You are on page 1of 1804

‫•‬ ‫الزوال محبت‬

‫مہرین اپنے چھوٹے سے‬


‫خستہ حال گھر کی ہوا دان‬
‫نما بالکنی سے دور سڑک‬
‫پار مارکیٹ پہ نظریں‬
‫جمائے ہوئے کھڑی اپنے‬
‫چھوٹے بھائی فہد کا بے‬
‫صبری سے انتظار کر رہی‬
‫تھی‬

‫شام کے سائے پھیلنے کو‬


‫تھے اور اسی اثناء میں اس‬
‫مارکیٹ کے خارجی راستے‬
‫سے ‪ 15‬سالہ فہد مہرین کو‬
‫نظر آگیا اور وہ جلدی گھر‬
‫کے نچلے حصے کی طرف‬
‫اپنی امی کو بتانے کیلئے‬
‫بھاگی‬
‫مہرین‪ :‬امی آ گیا فہد میں نے‬
‫دیکھ لیا ہے اسے آتے ہوئے‬

‫ماں نے سکھ کا سانس لیا‬


‫اور مہرین نے سر پہ دوپٹہ‬
‫اوڑھ کہ گھر کی دہلیز پہ‬
‫مورچہ ڈال لیا اور دور سے‬
‫آتے بھائی کی بالئیں لینے‬
‫لگی‬
‫ننھا فہد بھی دور سے ہی‬
‫اپنی بڑی بہن کو دیکھ کہ‬
‫ہاتھ ہالتا ہوا گھر کی جانب‬
‫بڑھتا چال آ رہا تھا اور گھر‬
‫میں آتے ہی اپنی امی اور‬
‫بہن کی بانہوں میں لپٹ کہ‬
‫آج ملنے والی باقاعدہ پہلی‬
‫تنخواہ کو جیب سے نکال کہ‬
‫خوش ہو ہو کہ تھمانے لگا‬
‫فہد کی امی اور باجی دونوں‬
‫اس جذباتی موقعہ پہ اپنے‬
‫آنسو نہ روک سکیں اور‬
‫اپنے آخری سہارے کی اتنی‬
‫کم عمری میں محنت سے‬
‫کمائی ہوئی اجرت کو کسی‬
‫خزانے سے بھی انمول مان‬
‫رہی تھں‬

‫تعارف‪:‬‬
‫یہ کہانی ایک ایسے بہن‬
‫بھائی کی ہے جن کو حاالت‬
‫اور واقعات نے اتنی کم‬
‫عمری میں ایسے ایسے‬
‫رنگ دکھا دئیے کہ وہ بچپن‬
‫میں ہی بڑے ہو گئے‬

‫اس کہانی کے مرکزی‬


‫کردار فہد جسکی عمر ‪15‬‬
‫سال ہے اور مہرین جسکی‬
‫عمر ‪ 17‬سال ہے‪ ,‬اور انکی‬
‫امی جو کی ‪ 45‬سالہ بیوہ‬
‫عورت ہیں‬

‫فہد اور مہرین کے والد کی‬


‫وفات کو ایک سال سے بھی‬
‫زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اب‬
‫وہ اپنی زندگی کا گزر بسر‬
‫والد کی پینشن پہ کرتے ہیں‬
‫جو کہ اتنی قلیل ہے کہ اس‬
‫خستہ حال گھر کا کرایہ‬
‫دینے کے بعد بمشکل ہی‬
‫گھر کا گزارہ ہو پاتا ہے اور‬
‫اوپر سے بیوہ ماں کی‬
‫بیماری کے اخراجات بھی‬
‫مشکالت میں اضافہ کر رہے‬
‫تھے‬

‫فہد لوگوں کا گھر خستہ حال‬


‫تو ہے ہی اسکے ساتھ ساتھ‬
‫اسقدر چھوٹا بھی ہے کہ‬
‫شروع ہونے سے قبل ہی‬
‫ختم ہو جاتا ہے‬
‫گھر کے لکڑی کے‬
‫دروازے سے داخل ہوتے ہی‬
‫چھوٹاسا صحن ہےجس میں‬
‫ایک طرف واشروم اور‬
‫سائیڈ پہ چولہے کا انتظام‬
‫ہے اس سے دو قدم پہ ایک‬
‫کمرہ ہے‬

‫سیڑھیاں چڑھ کہ ایک‬


‫گیلری نما کمرہ جس کو فہد‬
‫اور مہرین نے سٹڈیروم بنایا‬
‫ہوا تھا جس میں کبھی کبھار‬
‫وہ سو بھی جایا کرتے‪ ,‬اسی‬
‫کمرے میں وہ بالکنی نما ہوا‬
‫دان بھی ہے جس کو اکثر‬
‫لوڈشیڈنگ کے وقت ائیر‬
‫کنڈیشنر کے طور پہ بھی‬
‫استعمال کیا جاتا‬

‫فہد کے بالکل ساتھ حاجی‬


‫عاشق صاحب کا گھر ہے‬
‫جو کہ باریش اور انتہا کے‬
‫مذہبی انسان ہیں ‪ ,‬حاجی‬
‫عاشق صاحب جن کو فہد‬
‫اور مہرین "حاجی انکل" کہہ‬
‫مخاطب کرتے ہیں‪ ,‬انکے‬
‫واحد ہمسائے ہیں کیونکہ‬
‫حاجی انکل اور فہد کی‬
‫فیملی جس مکان میں رہتے‬
‫ہیں وہ کسی زمانےمیں کسی‬
‫فیکٹری کا گودام ہوا کرتا تھا‬
‫اور تو اور یہ دونوں گھر‬
‫قانونی طور پہ ناجائز‬
‫تجاوزات میں آتے ہیں جو‬
‫کہ کسی بھی دن شہر کی‬
‫انتظامیہ کے ہاتھوں منہدم‬
‫کئے جا سکتے ہیں مگر فی‬
‫الحال تو ان کو یہاں سکونت‬
‫اختیار کئے ہوئے اتنا‬
‫عرصہ ہو گیا ہے ابھی تک‬
‫تو سب اچھا چل رہاہے‬
‫فہد اور مہرین کا کمرہ‬
‫حاجی انکل کے جس کمرے‬
‫سے متصل ہے وہ حاجی‬
‫انکل کے گھر کا سٹور روم‬
‫ہے اور باقی تمام متصل‬
‫دواروں کے برعکس اس‬
‫کمرے کیبدیوار نہایت‬
‫کمزور ہے جس کی وجہ‬
‫سے حاجی انکل کے گھر‬
‫سے آنے والی ہر آواز کو‬
‫فہد اور مہرین کے کمرے‬
‫سے سننے پہ ایسا لگتا ہے‬
‫جیسے ساتھ بیٹھے انسان کی‬
‫آواز سنی جاتی ہے‬

‫حاجی انکل کی فیملی میں ‪2‬‬


‫بیٹیاں جو کہ مہرین سے‬
‫کچھ سال بڑی ہیں اور ان‬
‫سے اوپر نیچے ‪ 2‬بھائی ہیں‬
‫جو کہ محنت مزدوری‬
‫کرنے والے لڑکے تھے ‪.‬‬
‫حاجی انکل کی فیملی سے‬
‫کوئی گہرا میل جول تو نہیں‬
‫تھا مگر ہمسائے ہونے کے‬
‫ناطے ایک دوسرے کے کام‬
‫آنے سے کبھی گریز نہیں‬
‫ک یا‬

‫مہرین اور فہد اوپر والے‬


‫کمرے میں بیٹھ کہ اپنی‬
‫پڑھائی کرتے ہیں اور ساتھ‬
‫حاجی انکل کے گھر سے‬
‫آنے والی آوازوں کو سن کہ‬
‫ان کے گھر میں ہونے والے‬
‫ہر واقعے سے با خبر رہتے‪,‬‬
‫یہ ان بچوں کے لیے ایک‬
‫طرح کی انٹرٹینمنٹ کا‬
‫ذریعہ بن چکا تھا جس کا وہ‬
‫اپنی امی سے بھی ذکر نہ‬
‫کرتے تھے‬

‫فہد اور مہرین محدود وسائل‬


‫اور بے شمار ذہنی دباؤ کے‬
‫باوجود اپنی تعلیم مکمل کرنا‬
‫چاہتے ہیں‪ .‬فہد نہم کالس‬
‫میں ہے اور مہرین فرسٹ‬
‫ائیر کی طالبہ ہے اور دونوں‬
‫پرائیویٹ ہی بغیر کسی کی‬
‫تعلیمی رہنمائی کے اپنے‬
‫امتحانات کی بہت اچھی‬
‫تیاری کر رہے ہیں‬

‫فہد کو اس بُکسٹال پہ‬


‫لگوانے والے حاجی انکل ہی‬
‫ہیں اور فہد چار ماہ سے‬
‫وہاں مالزمت کر کہ اپنی‬
‫ماں اور بہن کا سہارا بننے‬
‫کی کوشش کررہا ہے‬

‫صبح دس بجے سے مغرب‬


‫تک فہد اس بک شاپ پہ‬
‫ڈیوٹی کرتا اور شام کو گھر‬
‫آ کہ جتنا بآسانی کر سکتا‬
‫اپنی پڑھائی پہ توجہ دیتا اور‬
‫ایسے ہی واقت اپنے پیچ و‬
‫خم کے ساتھ گزر رتا گیا‬
‫مہرین کی والدہ شروع سے‬
‫ہی ایک انتہا کی سیدھی‬
‫سادھی بلکہ یوں کہہ لیں کہ‬
‫کند ذہن کی عورت تھیں ‪,‬‬
‫سادگی کی انتہا یہ تھی کہ‬
‫سبزی فروش سے حسابی‬
‫کتابی مباحثہ تو درکنار الٹا‬
‫خود ہی سیانت دکھانے کے‬
‫چکر میں زیادہ پیسے دینے‬
‫پہ مان جاتیں‪ .‬بھال یہ‬
‫معاشرہ ایسے لوگوں کو‬
‫جینے دیتا ہے؟‬

‫مہرین اور فہد ہی اب اپنی‬


‫ماں کی دو آنکھیں تھے اور‬
‫دونوں بچے اپنی عمر سے‬
‫بڑھ کہ اس گھر کو دوبارہ‬
‫خوشیوں سے ماالمال کرنے‬
‫میں مصروف عمل رہت‬
‫مہرین اور فہد آنے والے‬
‫اچھے وقت کے انتظار میں‬
‫ہر روز کوئی نہ کوئی نئ‬
‫اامید دل میں سجا کہ سو‬
‫جاتے اور وقت تھا کہ بدل‬
‫ہی نہیں رہا تھا‬

‫فہد جس بک شاپ پہ‬


‫مالزمت کرتا تھا وہ ایک‬
‫کتابوں کی مشہور مارکیٹ‬
‫تھی جس میں تمام دوکانیں‬
‫کتابوں اور سٹیشنری سے‬
‫متعلق ہی تھیں‬

‫اب فہد کو بھی باہر کی ہوا‬


‫لگ رہی تھی ساتھ والی‬
‫دوکان پہ پڑی سیکس‬
‫سٹوریز کی کتابیں فہد کی‬
‫توجہ اپنی طرف کھینچ رہی‬
‫تھی‪ ,‬اور ایک دن وہ ایک‬
‫سیکس سٹوریز کی کتاب‬
‫چوری چھپے گھر لے ہی آیا‬
‫اب ایسی ممنوع چیز گھر‬
‫لے کہ آنا اور پھر اسے‬
‫کسی محفوظ جگہ پہ چھپا‬
‫بھی لینا ایک بہت بڑا معرکہ‬
‫ثابت ہونیواال تھا مگر کسی‬
‫نہ کسی طرح وہ چھوٹی سی‬
‫رسالہ نما کچھ صفحات کی‬
‫کتاب کو وہ اوپر سٹڈی روم‬
‫کے کسی کونے میں چھپانے‬
‫میں کامیاب ہو گیا اور‬
‫معصومیت کا یہ عالم کہ اس‬
‫کتاب کو اب پڑھے تو اپنی‬
‫بہن سے آنکھ بچا کہ کیسے‬
‫پڑھے اور اس کشمکش میں‬
‫کافی دن گزر گئے اور فہد‬
‫وہ کتاب نہ پڑھ سکا‬

‫بہر حال ایک رات فہد کو‬


‫رات دیر گئے موقع مل ہی‬
‫گیا اور رات کو اس نے اس‬
‫کتاب کو ڈھونڈھ کہ پڑھا تو‬
‫اس کے لئے یہ نیا تجربہ‬
‫کافی خوشگوار ثابت ہوا اور‬
‫اپنے لن کے تناؤ کو بہت‬
‫مزے سے بنا مٹھ کے لگائے‬
‫ہی سو گیا‬

‫فہد اس بات سے انجان تھا‬


‫کہ اس کی بڑی بہن مہرین‬
‫اس کتاب کو اس سے پہلے‬
‫ہی پڑھ چکی ہے اور وہ‬
‫بھی اس لذت سے بہت‬
‫محضوض ہو چکی ہے‬

‫ایسے ہی بنا کسی کو کہے‬


‫سنے فہد مہینے میں کوئی‬
‫نئی کتاب لے آتا رات کو‬
‫آنکھ بچا کہ پڑھتا اور حسب‬
‫ضرورت مٹھ لگاتا اور کتاب‬
‫چھپا کہ سو جاتا‬
‫یہی حال دن میں مہرین کا‬
‫ہوتا وہ بھی اب سیکس کو‬
‫پڑھنے کے مزے لیتی اور‬
‫اپنی پھدی کو انگلی سے ہی‬
‫ٹھنڈا کر کہ دن گزار دیتی‬

‫مہرین کو تو علم تھا کہ یہ‬


‫کتابیں فہد لے کہ آتا ہے‬
‫مگر فہد کے وہم وگمان میں‬
‫بھی یی بات نہیں تھی کہ اس‬
‫کی بڑی بہن مہرین بھی اس‬
‫کتاب کو پڑھ کہ مزے لیتی‬
‫ہے‬

‫ابھی تک مہرین اور فہد کا‬


‫رشتہ پاکیزگی اور خلوس‬
‫واال رشتہ تھا کیونکہ ان کے‬
‫درمیان یہ راز ابھی تک راز‬
‫ہی تھا کہ سیکس کہانیوں کی‬
‫کتابیں ان دونوں کی مشترکہ‬
‫بصارت سے گزر کہ جاتی‬
‫ہیں اور یہی وجہ تھی کہ اب‬
‫تک فہد اور مہرین کے‬
‫درمیان کوئی غیر اخالقی‬
‫گفتگو کا آغاز نہیں ہوا تھا‬

‫مگر چوری زیادہ عرصہ‬


‫نہیں چلتی‪ ..‬ایک دو بار‬
‫مہرین سیکس سٹوری بک‬
‫کو باہر رکھ کہ بھول گئی‬
‫اور فہد بھی اب کتاب کو کو‬
‫کافی دفعہ باہر ہی رکھ کہ‬
‫بھول چکا مگر مہرین کی‬
‫خاموشی اور کوئی رد عمل‬
‫نہ دینے کیوجہ سے فہد بھی‬
‫سمجھ گیا کہ مہرین باجی کو‬
‫یہ سب پتہ ہے بلکہ وہ یہ‬
‫بھی سمجھ گیا کی وہ بھی‬
‫اس معاملے میں اس کی‬
‫شریک جرم ہیں مگر ابھی‬
‫تک اعالنیہ کسی نے بھی‬
‫اس بات کو قبول نہیں کیا تھا‬
‫آہستہ آہستہ ایک ڈیڑھ ماہ‬
‫میں ہی نوبت یہاں تک آ گئی‬
‫کہ اب ہر نئی آنے والی‬
‫کتاب کسی کونے میں‬
‫چھپانے کی بجائے باقی‬
‫کتابوں کے درمیان ہی‬
‫عالمتا ہی چھپائی جاتی‬

‫گویا اب دونوں بہن بھائی‬


‫سمجھ گئے تھے کہ یہ لذت‬
‫اندوزی کرتے جاؤ مگر‬
‫کسی کو بتانا نہیں اور ایک‬
‫دوسرے کی تنقید بھی نہیں‬
‫کرنی‬

‫ان دونوں بہن بھائی کے‬


‫درمیان ایک خاموش معاہدہ‬
‫ہو چکا تھا جس سے دونوں‬
‫ہی فائدہ اٹھا رہے تھے اور‬
‫کسی کا کوئی نقصان نھی‬
‫نہیں ہو رہا تھا‬
‫مگر‬

‫ہم سب جانتے ہیں کہ بہن‬


‫اور بھائی کے درمیان ایسی‬
‫پردے والی باتوں میں معاہدہ‬
‫کسی بڑے طوفان کی‬
‫عالمت مانا جاتا ہے اسی‬
‫وجہ سے بچپن سے ہی ماں‬
‫باپ بچوں کی تربیت میں‬
‫اس طرح کی کج احتیاطی‬
‫سے پرہیز کرتے ہیں لیکن‬
‫فہد اور مہرین کے معاملے‬
‫میں پہلے ہی اتنے مسائل‬
‫تھے کہ ایسی احتیاط کرے‬
‫تو کرے کون‬

‫ان کی بیوہ اور بیمار ماں؟‬

‫ان کی امی تو پہلے ہی اس‬


‫قدر مفلوج زندگی گزار رہی‬
‫تھیں رات کو دوا کھا کہ سو‬
‫جاتیں اور سارا دن بستر پہ‬
‫گزار دیتیں‪ ,‬ان کی امی تو‬
‫خود اپنے بچوں کی دیکھ‬
‫بھال کی محتاج تھیں‪ ,‬انہوں‬
‫نے کیا کرنا‬

‫ایک رات فہد دیر گئے کتاب‬


‫کو پڑھ رہا تھا اور ساتھ‬
‫اپنے لن کو سہال رہا تھا کہ‬
‫حاجی انکل کے گھر کا وہ‬
‫کمرہ جو کہ انکا سٹورروم‬
‫تھا‪ ,‬اس کے لکڑی کے‬
‫دروازے کے کھلنے کی‬
‫آواز آئی‪ ,‬لکڑی کے‬
‫دروازے کو لگے دیسی‬
‫لوہے کے قبضے کے آہستہ‬
‫آہستہ کھلنے کی لمبی‬
‫"چررر" کی آواز نے فہد کی‬
‫توجہ کو اپنی طرف مبذول‬
‫تو کیا لیکن وہ اسے اگنور‬
‫کر کہ نہ جانے کس‬
‫تصوراتی حور کو سیکس‬
‫سٹوری کے منظر نامے میں‬
‫خیالی طور پہ چود رہا تھا‬
‫اس لیے اس طرف زیادہ‬
‫توجہ کرنا فہد نے مناسب نہ‬
‫سمجھا اور اپنے لن کو‬
‫سہالتا ہوا کہانی کے منظر‬
‫میں کھویا رہا‬

‫مہرین ذرا فاصلے پہ گہری‬


‫نیند میں ماحول کی رومانیت‬
‫سے انجان سوئی پڑی تھی‪,‬‬
‫شائدمہرین جانتی تھی کہ‬
‫اسوقت اس کا چھوٹا بھائی‬
‫سیکس سٹوری پڑھ رہا ہے‬
‫لیکن خاموش معاہدوں کی‬
‫سب سے خوبصورت بات یہ‬
‫ہے کہ وہ جلدی ٹوٹتے نہیں‬
‫اور انکا نباہ کرنے والے‬
‫بڑی ہی ایمانداری کے ساتھ‬
‫اسے نبھاتے ہیں‬

‫حاجی انکل اور فہد کے گھر‬


‫کے متصل کمرے کا دروازہ‬
‫جس آہستگی سے کھال تھا‬
‫اسی آہستگی سے بند ہو گیا‬
‫اور فہد اپنی حوس بستی میں‬
‫کھویا اس کتاب میں ہی‬
‫مگھن تھا کہ اس کمرے سے‬
‫دو آوازوں کے کھس‬
‫پھسانے کی آواز نے فہد کی‬
‫توجہ کو کتاب سے ہٹا دیا‬
‫اور فہد الجھن بھرے انداز‬
‫میں ادھر ادھر دیکھ کہ‬
‫حاجی انکل کے خاندان کو‬
‫کوسنے لگا کہ سارا دن تو‬
‫آوازیں آتی ہی ہیں‪ ,‬بھال یہ‬
‫کوئ وقت ہے کہ اب بھی ان‬
‫کا شور ختم نہیں ہو رہا‬

‫اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی‬


‫اس کھس پھس کو سننے اور‬
‫سمجھنے کی کوشش شروع‬
‫کر دی اور کچھ ہی دیر میں‬
‫وہ آوازیں تو بند ہو گئی لیکن‬
‫اب جو آوازیں پیدا ہو رہیں‬
‫تھیں وہ غیر معمولی اور‬
‫رونگٹے کھڑے کر دینے‬
‫والی تھیں‬

‫‪Ahh ahhhh ahmmm‬‬


‫‪ufhmmmm ahhh‬‬

‫فہد سیکس سے صرف عملی‬


‫طور پہ ہی نا آشنا تھا باقی‬
‫ان سیکس کہانیوں نے اس‬
‫کی جنسی معلومات کو اس‬
‫قدر بڑھا دیا تھا کہ وہ اگلے‬
‫ہی لمحے سمجھ چکا تھا کہ‬
‫اس وقت ساتھ والے کمرے‬
‫میں کوئی پھدی لن کو اپنے‬
‫اندر جکڑے ہوئے آگے‬
‫پیچھے نکلنے کی آواز پیدا‬
‫کر رہی ہے‬

‫فہد کی آنکھیں حیرانی سے‬


‫پھٹ رہی تھیں اور وہ اس‬
‫گھر میں موجود افراد کا‬
‫حساب کتاب لگانے لگا کہ یہ‬
‫کونسا جوڑا ہو سکتا ہے جو‬
‫رات کے اس پہر اپنی جوانی‬
‫کے نشے کو پورا کر رہا‬
‫ہے‬

‫فہد کو بالکل سمجھ نہیں آ‬


‫رہی تھی کیونکہ وہ دو‬
‫آوازیں جن میں سی ایک‬
‫مردانہ اور ایک زنانہ تھی‬
‫اور دونوں ہی جوان اور‬
‫جانی پہچانی آوازیں لگ‬
‫رہیں تھیں‬

‫فہد اس آواز کا مزہ لیتے‬


‫ہوئے یہی اندازہ لگا رہا تھا‬
‫کہ یہ آوازیں کس جوڑے کی‬
‫ہو سکتی ہیں کیونکہ حاجی‬
‫انکل کے ابھی کسی بیٹے یا‬
‫بیٹی کی شادی نہیں ہوئی‬
‫بہرحال کچھ دیر یہ چدائی کا‬
‫عمل چلتا رہا اس کے بعد‬
‫بے حال سانسوں کی آوازوں‬
‫نے یہ واضح کر دیا کہ‬
‫چدانے کا عمل مکمل ہو چکا‬
‫ہے اور اس کے بعد لکڑی‬
‫کا دروازہ اسی آہستگی سے‬
‫کھال اور بند ہو گیا لیکن فہد‬
‫ایک نئے ہی سوال کا شکار‬
‫ہو گیا تھا‬
‫وہ سوال یہ تھا کہ حاجی‬
‫انکل کے گھر میں کون‬
‫آسکتا ہے؟‬

‫کیا وہ ان کی کسی بیٹی کا‬


‫یار تھا جو رات کو ملنے آیا‬
‫ہوگا یا گھر میں آئی کوئی‬
‫لڑکی ہو گی‬

‫حاجی انکل گرمیوں سردیوں‬


‫میں صحن میں دروازے کے‬
‫آگے چارپائی بچھا کہ سوتے‬
‫ہیں اس لیے ان کے گھر‬
‫کسی گھس بیٹھیے کا آنا تو‬
‫ناممکن ہے اور انکے گھر‬
‫کوئی مہمان بھی نہیں آیا اور‬
‫اگر مہمان آئے بھی ہوں تو‬
‫ہمیں پتہ لگ جاتا ہے تو پھر‬
‫یہ کون ہو سکتا ہے؟‬

‫فہد اسی کشکمش میں وہ‬


‫سیکس سٹوری والی کتاب‬
‫سینے پہ رکھے سو گیا صبح‬
‫جب آنکھ کھلی تو دن چڑھ‬
‫چکا تھا‪ ,‬جلدی سے ہڑبڑا کہ‬
‫ادھر ادھر دیکھا تو اس‬
‫ممنوع کتاب کو باقی کتابوں‬
‫کے پاس پڑی ہوئی دیکھ کہ‬
‫فہد سمجھ گیا کہ رات وہ‬
‫جس کتاب کو پڑھتا ہوا سو‬
‫گیا تھا وہ مہرین باجی نے‬
‫اٹھا کہ محفوظ جگہ پہ رکھ‬
‫دی ہے اور وہ خود کو رات‬
‫کی الپرواہی پہ کوسنے لگا‬

‫مگر خاموش معاہدے کے‬


‫تحت نہ ہی مہرین نے فہد کو‬
‫ڈانٹنا تھا اور نہ ہی فہد نے‬
‫کوئی ردعمل ظاہر کرنا تھا‬
‫لیکن اس کے باوجود احتیاط‬
‫کرنا تو بنتا ہی تھا اور اسی‬
‫لیے فہد ذرا شرمندہ محسوس‬
‫کر رہا تھا‬
‫رات کے واقعے کو ذہن میں‬
‫لیے فہد نے اپنی مالزمت پہ‬
‫جانے سے پہلے ایک چکر‬
‫حاجی انکل کے گھر لگایا تا‬
‫کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ‬
‫انکے گھر کونسا مہمان آیا‬
‫ہے مگر حاجی انکل کے‬
‫گھر میں کسی مہمان کی‬
‫آمدورفت کا دور دور تک‬
‫کوئی نشان نہیں تھا اور یہ‬
‫بات فہد کو مزید پریشان کر‬
‫رہی تھی کہ آخر وہ گرم‬
‫آوازیں کس جوڑے کی تھی‬

‫دن گزرتے گئے مگر دوبارہ‬


‫فہد نے نہ ہی وہ آوازیں سنی‬
‫اور نہ ہی وہ یہ جاننے میں‬
‫کامیاب ہو سکا کہ اس رات‬
‫اس ہمسائے کمرے میں کس‬
‫نے کس کی پیاس بجھائی‪,‬‬
‫مہرین فہد کی اس تذبذب کو‬
‫محسوس تو کر رہی تھی‬
‫مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں‬
‫پوچھ کہ خاموش ہو جاتی‬
‫کیونکہ اس کے اور فہد کے‬
‫درمیان ابھی اتنی بے تکلفی‬
‫نہیں تھی کہ وہ اس ننگی‬
‫گفتگو پہ بات کرتے اس لیے‬
‫فہد خاموش ہی رہا اور‬
‫مہرین نے بھی بات کو‬
‫جانے دیا‬
‫کافی عرصے بعد فہد نے‬
‫دوبارہ سے رات دیر تک‬
‫جاگتے ہوئے وہی چدائی کی‬
‫آوازیں سنی اور ایک‬
‫پرتکلف چدائی کو سننے کے‬
‫بعد اسکی حیرانگی میں مزید‬
‫اضافہ ہو گیا کہ آخر حاجی‬
‫انکل جیسے مذہبی خاندان‬
‫میں کون ہے جو اس طرح‬
‫کے کام کرتا ہے مگر ہر‬
‫ممکنہ تحقیق کے باوحود فہد‬
‫اس بات کا سرا نہ ڈھوڈسکا‬
‫مگر اس کو ایک نہ ایک دن‬
‫یہ جاننا ہی تھا اس لیے اس‬
‫نے ہار تو نہیں مانی لیکن‬
‫ذرا مناسب وقت کے آنے کا‬
‫انتظار کرنے لگا‬

‫ان دو واقعات نے فہد کو‬


‫کافی عرصہ بیچین بھی رکھا‬
‫لیکن وقت اور حاالت کے‬
‫بہاؤ نے فہد کو اس بات کی‬
‫حقیقت سے دور رہنے پہ‬
‫مجبور کر دیا‪.‬‬

‫فہد اور مہرین کے رشتے‬


‫میں ابھی تک سب کچھ‬
‫نارمل تھا ‪,‬ان کے درمیان‬
‫اگر کوئی راز تھا تو وہ بس‬
‫ان سیکس سٹوریز کی بُکس‬
‫واال ہی تھا اور شاید یہ کوئی‬
‫اتنی گھناؤنی بات بھی نہیں‬
‫تھی کیوں کی بہن بھائیوں‬
‫میں اس طرح کے چھوٹے‬
‫موٹے راز چلنا کوئی بڑی‬
‫بات نہیں ہوتی‬

‫سیکس سٹوریز پڑھنے کے‬


‫شوقین بہن بھائی‪ ,‬یعنی فہد‬
‫اور مہرین اب سیکس کے‬
‫حوالے سے مکمل طور پہ‬
‫آگاہ ہوچکے تھے‪ ,‬سیکس‬
‫کے آداب‪ ,‬مختلف پوزز ‪,‬‬
‫اورل سیسکس‪ ,‬اینل سیکس‪,‬‬
‫حمل سے بچنے کے‬
‫طریقے‪ ,‬غرض یہ کہ ہر ہر‬
‫وہ بات جو ان کو سیکس‬
‫سٹوری کے ذریعہ پتہ چلتی‬
‫وہ اسے اپنی ڈکشنری میں‬
‫ایڈکرتے جا رہے تھے اور‬
‫لگاتار ان سیکس سٹوریز کو‬
‫پڑھنے سے جب ان کے‬
‫جذبات بھڑکتے تو جسم میں‬
‫ہارمونل عمل انگیزی کی‬
‫وجہ سے ان کی بات چیت‬
‫اور کسی حد تک جسمانی‬
‫ساخت میں بھی تبدیلیاں آرہی‬
‫تھیں‪ ,‬فہد اور مہرین کم‬
‫عمری اور کسی مناسب‬
‫سرپرستی کی کمی کیوجہ‬
‫سے ان تبدیلیوں سے انجان‬
‫بس حوس زدہ سٹوری‬
‫ریڈرز بن چکے تھے‬
‫دونوں بہن بھائی کا سیکس‬
‫کو لے کہ علمی معیار اب‬
‫قابل تعریف حد تک بڑھ چکا‬
‫تھا اور کسی نہ کسی حد تک‬
‫وہ اب اس لذت کو چکھنے‬
‫کی خواہشات کو دل میں لیے‬
‫پھر رہے تھے‬

‫وقت کی رفتار کہاں کم‬


‫ہونیوالی ہے‪ .‬فہد اور مہرین‬
‫کے امتحانات سر پہ آچکے‬
‫تھے اور کچھ ہی دنوں بعد‬
‫ہونے والے امتحانات کی‬
‫تیاری زورو شور سے رات‬
‫دیر تک چلتی رہتی اور‬
‫دونوں بہن بھائی اپنی مدد‬
‫آپ کے تحت تیاری میں‬
‫کوئی بھی کثر نہیں چھوڑ‬
‫رہے تھے‪ ,‬بہر حال فہد کو‬
‫مہرین باجی کی مکمل مدد‬
‫مل رہی تھی کیونکہ وہ‬
‫فرسٹ ائیر کے امتحان کی‬
‫تیاری کر رہی تھیں‬

‫ایک رات فہد اور مہرین‬


‫اپنے امتحانات کی تیاری‬
‫کیوجہ سے رات دیر تک‬
‫پڑھ کہ اپنے اپنے بستر میں‬
‫لیٹے کچھ عمومی بات کر‬
‫تے کرتے سونے ہی والے‬
‫تھے کہ اچانک حاجی انکل‬
‫کے گھر کے اُسی کمرے‬
‫کےدروازے کی کھلنے کی‬
‫آواز فہد اور مہرین کے‬
‫کانوں میں پڑی اور دونوں‬
‫بالکل ایک ہی لمحے اپنی‬
‫گردنوں کو گھما کہ اس‬
‫کمرے کی طرف متوجہ ہو‬
‫گئے‪ ,‬فہد تو پہلے سے ہی‬
‫جانتا تھا کہ وہ جو دو بار‬
‫پہلے اس کمرے سے ہوتا‬
‫ہوا سن چکا ہے وہ شایدآج‬
‫دوبارہ ہونیواال ہے مگر ایک‬
‫بات جس پہ فہد ذرا اور‬
‫ہڑبڑا گیاکہ مہرین بھی اب‬
‫ایسے پھٹی پھٹی نگاہوں سے‬
‫اس آواز کی طرف متوجہ‬
‫تھی جس خاموشی سے فہد‬
‫اس آواز کی طرف گردن ہوا‬
‫میں اٹھاے چپ تھا‬

‫دروازہ جس آہستگی سے‬


‫کھال تھا کہ اسی آہستگی‬
‫سے "چررر" کی آواز کے‬
‫ساتھ بند ہو گیا ‪ .‬فہد اور‬
‫مہرین ایک دوسرے کی‬
‫طرف سوالیہ نظروں سے‬
‫دیکھتے ہوئے اشاروں میں‬
‫بات کر رہے تھے‪ ,‬گویا‬
‫ایک دوسرے کو ثبوت دے‬
‫رہے ہوں کہ " میں تو نہیں‬
‫جانتا‪/‬جانتی کہ آگے کیا‬
‫ہونیواال ہے"‪ ,‬مگر دونوں‬
‫کے جہرے کے تاثرات سے‬
‫صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ‬
‫بات جس طرح فہد کیلئے‬
‫نئی نہیں اسی طرح مہرین‬
‫بھی اس چیز سے انجان نہیں‬
‫ہے مگر رشتے کی نزاکت‬
‫کیوجہ سے دونوں انجان‬
‫بننے کی بہت اچھی اداکاری‬
‫کر رہے تھے‬

‫حاجی انکل کے سٹور روم‬


‫سےحسب معمول ایک کھسر‬
‫پھسر والی سرگوشی سنائی‬
‫دےرہی تھی جس میں کبھی‬
‫کبھار مسکراہٹیں اور الڈ‬
‫پیار بھری چومنے کی‬
‫آوازیں آرہی تھیں‪.‬‬

‫فہد اور مہرین ان ہی‬


‫مسکراہٹوں اور خوش گپیوں‬
‫کے ساتھ خود بھی مسکرا‬
‫رہے تھے اورایک دوسرے‬
‫کو مسلسل العلمی کا دکھاوا‬
‫بھی کر رہے تھے‬
‫جب دونوں بہن بھائی ایک‬
‫دوسرے کو ال علمی کا‬
‫جھانسہ دے چکے تو فہد نے‬
‫اٹھ کہ جا کہ دیوار کے ساتھ‬
‫کان ٹکا لیا تا کہ زیادہ صاف‬
‫آواز سن سکے‪.‬‬

‫اپنا کان دیوار پہ لگائےفہد‬


‫کی نظریں مہرین کی طرف‬
‫ہو متوجہ تھیں اور مہرین‬
‫ہاتھ کے اشارے سے اسے‬
‫بار بار واپس بال رہی تھی‬
‫اور فہد جوابا مہرین کو یاتھ‬
‫کے اشارے سے پاس آ کہ‬
‫سننے کا کہہ رہا تھا مگر‬
‫مہرین وہیں بستر پر لیٹی‬
‫اسے آنکھ نکال کہ ڈانٹنے‬
‫کی ناکام کوشش کر رہی‬
‫تھی مگر فہد کہاں باز آنیواال‬
‫تھا اور دونوں کے چہروں‬
‫پہ مسکراہٹ اور شرارت‬
‫کے ملے جلے تاثرات تھے‬

‫مہرین اور فہد کے برابر‬


‫والے کمرے میں اب با قاعدہ‬
‫چدائی شروع ہو چکی تھی‬
‫اور اب مہرین سے بھی نہ‬
‫رہا گیا اور وہ بھی ایک کان‬
‫دیوار پہ لگائے اپنے بھائی‬
‫کیطرف منہ کر کہ ان‬
‫آوازوں کو سنتی جا رہی‬
‫تھی‬

‫دو جوان اور شناسا سی‬


‫آوازیں دونوں کو سنائی دے‬
‫رہی تھی‬

‫‪Ahhh ahh hmmm ufff‬‬


‫‪ahhha ahhh ah ahh‬‬
‫‪ahhh ahhhh‬‬
‫فہد کے چہرے پہ مسکراہٹ‬
‫تھی اور مہرین منہ پہ ہاتھ‬
‫رکھے فہد کی طرف ہنستے‬
‫ہوئے سوالیہ نظروں سے‬
‫لگاتار دیکھ رہی تھی‬

‫آنکھوں کے اشاروں سے‬


‫بے معنی گفتگو چلتی جا‬
‫رہی تھی اور دیوار کی‬
‫دوسری طرف چدنے والی‬
‫لڑکی اپنی درد اور لطف‬
‫بھری آواز کو بس ایک حد‬
‫تک ہی روک پا رہی تھی‬

‫دبی ہوئی نسوانی آواز نے‬


‫کچھ واضح الفاظ ادا کئے جو‬
‫کہ فہد اور مہرین کے کانوں‬
‫میں صاف صاف پہنچے‬

‫"میرے منہ میں فارغ ہونا‬


‫جان"‬
‫یہ بات سنتے ہی سیکس‬
‫سٹوریز کے پرانے ریڈر‬
‫مہرین اور فہد نے حیرانی‬
‫اور پشیمانی سے ایک‬
‫دوسرے کی آنکھوں میں‬
‫دیکھ کی مسکراہٹوں کا‬
‫تبادلہ کیا اور اپنے اپنے‬
‫تخیل میں اس منظر کو‬
‫دیکھنے کی کوشش کرنے‬
‫لگے‬
‫مہرین اور فہد آنکھوں‬
‫آنکھوں میں ایک دوسرے‬
‫کو سیکس سٹوری میں‬
‫پڑھے ہوئے مناظر یاد کروا‬
‫رہے تھے اور دیوار کے‬
‫دوسری طرف کچھ منٹس‬
‫سے چل رہی پر تکلف اور‬
‫پر زور چدائی اپنے عروج‬
‫پہ ایک مردانہ اور ایک‬
‫زنانہ آنہوں کے ساتھ جاری‬
‫و ساری تھی‬

‫چدائی رکی اور اف آہ آہ اب‬


‫کم ہو کہ بے ہنگم سانسوں‬
‫کے طوفان چومنے اور‬
‫چاٹنے کی آوازیں مہرین اور‬
‫فہدکے کانوں میں پڑ رہی‬
‫تھیں‬
‫دونوں بہن بھائی ایک‬
‫دوسرے کی طرف‬
‫مسکراتے چہروں سے‬
‫دیکھتے جا رہے تھے اور‬
‫جب دیوار کی دوسری سمت‬
‫سےڈسچارج ہونے کا پتہ‬
‫چال تو فہد نے مہرین کو ہاتھ‬
‫کے اشارے سے اپنے منہ‬
‫کو کھول کہ ایک شرارتی‬
‫انداز سے چھیڑا‪ ,‬گویا وہ‬
‫اپنی بہن کو بتا رہا ہو کہ‬
‫ہمسایہ لڑکا لڑکی کے منہ‬
‫میں ڈسچارج ہو گیا ہے‪.‬‬
‫مہرین نے غصے سے فہد‬
‫کی طرف دیکھ کہ ایک تھپڑ‬
‫کا اشارہ کیا اور دوبارہ کان‬
‫لگا کہ توجہ سے آوازوں‬
‫سے اُدھر کے منظر کا‬
‫اندازہ لگانے لگی‬

‫فہد کی ایکسائٹمنٹ ]‪[/size‬‬


‫اپنے عروج پہ تھی اور‬
‫مہرین کے جذبات بظاہر ذرا‬
‫بھڑک چکے‬
‫تھے‪ ,‬مہرین کے ]‪[/size‬‬
‫چہرے پہ اب ذرا کم‬
‫مسکراہٹ تھی‪.‬‬

‫فہداپنی عمرکیوجہ ]‪[/size‬‬


‫سے جنسی طور پہ اتنا‬
‫جذباتی نہیں تھا جتنی مہرین‬
‫ہو چکی تھی کیونکہ دونوں‬
‫کی عمروں میں فرق تھا اور‬
‫مہرین لڑکی ہونے کیوجہ‬
‫سے ان جذبات کے لیے فہد‬
‫کی نسبت زیادہ بڑی تھیدیوار‬
‫کی دوسری سمت کسنگ اور‬
‫کچھ مدھم آواز میں گفتکوہو‬
‫رہی تھی اور دروازہ اسی‬
‫روایتی آہستگی سے کھال‬
‫اور بند ہو گیافہد اور مہرین‬
‫اپنے اپنے بستر پہ واپس آ‬
‫کہ لیٹ گئے فہد‪ :‬مہرین‬
‫باجی؟ یہ کیا تھا ؟مہرین‪:‬‬
‫تمیہں نہیں پتہ کہ یہ کیا تھا‬
‫؟فہد‪ :‬ہاں جی‪ ,‬پتہ تو ہے‬
‫لیکن کون تھا یہ؟مہرین نے‬
‫ال پرواہ سے انداز میں‬
‫کندھوں کو جنبش دے کہ‬
‫جواب دیامہرین‪ :‬مجھے کیا‬
‫پتہ کہ کون تھا‪ ,‬کوئی اسی‬
‫گھر کا رہنے واال لگتا‬
‫ہےفہد‪ :‬مہرین باجی‪ ,‬ایک‬
‫بات بتاؤں آپکو؟مہرین فہد‬
‫کی طرف متوجہ ہو کہ‬
‫بولیمہرین‪ :‬ہاں بتاؤفہد‪ :‬وہ‬
‫ناں میں نے پہلے بھی یہ‬
‫سب سنا تھا ایک رات‪ ,‬ایک‬
‫بار نہیں دو بار سن چکا‬
‫ہوں‪ ,‬لیکن باجی سمجھ میں‬
‫نہیں آ رہا کو یہ لڑکی لڑکا‬
‫کون ہو سکتے‬

‫مہرین فہد سے عمر میں تو‬


‫بڑی تھی ہی اس لئے بہکے‬
‫ہوئے جذبات کے باوجود‬
‫سلجھے ہوئے انداز میں ہی‬
‫فہد سے گفتگو کر رہی تھی‬

‫لیکن فہد کی باتوں میں‬


‫ضرورت سے زیادہ بچپنے‬
‫کی جھلک تھی اور مہرین‬
‫بھی فہد کے بچپنے والے‬
‫رویہ سے آگاہ تھی‬
‫مہرین‪ :‬تم نے پہلےکب سنا‬
‫یہ سب ؟ اور مجھے پہلے‬
‫کیوں نہیں بتایا؟‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی وہ میں‬


‫ایک دن رات کو پڑھ رہا تھا‬
‫تو تب سنا تھا اور اس کے‬
‫ایک مہینے بعد دوسری دفع‬
‫سنا میں نے‪ .....‬وہ‪....‬‬
‫اب‪ .....‬آپ کو کیا بتاتا میں؟‬
‫فہد نے جھجھک کہ آنکھیں‬
‫جھکا لیں‬

‫مہرین‪ :‬تم اتنی رات گئے‬


‫کب سے پڑھنے لگے؟اور‬
‫کیا پڑھ رہے تھے جناب؟اور‬
‫میرے سونے کے بعد کونسا‬
‫ایسا علمی جوش آ گیا تھا جو‬
‫رات کو کتابیں کھول کہ بیٹھ‬
‫گئے ؟ بتاؤناں ذرا‪ ....‬بولو‬
‫فہد کو آج پہلی دفعی سیکس‬
‫سٹوریز والے معاملے میں‬
‫اپنی بڑی بہن کے سواالت کا‬
‫سامنا کرنا پڑ رہا تھاباوجود‬
‫اسکے‪ ,‬کہ وہ جانتا تھا کہ‬
‫مہرین باجی بھی اس کی‬
‫الئی ہوئی سیکس سٹوری‬
‫پڑھتی ہیں مگر پھر بھی فہد‬
‫شرمندگی سے ڈوب ڈوب مر‬
‫رہا تھا‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی کیا ہو گیا‬
‫ہے؟‬

‫فہد نے اپنی بہن کے ہاتھ‬


‫تھام کہ اپنا پرانا جذباتی وار‬
‫کیا‬

‫مہرین‪ :‬اچھا یہ بتاؤ کہ یہ‬


‫لڑکی لڑکا کون ہیں؟ کوئی‬
‫پتہ وغیرہ لگانے کی کوشش‬
‫کی؟‬
‫مہرین کا لہجہ نرم ہو چکا‬
‫تھا اور دونوں بہن بھائی‬
‫برابر لیٹ کہ ایک دوسرے‬
‫کی طرف منہ کر کہ باتیں‬
‫کر رہے تھے‬

‫فہد‪ :‬باجی کوشش تو کی تھی‬


‫کہ پتہ کروں کون ہے یہ‬
‫لڑکی لڑکا لیکن اب کسی‬
‫کے گھر جا کہ ایسی پوچھ‬
‫گچھ کیسے کروں؟‬

‫مہرین‪ :‬فہد‪ ,‬میں نے بھی یہ‬


‫پہلی بار نہیں سنا‪ ,‬آج سے‬
‫آٹھ یا دس ماہ پہلے میں نے‬
‫دن کے وقت تقریبا ایک‬
‫ڈیڑھ بجے یہ آوازیں سنی‬
‫تھی لیکن تب مجھے ان‬
‫کاموں کا اتنا زیادہ نہیں پتہ‬
‫تھا لیکن آج تو۔۔۔۔۔۔ حد ہو ہی‬
‫ہو گئی آج تو‬

‫مہرین نے بڑے ہی شرارتی‬


‫انداز میں فہد کو آنکھ ماری۔‬

‫فہد‪ :‬باجی سچ بتاؤں تو پڑھ‬


‫کہ اتنا مزہ نہیں آتا جتنا آج‬
‫سن کہ آیا ہے‬
‫مہرین نے فہد کے سر پہ‬
‫مدھم سا تھپڑ لگایا اور اس‬
‫کی بوقوفی پہ ہنسنے لگی‬

‫مہرین‪ :‬گدھے انسان‪ ,‬شرم‬


‫کرو اور اب وقت بہت ہو گیا‬
‫ہے سو جاؤ‪ ,‬صبح بات‬
‫کرتے ہیں‬

‫مہرین نے آگے بڑھ کہ فہد‬


‫کا ماتھا چوما اور دونوں اس‬
‫پہلی بے تکلف اور عریاں‬
‫گفتگو سن کہ نیند کی وادیوں‬
‫میں چلے گئے‬

‫صبح صبح فہد کی آنکھ‬


‫کھلی تو مہرین باجی کا‬
‫ننگاپیٹ فہد کی نظر میں‬
‫آگیااور وہیں سے اس کی‬
‫توجہ آج پہلی بار اپنی بہن‬
‫کے جسم کی بناوٹ کی‬
‫طرف گئی‪ ,‬فہد اس قدر‬
‫معصوم اور بھوال تھا کہ وہ‬
‫اپنی بہن کا جسم تجسس کے‬
‫ساتھ بنا شرمندہ ہوئے دیکھ‬
‫رہا تھا حاالنکہ اپنی بہن کے‬
‫جسم کو دیکھتے وقت عموما‬
‫بھائیوں کے دلوں میں‬
‫شرمندگی کا احساس پیدا‬
‫ہوجاتا ہے لیکن یہ شرمندگی‬
‫کا احساس تو ایک‬
‫مخصوص میچورٹی کے‬
‫ساتھ آتا ہے اور فہد اس وقت‬
‫صرف تجسس سے اپنی بہن‬
‫کے جسم کو دیکھ رہا تھا‬

‫فہد نے دیکھا کہ اسکی بہن‬


‫کا جسم دودھ کی مانند سفید‬
‫ہے اور اس کی بہن کی‬
‫چھاتیوں کی گوالئی بہت‬
‫خوبصورت ہے‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کے جسم کو اس توجہ سے‬
‫نہیں دیکھ رہا تھا جس توجہ‬
‫کا حقدار مہرین کا بے‬
‫مثال‪,‬سیڈول اور ترشا ہوا‬
‫جسم تھا مگر پھر بھی فہد‬
‫کی نظر گول گول چھاتیوں‬
‫کو چوم رہی تھی‬

‫فہد اس منظر سے اپنی‬


‫آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا‬
‫اور روشنی کیوجہ سے اب‬
‫مہرین کی آنکھ کھلی تو اس‬
‫کا چہرہ اپنے بھائی کو دیکھ‬
‫کہ ِکھل ساگیا اور مسکراتے‬
‫چہرے ایک دوسرے پہ‬
‫محبت نچھاور کرنے لگے‬

‫دونوں نیچے آئے اور زندگی‬


‫کے معمول کے مطابق اپنے‬
‫فرائض سرانجام دینے لگے‬

‫غربت اور مجبوری انسان‬


‫کو خواہشات دبانے پہ تو‬
‫مجبور کرتی ہی لیکن اس‬
‫کے ساتھ کسی ایک دن بھی‬
‫انسان کو اپنی ذمہ داریوں‬
‫سے فراموش نہیں ہو نے‬
‫دیتی‬

‫فہد اور مہرین حاالت کی‬


‫چکی میں پستے ہوۓ اپنے‬
‫امتحانات کی تیاری پہ توجہ‬
‫مرکوز کئے ہوئے تھے ۔‬
‫اس رات والے واقعے کو‬
‫لے کہ ایک دوسرے سے‬
‫مذاق چھیڑ خانی بھی کرتے‬
‫رہتے لیکن امتحانات میں‬
‫کامیابی کیلئے مہرین کی تہہ‬
‫دل سے کوششیں فہد کو را ِہ‬
‫راست سے بھٹکنے نہیں دے‬
‫سکتی تھی‪.‬‬

‫حاجی انکل کے گھر میں‬


‫کونسی کھچڑی پک رہی‬
‫تھی یہ سوال مہرین اور فہد‬
‫کو اندر ہی اندر سے بیچین‬
‫کئیے ہوۓ تھی مگر دونوں‬
‫بہن بھائی اپنے امتحانات میں‬
‫اس قدر مصروف ہو گئے کہ‬
‫ان کے لیے یہ معاملہ فی‬
‫الحال اتنی اہمیت نہیں رکھتا‬
‫تھا‬

‫کچھ ہی ہفتوں میں دونوں‬


‫کےامتحانات ختم ہو چکے‬
‫تھے اور اب انکےپاس وافر‬
‫وقت ہوتا اور وہ اس وقت کو‬
‫زیادہ تر اپنی ماں کے ساتھ‬
‫گزارتے‬

‫وقت گزرتا گیا اور پتہ ہی‬


‫نہیں چال کہ مہرین اب بیس‬
‫(‪ )20‬سال کی ایک‬
‫جوان‪,‬خوبصورت‪ ,‬بھرے‬
‫اور سیڈول جسم والی‬
‫دوشیزہ بن چکی تھی‪ ,‬اب وہ‬
‫بی‪ .‬اے کے امتحانات کی‬
‫تیاری کر رہی تھی‪ .‬فہد اپنی‬
‫زندگی کی اٹھارویں بہار‬
‫دیکھ چکا تھا اور اور اب وہ‬
‫اپنی ماں کی خواہش کے‬
‫نقش قدم‬
‫مطابق اپنی بہن کے ِ‬
‫پہ چلتا ہوا ایف‪ .‬اے کے‬
‫امتحانات کی تیاری کر رہا‬
‫تھا‬

‫ہر ماں کی طرح مہرین کی‬


‫امی بھی اس کا کوئی مناسب‬
‫رشتہ ڈھونڈ رہی تھی مگر‬
‫کون اس غریب خاندان سے‬
‫رشتہ جوڑے‪ .‬رشتے آتے‬
‫ضرور مگر کسی مزدور یا‬
‫ان پڑھ سے اپنی پڑھی‬
‫لکھی بیٹی کو بیاہنا تو قتل‬
‫کے مترادف ہونا تھا کہ اس‬
‫لئے مہرین کی امی کے پاس‬
‫دعاؤں کے عالوہ اور کوئی‬
‫راستہ نہ بچا‬
‫بھلے مہرین ایک‬
‫خوبصورت لڑکی تھی‬
‫مگرایسے غربت کے حاالت‬
‫میں جس میں دو وقت کی‬
‫روٹی‪,‬بیوہ ماں کی ادویات‬
‫اور انتہائی قلیل کتابوں‬
‫کاپیوں کے اخراجات پورے‬
‫نہیں ہو رہے تھے‪ ,‬ایسے‬
‫حاالت میں مہرین کی چہرے‬
‫کی رعنائی اور خوبصورتی‬
‫دب کہ رہ گئی تھی‬
‫پچھلے تین سالوں میں مہرین‬
‫اور فہد کے درمیان جو کچھ‬
‫ہوا اس میں وہ کسی اخالقی‬
‫حد کو پار نہ کر سکے‪ ,‬مگر‬
‫اب ان کے درمیان ایک‬
‫دوسرے کی محبت اور لگاؤ‬
‫میں بے پناہ اضافہ ہو چکا‬
‫تھا‪ ,‬وہ دونوں بہن بھائی ہر‬
‫روز اپنی ماں کو دوا وغیرہ‬
‫دے کہ اوپر کمرے میں‬
‫جانے کے لئے بیتاب رہتے‬

‫انسیسٹ ایک ایسی چیز ہے‬


‫جس کے ال تعداد رنگ ہیں‪,‬‬
‫عموما لوگ خونی رشتوں‬
‫میں جسمانی تعلقات کے قائم‬
‫ہونے کو ہی انسیسٹ‬
‫سمجھتے ہیں جبکہ اس کے‬
‫برعکس اس کے عالوہ بھی‬
‫انسیسٹ ہوتا ہے جسے‬
‫مغربی معاشرے نے‬
‫"ایموشنل انسیسٹ" کا نام دیا‬
‫ہے‬

‫بہت سارے مسائل میں‬


‫گھرے دو خونی رشتے جب‬
‫ایک دوسرے سے حد سے‬
‫زیادہ جڑ جائیں جس سے وہ‬
‫ایک دوسرے کو نفسیاتی‬
‫تسکین دینا شروع کر دیں تو‬
‫یہ ایموشنل انسیسٹ کہالتا‬
‫ہے اور اس طرح کے‬
‫رشتوں میں جسمانی لمس‬
‫اس طرح معیوب نہیں رہتا‬
‫بلکہ اس طرح کالمس اور‬
‫ایک دوسرے کیلئے جسم کا‬
‫بے جھجھک دکھاوادونوں‬
‫افراد کیلئے ضرورت کی‬
‫مانند بن جاتا ہے‪ .‬ہاں بہر‬
‫حال سیکس کرنا یا بچے پیدا‬
‫کرنا ایموشنل انسیسٹ سے‬
‫الگ گردانا جاتا ہے‬
‫فہد اور مہرین بھی اسی‬
‫طرح کی صورتحال سے‬
‫دوچار تھے‪ ,‬وہ دونوں اب‬
‫پہلے سے زیادہ میچور تھے‬
‫مگر اس طرح کی نازک‬
‫صورتحال سے خود کو‬
‫بچانےکیلئے ابھی بھی کم‬
‫سن ہی تھے‬
‫دونوں بہن بھائی روزانہ‬
‫رات کو کمرے میں جانے‬
‫کے بعد ایک دوسرے سے‬
‫اپنے دل کی ہر بات کرتے‬
‫اور اس ہو دان نما بالکنی‬
‫میں بیٹھ کہ دنیا جہان کی‬
‫باتیں ایک دوسرے کو‬
‫سناتے‪ .‬بظاہر یہ بہت‬
‫خوبصورت بات تھی مگر ان‬
‫دونوں کے درمیان بڑھتی‬
‫ہوئی یہ محبت کسی انہونی‬
‫کا پیش خیمہ تھی‪ ,‬لیکن‬
‫محبت ہے ہی اتنی ُکتی چیز‪,‬‬
‫جب اس کا بیج بویا جا چکا‬
‫ہوتا ہےتو کون پرواہ کرتا‬
‫ہے کہ انجام کیا ہو گا بلکہ‬
‫محبت کرنے والے تو ہر‬
‫طوفان سے ٹکرانے کیلئے‬
‫تیار رہتے ہیں‪.‬‬

‫حاالت کے مارے مہرین اور‬


‫فہد ایک رات ستاروں اور‬
‫چاند کی چھت کو دیکھتے‬
‫ہوے باتیں کر رہے تھے‪,‬‬
‫مہرین فہد کے چوڑے سینے‬
‫پہ اپنی کمر اور سر ٹکا کہ‪,‬‬
‫فہد کی بانہوں کی گرفت میں‬
‫گھری بیٹھی تھی‪ ,‬رات کا‬
‫ایک بج رہا تھا اور آج‬
‫مہرین اور فہد پڑھائی کو‬
‫چھوڑ کہ بس ایک دوسرے‬
‫کے دل کی باتیں سن رہے‬
‫تھے کہ کہ اچانک دیوار‬
‫کے پار سے دروازہ کھلنے‬
‫کی آواز آئی اور دونوں کو‬
‫آج سے تین سال پہلے واال‬
‫واقعہ یاد آگیا‪ ,‬ویسے تو وہ‬
‫دونوں اُس واقعے کو باتوں‬
‫باتوں میں تین سال سے زندہ‬
‫رکھے ہو ئے تھے مگر آج‬
‫تاریخ اپنے آپ کو نئے رنگ‬
‫میں دہرانے والی تھی‬
‫اس آواز کے آتے ہی دونوں‬
‫نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے‬
‫اپنی اپنی نشست چھوڑی اور‬
‫دبے دبے پاؤں جا کہ دیوار‬
‫سے کان لگا لیے‬

‫دیوار کی دوسری سمت سے‬


‫چومنے اور چاٹنے کی‬
‫آوازیں انتہائی صاف آ رہی‬
‫تھی اور دیوار کے اس‬
‫طرف چہروں کے تاثرات‬
‫انتہائی کومل ہو رہے تھے‬

‫اُدھر با قاعدہ چدائی شروع‬


‫ہوئی تو اِدھر بھی دلوں میں‬
‫جذبات نے انگڑائی بھرنی‬
‫شروع کی‬

‫دیوار کے پار سے آنے والی‬


‫آوازیں اس قدر شہوت انگیز‬
‫تھی کہ فہد اور مہرین ایک‬
‫دوسرے سے نظریں مالنے‬
‫سے کترا رہے تھے‬

‫فہد اور مہرین ایک دوسرے‬


‫کے گھٹنے سے گھٹنا مالئے‬
‫دیوار سے کان جوڑے‬
‫بیٹھے ہوئے تھے اور مہرین‬
‫نے فہد کی دماغی غیر‬
‫حاضری کو محسوس کیا تو‬
‫فورا اس کے ہاتھ کو پکڑ کہ‬
‫اپنی طرف متوجہ کیا‪ ,‬فہد‬
‫نے بھی آنکھوں آنکھوں میں‬
‫ہنس کہ مناسب جواب دے‬
‫کہ توجہ دوبارہ آوازوں پہ‬
‫کر دی مگر مہرین بار بار‬
‫فہد کو چھیڑ رہی تھی‬

‫دیوار کے اُس پار چدائی کا‬


‫کھیل ذرا رک گیا اب آوازیں‬
‫تو آ رہی تھیں مگر فہد اور‬
‫مہرین اندازہ نہیں لگا پا‬
‫رہے تھے کہ آخر اُدھر اب‬
‫کیا ہو رہا ہے‬

‫اچانک سے مہرین کے دماغ‬


‫نے کام کیا اور اس نے فہد‬
‫کو اپنے ہاتھ اور منہ کہ‬
‫اشارے سے سمجھایا کہ‬
‫اُدھر لن منہ کو چود رہا ہے‪,‬‬
‫فہد بھی اشارے سے سمجھ‬
‫تو گیا مگر وہ دونوں ہی اس‬
‫بات کو سمجھ کہ ذرا شرمندہ‬
‫ہو گئے‬

‫کچھ دیر بعد چدائی ختم‬


‫ہوگئی اور وہ دونوں پہلے‬
‫ہی آج کسی بات پہ اندر سے‬
‫بیتاب تھے اوپر سے اب یہ‬
‫والی بیتابی کا بوجھ لے کہ‬
‫واپس اسی بالکنی میں ایک‬
‫دوسرے کے آمنے سامنے‬
‫نظریں مال کہ بیٹھ گئے‬
‫کچھ دیر خاموشی نے اپنا‬
‫دبدبہ قائم رکھا مگر بیچینی‪,‬‬
‫بیتابی کا سمندر ٹھاٹے مارتا‬
‫ہوا دلوں کو بہکا رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬فہد کون ہیں یہ؟ اتنا‬


‫مزہ کرتے ہیں‬
‫فہد‪ :‬باجی پتہ نہیں کون ہیں‬
‫لیکن ایک بات تو تہہ ہے کہ‬
‫یہ حاجی انکل کے فیملی‬
‫ممبرز میں سے ہی کوئی‬
‫ہیں‬

‫مہرین‪ :‬یار ایک ہی فیملی‬


‫ممبر ہوگا یا ہوگی‪ ,‬ایک تو‬
‫الزمی باہر کا ہے‬
‫کچھ دیر سوچنے کے بعد‬
‫مہرین خود ہی بولی‬

‫مہرین‪ :‬لیکن فہد حاجی انکل‬


‫باہر دروازے کے سامنے‬
‫چارپائی لگا کہ سوتے ہیں‬
‫ہیں اور ہمارے گھر میں بھی‬
‫ان کے گھر کی طرح چھت‬
‫کی طرف کوئی راستہ نہیں‬
‫جاتا تو یہ‪ ......‬تو یہ؟ فہد؟‬
‫مہرین بولتے بولتے اچانک‬
‫رک گئی اور اس کے‬
‫چہرے پہ حیرانی کے‬
‫تاثرات صاف چھلک رہے‬
‫تھے‬

‫فہد‪ :‬مجھے بھی یہی لگتا ہے‬


‫جو آپکو لگتا ہے‬
‫مہرین اسی حیرانگی بھرے‬
‫انداز میں فہد کی طرف دیکھ‬
‫رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬تمہارا مطلب؟ وہ‬


‫حاجی انکل کے بچے‪.....‬؟‬
‫مطلب؟؟؟؟ بہن بھائی؟؟؟‬

‫فہد‪ :‬ہو سکتا ہے مہرین‬


‫باجی ورنہ آپ ہی بتائیں کہ‬
‫کون آسکتا ہے ان کے گھر‬
‫باہر سے؟ آپکو آوازیں جانی‬
‫پہچانی نہیں لگتی؟‬

‫مہرین ابھی اسی صدمے میں‬


‫فہد کی باتوں کو ہضم کرنے‬
‫کی کوشش کر رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬مگر حاجی انکل کی‬


‫بیٹیاں تو بڑی پردہ دار ہیں‬
‫اور مدرسے کے عالوہ کہیں‬
‫جاتی آتی بھی نہیں‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی حاجی انکل‬
‫کا سخت اور شدت پسند‬
‫رویہ اور اتنی شدید پابندیاں‬
‫ہی شاید اس کام کی ذمہ دار‬
‫ہیں‬

‫مہرین‪ :‬ہاں تو کیا اب کھال‬


‫چھوڑ دیں وہ اپنی بیٹیوں کو‬
‫جا کہ کسی سے مرضی‪.....‬‬
‫یہ سب‪ .....‬کروایں‬
‫ہچکچاتے ہوے مہرین یہ‬
‫سب بول گئی‬

‫فہد‪ :‬باجی ایسی بھی بات‬


‫نہیں لیکن جس طرح حاجی‬
‫انکل نے اپنے بچوں کو ڈر‬
‫اور خوف کا شکار بنا کہ‬
‫رکھا ہے اس سے وہ باہر تو‬
‫کچھ کر نہیں سکے اور گھر‬
‫میں ہی‪ .......‬شروع ہو گئے‬
‫فہد اور مہرین کھل کہ بولنا‬
‫چاہ رہے تھےمگر انہیں‬
‫ایک ہچکچاہٹ کا ابھی بھی‬
‫سامنا تھا‬

‫مہرین اور فہد کے لیے اپنے‬


‫اتنے قریب اور مشترکہ‬
‫طور پہ ایک انسیسٹ ریلیشن‬
‫کے گواہ ہونے کی وجہ سے‬
‫کچھ عجیب خیاالت ستانے‬
‫لگے تھے مگر وہ دونوں ہی‬
‫کسی طرح کے گناہ میں‬
‫شامل نہیں ہونا چاہ رہے‬
‫تھے یا یوں کہہ لیں کہ‬
‫دونوں کو فی الحال وقت‬
‫چاہئیے تھا لیکن وقت ہی تو‬
‫ان کو خود اتنا پاس ال رہا تھا‬
‫ورنہ ہلکی پھلکی اونچ نیچ‬
‫تو ہر بہن بھائی کے درمیان‬
‫ہوتی ہے‪ ,‬نہیں ہوتی تو وقت‬
‫کی اتنی فراوانی نہیں ہوتی‬
‫جتنی فہد اور مہرین کو‬
‫میسر تھی‬

‫مہرین‪ :‬نہ بابا نہ‪ ,‬میں تو‬


‫سوچ بھی نہیں سکتی ایسا‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہاہا باجی جانے دو‪,‬‬


‫میں سوچ سکتا ہوں بھال‬
‫ایسا؟‬
‫مہرین نے بھی اس مزاح‬
‫میں فہد کو شرارتی انداز‬
‫میں مسکرا کہ جواب دیا‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں ہو سکتا‬


‫ہے‪ ...‬تم ایسا سوچو تو‬
‫صحیح میں تمیں گنجا کر‬
‫دونگی‬

‫فہد‪ :‬لیکن مہرین باجی تین‬


‫سال سے تو ہم اس کو سن‬
‫رہے ہیں نجانے کب سے یہ‬
‫سب چل رہا ہے اور کون‬
‫سی والی بہن ہے اور کون‬
‫سا بھائی ہے‬

‫مہرین‪ :‬اب یہ تو وہ کسی دن‬


‫رنگے ہاتھوں پکڑے جائیں‬
‫تو ہی پتہ چلے گا‬

‫فہد‪ :‬ہاۓ ایسے نہ بولیں‬


‫باجی‪ ,‬کسی کا کیا لیتے ہیں‬
‫اپنے مزے کرتے ہیں کرتے‬
‫جائیں اور ویسے بھی باہر‬
‫سے تو بہتر‪ ......‬میرا مطلب‬

‫مہرین نے فہد کی بات سن‬


‫کہ ترچھی اور طنزیہ نگاہ‬
‫سے فہد کی طرف دیکھا‬

‫مہرین‪ :‬بڑے لبرل خیاالت‬


‫ہیں تمہارے فہد‪ ,‬شرم کرو تم‬
‫کل کو تم‬
‫مہرین غصے میں بولتی‬
‫بولتی چپ کر گئی اور فہد‬
‫نے بڑھ کہ مہرین کو گلے‬
‫لگا لیا‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی کل کو کیا‬


‫میں کسی بھی دن ایسا نہیں‬
‫سوچونگا‬
‫مہرین نے بھی فہد کے گرد‬
‫بانہیں پھیال لیں اور دونوں‬
‫ہی اندر اندر سے اپنے‬
‫جذبات کوایک دوسرے‬
‫کیلئے محسوس کر رہے‬
‫تھے‬

‫فہد اور مہرین اپنے اپنے‬


‫بستر پہ آکہ لیٹ گئے لیکن‬
‫آج رات دونوں ہی بےچینی‬
‫کے شکار نیند کو تالشتے‬
‫تالشتے بآلخر سو گئے‬

‫وقت بیتتا جا رہا تھا‪ ,‬فہد کی‬


‫تنخواہ اب اتنی ہو گی تھی‬
‫کہ وہ گھر کے کافی سارے‬
‫اخراجات اٹھانے لگ گیا تھا‪,‬‬
‫حاالت ذرا بہتری کی طرف‬
‫جا رہے تھے مگر انکی امی‬
‫کی صحت دندبدن خراب‬
‫ہورہی تھی جس کی وجہ‬
‫سے وہ دونوں اپنے قرب‬
‫کے لمحات کو قربان کر کہ‬
‫اپنی ماں کی صحت کو وقت‬
‫دے رہے تھے۔‬

‫فہد اور مہرین اب زیادہ تر‬


‫اپنی وقت اپنی امی کو دیتے‬
‫اور پڑھائی سے ان کا دھیان‬
‫ہٹ چکا تھا مگر اوپر کمرے‬
‫میں جانا اور وہاں ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ بے‬
‫تکلفانہ چھیڑ چھاڑ اور‬
‫گفتگو ان کی عادت بن چکی‬
‫تھی جو کہ وہ اپنی امی کے‬
‫سامنے کرنے سے‬
‫ہچکچاتے تھے‬

‫کافی دن ایسے ہی گزرے تو‬


‫ایک رات مہرین نے فہد کو‬
‫نیند سے جگایا اور وہ‬
‫گھبراء کہ اٹھ گیا‬
‫مہرین نے فورا اسکے منہ‬
‫پہ ہاتھ رکھ کہ اسے چپ‬
‫رہنے کا کہا اور اسے اٹھا‬
‫کہ اوپر کمرے میں لے آئی‪,‬‬
‫فہد جو ک صبح ڈیوٹی پہ‬
‫جانے کیلئے سویا ہوا تھا‬
‫اپنی محبوب بہن کے اشارے‬
‫پہ اوپر آ گیا‬
‫اوپر آتے ہی فہد نے مہرین‬
‫سے سوال کیا‬

‫فہد‪ :‬کیا ہوا باجی اس ٹائم‬


‫اوپر کیوں لے آئیں ؟‬

‫مہرین کے چہرے پہ ذرا‬


‫غصے کے تاثرات تھے اور‬
‫وہ منہ بنا کہ بولی‬
‫مہرین‪ :‬کتنے دن ہو گئے ہیں‬
‫ہم الگ الگ ہیں ایک‬
‫دوسرے سے‬

‫فہد‪ :‬کیا مطلب باجی؟سارا دن‬


‫کام پہ اس کے بعد گھر آکہ‬
‫میں کہاں جاتا ہوں؟‬

‫در اصل مہرین ایموشنل‬


‫انسیسٹ کا شکار تھی اور‬
‫فہد کی ساتھ رات میں وقت‬
‫گزار کہ اپنے آپ کو سکون‬
‫دیتی تھی‬

‫مہرین نے فہد کے گلے میں‬


‫بانہیں ڈال لیں اور وہ وہیں‬
‫کھڑے کھڑے ایک دوسرے‬
‫کو گلے لگائےہوۓ تھے‬

‫فہد‪ :‬آ جاو یہیں سو جاتے ہیں‬


‫باجی‬
‫مہرین بنا کسی بحث کے فہد‬
‫لے کہ بستر میں آ گئی‪ ,‬نیند‬
‫تو فہد کی برباد ہو ہی گئی‬
‫تھی لیکن اس کو نیند کی‬
‫بربادی کا کوئی نقصان نہیں‬
‫پہنچا‬

‫مہرین آج فہد کے ساتھ اپنا‬


‫جسم لگائے اس کے سینے‬
‫پہ سر رکھ کہ لیٹی ہوئی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کی گول فربہ‬
‫اور نرم چھاتیاں فہد کے‬
‫ساتھ مکمل طور پہ چسپاں‬
‫تھی‬

‫فہد نے اپنے بازو سے‬


‫مہرین کو پکڑا ہوا تھا اور‬
‫یہ انکی زندگی کا پہال ایسے‬
‫ساتھ سونے کا تجربہ تھا‪ ,‬آج‬
‫سے پہلے فہد اور اسکی بہن‬
‫رات کو ایسے ایک ہی بستر‬
‫میں گلے لگ کہ کبھی نہیں‬
‫سوئے تھے‬

‫مہرین نے فہد کے چہرے‬


‫کے پاس اپنا منہ کر کہ اس‬
‫کے گال کو چوما اور فہد‬
‫ہنس پڑا‬

‫مہرین‪ :‬کیا ہوا؟ہنس کیوں‬


‫ہنس رہے ہو؟‬
‫فہد‪ :‬نہیں باجی مجھے شرم‬
‫آرہی ہے‪ ,‬کبھی آپکے اتنا‬
‫پاس نہیں سویااور نہ ہی‬
‫ایسے آپ نے پہلے کبھی‬
‫چوماہے‬

‫مہرین‪ :‬پاگل بڑی بہن ہوں‬


‫تمہاری شرم والی کیا بات‬
‫ہے‪ ,‬ادھر ہمسائے گھر میں‬
‫دو بہن بھائی کیا کیا کرتے‬
‫ہیں اور تم اتنے سے شرما‬
‫گئے ؟‬

‫مہرین اور فہد اس بات پہ‬


‫ہنسنے لگے‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہاہاہا مہرین باجی‬


‫شرم کریں‪ ,‬توبہ کریں توبہ‬
‫مہرین نے دوبارہ سے فہد‬
‫کو گردن سے چوم لیا اور‬
‫فہد نے مہرین کی طرف‬
‫کروٹ کر کہ اسے اپنے‬
‫سینے میں سما لیا‬

‫مہرین گھر میں قید رہنے‬


‫والی لڑکی تھی جس کے‬
‫لیے فہد کے عالوہ کوئی‬
‫اور مرد میسر نہ تھا مگر وہ‬
‫نہ صرف جسمانی طلب کی‬
‫وجہ سے یہ سب کر رہی‬
‫تھی بلکہ نفسیاتی تسکین بھی‬
‫اسے صرف فہد سے ہی‬
‫ملتی تھی‬

‫ساری رات فہد اور مہرین‬


‫ایک دوسرے کی بانہوں میں‬
‫لپٹ کر سوئے رہے‪ ,‬اس حد‬
‫تک ایک دوسے کے قریب‬
‫ہو نے کے باوجود فہد نے‬
‫اور مہرین نے رشتے کے‬
‫تقدس کو پامالی کیطرف‬
‫بڑھنے نہیں دیا اور یہ بہت‬
‫بڑی بات تھی‬

‫کافی دن گزر گئے اور اب‬


‫جیسے جیسے انکی امی کی‬
‫طبیعت بہتر ہوتی گئی وہ‬
‫دوبارہ سے اپنی اوپر سونے‬
‫والی روٹین پہ واپس آتے‬
‫گئے اب فرق یہ تھا کہ‬
‫دونوں اکثر رات کو ایک‬
‫دوسرے کے گلے لگ کہ‬
‫سوتے جس کی وجہ سے ان‬
‫دونوں کے درمیان بے تکلفی‬
‫خوشگوار حد تک بڑھ چکی‬
‫تھی‬

‫فہد اور مہرین دونوں اس‬


‫بات سے آگاہ تھے کہ ان کو‬
‫بس اپنی اس حد سے تجاوز‬
‫نہیں کرنا اور ابھی تک وہ‬
‫اس حد میں رہنے میں‬
‫کامیاب تھے‬

‫کچھ ماہ ایسے ہی بیت‬


‫گئے‪,‬فہد اور مہرین کا قرب‬
‫اب جسمانی لحاظ سے بہت‬
‫دلکش ہو چکا تھا‬

‫مون سون کی بارشیں کبھی‬


‫دن میں برستی اور کبھی‬
‫رات میں‪ .‬فہد کا سارا گھر‬
‫بند تھا جس کی وجہ سے‬
‫مہرین تو کم از بارش میں‬
‫نہانے کا شوق تو پورا نہیں‬
‫کر سکتی تھی لیکن فہد نے‬
‫باہر آنا جانا ہوتا تھا اسلیے‬
‫اس کو اکثر یہ موقع مل جاتا‬

‫ایک رات فہد اور مہرین‬


‫رات کو بیٹھے پڑھ رہے‬
‫تھے اور اس دن بارش کا‬
‫بھی مکمل موڈ تھا کہ وہ آج‬
‫کھل کہ برسے‪ ,‬بالکنی میں‬
‫محدود سی جگہ تھی اور‬
‫مہرین نے پکا ارادہ کر لیا‬
‫تھا کہ اگر آج بارش برسی‬
‫تو الزمی نہائے گی اور فہد‬
‫اپنی بہن کو اس بھدے خیال‬
‫سے منع کر رہا تھا مگر‬
‫مہرین اور بارش دونوں کے‬
‫ارادے آج پہاڑ کیطرح‬
‫مضبوط تھے‬
‫بارش نے بھی برسنے میں‬
‫شدت دکھائی اور مہرین بھی‬
‫اس بالکنی میں کھڑی‬
‫بھیگنے لگی‪ ,‬فہدکمرے میں‬
‫ہی نزدیک بیٹھا اپنی بہن‬
‫کے پورے ہوتے ہوئے شوق‬
‫پہ ہنس کر رہا تھا‬

‫مہرین مکمل بھیگ کہ رات‬


‫کی رانی لگ رہی تھی ساتھ‬
‫اور اس کا سارا بھیگا بدن‬
‫فہد کی نظروں کے سامنے‬
‫تقریبا عریاں تھا‬

‫کچھ دیر بعد جب مہرین نے‬


‫فہد کو بھی اپنے ساتھ وہاں‬
‫کھینچ لیا تو فہداور مہرین‬
‫ایک ساتھ اس بارش میں‬
‫بھیگنے لگے‬

‫بارش نجانے کب رکتی لیکن‬


‫اب ٹھنڈی ہوا سے ان کے‬
‫جسم ٹھٹھررہے تھے اور‬
‫مہرین تو فہد کے سامنے‬
‫تقریبا عریاں تھی‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین دونوں ہی بہک رہے‬
‫تھے اور آج کا طوفان‬
‫صرف موسم میں ہی نہیں آیا‬
‫تھا بلکہ جذبات میں بھی آرہا‬
‫تھا‬

‫ہنستے کھیلتے دونوں بہن‬


‫بھائی بارش کو چھوڑ کہ‬
‫کمرے میں آگئے اور آ تے‬
‫ہی اپنے جسموں کو خشک‬
‫کرنے لگے‬

‫فہد کے کپڑے تو اوپر‬


‫موجود تھے لیکن مہرین یہ‬
‫سوچ کہ گھبرا رہی تھی کہ‬
‫اس کے کپڑے نیچے امی‬
‫کے کپڑوں کے ساتھ پڑے‬
‫ہیں اور اس ٹائم جا کہ کپڑے‬
‫ڈونڈنے سے ایک تو امی‬
‫جاگ جائے گی اور دوسرا‬
‫وہ اس بچگانہ حرکت پہ‬
‫ناراض بھی ہوں گی‬

‫بآلخر فیصلہ یہ ہو کہ مہرین‬


‫فہد کے ہی کوئی ٹراؤزر‬
‫شرٹ پہن کہ سوئے گی‬
‫اوراپنے کپڑوں کو پھیال دے‬
‫گی تا کہ وہ صبح تک سوکھ‬
‫جائیں جن کو وہ صبح پہن‬
‫کہ نیچے چلی جائے گی‬
‫یہی ایک محفوظ اور مناسب‬
‫طریقہ تھا‪ .‬دونوں نے کپڑے‬
‫تبدیل کر لیے اور جب‬
‫مہرین فہد کی کھلی ٹی‬
‫شرٹ میں بنا بریزئیر کے‬
‫فہد کے سامنے آئی تو اس‬
‫کے سردی سے اکڑے ہوں‬
‫تنے ہوئے نپلز چھاتی کی‬
‫گوالئی کی خوبصورتی دکھا‬
‫دہے تھے‬
‫مہرین بڑے ہی بے باک‬
‫انداز میں اپنے کپڑوں کو‬
‫نچوڑ کہ پھیالنے لگی اور‬
‫شلوار‪ ,‬قمیض اور آخر پہ‬
‫بریزئیر کو بھی سوکھنے‬
‫کے لیے پھیال دیا‬

‫فہد یہ سب منظر کو دیکھتے‬


‫ہوئے بہت نروس کو رہا تھا‬
‫مہرین نروس ہو رہے اپنے‬
‫بھائی کے جذبات کو سمجھ‬
‫سکتی تھی‪ ,‬اپنے بالوں کو‬
‫تولیئے سے اچھی طرح‬
‫خشک کر ک اپنے آپ کو‬
‫چادر سے لپیٹ کہ بستر پہ‬
‫جا لیٹی‪ ,‬فہد ابھی بھی‬
‫فاصلے پہ بیٹھا حاالت کے‬
‫مطابق ڈھلنا چاہ رہا تھا‬
‫بارش ابھی بھی اُسی آب‬
‫وتاب سے برس رہی تھی‪,‬‬
‫بادلوں کی گرج چمک اور‬
‫بالکنی سے آتی ہوئی نم اور‬
‫ٹھنڈی ہو کا ایک عجیب ہی‬
‫لطف آرہا تھا‬

‫کچھ دیر بعد مہرین نے فہد‬


‫کو بستر میں آنے کا کہا اور‬
‫فہد اپنے بستر میں لیٹ گیا‬
‫اور مہرین اس کے برابر‬
‫میں آکہ لیٹ گئی‬

‫مہرین کی چھاتیاں شرٹ میں‬


‫ابھر کہ نپلز کی بناوٹ‬
‫واضح دکھا رہی تھی اور فہد‬
‫یہ سب دیکھتا اور نہ چاہتے‬
‫ہوئے بھی اس منظر کو‬
‫اگنور کر رہا تھا لیکن کب‬
‫تک کرتا‬
‫مہرین نے فہد کو گلے لگا‬
‫کہ سونے کی کوشش کی‬
‫اور دونوں بہن بھائی رات‬
‫کے اگلے پہر نیند کی وادی‬
‫میں چلے گئے‬

‫بارش برستی رہی اور موسم‬


‫میں خنکی بڑھتی رہی‪ ,‬رات‬
‫کو دونوں گرم جسم جب‬
‫موسم کی سردی سے ٹھنڈے‬
‫پڑنے لگے تو نیند میں ہی‬
‫ایک دوسرے سے چپکنے‬
‫لگے‬

‫فہد کی آنکھ نہ جانے کس‬


‫پہر کھلی بارش ابھی بھی پڑ‬
‫رہی تھی‪ ,‬اور دن ہلکا ہلکا‬
‫چڑھ چکا تھا‬

‫مہرین اور فہد ایک دوسرے‬


‫کو گلے لگاے لیٹے ہوئے‬
‫تھے انکے ہونٹ ایک‬
‫دوسے کے ہونٹوں کے عین‬
‫پاس تھے‬

‫فہد کا لن تنا ہو اپنی بہن کی‬


‫ٹانگ میں گھس رہا تھا اور‬
‫اس کا ننگا پہٹ شرٹ سے‬
‫آزاد تھا‬

‫فہد نیند سے بیدار اپنے‬


‫جذبات کو قابو نہ کر سکا‬
‫اور اس نے اپنی بہن کے‬
‫لبوں سے لب مال لیے‬

‫یہ اس کےلیے اس قدر نراال‬


‫احساس تھا کہ وہ اپنے ہونٹ‬
‫اپنی بہن کے ہونٹوں سے‬
‫جوڑ کہ لیٹا رہا‬

‫سانسوں کی گرمی کا احساس‬


‫دونوں کو بیچین کرتا گیا اور‬
‫کچھ لمحوں بعد ہی آدھی‬
‫سوئی آدھی جاگی مہرین نے‬
‫فہد کے ہونٹوں کو چوسنا‬
‫شروع کر دیا‬

‫دونوں بہن بھائی ایک‬


‫دوسرے کے ہونٹ چومنے‬
‫لگے اور اب جسم بھی ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ مل مل کہ‬
‫رگڑ کھانے لگے‬
‫اب دونوں بند آنکھوں نیند‬
‫سے بیدار بہکاوے کی انتہا‬
‫پہ ایک دوسرے کے ہونٹ‬
‫چومنے میں لگے ہوئے‬
‫تھے‬

‫فہد کا ہاتھ مہرین کی شرٹ‬


‫سے ہوتا ہوا اس کی ایک‬
‫چھاتی پہ چال گیا فہد بڑی‬
‫نرمی سے چھاتی کو مسلنے‬
‫لگا‬
‫مہرین کی نرم جلد مخمل‬
‫سے بھی مالئم تھی اور اس‬
‫کی چھاتیاں بھرپور طریقے‬
‫سے تنی ہوئی تھی‬

‫مہرین کا ایک ہاتھ فہد کے‬


‫سر او بالوں میں گھوم رہا‬
‫تھا اور ایسے ہی کسنگ‬
‫کرتے کرتے مہرین کہ‬
‫شرٹ سے دونوں چھاتیاں‬
‫آزاد فہد کی گرفت میں تھیں‬

‫مہرین اس قدربہک چکی‬


‫تھی کہ وہ رکنے کا نام ہی‬
‫نہیں لے رہی تھی اور وہ اب‬
‫فہد کے اوپر آ کہ اس کو‬
‫چوم رہی تھی فہد نیچے سے‬
‫مہرین کے جسم کو سہالتا‬
‫جا رہا تھا اور مہرین ایک‬
‫بھی لمحے کیلئے فہد کی‬
‫ہونٹ آزاد نہیں کر رہی تھی‬

‫فہد نے مہرین کی شرٹ کو‬


‫اٹھایا تو مہرین نے بازو اٹھا‬
‫کہ شرٹ کو اتار دیا اور‬
‫ننگی چھاتیوں کو فہد کے‬
‫منہ میں دینے لگی‬

‫فہد نے مہرین کے نپلز کو‬


‫چوما اور چوسا اور اتنا‬
‫چوما کہ وہ تھوک سے گیلے‬
‫ہو چکے تھے‬

‫فہد کا لن مہرین کی گانڈ میں‬


‫چبھ رہا تھا اور وہ بھی اس‬
‫خوب مزے سے محسوس‬
‫کر رہی تھی قریب تھا کہ فہد‬
‫مہرین کی ٹراؤزر نیچے‬
‫سرکاتا ک اچانک نیچے سے‬
‫ان کی امی کی آواز آئی‬
‫مہرین جلدی سے فہد کے‬
‫اوپر سے اتر کہ کمرے کے‬
‫دروازے کی طرف بھاگی‬
‫اور احتیاط سے نیچے نظر‬
‫دوڑائی تو اس کی امی کی‬
‫دوبارہ آواز بلد ہوئی‬

‫فہد اور مہرین ایک دوسرے‬


‫کے سامنے بے باک انداز‬
‫میں ایک خوبصورت خواب‬
‫سے جاگے ہی تھے‬
‫مہرین بنا شرٹ کے فہد کے‬
‫سامنے کھڑی اپنا بریزئیر‬
‫دیکھ کہ اس کی نمی کا‬
‫اندازہ لگا رہی تھی اور فہد‬
‫وہیں بت بنا لیٹا ہوا اپنی بہن‬
‫کے جسم کی بناوٹ کو دل‬
‫ہی دل میں سراہ رہا تھا‬

‫نیم گیال بریزئیر پہننے میں‬


‫مصروف مہرین نے جلدی‬
‫جلدی قمیض پہن کی فہد کی‬
‫طرف پہلی با قاعدہ نگاہ ڈال‬
‫کہ منہ گھمانے کا اشارہ کیا‬

‫فہد نے منہ گھمایا تو مہرین‬


‫نےٹراؤزر اتار کہ شلوار‬
‫پہن کہ فہد کو محاطب کیا‬

‫مہرین‪ :‬بارش تو ابھی بھی‬


‫نہیں رکی‬
‫مہرین ایسے بات کر رہی‬
‫تھی جیسے کچھ بھی نہیں‬
‫ہوا اور فہد نے بھی یہی کیا‬
‫لیکن اندر ہی اندر سے وہ‬
‫دونوں شرمندہ اور گھبرائے‬
‫ہوئے تھے‬

‫اس دن فہد بارش میں ہی‬


‫ڈیوٹی پر چال گیا اور مہرین‬
‫نے اسے ایک بار بھی نہیں‬
‫روکا کیونکہ گزشتہ رات‬
‫جس حد کو انہوں نے پار کیا‬
‫تھا اس کی وجہ سے دونوں‬
‫ہی پشیمان تھے‪۰‬‬

‫نہ جانے اب وہ دونوں ایک‬


‫دوسرے کا سامنا کیسے‬
‫کریں گے لیکن ایک بات طہ‬
‫تھی کہ اب انکا رشتہ خراب‬
‫ہو چکا ہے اور اگر ان کو یہ‬
‫رشتہ بچانا ہے تو دونوں کو‬
‫ہی کمال ضبط کا مظاہرہ‬
‫کرنا پڑیگا‪.‬‬

‫فہد جس ذہنی تناؤ میں گھر‬


‫سے بھیگتا ہوا نکال تھا‬
‫تقریبا وہی حال گھر میں‬
‫مہرین کا بھی تھا‪,‬وہ فہد کو‬
‫چاہتے ہوئے بھی نہیں روک‬
‫سکی‪,‬جب فہد دروازے سے‬
‫باہر نکال تو مہرین بس اسے‬
‫دروازے سے بھیگتے ہوئے‬
‫جاتا دیکھتی رہی‪ .‬فہد جس‬
‫دفتر میں مالزمت کرتا تھا‬
‫وہاں کے سب افسرفہد کو‬
‫اس خراب موسم میں دفتر‬
‫پہنچنے پہ ڈانٹ رہے تھے‬
‫لیکن فہد کے دماغ پہ رات‬
‫والے واقعات کا اتنا گہرا اثر‬
‫پڑ چکا تھا کہ وہ اب دوبارہ‬
‫گھر جانا ہی نہیں چاہ رہا تھا‬
‫اور اپنی بہن کا سامنا کرنے‬
‫کی ہمت فہد میں بالکل بھی‬
‫نہیں تھی‬

‫مہرین بھی سارا دن ذہنی‬


‫طور پہ غیر حاضر فہد کی‬
‫جلد گھر واپسی اور اس کی‬
‫صحت سالمتی کی دعائیں‬
‫کرتی دن کاٹ رہی تھی‬

‫ایک طرف فہد خود کو‬


‫مہرین کا مجرم بنا کہ ہلکان‬
‫ہو رہا تھا اور گھر میں‬
‫مہرین خود کو اپنے بھائی‬
‫کی مجرم مان کہ بیٹھی اس‬
‫گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہ‬
‫رہی تھی‪ ,‬حاالنکہ نہ ہی فہد‬
‫مجرم تھا اور نہ ہی مہرین‪,‬‬
‫مجرم تو جذبات تھے جو‬
‫بھڑک اٹھے لیکن محبت‬
‫کرنے والوں کی ایک اپنی‬
‫ہی منطق ہوا کرتی ہے‪ ,‬اسی‬
‫لیے فہد اور مہرین دونوں‬
‫کے حواس بے قابو تھے‬
‫ورنہ بہکاوے کو ذمہ دار بنا‬
‫کہ دلوں کوسمجھایا ہی جا‬
‫سکتا تھا‬

‫دفترکا وقت ختم ہوا تودفتر‬


‫کےتمام لوگ جلدی گھر‬
‫پہنچنے کیلئے اپنے اپنے‬
‫راستے ہو لیے لیکن فہد کی‬
‫سست‬ ‫دفتر سے نکلنے کی ُ‬
‫روی کو دیکھ کہ ایسا لگ‬
‫رہا تھا جیسے اسکا تو کوئی‬
‫گھرہے ہی نہیں‪ ,‬فہد جانتا‬
‫تھا کہ اگر وہ گھر ذرا سی‬
‫بھی دیر سے پہنچا تو اسکی‬
‫امی اور مہرین باجی گھبرا‬
‫جائیں گی اس لیے بھاری‬
‫قدموں کے ساتھ وہ گھر کی‬
‫طرف چل دیا‪ ,‬دفتر سے کچھ‬
‫قدم ہی چال تھا تو بارش کی‬
‫اوسط درجے کی رم جھم‬
‫نے دوبارہ سے برسنا شروع‬
‫کر دیا‪ ,‬سارے دن کا تھکا‬
‫ہارا فہد اپنی بھوک سے بے‬
‫پرواہ بھیگتا ہوا گھر کی‬
‫طرف بڑھتا گیا اور بیس‬
‫پچیس منٹ کی پیدل مسافت‬
‫طہ کر کہ جب گھر کے‬
‫دروازے کے پاس پہنچا تو‬
‫پریشان حال مہرین سر پہ‬
‫دوپٹہ اوڑھے دروازے میں‬
‫اپنے اکلوتے بھائی کی‬
‫منتظر کھڑی تھی‬
‫فہد کو بھیگتا ہوا آتا دیکھ کہ‬
‫بہن کا دل پسیج گیا اور اس‬
‫کو جلدی سے اندر ال کہ‬
‫تولیے سے اس کے جسم‬
‫اور بالوں کو سکھانے لگی‪,‬‬
‫سر تا پا بھیگا فہد سالم دعا‬
‫کے عالوہ کچھ زیادہ نہیں‬
‫بول پا رہا تھا اور ان دونوں‬
‫کی امی بستر پہ بیٹھی فہد‬
‫کو محبت بھری ڈانٹ پال‬
‫رہی تھی کہ اتنے خراب‬
‫موسم میں ظالم دفتر والوں‬
‫نے اس کے بیٹے کو بال لیا‬

‫فہد اور مہرین کے درمیان‬


‫ایک سرد مہری کا عالم تھا‪,‬‬
‫کپڑے بدل کہ فہد سکون‬
‫سے بیٹھا اپنی ماں کو تسلی‬
‫دینے لگا کہ کام کی نوعیت‬
‫ہی ایسی ہے وغیرہ وغیرہ‬
‫رات کو دونوں بچے اپنی‬
‫ماں کے پاس لیٹے سونے کا‬
‫بہانہ کر رہے تھے لیکن‬
‫ذہنی قرب اس قدر شدید تھا‬
‫کہ دونوں بہن بھائی رات‬
‫دیر تک چھت کو گھورتے‬
‫رہے‬

‫رات کے کسی پہر مہرین‬


‫بیچینی سے بھری نیند سے‬
‫بیدار ہوئی تو برابر والی‬
‫سمت میں اپنے بھائی کو‬
‫جسم سمیٹے ہوئے کانپتا پایا‬
‫تو ہڑبڑا کہ اپنے بھائی‬
‫کیطرف لپکی‪ ,‬ماتھے پہ ہاتھ‬
‫لگایا تو فہد کا جسم کسی‬
‫شعلے کی طرح تپ رہا تھا‪,‬‬
‫فورا کمبل اٹھایا اور فہد کو‬
‫لپیٹ دیا اور آنسووں کی‬
‫قطار مہرین کے گال‬
‫بگھونے لگی‬
‫ساری رات فہد کے سرہانے‬
‫بیٹھ کہ دعائیں کرتی کبھی‬
‫فہد کے سر کو دبانے لگتی‬
‫اور کبھی اسکے بازو اور‬
‫کبھی ٹانگیں‬

‫مہرین فہد کے سرہانے‬


‫بیٹھی سر کو دباتے دباتے‬
‫دوبارہ سو گئی اور صبح‬
‫جب فہد بخار سے تپتا ہوا‬
‫نیند سے بیدار ہوا تو اپنی‬
‫بہن کو ترچھی سمت میں‬
‫بیٹھی ہوئی دیکھا تو اٹھنے‬
‫کی کوشش کرنے لگا اور‬
‫فہد کی ہلکی سے جنبش سے‬
‫مہرین فورا بیدار ہو گئی ‪,‬فہد‬
‫بخار کی شدت کیوجہ سے‬
‫اٹھ بھی نہیں پا رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین نے فورا کھڑے ہو کہ‬
‫فہد کو اپنے سہارے سے‬
‫اٹھایا اور فہد کو واش روم‬
‫تک چھوڑ کہ باہر کھڑی ہو‬
‫گئی‬

‫مہرین‪ :‬اندر سے کنڈی نہ‬


‫لگانا فہد‬

‫فہد نے ہاں میں سر ہالیا اور‬


‫واشروم میں داخل ہو گیا‪,‬‬
‫کمزوری اور ال چارگی فہد‬
‫کے چہرے سے ٹپک رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین فہد کو بار بار‬
‫باہر سے آواز دے کہ طبیعت‬
‫کی بحالی کا اندازہ لگا رہی‬
‫تھی اور فہد کچھ دیر بعد‬
‫باہر آیا تو مہرین نے اسے‬
‫دوبارہ بستر پہ ال کہ لٹا دیا‪,‬‬

‫مہرین نے فہد کو لٹا کہ‬


‫دوبارہ اس کے ماتھے کا‬
‫درجہ حرارت اپنی ہتھیلی‬
‫سے محسوس کیا اور جلدی‬
‫جلدی ایک برتن میں پانی‬
‫اور کپڑوں کے ٹکڑوں سے‬
‫اس کے ماتھے پہ پٹیاں‬
‫رکھنے لگی‪ ,‬کافی دیر جسم‬
‫پہ ٹھنڈی پٹیاں کرنے سے‬
‫فہد کا بخار کم ہوتا چال گیا‬
‫اور جب ان کی امی جاگی تو‬
‫وہ بھی ا ن حاالت سے‬
‫گھبرا گئی‬

‫مہرین فہد کو نزدیک ایک‬


‫ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور‬
‫کچھ ٹیکے لگوا کہ کھانے‬
‫کی لیے دواء لے کہ دونوں‬
‫بہن بھائی گھر آگئے‬

‫فہد کی خدمت خاطر میں‬


‫ہلکی سی کسر نہ رہ جائے‬
‫اس لیے بیمار ماں اور فہد‬
‫کی بہن مہرین سکون سے‬
‫بیٹھ ہی نہیں پا رہی تھیں‪,‬‬
‫دواء کے اثر سے رات تک‬
‫فہد کافی بہتر ہو چکا تھا اور‬
‫مہرین ساری رات فہد کے‬
‫برابر لیٹی اس کی ایک‬
‫جنبش پہ بھی ہڑبڑا کہ بیٹھ‬
‫جاتی‪ ,‬اگلے روز فہد کی‬
‫طبیعت بہتر تو تھی لیکن وہ‬
‫دفتر جانے کی حالت میں‬
‫نہیں تھا اسلیے سارا دن‬
‫مہرین کے ہاتھوں سے‬
‫خدمت کے مزے لیتا رہا اور‬
‫اور اپنی بہن کی اس قدر‬
‫وسیع اور بے لوث شفقت‬
‫نے اس واقعہ کی شرمندگی‬
‫اور ندامت کو کم کر دیا تھا‪,‬‬
‫اب فہد مہرین سے کسی حد‬
‫تک نارمل طریقے پہ بات‬
‫کرنے لگا‪,‬‬

‫رات تک فہد بخار سے‬


‫بالکل ٹھیک ہو کہ تندرست‬
‫بیٹھا تھا لیکن مہرین اور اس‬
‫کی امی فہد کی کو بستر‬
‫سے ایک قدم بھی ہالنے‬
‫نہیں دے رہی تھی‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین بھلے اب پہلے کی‬
‫طرح مل جل چکے تھے‬
‫لیکن دلوں میں موجود بوجھ‬
‫ابھی کہاں ہلکا ہو تھا‪ ,‬ابھی‬
‫تو ایک مرحلہ باقی تھا اور‬
‫وہ مرحلہ تھا اُس واقعے کے‬
‫بعدبہن بھائی کی پہلی تنہائی‬

‫شاید وہ دونوں اندر ہی اندر‬


‫اُس تنہائی سے کترا رہے‬
‫تھے لیکن مہرین جلد سے‬
‫جلد اپنے دل کا بوجھ ہلکا‬
‫کرنا چاہ رہی تھی اسلیے اس‬
‫نے فہد کی طبیعت کی‬
‫بہتری کا شکر ادا کیا اور‬
‫باتوں باتوں میں فہد کو‬
‫کمرے میں الگ ملنے کا‬
‫کہنے لگی‪ ,‬فہد نے بھی اپنی‬
‫بہن کے انداز کو پرکھ لیا‬
‫اور رات کو اپنی امی کو‬
‫تسلی سے سال کہ دونوں‬
‫اوپر سٹڈی روم میں آگئے‬

‫کچھ دیر خاموشی اور بے‬


‫ہنگم سے جذبات گفتگو کے‬
‫آغاز میں حائل تھے‪ ,‬فہد‬
‫قدرے بہتر تھا مگر ابھی‬
‫مکمل طور پہ تندرست نہیں‬
‫تھا اسلیے وہ دیوار سے‬
‫ٹیک لگائے باہر آسمان کو‬
‫تکنے لگا‪,‬‬
‫مہرین اپنے بھائی کے برابر‬
‫آکہ بیٹھ گئی اور اسکے پاؤں‬
‫دبانے لگی‪ ,‬فہد نے منع‬
‫کرنے کے لیے پاوں واپس‬
‫کھینچے مگر مہرین اپنی‬
‫بے پناہ محبتوں سے سرشار‬
‫فہد کے پاوں دبانے لگی‬

‫فہد آسماں تکتا ہوا کسی سوچ‬


‫میں گم تھا کہ اچانک اس‬
‫کے پاوں پہ ایک قطرہ گرا‬
‫جس سے اس کی توجہ‬
‫سوالیہ انداز میں مہرین کی‬
‫طرف ہو گئی‪ ,‬مہرین پاوں‬
‫دباتے دباتے اپنے آنسو‬
‫چھلکا بیٹھی اور فہد نے‬
‫فورا مہرین کے ہاتھ اپنے‬
‫ہاتھوں میں لے کہ سیدھا ہو‬
‫کہ بیٹھ گیا‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی‪ ,‬کیا ہو گیا‬
‫ہے؟‬

‫مہرین اس سوال پہ مزید‬


‫جذباتی ہو گئی اور آنسووں‬
‫کی قطار لمبی ہو گئ‪,‬‬

‫فہد نے بڑھ کہ مہرین کے‬


‫آنسو پونچھے اور مہرین کو‬
‫گلے سے لگا لیا‪ ,‬مہرین اب‬
‫زارو قطار رونے لگی اور‬
‫فہد بڑے ہے شفیق انداز میں‬
‫مہرین کو دالسہ دے کہ چپ‬
‫کروانے لگا‬

