرے
ھاتھ سے اسکی ایک ٹانگ
اٹھائی ھوئی تھی ۔۔
لن آدھا پھدی کے اندر تھا۔۔۔۔
میں نے لن تھورا سا پیچھے
کھینچا اور پھر گھسا مارا تو
لن سارا ھی اندر چال گیا۔۔
ڈاکٹر مناہل کے منہ سے ہلکی
سی چیخ نکلی اور .ڈاکٹر
مناہل اپنی آواز کو دباتے ھوے
مجھ سے ٹانگ چھڑوانے کی
کوشش کرتے ھوے بولی.شاھد
۔۔
ھاےےےےےےےے مرگئی
اتنا بڑا ھے تمہارا۔۔۔ھاےےےے
میرا اندررررر گیا
ھاےےےےےے باہر نکالو
اففففدفففف.شاھد
آہہہہہہہہہہہہہہہ
مگر میں نے اسکی پرواہ کیے
بغیر اسکی ٹانگ کو مضبوطی
سے پکڑا اور گھسے مارنے لگ
گیا۔۔
ڈاکٹر مناہل ھاےےےےے آءء
آہہہہہہہیہ امممممممممن
اففففففف کرتے ھوے گھسے
برداشت کررھی تھی ۔۔
مجھ سے اس پوزیشن مین.
بھی چدائی کرتے ھوے تھکن
محسوس ھورھی تھی اور مزہ
بھی کم آرھا تھا ۔۔
میں نے چند گھسوں کے بعد
ھی .ڈاکٹر مناہل کی ٹانگ
چھوڑی اور لن باھر نکاال ۔
تو .ڈاکٹر مناہل نے لمبا
سانسسسس لیا۔۔
اور اففففففففف.ڈاکٹر مناہل
شاھد یاررررررر تم نے تو مار
ھی ڈاال کہہ کر سیدھی کھڑی
ھوگئی ۔۔
میں نے اسکی بات کا کوئی
جواب نہ دیا اور اسکی کمر کو
پکڑ کر اسکا منہ دوسری طرف
کرنے لگا تو .ڈاکٹر مناہل بولی
اب کیا ھے ۔۔
میں نے کہا یار ایسے مجھ سے
ھو نہیں رھا تم دوسری طرف
منہ کر کے سیٹ ک
پر ہاتھ رکھ کر گھوڑی بن جاو
۔۔
ڈاکٹر مناہل بڑ بڑ کرتی دوسری
طرف منہ کر کے سیٹ پر ھاتھ
رکھ کر جھکی تو اسکی گانڈ
باہر کو نکل آئی ۔۔
پکڑ کر پھر اوپر کر کے .ڈاکٹر
مناہل کی گانڈ ننگی کی اور
اسکے کندھے کو پکڑ کر اسکو
مذید جھکنے کا کہا۔۔
تو .ڈاکٹر مناہل سیٹ پر کہنیاں
رکھتے ھوے ۔
اپنا ماتھا پر ٹکا لیا جس سے
اسکی گانڈ کافی باہر کو نکل
آئی اور کمر اندر کی طرف
چلی گئی
میں نے اپنی ٹانگوں کو ہلکا
سا خم دیا اور نیچے ھوکر لن
کو پکڑ کر پھدی میں اڈجسٹ
کیا تو .ڈاکٹر مناہل بولی شاھد
پلیزززززز آرام سے کرنا تمہارا
بہت بڑا ھے میری پہلے ھی جان
نکال کر رکھ دی تم نے میں
بہت نازک ھوں ۔۔
میں نے ہمممم کیا اور پھدی
میں لن سیٹ کر کے ہلکا سا
پش کیا تو ٹوپا پھدی میں
گھس گیا۔
اک مالقات کا جادو کہ اترتا ہی
نہیں
تری خوشبو مری چادر سے
نہیں جاتی ہے
ڈاکٹر مناہل پین میحسوس
کرتے ھوے تھوڑا سا
کسمکسائی ۔
تو میں نے اپنی پوزیشن
مضبوط کر کے .ڈاکٹر مناہل کی
کمر کو پکڑا اور دوسرا گھسا
مارا تو لن آدھا اندر چال گیا ۔۔
ڈاکٹر مناہل پھر.
