You are on page 1of 9

‫آخر کپڑے أتر گئے‬ ‫•‬

‫•‬
‫•‬
‫سیمو تم بھی نا ‪،‬خواہ ماخواہ بات کا بتنگر بنا لیتی ہو ‪ ،‬غلطی بھی‬
‫تمہاری اپنی ہے‬
‫اور تم اسکو نظر انداز کرنے کی بجائے بار بار یاد کر رہی ہو ۔‬
‫ٹھیک ہے غلطی میری تھی ‪ ،‬ایک تو رات کو نوبجے کے بعد چھت پر‬
‫جا نے کی ضرورت ہی کیا تھی‬
‫خشک کپڑے صبح بھی ال سکتی تھی ‪ ،‬ہاں یہ بھی ہے کہ رات کو بارش‬
‫ہونے کا امکان تھا ۔۔‬
‫دن میں کپڑے دھو کر چھت پر لٹکا ئے کہ شام کو خشک ہونے کے بعد‬
‫أتار لونگی پہلے تو‬
‫بزی رہی پھر شام کومیرا پسندیدہ ٹی وی ڈرامہ لگ گیا اور اس کےبعد‬
‫کھانا وغیرہ کھا کرسب فارغ ہوگئے‬
‫تو میں بھی اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئی ۔ سردیوں کی راتیں اگرتنہا‬
‫گذریں تو یہ ناگن کی طرح ڈستی ہیں ۔ میرے میاں اس وقت جاب کے‬
‫سلسلہ میں ابوظبی ہوتے تھے اور میں سسرال کے ساتھ ہی مقیم تھی أن‬
‫ہی کے بارے سوچ رہی تھی کہ مجھے یاد آیا کہ کپژے تو ابھی چھت پر‬
‫سے الئی ہی نہیں ہوں ۔ خود سے کہا أٹھ سیمو رانی چل کپڑے اتار‬
‫الئیں ۔‬

‫ہمارا گھر کافی بڑا تھا پانچ کمرے تھے تین باتھ روم ایک بڑا کچن اور‬
‫لیونگ روم اور ڈائنگ روم ۔‬
‫چھت پر دو کمرے تھے گیسٹ روم کہ لیجئیے ۔ چھت پر چھوٹی چھوٹی‬
‫سی چاردیواری بنی ہوئی تھی ہمارے ساتھ والے مکان کے اوپر بھی‬
‫نئی تعمیر کی گئی تھی کیونکہ ان کے بیٹے کی شادی ہوئی تھی جس‬
‫کے لئے تین کمرے بنائے گئے تھے چھت تومشترکہ تھی مگر تین فٹ‬
‫اونچی دیوار درمیان میں‬
‫أٹھائی گئی تھی ہم ہمسائیوں کا آپس میں سلوک بہت اچھا تھا اور ہے ۔‬
‫میں اوپر گئی چھت پر روشنی نہیں تھی ۔ رسی سے کپڑے أتارتے‬
‫ہوئے میری نظر‬
‫ہمسائیوں کےگھر کی طرف چلی گئی ان کے کچن کا ایک درازہ ہماری‬
‫چھت کی جانب کھلتا ہے دروازہ اگرچہ بندتھا مگر اس کا ڈور شیشے کا‬
‫تھا او رکچن میں ہماری چھت سے ان کے کچن کے‬
‫اندر دیکھا جا سکتا ہے ۔ ۔ میں نے دیکھا نیا نویال بیاہتا جوڑا کچن میں‬
‫کھانا کھا رہا تھا ۔ ہمارے چھت پر رروشنی نہ تھی میں چونکہ اندھیرے‬
‫میں تھی اس لئے وہ مجھے نہیں دیکھ سکے ہونگے ورنہ وہ ایک‬
‫دوجے سے دور ہوجاتے ۔ مجھے بھی چاہئے تھا کہ دوبارا أس طرف نہ‬
‫دیکھتی مگر میں کوشش کے باوجود بار بار ان کی طرف دیکھ لیتی ۔‬
‫اور یہ بھی میری غلطی تھی ۔ سمینہ (دلہن )ندیم [دلہا ]کی گود میں‬
‫بیٹھی ہوئی تھی اور ندیم اس کے منہ میں نوالے دے رہا تھا اور سمینہ‬