‫مہرین‪ :‬خدا کرے میری عمر‬


‫بھی تمیں لگ جائے فہد‬

‫فہد‪ :‬کیا ہو گیا مہرین باجی‪,‬‬


‫خوامخواہ اتنا جذباتی ہو رہی‬
‫ہیں‬
‫فہد کے سینے سے لگی‬
‫مہرین فہد کا کندھا بگھو‬
‫رہی تھی فہد کی بے پناہ‬
‫محبت کی وارث‪ ,‬اسکی بڑی‬
‫بہن اسکی بانہوں کے‬
‫گھیرے میں اندر سے ٹوٹ‬
‫چکی تھی‬

‫مہرین‪ :‬خدا تمہیں صحت اور‬


‫لمبی عمر دے‪ ,‬چھڑ دو‬
‫ایسی نوکری جو ایسی بارش‬
‫میں بال کہ تمہیں بیمار کر‬
‫دے‬

‫فہد ہنسنے لگا اور اپنی بہن‬


‫کے سر پہ ایک بوسہ دے‬
‫کہ چہرے کو اپنے سامنے‬
‫کر کہ آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈال کہ دیکھنے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫نے نظریں چرا کہ فہد کا‬
‫ہاتھ تھام لیا‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی مجھے اس‬
‫رات والی حرکت کیلیے‬
‫معاف کر دیں‬

‫مہرین نے فہد کی طرف‬


‫دیکھا اور اسکے چہرے پہ‬
‫محبت سے ہاتھ پھیر کہ‬
‫مسکرا کہ دیکھا‬
‫مہرین‪ :‬تم ٹھیک ہو جاو فہد‬
‫مجھے اور کچھ نہیں چاہئے‪,‬‬
‫اور تم کس بات کی معافی‬
‫مانگ رہے ہو؟ جتنا تم اس‬
‫بات کے ذمہ دار ہو اتنی ہی‬
‫ذمہ دار میں بھی ہوں‬

‫فہد نے سر جھکا کہ مہرین‬


‫کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور‬
‫رونے لگا‬
‫فہد‪ :‬نہیں مہرین باجی میں‬
‫آپکا مجرم ہوں‬

‫فہد معافی مانگتااس شدت‬


‫سے رونے لگا کہ مہرین‬
‫کیلیے سنبھالنا مشکل ہو گیا‪.‬‬
‫مہرین نے بڑی مشکل سے‬
‫فہد کو چپ کروایا اور اسے‬
‫اپنے سینے سے لگا کہ نہ‬
‫جانے کتنی دیر بیٹھی رہی‪,‬‬
‫فہد اپنی بڑی بہن کے سینے‬
‫سے ایسے چمٹا رو رہا تھا‬
‫جیسے چند سال کا بچہ اپنی‬
‫ماں کے سینے لگ کہ روتا‬
‫ہے‬

‫کچھ دیر اس جذباتی لمحے‬


‫سے مہرین کافی گھبرا گئی‬
‫کیونکہ اس کو اندازہ ہو گیا‬
‫تھا کہ فہد اس حرکت کیوجہ‬
‫سے ضرورت سے زیادہ‬
‫شرمندہ ہے اور اس کو‬
‫سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ فہد‬
‫کو کیسے نارمل کرے‬

‫مہرین‪ :‬فہد بس کر جاو کچھ‬


‫نہیں ہوا‪ ,‬تم میرے بھائی ہو‬
‫اور ہمیشہ رہو گے‪ ,‬اور یہ‬
‫جو ہمارے درمیان ہوا اس‬
‫سے کچھ فرق نہیں پڑتا‬

‫فہدا جو کہ کافی دیر سے‬


‫اپنی بہن کی گود میں سر‬
‫گھساۓ بیٹھا تھا اب اپنے دل‬
‫کا بوجھ ہلکا محسوس کر رہا‬
‫تھا اور اب وہ بات کرنا چاہ‬
‫رہا تھا‬

‫فہد‪ :‬باجی میں نہ جانے‬


‫کیسے بہک گیا اور یہ بھی‬
‫بھول گیا کہ آپ میری بڑی‬
‫بہن ہو‬
‫مہرین‪ :‬ہاں تو کیا ہو گیا؟ اب‬
‫میں تمہاری بہن نہیں رہی‬
‫کیا؟ اب بھی تو ہم وہی‬
‫مہرین اور فہد ہی ہیں‬

‫فہد خاموش مہرین کے آگے‬


‫سر جھکائے اپنی بہن کے‬
‫ہاتھوں کو بڑی ہی عقیدت‬
‫سے تھامے بیٹھا تھا‬
‫مہرین نے فہد کا چہرے کو‬
‫اپنے ہاتھوں میں لے کہ‬
‫ماتھے سے چوما‬

‫مہرین‪ :‬میں تمہیں ماتھے‬


‫سے چوموں‪ ,‬گالوں سے‬
‫چوموں یا گالوں کے درمیان‬
‫سے چوموں تم میرے بھائی‬
‫ہی رہو گے‬
‫فہد نے ذرا حیرانی سے‬
‫مہرین کی طرف دیکھا لیکن‬
‫اس بات سے اس کو ذرا‬
‫سکون مال کہ وہ ہمیشہ بہن‬
‫بھائی ہی رہیں گے‬

‫اسکے بعد مہرین نے اپنی‬


‫کہی بات کو عملی جامہ‬
‫پہنایا اور فہد کے ماتھے کو‬
‫چوما پھر دایاں گال‪ ,‬اسکے‬
‫بعد بایاں گال چوما اور ایک‬
‫لمحے کا وقفہ دے کہ اپنے‬
‫ہونٹ فہد کے ہونٹوں کی‬
‫طرف بڑھاے‪ ,‬فہد نے‬
‫جھجھک کہ اپنا چہرہ پرے‬
‫کرنا چاہا لیکن مہرین نے‬
‫اپنے ہاتھوں کی گرفت سے‬
‫فہد کو پیچھے نہ ہونے دیا‬
‫اور آہستگی سے فہد کے‬
‫ہونٹوں کا بوسہ لے لیا‬
‫مہرین‪ :‬لو‪,‬اب کیا ہوا؟ ابھی‬
‫بھی تم میرے بھائی ہو‪ ,‬میں‬
‫تمہیں جہاں سے چاہوں‬
‫چوموں‪,‬کسی کو کیا تکلیف؟‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی وہ لیکن‬

‫مہرین‪ :‬لیکن ویکن کچھ نہیں‬


‫ہوتا فہد‪ ,‬میں مانتی ہوں کہ‬
‫ہم ایک حد سے بھی آگے‬
‫نکل گئے تھے لیکن اس کا‬
‫مطلب یہ نہیں کہ ہم ساری‬
‫زندگی اس صدمے میں رو‬
‫رو کہ مر جائیں‪ ,‬زندگی بہت‬
‫لمبی ہے فہد اس کو ان‬
‫چھوٹی چھوٹی چیزوں کی‬
‫وجہ سے بربادتو نہیں کر‬
‫سکتے ہم‬

‫فہد‪ :‬چھوٹی چیز؟ یہ کیا‬


‫چھوٹی بات تھی کہ آپ‬
‫میرے سامنے بنا شرٹ کہ‬
‫فہد ادھوری بات کہہ کہ چپ‬
‫کر گیا‪ ,‬وہ مہرین کے آگے‬
‫نہ جانے کیوں بے بس تھا‬
‫مگر مہرین کو ہی یہ سب‬
‫سنبھالنا تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫شرمندہ ہو کہ ایک لمحے‬
‫کے لیے سر کو جھکا لیا‬
‫لیکن اگلے ہی لمحے فہد کو‬
‫جواب دیا‬
‫مہرین‪ :‬ہاں یہ چھوٹی بات‬
‫تھی فہد‪ ,‬بڑی بات تب ہوتی‬
‫اگر میں اور تم دونوں بنا‬
‫کپڑوں کے اپنی اپنی حوس‬
‫مٹا لیٹے‪ ,‬بڑی بات تب ہوتی‬
‫اگر میں تمہارےساتھ سیکس‬
‫کر کہ اپنے مستقبل میں‬
‫ہونے والے شوہر کو منہ‬
‫دکھانے کے قابل نہ رہتی‬
‫فہد اتنے بے باک اور کھلے‬
‫الفاظ سن کہ حیران ہو گیا‬
‫لیکن بات کی منطق کو کسی‬
‫حد تک سمجھ گیا‬

‫مہرین نے اپنی بات کو‬


‫توقف کے ساتھ پھر شروع‬
‫کیا‬

‫مہرین‪ :‬فہد میرے بھائی‬


‫کیوں اتنا سوچتے ہو‪ ,‬میں‬
‫تمہارے بنا ادھوری ہوں‪ ,‬تم‬
‫ہی میری ماں ہو تم ہو میری‬
‫بہن ہو تم ہی میرے باپ ہو‬
‫اور تم ہی میرے بھائی ہو‪,‬‬
‫فہد تم میرے دوست بھی ہو‬
‫اور تم ہی میری زندگی کا‬
‫سہارا ہو‪,‬میں کیسے تمہارے‬
‫اس شرمندگی کے احساس‬
‫کو ختم کروں‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی شرمندگی‬
‫سے تو ڈوب ڈوب مر رہا‬
‫ہوں‪ ,‬کیا آپ کو شرمندگی کا‬
‫احساس نہیں ہو رہا؟‬

‫مہرین‪ :‬نہیں‪ ,‬مجھے کسی‬


‫قسم کی کوئی شرمندگی نہیں‬
‫بھائی‪ ,‬شرمندہ تو میں تب‬
‫ہوتی اگر کسی غیر مرد کے‬
‫ساتھ یہ سب کرتی‪ ,‬اور اگر‬
‫کسی غیر مرد سے یہ سب‬
‫کرتی تو اس کے لیے تم‬
‫لوگوں کو دھوکہ دے کہ‬
‫گھر سے نکلتی اور اپنے‬
‫حوش و حواس میں اس غیر‬
‫مرد سے اپنے کپڑے‬

‫مہرین بولتے بولتے فہد سے‬


‫نظریں چرا چکی تھی‬
‫کیونکہ فہد سمجھ ہی نہیں‬
‫رہا تھا کہ اس بات کو ایک‬
‫حادثہ سمجھ کہ بھول جانا ہی‬
‫بہتر ہے اور اسی بات کو‬
‫سمجھانے کیلیے مہرین اتنی‬
‫کھلی باتیں کر رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬فہد میں شرمندہ نہیں‬


‫ہوں‪ ,‬جو بھی ہم سے ہوا ہم‬
‫اسوقت حوش میں نہیں تھے‪,‬‬
‫اور بھال تمہیں ڈر ہے کہ یہ‬
‫بات کسی کو پتہ چلے گی تو‬
‫بدنامی ہو گی؟جو ہوما تھا ہو‬
‫گیا بس اب نارمل ہو جاو‬
‫فہد کا چہرہ مہرین کے‬
‫ہاتھوں میں تھا اور مہرین‬
‫التجا کے لہجے میں اپنے‬
‫بھائی سے بھیک مانگ رہی‬
‫تھی‪,‬فہد اتنا بھی سنگدل نہیں‬
‫تھا وہ اپنی بہن کی بات کو‬
‫سمجھ گیا اور نم آنکھوں‬
‫سے دیکھ کہ اسے گلے سے‬
‫لگا لیا‬
‫کچھ دیر بانہوں میں بانہیں‬
‫ڈالے ایک دوسرے کے‬
‫سینے سے لگے بہن بھائی‬
‫ایک دوسرے کے آنسو‬
‫پونچھ کہ ہنس رہے تھے‬
‫اور دونوں کے دلوں کے‬
‫بوجھ اب کم ہو چکے تھے‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی میں نہیں‬


‫چاہتا کہ میں بہک کہ اس‬
‫رشتے کو خراب کروں‬
‫اسلیے ہم الگ سویا کریں‬
‫گے‬

‫مہرین‪ :‬کان کے نیچے‬


‫چماٹ لگاؤں گی‪ ,‬میں نے‬
‫کہا ناں بھول جاو‪,‬سمجھو‬
‫کچھ ہو ہی نہیں‬

‫فہد‪ :‬اچھا جی جیسے آپکو‬


‫ٹھیک لگے‪ ,‬اب ٹائم دیکھیں‬
‫میں نےصبح کام پہ بھی جانا‬
‫ہے‬

‫رات کے دو سے اوپر کا‬


‫وقت ہو چکا تھا‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں سو جاو لیکن‬


‫ابھی تمہاری طبیعت بہتر‬
‫نہیں ہے صبح تو ایک قدم‬
‫باہر نہ نکالنے دونگی تمہیں‪,‬‬
‫اس سے اگلے دن جمعہ کی‬
‫چھٹی ہے اب ہفتہ والے دن‬
‫ہی آرام سے جانا‬

‫فہد نے ہلکی پھلکی چوں‬


‫چراں کے بعد ہتھیار ڈال‬
‫دیئے‬

‫مہرین‪ :‬فہد ایک بات تو بتاو؟‬

‫فہد‪ :‬جی باجی‬


‫مہرین کے چہرے کی‬
‫شرارتی مسکراہٹ سے‬
‫صاف پتہ چل رہا تھا کہ اب‬
‫وہ کوئی چٹکال چھوڑنے‬
‫والی ہے اس لیے فہد بھی‬
‫ذہنی طور پہ تیار ہو کہ‬
‫جواب دے رہا تھا‬
‫مہرین‪ :‬اب تم کسی کو اس‬
‫رات کے محبت بھرے‬
‫واقعات بتا کہ میری عزت‬
‫مٹی میں تع نہیں مال دو‬
‫گے؟‬

‫فہد ہنسی کو روکتے ہوئے‬


‫بوال‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہا مہرین باجی خدا کا‬


‫خوف کریں میں نے کسی کو‬
‫کیا بتانا اور کیوں بتانا‬
‫مہرین مزاح کے انداز میں‬
‫فہد کو چھیڑ رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬خدا کے لیے فہد‬


‫کسی کو نہ بتانا ورنہ میں‬
‫کسی کو منہ دکھانے کے‬
‫قابل نہیں رہوں گی‬

‫فہد نے بھی جوابی مزاح‬


‫سے کام لیا‬
‫فہد‪ :‬ہاہاہاہا مہرین میں تو‬
‫بتاونگا‪ ,‬سب کو بتاونگا‬

‫مہرین‪ :‬فہد پلیز ایسا نہ کرنا‪,‬‬


‫تم جو کہو میں کرنے کو‬
‫تیار ہوں‬

‫فہد‪ :‬جو میں کہوں وہ کرو‬


‫گی؟‬
‫مہرین اور فہد ایک دوسرے‬
‫کیطرف شرارتی انداز سے‬
‫بڑھ کہ جواب دے رہے تھے‬

‫مہرین لپک کہ فہد کے قریب‬


‫ہو کہ بولی‬
‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں سب کچھ‬
‫کروں گی جو جو تم بولو‬
‫گے‬

‫فہد مہرین کے بہت قریب آ‬


‫کہ منہ کو مہرین کے منہ کہ‬
‫پاس ال کہ بوال‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی میں کسی‬


‫کو نہیں بتاتا بس اب مجھے‬
‫سو لینے دو بیمار دعا دے گا‬
‫فہد کے اس مزاحیہ فقرے‬
‫نے ماحول کو قہقہوں سے‬
‫بھر دیا اور دونوں بہن بھائی‬
‫قہقہوں کو قابو میں کرتے‬
‫ہوئے نیچے اپنے اپنے بستر‬
‫پہ جا کہ سو گئ‪.‬‬
‫فہد اور اسکی بہن مہرین‬
‫کے درمیان جس تلخ واقعہ‬
‫کو لے کہ شرمندگی کا‬
‫احساس دونوں کو پریشان کر‬
‫رہا تھا وہ معاملہ تو حل ہو‬
‫چکا تھا‪ ,‬دونوں بہن بھائی‬
‫ہنستے مسکراتے واپس اپنی‬
‫ماں کے کمرے میں آکہ سو‬
‫چکے تھے‪ ,‬اگال دن فہد کی‬
‫بیماری کیوجہ سے چھٹی‬
‫تھی اور اس آگے جمعہ کی‬
‫چھٹی کیوجہ سے فہد دو‬
‫دنوں کے لیے اب گھر میں‬
‫ہی رہنے واال تھا اسلیے‬
‫مہرین کی خوشی کا کا کوئی‬
‫ٹھکانہ نہیں تھا‬

‫چھٹی کے دو دن مہرین اور‬


‫فہد نے بہت ہی اچھے سے‬
‫گزارے‪ ,‬مہرین کا تو حال یہ‬
‫تھا کہ جیسے اسکی بچھڑی‬
‫ہوئی سہیلی اسے برسوں بعد‬
‫ملی ہو‪ ,‬فہد بھی ذہنی تناؤ‬
‫سے آزاد اپنی بہن پہ فدا ہو‬
‫رہا تھا‬
‫وہ دو دن فہد اور مہرین نے‬
‫کافی وقت ساتھ گزارا لیکن‬
‫دونوں کے درمیان پہلے کی‬
‫طرح کوئی جسمانی لذتوں‬
‫والے معالے نہیں ہوئے‪ ,‬فہد‬
‫اپنی بہن کے جسم کو ننگا‬
‫دیکھ چکا تھا اور اپنی بہن‬
‫کے جسم کی خوبصورتی‬
‫اسکے دماغ پہ نقش ہو چکی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نہ چاہتے ہوئے‬
‫بھی اپنی بہن کے جسم کو‬
‫آنکھوں آنکھوں میں ٹوہ رہا‬
‫تھا کیونکہ مہرین کو جس‬
‫عریاں حالت میں وہ دیکھ‬
‫چکا تھا اب مہرین فہد کے‬
‫سامنے لباس میں ہو کہ بھی‬
‫بے لباس تھی‪ ,‬مہرین کے‬
‫ِنپلز‪ ,‬چھاتی اور پیٹ کا ذائقہ‬
‫ابھی بھی فہد کی زبان پہ‬
‫تھا‪ .‬مہرین اپنے بھائی کی‬
‫نظروں کے اس تعاقب سے‬
‫قطعی طور پہ انجان نہیں‬
‫تھی‪ ,‬بلکہ ایک عورت ہونے‬
‫کے ناطے وہ فہد کی اس‬
‫مجبور حالت کو سمجھ بھی‬
‫رہی تھی اور یہی عورت کی‬
‫خوبیوں میں سے ایک خوبی‬
‫ہے کہ وہ مرد کی‬
‫مجبوریوں کو سمجھ لیتی‬
‫ہے‪ ,‬ہاں یہ بات الگ ہے کہ‬
‫وہ اُس مجبوری کا تعین‬
‫کرنے کے بعد فایدہ اٹھاتی‬
‫ہے یا نہیں‬

‫فہد کی چھٹی اپنے اختتام کو‬


‫پہنچی اور وہ ہفتہ کی صبح‬
‫اپنی مالزمت پہ جانے کیلیے‬
‫تیار ہو چکا تھا‪ ,‬پینٹ شرٹ‬
‫میں ملبوس فہد بہت‬
‫خوبصورت لگ رہا تھا اور‬
‫سرمہ دانی سے‬ ‫مہرین نے ُ‬
‫انگلی لگا کہ ایک کاال ٹیکہ‬
‫لگا کہ فہد کو نظر بد سے‬
‫بچنے کی دعا دی‪,‬خوشگوار‬
‫ماحول میں بہن اور ماں سے‬
‫دعائیں لے کہ رخصت ہونے‬
‫ہی واال تھا کہ مہرین نے‬
‫اسے اوپر والے کمرے میں‬
‫پڑے اسکے کچھ کاغذات‬
‫بھولنے کا بتایا اور فہد بھی‬
‫جلدی جلدی اوپر کمرے میں‬
‫کاغذات ڈھونڈنے کیلیے‬
‫لپکا‪ ,‬فہد کے پیچھے ہی‬
‫مہرین بھی تیز قدموں سے‬
‫اسکی مدد کو آن پہنچی اور‬
‫سرسری سی نظر دوڑانے‬
‫کے بعد فہد نے حیرانی سے‬
‫اپنی بہن کیطرف دیکھا‬

‫فہد‪ :‬کوئی کاغذات نہیں بھوال‬


‫باجی‪ ,‬آپ بھی ناں‪ ,‬ڈرا دیا‬
‫مجھے‬
‫مہرین‪ :‬بدھو انسان تین دن‬
‫اتنی خدمت کی ہے تمہاری‪,‬‬
‫اب مجھے انعام چاہیے‬

‫مہرین دونوں ہاتھ پیچھے‬


‫باندھے فہد کے سامنے‬
‫مسکراتی جا رہی تھی‪ ,‬اور‬
‫فہد کو نکلنے کی جلدی تھی‬
‫اسلیے اس نے مہرین کو‬
‫سائیڈ پہ کر کہ دروازے‬
‫کیطرف بڑھتے ہوئے جواب‬
‫دیا‬

‫فہد‪ :‬باجی تنخواہ آ لینے دو‬


‫جو انعام چاہیے دونگا‬

‫مہریم نے فہد کا راستہ روک‬


‫کہ دوبارہ سے اسے بڑھنے‬
‫سو روک دیا‬
‫مہرین‪ :‬مجھے تو ابھی‬
‫چاہیے‪ ,‬ایسے کیسے جانے‬
‫دوں تمہیں؟‬

‫فہد نے تلمال کہ جواب دیا‬

‫فہد‪ :‬باجی خدا کا واسطہ‬


‫جانے دو‪ ,‬دفترسے دو دن‬
‫سے غیر حاضر ہوں آج دیر‬
‫سے گیا تو نکال باہر کریں‬
‫گے آپکے بھائی کو‬
‫مہرین نے ایک قدم بڑھا کہ‬
‫اپنا اور فہد کا فاصلہ کم کیا‬

‫مہرین‪ :‬مجھے ابھی انعام‬


‫چاہیے‬

‫فہد‪ :‬جلدی بتائیں کیا کروں‬


‫اب؟ ڈانس کر کہ دکھاوں؟‬
‫لگتا ہےآپ مجھے آج نوکری‬
‫سے نکلوا کہ دم لیں گی‬

‫مہرین نے اپنی ایڑھیوں کو‬


‫اٹھا کہ فہد کے کاندھوں پہ‬
‫پاتھ ڈال کہ ایک ایک کر کہ‬
‫فہد کے گال چومے‪ ,‬فہد ذرا‬
‫سا پیچھے گردن سرکا کہ‬
‫فورا بول پڑا‬

‫فہد‪ :‬ہو گیا باجی؟ اب جاؤں؟‬


‫مہرین نے بنا جواب دئیے‬
‫فہد کے ہونٹوں سے چوم لیا‬
‫اور شرارتی مسکراہٹ سے‬
‫پیچھے ہٹ کہ ہاتھ کہ‬
‫اشارے سے اسے دروازہ‬
‫سے گزرنے کا کہا‬

‫فہد کے چہرے پہ بھی‬


‫مسکراہٹ تو تھی لیکن وہ‬
‫اتنا زیادہ خوش نہیں تھا‬
‫مہرین اس مسکراتے چہرے‬
‫کے ساتھ دروازے کا راستہ‬
‫چھوڑ کہ کھڑی فہد کی‬
‫حیرانی پہ ہنس رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫نے بھی رخصت لی اور‬
‫گھرسے چال گیا‬

‫دفتر میں فہد کا دن اچھا‬


‫گزرا لیکن مہرین کی صبح‬
‫والی حرکت سے وہ زیادہ‬
‫خوش نہیں تھا اور اندر ہی‬
‫اندر یہ سوچنے لگا کہ یہ‬
‫غلط ہے یا صحیح‪ ,‬فہد کسی‬
‫دوست سے مشورہ بھی نہیں‬
‫کر سکتا تھا اسلیے اس نے‬
‫گھر واپس آکہ مہرین باجی‬
‫سے ہی بات کرنے کا فیصلہ‬
‫کیا لیکن فہد مہرین کی طرح‬
‫بہادر نہیں تھا جو ایسی‬
‫زیر بحث لے‬‫بیچینی کو خود ِ‬
‫آتا‪ ,‬گھر آکہ نہ ہی وہ مہرین‬
‫سے لبوں سے چومنے والی‬
‫بات پہ بات کر سکا اور نہ‬
‫ہی مہرین باجی کو منع کر‬
‫سکا‬

‫کچھ ہی دن بعد مہرین فہد‬


‫کی اس کیفیت کو سمجھ گئی‬
‫اور ایک تنہا رات میں خود‬
‫ہی فہد کواسکے اس‬
‫ہچکچاہٹ کے بارے میں‬
‫پوچھ لیا‬
‫مہرین‪ :‬فہد؟ کسی بات کی‬
‫پریشانی ہے؟‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی‪ .‬ایسی تو‬


‫کوئی بات نہیں‬

‫مہرین‪ :‬تمہاری بڑی بہن ہوں‬


‫میں‪ ,‬امی ابو سے زیادہ میں‬
‫نے تمہیں پاال ہے‪ ,‬مجھ سے‬
‫کیا چھپا سکتے ہو تم؟‬

‫فہد‪ :‬باجی؟ وہ ناں‪ ,‬میں‬

‫مہرین اٹھ کہ فہد کے برابر آ‬


‫کہ بیٹھ گئی‪ ,‬فہد لیٹا ہی اپنی‬
‫بات کو ادھورا چھوڑ دیا‪ ,‬وہ‬
‫چہرے سے ہی جھنجھالہٹ‬
‫کا شکار لگ رہا تھا‬
‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں بولو یار‪,‬‬
‫کیوں لڑکیوں کی طرح‬
‫شرماتے ہو میرے سامنے‪,‬‬
‫بتاؤ کیا مسلہ ہے؟‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ مجھے یہاں‬


‫سے نہ چوما کریں‬
‫فہد نے اپنے ہونٹوں کی‬
‫طرف اشارہ کرکہ بات کی‬
‫اور شرما کہ سر جھکا لیا‬

‫مہرین‪ :‬ہاہاہاہا‪ ,‬کیوں؟ کیوں‬


‫نہ چوموں؟ تمہارے ہونٹ‬
‫ہیں ہی اتنے پیارے‬

‫فہد‪ :‬باجی یہاں سےگرل‬


‫فرینڈ بواۓ فرینڈ چومتے ہیں‬
‫ایک دوسے کو لیکن ہم تو‬
‫بہن بھائی ہیں‬

‫مہرین فہد کی معصومانہ‬


‫باتوں اور اسکے انداز پہ‬
‫مسکراتے ہوئے جواب دینے‬
‫لگی‬

‫مہرین‪ :‬اچھا جی؟ گرل فرینڈ‬


‫بوائے فرینڈ؟ اگر ایسی بات‬
‫ہے تو آج سے میں تمہاری‬
‫گرل فرینڈ اور تم میرے‬
‫بوائے فرینڈ‪ ,‬اب تو کوئی‬
‫مسلہ نہیں؟‬

‫یہ بات کہہ کہ مہرین نے‬


‫اپنی ہونٹوں کو چومنے کے‬
‫انداز میں فہد کہ اوپر جھک‬
‫کہ چومنے کیلیے آگے‬
‫بڑھنے لگی اور فہد‬
‫جھنجھال کہ‪ ,‬اس سے پہلے‬
‫کہ مہرین اس کو چوم کہ اس‬
‫کی مفکرانہ بات کو خاک‬
‫میں مالتی‪ ,‬اٹھ کہ بیٹھ گیا‬

‫مہرین‪ :‬کیا ہوا اب؟ اب تو ہم‬


‫گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ہیں‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی آپ میری‬


‫بات کو سمجھنے کی بجائے‬
‫میرا مذاق ہی اڑانے لگ‬
‫جاتی ہیں‬
‫مہرین‪ :‬مذاق نہ اڑاوں تو‬
‫اور کیا کروں؟ میں نے‬
‫تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ‬
‫میں تمہیں گالوں سے‬
‫چوموں یا ہونٹوں سے‪ ,‬تم‬
‫میرے بھائی ہی رہو گے‬

‫فہد‪ :‬باجی اس رات یہیں سے‬


‫کام شروع ہوا تھا اور اگر‬
‫امی آواز نہ دیتیں تو شاید‬
‫فہد اتنی بات کہہ کہ سر‬
‫نظریں چرا کہ چپ ہو گیا‬
‫اور مہرین اس بات پہ‬
‫جیسے طیش میں آگئی‬

‫مہرین‪ :‬ہاں اور اگر امی آواز‬


‫نہ دیتی تو ہم حاجی انکل‬
‫کے بیٹے اور بیٹی کی طرح‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫سیکس کر رہے ہوتے‪ ,‬یہی‬
‫کہنا چاہ رہے ہو نا؟‬

‫مہرین ذرا غصے میں آچکی‬


‫تھی اور فہد یہ دیکھ کہ‬
‫گھبرا گیا اور فورا اپنی بہن‬
‫کے ہاتھوں کو تھام کہ اداس‬
‫چہرے کے ساتھ اپنی بہن کو‬
‫دیکھنے لگا‬
‫مہرین‪ :‬فہد میں تمہیں پہلے‬
‫بھی کہہ چکی ہوں کہ اس‬
‫رات والے واقعے کو بھول‬
‫جاو اور رہی بات چومنے‬
‫کی تو آج کے بعد چومنا تو‬
‫دور تمہیں ہاتھ تک نہیں‬
‫لگاونگی‬

‫مہرین نے منہ دوسری‬


‫طرف گھما کہ نظریں حھکا‬
‫لیں‪ ,‬فہد بھی گھبرا گیا کہ‬
‫شاید اس نےکوئی غلط بات‬
‫کہہ دی ہی اور فورا مہرین‬
‫کو کندھوں سے پکڑ کہ‬
‫واپس اپنی طرف گھما لیا‬

‫فہد‪ :‬اچھا سوری باجی‪ ,‬میرا‬


‫یہ مطلب نہیں تھا‪ ,‬آیندہ نہیں‬
‫کہتا‪ ,‬میں شرما جاتا ہوں‬
‫اسلیے ایسا کہہ ہو گیا‪ ,‬آپ‬
‫جیسا چاہیں گی میں ویسا‬
‫کرونگا پلیز ناراض تو نہ ہو‬
‫اب مجھ سے‬

‫مہرین ویسے ہی منہ بناے‬


‫نظریں فرش پہ گاڑھے‬
‫بیٹھی اپنا آپ فہد سے‬
‫چھڑوانے لگی اور فہد کا دل‬
‫اب بیٹھتا جا ریا تھا اور وہ‬
‫باجی باجی کرتا معافیاں‬
‫مانگی جا رہا تھا‪ ,‬کچھ دیر‬
‫بعدمہرین کو بھی ترس آگیا‬
‫اور اس نے فہد کی طرف‬
‫اپنا جسم ڈھیال چھوڑ کہ اس‬
‫کی طرف دیکھا‬

‫مہرین‪ :‬فہد اس رات والی‬


‫بات کو دہرا کہ مجھے‬
‫شرمندہ نہ کیا کرو‬

‫فہد‪ :‬باجی نہیں کرتا اب آپ‬


‫ناراض ہونا چھوڑیے پلیز‬
‫مہرین‪ :‬اچھا نہیں ہوتی‬
‫نازاض‪ ,‬چلو اب سوتے ہیں‬

‫فہد نے آخری حربے کے‬


‫طور پہ اپنا آپ مہرین کے‬
‫آگے سرینڈر کر دیا اور‬
‫رکتے رکتے اگلی بات کی‬
‫فہد‪ :‬ایک بار چومیں گی نہیں‬
‫مجھے آپ؟‬

‫مہرین بنا نظریں مالئے فہد‬


‫سے باتیں کر رہی تھی اور‬
‫فہد بھی سمجھ چکا تھا کہ‬
‫اب مہرین باجی کے تیور‬
‫بہت خوشی والے نہیں‬
‫اسلیے مہرین نے اسی سرد‬
‫لہجے میں جواب دیا جسکی‬
‫فہد کو امید تھی‬
‫مہرین‪ :‬نہیں‪ ,‬مجھے‬
‫شرمیلے بوائے فرینڈ کی‬
‫کوئی ضرورت نہیں‬

‫فہد نے اس بات کے جواب‬


‫میں فوا آگے بڑھ کہ‬
‫پھرتیلے طریقے سے مہرین‬
‫کے ہونٹوں سے چوم کہ‬
‫پیچھے ہٹ گیا اور‬
‫مسکرانے لگا‪ ,‬مہرین بھی‬
‫اس معصوم سی ُچ َمی پہ ہنس‬
‫پڑی اور دونوں واپس اپنے‬
‫اپنے بستر پہ آکہ دن کے‬
‫خوشگوار اختتام کے ساتھ‬
‫سو گئے‬

‫دن گزرتے گئے‪ ,‬مہرین اور‬


‫فہدکے درمیان ایک دوسرے‬
‫کے ہونٹوں سے بوسہ لینا‬
‫دینا ایک عام سی عادت بن‬
‫گیا‪ ,‬مگر کبھی بھی گہرا‬
‫بوس و کنار یعنی ڈیپ‬
‫ِکسنگ نہیں ہوئی تھی‪ ,‬انکا‬
‫ایک دوسرے کے ہونٹوں‬
‫سے کبھی کبھار چومنا‬
‫ایسے ہی ہوتا جیسے گالوں‬
‫سے کسی کو چوما جاتا ہے‬
‫لیکن اس بات کو بھی نظر‬
‫انداز نہیں کیا جا سکتا کہ‬
‫جب فہد اور مہرین ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹوں سے‬
‫بوسے لیتے تو اس کا ایک‬
‫عجب ہی لطف ہوتا جس میں‬
‫بہن بھائی والے جذبات کسی‬
‫حد تک مجروح ضرور‬
‫ہوتے تھے‬

‫فہد اور مہرین وقت کے‬


‫ساتھ ساتھ مزید میچور ہو‬
‫رہے تھے اور اب ان کے‬
‫درمیان پہلے سے زیادہ‬
‫انڈرسٹینڈنگ بن چکی تھی‪,‬‬
‫اب انکا ایک دوسرے کو‬
‫گلے لگانا اور چومنا انکے‬
‫لیے معمول بن گیا تھا کہ‬
‫کافی دفعہ اپنی ماں کے‬
‫سامنے ہی ہونٹوں سے‬
‫چومنے کی عادت سے‬
‫مجبور‪ ,‬چومتے چومتے رہ‬
‫جاتے اور بعد میں تنہائی‬
‫میں اس بات پہ ہنس ہنس کہ‬
‫ایک دوسرے کو اس بات پہ‬
‫چھیڑتے‬
‫فہد کی تعلیم ایف‪ .‬اے ہو‬
‫چکی تھی اور مہرین کا بی‪.‬‬
‫اے بھی کامیابی سے پورا ہو‬
‫چکا تھا‪ ,‬فہد کو دفتر میں ہی‬
‫ایک مناسب عہدے پہ فایز‬
‫کر دیا گیا جس سے اس کی‬
‫تنخواہ میں مزید اضافہ ہو‬
‫گیا‬

‫غربت کے عادی فہد‪ ,‬مہرین‬


‫اور انکی بیمار ماں کیلیے یہ‬
‫بہت سنہری وقت آگیا تھا‬
‫کیونکہ اب فہد اتنے پیسے‬
‫کمانے لگ گیا تھا کہ اپنے‬
‫مرحوم والد کی پینشن اور‬
‫اسکی تنخواہ مال کہ مہینے‬
‫کے اختتام پہ کچھ نہ کچھ‬
‫اضافی رقم بچ جاتی جس کو‬
‫ان کی امی مہرین کی شادی‬
‫کیلیے جمع کرنے لگی‪ ,‬اب‬
‫گھرمیں عیدین کے موقع پہ‬
‫نئے کپڑے بھی آتے اور‬
‫مہینے میں ایک دو بار باہر‬
‫سے کھانا منگوا کہ محدود‬
‫سی عیاشی بھی ہو جاتی‪ ,‬یہ‬
‫سب فہد کی لگن اور محنت‬
‫کا ہی نتیحہ تھا‬

‫حاجی انکل کے گھر میں‬


‫انجان اور نامعلوم جوڑا‬
‫موقع ملنے پہ اپنی حوس‬
‫پوری کرنے‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫کے متصل کمرے میں آ کہ‬
‫چدائی کرنے آ جاتا جس کو‬
‫اب مہرین دن میں اکثر ہی‬
‫آنہیں بھرتے سنتی تھی اور‬
‫رات کو فہد کو ساری بات‪,‬‬
‫از را ِہ مزاح بتا دیتی‬

‫فہد بھی چسکے لے لے کہ‬


‫مہرین سے ساری بات سنتا‬
‫اور اب مہرین اور فہد کچھ‬
‫کچھ ننگے الفاظ اور ذومعنی‬
‫الفاظ بے جھجھک استعمال‬
‫کرنے لگے تھے‪ ,‬بہن بھائی‬
‫کے درمیان گفتگو میں ایسی‬
‫بے تکلفی مناسب تو دونوں‬
‫کو ہی نہ لگتی لیکن جب‬
‫کوئی سمجھانے یا ٹوکنے‬
‫واال ہی کوئی نہ ہو تو‬
‫معامالت قسمت کے ہاتھ ہی‬
‫رہ جاتے ہیں‬

‫تاورں بھری سرد رات تھی‪,‬‬


‫فہد اور مہرین بالترتیب بیس‬
‫اور بائیس سال کہ ہو چکے‬
‫تھے‪ ,‬دونوں مکمل جوان‬
‫اور ماضی کے حساب سے‬
‫زیادہ میچور ہو چکے تھے‪.‬‬
‫ہمسائے کمرے میں ہونے‬
‫والی انجان چدائی زیادہ تر‬
‫مہرین ہی دن میں سن پاتی‬
‫لیکن آج اتنے سالوں بعد‬
‫دوبارہ سے فہد اور مہرین‬
‫کو وہ سب ساتھ سننے کا‬
‫موقع ملنے واال تھا‪,‬‬
‫دروازے کی کنڈی کے‬
‫کھلنے کی آواز مہرین اور‬
‫فہد کے چہروں پہ شیطانی‬
‫مسکراہٹ لے آئی‪" ,‬چررر"‬
‫کی آواز سے دروازہ کھال‬
‫اور بند ہو گیا‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین اپنا اپنا گرم بستر‬
‫چھوڑ کہ دیوار پہ کان لگا‬
‫کہ وہ سب چدائی سننے لگے‬
‫ہمیشہ کیطرح چومنے اور‬
‫چاٹنے کی آواز آئی اور کچھ‬
‫دیر بعد باقاعدہ باتوں کی اور‬
‫ایک لڑکی کے رونے کی‬
‫سسکیاں آنے لگی‪ ,‬وہ باتیں‬
‫سن کہ مہرین اور فہد پتھر‬
‫کے ہو کہ رہ گئے‬

‫وہ باتیں دل دہال دینے والی‬


‫تھی‪ ,‬جس راز کی تالش میں‬
‫فہد اور مہرین ہمیشہ سے‬
‫تھے کہ آخر وہ لڑکا لڑکی‬
‫کون ہیں‪ ,‬آج ان کو اس بات‬
‫کا جواب ملنے لگا مگر اس‬
‫کے ساتھ بہت ساری اور‬
‫باتیں بھی کھلنے لگی‪.‬‬

‫اپنی بہن پہ دست درازی کا‬


‫مالل تو بہر حال فہد کو ستا‬
‫رہا تھا مگر اسکے ساتھ‬
‫ساتھ مہرین باجی کے‬
‫موجودہ چھاتی کا سائز فہد‬
‫کو بہت پسند آرہا تھا‪ ,‬کیونکہ‬
‫پچھلی دفعہ جب اس نے اپنی‬
‫بہن کے پستان چوسے تھے‪,‬‬
‫اس سائز سے اب کا سائز‬
‫بہت بڑھ چکا تھا‬

‫فہد کو اس بات پہ پورا یقین‬


‫تھا کہ اگر وہ منگنی والی‬
‫رات اپنی بہن کے پستان‬
‫بھرپور طریقے سے بھی‬
‫دباتا‪ ,‬جس سے مہرین جاگ‬
‫جاتی‪ ,‬تو مہرین اس پہ ایک‬
‫فیصد بھی ناراضگی کا ظہار‬
‫نہیں کرنے والی تھی مگر‬
‫اب تو وقت گزر چکا تھا اور‬
‫فہد کا ضمیر اس کو مالمت‬
‫کر رہا تھا کہ یہ غلط ہے‬

‫فہد اس غلط فہمی میں‬


‫مطمئن تھا کہ مہرین باجی‬
‫اسکی اس رات والی دست‬
‫درازی سے انجان ہیں مگر‬
‫ایسا نہیں تھا‪ ,‬مہرین وہ سب‬
‫جانتی تھی اور وہ صرف‬
‫اسلیے خاموش تھی کیونکہ‬
‫فہد کو شرمندگی کا سامنا نہ‬
‫کرنا پڑے‪ ,‬یہ مہرین کی‬
‫دریا دلی تھی کہ اس نے فہد‬
‫کے جذبات کا اسقدر‬
‫سمجھداری سے خیال رکھا‪,‬‬
‫ورنہ اگر وہ اس بات پہ فہد‬
‫کو سمجھانا یا منع کرنا‬
‫چاہتی تو عورت کے پاس‬
‫قدرت کی عطا کردہ‪,‬‬
‫ایکسپریشنز اور جذبات کی‬
‫ایسی طاقت ہے جس کے‬
‫بلبوتے وہ مشکل ترین بات‬
‫کو بھی پلکوں کی ایک‬
‫جنبش سے محسوس کروا‬
‫دے‬
‫مہرین کی خاموشی فہد کے‬
‫لیے واقعی فائدہ مند ثابت‬
‫ہوئی‬

‫منگنی کو چلتے ہوئے دو ماہ‬


‫ہو چکے تھے‪ ,‬مہرین کے‬
‫سسرال والے‪ ,‬جن میں‬
‫صرف ایک بھائی‪ ,‬بھابھی‬
‫اور انکے دو چھوٹے بچے‬
‫شامل تھے‪ ,‬کسی نہ کسی‬
‫بہانے سے مہینے میں دو‬
‫ایک چکر لگا جاتے تھے‬

‫مہرین کا منگیتر ٹیکنیکل‬


‫ڈیپارٹمنٹ میں تھا اسلیے وہ‬
‫پاکستان کے مختلف حصوں‬
‫میں اپنی کمپنی کے‬
‫پراجیکٹس کی دیکھ ریکھ‬
‫میں گھومتا پھرتا رہتا‪ ,‬اچھی‬
‫تنخواہ کمانے واال کماؤ‬
‫منگیتر ہر بار نت نئے‬
‫کپڑے جوتے ضرور‬
‫بھجواتا‪ ,‬مہرین کے چہرے‬
‫کی اللیاں اسوقت دیدنی‬
‫ہوتیں جب اس کے سسرال‬
‫سے کوئی نہ کوئی نیا تحفہ‬
‫موصول ہوتا‬

‫فہد اور مہرین کے درمیان‬


‫جسمانی کشش کا تناؤ ابھی‬
‫بھی اسی نوعیت پہ قائم تھا‪,‬‬
‫اس کشش میں اتار چڑھاؤ‬
‫ہوتا رہتا لیکن اب مہرین کی‬
‫زندگی میں ایک نیا موضوع‬
‫آچکا تھا‪ ,‬اور وہ موضوع‬
‫مہرین کا منگیتر تھا‪ .‬جب‬
‫بھی مہرین فہد کے قریب‬
‫آتی اور فہد اسے اپنی بانہوں‬
‫میں گھیر لیتا تو مہرین کے‬
‫منہ سے جانے انجانے اپنے‬
‫منگیتر کی کوئی بات نکل‬
‫جاتی تو فہد اپنے جذبات کو‬
‫قابو کر کہ جلن کے جذبات‬
‫کو حد درجہ دبانے کی‬
‫کوشش کرتا‪ ,‬فہد کوشش تو‬
‫ضرور کرتا مگر مہرین بھی‬
‫اس جلن کو بھانپ گئی تھی‬

‫ایک روز فہد اپنی ڈیوٹی‬


‫سے تھکا ہارا گھر پہنچا‪ ,‬آج‬
‫اسے دفتر میں کام کا بہت‬
‫دباو تھا جسکی وجہ سے‬
‫اسکا موڈ بھی خراب تھا‪,‬‬
‫گھر دیر سے آنے کی وجی‬
‫سے مہرین نے محبت بھرے‬
‫جذبات میں بڑے مان سے‬
‫فہد کو ڈانٹ دیا‪ .‬فہد‪ ,‬جو کہ‬
‫پہلے ہی مہرین کی منگنی‬
‫کے بعد والے بدالو سے‬
‫دلبرداشتہ تھا‪ ,‬مہرین پہ برس‬
‫پڑا‪ .‬اسوقت تو مہرین نے‬
‫بھی ضبط کا اچھے سے‬
‫مظاہرہ کیا لیکن مہرین آج‬
‫کافی صدمے میں تھی‬
‫کیونکہ ایسا انکی زندگی میں‬
‫شاید ہی ایک دو بار ہوا تھا‬
‫کہ فہد نے مہرین کے آگے‬
‫زبان درازی کی ہو‪ .‬مہرین‬
‫نے ٹھنڈے دماغ سے‬
‫معاملے کو سمجھ کہ فہد کو‬
‫رات کمرے میں الگ‬
‫پوچھنے کا فیصلہ کیا‪ ,‬لیکن‬
‫ستم در ستم یہ کہ جب مہرین‬
‫اپنی امی کی طبیعت وغیرہ‬
‫کا اندازہ لگا کہ فہد سے بات‬
‫کرنے اسکے کمرے میں‬
‫آئی تو فہد گہری نیند سو‬
‫چکا تھا‬

‫اسوقت مہرین کے دل میں یہ‬


‫گمان بھی پیدا ہونے لگا کہ‬
‫فہد اسکی منگنی کیوجہ سے‬
‫ذرا عجیب برتاؤ کر رہا ہے‬
‫مگر وہ اپنے بھائی کے‬
‫بارے میں حتی االمکان‬
‫بدگمانی سے بچنا چاہتی تھی‬
‫اسلیے وہ اس نیند کو‬
‫تھکاوٹ سمجھ کہ ہی وہاں‬
‫سے چل دی‪ ,‬مہرین کا یہ‬
‫گمان کرنا کہ فہد آجکی تلخ‬
‫کالمی کی بحث سے بچنے‬
‫کیلیے سویا ہے کسی حد تک‬
‫بجا بھا تھا‬

‫صبح مہرین نے اپنے بھائی‬


‫کو جگانے کیلیے اسکے‬
‫کمرے کا رخ کیا کیونکہ وہ‬
‫فہد کی اس بدمزاجی کیوجہ‬
‫جاننا چاہتی تھی‪ .‬مہرین نے‬
‫سوئے ہوئے فہد کے گال‬
‫چوم کہ مدھم آوازوں سے‬
‫جگایا‪ ,‬آنکھ کھلتے ہی مہرین‬
‫کا پرنور چہرہ کی زیارت‬
‫کر کہ فہد نے بھی جوابی‬
‫مسکراہٹ سے صبح بخیر‬
‫کہا‬

‫فہد بستر پہ لیٹا ہی ہوا تھا‬


‫اور مہرین تروتازہ چہرے‬
‫کے ساتھ اسکے برابر بیٹھی‬
‫اسکے چہرے کو ہاتھوں‬
‫سے سنوارنے لگی‬

‫مہرین‪ :‬میری جان اب اٹھ‬


‫جاؤ‪ ,‬دفتر سے دیر ہو گئی‬
‫تو مجھے الزام مت دینا‬

‫فہد نے آنکھیں ملتے ملتے‬


‫جمائی لی اور بمشکل‬
‫آنکھوں کو کھول کہ مہرین‬
‫باجی کو دیکھا‪ ,‬مہرین بنا‬
‫دوپٹے فہد کے سامنے اپنی‬
‫چھاتیوں کا پھیالؤ اس پہ‬
‫اُنڈیل رہی تھی‪ ,‬فہد کے دماغ‬
‫میں سے فی الحال تمام‬
‫رنجشیں بھولی ہوئی تھی‬
‫اسلیے وہ مہرین کے ہاتھ کو‬
‫پکڑ کہ ہاتھ کا بوسہ لینے‬
‫لگا‬
‫فہد‪ :‬نہیں ہوتی دیر باجی‪,‬‬
‫جسکی بہن آپکی طرح صبح‬
‫صبح مرغے کی اذان سے‬
‫پہلے پہلے جاگ جاتی ہو وہ‬
‫بھال کیسے دیر سے پہنچ‬
‫سکتا ہے‬

‫مہرین فہد کے بالوں کو‬


‫چھیڑکہ آنکھ مارتے ہوئے‬
‫بول پڑی‬
‫مہرین‪ :‬آپکا مرغا مجھ سے‬
‫پہلے کا اٹھ چکا ہے‬

‫مہرین کا اشارہ فہد کے نیم‬


‫تناؤ والے لن کی طرف تھا‪,‬‬
‫فہد کچھ لمحے تو سمجھ ہی‬
‫نہ سکا کہ مہرین کا اشارہ‬
‫کس طرف ہے مگر جیسے‬
‫ہی اسکو سمجھ آئی تو فہد‬
‫نے فورا اپنے دھڑ سے‬
‫نچلے حصے کو ڈھکنے کی‬
‫کوشش کی مگر اب بہت دیر‬
‫ہو چکی تھی‪ ,‬مہرین اس‬
‫منظر کو دیکھ چکی تھی‬

‫فہد‪ :‬باجی‪ ,‬کیا مطلب؟‬

‫مہرین نے شرارتی انداز میں‬


‫ہنس کہ جواب دیا‬
‫مہرین‪ :‬کیا مطلب؟ گلی میں‬
‫کوئی مرغا ُککڑو کڑوں کی‬
‫آوازی نکال رہا تھا جس سے‬
‫میری آنکھ کھل گئی‪ ,‬تم کیا‬
‫سمجھے ؟‬

‫فہد ہنستے ہنستے الجواب ہو‬


‫گیا کیونکہ وہ اچھی طرح‬
‫سمجھ چکا تھا کہ مہرین‬
‫اسکے لن کی ہی بات کر‬
‫رہی تھی مگر مہرین باجی‬
‫نے بات کو اسطرح گھما دیا‬
‫کہ اب فہد جواب دیتا بھی تو‬
‫کیا دیتا‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ بھی ناں!! میں‬


‫صبح صبح مرغوں کی‬
‫بانگوں پہ دھیان نہیں دیتا‬

‫مہرین‪ :‬مرغا تمہارے بس‬


‫میں نہیں ہے فہد‬
‫فہد‪ :‬باجی کونسا مرغا؟ اچھا‬
‫گھما رہی ہیں بات کو‪,‬‬
‫کونسے مرغے کی بات کر‬
‫رہی ہیں؟‬

‫مہرین فہد کی بے بسی کا‬


‫ذومعنی جملوں سے مزہ لیتی‬
‫جا رہی تھی‬
‫مہرین‪ :‬اٹھ جائیں جناب اب‬

‫فہد نے انگڑائی لے کہ‬


‫کروٹ اسطرف کرلی جس‬
‫طرف مہرین بیٹھی ہوئی‬
‫تھی‪ ,‬اب فہد کے اور مہرین‬
‫کے چہروں کے درمیان جو‬
‫اب سے بڑی چیز نمایاں تھی‬
‫وہ تھیں مہرین کی چھاتیاں‬

‫فہد‪ :‬باجی سونے دیں ناں‬


‫مہرین نے جھک کہ اپنا‬
‫سارا جسم فہد پہ ڈھیر کر دیا‬
‫جس سے اس کی چھاتیاں‬
‫فہد کے بازو میں آگئی اور‬
‫مہرین کا چہرہ فہد کے‬
‫چہرے کے اتنا پاس آگیا کہ‬
‫مہرین کی گرم سانسیں فہد‬
‫کے گالوں پہ محسوس ہو‬
‫رہی تھیں‬
‫مہرین‪ :‬چلو نہا لو جا کہ‬
‫کپڑے استرے کر دیے ہیں‬
‫اب بس ناشتہ بنانا ہے لیکن‬
‫پہلے تم نہا لو‬

‫فہد بند آنکھوں کے ساتھ‬


‫کسی اور مہرین کے قرب کا‬
‫لطف لے رہا تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫فہد کا چہرہ اپنی طرف گھما‬
‫کہ اسکے ہونٹ چوم لیے‬
‫فہد‪ :‬باجی ابھی تو دانت بھی‬
‫صاف نہیں کیے میں نے‬

‫مہرین نے مسکرا کہ دوبارہ‬


‫سے فہد کے ہونٹ چوم لیے‬

‫مہرین‪ :‬پھر کیا ہوا؟ میں تو‬


‫تم سے اتنا پیار کرتی ہوں‬
‫کہ مجھے اس چیز سے فرق‬
‫نہیں پڑتا‬
‫فہد کا لن بے قابو طریقے‬
‫سے آہستہ آہستہ ٹائیٹ ہوتا‬
‫جا رہی تھا‪ ,‬فہد نے مہرین‬
‫کو اپنے سینے پہ کر لیا اور‬
‫اب مہرین اپنا سینہ فہد کے‬
‫سینے کے متوازی کر کہ‬
‫اس کے چہرے کہ اوپر اپنا‬
‫چہرہ کیے بیٹھی تھی‬
‫مہرین‪ :‬اب اٹھ جاؤ گے یا‬
‫پانی ال کہ گراؤں؟‬

‫یہ کہہ کہ مہرین نے دوبارہ‬


‫فہد کے ہونٹوں سے ہونٹ‬
‫مال لیے اور فہد نے بھی‬
‫ہونٹوں سے ہونٹ چوم لیے‪,‬‬
‫مہرین فہد کے ہونٹوں کو‬
‫چوسنے لگی اور جواب میں‬
‫فہد نے بھی ہونٹوں کو‬
‫چوسنے میں دیر نہیں کی‬
‫مہرین اور فہد ایک دوسرے‬
‫کے ہونٹ چوستے جا رہے‬
‫تھے اور پھر مہرین نے‬
‫اپنی زبان فہد کے منہ میں‬
‫ڈال دی‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫زبان کو چوس لیا‪ ,‬اور کچھ‬
‫دیر بعد فہد نے بھی اپنی‬
‫زبان مہرین کے منہ میں ڈال‬
‫دی اور یہ ِکسنگ ایک ڈیپ‬
‫ِکسگ بن گئی‬
‫فہد کا لن مکمل طاقت کے‬
‫ساتھ تن کہ ٹراؤزر سے‬
‫نکلنے کو بیتاب تھا اور‬
‫مہرین فہد کے ہاتھوں کی‬
‫انگلیوں میں اپنی انگلیاں ڈال‬
‫کہ بے حال ہو تی جا رہی‬
‫تھی‬

‫کچھ لمحوں کی ہی صحیح‬


‫مگر ایک ڈیپ کسنگ سے‬
‫دونوں لطف اندوز ہوتے‬
‫رہے اور اچانک دونوں رک‬
‫کہ ایک دوسرے سے نظریں‬
‫چرانے لگے‬

‫مہرین‪ :‬اٹھ جاؤ پلیز اب‬

‫فہد بھی چور نظروں کے‬


‫ساتھ جواب دے کہ اُٹھ کہ‬
‫بیٹھ گیا اور اپنے تنے ہوئے‬
‫لن کو مہرین کی نظروں‬
‫سے نہ بچا سکا‬

‫مہرین دروازے کی طرف‬


‫بڑھتے ہوئے بولتی ہوئی‬
‫شرارتی مسکراہٹ دے کہ‬
‫نکل گئی‬

‫مہرین‪ :‬تمہارا مرغا بانگیں‬


‫دے رہا ہے نہانے سے پہلے‬
‫پہلے اسے ٹھنڈا کر لینا‬
‫فہد اپنی بہن کی اپنے لن کے‬
‫بارے میں بات سن کہ‬
‫ہنسنے لگا اور اپنے لن کو‬
‫دیکھ کہ واشروم میں نہانے‬
‫چال گیا‬

‫فہد نہا دھو کہ تیار ہو کی‬


‫کمرے سے باہر نکال تو‬
‫ناشتہ اسکا انتظار کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین ناشتہ سجائے‬
‫شیطانی نظروں سے اسکی‬
‫طرف مسکرا کہ دیکھ رہی‬
‫تھی اور فہد مناسب‬
‫ایکسپریشن بھی نہیں دے پا‬
‫رہا تھا‬

‫مہرین نے شرارت سے بھرا‬


‫چٹکال چھوڑنے کا موقع‬
‫آجتک جانے نہیں دیا اسلیے‬
‫بیچارا فہد اب پھر مہرین‬
‫کے طنزومزاح کا شکار‬
‫بننے واال تھا‬

‫مہرین‪ :‬امی آج دوپہر میں‬


‫کیا پکانا ہے؟‬

‫امی‪ :‬اپنے بھائی سے پوچھ‬


‫لو کیا کھائے گا‪ ,‬جو کہتا ہے‬
‫پکا لو‬
‫فہد‪ :‬جو مرضی پکا لینا‬
‫باجی‪ ,‬میں نے کبھی نخرہ‬
‫کیا ہے پہلے کبھی ؟‬

‫مہرین‪ :‬میں تو مرغا کھاؤں‬


‫گی آج‬

‫مرغے کا لفظ سن کہ فہد‬


‫اچانک ہڑبڑا سا گیا‬
‫مہرین‪ :‬پکا لیں آج مرغا؟‬
‫بتاؤ فہد‪ ,‬تمہارا مرغا‪....‬‬
‫میرا مطلب تمہارے لیے‬
‫مرغا بناؤں آج؟‬

‫فہد‪ :‬جو مرضی بنا لو مجھے‬


‫نہیں پتہ‬

‫فہد مکمل طور پہ گھبرا چکا‬


‫تھا اور مہرہن کی باتوں کا‬
‫مطلب وہ اچھے سے سمجھ‬
‫رہا تھا‪,‬‬

‫مہرین‪ :‬امی اس سے پوچھیں‬


‫ناں کہ مرغا پکا لوں یا کچھ‬
‫اور چیز پسند ہے اسے؟‬

‫فہد نروس انداز میں جلدی‬


‫جلدی کھانا ختم کر کہ بس‬
‫وہاں سے نکلنا چاہ رہا تھا‬
‫اور کچھ خاص جواب نہیں‬
‫دے ریا تھا‬

‫مہرین لہک لہک کہ مرغے‬


‫پہ زور دے رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬مجھے تو مرغا پسند‬


‫ہے‪,‬‬
‫فہد نے بنا کوئی جواب دئیے‬
‫سالم دعا کر کہ دروازے‬
‫کیطرف بڑھا‪ ,‬مہرین فہد کو‬
‫دروازے تک الوداع کرنے‬
‫آئی اور دروازے میں روک‬
‫کہ فہد کو مخاطب کیا‬

‫مہرین‪ :‬مرغا ٹھنڈا ہو گیا؟‬

‫فہد نے الجھن بھرے انداز‬


‫میں ہلکی سی مسکراہٹ دے‬
‫کہ منہ بناتے ہوئے جواب دیا‬
‫اور گھر سے رخصت ہو گیا‬

‫فہد‪ :‬مرغا ٹھنڈا کر لیا تھا‪.‬‬

‫کیا غلط ہے اور کیا صحیح؟‬

‫کیا حرام ہے کیا حالل؟‬


‫یہ سب وہ سواالت ہیں جس‬
‫کا جواب ہر انسان کے‬
‫حساب سے بدل جاتا ہے‪,‬‬
‫کچھ لوگ نامحرم کو دیکھنا‬
‫بھی حرام سمجھتے ہیں تو‬
‫کچھ لوگوں کیلیے لڑکی‪/‬لڑکا‬
‫کو اس کی مرضی سے‬
‫چودنا یا چدوانا ایک طرح‬
‫کی سوشل سروس اور‬
‫اخالقی کام ہے‬
‫کچھ اپنی ماں‪ ,‬بہن‪ ,‬بیٹی‬
‫جیسے رشتے کو مقدس‬
‫سمجھتے ہیں اور انکے ساتھ‬
‫جنسی تعلقات کو صریحا‬
‫غلط سمجھتے ہیں تو کچھ‬
‫لوگ ایسے معامالت میں‬
‫بھی آزاد خیال ہیں‬

‫کچھ لوگ اپنے خاندان کی‬


‫عورتوں کو کسی غیر مرد‬
‫سے تعلق بنانے پہ غیرت‬
‫کے نام پہ قتل کر دیتے ہیں‬
‫اور کچھ لوگ خود اپنی ماں‬
‫بہن کا سودا کر لیتے ہیں‬

‫اوپر جن کچھ لوگوں کا ذکر‬


‫کیا ہے یہ اصل میں کچھ‬
‫نہیں ہیں‪ ,‬بلکہ میرے خیال‬
‫میں اس طرح کے لوگوں کی‬
‫بہتات ہے جو اپنے ایک‬
‫نظریے پہ اچھی طرح پابند‬
‫ہیں لیکن وہ لوگ جو ان تمام‬
‫تر فیصلوں کے درمیان واال‬
‫نظریہ رکھتے ہیں اصل میں‬
‫مسلہ انکے ساتھ ہوتا ہے‬

‫فہد اور مہرین بھی ان لوگوں‬


‫میں شامل ہیں جن کو ایسے‬
‫ہی دوراہے کا سامنا تھا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی ایک حد‬
‫سے واپس پلٹے تھے‪ ,‬ایک‬
‫ایسی حد سے جہاں سے عام‬
‫طور پہ واپسی ممکن نہیں‬
‫ہوتی‪ ,‬بہر حال اب وہ اس‬
‫انتہا سے واپس پلٹ کہ‬
‫دوراہے کا شکار ہو چکے‬
‫تھے‬

‫فہد اور مہرین ایک دوسرے‬


‫کے ہونٹوں کو چومنا چاہتے‬
‫تھے مگر ان کو معاشرے‬
‫کی عام سوچ ذہنوں کو گناہ‬
‫اور معیوب احساسات دالتی‬
‫تھی‪.‬‬

‫وقت گزرتا گیا اور فہد‬


‫مہرین کے ساتھ اس ایک حد‬
‫سے آگے نہ بڑھ سکی‪,‬‬
‫مہرین شرارتی اور بے دریغ‬
‫مزاج کی لڑکی تھی اسلیے‬
‫فہد کو بال وجہ ذومعنی‬
‫جملوں سے‪ ,‬اپنے تیکھے‬
‫چٹکلوں سے ایسا چھیڑتی کہ‬
‫فہد انگشت بدندان رہ جاتا‬
‫اور مہرین ایک پٹاخے کی‬
‫طرح یہ جا وہ جا‬

‫ان کیلیے حاجی انکل کی‬


‫بیٹی سعدیہ اور بڑے بیٹے‬
‫کا جسمانی تعلق واال واقعہ‬
‫اور بہن کا اپنے بھائی سے‬
‫پریگنینٹ ہو جانے والی بات‬
‫بہت حیران کر دیتی تھی‬
‫‪,‬اور تو اور اکثر یہی بات‬
‫زیر بحث رہتی کہ وہ بچہ‬
‫سعدیہ کے بھائی کا ہی ہے‬
‫یا واقعی سعدیہ کسی اور‬
‫سے بھی اپنی جنسی حوس‬
‫پوری کرتی ہے‬

‫جب بھی اس موضوع پہ بات‬


‫شروع ہو جاتی تو ہر بار‬
‫مہرین کوئی نا کوئی نیا‬
‫مؤقف اختیار کر لیتی اور‬
‫فہد ان باتوں کو سنتا جاتا‬
‫اور ہنستا جاتا مگر اندر ہی‬
‫اندر سے فہد اور مہرین بھی‬
‫اسکا مزہ لینے کو ترس‬
‫رہے تھے‬

‫اصل میں وہ حاجی انکل کے‬


‫بیٹی اور بیٹے کو ڈسکس‬
‫نہیں کرتے تھے‪ ,‬وہ تو ایک‬
‫دوسرے کیساتھ بات کر کہ‬
‫اس دوراہے میں سے ایک‬
‫راستہ چن کہ اس پہ چلنا‬
‫چاہتے تھے‪ ,‬مگر یہ فیصلہ‬
‫کرنا کہ کون سا راستہ چنا‬
‫جائے اتنا بھی آسان نہیں تھا‬

‫فہد اور مہرین اسی کشمکش‬


‫سے گزرتے مزید ایک سال‬
‫گزار چکے تھے لیکن آج‬
‫بھی رات کو سوتے وقت‬
‫ایک دوسرے کے لبوں کے‬
‫بوسے لینے میں ایک ہلکی‬
‫سی ہی صحیح مگر‬
‫ہچکچاہٹ موجود تھی‪,‬‬

‫فہد کی محنت اور لگن کی‬


‫وجہ سے اسکی ترقی ہو گئ‬
‫اور اب وہ بی اے کی تیاری‬
‫کر رہا تھا اور اس کو‬
‫دوسرے دفتر میں بھیج دیا‬
‫گیا جو اس کے پرانے دفتر‬
‫سے ایک گھنٹہ کی مسافت‬
‫پہ تھا‪ ,‬شروع شروع میں تو‬
‫فہد روزانہ آنے جانے کی‬
‫کوشش میں بڑا ذلیل ہوا بعد‬
‫ازاں کمپنی نے اسے اسی‬
‫دفتر کے نزدیک مالزمین‬
‫کی رہائش گاہ میں ایک‬
‫کمرہ دے دیا جس میں سارا‬
‫ہفتی رہتا اور وہ ہفتے بعد‬
‫گھر جاتا‬

‫فہد اپنے گھر کا واحد سہارا‬


‫اور کفیل تھا‪ ,‬ایک دو ماہ تو‬
‫اس نے زیادہ پیسوں کی اللچ‬
‫میں یہ سب کچھ برداشت کر‬
‫لیا لیکن بعد میں اسے ہر‬
‫روز یہ احساس ہونے لگا کہ‬
‫جوان بہن کے آسرے ایسے‬
‫بیمار ماں کو چھوڑ کہ‬
‫دوسرے شہر میں رہنا بہت‬
‫مشکل ہے اسلیے فہد نے اس‬
‫شہر میں ایک چھوٹا‪ ,‬مگر‬
‫موجودہ رہائش‪ ,‬جہاں اسکی‬
‫امی اور بہن رہ رہے تھے‪,‬‬
‫اس سے بڑا گھر کرایہ پہ‬
‫لینے کا فیصلہ کیا‬

‫اب فہد اپنی ماں اور بہن کو‬


‫اس تنگ اور بند گھر سے‬
‫نکال کہ نئے شہر اور نئے‬
‫گھر میں ال چکا تھا‪ ,‬جس‬
‫گھر میں مہرین اور فہد اب‬
‫رہنے آے تھے کمرے اس‬
‫میں بھی دو ہی تھے لیکن‬
‫دونوں کمرے نیچے ہی تھے‬
‫اور گھر کافی ہوادار اور‬
‫صاف ستھرا تھا‪ ,‬ان کے‬
‫پاس اتنے بڑے گھر جتنا‬
‫سامان تو نہیں تھا مگر‬
‫مہرین اور فہد آہستہ آہستہ‬
‫کچھ نہ کچھ پیسے بچا کہ‬
‫گھر کو سجانے اور‬
‫سنوارنے میں لگے رہتے‬
‫اور ایک دو ماہ میں ہی گھر‬
‫بہتر سے بہتر ہوتا گیا‬
‫گھر کے دو کمروں میں سے‬
‫پیچھے واال کمرہ جس کے‬
‫آگے ایک ہوا دار صحن تھا‪,‬‬
‫ان کی امی کے لیے بہت‬
‫صحت افزاء ثابت ہوا‪ ,‬آگے‬
‫واال کمرہ فہد اور مہرین کی‬
‫آماجگاہ بن گیا‪ ,‬روزانہ وہ‬
‫اپنی امی کی خدمت خاطر‪,‬‬
‫دوا دارو کر کہ وہ اس‬
‫کمرے میں اپنی دل کی باتیں‬
‫کرنے آجاتے اور سونے‬
‫کیلیے اپنے بستر میں چلے‬
‫جاتے‬

‫مہرین کی امی اب مہرین‬


‫کی شادی کیلیے بیتاب تھی‬
‫اور اب تو انکے مالی حاالت‬
‫بھی بہتر ہو چکے تھے‬
‫اسلیے ان کی امی فہد کو‬
‫ہمیشہ ایک ہی بات کہتی‬
‫رہتی کہ وہ اپنی بہن کیلیے‬
‫رشتہ تالش کرے لیکن فہد‬
‫ابھی اتنا سمجھدار نہیں ہوا‬
‫تھا کہ ایسی دیکھ پرکھ کر‬
‫سکے اسلیے اپنے دفتر میں‬
‫ہی ایک بڑی عمر کے قابل‬
‫اعتماد افسر جن کا نام‬
‫عباسی صاحب تھا‪ ,‬سے اس‬
‫موضوع پہ بات کی‬

‫عباسی صاحب نے‬


‫سمجھداری سے بڑے بھائی‬
‫کی طرح فہد کے سر پہ‬
‫دست شفقت رکھا‪ ,‬فہد کے‬
‫بیک گراؤنڈ کے بارے میں‬
‫تو وہ کچھ ہی عرصے میں‬
‫جان گئے تھے اسلیے ایک‬
‫روز انہوں نے فہد سے‬
‫اسکی امی سے ملنے کی‬
‫خواہش ظاہر کی‪ ,‬فہد نے‬
‫ایک دو روز بعد امی کی‬
‫اجازت سے انہیں گھر بال لیا‬
‫اور دفتر سے واپسی پہ ان‬
‫کی امی سے مل کہ کہ ایک‬
‫رشتے کی اشاراۃ بات کر کہ‬
‫وہاں سے چلے گئے‬

‫بات اب چل ہی پڑی تھی تو‬


‫کچھ ہی مالقاتوں میں ایک‬
‫رشتہ‪ ,‬جس کا عباسی‬
‫صاحب پہلے دن ذکر کر کہ‬
‫گئے تھے ان کے خاندان‬
‫والوں سے مالقاتیں ہوئیں‬
‫اور ایک رسمی سی منگنی‬
‫ہو گئے‬
‫اب مہرین کی انگیجمنٹ ہو‬
‫چکی تھی اور گھر میں‬
‫خوشی کا سماں تھا‪ ,‬جس‬
‫لڑکے کے ساتھ مہرین کی‬
‫منگنی ہوئی تھی وہ ڈپلومہ‬
‫ہولڈر تھا اور ایک ملٹی‬
‫نیشنل کمپنی کے ٹیکنیکل‬
‫ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ کے‬
‫طور پہ کام کر رہا تھا‪ ,‬اس‬
‫لڑکے کے والدین انتقال کر‬
‫چکے تھے اور یہ اپنے‬
‫بڑے بھائی کے ساتھ رہتا‬
‫تھا‪ ,‬اور دونوں بھائیوں کو‬
‫والدین کی وراثت میں سے‬
‫ایک ایک گھر مال تھا‪ ,‬اور‬
‫شادی کے بعد الگ گھر میں‬
‫ہی اپنی بیوی کے ساتھ‬
‫رہنے واال تھا‬

‫فی الحال تو شادی کیلیے‬


‫لڑکے والوں نے ایک سال‬
‫کا وقت مانگا تھا کیونکہ‬
‫مہرین کے منگیتر کی‬
‫پوسٹنگ کسی دور شہر میں‬
‫تھی اور جب وہ واپس آئے‬
‫گا تب ہی شادی کریں گے‪,‬‬
‫فہد اور اس کی ماں کو بھی‬
‫تیاری کیلیے وقت چاہیے تھا‬
‫اسلیے وہ بھی با خوشی مان‬
‫گئے‬
‫اب فہد کے الشعور میں‬
‫کہیں یہ بات بھی پنپنے لگی‬
‫کہ اسکی محبتوں کی اکلوتی‬
‫وارث‪ ,‬جس کے عالوہ اس‬
‫نے کسی اور لڑکی کو آنکھ‬
‫بھر کہ دیکھا تک نہیں اب‬
‫وہ بس ایک سال کی ہی‬
‫مہمان رہ گئی ہے‪ ,‬یہ صدمہ‬
‫تھا یا خوشی تھی‪ ,‬فہد یہ‬
‫سمجھنے سے قاصر تھا‬
‫آج منگنی کا دن ختم ہو چکا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین منگنی والے دن‬
‫ہلکا پھلکا میک اپ کر کہ‬
‫اتنی کھلی کھلی لگ رہی‬
‫تھی کہ فہد کی آنکھیں‬
‫مہرین کے چہرے سے ہٹ‬
‫ہی نہیں رہی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫بھی فہد کی اس طرح کی‬
‫بیچین نظروں کو سمجھ رہی‬
‫تھی مگر آج کے دن کی‬
‫خوشی اس کے چہرے پہ‬
‫چھلک رہی تھی‬

‫مہمانوں کے رخصت ہونے‬


‫کے بعد گھر میں خوشی کا‬
‫ماحول تھا‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫آج تنہائی کے شدید منتظر‬
‫تھے‪ ,‬اپنی ماں کو دوا دینے‬
‫کے بعد جب تسلی کر لی کہ‬
‫وہ سو گئی ہیں تو دونوں‬
‫اپنے کمرے میں آگئے‪ ,‬آج‬
‫مہرین نےدونوں بستر فہد‬
‫کے کمرے میں ہی لگائے‬
‫ہوئے تھے‬

‫فہد کا دل اب بجھ سا گیا تھا‬


‫اور کمرے میں آتے ہی‬
‫سارے دن کے تیاری میں‬
‫مصروف‪ ,‬تھکے ماندے‬
‫دونوں بہن بھائی بستر سے‬
‫چپک گئے‬
‫فہد کے سینے پہ سر ٹکا کہ‬
‫مہرین آنکھیں بند کر کہ‬
‫اپنے آپ کو سکون دے رہی‬
‫تھی‬

‫مہرین نے فہد کو مخاطب‬


‫کر کہ آواز دی اور ایک دو‬
‫آوازوں کے بعد فہد نے‬
‫ہڑبڑا کہ جی جی باجی کہہ‬
‫کہ جواب دیا‪ ,‬نہ جانے فہد‬
‫کونسے خیالوں میں کھویا‬
‫ہوا تھا‬

‫مہرین‪ :‬کیا ہوا ہے؟ کب‬


‫خیالوں میں گم ہو؟‬

‫فہد‪ :‬کہیں نہیں کھویا بس‬


‫تھک گیا ہوں ذرا‬

‫مہرین‪ :‬دبا دوں؟‬


‫فہد‪ :‬نہیں باجی‪ ,‬آپ سے تو‬
‫کم ہی تھکا ہوں‬

‫مہرین لیٹی تھی اور اٹھ کی‬


‫فہد کے برابر آ کہ بیٹھ گئی‬
‫اور اس کے گھنے بالوں میں‬
‫ہاتھ پھیر کہ باتیں کرنے لگی‬

‫مہرین‪ :‬فہد؟ ایک بات کہوں؟‬


‫فہد‪ :‬جی باجی کہیں؟‬

‫مہرین‪ :‬میں جانتی ہوں کہ تم‬


‫بجھے بجھے سے کیوں ہو؟‬

‫فہد ہنستے ہوئے بول پڑا‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی میں بالکل‬


‫بجھا بجھا سا نہیں ہوں‪ ,‬لیکن‬
‫آپ بتائیں اب کہ آپ کو ایسا‬
‫کیوں لگتا ہے‬

‫مہرین‪ :‬فہد میں تمہاری رگ‬


‫رگ سے واقف ہوں‬

‫مہرین فہد سے بات کرتی‬


‫کرتی فہد کے برابر لیٹ گئی‬
‫اور اسکے سینے پہ سر رکھ‬
‫کہ اسکے ساتھ گلے لگ کہ‬
‫باتیں کرنے لگی‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے ساتھ زور سے چپکی‬
‫ہوئی تھی‬

‫مہرین‪ :‬فہد تم اداس اس لیے‬


‫ہو کیونکہ آج میں کسی اور‬
‫کے نام سے منسوب ہو گئی‬
‫ہوں‪ ,‬تم نے جتنی محبت مجھ‬
‫سے کی ہے اب تم سے میرا‬
‫کسی اور کا ہونا دیکھا نہیں‬
‫جا رہا‬
‫فہد یہ باتیں سن کہ ذرا سا‬
‫جذباتی ہو گیا اور بول پڑا‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ سے پیار سے‬


‫تو نہیں مکرونگا لیکن ایک‬
‫دن تو آپ نے اپنے گھر جانا‬
‫ہی ہے‪,‬‬

‫فہد نے مہرین کو پیار سے‬


‫اپنے اندر دبا لیا اور اسکے‬
‫سر کو چوم لیا‬
‫مہرین‪ :‬میں جانتی ہوں کہ‬
‫تمہاری میرے لیے محبت‬
‫بہن بھائی کے رشتے سے‬
‫بڑھ کہ کچھ اور ہی ہے‬

‫فہد‪ :‬باجی میں آپ پہ قربان‬


‫ہو جاوں‪ ,‬آپ میری بہن ہیں‬
‫تو محبت تو ہو گی ہی آپ‬
‫سے‬
‫مہرین‪ :‬فہد میرا بس چلے تو‬
‫تمہارے عالوہ کسی سے اپنا‬
‫آپ نہ جوڑوں‬

‫یہ بات کہتے ہوئے مہرین‬


‫کی آواز میں رونے والے‬
‫اتار چڑھاؤ تھے‪ ,‬فہد نے‬
‫اپنی بہن کے چہرے کو اپنی‬
‫طرف گھما کہ اس کی نم‬
‫آنکھوں سے چوم لیا‬
‫فہد‪ :‬باجی پلیز آج رونا نہیں‬
‫آج تو اتنا خوشی کا دن ہے‬

‫مہرین نے بھی فہد کے‬


‫ماتھے سے چوما اور اپنے‬
‫آنسو صاف کر کہ اپنے‬
‫بھائی کی خوشی کیلیے‬
‫مسکرا دی‬

‫فہد‪ :‬باجی اب سوئیں؟ رات‬


‫بہت ہو گئی ہے‬
‫مہرین‪ :‬ہاں میں نے کب منع‬
‫کیا ہے سو جاو‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ میرے بستر پہ‬


‫ہیں‪ ,‬اچھا چلیں آپ ادھر ہی‬
‫سو جائیں میں دوسرے بستر‬
‫پہ چال جاتا ہوں‬
‫یہ بات کہہ کہ فہد اپنا آپ‬
‫مہرین سے چھڑوانے کیلیے‬
‫اٹھنے لگا تو مہرین نے بنا‬
‫آنکھیں کھولے فہد کو پوری‬
‫طاقت سے وہیں لیٹا رہنے پہ‬
‫مجبور کر دیا اور فہد وہیں‬
‫پہ مہرین کی بانہوں کے‬
‫شکنجے میں گرا مسکراتے‬
‫ہوئے اپنی ہار تسلیم کر کہ‬
‫آنکھیں بند کرنے لگا‬
‫فہد‪ :‬باجی یار آپ کو مجھ پہ‬
‫ترس کیوں نہیں آتا؟‬

‫مہرین فہد کے سینے پہ‬


‫زبردستی قبضہ جمائے بند‬
‫آنکھوں کے ساتھ لیٹی جواب‬
‫دینے لگی‬

‫مہرین‪ :‬جتنا تم مجھے‬


‫ترساتے ہو ناں مجھ سے‬
‫بڑے ظالم تم ہو‬
‫فہد‪ :‬میں نے کون سا ظلم کر‬
‫دیا اب باجی؟‬

‫مہرین‪ :‬سو جاو اب‪ ,‬ظلم کا‬


‫حساب میں بھی لے لونگی‬
‫ابھی سو جاو‬

‫فہد مہرین کی فربہ چھاتی‬


‫کے ساتھ لگنے سے بہت‬
‫مزہ بھی اٹھا رہا تھا اور‬
‫ساتھ اسے رات میں اکٹھے‬
‫سوتے ہوئے بہکنے کا بھی‬
‫ڈر تھا مگر مہرین کی ضد‬
‫کے آگے بے بس حاالت کے‬
‫سہارے سونے کی کوشش‬
‫کرتا رہا‬

‫مہرین اپنے بھائی کے سینے‬


‫پہ چڑھ کہ سو رہی تھی اور‬
‫فہد جیسے تیسے باآلخر سو‬
‫گیا‪ ,‬رات کو جب فہد کی‬
‫آنکھ کھلی تو مہرین اسکے‬
‫برابر میں سیدھی لیٹی ہوئی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کے بازو تکیے‬
‫کی طرف سیدھے اوپر تھے‬
‫اور اسکی چھاتی کی گوالئی‬
‫ابھر کہ فہد کو نیند سے‬
‫بیدار کر چکی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫کا ِچت پیٹ اور گلے میں‬
‫سے نظر آنیوالی شہوت‬
‫انگیز کلیویج فہد اگنور نہیں‬
‫کر پا رہا تھا‬

‫اپنے آپ کو کوستے ہوئے‬


‫فہد کچھ سال پہلے والے اس‬
‫واقعے کے لطف کو دہرانے‬
‫لگا جب اس کی بہن نے اس‬
‫کے سامنے اپنا جسم ننگا کر‬
‫کہ اس سے چسوا لیا تھا‬
‫اس رات کا ایک ایک منظر‬
‫فہد کی آنکھوں میں گھومنے‬
‫لگا اور اپنے لن کے تناؤ کو‬
‫محسوس کرتے ہوئے فہد‬
‫لمحہ با لمحہ بہکتا ہی چال‬
‫جا رہا تھا‬

‫فہد کا دل اسے گواہی دے‬


‫دے کہ مائل کر رہا تھا کہ‬
‫اگر مہرین باجی جاگ گئی‬
‫تو ہو ہر گز ناراض نہیں‬
‫ہونگی لیکن فہد رات کے‬
‫اس پہر جس میں طرح اس‬
‫دوراہے کا شکار تھا اسوقت‬
‫اس کا ہاتھ اپنی بہن کی‬
‫چھاتی کی طرف بڑھ بڑھ‬
‫کی پلٹ رہا تھا‬

‫دل و دماغ کی جنگ جاری‬


‫تھی اور مہرین کی‬
‫خوبصورت اس جنگ میں‬
‫فہد کو ہرانے میں کوئی کسر‬
‫نہیں چھوڑ رہی تھی اور فہد‬
‫کا ہاتھ قمیض کےگلے کے‬
‫اوپر والے حصے میں سے‬
‫ہوتا ہوا مہرین کی ایک‬
‫چھاتی کو بریزئیر کے اوپر‬
‫سے ہی پکڑنے میں کامیاب‬
‫ہو گیا‬
‫]‪[/size‬‬
‫آہستہ آہستہ ہی ]‪[/size‬‬
‫صحیح مگر اب مہرین کی‬
‫چھاتی فہد کے ہاتھ میں اپنی‬
‫وہی پرانی لذت دے رہی تھی‬
‫]‪[/size‬‬
‫فہد نے مہرین کی ]‪[/size‬‬
‫دونوں چھاتیوں کو ایک ایک‬
‫کر کہ آہستہ مسال اور کچھ‬
‫دیر کی اس لذت کے بعد ہاتھ‬
‫واپس نکال کہ دوسری طرف‬
‫منہ کر کہ سو گیا‬
‫]‪[/size‬‬
‫اگلی صبح فہد ]‪[/size‬‬
‫اٹھتے ہی مہرین کے چہرے‬
‫سے رات والے واقعے کا‬
‫اندازہ لگانے کی کوشش‬
‫کرنے لگا لیکن مہرین کی‬
‫طرف سو کوئی ایسا‬
‫ایکسپریشن نہیں آیا جس سے‬
‫فہد کو اپنی رات والی‬
‫گھناؤنی حرکت کے کھلنے‬
‫کا شائبہ ہوا ہو اس لیے‬
‫سکون کا سانس لے کی فہد‬
‫اپنے کام پہ چال گیا‬
‫]‪[/size‬‬
‫دن گزرتے گئے ]‪[/size‬‬
‫اور فہد اپنے اس رات والی‬
‫حرکت پہ شرمندہ تھا مگر‬
‫شکر اس بات پہ ادا کر رہا‬
‫تھا کی مہرین باجی اس بات‬
‫سے انجان سوئی رہی ورنہ‬
‫اور بھی شرم والی بات تھی‪.‬‬
‫»‬
‫محبت در اصل جسم کو پا‬
‫لینا نہیں ہوتی‪ ,‬نہ ہی محبت‬
‫کسی سے شادی کر لینے کو‬
‫کہتے ہیں‪ ,‬محبت حاصل اور‬
‫ال حاصل سے بھی باال تر‬
‫ہوتی‪ .‬محبت میں نہ ہی عمر‬
‫کی کوئی قید ہے اور نہ‬
‫ہےرشتے کی‪ .‬محبت نہ ہی‬
‫اظہار کی محتاج ہے اور نہ‬
‫تکرار کی‪ .‬محبت تو بس‬
‫محبت ہے‪.‬‬

‫فہد اور مہرین ایک دوسرے‬


‫کے ساتھ جسمانی تعلقات‬
‫بھی بنا چکے تھے لیکن‬
‫اسکے باوجود ایک دوسرے‬
‫کے احساس سے کبھی غافل‬
‫نہیں ہوئے‪ .‬مہرین کسی اور‬
‫کی ہونے جا رہی تھی اور‬
‫فہد بڑے ہی حوصلہ کیساتھ‬
‫مہرین کو کسی اور کی‬
‫ہونے دے رہا تھا‬

‫یہ محبت کا بڑا ہی عجیب‬


‫امتحان تھا جس کو فہد اور‬
‫مہرین نے پہاڑ حوصلے‬
‫کیساتھ برداشت کرنا تھا‪ .‬فہد‬
‫اور اسکی بہن مہرین کیلیے‬
‫ایک دوسرے کیساتھ سیکس‬
‫کر کہ اپنی تسکین پا لینے‬
‫سے کون روک سکتا تھا؟‬
‫مگر یہ محبت کے وہ‬
‫تقاضے تھے جن پہ دونوں‬
‫فی الحال تو ڈٹے ہوئے‬
‫تھے‪ ,‬لیکن کس دن وہ بے‬
‫قابو ہو کہ ہر حد پار کر لیں‬
‫گے یہ تو فہد اور مہرین‬
‫بھی نہیں جانتے تھے‬

‫مہرین فہد کو اپنا جسم پیش‬


‫کر چکی تھی مگر فہد نے‬
‫مہرین کے جسم کی بجائے‬
‫اس کے پیار کو ترجیح دے‬
‫کہ اپنی محبت کو مہرین کی‬
‫نظروں میں سرخرو کر دیا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین نے بھی فہد کی‬
‫خوشی خریدنے کیلئے اپنے‬
‫جسم کا بے دریغ سودا‬
‫کرنے میں ایک لمحہ بھی نہ‬
‫سوچا‪ ,‬وہ دونوں اپنی قسمت‬
‫کا فیصلہ وقت کے ہاتھ میں‬
‫سونپ چکے تھے‪ ,‬اب‬
‫حاالت اور وقت کو فیصلہ‬
‫کرنا تھا کہ انکی محبت کا‬
‫کیا انجام کرنا ہے‬

‫جوں جوں شادی کے دن‬


‫قریب آتے جا رہے تھے فہد‬
‫اور مہرین کے درمیان ایک‬
‫نئی تناب بندھتی جا رہی‬
‫تھی‪ ,‬ہر روز کبھی فہد بہکتا‬
‫تو کبھی مہرین بہک جاتی‪,‬‬
‫مہرین نہ چاہتے ہوئے بھی‬
‫فہد کو اپنا جسم دکھا کہ اپنی‬
‫طرف کھینچتی اور کبھی فہد‬
‫مہرین کے جسم کو چھو کہ‬
‫گزر جاتا‪ ,‬کبھی سارے دن‬
‫کا تھکا ہارا فہد‪ ,‬ساری رات‬
‫مہرین کی بانہوں میں گزار‬
‫دیتا تو کبھی گیلے بالوں کے‬
‫ساتھ مہرین فہد کے لبوں کو‬
‫چوستی‪ ,‬یہ سلسلے چلتے جا‬
‫رہے تھے اور مہرین فہد‬
‫ایکدوسرے کے دل و دماغ‬
‫پہ چھائے رہتے‬
‫بھائی ہونے کے ناطے فہد‬
‫کی یہ دلی خواہش تھی کہ‬
‫مہرین کی شادی میں کوئی‬
‫کمی نہ رہ جائے اسلیے فہد‬
‫نے اپنی زندگی کے مشکل‬
‫ترین فیصلے لینے شروع کر‬
‫دئیے‪ .‬فہد نے اپنی کمپنی‬
‫سے قرضہ لے لیا جسکا‬
‫آنے والے وقت میں فہد کو‬
‫یہ نقصان ہو سکتا تھا کہ وہ‬
‫بہتر نوکری کیلیے کمپنی‬
‫نہیں چھوڑسکے گا‪ ,‬اسکے‬
‫عالوہ اپنے اردگرد تمام‬
‫کولیگز سے کچھ نہ کچھ‬
‫پیسے ادھار کے طور پہ لے‬
‫لیے‪ ,‬ایک دو کمیٹیاں بھی‬
‫فہد نے ڈالی ہوئی تھی جن‬
‫کا بوجھ بھی فہد کو آنے‬
‫والے وقت میں اٹھانا پڑنا‬
‫تھا‪ .‬غزض یہ کی فہد کا بال‬
‫بال قرضے میں ڈوبتا چال‬
‫گیا اور شادی سے پہلے تک‬
‫فہد نے اپنی بہن کے جہیز‬
‫سے لے کہ کپڑوں جوتوں‬
‫تک‪ ,‬اپنی استطاعت سے‬
‫بڑھ کہ اچھی چیزیں خرید‬
‫لیں‪ ,‬مہرین اور اسکی ماں‬
‫فہد کی ان شاہ خرچیوں پہ‬
‫حیران تو تھی مگر فہد ان‬
‫سے حقیقت چھپا کہ بس اپنی‬
‫بہن کی خوشیاں خریدنا چاہتا‬
‫تھا‬
‫مہرین کے سسرال والے‬
‫مالی طور پہ فہد کی فیملی‬
‫سے بہت بہتر تھے مگر فہد‬
‫کی فیملی کیطرح انکے بھی‬
‫محدود سے رشتہ دار تھے‬
‫اور بارات اور ولیمہ میں‬
‫چالیس پچاس لوگوں کی آمد‬
‫متوقع تھی اسلییے یہ شادی‬
‫ایک اوسط درجے سے بھی‬
‫کم افراد کی شمولیت کیساتھ‬
‫ہونے جا رہی تھی‬

‫مہرین کے منگیتر کا الگ‬


‫گھر کا سن رکھا تھا مگر‬
‫شادی سے پہلے ہی یہ بات‬
‫سننے میں آنے لگی کہ‬
‫مہرین شادی کے بعد اپنے‬
‫سسرال کے آبائی گھر میں‬
‫ہی جائیگی جہاں مہرین کے‬
‫جیٹھ جیٹھانی اپنے بچوں‬
‫کے ساتھ رہتے ہیں‪ ,‬لیکن یہ‬
‫کوئی ایسا بڑا مسلہ نہیں تھا‬
‫جس پہ کوئی محاذ کھڑا کیا‬
‫جا تا‬

‫شادی میں ایک دن رہ گیا تھا‬


‫اور فہد اپنے بھائی کے ساتھ‬
‫زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا‬
‫چاہتی تھی اگلے روز مہندی‬
‫کی رسم میں امی ابو کے‬
‫کچھ رشتہ داروں کی آمد‬
‫متوقع تھی اسلیے آج کی‬
‫رات فہد مہرین کیساتھ یادگار‬
‫لمحات‪ ,‬یا پھر یوں کہہ لیں‬
‫کہ اس محبت کے آخری‬
‫لمحات گزارنا چاہتی تھی‪,‬‬
‫دونوں کے لہجے شکستہ‬
‫تھے مگر چہروں پہ جھوٹی‬
‫مسکراہٹیں سجائے اپنا اپنا‬
‫درد اندر ہی اندر چھپا رہے‬
‫تھے‬
‫مہرین کے ہاتھوں پہ مہندی‬
‫کے ڈیزائن سے سجاوٹ‬
‫ہوئی تھی‪ ,‬وہ ہاف سلیو‬
‫شرٹ پہنے فہد کو اپنی‬
‫مہندی دکھانے کمرے میں‬
‫آگئی‪ ,‬سارا کمرہ سامان سے‬
‫لدا پڑا تھا اور بمشکل ہی‬
‫مناسب جگہ مہرین کے‬
‫حصے میں آئی‪ ,‬فہد سامان‬
‫کی ترتیب میں مصروف‬
‫اپنی بہن کے ُحسن کو تکتا‬
‫ہی رہ گیا‬

‫مہرین‪ :‬فہد دیکھو مہندی‬


‫کیسی لگ رہی ہے میرے‬
‫ہاتھوں پہ‬

‫فہد‪ :‬ال جواب شاندار لگ‬


‫رہی ہے باجی‬
‫مہرین‪ :‬میں نے کل کو تمہیں‬
‫بہت نچوانا ہے اسلیے آج‬
‫جلدی جلدی کام ختم کر لو‬

‫فہد‪ :‬جی جی جیسے آپکا‬


‫حکم‬

‫مہرین‪ :‬بھائی ویسے جتنا‬


‫سامان تم نے میرے لئے بنا‬
‫دیا ہے اتنا تو شاید ابو بھی‬
‫نہ بنا پاتے‪,‬‬
‫مہرین یہ بات کہہ کہ فہد‬
‫کے گلے لگ گئی‪ ,‬گویا وہ‬
‫فہد کا شکریہ ادا کر رہی ہو‬

‫فہد‪ :‬اچھا اچھا چلو اب آرام‬


‫کر لو آپ‪ ,‬کل کا دن چہرے‬
‫پہ تھکاوٹ کے آثار نظر نہ‬
‫آئیں‬
‫مہرین‪ :‬کیا کہا؟ آج تو تمہیں‬
‫نہیں سونے دینا میں نے‬

‫فہد‪ :‬کیوں باجی‬

‫مہرین‪ :‬آج ہم نے ساری رات‬


‫اکٹھے گزارنی ہے‪ ,‬فہد‬
‫شادی کے بعد پتہ نہیں یہ‬
‫وقت ملے یا نہ ملے‬
‫فہد‪ :‬باجی مل جائے گا وقت‬
‫آپ جا کہ آرام کریں‬

‫مہرین‪ :‬نہیں‪ ,‬ہر گز نہیں‪ ,‬آج‬


‫رات بس میری مرضی چلے‬
‫گی‪ ,‬کاب کھول کہ سن لو‬

‫فہد‪ :‬اچھا چلیں ٹھیک ہے‬


‫آجائیں بیٹھ جائیں جہاں جگہ‬
‫ملتی ہے‬
‫مہرین‪ :‬فہد صاحب میں امی‬
‫کو کھانا اور دواء کھال کہ‬
‫اور انکو سال کہ آئی‪ ,‬میرے‬
‫آنے تک اس کمرے میں‬
‫کسی جگہ بستر لگا ہونا‬
‫چاہیے‬

‫فہد نے تمام کمرے کو نظر‬


‫دوڑا کہ دیکھا اور بے بسی‬
‫کے عالم میں جواب دیا‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی اس کمرے‬
‫میں پاؤں رکھنے کی جگہ‬
‫نہیں تو سونے کی جگہ‬
‫کیسے بناوں؟ دماغ ٹھیک‬
‫ہے آپکا؟‬

‫مہرین‪ :‬مجھے نہیں پتہ‬


‫میرے آنے تک یہ سب‬
‫تمہارے ذمہ ہی‪ ,‬میں بس آئی‬
‫مہرین یہ سب احکامات سنا‬
‫کہ کمرے سے نکل گئی اور‬
‫فہد اب وہاں کوئی جگہ‬
‫بنانے کا سوچنے لگا مگر‬
‫کمرہ جہیز کے سامان سے‬
‫اسطرح لیس تھا کہ وہاں‬
‫جگہ بنانے میں اسے بہت‬
‫محنت کرنی پڑنی تھی‪ ,‬بہر‬
‫حال فہد نے کوشش جاری‬
‫رکھی اور جتنا کر سکا کر‬
‫کہ نڈھال ہو کہ بستر بچھاکہ‬
‫وہیں سستانے لگا‬

‫مہرین اپنے فرائض انجام‬


‫دے کہ کچھ دیر بعد کمرے‬
‫میں داخل ہوئی تو فہد نظر‬
‫نہ آیا‪ ,‬واشروم کیطرف نظر‬
‫دوڑائی تو وہ بھی خالی تھا‪,‬‬
‫مہرین نے واپس کمرے میں‬
‫آکہ فہد کہی کہ آواز دی‬
‫جسکے جواب میں فہد سامان‬
‫کے درمیان سے اپنی گردن‬
‫بلند کر کہ لبیک سے مہرین‬
‫کو جواب دینے لگا‬

‫مہرین فہد کی نشاندہی کے‬


‫بعد جب سامان کو پھالنگ‬
‫پھالنگ کی مختلف ڈبوں اور‬
‫سٹیل کی پیٹیوں کے درمیان‬
‫پہنچی تو مورچہ نما ایک‬
‫جگی میں فہد لیٹا ہوا مسکرا‬
‫کہ ہاتھ ہالنے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫سر پہ ہاتھ مار کہ ہنس کہ‬
‫بول پڑی‬

‫مہرین‪ :‬یہاں؟ اور کوئی جگہ‬


‫نہیں ملی؟‬

‫فہد‪ :‬آپ بنا لو جگہ کوئی‪,‬‬


‫باجی یہ کیا بچپنا ہے بھال؟‬
‫ادھر سو جاتے ہیں کم از کم‬
‫کھلے بستر میں تو سوئینگے‬
‫سامان میں گھری تنگ اور‬
‫مورچہ نما جگہ اتنی چھپی‬
‫ہوئی تھی کہ اگر کوئی ان‬
‫کو ڈھونڈنے آتا تو یقینا نہ‬
‫ڈھونڈ پاتا‪ ,‬اور جگہ اتنی‬
‫قلیل تھی کہ وہاں ایک بندہ‬
‫تو سو سکتا تھا لیکن دو‬
‫لوگوں کیلئے وہ جگہ ناکافی‬
‫تھی‬
‫مہرین نے پاس پڑے سامان‬
‫کے سہارے آہستہ آہستہ اس‬
‫مورچے میں قدم رکھے اور‬
‫بحفاظت وہاں اتر کہ فہد سے‬
‫باتیں شروع کر دیں‬

‫مہرین‪ :‬ہاں کچھ دیر یہاں‬


‫رکتے ہیں اگر نیند آگئی تو‬
‫چلے جائینگے‬
‫فہد‪ :‬اگر نیند آ گئی؟ اگر کا‬
‫مطلب؟ نیند تو آ رہی ہو گی‬
‫آپکو‪ ,‬چلو چلیں دوسرے‬
‫کمرے میں چلتے ہیں‬

‫مہرین نے فہد کا ہاتھ پکڑ کہ‬


‫اسے بیٹھے رہنے کا اشارہ‬
‫کیا اور فہد بھی مجبوری‬
‫میں اپنی بہن کی خواہشات‬
‫ادھوری نہیں رہنے دینا چاہتا‬
‫تھا‬
‫اس کمرے میں پہلے ہی‬
‫روشنی مدھم تھی اور اس‬
‫مورچے میں دونوں بہن‬
‫بھائی پاس پڑے سامان سے‬
‫ٹیک لگائے بیٹھے تھے‬

‫مہرین‪ :‬فہد یار آج کے بعد یہ‬


‫وقت واپس نہیں آئے گا‪ ,‬کل‬
‫کے بعد ہم جدا ہو جائیں گے‬
‫فہد‪ :‬مہرین باجی ایک نہ‬
‫ایک دن تو ہمیں شادیاں‬
‫کرنی ہی ہوتی ہیں‪ ,‬یہی‬
‫قانون ہے اور یہ سب ہونا‬
‫ہی ہونا ہے‬

‫مہرین اٹھ کی فہد کی گود‬


‫میں سر رکھ کہ لیٹ گئی‪,‬‬
‫فہد اپنی بہن کے بال‬
‫سنوارنے لگا‪ ,‬سامان سے‬
‫لیکر شادی کے انتظامات‬
‫تک ساری باتیں جب ہو گئیں‬
‫تو مہرین نے جھجھک کہ‬
‫فہد سے باتیں کرنی شروع‬
‫کی‬

‫مہرین‪ :‬فہد تم سے ایک بات‬


‫کرنی ہے‬

‫فہد‪ :‬جی باجی کریں بات‬


‫مہرین‪ :‬تمہیں پتہ ہے نہ کہ‬
‫امی کتنی سیدھی ہیں‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہا جی باجی‪ ,‬بہت‬


‫زیادہ ہی سیدھی ہے ہماری‬
‫ماں تو حد سے زیادہ سیدھی‬
‫ہیں‪,‬‬

‫مہرین‪ :‬تمہیں پتہ ہے کی‬


‫جب لڑکیوں کی شادیاں ہوتی‬
‫ہیں تو مائیں کتنی باتیں‬
‫سمجھاتی ہے اپنی بیٹیوں کو‪,‬‬
‫مگر امی کو تو جیسے پتہ‬
‫ہی نہیں کچھ‪ ,‬پتہ نہیں ہمیں‬
‫بھی کیسے پیدا کر لیا‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہا باجی کیا ہو گیا ہے‬


‫آج؟ کیا کہہ دیا امی نے؟‬

‫مہرین‪ :‬کچھ بھی نہیں کیا‪,‬‬


‫یہی تو مسلہ ہے کہ کچھ بھی‬
‫نہیں کہا ابھی تک‬
‫فہد‪ :‬باجی آپ کیا سننا چاہتی‬
‫ہیں امی بیچاری سے؟‬

‫مہرین‪ :‬شادی ہے میری یار‪,‬‬


‫کل مہمان آ جائیں گے‬

‫فہد‪ :‬باجی کھل کہ بتاو کہ کیا‬


‫مسلہ ہے‪ ,‬بات کو گھماؤ مت‬
‫مہرین‪ :‬سہاگ رات کا لفظ‬
‫سنا ہے؟‬

‫فہد‪ :‬باجی؟‬

‫فہد کی آنکھیں کھلی کی‬


‫کھلی رہ گئی‪ ,‬جیسے وہ‬
‫سمجھ گیا ہو کہ کیا بات‬
‫ہونیوالی ہے‬
‫مہرین‪ :‬بتاو مجھے اب‬

