You are on page 1of 457

‫زمیندار کی بیٹی‬

‫==========‬
‫دوستو میں ذیشان آپ‬
‫سب کا دوست اپنی‪  ‬الئف کا‪ ‬‬
‫ایک اور شاہکار آپ کے لئیے‬
‫لیکر آیا ھوں میری اس آپ‬
‫بیتی میں بہت سارے واقعات‬
‫جو چڑھتی جوانی میں میرے‬
‫ساتھ رونما ھوۓ جس کی‬
‫وجہ میرے ٹھرکپن میں شدید‬
‫سارے نام جگ ‪‎‬ہ‪‎‬اضافہ ھوگیا‬
‫فرضی ھے تاکہ کسی کی عزت‬
‫نفس مجروح نہ ھو اراضی‬
‫خریدنے کے بعد میں ذیشان سے‬
‫کیسے زمیندار ذیشان بنا اور‬
‫نوابزادہ شاہد سے کیسے میری‬
‫دوستی ھوئی اور پھر کیا ھوا‬
‫کیسے ھوئی گاؤں میں‬
‫زمیندارنی کیساےھ محبت‬
‫چلیئے بڑھتے ھیں ایکشن کی‬
‫‪. ‬جانب‬
‫میں ذیشان رفیق ھوں میری‬
‫شکل پاکستانی ایکٹر سہیل‬
‫سمیر سے بہت مشابہت رکھتی‬
‫ھے میں شرو ع سے ناول پڑھنے‬
‫اور کھیلوں کی سرگرمیوں‬
‫حصہ لینے کا شوقین رہا ھوں‬
‫پھر کیسے میری سونی زندگی‬
‫میں لبنی جسکی عمر اٹھارہ‬
‫سال ھے‪  ‬ایک مجارے کی بیٹی‬
‫جسکا تعارف بعد میں کروایا‬
‫جاۓ گا آئی لبنی انعم‪  ‬اور‬
‫مناہل جعفری شامل ھوئی یہ‬
‫سب کہاں کیسے اور کب ھوا‬
‫آپکے ساتھ گوش گزار کروں‬
‫‪.‬گا‬
‫دوستو میرا قد چھے فٹ ھے‪ ‬‬
‫گورا چٹا رنگ میرے والد آرمی‬
‫آفیسر ھیں اور ریٹائرڈ ھونے‬
‫کی قریب تر ھیں میں اپنے‬
‫والدین کا اکلوتا بچہ ھوں‬
‫اسلئیے ماں باپ نے مجھے بہت‬
‫پیار سے پاال ھے‪  ‬اور ابو نے‬
‫سوچ رکھا ھے کہ تعلیم مکمل‬
‫ھوجانے کے‪  ‬بعد مجھے‬
‫روالپنڈی کے میدانی عالقے‬
‫فتح جنگ میں کچھ زمین لیکر‬
‫دینگے تاکہ میرا مستقبل بن‬
‫سکے میں اس وقت پنڈی کے‬
‫پوش ایریا میں رہائش پذیر‬
‫تھا اورگورنمنٹ ہائی سکول‬
‫میں پڑھتا تھا‬
‫ھمارے پڑوس میں ایک شگفتہ‪ ‬‬
‫بھابھی رھتی تھی جو مجھے‬
‫میٹرک کے اچھے نتائج حاصل‬
‫کرنے میں میری مدد کرتی تھی‬
‫یا ایسے کہہ لیں کہ مجھے ھوم‬
‫ورک کرواتی تھی وہ کرسچن‬
‫تھی خوب پڑھی لکھی تھی‬
‫اسکا نام شگفتہ شمعون تھا وہ‬
‫پاکستانی اداکارہ مہوش حیات‬
‫سے مشابہت رکھتی تھی‬
‫شمعون اسکا خاوند تھا جو‬
‫ایک ٹیچر تھا‬
‫شگفتہ ایم اے انگلش کر چکی‪ ‬‬
‫تھی جسکی وجہ سے میری‬
‫قابلیت میں بھی نکھار آگیا تھا‬
‫میں اسے پیار سے بھابھی بولتا‬
‫تھا ان دنوں ھمارے گھر کے‬
‫پاس ایک الئبریری تھی جس‬
‫سے سیکسی کہانیوں کی بک‬
‫پڑھا کر تا تھا ایک ناول پڑھا‬
‫تھا رنگین راتیں‪  ‬جسے پڑھ کر‬
‫میرا لن کھڑا ہو گیااور مجھ‬
‫پہلی بار چوت ‪ ،‬ممے اور گانڈ‬
‫جیسی چیزوں کا پتہ چال تھا‬
‫اور لنڈ کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی‬
‫تھی۔ اب میں اکثر ایسی‬
‫کتابیں پڑھا کرتا تھااور میرا‬
‫عورتوں ‪ ،‬لڑکیوں کو دیکھنے کا‬
‫‪... ‬نظریہ یکسر بدل چکا تھا‬
‫میری چھاتیوں میں جو کڑک‬
‫‪ ‬پن کا ابھار آیا ھے‬
‫یوں لگتا ھے جوانی پر خوب‪ ‬‬
‫نکھار آیا ھے‬
‫اس سے پہلے میں سب کو‪ ‬‬
‫بہنیں ہی بناتا تھا اور سمجھتا‬
‫تھا۔بس یہاں سے ہی کہانی‬
‫شروع ہوتی ہے۔ ہمارے گھر‬
‫میں لیپ ٹاپ تھا اور ہماری‬
‫شگفتہ سے خوب دوستی تھی۔‬
‫وہ ہمارے گھر میں فلم دیکھنے‬
‫بھی آتی تھی۔ایک دن میں ایک‬
‫فلم الیا‪ ،‬انگلش فلم تھی رونگ‬
‫ٹرن جس میں کچھ نیوڈ سین‬
‫تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ‬
‫انگلش فلم میں نیوڈ سین ہوتے‬
‫ہیں لیکن شگفتہ بھابی کو نہیں‬
‫پتہ تھا۔ میں گھر آیا تو امی‬
‫گھر نہیں تھیں وہ بازار گئی‬
‫ہوئی تھیں اور چابیاں‪  ‬بھابی‬
‫‪ ‬کو دے کر گئی تھیں۔‬
‫میں لیپ ٹاپ پر فلم لگانے‬
‫لگاتب شگفتہ بھابی پوچھنے‬
‫لگی کہ کیا لگا رہے ہو ذیشان‬
‫میں نے کہا انگلش فلم ہے‬
‫جنات کی فلم ہے۔ بھابی بولی‬
‫میں بھی دیکھ لوں۔ میں نے‬
‫کہا نہیں بھابی آپ ڈر جاؤ گی۔‬
‫تو بھابی بولیں نہیں تم نہیں‬
‫ڈروگئے تو میں کیوں ڈروں‬
‫گی۔ تم لگا لو۔خیر میں نے فلم‬
‫لگالی اور بھابی کے ساتھ بیٹھ‬
‫کر دیکھنے لگا۔‬
‫فلم میں ایک سین آیا جس‪ ‬‬
‫میں ایک لڑکی نہا رہی ہوتی ہے‬
‫تو ایک سانپ آتا ہے اور لڑکی‬
‫کی چوچی پر کاٹتا ہے جس‬
‫سے لڑکی مرجاتی ہے۔ یہ دیکھ‬
‫کر بھابھی کہتیں ہیں ہٹاؤ اسے‬
‫یہ گندی فلم ہے۔ میں نے کہا‬
‫بھابھی آپ جاؤ یہ ایڈوینچر‬
‫‪ ‬فلم ہے۔‬
‫بھابھی بولی یہ کیسی فلم ہے‬
‫جس میں لڑکی نہا رہی ہے اور‬
‫وہ بھی ننگی۔ میں نے کہا یار‬
‫بھابھی جاؤ اور مجھے دیکھنے‬
‫دو۔بھابی گئیں نہیں اور‬
‫دیکھتی رہی۔ ‪ 15‬منٹ بعد ایک‬
‫کس سین آیا بھابھی چپ رہی۔‬
‫پھر آدھے گھنٹے بعد ایک اور‬
‫ننگا سین آیا۔ بھابھی پھر بھی‬
‫چپ رہی۔ آخر میں بھابھی ڈر‬
‫بھی گئیں جب سانپ کو مارتے‬
‫ہیں۔ وہ مجھ سے کہنے لگئیں‬
‫کہ بہت گندی فلم تھی۔ ایسی‬
‫فلمیں مت دیکھا کرو۔ وہ مجھ‬
‫سے آنکھیں بھی نہیں مال رہی‬
‫تھیں۔ خیر بات آئی گئی ہو‬
‫‪..‬گئی۔‬
‫کبھی کبھی بھابھی مجھے‬
‫پڑھاتی بھی تھیں۔ ایک دن‬
‫بھابھی مجھے بیالوجی پڑھا‬
‫رہی تھیں اورفراگ سیکس‬
‫چیپٹر تھا۔ بھابھی نے جو‬
‫کپڑے پہنے تھے وہ بھی سفید‬
‫تھے بالکل بھابھی کی طرح‬
‫اجلے۔ کپڑے سوراخوں والے‬
‫ڈیزائن کے تھے۔ بھابھی نیچے‬
‫برانہیں پہنتی تھی۔ مجھے اس‬
‫میں سے بھابی کے نپل دکھ‬
‫رہے تھے۔ میں نے بھابھی سے‬
‫پوچھا یہ سیکس میں کیا ہوتا‬
‫ہے اور فراگ کے بچے کس طرح‬
‫پیدا ہوتے ہیں۔ بھابھی ڈر گئی‬
‫کہ یہ میں نے کیا پوچھ لیا ہے۔‬
‫وہ بولی یہ ایک پراسس ہوتا‬
‫‪....‬ہے‬
‫جسے کرنے کے بعد فراگ انڈے‪ ‬‬
‫دیتا ہے۔ میں نے کہا یہ کیسے‬
‫ہوتا ہے تو بھابھی بولی کتاب‬
‫میں سب لکھا ہے پڑھ لو وہاں‬
‫سے۔ میں نے پوچھا بھابھی کیا‬
‫آدمی بھی سیکس کے بعد‬
‫انڈے دیتا ہے۔ یہ سن کر بھابی‬
‫ہنس دی اور بولی نہیں پاگل‬
‫عورتیں بچے پیدا کرتیں ہیں‬
‫اور میرے گال پر پیار سے‬
‫نوچنے کر بولی بہت بے وقوف‬
‫ہو تم تو۔میں نے پوچھا بھابھی‬
‫کیسے سیکس کیا جاتا ہے۔‬
‫بھابھی بولی ۔ یہ بھی پوچھا‬
‫‪.‬جاتا ھے بھال‬
‫بھابھی کے خواب اب دن رات‬
‫مجھے آنے لگے تھے پہال توڑ کی‬
‫شراب جیسا نشہ اب خمار بن‬
‫کر مجھ پر چڑھنے لگا تھا‬
‫میرے دماغ اور دھڑکنیں بتانے‬
‫لگیں کہ شگفتہ ھی وہ عورت‬
‫ھے‪  ‬میری جوانی کے جال کی‬
‫پہلی مچھلی ھے جسے‪  ‬اب‬
‫زندہ پکڑنا تھا مدھوش کرنے‬
‫سے جاگتی آنکھوں کی سپنے‬
‫اپنی اہمیت کھودیتے ھیں‬
‫میرے سونی زندگی میں چار‬
‫سو شگفتہ بھابھی اجاال بن کر‬
‫چھاگئ تھی تو میں نے بھابھی‬
‫شگفتہ شمعون پر ڈورے ڈالنا‬
‫‪‎  ‎‬شرو ع کر دئیے‪...‬‏‬
‫شگفتہ۔۔۔بھابھی بولی ۔ یہ بھی‬
‫پوچھا جاتا ہے۔ جب تو بڑا ہوگا‬
‫خودہی پتا چل جائے گا۔ میں‬
‫نے کہا بھابھی آپ نے کبھی‬
‫سیکس نہیں کیا ہے ؟ آپ کی‬
‫تو شادی ہو چکی ہے پر آپ نے‬
‫بچہ نہیں دیا ہے۔ بھابھی میرے‬
‫اس سوال پر دنگ‪  ‬ھو کر رہ‬
‫گئی۔ان کا چہرہ الل ہو گیا اور‬
‫وہ نیچے چلی گئی۔اس کے بعد‬
‫کافی دنوں تک میں نے بھابھی‬
‫کی شکل نہیں دیکھی۔جب‬
‫میں ان کے پاس پڑھنے کو گیا‬
‫تو‬
‫پھر ایک دن میں فلم‪ ‬‬
‫الیاسپائڈر۔۔مین اور شمعون‬
‫صاحب کو باللیا فلم دیکھنے‬
‫کے لیے۔ان کے ساتھ بھابھی‬
‫بھی آگئی۔سردیوں کے دن تھے۔‬
‫ہم سب ایک بستر میں لیٹے‬
‫ہوئے تھے۔ بھابھی میر ے اور‬
‫بھائی شمعون صاحب کے‬
‫درمیان میں تھی۔فلم دیکھتے‬
‫دیکھتے ہی بھابھی سو گئی۔‬
‫اور رضائی میں ہی ان کی‬
‫ٹانگوں سے قمیض ہٹ گئی۔‬
‫میں فلم دیکھ رہا تھا۔میں نے‬
‫لیٹے ہوئے کروٹ لی ۔‬
‫دیکھابھابھی سو رہی ہے۔میرا‬
‫ہاتھ نیچے بھابھی کی ٹانگوں‬
‫سے لگا۔ مجھے احساس ہو ا کہ‬
‫بھابھی کی قمیض اوپر اٹھی‬
‫ہے۔میں نے ہمت کرکے قمیض‬
‫تھوڑی اور اوپر اٹھاکربھابھی‬
‫کا پیٹ سہالنہ شروع کردیا۔‬
‫ان کے نرم و مالئم پیٹ پر ہاتھ‬
‫پھیرتے ہوئے مجھے عجیب سے‬
‫سرور مل رہا تھا۔ساتھ ساتھ‬
‫میں بھابھی کو بھی دیکھ رہا‬
‫تھاکہ وہ جاگ نہ جائیں۔‬
‫بھابھی گہری نیند میں تھی ۔‬
‫ان کو پتہ نہیں چل رہا تھا۔‬
‫پھر میں نے بھابھی کی شلوار‬
‫میں آہستہ سے ہاتھ ڈاال اور ان‬
‫کی رانیں سہالنہ شروع کر‬
‫دیں۔ میرا لن شلوار میں کھڑا‬
‫ہو کر جھٹکے کھا رہا تھا۔‬
‫بھابھی کی رانیں سہالتے‬
‫سہالتے میں جھڑ گیا۔میں اٹھ‬
‫کر باتھ روم گیااور اور لن‬
‫صاف کیا۔ اور دوبارہ بستر میں‬
‫آکر لیٹ گیا۔ بھابھی اب جاگ‬
‫رہی تھی۔‬
‫میں ڈر رہا تھا کہ شاید ان کو‬
‫پتہ چل گیا ہے لیکن ان کی‬
‫طرف سے خاموشی پا کر‬
‫مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ فلم‬
‫ختم ہوئی تو بھائی صاحب اور‬
‫بھابھی اٹھ کر اپنے گھر چلے‬
‫گئے۔ اگلے دن میں بھابھی کے‬
‫پاس پڑھنے گیاتو وہ مجھے‬
‫غصے سے دیکھ رہی تھی۔ میں‬
‫پاس بیٹھا تو وہ مجھے کہنے‬
‫لگئیں کہ رات کو میری ٹانگوں‬
‫کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔ میں‬
‫نے کہا کچھ نہیں ۔ وہ کہنے‬
‫لگی ابھی تمہاری امی کو‬
‫شکایت لگاتی ہوں۔ میں رونے‬
‫لگامجھ معاف کر دیں آئندہ‬
‫ایسا نہیں ہو گا۔پھر کتاب نکال‬
‫کر پڑھنے لگا۔ کچھ دیر بعد‬
‫بھابھی مجھ سے پوچھنے لگی‬
‫میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔ یہ‬
‫بہت ہی عجیب سوال تھا۔ میں‬
‫‪ ‬پریشان ہو گیا۔‬
‫میں نے کہا بھابھی مجھے آپ‬
‫بہت اچھی لگتی ہو۔ آپ بہت‬
‫پیاری ہو۔بھابھی مجھ سے‬
‫پوچھنے لگی تمہیں میرے پیر‬
‫سہالنہ اچھا لگتا ہے۔ میں‬
‫بھابھی کی طرف دیکھنے‬
‫لگااور کہا ہاں بھابھی۔ بھابھی‬
‫نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ان کے نرم‬
‫نرم ہاتھ کا لمس پاتے ہی میرے‬
‫جسم میں چیونٹیاں رینگنے‬
‫لگئیں۔انہوں نے میرا ہاتھ اپنی‬
‫ٹانگوں پر رکھ دیا۔ میں ان کو‬
‫سہالنے لگا۔ مجھے بہت اچھا‬
‫لگ رہا تھا۔ بھابھی پوچھنے‬
‫لگی کیا تمہا را دل کرتا ہے کہ‬
‫‪ ‬اپنی بھابھی کو ننگا دیکھو۔‬
‫میں نےکہابھابھی کرتا تو ہے‬
‫اور کبھی کبھی زینے پر سے‬
‫جھانک کر آپ کو نہاتے ہوئے‬
‫بھی دیکھ لیتا ہوں۔ یہ سن کر‬
‫بھابھی شرما گئی۔ ہائے یہ سب‬
‫کب ہوا مجھے تو پتہ بھی نہیں‬
‫چال۔ میں نے کہا بھابھی بس‬
‫آپ کی کمر ہی نظر آتی ہے اور‬
‫کچھ نہیں دیکھا۔بھابھی بولی‬
‫کیا تم سچ میں اپنی بھابھی‬
‫کو ننگا دیکھناچاہتے ہو۔ تمہاری‬
‫بھابھی بہت سندر ہے؟ میں نے‬
‫شرماتے ہوئے کہا جی بھابھی۔‬
‫بھابھی بولی‬
‫ذیشان تم نے پہلے مجھ سے‬
‫کیوں نہیں کہا ۔ میں نے کہا کیا‬
‫بھابھی آپ سچ میں مجھے‬
‫ننگی ہو کر دکھاؤ گی۔یہ سن‬
‫کر بھابھی کھلکھال کر ہنس دی‬
‫اور کہنے لگی میرے‬
‫بھولے‪.‬ذیشان۔ کہو تو ابھی ہو‬
‫جاؤں۔ یہ سنتے ہی میں‬
‫بھابھی سے لپٹ گیا۔بھابھی‬
‫‪ ‬مجھے پیار کرتے ہوئے بولی لو‬
‫جیسا چاہے دیکھ لو۔ پر تم کو‬
‫قسم ہے چودنا نہیں۔ میں نے‬
‫پوچھا چودنا کیا ہوتا ہے۔ بھا‬
‫بھی بولی وہ بھی سکھادوں‬
‫گی ابھی صرف مجھے ننگاکرو‬
‫اور پیار کرو۔ میں نے بھابھی‬
‫کی قمیض اتاری اب بھابھی‬
‫برا اور شلوار میں تھی۔ نیٹ‬
‫کی برا میں سے دودھ کی طرح‬
‫سفید چھاتیاں جھلک رہی‬
‫تھی۔ بھابھی پھر گھوم کر‬
‫بولی لو اب بر ا اتا ر کر پورا‬
‫نظارہ کرو۔ میں نے برا کا ہک‬
‫کھول دیا اور بھابھی نے برا‬
‫اتار کر میرے سامنے منہ کیا۔‬
‫کیا مست نظارہ تھا۔ دو‬
‫خوبصورت تربوز کی طرح کی‬
‫چھاتیاں جن پر براؤن رنگ کے‬
‫نپل تھے۔ میں تو پاگل ہو رہا‬
‫تھا یہ منظر دیکھ کر۔ بھابھی‬
‫کا جسم بے داغ اور دودھ کی‬
‫طرح سفید تھا بس نپل براؤن‬
‫تھے باقی سب کچھ سفید تھا۔‬
‫‪ ‬میرا لن لوہے کی اکڑا ہو تھا ۔‬
‫شگفتہ بھابھی‪....‬نے مجھے‬
‫اپنے ساتھ چمٹا لیا۔ساتھ میں‬
‫بھابھی نے میرے کپڑے بھی‬
‫اتروا دیئے ۔میں نے بے اختیار‬
‫بھابھی کے گالوں کو چومنا‬
‫شروع کر دیا۔ پھر میں نے‬
‫بھابھی کے ہونٹوں پر کس کیا۔‬
‫بھابھی بولی ایسے نہیں اور‬
‫میرے ہونٹ اپنے ہونٹ میں دبا‬
‫کر میرے ہونٹ چوسنا شروع‬
‫کر دیے۔مجھے بہت مزا آرہا تھا‬
‫میں نے بھی بھابھی کے ہونٹ‬
‫چوسنا شروع کر دیے ان کے‬
‫ہونٹوں کا رس مجھے بہت‬
‫اچھا لگ رہا تھا۔ میں لگا تار‬
‫بھابھی کے ہونٹو ں کا رس ‪10‬‬
‫منٹ تک پیتارہا۔ اس دوران‬
‫میرے لن نے جھٹکا کھاتے ہوئے‬
‫پانی چھوڑ دیا۔ بھابھی بولی‬
‫میرے‪  ‬چاندذیشان اتنی جلدی‬
‫خالص ہوگئے۔میں بوال بھابھی‬
‫مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا‬
‫تھا۔ بھابھی ہنس کر بولی کیا‬
‫اپنی بھابھی کا دودھ نہیں پیو‬
‫گئے۔میں نے کہا بھابھی کیوں‬
‫نہیں پیؤگا۔ یہ سنتے ہی‬
‫بھابھی نے اپنی چوچی میرے‬
‫منہ میں ڈال دی جسے میں‬
‫مزے سے چوسنے لگا۔بھابھی‬
‫کی میٹھی میٹھی چوچیاں‬
‫چوسنے کا بہت مزا آرہا تھا۔‬
‫میں لگاتار چوچی چوس رہا‬
‫‪ ‬تھا۔‬
‫بھابھی نے میرا ہاتھ اپنی‬
‫شلوار کے اندر چوت کے اوپر‬
‫رکھ دیااور بولی اس کو‬
‫سہالؤ۔میں نے ذورذور سے‬
‫سہالنہ شروع کر دیا۔ ‪ 5‬منٹ‬
‫بعد بھابھی کی چوت نے پانی‬
‫اگلنا شروع کر دیا اور بھابھی‬
‫نے مجھے پیار سے چومنا‬
‫شروع کر دیا۔ میں ذندگی میں‬
‫پہلی بار عورت کے جسم کی‬
‫لذت سے آشنا ہوا تھا۔میں پھر‬
‫فارغ ہو گیا۔‬
‫بھابھی شگفتہ بولی پاگل جب‬
‫دیکھو دھار مار دیتا ہے۔ ابھی‬
‫اناڑی ہے نا۔ کچھ نہیں ہوتا‬
‫سب سکھا دوں گی۔پھر‬
‫بھابھی نے اور میں نے کپڑے‬
‫پہن لیے ۔ بھابھی کہنے لگی۔اب‬
‫مجھ تنگ نہیں کرنا جب پیار‬
‫کرنا ہو ‪ ،‬دن میں میرے پاس‬
‫آجانا۔چلو اب پڑھائی کرتے‬
‫ہیں۔میں نے کہا بھابھی یہ تو‬
‫بتا دو چودنا کس کو کہتے ہیں‬
‫۔ بھابھی بولی یہ جو لن ہے‬
‫اس کو کھڑا ہونے کے بعد چوت‬
‫کے سوراخ میں ڈال کر جھٹکے‬
‫مارتے ہیں اور فارغ ہوتے ہیں‬
‫اس کو چودنا کہتے ہیں۔میں نے‬
‫پوچھا کیا بھائی صاحب بھی‬
‫آپ کو ایسے ہی چودتے ہیں۔‬
‫بھابھی بولی اور نہیں تو کیا۔‬
‫میں نے کہا بھابھی میں بھی‬
‫‪ ‬آپ کو چودوں گا۔‬
‫بھابھی بولی نہیں‪.‬ذیشان ابھی‬
‫تم بہت چھوٹے ہو۔جب بڑے ہو‬
‫جاؤ گئے پھر جیسے چاہے‬
‫چودنا۔ ابھی اوپر سے ایسے ہی‬
‫مزے لو۔ کیا اس طرح مزا نہیں‬
‫آتا۔ میں نے کہا آتا ہے۔تو‬
‫بھابھی بولی تو پھر اور کیا‬
‫چاہی ہے۔ پھر میں بھابھی سے‬
‫روز یوں ہی پڑھتا کبھی‬
‫چوچی چوستے ہوئے۔ کبھی‬
‫چوت میں انگلی کرتے ہوئے ‪،‬‬
‫کبھی ٹانگیں سہالتے ہوئے۔‬
‫چوچی تو روز ہی چوستا تھا‬
‫کیونکہ چوچی چوسنے میں‬
‫‪ ‬بہت مزا تھا۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎﻓﯽ‪ ‬‬
‫‪ ‬ﻣﺰﮮ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔‬
‫ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ‬
‫ﻣﺎﺟﺪ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ۔ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’‬
‫ﺍﺗﻨﺎﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺐ‬
‫ﺳﮯ ﺍﮨﻢ ﮐﺎﻡ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﻧﮩﯿﮟ ‘‘ ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ ﺍﺏ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﯿﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ‬
‫ﮨﮯ ‘‘ ﻭﮦ ﺑﻮﻻ ﯾﺎﺭ ﺑﮩﺖ ﺑﺪﮬﻮ ﮨﮯ‬
‫ﺗﻮ‪ ،‬ﺍﺑﮯ ﺍﺏ ﭼﻮﺩ دے ﺍﭘﻨﯽ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ‪ ،‬ﺍﺻﻞ ﻣﺰﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ‬
‫ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﯾﺎﺭ‬
‫ﻣﺠﮭﮯ ﭼﻮﺩﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ‘‘ ﺗﻮ ﻭﮦ‬
‫ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔‬
‫ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ’’ ﯾﺎﺭ ﮐﯿﺴﺎ ﻣﺮﺩ ﮨﮯ ﺗﻮ؟‬
‫ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ‬
‫ﭼﻮﺩﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ’’‬
‫ﯾﺎﺭ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ‪،‬ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ‬
‫ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ‘‘ ۔ ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ’’‬
‫ﯾﺎﺭ ﺗﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ‪،‬ﺁﺝ ﺗﺠﮭﮯ‬
‫‪، ‬ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ‬
‫ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮﺗﺠﮭﮯ ﺳﺐ ﺁﺟﺎﺋﮯ‬
‫ﮔﺎ ‘‘ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮈﯼ‬
‫ﺍﭨﮭﺎ ﻻﯾﺎﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ‬
‫ﻟﮕﺎ ’’ ﯾﮧ ﻟﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﻣﯿﮟ‬
‫ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﯽ ﮈﯼ ﻟﯽ‬
‫ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺁﮔﯿﺎ۔ ﺍﻣﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻣﯿﮟ ﭼﭗ ﮐﮯ‬
‫ﺳﮯ ﺍ ﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ‪،‬‬
‫ﺩﺭﻭﺍﺫﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﯽ ﮈﯼ ﻟﮕﺎ‬
‫ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ‬
‫ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﻨﮕﮯ ﮨﻮ‬
‫ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ‬
‫ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﯾﺴﯽ‬
‫ﻓﻠﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺠﮭﮯ‬
‫ﻋﺠﯿﺐ ﺳﺎ ﻣﺰﮦ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﻣﺮﺩ‪،‬‬
‫ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﭼﮭﺎﺗﯿﺎﮞ ﭼﻮﺳﺘﺎ ﮨﮯ‬
‫ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺮﺩ ﮐﺎ ﻟﻦ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ‬
‫ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﺮﺍﮨﯿﺖ‬
‫ﺳﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﺩ‬
‫ﮐﺎ ﻟﻦ ﺗﻦ ﮐﺮ ﺭﺍﮈ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮ‬
‫ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﺘﺎ ﮨﮯ‬
‫ﺍﻭﺭﺍﺳﮯ زﻭﺭ زﻭﺭ ﺳﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ‬
‫ﻣﺎﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔‬
‫ﻓﻠﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ‬
‫ﮨﭽﮑﻮﻟﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﮐﻤﯽ ﻓﯿﻞ ﮨﻮ‬
‫ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔‬
‫ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﺟﺪ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ‬
‫ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﯾﮟ۔ﺍﺏ‬
‫ﻣﯿﺮاﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﺮﻧﮯ‬
‫ﮐﻮ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎﺟﻮ ﻓﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ‬
‫ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﮩﯿﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ‬
‫ﮐﮧ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮﺕ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ۔‬
‫ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ‬
‫ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭨﯽ ﻭﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ‬
‫ﺗﮭﯽ۔ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ‬
‫ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ‬
‫‪ ‬ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔‬
‫ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﻧﺮﻡ ﻭ ﻣﻼﺋﻢ ﮨﺎﺗﮫ‬
‫ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ﺍﺱ‬
‫ﺩﻥ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﭘﻨﮏ ﮐﻠﺮ ﮐﯽ‬
‫ﻗﻤﯿﺾ ﺍﻭﺭ ﺳﻔﯿﺪ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﭘﮩﻨﯽ‬
‫ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭘﻨﮏ ﺭﻧﮓ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ‬
‫ﮐﮯ ﮔﻮﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺑﮭﻼ ﻟﮓ‬
‫ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﺗﺎﺑﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ‬
‫ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ۔ﺁﺝ‬
‫ﻣﯿﺮﮮ‪.‬ذیشان ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ‘‘ ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻣﯿﮟ‬
‫‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭼﻮﺩﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ‬
‫شگفتہ بھابھی ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ‬
‫ﮐﺐ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ‬
‫ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﺮﻧﺎ۔ ﻣﯿﮟﻧﮯﮐﮩﺎ‬
‫’’ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺁﺝ ﮨﯽ ‘‘ ۔ ﯾﮧ‬
‫ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ‬
‫ﮔﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺗﮫ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ‬