ھاےےےےےے کر بولی.شاھد
۔آراممممم سےےےےےےے۔
میں نے لن کو پیچھے کھینچا
اور پھر تھوڑا ذوردار گھسا
مارا تو لن سارا اندر اتر گیا اور
.ڈاکٹر مناہل پھر اپنے چیخ کو
دباتے ھوے آگے کو ھونے کی
کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔
ماررر ڈاالاااا شخخخ شششش
ششش تتت تت تت تم شاھد
ظالم ۔۔۔
ھاےےےےےے بہت درد
کرادی یاررررررشششششش
شششششش شاھد
میں نے اسکی پرواہ کیے بغیر
گھسے مارنے شروع کردیے ۔
ڈاکٹر مناہل میرے ہر گھسے پر.
ھاےےےےے امی
ھاےےےےے امی آہہہہہہہ
آہہہہہہہ کررھی تھی جس سے
مجھے مذید جوش چڑھ رھا
تھا اور میں لگاتار گھسے ماری
جارھا تھا۔۔۔
تقریبًا دس منٹ چودنے کے بعد
.ڈاکٹر مناہل پھر چھوٹنے والی
ھوگئی اور سسکاریاں مارتے
ھوے گانڈ پیچھے کر کر کے لن
اندر لینے لگ گئی ۔۔
اور ساتھ ۔
میں آہ آہ آہ یس یس یس یس
یاررر ..شششش شاھد سارا ای
کردو سارااااا ایییییییی ہاں
ہاں ایسے ھی آہ آہ آہ اویییییی
افففففف ممممممم آہہہہہہہہ
مممممم گگگگگگئییییی ررر
کرتے ھوے .ڈاکٹر مناہل نے
پھدی کو سکیڑ کر لن کے گد
گرفت سخت کی اور چڈوں کو
آپس میں مال کر جسم کو
جھٹکے مارتے ھوے ۔
لو یو یارررر لو یو یاررررررر تم
میرےےےےےے ہوووووووو
کرتے ھوے پھدی سے منی کا
بہاو شروع کردیا ۔۔۔
میں وہیں سٹاپ کرگیا ۔۔
اور .ڈاکٹر مناہل کے چھوٹنے کا
انتظار کرنے لگ گیا۔۔اور پھر وہ
میرے ساتھ چمٹ کر بولی
شاھد بہت مزہ دیا تم نے اور
میں نے اتنا ارگیزم پہلی بار پایا
ھے میں تمہاری نوکر اور تسی
اج توں میرے سرکار ھمارے
بات ختم ھوتی اس سے پہلے
گالبو واپس اگئی اور برتن
اٹھاتے ھوئے بولی ساری لسی
پی گئے نیں شودے جئے ھم
ھنس ھنس کر لوٹ پوٹ ھو
گئے اور وہ برتن سمیٹ کر
گاؤں کی طرف چل دی
میں ڈاکٹر مناہل اور شاہد کی
کہانی سن کر شاہد کو بوال کہ
یار شکر ھے کہ تم نے نادیہ لبنی
کے بعد تیسری چدائی ڈاکٹر
مناہل کی ورنہ میں تو کچھ
اور ہی سمجھا تھا شاہد بوال
ذیشان میں سمجھا نہیں آپ
کیا کہنا چاہ رھے ھیں
میں بوال شاہد یار میں سمجھ
رہا تھا کہ شاید تم نے لبنی
کیساتھ ساتھ انعم کو بھی
چودا ھو تو شاہد بوال نئیں
ذیشان یار انعم کو میں نے بہت
تنگ کیا بہت الئن ماری پر اس
نے مجھے گھاس تک نہیں ڈالی
بلکہ وہ ایک اچھے دوست کے
ناطے میرا بہت احترام کرتی
ھے اور میں بھی اسکا بہت
احترام کرتا ھوں
شاہد میرا کان کھینچتے ھوۓ
بوال یار اب تم بتاؤ تم ان سب
باتوں پر بہت فوکس کر رھے
ھو تمہیں ان ساری باتوں سے
کیا لینا دینا ھے تو میں بوال یار
میں اور انعم ایک دوسرے کو
بہت پسند کرتے ھیں اور ھماری
مالقاتیں بھی ھوچکیں ھیںیار
ھوسکتا ھے ھماری محبت کسی
رشتے میں بندھ جاۓ میں اسی
سلسلے میں آپ سے پوچھ
شاہد میرا کان
کھینچتے ھوۓ بوال یار
اب تم بتاؤ تم ان سب باتوں
پر بہت فوکس کر رھے ھو
تمہیں ان ساری باتوں سے کیا
لینا دینا ھے تو میں بوال یار
میں اور انعم ایک دوسرے کو
بہت پسند کرتے ھیں اور ھماری