‫فہد‪ :‬میں کیا بتاؤں یار؟ آپکو‬


‫بھی آج یاد آنا تھا ؟انسان ذرا‬
‫وقت دے تو کسی سے مدد‬
‫لی جا سکتی ہے اب میں کیا‬
‫سمجھاوں آپکو ؟‬

‫مہرین‪ :‬میں بہت نروس ہوں‬


‫یار‬
‫فہد‪ :‬ویسے باجی آپ کو پتہ‬
‫تو سارا ہی ہے‪ ,‬کونسی‬
‫ایسی چیز ہی جس کا آپکو‬
‫نہیں پتہ‬

‫مہرین‪ :‬بکواس بند کرو تم‪,‬‬


‫مجھے کیسے پتہ ہو گا یار‬
‫فہد‪ :‬باجی وہ سیکس سٹوریز‬
‫کافی بار میں نے آپکے ہاتھ‬
‫میں دیکھی ہیں‬

‫مہرین‪ :‬ہاں توالتا کون تھا؟‬


‫اب پڑی ہوتی تھی تو میں‬
‫نے پڑھ لی‬

‫فہد‪ :‬باجی اب مسلہ کیا ہے‬


‫اس پہ بات کر لیں؟ وہ بچپن‬
‫تھا بس اندازہ نہیں تھا اسلیے‬
‫لے آتا تھا‬

‫مہرین‪ :‬فہد میں نے پڑھا تھا‬


‫کی بلیڈنگ بھی ہوتی ہے‬

‫فہد‪ :‬باجی یار میں آپکی‬


‫سہیلی نہیں ہوں جو ایسی‬
‫کھلی باتیں آپ مجھ سے کر‬
‫رہی ہیں‬
‫مہرین‪ :‬ہاں تو اب نہیں ہے‬
‫کوئی سہیلی میری تو کیا‬
‫کروں اب؟ میں کس سے‬
‫کروں بات؟ تم کو کیا مسلہ‬
‫ہے تم تو ایسے شرما رہے‬
‫ہو جیسے تم سے میری‬
‫کوئی چیز چھپی ہوئی ہے‪,‬‬
‫سہاگ رات میری ہے تم‬
‫کیوں گھبرا رہے ہو؟‬
‫فہد بہت نروس ہو رہا تھا‬
‫اور پریشان مہرین بھی تھی‬
‫مگر دونوں کے پاس اور‬
‫کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا‬

‫فہد‪ :‬باجی‪ ,‬میری بات سنیں‪,‬‬


‫آپکا ہونیواال شوہر بھی تو‬
‫آپکے ساتھ ہی ہو گا اگر‬
‫کوئی مسلہ ہو گا تو وہ‬
‫سنبھال لیگا‬
‫مہرین‪ :‬مجھے تو بلڈ کا سوچ‬
‫سوچ کہ ہی گھبراہٹ ہو رہی‬
‫ہے‬

‫فہد‪ :‬کونسا اس نے آپکا سارا‬


‫خون نکال کہ پی جانا ہے‪,‬‬
‫حد کرتی ہیں آپ بھی باجی‪,‬‬

‫مہرین‪ :‬بے غیرت انسان‬


‫جس چیز سے خون نکل آئے‬
‫اس کی تکلیف بھی تو شدید‬
‫ہو گی‬

‫فہد‪ :‬ہاں تو اس درد کا بھی‬


‫تو اپنا ہی مزہ ہے‬

‫فہد کے چہرے پہ شیطانی‬


‫مسکراہٹ تھی اور مہرین‬
‫فہد کی اس بات پہ فہد کے‬
‫بازو پہ تھپڑ مار چکی تھی‬
‫مہرین‪ :‬بالغ کہانیوں‬
‫کےسستے رائیٹر نہ بنو‪ ,‬یہ‬
‫جملے ان کہانیوں میں ہی‬
‫اچھے لگتے ہیں‬

‫فہد‪ :‬باجی بالکل پریشان مت‬


‫ہوں آپ بس جیسے جیسے‬
‫آپکے شوہر کرتے جائیں آپ‬
‫بھی کرتی جانا‬
‫مہرین‪ :‬تکلیف عورت کی ہی‬
‫قسمت میں ہی کیوں ہے یار‪,‬‬
‫ایسا بھی تو ہونا چاہیئے ناں‬
‫کہ میرے پارٹنر کو بھی اتنی‬
‫ہو تکلیف ہو جتنی مجھے ہو‬
‫تب مزہ ہے‬

‫فہد اور مہرین اس بات پہ‬


‫ہنسنے لگے اور آج فہد‬
‫مہرین کیساتھ سیکس پہ بات‬
‫کرت کرتے مزید ایک نئی‬
‫منزل طہ کر رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬مجھے تو کپڑے‬


‫اتارنے سے بھی شرم آئے‬
‫گی فہد‬

‫فہد‪ :‬اس میں کیسی شرم؟‬


‫جب آپکے شوہر کو نہیں‬
‫آئے گی تو آپ کو کیوں آئے‬
‫گی‬
‫مہرین‪ :‬تم لڑکوں کو کیسی‬
‫شرم؟ جب جہاں چاہا قمیض‬
‫اتار لی‪ ,‬شارٹ نیکر پہن لی‪,‬‬
‫شرم تو لڑکیوں کو آتی ہے‬
‫جو عام حاالت میں دوپٹہ‬
‫بھی سرکنے نہیں دیتی‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ نی بال وجہ‬


‫نروس ہو رہی ہیں‪ ,‬بس‬
‫جیسے آپکا شوہر کرے‬
‫کرتی جانا‬

‫مہرین‪ :‬فہد بھائی امی سے‬


‫بات کروں؟‬

‫فہد‪ :‬کیا بات کرنی باجی؟‬


‫سب کچھ آپکو پتہ ہے کہ کیا‬
‫کیا ہونا ہے ان سے کیا‬
‫پوچھنا؟ باقی رہی بات درد‬
‫کی تو باجی یہ بات واقعی‬
‫سچ ہے کہ درد کے ساتھ‬
‫مزہ بھی آتا ہے اسی لیے تو‬
‫دنیا کی کر عورت اسکا مزہ‬
‫لیتی رہتی ہے‪ ,‬اگر صرف‬
‫تکلیف ہی ہو تو بھال کوئی‬
‫عورت صرف مرد کے‬
‫مزے کیلیے تکلیف کیوں‬
‫برداشت کرے‬
‫مہرین‪ :‬واہ واہ میرے سستے‬
‫فالسفر‪ ,‬بات میں دم تو ہے‬
‫تمہاری میں‬

‫فہد‪ :‬باجی اب حاجی انکل‬


‫کے بچوں کی بات ہی کر‬
‫لو‪ ,‬اسکی آنہیں سنی ہی ہیں‬
‫آپ نے‪ ,‬ایاے تڑپ رہی‬
‫ہوتی تھی جیسے کسی نے‬
‫اس کے سر پہ ڈنڈا مارا ہو‬
‫لیکن بعد میں خود ہی کہتی‬
‫تھی کہ منہ میں‬
‫ڈسچارج‪ ........‬فہد اوہ یہ کیا‬
‫بول دیا میں نے‬

‫فہد نے اپنے سر پہ ہاتھ مار‬


‫کہ منہ چھپا لیا‬

‫مہرین‪ :‬ہاہاہا ابھی تک یاد‬


‫ہے تمہیں؟ وہ منہ میں کیوں‬
‫ڈسچارج کرواتی تھی ویسے‬
‫فہد‪ :‬باجی آپکو نہیں پتہ؟‬
‫اتنی بچی تو آپ بھی نہیں‬
‫ہیں‬

‫مہرین‪ :‬قسم سے فہد‪ ,‬مجھے‬


‫نہیں اندازہ‪,‬‬
‫فہد مہرین کی اس ال علمی‬
‫پہ حیران ہوا اور بات کو‬
‫سمجھانے لگا‬

‫فہد‪ :‬باجی جب لڑکے کا پانی‬


‫عورت کے اندر نکلتا ہے تو‬
‫ہی پریگنینسی ہوتی ہے‪.‬‬

‫مہرین‪ :‬ہاں تو منہ میں‬


‫کروانے سے کیا فایدہ؟‬
‫فہد نے سر پہ ہاتھ مارکہ‬
‫مہرین کی سادگی افسوس کیا‬

‫فہد‪ :‬باجی ان سیکس سٹوریز‬


‫کو پڑھ کہ بھی آپ اتنی‬
‫انجان کیسے ہیں؟‬

‫مہرین‪ :‬بھائی قسم سے بہت‬


‫ساری باتیں سمجھ سے باہر‬
‫تھی لیکن وہ الفاظ پڑھنے کا‬
‫چسکا ہوتا تھا‬

‫فہد‪ :‬باجی منہ میں نہیں ڈالنا‬


‫چاہیے‬

‫مہرین‪ :‬کیا؟‬

‫فہد‪ :‬اف باجی‪ ,‬آپ واقعی‬


‫اتنی انجان ہیں یا بن رہی ہیں‬
‫مہرین‪ :‬فہد تمہاری قسم میں‬
‫سیکس سٹوریز پڑھی لیکن‬
‫آدھی سے زیادہ باتیں سمجھ‬
‫سے باہر ہوتیں تھیں‬

‫فہد نے مہرین کی بات پہ‬


‫یقین کر لیا کیونکہ مہرین‬
‫واقعی سچ بول رہی تھی‪,‬‬
‫لڑکے سیکس ایجوکیشن نہ‬
‫چاہتے ہوئے بھی باہر کے‬
‫ماحول سے حاصل کر لیتے‬
‫ہیں لیکن مہرین جیسی بے‬
‫شمار لڑکیاں سیکس‬
‫ایجوکیشن شادی کرنے کے‬
‫بعد اپنے تجربے سے حاصل‬
‫کرتی ہیں‪,‬‬

‫فہد‪ :‬باجی مرد اپنے‬


‫پرائیویٹ پارٹ کو وہ عورت‬
‫کے پرائیویٹ پارٹ میں ڈالتا‬
‫ہے‬
‫مہرین‪ :‬اتنا تو پتہ ہے فہد‬

‫فہد‪ :‬اکثر مرد اس پارٹ کو‬


‫عورت کے منہ میں ڈالتا ہے‬

‫مہرین‪ :‬یہ بھی پتہ ہے یار‬


‫میرا سوال یہ ہےکہ جب مرد‬
‫منہ میں ڈسچارج ہوتا ہے تو‬
‫اسکا کیا فایدہ ہوتا ہے؟‬
‫فہد ہنسنے لگا اور مہرین کو‬
‫غصہ آنے لگا‬

‫فہد‪ :‬اچھا باجی ایک بات‬


‫بتاو‪ ,‬اگر آپکا شوہر آپکے‬
‫منہ میں‪ .......‬تو آپ منع‬
‫کرو گی اسے؟‬

‫مہرین نظریں چرا کہ بولی‬


‫مہرین‪ :‬نہیں‪ ,‬اگر اس کو‬
‫اچھا لگے گا تو مجھے کوئی‬
‫مسلہ نہیں‬

‫فہد‪ :‬باجی کچھ کام جو آپ‬


‫نے نہیں کرنے وہ دھیان‬
‫سے سن لیں‪ ,‬باقی آپ دونوں‬
‫کی رضا مندی سے جو‬
‫مرضی ہو جاے‬
‫مہرین بڑے انہماک سے فہد‬
‫کی نصیحتیں سننے لگی‬

‫فہد‪ :‬ایک بات تو یہ کہ مرغا‬


‫منہ میں نہیں لینا‪ ,‬اگر آپکا‬
‫شوہر بہت زیادہ زور ڈالے‬
‫تب کرنا ورنہ بالکل کوئی‬
‫ضرورت نہیں‬

‫مہرین‪ :‬ہاہاہاہا‪ ,‬اچھا مرغا‬


‫منہ میں نہیں لینا‪ ,‬اچھا اور؟‬
‫فہد‪ :‬پیچھے والی سائیڈ سے‬
‫نہیں کرنے دینا‬

‫مہرین‪ :‬کیا مطلب؟‬

‫فہد‪ :‬باجی میری بھولی باجی‬


‫سمجھ جاو‪ ,‬خدا کا واسطہ‬
‫مہرین‪ :‬بتاو بھی یار کھل کہ‬
‫بتاو‬

‫فہد‪ :‬اینل سیکس نہیں کرنا‬

‫مہرین‪ :‬ہاہاہاہا اچھا اچھا ہاں‬


‫یہ اندازہ ہے مجھے‪ ,‬لیکن‬
‫منہ میں ڈسچارج ہونے کا‬
‫کیا فایدہ ہوتا ہے؟‬
‫فہد‪ :‬باجی پریگنینسی کیلیے‬
‫صرف ویجائینل سیکس‬
‫ضروری ہے اسکے عالوہ‬
‫جہاں مرضی ڈسچارج ہو‬
‫پریگنینسی نہیں ہوتی‪ ,‬اور‬

‫مہرین‪ :‬اچھا‪ ,‬اور کیا؟‬

‫فہد‪ :‬کچھ لوگوں کو یہ سپرم‬


‫پینے کا شوق ہوتا ہے اسلیے‬
‫وہ منہ میں لے کہ پی جاتے‬
‫ہیں‬

‫مہرین‪ :‬فہد یار یہ پیشاب‬


‫والے راستے سے آتا ہے‬
‫سپرم تو یہ منہ میں لے لینا‬
‫چاہیے یا نہیں؟گندہ نہیں ہوتا‬
‫یہ؟‬
‫فہد‪ :‬باجی مجھے جتنا پتہ تھا‬
‫بتا دیا باقی آپ جانو آپکا‬
‫شوہر جانے‬

‫مہرین‪ :‬فہد تمہیں کافی کچھ‬


‫پتہ ہے ویسے‪ ,‬شاباش میرے‬
‫شیر‪ ,‬مرغا ٹھنڈا ہے ناں‬
‫تمہارا‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہا باجی شرم کریں‬


‫مہرین کی مسکراہٹ جان‬
‫لیوا‬
‫مہرین‪ :‬یار سچ بات بتاؤں تم‬
‫سے بات کر کہ میری نوے‬
‫فیصد پریشانی کم ہو گئی‬
‫ہے‪ ,‬تھینک یو یار‬

‫فہد کو اپنی اس تعریف پہ‬


‫فخریہ مسکراہٹ کے ساتھ‬
‫مہرین دیکھ کہ ہنسنے لگی‬
‫مہرین‪ :‬فہد بھائی ایک بات‬
‫پوچھوں؟ تمہیں قسم لگے‬
‫اگر بات کو گھماو یا جھوٹ‬
‫بولو‬

‫فہد‪ :‬جی جی باجی پوچھیں‬


‫مہرین‪ :‬یار تم لڑکے ادھر‬
‫اور ادھر اتنا کیوں گھورتے‬
‫ہو‬

‫مہرین نے اپنی چھاتی اور‬


‫گانڈ پہ اشارہ کر کہ سوال‬
‫مکمل کیا‬

‫فہد نظریں چراتے ہوئے‬


‫مجرمانہ انداز میں یہ وہ یہ‬
‫وہ کرنے لگا‬
‫مہرین‪ :‬بولو بھی‬

‫فہد‪ :‬باجی؟اس بات کا آپکی‬


‫سہاگ رات سے کوئی تعلق‬
‫ہے؟‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہو بھی سکتا ہے‪,‬‬


‫لیکن تم بتاو مجھے‬
‫فہد‪ :‬باجی پتہ نہیں یہ دو‬
‫حصوں میں کوئی قدرتی‬
‫کشش ہو گی اس لیے ہو جاتا‬
‫ہے ایسا‬

‫مہرین‪ :‬یہ تو کوئی بات نہ‬


‫ہوئی‪,‬‬

‫فہد‪ :‬باجی سچ میں مجھے‬


‫جو سمجھ میں آیا وہ بتا دیا‬
‫میں نے بنا کوئی جھوٹ‬
‫بولے‬

‫مہرین‪ :‬اچھا تمہیں میرے‬


‫جسم میں کشش محسوس‬
‫ہوتی ہے یہاں‬

‫مہرین نے اپنے سینے پہ‬


‫ہاتھ رکھ کہ سوال کیا‬
‫فہد نظریں گھما کہ بول پڑا‬

‫فہد‪ :‬باجی میرا خیال کہ اس‬


‫بات کا تعلق آپکی سہاگ‬
‫رات سے بالکل بھی نہیں‬
‫ہے‬

‫مہرین‪ :‬میرا تعلق تمہاری ہر‬


‫پسند نا پسند سے ہے‪ ,‬سہاگ‬
‫رات پہ میرے شوہر نے سب‬
‫کچھ وہ کر جانا ہے جو جو‬
‫اس کا دل کرنا ہے‪ ,‬میں تو‬
‫وہ جاننا چاہ رہی ہوں جو‬
‫تمہیں پسند ہے‬

‫فہد‪ :‬اسکا کیا فایدہ ہوگا؟کیا‬


‫کریں گی جان کہ؟اور یہ‬
‫بھال کوئی بات ہے پوچھنے‬
‫والی ؟ آپ کو خدا نے اسقدر‬
‫خوبصورت بنایا ہے کہ میں‬
‫کیا کوئی بھی آپ کی طرف‬
‫کھینچا چالآئے گا‬
‫مہرین اپنی تعریف سن کہ‬
‫اٹھ کہ فہد کے سامنے آ کہ‬
‫بیٹھ گئی‬

‫مہرین‪ :‬مکھن فیکٹری لگا لی‬


‫ہے کیا؟‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی بات صاف‬


‫اور سیدھی ہے‪ ,‬مجھے‬
‫رشک ہوتا ہے آپکے‬
‫ہونیوالے شوہر پہ کہ نہ‬
‫جانے اس نے کون سی ایسی‬
‫نیکی کی ہوگی جو آپ جیسی‬
‫دلنشین بیوی ملنے والی ہے‬

‫مہرین نے فہد کے دونوں‬


‫گال چوم کہ گیلے کر دیے‬
‫مہرین‪ :‬بس کر دو ظالم بس‬
‫کر دو‪ ,‬اتنی تعریف کرو‬
‫جتنی برداشت کر سکوں‬

‫مہرین‪ :‬اچھا بتاو آج سچ سچ‬


‫بتاو کہ ادھر کس چیز کیلیے‬
‫آتی ہیں نظریں‬

‫مہرین نے اس بار سینے‬


‫سے دوپٹہ ہٹا کہ فہد کو‬
‫سوال کیا‬
‫فہد نے ایک نظر مہرین کی‬
‫فربہ چھاتیاں دیکھیں‪ ,‬گلہ‬
‫کھال تھا جس میں سے‬
‫بھاری کلیویج سے صاف پتہ‬
‫لگ رہا تھا کہ مہرین کے‬
‫پستان بریزئیر کے اندر‬
‫پھنسے ہوئے ہیں‬
‫فہدنے نظر بھر کہ جب دیکھ‬
‫لیا تو نظریں ہٹا کہ شکستہ‬
‫لہجے سے جواب دیا‬

‫فہد‪ :‬باجی بس کر جاو‪ ,‬بہک‬


‫گیا تو‬

‫مہرین نے فہد کی تو کے‬


‫آگے بات کو الفاظ سے جوڑ‬
‫دیا‬
‫مہرین‪ :‬تو؟ تو کیا ہوگا؟ تم‬
‫بتاو مجھے جو پوچھ رہی‬
‫ہوں‬

‫فہد کے صبر کا پیمانہ لبریز‬


‫ہو رہا تھا وہ نہ چاہتے ہوئے‬
‫بھی بار بار مہرین کی‬
‫چھاتیاں دیکھ کہ نظر کو ہٹا‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد کے‬
‫چہرے میں نظریں گاڑھے‬
‫جواب کا انتظار کر رہی تھی‬
‫اور کچھ دیر بعد بے تاب‬
‫نظروں سے فہد نے مہرین‬
‫کی طرف دیکھ کہ جواب دیا‬

‫فہد‪ :‬اگر آپ میری بہن نہ‬


‫ہوتیں تو آپ کی چھاتیاں‬
‫اپنے ہونٹوں میں لے لیتا‬

‫مہرین بہت ہی سیرئیز‬


‫چہرے کے ساتھ فہد کی‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اس‬
‫کی بے صبری کا اندازہ‬
‫لگانے لگی‬

‫مہرین‪ :‬تو لیتے کیوں‬


‫نہیں؟میں نے روکنا ہے کیا؟‬

‫فہد‪ :‬باجی پلیز بس کریں اب‪,‬‬


‫میں مزید اس موضوع پہ‬
‫بات نہیں کرنا چاہتا‬
‫فہد کے خشک ہوتے ہونٹ‬
‫اور بیتاب نظریں اس کی‬
‫حالت چھپنے نہیں دے رہی‬
‫تھی‬

‫مہرین نے فہد کا چہرہ اپنی‬


‫طرف گھما کہ اسکے ہونٹ‬
‫چوم لیے‪ ,‬فہد کی طرف سے‬
‫کوئی ریسپانس نہ آیا‬
‫مہرین‪ :‬فہد؟‬

‫فہد نے سوالیہ نظروں سے‬


‫اپنی بے بسی کا اظہار کیا‬

‫مہرین‪ :‬سیکس نہ کریں تو‬


‫پریگنینسی نہیں ہوتی‬

‫فہد مہرین کی بات سمجھ گیا‬


‫کہ وہ چاہتی ہے کہ وہ اس‬
‫کے ساتھ سیکس کے عالوہ‬
‫سب کچھ کرنا چاہتی ہے‬
‫مگر فہد کا دل اس کام کیلیے‬
‫ہر گز مطمئن نہیں ہو رہا تھا‬
‫مگر ایک حور پری سے‬
‫ایسی دلکش آفر ٹھکرانے‬
‫کیلیے انسان کو کم از کم‬
‫ہیحڑا ہونا چاہیے اور فہد کا‬
‫تناؤ پکڑتا لن اس بات کا‬
‫ثبوت تھا کہ فہد ہیجڑا نہیں‬
‫بلکہ ایک صحتمند اور جوان‬
‫مرد ہے‬

‫مہرین‪ :‬فہد؟‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی؟ ہم بہن‬


‫بھائی ہیں‬

‫اس بات کے جواب میں‬


‫مہرین تلمال کہ بول اٹھی‬
‫مہرین‪ :‬کیا بہن بھائی کو پیار‬
‫نہیں ہو سکتا ایک دوسرے‬
‫سے؟‬

‫فہد کے چہرے پہ بے بسی‬


‫کے آثار تھے‬
‫فہد‪ :‬باجی اب پیار تو ہر بہن‬
‫بہن بھائی کو ہوتا ہے ایک‬
‫دوسرے سے لیکن‬

‫یہ بات کرت کرتے فہد کا‬


‫صبر جواب دے گیا اور بنا‬
‫بات پوری کیے فہد نے بڑھ‬
‫کہ مہرین کے ہونٹوں سے‬
‫ہونٹ مال لیے اور زور سے‬
‫مہرین کے ہونٹ چوستے‬
‫ہوئے اپنی زبان مہرین کے‬
‫منہ میں پھیرنے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫بھی بھرپور ساتھ دے رہی‬
‫تھی اور فہد کا بے بس ہاتھ‬
‫مہرین کی قمیض کے اندر‬
‫اسکے پستان سہالنے لگا‬

‫ایک دوسرے کے تھوک‬


‫سے دونوں کے ہونٹ اور‬
‫گال گیلے تھے اور مہرین‬
‫کی قمیض میں فہد کا ہاتھ اب‬
‫بریزئیز سے اس کی چھاتیاں‬
‫آزاد کروا کہ نپلز کو سہالتا‬
‫جا رہا تھا‪.‬‬

‫فہد مہرین کے پستان‬


‫بریزئیر کی قید سے آزاد‬
‫کروا چکا تھا اب مہرین کے‬
‫ہونٹ چوستے چوستے‬
‫مہرین کو اسی بستر پہ لٹا کہ‬
‫اسکی قمیض میں سے‬
‫مہرین کی چھاتیاں باہر نکال‬
‫کہ ننگی کر چکا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫بھی فہد کو اپنی اندر سما لینا‬
‫چاہ رہی تھی اور فہد کو‬
‫اپنے اوپر کھینچ کہ ِکسنگ‬
‫کرتی جا رہی تھی‬

‫فہد بے قابو ہو کہ اپنہ بہن‬


‫کے جس کو چوم رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین نے ایک ہلکا سا وقفہ‬
‫لے کہ اپنی قمیض اور‬
‫بریزئیر کو اتار کی فہد کی‬
‫شرٹ کو اتارنے کیلیے ہاتھ‬
‫بڑھایا‪ ,‬فہد اپنی بہن کے‬
‫ننگے جسم کو دیکھتا جا رہا‬
‫تھا اور اب دونوں بہن بھائی‬
‫جسم کے اوپر والے ننگے‬
‫حصوں کو ایک دوسرے‬
‫سے مال کہ ہونٹ چوسنے‬
‫لگے‬

‫مہرین فہد کی چوڑے‬


‫کندھوں کے نیچے دبی ہوئی‬
‫مزے کی بلندیوں پہ تھی‪ ,‬فہد‬
‫کا لن اسقدر سخت ہو چکا‬
‫تھا کہ مہرین کو اس کی‬
‫چبھن اپنی ٹانگوں کے آس‬
‫پاس محسوس ہو رہی تھی‪,‬‬
‫فہد اپنے لن کو مہرین کے‬
‫جسم میں گھساتا جاتا اور‬
‫مہرین کو چومتا چاٹتا جا رہا‬
‫تھا‬
‫مہرین اپنے بھائی کے ساتھ‬
‫ایسی محبت بھری رات‬
‫کیلیے نہ جانے کب سے‬
‫تڑپ رہی تھی اس لیے آج‬
‫مہرین یہ آخری موقع سمجھ‬
‫کہ ایک ایک کر کہ ہر حد‬
‫عبور کرتی جا رہی تھی‬

‫مہرین نے فہد کو اپنے اوپر‬


‫ٹانگوں کے درمیان کیا ہو‬
‫تھا اور فہد مہرین کو بڑی‬
‫ہو شدت سے جسم کے ہر ہر‬
‫حصے سے کھاتا جا رہا تھا‬

‫مہرین نے بہن ہونے کا حق‬


‫ادا کرنے کیلیے فہد کو‬
‫نیچے کر لیا اور خود فہد‬
‫کے اوپر آ گئی‪ ,‬یہ وقفہ‬
‫دونوں کیلیے سانسیں بحال‬
‫کرنے کیلیے ضروری تھا‬
‫فہد اور مہرین بنا ہنسے‬
‫جذبات کی لہر میں ایک‬
‫دوسرے کو ننگا دیکھ رہے‬
‫تھے اور قریب تھا کہ فہد‬
‫شرمندگی کی وجہ سے‬
‫رکنے کا فیصلہ کرتا‪ ,‬مہرین‬
‫نے اوپر آتے ساتھ فہد کے‬
‫لن کو ٹراؤزر کے اوپر سے‬
‫ہی پکڑ کہ سہالنا شروع کر‬
‫دیا‪ ,‬فہد نے ایک لمحہ کیلیے‬
‫اپنے جسم کو اکڑاء کہ اس‬
‫لذت کو برداشت کرنا چاہا‪,‬‬
‫مہرین فہد کی لذت بھری‬
‫تڑپ کو اور سے اور‬
‫بڑھاتی جا رہی تھی‪,‬‬

‫فہد مہرین کو ہر گز روکنا‬


‫نہیں چاہ رہا تھا اسلیے وہ‬
‫وہیں پہ لیٹا آنہیں بھرتا جا‬
‫رہا تھا‬
‫فہد کی آنہوں میں اپنی بہن‬
‫مہرین کا نام بار بار نکل رہا‬
‫تھا‪ ,‬گویا وہ اپنی بہن کا‬
‫شکریا ادا کر رہا ہو‪ ,‬مہرین‬
‫بھی بہت اچھے سے فہد کے‬
‫لن کو سہالتی جا رہی تھی‬

‫مہرین نے فہد کے لن کو‬


‫ٹراؤزر سے باہر نکال لیا‬
‫اور فہد کا مٹا تازہ لن مہرین‬
‫کو حیران کر رہا تھا‬
‫مہرین‪ :‬مرغا تو بہت بڑا ہے‬

‫فہد نے آنہیں بھرتے بھرتے‬


‫گردن اٹھا کہ دیکھا تو مہرین‬
‫اسکا لن اپنے ہاتھوں میں‬
‫پکڑے‪ ,‬ننگی بیٹھی ہنس رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد اور مہرین کی‬
‫نظریں ایک دوسرے کی‬
‫طرف مسکرا کہ دیکھ رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین نے لن کو‬
‫سہالنا شروع کیا تو فہد‬
‫دوبارہ گردن ڈھیلی چھوڑ کہ‬
‫آنکھیں بند کر کہ تڑپنے لگا‬

‫فہد کو اپنے لن کی ٹوپی پہ‬


‫انتہا کی نرم اور گیلی چیز‬
‫کے لگنے کا احساس ہوا اور‬
‫وہ نرم چیز کی پکڑ لن کو‬
‫ٹوپی سمیت اندر لے گئی‪,‬‬
‫فہد کو اندازہ ہو گیا کہ‬
‫مہرین نے فہد کے لن کو‬
‫میں لے لیا ہے اور اب اسکا‬
‫مزہ اور بڑھ گیا‪,‬‬

‫مہرین لن کو منہ سے اندر‬


‫باہر کرتے کرتے ہاتھوں‬
‫سے سہال بھی رہی تھی کہ‬
‫اور لن گیال ہو کہ "شڑپ‬
‫شڑپ" کی آوازیں پیدا کر‬
‫رہا تھا‬
‫فہد نے مہرین کے سر پہ‬
‫ہاتھ رکھ کہ لن کو مزید‬
‫طاقت سے چسوانے کیلیے‬
‫زور لگایا اور مہرن نے بھی‬
‫بنا رکے اپنی طاقت اور‬
‫رفتار بڑھا دی‬

‫فہد کا لن اپنا مال ابلنے‬


‫کیلیے جھٹکے مارنے لگا‬
‫اور سارا پانی مہرین کہ منہ‬
‫میں ہوتا ہوا باہر ابلنے لگا‬
‫مہرین کے منہ پہ پڑتی‬
‫پچکاریاں آنکھوں اور بالوں‬
‫تک کو لگ چکی تھی‪ ,‬فہد‬
‫کا الوا تھا کہ کہ رکنے کا‬
‫نام ہی نہیں لے رہا تھا اور‬
‫مہرین کی ثابت قدمی بھی‬
‫قابل تعریف تھی کہ ایک‬
‫لمحے کیلیے بھی لن کو منہ‬
‫سے پرے نہ کیا اور اپنا‬
‫سارا منہ فہد کے لن کے‬
‫پانی سے بھر لیا‬

‫مہرین فہد کے لن کا پانی‬


‫کے کچھ حصے کو نگل کہ‬
‫اس بقبقے ذائقے کو چکھ‬
‫چکی تھی اور اب فہد کا لن‬
‫اپنی ساری مالئی نکال کہ‬
‫مہرین کی گرفت میں ڈھیال‬
‫ہو پڑا تھا‬
‫فہد نے کچھ دیر بعد اٹھ کہ‬
‫مہرین کو مسکرا کہ دیکھا‬
‫اور ایسے ہی لن کے پانی‬
‫کو بنا صاف کیے اسے گلے‬
‫سے لگا لیا‪ ,‬مہرین کے‬
‫چہرے کے مطمئن تاثرات‬
‫اپنی بھائی کی خوشی کیلیے‬
‫تھے‬

‫مہرین کی چہرے پہ لگا لن‬


‫کا پانی فہد کے جسم کو بھی‬
‫لگ چکا تھا اور دونوں گلے‬
‫لگے ایک دوسرے کو پیار‬
‫کر رہے تھے‬

‫فہد نے مہرین کے چہرے‬


‫کو صاف کرنے کیلیے اپنی‬
‫شرٹ اٹھائی اور مہرین کے‬
‫چہرے کو صاف کر کہ‬
‫اسکے ہونٹوں کو چوم لیا‬
‫مہرین کی زبان ابھی بھی‬
‫فہد کے سپرم کا ذائقہ دے‬
‫رہی تھی جسے فہد نے بھی‬
‫محسوس کر لیا‬

‫فہد‪ :‬آپ نے پی لیا تھا باجی؟‬

‫مہرین‪ :‬ہاں‪ ,‬عجیب سا ذایقہ‬


‫تھا‪.‬‬
‫مہرین اور فہد زیادہ بات‬
‫نہیں کر پا رہے تھے‪ ,‬ان‬
‫کے اندر کا طوفان ابھی بھی‬
‫تھما نہیں تھا‪ ,‬خاص طور پہ‬
‫مہرین کی خواہشات فہد کی‬
‫خواہشات سے زیادہ‬
‫خطرناک تھی‬

‫مہرین فہد کے برابر لیٹی‬


‫اسکے سینے پہ سر رکھ کہ‬
‫ننگے لن کو ٹانگ کے‬
‫نیچے دبائے ہوئے تھی‪ ,‬فہد‬
‫اپنے بہن کے ساتھ مکمل‬
‫طور پہ ننگا لیٹا اپنی بہن کی‬
‫چھاتیاں سہال رہا تھا‬

‫مہرین اور فہد کو کچھ وقت‬


‫گزار کہ واپس اپنی امی کے‬
‫کمرے میں جانا تھا لیکن وہ‬
‫دونوں تو ساری عمر اس‬
‫نشے میں گزارنا چاہتے‬
‫تھے اسلیے نہ ہی فہد‬
‫دوسرے کمرے میں جا کی‬
‫سونے کی خواہش کر رہا تھا‬
‫اور نہ ہی مہرین کے دل‬
‫میں واپس جانے کی جلدی‬
‫تھی‬

‫مہرین فہد کے لن کو‬


‫انگلیوں سے ٹٹول رہی تھی‬
‫اور اسکے ٹٹوں کی بناوٹ‬
‫اور لن کی مختلف جگی سے‬
‫تالشی لے رہی تھی‬
‫فہد کا لن دوبارہ سخت ہونے‬
‫لگا‪ ,‬فہد کو دوبارہ لطف آنے‬
‫لگا اسلیے وہ مہرین کے‬
‫یونٹ دوبارہ سے چومنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین کی آنکھوں میں‬
‫دوبارہ سے چمک آنے لگی‪,‬‬
‫مہرین لن کو سہالتی جا رہی‬
‫تھی اور فہد تڑپ تڑپ کہ‬
‫مہرین کو چومنے لگ جاتا‬
‫مہرین نے اپنا آپ پیچھے کر‬
‫کہ اپنی شلوار اتر دی اور‬
‫اپنی ٹانگوں کو کھول کہ فہد‬
‫کو درمیان میں کھینچ لیا‪ ,‬فہد‬
‫بے قابو تو تھا مگر اس‬
‫حرکت سے مہرین بالکل‬
‫ننگی فہد کو پھدی میں لن‬
‫ڈالنے کی آفر کر رہی تھی‪,‬‬
‫فہد کچھ لمحے وہیں رکا رہا‬
‫تو مہرین نے پاس بیٹھے فہد‬
‫کے لن کو دوبارہ سے‬
‫سہالنا شروع کر دیا جس‬
‫سے فہد کا ارادہ جذبات کے‬
‫ہاتھوں مجبور ہو کہ بدل گیا‬

‫مہرین نے اسے کھینچ کہ‬


‫اپنی ٹانگوں میں کر لیا اور‬
‫وہ بھی گھبرائے ہو انداز‬
‫میں وہاں آ گیا‬

‫مہرین فہد کے لن کو وقفے‬


‫وقفے سے سہالتی اور فہد‬
‫اب مہرین کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان اسے چوم لیتا تو‬
‫کبھی مہرین کی چھاتیاں‬
‫چوسنے لگتا‬

‫مہرین نے فہد کے لن کو‬


‫پکڑ کہ پھدی پہ رگڑا اور‬
‫ایسا کر کہ خود ہی تڑپ کہ‬
‫اچھل پڑی‬
‫فہد کو بھی نرم پھدی سے‬
‫لن رگڑ کہ مزا آیا اسلیے اب‬
‫وہ اپنے لن کو پکڑ کہ پھدی‬
‫کے سوراخ پہ رگڑ رہا تھا‬

‫دونوں اسقدر بہک چکے‬


‫تھے کہ وہ واپس پلٹ ہی‬
‫نہیں رہے تھے ان کا اب‬
‫واپس پلٹنا ناممکن تھا‬
‫مہرین نے فہد کے لن کو‬
‫پھدی سے ٹکا کہ کمر سے‬
‫وزن ڈالنے کا کہا اور فہد‬
‫نے بھی ہلکا سا وزن ڈاال‬
‫مگر لن پھسل کہ مہرین کی‬
‫ٹانگوں کی طرف چال گیا‬

‫ایک دو بار ناکام ہونے کے‬


‫بعد فہد نے لن کو ہاتھوں‬
‫سے پکڑ کہ کمر سے وزن‬
‫ڈاال جس سے لن پھدی کی‬
‫سوراخ کو چیرنے لگا‪ ,‬ابھی‬
‫لن کی ٹوپی بمشکل ہی‬
‫گھسی ہو گی کہ مہرین کی‬
‫چیخ نکل گئی اور فہد کے‬
‫کاندھے پہ مکے برسانے‬
‫لگی‪,‬‬

‫فہد مشکل سے لن کو اتنا اند‬


‫ڈال سکا اسلیے بنا باہر‬
‫نکالے وہیں رک کی مہرین‬
‫کو سنبھالنے لگا‬
‫مہرین کی تکلیف سے برا‬
‫حال تھا اسلیے وہ آنسو بھی‬
‫ٹپکا بیٹھی‬

‫فہد نے لن کو ہلکا سا باہر‬


‫نکاال تو مہرین نے اشارے‬
‫ایسا کرنے سے منع کر دیا‬
‫اور لن کی ٹوپی مہرین کی‬
‫پھدی میں اٹکی رہنے دی‪,‬‬
‫کچھ لمحوں بعد مہرین نے‬
‫فہد کو گلے لگا کہ دوبارہ‬
‫وزن ڈالنے کا اشارہ کیا اور‬
‫خود زور سے فہد کو گرفت‬
‫کر کہ دانت اور آنکھیں‬
‫بھینچ کہ درد کیلیے تیار ہو‬
‫گئی‪,‬‬

‫فہد نے ہلکا سا زور ڈاال تو‬


‫لن پھدی کی دیواروں سے‬
‫رگڑ کھاتا کھاتا اندر سے‬
‫اندر جاتا گیا اور مہرین کی‬
‫چیخوں کی پرواہ کیے بغیر‬
‫فہد نے لن پھدی کی تہہ تک‬
‫گھسا دیا‬

‫مہرین تڑپ رہی تھی اور‬


‫فہد لن کو ڈال کہ وہیں رک‬
‫گیا‪ ,‬مہرین کی چیخوں سے‬
‫اسکو کوئی فرق نہیں پڑ رہا‬
‫تھا اور پھدی کے سرور کو‬
‫محسوس کرتا جا رہی تھا‬
‫مہرین جے ناخنوں کے نشان‬
‫فہد کی کمر پی کندہ ہو‬
‫چکے تھے اور مہرین کو‬
‫فہد کی طرف سے کوئی‬
‫رحم نہیں ہونیواال تھا‬

‫جب مہرین درد سے کراہنا‬


‫کم ہوئی تو فہد نے لن کو‬
‫باہر کھینچا اور دوبارہ اندر‬
‫دھکیل دیا‪ ,‬اب یہ باہر نکال‬
‫کہ اندر دھکیلنا چلتا جا رہا‬
‫تھا اور مہرین درد کو بھول‬
‫کہ مزے سے ِچال رہی تھی‬

‫فہد جھٹکوں کی طاقت کو‬


‫منکنہ حد تک کرنا چاہ رہا‬
‫تھا مگر ہر ہر لمحے مزہ‬
‫بڑھتا ہی جا رہا تھا اسلیے‬
‫جھٹکوں کی طاقت بھی‬
‫بڑھتی جا رہی تھی‬
‫مہرین فہد کے نیچے بے‬
‫بسی سے چد رہی تھی اور‬
‫اسکا لطف بھی فہد کو ملنے‬
‫والے لطف سے کم نہ تھا‬

‫فہد چودتا گیا اور مہرین‬


‫چدتی گئی‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫کی آوازیں کمرے میں گونج‬
‫رہی تھیں‪,‬‬
‫فہد اور مہرین ڈسچارج ہو‬
‫گئے اور فہد مہرین کے‬
‫اوپر لیٹا لن کو مکمل طور‬
‫پہ پھدی میں ہی فارغ کروا‬
‫چکا تھا‬

‫دونوں بے ہنگم سانسوں کے‬


‫ساتھ لیٹے ایک دوسرے سے‬
‫پرے ہٹ گئے‬
‫فہد کے لن پہ مہرین کی‬
‫پھدی کا خون لگا تھا مگر وہ‬
‫اس بات سے انجان وہیں لیٹا‬
‫دوسری سمت منہ کر کہ لیٹا‬
‫ہوا تھا‪.‬‬

‫مہرین اور فہد ایسے ہی‬


‫لیٹے رہے‪ ,‬اور کچھ دیر بعد‬
‫فہد نے مہرین کی جانب‬
‫کروٹ کر لی‪ ,‬مہرین جو‬
‫دوسری جانب منہ کر کی‬
‫لیٹی تھی اسے پیچھے سے‬
‫گلے لگا لیا اور اپنا سارا‬
‫جسم اسکے ساتھ لگا کہ ایک‬
‫ہاتھ گھما کی اسکی ایک‬
‫چھاتی کو پکڑ کہ اسکے نپل‬
‫کو سہالتا سہالتا سو گیا‪,‬‬

‫ساری رات فہد اور مہرین‬


‫ایسے ہی لیٹے رہے‬
‫صبح کو فہد کی آنکھ کھلی‬
‫تو اس نے مہرین کی ایک‬
‫چھاتی جو کہ رات سوتے‬
‫وات سے اسکے قبضے میں‬
‫تھی اس کو دبا نے لگا‬

‫فہد کو کچھ عجیب سا‬


‫احساس ہو رہا تھا مگر رات‬
‫کے اس رنگین مناظر میں‬
‫ابھی تک وہ اس طرح کھویا‬
‫ہوا تھا کی وہ اس عجیب‬
‫احساس کو سمجھ نہیں پا رہا‬
‫تھا‪ ,‬وہ شاید ابھی بھی نیم‬
‫نیند والی حالت میں تھا‪ ,‬اور‬
‫اب وہ اپنے تنے ہوئے لن کو‬
‫مہرین کی کمر میں چبھونے‬
‫لگا‬

‫فہد نیند میں بھی تھا اور‬


‫جاگا ہو بھی جائے تھا اور‬
‫اب وہ دوبارہ اپنی بہن کی‬
‫پھدی میں لن ڈالنے کا ارادہ‬
‫کر کہ مسکرا رہا تھا‬

‫فہد مہرین کی دونوں‬


‫چھاتیوں پہ ہاتھ پھنسے‬
‫ہوئے محسوس کر ریا تھا‬
‫مگر ایک چھاتی کو مکمل‬
‫طور پہ اپنے ہاتھ میں‬
‫محسوس کر رہا تھا‬
‫فہد کی آنکھیں ابھی بھی‬
‫گزشتہ دن کی تمام تر‬
‫محنتوں‪ ,‬خاص طور پہ‬
‫مہرین پہ دو دفعہ اپنا سپرم‬
‫نکالنے کی وجہ سے ابھی‬
‫بھی غنودگی کی حالت میں‬
‫تھا‬

‫فہد نے اپنے ہاتھ اور مہرین‬


‫کی چھاتیاں بریزئیر میں‬
‫پھنسی محسوس کی تو وہ‬
‫مہرین کی چھاتیوں کو اور‬
‫زیادہ ٹٹولنے لگا اور پتہ چال‬
‫مہرین نے قمیض پہن لی‬
‫ہے‪ ,‬فہد حیران ہوا کہ مہرین‬
‫باجی نے کب کپڑے پہن‬
‫لیے‪,‬‬

‫لن کو اپنی بہن کی کمر پہ‬


‫دوبارہ سے رگڑا تو اسے‬
‫اپنے گیلے ٹراؤزر میں‬
‫پھنسا پایا‪,‬‬
‫فہد اب نیند سے بیدار ہو کہ‬
‫بند آنکھیں بمشکل ہی کھول‬
‫پا رہا تھا‪ ,‬کوئی بوجھ اس‬
‫کی آنکھوں پہ تھا‪,‬‬

‫فہد اپنے اور مہرین کے‬


‫جسم پہ کپڑے محسوس کر‬
‫چکا تھا اور اب وہ جاگتا‬
‫جاگتا جاگ ہی گیا‪ .‬فہد نے‬
‫مہرین کو ابھی ایک بار پھر‬
‫چودنا تھا مگر دوسرے ہاتھ‬
‫سے ٹٹولنے پہ پتہ چال کہ‬
‫مہرین نے قمیض شلوار‬
‫واپس پہن لی ہے‪ ,‬فہد کیلیے‬
‫یہ عجیب بات تھی کیونکہ‬
‫رات تو مہرین باجی اسکے‬
‫سامنے خود چدنے کیلیے‬
‫لیٹی تھی اور اب کون سی‬
‫ایسی شرم نے ان کو آ لیا کہ‬
‫کپڑے پہن لیے باجی نے‬
‫فہد دل ہی دل میں مسکرایا‬
‫اور گردن آگے سرکا کہ‬
‫مہرین کی گردن سے چوم‬
‫لیا اور لن کو مہرین کی گانڈ‬
‫پہ چبھونے لگا‪,‬‬

‫مہرین کی چھاتی ابھی بھی‬


‫فہد کی گرفت میں مسلی جا‬
‫رہی تھی کہ اچانک فہد نے‬
‫آنکھیں کھول کہ اپنا آپ بھی‬
‫کپڑوں میں پایا‬
‫فہد سب کچھ چھوڑ کہ ارد‬
‫گرد کے حاالت کا جائزہ‬
‫لینے لگا‪ ,‬مہرین باجی نے‬
‫تو چلو کپڑے پہن لیے لیکن‬
‫مجھے کیسے پہنا دیے‬
‫کپڑے‪ ,‬اور شرٹ بھی پہنا‬
‫دی‪,‬‬

‫مہرین بھی فہد کی اس چھیڑ‬


‫چھاڑ سے جاگ چکی تھی‪,‬‬
‫فہد نے اپنا لن دیکھا تو اس‬
‫پہ خون کے کوئی نشانات نہ‬
‫تھے بلکہ اسکا ٹراؤزر‬
‫ایسے بھیگا ہو تھا جیسے‬
‫رات کو اس کا لن ڈسچارج‬
‫ہوا ہے‪,‬‬

‫فہد نے بستر پہ نظر دوڑائی‬


‫تو نہ ہی مہرین کی شلوار پہ‬
‫اور نہ ہی بستر پہ کوئی‬
‫خون کا دھبہ تھا‪,‬‬

‫فہد سر پکڑ کہ رات والے‬


‫واقعات کو سمجھ چکا تھا‬
‫اور اس بات کی وجہ سے وہ‬
‫کبھی اپنی طرف دیکھتا اور‬
‫کبھی مہرین کی طرف‬

‫فہد ساری رات خواب میں‬


‫تھا‪ ,‬مہرین اس کے برابر‬
‫لیٹی ہوئی سو رہی تھی‪ ,‬نہ‬
‫ہی ان کے درمیان سیکس ہوا‬
‫اور نہ ہی کچھ اور‪ ,‬فہد اپنی‬
‫ہی دماغ کی سوچوں میں‬
‫مہرین کو چود رہا تھا اور یہ‬
‫خواب اتنا سہانا تھا کہ صبح‬
‫جاگ کی بھی اس کے سحر‬
‫سے نہیں نکل پا رہ تھا‬

‫مہرین بھی اٹھ کہ انگڑائی‬


‫لینے لگی اور اپنے بھائی‬
‫کیطرف ہمیشہ کیطرح‬
‫مسکرا کہ دیکھنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫کو ایسے صدمے کی حالت‬
‫میں دیکھ کہ مہرین نے‬
‫آنکھوں کے اشارے سے‬
‫پوچھا کہ کیا ہوا‬

‫مہرین‪ :‬کیا ہو گیا؟صبح صبح‬


‫ایسے پریشان کیوں بیٹھے ہو‬
‫فہد جو کہ رات والے اتنے‬
‫حسین خواب کو یاد کر کہ‬
‫صدمے کی حالت میں تھا‬
‫جواب دینے لگا‬

‫فہد‪ :‬کچھ نہیں‬

‫فہد بار بار اردگردکا جائزہ‬


‫لے کہ کسی چیز کی بار بار‬
‫تسلی کر رہا تھا‪ ,‬فہد کو یقین‬
‫نہیں آرہا تھا کہ وہ خواب‬
‫ختم ہو گیا ہے کیونکہ وہ تو‬
‫ابھی ایک بار پھر اپنی بہن‬
‫کو چودنا چاہ رہا تھا جیسے‬
‫کہ وہ ساری رات چودتا رہا‬
‫ہے‪ .‬لیکن آہستہ آہستہ اسے‬
‫یقین ہو گیا تھا کہ رات واال‬
‫سب کچھ صرف خواب ہی‬
‫تھا‬

‫مہرین‪ :‬ساری رات پتہ نہیں‬


‫کیا کیا بولتے رہے ہو‬
‫فہد‪ :‬میں؟ کیا کیا بوال؟‬

‫مہرین‪ :‬سمجھ تو کوئی‬


‫خاص نہیں آئی بس نیند نہ‬
‫ہی خود پوری کی اور نہ ہی‬
‫مجھے سونے دیا‬
‫فہد ابھی اس صدمے میں تھا‬
‫اسلیے مہرین نے اسے ہال‬
‫کہ متوجہ کیا‬

‫مہرین‪ :‬فہد سچ سچ بتاؤ رات‬


‫خواب میں کون تھا؟‬

‫فہد‪ :‬باجی پتہ نہیں‪ ,‬یاد نہیں‬


‫مہرین‪ :‬رات جب امی کو‬
‫سال کہ واپس آئی تو آ کہ‬
‫دیکھا کہ تم اسی بستر پہ سو‬
‫رہےہو‪ ,‬کچھ دیر جگاتی‬
‫رہی تمہیں لیکن تم اتنی‬
‫گہری نیند سوئے ہوئے تھے‬
‫کہ میں نے مزید کوشش ہی‬
‫نہیں کی اور یہیں پہ سو گئی‬

‫فہد اب یہ سوچ رہا تھا کہ‬


‫رات تو چلو سب خواب تھا‬
‫لیکن رات والے خواب کے‬
‫نشے میں یہ صبح صبح جو‬
‫باجی سے لن رگڑا اور ان‬
‫کے پستان دبائے ہیں‪ ,‬باجی‬
‫کو انکا پتہ ہے یا نہیں‬

‫مہرین فہد کے پاس آکہ اس‬


‫کے کان میں بولی‬

‫مہرین‪ :‬میں جاگ رہی تھی‬


‫جب تم میرے غبارے دبا‬
‫رہے تھے اور مرغا میری‬
‫کمر پہ چڑھا ہو تھا‬

‫مہرین کے وہم و گمان میں‬


‫بھی نہیں تھا کہ فہد کس‬
‫کیفیت میں شکآر ہے۔‬

‫اردو مزیدار کہانیاں‬


‫الزوال محبت‬

‫مہرین اور فہد ایسے ہی‬


‫لیٹے رہے‪ ,‬اور کچھ دیر بعد‬
‫فہد نے مہرین کی جانب‬
‫کروٹ کر لی‪ ,‬مہرین جو‬
‫دوسری جانب منہ کر کی‬
‫لیٹی تھی اسے پیچھے سے‬
‫گلے لگا لیا اور اپنا سارا‬
‫جسم اسکے ساتھ لگا کہ‬
‫ایک ہاتھ گھما کی اسکی‬
‫ایک چھاتی کو پکڑ کہ‬
‫اسکے نپل کو سہالتا سہالتا‬
‫سو گیا‪,‬‬

‫ساری رات فہد اور مہرین‬


‫ایسے ہی لیٹے رہے‬

‫صبح کو فہد کی آنکھ کھلی‬


‫تو اس نے مہرین کی ایک‬
‫چھاتی جو کہ رات سوتے‬
‫وات سے اسکے قبضے‬
‫میں تھی اس کو دبا نے لگا‬

‫فہد کو کچھ عجیب سا‬


‫احساس ہو رہا تھا مگر رات‬
‫کے اس رنگین مناظر میں‬
‫ابھی تک وہ اس طرح کھویا‬
‫ہوا تھا کی وہ اس عجیب‬
‫احساس کو سمجھ نہیں پا‬
‫رہا تھا‪ ,‬وہ شاید ابھی بھی‬
‫نیم نیند والی حالت میں تھا‪,‬‬
‫اور اب وہ اپنے تنے ہوئے‬
‫لن کو مہرین کی کمر میں‬
‫چبھونے لگا‬

‫فہد نیند میں بھی تھا اور‬


‫جاگا ہو بھی جائے تھا اور‬
‫اب وہ دوبارہ اپنی بہن کی‬
‫پھدی میں لن ڈالنے کا ارادہ‬
‫کر کہ مسکرا رہا تھا‬
‫فہد مہرین کی دونوں‬
‫چھاتیوں پہ ہاتھ پھنسے‬
‫ہوئے محسوس کر ریا تھا‬
‫مگر ایک چھاتی کو مکمل‬
‫طور پہ اپنے ہاتھ میں‬
‫محسوس کر رہا تھا‬

‫فہد کی آنکھیں ابھی بھی‬


‫گزشتہ دن کی تمام تر‬
‫محنتوں‪ ,‬خاص طور پہ‬
‫مہرین پہ دو دفعہ اپنا سپرم‬
‫نکالنے کی وجہ سے ابھی‬
‫بھی غنودگی کی حالت میں‬
‫تھا‬

‫فہد نے اپنے ہاتھ اور مہرین‬


‫کی چھاتیاں بریزئیر میں‬
‫پھنسی محسوس کی تو وہ‬
‫مہرین کی چھاتیوں کو اور‬
‫زیادہ ٹٹولنے لگا اور پتہ‬
‫چال مہرین نے قمیض پہن‬
‫لی ہے‪ ,‬فہد حیران ہوا کہ‬
‫مہرین باجی نے کب کپڑے‬
‫پہن لیے‪,‬‬

‫لن کو اپنی بہن کی کمر پہ‬


‫دوبارہ سے رگڑا تو اسے‬
‫اپنے گیلے ٹراؤزر میں‬
‫پھنسا پایا‪,‬‬

‫فہد اب نیند سے بیدار ہو کہ‬


‫بند آنکھیں بمشکل ہی کھول‬
‫پا رہا تھا‪ ,‬کوئی بوجھ اس‬
‫کی آنکھوں پہ تھا‪,‬‬

‫فہد اپنے اور مہرین کے‬


‫جسم پہ کپڑے محسوس کر‬
‫چکا تھا اور اب وہ جاگتا‬
‫جاگتا جاگ ہی گیا‪ .‬فہد نے‬
‫مہرین کو ابھی ایک بار پھر‬
‫چودنا تھا مگر دوسرے ہاتھ‬
‫سے ٹٹولنے پہ پتہ چال کہ‬
‫مہرین نے قمیض شلوار‬
‫واپس پہن لی ہے‪ ,‬فہد‬
‫کیلیے یہ عجیب بات تھی‬
‫کیونکہ رات تو مہرین باجی‬
‫اسکے سامنے خود چدنے‬
‫کیلیے لیٹی تھی اور اب کون‬
‫سی ایسی شرم نے ان کو آ‬
‫لیا کہ کپڑے پہن لیے باجی‬
‫نے‬

‫فہد دل ہی دل میں مسکرایا‬


‫اور گردن آگے سرکا کہ‬
‫مہرین کی گردن سے چوم‬
‫لیا اور لن کو مہرین کی گانڈ‬
‫پہ چبھونے لگا‪,‬‬

‫مہرین کی چھاتی ابھی بھی‬


‫فہد کی گرفت میں مسلی جا‬
‫رہی تھی کہ اچانک فہد نے‬
‫آنکھیں کھول کہ اپنا آپ بھی‬
‫کپڑوں میں پایا‬
‫فہد سب کچھ چھوڑ کہ ارد‬
‫گرد کے حاالت کا جائزہ‬
‫لینے لگا‪ ,‬مہرین باجی نے‬
‫تو چلو کپڑے پہن لیے لیکن‬
‫مجھے کیسے پہنا دیے‬
‫کپڑے‪ ,‬اور شرٹ بھی پہنا‬
‫دی‪,‬‬

‫مہرین بھی فہد کی اس چھیڑ‬


‫چھاڑ سے جاگ چکی تھی‪,‬‬
‫فہد نے اپنا لن دیکھا تو اس‬
‫پہ خون کے کوئی نشانات نہ‬
‫تھے بلکہ اسکا ٹراؤزر‬
‫ایسے بھیگا ہو تھا جیسے‬
‫رات کو اس کا لن ڈسچارج‬
‫ہوا ہے‪,‬‬

‫فہد نے بستر پہ نظر دوڑائی‬


‫تو نہ ہی مہرین کی شلوار پہ‬
‫اور نہ ہی بستر پہ کوئی‬
‫خون کا دھبہ تھا‪,‬‬
‫فہد سر پکڑ کہ رات والے‬
‫واقعات کو سمجھ چکا تھا‬
‫اور اس بات کی وجہ سے‬
‫وہ کبھی اپنی طرف دیکھتا‬
‫اور کبھی مہرین کی طرف‬

‫فہد ساری رات خواب میں‬


‫تھا‪ ,‬مہرین اس کے برابر‬
‫لیٹی ہوئی سو رہی تھی‪ ,‬نہ‬
‫ہی ان کے درمیان سیکس‬
‫ہوا اور نہ ہی کچھ اور‪ ,‬فہد‬
‫اپنی ہی دماغ کی سوچوں‬
‫میں مہرین کو چود رہا تھا‬
‫اور یہ خواب اتنا سہانا تھا‬
‫کہ صبح جاگ کی بھی اس‬
‫کے سحر سے نہیں نکل پا‬
‫رہ تھا‬

‫مہرین بھی اٹھ کہ انگڑائی‬


‫لینے لگی اور اپنے بھائی‬
‫کیطرف ہمیشہ کیطرح‬
‫مسکرا کہ دیکھنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫کو ایسے صدمے کی حالت‬
‫میں دیکھ کہ مہرین نے‬
‫آنکھوں کے اشارے سے‬
‫پوچھا کہ کیا ہوا‬

‫مہرین‪ :‬کیا ہو گیا؟صبح‬


‫صبح ایسے پریشان کیوں‬
‫بیٹھے ہو‬
‫فہد جو کہ رات والے اتنے‬
‫حسین خواب کو یاد کر کہ‬
‫صدمے کی حالت میں تھا‬
‫جواب دینے لگا‬

‫فہد‪ :‬کچھ نہیں‬

‫فہد بار بار اردگردکا جائزہ‬


‫لے کہ کسی چیز کی بار بار‬
‫تسلی کر رہا تھا‪ ,‬فہد کو‬
‫یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ‬
‫خواب ختم ہو گیا ہے کیونکہ‬
‫وہ تو ابھی ایک بار پھر‬
‫اپنی بہن کو چودنا چاہ رہا‬
‫تھا جیسے کہ وہ ساری رات‬
‫چودتا رہا ہے‪ .‬لیکن آہستہ‬
‫آہستہ اسے یقین ہو گیا تھا‬
‫کہ رات واال سب کچھ صرف‬
‫خواب ہی تھا‬

‫مہرین‪ :‬ساری رات پتہ نہیں‬


‫کیا کیا بولتے رہے ہو‬
‫فہد‪ :‬میں؟ کیا کیا بوال؟‬

‫مہرین‪ :‬سمجھ تو کوئی‬


‫خاص نہیں آئی بس نیند نہ‬
‫ہی خود پوری کی اور نہ ہی‬
‫مجھے سونے دیا‬
‫فہد ابھی اس صدمے میں‬
‫تھا اسلیے مہرین نے اسے‬
‫ہال کہ متوجہ کیا‬

‫مہرین‪ :‬فہد سچ سچ بتاؤ‬


‫رات خواب میں کون تھا؟‬

‫فہد‪ :‬باجی پتہ نہیں‪ ,‬یاد نہیں‬


‫مہرین‪ :‬رات جب امی کو سال‬
‫کہ واپس آئی تو آ کہ دیکھا‬
‫کہ تم اسی بستر پہ سو‬
‫رہےہو‪ ,‬کچھ دیر جگاتی رہی‬
‫تمہیں لیکن تم اتنی گہری‬
‫نیند سوئے ہوئے تھے کہ‬
‫میں نے مزید کوشش ہی‬
‫نہیں کی اور یہیں پہ سو گئی‬

‫فہد اب یہ سوچ رہا تھا کہ‬


‫رات تو چلو سب خواب تھا‬
‫لیکن رات والے خواب کے‬
‫نشے میں یہ صبح صبح جو‬
‫باجی سے لن رگڑا اور ان‬
‫کے پستان دبائے ہیں‪ ,‬باجی‬
‫کو انکا پتہ ہے یا نہیں‬

‫مہرین فہد کے پاس آکہ اس‬


‫کے کان میں بولی‬

‫مہرین‪ :‬میں جاگ رہی تھی‬


‫جب تم میرے غبارے دبا‬
‫رہے تھے اور مرغا میری‬
‫کمر پہ چڑھا ہو تھا‬

‫مہرین کے وہم و گمان میں‬


‫بھی نہیں تھا کہ فہد کس‬
‫‪.‬کیفیت میں شکآر ہے‬

‫جب خواب ٹوٹتے ہیں تو دل‬


‫دکھتا ہے لیکن فہد کی تو‬
‫ایک پرانی‬
‫خواہش اسکے سپنے میں‬
‫دم توڑ گئی تھی‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین کی اس خواب میں‬
‫ہونیوالی باتیں صرف فہد کو‬
‫پتہ تھی‪ ,‬مہرین تو ساری‬
‫رات فہد کی اس بیچین نیند‬
‫میں بڑبڑانےکی آوازیں‬
‫سنتی رہی‪ ,‬فہد کا ٹراؤزر‬
‫اسکے احتالم کیوجہ سے‬
‫گیال ہوا تھا جب وہ خواب‬
‫میں اپنی بہن کو چود رہا تھا‬
‫مہرین‪ :‬میں جاگ رہی تھی‬
‫جب تم میرے غبارے دبا‬
‫رہے تھے اور مرغا میری‬
‫کمر پہ چڑھا ہوا تھا‬

‫‪i‬فہد‪ :‬باجی میں‬

‫مہرین کے پستان فہد کی‬


‫چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے‬
‫بریزئیر سے باہر نکلنے‬
‫والے ہو گئے تھے اور‬
‫مہرین نے قمیض میں ہاتھ‬
‫ڈال کہ اپنے پستان کپڑوں‬
‫میں درست کیے‬

‫مہرین‪ :‬یہ ساری رات کیا‬


‫بڑبڑاتے رہے ہو تم؟‬

‫فہد کے پاس کوئی مناسب‬


‫جواب نہیں تھا اسلیے بس‬
‫وہ ہڑبڑائے انداز میں بے‬
‫معنی باتیں کرتا جا رہا تھا‪.‬‬
‫مہرین سمجھ رہی تھی کہ‬
‫فہد بہک رہا ہے اور وہ‬
‫مہرین کے ساتھ کچھ یادگار‬
‫محبت بھرے پل گزارنا چاہتا‬
‫ہے اسلیے مہرین اپنے‬
‫بھائی کی طرف بڑھی لیکن‬
‫فہد کا صدمہ مہرین کے علم‬
‫میں نہیں تھا‬
‫فہد اپنے احتالم سے بھرے‬
‫ٹراؤزر کو مہرین سے‬
‫چھپاتا چھپاتا‪ ,‬مہرین کو‬
‫حیرت زدہ چھوڑ کہ وہاں‬
‫سے نکل گیا اور واش روم‬
‫میں جا کہ نہانے لگا‬

‫مہرین اپنے بھائی کی دست‬


‫درازی سے پریشان تو‬
‫قطعی نہیں تھی اور نہ کبھی‬
‫یہ اسے برا لگا تھا مگر آج‬
‫فہد کا مہرین پہ ہاتھ کچھ‬
‫زیادہ ہی چل گیا تھا اور جب‬
‫مہرین نے فہد کو اپنے‬
‫قریب کرنا چاہا تو فہد وہاں‬
‫سے نکل گیا‬

‫فہد دن میں مہمانوں کی آمد‬


‫سے پہلے تمام انتظامات‬
‫پورے کرنے میں لگ گیا‬
‫اور مہرین بھی صبح والے‬
‫واقعے کی حقیقت سے‬
‫انجان اپنی شادی کی خوشی‬
‫میں پھولے نہ سما رہی تھی‬

‫مہندی کا دن مہمانوں کی‬


‫خاطر تواضع میں گزر گیا‪,‬‬
‫اگلے روز بارات آئی اور‬
‫مہرین اپنے بھائی اور ماں‬
‫سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو‬
‫گئی‪ ,‬مہرین کی رخصتی کا‬
‫منظر انتہائی جذباتی تھا‪,‬‬
‫بہن بھائی کا پیار اور ماں‬
‫کی محبت دیکھ کہ تمام‬
‫حاضرین اپنے آنسووں پہ‬
‫قابو نہ رکھ سکے‪ ,‬مہرین‬
‫باآلخر اپنے شوہر کے گھر‬
‫سہاگ رات والے کمرے میں‬
‫بیٹھی بس بھائی بھائی کرتی‬
‫جا رہی تھی‪ ,‬مہرین کا شوہر‬
‫حق زوجیت ادا کیا‬
‫نے اپنا ِّ‬
‫اور مہرین اپنے شوہر کے‬
‫سامنے اپنے کردار کی‬
‫پاکیزگی کا ثبوت دیتے ہوئے‬
‫ہوئی لڑکی سے عورت بن‬
‫چکی تھی‬

‫مہرین اپنے پہلے پیار کو‬


‫بھول کہ اپنے شوہر کی‬
‫بانہوں میں برہنہ لیٹی اپنے‬
‫بھائی کے بارے میں سوچ‬
‫رہی تھی کہ کاش اس بستر‬
‫پہ فہد ہوتا لیکن مہرین کی‬
‫یہ خواہش پوری ہی نہ ہو‬
‫سکی‬
‫پہلے سیکس کی تکلیف اور‬
‫مزے کے تمام انکشافات‬
‫مہرین کے لئے اب تجربہ‬
‫بن چکے تھے‪ ,‬دوسری‬
‫جانب رخصتی کے بعد فہد‬
‫اپنی بوڑھی ماں کا آخری‬
‫سہارا ساری رات اپنی بہن‬
‫مہرین کیلیے روتا رہا‪,‬فہد‬
‫جانتا تھا کہ گزشتہ رات‬
‫جس خواب کو وہ دیکھ رہا‬
‫تھا اس وقت مہرین کا شوہر‬
‫اسے عملی جامہ پہنا رہا‬
‫ہوگا‪ ,‬فہد کے آنسو صرف‬
‫خوشی کے تو ہر گز نہ‬
‫تھے‪ ,‬بلکہ وہ تو اپنی بہن‬
‫کے روپ میں اپنی بہترین‬
‫دوست کو الوداع کر چکا تھا‬
‫جس سے وہ روزانہ رات کو‬
‫اپنے دن کی تمام پریشانیاں‬
‫بھال کہ‪ ,‬دل کی باتیں سنایا‬
‫کرتا تھا‪ ,‬دونوں جانب بس‬
‫ایک دوسرے کے خیاالت ہی‬
‫چل رہے تھے‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے خیالوں میں تھی اور فہد‬
‫مہرین کے لیے تڑپ رہا تھا‪,‬‬
‫مگر دونوں بے بس ہو کہ‬
‫جدا ہو چکے تھے‬

‫ولیمہ کیلیے فہد اور اسکی‬


‫امی مہرین کے گھر پہنچے‪,‬‬
‫تو مہرین اپنی امی اور‬
‫بھائی سے مل کہ بہت‬
‫جذباتی ہو گئی‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین کی ایک دوسرے‬
‫کیلیے محبت کسی آنکھ سے‬
‫نہ چھپ سکی اور وہاں‬
‫موجود ہر بہن بھائی فہد اور‬
‫مہرین کی محبت پہ رشک‬
‫کر رہے تھے‬

‫مہرین فہد کو دیکھتے ہی‬


‫اسکی آنکھوں سے اسکی‬
‫گزشتہ رات کا احوال سمجھ‬
‫گئی اور اسکا بس نہیں چل‬
‫رہا تھا کہ وہیں فہد کی‬
‫آنکھوں کے بوسے لے لے‬
‫مگر اس نے ایسا نہیں کیا‬
‫اور ہمیشہ کی طرح ضبط کر‬
‫گئی‬

‫رسم کے مطابق مہرین اپنے‬


‫شوہر کو لے کہ اپنی امی‬
‫اور بھائی کے گھر واپس‬
‫آگئی‪ ,‬اب مہرین اپنے بھائی‬
‫کے گھر میں اپنے شوہر‬
‫کیساتھ مہمان بن کہ آئی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے نوبیاہتا جوڑے‬
‫کے لئے پر تکلف انتظامات‬
‫کر رکھے تھے اور ایک‬
‫رات اور ایک دن گزار کہ‬
‫مہرین اپنے شوہر کے ساتھ‬
‫واپس چلی گئی‬
‫مہرین کی اپنے شوہر کے‬
‫ساتھ بےتکلفی فہد دیکھ کہ‬
‫بہت خوش ہوا‬

‫مہرین اور اسکے شوہر کی‬


‫جوڑی کمال سج رہی تھی‬
‫اور وہ دونوں اب فہد کی‬
‫شادی کی بات چالنا چاہ‬
‫رہے تھے مگر فہد ابھی‬
‫شادی کی بات پہ صاف‬
‫انکار کرتا جا رہا تھا‪ ,‬صرف‬
‫مہرین ہی فہد کے انکار کی‬
‫اصل وجہ جانتی تھی‬

‫شادی کی گہما گہمی اب ختم‬


‫ہو چکی تھی‪ ,‬فہد ایک دو‬
‫روز بعد واپس ڈیوٹی پہ‬
‫پہنچا اور پیچھے امی کی‬
‫فکر اسے ستائے رکھتی‪,‬‬
‫مگر صبح کو جا کہ شام کو‬
‫واپسی فہد کی امی کیلیے‬
‫پریشانی کا باعث بن رہی‬
‫تھی‪.‬‬

‫مہرین کی شادی کو گزرے‬


‫ہوئے تین ماہ ہو چکے‬
‫تھے اور اب فہد کی‬
‫مشکالت اپنے عروج پہ‬
‫پہنچ رہی تھی‪ ,‬تنخواہ کا‬
‫کثیر حصہ فہد قرضوں اور‬
‫کمیٹیوں کی شکل میں ادا کر‬
‫دیتا اور بعد میں سارا مہینہ‬
‫شدید تنگ دستی کا شکار‬
‫رہتا‪ ,‬اب تو حاالت یہ آگئے‬
‫تھے کہ فہد کم کرایہ واال‬
‫مکان ڈھونڈنے لگا تھا مگر‬
‫اس سے کم کرایہ واال گھر‬
‫کوئی ہوتا تو ملتا‪ .‬فہد اب‬
‫پارٹ ٹائم جاب بھی تالش کر‬
‫رہا تھا کیونکہ اسکے لیے‬
‫اتنی تنخواہ میں گھر کے‬
‫اخراجات اور قرضوں کو‬
‫سنبھالنا ناممکن ہو رہا تھا‬
‫تین ماہ میں مہرین بمشکل‬
‫ایک دو دن اپنی ماں اور‬
‫بھائی سے آ کہ مل سکی‬
‫کیونکہ اسکا شوہر زیادہ تر‬
‫شہر سے باہر رہتا اور وہ‬
‫اپنے جیٹھ جیٹھانی کے رحم‬
‫وکرم پہ وقت گزار رہی تھی‪,‬‬
‫اسکا شوہر اسے الگ گھر‬
‫کی آس دال کہ گھر میں‬
‫ہونے والی ناانصافی اور‬
‫لڑائی کو وقتی طور پہ ختم‬
‫کر دیتا مگر حقیقت یہ تھی‬
‫کہ مہرین جیسی مدھم مزاج‬
‫لڑکی کا ایسے فتنہ پسند‬
‫لوگوں میں گزارا نا ممکن‬
‫ہو چکا تھا‬

‫مہرین کے شوہر کو ٹریننگ‬


‫کے سلسلے میں بیرون‬
‫ملک جانے کا موقع مال‬
‫جہاں اسے ایک ماہ تک رہنا‬
‫پڑنا تھا‪ ,‬مہرین کی پرزور‬
‫ضد پہ اسکے شوہر نے‬
‫مہرین کو اسکی امی کے‬
‫گھر چھوڑنے کا وعدہ کیا‬
‫اور وعدہ کو وفا کرنے‬
‫کیلیے مہرین کو فالئیٹ‬
‫والے دن لے کہ روانہ ہو‬
‫گیا‬

‫مہرین کپڑوں سے بھرا بیگ‬


‫لے کہ اپنے شوہر کے ہمراہ‬
‫فہد کے گھر آگئی‪ ,‬مہرین کی‬
‫امی نے ہمسائے کے بچے‬
‫کو بال کہ پانی وغیرہ کا‬
‫انتظام کیا اور پی ٹی سی ایل‬
‫کے ذریعہ فہد کو مہرین کی‬
‫اچانک آمد کی خبر پہنچا دی‬
‫گئی‪ ,‬مہرین کا شوہر بس‬
‫کچھ دیر رکا اور اپنی فالئیٹ‬
‫کیلیے رخصت ہو گیا‬
‫جب فہد کو دفتر میں مہرین‬
‫باجی کی اچانک آمد کا پتہ‬
‫چال تو وہ اپنے افسر سے‬
‫جلدی گھر جانے کی اجازت‬
‫لے کہ بھاگتا ہوا گھر آگیا‬

‫فہد کے خراب مالی حاالت کا‬


‫اندازہ مہرین فہد کی آمد‬
‫سے قبل ہی لگا چکی تھی‬
‫کیونکہ کچن میں موجود‬
‫راشن کے آدھے آدھے اور‬
‫زیادہ تر خالی ڈبے گواہی‬
‫دے رہے تھے کہ فہد اب‬
‫پہلے کی طرح راشن پورا‬
‫نہیں کر پا رہا‪ ,‬فہد کی امی‬
‫بھی بڑی سادگی سے مہرین‬
‫کو تمام معلومات دے رہی‬
‫تھی جس سے مہرین کا دل‬
‫ڈوب رہا تھا‪ ,‬اپنے بھائی کی‬
‫قسم پرسی کیوجہ اپنے آپ‬
‫کو سمجھنے لگی کیوں کہ‬
‫وہ جانتی تھی کہ جس طرح‬
‫فہد نے مہرین کی شادی کے‬
‫انتظامات کیے تھے اس کی‬
‫وجہ سے وہ مقروض ہو‬
‫چکا ہے‬

‫فہد کسی دوست سے کچھ‬


‫پیسے لے کہ گھر کا سامان‬
‫بھی ساتھ ہی لے آیا ‪,‬‬

‫فہد جب گھر میں داخل ہوا‬


‫تو مہرین تیز قدموں سے‬
‫صحن میں ٹہلتے ہوئے‬
‫اپنے بھائی کا بیتابی سے‬
‫انتظار کر رہی تھی‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین ایک دوسرے کو‬
‫دیکھ کہ فورا ً گلے لگ گئے‬

‫جس سکون کو مہرین اپنے‬


‫شوہر کیساتھ بستر میں ہر‬
‫رات ڈھونڈتی تھی وہ اسے‬
‫فہد کی بانہوں سے مل رہا‬
‫تھا‪ ,‬فہد اور مہرین ایک‬
‫دوسرے کے گلے لگے رو‬
‫رہے رہے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫اپنے بھائی کے چہرے کے‬
‫بوسے لے رہی تھی‪ ,‬دونوں‬
‫اندر آگئے اور اپنی ماں کے‬
‫قدموں میں بیٹھ کہ دکھ‬
‫سکھ سانجھے کرنے لگے‬

‫فہد اور مہرین کی خوشی کا‬


‫کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور جب‬
‫فہد کو پتہ چال کہ مہرین‬
‫باجی ایک مہینہ اب یہاں‬
‫رہیں گی تو اسکو یقین نہیں‬
‫آرہا تھا‪ ,‬فہد مہرین کی اس‬
‫طرح آمد پہ خوش تو تھا‬
‫مگر ایک چیز اسے اندر ہی‬
‫اندر ستائے جا رہی تھی وہ‬
‫بات یہ تھی کہ اس کے‬
‫خراب مالی حاالت میں‬
‫مہرین اچانک آجانا‬
‫شرمندگی کا باعث بن سکتا‬
‫ہے‪ ,‬بہر حال اب تو فہد کو‬
‫کچھ کرنا ہی پڑنا تھا۔‬

‫فہد اور مہرین کے درمیان‬


‫ایک آنکھ مچولی چل رہی‬
‫تھی‪ ,‬شادی کے بعد مہرین‬
‫کی خوبصورتی کو چار چاند‬
‫لگ چکے تھے جس کو فہد‬
‫آنکھ چرا چرا کہ دیکھتا جا‬
‫رہا تھا‪ ,‬فہد شادی کے بعد‬
‫اپنے چہرے کی رونق ہی‬
‫کھو چکا تھا‪ .‬مہرین اپنی‬
‫بھائی کی حالت دیکھ کہ اندر‬
‫ہی اندر سے کُڑھ رہی تھی‬

‫رات کو کھانا کھا کہ مہرین‬


‫اور فہد اپنی پرانی یادیں‬
‫تازہ کرنے فہد کے کمرے‬
‫میں آ گئے‪ .‬اس کمرے میں‬
‫آج بھی سب کچھ ویسا ہی‬
‫تھا ہر چیز اسی ترتیب سے‬
‫پڑی تھی‪ .‬مہرین کے ہاتھوں‬
‫کی چوڑیوں کی کھنک‪ ,‬اس‬
‫کے جسم پہ سرخ رنگ کا‬
‫جوڑا‪ ,‬ہاتھوں پہ مہندی‪,‬‬
‫چہرے پہ میک اپ کہ ایک‬
‫ہلکی سی تہہ‪ ,‬اور پاؤں میں‬
‫پائل کی کی آواز‪ ,‬یہ سب‬
‫مہرین کی قاتالنہ‬
‫خوبصورتی فہد کی آنکھیں‬
‫چندھیا رہی تھی‬
‫فہد کے چہرے کی مانند پڑ‬
‫چکی رنگت‪ ,‬آنکھوں کے‬
‫گرد ہلکے اسکی پریشانی کا‬
‫چیح چیخ کہ اعالن کر رہے‬
‫تھے‪ ,‬مگر وہ اپنے چہرے‬
‫کی بناوٹی مسکراہٹ سے یہ‬
‫سب چھپانا چاہ رہا تھا‪.‬‬

‫فہد اور مہرین کچھ دیر‬


‫باتیں کرتے رہے‪ ,‬مہرین‬
‫نے فہد کو اپنے سسرال کے‬
‫قصے سنا کہ ہنسا ہنسا کہ‬
‫پاگل کر دیا تھا‪ ,‬انکے بلند‬
‫قہقہے رات کے اس پہر‬
‫کمرے میں گونج رہے تھے‪.‬‬

‫فہد‪ :‬باجی سونا نہیں آج؟‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں سو جاتے‬


‫ہیں تم لیٹو میں تمہارے سر‬
‫میں تیل لگا کہ مالش کر‬
‫دیتی ہوں‪ ,‬بالوں کا کیا حال‬
‫کر لیا ہے‪ ,‬اتنا سا کام انسان‬
‫خود بھی کر سکتا ہے‪ ,‬اب‬
‫میں وہا سے آ کہ تو تمہارا‬
‫خیال نہیں رکھ سکتی بھائی‬

‫فہد نے مہرین کا ہاتھ پکڑ‬


‫کہ چوم لیا‬

‫فہد‪ :‬باجی بس آپ کے بعد‬


‫میرا خیال کس نے رکھنا تھا‬
‫مہرین اٹھ کہ تیل لینے چلی‬
‫گئی اور فہد وہیں بیٹھا‬
‫مہرین کا انتظار کرنے لگا‬

‫کچھ دیر بعد مہرین کمرے‬


‫میں واپس آئی اور اب جو‬
‫آئی تو یہ روپ فہد آنکھیں‬
‫پھاڑ کہ دیکھنے لگ گیا‪,‬‬
‫مہرین شادی کے بعد کپڑے‬
‫جوتے‪ ,‬کھانے پینے غرض‬
‫کہ ہر لحاظ سے بہتر ہو‬
‫چکی تھی‪ ,‬اس نے نائیٹ‬
‫ڈریس پہنا ہو تھا جو کہ‬
‫عموما ً اس طبقے کے لوگ‬
‫تو نہیں پہنتے‪ ,‬نیلی اور‬
‫سیاہ ڈبی دار‪,‬نرم کاٹن سے‬
‫سال ہوا کسی برانڈ کا نائیٹ‬
‫ڈریس‪ ,‬ٹراؤزر اور شرٹ‪,‬‬
‫جسکے سامنے والے‬
‫حصے بٹن سے بند اور‬
‫کھلتے ہیں‪ ,‬مہرین کے جسم‬
‫کو عیاں کر رہیے تھے‪,‬‬
‫مہرین کی گانڈ اور چھاتیاں‬
‫اپنی گوالئی کی بہت اچھی‬
‫شکل پیش کر رہی تھی‪,‬‬
‫مہرین ایک تیل والی بوتل‬
‫لیے دروازے میں کھڑی فہد‬
‫کی اس حیرانی سے‬
‫دیکھنے والے انداز پہ ہنس‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین فہد کو اپنا‬
‫نیا روپ ایسے دکھا رہی‬
‫تھی جیسے بچپن میں بچے‬
‫اپنے کسی نئے جوڑے کو‬
‫پہن کہ اپنے ہمجولی کو‬
‫دکھا رہے ہوتے ہیں‬

‫مہرین نے جھول کہ ایک‬


‫شرم والے انداز میں فہد کو‬
‫مخاطب کیا‪ ,‬اسوقت مہرین‬
‫کے چہرے پہ نہ رکنے والی‬
‫مسکراہٹ تھی‬

‫مہرین‪ :‬کیسی لگ رہی ہوں؟‬


‫فہد‪ :‬واہ باجی‪ ,‬آپ کے تو‬
‫بڑے ٹھاٹھ باٹھ ہیں اب تو‬

‫مہرین بڑی تیزی سے آگے‬


‫بڑھ کہ شرمانے لگی‬

‫مہرین‪ :‬تمہارے بہنوئی نے‬


‫ہی یہ کپڑے پہن کہ سونے‬
‫کی عادت بنائی ہے‪ ,‬انکی‬
‫بھابھی بھی ایسا ہی سلیپنگ‬
‫ڈریس پہن کہ سوتی ہیں‪,‬‬
‫اور انسان اس میں بہت‬
‫سکون سے سوتا ہے‬

‫مہرین اس ڈریس کے فوائد‬


‫بتاتے بتاتے فہد کی پشت‬
‫کی جانب آ کہ بیٹھ گئی اور‬
‫بولتے بولتے فہد کے سر‬
‫کو تیل لگا کہ مالش کرتی جا‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد بھی سنتا جا‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین نے اپنے‬
‫بھائی کے بالوں کو تیل لگا‬
‫کہ اچھے سے مالش کی اور‬
‫اس دوران مہرین فہد کے‬
‫ساتھ کافی نزدیک تھی مگر‬
‫ایک چیز جسکی کمی صرف‬
‫فہد محسوس کر رہا تھا وہ‬
‫کمی مہرین کی طرف سے‬
‫ایک ان چاہا فاصلہ برقرار‬
‫رکھنے کی تھی‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کے چھاتیاں اپنی کمر پہ‬
‫لگنے کی امید کر رہا تھا‬
‫مگر مہرین نے ایک بار‬
‫بھی فاصلہ کم نہیں کیا جس‬
‫سے فہد کے ذہن میں کچھ‬
‫سواالت جنم لینے لگے‪,‬‬
‫کچھ دیر بعد مہرین وہیں‬
‫بستر پہ نڈھال ہو کہ گر‬
‫گئی‪ ,‬مہرین جب لیٹی تو فہد‬
‫کے دل میں ایک سوال تھا‬
‫جسے وہ ڈرتے ہوئے‬
‫مہرین سے پوچھ نہیں پا رہا‬
‫تھا‬

‫فہد کو سارے دن میں اتنا تو‬


‫اندازہ ہو گیا تھا کہ مہرین کا‬
‫شوہر ایک بہت محبت‬
‫کرنیواال اور بھال انسان ہے‪,‬‬
‫مہرین کی وفاداریاں بھی اب‬
‫اپنے شوہر کے ساتھ ہیں‪,‬‬
‫اب ایسے میں مہرین کے‬
‫ساتھ ماضی والے تعلقات کی‬
‫دوبارہ بحالی مہرین کو‬
‫اچھی لگے گی یا بری؟ تب‬
‫مہرین کسی اور کیلیے‬
‫اسقدر وفادار نہیں تھی لیکن‬
‫اب اگر فہد اپنی بہن کے‬
‫ساتھ ایک ہی بستر میں‬
‫سونے کی کوشش کرے گا‬
‫تو کہیں مہرین اسے منع نہ‬
‫کر دے اور ایسی صورت‬
‫میں شاید فہد یہ برداشت نہ‬
‫کر پاتا‬
‫دوسری جانب مہرین کی‬
‫دماغی کیفیت اسطرح کے‬
‫سوالوں سے بے ہنگم تھی‪,‬‬
‫ایک طرف اسکی پہلی محبت‬
‫اسکا سگا بھائی‪ ,‬جس کے‬
‫لیے وہ دنیا کی ہر چیز‬
‫قربان کر سکتی تھی اور‬
‫دوسری طرف اپنے شوہر‬
‫کی وفاداری کا بھرم بھی‬
‫اسکا دل بھاری کر رہا تھا‪,‬‬
‫کیسے وہ فہد کو دوبارہ وہ‬
‫سب کچھ دے دیتی جس پہ‬
‫کسی اور کا حق ہے‬

‫مہرین جب اسی بستر پہ‬


‫لیٹی تو سیدھا لیٹنے کی‬
‫وجہ سے اسکی بڑی بڑی‬
‫چھاتیاں اپنی اونچائی پہ‬
‫تھیں‪ ,‬فہد نے ایک نظر اپنی‬
‫بہن کو دیکھا اور ایک بار‬
‫اسکی چھاتیوں کو دیکھ کہ‬
‫نظر اسلیے ہٹا لی کیونکہ‬
‫جسوقت وہ مہرین کی‬
‫چھاتیوں کو دیکھ رہا تھا‬
‫اور مہرین اسکی نظروں کا‬
‫تعاقب کر رہی تھی تو فہد کو‬
‫آج پہلی بار مہرین کی‬
‫نظروں میں ایک عجیب سی‬
‫شرمندگی دکھائی دی‪ ,‬نہ ہی‬
‫مہرین نے کوئی ایسا لفظ‬
‫منہ سے نکاال اور نہ ہی‬
‫اپنے جسم کو ڈھکنے کی‬
‫کوشش کی‪ ,‬مگر فہد ایک‬
‫سرد سی مسکراہٹ دے کہ‬
‫دوسری سمت چہرہ پھیر‬
‫چکا تھا‬

‫مہرین اور فہد جس دوراہے‬


‫پہ اتنا سفر طہ کر کہ بہت‬
‫ساری حدیں پار کر چکے‬
‫تھے آج وقت نے انکو‬
‫دوبارہ کہیں پیچھے دھکیل‬
‫دیا تھا‪,‬‬
‫شاید مہرین کا ایسا برتاو فہد‬
‫کے ساتھ ایک ناراضگی کا‬
‫اظہار بھی تھا‪ ,‬مہرین کے‬
‫دل کے کسی کونے میں یہ‬
‫گلہ بھی تھا کہ شادی سے‬
‫پہلے اتنی بار فہد کو اپنا‬
‫جسم پیش کیا اور فہد نے‬
‫ہمیشہ اسے ٹھکرا دیا‪ ,‬اور‬
‫آج فہد کیطرف سے اس‬
‫طلب کی ایک نظر بھی اب‬
‫مہرین کو گوارا نہیں‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ جا کہ امی کے‬


‫پاس سو جائیں‬

‫مہرین‪ :‬ہاں چلی جاتی ہوں‬

‫دونوں بہن بھائی موقع کی‬


‫نزاکت کو سمجھ کہ ایک‬
‫دوسرے کو دور رہنے کا‬
‫اشارہ دے چکے مگر اندر‬
‫ہی اندر دونوں دوبارہ اس‬
‫محبت کو زندہ کرنا چاہتے‬
‫تھے لیکن پہل کر کہ ہلکے‬
‫سے بھی انکار کی صورت‬
‫میں‪ ,‬شرمندگی کی اذیت نا‬
‫قابل برداشت ثابت ہونی تھی‬

‫دونوں کے لہجوں میں‬


‫اداسی تھی اور فہد نے اپنی‬
‫تمام تر ہمت یکجا کر کہ‬
‫لیٹی ہوئی اپنی بہن کو‬
‫چومنے کی نیت سے واپس‬
‫پلٹ کہ اپنا آپ مہرین کے‬
‫قریب کرنے لگا تو مہرین‬
‫اس کوشش سے بے خبر‬
‫اٹھ کہ بیٹھ چکی تھی‪ ,‬یہ‬
‫کچھ لمحوں کی چوک فہد‬
‫کے حوصلے کو پست کر‬
‫چکی تھی‪ ,‬مہرین فہد کو‬
‫اپنے گلے سے چپکا کہ‬
‫چومنے کیلیے بیتاب تھی‬
‫مگر اس میں بھی وہ ہمت‬
‫نہیں ہو رہی تھی‬

‫نظریں جھکاۓ مہرین‬


‫کمرے سے نکلنے کیلیے‬
‫بستر کی دوسری سمت سے‬
‫گھوم کہ دروازے کی طرف‬
‫بڑھ رہی تھی تو مہرین نے‬
‫ہمت کا مظاہرہ کیا‬
‫مہرین دوسری سمت منہ‬
‫کیے ہوئے اپنے بھائی کو‬
‫پیچھے سے گلے لگانے کی‬
‫کوشش کی تو فہد مہرین کی‬
‫اس کوشش سے انجان‬
‫نیچے ہو کہ بستر درست‬
‫کرنے لگا‬

‫مہرین کی ہمت بھی ٹوٹ‬


‫گئی اور وہ بنا فہد کو‬
‫چومے کمرے سے نکل گئی‬
‫مہرین اور فہد دونوں اپنی‬
‫اپنی کوششوں کو لمحوں کی‬
‫چوک سے ناکام ہونے کا‬
‫دکھ دل میں لیے اپنے اپنے‬
‫بستر پہ جا کہ لیٹ گئے‪ ,‬نہ‬
‫ہی مہرین جانتی تھی کہ فہد‬
‫اسے چومنے کیلیے آگے‬
‫بڑھا تھااور نہ ہی فہد جانتا‬
‫تھا کہ جب وہ بستر درست‬
‫کرنے کیلیے بیٹھا تھا تب‬
‫مہرین اسے بانہوں میں‬
‫بھرنے لگی تھی‬

‫ساری رات پریشانی اور‬


‫بیچینی نے نہ ہی فہد کو‬
‫سونے دیا اور نہ ہی مہرین‬
‫کو‪ ,‬اپنی محبت کی دنیا کی‬
‫بربادی کا ذمہ دار وہ کا کو‬
‫ٹھہراتے‪ ,‬وہ تو بس حاالت‬
‫کو کوس رہے تھے جن کی‬
‫وجہ سے آج وہ اتنا دور ہو‬
‫گئے ہیں کہ وہ ایک‬
‫دوسرے کو ہاتھ لگانے سے‬
‫بھی کتراء رہے ہیں‬

‫صبح ہوئی تو مہرین کی‬


‫آنکھ کھلی‪ ,‬سورج کافی اوپر‬
‫آچکا تھا اور اسکی امی‬
‫اسکے برابر اپنے بستر پہ‬
‫بیٹھی ہوئی تھی‪ ,‬گھڑی کو‬
‫دیکھا تو صبح کے گیارہ بج‬
‫رہے تھے‪ ,‬مہرین بہت تسلی‬
‫سے مکمل نیند سوئی تھی‪,‬‬
‫شادی کے بعد زیادہ تر‬
‫راتیں جاگ کہ گزارنے والی‬
‫نئی نویلی دولہنیں جب اپنے‬
‫مائیکے جاتی ہیں تو ان تمام‬
‫رنگین راتوں کی نیند کی‬
‫کمی وہیں آ کہ پوری کرتی‬
‫ہیں‪ ,‬یہی حال مہرین کا تھا‪,‬‬
‫شادی سے پہلے اپنے بھائی‬
‫سے بھی پہلے جاگ جاتی‬
‫تھی اور اب دن کا کونسا پہر‬
‫آگیا ہے اور سکی نیند ہی‬
‫پوری نہیں ہوئی‪ ,‬امی سے‬
‫دریافت کرنے پہ پتہ چال کہ‬
‫ب معمول اپنے‬ ‫فہد تو حس ِّ‬
‫وقت پہ دفتر کیلیے نکل چکا‬
‫ہے‬

‫مہرین سارا دن امی گھر کی‬


‫صفائی ستھرائی میں لگی‬
‫رہی اور شام ڈھلتے اپنے‬
‫بھائی کی راہ تکنے لگی‪,‬‬
‫فہد جسکو پہلے ہی مالی‬
‫مشکالت نے گھیرا ہو تھا‬
‫اب ایک نئی پریشانی کا‬
‫شکار ہو چکا تھا‪ ,‬مالی‬
‫مشکالت کا حل ہو سکتا ہے‬
‫لیکن اپنی محبت کے چھینے‬
‫جانے کا صدمہ آج تک کس‬
‫سے برداشت ہوا ہے؟‬

‫شام کو فہد گھر آیا تو مہرین‬


‫کے حسن کے جلوے اسے‬
‫اور بھی پریشان کر رہے‬
‫تھے‪ ,‬فہد کو اس چیز کا‬
‫زیادہ شدت سے احساس‬
‫ہونے لگا کہ کاش اگر اس‬
‫نے اسوقت اپنی بہن کی‬
‫طرف سے اسکے جسم کی‬
‫پیشکش کو قبول کر لیا ہوتا‬
‫تو اس دن سے لیکر آج تک‬
‫مہرین پہ فہد کا حق برقرار‬
‫رہتا‪ ,‬فہد کو اپنے ماضی کی‬
‫اس بیوقوفانہ سوچ پہ‬
‫افسوس ہو رہا تھا جب‬
‫مہرین اسکے لیے تڑپ رہی‬
‫تھی اور فہد اپنی بہن کو‬
‫تڑپا رہا تھا‪ ,‬لیکن فہد کا‬
‫مہرین کی طرف سے یہ‬
‫محدود سا رویہ پھر بھی‬
‫برداشت نہیں ہو رہا تھا‬
‫]‪[/size‬‬
‫ایک ہفتہ اس ]‪[/size‬‬
‫سوالیہ سے ماحول سے‬
‫تنگ آکر مہرین بہت‬
‫دلبرداشتہ ہو گئی اور اس‬
‫نے ایک رات فہد سے باتوں‬
‫باتوں میں وہ سارے گلے‬
‫کر دیے جن کو وہ دل میں‬
‫دبائے بیٹھی تھی۔‬
‫مہرین کو فہد کے گھر آئے‬
‫ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور‬
‫اس پورے ہفتے میں فہد‬
‫اور مہرین کے درمیان‬
‫ماضی کی باتوں کو لے کہ‬
‫رنجشیں بڑھ چکی تھی‪,‬‬
‫مہرین اور دونوں دلبرداشتہ‬
‫تھے لیکن مہرین آج فہد‬
‫کے جانے کے بعد سے‬
‫لیکر فہد سے بات حتمی بات‬
‫کر کہ معاملے کو انجام تک‬
‫لے کہ آنا چاہتی تھی اسلیے‬
‫سارا دن بہت سارے غورو‬
‫حوض‪ ,‬دل ہی دل میں فہد‬
‫سے فرضی مکالمے کرنے‬
‫کے بعد شام کو فہد کی‬
‫واپسی کا اس شدت سے‬
‫انتظار کر رہی تھی کہ‬
‫اسکے چہرے گھبراہٹ اور‬
‫پریشانی کے آثار ٹپک رہے‬
‫تھے‪,‬‬

‫شام ڈھلے فہد گھر میں‬


‫داخل ہوا تو صحن میں‬
‫مہرین کی چہل قدمی کو نظر‬
‫انداز کر کہ عالمتی سا سالم‬
‫کیا اور سیدھا واش روم میں‬
‫گھس گیا‪ ,‬مہرین کا پارہ‬
‫کچھ ایک سینٹی گریڈ مزید‬
‫بڑھ گیا‪ ,‬فہد اور مہرین کی‬
‫اشاروں اشاروں میں آج‬
‫رات کی نشست تہ پا چکی‬
‫تھی اور امی کو سال دینے‬
‫کے بعد قریب المرگ محبت‬
‫کے دونوں فریقین اپنے‬
‫پرانے کمرے کے اندر آمنے‬
‫سامنے تشریف فرما ہو‬
‫چکے تھے‪ ,‬دونوں کے‬
‫دلوں مین گلوں کے انبار‬
‫زبان درازی کے ذریعے‬
‫نکلنے والے تھے‬

‫مہرین بہت ہی حتمی انداز‬


‫میں فہد کی فوکس لیس‬
‫ویژن اور دلبرداشتہ انداز‬
‫سے گردن کے ڈھیلے پن‬
‫کو دیکھ رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬فہد صاحب‪ ,‬کدھر گم‬


‫ہیں؟ میں ایک ہفتے سے‬
‫آپ کے گھر آئی ہوئی ہوں‬
‫مگر آپ کے تو تیور ہی‬
‫نہیں مل رہے‬

‫فہد‪ :‬اچھا؟ تو آپ آگئیں‬


‫باجی؟‬

‫مہرین‪ :‬کیا مطلب ہے تمہارا‬


‫فہد؟‬
‫فہد‪ :‬کچھ مطلب نہیں‬
‫میرا‪ ....‬مہرین‪...............‬‬
‫باجی‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں نام لو میرا‬


‫تم اب‪ ,‬چھوٹی ہوں ناں تم‬
‫سے‪ ,‬تم باپ ہو میرے‪ ,‬لہجہ‬
‫دیکھو ذرا جناب کا‬

‫ماحول کی تلخی بڑھتی ہی‬


‫جا رہی تھی‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫اپنی گفتگو میں کسی‬
‫صورت نرمی نہیں ال رہے‬
‫تھے‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی‪ ,‬میں چھوٹا‬


‫نہیں‪ ,‬بلکہ بہت چھوٹا ہوں‬
‫آپکے سامنے‪ ,‬دیکھ رہا‬
‫ہوں آپکا بدال ہوا رویہ‪,‬‬

‫فہد بہت ہی سخت انداز میں‬


‫مہرین کی طرف منہ کر کہ‬
‫بات کر رہا تھا اور بات کو‬
‫وقفہ دے کہ اپنا چہرہ مہرین‬
‫کے پاس کر کہ اسی شدت‬
‫سے دعبارہ بولنے لگا‬

‫فہد‪ :‬یہ رویہ آج کا نہیں بدال‬


‫مہرین‪.............‬باجی‪ ,‬یہ تو‬
‫منگنی کی رات سے بدالؤ آ‬
‫رہا تھا‬
‫فہد بار بار مہرین باجی کو‬
‫اکٹھا کہنے کی بجائے‬
‫مہرین اور باجی میں وقفہ‬
‫بڑھا کہ بات کر رہا تھا‬

‫مہرین نے فہد کو گریبان‬


‫سے پکڑ کہ دانت بھینچ کہ‬
‫جھنجھوڑا‬

‫مہرین‪ :‬فہد کیا بکواس کر‬


‫رہے ہو؟ میں بدلی ہو؟ کس‬
‫نے بدلنے پہ مجبور کیا‬
‫مجھے ؟ہاں؟بولو؟‬

‫مہرین کی آواز میں غصہ‬


‫اور شدت دونوں تھے‪,‬‬
‫اسکی آواز میں چیخنے کی‬
‫جھلک تھی‬

‫مہرین‪ :‬میں تمہارے آگے‬


‫پیچھے پھر رہی تھی فہد‪,‬‬
‫جب تم کو میرے ادب و‬
‫احترام کی آڑ میں‪ ,‬میرا تم‬
‫کوچومنا‪ ,‬میرا تمہارے ساتھ‬
‫سونا اور صاف صاف‬
‫ریلیشن بنانے کی باتیں‬
‫کرنا‪ ,‬سب کچھ غلط لگتا تھا‬

‫فہد آنکھیں جھکائے مہرین‬


‫کے ہاتھوں اپنا گریبان ہالیا‬
‫جانا برداشت کر رہا تھا اور‬
‫مہرین کی یہ صاف بات فہد‬
‫کو الجواب کر چکی تھی‪,‬‬
‫مہرین کی آنکھوں میں یہ‬
‫باتیں کہتے ہوئے عجیب سا‬
‫جالل تھا اور اسکی آواز‬
‫میں ایک دہال دینے والی‬
‫گرج تھی‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی‪ ......‬میں‬