‫بھی اس کو کھال رہی تھی ۔ مجھے بہت غصہ آرہا تھا کہ یہ بھی کوئی‬
‫طریقہ ہے کھانے کا وہ ایک دوسرے کا بوسہ بھی لے لیتے مجھے‬
‫بالکل اچھے نہیں لگ رہے تھے حاالنکہ دونوں کو میں بڑا پسند کرتی‬
‫تھی ۔ دونوں مجھے آنٹی کہتے کیونکہ ندیم کی والدہ نسیم میری سہیلی‬
‫تھی جس کا چند ماہ پہلے انتقال ہو گیا تھا اور اسکے سارے بچے میری‬
‫بڑی عزت کرتے ہیں ۔ اور سمینہ بھی بہت پیاری اور بڑی مؤدب بچی‬
‫ہے مگر نہ جانے اس وقت مجھے دونوں اچھے نہیں لگے ۔‬
‫ایک دوسرے کو نوالہ کھالنے کی بھال کیا ؑتک تھی ۔‬
‫پھر مجھے خیال آیا۔ سیمو کیا ہوا ان کی نئی نئی شادی ہوئی ہے ۔ اس‬
‫طرح میاں بیوی میں پیار بڑھتا ہے ان میں انڈر سٹینڈنگ ہوتی ہے ۔ خود‬
‫‪ ،‬بھول گئی میاں نے کتنے الڈ سے تم کو اپنے ہاتھ سے نوالہ کھالیا تھا‬
‫ہاں ہاں یاد ہے مجھے۔ پتہ نہیں کتنے ہی دن تو دعوتیں ہوتی رہیں تھیں‬
‫شادی کے بعد پھر کافی دنوں بعد جب ہم کو اکیال کھانے کا موقع مال تو‬
‫انہوں نے میرے منہ میں نوالہ دینے کی کوشش کی ۔ ہائے میں کتنی‬
‫شرمائی تھی اب بھی یاد کرکےمجھے شرم محسوس ہو رہی ہے دو چار‬
‫نوالوں کے بعد کہنے لگ سیمو مجھے بھوکھا رکھوگی کیا ۔ میں نے‬
‫بڑی مشکل سے نوالہ بنایا اور شرما شرما کر ان کے منہ میں دیا‬
‫توانہوں نے ہولے سے میری اگلیوں کو دانتوں سے دبا دیا یہ یاد آتے ہی‬
‫سرخ ہو گئے ہیں‪ ،‬میں نے بے ساختگی میں ہاتھ‬ ‫اب بھی میرے گال ُ‬
‫سے چھو لیا ٰ۔تو تب معلوم ہوا گال کتنے سرد تھے میں کافی دیر سے‬
‫ٹھنڈ میں چھت پر کھڑی ان کوہی دیکھ رہی تھی اور کپڑے آدھے سے‬
‫زیادہ رسی پر ٹنگے ہوئے تھے ۔ اری سیمو رات یہیں کھڑی رہوگی کیا‬
‫میں نے خودکو سرزنش کی ۔‬
‫میں نے دوچار مزید کپژے رسی سے جلدی جلدی اتارے تو پھر انکی‬
‫طرف دیکھا ۔ تو حیران رہ گئی ۔ ندیم نے سمینہ کی قمیض أٹھا رکھی‬
‫تھی اور اس کے نپل منہ میں لےرکھے تھے یہ دیکھ کر ایک بار تو‬
‫میرے نپل بھی اکڑ گئے مگر مجھے اچھا نہیں لگا ۔ سمینہ گود سے اتر‬
‫کر ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی اور اپنی قمیض اتار رہی تھی ۔‬
‫ہائے ایسا بھی کوئی کرتا ہے کیا‬

‫میں تھوڑا نزدیک ہو کر دیکھنے لگی ٹیبل جو کہ درمیان میں تھا اس‬
‫کےدونوں جانب سے‬
‫أ نہوں نے کرسیاں أٹھا کر ساتھ ساتھ مال کررکھیں ہوئی تھیں اور ساتھ ساتھ‬
‫بیٹھے تھے شکر ہے کمرے میں کا فی روشنی کی وجہ سے وہ مجھے نہیں‬