مالقاتیں بھی ھوچکیں ھیںیار
ھوسکتا ھے ھماری محبت کسی
رشتے میں بندھ جاۓ میں اسی
سلسلے میں آپ سے پوچھ رہا
تھا
شاہد_بوال یار ذیشان انعم
شہزادی ایک سلجھی ھوئی
لڑکی ھے وہ اگر تمہیں چاہتی
ھے تو تم خوش قسمت انسان
ھو اسے دھوکہ مت دینا اور
اپنی محبت کو کسی فیصلے پر
پہنچاؤ میں بوال اچھا یار تم نے
لبنی کو کیسے لی پہلی بار اور
وہ تو بہت چاالک ھے اور بہت
اتھری گھوڑی ھے اور تم نے
کیسے اس پر سواری کی تو
شاہد بوال کہ یار ایک دن دوپہر
کا وقت تھا اور وہ کھیتوں
میں امرود توڑنے آئی تھی تو
اکیلی دیکھ کر میں نے اسکو
پکڑ لیا
مجھے یہاں تک معلوم تھا کہ
اسکا ایک کزن جسے سائیں
سائیں کہتے ھیں وہ دوپہر کو
لبنی کو ملنے آتا تھا ایک دن
میں نے تھوڑا پہلے جاکر انکی
پیش قدمی جاری رکھی اور
میں ان دونوں کو پکڑنے میں
کامیاب ھوگیا میں تھپکی دیتے
ھوۓ شاہد کو بوال کہ انعم کو
اسکی ساری کہانی کا معلوم
ھے کہ نہیں
شاہد بوال کہ پکڑے جانے پر
لبنی بہت تڑپی پر میں نے کہا
کہ میں نے تمہاری اور سائیں
کی کس کرتے ھوۓ ویڈیو
بنالی ھے سائیں تو موقع سے
فرار ھوگیا اور لبنی کو میں نے
کہا کہ تم نے الزمی سائیں کو
دی ھوگی تو وہ بولی نہیں دی
میں نے قسم سے شاہد میں نے
ایسا کچھ بھی نہیں
کیا تو میں نے کہا میں کیسے
مان جاؤں کہ تم سیل پیک ھو
تو وہ بولی شاہد قسم سے میں
سیل پیک ھوں اور سائیں
کیساتھ صرف کس تک ھی کیا
ھے میں نے میں نے اسے پکڑ کر
ایک فرنچ کس کی اور بوال
دیکھو لبنی اگر تم نے شلوار
اتار کر ویری فکیشن نہ کروائی
...تو سمجھ لینا
تمہاری ویڈیو وائرل ھوگئ وہ
ویڈیو کا سن کر کانپ گئ اور
بولی کہ اچھا میں اپنی شلوار
اتار کردکھا دیتی ھوں پر تم
مجھے چود نہ دینا ایسے اکیلی
دیکھ کر تو میں اسکا ہاتھ
پکڑکر اسے اپنی طرف کھینچ
کر بوال میں کچھ نہیں کہوں گا
تجھے تم جتنی جلدی ویری
فکیشن کروادوگی اتنی جلدی
گھر واپس جاسکوکیا تو میں
نے کہا میں کیسے مان جاؤں کہ
تم سیل پیک ھو تو وہ بولی
شاہد قسم سے میں سیل پیک
ھوں اور سائیں کیساتھ صرف
....کس تک ھی کیا ھے
میں نے میں نے اسے پکڑ کر
ایک فرنچ کس کی اور بوال
دیکھو لبنی اگر تم نے شلوار
اتار کر ویری فکیشن نہ کروائی
تو سمجھ لینا تمہاری ویڈیو
وائرل ھوگئ وہ ویڈیو کا سن
کر کانپ گئ اور بولی کہ اچھا
میں اپنی شلوار اتار کردکھا
دیتی ھوں پر تم مجھے چود نہ
دینا ایسے اکیلی دیکھ کر تو
میں اسکا ہاتھ پکڑکر اسے اپنی
طرف کھینچ کر بوال میں کچھ
نہیں کہوں گا تجھے تم جتنی
جلدی ویری فکیشن کروادوگی
اتنی جلدی گھر واپس
جاسکوگی
مہرہ فلم کی اداکارہ روینہ
ٹنڈن جیسے نخرے کرنے والی
لبی بولی اچھا میں کیسے ویری
فکیشن کرواؤں تو میں بوال تم
اپنی شلوار اتار کر اپنی ٹانگیں
کھول کر دکھاؤگی کہ تم سیل
پیک ھو یاپھر عورت بن چکی
ھو لبنی بہت دباؤ میں تھی
پچھلے پندرہ منٹ سے تو جلد
ھی اس نے میری شرط مان لی
کالی شلوار قمیض میں اسکا
گورا وجود کسی بھی جوان