‫ﮐﮯ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﺲ ﮐﯽ ۔ ﻭﯾﺴﮯ‬
‫ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ‬
‫ﻣﺰﮮ ﻟﮯ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺩﻥ‬
‫ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻟﮓ ﮨﯽ ﻓﯿﻠﻨﮕﺰ ﺗﮭﯿﮟ۔ﻣﯿﮟ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮔﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ زﺑﺎﻥ ﺭﮐﮫ‬
‫ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺳﮩﻼﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﭘﮭﺮ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ‬
‫ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﻮﻧﭧ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﺲ‬
‫ﮐﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ‬
‫ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮑﺮ ﭼﻮﺳﻨﺎ‬
‫ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ۔ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ زﻭﺭ‬
‫ﺳﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭼﻮﺱ ﺭﮨﺎ‬
‫ﺗﮭﺎﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ زﺑﺎﻥ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ‬
‫ﮐﯽ۔ﺍﻑ ﮐﯿﺎ ﻣﺰﮮ ﺩﺍﺭ ﺗﮭﯽ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ زﺑﺎﻥ ﺍﯾﺴﺎ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ‬
‫ﺗﮭﺎ ﺷﮑﺮ ﭼﺎﭦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ‪15‬‬
‫ﻣﻨﭧ ﮨﻮﻧﭧ ﺍﻭﺭ زﺑﺎﻥ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﮐﮯ‬
‫ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﻗﻤﯿﺾ‬
‫‪ ‬ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﻮ ﺑﻮﻻ ۔‬
‫ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻣﺴﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ‬
‫ﺗﮭﯽ۔ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ’’‬
‫خود ﮨﯽﮐﺮﻟﻮ ﻧﺎ ‘‘ ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ‬
‫ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﻗﻤﯿﺾ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻨﭽﺎ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﯽ ’’ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ‬
‫‪.‬ذیشان ! ﭘﮭﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ‬
‫ﻗﻤﯿﺾ ‪،‬ﭨﮭﺮﻭ ﻣﯿﮟ خود ﮨﯽ‬
‫ﺍﺗﺎﺭﺗﯽ ﮨﻮﮞ ‘‘ ۔ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﻗﻤﯿﺾ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺮﭦ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ﺍﻭﺭ‬
‫ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﮐﺲ ﮐﺮﻧﮯ‬
‫ﻟﮕﺘﺎ۔ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﺩن ﭼﺎﭨﺘﺎﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ‬
‫ﮔﺎﻝ۔ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ‬
‫ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﺣﺼﮯ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ‬
‫ﭼﻮﺳﺎ۔ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ لذﺕ ﺳﮯ ﮐﺮﺍﮦ‬
‫ﺍﭨﮭﯽ۔ﻭﮦ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ‬
‫ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺑﺮﺍ ﺑﮭﯽ‬
‫ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ۔ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﻧﻮﮐﺪﺍﺭ‬
‫ﭼﻮﭼﯿﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﯿﮟ۔‬
‫ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﮐﮍ‬
‫ﮔﯿﺎ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺗﻨﯽ ﭼﻮﭼﯿﺎﮞ‬
‫ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﮔﺮﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ‬
‫ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﺑﺎنہوﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ‬
‫ﻟﮕﺎﺗﺎﺭ ﭼﻮﻣﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﻨﯽ‬
‫ﺑﮭﯿﻨﯽ ﻣﮩﮏ ﺁﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ‬
‫ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺣﺸﯽ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔‬
‫ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ‬
‫ﮔﮭﻮﻡ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ‬
‫ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﭼﻮﺗﮍﺑﮭﯽ ﺩﺑﺎ ﺭﮨﺎ‬
‫ﺗﮭﺎ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ‬
‫ﺳﺴﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔‬
‫ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ‪.‬شگفتہ بھابھی ﮐﻮ‬
‫ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭼﻮﻣﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﭼﮭﺎﺗﯿﻮﮞ ﺗﮏ ﺁﯾﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ‬
‫ﻧﭙﻠﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ‬
‫ﺩﺑﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺍﮐﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔‬
‫ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﭙﻞ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ‬
‫ﺳﮯ ﭼﺒﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ’’ ﺁﮦ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﮭﺎ‬
‫ﻟﻮﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ ‘‘ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻣﺰﮮ‬
‫ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎﮐﮧ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮔﺮﻡ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺏ‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﭙﻞ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺎ‬
‫ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭼﻮﺳﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎﭦ ﺑﮭﯽ ﻟﯿﺘﺎ‬
‫ﺗﮭﺎ۔ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﻼ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔‬
‫ﮐﮩﺘﯽ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﭼﻮﺳﻮ‪ ،‬ﮐﺎﭨﻮ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎﺗﺎﺭ‬
‫ﻧﭙﻞ ﭼﻮﺳﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ‬
‫ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ‬
‫ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭼﻮﺳﺘﺎ ﺭﮨﺎ۔‬
‫ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﭙﻞ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﻮ‬
‫ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﭙﻞ۔ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮯ‬
‫ﺩﺭﺩﯼ ﺳﮯ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻧﭙﻞ ﮔﻼﺑﯽ ﺳﮯ ﻻﻝ‬
‫ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﺟﯿﺴﮯ ﮔﻮﺭﮮ‬
‫ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺯﮎ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﺎﭨﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻧﺮﻡ ﻧﺮﻡ‬
‫ﺍﮔﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻮﺱ‬
‫ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺩﮬﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﺍ‬
‫ﺗﮭﺎﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ‬
‫ﺗﮭﺎ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﻨﭧ ﺍﻭﺭ‬
‫ﺍﻧﮉﺭ ﻭﯾﺌﺮ ﺍﺗﺎﺭﺩﯼ ﺍﻭﺭ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽﮐﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺑﮭﯽ ﺍﺗﺎﺭ‬
‫‪ ‬ﺩﯼ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ‬
‫ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎﺍﻭﺭ ﺳﮩﻼﻧﮯ ﻟﮕﯽ۔‬
‫بھابھی بولی واہ ارے ذیشان‬
‫تمہارے لن کے کیپ کی بڑی‬
‫چمک ھے اور کتنا صاف ستھرا‬
‫ھے ماس بھی نہیں ھے اسکے‬
‫اوپر جبکہ شمعون کے لنڈ پر‬
‫ماس ھے میں بوال بھابھی‬
‫شمعون کا ختنہ نہیں ھو ھوگا‬
‫شاید بھابھی مسکرا دیں‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ‬
‫ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺁﭘﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﻮ ﺩﮬﮑﺎ‬
‫ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ‬
‫ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ‬
‫ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ۔ﺳﯿﮑﺴﯽ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ‬
‫ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ‬
‫ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ‬
‫ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﺳﻮﺭﺍﺥ‬
‫ﭼﻮﺩﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﺗﺎﮨﮯ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮﺕ ﮔﻼﺑﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ‬
‫ﮐﺮ ﻃﺮﺡ ﺍﻭﺭ ﻟﯿﺲ ﺩﺍﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ‬
‫ﺑﮭﯿﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ‬
‫ﺳﮩﻼﻧﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ‬
‫ﻣﺰﮮ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺣﺎﻝ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭘﮭﯿﻼﺋﮯ‬
‫۔ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮔﻼﺏ ﮐﯽ ﭘﻨﮑﮭﮍﯾﺎﮞ ﻟﮓ‬
‫ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻼ‬
‫ﺟﺴﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻮﭼﯿﺎﮞ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ‬
‫‪ ‬ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﮔﺎﻧﮉﮐﮯ‬
‫ﻧﯿﭽﮯ ﺗﮑﯿﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ‬
‫ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ۔ﺍﺏ‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻦ ﮐﯽ ﭨﻮﭘﯽ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ‬
‫ﺩﮬﮑﺎ ﻟﮕﺎﯾﺎ۔ ﻟﻦ ﺳﻨﺴﻨﺎﺗﺎﮨﻮ ﺍ‬
‫ﺁﺩﮬﮯ ﺳﮯ ﺫﯾﺎﺩﮦ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺦ‬
‫نکل ﮔﺌﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ‬
‫ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﺑﺎ ﻟﯽ۔ ﻭﮦ ﺑﻮﻟﯽ‬
‫‪.‬ذیشان ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮐﺮﻭ۔ﯾﮧ ﮐﺎﻡ‬
‫ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﯽ‬
‫ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ‬
‫ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ زﻭﺭﺩﺍﺭ ﺟﮭﭩﮑﺎ‬
‫ﺩﯾﺎﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﮍ ﺗﮏ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ‬
‫ﮔﯿﺎﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ‬
‫ﺩﻟﺨﺮﺍﺵ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ ااسس‬
‫سسسسسی ذذذذ ذیشان ننننن‬
‫نکالو‬
‫‪Aaaah  mar gay zeeshan‬‬
‫‪aaaah  nikalo bahir‬‬
‫ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﺑﯽ ﺭﮦ‪ ‬‬
‫ﮔﺌﯽ۔ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﺍﺗﻨﺎ زﻭﺭ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ‬
‫ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ۔ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻣﺎ‬
‫ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺳﺎ ۔ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﺩﺭﺩ ﮐﻢ ﮨﻮﺍﺗﻮﻣﯿﮟ ﻧﮯ‬
‫ﮨﻠﮑﮯ ﮨﻠﮑﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ‬
‫ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ۔ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺍﺅﮞ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺍﮌ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ پہلی بار تو‬
‫چوت کا درشن ھوا تھا مجھے۔‬
‫شگفتہ بھابھی ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ‬
‫ﺑﺎنہوﮞ ﻣﯿﮟ زﻭﺭ ﺳﮯ ﭘﮑﮍﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ‬
‫ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ زﻭﺭ ﮐﮯ‬
‫ﺟﮭﭩﮑﮯﻟﮕﺎﻧﮯﮐﻮ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔‬
‫ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﭙﯿﮉﺗﯿﺰ ﮐﺮﺩﯼ۔ﭼﻮﻧﮑﮧ‬
‫ﯾﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮩﻠﯽ ﭼﺪﺍﺋﯽ ﺗﮭﯽ‬
‫ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ‪،‬‬
‫ﺍﺱ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﯿﮟ ‪ 5‬ﻣﻨﭧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ‬
‫ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎﺍﻭﺭ ﻣﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ‬
‫ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌﺩﯼ۔‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺑﻮﻟﯽ‪ 2‬ﻣﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﺭﮎ‬
‫‪ ‬ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ‬
‫ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﮍ ﺟﺎﺗﯽ‪،‬ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﭘﮩﻼ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ‪،‬‬
‫ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﮑﮭﺎﺩﻭﮞ ﮔﯽ ‘‘‬
‫۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ‬
‫ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﻮ‬
‫ﮐﮩﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ زﻭﺭ‬
‫ﺳﮯ ﮨﻼنا ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ‬
‫ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﻧﮯ‬
‫ﻣﻨﯽ ﮐﺎ ﻓﻮﺍﺭﮦ ﺍﮔﻞ ﺩﯾﺎﺍﻭﺭ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ‬
‫ﻣﯿﮟ ﮈﮬﯿﻼ ﭘﮍﮔﯿﺎ۔‬
‫شگفتہ بھابھی ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺎﺗﮫ‬
‫ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭼﻮﻣﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ﺍﺱ‬
‫ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ‬
‫ﺑﮩﺖ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭼﻮﺩﺍ ﮨﮯ ۔میں نے‬
‫میٹرک کر لیا اچھے نمبروں‬
‫کیساتھ اور‪  ‬ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺑﻮ ﮐﯽ‬
‫ریٹائرڈ منٹ‪   ‬ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ‬
‫ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ‬
‫ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔اور پھر ھم نے پنڈی کے‬
‫عالقے فتح جنگ میں بیس ایکڑ‬
‫زمین خرید لی اور میں بطور‬
‫جاگیر دار اپنا مستقبل‪  ‬بنانے‬
‫لگ گیا۔۔۔۔۔‬
‫ھمارے ساتھ ھی جو ڈیرہ تھا‬
‫وہ بھی ایک نوجوان‪  ‬زمیندار‬
‫تھا میری طرح اپنے ماں باپ کا‬
‫اکلوتا بیٹا تھا جب میں انکے‬
‫کھیت میں گیا تو وہ لوگ‬
‫کرکٹ کھیل رھے تھے مجھے‬
‫دیکھ کر اس نے مجھے‪  ‬بھی‬
‫کھیلنے کی پیشکش‪  ‬کی اور‬
‫اپنا ھاتھ بڑھاتے ھوئے کہا میرا‬
‫نام شاہد ھے مجھے نک نیم‬
‫نوابزادہ سے پکارتے ھیں میں‬
‫نے مصافحہ کرتے ھوئے کہا میں‬
‫ذیشان رفیق نیو گایئز ان یوئیر‬
‫ویلج ھم دونوں مسکرا‬
‫دئیے۔۔۔۔۔۔‬
‫اس دن ھم لوگ شام تک کرکٹ‬
‫کھیلتے رھے اور میں پہلی بار‬
‫گاؤں کے کھلے میدانوں میں‬
‫بھاگ دوڑ کر بہت تھک گیا تھا‬
‫اسی لئیے ھم دونوں چلتے چلتے‬
‫کھیت‪  ‬کی ایک پگڈنڈی پر‬
‫بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے‬
‫شاہد نے مجھے بوال کہ آپ روز‬
‫ھمارے ساتھ کھیال کرو آپکے‬
‫جلد ھی سب لوگ دوست بن‬
‫جائینگے تو گا ؤں کے سرسبز و‬
‫شاداب کھیتوں کا دل فریب‬
‫نظارہ دیکھتے ھوۓ میں بوال‬
‫کہ یار میں تو تھک گیا ھوں‬
‫آپ لوگوں کا ھی حوصلہ ھے‬
‫فیلڈنگ بھی کرو اور باؤلنگ‬
‫بھی اور کھیتوں کی جھاڑیوں‬
‫سے گیند بھی ڈھونڈ کر الؤ‬
‫شاہد میری بات کا جواب دیتے‬
‫ھوۓ بوال دیکھ ذیشان ادھر‬
‫جو بندہ مار کھا جاتا ھے وہ‬
‫سخت جان بن جاتاھے دنیا‬
‫ایویں نئ پینڈو زندگی کی فین‬
‫ھوتی جارھی ھے‬
‫میں نے بوال یار لمبی مت‬
‫چھوڑا کر شاہد ایسا جو تجھے‬
‫گاؤں بہت پسند ھیں تو وہ‬
‫دبنگ لہجے میں بوال ھم پینڈو‬
‫لوگ نہ ایک دوسرے کے دکھ‬
‫سکھ کے ساتھی ھوتے ھیں اور‬
‫ھماری پہچان ھماری گلی نمبر‬
‫سے نہیں بلکہ باپ دادا کے نام‬
‫سے ھوتی ھے اور تم شہری‬
‫لوگ ساتھ والے میت پڑی‬
‫ھوتی ھے اور دوسرے گھر میں‬
‫میوزک چل رہا ھوتا ھے‪  ‬میں‬
‫جل کر بوال بس بس بس میری‬
‫جان آپکی بات سو فیصد‬
‫درست ھے مگر ھمارے گاؤں کے‬
‫تو چند گھر ھیں قریب پچاس‬
‫گھر کوئی بڑا گاؤں ھوتا تو‬
‫سب کچھ ٹھیک ھوتا‬
‫میری بات سن کر شاہد بوال‬
‫پاگل ھمارا گاؤں چھوٹا ضرور‬
‫ھے پر اس میں بسنے والے‬
‫لوگوں کے دل چھوٹے نہیں ھیں‬
‫تم چاھتے ھو شہری کلچر کہ‬
‫یہاں لڑکیاں شارٹ پہن کر‬
‫گھومیں اور میں اپنی آنکھوں‬
‫کو خیرہ کرلوں شاہد کی اس‪ ‬‬
‫بات پر میں کھلکھال کر مسکرا‬
‫دیا اور بوال تو بڑا شرارتی ھے‬
‫یار بھال اس عمرمیں یہ سب‬
‫نہیں ھوگا تو پھر کب ھوگا‬
‫شام ڈھل رھی تھی اور پرندوں‬
‫کی قطاریں آسمان پر رخت‬
‫سفر باندھے گھونسلوں کو لوٹ‬
‫رھیں تھیں بہت دلفریب منظر‬
‫تھا شاہد کی پیش گوئی سچ‬
‫ثابت ھو رھی تھی وہ مجھے‬
‫آسمان کی طرف دیکھتے ھوۓ‬
‫بوال ذیشان کیا دیکھ رھے ھو‬
‫تو میں بوال شاہد یار بال کا‬
‫حسن ھے تیرے گاؤں میں شاہد‬
‫کیوں مان گئے نہ جو مزہ پنڈ‬
‫میں ھے وہ نہ شہرمیں ھے نہ‬
‫ٹنڈ میں ھے‬
‫شاھد بوال ذیشان جگر ابھی تم‬
‫نے حسن دیکھا ھی کب ھے‬
‫میں بوال کیوں کیا ھوا تو وہ‬
‫بوال وہ دیکھ میں نے کھالے‬
‫کیساتھ بنی ڈنڈی پر دیکھا تو‬
‫دو حسین لڑکیاں ھمارے طرف‬
‫ھی آرھی تھیں ان کے کندھوں‬
‫پر کئ تھی جو کھیتوں کو‬
‫پانی لگانے کے استعمال میں‬
‫آتی ھے اردو میں شاید اسے‬
‫کسی‪  ‬بولتے ھیں‬
‫شاھد بوال اسمیں جو کالے‬
‫سوٹ والی ھے وہ انعم‬
‫شہزادی ھے اور جو اسکے‬
‫پیچھے والی ھے وہ لبنی‬
‫شہزادی ھے چاچے شیرو کی‬
‫دو ھی بیٹیاں ھیں جن کی‬
‫ادھر سات ایکڑ زمیں ھے جسے‬
‫اپنے باپ کیساتھ یہ بھی‬
‫کاشت کرتی ھیں میں بوال واہ‬
‫بھئ اب یہ کدھر جارھی ھیں‬
‫اس سے پہلے شاہد کچھ بولتا‬
‫وہ دونوں ھمارے عین سر پر‬
‫پہنچ گئیں اور شاہد کو بولیں‬
‫نوابزادے تم ادھر بیٹھے ھو‬
‫گھر نئیں جے جانا چاچی نے‬
‫مجھے کہا کہ اسکو جاتے ھی‬
‫بھیج دو دودھ نکالنا ھے‬
‫بھینسوں کا تو شاہد اٹھ کر‬
‫کھڑا ھوگیا اور بوال ہاۓ میری‬
‫راولپنڈی ایکپریس ذرا سانس‬
‫تو لے لو دودھ بھی نکال لوں‬
‫گا بھینسیں کونسا بھاگی‬
‫جارھی ھیں انعم شاہدکی‬
‫ذومعنی بات سن کر‪  ‬بولی یہ‬
‫اجنبی کون ھے تو اس نے میرا‬
‫تعارف کرواتے ھوۓ کہا یہ‬
‫ذیشان رفیق ھے اس گاؤں کا‬
‫نیا کسان اور نیا باشندہ‪  ‬اور‬
‫ذیشان یہ ھمارے شیرو چاچا‬
‫کی بڑی بیٹی انعم شہزادی‬
‫اورمیں لبنی شہزادی دوسری‬
‫نے اپنا تعارف خود ھی کرو دیا‬
‫تو میں بوال جی انعم ویسے آپ‬
‫کو ڈر نہیں لگتا اتنے رات گئے‬
‫‪ ‬کھیتوں میں‬
‫میری بات کاٹتے ھوۓ لبنی‬
‫بولی اج ساڈی پانی دی واری‬
‫اے اسیں پانی الن چلیاں واں‬
‫یعنی اسکامطلب تھا کہ آج‬
‫ھماری کھیتوں کو پانی دینے‬
‫کی باری ھے اور ٹائم پیریڈ ھے‬
‫سات بجے سے نوبجے تک‪  ‬ھمارا‬
‫باپ اکیال ھوتا ھے اور ھم نے‬
‫اپنی تعلیم مکمل کرلی ھے اور‬
‫اب انہیں ریسٹ دیا ھے اور اب‬
‫ھم فارمر ھیں انعم نے سینے کو‬
‫تان کر کہا تو میں سوچنے لگا‬
‫کہ جب کسان اتنے حسین ھوں‬
‫تو گھوبھی کتنی حسین ھوگی‬
‫مجھے سوچوں میں گم دیکھ‬
‫کر انعم شہزادی بولی ذیشان‬
‫صاحب آپکی زمین کدھر ھے تو‬
‫شاہد نے کہا انعم آپکا جو‬
‫سبزی واال ایکڑھے جس پر‬
‫امرودوں کے دو پودے بھی‬
‫ھیں دراصل اسکے اگلے کھیت‬
‫ذیشان کے ھیں اس کا ابو‬
‫ریٹائرڈ فوجی ھے اور اس کے‬
‫ماموں نے اسے یہ زمیں خرید‬
‫کر دی ھے جس اب ذیشان آباد‬
‫‪ ‬کرے گا‬
‫انعم بولی تو تم بھی آرمی‬
‫جوائن کرلیتے تو لبنی بولی‬
‫اسکا نشانہ کچا ھوگا اس لئیے‬
‫کسان بن گیا بے چارۂ تو میں‬
‫بوال نشانہ تو میرا بہت پکا ھے‬
‫کبھی آزما کر تو دیکھ لومیری‬
‫بات سن کر وہ شرما سی گئ‬
‫اور انعم بولی‪    ‬کاشتکاری میں‬
‫اب کسانوں کو کچھ نہیں بچتا‬
‫ڈے اے پی بوری سات ھزار‬
‫سے تجاوز کرگئ ھے سارا اناج‬
‫تو آڑھتی خرید لیتے ھیں اور‬
‫دام کماتے ھیں کسان بے چارہ‬