‫فہد نے ابھی اتنا لفظ ہی منہ‬


‫سے نکاال تھا کہ مہرین نے‬
‫اس جاللی گرج میں اسے‬
‫ٹوک دیا‬

‫مہرین‪ :‬مہرین باجی‬


‫نہیں‪ ........‬فہد صرف مہرین‬
‫کہو مجھے‪ ,‬نہیں ہو تمہاری‬
‫بہن میں‪ ,‬نام لو میرا‬

‫فہد کافی زیادہ زیر ہو چکا‬


‫تھا‬
‫فہد‪ :‬میں بس اتنا کہنا چاہتا‬
‫ہوں کہ آپ کی نظر میں‬
‫میری اب وہ پہلے والی‬
‫اہمیت نہیں رہی باجی‬

‫مہرین نے فہد کے پکڑے‬


‫ہوئے گریبان کو ایک جھٹکا‬
‫مار کہ چھوڑ دیا اور فہد کی‬
‫بات کو سن کہ ٹیبل پہ‬
‫کہنیاں ٹکائے سر کو‬
‫ہتھیلیوں پہ ٹکا کہ افسردہ‬
‫چہرے کو سوگوار انداز میں‬
‫لے کہ بیٹھ گئی‬

‫مہرین‪ :‬اہمیت؟ فہد تم کو‬


‫بھی اہمیت کا گلہ ہے؟‬
‫شاباش فہد‪,‬‬

‫کچھ لمحوں کی خاموشی‬


‫کے بعد مہرین دوبارہ بول‬
‫پڑی‬
‫مہرین‪ :‬فہد یاد ہے وہ بارش‬
‫کی رات؟ میں آج بھی وہی‬
‫مہرین ہوں‪ ,‬یاد ہے جب‬
‫تمہارے لبوں کو چوم کہ‬
‫دفتر کیلیے رخصت کیا تھا؟‬
‫میں آج بھی وہی مہرین‬
‫ہوں‪ ,‬تم نے ایک رات میری‬
‫سینے میں ہاتھ ڈالے تھے‪,‬‬
‫میں سونے کا بہانہ کرتی‬
‫رہی‪ ,‬میں آج بھی وہ بہانہ‬
‫کر سکتی ہوں‪ ,‬تم نے‬
‫مہندی کی رات میرے ساتھ‬
‫اتنا پیار دکھایا اور میں نے‬
‫کچھ انکار نہیں کیا‪ ,‬فہد میں‬
‫خود تمہارے پاس آتی رہی‬
‫اور تم مجھے پیچھے‬
‫دھکیلتے رہے‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی میں‬


‫پیچھے نہ دھکیلتا تو آپ‬
‫اپنے شوہر کو سہاگ رات‬
‫کس منہ سے اپنے کردار‬
‫کی گواہی دیتی؟‬

‫مہرین‪ :‬کونسا تمغہ مل گیا‬


‫مجھے اس رات اپنی‬
‫پاکیزگی کی گواہی دے کہ‬
‫فہد؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ‬
‫میرا شوہر دودھ کا دھال‬
‫ہے؟ تمہیں لگتا ہے کہ وہ‬
‫میرے جیسے ورجن لڑکی‬
‫کی امید لگائے بیٹھا تھا ؟‬
‫فہد‪ :‬باجی اسکی امیدیں تو‬
‫بعد میں پتہ چلی آپکو‬

‫مہرین‪ :‬سنو فہد!!! میرا‬


‫شوہر مجھے صاف الفاظ‬
‫میں اپنے ماضی کی رنگین‬
‫یادوں کا بتا چکا ہے‪ ,‬اور‬
‫اسکو ہر گز کوئی فرق نہیں‬
‫پڑنے واال تھا اگر میں کسی‬
‫کے ساتھ پہلے ہی رنگ‬
‫رلیاں منا چکی ہوتی‬

‫فہد کا چہرہ حیرانی سے‬


‫مہرین کی طرف ترچھا ہو‬
‫گیا‬

‫فہد‪ :‬باجی میں کس طرح‬


‫آپکے ساتھ‬
‫مہرین‪ :‬جس طرح حاجی‬
‫انکل کا بیٹا اپنی بہن کے‬
‫ساتھ کرتا تھا‬

‫فہد‪ :‬باجی نہیں ہمت تھی تب‬

‫مہرین‪ :‬اب مجھ میں نہیں‬


‫ہے‬

‫فہد‪ :‬اب کیا ہو گیا ہے؟‬


‫مہرین‪ :‬اب میرے شوہر نے‬
‫میرے ساتھ اور میں نے‬
‫اپنے شوہر کے ساتھ‬
‫وفاداری کے عہدو پیمان کر‬
‫لیے ہیں‬

‫مہرین نے یی بات انتہائی‬


‫اداس انداز میں کہی‬
‫فہد‪ :‬ٹھیک ہے باجی‬

‫مہرین‪ :‬اب کہاں گئی وہ‬


‫شادی سے پہلے میرے‬
‫ساتھ کچھ بھی کرنے سے‬
‫شرمانے والی فیلنگ؟‬

‫فہد‪ :‬باجی میں اب بھی کچھ‬


‫ویسا نہیں چاہتا آپ سے‬
‫مہرین‪ :‬فہد؟‬

‫فہد مہرین کے لہجے میں‬


‫بدالو کی وجہ سے مہرین‬
‫کی طرف متوجہ ہو گیا‬

‫مہرین‪ :‬فہد سوچ سمجھ کہ‬


‫بولنا‪ ,‬تم اب بھی ویسا کچھ‬
‫نہیں چاہتے؟‬
‫فہد ایک تذبذب کا شکار ہو‬
‫کہ خاموش ہو گیا کیونکہ وہ‬
‫اب سب کچھ چاہتا تھا‬

‫مہرین نے فہد کا ہاتھ پکڑ‬


‫کہ اپنی ایک چھاتی پہ رکھ‬
‫لیا‪ ,‬فہد دوسری سمت منہ‬
‫کیے ہوئے مہرین کے ہاتھ‬
‫میں اپنا ہاتھ چلنے دے رہا‬
‫تھا اور کچھ دیر بعد مہرین‬
‫نے فہد کا ہاتھ چھوڑ دیا‬
‫مگر فہد کا ہاتھ مہرین کی‬
‫ایک چھاتی پہ انگلیاں گاڑے‬
‫ہوئے تھا‪,‬‬

‫مہرین نے اپنی کرسی کو‬


‫سرکا کہ فہد کی کرسی کے‬
‫عین پاس کر کہ فہد کے‬
‫چہرے کو اپنی طرف گھما‬
‫لیا اور فہد کسی لڑکی کی‬
‫طرح نظریں جھکا کہ گردن‬
‫مہرین کی طرف کر چکا تھا‬
‫مہرین‪ :‬فہد؟اگر تم نے اب‬
‫کوئی ڈرامہ کیا تو ہمیشہ‬
‫کیلیے چلی جاؤنگی‪ ,‬اسے‬
‫میری آخری آفر سمجھنا‬

‫کہ ]‪size‬فہد سمجھ گیا[‪/‬‬


‫مہرین کا لہجہ جتنا سخت‬
‫ہے اتنا ہی اسکا ارادہ پختہ‬
‫ہے‬
‫مہرین نے فہد کو ]‪[/size‬‬
‫گھما کہ اپنے ہونٹ فہد کے‬
‫ہونٹوں سے مال لیے اور‬
‫آہستہ آہستہ فہد کے ہونٹوں‬
‫کو چومنا شروع کیا فہد کا‬
‫ہاتھ جو مہرین کی چھاتی‬
‫سے مس ہی تھا‪ ,‬اس میں‬
‫حرکت آنے لگی‪ ,‬فہد کا سر‬
‫بھی اب مہرین کے لبوں کو‬
‫چومتے چومتے ہلنے لگا‬
‫مہرین کی زبان فہد ]‪[/size‬‬
‫کے منہ میں اور فہد کی‬
‫زبان مہرین کے منہ میں‬
‫غوطہ زن ہو کہ واپس ہو‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد کا ہاتھ مہرین‬
‫کی چھاتیاں اب اچھی طرح‬
‫سیال رہے تھے اور فہد کا‬
‫ضبط مہرین کی نسبت زیادہ‬
‫جواب دے چکا تھا اور‬
‫اسکے دونوں ہاتھ مہرین کو‬
‫گرفت میں لیتے‪ ,‬کبھی‬
‫چھاتیاں سہالتے اور کبھی‬
‫کمر سے اسے پکڑ کہ اپنے‬
‫اندر دبا لیتے‬

‫مہرین مکمل طور ]‪[/size‬‬


‫پہ فہد کے قبضے میں اب‬
‫بے بس ہو کہ بس ساتھ دے‬
‫رہی تھی اور فہد قوی انداز‬
‫میں اپنا آپ مہرین پہ چڑھاتا‬
‫ہی جا رہی تھا‬
‫فہد کی اسقدر ]‪[/size‬‬
‫جارحانہ انداز میں محبت‬
‫مہرین کو بہکاتی جا رہی‬
‫تھی اور ایک لمحہ کیلیے‬
‫مہرین فہد کو روکنا چاہ رہی‬
‫تھی مگر فہد ال پرواہ انداز‬
‫میں چومتا ہی جا رہا تھا‪,‬‬

‫مہرین ایک لمحے ]‪[/size‬‬


‫کا وقفہ لینے میں کامیاب ہو‬
‫گئی اور فہد کی طرف بنا‬
‫مسکرائے دیکھ کہ بولی‬

‫مہرین‪ :‬صبر کر لو‪[/size] ,‬‬


‫میں ساری رات ادھر ہی‬
‫ہوں‪ ,‬شادی کے بعد ہی‬
‫تمہیں تحمل سے یہ سب‬
‫کرنا آیگا‪ ,‬ایسے تو تم‬
‫مجھے کھا جاؤ گے‬
‫مہرین یہ بولتی ]‪[/size‬‬
‫بولتی فہد سے اپنا آپ آزاد‬
‫کرا کہ کمرے سے باہر نکل‬
‫گئی اور دس منٹ بعد جب‬
‫واپس آئی تو اس نے وہی‬
‫نائیٹ ڈریس پہنا ہوا تھا‪,‬‬
‫مہرین اپنا چہرہ پانی سے‬
‫دھو کہ آئی تھی گیلے‬
‫چہرے کو تولیے سے صاف‬
‫کر تی ہوئی بستر پہ آ کہ‬
‫بیٹھ گئی۔‬
‫مہرین حاالت کو ایک حتمی‬
‫سمت کی طرف موڑنے میں‬
‫کامیاب ہو چکی تھی مگر‬
‫اس موڑ کی قیمت اسے اب‬
‫زیادہ لگ رہی تھی‪ ,‬شادی‬
‫سے پہلے وہ اپنا آپ صرف‬
‫اور صرف فہد کی ملکیت‬
‫تصور کرتی تھی اور فہد اس‬
‫ملکیت کو ہمیشہ ٹھکراتا ہی‬
‫آ رہا تھا‪ ,‬مگر اب اس کی‬
‫شادی ہو چکی تھی اور وقت‬
‫کیساتھ مہرین کی وفاداری‬
‫اب اپنے شوہر سے بھی‬
‫منسلک ہو چکی تھی‪ ,‬فہد‬
‫کے ساتھ مہرین کی‬
‫ہمدردیاں ضرور تھیں لیکن‬
‫وفاداریاں اپنے شوہر‬
‫کےساتھ ہی تھی‪ .‬شوہر کی‬
‫وفادار بیوی اپنی پہلی محبت‬
‫کے سامنے آج دوبارہ سے‬
‫اپنی محبت کا ثبوت پیش‬
‫کرنے کیلے حاضر تھی‪,‬‬
‫مہرین کے دل میں اب فہد‬
‫کیلیے وہ پہلے والی طلب‬
‫نہیں تھی اور یہ طلب کا ختم‬
‫ہونا یا کم ہونا ایک فطری‬
‫عمل تھا‬

‫مہرین بستر پہ اپنے نائیٹ‬


‫ڈریس پہنے لیٹنے کے انداز‬
‫میں بازو اوپر کوکر کہ سر‬
‫پہ رکھ کہ بیٹھ گئی جس‬
‫سے اسکی شرٹ کی قید‬
‫سے پیٹ کا کچھ حصہ‬
‫عریاں ہو کہ دودھ جیسا‬
‫سفید جسم دکھا رہا تھا‪,‬‬
‫بازوؤں کو اوپر اٹانے سے‬
‫چھاتیاں ابھر کہ بے قابو ہو‬
‫رہیں تھی اور مہرین مسکرا‬
‫کی فہد کی طرف دیکھ رہی‬
‫تھی‬

‫فہد دور کرسی پہ بیٹھا‪,‬‬


‫ماضی میں مہرین کی‬
‫پیشکش ٹھکرانے کا‬
‫افسوس کر رہا تھا اور اب‬
‫دوبارہ سے اس موقعے کا‬
‫مکمل فایدہ اٹھانے کیلیے پر‬
‫عظم تھا‬

‫مہرین کے کہے بغیر فہد‬


‫بستر کے پاوں والی سمت‬
‫میں آ کہ مہرین کے صاف‬
‫شفاف قدموں کے پاس آگیا‬
‫اور اپنا آپ مہرین کے‬
‫قدموں پہ جھکا کہ مہرین‬
‫کے ابھی ابھی دھلے نیم‬
‫گیلے قدموں کو چوم لیا‬

‫مہرین کے چہرے پہ فہد کی‬


‫اس حرکت پہ ہنسی آ گئی‬
‫اور اس نے فہد کو آگے بڑھ‬
‫کی کھینچ کہ اپنے اوپر لیٹا‬
‫کہ سینے سے لگا لیا‬
‫مہرین‪ :‬فہد تم میرے قدموں‬
‫میں نہیں میرے دل میں‬
‫اچھے لگتے ہو‬

‫فہد مہرین کے اوپر لیٹا‬


‫کسی بچے کیطرح سکون‬
‫محسوس کر رہا تھا‬

‫فہد کے رخسار مہرین کی‬


‫چھاتیوں سے جڑے ہوئے‬
‫تھے اس نے اپنے چہرے‬
‫کو وہیں سے مہرین کی‬
‫چھاتیوں میں گاڑھ دیا اور‬
‫اوپر سے ہی چومنے لگا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے سر پہ ہاتھ‬
‫رکھے اسے مزے لیتے‬
‫رہنے دے رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫وہیں سے مکمل طور پہ‬
‫مہرین کے اوپر چڑھ گیا اور‬
‫مہرین کے چہرے کو اپنے‬
‫ہاتھوں میں لے کہ ہونٹوں‬
‫کو چومنے لگا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے نیچے اس‬
‫کے ہونٹوں کو چوم رہی‬
‫تھی اور فہد کا بے حال انداز‬
‫اس کو پرانی یادوں میں‬
‫کھینچتا ہی جا رہا تھا‬

‫فہد کا لن تن چکا تھا اور‬


‫مہرین لن کی اس طرح کی‬
‫چبھن کی اب عادی تھی‪ ,‬فہد‬
‫جب چومتا چومتا پیٹ تک‬
‫آتا تو واپسی پہ پیٹ کو ننگا‬
‫کر جاتا‬

‫مہرین مکمل طور پہ بہک‬


‫چکی تھی اور اب شادی شدہ‬
‫ہونے کیوجہ سے مہرین کی‬
‫پھدی میں سینسر تیزی سے‬
‫اسے بھگونے لگے تھے‪,‬‬

‫فہد نے بنا اجازت مہرین کو‬


‫گرم جوشی سے چومتے‬
‫ہوئے سلیپنگ سوٹ کی‬
‫شرٹ کے بٹنز کو کھولنا‬
‫شروع کیا اور ایک منٹ کے‬
‫اندر اندر سارے بٹن کھل کہ‬
‫چھاتی کو عریاں کر چکے‬
‫تھے‪ ,‬اور فہد کے سامنے‬
‫ناف سمیت سارا پیٹ‬
‫چومنے چاٹنے اور کاٹنے‬
‫کیلیے حاضر خدمت تھا‬
‫مہرین فہد کو دبا دبا کہ جسم‬
‫کا مزہ چکھا رہی تھی‪ ,‬اور‬
‫یہ ذائقہ فہد کیلیے ہر گز نیا‬
‫نہ تھا بس فرق صرف اتنا‬
‫تھا کہ اتنے سالوں میں‬
‫مہرین کی جسمانی پیچ و خم‬
‫کئی گنا دلکش کو چکی تھی‬

‫مہرین کی بے بسی کی انتہا‬


‫ہو چکی تھی اور اب اسکی‬
‫ٹانگوں کے درمیان سوراخ‬
‫کسی طاقتور لن کی‬
‫ایکسرسائز کروانا چاہ رہا‬
‫تھا‪,‬‬

‫مہرین فہد کے لن کی لمبائی‬


‫سے ہر گز انجان نہ تھی‪,‬‬
‫اور اپنے شوہر کے لن سے‬
‫سہاگ رات پہ ہی ایک تقابلی‬
‫منظر کشی کر چکی تھی‪,‬‬
‫مہرین کا محتاط اندازہ یہ تھا‬
‫کہ ہو نہ ہو فہد کا لن اسکے‬
‫شوہر کے لن سے بڑا ہی‬
‫ہے اور اسکا یہ اندازہ اب‬
‫درست یا غلط ثابت ہونا تھا‬

‫مہرین ننگے بدن کے ساتھ‬


‫فہد کو چومتے ہوئے نیچے‬
‫کر کہ خود اوپر آ گئی اور‬
‫جلد جلدی اپنے آپ کو شرٹ‬
‫کی قید سے مکمل آ زاد‬
‫کروانے کے بعد ٹانگیں‬
‫پھیال کہ فہد کے پیٹ پہ‬
‫پورے وزن کہ ساتھ بیٹھ‬
‫گئی‬

‫بیٹھ کہ مہرین نے ایک‬


‫شیطانی مسکراہٹ دے کہ‬
‫دونوں ہاتھوں کی مدد سے‬
‫اپنے لمبے اور گھنے بالوں‬
‫کو سمیٹنے کیلیے بازوؤں‬
‫کو اٹھا کہ اپنی چھاتیوں‬
‫جھٹکے سے ہال کہ ہنسنے‬
‫لگی‬
‫فہد مکمل طور پہ صبر ختم‬
‫کر چکا تھا اور اٹھ کہ‬
‫چومنے لگا تو مہرین نے‬
‫ہنس کہ اسے رکنے کا کہا‬

‫مہرین‪ :‬صبر کر لو بال‬


‫سمیٹ لوں ذرا‬
‫فہد بے صبری سے چھاتیاں‬
‫نوچنے لگا‪ ,‬تجربے اور‬
‫عمر میں زیادہ ہونے کی‬
‫وجہ سے مہرین کو فہد کی‬
‫اس بے صبری پہ پیار آیا‬
‫اور وہ جلدی جلدی بالوں کو‬
‫سمیٹ کہ فہد کی شرٹ کو‬
‫سمیٹ کہ اوپر اٹھا کہ فہد‬
‫کے سینے کو چومنے لگی‬
‫اور دانتوں سے اس کے‬
‫نپلز کو کاٹنے لگی‬
‫فہد کا سارا سینا ننگا تھا‬
‫اور ناف سے کافی نیچے‬
‫تک جسم بظر آ رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین نے سخت لن کو اپنے‬
‫وزن میں لے کہ مسلنا روکا‬
‫اور اتر کہ فہد کا لن ٹراؤزر‬
‫سے باہر نکال لیا‪ ,‬اور لن‬
‫کو پکڑ کہ اس کے ساتھ‬
‫ایک پیار بھرا کھیل شروع‬
‫کر دیا اور ایک دو بار لن کا‬
‫بوسہ بھی لے لیا‬

‫فہد بے بس حالت میں اپنے‬


‫لن کو پکڑ کہ مسلنے لگتا‬
‫تو شرارتی مہرین فہد کے‬
‫ہاتھوں کو جھٹک دیتی‪ ,‬گویا‬
‫وہ فہد کو یہ جتالنا چاہ رہی‬
‫ہو کہ اسوقت یہ لن اسکے‬
‫استعمال میں ہے لہٰ ذامہرین‬
‫کو اسکی مرضی کرنے دی‬
‫جائے۔‬
‫فہد آنہیں بھرتا مہرین سے‬
‫لطف اندوز لمحات کا متالشی‬
‫تھا‪ ,‬اور یقینا ً مہرین فہد کے‬
‫مزے کو دوباال کرنے میں‬
‫کوئی کسر نہیں چھوڑے گی‬

‫مہرین نے لن کو آہستہ‬
‫آہستہ سہالنا شروع کیا تو‬
‫فہد کی بے بسی سے آنہیں‬
‫بلند ہو رہی تھی‪,‬‬

‫فہد کے ذہن میں مہندی والی‬


‫رات کا خواب گھومنے لگا‪,‬‬

‫فہد کو ایسا لگنے لگا کہ‬


‫جیسے یہ وہی خواب ہی ہے‬
‫جو دہرایا جا رہا ہے اسلیے‬
‫اس کو ایک بے یقینی کی‬
‫کیفیت نے بھی گھیر لیا مگر‬
‫ہر بار جب مہرین لن کو‬
‫اوپر سے نیچے ہاتھ سے‬
‫سہالتی تو آنہیں سسکاریاں‬
‫بلند ہوتی جاتی‬

‫مہرین نے فہد کی آنہوں کو‬


‫بڑھانے کیلیے اپنی محنت‬
‫کو بڑھا دیا اور تیزی سے‬
‫مٹھ مارنے لگی‪ ,‬فہد اس‬
‫خواب والی رات کو یاد‬
‫کرتے ہی لن کو مہرین کے‬
‫چہرے کے پاس کرنے لگا‬
‫تو مہرین پیچھے کو ہو‬
‫گئی‪,‬‬

‫فہد نے مہرین کی طرف‬


‫التجائی انداز میں دیکھ کہ‬
‫مہرین کے سر کو لن کی‬
‫طرف دبانا شروع کر دیا‬

‫مہرین کے چہرے پہ کراہت‬


‫بتا رہی تھی کہ اس نے‬
‫ابھی تک پریکٹیکلی لن نہیں‬
‫چوسا اس لیے وہ ہچکچا‬
‫رہی ہے‪ ,‬مگر کچھ ایک دو‬
‫تکرار کے بعد مہرین نے لن‬
‫کو منہ میں لے کہ چوپا‬
‫شروع کر دیا‪,‬‬

‫لن چوسنے کی ایک‬


‫مخصوص آواز آنے لگی‬
‫اور مہرین اپنے گالب‬
‫جیسے ہونٹوں میں لن کو‬
‫گرفتار کر کہ اندر باہر لے‬
‫جا رہی تھی اور فہد کی‬
‫آنہیں‬

‫آہ مہرین باجی آہ ہمممم اف‬


‫آہممم باجی‬

‫فہد ایک ہاتھ سے مہرین‬


‫کے پستان کو بھی سہالنے‬
‫لگ جاتا اور جب قریب تھا‬
‫کہ فہد ڈسچارج ہو جاتا تو‬
‫مہرین نے رک کہ شرارت‬
‫سے بھرا ایک جملہ ماضی‬
‫کے دریچوں سے نکال کہ‬
‫دہرایا‬

‫مہرین‪ :‬بھائی منہ میں‬


‫ڈسچارج ہو جانا لیکن پلیز‬
‫پھدی میں نہ ہونا‬

‫یہ بات کہہ کہ دوبارہ سے‬


‫لن کو منہ میں لے لیا اور‬
‫دونوں کا قہقہہ اس لمحے‬
‫کو روک گیا اور لن کا چوپا‬
‫وقتی طور قہقہقہ کی نذر ہو‬
‫گیا‬

‫فہد مزے کی بلندی پہ تھا‬


‫اسلیے دوبارہ سے مہرین‬
‫کو چوسنے کا کہہ کہ لیٹ‬
‫گیا اور مہرین کو لن‬
‫ڈسچارج کروانے کیلیے کچھ‬
‫لمحے لگے اور فہد کا گاڑھا‬
‫الوا مہرین کے منہ میں‬
‫پچکارنے لگا‪ ,‬مہرین نے لن‬
‫کی پچکاریوں کو حلق میں‬
‫لگنے کے بعد لن کی ٹوپی‬
‫کو اپنے دونوں رخساروں‬
‫سے لگا لگا کہ سارا سپرم‬
‫منہ کے ارد گرد لگا لیا اور‬
‫آخری ایک دو پچکاریاں‬
‫ہونٹوں سے چوم کہ زبان‬
‫سے چاٹ لیں‪,‬‬
‫عورت کی نفسیات اذل سے‬
‫ایک معمہ رہی ہیں‪ ,‬کوئی‬
‫مائی کا لعل یہ گتھی نہ‬
‫سلجھا سکا کہ اس صنف‬
‫کی اصلی طلب ہے کیا؟‬
‫عورت جذبات کے معاملے‬
‫میں گرگٹ سے بھی آگے‬
‫کی چیز ہے‬

‫مہرین فہد کے لن کو چوس‬


‫چکی تھی‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫کے درمیان فی الحال‬
‫خوشگوار رشتے کی بحالی‬
‫لو چکی تھی‪ ,‬فہد اپنے لن‬
‫کو ڈسچارج کروا کہ بہت‬
‫سکون سے لیٹا اپنے حواس‬
‫بحال کر رہا تھا‪ ,‬اور مہرین‬
‫وہیں لن پہ منہ رکھ کہ اپنے‬
‫گیلے چہرے کو اس چکنائی‬
‫کی پھسلن پہ رگڑ رہی تھی‬

‫فہد‪ :‬باجی؟‬
‫مہرین نے وہیں اپنا چہرہ‬
‫ٹکا کہ بنا فہد کیطرف بنا‬
‫دیکھے ہمم سے جواب دیا‬

‫فہد‪ :‬باجی آپ نے پہلے بھی‬


‫کیا ہے یہ؟ میرا مطلب اپنے‬
‫شوہر کا بھی‬
‫مہرین لن سے اسطرح اپنا‬
‫چہرہ مس کیے ہوئی تھی‬
‫جیسے کوئی مقدس چیز ہو‪,‬‬
‫اور وہیں سے نہ میں سر‬
‫ہال کہ بنا بولے فہد کو‬
‫سمجھا دیا‬

‫فہد‪ :‬باجی؟ اٹھ جائیں اب‬

‫مہرین نے اپنا گیال چہرہ‬


‫جس پہ فہد کا سارا سپرم‬
‫لگا ہو تھا‪ ,‬وہاں سے اٹھایا‬
‫اور فہد کی طرف دیکھا‬

‫مہرین‪ :‬کیا مسلہ ہے اب؟‬


‫اس پہ بھی اعتراض ہے؟‬

‫مہرین کا لہجہ کافی ناخوش‬


‫سا تھا‪ ,‬شاید وہ اندر سے‬
‫خوش تھی اور اوپر سے نا‬
‫خوش ہونے کا دکھاوہ کر‬
‫رہی ہو‬
‫فہد‪ :‬اف ہو باجی‪ ,‬کیا ہو گیا‬
‫ہے‪ ,‬مجھے کوئی اعتراض‬
‫نہیں‪ ,‬بس اسے کھا نہ جانا‬

‫فہد نے ماحول کو مزاح کی‬


‫طرف لیجانے کیلیے بات کی‬
‫اور مہرین نے حقیقت میں‬
‫فہد کے لن کو دانتوں سے‬
‫کاٹ لیا‪ ,‬اس کاٹنے کی شدت‬
‫تو اتنی نہیں تھی لیکن ایک‬
‫سینٹیو پارٹ ہونے کی وجہ‬
‫سے فہد کی اونچی آہ نکل‬
‫گئی اور وہ اٹھ کہ بیٹھ گیا‬
‫اور اپنے لن کو سہالنے لگا‬

‫فہد‪ :‬اف ہو باجی‪ ,‬کیا ہو گیا‬


‫ہے‪ ,‬کس بات کا غصہ نکال‬
‫رہی ہیں مرغے پہ‬

‫مہرین نے پاس پڑے کسی‬


‫کپڑے سے اپنا چہرہ صاف‬
‫کیا اور ننگے دھڑ کو لیے‬
‫فہد کے برابر آ کہ بیٹھ گئی‬

‫مہرین‪ :‬میرے شوہر کو‬


‫اورل سیکس سے نفرت ہے‬

‫فہد‪ :‬کیوں؟میرا مطلب آپ‬


‫نے کیسے پوچھا؟‬
‫مہرین‪ :‬وہ جو سیکس‬
‫سٹوریز تم التے تھے وہ‬
‫پڑھ پڑھ کہ میں تو یہی‬
‫سمجھتی رہی کہ یہ الزمی‬
‫ہوتا ہے لیکن جب میں نے‬
‫انکے مرغے کو پکڑ کہ‬
‫ابھی چومنے کی ہی کوشش‬
‫کی تھی تو وہ بھڑک اٹھے‪,‬‬
‫میں تو اچھی خاصی گھبرا‬
‫گئی اور تب سے لے کہ اب‬
‫تک ایک عام سیکس الئف‬
‫گزار رہی ہوں‪ ,‬وہ سیکس‬
‫سٹوریز میں تو زیادہ ہی‬
‫رومانس لکھا ہوتا ہے‬

‫فہد‪ :‬باجی ایک بات‬


‫پوچھوں؟‬

‫مہرین نے ہاں میں سر ہال‬


‫کہ سوال پوچھنے کی اجازت‬
‫دی تو فہد بہت ایکسائیٹڈ ہو‬
‫کہ بولنے لگا‬
‫فہد‪ :‬باجی آپ میرے ساتھ‬
‫بھی سیکس کریں گی‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں‪ ,‬سیکس کی‬


‫بات کرتے ہو میں تو تمہارہ‬
‫بچہ بھی پیدا کرونگی‬
‫مہرین ابھی بھی نہ جانے‬
‫کس غصے میں تھی اسلیے‬
‫ایسا جال کٹا جواب دیا‬

‫فہد‪ :‬باجی میں نے کبھی‬


‫سیکس نہیں کیا‬

‫مہرین‪ :‬بکواس‬

‫فہد‪ :‬آپکی قسم‬


‫مہرین‪ :‬تم شادی کر لو فہد‬

‫فہد‪ :‬آپ سے کر لیتا ہوں‬

‫مہرین‪ :‬جب میں چاہتی تھی‬


‫تب تو کی نہیں تم نے‬

‫فہد‪ :‬باجی اگر ہم چاہتے بھی‬


‫تو ہم کیا شادی کر سکتے‬
‫تھے ؟ ہم تو بس چوری‬
‫چھپے ہی یہ سب کر سکتے‬
‫تھے اور اب بھی چوری ہی‬
‫کر رہے ہیں کسی کو بتا تو‬
‫نہیں سکتے‬

‫مہرین‪ :‬ہاں جیسے حاجی‬


‫انکل کے بچے کرتے تھے‬

‫مہرین‪ :‬ہاہاہا ہاں فہد‪ ,‬کتنا‬


‫مزہ آیا کرنا تھا جب میں‬
‫بھی تمہیں کہتی کہ میرے‬
‫منہ میں ڈسچارج ہونا‬

‫فہد‪ :‬کیوں باجی؟ کیا مسلہ‬


‫ہے؟ اب تو ورجینٹی کا بھی‬
‫مسلہ نہیں ہے‬

‫مہرین‪ :‬تم سمجھتے نہیں ہو‬


‫یار‪ ,‬میں اب اپنے شوہر‬
‫سے یہ سب کر کہ چیٹنگ‬
‫نہیں کرنا چاہتی‪ ,‬ایسا نہیں‬
‫ہے کہ تم سے محبت نہیں‬
‫کرتی‪ ,‬اگر تو محبت کا ثبوت‬
‫مانگتے ہو تو اتار دیتی ہوں‬
‫پاجامہ ابھی‬

‫فہد کچھ دیر خاموش رہا اور‬


‫مہرین اپنے ننگے جسم کو‬
‫بے باک انداز میں پھیالئے‬
‫اسکے برابر میں لیٹی ہوئی‬
‫تھی‬
‫فہد‪ :‬باجی‪ ,‬آپ ثبوت ہی دے‬
‫دو‪ ,‬مجھے ثبوت چاہیے‬

‫فہد کا شرارتی انداز ہنسا‬


‫دینے واال تھا اور دونوں‬
‫ہنسنے لگے مہرین فہد کو‬
‫پیار بھرے انداز میں مارنے‬
‫لگی اور فہد مار کھاتا کھاتا‬
‫مہرین پہ آ گیا اور اس کے‬
‫جسم پہ گدگدی کرنے لگا‬
‫جس سے مہرین کا ہنس‬
‫ہنس کہ برا حال ہو نے لگا‬
‫اور ایک دو لمحے ایک‬
‫دوسری کی کسنگ کرنے‬
‫بعد مہرین واشروم چلی گئی‬
‫اور فہد وہیں لیٹا مہرین کی‬
‫واپسی کے بعد اسکی پھدی‬
‫مارنے کیلیے پالننگ کرنے‬
‫لگا مگر کچھ دیر بعد مہرین‬
‫بھاگی بھگی کمرے میں‬
‫واپس آئی اور جلدی جلدی‬
‫اپنے سلیپنگ ڈریس کی‬
‫شرٹ کو اٹھا کہ پہننے لگی‬

‫فہد مہرین کی برق رفتاری‬


‫پہ حیران تھا اور مہرین‬
‫جلدی جلدی میں شرٹ پہن‬
‫کہ امی کہہ کہ بھاگ گئی‪,‬‬
‫فہد بھی گھبرا گیا اور وہ‬
‫سمجھا کہ امی آ گئیں ہیں‬
‫شاید اسلیے وہ بھی کپڑے‬
‫تیزی سے پہننے لگا اور‬
‫وہیں بیٹھا مہرین کا انتظار‬
‫کرنے لگا‬

‫کچھ دیر بعد مہرین کی‬


‫چیخنے کے جیسے فہد کو‬
‫بالنے کی آواز آئی تو فہد‬
‫بھی اپنی امی کے کمرے‬
‫کیطرف لپکا تو انکی امی‬
‫کی حالت غیر ہو چکی تھی‬
‫اور وہ چارپائی سی نیچے‬
‫گری پڑی تھیں‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین ان کو جلدی جلدی‬
‫ہسپتال لے گئے اور وہاں جا‬
‫کہ پتہ چال کہ ان کو دل کا‬
‫دورہ پڑا ہے‬

‫ساری رات ہسپتال میں اپنی‬


‫ماں کیلیے پریشان رہے اور‬
‫اگلی صبح جب انکی امی کی‬
‫طبیعت سنبھلی تو ان کو‬
‫وارڈ میں شفٹ کر دیا گیا‪,‬‬
‫مہرین رات سے ہی اسی‬
‫سلیپنگ ڈریس میں ہسپتال‬
‫میں اپنی ماں کے ساتھ تھی‬
‫اسلیے فہد گھر گیا اور اپنی‬
‫بہن کیلیے کپڑے لے کہ آیا‬
‫جو مہرین نے وہیں تبدیل‬
‫کیے‬

‫ایک ہفتہ ہسپتال میں رہنے‬


‫سے فہد اور مہرین بہت‬
‫پرہشان تھے اور انکے لیے‬
‫اسوقت صرف اور صرف‬
‫اپنی امی کی طبیعت سب‬
‫سے ضروری تھی‪,‬‬

‫ہسپتال سے واپس آ کہ‬


‫دونوں بہن بھائی اپنی ماں‬
‫کے ساتھ ہی سونے لگے‬
‫اور پریشانی کا عالم یہ تھا‬
‫کہ وہ اس حوس والے کام‬
‫سے بالکل باز رہے‬
‫فہد کے مالی حاالت پہلے ہی‬
‫خراب تھے اوپر سے امی پہ‬
‫کافی خرچہ ہو گیا اور فہد‬
‫کو مہرین کے سامنے تمام‬
‫حاالت کی تفصیل رکھنی‬
‫پڑی‪ ,‬مہرین کے پاس جتنے‬
‫بھی پیسے تھے اس نے فہد‬
‫کو دیدیے اور فہد نے بھی‬
‫وہ پیسے باامر مجبوری‬
‫رکھ لیے‪ ,‬مہرین آئندہ آنے‬
‫والے دنوں میں بھی فہد کو‬
‫پیسے دینے پہ اصرار کرنے‬
‫لگی مگر فہد نے تو پہلے‬
‫ہی بمشکل وہ پیسے قبول‬
‫کیے تھے اس لیے مزید‬
‫پیسے لینے سے صاف‬
‫انکار کر دیا‬

‫یہ دن جو مہرین اپنی ماں‬


‫کے گھر گزارنے آئی تھی‬
‫وہ ختم ہو گئے‪ ,‬مہرین اور‬
‫فہد جس رات ایک دوسرے‬
‫کیساتھ اپنی حوس پوری کر‬
‫رہے تھے اسی رات انکی‬
‫ماں موت کے منہ میں جا‬
‫سکتی تھی‪ ,‬کچھ لمحوں کی‬
‫چوک ساری زندگی کا‬
‫پچھتاوا بن سکتی تھی‪,‬‬
‫انکے دلوں میں یہ وہم بیٹھ‬
‫گیا تھا کہ انکے ایسا کرنے‬
‫کی سزا کے طور پہ قدرت‬
‫نے یہ مصیبت ان پہ نازل‬
‫کی ہے‪ ,‬اسلیے اس رات پہ‬
‫کوئی بحث کیے بنا مہرین‬
‫اور فہد نے دوبارہ ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ یہ کام‬
‫کرنے کی جرات نہیں کی‬

‫مہرین کا شوہر واپس‬


‫پاکستان آیا تو سیدھا اپنے‬
‫سسرال اپنی بیوی کے پاس‬
‫آیا‪ ,‬مہرین اپنے شوہر کے‬
‫ساتھ واپس چلی گئی مگر‬
‫جاتے جاتے اپنی تمام تر‬
‫توجہ پیچھے ہی چھوڑ چکی‬
‫تھی‪ ,‬ماں کی بیماری کی‬
‫شدت‪ ,‬فہد کے خراب مالی‬
‫حاالت مہرین کو اسکے گھر‬
‫میں ہر وقت بیچین رکھتے‬

‫مہرین کے سسرال میں‬


‫حاالت روز بروز کشیدہ‬
‫ہوتے جارہے تھے اسلیے‬
‫مہرین کے شوہر نے الگ‬
‫گھر میں شفٹ ہونے کا ارادہ‬
‫کیا‪ ,‬مہرین کے شوہر کا‬
‫ایک نیم تعمیر شدہ مکان تھا‬
‫جس کی تعمیر شروع کروا‬
‫دی گئی اور ایک دو ماہ میں‬
‫وہ گھر مکمل طور پہ تیار‬
‫ہو گیا‪ ,‬وہ گھر کافی کھال‬
‫اور شاندار تھا‪ ,‬جیسے ہی‬
‫وہ گھر مکمل ہوا مہرین اور‬
‫اسکا شوہر اس بڑے گھر‬
‫میں شفٹ ہو گئے‬
‫مہرین کا گھر فہد کے گھر‬
‫سے آدھے گھنٹے کی‬
‫مسافت پہ تھا اور سب سے‬
‫اچھی بات یہ کہ اب مہرین‬
‫کو اپنی ماں سے ملنا زیادہ‬
‫آسان ہو گیا تھا اور اب وہ‬
‫بنا روک ٹوک کہ آ جا سکتی‬
‫تھی‪ ,‬فہد بھی اپنی ماں کو‬
‫لے کیہ ہفتہ یا پندرہ دن بعد‬
‫آجایا کرتا‬
‫فہد اور مہرین کے درمیان‬
‫ہونے والے جنسی لمحات‬
‫کو دونوں ہی اپنے ذہنوں‬
‫سے نہیں نکال پا رہے‬
‫تھے‪ ,‬فہد اپنی بہن سے‬
‫برمال یہ کہہ چکا تھا کہ اس‬
‫رات امی کی اس طرح کی‬
‫حالت کے ذمہ دار وہ دونوں‬
‫ہیں‪ ,‬اس چیز کی احساس‬
‫شرمندگی تو بہر حال دونوں‬
‫کو تھا اس لیے انکا رشتہ‬
‫اب ایک عام بہن بھائی کے‬
‫جیسا ہو چکا تھا جن میں‬
‫کسی طرح کی حوس کا‬
‫عنصر نہیں پایا جاتا‪ ,‬یہ‬
‫تبدیلی بہت حادثاتی تھی‪,‬‬
‫ماں کو کھو دینے کا ڈر فہد‬
‫کو بدل کہ رکھ چکا تھا‪ ,‬اور‬
‫سب سے بڑا مسلہ موقعہ‬
‫کی عدم دستیابی بھی تھا‪,‬‬
‫مہرین زیادہ تر اپنے شوہر‬
‫کے ساتھ ہی آتی اور فہد اگر‬
‫اپنی امی کو لے کہ جاتا تو‬
‫وہ بھی تنہائی کے مواقع کو‬
‫کم کر دیتی‬

‫فہد جب مہرین سے گلے‬


‫ملتا تو اسکے جسم پہ ہاتھ‬
‫اسطرح پھیرتا جیسے کہ‬
‫اسے مزہ آرہا ہو اور مہرین‬
‫بھی کسی نہ کسی ذومعنی‬
‫لفظ کے استعمال سے باز نہ‬
‫آتی‪ ,‬اور مہرین کے ذومعنی‬
‫الفاظ فہد کو اسکی بہن کی‬
‫ازدواجی زندگی کے حاالت‬
‫سے بھی باخبر رکھتے‪,‬‬
‫مگر اب دونوں اس رات‬
‫والے صدمے کو یاد کر کہ‬
‫اس طرف قدم بڑھانے سے‬
‫ڈرتے تھے۔‬

‫مہرین کی شادی کو ایک‬


‫سال گزر چکا تھا مگر اوالد‬
‫کی ابھی تک کوئی امید نہیں‬
‫ہو رہی تھی‪ ,‬یہ بات اندر ہی‬
‫اندر سے مہرین کو پریشان‬
‫تو کر رہی تھی مگر مہرین‬
‫کا شوہر اس طرح کی‬
‫خرافاتی سوچ کا مالک ہر‬
‫گز نہ تھا کہ اسے اس بات‬
‫پہ طعنہ مارتا‪ ,‬مہرین کے‬
‫شوہر کو کمپنی کی طرف‬
‫سے بہت ہی بہترین مراعات‬
‫پہ بیرون ملک کسی‬
‫پراجیکٹ کے ہیڈ کے طور‬
‫پہ جانے کی آفر ہوئی تو یہ‬
‫مہرین کے دل پہ قیامت بن‬
‫کہ گزری‬

‫مہرین اپنے شوہر سے بے‬


‫پناہ محبت کرنے لگی تھی‪,‬‬
‫اتنی محبت کہ اب اس نے‬
‫فہد کے بارے میں اس انداز‬
‫سے سوچنا ہی چھوڑ دیا‬
‫تھا‪ ,‬اور ایسے میں اسکا‬
‫شوہر بیرون ملک جانے کی‬
‫آفر کو انکار نہیں کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین کم پیسوں کے‬
‫ساتھ گزارا کرنے کیلیے‬
‫بھی راضی تھی مگر اسکا‬
‫شوہر اپنے پروفیشن کو لے‬
‫کہ کسی کی نہ سننے واال‬
‫تھا‬

‫مہرین کا شوہر ایک انتہائی‬


‫پروفیشنل انسان تھا اسلیے‬
‫اسکو اس فیصلے سے‬
‫مہرین کا کوئی جذباتی حربہ‬
‫نہیں روک سکا‪ ,‬ایک عورت‬
‫ہونے کے ناطے مہرین کو‬
‫اس بات کا کافی گہرا صدمہ‬
‫بھی تھا کہ اسکا شوہر اپنے‬
‫کام کو لے کہ اسقدر جذباتی‬
‫ہے کہ اسکو اپنی بیوی کی‬
‫بھی پرواہ نہیں‪ ,‬مہرین اور‬
‫اسکے شوہر کی کشیدگی کی‬
‫خبریں اور وجوہات فہد اور‬
‫اسکی امی تک بھی پہنچی‬
‫تو وہ بھی اسے دالسے دے‬
‫دے کہ سمجھانے لگے‬
‫لیکن مہرین کا گلہ بہر حال‬
‫جائز تھا‬

‫مہرین کے شوہر کے‬


‫پاکستان سے جانے میں‬
‫ایک ماہ سے بھی کم وقت‬
‫رہ گیا تھا کہ خدا نے انکو‬
‫اوالد کی امید سے نوازا‪,‬‬
‫مہرین نے اس خبر کو اپنے‬
‫شوہر کو اس امید سے‬
‫سنائی کہ شائد وہ اس بات‬
‫کیوجہ سے ہی رک جائے‬
‫مگر مہرین کا شوہر اب اس‬
‫آفر پہ دستخط کر چکا تھا‬
‫اور اب اسکی اس فیصلے‬
‫سے واپسی ناممکن تھی‬
‫اسلیے اپنی بیوی کو‬
‫خوبصورت اور پرسکون‬
‫مستقبل کی امیدیں سنا کہ‬
‫اپنے فیصلے پہ قائم رہا اور‬
‫اپنی تیاریاں اسی طرح‬
‫جاری رکھی‬

‫دوسری طرف فہد اور اسکی‬


‫ماں اپنے خراب مالی حاالت‬
‫کیوجہ سے دو وقت کی‬
‫روٹی بھی بمشکل پوری کر‬
‫پا رہے تھے‪ ,‬ایسے میں‬
‫مہرین کے شوہر نے ایک‬
‫بہت ہی خوبصورت فیصلہ‬
‫کیا‪ ,‬کہ اگر فہد اور اسکی‬
‫امی انکے گھر شفٹ ہو‬
‫جائیں تو اسکی اس ملک‬
‫سے غیر حاضری میں وہ‬
‫مہرین کا خیال بھی رکھ لیں‬
‫گے اور دوسرا یہ کہ فہد‬
‫کے اخراجات میں کرایہ کا‬
‫بوجھ بھی نہیں رہے گا‪,‬‬
‫مگر مہرین کے شوہر کو‬
‫اس بات کا ہر گز اندازہ نہیں‬
‫تھا کہ فہد اور مہرین کے‬
‫درمیان جس نوعیت کی‬
‫جسمانی کشش ہے‪ ,‬اسکے‬
‫اس فیصلے سے دونوں بہن‬
‫بھائی ہڑبڑا جائیں گے‪ ,‬اور‬
‫شاید اس فیصلے کو ماننے‬
‫سے صاف انکار کر دیں‬

‫مہرین کے شوہر نے مہرین‬


‫سے لمبی اور سوالوں سے‬
‫بھرپور تمہیدی بات چیت‬
‫کے بعد اپنے اس آئیڈیا کے‬
‫بارے میں بتایا کہ وہ فہد‬
‫اور اسکی امی کو یہاں شفٹ‬
‫کرنا چاہتا ہے تو مہرین‬
‫ہڑبڑا گئی‪ ,‬اور لمبی تفصیلی‬
‫بحث کے بعد مہرین نے بھی‬
‫اس بات کو ایک بار اپنی‬
‫امی اور فہد سے ڈسکس‬
‫کرنے کا کہہ دیا‬

‫مہرین جانتی تھی کہ ایک‬


‫ہی گھر میں اگر وہ فہد کے‬
‫ساتھ رہے گی اور وہ بھی‬
‫اپنے شوہر کی غیر‬
‫موجودگی میں‪ ,‬تو اتنے‬
‫سالوں سے جو گناہ اے وہ‬
‫بچتی آئی ہے وہ اس سے‬
‫الزمی سرزد ہو جائگا‪,‬‬
‫مہرین کیسے اپنے شوہر کو‬
‫یہ کہتی کہ وہ اپنے بھائی‬
‫کیساتھ ایک ہی چھت تلے‬
‫نہیں رہ سکتی‪ ,‬مگر فہد کے‬
‫لیے مہرین کا اسوقت ایسا‬
‫سہارا بننا بھی نا گذیر ہو‬
‫چکا تھا‪,‬‬

‫فہد اپنی بہن کی بارہا مالی‬


‫امداد کی پشکش ٹھکرا چکا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین نے بہت سوچ‬
‫سمجھ کہ باآلخر اگلی صبح‬
‫اپنی امی کے گھر جانے کا‬
‫ارادہ کیا‪ ,‬ایک تو اس نے‬
‫اپنی پریگنینسی کی خبر‬
‫دینی تھی دوارا یہ شفٹ‬
‫ہونیواال معاملہ بھی فہد کے‬
‫سامنے رکھنا تھا‬

‫مہرین اور اسکا شوہر‬


‫مٹھائیاں لے کہ اپنی ماں‬
‫کے گھر پہنچے اور‬
‫خوشخبری سنانے کے بعد‬
‫سارا دن اور ایک رات فہدکو‬
‫اس بات پہ مناتے رہی کہ‬
‫وہ مہرین کے گھر میں ہی‬
‫شفٹ ہو جائیں مگر فہد اس‬
‫بات کو اپنی توہین تصور کر‬
‫کہ ہر گز نہیں مان رہا تھا‬

‫مہرین کا شوہر فہد کیلیے‬


‫بہت عزت کے مقام پہ تھا‬
‫اسلیے اس نے ہر طرح سے‬
‫فہد کو منانے کی کوشش کی‬
‫اور باآلخر مذاکرات اس ایک‬
‫شرط پہ کامیاب ہوئے کہ فہد‬
‫اور اسکی امی مہرین کے‬
‫گھر پہ اوپر والے پورشن پہ‬
‫بطور کرایہ دار ہی رہیں‬
‫گے‪ ,‬اور وہ اپنا الگ کھانا‬
‫اور بجلی گیس کا بل بھی ادا‬
‫کریں گے‪,‬‬

‫طویل اور مشکل بحث کے‬


‫بعد مہرین اور اسکا شوہر‬
‫فہد کی ہر شرط مانتے جا‬
‫رہے تھے کیونکہ فہد کی‬
‫اتنی سی ہاں بھی بہت‬
‫مشکل سے ہوئی تھی‬
‫چونکہ مہرین اب ماں‬
‫بننےوالی تھی اس وجہ سے‬
‫اسکے شوہر کی یہ پریشانی‬
‫کہ مہرین کا خیال کون‬
‫رکھے گا‪ ,‬حل ہو گئی‪,‬‬

‫فہد اسکے شوہر کے بیرون‬


‫ملک جانے سے ایک ہفتہ‬
‫پہلے ایک لوڈر وہیکل پہ‬
‫سامان لیے ایک دن آگیا‪,‬‬
‫جب سامان اس خوبصورت‬
‫اور عالیشان گھر کے‬
‫سامنے مزدور اتارنے لگے‬
‫تو ایک نظر سامان کو‬
‫دیکھیں اور ایک نظر اس‬
‫گھر کو‪ ,‬فہد کے گھر کا‬
‫سامان اتنا پرانا اور اوڈ‬
‫فیشن تھا کہ لگ ہی نہیں رہا‬
‫تھا کہ اس گھر کا سامان‬
‫ہے‬
‫فہد کا سارا سامان فہد کے‬
‫بہنوئی نے سٹور روم کی‬
‫نظر کر دیا اور جس اوپر‬
‫والے حصے میں انہیں رہنا‬
‫تھا وہا پہلے ہی سارا‬
‫فرنیچر موجود تھا‪ ,‬اسلیے‬
‫برتنوں کے عالوہ ان کو‬
‫کسی اور چیز کی ضرورت‬
‫نہیں تھی‬
‫بہر حال فہد اور مہرین ایک‬
‫ہی گھر میں مگر الگ الگ‬
‫حصوں میں مقیم تھے اور‬
‫وہ دن آگیا جب مہرین‬
‫کےشوہر کو لمبے‬
‫عرصےکیلیے پاکستان سے‬
‫باہر جانا تھا‪ .‬مہرین بہت‬
‫دکھی تھی اس بات کو‬
‫لےکہ‪ ,‬سامان تیار تھا اور‬
‫فہد اور مہرین اسے‬
‫چھوڑنے کیلیے ائرپورٹ‬
‫تک جانے والے تھے‪,‬‬

‫سارے راستے مہرین گاڑی‬


‫کی پچھلی سیٹ پہ اپنے‬
‫شوہر کے سینے پہ سر رکھ‬
‫کہ بار بار جذباتی ہو رہی‬
‫تھی اور فہد ڈرائیور کے‬
‫برابر والی سیٹ پہ مہرین‬
‫کو طنز اور مزاح سے‬
‫ہنسانے کی کوشش کرتا رہا‪,‬‬
‫فہد ائرپورٹ کافی دور تھا‬
‫اور تقریبا ً دو گھنٹے کی‬
‫مسافت طہ کر کہ ائرپورٹ آ‬
‫ہی گیا‪ ,‬مہرین اپنے شوہر‬
‫کو روکنا چاہتی تھی مگر نہ‬
‫روک سکی‪ ,‬اسکا شور فہد‬
‫اور مہرین کو الوداع کہہ کہ‬
‫رخصت ہوگیا اور جاتے‬
‫جاتے فہد کو مہرین کا خیال‬
‫رکھنے کی انتہائی تلقین کر‬
‫گیا‪ ,‬مہرین پہلی بار فہد کی‬
‫آنکھوں کے سامنے اسکے‬
‫عالوہ کسی اور کے گلے‬
‫سے چمٹی رو رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫نے نظریں دوسری طرف کر‬
‫کہ اس منظر کو دیکھنے‬
‫سے ہی انکار کر دیا‪ ,‬شاید‬
‫اسکیلیے یہ برداشت کرنا ہی‬
‫ناممکن تھا کہ اسکی محبت‬
‫کسی اور کی ہو چکی ہے۔‬
‫شاعر شاعری کر کہ محبت‬
‫کو الفاظ میں ڈھالنے کی‬
‫کوشش کرتا ہے مگر محبت‬
‫اگر کسی سانچے میں ڈھل‬
‫سکتی ہوتی تو مشکل‬
‫معامالت آسان نہ ہو جاتے‪,‬؟‬
‫محبت کرنے والے خود‬
‫اپنے جذبات سمجھنے سے‬
‫قاصر ہوتے ہیں‪ ,‬یہ شاعری‬
‫کے بس کا روگ ہے ہی‬
‫نہیں کہ محبت پہ زبان‬
‫درازی کرے‬
‫فہد اور مہرین اس گھر میں‬
‫اپنی امی کے ساتھ رہ رہے‬
‫تھے‪ ,‬کچھ دن تو فہد اپنی‬
‫اناء کو برقرار رکھتے ہوئے‬
‫اوپر ہی اپنی امی کو رکھتا‬
‫مگر مہرین کے شوہر کے‬
‫جانے کے بعد مہرین کی‬
‫امی نے آہستہ آہستہ نیچے‬
‫ڈیرے ڈال لیے اور فہد بھی‬
‫اب نیچے ہی اپنی بہن والے‬
‫پورشن میں کہیں نہ کہیں‬
‫سو جاتا‬

‫مہرین اور فہد اپنی امی کا‬


‫خیال رکھنے میں کوئی کسر‬
‫نہ چھوڑتے اور جب کبھی‬
‫تنہائی کے لمحات میسر آتے‬
‫تو اس رات کو‪ ,‬جب انکی‬
‫امی کو ہارٹ اٹیک آیا تھا‪,‬‬
‫یاد کر کہ اپنے قدم پیچھے‬
‫ہٹا لیتے‪ ,‬یہ کشمکش دونوں‬
‫کا سکون برباد کر رہی تھی‪,‬‬
‫وہ باتوں باتوں میں ایک‬
‫دوسرے کو اس رات کے‬
‫واقعے کو صحیح یا غلط‬
‫ہونے کا سوال تو پوچھ‬
‫لیتے لیکن نہ ہی مہرین کے‬
‫پاس کوئی حتمی جواب تھا‬
‫اور فہد تو ایسے معامالت‬
‫میں زیادہ ہی گھبرا جاتا تھا‬
‫عموما ً فہد مہرین کے ساتھ‬
‫تنہائی میں بیھنے سے گریز‬
‫کرتا لیکن مہرین کو اپنے‬
‫ضبط پہ زیادہ ہی گمان تھا‬
‫اسلیے وہ فہد کے ساتھ کچھ‬
‫لمحے گزار لیتی‪ ,‬لیکن وہ‬
‫دونوں کب تک اس حقیقت‬
‫سے آنکھ چرا سکتے تھے‬
‫کہ ان کے درمیان محبت‬
‫وقتی طور پہ گرہن زدہ ہوئی‬
‫ہے‬
‫فہد کا مہرین کی صحت کو‬
‫لے کہ انتہائی حساس رویہ‬
‫مہرین کا دل موہ لیا کرتا‪,‬‬
‫جس دن مہرین کی طبیعت‬
‫میں ہلکی سی بھی کوئی‬
‫خرابی آتی‪ ,‬فہد بلی کیطرح‬
‫اپنی بہن کے آگے پیچھے‬
‫گھومنے لگ جاتا‪ ,‬بعض‬
‫اوقات تو مہرین کو فہد کی‬
‫اپنے تئیں اس فکر کو لے‬
‫کہ ترس آجاتا اور وہ اپنی‬
‫طبیعت کے نہ بگڑنے کی‬
‫دعائیں کرتی‪ ,‬کیونکہ فہد‬
‫مہرین کی ذرا سی بھی‬
‫تکلیف نہیں برداشت کر پاتا‬
‫تھا‪ .‬مہرین ایک اچھی‬
‫گائناکالوجسٹ سے اپنا‬
‫روٹین چیک اپ کرواتی تھی‬
‫اور فہد بنا ماتھے پہ شکن‬
‫ڈالے بہت ہی ذمہ داری سے‬
‫اپنی بہن کا چیک اپ‬
‫کروانے کیلیے اسے لے کہ‬
‫جاتا‬

‫مہرین کی ضروری میڈیسن‬


‫سے لے کہ اچھی خوراک‬
‫تک‪ ,‬فہد ایک ہلکی سی بھی‬
‫الپرواہی نہ کرتا بلکہ اگر‬
‫مہرین کوئی ال پرواہی کرنا‬
‫بھی چاہتی تو فہد مہرین کو‬
‫مختلف طریقوں سے منا کہ‬
‫ال پرواہی سے روک لیتا‪,‬‬
‫کبھی غصہ کرتا کبھی منت‬
‫سماجت کر کہ اور کبھی‬
‫جذباتی کر کہ فہد مہرین کی‬
‫صحت کا خیال رکھتا‬

‫فہد لگاتار دو ماہ مہرین کی‬


‫ایسے ہی خدمت کر رہا تھا‬
‫اور اسکی یہ سب کوششیں‬
‫کسی اللچ میں ہر گز نہ‬
‫تھی‪ ,‬وہ تو اپنی بہن کی‬
‫محبت کے ہاتھوں مجبور ہو‬
‫کہ یہ سب کر رہا تھا‪ .‬اور‬
‫مہرین فہد کے اس رویے‬
‫سے اسقدر خوش تھی کہ‬
‫اسکو اپنے بھائی پہ بہت‬
‫پیار آتا اور اسکا دل خوشی‬
‫سے پھولے نہ سماتا‬

‫مہرین کے گھر اس دور کے‬


‫حساب تمام جدید چیزیں‬
‫میسر تھی‪ ,‬ٹی وی‪ ,‬وی سی‬
‫آر‪ ,‬پی ٹی سی ایل کا کنکش‪,‬‬
‫مہرین کا شوہر ہفتے یا‬
‫پندرہ دن بعد مخصوص وقت‬
‫پہ کال کرتا اور اس دوران‬
‫مہرین اپنے شوہر کو بس‬
‫فہد کے قصیدے ہی سناتی‬
‫کہ فہد ایسے کرتا ہے‪,‬‬
‫ویسے کرتا ہے میرا ایسے‬
‫خیال رکھتا ہے‬

‫فہد اور مہرین کے درمیان‬


‫اس رات والی شرمندگی اور‬
‫تناؤ اب آہستہ آہستہ کم‬
‫ہونے لگی تھی‪ ,‬اب برف‬
‫پگھلنے لگی تھی‪ ,‬اب‬
‫مہرین فہد کو اپنے ہمدرد‬
‫کے روپ میں دیکھ رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین اور فہد اب‬
‫کھلے الفاظ میں اسکے‬
‫پریگنینسی کو ڈسکس کر‬
‫لیتے تھے‪ ,‬اور ظاہر ہے یہ‬
‫سب تو انکے لیے مجبوری‬
‫بھی تھی کیونکہ مہرین اور‬
‫کس سے یہ سب باتیں شئیر‬
‫کرتی‬

‫مہرین کے حمل کا تیسرا ماہ‬


‫چل رہا تھا اب اسکے پیٹ‬
‫میں پلنے واال بچہ اسکے‬
‫پیٹ کو ذرا سا پھال رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین فہد کو ہر ہر بات اور‬
‫مسلہ بے جھجھک بتا دیتی‬
‫اور فہد ہر بات کو سن کہ‬
‫حفظ ماتقدم کے طور پہ وہ‬
‫ہر حربہ اپنا لیتا جس سے‬
‫مہرین اور اسکے بچے کی‬
‫صحت بہتر رہے‬

‫ایک دوسرے کیلیے اسقدر‬


‫جاں نثاری اور حساس‬
‫رویے کے باوجود دونوں‪,‬‬
‫خصوصا ً فہد‪ ,‬ابھی بھی ایک‬
‫دوسرے سے ایک حد تک‬
‫فاصلہ برقرار رکھے ہو ئے‬
‫تھے‪ ,‬مہرین اب اپنے بھائی‬
‫کو پیار کرنے کیلیے قریب‬
‫ہوتی تو فہد اپنے سابقہ‬
‫بیوقوفانہ رویے پہ قائم‪,‬‬
‫وہاں سے بہانہ کر کہ رفو‬
‫چکر ہو جاتا‪ .‬مہرین حمل‬
‫جیسے نازک مرحلے گزر‬
‫رہی تھی اسلیے موڈسوینگ‬
‫جیسے مسائل ایسے تھے‬
‫جن کا فہد کو بالکل بھی‬
‫اندازہ نہیں تھا‬
‫ایک رات مہرین کو اتنی‬
‫شدید متلی ہوئی کہ وہ رات‬
‫کو فہد کو جگانے پہ مجبور‬
‫ہوگئی اور فہد بھی پریشانی‬
‫میں اٹھ گیا‪ ,‬کچھ دیسی‬
‫ٹوٹکے‪ ,‬ہلکی پھلکی‬
‫میڈیسن اور گھر کے الن‬
‫میں واک کروا کہ فہد مہرین‬
‫کی طبیعت بحال کرنے میں‬
‫کامیاب ہو گیا‪ .‬مہرین کہ‬
‫ساتھ اپنی نیند برباد کرنے‬
‫کے بعد فہد مہرین کو‬
‫اسکے کمرے میں سالنے‬
‫کیلیے لے آیا‪ .‬مہرین بڑی‬
‫مشکل سے اتنا سنبھل پائی‬
‫تھی اور بستر پہ آنکھوں کو‬
‫ایک بازو سے ڈھکے لیٹ‬
‫گئی‪ ,‬فہد اپنی بہن کو لٹا کہ‬
‫جانے لگا تو مہرین نے‬
‫اسی بے سدھ سی حالت میں‬
‫دوسرے ہاتھ کو بستر پہ‬
‫اس طرح مارا جیسے وہ فہد‬
‫کو وہیں لیٹنے کا کہہ رہی‬
‫ہو‬

‫فہد اس اشارے کو سمجھ‬


‫کی مہرین کے برابر اس‬
‫بستر پہ بے چین انداز میں‬
‫بیٹھ گیا جیسے ابھی مہرین‬
‫اس پہ حملہ کرے گی اور ہو‬
‫وہاں سے بھاگ اٹھے گا‪,‬‬
‫مہرین نے ایک دو لمحے‬
‫بعد فہد کو دیکھ کہ بے قرار‬
‫لہجے میں لیٹنے کا کہا‬

‫مہرین‪ :‬لیٹ جاؤ اب‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی میں باہر امی‬


‫کو دیکھ لوں ذرا‬

‫مہرین‪ :‬کیا ہوا امی کو؟انکو‬


‫بھی بچہ ہونیواال ہے‬
‫مہرین کی آواز سے پتہ چل‬
‫رہا تھا کہ اس کا جسم الغر‬
‫ہو چکا ہے‪ ,‬فہد اس بات پہ‬
‫ہنس پڑا‬

‫فہد‪ :‬ہانجی‪ ,‬امی کے بھی‬


‫بچہ ہونیواال ہے اور جڑوا‬
‫بچے ہونگے‪ ,‬ایک مہرین‬
‫اور ایک فہد‬
‫مہرین نے بنا ہنسے اس‬
‫مذاق کو خاک میں مال دیا‬
‫اور فہد وہیں پہ مہرین اور‬
‫اسکے شوہر کے بستر پہ‬
‫آج پہلی دفعہ سو گیا‪ ,‬مہرین‬
‫توحمل کیوجہ سے اس حالت‬
‫میں تھی اور اب وہ ان‬
‫خیالوں سے بے پرواہ تھی‬
‫جن کا فہد ابھی بھی شکار‬
‫تھا‪ ,‬وہ رات گزر گئی‪ .‬فہد‬
‫اور مہرین کے درمیان‬
‫جھجھک اب کافی کم ہو‬
‫چکی تھی اسلیے انکے‬
‫درمیان بے تکلفیاں دوبارہ‬
‫بڑھنے لگیں‪.‬‬

‫فہد اور مہرین کے درمیان‬


‫اب ماضی کی تلخ یادوں کی‬
‫جگہ کم ہونے لگی اور اب‬
‫وہ نئے اور خوشگوار‬
‫لمحوں کو جینے لگے تھے‪.‬‬
‫مہرین کا حمل اب پانچویں‬
‫ماہ تک آچکا تھا اور فہد کی‬
‫اسقدر بے لوث توجہ کیوجہ‬
‫سے مہرین کی صحت بہت‬
‫بہتر تھی‪ ,‬مہرین کا شوہر‬
‫بھی دوسرے ملک میں بیٹھا‬
‫اپنی بیوی کی صحت کی خیر‬
‫خبر لیتا تو مہرین اسے فہد‬
‫کی کیئر کا بتاتی تو وہ بھی‬
‫سکون میں آجاتا‬
‫فہد جن شرائط پہ مہرین کے‬
‫گھر شفٹ ہونے پہ مانا تھا‬
‫اب وہ شرائط مہرین نے‬
‫ایک ایک کر کہ ختم کر دیں‬
‫اور فہد کے مالی حاالت‬
‫اخراجات کے کم ہونے‬
‫کیوجہ سے بہتر ہونے لگے‬

‫قدرت کے فیصلے بہت‬


‫انوکھے ہیں‪ ,‬مہرین کی امی‬
‫کی طبیعت اچانک بگڑی اور‬
‫دو تین دن ہسپتال میں رہ کہ‬
‫وہ اپنے بچوں کو اس دنیا‬
‫میں اکیال چھوڑ گئی‪ ,‬فہد نے‬
‫اس مشکل وقت میں نہ‬
‫صرف خود کو سنبھاال بلکہ‬
‫اپنی بہن کو بھی سنبھاال‪,‬‬
‫انکی امی کی اچانک موت کا‬
‫صدمہ مہرین کے حمل پہ‬
‫اثر انداز نہ ہو اسلیے فہد‬
‫نے بہت ہمت اور حوصلے‬
‫سے کام لیا‬
‫مہرین اور فہد اب اکیلے تنہا‬
‫حاالت کے ہاتھوں مجبور‬
‫اپنی ماں کی موت کے غم‬
‫کو برداشت کر چکے تھے‪,‬‬
‫مہرین کی طبیعت بھی اس‬
‫وجہ سے اکثر بگڑ جاتی‪,‬‬
‫فہد جو اپنے گھر کا سب‬
‫سے اہم سرمایہ کھو چکا‬
‫تھا اب اپنی بہن اور اسکے‬
‫ہونیوالے بچے کو کسی‬
‫خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا‬
‫تھا اسلیے مہرین کی بہت‬
‫فکر کرنے لگا‪ .‬مہرین اس‬
‫دوران ہسپتال میں بھی‬
‫ایڈمٹ ہوئی کیونکہ صدمہ‬
‫اور دکھ مہرین پہ اسقدر اثر‬
‫انداز ہوا تھا کہ وہ بار بار‬
‫حمل کے مسائل کا شکار ہو‬
‫جاتی اور فہد کو اسے‬
‫ہسپتال لے جانا پڑتا‬
‫فہد کی امی کے انتقال کو دو‬
‫ماہ کو چکے تھے‪ ,‬دکھ تو‬
‫بہر حال بہت بڑا تھا مگر وہ‬
‫دونوں اب صدمے والی‬
‫کیفیت سے باہر آ کہ نارمل‬
‫زندگی گزارنے لگے تھے‪,‬‬
‫مرنے والوں کیساتھ مرا‬
‫نہیں جاتا تھا یہی اس دنیا کا‬
‫اصول ہے‪ ,‬اس دنیا سے‬
‫کتنے لوگ گئے اور کتنے‬
‫آئے لیکن اس نظام کو کسی‬
‫جانا یا آنا متاثر نہیں کر‬
‫سکا‪ .‬یہی حقیقت مہرین اور‬
‫فہد نے بمشکل قبول کی اور‬
‫باآلخر انکے چہروں پہ اب‬
‫دوبارہ مسکراہٹیں کبھی‬
‫کبھی نظر آنے لگی‬

‫مہرین اور فہداب ایک ہی‬


‫بستر میں سونے کے عادی‬
‫ہو چکے تھے‪ ,‬مہرین کو‬
‫اب اٹھنے بیٹھنے میں‬
‫غرضیکہ ہر کام میں اپنے‬
‫پیٹ میں بچے کیوجہ سے‬
‫تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا‬
‫اسلیے حمل کا ہر گزرتا دن‬
‫مہرین کیلیے فہد کی اہمیت‬
‫بڑھاتا جا رہا تھا‪ ,‬مہرین اس‬
‫تکلیف کیوجہ سے اب بہت‬
‫ساری چیزوں سے بےنیاز‬
‫ہو چکی تھی‪ .‬مہرین فہد‬
‫کے برابر لیٹی اپنے جسم‬
‫کی نیم عریانیت کی پرواہ نہ‬
‫کرتی‪ ,‬فہد کے دل میں اپنی‬
‫بہن کے جسم کو لے کہ‬
‫حوس واال نظریہ ختم ہو‬
‫چکا تھا اسلیے وہ بھی اس‬
‫طرح کے حاالت سے شرم‬
‫محسوس نہ کرتا‬

‫یہ بے تکلفی تھی یا‬


‫مجبوری‪ ,‬لیکن اب مہرین‬
‫فہد کے سامنے بنا بریزئیر‬
‫پہنے اپنے پستان چھلکاتی‬
‫پھرتی اور دوپٹہ وغیرہ کی‬
‫کوئی پرواہ نہ کرتی‪ ,‬فہد‬
‫بھی اپنی بہن کی مجبوری‬
‫کو سمجھتا ہوا کسی طرح‬
‫کی پابندی نہیں لگانا چاہتا‬
‫تھا کیونکہ مہرین یہ سب‬
‫چیزیں اپنی آسانی کے‬
‫حساب سے کر رہی تھی‬

‫مہرین کا بچہ جب اسکے‬


‫پیٹ میں ہلتا تو وہ دونوں‬
‫اس بچے کی حرکتوں پہ‬
‫بہت خوش ہوتے اور مہرین‬
‫فہد کو اس بچے کا ہلنا جلنا‬
‫دکھاتی‪ .‬فہد اپنی بہن کے‬
‫پیٹ کو چوم بھی لیتا اور‬
‫مہرین اپنے بھائی کی محبت‬
‫پہ آبدیدہ ہو جاتی‬

‫ایک رات مہرین فہد کے‬


‫برابر لیٹی اپنے اس سلیپنگ‬
‫ڈریس میں ملبوس جو کہ‬
‫بہت ڈھیال تھا‪ ,‬فہد سے‬
‫باتیں کر رہی تھی تو اسنے‬
‫اپنے پیٹ میں بچے کی‬
‫حرکات کو محسوس کر کہ‬
‫فہد کو دکھایا‬

‫مہرین‪ :‬یہ دیکھو تمہارا‬


‫بھانجا آرام نہیں کرنے دیتا‬
‫مجھے‬
‫فہد خوش ہو کہ مہرین پیٹ‬
‫کے پاس اپنا چہرہ کر کہ‬
‫بیٹھ گیا اور بچے سے‬
‫خیالی باتیں کرنے لگ‬

‫فہد‪ :‬بھانجے‪ ,‬میری باجی‬


‫کو تنگ نہ کرو نہیں تو میں‬
‫آپکو مرغا بنا دونگا‬

‫فہد اور مہرین اس بات پہ‬


‫کھلکھال کہ ہنس پڑے اور‬
‫ماضی کی تلخ اور بہکا‬
‫دینے والی یادیں دوبارہ‬
‫سے تازہ ہونے لگیں‬

‫مہرین‪ :‬مرغا نہ بنانا اسے‬


‫فہد‬

‫فہد نے مہرین کا پیٹ چوم‬


‫لیا اور وہیں اپنا چہرہ ٹکا‬
‫کہ بچے کی موومنٹ کا‬
‫احساس لینے لگا‬
‫مہرین نے فہد کے سر کو‬
‫ہٹا کہ ایک ہاتھ سے اپنے‬
‫سلیپنگ ڈریس کے ایک‬
‫ایک کر ک نیچے والے‬
‫سارے بٹن کھول دیے‪,‬‬
‫مہرین نے شرٹ کے اوپر‬
‫واال صرف ایک بٹن نہیں‬
‫کھوال جسکی وجہ سے‬
‫اسکا سارا پیٹ ننگا ہو گیا‬
‫فہد مسکراتا ہوا یہ سب‬
‫منظر دیکھ رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫کی شرٹ کا سب سے اوپر‬
‫واال بٹن جو کہ پہلے ہی‬
‫مہرین کی کلیویج کو عیاں‬
‫کر رہا تھا پہلے ہی کھال‬
‫تھا‪ ,‬اس سے نیچے واال بٹن‬
‫مہرین کی بڑی اور فربہ‬
‫چھاتیاں بمشکل ہو چھپا‬
‫سک رہا تھا‪ ,‬اسکے عالوہ‬
‫مہرین کا سارا جسم ننگا ہو‬
‫گیا‬

‫مہرین‪ :‬لو کر لو بات اپنے‬


‫بھانجے سے‪ ,‬فیس ٹو فیس‬

‫فہد نے مہرین کے پیٹ پہ‬


‫ہاتھ پھیر کی مہرین کا گورا‬
‫پیٹ چوم لیا اور اسکے پیٹ‬
‫سے اپنی ایک رخسار لگا‬
‫کہ اپنی بانہوں میں بھر لیا‪,‬‬
‫مہرین اپنے بھائی کی محبت‬
‫سے سرشار جسمانی حوس‬
‫سے باال تر ہو کہ اسے‬
‫بالوں میں انگلیاں پھیرنے‬
‫لگی‬

‫فہد‪ :‬باجی؟‬

‫مہرین‪ :‬بولو باجی کی جان‬


‫فہد‪ :‬آپکا بیٹا ہوا تو ابو کے‬
‫نام پہ نام رکھنا اور بیٹی‬
‫ہوئی تو امی واال نام رکھنا‬

‫مہرین اپنے اپی ابو کا ذکر‬


‫اسطرح سن کہ جذباتی کو‬
‫گئی اور اپنے آنسو نہ روک‬
‫سکی‪ ,‬فہد بھی اپنے والدین‬
‫کو یاد کر کہ رو پڑا اور‬
‫مہرین اسکے برابر آ کہ‬
‫اسکو گلے لگا کہ رونے‬
‫لگی‪ ,‬یہ انتہائی جذباتی‬
‫لمحات تھے‬

‫مہرین فہد کے سینے میں‬


‫اپنا آپ سمیٹ کہ رو رہی‬
‫تھی اور اس کا نیم ننگا‬
‫جسم بے ڈھنگے انداز سے‬
‫ننگا تھا‪ ,‬فہد اپنی بہن کو‬
‫بانہوں کو گھیرے میں لے‬
‫کہ چپ کروانے لگا‬
‫فہد‪ :‬باجی آپکا بچہ کیا‬
‫سوچے گا کہ کتنے روندو‬
‫قسم کے بہن بھائی ہیں‬

‫مہرین روتے روتے ہنس‬


‫پڑی اور فہد کا ہاتھ اپنے‬
‫پیٹ پہ رکھ کہ اپنے بچے‬
‫کیطرف منہ کر کہ بولی‬

‫مہرین‪ :‬بیٹا آپکے ماموں‬


‫نے مجھ سے بہت مار‬
‫کھائی یے‪ ,‬آپ ان جیسے نہ‬
‫بننا نہیں تو ان کے ساتھ‬
‫آپکو بھی مرغا بنایا‬
‫کرونگی‬

‫نم آنکھوں سے ہنستے‬


‫دونوں بہن بھائی بہت‬
‫خوشقسمت محسوس کر‬
‫رہےتھے‪ .‬فہد مہرین کے‬
‫پیٹ سے ہاتھ کمر پہ لے جا‬
‫چکا تھا اور وہ ہاتھ شرٹ‬
‫کی اندرونی سرحدوں میں‬
‫مہرین کے جسم کو سہالتا‬
‫جا رہا تھا اور مہرین کے‬
‫ماتھے سو بوسہ لےکہ فہد‬
‫نے مہرین کو دوبارہ بانہوں‬
‫میں بھر لیا‬

‫فہد‪ :‬باجی آپکا بچہ پیدا تو‬


‫ہو لے پہلے ہی اسے‬
‫نصیحتیں شروع کر دیں‪ ,‬ہر‬
‫بچہ میری طرح آپکا تابعدار‬
‫نہیں ہو سکتا بھلے ہی وہ‬
‫آپ کی کوکھ سے جنم لے‪.‬‬
‫فہد ہی آپکا اصل بچہ ہے‬

‫مہرین کو فہد کا یہ جملہ دل‬


‫پہ لگا اور اسکا ماتھا اور‬
‫گال چوم کہ بولنے لگی‪.‬‬

‫مہرین‪ :‬کاش کہ تم سچ میں‬


‫میرے بچے ہوتے‪ ,‬لیکن کیا‬
‫ہوا کہ تم میری نہیں بلکہ‬
‫امی کی کوکھ سے پیدا ہوئی‬
‫ہو‪ ,‬تم پہ سب سے زیادہ حق‬
‫میرا ہی تو ہے‬

‫فہد‪ :‬باجی آئی لو یو‬

‫مہرین‪ :‬لو یو ٹو فہد‬

‫مہرین اور فہد ایک دوسرے‬


‫کے گلے لگ کہ اپنی اپنی‬
‫محبت کا اظہار پہلی بار تو‬
‫نہیں کر رہے تھے‪ ,‬یہ اظہار‬
‫وہ ہزار بار کر چکے تھے‪,‬‬
‫فہد مہرین کی کمر پہ اپنا‬
‫بازو ٹکا کہ اپنی بہن کے‬
‫سینے پہ سر لگا کہ لیٹا ہو‬
‫تھا‪ ,‬مہرین کی شرٹ کا‬
‫صرف ایک بٹن مہرین کی‬
‫چھاتیاں چھپانے پہ معمور‬
‫تھا‪ ,‬اس معصوم بٹن پہ‬
‫مہرین کی چھاتیاں چھپانے‬
‫کی اتنی بڑی ذمہ داری‬
‫اسکو کمزور کر رہی تھی‪,‬‬
‫شرٹ کے دونوں پہلو ایک‬
‫دوسرے کو اس طرح ایک‬
‫دوسرے سے دور کھینچ‬
‫رہے تھے کہ جیسے انکی‬
‫اس بٹن سے کوئی پرانی‬
‫دشمنی ہو‪ ,‬مہرین کی‬
‫چھاتیاں پوری طاقت لگا کہ‬
‫اس بٹن کو ناکام بنانا چاہ‬
‫رہی تھی اور وہ اکیال بٹن‬
‫اپنی مجپوری پہ روتا ہوا‬
‫اپنی آخری حد تک مہرین‬
‫کی چھاتیاں چھپانے کی‬
‫کوشش کررہا تھا‪.‬‬

‫فہد کے گال مہرین کے‬


‫سینے پہ لگے ہوئے تھے‬
‫اور اسکی سانسوں کی‬
‫گرمی مہرین کے سینے کو‬
‫ٹھنڈک جیسا سکون فراہم کر‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد کی آنکھوں‬
‫کے سامنے مہرین کے نیم‬
‫عریاں پستان کسی بھی وقت‬
‫بے باک ہو سکتے تھے‪,‬‬
‫فہد نے مہرین کے سینے پہ‬
‫اپنے ہونٹ لگا کہ ہلکا سا‬
‫بوسا لیا تو مہرین نے اپنے‬
‫بھائی کے سر پہ جوابی‬
‫بوسہ دے کہ فہد سے اگلے‬
‫بوسے کی خواہش ظاہر کی‪,‬‬
‫فہد کی گرم سانسوں کے‬
‫ساتھ اپنی بہن کو چھاتیوں‬
‫کے اتنا پاس سے بار بار‬
‫بوسے لینا اچھا لگ رہا تھا‬
‫اور اس نے گردن کو فہد‬
‫کے پاس کرکہ گردن چومنے‬
‫کا موقع دیا‬

‫فہد میرین کی گردن اور‬


‫سینے سے بوسے لیتا جا‬
‫رہا تھا اور مہرین فہد کے‬
‫سر کو بس سہال کہ اپنے‬
‫اندر سماتی جا رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کی چھاتیاں اوپر‬
‫والے حصے سے چوم لیتا‬
‫اور اب اسکی زبان بھی‬
‫گردن اور چھاتیوں کے‬
‫اوپری حصے کا ذائقہ چکھ‬
‫رہی تھی‬

‫فہد کے لیے مہرین کی‬


‫چھاتیاں کوئی نئی چیز نہیں‬
‫تھی‪ ,‬وہ تو کم عمری سے‬
‫ان کا ذائقہ چکھتا آرہا ہے‪.‬‬
‫فہد اور مہرین بے قابو‬
‫ہوتے ہوتے اب ذرا زیادہ ہل‬
‫ہل کہ اس لمحے کا مزہ لے‬
‫رہے تھے اور ایسا کرنے‬
‫سے اس بٹن کی ہمت نے‬
‫بھی جواب دے دیا‪ ,‬اور اس‬
‫بٹن کے کھلنے کی وجہ‬
‫سے مہرین کی چھاتیاں فہد‬
‫کے سامنے مکمل عریاں ہو‬
‫کہ اپنے حسن کی دوہائی‬
‫دینے لگیں‪,‬‬
‫اس بٹن کے ٹوٹنے نے‬
‫انکے اس خواب کو بھی‬
‫توڑ دیا جس سے وہ نجانے‬
‫کب سے پورا کرنا چاہ رہے‬
‫تھے‪ ,‬فہد اور مہرین بوکھال‬
‫کہ رک گئے اورفہد اٹھ کہ‬
‫برابر بیٹھ گیا اور نظریں‬
‫دوسری طرف کر کہ اسے‬
‫اپنے بٹن بند کرنے کا موقع‬
‫دیا‪ ,‬مہرین نے جلدی جلدی‬
‫بٹن بند کیے‪ .‬دونوں کے‬
‫چہروں پہ نہ چھپ سکنے‬
‫والی مسکراہٹ تھی‪.‬‬

‫فہد‪ :‬میں آپکی دواء لے کہ‬


‫آتا ہوں‪ ,‬دوا کا ٹائم ہو گیا‬
‫ہے‬

‫مہرین نے کوئی جواب نہ‬


‫دیا بس اپنے کپڑوں کو‬
‫درست کر کہ بالوں کو‬
‫چہرے سے ہٹانے لگی‪ ,‬فہد‬
‫دوا لے کہ آیا تو مہرین نے‬
‫دوا کھا لی‪ ,‬مہرین نے جلدی‬
‫جلدی میں اپنی شرٹ کے‬
‫بٹن غلط ترتیب میں بند کر‬
‫لیے‪ .‬پہال بٹن دبا دوسرے‬
‫والی جگہ پہ اور دوسرا بٹن‬
‫تیسری جگہ پہ ایسے ہی وہ‬
‫سب بٹن بے ترتیبی سے بند‬
‫فہد کو نظر آئے تو وہ‬
‫مہرین کو ہنس ہنس کہ‬
‫چھیڑنے لگا‪ .‬مہرین کو جب‬
‫اندازہ ہو تو وہ فہد کو‬
‫ڈانٹنے لگی اور اپنی‬
‫الپرواہی پہ ہنسنے لگی‬

‫فہد‪ :‬باجی آپکے بٹن؟‬

‫مہرہن‪ :‬بدتمیز تم اور‬


‫تمہارے بھانجے کے الڈ کے‬
‫چکر میں ہوا ہے یہ سب‬
‫فہد‪ :‬باجی اب ٹھیک کر لو‬

‫مہرین دوا کھا چکی تھی‬


‫اسلیے اسکی طبیعت میں‬
‫ذرا نا خوشگواری ہو رہی‬
‫تھی اسلیے وہ پیٹ پہ ہاتھ‬
‫رکھ کہ ایک بازو کے‬
‫سہارے آہ کر کہ پیچھے کو‬
‫لیٹنے کیلیے کمر سیدھی‬
‫کرنے لگی تو فہد نے جلدی‬
‫جلدی اپنی بانہوں کے‬
‫سہارے مہرین کو لیٹنے میں‬
‫مدد کی‪ .‬مہرین نے ال‬
‫پرواہی سے اشارہ کر کہ‬
‫بٹن درست کرنے کا کہا‬

‫فہد‪ :‬کیا باجی‬

‫مہرین‪ :‬کر دو ٹھیک بٹن‪,‬‬


‫ساری رات ایسے ہی رہوں‬
‫کیا؟‬
‫فہد ذرا جھجھک کہ ہاتھ‬
‫بڑھا رہا تھا تو مہرین اپنی‬
‫طبیعت کی وجہ سے الجھ کہ‬
‫بول پڑی‬

‫مہرین‪ :‬کیوں شرما رہے ہو؟‬


‫پہلی بار تو نہیں دیکھنے‬
‫لگے‬
‫فہد نے جلدی جلدی ہاتھ‬
‫بڑھا کہ مہرین کے بٹن‬
‫ٹھیک کرتے کرتے مہرین‬
‫کی چھاتیوں کی دوبارہ‬
‫زیارت کی مگر پوری ذمہ‬
‫داری سے کام کو انجام دے‬
‫کہ مہرین کی آؤ بھگت میں‬
‫لگ گیا‬

‫وہ رات بھی گزر گئی اور‬


‫اگلی صبح کسی قسم کی‬
‫کوئی شرمندگی یا بیچینی کا‬
‫احساس دونوں کو ہی نہیں‬
‫تھا‪ ,‬وہ ایسے ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ نارمل ہو چکے‬
‫تھے جیسے کچھ ہوا ہی‬
‫نہیں‬

‫فہد اور مہرین ہمیشہ کی‬


‫طرح بچے کے ساتھ پیٹ‬
‫میں باتیں کرتے‪ ,‬فہد اپنی‬
‫بہن کے ننگے پیٹ کو چوم‬
‫لیتا اور مہرین بھی اپنے‬
‫بھائی کو یہ سب کرنے پہ‬
‫پیار سے دیکھتی‬

‫مہرین کی طبیعت سنبھلتی‬


‫بگڑتی رہتی مگر کبھی بھی‬
‫فہد کی طرف سے الپرواہی‬
‫نہیں ہوئی‪ ,‬مہرین آدھی رات‬
‫اسے جگا لے یا دن میں‬
‫دفتر سے فون کر کہ واپس‬
‫بلوا لے‪ ,‬فہد دوڑا چال آتا‪,‬‬
‫فہد چھٹی بھی کر لیتا مگر‬
‫مہرین اور اسکے ہونیوالے‬
‫بچے کی صحت پہ ہر گز‬
‫سمجھوتہ نہ کرتا‪,‬‬

‫مہرین کا شوہر کال پہ بات‬


‫کرتا تو اپنی واپسی کی کوئی‬
‫حتمی تاریخ نہ دیتا‪ ,‬یہ بات‬
‫مہرین کو بہت صدمہ‬
‫پہنچاتی مگر فہد اپنی بہن‬
‫کو کسی نہ کسی طرح اپنے‬
‫بہنوئی کی جھوٹی وکالت کر‬
‫کہ سنبھال ہی لیتا‪ ,‬مگر اندر‬
‫ہی اندر فہد کو بھی اپنے‬
‫بہنوئی کی اس الپرواہی کا‬
‫دکھ ہوتا مگر وہ اسکا اظہار‬
‫مہرین سے نہ کرتا‪ ,‬اسوقت‬
‫تو دراصل مہرین کے شوہر‬
‫کو ہی یہاں ہونا چاہیے تھا‬
‫لیکن اسکے لیے اسکا کام‬
‫اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ وہ‬
‫نہیں آ پا رہا تھا‪ ,‬جہاں‬
‫مہرین کو یہ دکھ تھا کہ‬
‫اسکے ہونیوالے بچے کا‬
‫باپ اسکے پاس نہیں ہے‬
‫وہیں مہرین کو بہت اچھی‬
‫طرح یہ اندازہ بھی تھا کہ‬
‫اگر وہ یہاں ہوتا بھی تو‬
‫مہرین کی ایسے دیکھ بھال‬
‫نہ کر پاتا جیسے فہد کر رہا‬
‫ہے‬
‫مہرین اور فہد ہر روز بچے‬
‫کی پیدائش کیلیے پرجوش‬
‫ہوتے جا رہے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫اپنے بھائی کیساتھ اب بازار‬
‫جا کہ آنے والے ننھے‬
‫مہمان کی خریداری کرتی‪,‬‬
‫بازار میں جا کہ فہد اپنی‬
‫بہن کے سارے ناز نخرے‬
‫اٹھاتا اور خریداری میں ہر‬
‫اس چیز کا خیال رکھتا جس‬
‫کی آنیوالے دنوں میں‬
‫ضرورت پڑ سکتی ہے‬

‫مہرین ایک ایسی دوکان میں‬


‫داخل ہوئی جہاں پہ صرف‬
‫نومولود بچوں اور حاملہ‬
‫خواتین کی اشیاء فروخت کی‬
‫جاتی تھی‪ ,‬دوکان کافی اچھی‬
‫تھی‪ .‬مہرین اپنے بھائی‬
‫کیساتھ اس دوکان میں داخل‬
‫ہوئی تو اندر جا کہ پتہ چال‬
‫کہ اسکے اندر ہی اندر کئی‬
‫سیکشنز ہیں جہاں سامان‬
‫کی اتنی ورائٹی تھی کہ‬
‫بچوں کی پیدا ہونے سے‬
‫لے کہ چلنے تک کی تمام‬
‫اشیاء موجود تھی‪ ,‬عورتوں‬
‫کیلیے حمل کے پہلے دن‬
‫سے لے کی ڈیلیوری تک‬
‫کپڑے‪ ,‬ایکسرسائز کی‬
‫مشینیں اور نہ جانے کیا کیا‬
‫موجود تھا‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫اس دوکان کے مختلف‬
‫سیکشنز میں پھر رہے تھے‬
‫اور وہاں پہ آئے ہوئے‬
‫لوگاں کو دیکھ کہ ایسا لگ‬
‫ریا تھا کہ جیسے سارے کا‬
‫سارا عالقہ پریگنینٹ ہے‬
‫اور وہ اپنے ہونیوالے بچوں‬
‫کی خریداری کرنے آئے ہیں‬

‫عورتیں اپنے شوہروں کے‬


‫ساتھ اور کچھ عورتیں کسی‬
‫دوسری عورت کیساتھ‬
‫خریداری میں مگھن تھیں‪,‬‬
‫دوکان میں داخل ہوتے ہی‬
‫ایک سیلز سٹاف جو کہ فی‬
‫میل تھی‪ ,‬مہرین اور فہد کو‬
‫میاں بیوی سمجھ کہ استقبال‬
‫کرنے لگی‬

‫مہرین اور فہد نے وہاں‬


‫سے ساری شاپنگ کرنے کا‬
‫فیصلہ کیا اور ہر سیکشن پہ‬
‫جا کہ ایک ایک چیز کی‬
‫اہمیت کے حساب سے ٹرالی‬
‫میں رکھتے گئے‪ .‬ابھی تک‬
‫انہوں نے بچے کے لیے‬
‫کپڑے‪ ,‬چھوٹے چھوٹے‬
‫کمبل‪ ,‬رومال ایسی چیزیں ہی‬
‫خریدیں تھی‪ ,‬خریداری کے‬
‫دوران فہد ذرا اگلی سمت کو‬
‫ہو گیا اور مہرین کسی اور‬
‫چیز کو خریدنے کیلے دیکھ‬
‫رہی تھی‪ ,‬وہیں پہ ایک اور‬
‫حاملہ عورت مہرین کے‬
‫برابر آ کہ خریداری کرتے‬
‫کرتے مہرین سے ہمکالم ہو‬
‫گئی‪ ,‬اس عورت نے‬
‫خریداری کی نسبت سے بات‬
‫شروع کر کہ تعارف کروایا‬
‫اور باتوں باتوں میں دور‬
‫کھڑے ایک مرد کیطرف‬
‫اشارہ کر کہ بتایا کہ وہ‬
‫اپنے شوہر کیساتھ آئی ہے‪,‬‬
‫اس عورت نے جب مہرین‬
‫سے دریافت کیا کہ کیا اسکا‬
‫شوہر بھی ساتھ آیا ہے تو‬
‫مہرین نے فورا ً ہاں میں‬
‫جواب دے کہ فہد کی طرف‬
‫انگلی سے اشارہ کر کہ بتا‬
‫دیا کہ وہ مہرین کا شوہر‬
‫ہے‪ .‬فہد جو دور سے مہرین‬
‫کو چھوٹی چھوٹی چیزیں‬
‫دکھا کہ مسکرا رہا تھا‪ ,‬اس‬
‫گفتگو سے انجان‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کے اشارے پہ‬
‫مسکرا دیا‪ ,‬فہد کو ہر گز‬
‫اندازہ نہیں تھا کہ مہرین بال‬
‫وجہ کی جلن میں فہد کا‬
‫تعارف اپنے شوہر کے طور‬
‫پہ کروا چکی ہے‪ ,‬مہرین‬
‫ایسا بھونڈا فعل کر کہ خود‬
‫بھی الجھن کا شکار تھی‪,‬‬
‫اس عورت سے تعارف اور‬
‫بات چیت خریداری کے‬
‫دوران بڑھتی ہو جا رہی تھی‬
‫اور مہرین کو یہ ڈر اندر ہی‬
‫اندر سے ستا رہا تھا کہ‬
‫کہیں فہد بچوں کی طرح‬
‫باجی باجی کرتا نہ آجائے‬
‫جس سے مہرین کو بے‬
‫انتہا شرمندگی کا سامنا کرنا‬
‫پڑے اسلیے مہرین اس‬
‫عورت سے ایکسکیوزمی‬
‫کہہ کہ فہد کے پاس گئی‪,‬‬
‫فہد کے بولنے سے پہلے‬
‫ہی اسکے کان میں سارا‬
‫ماجرا مختصرا ً سنا کہ‬
‫التجایہ انداز میں دیکھنے‬
‫لگی‪ ,‬فہد حیران انداز میں‬
‫مہرین کی طرف اسکی اس‬
‫حرکت پہ دیکھ کہ بولنے‬
‫لگا‬

‫فہد‪ :‬باج‬

‫ابھی فہد نے باجی پورا بھی‬


‫نہیں بوال تھا کہ مہرین نے‬
‫بات کاٹ دی‬
‫مہرین‪ :‬باجی باجی بند کرو‬
‫فی الحال مہرین ہی کہو‪,‬پلیز‬
‫یار اب میں شرمندہ نہیں‬
‫ہونا چاہتی‬

‫اتنی دیر میں وہ عورت‬


‫اپنے شوہر کے ساتھ چلتے‬
‫چلتے فہد اور مہرین کے‬
‫پاس آگئی‪ ,‬سال دعا کے بعد‬
‫اس عورت نے اپنے شوہر‬
‫کو فہد اور مہرین کا میاں‬
‫بیوی کے طور پہ تعارف‬
‫کروایا‪ ,‬فہد الجھن بھرے‬
‫انداز میں بول بھی نہیں پا‬
‫رہا تھا لیکن مہرین فہد کے‬
‫بازر سے چپکے ایک اچھی‬
‫بیوی ہونے کی الجواب‬
‫اداکاری کر رہی تھی‪,‬کچھ‬
‫دیر وہیں کھڑے اپنی اپنی‬
‫پریگنینسی پہ بات چیت کر‬
‫کہ وہ نا معلوم جوڑا وہاں‬
‫سے خریداری مکمل کر کہ‬
‫چال گیا اور انکے دور جاتی‬
‫ہی فہد نے پریشان انداز میں‬
‫مہرین کو دور کیا اور مہرین‬
‫بہت خوش ہو کہ اس واقعہ‬
‫پہ ہنستے ہوئے فہد کو‬
‫دیکھ رہی تھی‪.‬‬

‫فہد‪ :‬باجی کیا ضرورت تھی‬


‫بھال ایسا جھوٹ بولنے کی؟‬
‫مہرین‪ :‬باجی باجی کہنا بند‬
‫کرو وہ جوڑا فی الحال یہیں‬
‫اس دوکان میں موجود ہے‬

‫مہرین دور کیش کاؤنٹر پہ‬


‫کھڑی اس عورت کو دیکھ‬
‫کہ مسکرا کہ ہاتھ سے‬
‫الوداع کہہ رہی تھی‬

‫فہد‪ :‬باجی اگر انہیں ذرا سا‬


‫بھی شک ہو جاتا کہ ہم میاں‬
‫بیوی نہیں بلکہ بہن بھائی‬
‫ہیں تو کتنی شرم آتی‬

‫مہرین‪ :‬کیسے پتہ چلتا؟میں‬


‫پریگنینٹ ہوں‪ ,‬تم میرے‬
‫ساتھ ہو‪ ,‬تو اب ہر کوئی یہی‬
‫امجھے گا ناں کہ میں‬
‫تمہارے بچے کی ماں بننے‬
‫والی ہوں‪ ,‬اب شکل پہ بہن‬
‫بھائی تو نہیں لکھا ہوتا‬
‫فہد‪ :‬شرم کریں مہرین باجی‪,‬‬
‫ذرا سی بھی شرم نہیں بچی‬
‫آپ میں تو‬

‫مہرین‪ :‬تمہاری ساری شرم‬


‫یہیں نہ نکال دوں؟‬

‫فہد‪ :‬باجی چلیں جلدی لیں‬


‫جو لینا ہے پھر گھر چلیں‬
‫مہرین‪ :‬فہد ابھ بہت‬
‫خریداری باقی ہے‪ ,‬تم‬
‫مجھے ایسے دباو میں نہ‬
‫الو‪ ,‬اور یہ باجی باجی کرنا‬
‫بند کرو‪ ,‬یہاں میں تمہاری‬
‫بیوی ہوں‪ ,‬آئی سمجھ؟‬

‫فہد‪ :‬باجی پلیز یار‬

‫مہرین‪ :‬اب اگر ایک بار بھی‬


‫اور باجی کہا ناں تو یہیں پہ‬
‫رونا ڈال لونگی‪ ,‬پلیز تنگ‬
‫نہ کرو‬

‫اتنے میں وہی استقبال والی‬


‫سیلز سٹاف بہت ہی مؤدبانہ‬
‫انداز میں مہرین اور فہد کے‬
‫پاس آ کہ کسی مدد یا‬
‫رہنمائی کا پوچھنے لگی‬
‫مہرین‪ :‬جی میرے شوہر کو‬
‫پانی پال دیں کافی غصے‬
‫میں ہیں مجھ پہ‬

‫اس بات پہ فہد نے واقعی‬


‫مہرین کی طرف کھا جانے‬
‫والے انداز میں دیکھا‬

‫مہرین‪ :‬بس کریں فہد‪ ,‬یہی‬


‫صلہ ہے مہرے پیار کا؟آپکی‬
‫نشانی میرے پیٹ میں ہے‪,‬‬
‫کم از کم اسکا ہی خیال کر‬
‫کہ مجھ پہ کم غصہ کریں‬

‫مہرین یہ سب شرارت میں‬


‫کر رہی تھی اور فہد کو اس‬
‫بات پہ شرمندگی کے ساتھ‬
‫غصہ بھی آ رہا تھا‪ ,‬پاس‬
‫کھڑی سیلز سٹاف نے‬
‫حقوق نسواں کی خالف‬
‫ورزی ہوتے دیکھی تو فہد‬
‫کو ایک ظالم اور جابر شوہر‬
‫تصور کر کہ تیور بدل کہ فہد‬
‫کو سمجھانے کیلیے الفاظ‬
‫منہ سے نکالے ہی تھے کہ‬
‫مہرین بیچ میں دوبارہ سے‬
‫ٹپک کہ سیلز سٹاف کی بات‬
‫کو شروع ہونے سے پہلے‬
‫ہی ختم کر دیا‬

‫مہرین‪ :‬آپ غصہ نہ کریں‬


‫فہد آج سے جیسا آپ چاہیں‬
‫گے ویسا ہی ہوگا‪ ,‬آئیں‬
‫آنیوالے بے بی کی شاپنگ‬
‫کریں‬

‫فہد غصے میں الل پیال ایک‬


‫پنگ پانگ بال کی طرح ان‬
‫عورتوں کی باتیں سن کہ‬
‫مہرین کی گرفت میں بازو‬
‫دئیے وہاں سے آگے بڑھ‬
‫گیا‪ ,‬سیلز سٹاف کو شکریہ‬
‫ادا کر کہ مہرین مسکراتی‬
‫آگے جا چکی تھی‬
‫فہد‪ :‬باجی بہت ذلیل کر رہیں‬
‫ہیں آپ آج مجھے‬