کی دھڑکنوں کو بے ترتیب
کرسکتا تھا تو میں بوال یار
شاہد تم بہت ظالم ھو ایک نہ
سنی تم نے اسکی اور اسکی
شلوار اتار دی تو شاھد بوال
ذیشان یار وہ شریف ھوتی تو
پھر اور بات تھی اسکا شکار
میں نہ کرتا تو پھر سائیں
صاحب کر لیتے تو ھم خالی راہ
دیکھتے ھی رہ جاتے میں بوال
کہ بات تو تمہاری بہت
زبردست ھے تو پھر کیسے رام
کیا اس اتھری گھوڑی کو یا
....پھر چڑیا جال سے نکل گئ
شاہد بوال چڑیا پھنسی تو اپنی
مرضی سے تھی پر نکلنا میری
مرضی سے تھا اس نے میں نے
اسے لٹا کر دیکھا تو اسکی
گوری چوت کے لب آپس میں
ملے ھوۓ تھے اور پھر میں نے
اپنی انگلیوں سے اسکی چوت
کا چھوٹا سا سوراخ دیکھا
لبنی کے جسم کو تو شلوارمیں
میرا لوڑا تن کر کھڑا ھوگیا اور
....میں اسے بوال
ایسے پتہ نہیں چل رہا لبنی
جی کچھ اندر ڈال کر ھی پتہ
چلے گا میں نے اپنی فنگر سے
اسکی چوت کا تاج کو مسلنا
شروع کر دیا تو لبنی کی
مزاحمت دم توڑنے لگی اور میں
نے اسے کہا کہ میں اپنالنڈ
تمہاری چوت پر رگڑتا ھوں اگر
تمہارا پانی نکلنا شرو ع ھوگیا
تو آپ نے ضرور سیکس کیا
ھوگا اور اگر آپکی چوت
سوکھی رھی تو پھر تم بے گنا
.....ہ ھو
شاہد_بوال کہ میں نے اپنالنڈ
اسکی چوت پر رگڑناشروع
کردیا اور اسکی سسکاریاں اب
بڑھنے لگیں اسکی کنواری کلین
شیو چوت اب پانی چھوڑنے
لگی#شاہد_بوال کہ میں نے
اپنالنڈ اسکی چوت پر
رگڑناشروع کردیا اور اسکی
سسکاریاں اب بڑھنے لگیں
اسکی کنواری کلین شیو چوت
....اب پانی چھوڑنے لگی تھی
میں .لبنی کی زبان چوس رہا
تھا اور ساتھ ساتھ .لبنی کے
سائز32ممے دبا رہا تھا..لبنی
پوری طرح گرم ھو چکی تھی
اور .لبنی نے مجھے کہا .شاہد
کپڑے اتارو میری پھدی چاٹ
کر چودو میری پھدی۔
میں نے اپنے سارے کپڑے اتار
دیے اور .لبنی کی شلوار اتارنے
کے بعد .لبنی کی قمیض اور برا
بھی اتار دیا اور .لبنی کے ممے
چوسنے لگا .لبنی سسکیاں لے
رہی تھی اور مجھے کہہ رہی
تھی .شاہد اور زور سے چوسو
میرے ممے زور زور سے چوسو
اور میں .لبنی کے ممے زور سے
.چوس رہا تھا
میں نےاپنا لن لبنی کے ہاتھ
میں دیا اور .لبنی نے فورًا منہ
میں لے کر چوسنا شروع کر دیا
آف .لبنی کیا لن چوس رہی
تھی اور میں مزے سے پاگل ہو
چکا تھا .میں نے .لبنی کو کہا
چوس چوس کر میرے لن کی
منی اپنے منہ میں نکال دو
لبنی بنا رکے میرا 7انچ کا لن
منہ میں لے کر چوسے جارہی
تھی کہ اچانک میرے لن سے
منی کی پچکاریاں .لبنی .کے
منہ میں نکلنے لگی اور .لبنی
میری ساری منی چاٹ کر کھا
گئی اور میرے لن کو چوس کر
صاف کر دیا اور بولی .شاہد
میری پھدی چاٹو اب
میں نے لبنی کو لٹا دیا اور
.لبنی نے ٹانگیں کھول دی اور
کلین شیو رس بھری پھدی کا
گیال سوراخ میرے سامنے تھا
میں نے .لبنی کی پھدی کے
سوراخ کو زبان سے چاٹ کر
صاف کیا اور پھر.لبنی کی
چوت کے سوراخ پورا منہ میں
لے کر چوسنا شروع کردیا اور
زبان .لبنی کی چوت کے اندر
گھسا دی اور .لبنی کی نمکین
چوت کا نمکین پانی پینے لگا.
کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد
.لبنی کی چوت نے بہت سارا
پانی چھوڑ دیا جسے میں نے
.پی لیا
لبنی بولی...شاہد مجھ سے
صبر نہیں ھورہا میری چوت
بہت پیاسی ہے اب ڈال بھی دو
.
میں نے .لبنی کو لٹا دیا اور
دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنا 7
انچ کا لن .لبنی کی گرم کنواری
پھدی کے سوراخ پر رکھ کر
زور دار گھسا مارا میرا لنڈ دو
انچ تک لبنی کی چوت میں
گھس گیا اور وہ درد کے مارے
تڑپ گئ اور بولی ششش
ششش شاہد ببب بس کر اب
اور نہیں میں نے ایک گھسہ اور
مارا تو میرا لنڈ لبنی کی
کنواری چوت کی سیل توڑتا
ھوا اندر تک چال گیا اف اااااہ
مممم مممم مممم میں مممم مر
گئ میں نے کچھ دیر اسکو
کس کیا وہ بھی مجھے کس
کرنے لگی جب وہ نارمل ھو
گئی تو میں نے اسکی چدائ
شروع کر کردی اور میرا آدھا
لن .لبنی کی پھدی میں گھس
چکا تھا.لبنی نے مجھے اپنی
طرف کھینچا اور بولی..شاہد
زور سے چودو پورا لن اندر ڈالو
میری پیاسی پھدی میں اور
زور سے چودو
میں نے پورا لن..لبنی کی پھدی
میں ڈال دیا اور زور زور سے
چودنے لگا .لبنی سسکیاں لے
رہے تھی اور میں زور زور سے
.لبنی کی پھدی چودے جارہا
تھا.میں نے پوچھا کہاں تک گیا
ھے تو وہ بولی میری ناف تک
گیا ھے اسکی چوت خون سے
الل ھو چکی تھی پر اب درد
کی جگہ شہوت نے لے لی تھی
اور ھم ایک ساتھ ڈسچارج
ھوگئے اور لبنی مجھے بولی
ایک بات بو لو شاہد میں بوال
جی پوچھو تو وہ بولی تم نے
ویری فکیشن کے بہانے سے
میری لے لی سہی کہا نہ تم
سارے بہانے میری چوت مارنے
کے کر رھے تھے تو میں نے کہا
تم بھی تو راضی تھی چدوانے
میں تب لبنی بولی اب اسکا
ذکر کسی اور سے مت کرنا میں
بوال بے فکر ھو جاؤ میری جان۔
ایک دن شام کو جب میں
کرکٹ کھیل کر واپس آرہا تھا
تب میں نے انعم کے گھر جانا
مناسب سمجھا کیونکہ دودھ
کے کچھ پیسے رہتے تھے تو
میں وہ ادا کرنے اپنی محبوبہ
انعم شہزادی کے گھر چال گیا
اور دروازے پر دستک دی تو
لبنی نے دروازہ کھوال اور
مجھے اندر آنے کا کہہ کر ڈور
کھول دیا اور میں اندر چال گیا
گھر میں چار سو خاموشی
تھی جب میں اندر روم میں
داخل ھونے لگا تو لبنی نے
مجھے اشارے سے صرف چپ
رہنے کا بوال اور اندر سے انعم
کی آواز آئی کہ لبنی کون تھا
دروازے پر تو لبنی نے کہا آپی
کوئی نہیں ھے بس ایسی ھی
تو وہ بولی ایسے ھی کی بچی
بار بار ڈور مت کھول پتہ بھی
ھے کہ امی ابو گھر پر نہیں
ھیں اور تم بار بار ڈور اوپن کر
رھی ھے
مجھے سن کر تسلی ھوئی کہ