‫‪‎‎‬تو محنت ھی کرتا رہ جاتا ھے‬
‫میں بوال میں ایک الگ ذھن کا‬
‫بندہ ھوں دیکھنا اس فیلڈ میں‬
‫بھی بہت کچھ الگ سے کروں‬
‫گامیرے پاس وسیع پالن ھے‬
‫جس سے میں کسان کی زندگی‬
‫خوشحال بنا سکتاھوں تو انعم‬
‫بولی آپکی پرفامنس بھی‬
‫دیکھ لینگے اور لبنی کو بولی‬
‫چل نی چلئیے انکی باتیں ختم‬
‫نہیں ھونی انعم نے اپنے ایک‬
‫ہاتھ میں ٹار چ پکڑی ھوئی‬
‫تھی اور دوسرے میں کئ‬
‫پکڑے آکے چل پڑی اس کے‬
‫پیچھے پیچھے‪  ‬ناک چڑھی لبنی‬
‫اپنے ہاتھ میں چاۓ کا‬
‫تھرماس پکڑ کر آگے بڑھ گئیں‬
‫انکے آ گے بڑھتے ھی میں شاھد‬
‫کو بوال یار ان کو ڈر نہیں لگتا‬
‫اگر سانپ نکل آۓ تو پھر کہاں‬
‫جائینگی بے چاری تو شاھد بوال‬
‫اوہ میرے بھولے بادشاہ اس‬
‫انعم نے بہت دفعہ سانپ مارے‬
‫ھیں اور یہ کھیتوں میں بچپن‬
‫سے ھی آرھی ھیں اسی لئیے ڈر‬
‫کا تناسب بہت ھی کم رہ گیا‬
‫‪..‬ان کے ذھن میں‬
‫شاہد اپنے گھر چال گیا اور میں‬
‫اپنے گھر چال گیا اور ان دو‬
‫شہزادیوں کے بارے میں‬
‫سوچتا رھامیرا دل کر رھا تھا‬
‫کہ میں انکی مدد کروں مگر وہ‬
‫بہت خود دار تھیں شاید مدد‬
‫کی پیشکش ٹھکرا دیتیں میں‬
‫اس رات جلد سو گیا کیونکہ‬
‫حویلی نما اس گھر میں شہر‬
‫کی طرح پرسکون رات کی‬
‫سیاھی پوری طرح سے پھیل‬
‫‪...‬چکی تھی‬
‫اردو رومانٹک بولڈ اور خوفناک‬
‫کہانیاں اور ناول پڑھنے اور‬
‫وٹس ایپ پر حاصل کرنے کے‬
‫لئیے وٹس ایپ پر ناول کا نام‬
‫لے کر طلب کریں‬
‫میں صبح جب اٹھا تو ھمارے‬
‫گھر کے سامنے بیری کے درخت‬
‫تھے ان پر چڑیاں چہچہا رھی‬
‫تھیں اور کوئل کی کوک سنائی‬
‫دے رھی تھی میرا گاؤں میں‬
‫آج ایک ھفتہ مکمل ھوگیا تھا‬
‫اور آج پہلی صبح میری آنکھ‬
‫جلد کھل گئ تھی تو میں نے‬
‫سوچا چلو مارننگ واک کرنے‬
‫جاتا ھوں میں نے ٹی شرٹ‬
‫پہنی اور پھر واش روم جاکر‬
‫ھاتھ منہ دھویا اور باھر کا بڑا‬
‫گیٹ کھوال اور باہر نکل گیا‬
‫میرا کمرہ اوپر والے پورشن‬
‫میں تھا اور ممی پاپا نیچے‬
‫والے دو روم میں رھتے تھے اور‬
‫گھر کے پچھلے گیٹ کیساتھ‬
‫مامو‪  ‬سمیر کا روم تھامیرا‬
‫ماموں ھمارے ساتھ رھتا تھا‪ ‬‬
‫کیونکہ انکی اپنی اوالد نہیں‬
‫تھی اور انکی وائف پچھلے‬
‫‪.‬سال ھی چل بسی تھی‬
‫خیر سب گھر والے صبح کی‬
‫وقت خواب خرگوش تھے تو‬
‫میں نے جب اپنے روم کے گالس‬
‫ڈور سے لوگوں کو واک کرتے‬
‫دیکھا تو میرا دل بھی واک‬
‫کرنے کو کیا اور میں نکل گیا‬
‫پھر اور یہ میری پہلی واک‬
‫تھی میں سلو موشن میں‬
‫گنگناتا ھوا ایک طرف بھاگتا‬
‫ھوا جارہا تھا کھیتوں کی‬
‫پگڈنڈیوں پر سرسبز گھاس‬
‫میرے نرم پاؤں کو ٹھنڈک‬
‫پہنچا رھی تھیں گھاس ھر سو‬
‫ایک دلفریب نظارہ پیش کرتی‬
‫جب ان پر پڑی شبنم چمک‬
‫دمک دکھا رھی ھوتی میں‬
‫پرندوں کے‪  ‬منفرد سنگیت اور‬
‫شور کو سنتا ھوا‪  ‬اب اپنے‬
‫کھیتوں سے نکل کر انعم‬
‫شہزادی کے امردوں والے ایریا‬
‫میں آ گیا تھا سامنے امرودوں‬
‫کے کچھ پیڑ نظر آرھے تھے جو‬
‫اپنی بہار کے کچے پکے‬
‫امرودوں سے لدے ھوۓ تھے تو‬
‫میں نے دل ھی دل میں سوچا‬
‫اچھا ذیشان کاکا یہ ھیں تیری‬
‫محبوبہ انعم شہزادی کے‬
‫امرودوں کے درخت اور ساتھ‬
‫ھی میں نے ایک امرود توڑ لیا‬
‫اور‪  ‬دانتوںتلے کڑ چ کرکے اپنے‬
‫منہ میں اسکا میٹھا پن‬
‫محسوس کرنے لگا ہاۓ انعم‬
‫تیری طر ح تیرے سارے امرود‬
‫بھی میٹھے ھیں پھر میرے دل‬
‫نے کہا اوۓ ظالماں اسے تو پتہ‬
‫ھی نہیں ھے اور تم اسے اپنی‬
‫محبوبہ مان رھے ھو میں نے‬
‫اسی پگڈنڈی کو پکڑا اور‬
‫سیدھا نہر کے پل کی طرف‬
‫دوڑنے لگا‬
‫امرودوں والی یہ وٹ جسے‬
‫اردو میں پگڈنڈی یا ڈنڈی‬
‫بولتے ھیں سیدھا ھمارے اور‬
‫انعم کے کھیتوں کی طرف سے‬
‫نکل کر ایک چھوٹی نہر پر‬
‫چلی جاتی میں اسی وٹ پر‬
‫دوڑتا جارھا تھا آس پاس‬
‫بوڑھے جوان اور عورتیں بھی‬
‫اس حسین صبح کا درشن کرتے‬
‫ھوۓ میڈم پیس‪  ‬پر بھا گ‬
‫رھی تھیں مجھے یہ نظارہ‬
‫پہلی بار دیکھنے کو مال تھا‬
‫مجھے یقین نہیں ھورھا تھا کہ‬
‫ھمارے پاکستان کے دیہاتی‬
‫لوگ بھی‪  ‬واک کرنے‪  ‬کی اہمیت‬
‫سے پوری طر ح سے واقف ھیں‬
‫شکر ھے ان کو بھی احساس‬
‫ھے فٹنس کا خیر کھلی فضاؤں‬
‫میں‪  ‬خاص کرکے صبح کی‬
‫رننگ کا اپنا ھی مزہ ھے جب‬
‫بھاگتے ھوۓ آپکے پھیپھڑے‬
‫تازہ ھوا حاصل کرتے ھیں اور‬
‫سرسبز و شاداب فصلیں نظر‬
‫‪ ‬کو بڑھا دیتی ھیں‬
‫گاؤں کے افرا اسی وجہ سے‬
‫تندرست اور توانا ھوتے ھیں کہ‬
‫وہ کثرت سے واک کرتے ھیں‬
‫اور شہر کے لوگ بہت کم واک‬
‫کرتے ھیں اسی لئیے عمر سے‬
‫بڑے انکے پیٹ ھوتے ھیں‬
‫سارے نہیں تو‪  ‬بہت زیادہ لوگ‬
‫موٹاپے کا شکار ھو جاتے ھیں‬
‫اگرچہ اسمیں فاسٹ فوڈ اور‬
‫میٹھے کا بہت زیادہ رول‬
‫امرودوں والی یہ وٹ جسے‬
‫اردو میں پگڈنڈی یا ڈنڈی‬
‫بولتے ھیں سیدھا ھمارے اور‬
‫انعم کے کھیتوں کی طرف سے‬
‫نکل کر ایک چھوٹی نہر پر‬
‫چلی جاتی میں اسی وٹ پر‬
‫دوڑتا جارھا تھا آس پاس‬
‫بوڑھے جوان اور عورتیں بھی‬
‫اس حسین صبح کا درشن کرتے‬
‫ھوۓ میڈم پیس‪  ‬پر بھا گ‬
‫رھی تھیں مجھے یہ نظارہ‬
‫پہلی بار دیکھنے کو مال تھا‬
‫مجھے یقین نہیں ھورھا تھا‪ ‬‬
‫کہ ھمارے پاکستان کے دیہاتی‬
‫لوگ بھی‪  ‬واک کرنے‪  ‬کی اہمیت‬
‫سے پوری طر ح سے واقف ھیں‬
‫شکر ھے ان کو بھی احساس‬
‫ھے فٹنس کا خیر کھلی فضاؤں‬
‫میں‪  ‬خاص کرکے صبح کی‬
‫رننگ کا اپنا ھی مزہ ھے جب‬
‫بھاگتے ھوۓ آپکے پھیپھڑے‬
‫تازہ ھوا حاصل کرتے ھیں اور‬
‫سرسبز و شاداب فصلیں نظر‬
‫کو بڑھا دیتی ھیں گاؤں کے‬
‫افرا اسی وجہ سے تندرست‬
‫اور توانا ھوتے ھیں کہ وہ‬
‫کثرت سے واک کرتے ھیں اور‬
‫شہر کے لوگ بہت کم واک کرتے‬
‫ھیں اسی لئیے عمر سے بڑے‬
‫انکے پیٹ ھوتے ھیں سارے‬
‫نہیں تو‪  ‬بہت زیادہ لوگ‬
‫موٹاپے کا شکار ھو جاتے ھیں‬
‫اگرچہ اسمیں فاسٹ فوڈ اور‬
‫‪ ‬میٹھے کا بہت زیادہ رول ھے‬
‫گاؤں کے لوگ فاسٹ فوڈ کو‬
‫بہت زیادہ نہیں کھاتے اور پہلے‬
‫پہر ھی سو جاتے ھیں دوستو‬
‫گاؤں میں رات اور دن کا الگ‬
‫الگ پتہ چلتا ھے آسمان پر رات‬
‫کو تارے ھوتے ھیں اور دن کو‬
‫دوستوں کی محفل بھی میسر‬
‫آجاتی ھے مگر شہر میں گزرتے‬
‫وقت کا احساس نہیں ھوتا‬
‫وقت سپیڈ سے گزرتا ھے اور‬
‫مل بیٹھنے کی گھڑیاں بہت کم‬
‫میسر آتی ھیں اسی لئیے ہر‬
‫بندہ تنہائی اور ڈپریشن کا‬
‫شکار رھتا گاؤں کے لوگ فاسٹ‬
‫فوڈ کو بہت زیادہ نہیں کھاتے‬
‫اور پہلے پہر ھی سو جاتے ھیں‬
‫دوستو گاؤں میں رات اور دن‬
‫کا الگ الگ پتہ چلتا ھے آسمان‬
‫پر رات کو تارے ھوتے ھیں اور‬
‫دن کو دوستوں کی محفل بھی‬
‫میسر آجاتی ھے مگر شہر میں‬
‫گزرتے وقت کا احساس نہیں‬
‫ھوتا وقت سپیڈ سے گزرتا ھے‬
‫اور مل بیٹھنے کی گھڑیاں بہت‬
‫کم میسر آتی ھیں اسی لئیے ہر‬
‫بندہ تنہائی اور ڈپریشن کا‬
‫شکار رھا ہے ۔‬
‫میں بھاگتا ھوا اب نہر کے‬
‫قریب پہنچ چکا تھا میرے دل‬
‫کی دھڑکن تیز چل رھی تھی‬
‫اتنی دور سے بھاگتا ھوا آرہا‬
‫تھا اور یہ دھڑکن اب اور بھی‬
‫تیز ھوگئ جب سامنے سے انعم‬
‫اور لبنی بھاگتی ھوئی آرھی‬
‫تھیں اور‪  ‬لبنی اسکے آ گے آگے‬
‫دوڑتی آرھی تھی اور انعم‬
‫تھوڑی دھیرے دھیرے بھاگ‬
‫رھی تھی اور بلیک کلر کی کٹ‬
‫ان دونوں نے زیب تن کی ھوئی‬
‫تھی دونوں کی عقابی نظروں‬
‫نے مجھے دیکھ لیا اور میں‬
‫اس سویر کو سالم پیش کرتے‬
‫ھوۓ ان دونوں کے قریب جا‬
‫کھڑا ھوا ہاۓ کیا منظر تھا‬
‫دونوں طرف اکھڑی ھوئی‬
‫سانسیں تھیں بس نظریں ایک‬
‫ھوئیں اور انعم ہانپتے ھوۓ‬
‫بولی اوۓ تو وی اسی سائیڈ‬
‫تے واک کرنا ایں بہت سانس‬
‫چڑھا ھوا ھے نکے فوجی کو‬
‫مجھے انعم کی بات سن کر‬
‫بہت ھنسی آئی اور مجھے بہت‬
‫اچھا لگا کیونکہ اس نے میری‬
‫شناخت یاد رکھی کہ میں‬
‫فوجی کا بیٹا ھوں‬
‫میں بوال جناب آج ھی واک‬
‫کرنے آیا ھوں اور آج صبح کا‬
‫درشن بہت اچھا ھوا تمہارا‬
‫چہرہ دیکھ لیا میری بات سن‬
‫کر لبنی مسکرا دی اور بولی‬
‫واہ اے گالں وی کرلینداے میں‬
‫بوال جی کرلیتا ھوں باتیں اگر‬
‫کوئی کرنے دو تو پھر میری‬
‫بات سن کر حیا کی اللی انعم‬
‫کے گالوں پر امڈ آئی تھی وہ‬
‫کچھ سبنھلتی تو میں نے کہا‬
‫مجھ سے دوستی کروگی اور‬
‫اپنا ھاتھ بڑھا دیا اسکی طرف‬
‫وہ تو پہلے چھوئی موئی بن‬
‫کربیٹھی تھی بے چینی کے‬
‫عالم میں اس نے بھی اپنا ہاتھ‬
‫میرے ہاتھ میں دے دیا اور‬
‫بولی میں ایسی ویسی لڑکی‬
‫نہیں ھوں ذیشان اپنے باپ کی‬
‫ت‪‎‬پگ ھوں میں‬
‫‏ مجھے بدنام م ‪‎‬‬
‫کرنا‬
‫میں بوال میرا باپ فوجی ھے‬
‫اور میں ایک فوجی کا خون‬
‫ھوں محبت اور دوستی اصول‬
‫کیساتھ کروں گا دھوکہ دینا‬
‫میری فطرت نہیں اور آپ میرا‬
‫چناؤ کرکے فخر محسوس‬
‫کروگی‪  ‬میں بھی تمکو بہت‬
‫پسند کرتی ھوں میری چاھت‬
‫کا مان رکھنا‬
‫لبنی بولی واہ ذیشان بھائی‬
‫آپکا پرپوز کرنے کا انداز بہت‬
‫پسند آیا میں نے اسکا ہاتھ‬
‫چھوڑا اور وہ آ گے بڑھ گئیں‬
‫اور بولیں سوری ھم نے جاکر‬
‫بھی دودھ بھی نکالنا ھے پھر‬
‫مالقات ھوگی اور وہ چلی‬
‫گئیں میں تھوڑا آگےگیا تو وہ‬
‫اپنے گھر کو چل پڑیں‪...‬دراصل‬
‫انعم سے ایک دو مالقاتیں ھو‬
‫چکی تھیں میری اور میں‬
‫محسوس کیا کہ محبت کی‬
‫چنگاری ادھر بھی سلگ رھی‬
‫ھے اسی لئیے میں نے پرپوز‬
‫کردیا کہ ھوسکتا ھے انعم مان‬
‫جاۓ میرا اندازہ صیح ثابت ھو‬
‫رہا تھا وہ بھی چوری چوری‬
‫مجھے دیکھ رھی تھی اور میں‬
‫بھی ۔‬
‫میں جب واپس آیا تو مما‬
‫ناشتے کی میز پر میرا انتظار‬
‫کر رھی تھیں ھم نے ناشتہ کیا‬
‫اور پھر ابو پوچھنے لگے کہ‬
‫ذیشان بیٹا کیسے لگے گاؤں کے‬
‫لوگ اور کیا تم خوش ھو یہاں‬
‫تو میں بوال جی پاپا میں اس‬
‫نئ شروعات سے بہت خوش‬
‫ھوں تو پھر کیا پالن ھے ابا‬
‫جان میں بوال‬
‫اباجان بولے پالن یہ ھے کہ‬
‫کسان زمین کا سینہ چیر کر‬
‫اناج اگاتا ھے اور میں اس‬
‫عمرمیں زمیں کا سینا چیرنا‬
‫میرے بس کی بات نہیں ھے‬
‫میری ماں بولی میرا پتر بہت‬
‫سیانا ایں آپے کرلے گا سب‬
‫تسی فکرنہ کرو‬
‫ایک دن میں کھیتوں میں جوار‬
‫کے کھیتوں سے ھوتا ھوا اپنے‬
‫دوست شاہد کی طرف جارھا‬
‫تھا‪  ‬دوپہر کا وقت تھا ستمبر‬
‫کی نیم گرم دھوپ تھی اور‬
‫اتنی زیادہ گرمی نہیں تھی‬
‫فصلیں جوان ھوچکیں تھیں‪ ‬‬
‫ان کے درمیاں سے گزرتے ھوۓ‬
‫بھی خوف آتا تھا‬
‫میں جب جوارکی فصل کے‬
‫درمیان پہنچا تو مجھے ایک‬
‫نسوانی آواز سنائی دی اور‬
‫کچھ گڑ بڑ سی محسوس‬
‫ھوئی اور میری چھٹی حس نے‬
‫محسوس کیا کہ ضرور اس‬
‫جوان فصل میں کوئی پریمی‬
‫جوڑا ھے مگر ھے کدھر اس کا‬
‫معلوم کرنا میرے لئیے مشکل‬
‫تھا میں نے ان کی پیش قدمی‬
‫جاری رکھنے کا فیصلہ کیا‬
‫میں نے کان لگا کر سنا تو مکئ‬
‫کی فصل میں کچھ کھسر پسر‬
‫اب سسکیوں میں بدل چکی‬
‫تھی مجھے اس طرح اوپن‬
‫ماحول میں اس طرح کی‬
‫مدھوش سسکیاں بہت متاثر‬
‫کر رھی تھیں‬
‫میری عقل نے کام کیا میں نے‬
‫نیچے بیٹھ کر جوار کے پودوں‬
‫کے درمیانی فاصلوں سے‬
‫دیکھنا شرو ع کیا تو ایک‬
‫طرف مجھے ایک لڑکی گھوڑی‬
‫بنے ھوۓ نظر آئی‪..‬مجھے‬
‫تعجب‪  ‬ھورہاتھا کہ ایک تو‬
‫پاگل اوپن سیکس کر رھے ھیں‬
‫اور دوسرایہ ڈر ذرا بھی نہیں‬
‫کہ پکڑے جائینگے تو پھر کیا‬
‫ھوگا دور کسی نے کھیتوں میں‬
‫ہل چالتے ھوۓ سرائیکی گانا‬
‫لگایا ھوا تھا ونگاں لے بھانویں‬
‫لے چھال سوہنا ڈھول چل دویں‬
‫چلئیے سنارے کول جسکی آواز‬
‫دور تک جارھی تھی میں‬
‫سمجھ گیا کہ چودنے واال‬
‫کوئی جدید قسم کا لونڈا ھے‬
‫جسکو شاید معلوم تھا کہ ادھر‬
‫کسی نے نہیں آنا اور لڑکی بھی‬
‫شاید دیسی پورن سٹار تھی‬
‫جو شاید سمجھ رھی تھی کہ‪ ‬‬
‫ٹریکٹر پر لگے اس گانے کے شور‬
‫میں بھال کون سنے گا اسکی‬
‫شہوت بھری سسکاریاں‬
‫مگراسے کیامعلوم تھا کہ آج‬
‫چھاپہ پڑ چکا ھے میں رینگتے‬
‫رینگتے ان کے بہت قریب تر چال‬
‫گیا تھا میں نے جب دیکھا تو‬
‫میرے حوش وحواس گم ھو‬
‫گئے یہ لڑکا کوئی اور نہیں تھا‬
‫میرا دوست نوابزادہ شاہد ھی‬
‫تھا اور لڑکی ھمارے قریبی‬
‫گھر کی نادیہ تھی‬
‫میں چپ چاپ دیکھتارھا اور‪ ‬‬
‫نادیہ کی شلوار پر جب میری‬
‫نظر پڑی تو میں نے وہ اٹھالی‬
‫اور تب شاہد نے اپنالنڈ اسکی‬
‫چوت سے نکاال اور نیچے‬
‫گھاس پر اپنا پانی گرا دیا تب‬
‫میں بولے شاباش تمہارے شرم‬
‫نہیں آتی تم دونوں کو تو شاہد‬
‫‪....‬کا رنگ اڑ گیااور‬
‫وہ بوال ذا ذا ذیشان تت تت‪ ‬‬
‫تم‪  ‬میں نے اسے‪   ‬میں نے اسے‬
‫آنکھ ماری اور کہا آپ لوگ‬
‫شرم کرو کچھ اور نادیہ تمہیں‬
‫شرم نہیں آتی تم نے یہ کب سے‬
‫شرو ع کر رکھا ھے وہ مجھے‬
‫دیکھ کر بہت ڈرگئ اور بولی‬
‫پلیزمیری شلوار تم واپس کردو‬
‫اور مجھے جانے دو تومیں نے‬
‫اسے کہا ایسے کیسے جانے دوں‬
‫آپکو شاید یہ نہیں معلوم کے‬
‫پکڑے جانے پر حصہ دینا پڑتا‬
‫ھے تم مجھے ایک بار کرنے دو‬
‫پھر بیشک چلی جانا تو وہ‬
‫بولی نہیں‪  ‬ذیشان تم تو میرے‬
‫بھائیوں جیسے ھو تم میرے‬
‫‪...‬ساتھ ایسامت کرو‬
‫میں بوال بھائی کا اندر نہیں‬
‫جاتا اور میں کب سے تمہارا‬
‫بھائی ھوگیا اور چل جلدی کر‬
‫اور مجھے بھی کرنے دو ورنہ‬
‫میں نے جو ویڈیو بنائی ھے وہ‬
‫نیٹ پر اپلوڈ کردوں گا تو وہ‬
‫بولی نہیں ذیشان تم ایسامت‬
‫کرنا میرا منگیتر مجھے مار‬
‫ڈالے گا اور میرا رشتہ بھی‬
‫ٹوٹ جاۓ گا تو میں بوال پھر‬
‫تم میری بات مان لو میں کسی‬
‫‪....‬کو نہیں بتاؤں گا‬
‫وہ بولی کہ پکا تم کسی کو‬
‫نہیں بتاؤ گے توشاہد بوال نادیہ‬
‫ذیشان میرا دوست ھے اگر تم‬
‫اسے دے بھی دوگی تو آپکا‬
‫کچھ نہیں جاۓگا بلکہ اسکا‬
‫منہ بند ھوجاۓگا نادیہ بولی‬
‫اچھا ٹھیک ھے میں نے نادیہ‬
‫کو اپنی بانہوں کے حصارمیں‬
‫‪‎‎‬لےلیا اور اسے چومنے لگا‏‬
‫نادیہ مزے سے سسکاریاں‬
‫بھرتی ھوی پھدی سے پانی کا‬
‫سیالب نکال کر میرے لن کو‬
‫متاثر کرتی رھی ۔‬
‫میں نے‪.‬نادیہ کے مموں کو‬
‫چھوڑا اور اسکو کندھوں سے‬
‫پکڑ کر اوپر کو کھینچا اور‬
‫اسکو اٹھا کر بیٹھا دیا ۔‬
‫اور ‪.‬نادیہ کی قمیض پکڑ کر‬
‫اتارنے لگا تو ‪.‬نادیہ بولی نہیں‬
‫ذیشان قمیض نہیں اتارنی‬
‫کوئی آگیا تو اتنی جلدی‬
‫سنبھال نہیں جانا میں نے کہا‬
‫‪....‬یار کوئی نہیں آتا‬
‫نادیہ بولی ایسے ھی اوپر کر لو‬
‫مگر میرے اصرار پر اسے ہار‬
‫ماننی پڑی اور یہ کہتے ھوے‬
‫اس نے بازو اوپر کردیے کہ‬
‫‪ ‬مرواو گے مجھے‬
‫میں‬
‫نے بنا کچھ بولے اسکی قمیض‬
‫پکڑ کر اوپر کر کے اسکے سر‬
‫سے نکال دی باقی کی اس نے‬
‫خود ھی بازوں سے نکال کر‬
‫سیدھی کر کے پھینک دی میں‬
‫نے جلدی سے اپنی شرٹ اتاری‬
‫اور اسکی قمیض کی طرف‬
‫پھینکنے لگا تو ‪.‬نادیہ نے میری‬
‫شرٹ راستے میں ھی کیچ کر‬
‫کے پکڑ لی اور شرٹ کو سیدھا‬
‫کر کے پھر اپنی قمیض کے اوپر‬
‫پھینک دیا ۔‬
‫نادیہ کا دودھیا‪  ‬ممے کالے‬
‫بریزیر میں چمک رھے تھے۔‬
‫نادیہ کا جسم دیکھا تھا تو‬
‫عجیب سی کیفیت ھورھی‬
‫تھی جیسے پہلی دفعہ اسکا‬
‫گورا جسم دیکھ رھا ھوں‬
‫‪.‬نادیہ نے جب میری نظروں کو‬
‫اپنے مموں کو گھورتے دیکھا تو‬
‫بریزیر کی طرف اشارہ کر کے‬
‫بولی اسے بھی اتار دوں کہ‬
‫ایسے ھی کام چل جاے گا ۔‬
‫نادیہ کی طنز پر مجھے ہنسی‪.‬‬
‫آگئی میں نے مسکراتے ھوے‬
‫‪ ‬کہا‬
‫اتار دو گی تو مہربانی ۔‬
‫عرصہ دراز سے دودھ کے‬
‫پیالوں کا درشن نصیب نہیں‬
‫ھوا۔۔‬
‫نادیہ طنزیہ انداز میں‪.‬‬
‫مسکراتے ھوے ھاتھ پیچھے‬
‫کمر کی طرف لیجاکر بریزیر کی‬
‫ہک کھولتے ھوے مموں پر آے‬
‫اپنے سلکی اور لمبے بالوں کو‬
‫جھٹک کر پیچھے لیجاتے ھوے‬
‫بولی لو کرلو درشن تم خوش‬
‫ھو جاو۔‬
‫اس کے ساتھ ھی بریزیر کی‬
‫ہک کھلی اور بریزیر نے مموں‬
‫کو رھائی دی ۔‬
‫اور ‪.‬نادیہ نے بڑے نخرے اور‬
‫ادا سے بریزیر کو بازوں سے‬
‫باری باری نکاال اور بڑا احسان‬
‫کرتے ھوے مموں کے آگے سے‬
‫پردہ ہٹا کر مموں کو جلوہ گر‬
‫کیا۔‬
‫اففففففف کیا چٹے سفید ممے‬
‫گول مٹول اوپر ہلکے براون‬
‫رنگ کا گول دائرہ اوپر چھوٹا‬
‫سا مگر تنا ھوا نپل مموں پر‬
‫بریزیر کے نشان مموں کے‬
‫احساس نرم نازک ھونے کی‪ ‬‬
‫دلیل پیش کررھے تھے ۔‬
‫بریزیر پھینکتے ہی دھڑام سے‬
‫پیچھے تکیے پر سر کو گراتے‬
‫‪ ‬ھوے جب لیٹی تو‬
‫اففففففففففف کیا سین تھا کیا‬
‫نظارا تھا کیا غضب ڈھاتے‬
‫ھوے ممے چھلکے جیسے ابھی‬
‫سارا دودھ باہر کو گر جاے گا۔‬
‫نادیہ جس انداز سے پیچھے کو‬
‫گری اسکے گول مٹول نرم ممے‬
‫بھی اپنے بڑے اور جوان ھونے‬
‫کا احساس دالتے ھوے چھلک‬
‫رہے تھے۔‬
‫مموں کا یہ منظر دیکھ کر‬
‫میرے ھاتھ خود با خود مموں‬
‫کی طرف بڑھے اور میرے‬
‫ھاتھوں نے ان چھلکتے جاموں‬
‫کو مٹھیوں میں بھینچ لیا‬
‫اففففففف کیا سوفٹنس تھی‬
‫کیا سیکسی ممے تھے میں مزے‬
‫لے لے کر مموں کو مٹھیوں میں‬
‫بھینچ رھا تھا اور ساتھ ساتھ‬
‫انگوٹھوں سے‪  ‬مموں پر لگے‬
‫انگور کے دانوں پر مساج کر‬
‫‪ ‬رھا تھا‬
‫نادیہ پھر تتڑپنے لگ گئی اسکی‬
‫آنکھوں میں نشے کے ڈورے‬
‫تیرنے لگ گئے آنکھوں اور‬
‫گالًو ں کی اللی بڑھنا شروع‬
‫ھوگئی ‪.‬نادیہ کی سانسیں تیز‬
‫اور منہ سے سسکاریاں بلند ہونا‬
‫شروع ھوگئی ۔‬
‫نادیہ کو لٹا دیا اور وہ شرماکر‬
‫بولی ذیشان تم نے آرام آرام‬
‫سے کرنا ہے میں بوال کہ تم فکر‬
‫مت کرو میری جان ِپ ھر نادیہ‬
‫نے کہا آہستہ اندر کرو میں نے‬
‫آہستہ آہستہ لن کو اندر دبانا‬
‫شروع کیا نادیہ نے اپنے ہاتھ‬
‫بھی میرے سینے پے رکھے ہوئے‬
‫تھے تا کہ میں زیادہ زور سے‬
‫جھٹکا نہ مار سکوں اس سے‬
‫ظاہر ھورہا تھا کہ وہ ایک‬
‫پورن سٹار تھی مطلب وہ‬
‫تجربہ کار تھی‬
‫میں اب اپنالنڈ آہستہ آہستہ ‪ ‬‬
‫نادیہ کے اندر کر رہا تھا تقریبًا‬
‫میرا ‪ 2‬انچ سے زیادہ لن اندر‬
‫جا چکا تھا لیکن نادیہ کا منہ‬
‫الل سرخ ہو چکا تھا آنکھیں‬
‫اور زیادہ پھیل گئی تھیں ‪ .‬اور‬
‫درد اس کے چہرے پے عیاں‬
‫تھاجب میرا آدھا لن اندر گھس‬
‫چکا تھا تو نادیہ نے مجھے‬
‫روک دیا اس کی آنکھوں میں‬
‫نمی تھی مجھے اس پے بہت‬
‫پیار آیا ساتھ کھڑا ھوا شاہد‬
‫بوال سالے کڑی مارنی آں اپنی‬
‫باجی سمجھ کے کر تو بوال یار‬
‫تم تو وٹ پر جاؤ ورنہ پھر‬
‫کوئی آجاۓگا میں نے کہا میں‬
‫‪...‬اور اندر نہیں کرتا ہوں‬
‫بس یہاں تک ہی اندر باہر کر‪ ‬‬
‫لیتا ہوں ‪ .‬تو نادیہ درد بھری‬
‫آواز میں بولی نہیں ذیشان لن‬
‫تو میں اب تمہارا پورا اندر لے‬
‫کر رہوں گی چاہے جتنی مرضی‬
‫درد ہو لیکن تم تھوڑا رک جاؤ‬
‫مجھے تھوڑا سا سکون ملنے دو‬
‫ِپ ھر دوبارہ اندر کرنا ‪ .‬میں ِپ ھر‬
‫وہاں تھوڑی دیر رک گیا کچھ‬
‫منٹ مزید انتظار کے بعد نادیہ‬
‫نے کہا ذیشان اب اندر باہر کرو‬
‫لیکن مجھ سے بار بار کا درد‬
‫برداشت نہیں ہوتا بس باقی کا‬
‫لن ایک ہی جھٹکے میں اندر‬
‫کردو ‪ .‬میں نے کہا نادیہ جی‬
‫سوچ لو تو اس نے کہا میں نے‬
‫سوچ لیا‬
‫اب بس ایک جھٹکے میں اندر‪ ‬‬
‫کر دو ‪ .‬میں نے آگے ہو کر‪ ‬‬
‫اسکے ہونٹوں کو اپنے ہونٹ‬
‫میں بھینچ لیا اور ِپ ھر اپنے‬
‫بازو نادیہ کی کمر میں ڈال کر‬
‫ایک زور دار جھٹکا مارا میرا‬
‫پورا لن نادیہ کی پھدی کو‬
‫چیرتا ہوا اندر گہرائی میں ُا َت ر‬
‫گیا‪  ‬اسکا منہ میرے منہ میں‬
‫ہونے کی وجہ سے اس کی ایک‬
‫زور دار چیخ میرے منہ میں ہی‬
‫رہ گئی لیکن اس کی آنکھوں‬
‫سے پانی کا سیالب نکل آیا تھا‬
‫وہ دردسےبلبال اٹھی تھی اور‬
‫اس نے مجھے پیچھے سے میری‬
‫کمر میں ہاتھ ڈال کر جھکڑ لیا‬
‫تھا اور سختی کے ساتھ اپنے‬
‫ساتھ چمٹا لیا تھا‪ .‬میں بھی‬
‫کافی دیر تک اس کے اوپر‬
‫ایسے ہی پڑا رہا اور ہال نہیں‬
‫تقریبًا ‪10‬منٹ کے بعد‪  ‬درد‬
‫بھری آواز آئی یار آج تو تم‬
‫دونوں نے میری جان نکال دی‬
‫ہے ‪ .‬لن پھدی کے اندر جکڑا ھوا‬
‫محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے‬
‫کوئی لوہےکی گرم بھٹی میں‬
‫ڈال دیا گیا ھو لن اسکی پھدی‬
‫کوِچ یر تا ہوا اندر گھس گیا ‪.‬‬
‫میرے لن میں بہت سخت جلن‬
‫‪. ‬ہو رہی ہے‬
‫میں نے کہا نادیہ جان یہ درد‬
‫ھوتا ھے تم ذرا سا تھوڑا سا‬
‫صبر کرو ابھی یہ درداور جلن‬
‫کم ہو جائے گی یہ ایک دفعہ‬
‫ہی ہوتی ہے ِا س کی بعد تو مزہ‬
‫ہی مزہ ہے ‪ِ .‬پ ھر میں مزید ‪5‬‬
‫منٹ تک کوئی حرکت نہ کی ‪.‬‬
‫کچھ دیر بعد نادیہ نے کہا‬
‫ذیشان اب تم آہستہ آہستہ‬
‫میرے اندر باہر کرو میں نے‬
‫اپنے جسم کو حرکت دی اور‬
‫اپنے لن کو آہستہ آہستہ اندر‬
‫باہر حرکت دینے لگا میں تقریبًا‬
‫‪ 5‬سے ‪ 7‬منٹ تک لن کو آرام‬
‫سے اندر باہر کر رہا تھا اب لن‬
‫نے اپنا رستہ بنا لیا تھا اور لن‬
‫آسانی سے اندر باہر ہو رہا تھا‬
‫اور‪  ‬اسکی درد بھری سسکیاں‬
‫بھی اب لّذ ت میں َب َد ل رہیں‬
‫تھیں میں اسکو چودنے میں‬
‫مصروف تھا دور سے کہیں‬
‫ٹریکٹر کے اوپر لگے سونگ‪ ‬‬
‫نیڑے آہ آہ ظالماں وے لگا ھوا‬
‫‪ ‬تھا‬
‫میں بھی مستی میں مفت میں‬
‫ملی اس چوت کا مزہ لینے لگا‬
‫میرے گھسے مارنے کی وجہ‬
‫سے جوار کے کچھ پودے ٹوٹ‬
‫پھوٹ گئے تھے‪ِ  ‬پ ھرنادیہ کو‬
‫بھی شاید تھوڑی راحت‬
‫محسوس ہو رہی تھی اس نے‬
‫اپنی ٹانگوں کو میری کمر کے‬
‫پیچھے کر کے جڑولیا اور بولی‬