‫مہرین‪ :‬فہد اگر ایک بار اور‬


‫مجھے باجی کہا نا تو‬

‫فہد‪ :‬او کے اوکے مہرین‬


‫بیگم یہاں سے خریداری کر‬
‫کہ گھر چلو تو آج خبر لیتا‬
‫ہوں‬

‫مہرین فہد کے اس مجبوری‬


‫کے عالم میں ہتھیار ڈالنے‬
‫پہ ہنس دی‪,‬‬

‫مہرین‪ :‬جو حکم میرے‬


‫سرتاج‬
‫فہد نے مہرین کے بازو پہ‬
‫ایک چٹکی سزا کے طور پہ‬
‫کاٹ کہ مہرین کی چئخ نکلوا‬
‫دی اور خود ہی وہاں سے‬
‫مسل کہ درد کو کم بھی‬
‫کرنے لگا‬

‫کافی سارا سامان خریدا جا‬


‫چکا تھا اور فہد اب مہرین‬
‫کو نام لے کہ ہی مخاطب کر‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین بھی اس بات‬
‫پہ خوش ہو ہو کہ بیوی‬
‫بننے کی اداکاری کر رہی‬
‫تھی‬

‫اچانک مہرین نے ایک‬


‫سیکشن پہ ٹرالی کو روک‬
‫کہ ویاں پڑی چیزوں کا‬
‫معائنہ شروع کر دیا اور فہد‬
‫اب اس طویل خریداری سے‬
‫تنگ آ کہ مہرین کو وہاں‬
‫سے نکلنے کا بار بار کہہ‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین نے ایک‬
‫شرٹ نما کپڑا فہد کو دکھایا‪,‬‬
‫فہد نے اسے دیکھ کہ‬
‫مہرین سے پوچھا کہ یہ کیا‬
‫ہے تو مہرین نے اس بتایا‬

‫مہرین‪ :‬جب بچے کو دودھ‬


‫پالنا ہو تو رات کو یہ پہن کہ‬
‫سویا جا سکتا ہے‪ ,‬اس سے‬
‫بار بار قمیض اٹھانے کی‬
‫کوفت نہیں ہوتی‪ ,‬بس اس‬
‫حصے کو ذرا سا ہٹایا اور‬
‫ایک دودھ باہر‪ ,‬اور جب‬
‫دوسری سائیڈ سے پالنا تو‬
‫دوسرا نکاال جا سکتا ہے‬

‫فہد نے اس پیکنگ کو بغور‬


‫دیکھ کہ ٹرالی میں رکھ لیا‬
‫اور وہ اس وعدے کیساتھ‬
‫مہرین کو وہاں سے نکالنے‬
‫میں کامیاب ہو کہ ایک دو‬
‫دن بعد مہرین کو دوبارہ‬
‫یہاں شاپنگ کیلیے الئے گا‪.‬‬
‫مہرین اور فہد دوکان سے‬
‫کافی اچھی رقم کی شاپنگ‬
‫کر کہ گھر آ گئے۔‬

‫مہرین جب بھی فہد کے‬


‫ساتھ کہیں باہر جاتی تو وہ‬
‫فہد کو اکثر اپنے شوہر کے‬
‫طور پہ متعارف کروا دیا‬
‫کرتی تھی‪ ,‬فہد اس بات پہ‬
‫کافی شرما جاتا مگر اسکے‬
‫شرمانے سے مہرین کا‬
‫حوصلہ مزید بلند ہو جاتا‪,‬‬
‫مہرین کے اس رویے کے‬
‫پیچھے شاید اپنے شوہر کی‬
‫کمی کا احساس تھا جو کہ‬
‫فہد کے ساتھ موجود ہونے‬
‫سے اور بھی بڑھ جاتا‪ .‬فہد‬
‫مہرین کی اس طرح کی‬
‫شرارتوں کا عادی ہو گیا تھا‬
‫اسلیے اب وہ بھی ایسے‬
‫کسی تعارف پہ پورا شوہر‬
‫ہونے کی اداکاری کر کہ‬
‫مہرین کو بیگم کہہ کہ‬
‫مخاطب کرتا‪ ,‬مہرین کو یہ‬
‫سب بہت اچھا لگتا تھا‬

‫مہرین اب فہد کی شادی کے‬


‫پیچھے پڑ چکی تھی اور وہ‬
‫ہر روز فہد کو کسی نہ کسی‬
‫بات پہ شادی کرنے کا کہتی‬
‫مگر فہد ہر بار اس بات سے‬
‫چڑ جاتا‪ ,‬فہد کے پاس شادی‬
‫نہ کرنے کا ایک بہت مناسب‬
‫بہانہ جو ہر بار مہرین کو‬
‫سننا پڑتا کہ ابھی مہرے‬
‫پاس اپنا گھر نہیں ہے اور‬
‫دوسرا یہ کہ میرے مالی‬
‫حاالت بہتر ہونے میں کچھ‬
‫سال لگ جائیں گے‬

‫مہرین پریگنیبسی کی وجہ‬


‫سے اپنی صفائی ستھرائی‬
‫سے بھی قاصر ہو جاتی‬
‫مگر فہد اس معاملے میں‬
‫بھی مہرین کی خدمت کرنے‬
‫میں نہ شرماتا‪ ,‬ایک روز فہد‬
‫مہرین کے پاؤں کے ناخن‬
‫تراش رہا تھا اور مہرین‬
‫خوشگوار موڈ میں بستر پہ‬
‫لیٹی اپنے بھائی کو شادی‬
‫کے موضوع پہ سمجھا رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کے خوبصورت‪,‬‬
‫پرگوشت اور سفید پاوں فہد‬
‫کو بہت دلکش لگ رہے‬
‫تھے اور اپنا منہ پاس کر کہ‬
‫ایسے پاوں کے ناخن تراش‬
‫رہا تھا جیسے وہ ان کو‬
‫ابھی چوم ہی لیگا‬

‫مہرین‪ :‬فہد‪ ,‬کب تک ایسے‬


‫میری غالمی کرتے رہو‬
‫گے؟‬

‫فہد‪ :‬باجی جب تک زندہ ہوں‬


‫تب تک‬
‫مہرین‪ :‬فہد دیکھو تم شادی‬
‫کر لو گے تو جیسے میری‬
‫دیکھ بھال کر رہے ہو ایسے‬
‫ہی اپنی بیوی کی بھی کرنا‪,‬‬
‫اور اگر تمہاری شادی ہو‬
‫جائے گی تو تمہاری بیوی‬
‫کا ساتھ میرے لیے مددگار‬
‫ثابت ہو گا‬
‫فہد‪ :‬باجی میں نے آپکو بتایا‬
‫ہے کہ ابھی مجھ پہ بہت‬
‫قرضے ہیں‪ ,‬ان سے آزاد ہو‬
‫جاؤں‪ ,‬پھر اپنا گھر لے کہ‬
‫فورا ً شادی ہی کرونگا‬

‫مہرین‪ :‬واہ واہ فہد‪ ,‬ایسے‬


‫تو بوڑھے ہو کہ شادی کرو‬
‫گے‪ ,‬اور جب تک تمہاری‬
‫دولہن تمہاری بہو لگے گی‬
‫فہد‪ :‬باجی کر لونگا شادی‬
‫آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہی‬
‫ہیں‪ ,‬ابھی میری عمر ہی کیا‬
‫ہے‪ 22 ,‬سال کا ہوں صرف‪,‬‬
‫ابھی تو بہت کچھ کرنا ہے‪,‬‬
‫آپ تو بچے کو ابھی سے‬
‫ذمہ داریوں میں ڈالنا چاہتی‬
‫ہیں‬
‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں ہاں‪,‬‬
‫بچہ؟بچے کا اصلی روپ میں‬
‫نے دیکھا ہوا ہے‬

‫مہرین کے لہجے میں‬


‫شرارت تھی اور فہد بھی‬
‫اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ‬
‫مہرین کا اشارہ کس طرف‬
‫ہے‪ ,‬وہ ہنستے ہوئے مہرین‬
‫کے پاؤں کے ناخن تراشتا‬
‫جا رہا تھا‬
‫فہد‪ :‬ہاں تو کیا باجی‪ ,‬بچہ‬
‫ہی تو ہوں‬

‫مہرین‪ :‬بچے کا اتنا بڑا ہے‬

‫فہد آنکھیں پھاڑ کہ مہرین‬


‫کی طرف دانت نکالتا‬
‫دیکھنے لگا‬
‫فہد‪ :‬باجی؟بس کریں‬

‫مہرین بھی ہنسی نہ روک‬


‫سکتے ہوئے بول پڑی‬

‫مہرین‪ :‬ہاں تو اور کیا‪ ,‬اب‬


‫قابل تعریف چیز کی قدر‬
‫کرنی چاہیئے‬
‫فہد‪ :‬باجی قسم سے آپ بہت‬
‫ہی‬

‫مہرین‪ :‬بیغیرت انسان‪ ,‬کیا‬


‫بہت ہی؟‬

‫فہد‪ :‬وہی جو آپ نے مجھے‬


‫کہا‬
‫دونوں کے چہرے اس بے‬
‫شرم گفتگو کی وجہ سے‬
‫دانت ننگے کر دینے والی‬
‫ہنسی تھی‪ ,‬مہرین نے ایک‬
‫ٹانگ محتاط انداز میں فہد‬
‫کو ماری‬

‫مہرین‪ :‬ہاں بڑا ہے تمہارا‪,‬‬


‫جاؤ کر لو جو کرنا ہے‪ ,‬میں‬
‫تو کہوں گی‬
‫فہد‪ :‬اچھا بس کریں باجی‬

‫مہرین‪ :‬اچھا ایک بات بتاو‬


‫مجھے سچ سچ‬

‫فہد‪ :‬جی باجی‬

‫مہرین‪ :‬کسی کے ساتھ‬


‫سیکس کیا ہے کبھی؟‬
‫فہد اور مہرین لگاتار‬
‫مسکراتے جاتے بات کر‬
‫رہے تھے‪ ,‬اس بات پہ فہد‬
‫شرما گیا اور مہرین نے بہت‬
‫ہی اطمینان کے ساتھ اپنا‬
‫سوال دوہرایا‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی‪ ,‬آپکو پتہ ہی‬


‫ہے سب کچھ‬
‫مہرین‪ :‬ہائے افسوس!!!!‬
‫ب قیامت کی نشابی‬‫کیا یہ قر ِّ‬
‫نہیں کہ اتنا صحتمند جوان‬
‫کسی لڑکی کی نظر میں ابھی‬
‫تک کیوں نہیں آیا؟‬

‫فہد اس بات پہ بس ہنتا جا‬


‫رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬اچھا یہ بتاؤ کہ ہاتھ‬


‫کا استعمال کرتے ہو؟‬
‫فہد‪ :‬باجی یار بس کریں میں‬
‫اٹھ کہ چال جاؤنگا‬

‫مہرین‪ :‬جاکہ تو دکھاو‪,‬‬


‫ٹانگیں نہ توڑ دوں تمہاری؟‪,‬‬
‫بتاو ناں شرما کیوں رہے‬
‫ہو؟ یار میں نے تم سے کچھ‬
‫چھپایا ہے‬
‫مہرین نے یہ بات اپنے پیٹ‬
‫اور چھاتیوں پہ پھیرتے‬
‫ہوئے کہی جیسے کہ وہ فہد‬
‫کو اپنی پرانی رومانس سے‬
‫لمحات کو یاد کروا رہی ہو‪,‬‬
‫مگر مہرین یہ سب کسی‬
‫شرارت کے مقصد سے کر‬
‫رہی تھی نہ کہ بہکانے کے‬
‫مقصد سے‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫اس حرکت پہ بہت نروس ہو‬
‫رہا تھا اور مہرین نے‬
‫دوسرے انداز میں سوال‬
‫دہرایا‬

‫مہرین‪ :‬یار بتاو بھی‪ ,‬تم ہاتھ‬


‫سے مرغا ٹھنڈا کر لیتے ہو‬

‫فہد‪ :‬باجی بچپن میں کیا تھا‬


‫لیکن اسکے بعد زندگی میں‬
‫ایسے ایسے حاالت دیکھ‬
‫لیے اور اسطرح کے کاموں‬
‫پہ زیادہ دھیان ہی نہیں دے‬
‫سکا‬

‫مہرین‪ :‬جب تمہاری شادی‬


‫ہو گی تو میں بہت ناچونگی‪,‬‬
‫بہت ارمان ہین اور تم ہو کہ‬
‫مان ہی نہیں رہے‬

‫فہد‪ :‬باجی مان جاونگا لیکن‬


‫آپ اپنے اس بچے کو تو‬
‫پیدا کر لیں پہلے‪ ,‬اسکے بعد‬
‫دیکھ لیں گے‬

‫مہرین‪ :‬تمہاری شادی کی‬


‫تیاریاں کرنے میں کتنا مزا‬
‫آئے گا‪ ,‬تمہاری دولہن کو‬
‫اپنے ہاتھوں سے تیار کر کہ‬
‫سہاگ رات پہ تمہارے‬
‫سامنے بٹھاونگی‬
‫فہد‪ :‬اور پھر وہاں سے چلی‬
‫بھی جاونگی‪ ,‬یہ بھی کہیں‬
‫نا ساتھ‬

‫مہرین‪ :‬ہاں تو میں نے‬


‫کونسا سارا کچھ دیکھنا ہے‬
‫وہ تو تم مجھے بعد میں بتا‬
‫دینا ساری باتیں‬

‫مہرین یہ بات کہتے ہوئے‬


‫بچگانہ انداز میں فہد کی‬
‫طرف کروٹ کر کہ لیٹ گئی‬
‫اور اسکے چہرے کو اپنے‬
‫ہاتھوں میں لے لیا‬

‫فہد‪ :‬ہاں جی بتا دونگا‪,‬‬


‫اچھی طرح بتاونگا آپکو‪,‬‬
‫ایک بار شادی تو ہو لینے‬
‫دیں‬

‫مہرین‪ :‬تم اس کے ہونٹ‬


‫چومنا‪ ,‬اسکو پیار کرنا‬
‫اسکو اپنی بانہوں میں‬
‫بھرنا‪ ,‬اف کتنی خوشقسمت‬
‫ہو گی ہو جو تمہارے ساتھ‬
‫رات بھر پیار کرے گی‬

‫فہد کو یہ باتین کہتے کہتے‬


‫مہرین اسکے چہرے پہ ہاتھ‬
‫اور انگلیوں سے ہونٹوں کو‬
‫پیار سے مس کر رہی تھی‬
‫اور فہد اپنی بہن کی باتوں‬
‫کو سن کہ بس مسکرا کہ‬
‫اسکے ہاتھ چوم رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬پتہ ہے ناں کہ‬


‫سہاگ رات پہ کیا کیا کرتے‬
‫ہیں؟‬

‫فہد‪ :‬ہاں جی باجی سب پتہ‬


‫ہے باقی جب شادی کے دن‬
‫قریب آ جائیں گے تو آپ‬
‫سے ایک کالس لے لوں گا‬
‫مہرین‪ :‬کالس تو تمہیں دے‬
‫دوں گی لیکن اسکے بدلے‬
‫میں مجھے کیا ملے گا‬

‫فہد‪ :‬ایک بھتیجا یا بھتیجی‪,‬‬


‫یا ہو سکتا ہے دونوں ایک‬
‫ساتھ‬
‫دونوں اس بات پہ کھلکھال‬
‫کہ ہنس پڑے اور مہرین نے‬
‫فہد کے ہونٹ چوم لیے‪ ,‬فہد‬
‫نے بھی مہرین کے ہونٹ‬
‫چوم لیے‬

‫مہرین فہد کے چہرے کو‬


‫ہونٹوں سمیت ہر جگہ سے‬
‫چومتی جا رہی تھی اور فہد‬
‫اپنی بہن کے جذبات کو‬
‫دیکھ کہ آنکھیں بند کیے‬
‫اس کے نرم ہونٹوں کا اپنے‬
‫چہرے پہ گیلے پن کا مزہ‬
‫لے رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬شوہر ہو تو تمہارے‬


‫جیسا‬

‫فہد‪ :‬بیوی ہو تو آپ جیسی‬


‫دونوں ہنستے ہنستے ایک‬
‫دوسرے کو چومنے لگے‪,‬‬
‫اچانک فہد نے محسوس کیا‬
‫کہ مہرین باجی کی چھاتیوں‬
‫کا اوپری حصہ سے گیال پن‬
‫کا احساس ہو رہا ہے تو اس‬
‫نے فورا مہرین کو اسکے‬
‫بارے میں پوچھا‪ ,‬مہرین‬
‫بھی اس گیلے پن سے‬
‫انجان‪ ,‬ہاتھ لگا کہ اس خارج‬
‫ہو رہے مادے کو انگلیوں‬
‫کی پوروں سے محسوس‬
‫کرتے ہوئے فہد کی طرف‬
‫حیرانی سے اپنی ال علمی کا‬
‫اعالن کر دیا‬

‫مہرین‪ :‬یہ کیا ہے؟‬

‫فہد نے اس بات پہ جھجھک‬


‫کہ ہاتھ بڑھا کہ پیچھے کر‬
‫لیا‪ ,‬وہ بھی اس گیلے پن کو‬
‫انگلیوں سے محسوس‬
‫کرنے لگا تھا‪ ,‬فہد کے رک‬
‫جانے پہ مہرین نے اسے‬
‫کہا‬

‫مہرین‪ :‬دیکھو تو‪ ,‬یہ کیوں‬


‫ہے اور ابھی سے دودھ؟ کیا‬
‫یہ دودھ ہے فہد؟‬

‫فہد بھی حیرانی سے مہرین‬


‫کی صحت کیلیے فکر مند‬
‫اپنی انگلیوں سے اس گیلے‬
‫پن کو چھو کہ دیکھنے لگا‬

‫مہرین‪ :‬دھیان سے دیکھو‬


‫تو فہد‬

‫مہرین نے یہ بات کہہ اپنی‬


‫شرٹ کے بٹن کھول کہ اپنی‬
‫چھاتیوں کو باہر نکال لیا‬
‫اور انگلیوں سے اس گیلے‬
‫مادہ کو دیکھنے لگی‪,‬‬
‫مہرین کی گوری گوری اور‬
‫فربہ چھاتیاں فہد کے‬
‫سامنے نپلز سے گیلی ایک‬
‫مادہ کے خارج ہونے سے‬
‫گیلی تھی‪ ,‬فہد نے انگلی‬
‫سے مہرین کے نپل کے‬
‫مادہ کو اپنی انگلی پہ لگا کہ‬
‫سونگھا‬
‫مہرین‪ :‬یہ بچہ پیدا ہونے‬
‫سے پہلے بھی دودھ آ جاتا‬
‫ہے؟‬

‫فہد‪ :‬پتہ نہیں باجی‬

‫مہرین نے اپنی ایک چھاتی‬


‫کو دیکھتے ہوئے نپل کے‬
‫پاس سے دبایا تو تھوڑا سا‬
‫اور مادہ نکال اور دوبارہ‬
‫دبانے پہ مزید مادہ خارج نہ‬
‫ہو سکا‪ ,‬فہد نے چھاتی کے‬
‫آس پاس معائنہ کرتے ہوئے‬
‫بغور سب کچھ دیکھا اور‬
‫کسی قسم کی کوئی غیر‬
‫معمولی بات کے نہ ہونے پہ‬
‫چھاتیوں کو پکڑ کہ ہلکا سا‬
‫دبایا اور سوالیہ نظروں سے‬
‫مہرین کو دیکھا‬

‫فہد‪ :‬تکلیف تو نہیں ہوئی؟‬


‫مہرین‪ :‬نہیں‪ ,‬لیکن مزہ بہت‬
‫آیا‪ ,‬دوبارہ کرنا ذرا‬

‫مہرین بات کہتے کہتے اس‬


‫مزاح پہ ہنسی نہ روک سکی‬
‫اور کھلکھال کہ ہنس پڑی‪,‬‬
‫فہد شرمندہ سا ہو گیا اور‬
‫چھاتیوں کو اپنی اس طفل‬
‫طبی والی گرفت سے آزاد کر‬
‫کہ دوسری طرف منہ کر کی‬
‫سیدھا ہو کہ لیٹ گیا‪ ,‬مہرین‬
‫بس ہنستی ہی جا رہی تھی‬
‫اور اس کے اس طرح ہنسے‬
‫سے اسکی چھاتیاں کسی‬
‫ربڑ کی گیندوں کی طرح‬
‫چھلک رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬اچھا اچھا سوری‪,‬‬


‫مذاق کر رہی تھی‪ ,‬کیا ہے‬
‫یہ گیال گیال مادہ؟‬
‫فہد مہرین کی طرف دیکھ‬
‫بھی نہیں رہا تھا اور بس‬
‫سیدھا لیٹا اپنی بہن کی ننگی‬
‫چھاتیوں سے بے نیاز ہو کہ‬
‫بس شرمندہ اور خاموش تھا‬

‫مہرین جو کہ اب اپنی ہنسی‬


‫کو کنٹرول کرتے کرتے‬
‫اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ آہ‬
‫اُؤئی بھی کر رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫کو اپنی طرف کھینچتی جا‬
‫رہی تھی مگر فہد اسکی‬
‫طرف مڑ ہی نہیں رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬اچھا کیا ہو گیا‬


‫اب؟میں کس سے پوچھوں‬
‫یہ سب فہد؟ تمہارے عالوہ‬
‫کون ہے میرا؟‬

‫مہرین کے لہجے میں اب‬


‫سنجیدگی آ چکی تھی‪ ,‬فہد‬
‫نے بھی سنجیدہ چہرے سے‬
‫مہرین کے چہرے کو دیکھا‪,‬‬
‫مہرین کی ننگی چھاتیاں‬
‫ابھی بھی ویسے ہی تھی‪,‬‬
‫ایک لمحے کے وقفے کے‬
‫بعد مہرین دوبارہ بولی‬

‫مہرین‪ :‬بتاو فہد‪ ,‬نہ امی ہیں‬


‫جو اس موقع پہ مجھے یہ‬
‫سب بتاتی‪ ,‬نہ میری ساس‬
‫ہے جس سے یہ پوچھ لیتی‪,‬‬
‫اور میرا شوہر؟ اسکی تو‬
‫بات ہی چھوڑ دو‪ ,‬میرے‬
‫ساتھ مزے کر کہ‪ ,‬اس بچے‬
‫کو میرے پیٹ میں چھوڑ کہ‬
‫اب نجانےکس کے ساتھ منہ‬
‫کاال کر رہا ہوگا‬

‫فہد اس تلخ بات پہ مہرین‬


‫کی طرف کروٹ لے کہ لیٹ‬
‫گیا‪ ,‬اور مہرین کی چھاتیوں‬
‫کو شرٹ کے پہلو سے‬
‫ڈھکنے لگا‪ ,‬مہرین کی‬
‫چھاتیاں عالمتی طور پہ‬
‫صرف نپلز والے حصوں‬
‫سے ڈھکنے کے بعد بھی‬
‫ننگی چھاتیاں فہد کی‬
‫آنکھوں کے سامنے تھی‪,‬‬
‫مگر فہد ان ننگی چھاتیوں‬
‫کو ٹکٹکی باندھ کہ نہیں‬
‫دیکھ رہا تھا بلکہ وہ تو‬
‫اپنی بہن کے چہرے کیطرف‬
‫متوجہ ہو چکا تھا‬
‫مہرین‪ :‬بچوں کی طرح برتاو‬
‫کیوں کرنے لگ جاتے ہو‬
‫تم؟ کیا ہوا گر ذرا مذاق کر‬
‫لیا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ‬
‫امی نے جو دو بچے پیدا‬
‫کیے ہیں ناں ان کی روحیں‬
‫بدل گئی ہیں‪ ,‬لڑکی والی‬
‫روح غلطی سے تم میں آ‬
‫گئی‪ ,‬اور لڑکے والی مجھ‬
‫میں آ گئی‬
‫فہد نے نذریں شرمندگی‬
‫سے جھکائیں تو مہرین کی‬
‫چھاتیاں اسکی نظروں میں‬
‫آگئی تو دوبارہ وہاں سے‬
‫نظر کو مہرین کی گردن پہ‬
‫لے آیا‪ ,‬اس میں مہرین سے‬
‫نظریں مالنے کی ہمت نہیں‬
‫ہو رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬تم تو ایسے شرما‬


‫رہے ہو جیسے پہلی بار‬
‫میری چھاتیاں دیکھی ہیں‪,‬‬
‫بچپن سے لے کہ آج تک‬
‫جتنا تم ان سے کھیلے ہو‬
‫ناں اتنا تو میرا شوہر بھی‬
‫ان کو چھو نہیں پایا‬

‫فہد ابھی بھی چپ تھا اور‬


‫مہرین اسکی خاموشی سے‬
‫تلمال رہی تھی‬
‫فہد‪ :‬باجی‪ ,‬وہ آپ میری بہن‬
‫ہیں اسلیے شرم آ جاتی ہے‬

‫مہرین کی ہنسی دوبارہ بلند‬


‫ہوتے ہوتے رہ گئی‬

‫مہرین‪ :‬اچھا چلو کوئی بات‬


‫نہیں نہ شرمایا کرہ‪ ,‬کسی کو‬
‫پتہ تھوڑی ہے کہ تم میرے‬
‫اتنے پاس ہو‪ ,‬نہ شرمایا‬
‫کرو‪ ,‬میرے ساتھ کیسی‬
‫شرم؟‬

‫فہد اس بات پہ سکون میں آ‬


‫گیا اور مہرین کو گلے لگا‬
‫کہ لیٹ گیا‪ ,‬فہد مہرین کے‬
‫جسم میں اپنا چہرہ چھپا کہ‬
‫کسی بچے کی طرح لیٹا ہوا‬
‫تھا‪ ,‬اسکو جیسے سب سے‬
‫زیادہ سکون ایسے ہی‬
‫مہرین کے جسم میں اپنا منہ‬
‫دے لینے سے مل رہا ہو‪,‬‬
‫مہرین فہد کے اس بچگانہ‬
‫انداز پہ مسکراتے ہوئے‬
‫اس کے سر پہ ہاتھ رکھے‬
‫اپنک تکلیف کو نظر انداز کہ‬
‫لیٹی ہوئی تھی‪ ,‬نہ جانے فہد‬
‫کی آنکھ کب لگ گئی اور وہ‬
‫ایسے ہو مہرین کے جسم‬
‫میں اہنا منہ دیے سو گیا‪,‬‬
‫مہرین بھی فہد کی ساتھ سو‬
‫گئی اور یہ رات ایک بہن‬
‫بھائی کی محبت کے گواہ‬
‫کے طور پہ جاگتی رہی‬
‫»‬
‫کہتے ہیں کہ محبت رنگ‪,‬‬
‫نسل‪ ,‬عمر‪ ,‬شہرت‪ ,‬مرتبہ‪,‬‬
‫کچھ بھی نہیں دیکھتی‪,‬‬
‫لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا‬
‫کہ محبت رشتہ بھی نہیں‬
‫دیکھتی‪ ,‬محبت کرنیوالوں‬
‫کو ایک دوسرے سے دور‬
‫کر دینی والی یہ دنیا اپنے‬
‫رسم و رواج کے حساب‬
‫سے چلنا چاہتی ہے لیکن‬
‫محبت کرنیوالے ان رسموں‬
‫رواجوں کو کہاں خاطر میں‬
‫التے ہیں؟ وہ تو بس محبت‬
‫کر بیٹھتے ہیں اسکے بعد‬
‫دنیا ٹکراتی ہے تو ٹکرا‬
‫جائے‪ ,‬ان کو کسی کی پرواہ‬
‫نہیں ہوتی‬
‫فہد مہرین کی بغل میں منہ‬
‫دیے سویا پڑا تھا اور مہرین‬
‫بھی اس کو آج کافی‬
‫عرصے بعد ایسے سکون‬
‫سے سوتا ہوا دیکھ رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کی دیکھ بھال‬
‫میں لگا فہد نہ جانے کب‬
‫سے اس نیند کو ترس رہا‬
‫تھا جو اسے آج میسر ہوئی‬
‫تھی‪ ,‬اسلیے ساری رات‬
‫مہرین اپنی تکلیف کو نظر‬
‫انداز کیے وہیں پہ فہد کو‬
‫سالنے میں لگی رہی‪,‬‬
‫مہرین کی نیند بھی اب اس‬
‫پہ حاوی ہو چکی تھی‬
‫اسلیے وہ بھی باآلخر سو‬
‫گئی‬

‫صبح کے وقت مرغ کی‬


‫ککڑوں کڑوں کی آواز گلی‬
‫میں سے کہیں دور سے‬
‫آرہی تھی‪ ,‬دن کی روشنی‬
‫پھیلتی جا رہی تھی‪ ,‬رات منہ‬
‫چھپا کہ نہ جانے کہاں چلی‬
‫گئی‪ ,‬مہرین کی آنکھ کھلی‬
‫تو فہد اسکی بغل میں منہ‬
‫دے کہ کہ لیٹا ہوا تھا‪,‬‬
‫مہرین کے جسم کا اگال سارا‬
‫حصہ ننگا تھا‪ ,‬کروٹ کے‬
‫بدلنے کیوجہ سے شرٹ‬
‫مہرین کے اپنے ہی وزن‬
‫سے جسم کی نیچے اکٹھی‬
‫ہو کہ دب چکی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫نے ہل کہ شرٹ نکالنے کی‬
‫کوشش کی مگر اسے جلد‬
‫ہی اندازہ کو گیا کہ ساری‬
‫رات زیادہ نہ ہل پانے کی‬
‫وجہ سے اس کا جسم اب‬
‫فہد کی مدد کے بغیر نہیں ہل‬
‫سکے گا‪ ,‬اسکا جسم‬
‫تھکاوٹ کیوجہ سے درد کر‬
‫رکا تھا‪ ,‬ذرا سا ہلنے پہ‬
‫مہرین کی آہ نکل جاتی‬
‫فہد بہت گہری سانسیں لیتا‬
‫ہوا سو رہا تھا‪ ,‬مہرین کو‬
‫فہد پہ پیار کب نہیں آیا جو‬
‫اب نہ آتا مگر اپنے جسم کی‬
‫الچاری سے مجبور وہ تو‬
‫اپنا جسم بھی نہیں ڈھک پا‬
‫رہی تھی‪ ,‬ایسی حالت مین‬
‫فہد کو بڑھ کہ چومنا تو دور‬
‫کی بات‪ ,‬وہ بس اپنے ہاتھ‬
‫سے فہد کو پیار کرتی جا‬
‫رہی تھی‪ .‬مہرین کی ایک‬
‫ٹانگ فہد کے لن سے ٹچ ہو‬
‫رہی تھی اور مہرین نے فہد‬
‫کے تنے ہوئے لن کو اپنی‬
‫ٹانگ کے ایک حصے سے‬
‫لگتے ہوئے محسوس کیا تو‬
‫دل ہی دل ہنسنے لگی اور‬
‫کچھ دیر بعد اپنی ٹنگ کو‬
‫فہد کے لن سے زور سے‬
‫لگا دیا‪ ,‬نیند میں فہد اس‬
‫بات سے انجان سویا پڑا تھا‬
‫مہرین اس طرح ہی لیٹی‬
‫لیٹی کچھ دیر بعد دوبارہ نیم‬
‫غنودگی کی حالت میں چلی‬
‫گئی اور اسکی آنکھ فہد کے‬
‫اسکے گال پہ بوسے سے‬
‫کھلی‪ ,‬مہرین نے اپنے‬
‫بھائی کے چہرے کو مسکرا‬
‫کہ دیکھا اور ہاتھ بڑھا کہ‬
‫اسے اپنے چہرے کے پاس‬
‫کیا اور اسکے گال چوم‬
‫لیے‪ ,‬فہد کا بازو مہرین کی‬
‫چھاتیوں پہ تھا اور اسکا‬
‫چہرہ مہرین کے چہرےکے‬
‫پاس ابھی بوسے دے رہا‬
‫تھا‬

‫فہد نے مہرین کی بڑی اور‬


‫فربہ چھاتیوں کے احاطے‬
‫کو دیکھا اور ہاتھ سے پیٹ‬
‫کو سہال کہ مہرین کے‬
‫ہونیوالے بچے کو گڈ‬
‫مارننگ کہہ کہ چوم لیا‪,‬‬
‫مہرین نے فہد کو اپنے‬
‫سینے سے لگایا تو بالکل‬
‫ننگی چھاتیاں فہد کے گالوں‬
‫سے لگنے لگی‬

‫مہرین‪ :‬ظالم بس کرو‬

‫فہد سمجھ گیا کہ مہرین‬


‫باجی کو کوئی اور ہی مزہ آ‬
‫رہا ہے اسلیے فہد ہنس کہ‬
‫اٹھ گیا‪ ,‬جلدی جلدی مہرین‬
‫کے وزن سے شرٹ کو‬
‫کھینچ کی شرٹ کہ بٹن بند‬
‫کرنے لگا اور دوبارہ سے‬
‫ویسے ہی چھاتی پہ منہ رکھ‬
‫کہ لیٹ گیا‬

‫مہرین‪ :‬آج مرغا صبح صبح‬


‫پھر سے ککڑوں کر رہا تھا‬

‫فہد اٹھ کہ ہنسنے لگا اور‬


‫مہرین کی ہنسی بھی قابل‬
‫دید تھی‪ ,‬فہد نے اپنے تنے‬
‫ہوئے لن کو ایک نظر دیکھ‬
‫کہ اسے ایڈجسٹ کرنے کی‬
‫کوشش کی‬

‫فہد‪ :‬باجی میں جوان ہوں‪,‬‬


‫یہ تو ہر روز کا کام ہے‪,‬‬
‫صبح صبح نہ جانے کیا ہو‬
‫جاتا ہے اسے‬
‫مہرین‪ :‬اسے خون چاہیے‬
‫خون‬

‫فہد‪ :‬ہاہاہا باجی‪ ,‬یہ کوئی‬


‫ڈریکوال کا بچہ ہے جو اسے‬
‫خون چا ہیے‬

‫دونوں ہنسنے لگے‬


‫مہرین‪ :‬ایک بار اسکے منہ‬
‫خون لگ گیا ناں تو پھر رک‬
‫کہ دکھانا‬

‫فہد‪ :‬باجی فی الحال تو اسے‬


‫خون کیلیے بہت ترسنا‬
‫پڑےگا‪ ,‬شادی تک تو کچھ‬
‫نہیں ہو سکتا‬
‫مہرین‪ :‬شادی تک اسکا‬
‫کوئی اور بندو بست کروا‬
‫دوں؟‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی آپ فی‬


‫الحال اپنے بچے کی فکر‬
‫کریں‪ ,‬کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ‬
‫ہماری سب باتیں سن کہ‬
‫اپنے باپ کو شکایت لگا دے‬
‫مہرین‪ :‬نہیں لگاتا شکایت‪,‬‬
‫تم اب تیار ہا جاو‪ ,‬دفتر سے‬
‫لیٹ نہ ہو جانا‬

‫مہرین اور فہد ایسے ہی گپ‬


‫شپ لگاتے رہے اور فہد‬
‫اپنےدفتر جانے کیلیے تیار‬
‫ہونے لگا‪ ,‬مہرین نے فہد‬
‫کیلیے ناشتہ تیار کیا‪ .‬ناشتے‬
‫کے دوران مہرین نے فہد‬
‫سے رات اس کے نپلز سے‬
‫خارج ہونےوالے مادے کا‬
‫دوبارہ ذکر کیا تو فہد نے آج‬
‫ڈاکٹر سے چیک اپ کے‬
‫دوران اس معاملے کو‬
‫پوچھنے کا فیصلہ کیا‪ ,‬چیک‬
‫کروانے کے بعد مہرین اور‬
‫اسکے بچے کی صحت کا‬
‫بھی پتہ چل گیا‪ ,‬سب کچھ‬
‫ٹھیک تھا کوئی مسلہ نہیں‬
‫تھا‪ ,‬ڈاکٹر نے مہرین کو‬
‫بتایا کہ اسکی نارمل‬
‫ڈیلیوری ہی ہو گی‪ ,‬نپلز‬
‫سے خارج ہونیواال مادہ‬
‫ایک فطری عمل کا نتیجہ‬
‫تھا‪ ,‬اس میں بھی کوئی‬
‫پریشانی والی بات نہیں تھی‬

‫جیسے جیسے ڈیلیوری کے‬


‫دن نزدیک آ رہے تھے‬
‫مہرین ذہنی دباو کا شکار‬
‫ہوتی جا رہی تھی مگر فہد‬
‫کا سہارا اسے کسی قدم‬
‫ڈگمگانے نہیں دے رہا تھا‪,‬‬
‫زچگی کی تکلیف کا خوف‬
‫مہرین کو فہد سے مزید‬
‫جوڑ رہا تھا‪ ,‬فہد ہی تو‬
‫اسوقت مہرین کا حوصلہ بنا‬
‫ہوا تھا اگر وہ نہ ہوتا تو نہ‬
‫جانے مہرین کب کی حمل‬
‫کی تکالیف سے ہی آدھی رہ‬
‫چکی ہوتی‬
‫مہرین کی طبیعت کبھی کبھی‬
‫بہت خراب ہو جاتی اور فہد‬
‫کو دفتر سے واپس اپنی بہن‬
‫کو دیکھنے آنا پڑتا‪ ,‬فہد کو‬
‫مہرین کا بہت ہی زیادہ خیال‬
‫رکھنا پڑتا‪ ,‬مہرین نفسیاتی‬
‫طور پہ بھی متوازن نہیں‬
‫تھی اسلیے مختلف طرح‬
‫کے وہم اسے پریشان‬
‫کرتے۔‬
‫مہرین کے اعصاب اگر اسکا‬
‫ساتھ نہیں چھوڑ رہے تھے‬
‫تو اسکی واحد وجہ فہد کی‬
‫محبت ہی تھی‪ ,‬ورنہ جیسے‬
‫مہرین کو اسکے شوہر نے‬
‫بے یارومددگار چھوڑ دیا‬
‫تھا‪ ,‬ایسے میں کسی عورت‬
‫کیلیے اپنے آپ کو سنبھال‬
‫لینا ناممکن ہونے کے‬
‫مترادف ہے‬
‫ڈاکٹر کا یہ کہنا تھا مہرین‬
‫اور اسکا بچہ فی الحال تو‬
‫صحتمند نظر آرہے ہیں مگر‬
‫کسی قسم کی الپرواہی یا‬
‫ذہنی دباؤ مہرین کو مشکل‬
‫میں ڈال سکتا ہے‪ ,‬فہد ڈاکٹر‬
‫کی اس بات کو مہرین سے‬
‫بھی زیادہ دل پہ لے گیا‪ ,‬وہ‬
‫مہرین پہ مختلف طرح کی‬
‫پابندیاں لگا چکا تھا‪ ,‬جیسے‬
‫کسی بھی سخت کام کو‬
‫مہرین ہاتھ نہیں لگا سکتی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کو واش روم کو‬
‫اندر سے الک کرنے تک کی‬
‫اجازت نہیں تھی‪ ,‬حتی کہ‬
‫فہد یہاں تک محتاط ہو گیا‬
‫کہ مہرین نے اگر نہانا بھی‬
‫ہے تو وہ فہد کی غیر‬
‫موجودگی میں یہ رسک بھی‬
‫نہ لے‪ ,‬فہد اپنی بہن کے‬
‫قدموں تلے ہاتھ دینے تک‬
‫جاتا اور مہرین بھی اپنے‬
‫بھائی کی ہر بات کو سر‬
‫آنکھوں پہ رکھ کہ مانتی جا‬
‫رہی تھی‬

‫ایک روز فہد اپنے دفتر سے‬


‫چھٹی لے کہ گھر ہی تھا‬
‫کیونکہ مہرین کی طبیعت ذرا‬
‫ناساز محسوس کو رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کو کافی دنوں‬
‫سے اپنا آپ بدبو دار اور‬
‫گندا لگ رہا تھا‪ ,‬اسلیے آج‬
‫فہد کی موجودگی میں وہ نیم‬
‫گرم پانی سے واش روم میں‬
‫نہا رہی تھی‪ ,‬دروازہ اندر‬
‫سے الک نہ کرنے کی وجہ‬
‫سے ایک انچ جتنا کھال ہوا‬
‫تھا اور مہرین اندر بیٹھی‬
‫اپنے جسم کو دھونے لگی‪,‬‬
‫فہد اٹیچ باتھ والے بیڈروم‬
‫میں بیٹھا کسی کتاب کو پڑھ‬
‫رہا تھا مگر اسکی ساری‬
‫توجہ مہرین کی طرف تھی‪,‬‬
‫حاالنکہ مہرین فہد کی غیر‬
‫موجودگی میں بھی اس‬
‫رسک پہ ہوتی جتنا اسوقت‬
‫نہاتے وقت واشروم میں‬
‫تھی لیکن فہد کے دل کو نہ‬
‫جانے کون سے وہم نے آلیا‬
‫تھا کہ وہ مہرین سے اپنی‬
‫توجہ ایک لحظہ بھی‬
‫منحرف نہیں کر پا رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین کو وہ ایسے نہاتے‬
‫ہوئے تو نہیں دیکھنا چاہ‬
‫رہا تھا اسی لیے فہد بار بار‬
‫مہرین کو آواز دے کہ کسی‬
‫نی کسی بات کے بہانے بال‬
‫بال کہ اسکی خیریت دریافت‬
‫کرتا جا رہا تھا‬

‫مہرین اند پالسٹک کی ایک‬


‫چھوٹی سی کرسی نما چیز‬
‫پہ نہا کہ جب اٹھنے لگی تو‬
‫اس سے اٹھنا محال ہو گیا‪,‬‬
‫کچھ کوششوں کے بعد‬
‫مہرین کو اندازہ ہو گیا کہ‬
‫وہ اتنی نچلی سطح پہ بیٹھ‬
‫تو گئی ہے مگر اسے یہاں‬
‫سے اٹھنے کیلیے فہد کے‬
‫سہارے کی ضرورت ہے‪,‬‬
‫مہرین کو عجیب سے‬
‫گھبراہٹ نے گھیرنا شروع‬
‫کر دیا اور کچھ ہی لمحوں‬
‫میں اسقدر گھبرا گئی کہ اس‬
‫نے فہد کو آواز دے کہ مدد‬
‫کے لیے بال لیا‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کی آواز سے گھبراہٹ کو‬
‫سن کہ فورا ً واش روم کی‬
‫طرف لپکا اور واشروم کے‬
‫اندر کا منظر دیکھ کہ‬
‫اسکے تو رنگ اڑ گئے‬

‫مہرین گیال بدن لیے اس‬


‫نچلی سطح والی کرسی پہ‬
‫بیٹھی ہوئی دیوار سے ٹیک‬
‫لگا کہ اپنا آپ سنبھال رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین بمشکل اپنی‬
‫گردن کو ہال کہ فہد کی طرف‬
‫امداد طلب نظروں سے دیکھ‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین اسوقت‬
‫مکمل طور پہ برہنہ اور‬
‫گیلی فہد کے سامنے بے‬
‫سدھ ہو رہی تھی‪ ,‬فہد بجلی‬
‫کی تیزی سے مہرین کی‬
‫طرف لپکا اور جلدی جلدی‬
‫مہرین کو پیچھے سے ہو کہ‬
‫اپنے سینے پہ ٹکا لیا اور‬
‫گھبرائے انداز میں مہرین‬
‫باجی مہرین باجی کرنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین نے اپنا سارا‬
‫وزن فہد پہ ڈال کہ سکون کا‬
‫سانس لیا اور ذرا جسم کو‬
‫سکون آنے پہ اپنی بانہیں‬
‫فہد کے گلے میں ڈال دیں‪,‬‬
‫مہرین نے فہد کو اپنی حالت‬
‫کے بہتر ہونے کا بتا کہ‬
‫اسے باہر لے کہ جانے کا‬
‫کہا اور فہد نے مہرین کو‬
‫اپنی مضبوط اور طاقتور‬
‫بانہوں سے بنا کسی‬
‫ہچکولے کے اٹھا کہ بستر‬
‫پہ لٹا دیا‪ ,‬فہد نے مہرین کو‬
‫لٹا کہ تولیے سے اس کا‬
‫جسم ڈھک دیا مگر اس سے‬
‫پہلے والے دورانیے میں‬
‫فہد اپنی بہن کی پھدی تک‬
‫سارا جسم دیکھ کہ کسی اور‬
‫ہی دنیا میں جا چکا تھا‬
‫مہرین کا سارا جسم دودھ‬
‫سے بھی سفید تھا اور‬
‫اسکی صاف پھدی گیلے‬
‫ہونے کی وجہ سے چمک‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین کے سارے‬
‫جسم پہ پانی کے قطرے‬
‫ایسے لگ رہے تھے جیسے‬
‫صبح صادق کیوقت کسی‬
‫پھول پہ شبنم کے قطرے‬
‫ہوتے ہیں‪ ,‬مہرین واشروم‬
‫میں اٹھنے کی کوشش کے‬
‫دوران اس زورآزمائی کی‬
‫وجہ سے نڈھال ہو گئی تھی‬
‫اسلیے ابھی تک وہ فہد کو‬
‫زیادہ جواب دیے بنا بس اپنا‬
‫آپ ریلیکس کرنے کی‬
‫کوشش کر رہی تھی‬

‫جیسے ہی فہد کو اندازہ ہو‬


‫گیا کہ اب اسکی بہن کی‬
‫طبیعت بہتر ہو رہی تو فہد‬
‫نے جس تولیے سے مہرین‬
‫کے جسم کو ڈھکا تھا اسی‬
‫تولیے کی مدد سے مہرین‬
‫کا جسم خشک کرنے لگا‪,‬‬
‫چہرہ‪ ,‬چھاتیاں‪ ,‬ٹانگیں اور‬
‫ہاتھ پاؤں تک فہد نے خشک‬
‫کر دیے‪ ,‬اس خشک کرنے‬
‫کے عمل کے دوران مہرین‬
‫کا جسم کبھ کہیں سے ڈھک‬
‫جاتا تو کبھ کہیں سے ننگا‬
‫ہو جاتا‪ ,‬جب فہد مہرین کی‬
‫چھاتیاں خشک کر رہا تھا تو‬
‫ان کی نرمی کا مزہ فہد کو‬
‫بہکا رہا تھا لیکن فہد یہ بات‬
‫جانتا تھا کہ بہکنے کے لیے‬
‫یہ مناسب وقت نہیں اسلیے‬
‫جذبات کو قابو کر کہ بہن‬
‫کے جسم کو خشک کرتا گیا‬

‫مہرین نے فہد کو مسکرا کہ‬


‫دیکھا اور آج پہلی بار اپنی‬
‫پھدی کی زیارت کروا کہ‬
‫مہرین کو عجیب سا احساس‬
‫ہو رہا تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫طبیعت کے مکمل بحال‬
‫ہونے پہ فہد سے تولیہ پکڑ‬
‫کہ تولیے کو ٹانگو کے‬
‫درمیان اور کچھ حصہ‬
‫چھاتیوں پہ ڈال کہ پہلے‬
‫سے بھی ظالم منظر فہد کو‬
‫پیش کر دیا‪ ,‬مہرین نے فہد‬
‫کو شکریہ کہا مگر فہد بس‬
‫اسکی طبیعت کے عالوہ‬
‫کسی اور چیز پہ بات نہیں‬
‫کر رہا تھا‪ ,‬مہرین کے ساتھ‬
‫ایسے لگنے جڑنے سے‬
‫کپڑے تو فہد بھی بھگو‬
‫بیٹھا تھا‪ ,‬مہرین فہد کی‬
‫طرف کروٹ لے کہ وہیں پہ‬
‫نڈھال ہو کہ لیٹی آنکھیں بند‬
‫کر چکی تھی اور فہد مہرین‬
‫کے جسم کا سائیڈ پوز دیکھ‬
‫کہ اپنے دل کی دھڑکن کو‬
‫بے قابو ہوتا محسوس کر‬
‫رہا تھا‪ ,‬مرین نے فہد کے‬
‫ہاتھ کو پکڑ کہ ایسے‬
‫پرسکون تھی جیسے اسکے‬
‫بھائی کے ہاتھ میں جادو‬
‫ہے جو اسکو ابھی ٹھیک‬
‫کر دے گا‬

‫مہرین فہد کے سامنے اپنی‬


‫گانڈ کی گوالئی کو تولیے‬
‫کی مدد سے چھپا کہ لیٹی‬
‫ہوئی تھی‪ ,‬مہرین کی‬
‫چھاتیاں پیٹ میں بچہ ہونے‬
‫کی وجہ سے پیٹ سے مل‬
‫رہی تھیں‪ ,‬مہرین کی‬
‫ٹانگوں کو فہد بس تکتا ہی‬
‫جا رہا تھا‪ ,‬مہرین کے جسم‬
‫کی بناوٹ شراب کی بوتل‬
‫جیسی تھی‪ ,‬اس شراب کا‬
‫نشہ فہد اپنی آنکھوں پہ‬
‫چڑھتا ہوا محسوس کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬فہد بہکنا نہیں چاہتا تھا‬
‫اسلیے اس نے وہاں سے‬
‫اٹھنے کا ارادہ کیا اور‬
‫جیسے ہی اٹھنے لگا تو‬
‫مہرین کے ہاتھوں کی گرفت‬
‫نے اس روک لیا‪ ,‬فہد اپنے‬
‫جذبات مہرین پہ کھولنا نہیں‬
‫چاہ رہا تھا اسلیے اس نے‬
‫مہرین کے ہاتھوں کی گرفت‬
‫کو ہلکے سے زور سے‬
‫چھڑوا لیا اور اپنی نظروں‬
‫کو کوستا ہوا وہاں سے اٹھ‬
‫کہ دوسرے کمرے کا رخ کر‬
‫لیا‪ ,‬مگر اس خوبصورت‬
‫جسم کو اپنی یادداشت سے‬
‫کیسے نکالتا جو کہ ہمیشہ‬
‫کیلئے اسکے ذہن میں نقش‬
‫ہو چکے تھے‬

‫فہد اپنی سوئی ہوئی برہنہ‬


‫بہن کے کمرے کو کچھ‬
‫وقفے کے بعد دیکھ لیتا اور‬
‫مہرین کو سوتا دیکھ کہ‬
‫وہاں سے چال جاتا‪ ,‬کافی‬
‫وقفے بعد جب فہد واپس آیا‬
‫تو مہرین بستر پہ بیٹھی اپنا‬
‫ایک ٹراؤزر ٹانگوں پہ چڑھا‬
‫رہی تھی اور جب فہد نے‬
‫جاگتی ہوئی مہرین کو کپڑے‬
‫زیب تن کرتے دیکھا تو‬
‫جھجھک کہ واپسی کیلیے‬
‫پلٹنے لگا تو فورا ً مہرین‬
‫نے اسے آواز دے کہ واپس‬
‫بال لیا‬
‫مہرین‪ :‬آ جاو فہد‪ ,‬کہاں جا‬
‫رہے ہو‬

‫فہد نظریں چرا کہ اندر آگیا‬

‫فہد‪ :‬کہیں نہیں یہیں بس‬


‫کچب تک جا رہا تھا‬

‫مہرین اسوقت پاجامہ اپنی‬


‫ٹانگوں پہ چڑھا چکی تھی‬
‫اور اپنا ننگا دھڑ لیے شرٹ‬
‫کو فہد کی طرف پھینک دیا‪,‬‬
‫فہد نے شرٹ کو پکڑ کہ‬
‫مرین کی طرف دیکھا تو‬
‫مہرین بازو اوپر کر کہ‬
‫ایسے بیٹھی تھی جیسے‬
‫ایک چھوٹا سا بچہ عید پہ‬
‫اپنے کسی بڑے سے کپڑے‬
‫پہنائے جانے کا انتظار کر‬
‫رہا ہوتا ہے‪ ,‬فہد نے شرٹ‬
‫کو الٹ پلٹ کہ سیدھا کیا اور‬
‫مہرین کے برابر آ کہ بیٹھ‬
‫گیا‬

‫فہد‪ :‬باجی آپکو جتنا منع‬


‫کروں اتنا ہی آپ نے ال‬
‫پرواہی کرنی ہوتی ہے‬

‫مہرین‪ :‬اونہوں فہد‪ ,‬اب‬


‫نہانے پہ بھی پابندی لگا دو‬
‫میرے‬
‫فہد مہرین ک سامنے بیٹھا‬
‫ایک ایک کر کہ بازو شعٹ‬
‫میں ڈال چکا تھا‬

‫فہد‪ :‬نہانے پہ پابندی نہیں‬


‫ہے باجی‪ ,‬اندر آپ سے نہیں‬
‫اٹھا جا رہ تھا تو زور‬
‫آزمائی کی کیا ضرورت‬
‫تھی؟‬
‫مہرین قمیض کے گلے مین‬
‫سے سر نکال کہ فہد کے‬
‫سامنے شرمندہ منہ بنا کہ‬
‫چپ تھی‪ ,‬اور فہد نے قمیض‬
‫کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ‬
‫کہ نیچے تک کرتے کرتے‬
‫چھاتیوں اور پیٹ کو ڈھک‬
‫دیا اور مہرین کے جسم پہ‬
‫قمیض کو آگے پیچھے سے‬
‫ایڈجسٹ کرکہ مہرین کے‬
‫اعلی بن کی‬
‫ٰ‬ ‫ب‬
‫سامنے محتس ِّ‬
‫بیٹھ گیا‬

‫فہد‪ :‬آپ کو اپنی فکر نہیں‬


‫ہے‪ ,‬کم سے کم اس کی فکر‬
‫ہی کر لیں‬

‫فہد نے مہرین کے پیٹ پہ‬


‫ہاتھ رکھ کہ یہ بات کی‬
‫مہرین‪ :‬اچھا اب ہو گئی‬
‫غلطی‪ ,‬آئندہ احتیاط کرونگی‬

‫فہد‪ :‬اب طبیعت ٹھیک ہے‬


‫ناں؟‬

‫مہرین‪ :‬ہاں بالکل ٹھیک ہوں‬


‫اب تو‬
‫فہد‪ :‬شکر ہے‪ ,‬ورنہ اسوقت‬
‫آپ کے چہرے کی رنگت‬
‫دیکھ کہ میرا دل گھبرا رہا‬
‫تھا‬

‫مہرین‪ :‬صرف رنگت دیکھ‬


‫کہ یا؟‬

‫فہد‪ :‬باجی شرم کریں‪ ,‬آج‬


‫آپکی اس حرکت کیوجہ سے‬
‫میرا بہت دماغ خراب ہے‬
‫مہرین‪ :‬سب کچھ دیکھ کہ‬
‫کسی کا بھی دماغ خراب کو‬
‫سکتا ہے‬

‫مہرین شرارتی انداز ہنس‬


‫ینس کہ فہد سے ذومعنی‬
‫باتیں کر رہی تھی اور فہد‬
‫بات کو بس صحت کے‬
‫حوالے سے ہی کرنا چاہ رہا‬
‫تھا لیکن مہرین کہاں باز‬
‫آنیوالی تھی‬

‫فہد‪ :‬سب کچھ بھی مجبوری‬


‫میں دیکھنا پڑا‪ ,‬آپ سے‬
‫اسوقت کیا کہتا؟ باجی پہلے‬
‫کپڑے پہنو پھر اندر آونگا؟‬
‫آپ تو اسوقت دیوار کے‬
‫سہارے بیٹھی اٹھنے کے‬
‫بھی قابل نہیں تھی‬
‫مہرین‪ :‬تم صرف میرے‬
‫بھائی نہیں ہو بلکہ میری‬
‫سہیلی بھی ہو‪ ,‬میزے ڈاکٹر‬
‫بھی اور کبھی کبھی میری‬
‫ساس ہی بن جاتے ہو‪ ,‬کتنا‬
‫ڈنٹتے ہو مجھے‬

‫مہرین نے فہد کو گالوں‬


‫سے چوما اور پھر ہونٹوں‬
‫سے چوم کہ جواب دیا‬
‫مہرین‪ :‬مگر جذبات میں‬
‫کوئی فرق نہیں‪ ,‬تم میرے‬
‫لیے سب کچھ ہو فہد‬

‫فہد نے مہرین کو بانہوں‬


‫میں بھر کہ سر سے چوم لیا‬

‫فہد‪ :‬اور باجی آپ میرے‬


‫لیے سب کچھ ہیں‪ ,‬بس آپ‬
‫اپنا خیال یہ سوچ کہ رکھا‬
‫کریں کہ میرا آپکا عالوہ‬
‫کوئی نہیں ہے‬

‫ماحول بہت جذباتی ہو گیا‬


‫اور مہرین کو فہد کی اس‬
‫بات سے واقعی اپنی غلطی‬
‫کا احساس ہوا‪ .‬دن گزرتے‬
‫گئے اور فہد مہرین سے بے‬
‫لباس حالت میں بھی نہیں‬
‫شرماتا تھا‪ ,‬یہ انکی‬
‫مجبوری تھی یا ایک‬
‫دوسرے کیلیے محبت مگر‬
‫انکے درمیان قرب کسی اور‬
‫ہی منزل پہ جا پہنچا تھا‬

‫ڈاکٹر سے دی گئی تاریخوں‬


‫کے مطابق اب مہرین اپنے‬
‫بچے کو پیدا کرنیوالی تھی‪,‬‬
‫ڈیلیوری کے متوقع ایام میں‬
‫ایک رات مہرین کو حمل کی‬
‫تکلیف شروع کو گئی اور وہ‬
‫سمجھ گئے کہ اب بچہ پیدا‬
‫ہونیواال ہے‪ ,‬ہسپتال لے‬
‫جانے پہ مہرین کو درد سے‬
‫کراہتے ہوئے لیبر روم میں‬
‫لے جایا گیا‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫فکر میں باہر اپنی بہن کی‬
‫خیریت کی دعائیں اور منتیں‬
‫مانگ رہا تھا‪ ,‬مہرین اسکی‬
‫کل کاینات زندگی اور موت‬
‫کی کشمکش میں اپنا بچہ‬
‫پیدا کر رہی تھی‪ ,‬فہد اپنے‬
‫جذبات کو بے قابو حالت‬
‫میں اکیال ہی قابو کرنے کی‬
‫کوشش کررہا تھا‪ .‬فہد‬
‫بیچینی کا شکار لیبر روم‬
‫کے ارد گرد تیزی سے چکر‬
‫کاٹ رہا تھا کہ اچانک لیبر‬
‫روم کے دروازے سے ایک‬
‫نرس مسکراتی ہوئی باہر آ‬
‫کہ فہد سے مخاطب ہوئی‬

‫نرس‪ :‬پیشنٹ مہرین کے‬


‫ساتھ آپ ہیں‬
‫فہد نے گھبرائے ہوئے انداز‬
‫میں رو دینے واال منہ بنا ک‬
‫جی کہا‬

‫نرس‪ :‬مبارک ہو آپکا بیٹا‬


‫ہوا ہے‬

‫فہد‪ :‬مہرین کیسی ہے‬


‫نرس‪ :‬آپکی بیوی بالکل‬
‫ٹھیک ہے اور بچہ بھی‬
‫صحتمند ہے‪ ,‬کچھ دیر میں‬
‫آپ سے ملوا دینگے‬

‫فہد کی آنکھوں میں آنسو‬


‫اور دل میں شکر کے کلمات‬
‫تھے‪ ,‬فہد کیلیے یہ جذبات‬
‫انتہائی نئے تھے‪ ,‬وہ سمجھ‬
‫نہیں پا رہا تھا کہ آخر یہ‬
‫کیسا احساس ہے جو اس کو‬
‫اندر اے اتنی خوشی دے رہا‬
‫ہے کہ اسکے آنسو بہتے‬
‫ہی جا رہے ہیں‪ ,‬وہیں کرسی‬
‫پہ بیٹھے خود ہی رو کہ‬
‫خود ہی اپنے آنسو‬
‫پونچھنے لگا‬

‫کچھ دیر بعد کمبل میں لپٹا‬


‫ایک چھوٹا ننھا سا بچہ‬
‫نرس باہر لے کی آئی‪ ,‬فہد کا‬
‫جسم ایک نئی حرارت‬
‫محسوس کرتے ہوئے اس‬
‫بچے کو دیکھ کہ روتے‬
‫روتے ہنسنے لگا‪ ,‬اس بچے‬
‫کو چوم کہ اس نے اپنی بہن‬
‫کا دریافت کیا تو نرس نے‬
‫کچھ دیر رکنے کا کہہ ک‬
‫بچہ واپس لے لیا‬

‫تقریبا ً ایک گھنٹے بعد نرس‬


‫نے فہد کو بالیا‬
‫نرس‪ :‬آجائیں اپنی بیوی‬
‫سے مل لیں‬

‫فہد لرزت قدموں سے مہرین‬


‫کو دیکھنے کیلیے اس‬
‫کمرے کی طرف بڑھنے لگا‪,‬‬
‫قرب سے بھرے ان لمحات‬
‫کے بعد فہد اپنی بہن کو‬
‫دوبارہ دیکھنے کیلیے بیتاب‬
‫تھا‪ ,‬ہر قدم فہد کیلیے ہزار‬
‫میل کے برابر ہو چکا تھا‪,‬‬
‫نرس کے پیچھے پیچھے‬
‫چلتے فہد ایک کمرے میں‬
‫پہنچا جہاں مہرین اپنے‬
‫بچے کو سینے پہ لٹائے‬
‫اندر آتے فہد کا مسکرا کہ‬
‫دیکھ رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کے چہرے پہ نئے پن کو‬
‫دیکھ سکتا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫چہرے پہ ایک عجب سا نور‬
‫تھا جس سے فہد کی آنکھیں‬
‫چندھیا رہیں تھی‪ ,‬مہرین‬
‫کے چہرے پہ نظریں‬
‫گاڑھے فہد اسکے پاس آ کہ‬
‫رو دیا‪ ,‬مہرین نے ہاتھ بڑھا‬
‫کہ فہد کو پاس کیا اور فہد‬
‫نے مہرین کا ماتھا اور گال‬
‫چومے‬

‫فہد‪ :‬باجی مبارک ہو‬

‫مہرین‪ :‬تمہیں بھی‬


‫پاس کھڑی نرس نے جب‬
‫اندازہ لگایا کہ یہ بہن بھائی‬
‫ہیں تو اس نے اس بات کو‬
‫بتا کہ ماحول کو ہنسی میں‬
‫بدل دیا۔‬

‫مہرین اور فہد نئے آنے‬


‫والے مہمان کو لے کہ گھر آ‬
‫گئے‪ ,‬مہرین نے ایک‬
‫صحتمند بچے کو نارمل‬
‫ڈیلیوری سے پیدا کیا تھا‬
‫اس وجہ سے اسکی‬
‫ریکوری قدرے تیزی سےہو‬
‫رہی تھی‪ ,‬مگر اسکے‬
‫باوجود مہرین کے جسم پہ‬
‫ڈیلیوری کی درد کے آثار‬
‫اسقدر شدید تھے کہ اس‬
‫سے فہد کے سہارے کے بنا‬
‫اٹھنا بیٹھنا بھی محال تھا‪,‬‬
‫بہر حال یہ سب فطری عمل‬
‫تھا‬
‫مہرین کے شوہر کو بھی‬
‫ڈیلیوری کے متوقعہ ایام کی‬
‫خبر تھی اسلیے بچے کی‬
‫پیدائش کے دوسرت دن جب‬
‫مہرین اپنے بچے کے ساتھ‬
‫گھر آچکی تھی مہرین کے‬
‫شوہر کا ٹیلی فون آ گیا‪,‬‬
‫بچے کی خوشخبری ملنے‬
‫پہ فون کی دونوں جانب‬
‫آبدیدہ میاں بیوی بہت خوش‬
‫تھے‪ ,‬مہرین کے شوہر نے‬
‫جلد آنے کے وعدے کے‬
‫ساتھ فون بند کر دیا‬

‫مہرین اپنے بچے کو اپنا‬


‫دودھ پال رہی تھی اسلیے اب‬
‫فہد کے سامنے اپنی بہن کا‬
‫جسم لمحہ لمحہ عریاں ہوتا‪,‬‬
‫نہ ہی فہد کو اس بات پہ‬
‫کوئی عجیب احساس تھا اور‬
‫نہ ہی مہرین اپنے بھائی‬
‫سے پردہ کرنا چاہ رہی‬
‫تھی‪ .‬ڈیلیوری کے بعد کوئی‬
‫بھی عورت سیکس کیطرف‬
‫راغب نہیں ہوتی‪ ,‬یہ ایک‬
‫امر ہے‪ ,‬مہرین کو فہد سے‬
‫فی الحال کوئی جنسی طلب‬
‫ہرگز نہیں تھی‪ ,‬فہد کو بھی‬
‫اپنی بہن سے ایسی کوئی‬
‫خواہش نہیں ہو رہی تھی وہ‬
‫تو بس اپنی بہن کی خاطر‬
‫میں کوئی کمی نہیں آنے‬
‫دینا چاہتا تھا‪ ,‬بھانجے کے‬
‫آنے کی خوشی بھی تھی‪,‬‬
‫فہد ہی اپنی بہن کی نرس‬
‫کے طور پہ کام کر رہا تھا‪,‬‬
‫پہلے دن سے لے کہ فہد‬
‫مہرین کو دودھ پالتا دیکھتا‬
‫آرہا تھا‬

‫مہرین اب ڈیلیوری کی کے‬


‫بعد اپنے کام کاج کرنے لگ‬
‫چکی تھی‪ ,‬فہد نے بھی دفتر‬
‫جانا شروع کر دیا تھا‪ ,‬وہ‬
‫دفتر سے واپس آتے ہی‬
‫اپنے بھانجے کو اٹھا کہ‬
‫پیار کرنے لگ جاتا‪ ,‬مہرین‬
‫بھی اسے آتے ہی بچہ پکڑا‬
‫کہ کسی نہ کسی نامکمل کام‬
‫کو پورا کرتی جو بچے‬
‫کیوجہ سے ادھورا رہ چکا‬
‫ہوتا‪ ,‬زندگی بہت ہی‬
‫خوبصورت انداز سے چلتی‬
‫جا رہی تھی اور بچہ ایک‬
‫ماہ کا ہو چکا تھا‪ ,‬ایک رات‬
‫مہرین اپنے بچے کو دودھ‬
‫پال رہی تھی اور فہد مہرین‬
‫کے برابر بیٹھا اپنے‬
‫بھانجے کے گالوں کو‬
‫مہرین کی ایک چھاتی کو‬
‫منہ میں لیے چوستے دیکھ‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین اور فہد بچے‬
‫کی تیزی سے بڑھتی‬
‫شرارتوں پہ ہنس رہے‬
‫تھے‪ ,‬فہد کو بچے سے بہت‬
‫زیادہ لگاؤ ہو چکا تھا تو‬
‫اس نے پیار سے دودھ‬
‫پیتے بچے کے گال چوم‬
‫لیے‪ ,‬جیسے ہی بچے کے‬
‫گالوں کو چوما گیا تو بچہ‪,‬‬
‫جو اب کسی حد تک سیر ہو‬
‫چکا تھا اپنی ماں کی چھاتی‬
‫کے نپل کو منہ سے نکال کہ‬
‫فہد کی طرف دیکھ کہ‬
‫مسکرانے لگا آواز گوں‬
‫گوں کی ایک بچگانہ سی‬
‫آواز پیدا کرنے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫کے نپل سے دودھ کے‬
‫قطرے نکلتے جا رہے تھے‬
‫اور فہد اس بچے کے گال‬
‫چوم کہ وہیں اس کی طرف‬
‫دیکھ کہ باتیں کرنے رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین ان دونوں کو ایک‬
‫دوسرے سے الڈ کرتے‬
‫دیکھ رہی تھی‪ ,‬مہرین کے‬
‫نپلز سے نکلتے دودھ کے‬
‫قطرے فہد کی نظروں سے‬
‫اجھل نہ تھے‪ ,‬فہد جو ایک‬
‫طویل عرصہ سے مہرین‬
‫کے جسم کا شیدا تھا‪,‬‬
‫اسکے نپل کو دیکھ رہا تھا‪,‬‬
‫فہد نے مہرین کے نپل‬
‫کیطرف دیکھ کہ مہرین کو‬
‫دیکھ کہ دودھ چکھنے کی‬
‫اجازت مانگی‬

‫فہد‪ :‬باجی؟ دودھ پی کہ‬


‫دیکھ لوں؟‬
‫مہرین ہنستے ہنستے بچے‬
‫کے منہ میں دوبارہ نپل‬
‫ڈالنے کی کوشش کرتے‬
‫ہوئے جواب دینے لگی مگر‬
‫بچہ فہد کیطرف اساسقدر‬
‫متوجہ تھا کہ وہ اب دودھ‬
‫کو منہ میں لے ہی نہیں رہا‬
‫تھا‬
‫مہرین‪ :‬شرم کرو‪ ,‬میرا بچہ‬
‫بھوکا رہ جائے گا‬

‫مہرین نے جب دیکھا کہ بچہ‬


‫سیر ہو چکا ہے اور اب‬
‫مزید دودھ نہیں پیئے گا تو‬
‫اس نے اپنی چھتی کو پکڑ‬
‫کہ فہد کے منہ کے پاس کر‬
‫دیا‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫چھاتی کو منہ میں لے کہ‬
‫اسطرح چوسا کہ اس کے‬
‫منہ میں دودھ کہ ایک دھار‬
‫پہنچ گئی‪ ,‬مہرین کی چھاتی‬
‫کو پہلی بار اسقدر طاقت‬
‫سے چوسا گیا تو اسکی آہ‬
‫نکل گئی‪ ,‬اس نے فہد کے‬
‫سر میں انگلیوں سے تھپڑ‬
‫لگا دیا اور آرام سے‬
‫چوسنے کا کہا‪ ,‬فہد نے ذرا‬
‫آرام سے چوسنا شروع کیا‬
‫اور کچھ ہی دیر میں دودھ‬
‫ختم ہو گیا جس کا اندازہ فہد‬
‫سے پہلے مہرین کو ہو گیا‪,‬‬
‫فہد نے ہنستے ہوئے منہ کو‬
‫ہٹا لیا‬

‫مہرین‪ :‬اب دو دو بچوں کو‬


‫دودھ نہیں پال سکتی میں‪ ,‬یہ‬
‫بچہ تو ابھی چھوٹا ہے لیکن‬
‫تم کس چکر میں ہو لڑکے؟‬

‫فہد ہنستے ہوئے اپنی بہن‬


‫کے سامنے بیٹھا ہو تھا تو‬
‫مہرین نے اسکے چہرے پہ‬
‫لگے دودھ کے کچھ قطروں‬
‫کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا‬

‫فہد‪ :‬پھیکا پھیکا ہے‪ ,‬مگر‬


‫مزے کا ہے‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں شہد ڈال کہ‬


‫منہ میں لیا کرو اسے‬
‫مہرین نے اپنے نپل کو ہاتھ‬
‫سے پکڑ کہ جواب دیا‪ ,‬تو‬
‫فہد نے بڑھ کہ مہرین کے‬
‫ننگی چھاتی کو چوم لیا‬

‫مہرین‪ :‬بس بس بس اب‬


‫دودھ ختم ہو گیا ہے‪ ,‬اب‬
‫بس کرو‬

‫فہد‪ :‬اس میں ہو گا ابھی‬


‫فہد نے مہرین کی دوسری‬
‫چھاتی پہ ہاتھ رکھ کہ جواب‬
‫دیا‬

‫مہرین‪ :‬اف ہو‪ ,‬بس کر جاؤ‬


‫کیوں بچے کا حق مار رہے‬
‫ہو؟‬
‫فہد بہت پر امید انداز سے‬
‫مہرین کی طرف دیکھ رہا‬
‫تھا اور مہرین کو فہد کی‬
‫اس حرکت پہ ہنسی کے‬
‫عالوہ کچھ نہیں آ رہا تھا‬
‫اسلیے اس نے دوسری‬
‫چھاتی کو بھی باہر نکال کہ‬
‫فہد کے سامنے پیش کر دیا‪,‬‬
‫مہرین کا بچہ جو اب سیر ہو‬
‫چکا تھا وہ بہن بھائی کی‬
‫اس محبت کے درمیان بار‬
‫زیروزن آ رہا تھا اسلیے‬
‫بار ِّ‬
‫مہرینے نے بچے کو سائیڈ‬
‫پہ لٹا کہ خود کو بیڈ کہ وزن‬
‫کےساتھ ٹکا لیا اور ہنستے‬
‫ہنستے فہد کو ڈانٹنے کا‬
‫انداز میں دودھ پالنے کیلیے‬
‫تیار ہو گئی‪ ,‬فہد اپنی بہن کا‬
‫دودھ پینے کیلیے اسکے‬
‫برابر آ گیا اور اسکی‬
‫دوسری چھاتی کو منہ میں‬
‫لے کہ چوسنے لگا‪ ,‬فہد کا‬
‫دوسرا ہاتھ مہرین کی‬
‫دوسری چھاتی پہ تھا اور‬
‫وہ اس کے ساتھ جیسے‬
‫کھیل رہا تھا‪ ,‬مہرین لیٹ کہ‬
‫اب اپنے بھائی کو دودھ پال‬
‫رہی تھی اور چھت کو‬
‫دیکھتے ہوئے انتہائی‬
‫پرسکون انداز میں اس سے‬
‫بات کر رہی تھی‬
‫مہرین‪ :‬فہد جیسے تم نے‬
‫میرا خیال رکھا ہے ویسے‬
‫شائد میرا شوہر بھی نہ رکھ‬
‫پاتا‪ ,‬مجھے پتہ بھی نہیں‬
‫چال اور دیکھو میرا بچہ اس‬
‫دنیا میں آ گیا‪ ,‬تمہارا سہارا‬
‫میرے لیے بہت بڑا سہارا‬
‫ہے فہد‪ ,‬اگر تم نہ ہوتے تو‬
‫شاید میں یہ بچہ پیدا کرتے‬
‫کرتے مر جاتی‬
‫جیسے ہی مہرین نے یہ‬
‫الفاظ اپنے منہ سے نکالے‬
‫تو فہد نپل کو منہ سے نکال‬
‫کہ مہرین کی طرف دیکھنے‬
‫لگا اور بات کو کاٹ کہ‬
‫بولنے لگا‬

‫فہد‪ :‬باجی نہ بولیں ایسا‪ ,‬یہ‬


‫کیا بات کہہ رہی ہیں؟ اگر آپ‬
‫کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا‬
‫ہوتا؟ امی کے بعد آپکے ہی‬
‫سہارے میں زندہ ہوں‪ ,‬اور‬
‫میں نے جو بھی آپکے لیے‬
‫کیا وہ سب میرا فرض تھا‪.‬‬
‫آپ بس یہ دیکھ لیں کہ آپ‬
‫کے بنا میں بھی کچھ نہیں‬

‫مہرین نے فہد کو اپنے‬


‫ننگے سینے سے لگا لیا‬
‫اور فہد مہرین کے گرد‬
‫بانہیں پھیال کہ جذبات کو‬
‫قابو کرنے لگا‬
‫مہرین‪ :‬میری جان ہو میرا‬
‫سارا سرمایہ ہو تم‪ ,‬بس میں‬
‫تو یہ سوچتی ہوں کہ جب‬
‫تمہاری شادی ہو جائے گی‬
‫تو میں اکیلی رہ جاونگی‬

‫فہد اس بات پہ جیسے تلمال‬


‫گیا اور گردن اٹھا کہ مہرین‬
‫کو جواب دے کہ دوبارہ‬
‫چھاتیوں میں منہ دے کہ‬
‫لیٹ گیا‬

‫فہد‪ :‬باجی میں نے نہیں‬


‫کرنی ابھی شادی آپ بار بار‬
‫یہ بات نہ کیا کریں‪ ,‬فی‬
‫الحال اس بات کو نہ چھیڑیں‬

‫مہرین‪ :‬کب تک ایسے‬


‫میرے سینے سے چپکے‬
‫رہو گے‪ ,‬بچے نہ بنو اور‬
‫اب شادی کیلیے اپنے آپ کو‬
‫تیار کرو‪ ,‬ہمیشہ تو تمہیں‬
‫اپنے ساتھ ایسے نہیں رکھ‬
‫سکتی‬

‫فہد‪ :‬باجی پلیز‪ ,‬میں فی‬


‫الحال ایسا کچھ نہیں سوچنا‬
‫چاہتا‪ ,‬جیسا بھی چل رہا ہے‬
‫چلنے دو‬
‫مہرین کی چھاتیاں فہد کے‬
‫ہونٹوں سے مس تھی اور‬
‫فہد بار بار چوم چوم کہ‬
‫مہرین کی بات سنتا جاتا اور‬
‫جواب دیتا جا رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫کی جس چھاتی کو فہد نے‬
‫چوستے چوستے چھوڑ دیا‬
‫تھا اس سے دودھ کے‬
‫قطرے ٹپکے تو فہد نے‬
‫دوبارہ سے اسے منہ میں‬
‫لے کہ چوسنا شروع کر دیا‪,‬‬
‫مہرین کو فہد کے اس‬
‫سنجیدہ موضوع پہ بچگانہ‬
‫رویہ پہ غصہ آ رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬مہرے بچے ہی بنے‬


‫رہنا ساری زندگی‪ ,‬پتہ نہیں‬
‫کب بڑے ہو گے تم؟ اتنا غیر‬
‫سنجیدہ بھی نہیں ہونا‬
‫چاہیے انسان کو جتنا تم ہو‬
‫رہے ہو‬
‫فہد بنا جواب دئیے مہرین کا‬
‫دودھ پیتا جا رہا تھا اور بس‬
‫مسکرتا جا رہا تھا‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کی دوسری چھاتی کو‬
‫مسل رہا تھا‪ ,‬جب فہد نے‬
‫اس چھاتی کو بھی خالی کر‬
‫دیا تو اٹھ کہ مہرین کے‬
‫برابر آ گیا اور ہنس کہ‬
‫مہرین کو جواب دیا‬
‫فہد‪ :‬باہر تو آپ بڑے شوق‬
‫سے مجھے اپنے شوہر کے‬
‫طور پہ پیش کرتی ہیں‪ ,‬آپ‬
‫سمجھیں کہ میری شادی آپ‬
‫سے کی ہو گئی ہے‬

‫مہرین فہد کے لیے حقیقت‬


‫میں شادی کو لے کہ‬
‫پریشان تھی اور فہد کے اس‬
‫بچگانہ رویے کو لے کہ‬
‫دلبرداشتہ ہو گئی‪ ,‬اپنی‬
‫چھاتیوں کو قمیض کے اندر‬
‫کر کہ مہرین نے پریشان‬
‫انداز میں فہد کو سمجھانا‬
‫شروع کیا‬

‫مہرین‪ :‬فہد بچے نہ بنو‪,‬‬


‫میں اور تم پیار محبت میں‬
‫جو کچھ کر رہے ہیں یہ سب‬
‫چاردیواری کے اندر تک ہو‬
‫سکتا ہے‪ ,‬اور رہی بات‬
‫شادی کی تو ایک نہ ایک‬
‫دن تو تمہیں شادی کرنی ہی‬
‫پڑے گی‪ ,‬میں ہمیشہ تمہیں‬
‫اپنے اتنا قریب نہیں رکھ‬
‫سکتی‬

‫فہد‪ :‬باجی آپکو کیا لگتا ہے‬


‫کہ میں شادی کی بات سے‬
‫اسلیے کتراتا ہوں کہ میں‬
‫آپ کے اتنا قریب ہوں؟‬
‫مہرین‪ :‬نہیں فہد‪ ,‬میں جانتی‬
‫ہوں‬

‫فہد‪ :‬باجی فی الحال میں‬


‫شادی کا کوئی ارادہ نہیں‬
‫رکھتا‪ ,‬جب مناسب وقت ہو‬
‫گا آپ سے کہہ دونگا‬

‫فہد اور مہرین کے درمیان‬


‫فہد کی شادی کو لے کہ‬
‫بحث ہر روز ایک ناراض‬
‫جملے کے ساتھ ختم ہو‬
‫جاتی‪ ,‬فہد مہرین کو روز‬
‫روز یہ سمجھا کہ تنگ آ‬
‫چکا تھا کہ ابھی اسکے‬
‫مالی حاالت ٹھیک نہیں‪,‬‬
‫مہرین بھی آئے دن اس بات‬
‫کو چھیڑتی جس سے فہد‬
‫اور اسکے درمیان ایک‬
‫کشیدگی کی صورتحال بن‬
‫چکی تھی‪ ,‬ایک بہن ہونے‬
‫کے ناطے مہرین کی یہ‬
‫فکرمندی بالکل جائز تھی‬
‫اسلیے وہ فہد کو کسی نہ‬
‫کسی طرح آمادہ کرنے‬
‫کیلیے کوششیں کر رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد کو مہرین کا ایک‬
‫بات ہی پہ اسقدر اسرار‬
‫سمجھ نہیں آ رہا تھا‪ ,‬بعض‬
‫اوقات وہ یہ بھی سوچنے‬
‫لگ جاتا کہ شاید اسکی بہن‬
‫کو اسکا اتنا قریب ہونا اب‬
‫پسند نہیں اسلیے وہ اب‬
‫مہرین سے خود کو فاصلے‬
‫پہ رکھنے لگا‪ ,‬مگر ایسی‬
‫بات ہرگز نہ تھی‪ ,‬مہرین‬
‫حقیقت میں فہد کے لیے‬
‫مخلص تھی‪ ,‬اور جہاں‬
‫اخالص ہوتا ہے وہاں‬
‫دوسرے انسان کا حتمی‬
‫فایدہ دیکھا جاتا ہے نہ کہ‬
‫اپنا وقتی فائدہ‪ ,‬مہرین کے‬
‫لیے بہت آسان تھا کہ وہ فہد‬
‫کو اپنا غالم بنائے رکھتی‪,‬‬
‫اور فہد بھی بخوشی یہ‬
‫غالمی کرتا کرتا وقت گزار‬
‫دیتا لیکن نہ ہی مہرین کے‬
‫دل میں فہد کیلیے کوئی میل‬
‫تھی اور نہ ہی فہد کے دل‬
‫میں اس خدمتگزاری کے‬
‫بدلے کسی بھی قسم کے‬
‫فائدے کا اللچ تھا‪ ,‬وہ دونوں‬
‫تو ایکدوسرے کیلیے بڑھ‬
‫چڑھ کہ قربانیاں دینے کو‬
‫تیار تھے‬
‫بچہ اب دو ماہ کا ہو چکا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین فہد کو شادی پہ‬
‫آمادہ کرنے پہ اس طور تلی‬
‫ہو تھی کہ وہ فہد کی‬
‫ناراضگی مول لینے کو بھی‬
‫تیار تھی‪ ,‬فہد بھی آئے روز‬
‫اس بات کا جواب دے دے‬
‫کہ تنگ آ چکا تھا‪ ,‬اب وہ‬
‫گھر آکہ بس بچے سے‬
‫کھیلتا اور مہرین سے بس‬
‫پوری پوری بات کر کہ‬
‫معاملے کو خرابی کیطرف‬
‫جانے سے روک رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین کو اندازہ تھا کہ وہ‬
‫اپنے بھائی کو اس بات پہ‬
‫کسی نہ کسی دن راضی کر‬
‫لے گی لیکن فی الحال فہد‬
‫مہرین فہد کے کسی حربے‬
‫سے زیر نہیں ہو رہا تھا‬
‫بلکہ الٹا وہ مہرین سے ہی‬
‫دوری بنا کہ اس بات سے‬
‫بچ رہا تھا‪ ,‬مہرین جب اپنے‬
‫بچے کو دودھ پالتی تو‬
‫جیسے مائیں بچوں سے الڈ‬
‫پیار میں باتیں کرتی ہیں‪,‬‬
‫مہرین بھی اپنے بچے سے‬
‫باتیں کرتی کرتی فہد کی‬
‫شادی کی باتیں کرنے لگ‬
‫جاتی‪ ,‬فہد جوابا ً کچھ نہ کہتا‬
‫بس خاموش ہو کہ مہرین‬
‫کی باتیں برداشت کرتا‪,‬‬
‫مہرین فہد کو اپنے سے‬
‫ناراض بھی نہیں دیکھ پاتی‬
‫تو کبھی کبھار خود ہی اسے‬
‫رات کو گلے سے لگا لیتی‬
‫اور سوتے ہوئے چوم لیتی‪,‬‬
‫مگر فہد کی طرف سے اس‬
‫بات پہ کوئی نرمی نہیں‬
‫آرہی تھی اور فہد بھی اپنی‬
‫ضد پہ قائم تھا‬

‫مہرین اور فہد کا رشتہ ایک‬


‫ایسا انمول سا رشتہ بن چکا‬
‫تھا جس کے لیے دونوں نے‬
‫ہی بہت قربانیاں دیں تھی‪,‬‬
‫وہ ایک طویل عرصے سے‬
‫حد درجہ قرب میں رہ رہے‬
‫تھے‪ ,‬اسکے باوجود وہ‬
‫ایک دوسرے کیساتھ انتہائی‬
‫عمل نہیں کر سکے‪ ,‬اور‬
‫ایک دوسرے سے سیکس‬
‫نہ کرنے کے باوجود محبت‬
‫میں ایک رتی بھی کمی نہیں‬
‫ہوئی بلکہ انکی محبت ہر‬
‫روز بڑھتی ہی گئی‬

‫ایسے ہی دو ماہ سرد مہری‬


‫میں گزارنے کے بعد فہد‬
‫مہرین کے آگے بے بس ہو‬
‫گیا اور باآلخر اس نے‬
‫مہرین کے آگے گھٹنے ٹیک‬
‫دیئے‪ ,‬مہرین اپنے ساڑھے‬
‫چار ماہ کے بچے کو سال کہ‬
‫فہد کے پاس آ چکی تھی‪,‬‬
‫فہد کو ماتھے سو چوم کہ‬
‫مہرین نے مسکرا کہ دیکھا‬

‫مہرین‪ :‬کیوں خفا خفا‬


‫رہتےہو فہد؟ کتنا عرصہ رہ‬
‫لو گے دور؟‬

‫فہد‪ :‬نہیں باجی خفا تو نہیں‬


‫ہوں‪ ,‬آپ کو کیوں ایسے لگا‬
‫مہرین‪ :‬کیوں لگا؟ فہد میں‬
‫بچی نہیں ہوں‪ ,‬تم میری‬
‫اوالد تو نہیں ہو لیکن اوالد‬
‫سے کم بھی نہیں ہو‪ ,‬تم‬
‫مجھ سے کچھ نہیں چھپا‬
‫سکتے‬

‫فہد‪ :‬اوالد ہی ہوں آپکی‪,‬‬


‫آپکا دودھ پیا ہے میں نے‬
‫مہرین اس بات پہ ہنس پڑی‬
‫اور بڑھ کہ لیٹے ہوئے فہد‬
‫کو اپنے قریب کر کہ پیٹ‬
‫سے لگا کہ بانہوں سے کس‬
‫لیا‬

‫مہرین‪ :‬اوالد ہونے کا دعوی‬


‫ہی ہے یا کوئی ثبوت بھی‬
‫دو گے؟‬
‫فہد اپنی بہن کو بہت عقیدت‬
‫سے پکڑ کہ اتنی لمبی سرد‬
‫مہری کو ختم کرنا چاہتا تھا‬

‫فہد‪ :‬باجی جان بھی مانگو‬


‫تو دے دونگا‬

‫مہرین‪ :‬نہیں جان نہیں‬


‫چاہیے‪ ,‬بس میری بات مان‬
‫لو اور شادی کیلیے ہاں کہہ‬
‫دو‬
‫فہد‪ :‬باجی شادی کیلیے ہاں‬
‫کہہ دونگا لیکن بس ایک‬
‫شرط پہ‬

‫مہرین کے چہرے پہ خوشی‬


‫کی لہر ہی دوڑ گئی‪ ,‬اور‬
‫تیزی سے فہد کا ماتھا چوم‬
‫کہ شرط پوچھی‬
‫فہد‪ :‬شادی میں ایک سال بعد‬
‫ہی کرونگا‪ ,‬اگر کہیں بات‬
‫پکی کرنی ہے تو کر دو‬

‫مہرین فہد کے اوپر لیٹ گئی‬


‫اور خوشی سے فہد کے‬
‫ماتھے اور گال چومنے‬
‫لگی‪ ,‬ایک سال بعد ہی‬
‫صحیح فہد شادی کیلیے مانا‬
‫تو‪ ,‬یہ بات مہرین کا مان‬
‫رکھنے کیلیے فہد نے بہت‬
‫مشکل سے کہہ ڈالی‪ ,‬مگر‬
‫مہرین کی خوشی کو‬
‫دیکھتے ہوئے فہد بھی بہت‬
‫خوش تھا‬

‫مہرین فہد کا شکریہ بھی ادا‬


‫کرتی جا رہی تھی اور اپنے‬
‫ارمانوں کی ایک لمبی‬
‫فہرست فہد کو سنا رہی تھی‬
‫کی اسکی شادی پہ مہرین یہ‬
‫کرے گی وہ کرے گی ایسے‬
‫ناچے گی وغیرہ وغیرہ‪,‬‬
‫کافی دیر فہد سے ان خوش‬
‫گپیوں کے بعد مہرین نے‬
‫فہد کے ہونٹوں کو چوم لیا‪,‬‬
‫فہد بھی اپنی بہن کے‬
‫ہونٹوں کو چومنے لگا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے اوپر جھک‬
‫کہ اسکے زبان میں اپنی‬
‫زبان ڈال کہ اپنے بھائی‬
‫سے چسوا رہی تھی اور وہ‬
‫دونوں بے قابو ہی کہ ایک‬
‫دوسرے کے ہونٹ چوستے‬
‫جا رہے تھے‪ ,‬فہد کے ہاتھ‬
‫مہرین کی چھاتیوں کو دبا‬
‫رہے تھے‪ ,‬فہد اپنے ہاتھوں‬
‫سے مہرین کی کمر کو بھی‬
‫سہالتا جا رہا تھا اور اور‬
‫اس ِّکسنگ کے دوران‬
‫اچانک مہرین کا بچی رو پڑا‬
‫اور وہ دونوں ایک دوسرے‬
‫کو چھوڑ کہ بچے کی طرف‬
‫دیکھنے لگے‬
‫مہرین‪ :‬ایک بچے کو‬
‫سنبھالتی ہوں تو دوسرا‬
‫تنگ کرنے لگ جاتا ہے‪ ,‬اب‬
‫اس کی بھی سن لوں‬

‫مہرین کے چہرے پہ مسرت‬


‫اور خوشی کے تاثرات‬
‫دیکھنے کے قابل تھے مگر‬
‫دوسری جانب فہد مہرین‬
‫سے جس طرح چوما چاٹی‬
‫کر کہ اپنا لن تنا ہوا‬
‫محسوس کر رہا تھا وہ فہد‬
‫کیلیے تکلیف دہ تھا‪ ,‬فہد‬
‫اندر ہی اندر یہ سوچنے لگا‬
‫کہ جتنا مزہ اسے اپنی بہن‬
‫کے ساتھ آتا ہے کیا اسے‬
‫کسی دوسری عورت سے‬
‫بھی یہ مزہ مل بائے گا یا‬
‫وہ شادی کے بعد بھی اپنی‬
‫بہن کے جسم سے کھیلنے‬
‫کا موقع ڈھونڈتا رہے گا‪,‬‬
‫مہرین نے اپنے بچے کو‬
‫پکڑ کہ اپنی ایک چھاتی اس‬
‫کے منہ میں ڈال دیا اور‬
‫خوشی میں ہنس ہنس کہ‬
‫اپنے بھائی سے اسکی‬
‫شادی کے بارے میں باتیں‬
‫کرنے لگی مگر فہد ایک‬
‫گہری سوچ میں ڈوب گیا‬
‫اورمہرین کی باتوں کا ہلکا‬
‫پھلکا جواب دیتا رہا‬
‫مہرین کا بچہ دودھ پیتے‬
‫پیتے دوبارہ سو گیا اور‬
‫مہرین اپنے بھائی کو‬
‫مخاطب کر کہ بولی‬

‫مہرین‪ :‬ایک اوالد تو سو‬


‫گئی‪ ,‬دوسری اوالد کا کیا‬
‫ارادہ ہے‬

‫فہد‪ :‬ہانجی سونا ہے اب‬


‫باجی‪ ,‬ٹائم کافی ہو گیا ہے‬
‫مہرین‪ :‬دودھ پالؤں؟‬

‫فہد دماغی طور پہ غیر‬


‫حاضر تھا اسلیے وہ مہرین‬
‫کا اشارہ نہ سمجھ سکا‪ ,‬اور‬
‫ایک سنجیدہ انداز میں جواب‬
‫دیا‬
‫فہد‪ :‬باجی اس ٹائم دل نہیں‬
‫کر رہا‪ ,‬سوتے ہیں‬

‫مہرین‪ :‬اچھا؟ پکا؟کر لوں‬


‫قمیض کے اندر؟‬

‫فہد کو جب اندازہ کو کہ‬


‫اسکی بہن اپنی چھاتیوں کے‬
‫دودھ پالنا چاہ رہی ہے تو‬
‫اسکے چہرے پہ ہنسہ آگئی‬
‫اور اس نے ہنس کہ جواب‬
‫دیا‬

‫فہد‪ :‬آپکی اوالد ہوں‪,‬اس‬


‫دودھ پہ میرا حق بھی اتنا‬
‫ہی ہے جتنا اس بچے کا ہے‬

‫مہرین ہنستے ہوئے کسی‬


‫حور سے کم نہیں لگ رہی‬
‫تھی‪ ,‬اپنی دانتوں کا عیاں‬
‫کرتی ہوئی مسکراہٹ دے کہ‬
‫فہد کے برابر آ کہ لیٹ گئی‬
‫اور اپنی دونوں چھاتیوں کو‬
‫باہر نکال کہ لیٹ کہ فہد کی‬
‫طرف کرٹ کر لی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کے ہونٹوں کو چوم‬
‫کہ مہرین کی چھاتیاں اپنے‬
‫ہاتھوں کی گرفت سے مسل‬
‫کہ ایک ایک کر کہ نپلز کو‬
‫چوسا اور پھر ایک نپل کو‬
‫چوسنے لگا اور اپنی بہن‬
‫کے دودھ کو پینے لگا‬
‫فہد کا لن ٹائیٹ ہو چکا تھا‪,‬‬
‫اور وہ اپنی بہن سے چپک‬
‫کہ اس کی چھاتیاں چوس‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین کو بھی‬
‫اندازہ ہو چکا تھا کہ اس‬
‫کے بھائی کا لن تن چکا ہے‬
‫اس لیے اس نے اپنی ٹانگ‬
‫فہد کے لن سے رگڑنی‬
‫شروع کر دی‪ ,‬فہد بھی لن‬
‫کو اپنی بہن کی ٹانگ میں‬
‫گھسا گھسا کہ رگڑنے لگا‬
‫اور چھاتیوں کو زور زور‬
‫سے چوسنے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫اپنی نرم ٹانگ کو بڑی‬
‫مہارت سے لن کو دبا رہی‬
‫تھی اور کچھ ہی دیر میں‬
‫فہد مہرین کو بانہوں میث‬
‫بھر کہ اپنے اندر سمونے‬
‫لگا اور اسکا لن کچھ محنت‬
‫کے بعد وہیں فارغ ہو گیا‪,‬‬
‫مہرین کو جب اندازہ ہو گیا‬
‫کہ اسکے بھائی کا لن اسکی‬
‫ٹانگ کی نرمی سے فارغ ہو‬
‫رہا ہے تو اس نے پیار سے‬
‫اپنے بھائی کا ماتھا چوما‬
‫اور اسے اپنے سینے سے‬
‫لگا کہ وہیں سالنے لگی‪,‬‬
‫فہد بہت پرسکون انداز میں‬
‫اہنی بہن کے ساتھ چپک کہ‬
‫سو گیا۔‬
‫مہرین ہنستے ہوئے کسی‬
‫حور سے کم نہیں لگ رہی‬
‫تھی‪ ,‬اپنی دانتوں کا عیاں‬
‫کرتی ہوئی مسکراہٹ دے کہ‬
‫فہد کے برابر آ کہ لیٹ گئی‬
‫اور اپنی دونوں چھاتیوں کو‬
‫باہر نکال کہ لیٹ کہ فہد کی‬
‫طرف کرٹ کر لی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کے ہونٹوں کو چوم‬
‫کہ مہرین کی چھاتیاں اپنے‬
‫ہاتھوں کی گرفت سے مسل‬
‫کہ ایک ایک کر کہ نپلز کو‬
‫چوسا اور پھر ایک نپل کو‬
‫چوسنے لگا اور اپنی بہن‬
‫کے دودھ کو پینے لگا‬
‫اپنی بہن کا دودھ پیتے‬
‫ہوئے وہ اسکی دوسری‬
‫چھاتی کو دبا لیتا تو کبھی‬
‫ہاتھ پھیر کہ مہرین کی نرم‬
‫و مالئم جلد کے لمس کا‬
‫احساس لیتا‪ ,‬مہرین کی‬
‫چھاتیاں اتنی بڑی اور فربہ‬
‫تھی کہ فہد کے ہونٹوں سے‬
‫کھینبچے جانے کے باوجود‬
‫اپنے تناؤ پہ قائم تھی‪ ,‬فہد‬
‫کا لن ٹائٹ ہونے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫جو کہ اپنے بھائی کے برابر‬
‫نیم کروٹ والے انداز میں‬
‫ٹیڑھی ہو کہ لیٹی ہوئی تھی‬
‫اپنے بھائی کے لن کو اپنی‬
‫ایک ران پہ چھبتا ہوا‬
‫محسوس کرنے لگی‪ ,‬مہرین‬
‫نے کسی قسم کا کوئی رد‬
‫عمل نہ دیا مگر فہد کےلیے‬
‫یہ باعث شرمندگی ہو سکتا‬
‫تھا اسلیے فہد نے چھاتی کو‬
‫چوستے ہوئے اپنی کمر کو‬
‫پیچھے کھسکا کہ لن کا اور‬
‫مہرین کی ران کا فاصلہ‬
‫بڑھا دیا‪ ,‬مہرین فہد کے‬
‫بالوں میں محبت سے ہاتھ‬
‫پھیر رہی تھی‪ ,‬مہرین نے‬
‫فہد کو سر پہ بوسہ دے کے‬
‫چیونٹی کی رفتار سے اپنی‬
‫ٹانگ کو حرکت دی اور اپنی‬
‫ران کو فہد کے لن سے‬
‫دوبارہ متمسک کر دیا‪ ,‬فہد‬
‫نے چھاتی سے ہونٹ ہٹا کہ‬
‫مہرین کی طرف دیکھا تو‬
‫مہرین نے انتہائی شفیق‬
‫انداز میں ہنس کہ فہد کو‬
‫دیکھا‪ ,‬نہ جانے یہ کونسی‬
‫زبان تھی جس میں مہرین‬
‫نے ایک ہی نظر میں بنا‬
‫کچھ کہے فہد کو یہ سمجھا‬
‫دیا کی اسکی محبت فہد کے‬
‫جذبات کو سمجھ سکتی ہے‪,‬‬
‫اس لمحے بے لفظ گفتگو‬
‫کو بس ایک لمحہ لگا اور‬
‫فہد نے اپنی کمر کو دوبارہ‬
‫سے کھسکا کہ لن کو مہرین‬
‫کی ران میں مکمل طور پہ‬
‫چبھو دیا‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫چھاتیوں کو اپنے ہاتھ سے‬
‫پکڑ کہ دبایا اور کمر کو‬
‫آہستہ آہستہ ہال کہ مہرین کی‬
‫ران پہ لن رگڑنا شروع کیا‪,‬‬
‫مہرین کے چہرے پہ اسوقت‬
‫بہت تسلی اور سکون کے‬
‫تاثرات تھے‪ ,‬جیسے وہ‬
‫اپنے بھائی کو سکون دے‬
‫کہ اپنے آپ کو سکون دے‬
‫رہی ہو‪ ,‬مہرین بچے کی‬
‫پیدائش سے لیکر اب تک‬
‫ابھی سیکس کے لیے‬
‫ویسے تیار نہیں تھی‪,‬‬
‫اسکے جسم میں ہارموز کی‬
‫تبدیلیوں کیوجہ سے شاید‬
‫ابھی سیکس کی عمومی‬
‫طلب نہیں ابھار رہی تھی‬
‫مگر اسکے باوجود اسکو‬
‫اپنے ہونٹ بھینچ کہ اس‬
‫لطف کا احساس بھی ہو رہا‬
‫تھا جو کسی بھی عورت کو‬
‫اس وقت ہو سکتا تھا‪ ,‬فہد‬
‫اپنا منہ کبھی مہرین کی بغل‬
‫میں دے دیتا تو کبھی مہرین‬
‫کی چھاتیوں کو چومنے‬
‫لگتا‪ ,‬کبھ مہرین کی گردن‬
‫تک جا کہ بوسے لیتا تو‬
‫کبھی مہرین کے پیٹ کو‬
‫چومتا مگر کمر ہال ہال کہ‬
‫مہرہن کی ساری ران فہد‬
‫کے لن سے رگڑ کھاتی جا‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد کی رفتار‬
‫آہستہ آہستہ سے بڑھتی اور‬
‫کم ہوتی‪ ,‬مہرین بھی اپنی‬
‫ٹانگ کو دبا کہ فہد کے‬
‫مزے کو بڑھانے میں کوئی‬
‫کسر نہیں چھوڑ رہی تھی‪,‬‬
‫مہرین کی ایک ران کو‬
‫چودتے چودتے فہد کو دیر‬
‫ہو چکی تھی اسلیے اب‬
‫اسکا لن پانی چھوڑنے کے‬
‫عین قریب تھا‪ ,‬فہد نے لن‬
‫کو مکمل طاقت سے مہرین‬
‫کی ران کو اپنی ٹانگوں میں‬
‫کس لیا‪ ,‬اور مہرین کے‬
‫بازوں سے کس کے اپنے‬
‫ساتھ لگا لیا‪ ,‬مہرین نے بھی‬
‫اپنے بھائی کو ڈسچارج کا‬
‫اچھا مزہ دینے کیلیے ران‬
‫کو ہالنا شروع کیا اور فہد‬
‫کے لن نے پانی چھوڑ دیا‪,‬‬
‫اسکے منہ سے آہ مہرین‬
‫باجی‪ ,‬اف‪ ,‬آہ بے ہنگم اور‬
‫بے ترتیب سانسوں کے‬
‫ساتھ نکلنے لگا‪ ,‬مہرین نے‬
‫نے اپنے بھائی کو اس حالت‬
‫میں کمر پہ سہالنا شروع کیا‬
‫جیسے وہ اپنے بھائی کو یہ‬
‫احساس دال رہی تھی کہ وہ‬
‫اسکے ساتھ ہے‪ ,‬مہرین کا‬
‫فہد کی کمر پہ محبت بھرا‬
‫ہاتھ کا پھیرا جانا فہد کو‬
‫سکون دے رہا تھا‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کی بغل میں منہ دیے‬
‫ڈسچارج ہونے کا مزہ لے‬
‫رہا تھا اور مکمل ڈسچارج‬
‫ہونے کے بعد وہیں پہ‬
‫پرسکون ہو کہ آنکھوں کو‬
‫بند کیے لیٹا رہا‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کو پیار بھری تھپکیاں دے‬
‫کہ وہیں پہ سالنے لگی‪ ,‬اور‬
‫فہد بھی وہیں پہ لیٹا لیٹا سو‬
‫گیا‬