‫دیکھ سکتے تھے پھر بھی مجھے ڈر تو لگ رہا تھا ۔ ندیم نے سمینہ کی مدد‬
‫سے اس کی قمیض اتار دی تھی اور اب صرف برا اور شلوار پہنے ہوئے تھی‬
‫شاید انہوں نے چولہا یا اوون جال رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کو‬
‫سردی نہیں لگ رہی تھی یاجوانی کی گرمی تھی اور کچن ویسے بھی گرم ہی‬
‫ہوتا ہے ۔ سمینہ برا بھی نکال چکی تھی اور ندیم سمینہ کے ممے کو مساج کے‬
‫ساتھ چوم بھی رہا تھا اور ایک ہاتھ اس کی رانوں پر بھی پھیرے جا رہا تھا‬
‫سمینہ نے آنکھیں بند کر رکھیں تھیں اور ندیم کے سر کو چھاتیوں کی جانب‬
‫دبارہی تھی ۔ ندیم کےہاتھ سمینہ کی رانوں پر‬
‫پھر رہے تھے اور سمینہ نے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں کھول دیں اور ندیم کے‬
‫ہاتھ اب آذادی‬
‫سے رانوں کے اندرونی حصے بھی مساج کر رہے تھے اور اچانک سمینہ نے‬
‫ایک ُجھر ُجھری سی لی شاید ندیم نے اس کے دانہ کو ُچھو لیا تھا ۔ سمینہ نے‬
‫ایک بار رانوں کو‬
‫بھینچ کر پھر دوبارہ زیادہ کھول دیا ار کرسی کی سیٹ سے تھوڑا آگے کو‬
‫کھسک آئی‬
‫تھی ۔ ندیم نے نیفے کے اندراپنا ہاتھ ڈال کر سمینہ کے نازک اعضا پر مساج‬
‫شروع کی اور‬
‫ساتھ ہی اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے عضو پر رکھ دیا سمینہ نے پاجامہ کے‬
‫اوپر سے‬
‫اسے پکڑ لیا تھا وہ تو پہلے ہی سے اکڑا ہوا تھا ۔ وہ مزہ میں مگن تھے اور‬
‫مجھے غصہ آرہا تھا۔ کہ یہ کر کیا رہے ہیں ان کو شرم بھی نہیں آرہی ایسے‬
‫بھی کوئی کرتا ہے ان کو‬
‫کمرے میں جانا چاہیے تھا میں کچھ رنجیدہ سی تھی کہ مجھےخیال آیا سیمو‬
‫بھول گئیں تمہارے میاں نے بھی تم کو ایک بار کچن میں کیا تھا ‪ ،‬ہاں یاد ہے‬
‫مجھے مگر ان کو تو باھر‬
‫جانا تھا صبح کے وقت میں ناشتہ بنارہی تھی میاں نے کہیں جانا تھا ۔ میں صبح‬
‫سویرے‬
‫نہا کر کچن میں آگئی میرے بال بھیگے ہوئے تھے اورپچھلی رات کی بھرپور‬
‫کاروائی‬
‫کو یاد کرتے ہوئے ُگن ُگناتے ُگن ُگناتےآملیٹ بنانے لگی ۔ سب سوئے تھے ساس‬
‫سسر جن کو میں امی اورابا بولتی تھی تہجد اورفجر نماز پڑھ کر سوجاتے‬ ‫اور ُ‬
‫تھے ۔ میں نے چائے بنانے کےلئے پانی چولہے پر رکھا تو میاں آگئے اور‬
‫مجھے پیچھے سینہ سے لگا لیا میں ہنسی اور بولی صبح سویرے اتنا پیار آرہا‬
‫ہے ۔ کہنے لگے دن ہو یاشام رات ہو یا صبح مجھے تم پر پیار آتا ہے یہ کہتے‬