‫ذیشان اب تھوڑا تیز کرو اب‬
‫مزہ آ رہا ہے ‪ .‬میں نے اپنی‬
‫رفتار میں تھوڑی تیزی لے آیا‬
‫تھا ‪ .‬نادیہ کے منہ سے ہی‬
‫سسکیاں نکل رہیں تھیں آہ اوہ‬
‫آہ آہ آہ ذیشان مار ڈاال یار اوہ‬
‫اوہ آہ ‪ِ .‬پ ھر میں نے دیکھا ا‬
‫سکو مزہ آ رہا ہے میں اور تیز‬
‫تیز جھٹکے مارنے لگا نادیہ بھی‬
‫اپنی گانڈ اٹھا اٹھا کر لن اندر‬
‫کروا رہی تھی وہ بولی آہ آؤچ‬
‫ذیشان مے ڈسچارج ھوگئ ھوں‬
‫میں‪  ‬نے اپنا لنڈ باہرنکال لیا اور‬
‫ایک زور دار پریشر نکال اور‬
‫میں ایک دم سے خوش باش‬
‫ھوگیا میں اپنے آپ کو صاف‬
‫کرکے باہر نکلنے لگا تو میں نے‬
‫نادیہ سے کہا کہ اس بات کا‬
‫ذکر کسی سے مت کرنا تو وہ‬
‫بولی میں نے بھال کسی کو بتا‬
‫‪..‬کر مار کھانی ھے‬
‫میں نے اسے ایک کس کی اور‬
‫پانچ سو کا نوٹ اسکی مٹھی‬
‫میں دے دیا وہ بولی نئیں‬
‫ذیشان بھال آپ نے تو مجھے‬
‫طوائف سمجھ لیا‪  ‬میں نے‬
‫اسکا گال اپنے ھاتھوں سے‬
‫سہالنے لگا اور بوال میری جان‬
‫میں نے تجھے کب طوائف کہا‬
‫آپ تو میری جان ھو آپ نے‬
‫رضامندی کیساتھ مجھے موقع‬
‫فراہم کیا کہ میں آپکے جسم کا‬
‫‪.‬رس پی سکوں‬
‫‏میں_نے کہا کہ تم اس سے‬
‫کوئی چیز کھالینا تو وہ میرے‬
‫ہاتھ سے پانچ سو پکڑ کر چلی‬
‫گئ اور شاہد بوال سالے تو کدھر‬
‫سے آ گیا سارے رنگ میں بھنگ‬
‫ڈال دیا تم نے تو میں بوال‬
‫جناب قسمت میں ایک سانولی‬
‫سلونی لڑکی کی پھدی مارنا‬
‫لکھا تھا تو بس نکل آیا اس‬
‫طرف تم مجھے چھوڑو اپنا‬
‫بتاؤ کتنی لڑکیوں کو چود چکے‬
‫ھو اور سب سے پہلی بار کس‬
‫کی ٹانگیں اٹھائیں تھیں آپ نے‬
‫تو شاہد شرما کر بوال‪  ‬یار یہ‬
‫کونسا جیتو پاکستان پروگرام‬
‫کا سوال ھے جو میں بڑے فخر‬
‫سے بتا دوں کہ میں کتنی‬
‫لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا‬
‫ھوں تو میں بوال یار دوستی‬
‫بھی کوئی چیز ھوتی ھے تم‬
‫بتادو پھرمیں بتا دیتا‬
‫‪......‬ھوں‬
‫شاہد بوال اب تک صرف تین‬
‫لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھا چکا‬
‫ھوں میں نے بوال کون کون سی‬
‫ھم اس وقت چلتے چلتے انعم‬
‫کے امرودوں کے پودوں کی‬
‫طرف چلے گئے اور امرود توڑ‬
‫کر کھانے لگے اور پھر میرے‬
‫اسرار پر شاہد بوال کہ پہلی‬
‫بارلبنی کی سیل توڑی تھی اور‬
‫اسکی ٹانگیں اٹھائیں اور‬
‫دوسری بار نادیہ کے ساتھ کیا‬
‫تھا جب یہ مجھے ڈیرے پر‬
‫اکیلے میں مجھے ملی تھی میں‬
‫لبنی کا نام سن کر پریشان‬
‫ھوگیا اور بوال اب تیسری کون‬
‫‪ .....‬ھے‪...‬تو وہ بوال کہ‬
‫شاہد میری بات سن کر بوال کہ‬
‫تیسری لبنی‪  ‬کی ایک دوست‬
‫ھے تو میں پھر بڑے اشتیاق‬
‫سے اسے پوچھنے لگا آپ کھل‬
‫کر بتاؤ اس کا نام کیا تھا تو‬
‫وہ بوال یار ذیشان تم میرا سارا‬
‫ڈیٹا اکٹھا کرنے لگ پڑے‬
‫چھوڑو اس بات کو کسی اور‬
‫موضوع پر بات کر تے ھیں تو‬
‫میں بوال اگر تم نے نہ بتایا تو‬
‫میں تم سے ناراض ھو جاؤں گا‬
‫میری بات سن کر شاہد بوال‬
‫سالیا تو نادیہ اور لبنی کا تو‬
‫پوچھ چکا اب کیوں تیسری کا‬
‫نام سننے کے لئیے اتنا باؤلہ ھو‬
‫‪ ‬چکا ھے‬
‫میں اٹھ کر شاہد کے پیچھے‬
‫لگ گیا اور بوال ٹھہرو تیری تو‬
‫تجھے میں بتاتا ھوں اتنی بات‬
‫سننا تھا کہ شاہد میرے آ گے‬
‫آگے اور میں اس کے پیچھے‬
‫بھاگنے لگے مجھے غصہ آرہا تھا‬
‫کہ شاید شاہد نے انعم کو بھی‬
‫چود ڈاال ھو اور اسی وجہ سے‬
‫مجھے نہیں بتارہا کہ میں انعم‬
‫کو پسند کرتا ھوں جیسے میاں‬
‫صاحب کا ایک شعر ھے جو‬
‫آپکی نذرکرتا ھوں‬
‫جو وی کسے دا عاشق ھوندا‬
‫اوسے دی اوہ گل کردا‬
‫سو سو مکر بہانے کرکے اوہدے‬
‫مرنے مردا‬
‫قصہ مختصر دوستو شاعرکہتا‬
‫ھے جب پیار ھوجاتا ھے کسی‬
‫سے تو دنیاکی سب باتیں اسی‬
‫کی باتیں لگتی ھیں ھم چھوٹے‬
‫سے کھالے کے ساتھ بنی‬
‫پگڈنڈی پر بھاگ رھے تھے گاؤں‬
‫کی طرف اور شاہد بوال بچو تو‬
‫مجھ نہیں پکڑ سکتا میں ان‬
‫کچے راستوں کا پکا کھالڑی‬
‫ھوں تو تم ٹھہرے شہری بابو‬
‫پیزا ہٹ کی پیداوار میں بوال‬
‫تم رکو تو سہی میں نکالتا ھوں‬
‫تمہارا دیسی پن ھم جب گاؤں‬
‫کی پہلی گلی میں داخل ھوۓ‬
‫تو سامنے سے لبنی آرھی تھی‬
‫اپنے پانچ چھے بھینسوں کو‬
‫لیکر جسے وہ نہر پر لے جاکر‬
‫نہالتی اور کچھ دیر ان کو‬
‫‪.....‬چراتی تھی اور‬
‫پھر واپس اپنے باڑے میں لے‪ ‬‬
‫جاتی تھی اور باندھ دیتی یہ‬
‫اس کا روز کا معمول تھا اور‬
‫آج وہ ھمیں دیکھ کر بولی کہ‬
‫کدھر بھاگ کر جارھے ھیں‬
‫ھمارے سانڈ بہت مستی چڑھی‬
‫ھے تم دونوں کو تو میں بوال یہ‬
‫شاہد بہت شرارتی ھے تم اسے‬
‫بولو رک جاۓ‪  ‬تو شاہد بوال چل‬
‫سالے تم سے پکڑا ھی نہیں گیا‬
‫تم نہیں پکڑ سکتے‪  ‬تو میں‬
‫غصے سے شاہد کی ذومعنی‬
‫بات کا جواب دیتے ھوۓ بوال‬
‫کہ تمہیں تو عادت ھے پکڑنے‬
‫کی‪  ‬میں بھال کیوں پکڑوں ھم‬
‫ایک دوسرے کو پکڑنے کی‬
‫خاطر لبنی شہزادی کی‬
‫بھینسوں کے بیچ میں سے ادھر‬
‫ادھر بھاگ رھے تھے‪  ‬دوسری‬
‫طرف کاال سوٹ سر پر حیا کا‬
‫ڈوپٹہ پاؤں میں چم کا کھسہ‬
‫اور گورے گورے ہاتھوں میں‬
‫ایک بڑا ساڈندا ایسے پکڑا ھوا‬
‫‪ ‬تھا‬
‫جیسے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی‬
‫کھالڑی ثنامیر ھو اور بیٹنگ‬
‫کرنے چلی ھو وہ ثنامیر تو نہیں‬
‫تھی البتہ لبنی شہزادی گاؤں‬
‫کی ایک الہڑ مٹیار تھی جو‬
‫ھمارے باتوں سے لطف اندوز‬
‫ھوتے ھوۓ بولی ویکھو کھاں‬
‫کیسے مستی چڑھی ھوئی ھے‬
‫ان دونوں سانڈوں کو لبنی‬
‫کیساتھ میں اتنا فری نہیں تھا‬
‫مگراسکی گالبی اردو سن کر‪ ‬‬
‫بوال اب سانڈ کی کو بھینس‬
‫ملے تو اسکو کچھ بنے تو وہ‬
‫بولے شرم نئیں آتی ایسی باتیں‬
‫کرتے ھو تم تو میں بوال شرم تو‬
‫بہت آتی ھے مگر جب حسن‬
‫اپنا سراپا لیکر دستک دے رہا‬
‫ھوں تو ڈور کھولنے واال خود‬
‫کو خوش نصیب ھی سمجھے‬
‫‪....‬گا‬
‫میں بوال تم بتاؤ کدھر جارھی‬
‫ھو اس وقت اور انعم کہاں ھے‬
‫تو وہ بولی انعم گھر پر ھے‬
‫اسے بخار ھے اسی لئیے تو‬
‫مجھے سب کچھ کرنا پڑ رہا‬
‫ھے‪  ‬اور ایک بوری بھینس کو‬
‫ڈنڈا مارتے ھوۓ بولی میں‬
‫انہیں نہر پر لیکر جارھی ھوں‬
‫کچھ دیر یہ ادھر گھاس چر‬
‫لینگی پھر انکو واپس لے‬
‫آئینگے تو میں بوال یار ھم کو‬
‫ایک اچھے گھرکی ضرورت ھے‬
‫جو دودھ فروخت کرتے ھوں‬
‫اور پانی سے پاک خالص دودھ‬
‫بیچتے ھوں تو وہ بولی ذیشان‬
‫ھمارا دودھ خالص ھوتا ھے تم‬
‫‪...‬لوگ ایک بار چیک کرلو تو‬
‫میں بوال صیح کہا تم نے لبنی‪ ‬‬
‫کسی دن چیک کروادو نہ‪  ‬تاکہ‬
‫اندازہ ھو سکے کہ آپکا دودھ‬
‫واقعی خالص ھے‪  ‬تو وہ بولی‬
‫تم مجھ سے ڈنڈا کھاؤگے تو‬
‫پھر عقل آۓ گی تمکو تو میں‬
‫بوال اب بھال میں نے کونسی‬
‫غلط بات کردی دودھ چیک ھی‬
‫تو کرنا ھے ارے یہ شاہد کدھر‬
‫بھاگ گیا تووہ بولی کہ شاہد‬
‫بھی اس وقت اپنی بھینسوں‬
‫کو نہر پر چرانے لے جاتا ھے آج‬
‫شاید تمہارے ساتھ باتوں‬
‫باتوں میں وہ لیٹ ھوگیا ھوگا‬
‫تبھی تو جلدی گھر بھاگ‬
‫گیا‪....‬‏‬
‫میں نے کہا تمہیں ڈر نہیں لگتا‬
‫اکیلی جاتی ھو چاروں طرف‬
‫فصلیں جوان ھیں مطلب کماد‬
‫چری اور جوار وغیرہ تو وہ‬
‫بولی کہ جب رات کو پانی‬
‫لگاتی ھوں تب ڈرنئیں لگتا اب‬
‫تو دن کی روشنی ھے اور میں‬
‫نے شام سے پہلے پہلے واپس آنا‬
‫ھے‪  ‬میں بوال انعم کو بولو نہ‬
‫کہ مجھے اس سے پیار ھوگیا‬
‫ھے تو وہ بولی تم خود بات کر‬
‫چکے ھوں اس سے اب میری‬
‫سفارش کی ضرورت نہیں ھے‬
‫تو میں بوال یار تم بتادو بندہ‬
‫واقعی معصوم ھے کھل کر‬
‫نہیں کہہ سکتا تو وہ بولی‬
‫ذیشان تم جاؤکسی نے دیکھ‬
‫لیا تو باتیں بنائینگے یہ گاؤں‬
‫ھے شہر نہیں یہاں پر سر راہ‬
‫لڑکی لڑکا باتیں کرینگے تو‬
‫گاؤں کے لوگ انہیں اچھا نہیں‬
‫سمجھتے‪  ‬تم گھر جاؤ اور‬
‫دودھ کی بات بھی فائنل کرلو‬
‫اور اپنی محبوبہ کا حال‬
‫احوال بھی پوچھ لو تومیں‬
‫بوال کہ آپکی بات میں دم ھے‬
‫مجھے اسکی باتوں کی سمجھ‪ ‬‬
‫لگ چکی تھی کہ وہ صیح کہہ‬
‫رھی تھی اور میں انکے گھر‬
‫چال گیا انعم کا گھر ایک‬
‫حویلی نما گھر تھا بہت کھلے‬
‫کھلے روم تھے اور گھر کے ایک‬
‫طرف بھینسوں کا اور بکریوں‬
‫کا باڑہ تھا تو دوسری طرف‬
‫انعم کے گھر کی باؤنڈری کی‬
‫شکل میں گول کمرے اور‬
‫صحن میں نیم کا درخت تھا‬
‫جب میں نے گیٹ پر دستک دی‬
‫تو اندر سے انعم اور لبنی کی‬
‫ماں‪  ‬باہر نکلی سرپر چادر اور‬
‫منہ پر نقاب ساکرکے بولی بیٹا‬
‫کون ھوتم اور کس سے ملنا ھے‬
‫تو میں بوال جی وہ وہ چاچا‬
‫شیرو صاحب ھیں گھر پر تو‬
‫وہ بولی کہ وہ گھر پر ھی‬
‫‪....‬ھیں‬
‫میں نے کہا ان سے ملنا ھے تو‪ ‬‬
‫انہوں نے کہا وہ سامنے برآمدے‬
‫میں لیٹے ھیں چلے جاؤ انکے‬
‫پاس تو میں چال گیا اندر اور‬
‫جاکر ایک موڑھے پر بیٹھ گیا‬
‫اور سامنے چارپائی پر بیٹھے‬
‫ایک شخص جو انعم کا باپ‬
‫‪ ‬تھا‬
‫ان سے ہاتھ مالتے ھوۓ تھوڑا‬
‫اونچی آواز میں بوال انکل جی‬
‫میں ذیشان ھوں اور پچھلے دو‬
‫ماہ سے آپکے ساتھ والے ڈیرے‬
‫پر آباد ھوا ھوں وہاں کچھ‬
‫زمین خریدی ھے اور آپکے‬
‫ساتھ کچھ دعاسالم کرنے چال‬
‫آیا انعم کا باپ کوئی چالیس‬
‫پینتالیس سال کاتھا اسکو ہل‬
‫چالتے ھوۓ کچھ چوٹیں آئی‬
‫تھیں جسکی وجہ سے وہ ان‬
‫فٹ تھے‬
‫ذیشان کا نام سن کر انعم‬
‫‪‎‬جلدی سے باہر آئی اس نے‬
‫بوال ذیشان تم اور یہاں تو‪..‬‬
‫اسکی ماں بولی انعم تم اسے‬
‫جانتی ھوں بیٹا تو انعم بولی‬
‫ماں یہ ھمارے ساتھ کالج میں‬
‫پڑھتے رھے ھیں تو انعم کی‬
‫ماں بولی یہ بڑی اچھی بات ھے‬
‫تو پھر ان کے لئیے کوئی چاۓ‬
‫وغیرہ کا بندوبست کرو بیٹا تو‬
‫وہ بولی کہ‪  ‬ابھی لیکر آتی‬
‫‪...         ‬ھوں ماں جی‬
‫انعم اندر چلی گئ اور میں‬
‫چاچا شیرو سے باتیں کرنے لگا‬
‫اور سوچنے لگا کہ انعم نے بڑی‬
‫مہارت سے میرے ساتھ کالس‬
‫‪...‬فیلو واال رشتہ جوڑ لیا ھے‬
‫میں بیٹھا ھوا چاچا شیرو سے‬
‫باتیں کر رہا تھا تب انعم کولڈ‬
‫ڈرنک لیکر آ گئ اور میرے‬
‫سامنے والی چارپائی پر بیٹھ‬
‫گئ اور اپنی انگلیاں مروڑتے‬
‫ھوۓ میری طرف دیکھنے لگی‬
‫اور اشارے سے پوچھنے لگی کہ‬
‫آپ کس وجہ سے آۓ ھو اور‬
‫وہ وجہ اب بیان بھی کرو‬
‫کالے رنگ کا سوٹ اور گورے‬
‫گورے‪  ‬پیر جسمیں گولڈن رنگ‬
‫کی پائل بہت خوبصورت لگ‬
‫رھی تھی اور جس کا سراپا‬
‫دیکھ کر مجھے ایک خمار سا‬
‫چڑھ جاتا اور میں اپنے حواس‬
‫کھو دیتا انعم نے کھانستے‬
‫ھوۓ مجھے خیالی دنیا سے‬
‫واپس موڑا تو ہڑبڑا کر بوال جی‬
‫انکل اصل میں میں اس سلسلے‬
‫میں حاضر ھواتھا کہ مجھے‬
‫دودھ چاھئیے تھا آپ لوگ‬
‫ھمیں دودھ دے دیا کرو اور‬
‫جتنا بل بنے گا وہ ھم ھفتہ وار‬
‫‪ ....‬آپکو ادا کر دیا کرینگے‬
‫میری بات سن کر انعم کی مما‬
‫بولیں بیٹا آپ جتنا چاھو دودھ‬
‫لے جایا کرو ہمارا دودھ سارا‬
‫پنڈ شوق سے لیکر جاتا ھے آپ‬
‫پیسوں کی فکرنہ کرنا ماسی‬
‫پیسے تہانوں ہرہفتے مل جان‬
‫گئے ویسے صرف ایک ماہ کی‬
‫تو بات ھے پھر ھم فارم‬
‫بنائینگے بھینسوں کا اور شہر‬
‫میں دودھ کی سپالئی کیا‬
‫کرینگے تو ماسی بولی چنگی‬
‫گل اے بیٹا اپنے کاروبار و چ‬
‫ای برکت اے ھماری بات سن کر‬
‫چاچا شیرو تکیے سے ٹیک لگا‬
‫کر بیٹھ گیا اور بوال بیٹااگر تم‬
‫فارم بنانا چاہتے ھو تو‬
‫بھینسیں نیلی راوی یعنی‬
‫ساہیوال شہر سے لیکر آؤ اور‬
‫پھر دیکھنا کہ جانور کتنے نسل‬
‫دار ھوتے ھیں اور دودھ بھی‬
‫‪ ‬دیتے ھیں‬
‫میں بوال چاچو جی اب اتنی‬
‫دور بھال کون جاۓ گا اور‬
‫کرایۂ بھی بہت پڑ جاۓ گا تو‬
‫چاچا شیرو بوال بیٹا بزنس کرنا‬
‫ھے تو پھر اچھی جگہ پر تو‬
‫پیسہ خر چ کرو بار بار کیا‬
‫فائدہ انعم جو کافی دیر سے‬
‫ہماری باتیں سن رھی تھی وہ‬
‫بولی ذیشان میرے ابو صیح‬
‫کہہ رھے ھیں آپ نسل دار‬
‫جانور رکھو پھر دیکھنا دعائیں‬
‫دو گے میری ابو کو دونوں ماں‬
‫بیٹی ہنسنے لگ گئیں ھم دونوں‬
‫ایک دوسرے کو نظریں چرا‬
‫چرا کر دیکھ رھے تھے اور‬
‫نظروں نے دل کے سارے سرتال‬
‫چھیڑ دئیے تھے دونوں ماں‬
‫بیٹی میرے سامنے والی‬
‫چارپائی پر بیٹھیں تھیں اور‬
‫شاید آپس میں‬
‫کھسرپسرکررھی تھیں کیونکہ‬
‫میرا اور انکا بہت فرق تھا‬
‫جدھر ھم بیٹھے ھوۓ تھے‬
‫میں بوال انکل جی آپ سناؤ‪ ‬‬
‫کیسی طبیعت ھے آج کل اور‬
‫کھیتی باڑی کون کرتا ھے میں‬
‫نے آپ کو کبھی کھیتوں میں‬
‫دیکھا نہیں‪...‬انکل بولے‬
‫یارمیرے جسم میں اب وہ جان‬
‫نہیں رھی اس لئیے میں تو‬
‫زمین بیچ کر اپنی دونوں‬
‫بیٹیوں کی شادی کر دینا چاہتا‬
‫تھا پرمیری بیٹیاں بولیں‬
‫پاپاجانی ھم زمیں نہیں بیچیں‬
‫گے بلکہ اسے آباد کرینگے اب‬
‫میری دونوں بیٹیاں زمین‬
‫سنبھال چکی ھیں انعم اور‬
‫لبنی میرے بیٹے ھیں اور بیٹوں‬
‫کی طر ح ھی گھر بار سنبھال‬
‫رکھا ھے انہوں نے انعم کے گھر‬
‫‪ ‬ایک کلٹس کار کھڑی تھی‬
‫جو انعم اور لبنی کالج جاتے‬
‫وقت استعمال کرتی رھی اور‬
‫میں بوال اب آپ کی انکم بہت‬
‫کم ھوگئ ھوگی بھال بچیوں‬
‫کو کیا پتہ آپ لوگ سبزیاں‬
‫اگاؤ اور آنٹی آپ گھر پر اسے‬
‫سیل کر دیا کرو پھر دیکھنا‬
‫سارا گاؤں شہر کی بجاۓ آپ‬
‫سے سبزی لیا کرے گا اور‬
‫حاالت بھی سدھر جائیں گے‬
‫انعم بولی ھمارا ارادہ تو یہی‬
‫ھے پر ھمارے پاس اپنا ٹریکٹر‬
‫نہیں ھےسبزیاں کاشت کرنی‬
‫ھیں تو پھرے کھیتوں کو بہت‬
‫زیادہ وقت دینا پڑتا ھے اور‬
‫ٹریکٹر ھوناالزمی ھے کھال‬
‫بنانے کے لئیے اور سپرے کرنے‬
‫کے لئیے اور شہر سپالئی کے‬
‫لئیے تو میں بوال قدم بڑھاؤ ھم‬
‫تمہارے ساتھ ھیں وہ بڑ بڑا کر‬
‫بولی کیا مطلب تو میں بوال‬
‫ٹریکٹر آپ ہمارا استعمال کرلیا‬
‫کرو کچھ ہمت تو کرو پھر‬
‫دیکھو جلوہ‬
‫سرہانے کو فولڈ کرکے اپنی گود‬
‫میں لیکر بیٹھی ھوئی انعم‬
‫بولی اچھا آپکا آئیڈیا بہت‬
‫زبردست ھے پھر اس پر کچھ‬
‫دنوں بعد عمل درآمد بھی کرلیا‬
‫جاۓ گا شام کو میں دودھ‬
‫لیکر واپس آ گیا تھا اور مما‬
‫میرا ھی انتظار کررھی تھی‬
‫کیونکہ میرے ماموں نے اپنی‬
‫جان پہچان والی ایک فیملی‬
‫کو کھیتوں میں کام کاج کرنے‬
‫کے لئیے بالیا تھا صرف میری‬
‫پرمیشن درکار تھی یہ بھی‬
‫ایک کرسچن فیملی تھی‬
‫جوبرسوں سے میرے نانا جی‪ ‬‬
‫کیساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ‬
‫بٹاتی تھی اور اسکا انہیں‬
‫معاوضہ ملتا تھا یہ فیملی بہت‬
‫چھوٹی سی تھی انکل سمیر‬
‫کی دو بیٹیاں تھیں جن کا نام‬
‫سحر اور شیال تھا اور ایک بیٹا‬
‫تھا جن کا نام سلمون تھا جو‬
‫میری ھی عمر کا تھا پر بے‬
‫چارہ گونگا تھا اور کام کرنے‬
‫کی مہارت رکھتا تھا مطلب‬
‫دودھ نکالنا کھیتوں میں ہل‬
‫چالنا اور فصلوں کی کٹائی تک‬
‫کا مرحلہ یہ ساری فیملی بڑی‬
‫آسانی کیساتھ طے کرلیتی‬
‫انکل سمیر کالے رنگ کا مالک‬
‫تھا عمر چھتیس سال اور انکی‬
‫وائف مریم بھی انکی ھم عمر‬
‫تھیں وہ تیز نین نقش والی‬
‫گورے رنگ کی مالک تھی‬
‫اپنی ماں کی طر ح شیال اور‬
‫سحر گوری چٹی تھیں شیال‬
‫کی عمربائیس سال تھی اور‬
‫سحر ابھی اٹھارہ سال کی‬
‫تھی شیال کی شادی پچھلے‬
‫سال اسکے مامو ں زاد سے‬
‫ھوئی تھی اور اس وقت ان‬
‫میں ناراضگی چل رھی تھی وہ‬
‫اپنے شوہر سے ناراض ھو کر‬
‫اپنے میکے میں بیٹھی تھی‬
‫جس کا چاچا سمیر کو اور‬
‫خود میرے ابو کو بہت دکھ‬
‫تھا ابو چاھتے تھے کہ کسی طر‬
‫ح انکی صلح ھو جاۓ اور‬
‫شوخ چینچل شیال کا شوہر‬
‫فرحان اسے اپنے گھر واپس‬
‫چلی جاۓ ابو کے اس خاندان‬
‫سے بہت پرانے مراسم تھے اور‬
‫اب بھی قائم و دائم ھیں‬
‫ابو نے سب کو کھانے کی میز‬
‫پر بالیا اور گھر کے سارے ممبر‬
‫ڈائننگ ٹیبل پر میرا انتظار‬
‫کررھے تھے جبکہ شاہد میرا‬
‫دوست میرا انتطار کر رہا تھا‬
‫باہر کہتا ذیشان تمہیں ایک‬
‫نیوز دینی ھے میں نے اسے‬
‫میسج کیا کہ ابھی ڈنر کرنے‬
‫چال ھوں بعد میں تم سے بات‬
‫کرتا ھوں‬
‫ھم کھانے کی میز پر سب ڈنر‬
‫کررھے تھے امی جان اور‬
‫ابوجان میرے سامنے بیٹھے‬
‫تھے اور سمیرانکل اور انکے‬
‫سامنے شیال اور سحر اپنے‬
‫بھائی سلمون کیساتھ بیٹھ کر‬
‫کھانا کھارھے تھے میری امی‬
‫بولی دیکھو ذیشان مجھے‬
‫شوگر کی وجہ سے اب بہت‬
‫کمزوری محسوس ھوتی ھے‬
‫لہذا تمہارے ابو اور میں نے‬
‫فیصلہ کیا ھے کہ گھر کا سب‬
‫کھانا اور کچن ہماری‪  ‬بیٹی‬
‫‪....‬شیال ھی سنبھالے گی‬
‫اگر آپکو کوئی اعتراض ھے یا‪ ‬‬
‫کسی کو بھی اعتراض ھے تو‬
‫وہ بتا سکتا ھے آج سے ان کا‬
‫سب خرچہ ہمارے ذمے ھے اور‬
‫جب تک ڈیرے پر فارم اور‬
‫رومز آباد نہیں ھو جاتے تب تک‬
‫یہ لوگ اوپر والی منزل پر ھی‬
‫رھیں گے انکی رہائش کا کوئی‬
‫بڑا مسئلہ نہیں تھا ویسے‪  ‬تو‬
‫نیچے بھی بہت کمرے خالی‬
‫تھے پر بزرگوں کے فیصلے‪ ‬‬
‫صیح اور کچھ سو چ سمجھ‬
‫کر ھی کئیے جاتے ھیں‪  ‬ھم سب‬
‫کھانا کھا کر اپنے اپنے روم میں‬
‫چلے گئے اور بڑے آپس میں‬
‫‪.....‬باتیں کرنے لگے‬
‫ھم رات کو باہر گھومنے جاتے‬
‫تھے جس کا ایک مقصد تھا کہ‬
‫کھایا پیا ہضم ھو جاۓ اس‬
‫رات جب میں نکال واک کرنے تو‬
‫سحر اور شیال بولی ذیشان ھم‬
‫بھی آپکے ساتھ جائیں‬
‫‪.......‎‎    ‎‬گے‬
‫ھم جب باہر کو گھومنے گئے‬
‫تب گاؤں میں اندھیرا چھا چکا‬
‫تھا اور ھم شہر کو جانے والی‬
‫سڑک پر پیدل چلنے لگے اور‬
‫اس سڑک کے دونوں طرف ھی‬
‫مالٹوں کے باغات تھے اسی‬
‫وجہ سے اندھیرا کچھ زیادہ‬
‫محسوس ھورہا تھا ھم سب‬
‫گاؤں کی محل وقوع اور طرز‬
‫زندگی پر‪  ‬باتیں کر رھے تھے‬
‫اور آ گے بڑھتے ھوۓ جارھے‬
‫تھے‬
‫سحر اور سلمون اکٹھے چلے‪ ‬‬
‫آرھے تھے جبکہ شیال میرے‬
‫ساتھ ساتھ چل رھی تھی سب‬
‫اپنے اپنے موضوع پر بات کر‬
‫رھے تھے تب شیال میرے کان‬
‫میں سرگوشی کرنے کے‬
‫اندازمیں بولی کہ ذیشان‬
‫تمہاری کوئی گرل فرینڈ ھے تو‬
‫میں بوال کہ اس بے چارے کو‬
‫کون لفٹ کرواتا ھے میری‬
‫کوئی گرل فرینڈ نہیں ھے تم‬
‫سناؤ تمہارا کوئی بواۓ فرینڈ‬
‫ھے تو وہ بولی جناب ادھر بھی‬
‫یہی حال ھے‬
‫میں بوال میں سمجھا جناب‪ ‬‬
‫میں سمجھا نہیں تو وہ میرے‬
‫ہاتھ کو پکڑتے ھوۓ بولی تم‬
‫بھی بدھو ھو پاگل میرا مطلب‬
‫ھے ادھر بھی سیٹ خالی ھی‬
‫ھے تو میں بوال تو پھر کوئی‬
‫چن لو اپنا بواۓ فرینڈ بلکہ‬
‫اپنے شوہر کو مناؤ اور یہی‬
‫‪ ‬بہتر ھے‬
‫میرا کان کھینچ کر بولی اس‬
‫نکمے نال تے میں کدی وی نہ‬
‫جاواں میں نے کہا ایسی بھی‬
‫کیا بات ھے جو تم اس سے‬
‫نفرت کرتی ھو تو وہ بولی بہت‬
‫چاہ اور مان کیساتھ اپنے‬
‫ارمانوں کا سہرا باندھا تھا‬
‫میں نے اسکے سر پر مگر اسے‬
‫میری ذرا بھی پرواہ نہیں ھے‬
‫اور وہ اپنی ماں کیساتھ بس‬
‫اسی کا کہنا مانتا ھے میں اس‬
‫کے لئیے سجتی سنورتی ھوں‬
‫بھال اسے کیا پرواہ اسکی تو‬
‫سحر بولی ساال الٹا ھماری‬
‫‪..‬کمیٹی بھی کھا گیا‬
‫ننگا فقیر میں نے کہا شرم کرو‪ ‬‬
‫سحر وہ تو تمہارا جیجا جی‬
‫ھے تم اسکے لیئے اچھے الفاظ‬
‫کا چناؤ نہیں کر رھی سحر‬
‫بولی ذیشان تم دیکھنا جس‬
‫دن تمہارے ساتھ اسکی‬
‫مالقات ھوگی نہ اس دن وہ‬
‫ننگ فقیر جھوٹوں کے پل‬
‫باندھ دے گا ھوسکتا ھے آپکو‬
‫بھی چونا لگا جاۓ تو میں بوال‬
‫کہ میں جس کالج میں پڑھا‬
‫ھوں وہاں کے سسٹم اور تعلیم‬
‫نے مجھے بہت کچھ سکھایا‬
‫ھے میں نوسربازوں کو جلد‬
‫جان جاتا ھوں سحر بولی کہ‬
‫پڑھے لکھے تو ھم بھی مگر‬
‫ھمیں وہ چکردے گیا‬
‫میں بولو چلو بہت دور آ گئے‬
‫ھیں ھم اور اب واپس چلتے‬
‫ھیں تو شیال بولی کہ شاید تم‬
‫تھک گئے ھو اس لئیے تو میں‬
‫بوال جی آپ سہی فرما رھی‬
‫ھومیں بہت تھک گیا ھوں شیال‬
‫بولی اس عمربھی تھکان ھو‬
‫جاتی ھے تمہیں تو میں بوال‬
‫ابھی نیا نیا کاروبار ھے اس‬
‫لئیے بہت‪  ‬بھاگ دوڑ کرنی پڑتی‬
‫ھے تو شیال بولی کوئی بات‬
‫نہیں آنٹی کو بولنا آپکا‬
‫سرسوں کے تیل کیساتھ مساج‬
‫کرے تم جلد بہت اچھا‬
‫محسوس کرو گے میں بوال کہ‬
‫مجھے شرم آتی ھے اور مما‬
‫جان بہت کمزور ھوگئ ھیں اور‬
‫‪....‬اب وہ میرا حق ھے کہ‬
‫میں انکی دیکھ بھال کرنی ھے‪ ‬‬
‫تم اب اسکا خیال رکھا کرو تم‬
‫شیال بولی میں حاضر ھوں آپ‬
‫کی ماں کی دیکھ بھال‬
‫کرونگی اور ساتھ میں تمہاری‬
‫بھی کردیا کرونگی میں بوال کہ‬
‫آپ میرا کیا کروگی تو وہ بولی‬
‫وہ سب کچھ جو ایک گرل‬
‫فرینڈ اپنے بواۓ فریند کے لئیے‬
‫کرتی ھے تو میں بوال یار میں‬
‫گرل فرینڈ کے نخرے نہیں‬
‫اٹھاسکتا انہی چکروں میں پڑ‬
‫گیا تو پھر میں تو گیا کام سے‬
‫تو شیال بولی نخرے نہیں‬
‫اٹھاسکتے پر ٹانگیں تو اٹھا‬
‫سکتے ھونہ میں بوال اگرکسی‬
‫نے دیکھ لیا تو پھر بہت‬
‫بدنامی ھوجاۓ گی‪...  ‬‏‬
‫ہم واپس آ گئے اور راستے میں‬
‫نے شاپ سے مونگ پھلی لی‬
‫اور مل بانٹ کر کھانے لگے‬
‫اورگھر واپس پہنچ گئے واپس‬
‫آۓ تو امی نے بوال ذیشان آپکے‬
‫پاپا پوچھ رھے تھے کہ دودھ‬
‫کدھر سے الۓ آج دودھ اچھا‬
‫تھا تو میں بوال کہ ہمارے‬
‫پڑوس میں چاچا شیرو کے گھر‬
‫سے جس کا ڈیرہ بھی ھمارے‬
‫ڈیرے کیساتھ ہی ھے تو ماں‬
‫بولی کہ صبح جاکر ان کو‬
‫ایڈوانس دے آؤ اورانکو بوال‬
‫کہ ھمارے لئیے رکھ لیا کریں‬
‫میں بوال ماں جی آپ بے فکر‬
‫رھیں سارا کام ھوگیا ھے آپ‬
‫بس گرما گرم ایک گالس دودھ‬