چلو بھئ ذیشان میدان صاف
ھے اب تم اور تمہاری بنو اکیلے
میں دل دیاں گالں کراں گے
تیرے نال بہہ کے اکھ نال اکھ
نوں مال کے لبنی پردے کی اوٹ
سے میرے قریب ھوئی اور
بولی جیجا جی آپی آج اکیلی
ھے جی بھر کر الئن مارو آپی
پر تو میں بوال سالی بھی آدھے
گھر والی ھوتی ھے تمہارا اپنے
بارے میں کیا خیال ھے تووہ
بولی صدقے جاواں پر ہتھ نہ
آواں اور مسکرا کر بولی چلو
جی جاؤ سمرن جی لو اپنی
...زندگی
میں جب اندر گیا تو انعم الل
سوٹ اور سفید قمیض پہنے
ھوۓ بیڈ پر تکیئے سے ٹیک لگا
کر بیٹھی ھوئی تھی اور ارتغل
غازی دیکھ رھی تھی جو اسکا
پسندیدہ سیریل تھا شاید
سیزن ٹو چل رھا تھا وہ مجھے
دیکھ کر چونک گئ اور اپنے
سر پر ڈوپٹہ اوڑھتے ھوۓ بولی
جناب شانی صاحب تسی
کدوں آۓ تو میں بوال میں تو
ہر دم تمہارے پاس ھوتا ھوں
تم میرے پاس ھوتی ھو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا
مجھے بولی کہ بیٹھ جاؤ غالب
صاحب آپکی یہی ادائیں تو
ہمارا دل لوٹ گئیں ھیں تو میں
اسے گلے لگا کر بوال تو پھر کرو
نہ اپنی ماں سے ھمارے رشتے
کی بات تو انعم بولی ذیشان
امی کو تو تم پہلے دن ھی
پسند آ گئے تھے جب میں نے
تمہارا تعارف اپنی کالس فیلو
کے طور پر کروایا تھا اسی دن
سے امی نے ابو کو کہا ھے کہ
لڑکا ہماری انعم بیٹی کو بہت
پسند ھے تو ابو بولی ھم جلد
بازی میں کوئی فیصلہ نہیں
کرسکتے میں نے دلیری دکھاتے
ھوۓ انعم کو قریب ترکیا اور
اسکے شربتی کانپتے ھوۓ
ھونٹوں پر اپنے ھونٹ چوم
لئیے اور اسکو کس کرنا شروع
کردیا اور وہ بے چاری لبنی کے
ڈر سے کچھ بول بھی نہ پائی
کیونکہ لبنی باہر ھی تھی جو
شاید ہماری جاسوسی کر رھی
تھی ھم نے ایک لمبے سپیل کی
فرنچ کس کی اور پھر اسکی
سانسیں تیز ھوگئیں اور وہ
مجھے بیڈ پر گرا کر خود باہر
چلی گئ میں اندر کمرے میں
بیٹھ کر حلیمہ سلطان اور
ارتعل کے رومانٹک سین کو
دیکھنے لگا ویسے ان دنوں خدا
اور محبت اور اتغل غازی کے
سیزن ٹو چل رھے تھے جسے
شائقین کی بڑی تعداد دیکھتی
تھی اور اب بھی دیکھتی ھے
خیر میں باہرکا نظارہ دیکھنے
کے لئیے جیسے ھی بیڈ سے اٹھا
تو باہر سے انعم آ گئ اس نے
ایک ٹرے میں کوک اور نمکو
رکھ کر لے آئی اور ایک گالس
میرے ہاتھ میں دے دیا اور
دوسرا خود پیتے ھوئی بولی
جی بتاؤ کیسے آنا ھوۓ آپکا تو
کولڈ ڈرنک کے سپ لیکر میں
بوال جناب یہ دودھ کے پیسے
دینے آیا ھوں میں نے انعم کو
دودھ کے پیسے دئیے اور اس
نے گن کر رکھ لئیے اور بولی
اتنی بھی کیا جلدی تھی شاہد
آجاتے پیسے بھی تو میں بوال