‫ہوئے وہ میرے اور قریب ہوگئے میں نے پیجھے سے چبھن محسوس کی توکہا‬
‫ان صاحب کو کبھی نیند نہیں آتی کیا ۔ ہروقت اکڑے اکڑے رہتے ہیں صاحب ۔‬
‫کہنے لگے‬
‫میں تو غالم ہوں یہ ٹہرے صاحب اورتم ہو بی بی اب صاحب اور بی بی آپس‬
‫میں کچھ مک مکا کرلیں اس غالم نے کہیں جانا ہے ۔ میں سیدھی ہوگئی اور‬
‫انکے گلے لگ گئی ۔‬
‫ان سے کہا بی بی کی کیا مجال جو صاحب کی خواہش کو حکم نہ سمجھے اورا‬
‫نہوں نے‬
‫مجھے وہیں کچن میں ہی ٹیبل پر لٹا لیا میری ٹانگیں ٹیبل سے لٹکی ہوئی تھیں‬
‫أنہوں‬
‫نے میرے دونوں پاؤں أٹھا کر ٹیبل پر ٹکا دیئے وہ چونکہ کھڑے تھے اس‬
‫طرح صاحب اور‬
‫بی بی بالکل آمنے سامنے آگئے ۔ بی بی تو تیار ہی تھی رات کے بھر پور‬
‫پیارکا جواب صاحب کو دینے کے لئے ۔ مگر صاحب بھی کچھ زیادہ ہی تنا ہوا‬
‫نظر آرہا تھا حاالنکہ رات بھر‬
‫اس نے بڑی محبت سے بی ی کو خوش کیا تھا ‪ ،‬میاں سے پوچھا غالم جی یہ‬
‫صاحب کچھ‬
‫زیادہ ہی غصہ میں نظر نہیں آ رہے کیا ؟ تو کہنے لگے کہ نشہ میں لگتا ہے‬
‫میں نےحیرت‬
‫سے پوچھا ‪ ،‬اسے کونسا نشہ کروا دیا بولے میں نے نہیں یہ تمہارے بھیگے‬
‫بدن کی خوشبو سےنشہ میں جھوم رہے ہیں مجھے صاحب پر بے ساختہ پیار‬
‫آگیا ۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑا اور تھوڑی تھپکی دے کر بی یی کے‬
‫اوپر ٹکا دیا اور غالم کو کہا اب ایے‬
‫زور دار دھکا مارو تاکہ صاحب اور بی بی ایک ہوجاویں۔ میں نے تو یوں ہی‬
‫کہا مگر غالم‬
‫صاحب کا وفادار نکال اس نے ایسے جھٹکے سے دھکا دیا کہ صاحب بی بی‬
‫کی چولیں ہالتا ہوا‬
‫جڑھ تک اندر جا ٹکرایا ۔ میں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی‪ ،‬بابا تھوڑا ہاتھ ہوال‬
‫رکھو نہیں تو‬
‫بی بی کسی کام کی نہیں رہے پھر صاحب نے بڑے آرام سے اپنا کام کیا اور‬
‫بڑے پیار‬
‫اندر جاتا حال احوال پوچھتا اور بڑے مان سے واپس آکر پھر بی بی کی‬
‫دیواروں کو رگڑتا ہوا جاتا ان گنت بار آگے پیچھے آ جا کر آخر کار را ضی‬
‫برضا بی بی سے آنسو بھاتا ہوا جدا ہوا ۔ بی بی بھی خوشی کے آنسو بھا نے‬
‫لگی کیونکہ پچھلی رات کو بھی صاحب نے بہت‬
‫‪ ،‬مزہ دیا اور اب تو رات کا مزہ بھی بھال دیااسا سواد دیا‬
‫ہاں ہم نے بھی کیا تھا مگروہ تو میاں کو باھر جانا تھا ۔ أ ن کو کیا مجبوری‬
‫ہے اندر جاکر کمرے میں آرام سے کریں‬
‫میں نے ادھر دیکھا تو حیران رہ گئی ۔ سمینہ اب بالکل برہنہ ہوچکی تھی اس‬
‫کی شلوار‬