‫دے دیں تو میری ماں کچن‬
‫میں چلی گئ‪  ‬میں ٹی وی‬
‫الؤنج میں بیٹھ گیا اور پھر‬
‫مما دودھ لیکر حاضر ھوئیں تو‬
‫بولیں بیٹا ذیشان ایک بات‬
‫میری سن لویہ لڑکیاں ہماری‬
‫مہمان ھیں تم ان سے کوئی‬
‫‪..‬بھی غیراخالقی بات مت کرنا‬
‫میں بوال مما آپ بس بے فکر‬
‫رھیں میں پوری کوشش کروں‬
‫کہ آپکو شکایت کا موقع ھی نہ‬
‫دوں گا تو مما بولی مجھے‬
‫یقین ھے تم میری امیدوں پر‬
‫پورا اتروگےمیں اپنے روم میں‬
‫چال گیا اور جاکر‪  ‬لیپ ٹاپ آن‬
‫کرکے ایک سائٹس پر چال گیا‬
‫اور ایک ناول پڑھنے لگا‬
‫نوابزادہ کا تھا جس کا ٹائٹل‬
‫نام پوری رات کا ملن تھا اور‬
‫انسیسٹ تھا میں ڈور الک کرنا‬
‫بھول گیا تب میرے روم میں‬
‫سحر اور شیال آ گئیں اور بیڈ‬
‫پر بیٹھ گئیں مجھے ایک دم‬
‫شاک لگا میں نے فائل کو منی‬
‫مائز کر دیا اور بوال جی آپ‬
‫دونوں خیریت سے حاضر ھوئی‬
‫ھیں تو شیال ھنسنے لگیں اور‬
‫بولیں کہ ھم دونوں آپکا روم‬
‫دیکھنے آئی ھیں اور‪  ‬اگر آپکو‬
‫اعتراض ھو تو ھم واپس چلی‬
‫جاتی ھیں تو میں نے شیال کا‬
‫ہاتھ پکڑلیا اور بوال بیٹھ جاؤ‬
‫تم لوگ بوال کیا خدمت کرسکتا‬
‫ھوں میں تم دونوں کی تو‬
‫سحر بولی ھمیں ابھی نیند‬
‫‪....‬نہیں آرھی ھے‬
‫اسی لیئے آپ کے لڈو کھیلنے آ‪ ‬‬
‫گئیں میں بوال یار تم لوگ لڈو‬
‫آپس میں کھیل لو مجھے بہت‬
‫نیند آرھی ھے تو شیال بولی‬
‫ایک دو راؤنڈ لگا لو پھر سو‬
‫جائیں میں دل میں سوچنے لگا‬
‫سالی کی چوت بہت گرم ھے‬
‫دو راؤنڈ سے کب شانت ھوگی‬
‫وہ لڈو لیکر بیڈپر چڑھ کر بیٹھ‬
‫گئ اور بولی چلیں لٹ سٹارٹ‬
‫میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور ھم‬
‫لڈو کھیلنے لگے شیال کو لگا تار‬
‫تین بار چھے آ گیا تھا‬
‫اس لئیے وہ اپنی دو گھوٹیاں‪ ‬‬
‫لیکر بڑھنے لگی میرے سامنے‬
‫سحر بیٹھی تھی اور دوسری‬
‫طرف شیال تھی شیال سے‬
‫محسوس ھورہا تھا کہ وہ لڈو‬
‫سٹار ھے خیر شاہد کیساتھ‬
‫میں کھیلتارہا ھوں تجربہ میرا‬
‫بھی بہت تھا پھر سحر نے‬
‫شیال کی گوٹی مار دی اور وہ‬
‫دونوں ایک دوسرے پر بہت‬
‫غصہ ھوگئیں تب میں نے‬
‫سحرکی گوٹی مار دی تو شیال‬
‫بہت خوش ھوئی اور بولی‬
‫تمہاری تو ذیشان نے ماری دی‬
‫سحر رونے جیسا منہ بناتے‬
‫ھوۓ بولی آہ شانی بھائی تم‬
‫نے میری کیوں ماری تم شیال‬
‫کی مار دیتے میں بوال اف یار‬
‫میں نے کب ماری ھے تمہاری تو‬
‫وہ بولی ابھی تو ماری ھے میں‬
‫بوال چپ کرو یار ورنہ امی سن‬
‫کر سوچے گی کہ نجانے‬
‫‪‎ ‬کیاماردی ھے‪ ‬‏‬
‫شیال بولی سحر تم بہت‪ ‎‬‬
‫پرجوش ھوجاتی ھو کھیلتے‬
‫وقت اتنا سیرس مت ھوا کرو‬
‫میری جان یہ صرف ایک‬
‫انٹرٹینمنٹ ھے کونسا یہ جوا‬
‫ھے جو تم نے لگایا ھے اور تم‬
‫ہار جاؤگی سحر نے اب لگاتار‬
‫دو بار چھے لے لیا تھا اور وہ‬
‫پھر سے شیال کے سرپر جا‬
‫پہنچی تھی اسے شیال کی سب‬
‫سے تیز رفتار کی گوٹی مارنے‬
‫کا موقع ملنے واال تھا مگر ان‬
‫دونوں کی گولڈن گوٹیوں کے‬
‫پیچھے میں تھا اسکو شیال کی‬
‫مارنے کے لئیے دو چاھئیے تھے‬
‫جو اس نے حاصل کرلئیے اور‬
‫اس نے شیال کی گوٹی‪  ‬مار کر‬
‫اپنے دونوں بازو فضا میں بلند‬
‫کردئیے اور بولی دیکھا میں نے‬
‫ایک بار پھر شیال کی ماردی‬
‫‪        ‬ھے‬
‫ابھی سحرکا جشن پورا نہیں‪ ‬‬
‫ھوا تھا کہ میں نے پانچ رنز‬
‫حاصل کرکے دوسری بار سحر‬
‫کی مڈل گوٹی مار دی اور وہ‬
‫منہ بسورتے ھوۓ بولی اف‬
‫ذیشان اب تم نے دوسری بار‬
‫میری مار دی ھے تو شیال بولی‬
‫سالی تم تو سیل پیک ھو‬
‫تمہاری دو بار کیسے مار دی‬
‫اس نے جس دن اصل میں‬
‫مارے گا اس دن تجھے پتہ چلے‬
‫‪         ‬گا‬
‫اب جب بھی شیال یا‪ ‬‬
‫سحرمجھے بولتی کے تم نے‬
‫میری ماردی تو میرا دھیان‬
‫انکی چوت کی طرف چال جاتا‬
‫اور میں بہت گرم ھوجاتا میں‬
‫ایک گیم لگا کر سوگیا اور وہ‬
‫دونوں بہنیں لگی رھیں۔‬
‫اب کنڈیشن یہ تھی کہ ایک‬
‫سائڈ پر سلمون کی چارپائی‬
‫تھی اسکے بعد میری اور میرے‬
‫ساتھ والی چارپائی پر سکسی‪ ‬‬
‫شہال اور‪.‬سحر کی چارپائی‬
‫تھی‪  ‬ہم لوگ کچھ دیر باتیں‬
‫کرتے رہے اور اسی دوران میں‬
‫نے دیکھا کہ شہال اور سحر سو‬
‫گئی ہیں اور سحر کو بھی نیند‬
‫محسوس ہو رہی تھی اس لیے‬
‫میں نے کہا‪  ‬یار باقی باتیں‬
‫صبح کریں گے ابھی تو مجھے‬
‫بھی نیند آ رہی ہے‪.‬سحرشیال نے‬
‫کہا ہاں یار مجھے بھی نیند‬
‫محسوس ہو رہی ہے‪  ‬ٹھیک ہے‬
‫صبح بات کریں گے‪  ‬اور وہ‬
‫دوسری طرف منہ‪  ‬کر کے لیٹ‬
‫گیاابھی پانچ منٹ ہی گزرے‬
‫ہوں گے ۔‬
‫مجھے ایسے لگا جیسے شہال‪ ‬‬
‫کی چارپائی ہلی ہے میں نے‬
‫آنکھیں کھول کر دیکھا تو‪ ‬‬
‫سکسی شیال اٹھ کر الئٹ کا‬
‫سوئچ آف کر نے جا رہی تھی‬
‫اور اس نے الئٹ آف کر دی جب‬
‫وہ اندھیرے میں واپس اپنی‬
‫چارپائی پر آئی تو میں نے کہا‬
‫شہال الئٹ کیوں آف کری اس‬
‫نے کہا بھائی ‪.‬ذیشان مجھے‬
‫روشنی میں نیند نہیں آتی اس‬
‫لیے میں نے الئٹ بند کر دی‬
‫ہےمیں نے کہا چلو ٹھیک ہےاور‬
‫میں بھی آنکھیں بند کر کے‬
‫سونے کی کوشش کرنے لگاا‬
‫بھی کچھ دیر ہی گزری تھی‬
‫کہ مجھے اپنے جسم پر کسی‬
‫کا ہاتھ محسوس ہوا جو کہ‬
‫دھیرے دھیرے میری پنڈلی پر‬
‫سے پھسلتا ہوا میرے لوڑے کی‬
‫طرف جا رہا تھا۔مجھے اب‬
‫اکٹھے سونے کی اور الئٹ بند‬
‫کرنے کی وجہ کا معلوم‪  ‬ھو گیا‬
‫تھا کہ کس وجہ سے اس نے‬
‫الئٹس بند کیں ھیں۔۔‬
‫میں نے اندھیرے میں اس ہاتھ‬
‫پر ہاتھ رکھا تو پتا چال کہ وہ‪ ‬‬
‫‪ ‬شہال کا ہاتھ ہے اس نے میرا‬
‫ہاتھ دبا کر مجھے خاموش‬
‫رہنے کا اشارہ دیامیں حیران‬
‫تھا کہ یہ لڑکی کیا کر رہی‬
‫ہےشہال کا ہاتھ پھسلتا ہوا‬
‫میرے لوڑے تک پہنچ گیا اس‬
‫نے بہت پیار سے میرے اکڑتے‬
‫ہوئے لوڑے کو اپنے ہاتھ میں لیا‬
‫اور اس کی ٹوپی کو سہالنے‬
‫لگیتا قریبًا پندرہ‪  ‬منٹ تک وہ‬
‫سکسی میرے لوڑے سے‬
‫کھیلتی رہی جس کی وجہ سے‬
‫میرا لوڑا تن کر کھڑا ہو گیا‬
‫اسی دوران میں‪  ‬نے بھی اپنا‬
‫ایک ہاتھ‪  ‬آگے بڑھایا اور پہلے‬
‫دھیرے دھیرے شہال کے پیٹ‬
‫پر پھیرا اور پھر اس کے بعد‬
‫اس کی چھاتی تک پہنچ گیا ۔‬
‫شیال نے اپنے چھتیس سائز کے‬
‫مموں کی حفاظت کے لیے فوم‬
‫والی برا پہنی ہوئی تھی یہ‬
‫پہال موقع تھا کہ میرے ہاتھ‬
‫کسی کی برا کو چھو رہے تھے‬
‫میں نے بھی برا کے اوپر سے‬
‫ہی‪  ‬سکسی شہال‪  ‬کے نرم اور‬
‫گرم مموں کو دبانا شروع کر‬
‫دیالوڑے سے کھیلتے اور مموں‬
‫کو سہالتے ہوئے تقریبًا آدھا‬
‫گھنٹہ گزر چکا تھا اچانک میں‬
‫نے محسوس کیا کہ سکسی‬
‫شہال اپنی چارپائی سے اٹھ‬
‫رہی ہےاور دوسرے ہی لمحے وہ‬
‫دھیرے سے میرے برابر میں آ‬
‫کر لیٹ گئی اور آتے ہی اس نے‬
‫میرے چہرے پر اپنے ہونٹوں‬
‫سے بوسوں کی بوچھاڑکر دی ۔‬
‫یک تو اس کا نرم اور گرم‬
‫جوانی سے بھر پور جسم‬
‫میرے جسم کے ساتھ جڑا ہوا‬
‫تھا جو میرے جذبات میں آگ‬
‫لگا رہا تھا اور دوسری جانب‬
‫اس کے رسیلے اور گداز ہونٹ‬
‫میرے گالوں اور ہونٹوں کو‬
‫چوم رہے تھےمیں نے شہال کے‬
‫کان کے بالکل قریب جا کر کہا‬
‫کہ ‪.‬شیالکہیں سلمون اور‬
‫‪.‬سحر جاگ نہ رہے ہوں شہال نے‬
‫بھی اسی طرح دھیرے سے‬
‫میرے کان میں جواب دیا کہ‬
‫نہیں‪..‬ذیشان کوئی بات نہیں‬
‫سلمون تو کافی گہری نیند‬
‫سوتا ہے اس کو تو اب تک‬
‫ہوش بھی نہیں ہو گاتم بے فکر‬
‫ہو جاؤ‬
‫میں نے کہا شہال کیا یہ سب ‪ ‬‬
‫ٹھیک رہے گا جو ہم کر رہے ہیں‪ ‬‬
‫شہال نے کہا ذیشان میں تم سے‬
‫بہت پیار کرتی ہوں تم مجھے‬
‫بہت اچھے لگتے ہو میں کب‬
‫سے تمہیں اسطرح پیار کرنے‬
‫اور تم سے پیار کروانے کیلئے‬
‫بیتاب تھی آج سب کچھ بھول‬
‫جاؤ اور بس مجھے پیار کرو‬
‫ایسے جیسے کوئی اپنی بیوی‬
‫کو کرتا ہے شہال نے یہ بات کہہ‬
‫تو دی مگر مجھے ڈر لگ رہا تھا‬
‫کہ اگر ‪.‬سلمون جاگ گیا اور‬
‫اس کو یہ سب پتا چل گیا تو‬
‫کیا ہو گا۔‬
‫جب میں نے‪  ‬شہال سے یہ بات ‪ ‬‬
‫کہی تو اس کے کہا چلو پھر‬
‫چپ کر کے چھت پر چلتے ہیں‬
‫اور اس بات سے بے فکر ہو جاؤ‬
‫کہ گھر میں سے کوئی اٹھ‬
‫جائےگا اور ہم پکڑے جائیں گے‪ ‬‬
‫یہ کہہ کر شہال میرے پاس سے‬
‫اٹھی اور اندھیرے میں غائب‬
‫ہو گئی تھوڑی دیر بعد میں نے‬
‫محسوس کیا کہ کمرے کا‬
‫دروازہ کھال اور شہال مجھے‬
‫پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کر‬
‫کے دروازے سے ہٹ گئی ۔‬
‫میں سمجھ گیا کہ ‪.‬شیال چھت‬
‫پر گئی ہے‪  ‬میں بھی ہمت کر‬
‫کے اٹھا اور شہال کے پیچھے‬
‫پیچھے چھت پر چال گیا‪  ‬چھت‬
‫پر ایک سٹور روم بنا ہوا تھا‬
‫چاند کی ہلکی ہلکی روشنی‬
‫میں میں نے دیکھا کہ شہال‬
‫سٹور روم کے دروازے پر کھڑی‬
‫ہوئی تھی اور اس نے اپنی‬
‫قمیض اتاری ہوئی تھی اب وہ‬
‫صرف شلوار اور بریزیر پہنے‬
‫ہوئے تھی چاند کی رومانوی‬
‫روشنی میں شہال کا روپ بہت‬
‫بھال لگ رہا تھا چاند کی ہلکی‬
‫ہلکی چاندنی میں اس کا گورا‬
‫جسم میرے اندر آگ سی لگا رہا‬
‫تھا جیسے ہی میں شہال کے‬
‫قریب پہنچا اس‪  ‬نے مجھے زور‬
‫سے اپنی طرف کھینچا ۔ٹیچر‬
‫شگفتہ گاؤں‪  ‬کی دیسی گرل‬
‫فرینڈ نادیہ کے بعد میرا یہ‬
‫تیسرا شکار تھا‬
‫شہال اب مجھے بانہوں میں لے‬
‫کر میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ‬
‫جوڑ لیے وہ کب کی ترسی‬
‫ھوئی تھی شہوانی‪ ،‬شہوت‬
‫انگیز باتوں سے‪  ‬شہال بہت‬
‫زیادہ گرم ہو رہی تھی وہ‬
‫کھڑے کھڑے ہی اپنے جسم کو‬
‫اسطرح حرکت دے رہی تھی‬
‫کہ میرا کھڑا ہوا لوڑا بار بار‬
‫اس کی چوت کے ساتھ رگڑ‬
‫کھا رہا تھا میں نے ایک ہاتھ‬
‫میں اس کا مما پکڑا ہوا تھا‬
‫جس کو میں دھیرے دھیرے‬
‫دبا اور مسل رہا تھا اور‬
‫دوسرے ہاتھ سے اس کی گول‬
‫اور نرم گانڈ سے کھیل رہا تھا‬
‫اور اس نے دونوں ہاتھوں سے‬
‫میرا چہرا تھاما ہوا تھا اور ہم‬
‫دونوں ایک دوسرے کے ہونٹ‬
‫اور زبان چوس رہے تھے۔‬
‫میں نے شہال کے‪  ‬مست سکسی‪ ‬‬
‫ممے پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور‬
‫دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ شہال‬
‫کی شلوار میں ڈال دیا‪  ‬جہاں‬
‫میرا استقبال چوت پر اگے ہوئے‬
‫بالوں کی رگڑ نے کیا‪   ‬میں نے‬
‫شہال سے کہا یار تم چوت کے‬
‫بال صاف نہیں کرتی ہو کیاتو‬
‫شہال نے کہا میری جان اگر‬
‫مجھے معلوم ہوتا‪  ‬تو میں اپنی‬
‫چوت کو‪  ‬ویٹ کریم سے مکھن‬
‫کی طرح مالئم کر لیتی مگر تم‬
‫اچانک ہی آئے ھمارے حصے ائے‬
‫ہوبالوں کے اوپر سے گزر کر‬
‫جب میری انگلیاں شہال کی‬
‫چوت کے دانے تک پہنچی تو‬
‫میں نے محسوس کیا کہ شہال‬
‫کو چوت مکمل طور پر گیلی ہو‬
‫رہی تھی۔‬
‫جب میں نے اس کی چوت کے‪ ‬‬
‫دانے کو چھوا تو شہال کا‪ ‬‬
‫سکسی چکنا جسم ایک دم سے‬
‫کانپ سا گیاشہال نشیلی سی‬
‫آواز میں سسکاری بھر کی‬
‫بولی شانی تمھاری انگلیوں‬
‫میں جادو ہے میری چوت جلنے‬
‫لگی ہےپلیز کچھ کرو مجھے‬
‫اور مت تڑپاؤ‪   ‬پھر ہم سٹور‬
‫روم کے دروازے سے ہٹ کر‬
‫سٹور روم میں داخل ہو‬
‫گئےجہاں پر ایک پرانا صوفہ‬
‫پڑا ہوا تھا‪   ‬شہال صوفے کے‬
‫پاس جا کر کھڑی ہو گئی اور‬
‫مجھے دروازہ بند کرنے کا‬
‫اشارہ کیا‪  ‬۔‬
‫میں نے دروازہ بند کر کے اس‬
‫کے آگے ایک کرسی رکھ دی‬
‫کیوں کہ دروازے کو اندر سے‬
‫بند کرنے کا کوئی سسٹم نہیں‬
‫تھا اندر زیرو واٹ کا بلب جل‬
‫رہا تھا جس کی وجہ سے سٹور‬
‫میں اچھی خاصی روشنی ہو‬
‫رہی تھی‪  ‬شہال نے اپنی شلوار‬
‫بھی اتار کر صوفے پر رکھ دی‬
‫اور اپنی ٹانگیں کھول کر‬
‫صوفے پر اسطرح بیٹھ گئی کہ‬
‫اس کی چوت پوری کھل کر‬
‫میرے سامنے آ گئی میں بھی‬
‫قریب آ کر اس کی چوت کے‬
‫سامنے پیروں کے بل بیٹھ گیا ۔‬
‫شہال کی چوت باہر سے گوری‪ ‬‬
‫تھی اور اس کی چوت کا دانہ‪ ‬‬
‫چمکدار تھا جب کہ اندر سے‬
‫چوت کا رنگ گالبی تھامیں نے‬
‫پہلے دھیرے دھیرے‪  ‬شہال کو‬
‫چوت کو ہاتھ سے سہالیا اور‬
‫اسکے بعد دو انگلیوں سے اس‬
‫کی چوت کو کھول کر اندر کے‬
‫گالبی حصے پر زبان سے مساج‬
‫شروع کر دیا میں نے کہا شہال‬
‫تمہاری چوت کی خوشبو بہت‬
‫اچھی ہے اور یہ گرم کتنی ہو‬
‫رہی ہے شہال نے ہنستے ہوئے کہا‬
‫اس کی سب خوبصورتی صرف‬
‫تمہارے لیے ہے میری جان‪  ‬کھا‬
‫جاؤ‪  ‬میری پھدی کو اور مٹا دو‬
‫میری گرمی کو۔‬
‫یہ گرم اسلیے ہو رہی ہے تاکہ‬
‫اس کی گرمی سے تم بھی گرم‬
‫ہوجاؤ اور میری پھدی کو کھا‬
‫جاؤ شہال کے منہ‪  ‬سے اسطرح‬
‫کے گندے گندےلفظ سن کر‬
‫مجھے بہت مزا آرہا تھا میں‬
‫دیوانوں کی طرح شہال کی‪ ‬‬
‫چوت کو چاٹتا رہا دو بار شہال‬
‫کی چوت نے چکنا چکنا سا‬
‫‪ ‬پانی چھوڑا‬
‫جو سب کا سب میں نے چاٹ‬
‫لیا‪  ‬شہال نے اپنا بریزیر بھی‬
‫اتار کر پھینک دیا تھا اور وہ‬
‫سسکاریاں بھرتے ہوئے اپنے‬
‫ممے دبا اور سہال رہی تھی اور‬
‫میں دیوانوں کی طرح اس کی‪ ‬‬
‫سکسی جوان پھدی کی بھول‬
‫بھلیوں میں گھوم رہا تھا۔‬
‫تھوڑی دیر بعد شہال نے کہا‬
‫چلو کچھ اور ٹرائی کرتے ہیں‬
‫میں نے کہا ٹھیک ہے میں بتاتا‬
‫ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے‪ ‬‬
‫میں نے اسے صوفے پر لیٹنے کو‬
‫کہا اور جلدی جلدی اپنے سارے‬
‫کپڑے اتار کر خود اس کےاوپر‬
‫میں لیٹ گیا کہ میرا لوڑا بالکل‬
‫شہال کے ہونٹوں کے قریب تھا‬
‫اور اس کی چوت میرے منہ‪ ‬‬
‫کے پاس بس پھر کیا تھا میں‬
‫پھر سے بھوکوں کسی طرح‬
‫شہال کی چوت کےساتھ چپک‬
‫گیا اور اسکی چوت کے اندر‬
‫زبان ڈال کر اس کی چوت کو‬
‫زبان سے چودنے لگا۔‬
‫شہال نے میرا لوڑا دیکھا تو‬
‫کہنے لگی شانی یہ تو بہت موٹا‬
‫ہو گیا ہے‪  ‬اور کٹا ھوا ھے ٹوپی‬
‫بہت چمکدار ھے واہ امممم اس‬
‫کی گرم گرم سانسیں مجھے‬
‫اپنے لوڑے پر محسوس ہو رہی‬
‫تھیں اس نے پہلے میرے لوڑے‬
‫کی ٹوپی کو ہلکا سا چوما اور‬
‫پھر ایک ہاتھ سے لوڑا اور ایک‬
‫ہاتھ سے میرے بڑے بڑے ٹٹے‬
‫پکڑ کر دھیرے سے لوڑے کی‬
‫ٹوپی کو پورا منہ میں لے لیا‪ ‬‬
‫لوڑے کو اس کی زبان کی‬
‫گرمی بہت مزا دے رہی تھی وہ‬
‫بولی ساڈے نال رھو گے‪  ‬تاں‬
‫عیش کروگے۔‬
‫اس نے بہت پیار سے میرے ‪ ‬‬
‫لوڑے کو چوسنا شروع کر دیا‬
‫شاید سکسی شہال کو بہت مزا‬
‫آ رہا تھا کیونکہ وہ لوڑا‬
‫چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنی‬
‫چوت کو دھیرے دھیرے ہال‬
‫بھی رہی تھی پندرہ منٹ تک‬
‫میں اس کی چوت چاٹتا رہا‬
‫اور وہ میرا لوڑا چوستی رہی‬
‫اس کی چوت سے بار بار چکنا‬
‫چکنا پانی نکل رہا تھا جسے‬
‫چاٹنا مجھے بہت اچھا لگ رہا‬
‫تھا اور میرے لوڑے میں سے‬
‫بھی چکنا چکنا نمکین سا پانی‬
‫نکل رہا تھا جو سارے کا ساری‬
‫شہال پئے جا رہی تھی‬
‫میں نے شہال کو اس انداز میں‬
‫لٹا لیا کہ میں اس کی چوت‬
‫میں اپنا لوڑا داخل کر سکوں‪ ‬‬
‫شہال نے کہا شانی کیا تم‬
‫مجھے چودو گے یا صرف‪ ‬‬
‫سیکس ھی کروگےمیں نے کہا‬
‫ہاں شہال اب میں خود کو‬
‫تمہیں چودنے سے نہیں روک‬
‫سکتاپلیز مجھے کہو ناں کہ‬
‫میں تمہیں چودوں شہال نے کہا‬
‫ہاں میری جان میں تو خود‬
‫چاہتی ہوں کہ تم اپنے اس تنے‬
‫ہوئے لوڑے سے میری پھدی‬
‫مارو میں نے لوڑے کی ٹوپی کو‬
‫شہال کی چوت پر رگڑ کر تھوڑا‬
‫س‪  ‬کوچکنا کیا ۔‬
‫اور اس کو چوت کے منہ پر‬
‫رکھ دیا شہال کی پھدی میرے‬
‫لوڑے کی ٹوپی کے نیچے پوری‬
‫چھپ گئی‪  ‬شہال نے مستی میں‬
‫آ کر آنکھیں بند کر لیں اور‬
‫دونوں ہاتھوں سے اپنے چھوٹے‬
‫چھوٹے اور سخت مموں کو‬
‫دبانا شروع کر دیا اور اس نے‬
‫مستی بھری آواز میں سسکاری‬
‫بھرتے ہوئے‬
‫مجھے کہا شانی ڈالو نا میری‪ ‬‬
‫گرم پھدی میں اپنا‪  ‬مسلم لوڑا‬
‫کیوں ترسا رہے ہو میری اس‬
‫معصوم پھدی کو شہال کی بات‬
‫سن کر میں نے‪  ‬شہال کے اوپر‬
‫لیٹ کر اس کے ہونٹوں سے اپنے‬
‫ہونٹ مال دئے اور دھیرے‬
‫دھیرے لوڑے کو اس کی‪ ‬‬
‫سکسی جوان پھدی کے اندر‬
‫دھکیلنا شروع کر دیا۔‬
‫شہال کی چوت بہت ٹائٹ ‪ ‬‬
‫تھی اور بہت گرم بھی تھی‪ ‬‬
‫اس کی نرم نرم اور‪  ‬ٹائٹ‬
‫پھدی میں دھیرے دھیرے میرا‬
‫لوڑا گھس رہا تھا اور تکلیف‬
‫کی وجہ سے شہال نے اپنی‬
‫آنکھیں کس کے بند کی ہوئی‬
‫تھیں جب لوڑا اندر آدھا اندر‬
‫گھس گیا تو اس نے مجھے‬
‫رکنے کو کہا میں نے لوڑے کو‬
‫وہیں روک لیا اور شہال کے‪ ‬‬
‫مست سکسی چھتیس سائزکے‬
‫مموں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔‬
‫اس کے باریک باریک نپل‪ ‬‬
‫چدائی کی آگ میں جل کر‬
‫کافی سخت ہو گئے تھے‪  ‬میں‬
‫تھوڑی دیر تک اس کے دونوں‬
‫مموں کو باری باری چومتا اور‬
‫چوستا رہا تھوڑی دیر بعد شہال‬
‫نے نیچے سے اپنی پھدی کو‬
‫حرکت دینا شروع کر دی میں‬
‫نے بھی لوڑے کو دھیرے‬
‫دھیرے اور اندر کرنا شروع کر‬
‫دیا تھا اس مرتبہ شاید شہال‬
‫کو درد کم ہو رہا تھا کیونکہ‬
‫جسیے جیسے لوڑا پھدی میں‬
‫گھستا جا رہا تھا وہ اپنی‬
‫ٹانگوں کو اور زیادہ کھولتی‬
‫جا رہی تھی۔اور بولی بہت‬
‫دنوں بعد‪  ‬سکون مل رہا ھے‬
‫جب لوڑا پورا اندر داخل ہو ‪ ‬‬
‫گیا تو شہال کے مونہہ سے درد‬
‫بھری سسکاری نکل گئیاااااہ‬
‫مممم ممممم ممم مممم مر‬
‫گگگگ گگگگگ گئی ذذذذ‬
‫زذذزززز ذیشان‬
‫کیونکہ میرا لوڑا جا کر اس‪ ‬‬
‫کی بچہ دانی سے ٹکرا گیا تھا‬
‫میں نے لوڑے کو پھر سے روک‬
‫لیا‪  ‬اور اسکے زبردست مموں‬
‫سے کھیلنا شروع کر دیا‪ ‬‬
‫تھوڑی دیر بعد پھر سے شہال‬
‫کی پھدی نے نیچے سے حرکت‬
‫شروع کر دی میں نے بھی‬
‫لوڑے کو دھیرے دھیرے باہر‬
‫کھینچا اور پورا لوڑا باہر آنے‬
‫سے پہلے ہی دوبار اس کو اندر‬
‫کی جانب دھکیل دیا شہال کے‬
‫منہ سے ہلکی سی چیخ نکل‬
‫گئی‪  ‬ہائے میری چوت ۔‬
‫میرا لوڑا ایک ہی جھٹکے میں‬
‫پورے کا پورا‪  ‬شہال کی پھدی‬
‫میں فکس ہو گیا‪  ‬شہال نے کہا‬
‫شانی تمہارا لن بہت ظالم ہے‬
‫اس سے تو میری پھدی پھٹتی‬
‫ہوئی محسوس ہو رہی ہے میں‬
‫نے کہا میری جان میرا لوڑا‬
‫موٹا نہیں ہے تمہاری چوت ہی‬
‫بہت ٹائٹ ہے‬
‫بس یہی سوچتے ہوئے میں ‪..‬‬
‫نے دھیرے دھیرے شہال کی‬
‫چوت میں گھسے لگانے شروع‬
‫کر دیئےمیں دھیرے دھیرے‬
‫گھسے لگا رہا تھا اور شہال‬
‫چدائی کے مزے میں سسکاریاں‬
‫بھر رہی تھی‪  ‬آہ‪  ‬آہ‪  ‬آہ آہ‪  ‬آہ‪ ‬‬
‫آہ ہائے میری چوت دھیرے‬
‫دھیرے چودو‪...‬ذیشان‪  ‬آہ آہ آہ‬
‫میری چوت پھٹ رہی ہے ۔۔۔‪  ‬آہ‬
‫آہ آہ‪   ‬پلیز ذیشان دھیرے‬
‫چودو میری پھدی پھٹ رہی ہے‬
‫آہ آہ آہ‪  ‬اوئی اوئی آہ آہ اس‬
‫کے مونہہ سے ایسی سیکسی‬
‫اور گندی گندی سسکاریاں سن‬
‫کر میرے اندر اور بھی آگ لگ‬
‫رہی تھی ۔‬
‫میں نے اپنے گھسوں کی رفتار‬
‫بڑھا دی اور زور زور سے پھدی‬
‫پر گھسے مارنے لگا دس منٹ‬
‫کی اس‪  ‬سکسی چدائی نے ہم‬
‫دونوں کو پسینے میں شرابور‬
‫کر دیا تھا کیونکہ سٹور میں‬
‫پنکھا وغیرہ نہیں تھا میرا لوڑا‬
‫کس کس کے شہال کو چود رہا‬
‫تھا میں اپنے لوڑے کو‪  ‬سکسی‬
‫شہال کی چوت سے نکالتا اور‬
‫پھر سے ایک دم اس کو چوت‬
‫میں گھسیڑ دیتا جس کی وجہ‬
‫سے شہال کی چوت دو بار پانی‬
‫چھوڑ چکی تھی اس کی چوت‬
‫سے پچک پچک کی آوازیں آ‬
‫رہی تھیں سکسی شہال کی‬
‫چوت اتنی ٹائٹ اور جسم اتنا‬
‫سیکسی تھا کہ پندرہ‪  ‬منٹ کی‬
‫چدائی کے بعد ہی مجھے لگا کہ‬
‫میرا لوڑا ڈسچارج ہونے واال‬
‫ہےمیں نے لوڑے کو شہال کی‬
‫چوت سے باہر نکال لیا اور میں‬
‫نے شہال کو ڈوگی سٹائل میں‬
‫گھوڑی بننے کو کہا‪  ‬۔‬
‫وہ اٹھی اور صوفے پر‬
‫اسسطرح گھوڑی بن گئی کہ‬
‫میں زمین پر کھڑا ہو کر اس‬
‫کو چود سکتا تھا‪  ‬میں نے پہلے‬
‫ڈوگی سٹائل میں ہی اس کی‬
‫پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا‬
‫جو کہ میرے لن اور اسکی‬
‫چوت کے پانی سے چکنی ہو‬
‫رہی تھی‪  ‬میں نے اسکی چوت‬
‫کو چاٹ کر خوب صاف کیا اور‬
‫پھر اسکی گول مٹول چھوٹی‬
‫سی گانڈ کو اپنے دونوں‬
‫ہاتھوں سے پکڑ کر لوڑے کی‬
‫اس کی چوت کے منہ پر رکھا‬
‫ہی تھا کہ شہال نے پیچھے کو‬
‫ایک گھسا مارا جسکی وجہ‬
‫سے میرا پورے کا پورا لوڑا‪ ‬‬
‫شہال کی چوت میں غرق ہو گیا‬
‫اور اس کے منہ سے چیخ نکل‬
‫گئی اور اسی دوران دروازے‬
‫پہ ہلکی سی ناک ہوئی اور ہم‪ ‬‬
‫حیرت اور خوف میں ڈوبتے‬
‫چلے گئے‬
‫دروازے پہ دوبارہ ناک ہوئی‪ ‬‬
‫لیکن ہم خاموش تھے اسی لیے‪ ‬‬
‫آنے والے نے ہلکی آواز لگائی‪ ‬‬
‫اور کہا میں سحر‪  ‬ہوں‪  ‬ذیشان‬
‫ہیلو ڈرو مت‪  ‬میں سحر ھوں‬
‫اور‪  ‬اکیلی ہوں دروازہ کھولو‪ ‬‬
‫اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے‬
‫میں کب سے باہر کھڑی ھوں‬
‫اور مجھے سب پتہ چل چکا ھے‬
‫سکسی چدائی لگتی محسوس‬
‫کر رہی ہوں شیال تم نہیں رہ‬
‫سکی نہ لن تیری مجبوری اے‬
‫تم نے ذیشان کو بھی نہیں‪ ‬‬
‫بخشا مجھے بھی یہ سب‬
‫دیکھنا ھے‬
‫اور یہ‪  ‬ہماری جان میں جان‪ ‬‬
‫آئی میں نے ننگے بدن کے ساتھ‬
‫ہی دروازہ کھول دیا‪  ‬وہ آئی‬
‫اور بولی کیا تم مجھے بھی‬
‫ساتھ شامل کر سکتے ہوں اس‬
‫کھیل میں مجھے بھی بڑا شوق‬
‫ہے۔‬
‫شہال کچھ شرمندہ تھی لیکن‪ ‬‬
‫میں نے انہیں کہا کوئی بات‪ ‬‬
‫نہیں آجکل تو بھائی بہن بھی‬
‫تو‪  ‬ایک ساتھ بھی انجوائے کر‬
‫لیتے ہیں‪  ‬اس میں کوئی برائی‬
‫نہیں ہے تب‪  ‬شہال نارمل ہو‬