‫فہد ڈسچارج ہو کہ مہرین‬


‫کی بغل میں منہ دے کہ‬
‫سویا ہوا ایسا لگا رہا تھا‬
‫جیسے بچہ ماں کا دودھ پیتا‬
‫پیتا اپنی طلب پوری ہونے‬
‫پہ وہیں اسکی گود میں سو‬
‫جاتا ہے‪ ,‬مہرین بھی ایسے‬
‫ہی تسلی سے لیٹی اپنے‬
‫بھائی کو پیار سے سال رہی‬
‫تھی جیسے ایک ماں اپنے‬
‫بچے کو سالتی ہے‪ ,‬یہ بہت‬
‫خوبصورت منظر تھا جو کہ‬
‫ساری رات فہد کو اچھی نیند‬
‫میں بیہوشی کا مزہ دے رہا‬
‫تھا‬

‫اگلی صبح فہد کی آنکھ کھلی‬


‫تو مہرین اس سے پہلے ہی‬
‫جاگ چکی تھی اور کچن‬
‫میں مصروف تھی‪ ,‬فہد نے‬
‫اٹھ کہ رات والے منظر کو‬
‫یاد کیا تو اپنے ٹراؤزر پہ‬
‫نظر ڈالی‪ ,‬اسکا ٹراؤزر‬
‫اسکے بھرپور اور گاڑھے‬
‫سپرم کی وجہ سے سخت‬
‫تھا‪ ,‬فہد کی آنکھیں رات کی‬
‫پرسکون نیند کی گواہی دے‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین کمرے میں‬
‫آئی تو آتے ہی فہد کو دیکھ‬
‫کہ مسکراہٹوں کا تبادلہ‬
‫کرنے لگی‬

‫مہرین‪ :‬اٹھ گیا میرا بچہ؟‬


‫جلدی جلدی نہا لو‪ ,‬کپڑے‬
‫استری کر دیے ہیں‪ ,‬ناشتہ‬
‫بنانے جا رہی ہوں‪ ,‬جلدی کر‬
‫لو‬
‫فہد انگڑائیاں لیتا لیتا بستر‬
‫پہ ہی لوٹ پوٹ ہو کہ گرنے‬
‫لگا‬

‫فہد‪ :‬جی باجی‪ ,‬اٹھ جاتا ہوں‬

‫فہد تیار ہو کہ دفتر چال گیا‬


‫اور مہرین نے فہد کے‬
‫رشتے کیلیے فون گھمانے‬
‫شروع کر دیے‪ ,‬اب یہ ہر‬
‫روز کا معمول بن گیا تھا کہ‬
‫مہرین رشتے کی تالش میں‬
‫لوگوں سے رابطے‬
‫کرتی‪,‬رشتے کروانے والوں‬
‫کو گھر بالتی اور سارے دن‬
‫کی اپنی مالقاتوں کی تفصیل‬
‫فہد کو بتاتی‪ ,‬فہد اور مہرین‬
‫بہر حال بچے تھے اسلیے‬
‫انکی باتوں میں وہ پختگی‬
‫نہیں تھی جو بزرگوں کی‬
‫باتوں میں ہوا کرتی ہے‬
‫اسلیے اکثر رشتوں کی آفر‬
‫کو بنا دیکھے ہی ٹھکرا دیا‬
‫جاتا‪ ,‬انکے ذہن میں کچھ‬
‫اپنے ہی معیار تھے‪ ,‬ایک یہ‬
‫کہ خاندان بڑا ہونا چاہئے‪,‬‬
‫مالی حاالت کے حساب سے‬
‫نہیں بلکہ آبادی کے حساب‬
‫سے‪ ,‬یہ ایک عجیب بات‬
‫تھی مگر جیسے انکا ماضی‬
‫رشتہ داروں کی کمی اور‬
‫اسکے بعد بہن بھائیوں کی‬
‫تعداد میں کمی کیوجہ سے‬
‫ایک طرح سے متاثر ہوا تھا‬
‫وہ نہیں چاہتے تھے کہ‬
‫مہرین کے سسرال کی طرح‬
‫فہد کا سسرال بھی دو تین‬
‫افراد پہ مشتمل ہو‪ ,‬دوسرا‬
‫یہ کہ لڑکی کم از کم ایف اے‬
‫یا میٹرک تو الزمی ہو‬
‫کیونکہ فہد نے بی اے کیا‬
‫ہوا تھا اور اس دور میں‬
‫اتنے پڑھے لکھے لڑکے‬
‫ناپید تھے‪ ,‬ایسی ہی ایک دو‬
‫مزید معصوم سی ڈیمانڈز کو‬
‫مد نظر رکھتے ہو ئے‬
‫رشتے کی تالش زوروشور‬
‫سے جاری تھی‬

‫وقت گزرتا گیا اور ایک‬


‫فیملی‪ ,‬جو کہ انکے شہر‬
‫کسی شادی میں آئی ہوئی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین رشتے کی تالش‬
‫کا ایک پورا نیٹ ورک بنا‬
‫چکی تھی اسلیے کسی‬
‫جاننے والوں کے حوالے‬
‫سے مہرین کو اس فیملی‬
‫کی قلیل دورانیے کی آمد کا‬
‫پتہ چال‪ ,‬اس رشتے کے‬
‫حوالے سے ملی معلومات‬
‫مہرین کو بہت پسند آئیں‪,‬‬
‫اسلیے مہرین نے بنا کسی‬
‫وقت ضائع کئے انکو اپنے‬
‫گھر چائے پہ مدعو کر لیا‪,‬‬
‫اس فیملی کو بھی بنیادی‬
‫معلومات دے کہ مہرین کے‬
‫گھر لے آیا گیا‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کو پہلے ہی دفتر اطالع کر‬
‫چکی تھی اسلیے فہد بھی‬
‫وقت رہتے دفتر سے گھر‬
‫پہنچ گیا‪ ,‬مہمان چائے پی‬
‫رہے تھے جب متوقع‬
‫دولہے نے گھر کی بیل‬
‫بجائی‪ ,‬مہرین جلدی جلدی‬
‫اپنے بھائی کو گیٹ سے‬
‫اندر الئی اور کچھ دیر میں‬
‫اسے صاف کپڑے پہنا کہ‬
‫مہمانوں کے سامنے لے‬
‫آئی‪ ,‬فہد کسی لڑکی کیطرح‬
‫شرماتا جا رہا تھا اور مہرین‬
‫خوشی سے پھولے نہ سما‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین نے فہد کی‬
‫آمد سے قبل جو معلومات‬
‫لیں اسکے مطابق تو یہ‬
‫رشتہ ان تمام تقاضوں پہ‬
‫پورا اتر رہا تھا جو مہرین‬
‫اور فہد نے سوچا ہوا تھا‪,‬‬
‫آنے والی فیملی کو بھی فہد‬
‫پسند آیا اسلیے وہ ان کو‬
‫اپنے گھر دعوت دے کہ‬
‫چلے گئے‪ ,‬جاتے جاتے اپنا‬
‫نمبر اور گھر کا پتہ مہرین‬
‫کو لکھوا گئے‪ ,‬یہ ایک طرح‬
‫سے رشتے کو حتمی سمت‬
‫میں لیجانے کی دعوت تھی‬
‫اور لڑکی کو آکہ دیکھ کی‬
‫پسند کرنے کی دعوت بھی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین نے قبل از وقت‬
‫ہی انکو تنبیہ کر دی کی‬
‫چونکہ مہرین اتنی دور‬
‫اکیلی نہیں آ سکتی اسلیے‬
‫فہد اور مہرین دونوں ہی‬
‫آئینگے‪ ,‬اس فیملی کو بھی‬
‫اس بات پہ کوئی خاص‬
‫اعتراض نہیں تھا اسلیے‬
‫انہوں نے انکی اگلی آمد کو‬
‫ایک غیر رسمی مالقات کی‬
‫حد تک رکھنے کا کہا اور‬
‫وہاں سے بہت پرامید ہو کہ‬
‫رخصت ہو گئے‬
‫فہد کے دل میں لڈو پھوٹ‬
‫رہے تھے مگر اسکا دل یہ‬
‫سب قبول کرنے سے قاصر‬
‫تھا اسلیے وہ بس مہرین کی‬
‫خوشی کو دیکھ کی دل کو‬
‫تسلی دے رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫بھی ایسا رشتہ مل جانے پہ‬
‫خوش تھی‪ ,‬مہرین کا شوہر‬
‫ایک سلجھا اور سمجھدار‬
‫انسان تھا اسلیے اگلے فون‬
‫پہ بات ہونے پہ اس سے‬
‫کیے گئے تمام تر مشوروں‬
‫اور نصیحتوں کی روشنی‬
‫میں مہرین کو ہدایات مل‬
‫گئی کہ کیسے کیسے چیزوں‬
‫کو انجام دینا ہے اور کون‬
‫کون سی باریکیوں کو مد‬
‫نظر رکھنا ہے‪ ,‬مہرین اس‬
‫فیملی سے لینڈ الئین کے‬
‫ذریعے باقاعدہ رابطے میں‬
‫رہی اور دو تین ہفتے بعد‪,‬‬
‫مہرین کے شوہر کی اجازت‬
‫اور مشورے سے مہرین‬
‫اور فہد اپنے شہر سے فہد‬
‫کے متوقعہ سسرال کی‬
‫طرف جانے کیلیے تیار ہو‬
‫گئے‪ ,‬یہ دو تین ہفتے فہد‬
‫اور مہرین اس فیملی اور‬
‫مہرین کی متوقعہ منگیتر‬
‫کے بارے میں بہت ساری‬
‫باتیں جان چکے تھے اور‬
‫اب ایک سسپینس کو دل میں‬
‫لیے لڑکی کے حسن و جمال‬
‫کی جلوے دیکھنے کی امید‬
‫دل میں لیے جانے کیلیے‬
‫تیاریاں کر رہے تھے‬

‫مہرین اور فہد کو دوسرے‬


‫شہر براستہ ٹرین جانا تھا‬
‫اسلیے انکا پالن کچھ یوں‬
‫مرتب ہو کہ وہ علی الصبح‬
‫ٹرین کے ذریعے اپنے شہر‬
‫سے روانہ ہو کہ اڑھائی‬
‫گھنٹے کے سفر کو طہ کر‬
‫کہ دس ساڑھے دس‬
‫دوسرے شہر جا پہنچیں‬
‫گے‪ ,‬وہاں سے ہونیوالے‬
‫رشتہ داروں کے گھر سے‬
‫کوئی بھی فرد ان کو ریسیو‬
‫کر کہ گھر تک لے آئے گا‪,‬‬
‫اور ایسے ہی وہ شام ڈھلنے‬
‫سے پہلے وہاں سے واپس‬
‫نکل پڑیں گے تا کہ بحفاظت‬
‫اور بروقت اپنے گھر پہنچ‬
‫جائیں‪ ,‬مہرین نے اپنی‬
‫زندگی میں بہت کم ہی سفر‬
‫کیا تھا اور اوپر سے اسکا‬
‫ہمسفر اسکا ہر دلعزیز‬
‫چھوٹا بھائی ہو گا تو مہرین‬
‫کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ‬
‫نہ تھا‪ .‬آنیوالی صبح انکو‬
‫سفر کرنا تھا اسلیے رات کو‬
‫ہی سامان پیک کر کہ مہرین‬
‫اپنے بھائی کے برابر آ کہ‬
‫لیٹ گئی‪ ,‬فہد مہرین سے‬
‫صبح کو ساتھ لے کہ جانے‬
‫والے سامان کی تمام تر‬
‫تفصیالت پوچھ رہا تھا اور‬
‫مہرین اسے اسکی منگیتر‬
‫کے نام سے بار بار چھیڑ‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد کے دل میں‬
‫نئے جذبات جنم لے رہے‬
‫تھے اسلیے وہ بھی شرما‬
‫شرما کہ اپنی بہن کے منہ‬
‫سے اپنی ہونیوالی منگیتر کا‬
‫نام سن کہ گالبی مسکراہٹ‬
‫دے رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬کیوں دولہے راجا‪,‬‬


‫کل تو اپنی خوابوں کی رانی‬
‫کو دیکھنے جا رہے ہو‪,‬‬
‫کیسا لگ رہا ہے‬

‫فہد‪ :‬باجی صبح جا کہ‬


‫دیکھیں گے کہ خوابوں کی‬
‫رانی کا جو نقشہ آپ نے‬
‫سنایا ہے وہ ویسی ہے بھی‬
‫یا نہیں‬

‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں اسکو دیکھ‬


‫کہ تم مجھے بھول جاؤ گے‬

‫فہد‪ :‬باجی؟ یہ کیا کہہ رہی‬


‫ہیں؟ ایسا کیسے ہو سکتا‬
‫ہے؟ آپکے مقابلے میں نہ‬
‫کوئی ہے اور نہ ہو گی‬
‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں یہ سب‬
‫کہنے کی باتیں ہیں‪ ,‬بیوی‬
‫کے پیچھے لگ کہ بڑے‬
‫بڑے اپنی ماں بہن کو بھول‬
‫جاتے ہیں‬

‫دعوی‬
‫ٰ‬ ‫فہد‪ :‬باجی میں کوئی‬
‫تو نہیں کرونگا کیونکہ اس‬
‫بات کا فیصلہ وقت ہی کرے‬
‫گا کہ میں بدلتا ہوں یا نہیں‪,‬‬
‫اور رہی بات میرے بدلنے‬
‫کی تو آپ کی قسم ابھی یہ‬
‫سب پالننگ کو ختم کر دو‬
‫میں گلہ بھی نہیں کرونگا‪,‬‬
‫یہ سب تو آپکی خوشی‬
‫کیلیے کر رہا ہوں اور اب‬
‫آپ ہی مجھے بدلنے کا الزام‬
‫تو نہ دو‬

‫مہرین‪ :‬نہیں فہد ایسی بات‬


‫نہیں‪ ,‬مجھے اندازہ ہے کہ‬
‫تم میرے ہی ہو ہمیشہ‪ ,‬یہ تو‬
‫معاشرے کی پابندیاں ہیں‬
‫ورنہ آج شاید‬

‫مہرین ایک ادھوری بات کو‬


‫چھوڑ کہ خاموش ہو چکی‬
‫تھی اور اس کا چہرہ اتنی‬
‫گرم جوشی سے تیاریوں‬
‫کے باوجود ان باتوں کو‬
‫کرنے سے اترا اترا سا لگ‬
‫رہا تھا‪ ,‬فہد مہرین کے دل‬
‫کے نامکمل ارمانوں کی‬
‫چیخوں کو صاف صاف سن‬
‫اور سمجھ رہا تھا مگر وہ‬
‫بھی مہرین کی طرح بے بس‬
‫اور الچار اپنے اندر بھی‬
‫ادھورے ارمان لیے اپنی‬
‫بہن کو گلے سے لگا کہ‬
‫خاموش تھا‬

‫فہد‪ :‬باجی؟ اگر معاشرے کی‬


‫پابندیاں نہ ہوتی تو؟‬
‫مہرین‪ :‬پتہ نہیں فہد‪ ,‬کیا ہوتا‬
‫کیا نہ ہوتا‬

‫فہد‪ :‬بتائیں باجی‬

‫مہرین‪ :‬کیا بتاؤں فہد؟‬

‫فہد اپنی اکلوتی بہن اور‬


‫اکلوتی محبت کے منہ سے‬
‫اس شاید کو سننا چاہ رہا‬
‫تھا جس کا جواب وہ جانتا‬
‫تھا اسلیے فہد نے مہرین‬
‫کے لبوں کو چوم کہ اپنا‬
‫سوال دہرایا‪ ,‬مہرین نے فہد‬
‫کی آنکھوں میں دیکھ کی‬
‫جواب دیا‬

‫مہرین‪ :‬اگر معاشرے کی‬


‫پابندیاں نہ ہوتی تو شاید‬
‫میں تمہارے بچے کی ماں‬
‫ہوتی‬

‫فہد نے اس بات کو سن کہ‬


‫مہرین کو گلے سے لگا لیا‪,‬‬
‫دونوں اس بات کو سوچ کہ‬
‫اندر ہی اندر بیتاب ہو کہ‬
‫اپنے نصیبوں کو کوس رہے‬
‫تھے کہ کاش یہ معاشرے‬
‫کی پابندیاں نہ ہوتی تو آج‬
‫وہ ایکدوسرے کے ساتھ کو‬
‫ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اپنا‬
‫لیتے‪ ,‬فہد اور مہرین پچھلی‬
‫ایک دہائی سے ایک‬
‫دوسرے کی جسمانی کشش‬
‫کے شدت سے پیاسے تھے‬
‫مگر اس پیاس کو وہ اپنے‬
‫جذبات کی مدد سے پورا کر‬
‫رہے تھے‪ ,‬وہ ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ سب کچھ کر‬
‫سکتے تھے مگر وقت کی‬
‫فراوانی اور حاالت کی مکمل‬
‫حمایت کے باوجود وہ اس‬
‫انتہائ حد کے بس آس پاس‬
‫ہی بھٹکتے رہے‪ ,‬وہ کبھی‬
‫اس حد کو پار ہی نہیں کر‬
‫سکے جس کیلیے وہ دونوں‬
‫پچھلے طویل عرصے سے‬
‫خواہشمند تھے‬

‫فہد‪ :‬باجی؟‬

‫مہرین‪ :‬جی باجی کی جان؟‬


‫فہد‪ :‬میں شادی نہیں کرنا‬
‫چاہتا‬

‫مہرین‪ :‬فہد تم مجھے حاصل‬


‫تو نہیں کر سکتے لیکن کیا‬
‫یہ اچھی بات نہیں کہ تمہیں‬
‫مجھ سے کوئی جدا بھی تو‬
‫نہیں کر سکتا‪ ,‬شادی کی‬
‫رات میرے بھی ایسے ہی‬
‫جذبات تھے جو اسوقت‬
‫تمہیں محسوس ہو رہے‬
‫ہیں‪ ,‬لیکن مجھے آج اس‬
‫بات پہ زیادہ خوشی ہے کہ‬
‫تم آج بھی میرے ساتھ ہو‪,‬‬
‫کیا یہ خوشی کم ہے میرے‬
‫لیے؟‬

‫فہد‪ :‬باجی میں نے آپکے‬


‫عالوہ کسی اور کو اپنا نہیں‬
‫مانا تو اس لڑکی کو کیسے‬
‫مان لوں؟‬
‫مہرین‪ :‬میں نے بھی‬
‫تمہارے عالوہ کسی اور کو‬
‫اپنے اوپر اتنا حق نہیں دیا‬
‫تھا جتنا تمہیں دیا لیکن فہد‬
‫میں وہی مہرین ہوں جس‬
‫نے آج کسی اور کا بچہ پیدا‬
‫کیا‪ ,‬نہ کہ تمہارا‬

‫فہد‪ :‬باجی ضروری ہے کہ‬


‫جس تکلیف سے آپ گزری‬
‫ہو میں بھی اس تکلیف سے‬
‫گزروں؟ آپ میں کسی اور کا‬
‫ہونے کا دکھ برداشت کرنے‬
‫کی ہمت تھی لیکن ہو سکتا‬
‫ہے میں یہ برداشت نہ کر‬
‫سکوں‬

‫مہرین اور فہد ایک دوسرے‬


‫کو نہ ہی پا سکتے تھے اور‬
‫نہ ہی کھو سکتے تھے‪ ,‬وہ‬
‫ایک دوسرے کو خوش‬
‫دیکھنا چاہتے تھے لیکن‬
‫انکا ہمیشہ کیلیے ایک‬
‫ہونے کا سپنا کبھی پورا‬
‫نہیں ہو سکتا تھا‪ ,‬عجیب‬
‫تذبذب میں رات کاٹ کہ صبح‬
‫دونوں بہن بھائی ٹرین کے‬
‫ذریعے دوسرے شہر کیلیے‬
‫روانہ ہو گئے جہاں ایک‬
‫خاندان انکی آمد کا انتظار‬
‫کر رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد کے‬
‫سنہرے اور خوشیوں سے‬
‫بھرے مستقبل کیلیے بہت‬
‫خوش بھی تھی اور اندر ہی‬
‫اندر اسے یہ دکھ بھی ہو رہا‬
‫تھا کہ اس سفر سے واپسی‬
‫پہ فہد کسی اور کے نام سے‬
‫منسوب ہو جائے گا اور‬
‫ایک نہ ایک دن فہد ہمیشہ‬
‫ہمیشہ کیلیے کسی اور کا ہو‬
‫جائے گا‪ ,‬فہد کے دل میں‬
‫بھی ایسے ہی اوہام تھے‪.‬‬
‫دونوں بھائی بہن تیار ہو کہ‬
‫بہت خوبصورت لگ رہے‬
‫تھے‪ ,‬خاص کر مہرین کے‬
‫چہرے پہ تو جس کی نظر‬
‫پڑ جاتی وہ بس دیکھتا ہی‬
‫رہ جاتا‪ ,‬بچہ گاڑی میں کچھ‬
‫ماہ کا خوبصورت اور‬
‫شرارتی آنکھوں واال بچہ‬
‫تمام مسافروں کی توجہ کا‬
‫مرکز بن چکا تھا‪ ,‬فہد کے‬
‫بازو میں ضرورت کی‬
‫چیزوں کا ایک چھوٹا سا‬
‫بیگ تھا اور دوسرے ہاتھ‬
‫میں مہرین کا ہاتھ‪ ,‬ہر‬
‫دیکھنے واال یہی سمجھتا کہ‬
‫یہ دونوں میاں بیوی اپنے‬
‫نومولود کے ساتھ کسی سفر‬
‫پہ جا رہے ہیں‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کو ایسے انداز سے مخاطب‬
‫کر رہی تھی کہ جس سے‬
‫دیکھنے والے کو یقین ہو‬
‫جاتا کہ فہد مہرین کا شوہر‬
‫ہی ہے‪ ,‬فہد مہرین کے اس‬
‫رویے کا عادی تھا اسلیے‬
‫آج اس نے بھی بنا شرمائے‬
‫مہرین کے ساتھ ایسے برتاؤ‬
‫کرنا شروع کر دیا جیسے وہ‬
‫واقعی فہد کی محبوب بیوی‬
‫ہے‪ ,‬ہر دیکھنے والے کی‬
‫نظر اس جوان اور‬
‫خوبصورت جوڑے کو قابل‬
‫رشک نگاہوں سے دیکھ‬
‫رہی تھی‪ ,‬ان کا آپس میں‬
‫پیار اور محبت قابل دید تھا‪.‬‬
‫سفر ختم ہوا اور ٹرین سے‬
‫اتر کہ دونوں سفر کی‬
‫خوشگوار باتوں پہ ہنسنے‬
‫لگے‬

‫مہرین‪ :‬چلو اب باجی باجی‬


‫کہنا‪ ,‬اب ہم میاں بیوی بن کہ‬
‫تمہارے سسرال نہیں جا‬
‫سکتے‬
‫فہد‪ :‬باجی یہ میاں بیوی‬
‫والی ایکٹکنگ آپ کی وجہ‬
‫سے ہی کرنی پڑتی ہے‪ ,‬اتنا‬
‫عجیب لگتا ہے جب آپکو نام‬
‫لے کہ تم تم کرنا پڑتا ہے‪,‬‬
‫اور مجبور تو میں ہوتا ہوں‬
‫جو ایسے نازک مرحلے پہ‬
‫آپکو غلطی سے بھی باجی‬
‫کہہ دوں تو کتنا برا لگے‬
‫مہرین‪ :‬ہاں وہی تو ان کے‬
‫گھر پہنچنے سے پہلے‬
‫دوبارہ زبان پہ آپ آپ اور‬
‫باجی باجی چڑھا لو‬

‫فہد‪ :‬کمال کرتی ہو مہرین‬


‫بیگم‬

‫دونوں ایسی باتیں کرتے‬


‫ہنستے جا رہے تھے کہ‬
‫اچانک دور سے ایک‬
‫نوجوان انکے پاس آکہ‬
‫مخاطب ہو‬

‫نوجوان‪ :‬فہد بھائی؟ مہرین‬


‫باجی؟ آپ ہی ہیں ناں؟‬

‫لڑکا ہچکچا کہ پوچھ رہا تھا‬


‫اور فہد نے بڑھ کہ ہاں میں‬
‫سر ہال کہ مصافحہ کیا‪ ,‬سالم‬
‫دعا اور سفر کی خیر خیریت‬
‫بتاتے بتاے وہ لوگ تانگہ‬
‫گھوڑا پہ سوار ہو کہ کچھ‬
‫ہی دیر میں اپنی منزل پہ جا‬
‫پہنچے‪ ,‬وہاں جا کہ انکو‬
‫گھر کے اندر لے جایا گیا‪,‬‬
‫فہد کے متوقع سسرال کا‬
‫گھر کافی بڑا تھا‪ ,‬حویلی نما‬
‫گھر جس کے مختلف‬
‫حصوں میں ایک ہی خاندان‬
‫کے لوگ رہائش پذیر تھے‪,‬‬
‫ایک بڑا سا صحن جس کے‬
‫ہر سمت میں راہداریاں تھی‪,‬‬
‫دو منزلہ گھر جسکی تعمیر‬
‫پرانے انداز میں مگر کافی‬
‫مضبوط لگ رہی تھی‪ ,‬گھر‬
‫کے صحن میں دو تین‬
‫ضعیف العمر بزرگ دنیا‬
‫جہاں سے بے خبر ہو کہ‬
‫حقہ پھونک رہے تھے‪,‬‬
‫چھوٹے اور درمیانی عمر‬
‫کے بچے بھاگتے شور‬
‫کرتے ایک راہ داری سے‬
‫دوسری راہ داری میں آ جا‬
‫رہے تھے‪ ,‬فہد کی ہونیوالی‬
‫ساس اور سسر خاندان کے‬
‫کچھ اور بڑے لوگ ان کو‬
‫گھر کے ایک حصے میں‬
‫لے آئے‪ ,‬وہاں انکو ایک‬
‫کمرے میں بٹھا کہ ان کی‬
‫خاطر مدارت کی جانے لگی‪,‬‬
‫وہ دونوں تنہا طبیعت کے‬
‫بہن بھائی اس طرح کے‬
‫ماحول سے بہت متاثر ہو‬
‫رہے تھے اور خاطر تواضع‬
‫کا مزہ لے رہے تھے‪ ,‬فہد‬
‫کی آنکھیں کسی کو تالش‬
‫کر رہی تھی مگر مجال ہے‬
‫کہ اس کمرے کے اردگرد‬
‫کسی نسوانی آواز کو بھی‬
‫سن پایا ہو‪ ,‬فہد مہرین سے‬
‫آنکھوں کے اشاروں سے‬
‫پوچھ رہا تھا کہ لڑکی کب‬
‫آئے گی مگر مہرین ان‬
‫لوگوں سے بات کرتی کرتی‬
‫فہد کی اس حرکت کو اگنور‬
‫کر رہی تھی‪ ,‬مہرین بھانپ‬
‫چکی تھی کہ یہ لوگ پردہ‬
‫دار ہیں اسلیے فہد لڑکی کو‬
‫دیکھنا تو درکنار آواز بھی‬
‫نہیں سن پائے گا‪ ,‬اور ایسا‬
‫ہی ہوا‪ ,‬وہاں موجود خواتین‬
‫نے کچھ دیر بعد مہرین کو‬
‫مخاطب کیا‬

‫ساس‪ :‬آؤ بیٹا آپکو گھر کے‬


‫باقی لوگوں سے ملوا الئیں‬
‫یہ بات سن کہ مہرین اپنے‬
‫بچے کو لے کہ اٹھ کھڑی‬
‫ہوئی‪ ,‬ابھی مہرین نے ایک‬
‫قدم بھی نہیں اٹھایا تھا کہ‬
‫فہد بھی مہرین کے ساتھ‬
‫چلنے کیلیے کھڑا ہو گیا‪,‬‬
‫فہد اسوقت مہرین سمیت ہر‬
‫نظر کا مرکز بن چکا تھا‪ ,‬ان‬
‫تین چار عورتوں اور مردوں‬
‫نے فہد کو نروس ہوتا ہوا‬
‫دیکھا تو وہ لبوں میں‬
‫مسکرانے لگے‪ ,‬ان مردوں‬
‫میں سے ایک مرد نے فہد‬
‫کو مخاطب کیا‬

‫آدمی‪ :‬فہد بیٹا آپ تو ہمارے‬


‫پاس ہی بیٹھ جاؤ‪ ,‬اپنی جاب‬
‫کے بارے میں بتاؤ ہمیں‪,‬‬
‫کونسا ادارہ ہے جہاں آپ‬
‫جاب کرتے ہو؟‬
‫مہرین فہد کی حالت پہ‬
‫ہنستی ہوئی ان عورتوں‬
‫سے گھل مل کہ باتیں کرتی‬
‫اس کمرے سے نکل گئی‪,‬‬
‫اور فہد ان لوگوں کے‬
‫سوالوں کے جوابات دینے‬
‫میں لگ گیا‪ ,‬کافی دیر ایسے‬
‫ہی ان سے گپ شپ‬
‫کرتےفہد ان سے گھلنے‬
‫ملنے کی کوشش کرنے لگا‬
‫مگر سوالوں کی بوچھاڑ‬
‫سے فہد بہت نروس ہو گیا‪,‬‬
‫دوپہر کے وقت پر تکلف‬
‫ضیافت کیلیے فہد کو مہرین‬
‫کے پاس لے جایا گیا‪,‬‬
‫راستے میں کچھ چھوٹی‬
‫عمر کی بچیوں نے فہد کو‬
‫سالم کیا‪ ,‬فہد نظریں‬
‫جھکائے ایک لڑکے کی‬
‫رہنمائی میں راہداریوں سے‬
‫ہوتا ہوا گزر رہا تھا‪ ,‬باآلخر‬
‫فہد ایک کمرے میں پہنچا‬
‫جہاں مہرین کچھ عورتوں‬
‫سے باتوں میں مگھن ہنس‬
‫ہنس کہ اپنی خوبصورتی کا‬
‫جادو چال رہی تھی‪ ,‬زمین پہ‬
‫دستر خوان کے گرد سب‬
‫لوگ جمع تھے اور فہد‬
‫مہرین کے برابر آ کہ بیٹھ‬
‫گیا‪ ,‬فہد کے دل میں ہزاروں‬
‫سواالت تھے‪ ,‬مہرین کے‬
‫کان کے پاس ہو کہ فہد نے‬
‫انتہائی دھیمی آواز سے بات‬
‫کی‬

‫فہد‪ :‬چلو باجی اب‪ ,‬کیا یار‬


‫بور ہو گیا ہوں‪ ,‬یہ بڈھے‬
‫لوگوں نے تو سوال کر کر‬
‫کہ میرا سارا انٹرویو کر لیا‪,‬‬
‫اتنا لمبا انٹرویو تو مالزمت‬
‫کیلیے نہیں دیا جتنا انہوں‬
‫نے میرا کر لیا‬
‫مہرین‪ :‬بیٹا جی لڑکی دینی‬
‫ہے انہوں نے‪ ,‬ابھی تو‬
‫عشق کے امتحاں اور بھی‬
‫ہیں‬

‫فہد‪ :‬باجی لڑکی تو دکھا دیں‬


‫کم از کم‬

‫مہرین نے ہنستے ہنستے‬


‫فہد کو آنکھیں نکال کہ‬
‫جواب دیا‬
‫مہرین‪ :‬بہت خوبصورت ہے‬
‫آپکی ہونیوالی بیوی‪ ,‬پڑھی‬
‫لکھی ہے سگھڑ ہے‪ ,‬اور‬
‫سب سے بڑھ کہ بہت‬
‫معصوم ہے‪ ,‬تمہاری الٹری‬
‫لگ گئی ہے فہد میاں‬

‫فہد‪ :‬بس کرو باجی‪ ,‬اب‬


‫ایسی بھی تعریفیں نہ کرو‪,‬‬
‫یہ بتائیں کہ اسکو ملوائیں‬
‫گے مجھ سے یا نہیں؟‬

‫مہرین‪ :‬سوچنا بھی نہ کہ‬


‫تمہیں اس سے ملوائیں گے‪,‬‬
‫ہاں میں نے تمہاری‬
‫ہونیوالی ساس سے سفارش‬
‫تو کی ہے کہ اگر دور سے‬
‫تمہیں دکھا دیں‪ ,‬وہ بھی‬
‫ابھی مانی نہیں ہیں‪ ,‬یہ لوگ‬
‫اکٹھے رہتے ہیں اسلیے‬
‫ایسی باریکیوں کا بہت خیال‬
‫رکھتے ہیں‪ ,‬کل کالں کو‬
‫کوئی طعنہ نہ مار دے‪,‬‬
‫سمجھا کرو‬

‫انہی باتوں کے دوران کھانا‬


‫لگ گیا اور کھانے سے‬
‫فارغ ہو کہ چائے کا دور‬
‫شروع ہو گیا‪ ,‬اس گھر کی‬
‫سی سے لے کی کھانا اور‬ ‫ل ً‬
‫چائے‪ ,‬ہر چیز کی لذت بے‬
‫مثال تھی‪ ,‬چائے تک آتے‬
‫آتے مہرین تو سب کے نام‬
‫اور رشتے جان چکی تھی‬
‫اور ان سے ایسے پیش آ‬
‫رہی تھی جیسے برسوں‬
‫سے انکو جانتی ہو‪ ,‬مہرین‬
‫اسقدر ان میں گھل مل چکی‬
‫تھی جیسے وہ انکے گھر کا‬
‫ہی کوئی فرد ہو‪ ,‬چھوٹی‬
‫بچیاں مہرین کے بچے کو‬
‫بار بار آ کہ ایسے لے‬
‫جارہی تھیں جیسے کوئی‬
‫نایاب کھلونا مل گیا ہو‪ ,‬ہر‬
‫زبان پہ بس مہرین کا نام‬
‫تھا‪ ,‬فہد ایک بھولی بھٹکی‬
‫گائے کی طرح بس باتوں پہ‬
‫مسکرا مسکرا کہ شامل‬
‫ہونے کی کوشش کر رہا تھا‪.‬‬
‫رخصت لینے کا وقت قریب‬
‫آرہا تھا اسلیے مہرین فہد‬
‫کے سسر اور ساس کے‬
‫درمیان بیٹھی مدھم آواز میں‬
‫باتیں کررہی تھی‪ ,‬یوں لگ‬
‫رہا تھا کہ جیسے وہ انکو‬
‫کسی بات پہ آمادہ کر رہی‬
‫ہو‪ ,‬اور بات کو اختتامی‬
‫سلسلے میں ال کہ فہد کی‬
‫ساس نے مہرین کو کان میں‬
‫کچھ کہہ کہ وہاں سے تیز‬
‫قدموں سے نکل گئی‪ ,‬مہرین‬
‫فہد کے پاس آ کہ بیٹھ گئی‬
‫اور واپسی کیلیے کہنے‬
‫لگی‪ ,‬فہد اپنی ہونیوالی‬
‫منگیتر کی جھلک کیلیے نا‬
‫امید اب بس وہاں سے نکلنا‬
‫چاہ رہا تھا‪ .‬جب وہاں سے‬
‫نکلنے کیلیے گھر کے‬
‫خارجی راستے کیلیے بڑھ‬
‫رہے تھے تو مہرین نے فہد‬
‫کے کان میں کچھ کہا‬

‫مہرین‪ :‬اوپر کھڑکی میں‬


‫دیکھو‬
‫فہد نے مہرین کی بات پہ‬
‫حیران ہو کہ چلتے چلتے‬
‫کھڑکی پہ نظر ڈالی تو وہاں‬
‫گالبی رنگ کے لباس میں‬
‫ملبوس ایک لڑکی‪ ,‬جس کے‬
‫نین نقش تیکھے اور رنگ‬
‫مہرین سے بھی زیادہ‬
‫چمکدار‪ ,‬سر پہ دوپٹہ‬
‫اوڑھے نظریں جھکا کہ‬
‫کھڑی تھی‪ ,‬جیسے فہد کی‬
‫آنکھوں سے آنکھیں ملی وہ‬
‫دانتوں میں دوپٹہ دبائے‬
‫کھڑکی کی آڑ میں چھپ‬
‫گئی‪ ,‬اور چلتے چلتے وہ‬
‫کھڑکی بند ہو گئی‪ ,‬دونوں‬
‫بہن بھائی اس خاندان کے‬
‫بچوں بڑوں اور بزرگوں کے‬
‫گھیرے میں دروازے تک‬
‫پہنچے تو گھر کا ہر فرد‬
‫مہرین کی رخصت پہ افسردہ‬
‫تھا‪ ,‬مہرین سب لوگوں سے‬
‫گلے مل مل کہ دوبارہ واپس‬
‫آنے کے وعدے کر رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد کسی اجنبی کی‬
‫طرح سب سے واجبی سا مل‬
‫رہا تھا‪ ,‬سوائے فہد کی‬
‫ساس اور سسر کے فہد‬
‫کیلیے کسی کے دل میں گرم‬
‫جوشی ایسے نہیں تھی‬
‫جیسے مہرین کیلیے تھی‪,‬‬
‫دہلیز پہ ایک لمبی الوداعی‬
‫تقریب کے بعد وہی لڑکا جو‬
‫انکو اسٹیشن سے لینے آیا‬
‫تھا‪ ,‬انکو تانگے میں سوار‬
‫کر کہ دوبارہ اسٹیشن کی‬
‫طرف چل دیا اور ٹرین میں‬
‫سوار کروا کہ وہ بھی وہاں‬
‫سے واپس ہو لیا‪ ,‬اسٹیشن‬
‫پہ پہنچ کی فہد نے واپسی‬
‫کی ٹکٹیں لیں اور راستے‬
‫کیلیے کچھ پانی وغیرہ کا‬
‫بندو بست کر کہ آ کہ ٹرین‬
‫میں سوار ہو گیا‪ ,‬ٹرین کے‬
‫چلنے میں ابھی کچھ دیر‬
‫باقی تھی‪ ,‬شام ڈھلنے والی‬
‫تھی اور وہ ٹرین کے ڈبے‬
‫میں بیٹھے باتیں کر رہے‬
‫تھے‬

‫مہرین‪ :‬ہاں تو میرے الڈلے؟‬


‫بتاؤ؟ کیسی لگی لڑکی؟‬

‫فہد‪ :‬باجی‬
‫فہد نے ابھی اپنے منہ سے‬
‫باجی کا لفظ ادا کیا ہی تھا کہ‬
‫مہرین نے اسے ٹوک دیا‬
‫اور لہکتے انداز میں بات‬
‫کہی‬

‫مہرین‪ :‬باجی باجی گھر جا‬


‫کہ کرنا‪ ,‬فی الحال ہم آپکی‬
‫بیوی بننا چاہتے ہیں‬
‫فہد نے ہنس کہ اپنے ماتھے‬
‫پہ ہاتھ مارا اور آتی جاتی‬
‫عوام کو ایک نظر دیکھ کہ‬
‫مہرین کو دیکھا‬

‫فہد‪ :‬مہرین بیگم‪ ,‬تمہاری‬


‫سوتن مجھے پسند آئی‬

‫مہرین قہقہہ مار کہ ہنسنے‬


‫لگی‬
‫مہرین‪ :‬پیاری ہے‪ ,‬شکر‬
‫کرو کہ اسکی امی نے اپنے‬
‫شوہر کو منا لیا‪ ,‬ورنہ اتنا‬
‫لمبا سفر ضائع جاتا‬

‫فہد‪ :‬بیگم‪ ,‬آپکی سوتن کرتی‬


‫کیا ہے‬
‫مہرین‪ :‬ویسے ہے تو وہ‬
‫میری سوتن ہی‪ ,‬تمہارے‬
‫پیار کی اکلوتی مالکن تھی‬
‫میں‪ ,‬اب آ جائے گی وہ تو‬
‫نہ جانے تمہارا پیار مجھے‬
‫مل سکے گا یا نہیں‬

‫فہد‪ :‬مہرین تم آج حکم کرو‬


‫تو یہ سب یہیں پہ ختم کر‬
‫دوں گا‪ ,‬تمہاری ملکیت پہ‬
‫کسی دوسری کو نہیں آنے‬
‫دونگا‬

‫مہرین نے فہد کے بازو‬


‫سے اپنا آپ ایسے چپکا لیا‬
‫جیسے وہ گلے مل رہی ہو‬

‫مہرین‪ :‬فہد حقیقت یہی ہے‬


‫کہ ہماری محبت ادھوری رہ‬
‫جائے گی‪ ,‬میں کسی اور کی‬
‫ہو گئی‪ ,‬تم کسی اور کے ہو‬
‫جاؤ گے‪ ,‬یہ ہونا ہی تھا اور‬
‫ہو کہ رہے گا‬

‫فہد اداس نظروں سے مہرین‬


‫کے سر کو چوم کہ کھڑکی‬
‫سے باہر دیکھنے لگا‪,‬‬
‫دونوں کے پاس ان باتوں کا‬
‫کوئی جواب نہیں تھا‪ ,‬وہ‬
‫دونوں ایک دوسرے سے‬
‫جڑے بیٹھے اپنی تقدیر کو‬
‫کوس رہے تھے کہ ان کے‬
‫سامنے ایک مرد اور عورت‬
‫آ کہ بیٹھ گئے‪ ,‬انکی عمریں‬
‫پچاس برس کے قریب قریب‬
‫ہونگی‪ ,‬جیسے ہی وہ‬
‫بیٹھنے کیلیے سامنے آئے‬
‫تو مہرین اور فہد ایک‬
‫دوسرے سے الگ ہو کہ اپنا‬
‫آپ ٹھیک کرنے لگے‪,‬‬
‫مہرین نے بے ساختہ انداز‬
‫میں ان کو سالم کیا اور کچھ‬
‫توقف سے فہد نے بھی‬
‫سالم کیا تو جواب میں وہ‬
‫مرد عورت نے مسکرا کہ‬
‫سالم کا جواب دیا‪ ,‬اور وہاں‬
‫پہ بیٹھ کہ حاالت کا جائزہ‬
‫لینے لگے‬

‫ٹرین چل پڑی اور وہ انکل‬


‫جن کے بالوں اور چھوٹی‬
‫چھوٹی داڑھی خزاب سے‬
‫رنگی ہوئی تھی‪ ,‬کرتا اور‬
‫تہمد زیب تن کیے کندھے پہ‬
‫سفید رنگ کا کپڑا ڈالے‬
‫بیٹھے مہرین اور فہد کی‬
‫طرف مسکرا کہ دیکھ رہے‬
‫تھے‪ ,‬انکے ساتھ عورت جو‬
‫کہ یقینا ً انکی بیوی ہو گی‬
‫بہت سادہ مگر خوش مزاج‬
‫عورت لگ رہی تھی‪ ,‬وہ‬
‫دونوں ہی آپس میں بات کر‬
‫رہے تھے اور بار بار فہد‬
‫اور مہرین کو دیکھ کہ‬
‫مسکرانے لگ جاتے‪ ,‬اس‬
‫عورت سے رہا نہ گیا اور‬
‫اس نے مہرین کو مخاطب‬
‫کر ہی لیا۔‬

‫عورت‪ :‬پہال بچہ ہے؟‬

‫مہرین‪ :‬جی‬

‫عورت‪ :‬نظر نہ لگے‪ ,‬اپنا‬


‫دودھ پالتی ہو؟‬
‫مہرین‪ :‬جی‬

‫عورت‪ :‬نارمل ڈیلیوری سے‬


‫ہوا؟‬

‫مہرین‪ :‬جی جی‬

‫اس عورت کے سوالوں کا‬


‫سلسلہ بڑھتا ہی چال گیا‪,‬‬
‫ب‬
‫مہرین نے فہد کو حس ِّ‬
‫معمول اپنا شوہر ہی بتایا‪,‬‬
‫وہ عورت اور مرد اپنی بیٹی‬
‫کے گھر سے واپس آرہے‬
‫تھے جس نے اپنے پہلے‬
‫بچے کو جنم دیا تھا‪ ,‬وہ‬
‫بزرگ جو اس عورت کا‬
‫شوہر تھا پیشے سے حکیم‬
‫تھا‪ ,‬ایک گھنٹے بعد آنیوالے‬
‫سٹاپ پہ انکا سفر ختم ہو‬
‫جانا تھا‪ ,‬حکیم اور اسکی‬
‫بیوی کو مہرین اور فہد سے‬
‫باتیں کرنا اچھا لگ رہا تھا‬
‫اور ویسے بھی وہ بھلے‬
‫لوگ رہے تھے اسلیے‬
‫مہرین اور فہد سے باتیں‬
‫چلتی ہی جا رہی تھی‪ ,‬بزرگ‬
‫جو کہ اپنی حکمت کے‬
‫حوالے سے واقعات سنانے‬
‫میں لگے ہوئے تھے‪ ,‬باتوں‬
‫باتوں میں مہرین اور فہد‬
‫سے ازدواجی زندگی کے‬
‫حوالے سے مسائل کے حل‬
‫ڈھکے چھپے انداز میں بیان‬
‫کر رہے تھے‪ ,‬مہرین اور‬
‫فہد انکی باتوں سے‬
‫محضوض ہو رہے تھے‪,‬‬
‫حکیم صاحب کی بیوی انکو‬
‫بات بات پہ ٹوکتی اور انکی‬
‫محبت بھری نوک جھونک‬
‫اس گفتگو کو مزید لطف‬
‫اندوز بنا رہی تھی‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب بہت کھلی طبیعت کے‬
‫آدمی لگ رہے تھے اسلیے‬
‫جب بھی کوئی کھلی بات‬
‫کرتے تو انکہ بیوی انکو‬
‫ٹوک کہ منع کرتی تو آگے‬
‫سے بے دھڑک ہو کہ جواب‬
‫دیتے کہ کیا ہو گیا ہے‪,‬‬
‫شادی شدہ ہیں یہ‪ ,‬بچے‬
‫تھوڑی ہیں‪ ,‬ہم نہیں انکی‬
‫رہنمائی کریں گے تو کون‬
‫کرے گا‪ ,‬حکیم صاحب اور‬
‫انکی بیوی کا بات کرنے‬
‫میں ایسی اپنائیت تھی‬
‫جیسے والدین کی اپنے‬
‫بچوں کیلیے ہوتی ہے‪,‬‬
‫مہرین اور فہد اس شفقت کو‬
‫ایک عرصے سے ترس‬
‫رہے تھے اسلیے حکیم‬
‫صاحب اور انکی بیوی سے‬
‫نہ چاہتے ہوئے بھی بات‬
‫کرتے جا رہے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫اور فہد جان بوجھ کر ایسی‬
‫بچگانہ بات کہہ دیتے جس‬
‫پہ حکیم صاحب اور انکی‬
‫بیوی انکو سمجھانے لگ‬
‫جاتے اور پھر دونوں بہن‬
‫بھائی بہت مزے سے انکی‬
‫ڈانٹ کو سن کہ خوش‬
‫ہوتے‪ ,‬حکیم صاحب کچھ‬
‫زیادہ ہی جوشیلے انداز میں‬
‫خطابت کرنے لگ جاتے‬
‫جس سے انکہ بیوی انکو‬
‫ٹوکتی اور نتیجتا ً حکیم‬
‫صاحب اور انکی بیوی آپس‬
‫میں بحثنے لگتے‪ ,‬یہ منظر‬
‫فہد اور مہرین کو اپنی امی‬
‫اور ابو کی یاد تازہ کروا رہا‬
‫تھا کہ کیسے انکی مرحوم‬
‫والدہ اپنے شوہر کے ساتھ‬
‫نوک جھونک کیا کرتی‪ ,‬سفر‬
‫کٹتا جا رہا تھا اور اب حکیم‬
‫صاحب کی بیوی مہرین کے‬
‫برابر بیٹھ کہ بہت قریب ہو‬
‫کہ باتیں کر رہی تھی اور فہد‬
‫حکیم صاحب کے ساتھ بیٹھا‬
‫ان سے انکے تجربات اور‬
‫واقعات سن رہا تھا‪ ,‬اور‬
‫ٹرین ایک سٹاپ کیلیے رکی‪,‬‬
‫ٹرین کے رکتے ہی‬
‫سواریوں کے اترنے‬
‫چڑھنے کا عمل شروع ہو‬
‫گیا‪ ,‬حکیم صاحب نے اگلے‬
‫سٹاپ پہ اترنا تھا اسلیے وہ‬
‫رفع حاجت کیلیے چلے گئے‬
‫مہرین اور حکیم صاحب کی‬
‫بیوی ابھی بھی سر جوڑے‬
‫باتوں میں مگھن تھیں‪,‬‬
‫جیسے ہی حکیم صاحب رفع‬
‫حاجت سے ہو کہ واپس آئے‬
‫تو انکی بیوی انکو ذرا‬
‫فاصلے پہ لے گئی اور بہت‬
‫تفصیل سے کوئی بات بتانے‬
‫لگی‪ ,‬فہد ہنستا ہوا اٹھ کہ‬
‫مہرین کے پاس آ کہ بیٹھ گیا‬

‫فہد‪ :‬یار کیا کمال کے لوگ‬


‫ہیں‪ ,‬مزہ آ گیا‪ ,‬پتہ ہی نہیں‬
‫چال وقت کا‪ ,‬حکیم صاحب‬
‫کے واقعات کی تو کیا بات‬
‫ہے‪ ,‬ہیں بڑے جی دار آدمی‬

‫مہرین‪ :‬ہاں اور اپنی بیوی‬


‫سے دیکھو کتنا پیار کرتے‬
‫ہیں‬

‫فہد‪ :‬ہاں ہاں‪ ,‬بہت پیار کرتے‬


‫ہیں‪ ,‬اسی لیے تو اتنا لڑتے‬
‫ہیں آپس میں‪ ,‬لیکن اسوقت‬
‫کونسی ایسی بات یاد آگئی‬
‫انکو جو دور جا کہ کر رہے‬
‫ہیں‬

‫مہرین‪ :‬کر رہے ہونگے‬


‫کوئی بات‪ ,‬آ گئی ہو گی‬
‫کوئی بات یاد‪ ,‬اور ہاں فہد‪,‬‬
‫تمہاری شادی ہونیوالی ہے‪,‬‬
‫اگر کوئی کمزوری وغیرہ کا‬
‫مسلہ ہے تو ابھی حکیم‬
‫صاحب سے کر لو‬
‫فہد‪ :‬نہیں‪ ,‬مجھے کوئی‬
‫کمزوری نہیں‪ ,‬آپ کو اچھی‬
‫طرح پتہ ہے کہ کمزوری‬
‫نہیں ہے‬

‫مہرین اور فہد ادھر خوش‬


‫گپیوں میں مگھن تھے اور‬
‫سامنے کچھ فاصلے پہ‬
‫حکیم صاحب اور انکی بیوی‬
‫کسی خاص مدعے پہ چرچا‬
‫کر رہے تھے‪ ,‬ان کی باتوں‬
‫کے دوران اکثر اشارہ مہرین‬
‫یا فہد کی طرف ہوتا لیکن‬
‫اب کیا بات ہو رہی تھی یہ‬
‫سمجھ سے باہر تھا‪ ,‬اس‬
‫بات کو جاننے کا تجسس فہد‬
‫کے اندر زیادہ تھا بہ نسبت‬
‫مہرین‪ ,‬مہرین بس اتنا کہہ‬
‫دیتی کہ ہو گی انکی کوئی‬
‫ضروری بات تو فہد کا‬
‫تجسس ویسے ہی برقرار‬
‫رہتا‪ .‬ٹرین کے چلنے کا‬
‫وقت ہو گیا اور ایک مختصر‬
‫وقفے کے بعد ٹرین دوبارہ‬
‫چل پڑی‪ ,‬حکیم صاحب اور‬
‫ان کی بیوی واپس اپنی‬
‫نشستوں پہ آ کہ براجمان ہو‬
‫گئے‪ ,‬اور شفقت بھرے انداز‬
‫میں دوبارہ باتیں کرنے‬
‫لگے‪ ,‬باتوں کا سلسلہ‬
‫دوبارہ سے اپنے عرج پہ آ‬
‫گیا اور اب حکیم صاحب کا‬
‫سٹاپ آنیواال تھا‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب کی بیوی نے‬
‫آنکھوں سے کوئی اشارہ کر‬
‫کہ حکیم صاحب کو کوئی‬
‫بات یاد کروائی‪ ,‬تو حکیم‬
‫صاحب نے چلتی بات کو بے‬
‫ربط انداز میں نامکمل چھوڑ‬
‫دیا اور فہد کو مخاطب کیا‬

‫حیکم‪ :‬ہاں تو نوجوان‪ ,‬ادھر‬


‫آؤ‪ ,‬ذرا بات سنو‬
‫فہد حیران انداز میں حکیم‬
‫صاحب کی طرف دیکھنے‬
‫لگا اور حکیم صاحب نے‬
‫فہد کو ہاتھ سے پکڑ کہ‬
‫اپنے ساتھ کچھ فاصلے پہ‬
‫لے جا کہ بٹھا لیا‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب کی بیوی اٹھ کہ‬
‫مہرین کے برابر آ کہ بیٹھ‬
‫گئی اور وہ دونوں باتوں‬
‫میں لگ گئی‪ ,‬فہد حکیم‬
‫صاحب کے سامنے سوالیہ‬
‫انداز میں بیٹھا ہواکبھی‬
‫مہرین کی طرف نظر لے‬
‫جاتا تو کبھی حکیم صاحب‬
‫کی طرف متوجہ ہو جاتا‬

‫حکیم‪ :‬ہاں تو نوجوان؟ کسی‬


‫قسم کی بد ہضمی؟معدے‬
‫میں جلن؟نیند تو صحیح آتی‬
‫ہے؟‬
‫حکیم صاحب نے سوال کر‬
‫کہ فہد کی ہتھیلیوں کو‬
‫جانچنا شروع کر دیا‪ ,‬فہد‬
‫حیرانی سے مہرین کی‬
‫طرف دیکھنے لگا جو اسی‬
‫سمت دیکھ کہ مسکرا کہ‬
‫حکیم صاحب کی بیوی کی‬
‫تقریر کو سن رہی تھی‬
‫حکیم‪ :‬فہد بیٹا‪ ,‬ادھر کیا‬
‫دیکھ رہے ہو‪ ,‬شرماؤ نہیں‬
‫جو مسلہ ہے کھل کہ بتاو‬

‫فہد‪ :‬کیسا مسلہ؟حکیم‬


‫صاحب؟‬

‫فہد اٹک کہ بولتا ہوا بات کو‬


‫سمجھنے سے قاصر تھا‬
‫حکیم‪ :‬اچھا بتاو بد ہضمی‪,‬‬
‫معدے میں جلن‪ ,‬نیند کیسی‬
‫آتی ہے‪ ,‬پیشاب میں جلن تو‬
‫نہیں ہوتی‬

‫فہد‪ :‬نہیں حکیم صاحب ایسا‬


‫تو کوئی مسلہ نہیں‪ ,‬میں‬
‫بالکل ٹھیک ہوں‬
‫حکیم‪ :‬اچھا تو شادی سے‬
‫پہلے کبھی‪ .......‬مشت زنی‬
‫کا شوق تو نہیں رہا؟‬

‫فہد بوکھال گیا‬

‫فہد‪ :‬جی وہ میں‪.....‬‬


‫شادی؟‪ .....‬نہیں حکیم‬
‫صاحب‬
‫حکیم‪ :‬شرماؤ مت‪ ,‬اب اپنے‬
‫معالج سے ہی باتیں چھپاو‬
‫گے تو کیا خاک مسلہ حل ہو‬
‫گا‬

‫فہد‪ :‬کیسا مسلہ؟‬

‫حکیم‪ :‬فہد بیٹا‪ ,‬تمہاری چچی‬


‫کو دیکھو‪ ,‬ذرا غور سے‬
‫دیکھو‪ ,‬کتنی ہشاش بشاش‬
‫ہیں‪ ,‬پتہ ہے کیوں؟‬
‫حکیم صاحب کے چہرے پہ‬
‫شیطانی مسکراہٹ تھی اور‬
‫وہ دونوں مہرین اور حکیم‬
‫کی بیوی کی طرف متوجہ ہو‬
‫کہ بات کر رہے تھے‪ ,‬فہد‬
‫حکیم صاحب کے مقصد‬
‫سے بے خبر انکی بات کو‬
‫سن رہا تھا‬

‫فہد‪ :‬کیوں؟‬
‫حکیم صاحب نے فہد کے‬
‫نزدیک ہو کہ دھیمے لہجے‬
‫میں مسکرا کہ جواب دیا‬

‫حکیم‪ :‬کیونکہ فہد بیٹا میں‬


‫اور وہ آج بھی اسی زور و‬
‫شور سے ہم بستری کرتے‬
‫ہیں جس طرح شادی کے‬
‫شروع میں کرتے تھے‪ ,‬ہاں‬
‫بس اب فرق یہ ہے کہ بچے‬
‫بڑے کو گئے ہیں‪ ,‬اور‬
‫تمہاری چچی کی طبیعت بھی‬
‫دیکھنی پڑتی ہے لیکن‬

‫حکیم صاحب کی بات کو فہد‬


‫حیرانی سے سن رہا تھا کہ‬
‫حکیم صاحب کی طاقتور‬
‫لیکن سے فہد جیسے سہم‬
‫سا گیا اور انکی طرف‬
‫دیکھنے لگا‬
‫حکیم صاحب‪ :‬لیکن فہد بیٹا‪,‬‬
‫عورت تمہاری تب تک ہے‬
‫جب تک تم اس کی‬
‫ضروریات پوری کرتے رہو‬
‫گے‪ ,‬میں صرف عام‬
‫ضروریات کی بات نہیں کر‬
‫رہا‪ ,‬میں خاص طور پہ‬
‫جسمانی ضروریات کی بات‬
‫کر رہا ہوں‪ ,‬اگر ہر ضرورت‬
‫پوری ہو لیکن عورت کی‬
‫جسمانی ضرورت پوری نہ‬
‫ہو تو وہ مرد کے ہاتھ سے‬
‫نکل جاتی ہے‪ ,‬اور تمہاری‬
‫تو ابھی عمر ہی کیا ہے؟تم‬
‫ابھی سے ہی؟‬

‫فہد حکیم صاحب کی باتوں‬


‫کا مقصد ہر گز نہیں سمجھ‬
‫پا رہا تھا اسلیے وہ کسی‬
‫حتمی نتیجے پہ نہیں پہنچ‬
‫رہا تھا‪ ,‬بس سنتا ہی جا رہا‬
‫تھا‬
‫حکیم‪ :‬میری بات کان کھول‬
‫کہ سن لو نوجوان‪ ,‬مہرین‬
‫ہماری بیٹی جیسی ہے‪ ,‬تم‬
‫بھی ہمارے لیے بیٹے کی‬
‫جگہ ہو‪ ,‬تمہارے اوپر کوئی‬
‫سرپرست نہیں اسلیے وہ‬
‫بیچاری اندر ہی اندر کڑھتی‬
‫رہتی ہے‪ ,‬کس سے کہتی یہ‬
‫سب باتیں؟ وہ تو شکر ہے‬
‫تمہاری چچی نے بات چھیڑ‬
‫دی‪ ,‬عورتیں عورتوں سے‬
‫نہیں شرماتی‪ ,‬اور شرح میں‬
‫کیسی شرم؟ گھبرانے کی‬
‫کوئی بات نہیں ہم بھی‬
‫تمہارے والدین کی جگہ ہی‬
‫ہیں‬

‫فہد‪ :‬حکیم صاحب کیا مطلب؟‬


‫آپ کیا‬
‫حکیم صاحب نے رعب دار‬
‫انداز میں فہد کی بات کو‬
‫کاٹ دیا‬

‫حکیم‪ :‬اب جیسا میں کہوں‬


‫ویسا کرنا‪ ,‬یہ بتاؤ کتنی بار‬
‫ملتے ہو اپنی بیوی سے؟‬

‫فہد شدید حیرانی کا شکار‬


‫حکیم صاحب کے رعب کی‬
‫وجہ سے سہما اور بوکھالیا‬
‫ہوا تھا‪ ,‬فہد حکیم صاحب کو‬
‫بھال کیا جواب دیتا‪ ,‬وہ تو‬
‫اس مالپ والی اصطالح سے‬
‫ہی انجان تھا‬

‫فہد‪ :‬حکیم صاحب‪ ....‬وہ‪....‬‬


‫ممم میں‪ ......‬ملتا ہوں‪ ,‬جب‬
‫موقع ملتا ہے‬

‫حکیم‪ :‬فہد میاں‪ ,‬مانا کہ تم‬


‫میری حیا کرتے ہو مگر میں‬
‫چاہتا ہوں کہ تم کھل کہ بولو‬
‫تا کہ اسی حساب سے تمہارا‬
‫مسلہ حل کروں‬

‫فہد‪ :‬حکیم صاحب میں اب‬


‫آپکو کیسے بتاؤں؟‬

‫حکیم صاحب فہد کے اناڑی‬


‫پن پہ مزید بھڑک گئے اور‬
‫ذرا غصے میں فہد کو وہیں‬
‫رکنے کا کہہ کہ گردن‬
‫جھٹکتے ہوئے اپنے سامان‬
‫کے پاس گئے اور بیگ میں‬
‫سے کچھ سامان کو ٹٹولنے‬
‫لگے‪ ,‬کچھ چیزیں نکالتے‬
‫انکو دیکھتے اور واپس‬
‫رکھ دیتے‪ ,‬فہد دور بیٹھا‬
‫مہرین کو دیکھ کہ حیرانی کا‬
‫اظہار کر رہا تھا اور مہرین‬
‫حکیم صاحب کی بیوی سے‬
‫باتوں میں لگی ہوئی فہد کو‬
‫دیکھ کہ سواالً جوابا ً ہو رہی‬
‫تھی‪ ,‬حاجی صاحب اپنے‬
‫سامان میں سے باآلخر‬
‫کوئی چیز ڈھونڈ کہ فہد کی‬
‫طرف واپس بڑھ چکے تھے‬
‫اور فہد کے پاس بیٹھ کہ‬
‫دوبارہ سے فہد کی طرف‬
‫اسی رعب دار انداز میں‬
‫دیکھنے لگے‬

‫حکیم ‪ :‬تم لوگ کتنے بجے‬


‫سٹاپ پہ اترو گے‬
‫فہد‪ :‬ہم تقریبا ً سات بجے تک‬

‫حکیم صاحب انگلیوں پہ‬


‫کچھ گننے لگے اور کچھ‬
‫حساب کتاب لگانے کے بعد‬
‫اگال سوال کیا‪ ,‬اس سوال پہ‬
‫حکیم صاحب کے چہرے پہ‬
‫مسکراہٹ آ چکی تھی‬
‫حکیم‪ :‬صبح چھٹی ہے ناں؟‬

‫فہد‪ :‬جی حکیم صاحب‬

‫حکیم صاحب نے دوبارہ‬


‫سے انگلیوں پہ گنتی گنی‬
‫اور حتمی انداز میں ہنس کہ‬
‫کہا‬
‫حکیم‪ :‬فہد بیٹا؟ دعائیں دو‬
‫گے اپنے حکیم چچا کو‬

‫حکیم صاحب یہ بات کہہ کہ‬


‫مہرین سے پانی کی بوتل‬
‫لے کہ آئے اور فہد کی‬
‫طرف ہنس کہ دیکھنے‬
‫لگے‪ ,‬اسکے ایک ہاتھ کی‬
‫ہتھیلی کو سیدھا کر کہ اس‬
‫پیکٹ کو کھول کہ کے تین‬
‫باریک باریک چاول جتنے‬
‫دانے رکھ دیے‪ ,‬فہد مکمل‬
‫طور پہ حیران اور پریشان‬
‫حکیم صاحب پہ برہم تھا‬
‫مگر انکے شفیق اور بے‬
‫لوث محبت کیوجہ سے بس‬
‫ضبط کیے بیٹھا تھا‬

‫حکیم‪ :‬زبان پہ رکھ لو اور‬


‫پانی سے اندر نگل لو‬
‫فہد اس عجیب چیز کو دیکھ‬
‫کہ منہ بنا کہ ان دانوں کو‬
‫کراہت سے دیکھ رہا تھا اور‬
‫حکیم صاحب ایک طرح سے‬
‫اسے زبردستی کھالنے تک‬
‫جا رہے تھے‪ ,‬باآلخر مجبور‬
‫ہو کہ فہد نے اس چیز کو‬
‫حکیم صاحب کی ہدایات کے‬
‫مطابق نگل لیا‪ ,‬اور جیسے‬
‫ہی فہد نے اس دوا کو نگال‬
‫حکیم صاحب کی خوشی‬
‫سے باچھیں کھل گئیں‪,‬‬
‫حکیم صاحب فہد کو تھپکی‬
‫دے کی شاباش دینے لگے‬
‫اور ہنستے ہنستے اپنی‬
‫مونچھوں کو تاؤ دیتے‬
‫ہوئے اپنے سٹاپ کے تعین‬
‫کے لیے کھڑکی سے باہر‬
‫جھانکنے لگے‬

‫حکیم ‪ :‬لو فہد بیٹا‪ ,‬ابھی‬


‫کچھ لمحوں میں ہمارا سٹاپ‬
‫آ جائے گا‪ ,‬میں اپنا پتہ‬
‫وغیرہ دے دیتا ہوں‪ ,‬رابطے‬
‫میں رہنا‬

‫حکیم صاحب اور فہد واپس‬


‫اپنی خریدی ہوئی نشستوں‬
‫پہ آ کہ بیٹھ گئے‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب کی بیوی ابھی بھی‬
‫مہرین کے برابر بیٹھی ہوئی‬
‫تھی‪ ,‬حکیم صاحب آتے ہی‬
‫مہرین سے مخاطب ہو گئے‬
‫حکیم‪ :‬بیٹا مہرین تم دونوں‬
‫کو کسی کی نظر نہ لگے‪,‬‬
‫بہت جچتے ہو ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ‪ ,‬میں نے فہد کو‬
‫اپنا پتہ دے دیا ہے‪ ,‬بیٹا اگر‬
‫موقع ملے تو ہمارے گھر‬
‫ضرور آنا اپنے شوہر کو‬
‫لے کہ‬
‫حکیم صاحب نے ایک پڑیا‬
‫اپنی بیوی کو تھما کہ آنکھ‬
‫سے اشارہ کیا اور حکیم کی‬
‫بیوی نے ہاں میں سر ہال کہ‬
‫وہ پڑیا مہرین کو تھما دی‪,‬‬
‫مہرین نے بھی فہد کی طرح‬
‫حیرانی سے دیکھا‪ ,‬اتنے‬
‫میں سٹاپ آ گیا اور توجہ‬
‫دوسری طرف ہٹ گئی‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب اور انکی بیوی اپنے‬
‫سامان کو اپنی دسترس میں‬
‫کرنے لگے اور جلدی جلدی‬
‫اختتامی کلمات کا تبادلہ‬
‫کرنے لگے‪ ,‬سامان کو اکٹھا‬
‫کر تے کرتے ٹرین جامد ہو‬
‫گئی اور حکیم صاحب نے‬
‫مہرین کے سر پہ پیار دیا‬
‫اور دعائیں دیں‪ ,‬فہد کو گلے‬
‫سے لگا کہ سامان کو با‬

‫حکیم صاحب نے ایک پڑیا‬


‫اپنی بیوی کو تھما کہ آنکھ‬
‫سے اشارہ کیا اور حکیم کی‬
‫بیوی نے ہاں میں سر ہال کہ‬
‫وہ پڑیا مہرین کو تھما دی‪,‬‬
‫مہرین نے بھی فہد کی طرح‬
‫حیرانی سے دیکھا‪ ,‬اتنے‬
‫میں سٹاپ آ گیا اور توجہ‬
‫دوسری طرف ہٹ گئی‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب اور انکی بیوی اپنے‬
‫سامان کو اپنی دسترس میں‬
‫کرنے لگے اور جلدی جلدی‬
‫اختتامی کلمات کا تبادلہ‬
‫کرنے لگے‪ ,‬سامان کو اکٹھا‬
‫کر تے کرتے ٹرین جامد ہو‬
‫گئی اور حکیم صاحب نے‬
‫مہرین کے سر پہ پیار دیا‬
‫اور دعائیں دیں‪ ,‬فہد کو گلے‬
‫سے لگا کہ سامان کو باہر‬
‫تک لیجانے میں مدد کی‬
‫درخواست کی تو فہد نے بنا‬
‫وقفے کے ساماب کو اٹھا‬
‫لیا‪ ,‬حکیم صاحب الوداعی‬
‫کلمات کہہ کہ فہد کے ہمراہ‬
‫باہر کی طرف چلدیے‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب کی بیوی کچھ لمحے‬
‫مہرین کے پاس رکی اور‬
‫اسکے بعد اس نے بھی‬
‫رخصت لے کہ الوداع کیا‪,‬‬
‫فہد انکے سامان کو باہر‬
‫تک چھوڑ کہ واپس مہرین‬
‫کے پاس آ گیا اور حکیم‬
‫صاحب اور انکی بیوی باہر‬
‫کھڑے کھڑکی سے انکو‬
‫محبت بھری نگاہوں سے‬
‫دیکھتے ہوئے ٹرین کو‬
‫اسٹیشن سے نکلتا ہوا دیکھ‬
‫رہے تھے‪ ,‬مہرین اور فہد‬
‫بھی ان کو چلتی ٹرین سے‬
‫دیکھتے جا رہے تھے اور‬
‫کچھ ہی لمحوں میں سارا‬
‫منظر انکی نظروں سے‬
‫اوجھل ہو گیا‪ ,‬فہد حکیم‬
‫صاحب کے ہاتھ میں سے‬
‫لکھے ہوئے ایڈریس کو‬
‫پڑھنے لگا اور مہرین اپنے‬
‫ماں باپ کو یاد کر کہ نم‬
‫آنکھوں سے مسکرا رہی‬
‫تھی۔‬
‫۔‬

‫مہرین اور فہد کی زندگی‬


‫بھی اس ٹرین کے سفر‬
‫جیسی تھی جیسے ہر مسافر‬
‫دوسرے مسافر سے ملتا‬
‫ہے‪ ,‬اور کسی نہ کسی موڑ‬
‫پہ ان کو ایک دوسرے سے‬
‫جدا ہونا پڑتا ہے‪ ,‬ایسے ہی‬
‫مہرین اور فہد ایک دوسرے‬
‫کے سہارے زندگی کا لمبا‬
‫سفر ساتھ طہ کر چکے‬
‫تھے مگر وہ دونوں جانتے‬
‫تھے کہ ایک نہ ایک دن‬
‫انکو جدا ہونا ہی ہے‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب اپنی بیوی کو لے کہ‬
‫اس سفر کو یادوگار بنا کہ‬
‫اپنے سٹاپ پہ اتر چکے‬
‫تھے‪ ,‬مہرین اور فہد ٹرین‬
‫کے ڈبے میں باقی مسافروں‬
‫کے ساتھ خود کو تنہا‬
‫محسوس کر رہے تھے‪,‬‬
‫انکی زندگی میں کتنی کمیاں‬
‫تھیں لیکن اسکے باوجود‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ نے‬
‫ان کمیوں کی بھرپائی کرنے‬
‫میں لگے رہے‪ .‬ٹرین کا‬
‫باقی سفر مہرین اور فہد نے‬
‫خاموشی سے گزارا انکے‬
‫پاس کوئی بات ہی نہیں تھی‬
‫کرنے کو‪ ,‬مہرین فہد کا ہاتھ‬
‫مضبوطی سے اپنے ہاتھ‬
‫میں لیے بیٹھی فہد کی‬
‫آنیویوالی زندگی کے بارے‬
‫میں سوچ رہی تھی جس‬
‫میں فہد کے ساتھ مہرین کی‬
‫بجائے کوئی اور لڑکی ہو‬
‫گی‪ ,‬مہرین ایک بار اپنے‬
‫بچے کو دیکھتی تو اسکو‬
‫اپنا آپ بیوفا لگتا‪ ,‬اسے اپنی‬
‫محبت جھوٹی لگتی‪ ,‬زمانے‬
‫کی روایات کو نبھاتے‬
‫نبھاتے وہ تھک چکی تھی‪,‬‬
‫مہرین نے فہد کا ہاتھ ایک‬
‫لمحے کیلیے بھی نہ چھوڑا‪,‬‬
‫مگر وہ جانتی تھی کہ یہ‬
‫ہاتھ ایک نہ ایک دن اسے‬
‫چھوڑنا پڑے گا‪ ,‬خاموشی‬
‫کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے‪,‬‬
‫اور اسی زبان میں دونوں‬
‫ایک دوسرے کو سوال‬
‫جواب کرتے اس سفر کے‬
‫کبھی ختم نہ ہونے کی‬
‫خواہش دل میں لیے بس جا‬
‫رہے تھے وقت کس کیلیے‬
‫رکتا ہے؟ کسی کیلیے بھی‬
‫نہیں‪ ,‬یہ سفر ختم ہوا‪ ,‬ٹرین‬
‫رک گئی مگر مہرین کے‬
‫آنکھوں کے آنسو نہ رک‬
‫سکے‪ ,‬اپنے آنسوؤں کو فہد‬
‫سے چھپاتے چھپاتے مہرین‬
‫نے سامان کو اٹھایا اور وہ‬
‫گھر کی طرف چل دیے‪ ,‬گھر‬
‫تک وہ دونوں خاموش‬
‫رہے‪ ,‬گھر کا گیٹ داخل‬
‫ہوتے ہی مہرین نے فہد کو‬
‫گلے لگا لیا اور دھاڑیں مار‬
‫مار کہ رونے لگی‪ ,‬فہد کو‬
‫اندازہ تھا کہ مہرین کو فہد‬
‫کا نام کسی اور سے منسوبہ‬
‫ہونے کا رنج ہے‪ ,‬وہ مہرین‬
‫کو چپ کرواتا کرواتا اندر‬
‫لے آیا‪ ,‬آج مہرین کو فہد کی‬
‫تکلیف کا اندازہ ہو رہا تھا‬
‫جو اس نے مہرین کی‬
‫منگنی سے لے کہ آج تک‬
‫برداشت کیا تھا‪ ,‬فہد تو بہت‬
‫حوصلے سے وہ سب‬
‫برداشت کر گیا مگر مہرین‬
‫کے اعصاب اس درد کو‬
‫برداشت کرنے سے قاصر‬
‫تھے‪ ,‬ہر تکلیف میں مہرین‬
‫کا ہمدرد فہد ہی تو ہوتا ہے‪,‬‬
‫فہد نے مہرین کو ہنسانے‬
‫کی کامیاب کوششوں کے بعد‬
‫مہرین کو نارمل کر دیا‪ ,‬اور‬
‫مہرین اسکے بیہودہ اور‬
‫بھدے چٹکلوں پہ رونا‬
‫چھوڑ کہ ہنس ہنس کہ لوٹ‬
‫پاٹ ہو رہی تھی‬

‫ماحول کو خوشگوار کر کہ‬


‫فہد نے کھانے کا انتظام کرنا‬
‫تھا اسلیے مہرین کو اسکے‬
‫بچے کے ساتھ کمرے میں‬
‫آرام کرنے کیلیے چھوڑ کہ‬
‫باہر سے کھانا لینے کیلئے‬
‫چال گیا‪ ,‬فہد پیدل جا رہا تھا‬
‫اور قریب مارکیٹ تک جاتے‬
‫جاتے اسکو اپنی طبیعت‬
‫بوجھل محسوس ہورہی‬
‫تھی‪ ,‬سفر کی تھکاوٹ‬
‫سمجھ کہ فہد طبعیت کی‬
‫بیچینی کو نظرانداز کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬گھر واپسی تک فہد کو‬
‫اپنے جسم میں عجیب سی‬
‫حرارت محسوس ہو رہی‬
‫تھی جس کو وہ سمجھ نہیں‬
‫پا رہا تھا‪ ,‬فہد جیسے تیسے‬
‫گھرپہنچا اور مہرین کی‬
‫ث‬
‫نوکری کو اپنے لیے باع ِّ‬
‫مسرت سمجھ کہ اپنی‬
‫خوابوں کی ملکہ کیلیے‬
‫دستر خوان بچھانے لگا‪,‬‬
‫مہرین فہد کو حسرت بھری‬
‫نظروں سے دیکھ کہ خوش‬
‫ہو رہی تھی‪ ,‬فہد نے ایک‬
‫دو نوالے لگا کہ مہرین کو‬
‫اپنی طبیعت کی ناسازی کے‬
‫بارے میں بتایا تو مہرین‪,‬‬
‫جو کہ اب خوشگوار موڈ‬
‫میں دکھائی دے رہی تھی‪,‬‬
‫فہد کو حکیم صاحب سے‬
‫رابطہ کرنے کا کہہ کہ‬
‫چھیڑنے لگی‪ ,‬فہد پہلے ہی‬
‫حکیم صاحب کی پراسرار‬
‫ٹوٹکوں کو سن سن کہ‬
‫عاجز آ چکا تھا‪ ,‬مہرین سے‬
‫حکیم صاحب کی باتوں پہ‬
‫ناراضی کا اظہار کرنے لگا‬

‫مہرین‪ :‬اگر طبیعت زیادہ‬


‫خراب ہے تو حکیم صاحب‬
‫کے پاس چلیں ؟‬

‫فہد‪ :‬خدا نہ کرے کہ دوبارہ‬


‫حکیم صاحب سے سامنا ہو‬
‫مہرین‪ :‬کیوں؟ اپنے عالقے‬
‫کے سب سے مشہور حکیم‬
‫ہیں‪ ,‬لوگ دور دور سے اپنا‬
‫عالج کروانے آتے ہیں ان‬
‫سے‬

‫فہد‪ :‬بقول حکیم صاحب اور‬


‫ان کی بیوی کے‬

‫فہد نے منہ بنا کہ طنزیہ‬


‫انداز میں جواب دیا‪ ,‬اور‬
‫سنجیدہ انداز میں بات کرنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین شرارتی‬
‫مسکراہٹ کے ساتھ بات سن‬
‫رہی تھی اور کھانا کھانے‬
‫میں مصروف تھی‪ ,‬اور جب‬
‫فہد کوئی جلی کٹی بات کہتا‬
‫تو مہرین کے قہقہے ہی‬
‫نکل جاتے‬

‫فہد‪ :‬بقول حکیم صاحب کے‬


‫تو انکا سارا گاؤں نا مردوں‬
‫کا ہے‪ ,‬خود کو حکیم کم اور‬
‫خدا زیادہ سمجھتے ہیں‪,‬‬
‫فالں شخص آیا اسکے اوالد‬
‫نہیں تھی تو میں نے دوا‬
‫دے کے عالج کیا تو اوالد‬
‫ہو گئی‪ ,‬اور ایسا ایک واقعہ‬
‫نہیں ستر واقعات ایسے ہیں‪,‬‬
‫آگے سن لو‪ ,‬فالں شخص آیا‬
‫اسکی بیوی اس سے خوش‬
‫نہیں تھی میں نے دوا دی تو‬
‫اسکی بیوی کے چہرے پہ‬
‫اللیاں آگئی‪ ,‬یہ کیا الجک‬
‫ہوئی بھال ؟ دوا شوہر‬
‫کھائے اور اللیاں بیوی کے‬
‫چہرے پہ؟ جیسے ہمیں‬
‫ٹرین میں واقعات سنائے ہیں‬
‫ایسے ہی اپنے گاہک بڑھا‬
‫کہ اہنا کاروبار چالتے ہیں‬

‫مہرین‪ :‬اب ایسے بھی نا‬


‫انصاف نہ بنو فہد‪ ,‬کچھ تو‬
‫اثر ہو گا انکی دوا میں‪,‬‬
‫کاش کہ تمہیں حکیم صاحب‬
‫دوا دیں اور اللیاں میرے‬
‫چہرے پہ آئیں‬

‫فہد‪ :‬مہرین باجی‪ ,‬جو دوا‬


‫کھائے گا اللیاں تو اسکے‬
‫چہرے پہ آنی چاہئیں‪ ,‬وہ‬
‫بھی اگر واقعی دوا میں‬
‫کوئی اثر ہو تو‪ ,‬مجھے تو‬
‫انکی الجکس ہی سمجھ نہیں‬
‫آئیں‪ ,‬اور آپ اپنے بھائی کو‬
‫چھوڑ کہ حکیم صاحب کی‬
‫وکالت کیوں کر رہی ہیں؟‬

‫مہرین‪ :‬میں کوئی وکالت‬


‫نہیں کر رہی‪ ,‬اور جہاں تک‬
‫بات ہے دوا شوہر کھائے‬
‫اور اللیاں بیوی کے چہرے‬
‫پہ آئیں اسکا مطلب یہ ہے‬
‫کہ اگر میاں بیوی کے‬
‫درمیان ازدواجی تعلقات‬
‫گہرے اور بھرپور ہونگے‬
‫تو بیوی خوش ہو گی جس‬
‫سے اسکے چہرے سے‬
‫راتوں کی رنگینیوں کا‬
‫اندازہ ہو جائے گا‪ ,‬یہ منطق‬
‫ہے فہد صاحب‪ ,‬آئی سمجھ؟‬
‫یا اور تفصیل سے‬
‫سمجھاؤں؟ تم ابھی کنوارے‬
‫کو نہ اسلیے ان باتوں کو‬
‫نہیں سمجھ سکتے‬
‫فہد‪ :‬جی جی سمجھ گیا‬
‫مہرین باجی‪ ,‬بہت اچھے‬
‫سے سمجھ آئی آپ کو حکیم‬
‫صاحب کی منطق کی‪ ,‬اور‬
‫آپکے چہرے سے پہلے ہی‬
‫نظر نہیں ہٹتی‪ ,‬اور کتنی‬
‫اللیاں چاہتی ہیں چہرے پہ؟‬

‫مہرین‪ :‬نہیں نہیں‪ ,‬وہ والی‬


‫اللیاں‪ ,‬جن کی حکیم صاحب‬
‫بات کر رہے تھے‬
‫فہد‪ :‬حکیم صاحب کی وکی ِّل‬
‫صفائی‪ ,‬آپ کو کسی کی نظر‬
‫نہ لگے‪ ,‬کافی ہیں اتنی‬
‫اللیاں‪ ,‬رنگین مزاج تو آپ‬
‫بھی پوری ہیں اندر سے‬

‫فہد نے مہرین کے گالوں کو‬


‫گدگدا کہ پیار کیا اور مہرین‬
‫نے لہک کہ آگے سے جواب‬
‫دیا‬
‫مہرین‪ :‬ہاں‪ ,‬میں تمہاری‬
‫طرح کنواری نہیں ہوں ناں‪,‬‬
‫مزے لیے ہیں پورے‪ ,‬میں‬
‫تو حیران ہوں کی ابھی تک‬
‫تم کنوارے ہی ہو‪ ,‬اتنا‬
‫تندرست خوبصورت نوجوان‬
‫آج کے اس قدر کھلے‬
‫ماحول میں رہ کہ بھی‬
‫کنوارہ ہی ہے‪ ,‬قہر ہے یہ‬
‫تو‬
‫فہد شرما کہ الل پیال ہونے‬
‫لگا‬

‫مہرین‪ :‬فہد؟ ایک بات بتاوں؟‬

‫فہد نے مہرین کی طرف‬


‫ہنس کہ دیکھا‪ ,‬اور ہاں میں‬
‫سر ہالیا‬
‫مہرین‪ :‬حکیم صاحب تمہیں‬
‫پتہ ہے کیوں سائیڈ پہ لے‬
‫کہ گئے تھے؟‬

‫فہد‪ :‬جی ہاں‪ ,‬اپنی حکمت‬


‫جھاڑنے لے کہ گئے تھے‪,‬‬
‫مجھے معدے سے لے کہ‬
‫پیشاب پاخانے تک ساری‬
‫تفصیل پوچھ کہ اپنی‬
‫ازدواجی زندگی کے‬
‫کارنامے بتانے لگے‬
‫مہرین‪ :‬ہاں ہاں وہ تو بتانے‬
‫ہی تھے انہوں نے‪ ,‬کیوں‬
‫کہ‪ ......‬میں نے انکو‪.......‬‬
‫میرا مطلب انکی بیوی‬
‫کو‪ .......‬میں تو مذاق کر‬
‫رہی تھی وہ تو پکے ہی ہو‬
‫گئے اس بات پہ‬

‫فہد‪ :‬کیا مطلب؟ کیا انکی‬


‫بیوی کو؟‬
‫مہرین‪ :‬وہ ایسے ہی مذاق‬
‫میں میں نے کہہ دیا کہ میرا‬
‫شوہر‪ ......‬وہ‬

‫فہد تجسس سے مہرین سے‬


‫پوری بات بولنے پہ اسرار‬
‫کر رہا تھا اور مہرین نے‬
‫اٹکتے ہوئے پوری شرارت‬
‫بتا ہی ڈالی‬
‫مہرین‪ :‬حکیم صاحب کی‬
‫بیوی مجھ سے بھی زیادہ‬
‫رنگین مزاج ہیں‪ ,‬انہوں نے‬
‫میری ازدواجی زندگی کے‬
‫بارے میں پوچھا تو میں نے‬
‫مذاق میں انکو کہہ دیا کہ‬
‫میرا شوہر میری جسمانی‬
‫ضرورت پوری نہیں کر پاتا‪,‬‬
‫اور وہ تو اس بات پہ اور‬
‫کریدنے لگیں‪ ,‬بس پھر جو‬
‫جھوٹ سچ بوال گیا میں نے‬
‫بولتی گئی اور‬

‫فہد‪ :‬کیا اور؟ اور کیا مطلب؟‬


‫آپ ان کے سامنے مجھے‬
‫نامرد ثابت کر آئی؟‬

‫مہرین‪ :‬نہیں نہیں بدھو‪,‬‬


‫نامرد کہہ دیتی تو وہ یہ نہ‬
‫پوچھتی کہ اگر تمہارا شور‬
‫نامرد ہے تو بچہ کس کا‬
‫ہے؟ میں نے تو ان کو بس‬
‫مردانہ کمزوری کا کہا تھا‪,‬‬
‫اب مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ‬
‫اپنے شوہر کو فورا ً ہی بتا‬
‫کہ نیا محاذ کھڑا کر دیں گی‬
‫میرے لیے‬

‫فہد‪ :‬واہ باجی‪ ,‬اپنا شوہر‬


‫بھی بنایا تو نامرد شوہر بنا‬
‫دیا‬
‫مہرین‪ :‬نہیں نہیں‪ ,‬نامرد‬
‫نہیں‪ ,‬مردانہ کمزوری واال‬
‫شوہر‬

‫فہد‪ :‬ہاں ہاں ایک ہی بات‬


‫ہے‪ ,‬حکیم صاحب کے‬
‫سواالت کی اب سمجھ آ رہی‬
‫ہے مجھے‬

‫مہرین‪ :‬اچھا کوئی بات نہیں‪,‬‬


‫ہو گیا اب تو‪ ,‬نہ ہی تم‬
‫میرے شوہر ہو اور مردانہ‬
‫کمزوری تو یقینا ً تمہارا‬
‫مسلہ نہیں ہے‪ ,‬بس‬
‫شرمیلے کچھ زیادہ ہی پائے‬
‫گئے ہو‪ ,‬شرمیلے پن کی‬
‫بھی کوئی دوا ہوتی ہے؟‬

‫مہرین شروع سے ہی‬


‫شرارتی تھی اسلیے فہد کو‬
‫مہرین کی شرارتوں کا پتہ‬
‫تھا اور وہ اس بیہودہ‬
‫شرارت پہ ہنس رہے تھے‪,‬‬
‫مہرین نے پاس پڑے اپنے‬
‫پرس سے حکیم صاحب کی‬
‫بیوی کے ذریعے سے ملی‬
‫دوا نکال کہ فہد کو دکھائی‬

‫مہرین‪ :‬ویسے اگر کبھی‬


‫میرے پیارے بھائی کو‬
‫مردانہ کمزوری ہو بھی تو‬
‫حکیم صاحب نے اپنی بیوی‬
‫کے توسط سے مجھے یہ‬
‫محبت کی پڑیا دی ہے اور‬
‫اسکا طریقہ استعمال بھی‬
‫بتایا ہے‪ ,‬بقول ان کے یہ‬
‫محبت کی پڑیا جادو اثر‬
‫رکھتی ہے‪ ,‬بے جان سے‬
‫بے جان مرغے میں بھی‬
‫اتنی جان ڈال سکتی ہے کہ‬
‫ککڑوں کڑوں کی آوازیں‬
‫سارا محلہ سنے گا‬
‫فہد‪ :‬کس کی آوازیں؟ مرغے‬
‫کی یا مرغی کی؟‬

‫دونوں قہقہہ مار کہ ہنسنے‬


‫لگے‪ ,‬فہد نے مہرین کے‬
‫ہاتھ سے وہ پڑیا پکڑ کہ‬
‫کھوال اور بے معنی بات‬
‫سمجھتے ہوئے سر جھٹم کہ‬
‫پڑیا کو کھولتے ہوئے بات‬
‫کی‬
‫فہد‪ :‬یہ سب نفسیات کی بات‬
‫ہے باجی‪ ,‬بھلے میں کنوارہ‬
‫ہوں‪ ,‬آپکے جتنا تجربہ‬
‫میرے پاس نہیں لیکن یہ‬
‫سب نفسیات کا کھیل ہوتا‬
‫ہے‪ ,‬ایسے رنگ باز حکیم‬
‫دوا دینے سے پہلے اتنے‬
‫واقعات سنا دیتے ہیں کہ‬
‫ضرورتمند دوا کھانے سے‬
‫پہلے ہی گرویدہ ہو جاتا ہے‪,‬‬
‫اور دوا کا نفسیاتی طور پہ‬
‫ہی اتنا اثر ہو جاتا ہے کہ‬
‫اس کو اپنا آپ ٹھیک لگنے‬
‫لگ جاتا ہے‬

‫بات کرت کرتے فہد نے پڑیا‬


‫کھول لی اور اسے دیکھتے‬
‫ہی انگلی پہ رکھ کی غور‬
‫سے دیکھنے کے بعد بہت‬
‫ہی ال پرواہی سے فہد نے‬
‫بات کا دوبارہ شروع کیا‬
‫فہد‪ :‬ہمم‪ ,‬یہ؟ یہ دوا تو میں‬
‫نے کھا لی ہے‪ ,‬کھالئی تھی‬
‫حکیم صاحب نے‪ ,‬زبردستی‬
‫کرنے پہ اتر آیا وہ بندہ‪ ,‬میں‬
‫سمجھا کہ معدے وغیرہ‬
‫کیلیے ہے اسلیے انکے‬
‫پرزور اسرار پہ کھالی‪ ,‬لیکن‬
‫کوئی بات نہیں‪ ,‬میری‬
‫نفسیات اتنی کمزور نہیں کہ‬
‫ایسے حکیموں کی دوا کو‬
‫اپنے اوپر سوار کر لوں‬
‫مہرین‪ :‬کیا؟ فہد؟ تم نے کب‬
‫کھائی؟ یا میرے خدا؟ یہ‬
‫مجھ سے کیا ہو گیا؟ تم نے‬
‫منع کیوں نہیں کیا؟‬

‫مہرین کے چہرے پہ‬


‫پریشانی کے تاثرات آگئے‪,‬‬
‫مہرین کو یہ ڈر بھی لگنے‬
‫لگا کہ کہیں اس دوا کا فہد‬
‫کے صحت پہ کوئی برا اثر‬
‫نہ پڑ جائے اور اسکا ایک‬
‫چھوٹے سے مذاق کی فہد‬
‫کو بھاری قیمت چکانی‬
‫پڑے‪ ,‬مگر فہد حکیم صاحب‬
‫کو گفتار کے غازی سے‬
‫بڑھ کہ کچھ نہیں سمجھ رہا‬
‫تھا اسلیے وہ اس دوا کو‬
‫لے کہ قطعی پریشان نہیں‬
‫تھا‪ ,‬فہد مہرین کو اس دوا‬
‫کو ڈھونگ ثابت کر کہ تسلی‬
‫دینے لگا‪ ,‬فہد کی تسلیوں‬
‫سے مہرین بھی سکون میں‬
‫آ گئی مگر ساتھ ہی ساتھ‬
‫مہرین کے دماغ میں اس‬
‫دوا کو لے کہ حکیم صاحب‬
‫کی بیوی کی بتائی ہوئی‬
‫باتیں گھومنے لگی‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب کی بیوی کے بقول‬
‫یہ دوا بہت طاقتور ہے‪,‬‬
‫حکیم صاحب جب یہ دوا‬
‫کھانے کی بات کرتے ہیں تو‬
‫انکی بیوی کو اپنی تباہی‬
‫نظر آنے لگ جاتی ہے‬
‫کیونکہ پھر حکیم صاحب‬
‫اسکی وہ جم کہ چدائی‬
‫کرتے ہیں کہ وہ معافیاں‬
‫مانگنے پہ مجبور ہو جاتی‬
‫ہے مگر حکیم صاحب کا‬
‫عضوءتناسل ٹھنڈا ہونے کا‬
‫ِّ‬
‫نام ہی نہیں لیتا‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب اور انکی بیوی کے‬
‫اس دوا کو لے کے تجربات‬
‫حد سے زیادہ رنگین تھے‬
‫اور مہرین یہ سوچنے لگی‬
‫کہ اگر واقعی یہ دوا اتنی ہی‬
‫طاقتور ہے تو فہد بیچارہ کیا‬
‫کرے گا؟ اسکی تو شادی‬
‫بھی نہیں ہوئی‪ ,‬وہ اس دوا‬
‫کے اثر کو کیسے ذائل کرے‬
‫گا؟ مہرین کو یہ سمجھ نہیں‬
‫آ رہی تھی کہ وہ کیسے اس‬
‫دوا کے اثر کو ذائل کرے‪,‬‬
‫مہرین اسی تجسس بھری‬
‫سوچ میں گم تھی اور فہد‬
‫برتن وغیرہ اٹھا کہ کچن‬
‫میں رکھ آیا تھا اور اپنی بہن‬
‫کی بے مرکز نگاہوں کو‬
‫چٹکی بجا کہ اپنی طرف‬
‫متوجہ کر لیا؟‬

‫فہد‪ :‬باجی کن سوچوں میں‬


‫گم ہو گئیں؟‬

‫مہرین‪ :‬نہیں کہیں نہیں‪ ,‬میں‬


‫کچھ نہیں سوچ رہی‪ ,‬تمہیں‬
‫انکار کر دینا چاہیے تھا‪,‬‬
‫کیوں کھائی تم نے وہ دوا؟‬

‫فہد مہرین کی بے سبب‬


‫پریشانی کو کم کرنے کے‬
‫لیے مہرین کو کندھوں سے‬
‫پکڑ کی اپنے سینے سے‬
‫لگا کہ کمر پہ تھپکنے لگا‬

‫فہد‪ :‬کچھ نہیں ہوتا مجھے‪,‬‬


‫پریشان نہ ہوں‪ ,‬ایسی‬
‫دوائیں مجھ پہ اثر نہیں‬
‫کرتی‪ ,‬آپ کا چہرہ دیکھ کہ‬
‫زہر بھی کھا لوں تو مجھ پہ‬
‫اثر نہیں ہوگا‬

‫مہرین فہد کے سینے میں‬


‫اپنا آپ چھپائے فہد کے‬
‫سینے کے بوسے لے رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد کے جسم کا درجہ‬
‫حرارت کچھ زیادہ محسوس‬
‫ہو رہا تھا مگر مہرین نے‬
‫اسے سفر کی تھکاوٹ کا‬
‫اثر سمجھ کہ نظر انداز کر‬
‫دیا‪ ,‬مہرین نے فہد کا چہرہ‬
‫دیکھنے کیلیے ذرا سا‬
‫فاصلہ بڑھایا تو اسکی نظر‬
‫فہد کے نیم تنے ہوئے لن‬
‫کی طرف چلی گئی‪ ,‬مہرین‬
‫کے دل میں اس دوا کے اثر‬
‫کا وہم گھر کر رہا تھا اور‬
‫اوپر سے فہد کے جسمانی‬
‫حاالت دیکھ کہ مہرین مزید‬
‫پریشانی کا شکار ہوتی جا‬
‫رہی تھی‬

‫مہرین‪ :‬طبیعت ٹھیک ہے‬


‫ناں فہد؟‬

‫فہد‪ :‬جی جی باجی آپ‬


‫پریشان نہ ہوں آرام کریں‬
‫اور چینج کر لیں‪ ,‬ریلیکس‬
‫ہو جائیں اور دوائی واال وہم‬
‫دل سے نکال دیں‪ ,‬آپ کے‬
‫ہوتے ہوئے مجھے کچھ‬
‫نہیں ہو سکتا‬

‫مہرین نے فہد کا ماتھا چوم‬


‫لیا‬

‫مہرین‪ :‬خدا نہ کرے تمہیں‬


‫کچھ ہو‬
‫فہد‪ :‬بس بہترین ہو گیا‪ ,‬آپ‬
‫نے کہہ دیا اب مجھے کچھ‬
‫نہیں ہو گا‬

‫مہرین فہد کے اس اعتقاد پہ‬


‫ہنس پڑی‪ ,‬اسکے دل سے‬
‫فہد کیلیے نہ جانے کتنی‬
‫دعائیں نکل رہی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫بھائی کی محبت سے‬
‫سرشار ہو کہ ہنستی ہوئی‬
‫اٹھی اور کپڑے تبدیل کرنے‬
‫واشروم چلی گئی‪ ,‬مہرین‬
‫کے اٹھتے ہی فہد نے اپنے‬
‫لن کے بال وجہ تناؤ کو‬
‫دیکھ کر کہ عجیب محسوس‬
‫کیا اور اپنے دل کو طفل‬
‫تسلیاں دیتے ہوئے نظر‬
‫انداز کر دیا‪ ,‬مہرین کمرے‬
‫میں واپس آئی تو فہد بستر‬
‫پہ کروٹ لیے ایسے لیٹا ہو‬
‫تھا جیسے وہ اپنے لن کے‬
‫تناؤ کو غیر محسوس‬
‫طریقے سے مہرین کی‬
‫نظروں سے چھپا رہا ہو‪,‬‬
‫فہد مہرین کی توجہ کو لن‬
‫کے تناؤ سے ہٹائے رکھنے‬
‫کیلیے کسی نہ کسی بات پہ‬
‫مزاح کا ماحول بناتے جا رہا‬
‫تھا مگر مہرین کی بھی تمام‬
‫تر توجہ فہد کے لیٹنے کے‬
‫غیر عمومی انداز پہ تھی‬
‫مگر وہ فہد کے سامنے لن‬
‫کی طرف توجہ نہ ہونے کی‬
‫ایکٹنگ کر رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫کے لن میں تناؤ دونوں کے‬
‫درمیاں ایک کھلے راز کی‬
‫طرح بن چکا تھا‪ .‬مہرین اور‬
‫فہد ایک دوسرے سے‬
‫فاصلہ بنائے لیٹے ہوئے‬
‫تھے‪ ,‬دونوں کو یہ ڈر تھا‬
‫کہ اگر واقعی حکیم صاحب‬
‫کی دی گئی دوا کا اثر ہو گیا‬
‫تو اسکا کیا نتیجہ نکلے گا‪,‬‬
‫فہد کے سسرال کی بھی تمام‬
‫تر باتیں کر لینے کے بعد‬
‫فہد اور مہرین فاصلے کو بنا‬
‫کم کیے خاموش ہو گئے‪,‬‬
‫کافی دیر خاموشی کے بعد‬
‫مہرین کے بچے کو بھوک‬
‫لگی تو مہرین اپنا ایک‬
‫پستان نکال کی اپنے بچے‬
‫کو دودھ پالنے لگی‪ ,‬بچہ‬
‫دوسرے جانب لیٹا ہو تھا‬
‫اسلیے مہرین کی پشت فہد‬
‫کی طرف تھی‪ ,‬تھوڑی دیر‬
‫بعد جب ایک چھاتی سے‬
‫دودھ نکال لیا تو اب مہرین‬
‫کو مجبورا ً اسے فہد والی‬
‫سمت لٹا کہ دوسری چھاتی‬
‫سے دودھ پالنا پڑنا تھا تو‬
‫مہرین نے بچے کو درمیان‬
‫میں کر کہ اپنی صحتمند اور‬
‫فربہ چھاتی کو باہر نکال لیا‬
‫کہ بچے کے منہ میں دیدیا‪,‬‬
‫فہد چھاتی کو بنا دیکھے‬
‫مہرین کی طرف دیکھ رہا‬
‫تھا اور مہرین کو فہد کے‬
‫چہرے پہ پریشانی دیکھ کہ‬
‫کسی نہ کسی گڑ بڑ کا اچھی‬
‫طرح اندازہ ہو رہا تھا مگر‬
‫مہرین نے بنا رد عمل دیے‬
‫اپنی ال علمی کا تاثر ہی دیا‪,‬‬
‫کچھ دیر ال علمی کا تاثر دے‬
‫کہ مہرین کو تجسس ہونے‬
‫لگا کہ فہد کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان کیا حاالت چل رہے‬
‫ہیں‪ ,‬وہ پوچھ کہ شرمندہ تو‬
‫نہیں ہونا چاہتی تھی اسلیے‬
‫عورت ہونے کے ناطے‬
‫مہرین نے چاالکی سے کام‬
‫لینے کا فیصلہ کیا‬