‫نیچے پڑی ہوئی تھی ۔ اور ندیم کا ہتھیار ہاتھ میں لئے مالش کے انداز میں دبا‬
‫رہی تھی‬
‫ندیم کی انگلی اور ہاتھ سمینہ کی جائے مخصوصہ کو دبا رہے ھاتھ اور انگلی‬
‫کی کارستانی‬
‫سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سمینہ بار بار اس کے ھتیار کو چومنے لگتی ۔‬
‫میں اور تھوڑا نزدیک ہو کر چاردیواری جو کہ ہمارے اور ان کی چھت کی‬
‫سرحد تھی کے پاس جاکر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ‬
‫ندیم کا صاحب کتنا بڑا اور موٹا ہے ۔ میرا سر اب چاردیواری سے اوپر تھا اور‬
‫سارا جسم چھپا ہوا تھا۔ میں نے سر سے دوپٹہ بھی اتار لیا تھا تاکہ ان کی توجہ‬
‫سے بچ جاؤں اب میں بڑی آسانی سے ندیم کے اوزار کو دیکھ سکتی تھی اچھا‬
‫خاصا لمبا اور موٹا جو کسی بھی لڑکی کے خوابوں کا شہزادہ ہو سکتا تھا‬
‫سپیشلی اس کے سر کی ٹوپی بڑی اٹریکٹیو تھی تھوڑا لمبا مگر موٹا سر بہت‬
‫خوبصورت لگ رہ تھا سمینہ اسکو دباتی ہاتھ اوپر نیچے لے جاکر اس کو‬
‫مٹھاتی بڑی خوش تھی ۔ خوش کیوں نہ ہوتی وہ خوش نصیب تھی جس کوا یسا‬
‫پیار کرنے واال خاوند اس کے قریب تھا ۔ اب مجھے خود پر ُغصہ آنے لگا ۔ کہ‬
‫میں ان کو کیوں دیکھ رہی ہوں ۔ کتنی بدل گئی سیمو تو یاد ہے پتہ نہیں کتنے‬
‫دنوں تو نے اپنے میاں کا نہیں دیکھا تھا اور نہ ہاتھ سے چھوا تھا ‪ ،‬ہاں مجھے‬
‫یاد ہے وہ کہتے تھے اسے چھو کر دیکھ نہیں کاٹتا ‪ ،‬میں کہتی مجھے شرم آتی‬
‫ہے پھر میں میکے گئی ایک ماہ بعد یہ لینے گئے رات کو مجھ سے لپٹ کر‬
‫کہنے لگے کوئی تم کو بہت ِمس‬
‫کرتا رہا ‪ ،‬میں نے پوچھا وہ کون؟ تو میرا ہاتھ پکڑ کر اپنےنفس پر رکھ دیا‬
‫میں تو چونک‬
‫گئی بہت گرم لگا ۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا ‪ ،‬میاں بولے اتنا ظلم نہ کر بیچارہ اب‬
‫بھی رو رہا‬
‫ہے تو میں نے پوچھا‪ ،‬ہیں ‪ ،‬کیا یہ بھی روتا ہے ؟ کہنے لگے ‪ ،‬اعتبار نہیں تو‬
‫دکھادوں میں نے سوچا مذاق کر رہے ہیں یہ بھال کیسے روسکتا ہے انہوں نے‬
‫میری خامشی کو رضامندی سجھا اور پاجامہ أتار کر سیدھے لیٹ گئے اب ان‬
‫کا وہ کھڑا لہرا رہا تھا جیسے سالمی دے رہا ہو ۔ میں نے پوچھا آنسو اس کے‬
‫کہاں بہ رہے ہیں تو انہوں نے اس کے سر کو تھوڑا سا دبایا‬
‫تو سر پر ایک چمکتا ہوا آنسو کا قطرہ دکھائی دیا میں حیران ہوگئی اب انہوں‬
‫نے کہا کہ یہ‬
‫تمہاری چاہ میں آنسو بہا رہا ہے اور تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ اس کا آنسو‬