‫گئی اور میں نے حوصلہ کر کے‬
‫اس سکسی سحرکو کسنگ‬
‫شروع کر دی تھی‪  ‬اور پھر‬
‫دھیرے دھیرے اس کے بھی‬
‫سارے کپڑے اتر چکے تھے اور‬
‫وہ میرا لن چوس رہی تھی‪  ‬اب‬
‫ہم شرم سے کوسوں دور جا‬
‫چکے تھے اور شہال کی ایک بار‬
‫پھر چدائی لگ رہی تھی ۔‬
‫میں نے زور سے لن ڈاال‪  ‬تو‪ ‬‬
‫شہال بولی ہائے میں مر گئی آہ‬
‫میری چوت پھٹ گئی آہ آہ آہ‬
‫اور پھر اس نے خود ہی دھیرے‬
‫دھیرے سے گھسے لگانا شروع‬
‫کر دئے‪  ‬جب اس کے گھسوں‬
‫کی رفتار کچھ کم ہوئی تو میں‬
‫نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ہوئے اس کی چوت میں لوڑا‬
‫اندر باہر کرنا شروع کر‬
‫دیاگھوڑی بننے کی وجہ سے‬
‫اسکی چوت اور بھی ٹائٹ‬
‫محسوس ہو رہی تھی‪  ‬ابھی‬
‫اسطرح چدائی کرتے ہوئے‬
‫پانچ‪  ‬منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ‬
‫مجھے لگا کہ کسی بھی لمحے‬
‫میرا لن شہال کی چوت میں‬
‫منی اگل دے گا‪  ‬میں شہال کو‬
‫کہا جانی میرا لوڑا تمہاری‬
‫چوت میں منی چھوڑنے واال‬
‫ہے‪  ‬۔‬
‫اس نے کہا میری چوت میں‬
‫فارغ مت ہونا پلیز مگر مجھ پر‬
‫تو جنون سوار تھا میں زور‬
‫زور سے گھسے مار رہا تھا اور‬
‫کب میرے لوڑے نےسکسی‪ ‬‬
‫شہال کی چوت میں گرم گرم‬
‫منی چھوڑ دی مجھے پتا نہیں‬
‫چال‪  ‬میں لوڑے کواس کی‬
‫چوت میں ہی رکھ کر کھڑا ہو‬
‫گیا اور جب ہماری حالت کچھ‬
‫‪....‬سنبھلی تو‬
‫میں نے اپنےلوڑے کو شہال کی‪ ‬‬
‫چوت سے باہر نکاال اور اپنی‬
‫بنیان سے اپنے لوڑے اور شہال‬
‫کی چوت کو صاف کیا اور‪ ‬‬
‫شہال کو اپنے سامنے کھڑا کر‬
‫کے اس کو اپنے سینے سے لگا‬
‫کر اس کے ہونٹوں پر کس کرنے‬
‫لگا ۔‬
‫اب شہال سکون سے لیٹ گئی‬
‫تھی اور میں نے اس کی‬
‫سکسی جوان کم عمر ‪.‬سحرکے‬
‫ساتھ چدائی شروع کر دینی‬
‫تھی‪  ‬اور میری حیرت کی انتہا‬
‫نہیں تھی جب میں نے دیکھا‬
‫کہ سحر اب پوری طرح‬
‫اندھیرے میں شاید ننگی ھو‬
‫چکی ھے اور بولی ذیشان میں‬
‫ورجن ھوں اسلئیے پورا سیکس‬
‫نہیں کرونگی۔۔۔۔شیال بولی تم‬
‫پہلے میری چدائی دیکھ لو پھر‬
‫تیری سیل اوپننگ ھوگی۔۔۔‬
‫سحر اور شیال بہت ہاٹ‬
‫سیکسی لڑکیاں تھیں شیال ایک‬
‫گوری چٹی لمبے قد کی لڑکی‬
‫تھی اور شہال کا قد چھوٹا تھا‬
‫پر نیرو باجوہ جیسی شکل و‬
‫صورت تھی پھر کچھ باتیں‬
‫کیں اور ‪.‬سلمون کے ڈر سے‬
‫‪  ‬جلدی ھم‪  ‬رومانس کرنے لگے‬
‫آ ج الئیو شو تھا اسلیئے صبر‪ ‬‬
‫کرنا مشکل تھا ھمارے لئیے‬
‫یہ دیکھ کر میں نے ‪.‬سحر کو‬
‫اپنی گود سے اتارا اور ‪.‬شیال‬
‫کو پکڑ کر اسکے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھ دیے۔ ابھی میں‬
‫نے‪.‬شیال کو پیار کرنا شروع ہی‬
‫کیا تھا کہ‪.‬سحرنے میری قمیص‬
‫کے بٹن کھول کر میری قمیص‬
‫اتار دی۔‬
‫میں اب مکمل ننگا کھڑا تھا‪ ‬‬
‫اور‪.‬سحرکے ہونٹوں کو اپنے‬
‫ہونٹوں سے چوس رہا تھا‪،‬‬
‫جبکہ ‪.‬سحرنے اب پہلی بار میرا‬
‫ننگا لن دیکھا تھا اور وہ اب‬
‫نیچے بیٹھ کر میرے لن کو‬
‫ہاتھ میں پکڑ کر اسکی لمبائی‬
‫دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔‬
‫اب میں نے ‪.‬شیال کو بھی اپنی‬
‫گود میں اٹھایا تو اس نے اپنی‬
‫دونوں ٹانگیں میری کمر کے‬
‫گرد لپیٹ لیں اور ‪.‬سحر نیچے‬
‫بیٹھ کر میرے لن کی مٹھ‬
‫مارنے لگی۔ میں نے کچھ دیر‬
‫‪.‬شیال کے ہونٹ چوسنے کے بعد‬
‫اسکی گردن پر اپنے دانت گاڑھ‬
‫دیے اور اسے وحشیوں کی‬
‫طرح پیار کرنے لگا۔ میرے اس‬
‫پیار سے ‪.‬شیالکی سسکیاں‬
‫‪ ‬نکلنا شروع ہوگئی تھیں‬
‫جبکہ نیچے ‪.‬سحر نے میرے لن‬
‫کی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھ کر‬
‫اس پر ایک بوسہ دیا اور پھر‬
‫اپنی زبان نکال کر میرے لن پر‬
‫پھیرنا شروع کر دی اور بولی‬
‫میں ایک تحفہ دونگی تمہیں‬
‫اس رات۔ میں نے ‪.‬شیال سے‬
‫توجہ ہٹا کر اسکی طرف دیکھا‬
‫اور کہا کیسا لگا تمہیں میرا‬
‫‪ ......‬لن؟؟؟ یہ سن کر‬
‫سحر بولی‪.‬ذیشان بہت‬
‫‪، ‬زبردست ہے‬
‫ایسے لن کے لیے تو لڑکیاں‬
‫ترستی ہیں‪ ،‬اور جو مجھے‬
‫‪.‬شیال نے بتایا اگر تمہاری اتنی‬
‫ٹائمنگ بھی ہے تو پھر تو کیا‬
‫ہی بات ہے۔ میں نے کہا ٹائمنگ‬
‫کی تم فکر نہ کرو‪ ،‬جب تک تم‬
‫تھکو گی نہیں میں تمہاری‬
‫چدائی جاری رکھوں گا‪ ،‬بس تم‬
‫ایک زبردست سا چوپا لگا دو‬
‫میرے لن کا۔ یہ سن کر ‪.‬سحر‬
‫‪...‬بولی‬
‫ذیشان تم فکر نہ کرو‪ ،‬ایسا‬
‫چوپا لگاوں گی کہ یاد کرو گے۔‬
‫یہ کر کر ‪.‬سحر نے اپنا منہ‬
‫کھوال اور میرے لن کا ٹوپا اپنے‬
‫منہ میں لیکر اس پر اپنی زبان‬
‫پھیرنا شروع کر دی۔‬
‫میں نے‪.‬سحر کو اسکا کام کرنے‬
‫دیا اور خود اب‪.‬شیال کے مموں‬
‫پر اپنی زبان چالنا شروع کر‬
‫دی جو اسکے برا سے باہر نکلے‬
‫ہوئے تھے۔ پھر میں نے ‪.‬شیال‬
‫کی کمر سے اسکے برا کی ہک‬
‫کھولی اور اسکا برا اتار کر‬
‫ایک سائیڈ پر پھینک دیا اور‬
‫‪.‬شیال کے خوبصورت مموں کو‬
‫اپنے منہ میں لیکر چوسنا‬
‫‪ ‬شروع کر دیا۔‬
‫شیال کے چھوٹے چھوٹے مگر‬
‫سخت نپل اس وقت میرے منہ‬
‫میں تھے اور میں کبھی انکو‬
‫چوس کر ان سے دودھ پیتا تو‬
‫کبھی انکو اپنے دانتوں سے ہلکا‬
‫سا کاٹ کر ‪.‬شیال کی سسکیاں‬
‫‪ ‬نکالتا۔‬
‫نیچے بیٹھی ‪..‬سحر میرا لن اب‬
‫اپنے منہ میں ڈال کر چوپے‬
‫لگانا شروع ہوچکی تھی۔ اسکو‬
‫چوپے لگانے کا کوئی اتنا خاص‬
‫تجربہ تو نہیں تھا مگر پھر‬
‫بھی مجھے اس کا اناڑی پن‬
‫اچھا لگ رہا تھا۔‬
‫شیالکے چوپوں میں اور ‪.‬سحر‬
‫کی چوپوں میں بہت فرق تھا‪،‬‬
‫مگر دونوں کی لن کے لیے طلب‬
‫ایک جیسی ہی تھی۔ بلکہ‬
‫‪.‬سحر میں نےشیال سے پوچھا‬
‫کہ آج وہ میرے لن کا چوپا‬
‫لگائے گی یا نہیں؟؟؟‬
‫‪ ‬تو ‪.‬شیالنے پھر سے کہا‪ ‬‬
‫کہ ‪.‬ذیشاننہیں وہ لن اپنے منہ‬
‫میں نہیں ڈال سکتی اسے‬
‫نفرت آتی ہے۔ اسکی بات سن‬
‫کر ‪.‬سحر بولی ارے پاگل ایک‬
‫بار چوپا لگا کر تو دیکھ‪ ،‬بہت‬
‫مزہ آتا ہے۔ یہ کہ کر ‪.‬سحر نے‬
‫دوبارہ لن منہ میں ڈال لیا اور‬
‫اسکواللی پاپ کی طرح‬
‫چوسنے لگی۔‬
‫میں نے ‪.‬شیال کو کہا آج تو تم‬
‫سے چوپا لگوانا ہے‪ ،‬البتہ میں‬
‫کنڈوم چڑھا لیتا ہوں جو بنانا‬
‫فلیور کا ہے تو تمہیں میرے لن‬
‫کی بجائے کیلے کا ذائقہ ملے گا۔‬
‫اس بات پر ‪.‬شیال راضی ہوگئی‬
‫تو میں نے اسکو اپنی گود سے‬
‫نیچے اتار دیا اور کنڈوم اٹھا‬
‫کر ‪.‬سحر کو پکڑایا تو اس نے‬
‫جلدی جلدی میرے لن پر کنڈوم‬
‫چڑھا دیا اور ایک بار پھر سے‬
‫میرا لن اپنے منہ میں لیکر‬
‫چوسنے لگی۔‬
‫سحر بھی اب اسکے ساتھ‪ .‬‬
‫بیٹھ گئی تھی‪،‬شیال نے بھی‬
‫تھوڑا ہچکچاتے ہوئے میرا لن‬
‫اپنے منہ میں لیا ‪ ،‬اسے واقعی‬
‫میں کیلے کا ذائقہ مال تو اسکی‬
‫ہچکچاہٹ ختم ہوگئی اور اب‬
‫اس نے بھی میرا لن اپنے منہ‬
‫میں لیکر چوسنا شروع کر دیا‬
‫تھا جبکہ ‪.‬سحر کے منہ میں اب‬
‫میرے ٹٹے تھے جنہیں وہ چو‬
‫‪ ‬س رہی تھی۔‬
‫شیال کو چوپے لگاتا دیکھ کر‬
‫اب میں نے ‪ .‬کو کھڑا کیا اور‬
‫اسکی قمیص کے براکھول کر‬
‫‪، ‬اسکی قمیص اتار دی‬
‫جبکہ نیچے سے ‪.‬سحر نے شیال‬
‫‪ ‬کی شلوار اتار دی۔‬
‫سحر نے سرخ رنگ کا‬
‫خوبصورت برا پہن رکھا‬
‫تھا‪32‬سائز کے ‪.‬سحر کے ممے‬
‫دیکھ کر میری طبیعت خوش‬
‫ہوگئی۔ میں نے بغیر وقت ضائع‬
‫کیے اسکا برا بھی اتار دیا اور‬
‫اسکے بڑے بڑے مموں کو منہ‬
‫میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔‬
‫کچھ دیر تک ‪.‬سحر کے ممے‬
‫چوسنے کے بعد میں نے اسے‬
‫بھی اپنی گود سے اتارا اور‬
‫اسکی پینٹی اتار دی۔ پینٹی‬
‫اتارنے کے بعد میں خود صوفے‬
‫پر لیٹ گیا اور ‪.‬سحرکی ایک‬
‫ٹانگ اٹھا کر صوفے پر اپنے‬
‫چہرے کے دوسری سائیڈ پر‬
‫رکھ دی اور اسے نیچے جھکنے‬
‫کو کہا۔‬
‫سحر نیچے جھکی تو اسکی‬
‫چکنی اور تنگ چوت میرے‬
‫چہرے کے بالکل سامنے‬
‫تھی۔‪.‬سحرکی چوت بالوں سے‬
‫بالکل صاف تھی جیسے‬
‫اس نے آج ہی اپنی چوت کے‬
‫بال صاف کیے ہوں۔ یہ دیکھ کر‬
‫مین نے اپنی زبان نکالی اور‬
‫‪.‬سحر نے مزید جھک کر اپنی‬
‫چوت کو میرے زبان کے ساتھ‬
‫مال دیا‪.‬سحر کی چوت سے‬
‫گالب کی مہک آرہی تھی‪ ،‬وہ‬
‫شاید اپنی چوت کو عرِق گالب‬
‫سے دھو کر ہی آئی تھی۔ میں‬
‫نے اپنی زبان کو ‪.‬سحر کی‬
‫چوت کے لبوں کے درمیان میں‬
‫داخل کیا اور اسکو چوسنا‬
‫شروع کر دیا‪ ،‬جبکہ نیچے وہ‬
‫میرے ‪ 8‬انچ کے لوڑے کو منہ‬
‫میں لیکر چوسنے میں مصروف‬
‫تھی۔ نیچے سحر کے چوپے اور‬
‫اوپر شیال کی چکنی چوت‬
‫مجھے بہت مزہ دے رہی تھی۔‬
‫اسکی سسکیاں بہت وحشی‪ ‬‬
‫تھیں جن سے مجھے اندازہ‬
‫ہورہا تھا کہ وہ سیکس کو‬
‫انجوائے کرنے والی لڑکی ہے ۔‬
‫سحر ساتھ ساتھ اپنی چوت‬
‫کے دانے پر اپنا ہاتھ پھیر رہی‬
‫تھی جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ‬
‫اپنی چوت کے لب کھول کر‬
‫مجھے اپنی زبان زور زور سے‬
‫رگڑنے کا کہ رہی تھی‪.‬سحر کی‬
‫چوت کے لن اسکی چوت کے‬
‫پانی سے چکنے ہورہے تھے ۔ ‪2‬‬
‫منٹ تک میں ‪.‬سحر کی چوت‬
‫کو چاٹتا رہا‪ ،‬پھر ‪.‬سحر نے‬
‫اپنی ٹانگ واپس نیچے رکھ لی‬
‫اور میری زبان اپنے منہ میں‬
‫لیکر میری زبان سے اپنی چوت‬
‫کا ذائقہ چکھنے لگی۔‬
‫نیچے ‪.‬شیال نے میرا لن چھوڑ‬
‫کر اپنے لبوں پر زبان پھیر کر‬
‫بولی ایک راونڈ‪  ‬اور ھو جائے۔۔‬
‫وہ اب ‪.‬سحر والی پوزیشن‬
‫میں میرے اوپر آکر بولی چلو‬
‫اب میری چوت کو بھی ایسے‬
‫ہی چاٹو جیسے ‪.‬سحرکی چوت‬
‫چاٹی ہے۔ اسکی چوت بھی‬
‫بالوں سے صاف تھی البتہ‬
‫اسکی چوت سے گالب کی‬
‫خوشبو نہیں آرہی تھی بلکہ‬
‫اسکی چوت کے پانی بو تھی‬
‫جسکو میں نے کچھ لمحے‬
‫سونگھ کر اپنے ناک کو معطر‬
‫کیا اور پھر اپنی زبان ‪.‬شیالکی‬
‫چکنی چوت پر رکھ کر اسکو‬
‫‪، ‬چوسنا شروع کر دیا‬
‫جبکہ میں بوال کہ سحر اب میں‬
‫تمہاری لینا چاہتا ھوں شیال‬
‫بولی وہ سیل پیک ھے اسکی‬
‫سیل اوپننگ بعد میں ھوگی‬
‫پہلے اسے الئیو میچ دیکھنے دو‬
‫اور تم بیٹنگ کرو شیال اب‬
‫میرے اوپرآکر بیٹھ گئی تھی‪،‬‬
‫میرے اوپر بیٹھنے کے بعد اس‬
‫نے میرے لن کو پکڑ کر اپنی‬
‫پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا‬
‫اور اس پر ہلکا سا دباو ڈاال تو‬
‫میرے لن کی ٹوپی اسکی‬
‫پھدی میں داخل ہوگئی جس‬
‫پر شیال کے منہ سے ایک‬
‫سسکی نکلی۔ ۔۔۔۔‬
‫‪ ‬اف۔۔‪...‬ذیشان۔۔ بہت موٹی ہے‬
‫ذیشان تمہارے لن کی‪....‬‬
‫ٹوپی۔۔۔ یہ کہ کر ‪.‬شیال نے ایک‬
‫جھٹکا لیا میرے لن پر اور‬
‫پوری کی پوری میرے لن پر‬
‫بیٹھ گئی۔ میرا لن اسکی چوت‬
‫کی دیواروں کو چیرتا ہوا‬
‫اسکی چوت کی گہرائیوں میں‬
‫‪،‬اتر چکا تھا‬
‫‪ Night rayeder‬ڈاٹس واال‪ ‬‬
‫کنڈوم ہونے کی وجہ سے‬
‫‪.‬شیالکی چوت کی دیواروں پر‬
‫رگڑ کچھ زیادہ ہی لگی تھی‬
‫جس سے اسکی ایک دلخراچ‬
‫چیخ نکلی اور وہ کچھ لمحے‬
‫بغیر ہلے میرے لن کے اوپر‬
‫بیٹھی رہی اور آہ ہ ہ آہ ہ‬
‫ہ‪.....‬ذیشان فک می ہارڈ آہ ہ ہ‬
‫کی سسکیاں نکالتی رہی۔ جبکہ‬
‫‪.‬شیال بھی اپنی چوت میں‬
‫میری زبان کی رگڑ کی وجہ سے‬
‫سسک رہی تھی جبکہ میرے‬
‫ایک ہاتھ کی انگلی ‪.‬شیال کے‬
‫چوتڑوں کو کھول کر اسکی‬
‫‪.....‬چوت کا درشن کرنے لگے‬
‫اب شہال بولی کہ ذیشان کبھی‬
‫کسی لڑکی کی سیل توڑی ھے‬
‫تم نے تو میں بوال شیال یار اب‬
‫تک تو میں نے صرف شادی‬
‫شدہ لڑکیوں کوہی چودہ ھے آج‬
‫پہلی بار سیل پیک چوت ملنے‬
‫والی ھے اور وہ بھی صرف‬
‫آپکی وجہ سے‪  ‬شیال اپنی‬
‫تعریف سن کر بولی چلو میں‬
‫تجھے سکھاتی ھو ں کہ تھری‬
‫سم کا مزہ دوباال کیسے کیا‬
‫جاتا ھے اس نے سحر کو بوال‬
‫کہ تم لیٹ جاؤ اور سحر بیڈ پر‬
‫سیدھا لیٹ گئ اور مجھے‬
‫‪:‬شیال نے بوال کہ‪ ‬‬
‫تم سحر کی ٹانگیں اٹھا کر‪ ‬‬
‫اپنے کندھے پر رکھ لو میں نے‬
‫شیال کا حکم بجاالتے ھوۓ‬
‫سحرکی گوری گوری ٹانگیں‬
‫اٹھا دیں اور شیال نے اپنی‬
‫چوت سحر کے منہ پر رکھ کر‬
‫اپنا منہ سحرکی چوت پر رکھ‬
‫دیا اور اس نے سحرکی چوت‬
‫پر اپنا تھوک لگایا اور اسکی‬
‫چوت کو گیال کر دیا اور مجھے‬
‫بولی سحرتو پہلے ھی بہت گرم‬
‫ھے اسکی چوت تو پہلے ھی‬
‫گیلی ھے‪  ‬سحر بولی شیال آپی‬
‫ذیشان کو بولو کہ بنا کنڈوم کے‬
‫میری سیل توڑے ھم محبت کی‬
‫یہ جنگ بنا تلواروں کے لڑنا‬
‫چاھتے ھیں‬
‫شیال بولی بڑا پرجوش ھو بچی‬
‫تم تو جب اتنالمبا تیرے اندر‬
‫جاۓ گا تب جنگ میں خون‬
‫خرابہ بہت ھوگا شیال نے‬
‫میرالن پکڑکر سحر کی کنواری‬
‫چوت پر رگڑا تو میرا کیپ‬
‫چکنا ھوگیا اور شیال نے لنڈ‬
‫اپنی چھوٹی بہن کی چوت کے‬
‫سوراخ پر رکھا اور مجھے‬
‫اشارے سے کہا کہ ایک جھٹکے‬
‫‪ .....‬میں ھی سارا اندر ڈال دو‬
‫میرالن اب نرم چوت کے تنگ‬
‫سوراخ پر تھا میں نے جوش‬
‫میں آ کر ایک جٹھکا مارا اور‬
‫میرا لن دو انچ تک سحرکی‬
‫کنواری چوت کھول کر اسکے‬
‫اندر چال گیا سحر درد سے‬
‫چالئی آؤچ آہ آہ بہت موٹا ھے‬
‫تیرا تو ذیشان تو میں نے‬
‫دوسرا شارٹ بھی مار دیا آہ‬
‫میں مرگئ شیال نے دیکھا کہ‬
‫میرا لنڈ اسکی چھوٹی بہن کی‬
‫سیل توڑتا ھوا اسکی ناف تک‬
‫چال گیا‬
‫سحرکی چوت اب خون سے لت‬
‫پت ھوچکی تھی مجھے شیال‬
‫نے کس کرنا شروع کردیا اور‬
‫میں نے اپنالنڈ اسکی چھوٹی‬
‫بہن کی چوت میں بنا شارٹ‬
‫مارے اندر ھی رہنے دیا ہماری‬
‫کچھ دیرکسنگ ھوئی اور پھر‬
‫شیال سحر کے اوپر سے نیچے‬
‫اترگئ اور بولی ذیشان اب یہ‬
‫کھیل آپ دونوں کا ھے آپکو‬
‫سحرکی سیل توڑناکیسالگا سچ‬
‫بتانا تو میں بوال سحرکی‬
‫چمکتی دمکتی نرم اور‬
‫مخروطی سیپی جیسی چوت‬
‫کا دراوزہ کھول کا میں بہت‬
‫خوش ھوں‬
‫جیسے ہی میں نے سحر کو‬
‫چودنا شروع کیا اسکے چہرے‬
‫پر خوشی کے واضح آثار نظر‬
‫آنے لگے‪ ،‬اسکے چہرے پر ہلکی‬
‫مسکراہٹ تھی اور ہر دھکے کے‬
‫ساتھ وہ آہ ہ ہ ہ بہت مزہ ارہا‬
‫ھے ‪ ،‬آہ ہ ہ ۔۔۔ اف ف ف ۔۔۔ آہ‬
‫ہ ہ ہ کی آوازیں نکال ری تھی۔‬
‫اسکی چوت بہت ٹائٹ تھی‬
‫جسکی وجہ سے مجھے اسکو‬
‫چودنے میں بہت مزہ مل رہا‬
‫‪ ‬تھا۔‬
‫نئی چوت کا ہمیشہ اپنا ہی‪ ‬‬
‫ایک نشہ ہوتا ہے‪ ،‬یہی وجہ‬
‫تحھی کہ سحر کی چوت مارنے‬
‫کا مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور‬
‫اسکےجسم سے آںے والی گالب‬
‫کی مہک مجھے سکون دے رہی‬
‫تھی۔ کچھ دیر تک اسے ایسے‬
‫ہی چودنے کے بعد میں نے‬
‫اسکے چوتڑوں کو تھوڑا اور‬
‫اوپر اٹھا لیا اور اسے تھوڑا‬
‫آگے کی طرف دھکیال تو‬
‫اسکےبتیس سائز کے ممے میرے‬
‫منہ کی پہنچ میں آگئے جنہیں‬
‫میں نے فورا ہی منہ کھول کر‬
‫اپنے منہ میں لے لیا اور نیچے‬
‫سے اسکی چوت میں دھکوں کا‬
‫سلسلہ جاری رکھا۔ ‪ 5‬منٹ تک‬
‫میں سحر کو اسی پوزیشن‬
‫میں چودتا رہا‪ 5 ،‬منٹ بعد‬
‫مجھے محسوس ہوا جیسے‬
‫سحر‪  ‬کی پھدی کی گرپ پہلے‬
‫‪ ‬کی نسبت بہت ٹائٹ ہورہی ہے۔‬
‫اسکی چوت کی دیواروں کی‬
‫گرفت میرے لن کے گرد کافی‬
‫سخت ہوچکی تھی اور پھر‬
‫ایک دم سے سحر کی چوت سے‬
‫ڈھیر سارا پانی نکال جس سے‬
‫میری ٹانگیں اور میرا پیٹ‬
‫بھیگ گیا۔‬
‫اسکی چوت کا پانی نکلتے ہی‬
‫میں اسے سائیڈ پر کیا تو وہ‬
‫سائیڈ پر ہوکر بھی گہرے‬
‫گہرے سانس لے رہی تھی جبکہ‬
‫میں نے اب فورا شیال کو پکڑا‬
‫اور اسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔‬
‫میری گود میں بیٹھتے ہی اسنے‬
‫اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر‬
‫رکھ کر انکو چوسنا شروع کر‬
‫‪،‬دیا‬
‫جبکہ میں نے اسکو گانڈ اٹھا‪ ‬‬
‫کر اوپر کرنے کے بعد اپنا لن‬
‫اسکی چوت میں ڈالکر ایک ہی‬
‫دھکے میں اسے نیچے بٹھا دیا۔‬
‫سحر کی طرح شیال کی بھی‬
‫ایک دلخراش چیخ نکلی‪،‬‬
‫کنڈوم کے ڈاٹ نے کافی رگڑ دی‬
‫تھی دونوں کی پھدیوں کو۔‬
‫مگر شیال کے لیے میں نے زیادہ‬
‫انتظار نہیں کیا اور کچھ ہی‬
‫لمحوں کے بعد اسکی چوت‬
‫میں دھکے لگانے شروع کر دیے۔‬
‫شیال اپنے گھٹنوں کے بل میری‬
‫گود میں بیٹھی تھی اسکے ممے‬
‫میرے منہ کے سامنے ہل رہے‬
‫‪، ‬تھے‬
‫میرے ہر دھکے کے ساتھ اسکے‬
‫ممے اچھل کر میرے چہرے سے‬
‫ٹکراتے اور ساتھ ہی اسکی‬
‫سسکیوں کی آواز بھی آتی۔‬
‫شیال کو چودتے ہوئے میں نے‬
‫ایک ہاتھ اسکے چوتڑوں کے‬
‫نیچے رکھ دیا تھا اور اس ہاتھ‬
‫کی انگلی میں اسکی گانڈ میں‬
‫ڈال چکا تھا جس سے شیال کو‬
‫تکلیف بھی ہورہی تھی اور‬
‫اسکی سسکیوں میں بھی بے‬
‫پناہ اضافہ ہوگیا تھا۔ شیال کی‬
‫چوت میں میرا موٹا لن اور‬
‫گانڈ میں میری انگلی کی وجہ‬
‫سے اسکی چوت کی دیواریں‬
‫آپس میں مل کر بہت ٹائٹ‬
‫ہوگئی تھیں اور مجھے لگ رہا‬
‫تھا کہ اگلے کچھ ہی جھٹکوں‬
‫میں شیال کی چوت پانی چھوڑ‬
‫دے گی۔‬
‫میرا اندازہ درست ثابت ہوا اور‬
‫‪ ‬گانڈ میں انگلی ہونے کی‬
‫وجہ سے شیال کی چوت نے‬
‫محض ‪ 2‬منٹ کی چودائی کے‬
‫بعد ہی پانی چھوڑ دیا۔ شیالکو‬
‫فارغ کرنے کے بعد میں نے‬
‫دوبارہ سے سحر کی طرف رخ‬
‫کیا جو چدائی کے لیے بے چین‬
‫بیٹھی تھی‪ ،‬مجھے اپنی جانب‬
‫متوجہ ہوتا دیکھ کر بولی ساڈا‬
‫وی حق بن دا اے‬
‫سحر میری طرف بڑھی اور‬
‫نیچے بیٹھ کر اس نے میرے لن‬
‫‪ ‬سے کنڈوم اتار دیا۔‬
‫میں نے کہا یہ کیوں؟؟ سحر‬
‫بولی‬
‫ذیشان میری چوت تمہارے لن‬
‫کا اصلی لمس محسوس کرنا‬
‫چاہتی ہے‪ ،‬یہ کہ کر سحرنے‬
‫ایک بار پھر میرا لن اپنے منہ‬
‫میں لے لیا اور اسکے کچھ‬
‫چوپے لگانے کے بعد بولی‬
‫بولو جانو اب کیسے چودو گے‬
‫‪ ‬مجھے؟؟؟‬
‫میں نے کہا گھوڑی بن جاو۔‬
‫میری بات سن کر سحر فورا ہی‬
‫صوفے پر گھوڑی بن گئی۔‬
‫اسکی ‪32‬انچ کی گانڈ بہت‬
‫بھلی لگ رہی تھی اور اسکی‬
‫گانڈ دیکھتے ہی میں نے تہیہ‬
‫کر لیا کہ آج چوت کے ساتھ‬
‫ساتھ اسکی گانڈ بھی الزمی‬
‫مارنی ہے۔ میں نے سحر کے‬
‫گوشے سے بھرے ہوئے چوتڑوں‬
‫پر ایک تھپڑ مارا اور پھر‬
‫اسکی چوت میں اپنا لن ڈال کر‬
‫‪ ‬اسکو چودنا شروع کر دیا۔‬
‫میرے ہر دھکے پر میرا جسم‬
‫سحر کے گوشت کے پہاڑوں سے‬
‫ٹکراتا تو دھپ دھپ کی آوازیں‬
‫گونجتی جبکہ ان آوازوں کے‬
‫ساتھ سحر کی آہ ہ ہ ہ ہ ‪ ،‬آہ ہ‬
‫ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ او یس‬
‫شانی۔۔۔۔۔ فک می ہارڈ۔۔۔۔۔۔‬
‫شانی زور سے دھکے مارو۔۔۔۔ آہ‬
‫ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ زور زور سے‬
‫چودو۔۔۔۔ فک می۔۔۔۔ فک‬
‫می۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ کی آوازوں کا‬
‫ردھم تو کمال کا تھا۔ سحر کو‬
‫چودتے ہوئے میں نے ایک انگلی‬
‫اسکی گانڈ میں بھی ڈال دی ۔‬
‫جیسے ہی میں نے سحر کی‬
‫گانڈ میں انگلی ڈال دی اسنے‬
‫ایک لمبی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی‬
‫آواز نکالی جسکا مطلب تھا کہ‬
‫اسکو مزہ آیا ہے انگلی ڈالنے‬
‫سے۔‬
‫اسکی گانڈ میں انگلی ڈال کر‬
‫مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ‬
‫پہلے بھی گانڈ مروا چکی ہے‪ ‬‬
‫صرف چوت بچی ھوئی تھی ۔‬
‫میں نے سحر سے پوچھا پہلے‬
‫کس کس سے گانڈ مروائی ہے‪،‬‬
‫نیلم نے کہا بس شانی ہمارے‬
‫ایک ٹیچر ہیں‪ ،‬ایک بار میں‬
‫فیل ہوگئی تو پاس ہونے کے‬
‫لیے ان سے صرف گانڈ‪  ‬مروائی‬
‫تھی‪ ،‬تبھی انہوں نے گانڈ ماری‬
‫تھی۔ اور تب سے وہ میری گانڈ‬
‫کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ جب بھی‬
‫موقع ملتا ہے میری گانڈ مار‬
‫دیتے ہیں۔ میں نے کہا‪ ،‬یعنی آج‬
‫تمہاری چوت کے ساتھ ساتھ‬
‫تمہاری گانڈ بھی مارنے کا‬
‫موقع ملے گا ۔۔۔۔ اس پر سحر‬
‫‪ ‬بولی‪ ،‬رحم کرو‬
‫شانی مجھ پر‪ ،‬تمہارے اس‬
‫گھوڑے جیسے لن کے سامنے‬
‫میری ٹیچر کا لن تو کچھ بھی‬
‫نہیں۔ وہ بہت پتال لن ہے۔‬
‫مجھے اس سے اتنی تکلیف‬
‫ہوتی ہے تو تمہارا لن تو بہت‬
‫بڑا اور موٹا ہے۔ اس سے تو‬
‫میری گانڈ پھٹ جائے گی۔‬
‫ابھی میں کچھ کہنے ہی لگا‬
‫تھا کہ اسکی آواز آئی اور اس‬
‫‪ ‬لن کے بارے میں کیا خیال ہے۔‬
‫میں نے مڑ کر شیالکی سحرنے‬
‫بھی مڑ کر اسکی طرف دیکھا‬
‫اور بولی یہ تو میں تمہاری‬
‫گانڈ میں ڈلواتی ہوں ابھی۔ یہ‬
‫سن کر شیال ہنسنے لگی جبکہ‬
‫وہ میرے لن کی دھکوں کو‬
‫اپنی چوت میں برداشت کرتے‬
‫ہوئے سسکیاں لیتی رہی۔‬
‫شیاللن والی پینٹی پہنے‬
‫کھیرے کو لن بنا کر کو اپن‬
‫ہاتھ میں لیکر مسلتے ہوئے‬
‫سحرکے سامنے آکر بیٹھ گئی۔‬
‫سحر جو پہلے میرے لن سے‬
‫اپنی چوت مروا رہی تھی اب‬
‫اس نے چوت مروانے کے ساتھ‬
‫ساتھ شیالنے بھی لن‪  ‬چوسنا‬
‫‪ ‬شروع کر دیا تھا۔‬
‫کچھ دیر تک میں سحر کو‬
‫چودتا رہا‪ ،‬پھر میں نے سحر‬
‫کی چوت سے لن نکاال اور شیال‬
‫کو کہا کہ وہ میرے پاس‬
‫آجائے۔ وہ اتر کر میرے پاس‬
‫آئی‪ ،‬شیال سیدھی ہونے لگی تو‬
‫میں نے اسے کہا تم گھوڑی بنی‬
‫رہو۔ وہ اب گھوڑی بن گئی تو‬
‫میں نے چودنا شروع کردیا‬
‫جبکہ میں دونوں بہنوں کو‬
‫سیکس کرتے دیکھ کر خوش‬
‫ہورہا تھا۔ کچھ دیر تک میں‬
‫ایسے ہی پیچھے کھڑا شیال کی‬
‫کھیرے سے چدائی کو دیکھتا‬
‫رہا‪ ،‬پھر میں شیال کے پیچھے‬
‫آیا اور اسکو کچھ دیر رکنے کو‬
‫کہا۔ شیال نے سحر کی چوداِئ‬
‫روک دی مگر اسکا کھیرا‪  ‬ابھی‬
‫تک سحر کی چوت میں تھا۔‬
‫میں نے شیال کو تھوڑا سا‬
‫جھکا کر اسکی گانڈ کو باہر کی‬