‫جب بچہ دودھ پی کی چھاتی‬


‫کو منہ سے نکال کہ سو‬
‫چکا تو مہرین نے اپنی‬
‫ننگی چھاتی کو ڈھکے بنا‬
‫اپنے بچے کو دوسری سمت‬
‫لٹا کہ اپنے اور فہد کے‬
‫درمیان رکاوٹ کو دور کر‬
‫دیا‪ ,‬فہد مہرین کی ننگی‬
‫چھاتی کو نظر انداز کرنے‬
‫کی بھرپور کوشش کر رہا‬
‫تھا اور ہر گزرتا لمحہ فہد‬
‫کے چہرے سے مسکراہٹ‬
‫کم کرتا آ رہا تھا‬

‫مہرین‪ :‬پی لو‬


‫مہرین کی چھاتی میں ابھی‬
‫کچھ دودھ باقی تھا جو‬
‫اسکے نپل سے قطرہ قطرہ‬
‫نکل کہ بستر پہ ٹپک رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین نے انگلی سے‬
‫نپل سے نکتا ایک قطری فہد‬
‫کے ہونٹوں پہ لگا دیا‪ ,‬فہد‬
‫بمشکل مسکرا پا رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین کا تجسس حقیقت کو‬
‫مکمل جاننے تک کیسے‬
‫ختم ہوتا اسلیے شاید وہ فہد‬
‫کے ضبط کا اندازہ لگانا چاہ‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد کے دل میں یہ‬
‫ڈر پنپ رہا تھا کہ اگر واقعی‬
‫اس دوا میں اثر ہو تو کہیں‬
‫مہرین کے لمس سے وہ اثر‬
‫تیزی نہ پکڑ لے اور بعد‬
‫میں بہن کے آگے شرمندہ‬
‫ہونا پڑے‪ .‬مہرین دو تین‬
‫قطرے فہد کے ہونٹوں پہ‬
‫لگا چکی تھی اور فہد‬
‫سنجیدہ چہرے کے ساتھ‬
‫اس دودھ کو زبان کی مدد‬
‫سے لبوں سے منہ کے اندر‬
‫لے جاتا‬

‫مہرین‪ :‬پی لو بیٹا‪ ,‬مالوٹ‬


‫سے پاک دودھ کہاں ملتا ہے‬
‫آجکل؟‬

‫فہد‪ :‬آپکے بچے کو بھوک‬


‫لگ گئی تو کیا کریں گی آپ؟‬
‫سوتے ہیں اب‬
‫مہرین‪ :‬جب تک اس نے‬
‫جاگنا ہے تب تک دونوں‬
‫چھاتیاں بھر جانی ہیں‬

‫فہد کا لن مکمل طور پہ تن‬


‫چکا تھا اور اسکو اندازہ ہو‬
‫چکا تھا کہ اس دوا کا اثر‬
‫ہونا شروع ہو گیا ہے‪,‬‬
‫کیونکہ آج کے لن کے تناؤ‬
‫میں اور پہلے کے لن کے‬
‫تناؤ میں زمین آسمان کا‬
‫فرق محسوس کر رہا تھا‬
‫فہد‪ ,‬اپنے لن کو ٹانگ کے‬
‫پھیالؤ سے چھپا کہ فہد‬
‫مہرین کے چنگل سے نکلنا‬
‫چاہ ریا تھا‬

‫فہد‪ :‬نہیں دل کر رہا باجی‪,‬‬


‫اب سوئیں‬
‫مہرین‪ :‬کیوں دل نہیں کر‬
‫رہا؟ کھایا بھی کچھ نہیں‪,‬‬
‫میں کہہ رہی ہوں پیو تو پی‬
‫لو‪ ,‬پہلے تو کھانا کھایا بھی‬
‫ہو تو پی لیتے ہو‪ ,‬آج کیا‬
‫ہوا ہے؟ اس میں سے کون‬
‫سا کلو کے حساب سے‬
‫نکلنا ہے‪ ,‬آ جا میرا بچہ‪,‬‬
‫شاباش‬
‫مہرین نے اپنی چھاتی فہد‬
‫کے منہ کے پاس کر دی اور‬
‫اسکے سر کو پکڑ کہ اپنی‬
‫چھاتی سے لگا لیا‪ ,‬فہد ایک‬
‫مشکل سے دوچار دوسری‬
‫مشکل میں گھر چکا تھا‪ ,‬فہد‬
‫نے کچھ لمحے منہ سے‬
‫چھاتی کو دور رکھا اور‬
‫باآلخر فہد نے مہرین کے‬
‫خوبصورت نپل کو اپنے‬
‫ہونٹوں سے منہ میں لے کہ‬
‫چوسنا شروع کر دیا‪ ,‬مہرین‬
‫فہد کے بالوں کو اپنی‬
‫انگلیوں سے مروڑے دینے‬
‫لگی‪ ,‬فہد چھاتی کو بنا ہاتھ‬
‫لگائے بس چوس چوس کہ‬
‫جلد از جلد دودھ ختم کرنا‬
‫چاہ رہا تھا مگر مہرین کی‬
‫چھاتی میں فہد کی امید سے‬
‫زیادی دودھ نکل رہا تھا اور‬
‫اسکا لن بستر میں چبھ کہ‬
‫اب بے قابو ہو رہا تھا‪ ,‬فہد‬
‫کے جسم عجیب سے‬
‫حرارت دوڑ رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کی چھاتی کو طاقت‬
‫سے اندر دبا دبا کہ چوسنے‬
‫لگا جس سے فہد کا ناک‬
‫تک چھاتی میں گھس جاتا‪,‬‬
‫مہرین کے جسم میں بھی‬
‫حرکتیں بے ہنگم سی تھی‬
‫اسلیے وہ بھی بے بس ہو‬
‫کہ گردن سرور کے انداز‬
‫میں ہال رہی تھی‪ ,‬دودھ نکلنا‬
‫بند کو گیا لیکن فہد اب‬
‫مہرین کی چھاتی کو چوم‬
‫چوم کہ ہر جگہ سے بھگو‬
‫رہا تھا۔‬

‫مہرین کی فربہ چھاتی کو بنا‬


‫ہاتھ لگائے فہد چومتا چاٹتا‬
‫جا رہا تھا اور مہرین فہد کو‬
‫اپنے سینے پہ دبا رہی تھی‪,‬‬
‫فہد کا تنا ہوا لن مہرین کی‬
‫نظروں سے اوجھل‪ ,‬فہد کے‬
‫اپنے ہی وزن سے دبا ہوا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین فہد کی اس بے‬
‫صبری کو دیکھ کہ ہنس بھی‬
‫رہی تھی اور مزہ بھی لے‬
‫رہی تھی‪ ,‬کچھ دیر بعد فہد‬
‫مہرین کی چھاتی کو چھوڑ‬
‫کہ پیچھے ہٹ گیا‪ ,‬فہد‬
‫سیدھا ہو کہ لیٹنے لگا تو‬
‫تنا ہوا لن پاجامے سے آزاد‬
‫ہونے کیلیے بیتاب ہو رہا‬
‫تھا‪ ,‬فہد کے لن کا تناؤ‬
‫مہرین کی آنکھوں نے دیکھ‬
‫لیا‪ ,‬مگر فہد نے جلد ہی‬
‫تکیہ لے کہ اپنے جسم کے‬
‫نیچے والے حصے کو ڈھک‬
‫لیا‪ ,‬فہد اور مہرین خاموش‬
‫لیٹے حاالت کو سمجھ چکے‬
‫تھے‪ ,‬اب فہد کے لن کا تناؤ‬
‫واال راز ایک راز نہیں بلکہ‬
‫ایک مسلے کے طور پہ‬
‫دونوں کے سامنے تھا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی خاموش‬
‫اس صورتحال کا حل تالش‬
‫رہے تھے‪ ,‬فہد کا جسم ایک‬
‫عجیب طرح کی گرمی خارج‬
‫کر رہا تھا‪ ,‬اسکی آنکھیں‬
‫سرخ ہو رہی تھی‪ ,‬فہد کو‬
‫ہلکے ہلکے چکر بھی آ‬
‫رہے تھے‪ ,‬اور وہ چھت کی‬
‫طرف منہ کیے آنکھیں بند‬
‫کیے لیٹا ہوا اپنے لن پہ‬
‫تکیہ ٹکائے لیٹا ہوا تھا‪.‬‬
‫مہرین اپنی ایک چھاتی کو‬
‫ننگا ہی چھوڑ کہ فہد کو بس‬
‫دیکھتی جا رہی تھی‪ ,‬اس‬
‫میں ہمت نہیں ہو رہی تھی‬
‫کہ وہ فہد سے کچھ بات کر‬
‫کہ اسکی خیریت دریافت کر‬
‫لے‪ ,‬شاید مہرین اپنی نادانی‬
‫پہ پشیمان سکتے کی حالت‬
‫میں تھیمہرین‪ :‬فہد؟مہرین‪:‬‬
‫فہد بولو بھی کچھفہد کی‬
‫طرف سے جواب نہ آنے پہ‬
‫مہرین نے فہد کو ہال کہ‬
‫دوبارہ پوچھا‪ ,‬مہرین دو‬
‫دفعہ بالنے پہ فہد کی طرف‬
‫سے خاموشی پہ گھبرا گئی‬
‫اور ایسے ہال کہ آواز دینے‬
‫پہ فہد نے اپنی گردن کو‬
‫مہرین کی طرف گھمایا تو‬
‫اسکی آنکھوں میں سرخی‬
‫اور نیند کے جیسے خماری‬
‫دیکھ کہ مہرین گھبرا گئی‬
‫مگر فہد نے اپنا آپ سنبھال‬
‫کہ مہرین سے بات کیمہرین‪:‬‬
‫فہد طبیعت ٹھیک ہے نا؟فہد‪:‬‬
‫جی باجی‪ ,‬ٹھیک ہوں‪ ,‬آرام‬
‫کریں مجھے نیند آ رہی‬
‫ہےمہرین‪ :‬دوا کا اثر ہے‬
‫نا؟فہر نے ہاں میں سر ہال‬
‫کہ سونے کا کہہ دیا مگر‬
‫مہرین کو ایسے نیند کہاں‬
‫آنی تھی اسلیے وہ فہد کو‬
‫بس دیکھتی جا رہی تھی اور‬
‫فہد ویسے ہی لیٹا خاموش‬
‫تھا‪ .‬فہد کا لن در اصل اتنا‬
‫بے قابو ہو چکا تھا کہ اسکا‬
‫اثر اسکی بات چیت پہ بھی‬
‫ہو رہا تھا‪ ,‬یہ بہت ہی عجیب‬
‫صورتحال تھی‪ .‬مہرین جو‬
‫کہ بچہ پیدا کرنے کے بعد‬
‫اب مکمل طور پہ سیکس‬
‫کیلیے تیار تھی اپنے بھائی‬
‫کی اس صورتحال کو‬
‫دیکھتے ہوئے کسی حد تک‬
‫بہک چکی تھی‪ ,‬فہد خاموش‬
‫تھا مگر اس عجیب سی‬
‫غنودگی میں اسے کچھ‬
‫عجیب سے مناظر کی‬
‫دھندلی تصاویر نظر آنے‬
‫لگی‪ ,‬فہد کو آج سے دو سال‬
‫پہلے اپنی بہن کیساتھ‬
‫سیکس کرنے والے خواب‬
‫کی مختلف جھلکیاں آنے‬
‫لگیں‪ ,‬یہ وہی خواب تھا جو‬
‫اس نے مہرین کی مہندی کی‬
‫رات مہرین کی ہی بانہوں‬
‫میں لیٹ کہ دیکھا تھا‪ ,‬فہد‬
‫ان جھلکیوں کو اپنے دماغ‬
‫سے نکالنے کیلیے اپنے ہی‬
‫آپ سے جنگ کر رہا تھا‬
‫مگر فہد کے جسم میں‬
‫ہارمونل عوامل اس قدر‬
‫بھڑک چکے تھے کہ اسکا‬
‫دماغ فہد کو سیکس کی‬
‫طرف راغب کرنے سے باز‬
‫نہیں آ سکتا تھا‪ ,‬فہد کو‬
‫مہرین کے ہی خیاالت بار‬
‫بار اس لیے آ رہے تھے‬
‫کیونکہ اسکی زندگی میں‬
‫مہرین کے عالوہ کسی اور‬
‫عورت کا تصور بھی نہیں‬
‫تھا‪ ,‬فہد اپنے تخیل سے لڑتا‬
‫ہوا خاموش تھافہد بھی‬
‫خاموش تھا اور مہرین بھی‬
‫خاموش تھی‪ ,‬مگر ایک آواز‬
‫تھی جو دونوں ہی سن پا‬
‫رہے تھے‪ ,‬وہ آواز تھی‬
‫مہرین کی پھدی کی فہد کے‬
‫لن سے باتیں کرنے کی‬
‫آوازپھدی‪ :‬لن بات سنولن‬
‫نے اکڑ کہ جواب دیالن‪ :‬جی‬
‫میری جان؟ بولوپھدی‪ :‬کب‬
‫سے تڑپ رہی ہوں تمہارے‬
‫لیے‪ ,‬کس دن میرے ہونٹوں‬
‫میں آؤ گے تم؟لن‪ :‬آنا تو‬
‫میں بھی چاہتا ہوں مگر فہد‬
‫کا پتہ ہی نہیں چلتا‪ ,‬مجھے‬
‫تم سے ملنے ہی نہیں‬
‫دیتاپھدی‪ :‬آج موقعہ ہے‪ ,‬آج‬
‫تو یہ تمہاری بات نہیں ٹال‬
‫سکتا‪ ,‬تم اس سے اور اکڑ‬
‫کہ بات کرولن‪ :‬ہاں جتنا اکڑ‬
‫سکتا تھا اکڑ لیا اب برداشت‬
‫سے باہر ہو رہا ہےپھدی‪:‬‬
‫تم فہد سے کہو کہ آج ہمیں‬
‫ایک دوسرے سے ملوا‬
‫دےلن‪ :‬ہر روز کہتا ہوں‪,‬‬
‫کتنے سالوں سے کہہ رہا‬
‫ہوں مگر مجال ہے کبھی‬
‫اس نے میری بات مانی‬
‫ہوپھدی‪ :‬مہرین تو کب سے‬
‫ہمیں ملوانا چاہتی ہے‪ ,‬آج تم‬
‫کو کچھ کرنا پڑیگا ورنہ اس‬
‫سے اچھا موقع دوبارہ نہیں‬
‫ملنے وااللن‪ :‬ہاں تم صحیح‬
‫کہہ رہی ہو‪ ,‬تم کیوں رو کے‬
‫بھیگ رہی ہو؟پھدی‪ :‬یہ‬
‫آنسو مجھے بھگو رہے‬
‫ہیں‪ ,‬اگر تم سے مالقات ہو‬
‫گئی تو آنسوؤں کے سیالب‬
‫سے بھیگ جاؤں گی‪ ,‬بس‬
‫تم فہد کو مناولن اور پھدی‬
‫کی یہ گفتگو کتنے سالوں‬
‫سے چلتی آ رہی تھی‪ ,‬اور‬
‫آج دونوں کے مخصوص‬
‫اعضاکا جوش اپنے جوبن پہ‬
‫تھا‪ ,‬خصوصا ً فہد کے لن کا‬
‫جوش‪ .‬فہد اور مہرین برابر‬
‫لیٹے ایک ہی بات سوچ‬
‫رہے تھے‪ ,‬فہد اپنے لن کی‬
‫بات کو ٹالتا ٹالتا تھک چکا‬
‫تھا اور مہرین فہد کے صبر‬
‫کا پہاڑ ریزہ ریزہ ہونے کا‬
‫انتظار کر رہی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫ذہنی طور پہ فہد کو سکون‬
‫دینے کیلیے تیار ہو چکی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے اپنی سرخ‬
‫آنکھوں سے مہرین کی‬
‫طرف دیکھا اور فہد کی اس‬
‫لمحے مہرین پہ نظر اسکے‬
‫صبر کے اختتام کی عالمت‬
‫کے طور پہ مہرین کو ایک‬
‫اشارہ تھی‪ ,‬مہرین جس کی‬
‫ایک چھاتی ابھی بھی کسی‬
‫لمس کے انتظار میں قمیض‬
‫سے باہر تھی‪ .‬فہد نے تکیہ‬
‫کو بنا قابو کیے مہرین کی‬
‫طرف اپنا آپ سکا لیا‪ ,‬تکیہ‬
‫ایک سمت میں جا گرا اور‬
‫لن اس وزن سے آزاد ہو‬
‫گیا‪ ,‬مہرین نے بھی فہد کی‬
‫طرف اپنا آپ سرکا لیا‪ ,‬فہد‬
‫نے مہرین کو بانہوں میں‬
‫لے کہ مہرین کو گردن سے‬
‫چومنا شروع کیا تو اسکی‬
‫گرم سانسسیں مہرین کو‬
‫لبھانے لگی‪ ,‬فہد مہرین کو‬
‫گردن اور سینے سے‬
‫چومتے ہوئے مہرین کی‬
‫کمر اور چھاتیوں کو مسلنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین فہد کے لن کو‬
‫اپنی ٹانگوں سے رگڑ کھاتا‬
‫ہوا محسوس کر رہی تھی‪,‬‬
‫فہد مہرین کی قمیض کو‬
‫اوپر کر کہ چھاتیوں کو ننگا‬
‫کر چکا تھا مہرین نے ایک‬
‫لمحے کی اجازت لے کہ‬
‫اپنی قمیض کو اتار دیا اور‬
‫فہد کو چومتے چومتے‬
‫اسکی شرٹ کو بھی اتار دیا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی ننگے‬
‫دھڑوں کیساتھ ایک دوسرے‬
‫کو ہونٹوں سے چومتے جا‬
‫رہے تھے‪ ,‬دونوں اسوقت‬
‫ایک بیچینی اور شدت‬
‫کیساتھ اپنا آپ ایک دوسرے‬
‫سے چٹوا رہے تھے‪ ,‬انکی‬
‫گرم اور بے ہنگم سانسیں‬
‫اور آہیں ماحول میں ایک‬
‫خماری بھر رہی تھی‪ ,‬وہ‬
‫دونوں وحشیانہ انداز سے‬
‫ایک دوسرے پہ چڑھ کہ‬
‫زبانوں کو ایک دوسرے کا‬
‫ذائقہ دے رہے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫اور فہد ہر طرح کے سوال‬
‫سے آزاد ہو کہ جذبات کے‬
‫تیز دھارے میں بہہ چکے‬
‫تھے‪ ,‬مہرین نے فہد کے لن‬
‫کو پاجامے کے اندر ہاتھ ڈال‬
‫کہ پکڑ سے سہالیا تو فہد‬
‫کو ایک سکون بھری بیچینی‬
‫نےآ لیا‪ ,‬فہد نے بنا آنکھیں‬
‫کھولے اپنی بہن کو چوم کہ‬
‫اپنا پاجامہ ٹانگوں سے‬
‫نیچے کر دیا اور محبت کی‬
‫اس لہروں میں چومتے‬
‫چاٹتے سارا پاجامہ اتار کہ‬
‫اپنا جسم مکمل ننگا کر دیا‪,‬‬
‫مہرین کی پھدی گیلی ہو‬
‫چکی تھی‪ ,‬اپنے ننگے‬
‫بھائی کے جسم سے چپک‬
‫چپک کہ مہرین نے بھی‬
‫اپنے پاجامے کو اتار دیا اور‬
‫فہد مہرین کو چومتا چومتا‬
‫مہرین کے اوپر آ کی ٹانگوں‬
‫میں اپنا لن لگائے بس‬
‫چومتا ہی جا رہا تھا‪ ,‬فہد کا‬
‫لن مہرین کی پھدی سے‬
‫رگڑ کھا رہا تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫اپنی ٹانگوں کو ہوا میں بلند‬
‫کر کہ فہد کے لن کو اپنے‬
‫ایک ہاتھ سے پکڑ کہ پھدی‬
‫پہ سیٹ کیا‪ ,‬فہد جو کہ بہت‬
‫زوروشور سے مہرین کے‬
‫اور اسکے ہونٹوں اور‬
‫چھاتیوں کو کاٹنے کی حد‬
‫تک چوم رہا تھا‪ ,‬اپنی کمر‬
‫کو مہرین کی پھدی کے‬
‫حساب سے ایڈجسٹ کرنے‬
‫لگا‪ ,‬جیسے ہی مہرین کے‬
‫ہاتھ کی ہدایات کے حساب‬
‫سے فہد کا لن پھدی کے‬
‫سوراخ سے مال تو فہد نے‬
‫بنا وقفہ ڈالے اپنا وزن لن پہ‬
‫ڈال کہ اسے پھدی میں‬
‫دھکیلنا چاہا‪ ,‬مگر گیلی‬
‫پھدی کی دیواروں سے‬
‫پھسل کہ لن ہل گیا‪ ,‬مہرین‬
‫نے اپنے ہونٹ فہد کے‬
‫ہونٹوں سے آزاد کروا کہ‬
‫چوما چاٹی روک کہ دوبارہ‬
‫سے پھدی کو ایڈجسٹ کر‬
‫کہ لن کو پھدی پہ رکھ کہ‬
‫اپنی گرفت سے ہی لن کو‬
‫دبا کہ اندر ڈالنے کا اشارہ‬
‫دیا تو فہد نے اپنی کہنیوں‬
‫پہ اپنا وزن ڈال کہ کمر کو‬
‫اندر دبایا مگر اس بار آرام‬
‫سے آرام سے اپنا وزن لن‬
‫پہ ڈاال تو لن کی ٹوپی پھدی‬
‫میں گئی تو مہرین کی اوسط‬
‫درجے کی اونچی آہ نکل‬
‫گئی‪ ,‬فہد آہستہ آہستہ لن کو‬
‫اندر دھکیلتا جا رہا تھا اور‬
‫مہرین کی مزے سے بھرپور‬
‫چیخیں بلند ہوتی جا رہی‬
‫تھی‪ ,‬جب مکمل لن اند چال‬
‫گیا تو مہرین کی پھدی میں‬
‫درد ہونے لگا اسلیے مہرین‬
‫نے فہد کو زور سے پکڑ‬
‫لیا‪ ,‬فہد نے اپنی بہن کو ایک‬
‫بار دیکھا اور ہونٹوں سے‬
‫چوم کہ لن کو باہر کھینچ کہ‬
‫دوبارہ اندر کیا‪ ,‬فہد کا لن‬
‫اندر گرم اور نرم جگہ میں‬
‫بہت زور سے پھنس کہ اندر‬
‫باہر ہو رہا تھا جس سے فہد‬
‫کو مزہ آنے لگا‪ ,‬اب فہد‬
‫اپنی رفتار کو بڑھا کہ مہرین‬
‫کو چودنے لگا‪ ,‬رفتار بڑھتی‬
‫جا رہی تھی اور دونوں کی‬
‫سسکاریاں بلند ہوتی جا رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین ہونٹوں کو‬
‫بھینچ کہ اس لطف کا مزہ‬
‫لے رہی تھی جس کیلیے وہ‬
‫برسوں تڑپی تھی‪ ,‬فہد اپنی‬
‫بہن کی پھدی میں لن ڈالے‬
‫چودتا ہوا اپنے آپ کو کوس‬
‫رہا تھا کہ کتنا خوبصورت‬
‫احساس ہے جس کو وہ‬
‫برسوں سے ترک کرتا آ رہا‬
‫ہے‪ ,‬فہد چودتا جا رہا تھا‬
‫اور اب اسکی رفتار مزے‬
‫کی انتہا کی وجہ سے بہت‬
‫بڑھ چکی تھی تو مہرین کی‬
‫پھدی سے فوارہ چھٹ گیا‬
‫اور وہ فہد کو اپنی ٹانگوں‬
‫سے پکڑ کہ آنہیں بھرنے‬
‫لگی‪ ,‬فہد بھی اگلے ہی‬
‫لمحے ڈسچارج ہو گیا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی ایک‬
‫دوسرے کو ٹانگوں اور‬
‫بانہوں میں کس کی تیز تیز‬
‫سانسیں لینے لگے‪ ,‬ذرا‬
‫سے سانسیں بحال ہوئیں تو‬
‫مہرین کے اور نڈھال ہو کہ‬
‫لیٹے ہوئے فہد کا لن ابھی‬
‫بھی پھدی میں دفن کیے‬
‫ہوئے اپنی بہن کو ماتھے‬
‫سے ہونٹوں سے اور کبھی‬
‫گالوں سے چومتا جا ریا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین کے چہرے پہ‬
‫اطمینان اور سکون تھا‪ ,‬فہد‬
‫کا لن ابھی بھی تنا ہوا تھا‬
‫اور پھدی میں پھنسا ہو تھا‪,‬‬
‫مہرین نے اپنی پھدی کو ہال‬
‫ہال کہ لن کو اپنے اندر ہی‬
‫مزہ دینا شروع کر دیا فہد‬
‫جو کہ اب ذرا سکون میں‬
‫تھا‪ ,‬اپنی بہن سے اتر کہ‬
‫سائیڈ پہ لیٹ گیا اور اب‬
‫اسکا بھیگا لن کم تناؤ کے‬
‫ساتھ ایک سمت میں گرا پڑا‬
‫تھا‪ ,‬دونوں بہن بھائی ایک‬
‫دوسرے کے برابر ننگے‬
‫لیٹے دوبارہ خاموش ہو‬
‫چکے تھے‪ ,‬مہرین نے‬
‫خاموش اور پہلے کی نسبت‬
‫پرسکون اپنے بھائی کی‬
‫طرف سر تا پاؤں دیکھا اور‬
‫لن کو دیکھ کہ اسے ہاتھ‬
‫سے پکڑ لیا‪ ,‬فہد نے مہرین‬
‫کی اس حرکت پہ اسکی‬
‫طرف دیکھا تو مہرین نے‬
‫فہد کی طرف دیکھ کہ‬
‫مسکرا کہ اپنے منہ‬
‫سےککڑوں کڑوں کی آواز‬
‫نکالی جس دونوں کے‬
‫قہقہے نکل گئے اور ہنستے‬
‫ہنستے دونوں ایک دوسرے‬
‫کے گلے لگا کہ لیٹ گئے‪.‬‬
‫دونوں بہن بھائی پر سکون‬
‫انداز میں اپنے دماغ سے‬
‫تمام سوالوں کو نکال کہ‬
‫بس ایک دوسرے کی محبت‬
‫میں غرق ہو کہ لیٹے ہوئے‬
‫تھے‪ ,‬وہ دونوں بانہوں میں‬
‫بانہیں اور ٹانگوں کو ایک‬
‫دوسرے کی ٹانگوں میں‬
‫دیے لیٹے آرام کرتے‬
‫کرتے سو گئے‪ ,‬ان کو‬
‫سوئے ہوئے ایک یا دو‬
‫گھنٹے ہو چکے تھے کہ‬
‫فہد کو ایک عجیب سی‬
‫گھبراہٹ کے احساس نے‬
‫جگا دیا‪ ,‬فہد کی آنکھ کھلی‬
‫تو اسکا لن پہلے سے بھی‬
‫زیادی شدت سے تن چکا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین کی پھدی فہد کے‬
‫لن سے چپکی ہوئی تھی‪,‬‬
‫فہد کو نیند اور شہوانی‬
‫جذبات ایک ہی وقت میں‬
‫گھیرے ہوئے تھے‪ ,‬فہد اپنی‬
‫سوئی ہوئی بہن کے چہرے‬
‫کے پاس اسکی گرم سانسیں‬
‫محسوس کر رہا تھا‪ ,‬فہد کی‬
‫کمر پھدی کے اتنا قریب‬
‫تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی‬
‫فہد کمر کو ہال ہال کی لن کو‬
‫پھدی سے رگڑنے لگا‪,‬‬
‫مہرین کی نیند زیادہ گہری‬
‫تھی اسلیے فی الحال وہ اس‬
‫بات سے انجان سو رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫ٹانگ کو کھینچ کہ اپنے‬
‫اوپر کر کہ پھدی کو لن اندر‬
‫لینے کے قابل کیا اور لن کو‬
‫پھدی کے سوراخ پہ رکھ کہ‬
‫مہرین کی کمر کو قابو کر کہ‬
‫اپنی کمر کو ہال کہ اندر‬
‫گھسانے لگا‪ ,‬مہرین کی‬
‫پھدی پہ لن کا ایسا حملہ‬
‫مہرین کو بیدار کر گیا اور‬
‫نیند سے بیدار ہوتے ہی‬
‫مہرین نے فہد کے ہونٹ‬
‫چوم کی اپنی کمر کا چدائی‬
‫کے حساب سے ہالیا اور لن‬
‫کو مکمل اندر لے لیا‪ ,‬مہرین‬
‫نے آہ بھر کہ اپنی کمر کو‬
‫ہالنا شروع کیا‪ ,‬دونوں بہن‬
‫بھائی برابر لیٹ کی اپنی‬
‫اپنی کمر اس ترتیب سے‬
‫ہالتے جا رہے تھے کہ لن‬
‫اور پھدی دونوں ہی اس‬
‫چدائی میں برابر کے شراکت‬
‫دار بن چکے تھے‪ ,‬کچھ دیر‬
‫ایسے چودنے سے دونوں‬
‫مزے کی بلندیوں پہ تھے‪,‬‬
‫اس انداز سے چودتے ہوئے‬
‫فہد مہرین کی چھاتیوں کو‬
‫مسلتا جا ریا تھا تو کبھی‬
‫مہرین فہد کے ہونٹوں کو‬
‫چومنے لگ جاتی‪ ,‬مہرین‬
‫نے فہد کو روک کہ دوسری‬
‫جانب کرٹ کر کہ اپنی گانڈ‬
‫کو ابھار کی فہد کے لن سے‬
‫لگا لیا‪ ,‬مہرین نے فہد کے‬
‫لن کو پکڑ کہ اپنی پھدی پہ‬
‫ایڈجسٹ کیا اور فہد اپ لیٹے‬
‫لیٹے اہنی بہن کو پیچھے‬
‫سے پھدی میں چودنے لگا‪,‬‬
‫فہد مہرین کی کمر کو پکڑے‬
‫زور لگا لگا کی چودنے لگا‪,‬‬
‫مہرین کچھ ہی دیر میں‬
‫ڈسچارج ہوگئی اور فہد کی‬
‫چدائی تیزی سے ہونے‬
‫لگی‪ ,‬فہد اپنی بہن کو چود‬
‫رہا تھا کہ مہرین کا بچہ‬
‫جاگ گیا اور رونے لگا‪,‬‬
‫مہرین اپنے بچے کے‬
‫رونے سے بے پرواہ چدنے‬
‫کا مزہ لے رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫بھی بنا رکے بس چودتا جا‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین چدتے ہوئے‬
‫آنہیں بھرتی اور کبھی بیچ‬
‫میں ایک ہاتھ سے اپنے‬
‫بچے کو تھپکا کہ چپ‬
‫کروانے لگ جاتی‪ ,‬مگر فہد‬
‫کے زور دار جھٹکے مہرین‬
‫کو اپنے بچے سے بے‬
‫پرواہ کر دیتے‪ ,‬باآلخر‬
‫مہرین کی گانڈ سے لن‬
‫چپکائے فہد اپنی بہن کی‬
‫چھاتیاں زور سے پکڑ کہ‬
‫آنہیں بھرتا ڈسچارج ہو گیا‬
‫اور مہرین پیچھے کو منہ‬
‫گھما کی فہد کے ہونٹ‬
‫چوسنے لگی‪ ,‬مہرین کا بچہ‬
‫روتا جا رہا تھا مگر مہرین‬
‫ڈسچارج کے مزے کو لیتے‬
‫ہوئے فہد کے ہونٹ چوستی‬
‫جا رہی تھی‪ ,‬فہد کے ہاتھوں‬
‫میں مہرین کی چھاتیاں‬
‫تکلیف دہ حد تک مسلی جا‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین کی‬
‫چھاتیوں سے نکلتا دودھ‬
‫فہد کی ہتھیلیوں پہ پھیل رہا‬
‫تھا‪ ,‬فہد ڈسچارج ہو چکا تھا‬
‫اور ایک ہاتھ سے مہرین کی‬
‫پھدی کو سہال رہا تھا‪ ,‬یہ پر‬
‫لطف لمحے کو مکمل طور‬
‫پہ انجوائے کر کہ مہرین‬
‫نے فہد کی گرفت سے آزاد‬
‫ہو کی اپنے بچے کو اپنی‬
‫طرف کھینچ کہ اپنی چھاتی‬
‫سے لگا لیا‪ ,‬بچہ بھوکا تھا‬
‫اسلیے دودھ منہ میں آتے‬
‫ہی چپ ہو گیا‪ ,‬فہد مہرین‬
‫سے چپکا ہوا مہرین کو‬
‫چومتا جا رہا تھا‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کے گال چومتا اور کبھی‬
‫گردن‪ ,‬مہرین بہت ہی زیادہ‬
‫خوش اپنے بھائی کے‬
‫چومنے کا مزہ لے رہی تھی‬
‫اور ساتھ اپنے بچے کو‬
‫دودھ بھی پال رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫نے اپنی بہن کا منہ اپنی‬
‫طرف گھما کہ ہونٹوں میں‬
‫اپنی زبان ڈال دی‪ ,‬مہرین‬
‫اپنی ایک چھاتی کو پکڑ کہ‬
‫بچے کے منہ پہ لگائے‬
‫ہوئے فہد کی زبان چوس‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد نے مہرین‬
‫کے پیٹ پہ ہاتھ پھیرتے‬
‫پھرتے مہرین کی پھدی کو‬
‫اپنی انگلیوں سے دبا دیا‬
‫جس سے مہرین کی آہ نکل‬
‫گئی‪ ,‬فہد کی انگلیاں تازہ‬
‫تازہ چدائی کی وجہ سے‬
‫بھیگی پھدی سے گیلی ہو‬
‫گئیں‪ ,‬مہرین نے ہنستے‬
‫ہنستے فہد کو پیچھے‬
‫ہٹایامہرین‪ :‬اسے دودھ تو‬
‫پی لینے دوفہد پھدی کو‬
‫مسلتا جا رہا تھا اور مہرین‬
‫کی آنہیں نکلواتا جا رہا تھا‪,‬‬
‫فہد مہرین کی کمر کو چوم‬
‫کہ گاڈ کی گوالئیاں دبا دبا کہ‬
‫چومنے لگا‪ ,‬مہرین بھی‬
‫مزے سے یہ سب کرواتے‬
‫ہوئے جلد از جلد اپنے بچے‬
‫کو دودھ پال کہ سائیڈ پہ کرنا‬
‫چاہتی تھی‪ ,‬مہرین‪ :‬رک جاو‬
‫دو منٹفہد بنا رکے مہرین‬
‫کے سارے جسن کو چومتا‬
‫جا رہا تھا‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫گردن سے کوتا ہوا مہرین‬
‫کی ایک چھاتی کو چوسنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین نے فہد کو ہٹانا‬
‫چاہا لیکن فہد تو جیسے‬
‫پاگلوں کی طرح مہرین کا‬
‫دودھ پیتا جا رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫کی ایک چھاتی بچہ پی چکا‬
‫تھا اور اب مہرین کو‬
‫دوسری چھاتی سے دودھ‬
‫پالنا تھا اسلیے مہرین نے‬
‫فہد کو کسی نہ کسی طرح‬
‫روک کہ بچے کو دوسری‬
‫چھاتی سے لگا لیا‪ ,‬اور‬
‫سیدھی لیٹ کہ بچے کو‬
‫دودھ پالنے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫اس ترتیب میں آتے ہی‬
‫دوبارہ مہرین کے پیٹ سے‬
‫لے کہ گردن تک وحشیانا‬
‫انداز میں چومنا شروع کر‬
‫دیا‪ ,‬مہرین کے چہرے پہ نہ‬
‫رکنے والی مسکراہٹ چھا‬
‫چکی تھی‪ ,‬وہ بس اپنے‬
‫بچے کے سیر ہونے کا‬
‫انتظار کر رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کو پیٹ سے چومتا‬
‫چومتا پھدی کے پاس آ گیا‬
‫اور وہیں پہ سر رکھ کہ ایک‬
‫ٹانگ سے لپٹ کہ لیٹ گیا‪,‬‬
‫فہد اپنی بہن کے پیٹ کے‬
‫اور منہ رکھ کہ لیٹا پھدی‬
‫کی خوشبو سونگھ رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین ایک طرف اپنے بچے‬
‫کو دودھ پال رہی تھی اور‬
‫دوسرے ہاتھ سے فہد کے‬
‫سر کو محبت بھی تھپکیاں‬
‫دے رہی تھی‪ ,‬باآلخر مہرین‬
‫کا بچہ سیر ہو گیا اور‬
‫مہرین نے اسے بستر کے‬
‫برابر پڑے گہوارے میں لیٹا‬
‫دیا اور مسکراتے ہوئے‬
‫انداز میں اپنے بھائی کو‬
‫اپنے برابر کھیچ لیا‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کے برابر آ کہ لیٹ‬
‫گیا‪ ,‬مہرین اپنے بھائی کے‬
‫بال سنوارنے لگی اور فہد‬
‫ایک معصوم سی شکل‬
‫بنائے اپنی بہن سے الڈ‬
‫لڈانے لگا‪ ,‬فہد مہرین کے‬
‫سینے پہ سر ٹکائے لیٹا ہوا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین نے فہد کو اپنے‬
‫چہرے کی طرف دیکھنے کو‬
‫کہامہرین‪ :‬میری طرف‬
‫دیکھوفہد نے گردن اٹھا کہ‬
‫اوپر دیکھا تو مہرین کے‬
‫مسکراتے چہرے کو‬
‫دیکھامہرین‪ :‬آ گئی‬
‫اللیاں؟فہد ہنس کہ دوبارہ‬
‫سینے سے چپک گیافہد‪:‬‬
‫جی آ گئی ہیں اللیاں‪ ,‬حکیم‬
‫صاحب کی ایسی کی‬
‫تیسیمہرین‪ :‬شکر ہے‬
‫تمہاری آواز بھی نکلی‪ ,‬کچھ‬
‫دیر پہلے تو آواز بھی کانپ‬
‫رہی تھی تمہاری‪ ,‬بول بھی‬
‫نہیں پا رہے تھے تم ٹھیک‬
‫سےفہد نے مہرین پہ‬
‫بازوؤں کی گرفت بڑھا کہ‬
‫محبت سے کس لیا اور‬
‫سکون بھرے انداز میں‬
‫گہری سانس لیفہد‪ :‬چکر آ‬
‫رہے تھے باجیمہرین‪ :‬اب تو‬
‫نہیں آ رہے؟فہد‪ :‬اب سکون‬
‫ہےمہرین‪ :‬ہاں اب مجھے‬
‫بھی سکون ہےفہد نے گردن‬
‫اٹھا کہ دوبارہ مہرین کی‬
‫طرف دیکا تو وہ بھی فہد‬
‫کی طرح شیطانی مسکراہٹ‬
‫سے ہنس رہی تھیفہد‪ :‬بہت‬
‫رنگین مزاج عورت ہیں آپ‬
‫باجییہ بات کہہ کہ فہد مہرین‬
‫کے سینے سے چومنے لگا‬
‫اور مہرین کی رانوں کو‬
‫سہالنے لگامہرین‪ :‬تمہاری‬
‫بہن ہوں نا‪ ,‬مزاج میں تو‬
‫رنگینی ہو گی ہومہرین نے‬
‫فہد کا ہاتھ پکڑ کہ اپنی‬
‫پھدی پہ رکھ دیا‪ ,‬فہد انگلی‬
‫کو پھدی کے اردگرد پھیر کہ‬
‫پھدی کے ہونٹوں کی نرمی‬
‫کا اندازہ لگانے لگا‪ ,‬کبھی‬
‫نرم اور کبھی سخت طریقے‬
‫سے فہد پھدی کے سوراخ‬
‫کو سہالنے لگا‪ ,‬پھدی بھگ‬
‫کہ فہد کی انگلیوں کو بھی‬
‫بھگو رہی تھی‪ ,‬فہد کا لن‬
‫دوبارہ ٹائیٹ ہو گیا‪ ,‬اور فہد‬
‫مہرین کے اوپر آ کہ لن کو‬
‫پھدی کے سوراخ پہ رگڑنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین جو کہ فہد کیلیے‬
‫ٹانگیں پھیال چکی تھی‬
‫دوبارہ چدنے کیلیے تیار‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے لن کو پھدی‬
‫میں دھکیل کہ دوبارہ چودنا‬
‫شروع کیا‪ ,‬مہرین فہد کو‬
‫ٹانگوں کے گھیرے میں‬
‫لیے اپنی پھدی کو ہال ہال کہ‬
‫چدوا رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کی ٹانگوں اپنے بازوں سے‬
‫پکڑ کہ پورے زور سے‬
‫وزن ڈال کہ چودنے لگا‪,‬‬
‫مہرین کے گھٹنے وزن‬
‫کیوجہ سے اسکے چہرے‬
‫کے قریب آچکے تھے‪,‬‬
‫مہرین کی اس قدر پرزور‬
‫چدائی ہو رہی تھی کہ وہ‬
‫بے بس ہو کہ چال رہی تھی‬
‫مگر فہد وحشیانہ انداز سے‬
‫بس چودتا ہی جا رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین کو اس انداز میں‬
‫چودنے کے بعد فہد نے‬
‫مہرین اوپر آنے کا کہا‪ ,‬فہد‬
‫ٹانگیں پھیال کی بیٹھ گیا اور‬
‫مہرین فہد کے لن کے اوپر آ‬
‫کہ بیٹھ گئی‪ ,‬مہرین کی‬
‫ٹانگیں فہد کی کمر کے گرد‬
‫لپٹ گئی اور اب وہ اچھل‬
‫اچھل کہ چدنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کو اپنے ساتھ لگا کہ‬
‫جھٹکے مارتا جا رہا تھا اور‬
‫مہرین ڈسچارج ہو گئی‪ ,‬فہد‬
‫نے مہرین کو چودتے‬
‫چودتے وہیں سے دوبارہ‬
‫نیچے لیٹا لیا اور بنا چدائی‬
‫روکے مہرین کے اوپر آ کہ‬
‫چودنا شروع کر دیا‪ ,‬فہد کے‬
‫طاقتور جھٹکے مہرین کی‬
‫چھاتیوں کو ہال رہے تھے‪,‬‬
‫مہرین اف آہ اہہمم فہد آہ آہ‬
‫کرتی جا رہی تھی اور فہد آہ‬
‫باجی آہ اف ہممم آہ مہرین‬
‫کر رہا تھا‪ ,‬چدائی کی آوازیں‬
‫کمرے میں اتنی بلند ہو‬
‫چکی تھی کہ دوسرے‬
‫کمرے تک سنی جا سکتی‬
‫تھی‪ ,‬فہد اپنی بہن کو‬
‫چودتے چودتے ڈسچارج ہو‬
‫گیا اور اسکے ساتھ ہی‬
‫مہرین دوبارہ سے ڈسچارج‬
‫ہو گئ اور وہ دونوں بہن‬
‫بھائی وہیں پہ ہانپتے ہوئے‬
‫لیٹ گئے فہد نے ہانپتے‬
‫ہوئے مہرین کو چوما اور‬
‫بے ترتیب انداز میں بستر پہ‬
‫پڑے ہوئے دونوں ننگے‬
‫جسم آنکھیں بند کرنے‬
‫لگے۔‬

‫فہد اور مہرین پر تکلف‬


‫چدائی کا مزہ لے کہ سو‬
‫چکے تھے‪ ,‬مہرین اپنے‬
‫بچے کو بھی سنبھال رہی‬
‫تھی اور اپنے بھائی کو بھی‬
‫مزہ دے رہی تھی‪ ,‬ساری‬
‫رات فہد کروٹ بدلتا بیچین‬
‫نیند میں بڑبڑا رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے بڑبڑانے‬
‫کیوجہ سے جاگ جاتی اور‬
‫اپنے بھائی کو کبھی‬
‫تھپکاکہ اور کبھی سینے‬
‫سے لگا کہ سالنے لگ‬
‫جاتی‪ ,‬فہد اسی بیچینی میں‬
‫جاگ گیا‪ ,‬جب اسکی آنکھ‬
‫کھلی تو سورج طلوع ہو‬
‫چکا تھا‪ ,‬سورج کی ٹھنڈی‬
‫ٹھنڈی روشنی پھیل چکی‬
‫تھی‪ ,‬جب فہد کی نظر مہرین‬
‫پہ پڑی تو وہ اپنے بچے کو‬
‫ساتھ لٹائے گہری نیند سو‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین بھی فہد کی‬
‫طرح برہنہ ہی تھی‪ ,‬فہد کا‬
‫گال خشک تھا‪ ,‬ساری رات‬
‫خالی پیٹ اپنی بہن کو‬
‫چودنے کیوجہ سے اب پیٹ‬
‫میں چوہے دوڑ رہے تھے‪,‬‬
‫فہد کا سر بھاری محسوس‬
‫ہو رہا تھا‪ ,‬اسی ملی جلی‬
‫بیچینی کی صورتحال میں‬
‫فہد اٹھ کہ لڑکھڑاتے قدموں‬
‫سے کچن میں چال گیا‪ ,‬فہد‬
‫کی دماغی حالت جسمانی‬
‫ناتوانی کیوجہ سے بہت بہتر‬
‫نہیں تھی‪ ,‬فہد برہنہ حالت‬
‫میں ہی کچن میں پانی پی کہ‬
‫چولہے کے نزدیک شیلف پہ‬
‫ہاتھ کے سہارے اپنے سر‬
‫کو پکڑے کھڑا تھا‪ ,‬اِّدھر‬
‫اُدھر نظر دوڑانے پہ چائے‬
‫کا سامان ڈھونڈتا ہوئے فہد‬
‫کے ہاتھ سے برتن گر گئے‬
‫جن کے شور کیوجہ سے‬
‫کمرے میں سوئی ہوئی‬
‫مہرین جاگ گئی‪ ,‬مہرین نے‬
‫آنکھ کھلتے ہی برتنوں کے‬
‫گرنے سے پیدا ہونیوالے‬
‫شور کی آواز کا تعاقب کیا‬
‫تو اسکو اندازہ ہو گیا کہ‬
‫بستر سے غائب اسکا چھوٹا‬
‫بھائی کچن میں اودھم مچا‬
‫رہا ہے‪ ,‬مہرین فورا ً اٹھ کہ‬
‫کچن کی طرف بڑھی تو وہاں‬
‫فہد کو برتنوں میں گھرا ہوا‬
‫پایا تو کچن کے دروازے‬
‫سے ہی بولتی ہوئی کچن‬
‫میں داخل ہوئی اور فہد کو‬
‫ہٹا کہ برتن سمیٹنے‬
‫لگیمہرین‪ :‬اف ہو فہد‪,‬‬
‫مجھےجگا لیتے‪ ,‬بچے ہی‬
‫رہو گے تمفہد اپنی ننگی‬
‫بہن کو سامان سنبھالتے‬
‫ہوئے اپنی امداد کرتے‬
‫ہوئے دیکھ رہا تھا‪ ,‬فہد اور‬
‫مہرین برہنہ ہی اس سارے‬
‫کام میں لگے ہوئے تھے‪,‬‬
‫جب مہرین برتن سمیٹ چکی‬
‫تو اسکی نظر فہد پہ پڑی‬
‫جو وہیں شیلف پہ ننگا بیٹھا‬
‫ہوا میں اہنی ٹانگیں ہالتا ہو‬
‫مہرین کو سوجی ہوئی‬
‫آنکھوں سے دیکھ رہا‬
‫تھامہرین‪ :‬طبیعت بہتر ہے‬
‫اب؟فہد نے مسکرا کہ ہاں‬
‫میں جواب دیامہرین‪ :‬آنکھیں‬
‫کیوں سوجی ہوئی ہیں؟فہد‬
‫نے وہیں پہ بیٹھے ہوئے‬
‫گردن ہال کہ اپنی ال علمی کا‬
‫اظہار کیا‪ ,‬مہرین برتنوں کو‬
‫دھوتی جا رہی تھی اور فہد‬
‫سے باتیں کرتی جا رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد زیادہ بول بھی نہیں‬
‫تھا اور نہ ہی مہرین کے‬
‫جسم پہ ٹکٹکی باندھ کہ‬
‫دیکھ رہا تھا ایسا لگ رہا‬
‫تھا کہ جیسے وہ کسی گہری‬
‫سوچ میں ڈوبا ہوا ہے‪,‬‬
‫مہرین کو اچھی طرح سے‬
‫اندازہ تھا کہ فہد کن خیالوں‬
‫میں گم ہے اس لیے فی‬
‫الحال وہ فہد کو دماغی‬
‫کوفت سے دور رکھنے‬
‫کیلئے بس رسمی گفتگو ہی‬
‫کر رہی تھی‪ ,‬فہد بس‬
‫اشاروں سے جواب دیتا ہوا‬
‫بات کر رہا تھا اور بہت‬
‫ضرورت پڑنے پہ ہاں ہوں‬
‫جی سے کام چال لیتا‪ ,‬مہرین‬
‫بیچ بیچ میں گردن گھما کہ‬
‫فہد کو دیکھ کہ بات کر لیتی‬
‫مگر فہد بکھرے بالوں کے‬
‫ساتھ فرش پہ نظریں گاڑھے‬
‫ہوا میں ٹانگیں ہالتا جا رہا‬
‫تھا مہرین‪ :‬چائے پیو‬
‫گے؟فہد‪ :‬جی بنا لیں‪ ,‬پہلے‬
‫ایک گالس پانی پال دینمہرین‬
‫اپنے بھائی کی آواز پہ لبیک‬
‫کہہ کہ پانی کا گالس لیے‬
‫اسکے سامنے آ گئی‪ ,‬گالس‬
‫مہرین کے ہاتھ سے فہد کے‬
‫ہاتھ میں آنے تک آنکھوں‬
‫سے آنکھیں ملی اور محبت‬
‫بھری مسکراہٹوں کا تبادلہ‬
‫ہوا‪ ,‬فہد نے ایک ہی سانس‬
‫میں پانی ختم کر کہ گالس‬
‫واپس کیا‪ ,‬پانی کو اتنی‬
‫تیزی سے پینے کیوجہ سے‬
‫کچھ قطرے جو فہد کے‬
‫ہونٹوں سے چھلک چکے‬
‫تھے‪ ,‬مہرین نے فہد کو‬
‫کندھوں سے کھینچ کہ ذرا‬
‫نیچے کیا اور کسی حد تک‬
‫اپنے پاؤں کے پنجوں کے‬
‫آسرے اپنا آپ اونچا کر کہ‬
‫فہد کے گالوں سے ٹپکتے‬
‫قطروں کو اپنی زبان سے‬
‫چاٹ لیا‪ ,‬مہرین ایسا کرنے‬
‫کے بعد فہد کو مسکرا کہ‬
‫دیکھتی ہوئی فہد کے‬
‫بکھرے بالوں کو اپنی‬
‫انگلیوں سے مزید بکھیر کہ‬
‫لچکتی ہوئی چائے بنانے‬
‫کیلیے چولہے کی طرف بڑھ‬
‫گئی‪ ,‬مہرین چولہے کو‬
‫ماچس کی تیلی سے جال‬
‫چکی تھی‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫اس چھوٹی سی محبت بھری‬
‫شرارت پہ ہنستا ہوا مہرین‬
‫کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا‬
‫ہی جا رہا تھا‪ ,‬مہرین چائے‬
‫کے برتن چولہے پہ رکھتے‬
‫ہو ئے فہد کا اس انداز سے‬
‫دیکھنے پہ مزید لہک لہک‬
‫کہ کام کر رہی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫کا رخ دوسری طرف تھا اور‬
‫فہد کی نظر مہرین کی‬
‫خوبصورت گانڈ پہ تھی‪,‬‬
‫مہرین جب جب کسی کام‬
‫کیلیے قدم اٹھا کہ ادھر سے‬
‫اُدھر ہوتی تو اسکی گانڈ‬
‫چھلک جاتی‪ ,‬مہرین جب‬
‫اپنے بھائی کو کسی بات پہ‬
‫مڑ کہ دیکھتی تو اسکی‬
‫چھلکتی چھاتیاں تنے ہوئے‬
‫سرخی مائل نپلز سمیت ہلنے‬
‫لگ جاتی‪ ,‬مہرین کے کے‬
‫کھلے بال ساری کمر کو‬
‫ڈھانپے ہوئے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫کی خوبصورت آنکھیں ابھی‬
‫ابھی جگنے کیوجہ سے‬
‫ایک عجیب سی خماری میں‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کے خوبصورت‬
‫ہونٹ بنا کسی لپ اسٹک کے‬
‫گالبی ہو رہے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫کے خوبصورت ہاتھ چائے‬
‫بنانے کیلیے مصروف تھے‪,‬‬
‫فہد دور بیٹھا مہرین کی‬
‫خوبصورتی کو بس دیکھتا‬
‫ہی جا رہا تھا‪ ,‬مہرین چائے‬
‫کیلیے قہوہ پکا چکی تھی‬
‫اور اب اس میں دودھ ڈالنے‬
‫کیلیے دودھ کے برتن کو‬
‫اٹھانے کے لیے‪ ,‬جو کہ فہد‬
‫کے قریب پڑا تھا‪ ,‬فہد کے‬
‫قریب آ گئی‪ ,‬فہد نے اس‬
‫خوبصورت حور کو دیکھ کہ‬
‫اسکا ہاتھ پکڑ کہ کھینچ لیا‬
‫اور اپنے پاس کر کہ ابھی‬
‫چومنے ہی لگا تھا کہ مہرین‬
‫نے مسکراتے ہوئے اپنا آپ‬
‫اپنے بھائی سے چھڑوا لیا‬
‫اور بہت ہی شرارتی انداز‬
‫میں جواب دیامہرین‪ :‬پہلے‬
‫چائے نہ پی لیں؟فہد ہنس کہ‬
‫مہرین کو چھوڑ چکا تھا‪,‬‬
‫مہرین ابھی چولہے کے‬
‫قریب نہیں پہنچی تھی کہ فہد‬
‫چھالنگ لگا کہ شیلف سے‬
‫اتر کہ اپنے قدموں پہ چلتا‬
‫ہوا مہرین کے پیچھے سے‬
‫آ کہ اپنا آپ مہرین سے‬
‫چپکا کہ اپنی بانہوں کو‬
‫مہرین کے گرد لپیٹ لیا‪ ,‬فہد‬
‫اپنے چہرے کو مہرین کی‬
‫گردن پہ ٹکائے کھڑا تھا‪,‬‬
‫مہرین کو اپنے بھائی کی‬
‫اس والہانہ محبت پہ بہت‬
‫پیار آیا اور وہ وقتی طور پہ‬
‫برتنوں کو چھوڑ کہ فہد کے‬
‫ہاتھوں کو پکڑ کہ فہد کے‬
‫ساتھ اپنا آپ چپکا کہ کھڑی‬
‫ہو گئی‪ ,‬فہد کے بازو مہرین‬
‫کی چھاتیوں کو دابا رہے‬
‫تھے‪ ,‬قہوہ پکتا جا رہا تھا‬
‫اور اب اس میں دودھ ڈالنا نا‬
‫گزیر ہو چکا تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫اپنا آپ کسی حد تک فہد‬
‫سے آزاد کروا کہ دودھ کی‬
‫ایک مقدار پکتے ہوئے‬
‫قہوے میں ڈالی اور اسی‬
‫دوران مہرین کو اپنے بھائی‬
‫کا لن اپنی گانڈ پہ لگتا ہوا‬
‫سخت محسوس ہوا‪ ,‬فہد لن‬
‫کو اپنی بہن کی گانڈ کی‬
‫الئین میں رگڑ رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین نے دودھ ڈال لینے‬
‫کے بعد چائے کے پکنے‬
‫تک کے وقفے کے لیے اپنا‬
‫آپ فہد سے واپس اسی‬
‫نوعیت سے چپکا لیا اور‬
‫گردن گھما کہ فہد کے‬
‫ہونٹوں سے اپنے ہونٹ مال‬
‫لیے‪ ,‬فہد اور مہرین اسی‬
‫پوز میں ایک دوسرے کے‬
‫ہونٹ چوستے جا رہے تھے‬
‫اور چولہے پہ پک رہی‬
‫چائے اپنا درجہ حرارت بڑھا‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد نے مہرین کو‬
‫اپنی طرف گھمایا تو مہرین‬
‫دانت نکالتی ہوئی فہد کی‬
‫طرف گھوم کہ اسکی بانہوں‬
‫میں آگئی‪ ,‬فہد اپنی بہن کو‬
‫جھک کہ گردن سے گالوں‬
‫سے اور سینے سے چومتا‬
‫جا رہا تھا‪ ,‬مہرین موقع‬
‫ملنے پہ واپس چائے کی‬
‫طرف دیکھ کہ اس رومانس‬
‫کی مدت کا اندازہ لگانے لگ‬
‫جاتی‪ ,‬فہد اور مہرین دوبارہ‬
‫بہک رہے تھے اس لیے‬
‫دونوں فی الحال یہی چاہ‬
‫رہے تھے کہ کاش اس‬
‫چائے کا ابلنا تاخیر کا شکار‬
‫ہو جائے‪ ,‬چائے میں ہلکا‬
‫ہلکا ابال آتا جا رہا تھا اور‬
‫ادھر فہد اور مہرین کے‬
‫جذبات میں گرمی بڑھتی جا‬
‫رہی تھی ‪ ,‬فہد کا لن مکمل‬
‫طور پہ تن چکا تھا اور‬
‫مہرین کی پھدی کے حاالت‬
‫بھی اچھے نہیں تھے‪,‬‬
‫مہرین اپنا آپ فہد سے چٹوا‬
‫اور چسوا رہی تھی اور‬
‫ساتھ ساتھ چائے کی طرف‬
‫غصے سے دیکھ رہی تھی‪,‬‬
‫گویا وہ چائے کو غصے‬
‫سے دیکھ کہ یہ کہنا چاہ‬
‫رہی کو کہ "رک جاؤ ابھی‪,‬‬
‫اسوقت اُبل کہ ہماری محبت‬
‫میں خلل نہ ڈالنا‪ ,‬کیا تم‬
‫دیکھ نہیں رہی کہ میں اپنے‬
‫محبوب کی بانہوں میں مچل‬
‫رہی ہوں؟"مہرین کو بس‬
‫ایک نظر دیکھ رہی تھی‬
‫اسکے عالوہ وہ فہد کے‬
‫ساتھ مکمل طور پہ تعاون‬
‫کر رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین کو‬
‫اور مہرین فہد کو بڑھ چڑھ‬
‫کہ چومتی جا رہی تھی‪ ,‬وہ‬
‫دونوں ایک دوسرے کو‬
‫چومتے چاٹتے شیلف کے‬
‫ایک کونے سے دوسرے‬
‫کونے تک جا چکے تھے‬
‫اور اب فہد مہرین کو اس‬
‫شیلف پہ ٹیڑھا کر کہ چوم‬
‫رہا تھا‪ ,‬لن اپنے پورے‬
‫جوبن پہ آ کہ مہرین کے‬
‫جسم میں چبھ رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین کی پھدی تر ہو رہی‬
‫تھی اسلیے وہ اب لن کو‬
‫اپنی پھدی میں لینے کیلیے‬
‫لن کو پکڑ کہ سہال رہی تھی‬
‫اور فہد کو مزید بہکا رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے اپنی بہن کو‬
‫چومتے چومتے اسکی ایک‬
‫ٹانگ کو پکڑ کہ اٹھایا اور‬
‫اس ٹانگ کو شیلف پہ رکھ‬
‫دیا‪ ,‬اس پرزور حرکت کیوجہ‬
‫سے مہرین کی پھدی ہونٹ‬
‫پھیالئے فہد کا لن اپنے اندر‬
‫لینے کیلیے مکمل تیار ہو‬
‫چکی تھی‪ ,‬ٹانگ کو اتنا اور‬
‫کر لینے کیوجہ سے مہرین‬
‫کو تکلیف تو ہوئی لیکن لن‬
‫کی طلب اتنی شدید تھی کہ‬
‫اس تکلیف کو برداشت کرنا‬
‫آسان ہو چکا تھا‪ ,‬دوسری‬
‫جانب چائے اب پک کہ‬
‫سسن سسن کی آواز پیدا کر‬
‫رہی تھی جس سے دونوں‬
‫بہن بھائی کو اندازہ ہو چکا‬
‫تھا کہ اب چائے ابلنے ہو‬
‫والی ہے مگر دونوں اس‬
‫بات کو نظر انداز کر کہ ایک‬
‫دوسرے میں مگھن تھے‪,‬‬
‫فہد نے اپنے لن کو اپنے‬
‫ایک ہاتھ سے پکڑ کہ پھدی‬
‫پہ پھیرا جس سے مہرین‬
‫کی آہ نکل گئی‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کی ایک چھاتی کو زور سے‬
‫مسلتا ہوا اپنے لن کو پھدی‬
‫پہ رگڑتا جا رہا تھا اور‬
‫مہرین آنکھیں بند کیے مزے‬
‫سے آنہیں بھر رہی تھی‪,‬‬
‫مہرین کا ایک ہاتھ شیلف پہ‬
‫ٹکا ہوا تھا اور ایک ہاتھ‬
‫سے فہد کو کندھے سے‬
‫پکڑ کہ اپنا آپ سنبھال رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد کا ایک ہاتھ مہرین‬
‫کی کمر پہ تھا اور دوسرے‬
‫ہاتھ سے لن کو پھدی سے‬
‫رگڑ رہا تھا‪ ,‬فہد نے لن کو‬
‫پھدی کے سوراخ پہ رکھ کہ‬
‫اپنی کمر کو ہال کہ زور لگایا‬
‫جس سے لن پھدی میں‬
‫دھنستا ہی چال گیا اور‬
‫مہرین اس تکلیف اور مزے‬
‫کی حالت سے کراہنے لگی‪,‬‬
‫فہد نے لن کو گہرائ تک‬
‫لے جا کہ باہر نکاال تو‬
‫مہرین کی اور آہ نکل گئی‪,‬‬
‫وہ بند آنکھوں سے فہد کو‬
‫زور سے پکڑے ہوئے مزہ‬
‫لے رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین کو‬
‫چودتا جا رہا تھا اور اب‬
‫جھٹکوں کی شدت سے‬
‫مہرین کی چھاتیاں چھلک‬
‫چھلک کہ ہل رہی تھی‪,‬‬
‫چولہے پہ پڑی چائے زور‬
‫زور سے شن شن کی‬
‫آوازیں پیدا کر رہی تھی مگر‬
‫مہرین اور فہدچائے کی آواز‬
‫سے بے پرواہ کو کہ آنہوں‬
‫اور سسکاریوں کی آوازیں‬
‫پیدا کر رہے تھے‪ ,‬مہرین‬
‫کراہ کراہ کہ "آہ فہد‪ ,‬افف‪,‬‬
‫آہممم آہ آہ آہ اُوئی آہ" کر‬
‫رہی تھی اور فہد بھی ایسی‬
‫ہی آوازیں نکالتا ہوا اپنی‬
‫بہن کا نام لیتا جا رہا تھا "آہ‬
‫مہرین‪ ,‬اف اف آہ باجی‪ ,‬آہ‬
‫امم آہمم مہرین باجی' فہد‬
‫کے جھٹکے تیز سے تیز ہو‬
‫کہ مہرین کو ڈسچارج کرنے‬
‫والے تھے‪ ,‬اب مہرین‬
‫دونوں ہاتھوں کو فہد کے‬
‫کندھوں کے گرد لپیٹ کی‬
‫آنکھوں اور ہونٹوں کو‬
‫بھینچ کہ اپنے بھائی سے‬
‫ُچد رہی تھی‪ ,‬مہرین کی‬
‫پھدی اس چدائی کی تاب نہ‬
‫ال سکی اور باآلخر مہرین‬
‫فہد فہد کرت ڈسچارج ہو‬
‫گئ‪ ,‬چولہے پہ پڑی چائے‬
‫اب ابل ابل کہ ششن ششن کا‬
‫شور پیدا کر رہی تھی مگر‬
‫پرسان حال اسوقت‬
‫ِّ‬ ‫اسکا‬
‫کوئی نہیں تھا‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین چودتے چوتے شیلف‬
‫پہ الٹا کر لیا‪ ,‬اب مہرین اپنی‬
‫چھاتیاں شیلف پہ چپکائے‬
‫اپنے بھائی کا لن پیچھے‬
‫سے اپنی پھدی میں ڈلوا‬
‫چکی تھی‪ ,‬فہد اپنے گھٹنوں‬
‫کو خم کر کہ لن کو پھدی‬
‫میں ڈال کہ طاقتور جھٹکے‬
‫مارتا جا رہا تھا‪ ,‬فہد کے‬
‫طاقتور جھٹکوں سے پیدا‬
‫ہونے والی ٹپ ٹپ کی آواز‬
‫کچن میں گونج رہی تھی‪,‬‬
‫فہد مہرین کو چودتے‬
‫چودتے ڈسچارج ہو گیا اور‬
‫شیلف پہ چھاتیاں چپکائے‬
‫ہوئی اپنی بہن پہ وزن ڈال‬
‫کہ ہانپنے لگا‪ ,‬چائے اب ابل‬
‫کہ برتن سے باہر گر چکی‬
‫تھی اور اتنی زیادہ ابل چکی‬
‫تھی کہ جلتا چولہا چائے کی‬
‫وجہ سے بجھ چکا تھا‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کے اوپر ہانپتے‬
‫ہوئے اسکے چہرے بال ہٹا‬
‫کہ گال چونے لگا اور مہرین‬
‫بھی مسکرا کی فہد کو پیار‬
‫سے سہالنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین سے اتر کہ شیلف پہ‬
‫بیٹھ گیا اور مہرین کو اپنے‬
‫اوپر کر کہ آرام دینے لگا‪,‬‬
‫مہرین فہد پہ اپنا آپ انڈیل‬
‫کہ سانسیں بہال کرنے لگی‪,‬‬
‫دونوں کے چہرے پہ عجیب‬
‫سا تشکر تھا‪ ,‬وہ اتنا‬
‫پرسکون محسوس کر رہے‬
‫تھے اور یہ احساس دونوں‬
‫کیلئے نیا تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫سر اٹھا کہ فہد کی طرف‬
‫دیکھا مہرین‪ :‬موت کا‬
‫سوداگر ہے حکیم‪ ,‬محبت کی‬
‫پڑیا میں واقعی اثر ہےفہد‬
‫مہرین کی اس بات پہ‬
‫ہنسنے لگافہد‪ :‬باجی سر‬
‫چکرا دیا میرا‪ ,‬ایسی حالت‬
‫پہلے کبھی نہیں ہوئی‪,‬‬
‫مجھے ذرا بھی انداہ ہوتا کہ‬
‫حکیم صاحب کی دواء میں‬
‫اتنا اثر ہے تو کبھی بھی نہ‬
‫کھاتا مہرین‪ :‬چلو اچھا ہی‬
‫ہوا‪ ,‬حکیم کا احسان ساری‬
‫زندگی یاد رکھوں گیفہد‪ :‬یہ‬
‫احسان حکیم صاحب کا ہے‬
‫یا میرا؟مہرین‪ :‬حکیم صاحب‬
‫کافہد‪ :‬وہ کیسے‪ ,‬ساری رات‬
‫سے زور میرا لگ رہا ہے‬
‫اور احسان حکیم صاحب‬
‫کا؟مہرین‪ :‬بچا کہ رکھو ابھی‬
‫اپنا زور‪ ,‬ابھی سارا دن باقی‬
‫ہے ساری رات باقی ہے‪,‬‬
‫دیکھتے ہیں کتنا زور ہے‬
‫اورفہد‪ :‬باجی چائے پال دیں‬
‫اب‪ ,‬پھر جو کہو گی‬
‫کرونگامہرین‪ :‬پکا؟ جو‬
‫کہوں گی کرو گے؟ مکر تو‬
‫نہیں جاؤ گے؟فہد‪ :‬آپکی‬
‫قسم نہیں مکرتا فی الحال‬
‫ایک کپ چائے مل جائے تو‬
‫سکون ہوگامہرین‪ :‬چلو جاؤ‬
‫جا کہ اپنے بھانجے کو‬
‫دیکھو میں ابھی چائے بنا‬
‫کہ الئی‪ ,‬یہ والی چائے تو‬
‫برباد کر دی اب نئی بنا کی‬
‫التی ہونفہد اپنی بہن کو چوم‬
‫کہ کچن سے چال گیا اور‬
‫مہرین دوبارہ نئی چائے‬
‫بنانے میں لگ گئی۔‬
‫فہد کمرے میں لیٹا اپنے‬
‫بھانجے سے کھیلنے لگا‬
‫اور مہرین چائے کے دو کپ‬
‫لے کہ کمرے میں مسکراتی‬
‫ہوئی داخل ہو گئی‪ ,‬فہد‬
‫کیلیے چائے کیساتھ ہلکی‬
‫پھلکی غذا کا انتظام بھی‬
‫مہرین کر کہ آئی تھی‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی نے مزیدار‬
‫چائے کا مزہ لیا اور ساتھ‬
‫ساتھ محبت بھری باتیں‬
‫کرتے کرتے چائے ختم کی‪,‬‬
‫مہرین چائے کے برتن‬
‫واپس رکھنے گئی تو واپسی‬
‫پہ فہد کو سویا ہوا پایا‪ ,‬فہد‬
‫اوندھے منہ تکیے کے‬
‫نیچے سر دیے ٹانگیں‬
‫پھیالئے گہری سانسیں لیتا‬
‫ہوا خوابوں کی دنیا میں جا‬
‫چکا تھا‪ ,‬مہرین کو اپنے‬
‫بھائی کی نیند میں کسی قسم‬
‫کا خلل نہیں چاہیے تھا‬
‫اسلیے اپنے بچے کو لے کہ‬
‫دوسرے کمرے میں چلی‬
‫امور‬
‫ِّ‬ ‫گئی اور نہا دھو کہ‬
‫خانہ داری میں مصروف ہو‬
‫گئی‪ ,‬مہرین کے چہرے پہ‬
‫آج ایسی چمک تھی کہ وہ‬
‫بار بار شیشے میں اپنا آپ‬
‫دیکھ کہ خود ہی شرما‬
‫جاتی‪ ,‬اپنی محبت کو حاصل‬
‫کرنے کا احساس مہرین کی‬
‫باچھیں پھیال رہا تھا‪ ,‬کچھ‬
‫گھنٹوں کی نیند لینے کے‬
‫بعد فہد بھی بیدار ہو گیا اور‬
‫کمرے میں بستر پہ ہی‬
‫مہرین باجی مہرین باجی کی‬
‫آوازیں دے کہ اپنی بہن کو‬
‫بالنے لگا‪ ,‬مہرین بھاگی فہد‬
‫کے کمرے میں لپکی تو فہد‬
‫نے ناشتے کی فرمائش کر‬
‫دی‪ ,‬مہرین نے اپنے بھائی‬
‫کیلیے پرتکلف ناشتے‬
‫کیلیے کچن کا رخ کیا اور‬
‫فہد نہا دھو کہ پاجامہ اور‬
‫ٹی شرٹ پہنے ناشتے کا‬
‫انتظار کرنے لگا‪ ,‬ناشتے‬
‫کرنے کے بعد فہد کے جسم‬
‫میں حرارت آ گئی اور وہ‬
‫اپنی بہن کا شکریہ ادا کرنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین گذشتہ رات سے‬
‫فہد کی طبیعت کیلیے ذرا‬
‫پریشان تھی اسلیے بار بار‬
‫فہد سے طبعیت کا پوچھ‬
‫رہی تھی‪ ,‬اپنی بہن پہ جان‬
‫دینے واال بھائی ہر بار‬
‫مہرین کو پریشان نہ ہونے‬
‫کی تلقین کررہا تھا اور مزاح‬
‫بھری حرکتیں کر کر کہ‬
‫مہرین کو ہنسا رہا تھا‪,‬‬
‫کمرے میں بلند ہوتے قہقہے‬
‫ایک الگ ہی دنیا کا احساس‬
‫دال رہے تھے‪ ,‬ایک ایسی‬
‫دنیا جہاں بے لوث محبت‬
‫کے عالوہ کسی اور جذبے‬
‫کیلیے جگہ نہیں تھی‪ ,‬اس‬
‫دنیا کا شہزادہ فہد تھا اور‬
‫مہرین شہزادی‪ ,‬ایک ایسی‬
‫شہزادی جو برسوں سے‬
‫کسی سحر کیوجہ سے‬
‫سوئی پڑی تھی اور آج‬
‫شہزادے کی لمس کی وجہ‬
‫سے اس سحر سے آزاد ہو‬
‫کہ دنیا کی رنگینی کا مزا‬
‫لے رہی تھی‪ ,‬گپ شپ چلتی‬
‫جا رہی تھی‪ ,‬اس گپ شپ کا‬
‫مرکز کبھی فہد بن جاتا تو‬
‫کبھی مہرین‪ ,‬کبھی رات کے‬
‫گزرے ہوئے لمحوں پہ‬
‫مہرین فہد کو چھیڑ کہ‬
‫شرمانے پہ مجبور کر دیتی‬
‫تو کبھی فہد مہرین کو‬
‫رنگین مزاج عورت کا لقب‬
‫دے کہ چڑانے لگ جاتا‪,‬‬
‫دوپہر کا وقت ہو گیا اور‬
‫مہرین فہد کیساتھ مل کہ‬
‫دوپہر کے کھانے کا سامان‬
‫کرنے لگی‪ ,‬فہد صبح ناشتے‬
‫کے بعد سے لے کہ دوپہر‬
‫تک دو تین بار اپنی بہن کا‬
‫دودھ پی پی چکا تھا‪ ,‬دودھ‬
‫پینے کے دوران اسکا لن تن‬
‫جاتا تو مہرین اسے سیکس‬
‫سے کسی نہ کسی طرح‬
‫ہیلے بہانے کر کہ روکتی‬
‫رہی‪ ,‬مہرین کے جسم کی‬
‫برداشت بچہ پیدا کرنے کے‬
‫بعد اب پہلے جیسی نہیں‬
‫رہی تھی‪ ,‬اب وہ ایک بچے‬
‫کو دودھ بھی پال رہی تھی‬
‫جس وجہ سے وہ فہد کو‬
‫مکمل طور پہ سکون دینے‬
‫سے فی الحال قاصر تھی‬
‫مگر سیکس کرنے کیلیے‬
‫انکاری ہر گز نہ تھی‪,‬‬
‫مہرین کو تو پہلے والی‬
‫جنسی عادتوں پہ واپس آنے‬
‫کیلیے کچھ وقت درکار تھا‪,‬‬
‫دوپہر کا کھانا بنانے تک فہد‬
‫مہرین کے آگے پیچھے‬
‫پھرتا رہا‪ ,‬کبھی مہرین کے‬
‫پستان چوستا اور کبھی‬
‫مہرین کے ہونٹ اور گردن‪,‬‬
‫مہرین کام میں مصروف فہد‬
‫سے بھی کچن کے کام‬
‫کروانے لگی‪ ,‬فہد کا لن تن‬
‫جاتا تو کبھی واپس ڈھیال پڑ‬
‫جاتا‪ ,‬دوپہر کے کھانے تک‬
‫فہد چدائی کیلیے ترستا‬
‫مہرین کی ایک طرح سے‬
‫منتیں کر چکا تھا مگر‬
‫مہرین فہد کو صبر سے کام‬
‫لینے کا کہہ کہ ٹال رہی‬
‫تھی‪ ,‬دوپہر کا کھانا کھا‬
‫لینے کے بعد اب مہرین کے‬
‫پاس سوائے اپنے بھائی‬
‫سے چدنے کے اور کوئی‬
‫چارہ نہ بچا اسلیے اب‬
‫مہرین کے پاس بہانوں کی‬
‫فہرست تقریبا ً ختم ہو چکی‬
‫تھی‪ ,‬سیر ہو کہ کھانا‬
‫کھانے کے بعد فہد زمین پہ‬
‫بچھے دستر خوان پہ ہی‬
‫مہرین کے پاس آ کہ اسکی‬
‫گردن پہ بوسے لینے لگا‪,‬‬
‫مہرین نے فہد کو برتن‬
‫اٹھانے کیلیے روکا مگر اب‬
‫فہد کا صبر جواب دے چکا‬
‫تھا‪ ,‬فہد بنا رکے مہرین پہ‬
‫چڑھ چڑھ کہ چومتا جا رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین بے بس ہو کہ‬
‫وہیں دستر خوان پہ ہی الٹی‬
‫ٹیڑھی ہو کہ فہد کو بار بار‬
‫روکنے پہ نہ رکنے کے‬
‫باوجود اپنی ہار تسلیم کر کہ‬
‫دانت بھینچ کی مسکرا رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد مہرین کے جسم کو‬
‫کپڑوں کے اوپر سے ہی‬
‫چوم چاٹ رہا تھا اور مہرین‬
‫وہیں پہ فہد کے نیچے‬
‫ٹیڑھی ہو کہ فہد کے ساتھ‬
‫رومانس کر رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫اور مہرین کی ٹانگوں کے‬
‫پھیالؤ کی وجہ سے کچھ‬
‫برتن گرے بھی لیکن فہد نہ‬
‫ہی خود برتنوں کی طرف‬
‫متوجہ تھا اور مہرین کو‬
‫بھی اس طرف جانے نہیں‬
‫دینا چاہتا تھا‪ ,‬فہد مہرین پہ‬
‫چڑھ کہ اب مہرین کی زبان‬
‫کو چوس رہا تھا اور مہرین‬
‫بھی سانسیں پھال کہ فہد کے‬
‫ہونٹ چوس رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫کے ہاتھوں میں بجلی کی‬
‫تیزی آچکی تھی اسلیے بنا‬
‫وقت ضائع کئے فہد نے‬
‫مہرین کی قمیض کو اتارنے‬
‫کیلیے اٹھا دیا‪ ,‬مہرین دستر‬
‫خوان پہ گرء پڑی اپنی‬
‫قمیض اور شلوار کو‬
‫بالترتیب اتار کہ فہد کے‬
‫کپڑے اتارنے لگی‪ ,‬فہد کا‬
‫اکڑا ہوا لن لوہے کیطرح‬
‫سخت ہو چکا تھا‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کو چومتے چومتے‬
‫اپنا لن مہرین کی پھدی پہ‬
‫ٹکا دیا اور مہرین جو کہ‬
‫کچھ دیر پہلے تک فہد کو‬
‫منع کر رہی تھی اب اپنی‬
‫کمر کو اٹھا کہ لن اندر‬
‫ڈلوانے کیلیے آسانی بنا رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین اپنی کہنیوں کے‬
‫سہارے اپنے دھڑ کو اونچا‬
‫کیے ہوئے ٹانگیں پھیالئے‬
‫فہد کا لن اپنی پھدی میں‬
‫ڈلوا چکی تھی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کی کمر کو مضبوط‬
‫گرفت سے پکڑا ہوا تھا اور‬
‫اب چدائی کو اگلے مرحلے‬
‫میں لے کہ جانے کیلیے‬
‫کمر کو ہال ہال کہ جھٹکے‬
‫مارنے لگا‪ ,‬فہد کے جھٹکے‬
‫پوری طاقت کیساتھ پھدی کو‬
‫چود رہے تھے اور مہرین‬
‫کی چھلکتی چھاتیاں‬
‫جھٹکوں کی شدت کی گواہ‬
‫کے طور پہ دھمال ڈال رہی‬
‫تھی‪ ,‬پاس پڑے برتن‬
‫ٹانگوں کی وجہ سے الٹ‬
‫پلٹ چکے تھے‪ ,‬فہد اپنی‬
‫بہن کو چودتا جا رہا تھا اور‬
‫آنہوں سے مہرین فہد کو‬
‫جوش دال رہی تھی‪ ,‬چدائی‬
‫چلتی جا رہی تھی اور مہرین‬
‫اپنی پھدی کا پانی نکال کہ‬
‫ڈسچارج ہو چکی تھی‪,‬‬
‫مہرین آنکھیں اور ہونٹ‬
‫بھینچ کی ڈسچارج ہوتے‬
‫ہوئے آہ فہد اف آہ ہمم آہ‬
‫بھائی کر کہ زمین پہ اپنا آپ‬
‫ڈھیال چھوڑ کہ گر چکی تھی‬
‫مگر فہد تیز تیز جھٹکوں‬
‫سے مہرین کو بس چودتا‬
‫ہی جا رہا تھا‪ ,‬مہرین اور‬
‫فہد نے کچھ لمحوں کا وقفہ‬
‫ڈال کہ اپنی جگہ کو تبدیل‬
‫کیا‪ ,‬اب مہرین بیڈ پہ جا کہ‬
‫گھوڑی بن گئی فہد مہرین‬
‫کے پیچھے سے آ کہ دوبارہ‬
‫پھدی میں چودنے لگا‪ ,‬فہد‬
‫نے مہرین کی کمر کو‬
‫دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہو‬
‫تھا اور چودتے چودتے فہد‬
‫مہرین کی لٹکتی چھاتیوں‬
‫کو دبانے لگ جاتا تو کبھی‬
‫مہرین کی گردن کو ہاتھ‬
‫سے پکڑ کہ اتنا زور سے‬
‫کھینچ لیتا کہ مہرین کی‬
‫سانسیں بند ہونے لگ جاتی‪,‬‬
‫فہد زور سے مہرین کو‬
‫چودتا جا رہا تھا اور مہرین‬
‫دوبارہ سے ڈسچارج ہونے‬
‫کیلیے مچل مچل کی فہد کے‬
‫ہاتھ اپنی چھاتیوں پہ‬
‫رکھواتی تو کبھی فہد کے‬
‫ہاتھ کو کھینچ کہ اسکی‬
‫انگلیاں چوسنے لگ جاتی‪,‬‬
‫فہد اب ڈسچارج ہونے واال‬
‫تھا اور مہرین بھی ڈسچارج‬
‫ہونیوالی تھی‪ ,‬دونوں بہن‬
‫بھائی ایک ساتھ ڈسچارج ہو‬
‫گئے اور ہانپتے ہوئے وہیں‬
‫بستر پہ گر گئے‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کو پیچھے سے گلے لگائے‬
‫اپنا آپ مہرین سے چپکا کہ‬
‫لیٹا ہوا تھا مہرین محبت‬
‫سے اپنے بھائی کے ہاتھ‬
‫چوم رہی تھی‪ ,‬سانسیں بحال‬
‫ہونے پہ مہرین فہد کے اوپر‬
‫آ کہ لیٹ گئی اور اپنا ماتھا‬
‫اور ناک فہد کے ماتھے اور‬
‫ناک پہ لگا کہ ہونٹوں کے‬
‫بوسے لینے لگیمہرین‪ :‬کتنی‬
‫خوشقسمت ہوں میں‪ ,‬فہد‬
‫کاش یہ وقت یہیں رک جائے‬
‫اور ہمیں جدا کرنیواال کوئی‬
‫نہ ہوفہد‪ :‬باجی کیا کو گیا‬
‫ہے‪ ,‬آج تو آپ شاعروں کی‬
‫زبان بول رہی ہیں‪ ,‬ہمیں‬
‫کس نے جدا کرنا‪ ,‬میں آپ‬
‫کے پاس ہی ہوں اور بس‬
‫آپکا ہی ہوں‪ ,‬کیسی باتیں کر‬
‫رہی ہیں آپمہرین‪ :‬ہاں تم‬
‫ہمیشہ میرے ہو اور میں‬
‫صرف تمہاری‪ ,‬اتنی خوشی‬
‫مجھے آج تک نہیں ملی‬
‫جتنی تمہارے ساتھ ملی ہے‪,‬‬
‫بس ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ‬
‫خوشیاں کوئی چھین نہ‬
‫لےفہد‪ :‬کوئی نہیں چھینتا‬
‫مجھے آپ سے اور آپ کو‬
‫مجھ سے‪ ,‬اور باقی رہی بات‬
‫خوشیوں کی تو اگر آپکو‬
‫ایسے خوشی ملتی ہے تو‬
‫ابھی دوبارہ سے خوش کر‬
‫دوں؟فہد مہرین کو دوبارہ‬
‫سے چودنے کا کہہ رہا تھا‬
‫اور مہرین ہنستے ہوئے فہد‬
‫کے گالوں پہ دانتوں سے‬
‫کاٹ کہ نشان ڈالنے لگی‪,‬‬
‫فہد درد سے کراہ کراہ کہ‬
‫مہرین سے اپنا آپ کٹوا رہا‬
‫تھا‪ ,‬قہقہوں اور چیخوں کی‬
‫آوازیں بلند ہونے لگی‪ ,‬جب‬
‫مہرین فہد کو کاٹ کاٹ کہ‬
‫تسلی کر چکی تو دوبارہ‬
‫سے گفتگو اور بوسوں کا‬
‫سلسلہ چل پڑا‪ ,‬دونوں آدھی‬
‫بات کہہ کہ ایک دوسرے کہ‬
‫ہونٹ چومتے اور بات پوری‬
‫کرتےفہد‪ :‬باجی بہت ظالم ہو‬
‫آپ قسم سے‪ ,‬ذرا ترس نہیں‬
‫آتا مجھ پہ؟مہرین‪ :‬تمہیں‬
‫مجھ پہ ترس آیا ایک بار‬
‫بھی؟ جانوروں کی طرح کل‬
‫رات سے مجھ پہ چڑھے‬
‫ہوئے ہو‪ ,‬حکیم کی دوا‬
‫کھائی ہے تو اب حکیم سے‬
‫ہی کسی ایسی لڑکی کا بندو‬
‫بست کرواو جو بنا رکے‬
‫تمہارے لیے ٹانگیں پھیال کہ‬
‫بیٹھی رہےفہد‪ :‬آپکو ہی‬
‫شوق تھا چہرے پہ اللیاں‬
‫چڑھانے کا‪ ,‬دیکھیں تو ذرا‬
‫کتنا الل ہو رہا ہے آپکا‬
‫چہرہمہرین‪ :‬صرف چہرہ ہی‬
‫الل نہیں ہوا‪ ,‬سارا جسم الل‬
‫ہو گیا ہے‪ ,‬خاص طور‬
‫پہ‪ .....‬وہاں سےفہد‪ :‬کہاں‬
‫سے؟ بتاو بتاو؟ خاص طور‬
‫پہ کہاں سے ہوا ہے؟مہرین‬
‫فہد پہ بوسوں اور مکوں کی‬
‫برسات کرتے ہوئے شرما‬
‫رہی تھی اور فہد بار بار یہی‬
‫سوال دہراتا جا رہا تھا کہ‬
‫خاص طور پہ کہاں سے الل‬
‫ہوا ہے تو مہرین شرماتے‬
‫بول کہ فہد کے سینے میں‬
‫چھپ گئی فہد‪ :‬بولو بھی‬
‫باجیمہرین‪ :‬پھدی سےفہد‬
‫مہرین کی اس بات پہ‬
‫کھلکھال کہ ہنسنے لگا‪ ,‬اور‬
‫مہرین کے گرد اپنی بانہوں‬
‫کو گھیر کی بات کرنے‬
‫لگافہد‪ :‬اچھا؟ تو آپکی پھدی‬
‫بھی الل ہو گئی ہے‪ ,‬یہ تو‬
‫میں نے دیکھا ہی نہیں‪,‬‬
‫دکھاؤ تو ذرامہرین بہت‬
‫زیادہ شرما کہ فہد کو اس‬
‫ننگی گفتگو سے منع کرنے‬
‫لگی لیکن دراصل مہرین کو‬
‫بھی ان الفاظ کے دہرائے‬
‫جانے پہ مزہ آرہا تھا‪ ,‬کچھ‬
‫دیر شرمانے کی بعد مہرین‬
‫نے گردن اٹھا کہ فہد کے‬
‫ہونٹوں سے چوما اور فہد‬
‫کی بات کا جواب دیامہرین‪:‬‬
‫ہاں ہاں میری پھدی آپکے‬
‫لن کی وجہ سے الل ہو گئی‬
‫ہے‪ ,‬اب خوش؟ میں نہیں‬
‫چڑھنے والی‪ ,‬اگر میں نے‬
‫ننگی باتیں شروع کر دیں تو‬
‫تم نے شرما جانا ہےفہد‪:‬‬
‫اوہوہوہو‪ ,‬نہیں باجی‪,‬‬
‫مجھے معاف کر دیں‪ ,‬میں‬
‫نے غلط جگی ہاتھ دے لیا‬
‫ہے‪ ,‬بات کو بدلینمہرین جو‬
‫کہ اب خوشگوار اور پر‬
‫اعتماد طریقے سے فہد کو‬
‫جواب دے چکی تھی‪ ,‬فہد کا‬
‫نیا امتحان لینے لگیمہرین‪:‬‬
‫ابھی تو غلط جگہ ہاتھ دیا‬
‫ہے‪ ,‬آگے آگے تو وہاں پہ‬
‫زبان بھی دینی پڑے گیفہد‬
‫بوکھال کہ ہنستے ہوئے‬
‫مہرین کو دیکھنے لگافہد‪:‬‬
‫کیا مطلب؟مہرین‪ :‬مطلب تم‬
‫بھی سمجھتے ہو میرے‬
‫ننھے منے الڈلے بھائی‪,‬‬
‫جہاں آپکا مرغا سیر کر کہ‬
‫آیا ہے ناں وہاں سے چومنا‬
‫پڑے گا بلکہ اندر تک چومنا‬
‫پڑے گافہد‪ :‬کیا؟؟؟؟؟‬
‫مطلب؟؟؟؟؟؟ نیچے‬
‫سے؟؟؟؟؟؟مہرین‪ :‬جی جی‬
‫بالکل صحیح سمجھے ہو‪,‬‬
‫میری پھدی کو چاٹو گے ناں‬
‫بھائی ؟مہرین بہت ہی‬
‫شرارتی انداز میں فہد کے‬
‫چہرے کے پاس چہرہ کیے‬
‫ہوئے ہونٹ کسی بچے کی‬
‫طرح بنا کہ بات کہہ رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد حیران تاثرات کے‬
‫ساتھ ہاں میں سر ہال کہ‬
‫جواب دے چکا تو مہرین فہد‬
‫کی معصومیت پہ ہنسنے‬
‫لگی اور اپنے بھائی کو‬
‫بدھو کے لقب سے نواز کہ‬
‫کپڑے پہننے لگیفہد‪ :‬ہاں تو‬
‫کر لوں گا باجیمہرین‪ :‬چلو‬
‫کپڑے پہنو‪ ,‬باہر جانا ہے‬
‫شام کو‪ ,‬آئسکریم کھالو گے‬
‫آج تم مجھے فہد‪ :‬جی چلتے‬
‫ہیں لیکن باجیمہرین‪ :‬لیکن‬
‫ویکن کچھ نہیں‪ ,‬میں گھر‬
‫کے کام ختم کر لوں شام کو‬
‫باہر چلیں گے واپسی پہ‬
‫آیسکریم کھائیں گے اور‬
‫گھومیں گے‪ ,‬اور ہاں‪ ,‬شام‬
‫تک دوبارہ تمہارا مرغا کھڑا‬
‫نہ ہو‪ ,‬تم میں صبر نام کی‬
‫کوئی چیز ہی نہیں ہےفہد‬
‫مہرین کی اس دھمکی کو‬
‫سن کہ ہنس پڑا اور سنجیدہ‬
‫چہرے کے ساتھ مہرین کو‬
‫جواب دینے لگافہد‪ :‬اچھا‬
‫باجی اگرآپکو اتنا ہی برا‬
‫لگتا ہے تو میں اب دوبارہ‬
‫نہیں کرونگامہرین فہد کے‬
‫اس اداس اور لہجے کو‬
‫حقیقت سمجھ کہ گھبرا گئی‬
‫اور وہیں سے کھڑے کھڑے‬
‫جواب دینےگیمہرین‪ :‬میں‬
‫نے یہ نہیں کہا کہ اب نہیں‬
‫کرنا‪ ,‬میں تو بس یہ کہہ رہی‬
‫ہوں کہ رات تک صبر کر‬
‫لینافہد دراصل مہرین کے‬
‫سامنے دوبارہ نہ چودنے‬
‫کی بات کہتے ہوئے اداکاری‬
‫کر رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد کی‬
‫اس شرارت کو نہ سمجھ‬
‫سکی تو گھبرا کی رات کو‬
‫تسلی سے چدوانے کی‬
‫دعوت دینے لگی‪ ,‬فہد کی‬
‫شرارت کامیاب ہو گئی اور‬
‫مہرین کی بات چلتے چلتے‬
‫فہد کے سنجیدہ چہرے سے‬
‫ہنسی بے قابو ہو کہ قہقہے‬
‫کی صورت میں نکل گئی‪,‬‬
‫جب مہرین کو اندازہ ہوا کہ‬
‫فہد مہرین سے مذاق کر رہا‬
‫ہے تو مہرین کو اپنی‬
‫بیوقوفی پہ ہنسی آنے لگی‪,‬‬
‫اور وہ بڑھ کہ فہد کے کان‬
‫کھینچتے ہوئے دانت بھینچ‬
‫کہ فہد کو جواب دینے‬
‫لگیمہرین‪ :‬ڈرامے باز‬
‫انسان‪ ,‬کتنی اچھی اداکاری‬
‫کرتے کو‪ ,‬حکیم کی دوائی‬
‫کھا کہ تم میں اداکاری کے‬
‫جراثیم بھی آ چکے ہیں‪ ,‬اب‬
‫تو رات تک تم کو صبر‬
‫کرواؤں گی‪ ,‬اب آنا صحیح تم‬
‫میرے پاسفہد مہرین کی‬
‫دوبارہ چدائی کی بات پہ‬
‫دانت نکالنے لگا اور اپنے‬
‫کپڑے پہننے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫برتن سمیٹ کہ گھر کے‬
‫کاموں میں مصروف ہو گئی‪,‬‬
‫صفائی کر کہ اور برتن دھو‬
‫کہ مہرین نے کچھ دیر آرام‬
‫کیا اور پھر اپنے بھائی‬
‫کیساتھ باہر جانے کیلیے‬
‫کپڑے بدل کہ شیشے کے‬
‫سامنے بیٹھ کہ سجنے‬
‫سنورنے لگی‪ ,‬شام ڈھل‬
‫چکی تھی اور اب اندھیرا‬
‫رات کی آمد کا اعالن کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬دونوں بہن بھائی سج‬
‫سنور کہ بچے کو بچہ گاڑی‬
‫میں لیٹا کہ گھر سے چل‬
‫دیے۔‬
‫‪،‬‬
‫شام ڈھل چکی تھی اور‬
‫اندھیرا چھا رہا تھا‪ ,‬دونوں‬
‫بہن بھائی تیار ہو کہ بہت‬
‫جچ رہے تھے‪ ,‬چہروں پہ‬
‫مسکراہٹیں سجائے بچہ‬
‫گاڑی کو دھکا لگاتے بازار‬
‫کی طرف پیدل چلتے جا‬
‫رہے تھے‪ ,‬قریب ہی پارک‬
‫میں پہنچ گئے جہاں پہ بہت‬
‫سارے لوگ اپنے ویک اینڈ‬
‫منانے آئے ہوئے تھے‪,‬‬
‫فیملیز‪ ,‬نو بیاہتا جوڑے اور‬
‫کچھ لوگ مختلف گروہوں‬
‫کی شکل میں وہاں موجود‬
‫تھے‪ ,‬چھوٹے بڑے سٹال‬
‫اور ٹھیلے طرح حرح کی‬
‫کھانے کی چیزیں سجائے‬
‫گاہکوں کو چیزیں فراہم کر‬
‫رہے تھے‪ .‬فہد اور مہرین‬
‫بھی اس ہجوم میں داخل ہو‬
‫کہ دنیا کی رنگینیوں کو‬
‫دیکھنے لگے‪ ,‬پارک میں‬
‫موجود مختلف لوگوں کی‬
‫آمدورفت کا سلسلہ چل رہا‬
‫تھا‪ ,‬دونوں بہن بھائی اپنی‬
‫انفرادیت برقرار رکھتے‬
‫ہوئے ہر دیکھنے والے کی‬
‫نظر کو اپنی طرف کھینچ‬
‫لیتے‪ ,‬پارک میں مہرین اور‬
‫فہد نے زبان کے چسکے‬
‫بھی خوب پورے کیے‪ ,‬گول‬
‫گپے سے لیکر آیسکریم تک‬
‫تقریبا ً ہر چیز کا مزہ لیا‪,‬‬
‫بہت زیادہ انجوائے کر لینے‬
‫کے بعد باآلخر فہد اپنی بہن‬
‫کو لے کہ پارک کے خارجی‬
‫راستے کی طرف بڑھ رہا‬
‫تھا کہ وہیں پہ ایک درمیانی‬
‫عمر کا ایک مرد جسکے‬
‫ساتھ ایک عورت اور تین‬
‫بچے تھے‪ ,‬اس فیملی کے‬
‫کپڑوں سے ہی ظاہر تھا کہ‬
‫وہ ایک متوسط طبقے سے‬
‫تعلق رکھتے ہیں‪ ,‬اس مرد‬
‫کی شکل جانی پہچانی سی‬
‫تھی اور جیسے ہی اس مرد‬
‫کے ساتھ مہرین اور فہد کا‬
‫آمنا سامنا ہوا تو سوچ میں‬
‫گم فہد‪ ,‬مہرین اور وہ انجان‬
‫مرد ایک دوسرے کو‬
‫پہچاننے کی کوشش کرنے‬
‫لگے‪ ,‬اس مرد کی بیوی اور‬
‫بچے نظروں کے اس سوالیہ‬
‫تالش کو دیکھتے ہوئے‬
‫لمحے کیلیے خاموش ہو کہ‬
‫کسی حتمی جواب کا انتظار‬
‫کرنے لگے‪ ,‬اچانک ہوہ مرد‬
‫جسکے چہرے پہ ہلکی‬
‫ہلکی بے ترتیبی داڑھی جس‬
‫میں آدھے سے زیادہ سفید‬
‫بال تھے‪ ,‬سر پہ جالی دار‬
‫سفید رنگ کی میلی سی‬
‫ٹوپی‪ ,‬پرانی سی شرٹ اور‬
‫پینٹ پاؤں میں قینچی چپل‬
‫پہنے چہرے پہ سوالیہ سی‬
‫مسکراہٹ لے کہ فہد اور‬
‫مہرین کی طرف قدم بڑھانے‬
‫لگا‪ ,‬ایک بچہ جس کا ہاتھ‬
‫اس انجان مرد نے پکڑا ہوا‬
‫تھا وہ ذرا شرما کہ اپنی ماں‬
‫کی ٹانگوں میں چھپ کہ‬
‫اپنے باپ کیساتھ قدم‬
‫بڑھانے سے انکاری ہو گیا‪,‬‬
‫فہد اور مہرین اپنے ذہن پہ‬
‫زور ڈالتے ہوئے ایک‬
‫دوسرے کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے اس انجان شخص کو‬
‫پہچاننے کی کوشش کر رہے‬
‫تھے‪ ,‬رکتے رکتے قدموں‬
‫کے ساتھ جب وہ انجان مرد‬
‫فہد اور مہرین کے سامنے آ‬
‫کہ کھڑا ہوا تو ماتھے پہ‬
‫خارش کرتے ہوئے بہت ہی‬
‫حیرانی سے اٹکتے ہوئے‬
‫بولنے لگامرد‪ :‬ف فف‬
‫فہد؟فہد نے حیران ہو کہ‬
‫ایک نظر مہرین کی طرف‬
‫دیکھا تو دوسری نظر اس‬
‫مرد پہ ڈال کہ جی کہہ کہ‬
‫جواب دیا‪ ,‬جیسے ہی فہد‬
‫کے منہ سے ہاں میں جواب‬
‫آیا تو وہ انجان شخص‬
‫مسکراتا ہوا اپنا تعارف‬
‫کروانے لگاانجان مرد‪:‬‬
‫کتنے بڑے ہو گئے ہو‬
‫پہچانے ہی نہیں جا رہے‪ ,‬یہ‬
‫مہرین ہے؟فہد نے ہاں میں‬
‫جواب دیا تو اس مرد نے‬
‫بڑھ کہ مہرین کے سر پہ‬
‫پیار کیلیے ہاتھ بڑھایا‪,‬‬
‫مہرین نے ہچکچا کہ فہد کی‬
‫طرف دیکھا‪ ,‬چونکہ وہ‬
‫شخص کافی جانا پہچانا تھا‬
‫اسلیے مہرین نے اپنا سر‬
‫آگے کر کہ پیار لیا‪ ,‬اس مرد‬
‫نے اپنی بات کو جاری رکھا‪,‬‬
‫جبکہ فہد اور مہرین اسی‬
‫حیرانی سے اس شخص کو‬
‫پہچاننے کی لگاتار کوشش‬
‫کر رہے تھےمرد‪ :‬پہچانے‬
‫ہی نہیں جا رہے‪ ,‬کتنے‬
‫بڑے ہو گئے‪ ,‬میں حاجی‬
‫عاشق کا بیٹا‪ ,‬آپکا ہمسایہ‪,‬‬
‫یاد آیاجیسے ہی حاجی انکل‬
‫کا نام آیا تو فورا ً ساری‬
‫گتھیاں سلجھ گئی‪ ,‬مہرین‬
‫اور فہد کے چہروں پہ‬
‫مسکراہٹیں آ گئی اور فہد‬
‫نے بڑھ کہ اس آدمی کو‬
‫گلے لگا لیافہد‪ :‬وسیم بھائی‪,‬‬
‫آپ تو بالکل ہی پہچانے نہیں‬
‫جا رہے داڑھی اور سفید‬
‫بال‪ ,‬آپ نے تو حلیہ ہی بدل‬
‫لیا‪ ,‬کتنے سالوں بعد ملے‬
‫ہینمہرین فہد اور حاجی انکل‬
‫کے بیٹے کے چہروں پہ‬
‫مسکراہٹیں اور باتوں کا‬
‫سلسلہ بڑھنے لگاوسیم‪ :‬فہد‬
‫میں تو دور سے تمہیں‬
‫دیکھ کہ تمہاری بھابھی کو‬
‫کہہ رہا تھا کہ وہ بچے‬
‫دیکھے دیکھے لگ رہے‬
‫ہیں‪ ,‬مگر اتنی دیر میں تم‬
‫لوگ نظروں سے اوجھل ہو‬
‫چکے تھےاتنی بات کہہ کہ‬
‫حاجی انکل کے بیٹے وسیم‬
‫نے اپنی بیوی کی طرف منہ‬
‫کر کہ آواز دیوسیم‪:‬‬
‫زیبا‪ .........‬ادھر آؤ‪ ,‬میں‬
‫کہہ رہا تھا ناں کہ یہ بچے‬
‫جانے پہچانے ہی ہینوسیم‬
‫کی بیوی دوپٹے سے اپنے‬
‫چہرے کو ہلکا سا ڈھانپے‬
‫اپنے شوہر کی آواز پہ ایک‬
‫بچہ گود میں اور دو بچوں‬
‫کے ہاتھ تھامے پاس آ گئی‬
‫اور آتے ہی سالم کر کہ‬
‫کھڑی ہو گئی‪ ,‬وسیم بہت‬
‫گرم جوشی سے تعارف‬
‫کروانے لگا‪ ,‬ماضی کی‬
‫باتوں کو یاد کر کہ موجودہ‬
‫حاالت کی تفصیل سوالوں‬
‫اور جوابوں کی شکل میں‬
‫بتائی جانے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫اپنی موجودہ نوکری اور‬
‫رہائش کی تمام تفصیل بتائی‪,‬‬
‫اپنی والدہ کے فوت ہونے‬
‫کی خبر بتائ تو وسیم ذرا‬
‫جذباتی ہو گیا‪ .‬حاجی انکل‬
‫کی خیریت دریافت کرنے پہ‬
‫پتہ چال کہ وہ ابھی بھی‬
‫صحتمند ہیں لیکن اب بزرگی‬
‫کی وجہ سے بینائی اور‬
‫سماعت پہلے جیسی نہیں‬
‫رہی اسلیے گھر ہی رہتے‬
‫ہیں‪ ,‬وسیم نے بتایا کہ وہ‬
‫بھی اب اسی شہر میں‬
‫رہائش پذیر ہو چکے ہیں‪,‬‬
‫وہ پرانی رہائش شہر کی‬
‫انتظامیہ نے منہدم کر دی‬
‫جس کی وجہ سے ایک جگہ‬
‫سے دوسری جگہ کرتے‬
‫کرتے اب باآلخر اس شہر‬
‫میں ایک فیکٹری میں‬
‫مالزمت مل گئی ہے اور اب‬
‫یہیں مکان کرایہ پہ لے کہ‬
‫رہتے ہیں‪ ,‬وسیم جب یہ‬
‫ساری باتیں بتا رہا تھا تو‬
‫مہرین کے دماغ میں اچانک‬
‫سے وہی پرانی یادوں کا‬
‫ایک منظر آگیا‪ ,‬سعدیہ اور‬
‫وسیم کے جسمانی تعلقات‬
‫کے گواہ فہد اور مہرین ہی‬
‫تھے مگر فہد وقتی طور پہ‬
‫وہ سب بھول چکا تھا مگر‬
‫مہرین کے ذہن میں یہ سب‬
‫چل رہا تھا اسلیے مہرین‬
‫نے وسیم سے دریافت کیا‬
‫تو پتہ چال کہ سعدیہ اور اس‬
‫سے چھوٹی بہن دونوں کی‬
‫شادی ہو گئی ہے‪ ,‬اب سعدیہ‬
‫کے بھی دو بچے ہیں اور‬
‫اس سے چھوٹی بہن ہادیہ‬
‫کی فی الحال کوئی اوالد‬
‫نہیں‪ ,‬سعدیہ کے ذکر پہ فہد‬
‫کو بھی وہ پرانی باتیں یاد‬
‫آگئی اور جیسے ہی سعدیہ‬
‫کا ذکر ہو تو فہد اور مہرین‬
‫آنکھوں آنکھوں میں دیکھ‬
‫کہ اپنی ہنسی کو قابو کرنے‬
‫لگے‪ ,‬تمام رسمی اور غیر‬
‫رسمی تکلفات کے بعد وسیم‬
‫کو اپنی بیوی کے ساتھ‬
‫کسی دن گھر آنے کی دعوت‬
‫دینے کے بعد رخصت لے‬
‫کہ فہد اور مہرین گھر کی‬
‫طرف چل دیے‪ ,‬ان سے الگ‬
‫ہوتے ہی مہرین نے فہد بات‬
‫شروع کر دیمہرین‪ :‬یار‪,‬‬
‫وسیم بھائی اور سعدیہ‪,‬‬
‫تمہیں یاد ہے نانفہد‪ :‬ہانجی‬
‫باجی‪ ,‬اچھی طرح یاد‬
‫ہےمہرین‪ :‬ہو نا ہو سعدیہ‬
‫کے بچے وسیم بھائی کے‬
‫ہی ہینفہد‪ :‬ہاہاہا ہو سکتا ہے‬
‫باجی‪ ,‬لیکن ایسا ضروری تو‬
‫نہینباتیں کرتے کرتے دونوں‬
‫گھرپہنچ گئے‪ ,‬سیر کرتے‬
‫کرتے دونوں تھک چکے‬
‫تھے اسلیے آتے ہی بستر‬
‫پہ تشریف رکھ کہ سستانے‬
‫لگے‪ ,‬مہرین جانتی تھی کہ‬
‫فہد دوپہر سے کچھ کرنا چاہ‬
‫رہا ہے مگر منع کرنے کی‬
‫وجہ سے رکا ہے‪ ,‬فہد بھی‬
‫مہرین کی آسانی کیلیے مزید‬
‫سیکس کیلیے مہرین کو‬
‫مکمل وقت دینا چاہ رہا تھا‪,‬‬
‫کچھ دیر آرام کرنے کے بعد‬
‫فہد کپڑے تبدیل کرنے چال‬
‫گیا اور جب کپڑے بدل کہ‬
‫واپس آیا تو اس نے دیکھا‬
‫کہ مہرین کپڑے اتار کہ‬
‫بستر میں لیٹ کی ایک چادر‬
‫سے اپنے جسم کو ڈھک کہ‬
‫اپنے بچے کو دودھ پال رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد اس منظر کو دیکھ‬
‫کہ مسکرا کہ چادر کے اندر‬
‫آ گیا اور مہرین کو پیچھے‬
‫سے گلے لگا کہ گردن سے‬
‫چومنے لگا‪ ,‬مہرین دھکیل‬
‫کہ شرارتی انداز میں فہد کو‬
‫منع کرنے لگیمہرین‪ :‬رک‬
‫جاؤ فہد‪ ,‬اسے تو سال لینے‬
‫دوفہد اپنے ہاتھوں سے‬
‫مہرین کی گانڈ کمر پیٹ اور‬
‫چھاتیوں کو سہالتا ہوا‬
‫مہرین کی گردن چومتا جا‬
‫رہا تھا اور مہرین فہد کو‬
‫منع کرتی جا رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫نے مہرین کا اوپر واال سارا‬
‫حصہ ننگا کر دیا اور مہرین‬
‫کی دوسری سمت لیٹے بچے‬
‫کے ساتھ پیار سے باتیں‬
‫کرنے لگا‪ ,‬جب مہرین بچے‬
‫کو دودھ پال چکی تو بچے‬
‫کو سالنے میں کچھ وقت‬
‫صرف کرنے کے بعد اسے‬
‫گہوارے میں لٹا آئی‪ ,‬فہد نے‬
‫اسی وقفے کے دوران اپنی‬
‫شرٹ اور پاجامہ اتار کہ دور‬
‫پھینک دیا‪ ,‬مہرین فہد کی‬
‫اس حرکت پہ ہنس رہی تھی‬
‫اور بچے کو لٹا کہ واپس‬
‫بستر میں اپنے پرجوش‬
‫بھائی کی طرف متوجہ ہو‬
‫گئی‪ ,‬مہرین چادر کے اندر‬
‫آگئی‪ ,‬مہرین کے اندر آتے‬
‫ہی فہد مہرین پہ لپکنے لگا‬
‫تو مہرین نے فہد کو روک‬
‫دیامہرین‪ :‬ایک منٹ آرام‬
‫سے میرے بھائی‪ ,‬اتنی‬
‫جلدی میں کیوں ہو؟فہد کو‬
‫روک کہ مہرین نے فہد کو‬
‫سیدھا کیا اور اور اسکے‬
‫پیٹ پہ بیٹھ کہ چادر کو اوپر‬
‫اسطرح سے کر لیا کہ‬
‫دونوں اسکے اندر چھپ‬
‫گئے‪ ,‬مہرین نے جھک کہ‬
‫فہد کے ہونٹوں کے آہستہ‬
‫آہستہ بوسے لینے شروع‬
‫کیے‪ ,‬جیسے ہی فہد تیزی‬
‫کرنے لگتا تو مہرین اسے‬
‫پیچھے دھکیل کہ آرام سے‬
‫لیٹے رہنے کا کہتی‪ ,‬مہرین‬
‫فہد کے ہاتھوں کو کالئیوں‬
‫سے پکڑ کہ بستر سے لگا‬
‫کہ جھک کہ بہت ہی آہستہ‬
‫آہستہ فہد کے ہونٹ چوس‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد کے ہاتھ‬
‫مہرین کے قبضے میں تھے‬
‫اسلیے وہ مہرین کے نیچے‬
‫دبا ہوا بے صبری سے‬
‫مہرین کے ہونٹ چوستا جا‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد کے صبر‬
‫کا مزہ لے رہی تھی‪ ,‬فہد کا‬
‫لن مکمل تن چکا تھا اسلیے‬
‫اب وہ مہرین کی گانڈ پہ چبھ‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد پہ جھک‬
‫کہ ہونٹوں کو چوم رہی تھی‬
‫اور ہل ہل کہ لن کو اپنی گانڈ‬
‫سے سہال رہی تھی‪ ,‬فہد کی‬
‫بے بسی کا عالم یہ ہو چکا‬
‫تھا کہ جب بھی وہ بے‬
‫صبری سے مہرین پہ‬
‫جھپٹنے لگتا تو مہرین اس‬
‫کو دبا کہ بس احکامات پہ‬
‫عمل کرنے کا کہتی‪ ,‬اور‬
‫ایسے ہی فہد مہرین کے‬
‫نیچے مچل مچل کہ اپنی بہن‬
‫کے ہونٹ چوس رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے سینے پہ آ‬
‫گئی اور فہد کے سینے کو‬
‫آہستہ آہستہ چومنے لگی‪,‬‬
‫مہرین کے تھوک سے سینہ‬
‫گیال ہو رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے نپلز کو دانتوں سے‬
‫کاٹتی تو فہد تکلیف سے‬
‫آنہیں بھرتا‪ ,‬مہرین فہد کی‬
‫کالئیوں کو پکڑے بس‬
‫چومتی جا رہی تھی‪ ,‬مہرین‬
‫پیٹ تک آ گئی تو مہرین نے‬
‫فہد کی کالئیوں کو چھوڑ کہ‬
‫اپنے دونوں ہاتھوں سے فہد‬
‫کے جسم کو سہالنا شروع‬
‫کیا‪ ,‬فہد جب بھی اٹھ کہ‬
‫مہرین کو پیار کرنے لگتا تو‬
‫مہرین فہد کو نیچے دبا کہ‬
‫چومنے لگ جاتی‪ ,‬فہد آنہیں‬
‫بھرتا ہوا لیٹا مہرین کی ہی‬
‫مان رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد کے‬
‫پیٹ کو چومتی فہد کے لن‬
‫کو چھاتیوں پہ رگڑنے لگی‪,‬‬
‫مہرین اب فہد کے پیٹ کو‬
‫چومتی ہوئی لن کو سہال‬
‫سہال کہ چھاتیوں سے رگڑ‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد آنکھیں بند‬
‫کیے آنہیں بھر رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین کی رفتار میں ایک‬
‫مخصوص خماری تھی‪ ,‬لن‬
‫کو آہستہ آہستہ سہالتے‬
‫ہوئے مہرین فہد کے جسم‬
‫پہ کاٹتی تو کبھی زبان سے‬
‫گیال کر دیتی‪ ,‬لن چھاتیوں‬
‫سے رگڑ کہ مہرین فہد کو‬
‫مزہ دیتی جا رہی تھی‪,‬‬
‫مہرین اب فہد کے لن کے‬
‫بالکل پاس آ کہ لن کے ارد‬
‫گرد زبان سے بھگونے‬
‫لگی‪ ,‬لن کو بھگو کہ مہرین‬
‫ہاتھ سے لن کو آہستہ سے‬
‫سہالتی جا رہی تھی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کے سر کو دباتا تو‬
‫مہرین ہاتھ کو ہٹا کہ اپنی‬
‫مرضی سے لن کو زبان‬
‫سے چاٹنے لگ جاتی‪ ,‬فہد‬
‫کی بے بسی اور مزہ مہرین‬
‫کے کنٹرول میں تھا‪ ,‬مہرین‬
‫فہد کے لن کو اپنے ہونٹوں‬
‫سے لگا کہ چوم کہ اپنے‬
‫منہ میں لے گئی‪ ,‬لن منہ کی‬
‫گہرائی میں جاتے ہی فہد کی‬
‫مزے سے آہ نکل گئی اور‬
‫وہ آہ مہرین باجی اہمم اف‬
‫کی آوازیں نکالنے لگا‪,‬‬
‫مہرین ہونٹوں کی پوری‬
‫طاقت سے لن کو دبا کہ اندر‬
‫لے جاتی اور باہر نکالتی‪,‬‬
‫فہد مہرین کے سر کو دبا دبا‬
‫کہ اس مزے کو بڑھا رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین بار بار اپنے بال‬
‫ہٹا کہ لن کو اچھے سے‬
‫چوس رہی تھی‪ ,‬فہد ٹانگوں‬
‫کو اکڑاتا اور پھیالتا جس‬
‫سے مہرین کو اندازہ کو رہا‬
‫تھا کہ اسکے بھائی کا مزے‬
‫سے برا حال ہو رہا ہے‪,‬‬
‫مہرین نے لن کو منہ میں‬
‫لے کہ پورے زور سے اپنا‬
‫منہ دبایا جس سے لن حلق‬
‫تک اندر چال گیا مگر مہرین‬
‫کی سانس رکنے لگے‪ ,‬فہد‬
‫کا مزہ مہرین جتنا بڑھا‬
‫سکتی تھی مہرین نے‬
‫بڑھایا‪ ,‬لن کو اچھی طرح‬
‫چوسنے کے بعد مہرین کی‬
‫بے بسی ہونے لگی اور‬
‫مہرین نے رک کہ اپنا آپ‬
‫ایک طرف گرا لیا‪ ,‬فہد‬
‫اسوقت مزے کی بلندیوں پہ‬
‫تھا اسلیے فہد نے مہرین کو‬
‫پکڑ کہ اپنے برابر کر لیا‪,‬‬
‫فہد مہرین کے اوپر آ گیا اور‬
‫مہرین کے ہونٹ چومنے‬
‫لگا‪ ,‬فہد نے بنا وقت ضائع‬
‫کیے مہرین کو چومتے‬
‫چومتے لن کو پکڑ کہ پھدی‬
‫پہ رکھا اور ایک ہی‬
‫جھٹکے میں سارا لن اپنی‬
‫بہن کی پھدی میں سما دیا‪,‬‬
‫مہرین کی آہ نکلی تو فہد‬
‫نے اگلے ہی لمحے ایک‬
‫طاقتور جھٹکا مار کہ مہرین‬
‫کی دوسری آہ نکلوا دی‪ ,‬اب‬
‫فہد پوری طاقت سے مہرین‬
‫کو چودتا جا رہا تھا اور‬
‫مہرین آنہیں بھرتی فہد سے‬
‫چد رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫ایک ٹانگ کو اپنے بازو‬
‫میں پھنسا کہ اوپر اٹھا کہ‬
‫چود رہا تھا‪ ,‬مہرین کی‬
‫چھاتیاں کسی ربڑ کی طرح‬
‫ہل رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین کو‬
‫چودتے ہوئے ہونٹوں کے‬
‫بوسے لیتا‪ ,‬فہد ڈسچارج‬
‫ہونے واال تھا کہ اسکے‬
‫جھٹکوں میں تیزی آنے‬
‫لگی‪ ,‬مہرین کی پھدی سے‬
‫بھی پانی نکل گیا اور اگلے‬
‫ہی لمحے فہد بھی ڈسچارج‬
‫ہو کہ لن کو پھدی سے نکال‬
‫کی لیٹ گیا‪ ,‬دونوں بہن‬
‫بھائی ڈسچارج ہو کہ لیٹے‬
‫سانسیں بحال کرنے لگے‬
‫اور ایک دوسرے کی طرف‬
‫محبت بھری نگاہوں سے‬
‫دیکھنے لگےاس چدائی کے‬
‫بعد فہد اور مہرین نے کھانا‬
‫کچھ دیر محبت بھری باتیں‬
‫کی اور کھانا کھا کہ اپنے‬
‫ہی گھر کے الن میں واک‬
‫کرنے کیلیے چلے گئے‪ ,‬الن‬
‫میں واک کرتے کرتے رات‬
‫باتوں کا سلسلہ چلتا گیا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی ایک‬
‫دوسرے کو پا کہ بہت خوش‬
‫تھے اسلیے ان کے چہروں‬
‫کی چمک چھپائے نہ چھپ‬
‫رہی تھی‪ ,‬ننگے پاؤں ٹھنڈی‬
‫گھاس پہ چلنے کا اپنا ہی‬
‫مزہ ہے‪ ,‬فہد اور مہرین ایک‬
‫دوسرے کا ہاتھ تھامے‬
‫گھاس پہ چل رہے تھے۔‬