‫پونچھ ڈالو‬
‫میں نے نپکن أٹھانا چاہا تو بولے جانم اس کو تمہارے ہاتھ لگیں گے تو اس کی‬
‫دلجوئی ہوگی‬
‫میرا دل تو ویسے بھی اب چاہ رہا تھا کہ اس خوصورت پیارے سے ڈنڈے کو‬
‫ُچھو کر دیکھوں‬
‫میں نے اس کو پہلے تو ُچھوا پھر ہاتھ میں لیا ‪ ،‬بہت بھال محسوس ہوا ۔ میں نے‬
‫ایک ہاتھ‬
‫سے پکڑ کر اسکی اکیلی آنکھ کا آنسو صاف کیا بڑی گوند جیس چپکاہٹ تھی‬
‫آنسو میں ۔‬
‫میاں کہنے لگے کہ اسے ٹیسٹ کرو آنسو کی طرح تُرش ہوگا اس کا ذائقہ مگر‬
‫میں نے ٹیسٹ‬
‫نہیں کیا مگر اسکو ہاتھ سے نہیں چھوڑا میں اسے کبھی دائیں لے جاکر‬
‫چھوڑتی تو لیفٹ کو‬
‫فلپ کرتا اگر نیچے ان کی ٹانگوں کیطرف لے جاکر چھوڑ دیتی تو واپس انکے‬
‫پیٹ کی طرف‬
‫چال جاتا ۔ میرے ہاتھ تو گیم آگئی ۔ میاں پوچھنے لگے جانتی ہو اسے کیا کہتے‬
‫ہیں ۔ میں‬
‫نے سر نفی میں ہال دیا بولے اچھا پوچھو اس کو کیا کہتے ہیں میں نے پوچھ لیا‬
‫اس کو کیا‬
‫کہتے ہیں تو کہنے لگے اس کو لن کہتے ہیں اسے لوڑا بھی کہتے اور لُال یا للو‬
‫بھی کہتے یں پھرانہوں نے پوچھا اچھا اب بتاؤ تو میں شرما گئی انہوں نے کہا‬
‫چلو صرف ایک بار اسے‬
‫لن بول دو ‪ ،‬میں نے ہاتھ میں لے کر کہا ‪ ،‬لن ‪ ،‬تو مجھے بہت اچھا لگا میں نے‬
‫تین چار‬
‫بار لن لن لن کہا اورمسکرا دی اب انہوں نے میری جائے مخصوصہ کو ٹچ‬
‫کرکے کہا اسکو کیا کہتے ہیں تو میں کچھ نہ بولی تو انہوں نے وہاں مساج‬
‫کرتے ہوئے کہا اس کو چوت‬
‫بھی کہتے ہیں ُچت بھی اور ُٰ پھدی بھی ۔ پھر انہوں نے مجھے پوچھا تم بولو‬
‫اس کو‬
‫کیا بولوں ۔ میں نے کہا جو آپکی مرضی اور اپنی ٹانگ ان کےلن کے اوپر‬
‫رکھدی وہ کہنے‬
‫لگے میں تو اسے چوت بولوں گا میں نے لن کو دباتے ہو ئے کہا اس کو لن‬
‫بولوں گی ۔ اس رات ہم کو بہت مزہ آیا کیونک ہم ایک ماہ کےبعد ملے تھے ۔‬
‫ساری رات لن چوت کو چودتا اور چوت لن سے چدواتی رہی ۔‬
‫میں نے پھر ان کی طرف دیکھا تو وہ ابھی تک کھیل رہے تھے ندیم سمینہ‬
‫کی چوت پر چپت رسید کرتا تو سمینہ اس کے لن کو ہولے سے مارتی اور‬
‫ساتھ ساتھ‬
‫وہ دونوں کسنگ بھی کر رہے تھے ندیم کا پاجامہ بھی اتر چکا تھا ۔ اب سمینہ‬
‫اپنی‬
‫کرسی سے أٹھ کر ندیم کی طرف منہ کر کے اسکی گود میں بیٹھنے لگی تو‬
‫اس کے‬
‫لن کو پکڑ کر اس پر اپنی چوت پھسالنے لگی اور آہستہ آستہ لن چوت کےاندر‬
‫غائب‬
‫ہوگیا اور سمینہ اوپر نیچے ہوکر چدوانے لگی ۔ مجھےمحسوس ہوا جیسے‬