‫طرف نکاال اور اسکی لن والی‬
‫پینٹی کو اسکی چوت سے‬
‫تھوڑا سا ہٹا کر اپنے لن کی‬
‫ٹوپی اسکی چوت پر رکھ کر‬
‫ایک زور دار دھکا مارا تو میرا‬
‫لن اسکی چوت میں اتر گیا اور‬
‫میرے دھکے کی وجہ سےاس‬
‫کے چوتڑ آگے کی جانب ہوئے تو‬
‫اسکی چوت میں بھی شیال کے‬
‫کھیرے کا دھکا لگا جس سے‬
‫دونوں کی ہی سسکی نکلی۔‬
‫پھر میں نے سحر کو اسکے‪ ‬‬
‫مموں سے پکڑ کر اسکی خوب‬
‫جاندار چدائی شروع کر دی۔‬
‫سحر کھڑی تھی جسکی وجہ‬
‫سے اسکی چوت بہت ٹائٹ‬
‫تھی اور اسکی چوت میں میرا‬
‫لن اسکی چوت کی دیواروں کو‬
‫چیرتا ہوا اسکی گہرائی تک‬
‫‪ ‬چود رہا تھا۔‬
‫شانی آہ ہ ہ ہ آ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور زور‬
‫سے چودو۔ذیشان ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ‬
‫ہ۔۔۔ زور سے ۔۔۔۔۔ اور زور سے۔۔۔‬
‫آہ ہ ہ ہ کی آوازیں لگا رہی‬
‫تھیں۔ شیال کی چوت میں‬
‫کھیرے کے دھکے زیادہ شدت‬
‫سے لگ رہے تھے جبکہ‪  ‬کی‬
‫چوت میں دھکوں کی رفتار وہ‬
‫نہیں تھی کیونکہ اسکی چوت‬
‫میں دھکا میرے دھکے کی وجہ‬
‫‪ ‬سے لگتا تھا۔‬
‫میں نے سحر سے پوچھا کہ مزہ‬
‫آرہا ہے اس چدائی کا؟؟؟ تو‬
‫اسنے کہا ہاں‪،‬ذیشان‪  ‬تم‪ ‬‬
‫طاقت سے چودو تاکہ میری‬
‫چوت میں بھی تیز تیز دھکے‬
‫‪ ‬لگیں۔‬
‫سحر کی بات سن کر شہال نے‬
‫کہا ہاں اور زور سے چودو‬
‫مجھے‪ ،‬شانی۔۔۔۔بہت مزہ آرہا‬
‫ہے۔۔۔ آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ‬
‫۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ۔۔۔شانی ۔‬
‫کیا زبردست لن ہے تمہارا۔۔۔ آہ‬
‫ہ ہ ہ ہ زور زور سے دھکے‬
‫لگاو۔۔۔۔۔ ‪ 5‬منٹ تک میں سحر‬
‫کو اسی طرح چودتا رہا اور‬
‫سحر کی مٹھی پر لگا کھیر لن‬
‫بن کر شیال کو چودتا رہا۔ ‪5‬‬
‫منٹ بعد مجھے محسوس ہوا‬
‫کہ سحر کی چوت پانی‬
‫چھوڑنے والی ہے اور اگلے کچھ‬
‫ہی دھکوں کے بعدسحر نے اپنی‬
‫چوت کو زور سے جکڑ لیا اور‬
‫پھر ایک دم سے اسکی چوت‬
‫سے گرما گرم پانی نکال جس نے‬
‫میرے لن کو بھگو دیا۔ جیسے‬
‫ہی سحر کی چوت نے الوا اگال‪،‬‬
‫اسکے ساتھ ہی کھیرے‪  ‬سے‬
‫چدائی کرواتی ہوئی شیال کی‬
‫چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا‬
‫اور یوں‬
‫ایک لن سے ‪ 2‬چوتوں کو‪ ‬‬
‫چودنے کا سلسلہ ختم ہوگیا یہ‬
‫میرا پہال تھری سم تھا جو‬
‫کامیاب‪  ‬رہا۔‬
‫شاہد اپنے کھیتوں میں صبح‬
‫صبح ہل چال رھا تھا اور میں‬
‫واک کرنے نکال تو اسکو ہل‬
‫چالتے ھوۓ دیکھ کر میں آم‬
‫کے نیچے درخت پر بیٹھ گیا‬
‫گھر سے نوکرانی ناشتہ لیکر‬
‫آرھی تھی جسے دیکھ کر میں‬
‫نے شاہد کو زور سے آواز دی‬
‫اور بوال اوۓ ناشتہ کرلو تم کو‬
‫صبح صبح پتہ نہیں کونسا‪ ‬‬
‫بخار چڑھا ھے تو اس‪  ‬نے‬
‫ٹریکٹر بند کیا اور میری طرف‬
‫آتے ھوۓ بوال یار ابو نے کہا کہ‬
‫ادھر سرسوں کا ساگ لگانا ھے‬
‫اسی لئیے آج صبح صبح اس‬
‫کھیت کو تیار کرنا ھے شام کو‬
‫پانی کی واری بھی ھے ابو‬
‫بولتے ھیں‬
‫شام تک سب فصلوں پر بوائی‪ ‬‬
‫مکمل کرلو منشی چاچا آج‬
‫شہرسے بیج لینے گئے ھیں‪  ‬وہ‬
‫بھی دوپہر تک آجائینگے شاہد‬
‫کے پاس بھی میسی ٹریکٹر تھا‬
‫اچھی حالت تھی ٹریکٹر کی‬
‫ھم آپس میں گپ شپ کر رھے‬
‫تھے تب گالبو ناشتہ لیکر‬
‫ھمارے پاس آپہنچی اور مجھے‬
‫بولی شانی بھائی تسی دونویں‬
‫بھراہ بیٹھ کے ناشتہ کرو میں‬
‫سبزی توڑنے جارھی ھوںگالبو‬
‫بائیس سالۂ ایک خوبرو لڑکی‬
‫تھی جو شاہد کے کھیتوں پر‬
‫منشی چاچاکی بڑی بیٹی تھی‬
‫اسکی شکل پاکستانی ٹیلی‬
‫ویژن اداکارہ حبابخاری جیسی‬
‫تھی بڑی بڑی آنکھیں چمکتے‬
‫دانت جوانی کی بہار شاید‬
‫شاہد نے اس کلی کا رس چوسا‬
‫ھوگا تبھی تو صبح سویرے‬
‫ہیرسیال بن کر روٹی لیکر آئی‬
‫‪....‬تھی خیر‬
‫شاہد بوال سالیا ہن شرمائی‪ ‬‬
‫جاویں گا یا پھر ناشتہ وی‬
‫کریں گا تو میں بوال یار اے دو‬
‫پراٹھے تے صرف تو کھاجاۓ‬
‫گا‪  ‬میں کیا کھاؤں گا تو وہ‬
‫بوال کردی نہ وہی بات اوہ یار‬
‫میں صبح ایک پراٹھا ھی کھاتا‬
‫ھوں تو پھر میں بوال دوسرا‬
‫پھرکیوں الئی ھے گالبو تو‬
‫شاہد بوال شانی تو واقعی‬
‫کمینہ ایں اب ساری باتیں‬
‫پوچھے گا تو پھر میں بوال کہ‬
‫بتادو نہ پھرمیں نے پراٹھا‬
‫دھی کیساتھ کھاتے ھوۓ کہا‬
‫تو وہ بوال یار جس دن میں‬
‫کھیتوں میں جلدی آجاتا ھوں‬
‫تو گالبو ناشتہ لیکر آتی ھے اور‬
‫ایک پراٹھا وہ کھاتی میرے‬
‫ساتھ میں نے جھٹ سے اپنا‬
‫ہاتھ سے نوالہ چنگیر میں رکھ‬
‫کر کہا مطلب میں تمہاری‬
‫اس‪ ....‬ہیر‪.....‬سلیٹی کا حصہ‬
‫کھارہا ھوں‪  ‬شاہد بوال یار تم‬
‫کھاؤ‬
‫وہ تو گھر جاکر کھالے گی میں‬
‫بوال کہ تم سے بہت پیار کرتی‬
‫ھے پھر تو یہ تو شاہد بوال ہاں‬
‫یار بچپن کی دوست ھے میری‬
‫اس لیئے بہت انڈر سٹینگ ھے‬
‫اس کیساتھ تو میں بوال تم نے‬
‫لی اسکی کہ نہیں تو شاہد‬
‫مسکرا کر بوال ابھی تک تو‬
‫نہیں لی اسکی پر ھم کافی دفع‬
‫بوس وکنار ھوچکے ھیں‬
‫پرسوں میری سالگرہ ھے تو‬
‫اس نے وعدہ کیا ھے کہ وہ اس‬
‫رات اپنے کنوارے پن کا تحفہ‬
‫مجھے دیگی میں بوال واہ بھئ‬
‫‪ ‬تیری‪  ‬تو موجیں ھیں تو‬
‫شاہد بوال شانی تم نے بھی تو‬
‫اپنی زمینوں کے مجارے کی‬
‫بچیاں تاڑ رکھی ھیں وہ تجھے‬
‫نظر نہیں آتیں تو میں بوال یار‬
‫تیرا منہ بھی ان سے میٹھا‬
‫کروا دوں گا پہلے تم مجھے‬
‫ایک بات سچ سچ بتادے بس‬
‫میں بہت ٹینشن میں ھوں تو‬
‫شاہد میرے ماتھے پر پڑی‬
‫شکنیں دیکھ کر بوال شانی یار‬
‫تم میرے بھائی ھو بتاؤ کیا‬
‫پریشانی ھے تجھے میں سچ‬
‫ھی بتاؤنگا‬
‫تو میں بوال شاہد یار تم اس‪ ‬‬
‫دن بول رھے تھے کہ تم نے تین‬
‫لڑکیوں کی ٹانگیں اٹھائی ھیں‬
‫ان میں شامل ایک‪  ‬تو نادیہ ھے‬
‫اور دوسری لبنی ھے بھال‬
‫تیسری کون ھے تو شاہد سر‬
‫پکڑ کر بیٹھ گیا اور بوال لو جی‬
‫کھودا پہاڑ اور نکال چوہا میرے‬
‫شانوں پر ہاتھ مارکر مسکرانے‬
‫لگا دور سے سبزی توڑتے ھوۓ‬
‫گالبو بھی ھماری طرف دیکھنے‬
‫لگی تب شاہد بوال بھال اس‬
‫بات کیساتھ تیرا کیا لینا دینا‬
‫تو میں بوال یار وہ میں تجھے‬
‫بعد میں بتادوں گا‬
‫پہلے تم اس بدبخت کانام‪ ‬‬
‫بتادو تو شاھد بوال اسطر ح‬
‫مت کہو تم وہ بد بخت نہیں‬
‫ھے‪  ‬میں بوال پھر کون ھے وہ‬
‫تو شاہد بوال یار وہ ہماری‬
‫پڑوسن ھے نہ ڈاکٹر مناہل‬
‫کاظمی تم اسے تو جانتے ھی‬
‫ھو میں بوال ہاں کیا ھوا اسے‬
‫تو شاہد بوال اسکو شادی کے‬
‫ایک سال بعد پریگنٹ کیا‬
‫تھامیں نے تو میں بوال وہ تو‬
‫بہت معصوم لگتی ھے اور وہ‬
‫تو لیڈی ڈاکٹر ھے تم اسکے‬
‫پاس کیسے چلے گئے تو شاہد‬
‫بوال یار اس نے مجھے قسم دی‬
‫‪....‬تھی کہ‬
‫تم نے اس بات کا ذکرنہیں کرنا‪ ‬‬
‫تو میں نے یہ بات اب تک کسی‬
‫سے بھی نہیں کہی ھے اور آج‬
‫تک ہمارے مراسم قائم و دائم‬
‫ھیں اور وہ میرا ایک بچہ بھی‬
‫پیدا کر چکی ھے میں سر‬
‫کجھاتے ھوۓ بوال یہ سب ھوا‬
‫کیسے تو وہ بوال اس دن جب‬
‫اس کے کلینک پر میں خون‬
‫دینے کے بہانے گیا تھا اور یہ‬
‫سب کہانی کو ترتیب دینے‬
‫والی بھی ہماری دوست لبنی‬
‫ھی ھے اس نے سب سے پہلے‬
‫میری مناہل کیساتھ پر فون پر‬
‫بات کروائی اور پھر مناہل نے‬
‫مجھے کافی دن کی بات چیت‬
‫پر اپنا نام بتایا اور لبنی‬
‫کاحوالہ دیکر کہا کہ میں نے‬
‫تجھے دیکھا ھوا ھے اور میں‬
‫اپنے شوہر سے پریگنٹ نہیں‬
‫ھوناچاہتی کیونکہ وہ چھوٹے‬
‫قد کا ایک کاال سا شخص ھے‬
‫میں شاہد کی بات سن کر بوال‬
‫یار کیا بات ھے تو پھر اس نے‬
‫کالے شخص سے شادی کیوں‬
‫کی ھے تو شاہد میری الجھن‬
‫‪...‬کو سلجھاتے ھوۓ بوال‬
‫یار ان کے ہاں خاندان سے باہر‪ ‬‬
‫شادی کرنے کا‪  ‬رواج نہیں ھے‬
‫اس لئیے اس نے فون پر مجھے‬
‫پرکھا اور قابل اعتماد دوست‬
‫مل جانے پر مجھے اس نے اپنے‬
‫کلینک پر بالیا اور پھر اپنا‬
‫جسم مجھے سونپ دیا قسم‬
‫سے یار ایسی عورت میں نے آج‬
‫تک نہیں دیکھی یار اس کے‬
‫شرم و حیا نے ھی بہت مزہ دیا‬
‫تھا‬
‫میں بوال پھرکیسے چودا اسکو‬
‫تم نے تو شاہد بوال کہ یار میں‬
‫جب ایک مریض کو خون دینے‬
‫کے بہانے اسکے کلینک گیا تو‬
‫اسکی نرس نے مجھے اوپر والے‬
‫پورشن میں ایک روم‪  ‬میں‬
‫بھیج دیا میں اندر گیا اور بیڈ‬
‫پر جاکر بیٹھ گیا تب روم کا‬
‫ڈور کھال اور مناہل نرس کے‬
‫سفید شرٹ اور پاجامے‬
‫کیساتھ آئی اور میں نے کچھ‬
‫دیر اسکو پیار کیا اور پھر وہ‬
‫بولی کہ شاہد میں تمہارے‬
‫جیسا بچہ جنم دینا چاھتی‬
‫ھوں اور شرم سے اس نے اپنا‬
‫چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپالیا‬
‫میں نے اسکو بوال کہ چلو اپنے‬
‫کپڑے نکال دو تو وہ بولی تم‬
‫یہ گرم گرم دودھ پیو میں‬
‫فیلڈنگ سیٹ کرکے آتی ھوں‬
‫میں دودھ پی کراسکا انتظار‬
‫کرنے لگا اور میرا لنڈ تپ کا لوہا‬
‫بن چکا تھا کوئی آدھے گھنے‬
‫بعد وہ آئی اب وہ سرخ کلرکی‬
‫نائٹی پہن کر روم میں آئی تو‬
‫کسی پری سے کم نہیں لگ رھی‬
‫‪ ...‬تھی‬
‫شاہد بوال جب میں نے مناہل کو‬
‫پوری طر ح ننگا کر دیا تو اس‬
‫نے شرماتے ھوۓ اپنی حجاب‬
‫کو اپنے چہرے پر رکھ کر کہا‬
‫شاہد تم پہلے مرد ھو جسے نے‬
‫میرا وجود اس حالت میں‬
‫‪   ‬دیکھا اور پھر ایک شعر پڑھا‬
‫‪  ‬‬
‫اپنے احساس سے چھو کر ‪ ‬‬
‫‪    ‬مجھے صندل کردو‬
‫اسطر ح کرو محبت کی ‪ ‬‬
‫برسات اور مجھے مکمل کردو‬
‫شاہد بوال جب ڈاکٹر مناہل لیٹ‬
‫گئ تو میں نے اسکی گوری‬
‫گوری رانوں کو چومنا شرو ع‬
‫کردیا وہ سسکیاں بھرتے ھوۓ‬
‫میرے بالوں میں ہاتھ پھیرنے‬
‫لگی میں اسکی کالے رنگ کی‬
‫پینٹی اسکی ٹانگوں سے نکال‬
‫دی اور میرے حوش گم ھوگئے‬
‫جب میں نے ایک شادی شدہ‬
‫لڑکی کی اتنی تنگ اور پنک‬
‫چوت کا نظارہ کیا‬
‫شاہد بوال میں نے اپنا ہاتھ بڑھا‬
‫کر اسکی کلین شیو چوت کے‬
‫پنک لبوں پر پھیرا اور چوت‬
‫کے لبوں کے درمیان ایک چھوٹا‬
‫سا سوراخ نظرآیا جو اندر سے‬
‫گالبی چمک مار رہا تھا میں نے‬
‫اسکی چوت میں اپنی مڈل‬
‫فنگر ڈال دی اور خود اسکے‬
‫گورے گورے مموں پر ٹوٹ پڑا‬
‫اور اسکے نپل چوسنے لگا‬
‫مناہل نے اب اپنی ٹانگیں پوری‬
‫طر ح سےکھول دیں تھیں اور‬
‫میرالن اسکی نرم چوت کے‬
‫لبوں کو چوم کر اندر چلے جانے‬
‫کی اجازت مانگ رہا تھا تب‬
‫مناہل بولی سس شش شش‬
‫شاہد‪  ‬اب مت تڑپاؤ مجھے اور‬
‫پرفامنس دو میرے شوہر حیدر‬
‫نے تو کبھی اتنا پیار نہیں دیا‬
‫تھا آج‪  ‬تمہارا پیار اور تمہاری‬
‫مردانگی دونوں کا امتحان ھے‬
‫شاہد بوال میں نے اسے کہا میں‬
‫تمہاری گوری چوت اور تمہارے‬
‫بدن پر فدا ھوگیا ھوں تو ڈاکٹر‬
‫مناہل میرے منہ چوم کر بولی‬
‫میں بھی فدا ھوں اس چھوٹے‬
‫‪ ‬کسان کی باڈی پر‬
‫‏مناہل نے میرا لن پکڑ کر اپنی‬
‫چوت پر رکھا اور بولی شاہد‬
‫چل اب ہل چال کر اپنا بیج بو‬
‫دے اس کھیتی میں اور مجھے‬
‫پریگنٹ کرو میں نے اپنے شوہر‬
‫کو کنڈوم استعمال کرواتے‬
‫ھوۓ بچہ پیدا نہیں کرنے دیا‬
‫کیونکہ میں اپنا ھونے واال بچہ‬
‫تمہارے جیسا گھبرو جوان‬
‫دیکھنا چاھتی ھوں نہ کہ حیدر‬
‫‪ ‬جیسا کاال‬
‫‏شاہد_بوال میں نے اسے کہا‬
‫میڈم اگر ایک بار کرنے سے بچہ‬
‫پیدا نہ ھوا تو مناہل بولی کہ‬
‫آپکی پرفامنس اچھی رھی تو‬
‫آپکو بار بار موقع دوں گی تم‬
‫تو مجھ سے بھی جوان ھو‬
‫امید ھے تم مجھے جلد پریگنٹ‬
‫کر دو گے چلو اب دھیرے‬
‫دھیرے اپنا گھوڑے جیسالنڈ‬
‫میری چوت کے سنگھم میں‬
‫اتار دو اور میرا دامن خوشیوں‬
‫سے بھردو‬
‫وہ اپنی ٹانگیں کھول کر اپنی‬
‫چوت کو اچھالنے لگی اور میں‬
‫نے اپنی کمر کو ایک زور دار‬
‫جھٹکا دیا اور میرے لنڈ نے‬
‫مناہل کی چوت کے لبوں کو‬
‫چوم کر اپنی ٹوپی اندر سما کر‬
‫سالمی دی مناہل ایک دم کانپ‬
‫‪...‬کر رہ گئ اور‬
‫ڈاکٹر مناہل بولی‬
‫آؤچ‪.......‬شاھد بہت موٹا ھے‬
‫آہ اف مار ڈاال تم نے شاہد نے‬
‫ایک اور جھٹکامارا اور اسکا‬
‫آدھالنڈ مناہل کی نرم چوت کے‬
‫تنگ راستوں کو وسیع کرتا ھوا‬
‫اندر تک چال گیا‬
‫ڈاکٹر مناہل میرے لن کو سہی‬
‫طرح سے دیکھ نہیں پارھی‬
‫تھی ۔۔‬
‫میں نے ‪.‬ڈاکٹر مناہل کی‬
‫ٹانگوں کو تھوڑا سا کھوال اور‬
‫ٹوپا پھدی کے لبوں میں رکھا‬
‫اور‪  ‬کمر کو پکڑ کر گھسا مارا‬
‫تو کافی لن ‪.‬ڈاکٹر مناہل کی‬
‫گیلی پھدی میں چال گیا‪  ‬مناہل‬
‫نے آہہہہہہہہہہہہہ‪.‬شاھد کرتے‬
‫ھوے میرے کندھوں کو‬
‫مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔‬
‫اور سیییییی کرتے ھوے بولی‬
‫آرااااممممممم سے ‪.‬شاھد درد‬
‫ھورھا ھے ۔‬
‫میں گھسا مار کر ادھر ھی رک‬
‫گیا مجھے اس پوزیشن میں‬
‫سہی طرح سے کھڑا نہیں ھوا‬
‫جارھا تھا ۔‬
‫میں نے لن واپس کھینچا تو‬
‫‪.‬ڈاکٹر مناہل کے منہ سے پھر‬
‫ھاےےےےےے نکال۔‬
‫اور میں نے جھک کر ‪.‬ڈاکٹر‬
‫مناہل کا پاجامہ اسکے پیروں‬
‫میں کر کے ایک پیر سے نکال‬
‫دیا۔۔‬
‫ڈاکٹر مناہل بولی‪.‬شاھد ‪.‬یہ کیا‬
‫کررھے ھو اگر کوئی آگیا تو‬
‫میں کیسے اتنی جلدی پاجامہ‬
‫پہنوں گی ۔۔‬
‫مگر مجھ پر تو جنون سوار‬
‫تھا۔۔‬
‫میں نے کہا یار ایسے ڈر رھی‬
‫ھو‪  ‬ادھر کس نے آنا ھے ۔۔‬
‫اور ساتھ ھی میں نے ‪.‬ڈاکٹر‬
‫مناہل کی ایک ٹانگ پاجامے سے‬
‫آزاد کردی اور پھر اسکی ٹانگ‬
‫اٹھ کر اوپر کی تو ‪.‬ڈاکٹر‬
‫مناہل نے دونوں بازو پیچھے کر‬
‫کے ۔‬
‫اب پوزیشن کچھ بہتر ہوگئی‬
‫‪ ‬تھی‬
‫میں نے ‪.‬ڈاکٹر مناہل کی ٹانگ‬
‫اوپر کی اور لن پکڑ کر پھر‬
‫پھدی کے پاس کیا اور پھر ایک‬
‫گھسا مار کر لن آدھا اندر کر‬
‫دیا ۔۔‬
‫ڈاکٹر مناہل پھر‬
‫ھاےےےےےے امیییییی کر‬
‫کے سر دائیں بائیں‪  ‬مارنے لگ‬
‫گئی ۔۔‬
‫میں نے ایک ھاتھ ‪.‬ڈاکٹر مناہل‬
‫کی کمر پر رکھ کر اسکی کمر‬
‫کو پکڑا ھوا تھا اور دوسرے‬
‫ھاتھ سے اسکی ایک ٹانگ‬
‫اٹھائی ھوئی تھی ۔۔‬
‫لن آدھا پھدی کے اندر تھا۔۔۔۔‬
‫میں نے لن تھورا سا پیچھے‬
‫کھینچا اور پھر گھسا مارا تو‬
‫لن سارا ھی اندر چال گیا۔۔‬
‫ڈاکٹر مناہل کے منہ سے ہلکی‬
‫سی چیخ نکلی اور ‪.‬ڈاکٹر‬
‫مناہل اپنی آواز کو دباتے ھوے‬
‫مجھ سے ٹانگ چھڑوانے کی‬
‫کوشش کرتے ھوے بولی‪.‬شاھد‬
‫۔۔‬
‫ھاےےےےےےےے مرگئی‪ ‬‬
‫اتنا بڑا ھے تمہارا۔۔۔ھاےےےے‬
‫میرا اندررررر گیا‬
‫ھاےےےےےے‪  ‬باہر نکالو‬
‫اففففدفففف‪.‬شاھد‬
‫آہہہہہہہہہہہہہہہ‬
‫مگر میں نے اسکی پرواہ کیے‬
‫بغیر اسکی ٹانگ کو مضبوطی‬
‫سے پکڑا اور گھسے مارنے لگ‬
‫گیا۔۔‬
‫ڈاکٹر مناہل ھاےےےےے آءء‬
‫آہہہہہہہیہ امممممممممن‬
‫اففففففف کرتے ھوے گھسے‬
‫برداشت کررھی تھی ۔۔‬
‫مجھ سے اس پوزیشن مین‪.‬‬
‫بھی چدائی کرتے ھوے تھکن‬
‫محسوس ھورھی تھی اور مزہ‬
‫بھی کم آرھا تھا ۔۔‬
‫میں نے چند گھسوں کے بعد‬
‫ھی ‪.‬ڈاکٹر مناہل کی ٹانگ‬
‫چھوڑی اور لن باھر نکاال ۔‬
‫تو ‪.‬ڈاکٹر مناہل نے لمبا‬
‫سانسسسس لیا۔۔‬
‫اور اففففففففف‪.‬ڈاکٹر مناہل‬
‫شاھد یاررررررر تم نے تو مار‬
‫ھی ڈاال کہہ کر سیدھی کھڑی‬
‫ھوگئی ۔۔‬
‫میں نے اسکی بات کا کوئی‬
‫جواب نہ دیا اور اسکی کمر کو‬
‫پکڑ کر اسکا منہ دوسری طرف‬
‫کرنے لگا تو ‪.‬ڈاکٹر مناہل بولی‬
‫اب کیا ھے ۔۔‬
‫میں نے کہا یار ایسے مجھ سے‬
‫ھو نہیں رھا تم دوسری طرف‬
‫منہ کر کے سیٹ ک‬
‫پر ہاتھ رکھ کر گھوڑی بن جاو‬
‫۔۔‬
‫ڈاکٹر مناہل بڑ بڑ کرتی دوسری‬
‫طرف منہ کر کے سیٹ پر ھاتھ‬
‫رکھ کر جھکی تو اسکی گانڈ‬
‫باہر کو نکل آئی ۔۔‬
‫پکڑ کر پھر اوپر کر کے ‪.‬ڈاکٹر‪ ‬‬
‫مناہل کی گانڈ ننگی کی اور‬
‫اسکے کندھے کو پکڑ کر اسکو‬
‫مذید جھکنے کا کہا۔۔‬
‫تو ‪.‬ڈاکٹر مناہل سیٹ پر کہنیاں‬
‫رکھتے ھوے ۔‬
‫اپنا ماتھا‪  ‬پر ٹکا لیا جس سے‬
‫اسکی گانڈ کافی باہر کو نکل‬
‫آئی اور کمر اندر کی طرف‬
‫‪ ‬چلی گئی‬
‫میں نے‪  ‬اپنی ٹانگوں کو ہلکا‬
‫سا خم دیا اور نیچے ھوکر لن‬
‫کو پکڑ کر پھدی میں اڈجسٹ‬
‫کیا تو ‪.‬ڈاکٹر مناہل بولی شاھد‬
‫پلیزززززز آرام سے کرنا تمہارا‬
‫بہت بڑا ھے میری پہلے ھی جان‬
‫نکال کر رکھ دی تم نے میں‬
‫بہت نازک ھوں ۔۔‬
‫میں نے ہمممم کیا اور پھدی‬
‫میں لن سیٹ کر کے ہلکا سا‬
‫پش کیا تو ٹوپا پھدی میں‬
‫گھس گیا۔‬
‫اک مالقات کا جادو کہ اترتا ہی‬
‫‪ ‬نہیں‬
‫تری خوشبو مری چادر سے‬
‫نہیں جاتی ہے‬
‫ڈاکٹر مناہل پین میحسوس‬
‫کرتے ھوے تھوڑا سا‬
‫کسمکسائی ۔‬
‫تو میں نے اپنی پوزیشن‬
‫مضبوط کر کے ‪.‬ڈاکٹر مناہل کی‬
‫کمر کو پکڑا اور دوسرا گھسا‬
‫مارا تو لن آدھا اندر چال گیا ۔۔‬
‫ڈاکٹر مناہل پھر‪.‬‬
‫ھاےےےےےے کر بولی‪.‬شاھد‬
‫۔آراممممم سےےےےےےے۔‬
‫میں نے لن کو پیچھے کھینچا‬
‫اور پھر تھوڑا ذوردار گھسا‬
‫مارا تو لن سارا اندر اتر گیا اور‬
‫‪.‬ڈاکٹر مناہل پھر اپنے چیخ کو‬
‫دباتے ھوے آگے کو ھونے کی‬
‫کوشش کرتے ھوے بولی ۔۔‬
‫ماررر ڈاالاااا شخخخ شششش‬
‫ششش تتت تت تت تم‪  ‬شاھد‬
‫ظالم ۔۔۔‬
‫ھاےےےےےے بہت درد‬
‫کرادی یاررررررشششششش‬
‫شششششش شاھد‬
‫میں نے اسکی پرواہ کیے بغیر‬
‫گھسے مارنے شروع کردیے ۔‬
‫ڈاکٹر مناہل میرے ہر گھسے پر‪.‬‬
‫ھاےےےےے امی‬
‫ھاےےےےے امی آہہہہہہہ‬
‫آہہہہہہہ کررھی تھی جس سے‬
‫مجھے مذید جوش چڑھ رھا‬
‫تھا اور میں لگاتار گھسے ماری‬
‫جارھا تھا۔۔۔‬
‫تقریبًا ‪  ‬دس منٹ چودنے کے بعد‬
‫‪.‬ڈاکٹر مناہل پھر چھوٹنے والی‬
‫ھوگئی اور سسکاریاں مارتے‬
‫ھوے‪  ‬گانڈ پیچھے کر کر کے لن‬
‫اندر لینے لگ گئی ۔۔‬
‫اور ساتھ ۔‬
‫میں آہ آہ آہ یس یس یس یس‬
‫یاررر‪ ..‬شششش شاھد سارا ای‬
‫کردو سارااااا ایییییییی ہاں‬
‫ہاں ایسے ھی آہ آہ آہ اویییییی‬
‫افففففف ممممممم آہہہہہہہہ‬
‫مممممم گگگگگگئییییی ررر‬
‫کرتے ھوے ‪.‬ڈاکٹر مناہل نے‬
‫پھدی کو سکیڑ کر لن کے گد‬
‫گرفت سخت کی اور چڈوں کو‬
‫آپس میں مال کر جسم کو‬
‫جھٹکے مارتے ھوے ۔‬
‫لو یو یارررر لو یو یاررررررر تم‬
‫میرےےےےےے ہوووووووو‬
‫کرتے ھوے پھدی سے منی کا‬
‫بہاو شروع کردیا ۔۔۔‬
‫میں وہیں سٹاپ کرگیا ۔۔‬
‫اور ‪.‬ڈاکٹر مناہل کے چھوٹنے کا‬
‫انتظار کرنے لگ گیا۔۔اور پھر وہ‬
‫میرے ساتھ چمٹ کر بولی‬
‫شاھد بہت مزہ دیا تم نے اور‬
‫میں نے اتنا ارگیزم پہلی بار پایا‬
‫ھے میں تمہاری نوکر اور تسی‬
‫اج توں میرے سرکار ھمارے‬
‫بات ختم ھوتی اس سے پہلے‬
‫گالبو واپس اگئی اور برتن‬
‫اٹھاتے ھوئے بولی ساری لسی‬
‫پی گئے نیں شودے جئے ھم‬
‫ھنس ھنس کر لوٹ پوٹ ھو‬
‫گئے اور وہ برتن سمیٹ کر‬
‫گاؤں کی طرف چل دی‬
‫میں ڈاکٹر مناہل اور شاہد کی‬
‫کہانی سن کر شاہد کو بوال کہ‬
‫یار شکر ھے کہ تم نے نادیہ لبنی‬
‫کے بعد تیسری چدائی ڈاکٹر‬
‫مناہل کی ورنہ میں تو کچھ‬
‫اور ہی سمجھا تھا شاہد بوال‬
‫ذیشان میں سمجھا نہیں آپ‬
‫کیا کہنا چاہ رھے ھیں‬
‫میں بوال شاہد یار میں سمجھ‬
‫رہا تھا کہ شاید تم نے لبنی‬
‫کیساتھ ساتھ انعم کو بھی‬
‫چودا ھو تو شاہد بوال نئیں‬
‫ذیشان یار انعم کو میں نے بہت‬
‫تنگ کیا بہت الئن ماری پر اس‬
‫نے مجھے گھاس تک نہیں ڈالی‬
‫بلکہ وہ ایک اچھے دوست کے‬
‫ناطے میرا بہت احترام کرتی‬
‫ھے اور میں بھی اسکا بہت‬
‫احترام کرتا ھوں‬
‫شاہد میرا کان کھینچتے ھوۓ‬
‫بوال یار اب تم بتاؤ تم ان سب‬
‫باتوں پر بہت فوکس کر رھے‬
‫ھو تمہیں ان ساری باتوں سے‬
‫کیا لینا دینا ھے‪  ‬تو میں بوال یار‬
‫میں اور انعم ایک دوسرے کو‬
‫بہت پسند کرتے ھیں اور ھماری‬
‫مالقاتیں بھی ھوچکیں ھیںیار‬
‫ھوسکتا ھے ھماری محبت کسی‬
‫رشتے میں بندھ جاۓ میں اسی‬
‫سلسلے میں آپ سے پوچھ‬
‫‪ ‬شاہد میرا کان‬
‫کھینچتے ھوۓ بوال یار‬
‫اب تم بتاؤ تم ان سب باتوں‪ ‬‬
‫پر بہت فوکس کر رھے ھو‬
‫تمہیں ان ساری باتوں سے کیا‬
‫لینا دینا ھے‪  ‬تو میں بوال یار‬
‫میں اور انعم ایک دوسرے کو‬
‫بہت پسند کرتے ھیں اور ھماری‬
‫مالقاتیں بھی ھوچکیں ھیںیار‬
‫ھوسکتا ھے ھماری محبت کسی‬
‫رشتے میں بندھ جاۓ میں اسی‬
‫سلسلے میں آپ سے پوچھ رہا‬
‫تھا‬
‫شاہد_بوال یار ذیشان انعم‬
‫شہزادی ایک سلجھی ھوئی‬
‫لڑکی ھے وہ اگر تمہیں چاہتی‬
‫ھے تو تم خوش قسمت انسان‬
‫ھو اسے دھوکہ مت دینا اور‬
‫اپنی محبت کو کسی فیصلے پر‬
‫پہنچاؤ میں بوال اچھا یار تم نے‬
‫لبنی کو کیسے لی پہلی بار اور‬
‫وہ تو بہت چاالک ھے اور بہت‬
‫اتھری گھوڑی ھے اور تم نے‬
‫کیسے اس پر سواری کی تو‬
‫شاہد بوال کہ یار ایک دن دوپہر‬
‫کا وقت تھا اور وہ کھیتوں‬
‫میں امرود توڑنے آئی تھی تو‬
‫اکیلی دیکھ کر میں نے اسکو‬
‫‪ ‬پکڑ لیا‬
‫مجھے یہاں تک معلوم تھا کہ‬
‫اسکا ایک کزن جسے سائیں‬
‫سائیں کہتے ھیں وہ دوپہر کو‬
‫لبنی کو ملنے آتا تھا ایک دن‬
‫میں نے تھوڑا پہلے جاکر انکی‬
‫پیش قدمی جاری رکھی اور‬
‫میں ان دونوں کو پکڑنے میں‬
‫کامیاب ھوگیا میں تھپکی دیتے‬
‫ھوۓ شاہد کو بوال کہ انعم کو‬
‫اسکی ساری کہانی کا معلوم‬
‫ھے کہ نہیں‬
‫شاہد بوال کہ پکڑے جانے پر‬
‫لبنی بہت تڑپی پر میں نے کہا‬
‫کہ میں نے تمہاری اور سائیں‬
‫کی کس کرتے ھوۓ ویڈیو‬
‫بنالی ھے سائیں تو موقع سے‬
‫فرار ھوگیا اور لبنی کو میں نے‬
‫کہا کہ تم نے الزمی سائیں کو‬
‫دی ھوگی تو وہ بولی نہیں دی‬
‫میں نے قسم سے شاہد میں نے‬
‫ایسا کچھ بھی نہیں‬
‫کیا تو میں نے کہا میں کیسے‬
‫مان جاؤں کہ تم سیل پیک ھو‬
‫تو وہ بولی شاہد قسم سے میں‬