کہ اپنا حساب برابر رکھنا
چاھئیے زندگی کا کیا بھروسہ
اور ویسے بھی آپ لوگوں کو
ضرورت ھوگی میں بوال ویسے
انکل اور آنٹی نظر نہیں آرھے
کدھر گئے ھیں تو وۂ بولی کہ
ابو کو کارڈیالوجی ھسپتال
چیک کروانے گئے ھیں اور
دونوں صبح سبزیوں کے بیج
بھی لیکر آئینگے اور آج رات
شکرپڑیاں میں ابو اپنی بہن کے
گھر قیام کرینگے تو میں بوال
کہ وہ ادھر قیام کرینگے اور
پھر ھم آج رات ادھر حلیمہ کے
پاس قیام کرینگے تو انعم
مسکراتی ھوۓ بولی حلیمہ کو
بدنامی سے بہت ڈر لگتا ھے تم
اپنے گھر پر ھی رھو تو پھر
اچھا ھے ویسے بھی شادی کے
بعد میں تمہاری ھی رھونگی
تب تک ھم نامحرم ھیں لبنی
بولی آپی کچھ نہیں ھوتا آپ
ڈرو مت اور جیجا جی صبح
چلے جائینگے انعم بولی ذیشان
تم خود سوچو اسکا کیا ھے اگر
کسی نے آپکو دیکھ لیا تو پھر
کتنی بدنامی ھوگی ھمارے باپ
کا سر شرم سے جھک جاۓ گا
انعم کی یہ بات سن کر میں
گھر واپس آ گیا شام کا وقت
تھا شیال نے آج کڑی پکوڑے
بناۓ تھے ھم نے جی بھر کر
کھانا کھایا اور باہر واک کرنے
نکل گئے شیال سحر اور سلموں
ھم نے مونگ پھلی لی دکان سے
اور پھر انعم کے بازار میں سے
باہر نکلنے لگے تو میں نے دیکھا
آنٹی اور انکل اپنی کلٹس کار
سے نکل کر گھرمیں داخل
ھورھے تھے پھر انعم نے دروازہ
کھوال اور کار اندر چلی گئ اور
ھم آ گے گھومنے نکل گئے
دوسرے دن صبح کو ماموں
ساہیوال سے دس بھینسوں اور
بیس بکریوں کے 7ٹرک لیکر آ
گئے جسے ھم نے ڈیرے پر شفٹ
کردیا اور سلمون کی ڈیوٹی
بھینسوں کی دیکھ بھال پر لگا
دی گئ اور وہ ڈیرے پر شفٹ
ھوگیا حساب کتاب کرکے جب
میں باہر نکال تو ھمارے ڈیرے
پر سامنے انعم کی زمین کے
امرودوں والے کھیت میں لبنی
اپنی بھینسیں چرا رھی تھی
اور مجھے دیکھ کر بولی شانی
صاحب مبارک ھو آپ کو آپ تو
اب پورے زمیندار بن گئے ھو تو
میں نے کہا خیر مبارک سالی
صاحبہ آپ سناؤ آج دن کو ھی
جانور لے آئی اور انکل کی
طبیعت اب کیسی ھے تو وہ
بولی ابو اب بہتر ھیں اور
بھائی آپکے لیئے ایک
خوشخبری ھے میں بوال تو پھر
بتاؤ نہ میری جان کیا
خوشخبری ھے تو وہ میرے
قریب ھو کر بولی شانی امی نے
ابو کو منا لیا ھے وہ تیرے
ساتھ انعم کی شادی پر مان
جائینگے پر پہل تم کو کرنا
ھوگی مطلب یہ کہ تم انکل اور
....آنٹی کو کب بھیجو گے
میں_نے خوشی سے اسکو گلے
لگا لیا اور بوال یہ تو بہت
اچھی خبردی تم نے لبنی بھی
میری بانہوں کے حصارمیں
تھی اور میرا لن اسکی چوت
پر دستک دینے لگا جسے اس نے
محسوس کرلیا تھا تب وہ
مجھ سے الگ ھوئی اور
بولی...