‫میری ٹانگیں‬
‫بھیگ گئی ہوں میں نےہاتھ لگا کر دیکھ میری چوت نے بہ بہ کر میری پینٹی او‬
‫شلوار‬
‫دونوں کو بھگو دیا تھا اب مجھے اپنی ُچوت کو ُچھونا بہت اچھا لگ رہا تھا میں‬
‫نے‬
‫اپنی انگلی اندر کی اور پھر ندیم سمینہ کی چدائی دیکھنےلگی ۔ سمینہ اب‬
‫پوزیشن‬
‫بدل کر اپنی پیٹھ ندیم کی طرف کرچکی تھی ۔ اب سمینہ بالکل میرے سامنے‬
‫تھی‬
‫اور مجھے اس کی چوت میں ندیم کا لن آتا جاتا دکھ رہا تھا اور میں مزہ لے‬
‫رہی کہ‬
‫اچانک میں ایک بار پھر فارغ ہوگئی اور اسی بےخودی میں تھوڑا سا أٹھ گئی‬
‫میں چونکہ سمینہ کے سامنے تھی اس کی نظر کسی حرکت کرتی شے پر پڑی‬
‫تو وہ فورا أٹھ گئی او ندیم کا لن یو نہی لہرا رہا تھا کہ سمینہ نے اس کو بتایا وہ‬
‫بھی فورا ٹھا‬
‫اور کپڑے اٹھا کر دونوں سیدھا کمرے کی طرف چلے گئے ۔ میں وہیں دُبکی‬
‫رہی اور کپڑے‬
‫أتارے بنا یونہی ُجھکے ُجھکے واپس نیچے آ گئی ۔ میں بہت نروس تھی کہ‬
‫کہیں انہوں نے پہچان ہی نہ لیا ہو۔ تھوڑی دیر بعد اوسان بحال ہوئے اورچاپائی‬
‫پر لیٹی تو پھر مجھے‬
‫أن کی چدائی کے سین انکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے ندیم کا لن سمینہ‬
‫کی چوت‬
‫میں آتا جاتا بار بار نظارہ دیتا میں نے اپنے سارے کپڑے ا تا دیئے اورندیم کا‬
‫تصور کرکے‬
‫خوب فنگرنگ کی ‪ -‬جو کپڑے اتارنے گئی تھی وہ تو رہ گئے مگر میں نے‬
‫اپنےکپڑے اتار دئے‬
‫۔ آخر کپڑے آتر ہی گئے‬
‫۔ اور دوسرے دن میں نے ٹوہ لگانے کی کوشش کی کہ سمینہ ندیم کا رویہ‬
‫سے کچھ انداز لگاؤں کہ کہیں ان کو مجھ پر شک تو نہیں ہوا مگر ان کا رویہ‬
‫حسب معمول تھا‬
‫مگر مجھے اب وہم ہو گیا ہے کہ کہیں وہ جانتے ہوں کہ وہ کوئی بلی یا ان کا‬
‫وہم نہ تھا میں تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیمو تم بھی نا خواہ ماخواہ بات کا بتنگر بنا لیتی ہو‬
‫غلطی بھی تمہاری اپنی ہے اور تم اسکو نظر انداز کرنے کی بجائے بار بار ‪،‬‬
‫‪-‬یاد کر رہی ہو‬

‫دوستو ۔ یہ کہانی زرا سی روایت سے ہٹ کر لکھی ممکن ہے آپ لوگوں کو‬


‫پسند نہ‬
‫مگر اپنی رائے سے ضرور آگاہ فرمائیں ۔‬
‫کہانی سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں جو ہم کرتے ہیں بعض اوقات دوسرے‬
‫کریں تو ہم‬
‫ان کو غلط سمجھتے ہیں ۔‬

‫اگر خاوند کافی عرصہ بیوی سے دور رہے تو بیوی کا بہکنا آسان ہو تا ہے‬

‫ختم شد‬

You might also like