‫سیل پیک ھوں اور سائیں‬
‫کیساتھ صرف کس تک ھی کیا‬
‫ھے میں نے میں نے اسے پکڑ کر‬
‫ایک فرنچ کس کی اور بوال‬
‫دیکھو لبنی اگر تم نے شلوار‬
‫اتار کر ویری فکیشن نہ کروائی‬
‫‪...‬تو سمجھ لینا‬
‫تمہاری ویڈیو وائرل ھوگئ وہ‪ ‬‬
‫ویڈیو کا سن کر کانپ گئ اور‬
‫بولی کہ اچھا میں اپنی شلوار‬
‫اتار کردکھا دیتی ھوں پر تم‬
‫مجھے چود نہ دینا ایسے اکیلی‬
‫دیکھ کر تو میں اسکا ہاتھ‬
‫پکڑکر اسے اپنی طرف کھینچ‬
‫کر بوال میں کچھ نہیں کہوں گا‬
‫تجھے تم جتنی جلدی ویری‬
‫فکیشن کروادوگی اتنی جلدی‬
‫گھر واپس جاسکوکیا تو میں‬
‫نے کہا میں کیسے مان جاؤں کہ‬
‫تم سیل پیک ھو تو وہ بولی‬
‫شاہد قسم سے میں سیل پیک‬
‫ھوں اور سائیں کیساتھ صرف‬
‫‪....‬کس تک ھی کیا ھے‬
‫میں نے میں نے اسے پکڑ کر‪ ‬‬
‫ایک فرنچ کس کی اور بوال‬
‫دیکھو لبنی اگر تم نے شلوار‬
‫اتار کر ویری فکیشن نہ کروائی‬
‫تو سمجھ لینا تمہاری ویڈیو‬
‫وائرل ھوگئ وہ ویڈیو کا سن‬
‫کر کانپ گئ اور بولی کہ اچھا‬
‫میں اپنی شلوار اتار کردکھا‬
‫دیتی ھوں پر تم مجھے چود نہ‬
‫دینا ایسے اکیلی دیکھ کر تو‬
‫میں اسکا ہاتھ پکڑکر اسے اپنی‬
‫طرف کھینچ کر بوال میں کچھ‬
‫نہیں کہوں گا تجھے تم جتنی‬
‫جلدی ویری فکیشن کروادوگی‬
‫اتنی جلدی گھر واپس‬
‫‪ ‬جاسکوگی‬
‫مہرہ فلم کی اداکارہ روینہ‬
‫ٹنڈن جیسے نخرے کرنے والی‬
‫لبی بولی اچھا میں کیسے ویری‬
‫فکیشن کرواؤں تو میں بوال تم‬
‫اپنی شلوار اتار کر اپنی ٹانگیں‬
‫کھول کر دکھاؤگی کہ تم سیل‬
‫پیک ھو یاپھر عورت بن چکی‬
‫ھو لبنی بہت دباؤ میں تھی‬
‫پچھلے پندرہ منٹ سے‪  ‬تو جلد‬
‫ھی اس نے میری شرط مان لی‬
‫کالی شلوار قمیض میں اسکا‬
‫گورا وجود کسی بھی جوان‬
‫کی دھڑکنوں کو بے ترتیب‬
‫کرسکتا تھا تو میں بوال یار‬
‫شاہد تم بہت ظالم ھو ایک نہ‬
‫سنی تم نے اسکی اور اسکی‬
‫شلوار اتار دی تو شاھد بوال‬
‫ذیشان یار وہ شریف ھوتی تو‬
‫پھر اور بات تھی اسکا شکار‬
‫میں نہ کرتا تو پھر سائیں‬
‫صاحب کر لیتے تو ھم خالی راہ‬
‫دیکھتے ھی رہ جاتے میں بوال‬
‫کہ بات تو تمہاری بہت‬
‫زبردست ھے تو پھر کیسے رام‬
‫کیا اس اتھری گھوڑی کو‪  ‬یا‬
‫‪....‬پھر چڑیا جال سے نکل گئ‬
‫شاہد بوال چڑیا پھنسی تو اپنی‬
‫مرضی سے تھی پر نکلنا میری‬
‫مرضی سے تھا اس نے میں نے‬
‫اسے لٹا کر دیکھا تو اسکی‬
‫گوری چوت کے لب آپس میں‬
‫ملے ھوۓ تھے اور پھر میں نے‬
‫اپنی انگلیوں سے اسکی چوت‬
‫کا چھوٹا سا سوراخ دیکھا‬
‫لبنی کے جسم کو تو شلوارمیں‬
‫میرا لوڑا تن کر کھڑا ھوگیا اور‬
‫‪ ....‬میں اسے بوال‬
‫ایسے پتہ نہیں چل رہا‪  ‬لبنی‬
‫جی کچھ اندر ڈال کر ھی پتہ‬
‫چلے گا میں نے اپنی فنگر سے‬
‫اسکی چوت کا تاج کو مسلنا‬
‫شروع کر دیا تو لبنی کی‬
‫مزاحمت دم توڑنے لگی اور میں‬
‫نے اسے کہا کہ میں اپنالنڈ‬
‫تمہاری چوت پر رگڑتا ھوں اگر‬
‫تمہارا پانی نکلنا شرو ع ھوگیا‬
‫تو آپ نے ضرور سیکس کیا‬
‫ھوگا اور اگر آپکی چوت‬
‫سوکھی رھی تو پھر تم بے گنا‬
‫‪.....‬ہ ھو‬
‫‏شاہد_بوال کہ میں نے اپنالنڈ‬
‫اسکی چوت پر رگڑناشروع‬
‫کردیا اور اسکی سسکاریاں اب‬
‫بڑھنے لگیں اسکی کنواری کلین‬
‫شیو چوت اب پانی چھوڑنے‬
‫لگی‏‪#‬شاہد_بوال کہ میں نے‬
‫اپنالنڈ اسکی چوت پر‬
‫رگڑناشروع کردیا اور اسکی‬
‫سسکاریاں اب بڑھنے لگیں‬
‫اسکی کنواری کلین شیو چوت‬
‫‪....‬اب پانی چھوڑنے لگی تھی‬
‫میں ‪.‬لبنی کی زبان چوس رہا‬
‫تھا اور ساتھ ساتھ ‪.‬لبنی کے‬
‫سائز‪32‬ممے دبا رہا تھا‪..‬لبنی‬
‫پوری طرح گرم ھو چکی تھی‬
‫اور ‪.‬لبنی نے مجھے کہا ‪.‬شاہد‬
‫کپڑے اتارو میری پھدی چاٹ‬
‫کر چودو میری پھدی۔‬
‫میں نے اپنے سارے کپڑے اتار‬
‫دیے اور ‪.‬لبنی کی شلوار اتارنے‬
‫کے بعد ‪.‬لبنی کی قمیض اور برا‬
‫بھی اتار دیا اور ‪.‬لبنی کے ممے‬
‫چوسنے لگا ‪.‬لبنی سسکیاں لے‬
‫رہی تھی اور مجھے کہہ رہی‬
‫تھی ‪.‬شاہد اور زور سے چوسو‬
‫میرے ممے زور زور سے چوسو‬
‫اور میں ‪.‬لبنی کے ممے زور سے‬
‫‪.‬چوس رہا تھا‬
‫میں نےاپنا لن لبنی کے ہاتھ‬
‫میں دیا اور ‪.‬لبنی نے فورًا منہ‬
‫میں لے کر چوسنا شروع کر دیا‬
‫آف ‪.‬لبنی کیا لن چوس رہی‬
‫تھی اور میں مزے سے پاگل ہو‬
‫چکا تھا‪ .‬میں نے ‪.‬لبنی کو کہا‬
‫چوس چوس کر میرے لن کی‬
‫‪ ‬منی اپنے منہ میں نکال دو‬
‫لبنی بنا رکے میرا ‪ 7‬انچ کا لن‬
‫منہ میں لے کر چوسے جارہی‬
‫تھی کہ اچانک میرے لن سے‬
‫منی کی پچکاریاں ‪.‬لبنی ‪.‬کے‬
‫منہ میں نکلنے لگی اور ‪.‬لبنی‬
‫میری ساری منی چاٹ کر کھا‬
‫گئی اور میرے لن کو چوس کر‬
‫صاف کر دیا اور بولی ‪.‬شاہد‬
‫میری پھدی چاٹو اب‬
‫میں نے لبنی کو لٹا دیا اور‬
‫‪.‬لبنی نے ٹانگیں کھول دی اور‬
‫کلین شیو رس بھری پھدی کا‬
‫گیال سوراخ میرے سامنے تھا‬
‫میں نے ‪.‬لبنی کی پھدی کے‬
‫سوراخ کو زبان سے چاٹ کر‬
‫صاف کیا اور پھر‪.‬لبنی کی‬
‫چوت کے سوراخ پورا منہ میں‬
‫لے کر چوسنا شروع کردیا اور‬
‫زبان ‪.‬لبنی کی چوت کے اندر‬
‫گھسا دی اور ‪.‬لبنی کی نمکین‬
‫چوت کا نمکین پانی پینے لگا‪.‬‬
‫کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد‬
‫‪.‬لبنی کی چوت نے بہت سارا‬
‫پانی چھوڑ دیا جسے میں نے‬
‫‪.‬پی لیا‬
‫لبنی بولی‪...‬شاہد مجھ سے‬
‫صبر نہیں ھورہا میری چوت‬
‫بہت پیاسی ہے اب ڈال بھی دو‬
‫‪.‬‬
‫میں نے ‪.‬لبنی کو لٹا دیا اور‬
‫دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنا ‪7‬‬
‫انچ کا لن ‪.‬لبنی کی گرم کنواری‬
‫پھدی کے سوراخ پر رکھ کر‬
‫زور دار گھسا مارا میرا لنڈ دو‬
‫انچ تک لبنی کی چوت میں‪ ‬‬
‫گھس گیا اور وہ درد کے مارے‬
‫تڑپ گئ اور بولی ششش‬
‫ششش شاہد ببب بس کر اب‬
‫اور نہیں میں نے ایک گھسہ اور‬
‫مارا تو میرا لنڈ لبنی کی‬
‫کنواری چوت کی سیل توڑتا‬
‫ھوا اندر تک‪  ‬چال گیا‪  ‬اف اااااہ‬
‫مممم مممم مممم میں مممم مر‬
‫گئ میں نے کچھ دیر اسکو‬
‫کس کیا وہ بھی مجھے کس‬
‫کرنے لگی جب وہ نارمل ھو‬
‫گئی تو میں نے اسکی چدائ‬
‫شروع کر کردی اور میرا آدھا‬
‫لن ‪.‬لبنی کی پھدی میں گھس‬
‫چکا تھا‪.‬لبنی نے مجھے اپنی‬
‫طرف کھینچا اور بولی‪..‬شاہد‬
‫زور سے چودو پورا لن اندر ڈالو‬
‫میری پیاسی پھدی میں اور‬
‫زور سے چودو‬
‫میں نے پورا لن‪..‬لبنی کی پھدی‬
‫میں ڈال دیا اور زور زور سے‬
‫چودنے لگا ‪.‬لبنی سسکیاں لے‬
‫رہے تھی اور میں زور زور سے‬
‫‪.‬لبنی کی پھدی چودے جارہا‬
‫تھا‪.‬میں نے پوچھا کہاں تک گیا‬
‫ھے تو وہ بولی میری ناف تک‬
‫گیا ھے اسکی چوت خون سے‬
‫الل ھو چکی تھی پر اب درد‬
‫کی جگہ شہوت نے لے لی تھی‬
‫اور ھم ایک ساتھ ڈسچارج‬
‫ھوگئے اور لبنی مجھے بولی‬
‫ایک بات بو لو شاہد میں بوال‬
‫جی پوچھو تو وہ بولی تم نے‬
‫ویری فکیشن کے بہانے سے‬
‫میری لے لی سہی کہا نہ تم‬
‫سارے بہانے میری چوت مارنے‬
‫کے کر رھے تھے تو میں نے کہا‬
‫تم بھی تو راضی تھی چدوانے‬
‫میں تب لبنی بولی اب اسکا‬
‫ذکر کسی اور سے مت کرنا میں‬
‫بوال بے فکر ھو جاؤ میری جان۔‬
‫ایک دن شام کو جب میں‬
‫کرکٹ کھیل کر واپس آرہا تھا‬
‫تب میں نے انعم کے گھر جانا‬
‫مناسب سمجھا کیونکہ دودھ‬
‫کے کچھ پیسے رہتے تھے تو‬
‫میں وہ ادا کرنے اپنی محبوبہ‬
‫انعم شہزادی کے گھر چال گیا‬
‫اور دروازے پر دستک دی تو‬
‫لبنی نے دروازہ کھوال اور‬
‫مجھے اندر آنے کا کہہ کر ڈور‬
‫کھول دیا اور میں اندر چال گیا‬
‫گھر میں چار سو خاموشی‬
‫تھی جب میں اندر روم میں‬
‫داخل ھونے لگا تو لبنی نے‬
‫مجھے اشارے سے صرف چپ‬
‫رہنے کا بوال اور اندر سے انعم‬
‫کی آواز آئی کہ لبنی کون تھا‬
‫دروازے پر تو لبنی نے کہا آپی‬
‫کوئی نہیں ھے بس ایسی ھی‬
‫تو وہ بولی ایسے ھی کی بچی‬
‫بار بار ڈور مت کھول پتہ بھی‬
‫ھے کہ امی ابو گھر پر نہیں‬
‫ھیں اور تم بار بار ڈور اوپن کر‬
‫رھی ھے‬
‫مجھے سن کر تسلی ھوئی کہ‬
‫چلو بھئ ذیشان میدان صاف‬
‫ھے اب تم اور تمہاری بنو اکیلے‬
‫میں دل دیاں گالں کراں گے‬
‫تیرے نال بہہ کے اکھ نال اکھ‬
‫نوں مال کے لبنی پردے کی اوٹ‬
‫سے میرے قریب ھوئی اور‬
‫بولی جیجا جی آپی آج اکیلی‬
‫ھے جی بھر کر الئن مارو آپی‬
‫پر تو میں بوال سالی بھی آدھے‬
‫گھر والی ھوتی ھے تمہارا‪  ‬اپنے‬
‫بارے میں کیا خیال ھے تووہ‬
‫بولی صدقے جاواں پر ہتھ نہ‬
‫آواں اور مسکرا کر بولی چلو‬
‫جی جاؤ سمرن جی لو اپنی‬
‫‪...‬زندگی‬
‫میں جب اندر گیا تو انعم الل‬
‫سوٹ اور سفید قمیض پہنے‬
‫ھوۓ بیڈ پر تکیئے سے ٹیک لگا‬
‫کر بیٹھی ھوئی تھی اور ارتغل‬
‫غازی دیکھ رھی تھی جو اسکا‬
‫پسندیدہ سیریل تھا شاید‬
‫سیزن ٹو چل رھا تھا وہ مجھے‬
‫دیکھ کر چونک گئ اور اپنے‬
‫سر پر ڈوپٹہ اوڑھتے ھوۓ بولی‬
‫جناب شانی صاحب تسی‬
‫کدوں آۓ تو میں بوال میں تو‬
‫ہر دم تمہارے پاس ھوتا ھوں‬
‫تم میرے پاس ھوتی ھو گویا‬
‫جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا‬
‫مجھے بولی کہ بیٹھ جاؤ غالب‬
‫صاحب آپکی یہی ادائیں تو‬
‫ہمارا دل لوٹ گئیں ھیں تو میں‬
‫اسے گلے لگا کر بوال تو پھر کرو‬
‫نہ اپنی ماں سے ھمارے رشتے‬
‫کی بات تو انعم بولی ذیشان‬
‫امی کو تو تم پہلے دن ھی‬
‫پسند آ گئے تھے جب میں نے‬
‫تمہارا تعارف اپنی کالس فیلو‬
‫کے طور پر کروایا تھا اسی دن‬
‫سے امی نے ابو کو کہا ھے کہ‬
‫لڑکا ہماری انعم بیٹی کو بہت‬
‫پسند ھے تو ابو بولی ھم جلد‬
‫بازی میں کوئی فیصلہ نہیں‬
‫کرسکتے میں نے دلیری دکھاتے‬
‫ھوۓ انعم کو قریب ترکیا اور‬
‫اسکے شربتی کانپتے ھوۓ‬
‫ھونٹوں پر اپنے ھونٹ چوم‬
‫لئیے اور اسکو کس کرنا شروع‬
‫کردیا اور وہ بے چاری لبنی کے‬
‫ڈر سے کچھ بول بھی نہ پائی‬
‫کیونکہ لبنی باہر ھی تھی جو‬
‫شاید ہماری جاسوسی کر رھی‬
‫تھی ھم نے ایک لمبے سپیل کی‬
‫فرنچ کس کی اور پھر اسکی‬
‫سانسیں تیز ھوگئیں اور وہ‬
‫مجھے بیڈ پر گرا کر خود باہر‬
‫چلی گئ میں اندر کمرے میں‬
‫بیٹھ کر حلیمہ سلطان اور‬
‫ارتعل کے رومانٹک‪  ‬سین کو‬
‫دیکھنے لگا ویسے ان دنوں خدا‬
‫اور محبت اور اتغل غازی کے‬
‫سیزن ٹو چل رھے تھے جسے‬
‫شائقین کی بڑی تعداد دیکھتی‬
‫تھی اور اب بھی دیکھتی ھے‬
‫خیر میں باہرکا نظارہ دیکھنے‬
‫کے لئیے جیسے ھی بیڈ سے اٹھا‬
‫تو باہر سے انعم آ گئ اس‪  ‬نے‬
‫ایک ٹرے میں کوک اور نمکو‬
‫رکھ کر لے آئی اور ایک گالس‬
‫میرے ہاتھ میں دے دیا اور‬
‫دوسرا خود پیتے ھوئی بولی‬
‫جی بتاؤ کیسے آنا ھوۓ آپکا تو‬
‫کولڈ ڈرنک کے سپ لیکر میں‬
‫بوال جناب یہ دودھ کے پیسے‬
‫دینے آیا ھوں میں نے انعم کو‬
‫دودھ کے پیسے‪  ‬دئیے اور اس‬
‫نے گن کر رکھ لئیے اور بولی‬
‫اتنی بھی کیا جلدی تھی شاہد‬
‫آجاتے پیسے بھی‪  ‬تو میں بوال‬
‫کہ اپنا حساب برابر رکھنا‬
‫چاھئیے زندگی کا کیا بھروسہ‬
‫اور ویسے بھی آپ لوگوں کو‬
‫ضرورت ھوگی میں بوال ویسے‪ ‬‬
‫انکل اور آنٹی نظر نہیں آرھے‬
‫کدھر گئے ھیں تو وۂ بولی کہ‬
‫ابو کو کارڈیالوجی ھسپتال‬
‫چیک کروانے گئے ھیں اور‬
‫دونوں صبح سبزیوں کے بیج‬
‫بھی لیکر آئینگے اور آج رات‬
‫شکرپڑیاں میں ابو اپنی بہن کے‬
‫گھر قیام کرینگے تو میں بوال‬
‫کہ وہ ادھر قیام کرینگے اور‬
‫پھر ھم آج رات ادھر حلیمہ کے‬
‫پاس قیام کرینگے تو انعم‬
‫مسکراتی ھوۓ بولی حلیمہ کو‬
‫بدنامی سے بہت ڈر لگتا ھے تم‬
‫اپنے گھر پر ھی رھو تو پھر‬
‫اچھا ھے ویسے بھی شادی کے‬
‫بعد میں تمہاری‪  ‬ھی رھونگی‬
‫تب تک ھم نامحرم ھیں لبنی‬
‫بولی آپی کچھ نہیں ھوتا آپ‬
‫ڈرو مت اور جیجا جی صبح‬
‫چلے جائینگے انعم بولی ذیشان‬
‫تم خود سوچو اسکا کیا ھے اگر‬
‫کسی نے آپکو دیکھ لیا تو پھر‬
‫کتنی بدنامی ھوگی ھمارے باپ‬
‫کا سر شرم سے جھک جاۓ گا‬
‫انعم کی یہ بات سن کر میں‬
‫گھر واپس آ گیا شام کا وقت‬
‫تھا شیال نے آج کڑی پکوڑے‬
‫بناۓ تھے ھم نے جی بھر کر‬
‫کھانا کھایا اور باہر واک کرنے‬
‫نکل گئے شیال‪  ‬سحر اور سلموں‬
‫ھم نے مونگ پھلی لی دکان سے‬
‫اور پھر انعم کے بازار میں سے‬
‫باہر نکلنے لگے تو میں نے دیکھا‬
‫آنٹی اور انکل اپنی کلٹس کار‬
‫سے نکل کر گھرمیں داخل‬
‫ھورھے تھے پھر انعم نے دروازہ‬
‫کھوال اور کار اندر چلی گئ اور‬
‫ھم آ گے گھومنے نکل گئے‬
‫دوسرے دن صبح کو ماموں‬
‫ساہیوال سے دس بھینسوں اور‬
‫بیس بکریوں کے‪ 7‬ٹرک لیکر‪  ‬آ‬
‫گئے جسے ھم نے ڈیرے پر شفٹ‬
‫کردیا اور سلمون کی ڈیوٹی‬
‫بھینسوں کی دیکھ بھال پر لگا‬
‫دی گئ اور وہ ڈیرے پر شفٹ‬
‫ھوگیا حساب کتاب کرکے جب‬
‫میں باہر نکال تو ھمارے ڈیرے‬
‫پر سامنے انعم کی زمین کے‬
‫امرودوں والے کھیت میں لبنی‬
‫اپنی بھینسیں چرا رھی تھی‬
‫اور مجھے دیکھ کر بولی شانی‬
‫صاحب مبارک ھو آپ کو آپ تو‬
‫اب پورے زمیندار بن گئے ھو تو‬
‫میں نے کہا خیر مبارک سالی‬
‫صاحبہ آپ سناؤ آج دن کو ھی‬
‫جانور لے آئی اور انکل کی‬
‫طبیعت اب کیسی ھے تو وہ‬
‫بولی ابو اب بہتر ھیں اور‬
‫بھائی آپکے لیئے ایک‬
‫خوشخبری ھے میں بوال تو پھر‬
‫بتاؤ نہ میری جان کیا‬
‫خوشخبری ھے تو وہ میرے‬
‫قریب ھو کر بولی شانی امی نے‬
‫ابو کو منا لیا ھے وہ تیرے‬
‫ساتھ انعم کی شادی پر مان‬
‫جائینگے پر پہل تم کو کرنا‬
‫ھوگی مطلب یہ کہ تم انکل اور‬
‫‪ ....‬آنٹی کو کب بھیجو گے‬
‫‏میں_نے خوشی سے اسکو گلے‬
‫لگا لیا اور بوال یہ تو بہت‬
‫اچھی خبردی تم نے لبنی بھی‬
‫میری بانہوں کے حصارمیں‬
‫تھی اور میرا لن اسکی چوت‬
‫پر دستک دینے لگا جسے اس نے‬
‫محسوس کرلیا تھا تب وہ‬
‫مجھ سے الگ ھوئی اور‬
‫‪‎‎‬بولی‪...‬‏‬

‫جیجا جی شرم کرو میں آپکی‬


‫سالی ھوں تو میں اسے قریب‬
‫کرتے ھوۓ بوال کہ کچھ نہیں‬
‫ھوتا جناب آپکا سراپا دیکھ کر‬
‫کوئی بھی پاگل بن سکتا ھے‪ ‬‬
‫تو وہ بولی کوئی دیکھ لے گا‬
‫تو پھرکیا سوچے گا تو میں نے‬
‫اسکو اپنی بانہوں میں لیکر‬
‫کس کرلیا اور بوال جناب ھم یہ‬
‫سب چھپ کر کرلیتے ھیں‬
‫ھمارے چاروں طرف جوان‬
‫فصلیں ھیں تو وہ شرم سے الل‬
‫ھوگئ اور بولی اگر آپی کو پتہ‬
‫چل گیا تو پھر میں اسکے‬
‫چوتڑوں پر ہاتھ پھیرتے ھوۓ‬
‫بوال اسے بتاۓ گا کون تم ھو‬
‫اور میں ھوں تو لبنی شہزادی‬
‫بولی تم اس جوار کے کھیت‬
‫میں جاؤ اور میں آتی ھوں‬
‫میں جوار کے اندر چال گیا اور‬
‫کپڑا بچھا کر بیٹھ گیا پھر چند‬
‫منٹ بعد لبنی آئی اور بولی‬
‫جیجا جی زیادہ دیرمت لگانا‬
‫کوئی اکیلے جانور دیکھ کر‬
‫مجھے تالش نہ کرنے لگ پڑے‬
‫میں نے اسے کس کرتے ھوۓ‬
‫اسکے بوبز دبانا شرو ع کر دئیے‬
‫جس کی وجہ سے وہ شہوت‬
‫سے پاگل ھونے لگی‬
‫بھائی میں مر جأوں گی‪ ،‬بھائی‬
‫پلیز اسے باہر نکالو‪ ،‬ہائے ماں‬
‫میں کیا کروں‪ ” ،‬میں نے ُا س‬
‫کی کمر کے گرد اپنے بازٔووں کا‬
‫گھیرا بنا کر مضبوطی سے پکڑ‬
‫لیا‪ ،‬اور وہیں سے اسے ایک اور‬
‫جھٹکا دیا۔ لن ٓاہستہ ٓاہستہ‬
‫اندر جا رہا تھا جبکہ‪.‬لبنی کی‬
‫حالت غیر ہو رہی تھی۔ ُا س نے‬
‫دونوں ہاتھوں سے میرے سینے‬
‫پر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ‬
‫مسلسل کہے جا رہی تھی۔”‬
‫بھائی قسم سے میں مر جأوں‬
‫گی‪ ،‬میری پُھ دی جل رہی ہے‪،‬‬
‫پلیز اسے نکالو باہر‪ ،‬بہت درد ہو‬
‫رہی ہے‪ ”،‬میں جیسے گونگا بہرا‬
‫‪ ‬ہو گیا تھا۔‬
‫اس کی کسی بات پر کوئی‬
‫دھیان نہیں دے رہا تھا۔ ُا س‬
‫وقت ُم جھے بس ایک ہی دھیان‬
‫تھا‪ ،‬وہ یہ کے کس طرح سے لن‬
‫کو مکمل پُھ دی کے اندر‬
‫گھسیڑنا ہے۔ اور میں اپنی‬
‫پوری کوشش بھی کر رہا تھا۔‬
‫اس کوشش میں میں ابھی‬
‫ٓادھا ہی کامیاب ہوا تھا۔‪.‬لبنی‬
‫واقعی میں مری جا رہی تھی۔‬
‫ُا س کی ٓانکھیں پوری کُھ لی‬
‫تھیں اور چہرے کا رنگ زرد ہو‬
‫رہا تھا۔ شائید یہ درد کی شدت‬
‫ہی تھی جسے وہ برداشت کر‬
‫رہی تھی۔ اب کی بار میں نے‬
‫جھٹکا دیا تو وہ بلبال کر ُا چھل‬
‫پڑی۔ ُا س کا ُا چھلنا اتنا اچانک‬
‫اور شدید تھا کہ وہ میری‬
‫گرفت سے نکل کر پرے جا پڑی۔‬
‫میرا لن پُھ دی سے نکل گیا اور‬
‫وہ جیسے سخت ُغ صے میں تن‬
‫‪ ‬تنا رہا تھا۔‬
‫جبکہ ‪.‬لبنی نے اپنے دونوں ہاتھ‬
‫پُھ دی پر رکھ دیئے۔ وہ پُھ دی‬
‫کو دونوں ہاتھوں سے سہالتے‬
‫ہوئے منہ سے پھونکیں مارنے‬
‫لگی جیسے حقیقت میں ُا س‬
‫کی پُھ دی جل گئی ہو اور وہ‬
‫ُا سے پھونکیں مار کر ٹھنڈا‬
‫کرنے کی کوشش کر رہی‬
‫ہو‪.‬ذیشان ٓاپ نے کیا کیا میرے‬
‫ساتھ؟ میں مر جأوں گی‬
‫بھائی۔‪.‬لبنی بہت ڈر گئی تھی۔‬
‫میں نے ُا سے بازو سے پکڑ کر‬
‫قریب کرتے ہوئے کہا کے ُکچھ‬
‫نہیں ہوا۔ ایسا سب کے ساتھ‬
‫ہوتا ہے اور زندگی میں ایک ہی‬
‫بار ہوتا ہے۔ تم نے جو درد‬
‫اٹھانا تھا وہ اٹھا لیا اب وہ‬
‫مزہ شروع ہونا تھا جس کا تم‬
‫تصور بھی نہیں کر سکتی۔‬
‫میں نے اس کا ڈر ختم کرنے‪ ‬‬
‫کیلئے اسے بانہوں میں بھر کے‬
‫اس کے ہونٹوں پر ُا س کی‬
‫گردن کندھوں اور مموں پر‬
‫بوسے دینے شروع کر دیئے۔ اور‬
‫ساتھ ساتھ میں اسے بتا بھی‬
‫رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔‬
‫میں بار بار ُا سے ٓانے والے مزے‬
‫کا کہہ رہا تھا تاکہ ُا س مزے‬
‫کیلئے تجسس پیدا ہو اور وہ‬
‫جلد سیکس کیلئے دوبارہ ٓامادہ‬
‫ہو جائے۔ ٓاگ تو ُا سے بھی‬
‫جُھ لسائے ہوئے تھی۔ جلد ہی‬
‫مجھے لگا کے وہ اب نہیں روکے‬
‫گی۔ میں نے ُا سے پکڑ کے واپس‬
‫ُا سی پوزیشن پر بٹھایا۔ میں‬
‫اب جلدی میں تھا میں نے لن‬
‫کو تھوک سے گیال کیا اور‬
‫پُھ دی پر رکھ کر زور کا جھٹکا‬
‫دیا‪.‬لبنی اب کی بار بھی تڑپ‬
‫کر رہ گئی لیکن اب میری گرفت‬
‫بہت مضبوط تھی۔ میں نے‬
‫دوسرا پھر تیسرا جھٹکا دیا تو‬
‫لن اپنی ٓادھی منزل طے کر چکا‬
‫‪ ‬تھا۔‬
‫لبنی اب کی بار بھی چیخ رہی‬
‫تھی۔‪.‬ذیشان رک جأو‪ ،‬بھائی‬
‫اس کو نکالو بہت درد ہو رہی‬
‫‪،‬ہے‪ ،‬میں مر جأوں گی‬
‫میں‪.‬لبنی کی چوت میں لنڈ‬
‫ڈالے اسے چود رھا تھا ‪.‬لبنی‬
‫جو ایک کتیا تھی مگر بڑی‬
‫مست چدوا رھی تھی اب میں‬
‫اس کی جم کر چدائ کر رھا‬
‫‪ ‬تھا‬
‫لبنی خوب مزے دے رھی تھی‬
‫میرا لنڈ اس کی چوت میں‬
‫مکمل جا رھا تھا جب میں اسے‬
‫دھکا دینے کے بعد وسپس باھر‬
‫نکالتا تو ‪.‬لبنی کی براون چوت‬
‫کی پٹی لنڈ کے ساتھ باھر آتی‬
‫نظر آتی تھی میں تو اب خوب‬
‫دلجمی سے ‪.‬لبنی کو چود رھا‬
‫تھا اور پھر میں نے زبردست‬
‫مزے کی لہر کے ساتھ اس کی‬
‫چوت میں اپنے لنڈ کا سارا‬
‫پانی چھوڑ دیا میں نے چند‬
‫لمحوں کے بعد اپنا لنڈ باھر‬
‫نکاال تو ‪.‬لبنی نے جلدی سے لنڈ‬
‫کو چاٹنا شروع کر دیا چاٹتے‬
‫چاٹتے اس نے لنڈ کو پھر منہ‬
‫میں لے لیا اور پھر وہ کبھی‬
‫چاٹتی اور کبھی منہ میں لے‬
‫لیتی میں کچھ دیر پہلے ‪.‬لبنی‬
‫کی چوت میں فارغ ھوا تھا‬
‫جبکہ ابھی پھر ‪.‬لبنی مجھے‬
‫اگلے راونڈ کے لیے تیار کر رھی‬
‫تھی جلد ھی میرالنڈ دوبارہ‬
‫چدائ کے لیے مست ھو گیا میں‬
‫نے دیکھا کہ ‪.‬لبنی اب چادر پر‬
‫چڑھ کر لیٹ چکی تھی‬
‫اور ایک ٹانگ اٹھا کر اپنی‪ ‬‬
‫چوت پر منہ رگڑ رھی تھی‬
‫یعنی اب گھاس پر لٹا کر‬
‫چودنا تھا‪...‬میں نے کمرے سے‬
‫پیر پوش اٹھا کر اپنی سالی‬
‫لبنی کی چوت کے نیچے کپڑا‬
‫گول کر کے رکھ دیا اس لیے کہ‬
‫میری منی چادر پر نہ گر‬
‫جاے‪...‬پھر میں نے لبنی کی‬
‫ایک ٹانگ پکر کر اٹھایا اور‬
‫اسکی چوت میں لنڈ ڈال کر‬
‫چدائ شروع کر دی واہ کیا‬
‫بتاوں کہ کیسا مزا تھا اس‬
‫کتیا کو چودنے کا اس طرح‬
‫میرے دھکے لگانے سے وہ کچھ‬
‫‪ ‬پریشان ھو رھی تھی‬
‫میں نے اسے پیٹھ کے بل کیا‬
‫اس کے چاروں پاوں میرے منہ‬
‫کی جانب آگئے مگر وہ کوئ‬
‫نقصان نہیں پہنچا رھی تھی‬
‫میں نے پھر اسے چودنا شروع‬
‫کیا میں تو لبنی کا دیوانہ ھی‬
‫ھو چکا تھا کیا لڑکی چدائ‬
‫کراتی ھو گی اس طرح جیسے‪ ‬‬
‫ایک کتیا مجھ سے چدا رھی‬
‫تھی میں اب اس پر لیٹ چکا‬
‫تھا اور لیٹ کر لوڑا اندر باھر‬
‫کررھا تھا پھر‬
‫بھی مست ھو کر چدا رھی‪ ‬‬
‫تھی اس بار میں نے زیادہ ٹایم‬
‫لیا منی نکالنے میں اور مکمل‬
‫لوڑا اندر رکھتے ھوے ساری‬
‫منی لبنی کی چوت میں چھوڑ‬
‫دی‪....‬اب میں تھک چکا‬
‫تھا‪.‬لبنی نے پہلے اپنی چوت کو‬
‫چاٹ کر صاف کیا پھر میرے‬
‫لوڑے کو چاٹ کر صاف کیا‬
‫اس کی لمی اور چوڑی زبان‬
‫سے چاٹنے سے لنڈ پھر کھڑا ھو‬
‫رھا تھا مگر میں نے ۔لبنی کے‬
‫جسم پر پیار سے ھاتھ‬
‫پھیرا‪..‬اور ایک زور دار جھٹکا‬
‫مارا اور اپنا دوسری بار سپرم‬
‫چھوڑ دیا لبنی بولی تم چوتے‬
‫وقت وحشی ھو جاتے ھو میں‬
‫نے اسے پوچھا لبنی تمہاری‬
‫سیل کس نے توڑی تھی تو وہ‬
‫بولی جیجا جی کسی کو بتانا‬
‫نہیں تو میں بوال یار‪  ‬ھم اب‬
‫دوست ھیں بتاو‪  ‬تو تو وہ‬
‫بولی اپکے دوست شاھد نے تو‬
‫میں بوال اچھا وہ کب تو لبنی‬
‫بولی چار ماہ پہلےکی بات ھے‬
‫دوستو پھر میری اور انعم کی‬
‫شادی کی بات پکی ھوگئی اور‬
‫ھم اپنے دل کی بھڑاس موبائل‬
‫پر چیٹ کرکے نکالنے لگے یہ‬
‫کہانی ابتک اتنی ھی لکھی ھے‬
‫ایڈمن نوابزادہ نے کہا اسکا‬
‫اگال حصہ جلد پیش کروں گا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪   ‬فی الحال ختم‬
‫شد‪    ‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

You might also like