‫فہد اور مہرین گھاس پہ‬


‫ننگے پاؤں چل رہے تھے‪,‬‬
‫رات کے بارہ بجنے والے‬
‫تھے‪ ,‬ستاروں سے بھرا‬
‫نکھرا ہوا آسمان چاند کو‬
‫ماتھے پہ سجائے دو محبت‬
‫کرنے والوں کو دیکھ کہ‬
‫رشک کر رہا تھا‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کا ہاتھ تھامے گھاس پہ الن‬
‫کے ایک کونے سے‬
‫دوسرے کونے تک آ جا رہی‬
‫تھی‪ ,‬خوش گپیوں کا سلسلہ‬
‫چلتا جا رہا تھا‪ ,‬محبت سے‬
‫بھرےیہ لمحے قہقہوں اور‬
‫مسکراہٹوں سے یادگار ہو‬
‫رہے تھے‪ ,‬دونوں بہن‬
‫بھائی الن میں اسطرح سے‬
‫کھیل رہے تھے جیسے‬
‫چھوٹی عمر کے بچے اپنے‬
‫ماں باپ سے چھپ کہ بے‬
‫باک ہو کہ شرارتیں کرتے‬
‫ہیں‪ ,‬مہرین فہد کو کسی بات‬
‫پہ چڑھا کہ بھاگنے لگ‬
‫جاتی تو فہد اسکو پکڑنے‬
‫میں لگ جاتا اور ایسے ہی‬
‫فہد بھی کوئی موقع ہاتھ‬
‫سے نہ جانے دیتا تو مہرین‬
‫اسکو ُمکے مارتی پیچھا‬
‫کرنے لگ جاتی‪ ,‬انہی‬
‫شرارتوں کے دوران مہرین‬
‫فہد کو پکڑنے کیلئے بھاگی‬
‫تو فہد جلد ہی اسکی گرفت‬
‫میں آگیا اور وہیں گھاس پہ‬
‫اسے گرا کہ مہرین اس کے‬
‫اوپر سوار ہو کہ قہقہوں‬
‫کیساتھ فہد کو پیار سے مار‬
‫کہ سزا دینے لگی‪ ,‬فہد اپنی‬
‫شرارت پہ قائم اسقدر زور‬
‫سے ہنستا جا رہا تھا کہ اب‬
‫آنکھوں سے پانی نکل رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین فہد کے اوپر‬
‫بیٹھی کبھی تھپڑ مارتی تو‬
‫کبھی چٹکیاں کاٹنے لگ‬
‫جاتی‪ ,‬ہنس ہنس کے بے‬
‫حال ہو چکے دونوں بہن‬
‫بھائی اسی گھاس پہ برابر‬
‫لیٹ کہ اپنی ہنسی کو قابو‬
‫کرنے لگے اور اب آسمان‬
‫کو تکتے ہوئے ٹھنڈی‬
‫گھاس پہ چت لیٹ کہ آسمان‬
‫کو اپنی محبت دکھا کہ‬
‫جالنے لگے‪ ,‬فہد نے مہرین‬
‫کو اپنی طرف کروٹ دلوا کہ‬
‫گلے لگا لیا‪ ,‬مہرین فہد کے‬
‫ہونٹ چوم کہ فہد کے سینے‬
‫میں چھپ گئی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کو بانہوں کے‬
‫گھیرے میں دبا کہ اپی‬
‫ٹانگوں کو مہرین کی‬
‫ٹانگوں میں دے دیا‪ ,‬ابھی‬
‫ابھی اتنی بچگانہ حرکتیں کر‬
‫لینے کے بعد دونوں کی‬
‫سانسیں سنبھل رہی تھی‪,‬‬
‫فہد نے مہری کو دوبارہ‬
‫سے چومنا شروع کر دیا‬
‫اور مہرین بھی فہد کے‬
‫ہونٹ چوسنے لگی‪ ,‬کچھ‬
‫دیر ایسے ہی چومتے رہنے‬
‫سے فہد کا لن کھڑا ہونے‬
‫لگا اور مہرین کی ٹانگوں‬
‫میں ہلنے کی وجہ سے‬
‫چبھنے لگا‪ ,‬فہد اپنی بہن کو‬
‫چومتے چومتے اسکے اوپر‬
‫آ کہ ہونٹ چوم رہا تھا اور‬
‫فہد کا لن مہرین کی پھدی‬
‫کے آس پاس رگڑ کھاتا جا‬
‫رہا تھا اور فہد اپنے ہاتھوں‬
‫سے مہرین کی چھاتیاں دبا‬
‫دبا کی پیٹ کو سہال رہا تھا‪,‬‬
‫جب مہرین کو اندازہ ہو نے‬
‫لگا کہ فہد اب دوبارہ سے‬
‫چودنے کیلئے تیار ہے تو‬
‫مہرین نے فہد کو روک‬
‫دیامہرین‪ :‬حکیم تیرا بیڑا‬
‫برباد ہو‪ ,‬یہ کس امتحان میں‬
‫ڈال دیافہد‪ :‬حکیم کو کیوں‬
‫کوس رہی ہیں باجی‪ ,‬آپکا‬
‫ہی کیا دھرا ہے‪ ,‬میرا تو اتنا‬
‫قصور ہے کہ آپکے سہمے‬
‫ہوئے شوہر ہونے کی‬
‫اداکاری کیمہرین اپنا آپ فہد‬
‫سے چھڑوانے لگی اور‬
‫ہنستے ہنستے فہد کے گال‬
‫کاٹنے لگی‪ ,‬فہد چیختا چالتا‬
‫رہا مگر مہرین کو اپنی‬
‫گرفت میں لیے مہرین کے‬
‫بزو کالئیوں سے پوری‬
‫طاقت سے گھاس پہ‬
‫لگائےہوئے تھامہرین‪ :‬بس‬
‫کر جاو‪ ,‬میں انسان ہوں‬
‫مشین نہیں ہوں فہداب‬
‫مہرین کے چہرے پہ‬
‫مسکراہٹ ہی تھی اور اب وہ‬
‫فہد کو کاٹنا چھوڑ چکی‬
‫تھی‪ ,‬ایک لمحے کے وقفے‬
‫کے بعد دوبارہ سے فہد‬
‫مہرین کی گردن کے اور‬
‫سینے سے چوم کہ مہرین‬
‫کو گرم کرنے لگا‪ ,‬مہرین‬
‫کی کالئیاں ابھی فہد کی‬
‫گرفت میں تھی اور مہرین‬
‫فہد کی اس محبت سے‬
‫بہکنے لگیمہرین‪ :‬آہ اہمم‬
‫اف ف فف فہد‪ ,‬اندر آہ‬
‫چلینفہد بنا جواب دئیے بس‬
‫چوم چوم کہ اب مہرین کی‬
‫چھاتیوں کو سہالنے لگا‪,‬‬
‫فہد کے ہاتھ مہرین کے پیٹ‬
‫سے ہوتے ہوئے پھدی‬
‫چلے گئے‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫پھدی کو کپڑے کے‬
‫اوپرسے ہی سہالنے لگا تو‬
‫مہرین کی بھی بے بسی‬
‫ہونے لگی اور وہ فہد کو‬
‫گرن اٹھا اٹھا کہ چومنے‬
‫لگی‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫قمیض کو ہٹا کہ پیٹ سے‬
‫چوما اور چھاتیوں کو باہر‬
‫نکال لیا‪ ,‬کچھ دیر ایسے ہی‬
‫پیٹ اور چھاتیوں کو تھوک‬
‫سے بھگو دینے کے بعد فہد‬
‫نے اپنا پاجامہ نیچے کو‬
‫سرکا کہ لن باہر نکال لیا اور‬
‫مہرین کے پاجامے کو بھی‬
‫نیچے کر کہ لن کو پھدی‬
‫سے مال کہ ایک بار اوپر‬
‫اوپر رگڑا‪ ,‬مہرین نے‬
‫ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا کہ‬
‫لن کو پھدی کے اندر آنے‬
‫کیلئے خوش آمدید کیا‪ ,‬فہد‬
‫نے بنا وقت ضائع کیے لن‬
‫کو پھدی کے سوراخ پہ لگا‬
‫کہ ایک جھٹکے سے اندر‬
‫دھکیل دیا تو مہرین کی آہ‬
‫نکل گئی‪ ,‬ایک جھٹکے پہ‬
‫دوسرا جھٹکا‪ ,‬ایسے ہی اب‬
‫فہد مہرین کو دوبارہ سے‬
‫چودنے میں مصروف ہو‬
‫گیا‪ ,‬فہد کے جھٹکے مہرین‬
‫کی آنہیں نکلوا رہے تھے‪,‬‬
‫مہرین فہد کی گردن میں‬
‫بانہیں ڈالے آنکھیں اور‬
‫ہونٹ بھینچ کہ آہ آہ کر رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کی بانہیں فہد‬
‫کی کمر پہ اور کبھی فہد کی‬
‫گانڈ پہ آ جاتی‪ ,‬فہد کچھ دیر‬
‫جب ایسے ہی چودتا رہا تو‬
‫مہرین ڈسچارج ہو گئی اور‬
‫اب فہد گیلے پھدی میں تنا‬
‫ہوا لن پھیر پھیر کہ تھک‬
‫چکا تھا‪ ,‬مہرین فہد کو‬
‫نیچے لٹا کہ اس کے اور آ‬
‫کی ٹانگیں پھیال کہ بیٹھ‬
‫گئی‪ ,‬مہرین نے فہد کے‬
‫بھیگے اور تنے ہوئے لن‬
‫کو پکڑ کہ اپنی پھدی کو‬
‫اوپر رکھ کہ اپنے وزن سے‬
‫اندر لے لیا‪ ,‬فہد مہرین کے‬
‫گانڈ کو پکڑ کہ مٹھیوں میں‬
‫بھر بھر کی دبانے لگا‪,‬‬
‫مہرین نے اب پھدی کو اوپر‬
‫نیچے کر کر کہ لن کو چودنا‬
‫شروع کیا تو اب فہد نیچے‬
‫لیٹا اس چدائی کا مزہ لینے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین کا مزہ دوبارہ‬
‫سے پھدی کو گرم کرنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین نے اچھلتے‬
‫اچھلتے فہد کے ہاتھوں کو‬
‫پکڑ کہ اپنی چھاتیوں کو‬
‫سہالنے کی ہدایات دی تو‬
‫فہد آہ اف مہرین باجی کرتا‬
‫چھاتیوں کو تکلیف دہ حد‬
‫تک دبانے لگا‪ ,‬مہرین اپنی‬
‫زلفوں کو سنبھالتے ہوئے‬
‫لن پہ اپنی پھدی کو اٹھا اٹھا‬
‫کہ مار رہی تھی‪ ,‬فہد کا لمبا‬
‫اور موٹا لن مہرین کی پھدی‬
‫کی آخری حد تک گھس کہ‬
‫نکلتا تو مہرین کی آنکھوں‬
‫میں اس مزے کی جھلک‬
‫صاف نظر آتی‪ ,‬فہد اب‬
‫ڈسچارج ہونے واال تھا‬
‫اسلیے فہد نے مہرین کو‬
‫نیچے لٹا کہ تیزی سے‬
‫چودنا شروع کر دیا‪ ,‬فہد کے‬
‫طاقتور جھٹکوں سے مہرین‬
‫کی پھدی دوبارہ سے‬
‫ڈسچارج ہونے کے قریب‬
‫تھی اسلیے مہرین کی‬
‫سسکاریاں اور آنہیں فہد کی‬
‫آوازوں سے ملنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫چودتا ہوا اپنی بہن کے ساتھ‬
‫ہی ڈسچارج ہو کہ لن کو‬
‫پوری طاقت سے پھدی کی‬
‫آخری حد تک لگا کہ‬
‫ڈسچارج کو گیا‪ ,‬اس‬
‫ڈسچارج کا مزہ دونوں بہن‬
‫بھائی نے اس طرح لیا کہ‬
‫انکی آنہوں کی آوازیں دیوار‬
‫پار سنی جا سکتی تھی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین پہ وزن ڈالے اب‬
‫مکمل طور پہ لن کو‬
‫ڈسچارج کا مزہ دلوا چکا تھا‬
‫اور مہرین فہد کے وزن کے‬
‫نیچے فہد کو اپنے اندر دبا‬
‫کہ اپنے جسم کو ڈھیال‬
‫چھوڑ کہ دبی ہوئی تھی‪ ,‬لن‬
‫ابھی بھی پھدی کے اندر ہی‬
‫تھا‪ ,‬مہرین سے نیچے اتر‬
‫کہ فہد برابر آ کہ لیٹ گیا اور‬
‫دونوں بہن بھائی آسمان کو‬
‫تکنے لگے‪ ,‬مہرین کپڑوں‬
‫میں کو کہ بھی ننگی تھی‬
‫اور فہد کا گیال لن تازہ‬
‫چدائی کے پانی سے غسل‬
‫کر کہ آزاد ہوا کا مزہ لے‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین نے کچھ دیر‬
‫اپنے آپ کو نارمل کر کہ‬
‫اپنے بکھرے بالوں کو‬
‫چہرے سے ہٹا کہ فہد کی‬
‫طرف دیکھا جو کہ آنکھیں‬
‫آسمان پہ لگائے ہوا‬
‫تھامہرین‪ :‬فہد ابھی اور کچھ‬
‫کرنا باقی ہے یا چلیں‬
‫اندر؟فہد نے مسکرا کہ‬
‫مہرین کی طرف دیکھا فہد‪:‬‬
‫ذرا سا صبر کر لیں‪ ,‬اور کر‬
‫لیں گیمہرین نے سر پہ ہاتھ‬
‫مار کہ جواب دیامہرین‪ :‬اب‬
‫مزید اپنا منہ اور پاجامہ مت‬
‫کھولنا ورنہ تمہیں جوتوں‬
‫سے ماروں گیمہرین یہ بات‬
‫کہہ کہ اپنے کپڑے درست‬
‫کرتے ہوئے شرارتی انداز‬
‫میں فہد کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے اٹھ کہ کھڑی ہو گئی‪,‬‬
‫فہد بھی سست روی کے‬
‫ساتھ اپنے پاجامے کو اوپر‬
‫کر کہ آہستہ آہستہ اٹھنے‬
‫لگامہرین‪ :‬انسان ذرا صبر‬
‫کیساتھ کر لے‪ ,‬مگر نہیں‪,‬‬
‫انکو تو ساری کسر آج ہی‬
‫پوری کرنی ہے‪ ,‬اب اٹھ جاؤ‬
‫جلدی اندر آ جاؤفہد ہنستے‬
‫ہوئے ابھی پورا اٹھا بھی‬
‫نہیں تھا کہ مہرین کمر‬
‫لچکاتی ہوئی گھر کے اندر‬
‫چلی گئی‪ ,‬لذتوں کے ان‬
‫لمحات کے سحر میں ابھی‬
‫بھی گھرا کوا فہد مسکراتا‬
‫ہو اپنی بہن کے پیچھے چل‬
‫دیا‪ ,‬مہرین تیز قدموں سے‬
‫اندر جا کہ کچن میں چلی‬
‫گئی اور فہد بستر پہ آ کہ‬
‫لیٹ گیا‪ ,‬مہرین نے فہد اور‬
‫اپنے لیے دودھ کے دو‬
‫گالس ایک ٹرے میں رکھ کہ‬
‫پیش کیے‪ ,‬باتیں کرتے‬
‫کرتے دودھ کے گالس پی‬
‫کہ مہرین اپنے بچے کو‬
‫بستر پہ لے آئی اور درمیان‬
‫میں لٹا کہ خود بھی لیٹ‬
‫گئی‪ ,‬گویا وہ فہد کو رات‬
‫میں مزید ہمبستری سے‬
‫انکار رہی تھی‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کی اس حرکت پہ مسکراتا‬
‫ہوا اسے بچے کو واپس‬
‫گہوارے میں لٹانے کا کہنے‬
‫لگا مگر مہرین فہد کے‬
‫ارادوں سے باخبر مزید‬
‫چدائی سے انکار رہی تھی‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی بچے کے‬
‫درمیان میں ہونے کیوجہ‬
‫سے فاصلے پہ تھے‪ ,‬کچھ‬
‫دیر پہلے پارک سے لے کہ‬
‫الن تک کی چدائی سے‬
‫دونوں کافی تھک چکے‬
‫تھے اسلیے کچھ ہی دیر‬
‫میں دونوں سو گئے‪ ,‬رات‬
‫کے اگلے پہر مہرین اپنے‬
‫بچے کے رونے کیوجہ سے‬
‫جاگی تو اسکی آنکھ کھلتے‬
‫ہی اسے اندازہ ہوا کہ فہد‬
‫مہرین کے پیچھے بیڈ کی‬
‫تھوڑی سی جگہ میں سمٹا‬
‫ہوا لیٹا ہوا ہے‪ ,‬اپنے بچے‬
‫کو چپ کرواتے کرواتے‬
‫اسے اپنے بھائی کی محبت‬
‫بھی بے تاب کرنے لگی‪,‬‬
‫مہرین کو اس بے خوابی کی‬
‫کیفیت میں اندازہ ہو گیا کہ‬
‫فہد اسکے جسم سے لگے‬
‫بنا بے چین ہوا تو اپنی بے‬
‫چینی سے چھٹکارا پانے‬
‫کیلیے اتنی قلیل جگہ میں آ‬
‫کہ سونا قبول کر لیا مگر‬
‫اپنی بہن سے دوری نہیں‬
‫برداشت کر سکا‪ ,‬مہرین نے‬
‫اپنے بچے کو آگے کھسکا‬
‫کہ اپنا آپ بھی کھسکا لیا‬
‫اور پرسکون نیند میں‬
‫سوئے ہوئے بھائی کیلیے‬
‫جگہ کو وسیع کر دیا‪ ,‬مہرین‬
‫نے اپنا ایک پستان اپنے‬
‫بچے کے منہ میں دے کہ‬
‫فہد کو اپنے ایک بازو سے‬
‫اپنے قریب کر لیا‪ ,‬گہری نیند‬
‫میں سویا ہوا فہد اپنے بہن‬
‫سے چمٹ کہ گہری سانسیں‬
‫لینے لگا‪ ,‬مہرین اس لمحے‬
‫جاگتی ہوئی فہد کی محبت‬
‫کو دیکھتے ہوئے‬
‫مسکرانے لگی اور کچھ ہی‬
‫دیر میں سو گئیصبح صبح‬
‫مہرین نیند سے بیدار ہوئی‬
‫تو مہرین کی فہد کیطرف‬
‫کروٹ تھی اور فہد مہرین‬
‫کے سینے اس طرح چمٹا‬
‫ہوا تھا کہ مہرین کی چھاتی‬
‫کا نپل فہد کے منہ میں تھا‬
‫جیسے کہ وہ کافی دیر سے‬
‫اسے چوستا رہا ہو‪ ,‬فہد اپنا‬
‫بازو مہرین کے گرد لپیٹے‬
‫ایک ٹانگ کو مہرین کی‬
‫دونوں ٹانگوں میں پھنسا کہ‬
‫لن کو مہرین کی ٹانگ میں‬
‫چبھو رہا تھا‪ ,‬مہرین کی‬
‫ایک ٹانگ فہد کے اوپر‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کے بازو بھی‬
‫فہد کے سر پہ ایسے لپٹے‬
‫ہوئے تھے جیسے اس نے‬
‫خود فہد کو اس جگہ پہ اس‬
‫انداز میں لٹایا ہوا ہو‪ ,‬مہرین‬
‫کی چھاتی سے نکلتا ہوا‬
‫دودھ فہد کے کھلے منہ میں‬
‫ٹپک ٹپک کہ باچھوں سے‬
‫فہد کے گال بھگو رہا تھا‪,‬‬
‫مہرین نے گہری نیند سے‬
‫بیدار ہو کہ بمشکل فہد کو‬
‫دیکھا تو محبت کے سحر‬
‫میں مبتال بہن نے پیار سے‬
‫فہد کے سر کو چوم لیا‪,‬‬
‫مہرین اس لمحت فہد کو‬
‫خود سے جدا نہیں کرنا چاہ‬
‫رہی تھی اسلیے بس وہیں‬
‫نیند کی خماری میں خاموش‬
‫فہد کے جاگنے کا انتظار‬
‫کرنے لگی‪ ,‬گہرین نیند میں‬
‫سویا ہوا فہد مہرین کو‬
‫اسوقت بہت پیارا لگ رہا‬
‫تھا‪ ,‬مہرین کی محبت بھری‬
‫تھپکیوں سے فہد نیند سے‬
‫بیدار ہوا تو نیند سے جاگتے‬
‫جاگتے فہد حوش میں آنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین کی چھاتیوں کو‬
‫برہنہ اپنے ہونٹوں میں پا کہ‬
‫فہد نے مہرین کے چہرے‬
‫کو دیکھا تو جاگ چکی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے مسکرا کہ اپنی‬
‫بہن کے چہرے کو دیکھا تو‬
‫محبت سے سرشار ہو کہ‬
‫فہد نے اپنا منہ مہرین کے‬
‫دو بڑے اور فربہ پستانوں‬
‫کے درمیان گھسا دیا اور‬
‫وہیں سے مہرین کے بوسے‬
‫لینے لگا‪ ,‬محبت سے مچلتی‬
‫ہوئی بہن فہد کی سانسوں‬
‫کو محسوس کرتے ہوئے‬
‫اسے اپنے اندر دبانے لگی‪,‬‬
‫پستان کی اندرونی دیواروں‬
‫مو چومتے ہوئے فہد کے‬
‫منہ میں کچھ ہی لمحوں قبل‬
‫نادانستہ طور پہ گرے دودھ‬
‫کے قطروں ما ذائقہ آنے‬
‫لگا‪ ,‬فہد کے گالوں پہ بھی‬
‫دودھ کے قطرے لگ چکے‬
‫تھےمہرین‪ :‬اٹھ جاو ابفہد‬
‫نے مہرین کی نرم چھاتیوں‬
‫کو چومتے ہوئے اپنا آپ‬
‫مہرین سے مزید چمٹا لیا‬
‫جس سے تنا ہو لن مہرین‬
‫کی ٹانگ میں چبھنے‬
‫لگامہرین‪ :‬بس بس بس‪ ,‬اب‬
‫نہیں‪ ,‬دفتر نہیں جانافہد‪ :‬چال‬
‫جاتا ہوں دفتر باجیفہد مزے‬
‫سے مہرین کی ٹانگ میں لن‬
‫چبھوتا جا رہا تھا اور مہرین‬
‫بھی فہد سے اپنا آپ دور‬
‫نہیں ہٹا رہی تھی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کی ایک چھاتی کو‬
‫منہ میں لے کہ چوسنا‬
‫شروع کیا تو مہرین کو ذرا‬
‫سا درد ہوا تو مہرین نے‬
‫چیخ والے انداز میں آہ فہد‬
‫کہا اور اپنے نپل مو فہد منہ‬
‫سے کھینچ کہ نپل کو سانے‬
‫لگیمہرین‪ :‬آرام سے پی‬
‫لوفہد کو اپنی اس وحشیانہ‬
‫شرارت پہ ہنسی آگئی اور‬
‫مہرین کے گیلے نپل کو ہاتھ‬
‫سے سہالنے لگا‪ ,‬مہرین کو‬
‫اس سہالئے جانے سے‬
‫اچھا لگا اس لیے مہرین مو‬
‫جب اس تکلیف سے راحت‬
‫ملی تو مہرین نے اپنی ایک‬
‫چھاتی کو انگلیوں سے پکڑ‬
‫کہ نپل مو دوبارہ سے فہد‬
‫کے منہ میں دے دیا‪ ,‬فہد‬
‫دوسرے چھاتی کے نپل کو‬
‫سہالتے ہوئے مزے سے‬
‫اپنی بہن کا دودھ پینے لگا‪,‬‬
‫کچھ ہی دیر میں فہد اتنا‬
‫زیادہ گرم کو گیا کہ ہونٹوں‬
‫مو چوسنے کیلیے مہرین‬
‫کے اوپر چڑھنے کیلیے تیار‬
‫ہو گیا‪ ,‬مہرین مسکراہٹ اور‬
‫بے بسی کے ملے جلے‬
‫تاثرات کے ساتھ فہد کو‬
‫پیچھے دھکیلتے ہوئے‬
‫بستر سے ہی اٹھ کھی ہوئی‪,‬‬
‫اپنی قمیض کو درست کرتے‬
‫کرتے مہرین فہد کے ٹائیٹ‬
‫کو چکے لن کو دیکھنے‬
‫لگیمہرین‪ :‬توبہ ہے فہد‪ ,‬اب‬
‫بس کرو‪ ,‬بھرا نہیں دل؟فہد‬
‫بستر پہ سیدھا لیٹا مہرین کو‬
‫دیکھتے ہوئے مسکراتے‬
‫ہوئے لن کو سہالنے لگا‪,‬‬
‫فہد کی نظروں میں التجا‬
‫تھی فہد‪ :‬باجی‪ ,‬کہاں جا رہی‬
‫ہیں؟مہرین فہد کے تیور‬
‫اچھے سے بھانپ چکی تھی‬
‫اسلیے وہ دم دبا کہ کمرے‬
‫سے نکل گئی‪ ,‬اور جاتے‬
‫جاتے فہد کو نہانے دھانے‬
‫کا کہہ کہ چلی گئی‪ ,‬فہد‬
‫مہرین سے اپنی خواہش‬
‫ادھوری چھوڑ جانے کیوجہ‬
‫سے اپنے لن کو سہالنا‬
‫چھوڑ کہ واشروم ہو لیا اور‬
‫نہانے لگا‪ ,‬نہا دھو کہ تیار‬
‫ہو کہ ناشتے کی ٹیبل پہ‬
‫دونوں عمومی باتیں کرنے‬
‫لگے‪ ,‬ناشتہ ختم کر کہ فہد‬
‫دفتر چال گیا‪ ,‬سارا دن گھر‬
‫کے کاموں میں مصروف‬
‫مہرین بہت ہی زیادہ خوش‬
‫تھی‪ ,‬آج فہد کو رخصت‬
‫کرتے وقت مہرین فہد کو‬
‫جلد آنے کا کہہ رہی تھی اور‬
‫فہد بھی اپنی بہن کو چوم‬
‫چوم کہ جلد آنے کے وعدے‬
‫کرتا چال گیا‪ ,‬مہرین کو دن‬
‫میں اپنے شوہر کا فون آیا‬
‫تو اس نے فہد کے متوقع‬
‫سسرال کی تمام تر تفصیالت‬
‫بتائیں جس پہ مہرین کے‬
‫شوہر نے تفصیل سے‬
‫مہرین کو آئندہ الئحہ عمل‬
‫کے حوالے سے مشورے‬
‫دئیے‪ ,‬فہد کا رشتہ تقریبا ً‬
‫پکا ہی ہو چکا تھا مگر‬
‫ابھی تک کوئی رسم وغیرہ‬
‫نہیں ہوئی تھی اسلیے حاالت‬
‫کے حساب سے ہی چلنا تھا‪,‬‬
‫دفتر میں فہد کے چہرے پہ‬
‫رونق بھی کسی کولیگ سے‬
‫چھپ نہیں رہی تھی اسلیے‬
‫ہر شخص فہد کو ایک ہی‬
‫بات پوچھ رہا تھا کہ آج‬
‫اسکے چہرے پہ اتنی رونق‬
‫کس بات کی ہے‪ ,‬فہد اب‬
‫کسی کو کیا بتاتا کہ اپنی بہن‬
‫سے برسوں پرانی محبت‬
‫کے رنگ اسکے چہرے کو‬
‫چمکا رہے ہیں‪ ,‬فہد بس‬
‫ہنس ہنس کہ سب کے‬
‫تجزیے سن کہ ہنس کہ بات‬
‫کو ٹال دیتا مگر جب جب‬
‫اسے مہرین کی یاد آتی تو‬
‫خوشی سے فہد کے گال الل‬
‫ہونے لگتے‪ ,‬کسی نہ کسی‬
‫طرح فہد بس کام میں‬
‫مصروف ہو کہ جلد از جلد‬
‫گھر جا کہ اپنی بہن سے‬
‫ملنے کیلیے بیتاب تھا مگر‬
‫آج دفتر میں مصروفیات‬
‫ایسی تھی کہ سر کھجانے کا‬
‫وقت نہیں مل رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫سارا دن گھر میں فہد کی‬
‫جلد آنے کی امید میں‬
‫سجنے سنورنے لگی‪ ,‬ایک‬
‫دو بار دفتر میں فہد کو کال‬
‫بھی کی مگر مصروفیت کی‬
‫وجہ سے فہد تک پیغام تک‬
‫نہ پہنچ سکا کہ اسکے گھر‬
‫سے کسی کی کال آئی ہے‪,‬‬
‫مہرین اور فہد کی بیچینی‬
‫دونوں طرف ایک جیسی‬
‫تھی‪ ,‬فہد کے انتظار میں‬
‫کسی نئی نویلی دولہن کی‬
‫طرح سج سنور کہ مہرین‬
‫دروازے پہ نظریں جمائے‬
‫بیٹھی گھڑی کی سوئیوں کو‬
‫حد سے تجاوز کرتا دیکھتی‬
‫جا رہی تھی مگر گیٹ پہ‬
‫لگی ڈور بیل تھی کہ بجنے‬
‫کا نام ہی نہیں لے رہی تھی‪,‬‬
‫دل ہی دل میں پریشان مہرین‬
‫فہد کی جلد اور خیریت سے‬
‫واپسی کی دعائیں کرنے‬
‫لگی‪ ,‬جب فہد متوقع وقت‬
‫سے بھی لیٹ ہو گیا تو‬
‫پریشان ہو کہ مہرین نے فہد‬
‫کے دفتر کال مالئی مگر‬
‫وہاں سے کسی نے کال نہیں‬
‫سنی شاید تمام مالزمین دفتر‬
‫سے نکل چکے ہونگے‪,‬‬
‫مہرین اپنے گھر کے الن‬
‫میں اپنا بچہ اٹھائے پریشان‬
‫حال میں ادھر سے ادھر‬
‫پریشانی سے ٹہل رہی تھی۔‬
‫ایک بہن اور بھائی کی‬
‫زندگی‬
‫قسط نمبر ‪32‬‬
‫پیشکش‪ :‬یم سٹوریز‪،‬‬
‫سٹوریز کلب‬

‫فہد دفتر سے کچھ زیادہ ہی‬


‫لیٹ ہو چکا تھا‪ ,‬عموما ً وہ‬
‫اندھیرا ہونے سے پہلے‬
‫گھر پہنچ جایا کرتا مگر آج‬
‫تو حد ہی ہو گئی‪ ,‬اب تو‬
‫اندھیرا ہو چکا تھا لیکن فہد‬
‫کی کوئی خیر خبر نہیں تھی‪,‬‬
‫مہرین پریشانی کے عالم‬
‫میں گیٹ کے پاس الن میں‬
‫اپنے بچے کو لیے ٹہل رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کے دل میں‬
‫طرح طرح کے وہم گھر کر‬
‫رہے تھے کہ اچانک ڈور‬
‫بیل بجی‪ ,‬مہرین لپک کہ‬
‫گیٹ کو پہنچی‪ ,‬پریشانی کے‬
‫عالم میں ہڑبڑائے ہوئے‬
‫انداز میں جیسے ہی گیٹ‬
‫کھال تو آگے سے حاجی‬
‫عاشق کا بیٹا وسیم اپنی‬
‫بیوی اور بچوں کے ساتھ‬
‫کھڑا تھا‪ ,‬مہرین کے چہرے‬
‫پہ پریشانی کے آثار صاف‬
‫نظر آرہے تھے‪ ,‬مہرین نے‬
‫سالم کر کہ انہیں اندر بال لیا‬
‫اور وسیم اور زیبا حیران‬
‫انداز میں گھر کو آنکھیں‬
‫پھاڑ پھاڑ کہ دیکھتے ہوئے‬
‫اندر داخل ہو گئے‪ ,‬مہرین‬
‫گیٹ میں ہی رک کہ گلی میں‬
‫نظریں دوڑانے لگی مگر فہد‬
‫کہیں نظر نہ آیا‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے انتظار میں گیٹ پہ ہی‬
‫کچھ لمحے رکی رہی تو‬
‫وسیم اور زیبا کو احساس‬
‫ہو گیا کہ مہرین کسی طرح‬
‫کی پریشانی کا شکار ہے‪,‬‬
‫زیبا کے پوچھنے پہ باآلخر‬
‫مہرین نے انکو بتا دیا ک‬
‫فہد آج زیادہ لیٹ ہو گیا ہے‪,‬‬
‫عموما ً اتنا دیر سے آتا نہیں‬
‫تو زیبا مہرین کو تسلی‬
‫دینے لگی مگر مہرین کے‬
‫دل کو کسی صورت تسلی‬
‫نہیں ہو رہی تھی‪ ,‬اندر آ کہ‬
‫مہرین نے انکو چائے پانی‬
‫پوچھا مگر مہرین کے شدید‬
‫پریشانی کو دیکھتے ہوئے‬
‫وسیم نے فہد کے دفتر چکر‬
‫لگانے کا فیصلہ کیا‪ ,‬مہرین‬
‫کیلیے ہر گزرتا لمحہ قیامت‬
‫سے بھی سخت ہو رہا تھا‪,‬‬
‫وسیم اور زیبا مہرین کو‬
‫تسلیاں دیتے جا رہے تھے‬
‫کہ فہد سمجھدار ہے کسی‬
‫وجہ سے لیٹ ہوا ہو گا مگر‬
‫مہرین کے آنسو نکلنے پہ‬
‫وہ دونوں مہرین کے فہد‬
‫کے تئیں اسقدر حساس‬
‫رویے پہ حیران ہی ہو گئے‬
‫اور باآلخر مہرین کے پرزور‬
‫اسرار پہ وسیم بھائی زیبا‬
‫اور مہرین کے ہمراہ فہد کا‬
‫پتہ کرنے کیلیے گیٹ تک آ‬
‫گئے‪ ,‬مہرین روتے روتے‬
‫وسیم کو ایڈریس وغیرہ‬
‫سمجھانے لگی اور گیٹ تک‬
‫زیبا مہرین کو تسلیاں دیتی‬
‫آئی‪ ,‬گیٹ پہ آ کہ وسیم نے‬
‫زیبا کو مہرین کا دھیان‬
‫رکھنے کا کہہ کہ قدم گھر‬
‫سے باہر نکالے اور مہرین‬
‫کی ہدایات کے مطابق فہد کی‬
‫تالش میں چلنا شروع کیا‪,‬‬
‫ادھر گھر میں زیبا مہرین‬
‫کے آنسو پونچھتے ہوئے‬
‫تسلیاں دینے لگی‪ ,‬تقریبا ً‬
‫بیس منٹ بعد ڈور بیل بجی‬
‫تو رو رو کہ نڈھال مہرین‬
‫گیٹ کی طرف دوڑی زیبا‬
‫مہرین کے نقش قدم پہ‬
‫اسکے پیچھے چل پڑی‪,‬‬
‫بجلی کی تیزی سے مہرین‬
‫نے گیٹ کھوال تو آگے فہد‬
‫کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ‬
‫کہ مہرین فہد کے گلے لگ‬
‫گئی‪ ,‬وسیم فہد کے پیچھے‬
‫کھڑا یہ سارا منظر دیکھتے‬
‫ہوئے مسکرا رہا تھا‪ ,‬زیبا‬
‫نے جب یہ منظر دیکھا تو‬
‫مہرین اور فہد کو اندر آنے‬
‫کا کہنے لگی‪ ,‬مہرین نے‬
‫روتے ہوئے فہد کے سینے‬
‫سے لگ کی سوالوں کی‬
‫بوچھاڑ کر دی اور فہد‬
‫مہرین کو اپنے لیٹ ہونے‬
‫کی وجوہات بتاتے بتاتے‬
‫سینے سے لگائے اندر لے‬
‫آیا‪ ,‬وسیم بھائی کسی ہیرو‬
‫کی طرح اپنے مشن سے‬
‫کامیاب لوٹنے پہ سینہ چوڑا‬
‫کر کہ اپنے ایک بچے کو‬
‫گود میں لیے بیٹھ گئے‪,‬‬
‫مہرین اندر آتے آتے رو رو‬
‫کہ اپنا بے حال کر چکی‬
‫تھی‪ ,‬فہد مہرین کے اس‬
‫رویے پہ وسیم اور زیبا کے‬
‫سامنے شرمندہ ہو رہا تھا‪,‬‬
‫حاالت عمومی سطح پہ آئے‬
‫تو مہرین نے وسیم بھائی کا‬
‫شکریہ ادا کیا اور فہد حیران‬
‫ہو کہ یہ سوچنے لگا کہ‬
‫وسیم بھائی تو بس راستے‬
‫میں ملے تھے‪ ,‬انہوں نے‬
‫ایسا کونسا کام کیا جس کی‬
‫وجہ سے انکا شکریہ ادا کیا‬
‫جا رہا ہے مگر فی الحال یہ‬
‫موقع ایسی کسی تصحیح کا‬
‫نہیں تھا اسلیے فہد بھی‬
‫مہرین کی ہاں میں ہاں مال‬
‫کہ وسیم اور زیبا کا شکریہ‬
‫ادا کرنے لگا‪ ,‬بہن اور بھائی‬
‫کی کچھ لمحات کی جدائی‬
‫کے بعد کی مالقات ایسے‬
‫لگ رہی تھی جیسے کہ وہ‬
‫برسوں بعد ایک دوسرے کو‬
‫ملے ہوں‪ ,‬مہرین نے وسیم‬
‫اور زیبا سے کھانے کا‬
‫پوچھا تو فہد نے ان کے‬
‫مروت بھرے جواب کے بعد‬
‫مہرین کو کھانہ لگانے کا‬
‫کہا‪ ,‬مہرین کچن میں کھانے‬
‫کا انتظام کرنے چلی گئی تو‬
‫وسیم کے حکم پہ کچھ دیر‬
‫بعد زیبا بھی مہرین کا ہاتھ‬
‫بٹانے کچن میں پہنچ گئی‪,‬‬
‫کھانا ٹیبل پہ لگنے لگا اور‬
‫وسیم فہد کے ساتھ سیاست‬
‫اور حاالت حاضرہ پہ بات‬
‫کرنے لگا‪ ,‬زیبا اور مہرین‬
‫نے کھانا لگا کہ دونوں کو‬
‫گفتگو روک کہ کھانا کھانے‬
‫کا مشورہ دیا اور اب دو‬
‫خواتین کی موجودگی میں‬
‫کھانے کے ساتھ گھریلو‬
‫معامالت ڈسکس ہونے‬
‫لگےزیبا‪ :‬مہرین فہد کی‬
‫شادی کر دو‪ ,‬دیکھنا جلدی‬
‫آیا کرے گا‪ ,‬یہ جتنا الپرواہ‬
‫ہے اس پہ کوئی ذمہ داری‬
‫آئے گی تو خودبخود ٹھیک‬
‫ہو جائے گامہرین اور فہد‬
‫نے شادی والی بات پہ‬
‫ایکدوسرے کی نظروں سے‬
‫نظریں مال کی گزشتہ دو دن‬
‫کے سہاگ رات والے لمحات‬
‫کو یاد کر کہ زیبا کی العلمی‬
‫پہ ہنس دیا‪ ,‬فہد کو ال پرواہ‬
‫کہنے پہ مہرین نے فورا ً‬
‫زیبا کو ٹوک دیامہرین‪ :‬نہیں‬
‫نہیں زیبا بھابی‪ ,‬میرا بھائی‬
‫الپرواہ بالکل بھی نہیں ہے‪,‬‬
‫بلکہ جب سے میرے شوہر‬
‫گئے ہیں مجھے اور ہماری‬
‫مرحوم امی کو اسی نے ہی‬
‫سنبھاال ہے‪ ,‬الپرواہ ہوتا تو‬
‫بچپن سے لے کہ اب تک‬
‫کس کی سرپرستی کے بغیر‬
‫ہمیں کس نے سنبھالنا تھا‬
‫وسیم‪ :‬ہاں زیبا‪ ,‬فہد الپرواہ‬
‫تو واقعی نہیں ہے‪ ,‬بچپن‬
‫سے اسے دیکھتا آ رہا ہوں‬
‫کبھی بھی لیٹ نہیں ہوا بلکہ‬
‫عین وقت پہ گھر آ جاتا تھا‪,‬‬
‫لیکن مہرین بیٹا اسکی‬
‫شادی تو کرنی ہی ہے‪ ,‬چلو‬
‫تمہارا بھی کوئی ساتھ ہو‬
‫جائے گا جو دن میں تمہیں‬
‫کمپنی دےمہرین‪ :‬جی وسیم‬
‫بھائی اسکو بڑی مشکل‬
‫سے منایا ہے میں نے‪,‬‬
‫رشتے دیکھے ہیں ایک‬
‫دو‪ ,‬اب میرے شوہر آئینگے‬
‫تو کسی نہ کسی جگہ اسکی‬
‫ہاں کر کہ دو جوڑوں میں‬
‫لڑکی لے آنی ہےفہد‪ :‬باجی؟‬
‫بھول گئی میرا وعدہ؟ میں‬
‫نے ایک سال کا وقت مانگا‬
‫ہے‪ ,‬اور آپ رشتہ پکا کر کہ‬
‫لڑکی النے کی بات کر رہی‬
‫ہیں اب؟زیبا‪ :‬کوئی حرج‬
‫نہیں فہد‪ ,‬خیر سے جوان‬
‫ہو‪ ,‬شادی کے قابل ہو‪,‬‬
‫شادی کرو اور بچے پیدا‬
‫کرو‪ ,‬کب تک ایسے بہن کو‬
‫پریشان کرتے رہو‬
‫گے؟مہرین اور فہد نے‬
‫آنکھوں آنکھوں میں زیبا‬
‫کے تیور کو سمجھنے کی‬
‫کوشش کی‪ ,‬وہ دونوں یہ‬
‫سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ‬
‫زیبا بھابی کی ایسی طنزیہ‬
‫باتوں میں کہیں حسد تو‬
‫نہیں؟ مگر وقتی طور پہ‬
‫مہرین سے رہا نہ گیا اور‬
‫اس نے زیبا کی بات کا‬
‫جواب دیامہرین‪ :‬زیبا بھابی‬
‫جوان ہے میرا بھائی‪ ,‬بظاہر‬
‫اپنی عمر سے زیادہ دکھتا‬
‫ہے ورنہ ہے تو ابھی صرف‬
‫بائیس تئیس سال کا ہی‪,‬‬
‫شادی تو اسکی کرنی ہی‬
‫کرنی ہے‪ ,‬لیکن میں اسکی‬
‫شادی کسی تنگی کی وجہ‬
‫سے جلد نہیں کرنا چاہ رہی‪,‬‬
‫میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ‬
‫اسکی بیوی آجائے گی تو‬
‫اسکو بھی ازدواجی زندگی‬
‫کے مزے ملیں‪ ,‬باقی اسکی‬
‫مرضی ہے جب شادی کا‬
‫کہے میں کوئی حور پری کا‬
‫رشتہ ڈھونڈ کہ الونگی اپنے‬
‫بھائی کیلیےکھانے کھاتے‬
‫ہوئے مہرین نے اپنی بات‬
‫مکمل کر کی روٹی کو ایک‬
‫طرف رکھ کہ فہد کے سر کو‬
‫پاس کر کہ پیار سے بازو‬
‫میں گھیر لیا اور پیار کر‬
‫کے کھانا کھانے لگی‪ ,‬کچھ‬
‫دیر بعد کھانا ختم ہو گیا اور‬
‫مہرین اور زیبا برتن‬
‫سمیٹنے لگے‪ ,‬وسیم‬
‫سیگریٹ کی ڈبی نکال کہ‬
‫فہد کو باہر الن میں لے گیا‪,‬‬
‫وسیم نے سگریٹ پیتے‬
‫پیتے فہد سے مالی مشکالت‬
‫کی اشاراۃً بات کی‪ ,‬فہد نے‬
‫تسلی وغیرہ دے کہ وسیم‬
‫کو کچھ مشورے دیے اور‬
‫کچھ دیر بعد وہ وہاں سے‬
‫رخصت ہو گئے‪ ,‬مہرین اور‬
‫فہد انکو رخصت کر کہ‬
‫واپس صحن نما حال میں‬
‫صوفوں پہ بیٹھ گئے‪ ,‬فہد‬
‫اور مہرین کی گفتگو کا‬
‫مرکز اب وسیم اور اسکے‬
‫بیوی بچے تھے‪ ,‬مہرین نے‬
‫فہد کو بتایا کہ وسیم کی بہن‬
‫جسکا وسیم کے ساتھ‬
‫جسمانی تعلقات تھے وہ زیبا‬
‫کے بھائی سے بیاہی گئی‬
‫ہے‪ ,‬یعنی وسیم اور سعدیہ‬
‫کا رشتہ وٹَہ سٹَہ میں ہوا‬
‫تھا‪ ,‬وسیم کے مالی حاالت‬
‫اخراجات کو پورا نہیں کر پا‬
‫رہے اسلیے زیبا نے دبے‬
‫دبے الفاظ میں مہرین کو‬
‫گھر کے کام کرنے کی‬
‫درخواست بھی کی ہے جس‬
‫پہ مہرین نے کوئی مناسب‬
‫جواب نہیں دیا اور زیبا کو‬
‫ایک دو دن بعد آنے کا کہا‬
‫ہے‪ ,‬فہد یہ سن کہ حیران ہو‬
‫گیا اور مہرین کو اپنے اور‬
‫وسیم کے درمیان ہوئی باتیں‬
‫بتانے لگا‪ ,‬باتوں باتوں کے‬
‫دوران مہرین نے اپنے بچے‬
‫کو دودھ پال کہ سال دیا اور‬
‫اسے جا کہ گہوارے میں لٹا‬
‫آئی‪ ,‬فہد اور مہرین زیبا کی‬
‫اپنے گھر میں مالزمت کو‬
‫لے کہ کسی حتمی نتیجے پہ‬
‫نہیں پہنچ رہے تھے اسلیے‬
‫مہرین نے فہد کو اپنے‬
‫شوہر سے مشورہ کرنے‬
‫تک انتظار کرنے کا کہا‪ ,‬فہد‬
‫اور مہرین اوپن حال میں‬
‫صوفوں کی ارینجمینٹ میں‬
‫بیٹھے باتیں کر رہے تھے‪,‬‬
‫فہد اٹھ کہ مہرین کے قدموں‬
‫میں بیٹھ کہ مہرین کی گود‬
‫میں سر رکھ کہ بیٹھ گیا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے سر کو اپنی‬
‫انگلیوں سے مساج دینے‬
‫لگی‪ ,‬مہرین کی نرم اور‬
‫مالئم رانوں پہ سر ٹکائے‬
‫فہد مہرین سے باتیں کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬محبت کے جملوں کے‬
‫تبادلے پہ کبھی مہرین فہد‬
‫کے سر اور گال کا بوسہ لے‬
‫لیتی اور اسی طرح فہد‬
‫مہرین کی رانوں کے بوسے‬
‫لینے لگ جاتا‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کی رانوں میں سر دے کہ‬
‫چومتا جا رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫اپنی ٹانگوں کو دبا کہ اپنی‬
‫پھدی کی بے تابی چھپا رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد اپنے گھٹنوں کے‬
‫وزن پہ ہو کہ مہرین کی ران‬
‫چومتے چومتے مہرین کے‬
‫پیٹ کے بوسے لینے لگا‪,‬‬
‫مہرین صوفے پہ اپنا آپ‬
‫انڈیل کی فہدکو اپنی من‬
‫مرضی کرنے دے رہی تھی‪,‬‬
‫فہد مہرین کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان آتا تو مہرین ٹانگوں‬
‫کو دبا لیتی‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫ٹانگوں میں منہ دیے اپنے‬
‫ہاتھوں سے مہرین کے‬
‫گھٹنے پکڑ کی ٹانگوں کو‬
‫پھیالنے لگا‪ ,‬ہلکی سے‬
‫طاقت لگانے پہ مہرین نے‬
‫اپنی ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ‬
‫دی‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫ٹانگوں کو پھیال کہ مہرین‬
‫کی پھدی کو کپڑے کے اوپر‬
‫سے ہی چوم لیا‪ ,‬جیسے ہی‬
‫مہرین کی پھدی سے فہد‬
‫کے ہونٹوں کا وزن پڑا تو‬
‫مہرین نے اپنی کمر کو ہال‬
‫کہ اپنا آپ بے تابی سے‬
‫کھسکا کہ آہ بھری اور‬
‫ٹانگوں کو مزید پھیال دیا‪,‬‬
‫فہد مہرین کی طرف رخ کر‬
‫کہ ٹانگوں کو پکڑ کہ مہرین‬
‫کی ٹانگوں میں منہ دے کہ‬
‫رانوں اور پھدی سے‬
‫چومنے لگا‪ ,‬مہرین اپنی کمر‬
‫کا لچکا لچکا کہ آہ آہ کر‬
‫رہی تھی اور جب فہد کا منہ‬
‫پھدی کے قریب آتا تو وہ‬
‫فہد کے سر کو پکڑ کہ‬
‫دبانے لگ جاتی‪ ,‬مہرین کی‬
‫ٹانگیں اٹھتی اٹھتی فہد کے‬
‫کندھوں پہ آ گئی اور گیلی‬
‫پھدی فہد کے ہونٹوں کے‬
‫عین پاس گئی‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے ہاتھ پکڑ کہ اپنے پستان‬
‫سہلوانے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کی قمیض کو اٹھا کہ‬
‫پیٹ ننگا کر دیا‪ ,‬پھدی کا‬
‫گیال پن اب کپڑے کے اوپر‬
‫سے ہی فہد کو ذائقہ دے رہا‬
‫تھا‪ ,‬فہد نے تڑپتی ہوئی اپنی‬
‫بہن کی شلوار کو کھینچ کہ‬
‫پھدی کو ننگا کر دیا‪ ,‬اور‬
‫ایک بار مہرین کی پھدی‬
‫کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ‬
‫مال دیے‪ ,‬فہد کی گیلی زبان‬
‫جیسے ہی پھدی سے لگی‬
‫تو سانسوں کی گرمی سے‬
‫پھدی مچل گئی مہرین فہد‬
‫کو سر سے دبا کہ پھدی‬
‫سے مزید پیار کرنے کیلیے‬
‫آنہیں بھرنے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫بنا وقفہ ڈالے پھدی سے‬
‫چومنا شروع کیا اور اب‬
‫زبان سے مہرین کی پھدی‬
‫کو چاٹنا شروع کیا‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کی پھدی کے ذائقے‬
‫سے پہلی بار متعارف ہو رہا‬
‫تھا اسلیے کچھ لمحے زبان‬
‫کو وقفے سے ہی پھدی کے‬
‫ہونٹوں پہ پھیرتا‪ ,‬جیسے‬
‫جیسے فہد کو پھدی کا‬
‫ٹیسٹ پسند آنے لگا ویسے‬
‫ویسے مہرین کی پھدی پہ‬
‫زبان چلنے لگی اور مہرین‬
‫کراہ کہ آنہیں نکالنے لگی‪,‬‬
‫فہد نے گیلی پھدی کے‬
‫سوراح پہ اپنی زبان کو رکھ‬
‫کہ اندر ڈال دیا‪ ,‬فہد کی زبان‬
‫اب ہونٹوں کے اندر باہر پھر‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین فہد کے سر‬
‫کو دبا دبا کہ جب فہد کو‬
‫اندر کرتی تو فہد بھی پوری‬
‫طاقت سے اپنا منہ پھدی‬
‫کے اندر ڈال دیتا جس سے‬
‫دانتوں کی ایک مخصوص‬
‫چبھن اور سانسوں کی گرم‬
‫ہوا سے مزہ دوباال ہو جاتا‪,‬‬
‫فہد پوری ذمہ داری سے‬
‫پھدی کے اندر باہر زبان‬
‫سے چاٹ رہا تھا اور موقع‬
‫ملنے پہ اردگرد سے چوم‬
‫بھی رہا تھا‪ ,‬مہرین کھسک‬
‫کھسک کہ صوفے سے‬
‫گرنے والی ہو چکی تھی‬
‫مگر جتنا مہرین کھسکتی‬
‫فہد اتنا ہی پھدی کے اندر‬
‫منہ ڈال کی مہرین کے وزن‬
‫کو سنبھال لیتا‪ ,‬فہد کے‬
‫ہونٹ ناک اور گال اپنی بہن‬
‫کی پھدی کے پانی سے لیس‬
‫دار ہو چکے تھے اور‬
‫باآلخر مہرین اس پرزور‬
‫چاٹنے کی وجہ سے‬
‫ڈسچارج ہونے کے قریب آ‬
‫گئی اور اپنی ٹانگوں کو فہد‬
‫کے کندھوں پہ کس کی‬
‫صوفے پہ ہی ایک سمت‬
‫میں اپنا آپ انڈیلنے لگی‪,‬‬
‫فہد کو جب اندازہ ہوا کہ‬
‫اسکی بہن ڈسچارج ہونے‬
‫والی ہے تو اس نے اپنے‬
‫سر اور گردن کو اور زور‬
‫سے پھدی میں دبا کہ چاٹنا‬
‫شروع کر دیا‪ ,‬مہرین آہ آہ‬
‫فہد اففف آہمم آہ آہ کرتے‬
‫ڈسچارج ہو گئ‪ ,‬فہد نے اپنا‬
‫منہ پیچھے ہٹا لیا مگر اپنی‬
‫بہن کی پھدی کا رس کچھ‬
‫منہ میں چال ہی گیا‪ ,‬فہد اس‬
‫نمکین سے ذائقہ سے لطف‬
‫اندوز ہوا مگر پہلی پہلی بار‬
‫ابھی پینے کی ہمت نہیں ہو‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین ہونٹ‬
‫بھنچے آنکھیں بند کر کی‬
‫صوفے پہ گر کہ اپنے‬
‫ڈسچارج کا مزہ لیتے لیتے‬
‫بے حال ہو گئی‪ ,‬فہد اپنے‬
‫تنے ہوئے لن کو پاجامے‬
‫سے آزاد کر کہ مہرین کے‬
‫اوپر آ گیا‪ ,‬اور مہرین کا‬
‫پاجامہ اتار کہ اب اپنی بہن‬
‫کو چودنے کیلیے اوپر آ گیا‪,‬‬
‫مہرین نے فورا حوش‬
‫سنبھال کہ فہد کو رکنے کا‬
‫کہا‪ ,‬فہد لن کو ہاتھوں میں‬
‫لیے صوفے پہ ایک گھٹنے‬
‫کی وزن پہ مہرین کو اٹھتا‬
‫ہوا دیکھنے لگا‪ ,‬مہرین اٹھ‬
‫کہ کمرے کی طرف گئی اور‬
‫اندر سے ایک پیکٹ کو‬
‫اپنے دانتوں میں لے کہ کاٹ‬
‫کہ کھولنے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫بڑی حیرانی سے مہرین کی‬
‫طرف دیکھا فہد‪ :‬یہ کیا ہے‬
‫باجی؟مہرین نے فہد کے گال‬
‫گدگدا کہ جواب دیتے ہوئے‬
‫ایک غبارے نما چیز کو اندر‬
‫سے نکاالمہرین‪ :‬کونڈمفہد‪:‬‬
‫اچھا؟ یہ ہوتا ہے کونڈم؟فہد‬
‫ایک پاؤں زمین پہ رکھے‬
‫اور ایک گھٹنے کو صوفے‬
‫پہ رکھ کہ کھڑا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫فہد کے لن کے سامنے بیٹھ‬
‫کہ لن پہ کونڈم چڑھانے‬
‫لگی‪ ,‬فہد کا موٹا اور لمبا لن‬
‫کونڈم کے چڑھانے کے‬
‫دوران مہرین کی ہتھیلیوں‬
‫سے مسال جا رہا تھا اسلیے‬
‫فہد کی مزے سے آہ آہ‬
‫مہرین باجی افف ہونے لگی‪,‬‬
‫مہرین کسی تجربہ کار گشتی‬
‫کی طرح لن پہ کونڈم‬
‫چڑھانے کیلیے پورا زور‬
‫لگا رہی تھی اور ساتھ ساتھ‬
‫اپنی بات کو بھی جاری کیے‬
‫ہوئے تھی مہرین‪ :‬اتنا بڑا‬
‫لن ہے تمہارا‪ ,‬آج میں بازار‬
‫گئی تھی تو کونڈم لے کہ‬
‫آئی‪ ,‬تم اب احتیاط سے کرنا‪,‬‬
‫میں دوبارہ پریگنینٹ نہیں‬
‫ہونا چاہتیلن پہ کونڈم چڑھا‬
‫کہ مہرین صوفے کے ایک‬
‫بازو پہ اپنا سینا چپکا کہ فہد‬
‫کے سامنے الٹی ہو گئی‪,‬‬
‫مہرین کا سارا وزن اسکے‬
‫گھٹنوں پہ تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫ٹانگیں ہلکی سی پھیال کہ‬
‫اپنج گانڈ کو پیچھے کو‬
‫نکاال ہوا تھا‪ ,‬مزے اور‬
‫سرور میں ڈوبا ہوا فہد‬
‫گونڈم میں پھنسے لن کو‬
‫پکڑ کہ مہرین کی گانڈ اور‬
‫پھدی کے سوراخ پہ رگڑنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین نے فہد کے لن‬
‫کو پکڑ کہ پھدی پہ رکھ کہ‬
‫اپنی گانڈ کو پیچھے کو کر‬
‫کہ لن اندر لینے کی کوشش‬
‫کی‪ ,‬فہد نےلن کو دبا کہ‬
‫اپنی بہن کی پھدی میں‬
‫دھکیال تو مہرین کی آہ نکل‬
‫گئی‪ ,‬فہد مہرین کی گانڈ کو‬
‫قابو کر کہ آہستہ آہستہ چود‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین کی صوفے‬
‫سے چپکی چھاتیاں فہد نے‬
‫اپنے ہاتھ سے زور سے‬
‫مسل دیں‪ ,‬مہرین کی پھدی‬
‫میں چودتے ہوئے فہد آہ آہ‬
‫باجی افف آہہ آہہمم آف‬
‫مہرین آہ اف باجی کی‬
‫آوازیں نکال رہا تھا‪ ,‬فہد جب‬
‫طاقت سے مہرین کو‬
‫چودنے لگا تو مہرین بھی‬
‫ایسی ہی بے قراری سے‬
‫کراہنے لگی‪ ,‬فہد اپنے‬
‫نیچے والے ہونٹ کو دانتوں‬
‫میں دبائے مہرین کو کمر‬
‫سے گرفت کر کہ اب پوری‬
‫طاقت سے جھٹکے مار رہا‬
‫تھا‪ ,‬زور دار چدائی کی وجہ‬
‫سے صوفہ بھی ہل ہل کہ‬
‫آوازیں پیدا کر رہا تھا اور‬
‫چودنے کی ٹپ ٹپ کی آوز‬
‫بھی پیدا ہو رہی تھی‪ ,‬ایسے‬
‫ہی چودتے چودتے فہد اور‬
‫مہرین یکے بعد دیگرے‬
‫ڈسچارج ہو کہ اسے صوفے‬
‫پہ ہانپتے ہوئے لیٹ گئے‬
‫فہد مہرین کو اپنی بانہوں‬
‫میں لے کے مہرین کو‬
‫پیچھے سے گلے لگا کہ‬
‫لیٹ گیا‪ ,‬فہد کا لن اب ڈھیال‬
‫پڑ رہا تھا اسلیے کونڈم کو‬
‫مہرین نے اپنے ہاتھ سے‬
‫احتیاط سے اتار کہ گرہ لگا‬
‫کہ ایک طرف رکھ دیا اور‬
‫اپنے بھائی کی بانہوں میں‬
‫گھر کہ آرام کرنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫پرسکون انداز سے اپنی بہن‬
‫سے باتیں کرنے لگا اور ایم‬
‫ہاتھ سے مہرین کے نپل کے‬
‫گرد اپنج انگلی کو بے ربط‬
‫انداز میں پھیرنے لگا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی اس قلیل‬
‫سی جگہ میں ایم دوسرے‬
‫سے چپک کہ لیٹے ہوئے‬
‫تھے فہد‪ :‬ویسے باجی؟ آج‬
‫آپ اتنا تیار کیوں‬
‫تھی؟مہرین‪ :‬بدھو انسان تم‬
‫کو اب یاد آیا؟فہد‪ :‬باجی‬
‫مجھے لگا کہ آپ کا آج باہر‬
‫جانے کا ارادہ ہو گا اسلیے‬
‫تیار ہوئی ہو گیمہرین‪:‬‬
‫تمہارے لیے تیار ہوئی تھی‬
‫پاگلفہد‪ :‬میرے لیے؟‬
‫کیوں؟مہرین‪ :‬اف ہو‪ ,‬کس‬
‫نان رومانٹک بندے سے پاال‬
‫پڑ گیا ہے میرافہد‪ :‬ہاں تو‬
‫اور کیا باجی‪ ,‬بھال آپ پہلے‬
‫کم خوبصورت ہیں جو آپ‬
‫مزید تیار ہو کہ قیامت‬
‫ڈھانے لگیایسے ہی محبت‬
‫بھری باتوں کا سلسلہ چلتا‬
‫رہا اور کچھ دیر بعد وہ‬
‫دونوں بیڈ پہ آ گئے مہرین‬
‫اور فہد دونوں برہنہ حالت‬
‫میں آ کہ ایک دوسرے سے‬
‫گلے لگ کہ سونے کی‬
‫کوشش کرنے لگے‪ ,‬مہرین‬
‫نے فہد کو بہت تنبیہ کر کہ‬
‫سمجھا دیا کہ اب چدائی‬
‫کونڈم کے بغیر نہیں ہو گی‬
‫اسلیے اگر رات کو نہ رہا‬
‫جائے تو کونڈم کا استعمال‬
‫الزمی کرے‪ ,‬مہرین نے ایک‬
‫کونڈم سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کہ‬
‫فہد کو گلے لگا کہ سونے‬
‫کی کوشش شروع کر دی‬
‫اور کچھ دیر بعد دونوں بہن‬
‫بھائی نیند کی وادیوں میں‬
‫چلے گئے‪ ,‬رات کے کسی‬
‫پہر فہد کی اور مہرین کی‬
‫محبت دوبارہ بھڑک اٹھی‬
‫اور نیند کی خماری میں ہی‬
‫مہرین فہد کو چوم چوم کہ‬
‫چدوانے کیلیے ٹانگیں پھیال‬
‫کہ فہد کو اوپر لے آئی‪ ,‬فہد‬
‫نے بنا کونڈم پہنے ایک بار‬
‫پھر مہرین کو چود دیا‪,‬‬
‫ایسے ہی ساری رات ایک‬
‫دوسرے کی بانہوں میں‬
‫چدائی کے بعد سو گئے‪,‬‬
‫صبح صبح فہد کا لن دوبارہ‬
‫سے مہرین کو چودنے‬
‫کیلیے ٹائیٹ ہو گیا‪ ,‬فہد جاگ‬
‫چکا تھا اور مہرین گہری‬
‫نیند میں تھی‪ ,‬فہد نے پاس‬
‫پڑے کونڈ کو کھول کہ لن پہ‬
‫چڑھا لیا اور سوئی ہوئی‬
‫اپنی بہن کو اوپر آ کہ‬
‫چومنے لگا‪ ,‬نیند میں ہی‬
‫مہرین فہد کا ساتھ دینے‬
‫لگی اور جب تک جاگی تو‬
‫فہد نے چدائی شروع کر دی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے ایک اور‬
‫پرزور چدائی کے بعد نیند‬
‫کو قبول کر لیا‪ ,‬صبح جب‬
‫مہرین باقاعدہ بیدار ہوئی تو‬
‫رات کی بہترین چدائی کے‬
‫مزے سے اپنی پھدی کو‬
‫سکون میں محسوس کر‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد حسب معمول‬
‫اپنی بہن کے سینے میں منہ‬
‫دے کہ گھوڑے بیچ کہ سو‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین کو جلد ہی‬
‫اندازہ ہو گیا کہ رات جس‬
‫کونڈم کو پہن کہ فہد ے‬
‫اسے چودا تھا وہ بنا لن‬
‫سے اتارے سو گیا اور اب‬
‫وہ کونڈم وہیں وزن کے‬
‫نیچے آ کہ سارا سپرم بستر‬
‫پہ پھیال چکا ہے‪ ,‬فہد بیدار‬
‫ہوتے ہی مہرین کا دودھ‬
‫پینے لگا‪ ,‬مہرین رات والی‬
‫پرتکلف چدائی سے مطمئن‬
‫اپنی چھاتیوں کو اپنے بھائی‬
‫سے چسوا رہی تھی‪ ,‬کچھ‬
‫دیر بعد معامالت زندگی کو‬
‫سر انجام دینے کیلیے بہن‬
‫بھائی حرکت میں آئے اور‬
‫محبت کے اس سحر سے‬
‫آزاد ہو کہ اپنے اپنے کاموں‬
‫میں مصروف ہو گئے‪ ,‬فہد‬
‫نے ناشتہ کیا اور گیٹ تک‬
‫آتے آتے الوداع کہتے نہ‬
‫جانے کتنی بار اپنی بہن کے‬
‫ہونٹوں کے بوسے لیے اور‬
‫جلد واپسی کے وعدے پہ‬
‫فہد دفتر کیلیے روانہ ہو گیا۔‬
‫فہد دفتر سے کچھ زیادہ ہی‬
‫لیٹ ہو چکا تھا‪ ,‬عموما ً وہ‬
‫اندھیرا ہونے سے پہلے‬
‫گھر پہنچ جایا کرتا مگر آج‬
‫تو حد ہی ہو گئی‪ ,‬اب تو‬
‫اندھیرا ہو چکا تھا لیکن فہد‬
‫کی کوئی خیر خبر نہیں تھی‪,‬‬
‫مہرین پریشانی کے عالم‬
‫میں گیٹ کے پاس الن میں‬
‫اپنے بچے کو لیے ٹہل رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرین کے دل میں‬
‫طرح طرح کے وہم گھر کر‬
‫رہے تھے کہ اچانک ڈور‬
‫بیل بجی‪ ,‬مہرین لپک کہ‬
‫گیٹ کو پہنچی‪ ,‬پریشانی کے‬
‫عالم میں ہڑبڑائے ہوئے‬
‫انداز میں جیسے ہی گیٹ‬
‫کھال تو آگے سے حاجی‬
‫عاشق کا بیٹا وسیم اپنی‬
‫بیوی اور بچوں کے ساتھ‬
‫کھڑا تھا‪ ,‬مہرین کے چہرے‬
‫پہ پریشانی کے آثار صاف‬
‫نظر آرہے تھے‪ ,‬مہرین نے‬
‫سالم کر کہ انہیں اندر بال لیا‬
‫اور وسیم اور زیبا حیران‬
‫انداز میں گھر کو آنکھیں‬
‫پھاڑ پھاڑ کہ دیکھتے ہوئے‬
‫اندر داخل ہو گئے‪ ,‬مہرین‬
‫گیٹ میں ہی رک کہ گلی میں‬
‫نظریں دوڑانے لگی مگر فہد‬
‫کہیں نظر نہ آیا‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے انتظار میں گیٹ پہ ہی‬
‫کچھ لمحے رکی رہی تو‬
‫وسیم اور زیبا کو احساس‬
‫ہو گیا کہ مہرین کسی طرح‬
‫کی پریشانی کا شکار ہے‪,‬‬
‫زیبا کے پوچھنے پہ باآلخر‬
‫مہرین نے انکو بتا دیا ک‬
‫فہد آج زیادہ لیٹ ہو گیا ہے‪,‬‬
‫عموما ً اتنا دیر سے آتا نہیں‬
‫تو زیبا مہرین کو تسلی‬
‫دینے لگی مگر مہرین کے‬
‫دل کو کسی صورت تسلی‬
‫نہیں ہو رہی تھی‪ ,‬اندر آ کہ‬
‫مہرین نے انکو چائے پانی‬
‫پوچھا مگر مہرین کے شدید‬
‫پریشانی کو دیکھتے ہوئے‬
‫وسیم نے فہد کے دفتر چکر‬
‫لگانے کا فیصلہ کیا‪ ,‬مہرین‬
‫کیلیے ہر گزرتا لمحہ قیامت‬
‫سے بھی سخت ہو رہا تھا‪,‬‬
‫وسیم اور زیبا مہرین کو‬
‫تسلیاں دیتے جا رہے تھے‬
‫کہ فہد سمجھدار ہے کسی‬
‫وجہ سے لیٹ ہوا ہو گا مگر‬
‫مہرین کے آنسو نکلنے پہ‬
‫وہ دونوں مہرین کے فہد‬
‫کے تئیں اسقدر حساس‬
‫رویے پہ حیران ہی ہو گئے‬
‫اور باآلخر مہرین کے پرزور‬
‫اسرار پہ وسیم بھائی زیبا‬
‫اور مہرین کے ہمراہ فہد کا‬
‫پتہ کرنے کیلیے گیٹ تک آ‬
‫گئے‪ ,‬مہرین روتے روتے‬
‫وسیم کو ایڈریس وغیرہ‬
‫سمجھانے لگی اور گیٹ تک‬
‫زیبا مہرین کو تسلیاں دیتی‬
‫آئی‪ ,‬گیٹ پہ آ کہ وسیم نے‬
‫زیبا کو مہرین کا دھیان‬
‫رکھنے کا کہہ کہ قدم گھر‬
‫سے باہر نکالے اور مہرین‬
‫کی ہدایات کے مطابق فہد کی‬
‫تالش میں چلنا شروع کیا‪,‬‬
‫ادھر گھر میں زیبا مہرین‬
‫کے آنسو پونچھتے ہوئے‬
‫تسلیاں دینے لگی‪ ,‬تقریبا ً‬
‫بیس منٹ بعد ڈور بیل بجی‬
‫تو رو رو کہ نڈھال مہرین‬
‫گیٹ کی طرف دوڑی زیبا‬
‫مہرین کے نقش قدم پہ‬
‫اسکے پیچھے چل پڑی‪,‬‬
‫بجلی کی تیزی سے مہرین‬
‫نے گیٹ کھوال تو آگے فہد‬
‫کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھ‬
‫کہ مہرین فہد کے گلے لگ‬
‫گئی‪ ,‬وسیم فہد کے پیچھے‬
‫کھڑا یہ سارا منظر دیکھتے‬
‫ہوئے مسکرا رہا تھا‪ ,‬زیبا‬
‫نے جب یہ منظر دیکھا تو‬
‫مہرین اور فہد کو اندر آنے‬
‫کا کہنے لگی‪ ,‬مہرین نے‬
‫روتے ہوئے فہد کے سینے‬
‫سے لگ کی سوالوں کی‬
‫بوچھاڑ کر دی اور فہد‬
‫مہرین کو اپنے لیٹ ہونے‬
‫کی وجوہات بتاتے بتاتے‬
‫سینے سے لگائے اندر لے‬
‫آیا‪ ,‬وسیم بھائی کسی ہیرو‬
‫کی طرح اپنے مشن سے‬
‫کامیاب لوٹنے پہ سینہ چوڑا‬
‫کر کہ اپنے ایک بچے کو‬
‫گود میں لیے بیٹھ گئے‪,‬‬
‫مہرین اندر آتے آتے رو رو‬
‫کہ اپنا بے حال کر چکی‬
‫تھی‪ ,‬فہد مہرین کے اس‬
‫رویے پہ وسیم اور زیبا کے‬
‫سامنے شرمندہ ہو رہا تھا‪,‬‬
‫حاالت عمومی سطح پہ آئے‬
‫تو مہرین نے وسیم بھائی کا‬
‫شکریہ ادا کیا اور فہد حیران‬
‫ہو کہ یہ سوچنے لگا کہ‬
‫وسیم بھائی تو بس راستے‬
‫میں ملے تھے‪ ,‬انہوں نے‬
‫ایسا کونسا کام کیا جس کی‬
‫وجہ سے انکا شکریہ ادا کیا‬
‫جا رہا ہے مگر فی الحال یہ‬
‫موقع ایسی کسی تصحیح کا‬
‫نہیں تھا اسلیے فہد بھی‬
‫مہرین کی ہاں میں ہاں مال‬
‫کہ وسیم اور زیبا کا شکریہ‬
‫ادا کرنے لگا‪ ,‬بہن اور بھائی‬
‫کی کچھ لمحات کی جدائی‬
‫کے بعد کی مالقات ایسے‬
‫لگ رہی تھی جیسے کہ وہ‬
‫برسوں بعد ایک دوسرے کو‬
‫ملے ہوں‪ ,‬مہرین نے وسیم‬
‫اور زیبا سے کھانے کا‬
‫پوچھا تو فہد نے ان کے‬
‫مروت بھرے جواب کے بعد‬
‫مہرین کو کھانہ لگانے کا‬
‫کہا‪ ,‬مہرین کچن میں کھانے‬
‫کا انتظام کرنے چلی گئی تو‬
‫وسیم کے حکم پہ کچھ دیر‬
‫بعد زیبا بھی مہرین کا ہاتھ‬
‫بٹانے کچن میں پہنچ گئی‪,‬‬
‫کھانا ٹیبل پہ لگنے لگا اور‬
‫وسیم فہد کے ساتھ سیاست‬
‫اور حاالت حاضرہ پہ بات‬
‫کرنے لگا‪ ,‬زیبا اور مہرین‬
‫نے کھانا لگا کہ دونوں کو‬
‫گفتگو روک کہ کھانا کھانے‬
‫کا مشورہ دیا اور اب دو‬
‫خواتین کی موجودگی میں‬
‫کھانے کے ساتھ گھریلو‬
‫معامالت ڈسکس ہونے‬
‫لگےزیبا‪ :‬مہرین فہد کی‬
‫شادی کر دو‪ ,‬دیکھنا جلدی‬
‫آیا کرے گا‪ ,‬یہ جتنا الپرواہ‬
‫ہے اس پہ کوئی ذمہ داری‬
‫آئے گی تو خودبخود ٹھیک‬
‫ہو جائے گامہرین اور فہد‬
‫نے شادی والی بات پہ‬
‫ایکدوسرے کی نظروں سے‬
‫نظریں مال کی گزشتہ دو دن‬
‫کے سہاگ رات والے لمحات‬
‫کو یاد کر کہ زیبا کی العلمی‬
‫پہ ہنس دیا‪ ,‬فہد کو ال پرواہ‬
‫کہنے پہ مہرین نے فورا ً‬
‫زیبا کو ٹوک دیامہرین‪ :‬نہیں‬
‫نہیں زیبا بھابی‪ ,‬میرا بھائی‬
‫الپرواہ بالکل بھی نہیں ہے‪,‬‬
‫بلکہ جب سے میرے شوہر‬
‫گئے ہیں مجھے اور ہماری‬
‫مرحوم امی کو اسی نے ہی‬
‫سنبھاال ہے‪ ,‬الپرواہ ہوتا تو‬
‫بچپن سے لے کہ اب تک‬
‫کس کی سرپرستی کے بغیر‬
‫ہمیں کس نے سنبھالنا تھا‬
‫وسیم‪ :‬ہاں زیبا‪ ,‬فہد الپرواہ‬
‫تو واقعی نہیں ہے‪ ,‬بچپن‬
‫سے اسے دیکھتا آ رہا ہوں‬
‫کبھی بھی لیٹ نہیں ہوا بلکہ‬
‫عین وقت پہ گھر آ جاتا تھا‪,‬‬
‫لیکن مہرین بیٹا اسکی‬
‫شادی تو کرنی ہی ہے‪ ,‬چلو‬
‫تمہارا بھی کوئی ساتھ ہو‬
‫جائے گا جو دن میں تمہیں‬
‫کمپنی دےمہرین‪ :‬جی وسیم‬
‫بھائی اسکو بڑی مشکل‬
‫سے منایا ہے میں نے‪,‬‬
‫رشتے دیکھے ہیں ایک‬
‫دو‪ ,‬اب میرے شوہر آئینگے‬
‫تو کسی نہ کسی جگہ اسکی‬
‫ہاں کر کہ دو جوڑوں میں‬
‫لڑکی لے آنی ہےفہد‪ :‬باجی؟‬
‫بھول گئی میرا وعدہ؟ میں‬
‫نے ایک سال کا وقت مانگا‬
‫ہے‪ ,‬اور آپ رشتہ پکا کر کہ‬
‫لڑکی النے کی بات کر رہی‬
‫ہیں اب؟زیبا‪ :‬کوئی حرج‬
‫نہیں فہد‪ ,‬خیر سے جوان‬
‫ہو‪ ,‬شادی کے قابل ہو‪,‬‬
‫شادی کرو اور بچے پیدا‬
‫کرو‪ ,‬کب تک ایسے بہن کو‬
‫پریشان کرتے رہو‬
‫گے؟مہرین اور فہد نے‬
‫آنکھوں آنکھوں میں زیبا‬
‫کے تیور کو سمجھنے کی‬
‫کوشش کی‪ ,‬وہ دونوں یہ‬
‫سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ‬
‫زیبا بھابی کی ایسی طنزیہ‬
‫باتوں میں کہیں حسد تو‬
‫نہیں؟ مگر وقتی طور پہ‬
‫مہرین سے رہا نہ گیا اور‬
‫اس نے زیبا کی بات کا‬
‫جواب دیامہرین‪ :‬زیبا بھابی‬
‫جوان ہے میرا بھائی‪ ,‬بظاہر‬
‫اپنی عمر سے زیادہ دکھتا‬
‫ہے ورنہ ہے تو ابھی صرف‬
‫بائیس تئیس سال کا ہی‪,‬‬
‫شادی تو اسکی کرنی ہی‬
‫کرنی ہے‪ ,‬لیکن میں اسکی‬
‫شادی کسی تنگی کی وجہ‬
‫سے جلد نہیں کرنا چاہ رہی‪,‬‬
‫میں تو بس یہ چاہتی ہوں کہ‬
‫اسکی بیوی آجائے گی تو‬
‫اسکو بھی ازدواجی زندگی‬
‫کے مزے ملیں‪ ,‬باقی اسکی‬
‫مرضی ہے جب شادی کا‬
‫کہے میں کوئی حور پری کا‬
‫رشتہ ڈھونڈ کہ الونگی اپنے‬
‫بھائی کیلیےکھانے کھاتے‬
‫ہوئے مہرین نے اپنی بات‬
‫مکمل کر کی روٹی کو ایک‬
‫طرف رکھ کہ فہد کے سر کو‬
‫پاس کر کہ پیار سے بازو‬
‫میں گھیر لیا اور پیار کر‬
‫کے کھانا کھانے لگی‪ ,‬کچھ‬
‫دیر بعد کھانا ختم ہو گیا اور‬
‫مہرین اور زیبا برتن‬
‫سمیٹنے لگے‪ ,‬وسیم‬
‫سیگریٹ کی ڈبی نکال کہ‬
‫فہد کو باہر الن میں لے گیا‪,‬‬
‫وسیم نے سگریٹ پیتے‬
‫پیتے فہد سے مالی مشکالت‬
‫کی اشاراۃً بات کی‪ ,‬فہد نے‬
‫تسلی وغیرہ دے کہ وسیم‬
‫کو کچھ مشورے دیے اور‬
‫کچھ دیر بعد وہ وہاں سے‬
‫رخصت ہو گئے‪ ,‬مہرین اور‬
‫فہد انکو رخصت کر کہ‬
‫واپس صحن نما حال میں‬
‫صوفوں پہ بیٹھ گئے‪ ,‬فہد‬
‫اور مہرین کی گفتگو کا‬
‫مرکز اب وسیم اور اسکے‬
‫بیوی بچے تھے‪ ,‬مہرین نے‬
‫فہد کو بتایا کہ وسیم کی بہن‬
‫جسکا وسیم کے ساتھ‬
‫جسمانی تعلقات تھے وہ زیبا‬
‫کے بھائی سے بیاہی گئی‬
‫ہے‪ ,‬یعنی وسیم اور سعدیہ‬
‫کا رشتہ وٹَہ سٹَہ میں ہوا‬
‫تھا‪ ,‬وسیم کے مالی حاالت‬
‫اخراجات کو پورا نہیں کر پا‬
‫رہے اسلیے زیبا نے دبے‬
‫دبے الفاظ میں مہرین کو‬
‫گھر کے کام کرنے کی‬
‫درخواست بھی کی ہے جس‬
‫پہ مہرین نے کوئی مناسب‬
‫جواب نہیں دیا اور زیبا کو‬
‫ایک دو دن بعد آنے کا کہا‬
‫ہے‪ ,‬فہد یہ سن کہ حیران ہو‬
‫گیا اور مہرین کو اپنے اور‬
‫وسیم کے درمیان ہوئی باتیں‬
‫بتانے لگا‪ ,‬باتوں باتوں کے‬
‫دوران مہرین نے اپنے بچے‬
‫کو دودھ پال کہ سال دیا اور‬
‫اسے جا کہ گہوارے میں لٹا‬
‫آئی‪ ,‬فہد اور مہرین زیبا کی‬
‫اپنے گھر میں مالزمت کو‬
‫لے کہ کسی حتمی نتیجے پہ‬
‫نہیں پہنچ رہے تھے اسلیے‬
‫مہرین نے فہد کو اپنے‬
‫شوہر سے مشورہ کرنے‬
‫تک انتظار کرنے کا کہا‪ ,‬فہد‬
‫اور مہرین اوپن حال میں‬
‫صوفوں کی ارینجمینٹ میں‬
‫بیٹھے باتیں کر رہے تھے‪,‬‬
‫فہد اٹھ کہ مہرین کے قدموں‬
‫میں بیٹھ کہ مہرین کی گود‬
‫میں سر رکھ کہ بیٹھ گیا‪,‬‬
‫مہرین فہد کے سر کو اپنی‬
‫انگلیوں سے مساج دینے‬
‫لگی‪ ,‬مہرین کی نرم اور‬
‫مالئم رانوں پہ سر ٹکائے‬
‫فہد مہرین سے باتیں کر رہا‬
‫تھا‪ ,‬محبت کے جملوں کے‬
‫تبادلے پہ کبھی مہرین فہد‬
‫کے سر اور گال کا بوسہ لے‬
‫لیتی اور اسی طرح فہد‬
‫مہرین کی رانوں کے بوسے‬
‫لینے لگ جاتا‪ ,‬فہد مہرین‬
‫کی رانوں میں سر دے کہ‬
‫چومتا جا رہا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫اپنی ٹانگوں کو دبا کہ اپنی‬
‫پھدی کی بے تابی چھپا رہی‬
‫تھی‪ ,‬فہد اپنے گھٹنوں کے‬
‫وزن پہ ہو کہ مہرین کی ران‬
‫چومتے چومتے مہرین کے‬
‫پیٹ کے بوسے لینے لگا‪,‬‬
‫مہرین صوفے پہ اپنا آپ‬
‫انڈیل کی فہدکو اپنی من‬
‫مرضی کرنے دے رہی تھی‪,‬‬
‫فہد مہرین کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان آتا تو مہرین ٹانگوں‬
‫کو دبا لیتی‪ ,‬فہد مہرین کی‬
‫ٹانگوں میں منہ دیے اپنے‬
‫ہاتھوں سے مہرین کے‬
‫گھٹنے پکڑ کی ٹانگوں کو‬
‫پھیالنے لگا‪ ,‬ہلکی سے‬
‫طاقت لگانے پہ مہرین نے‬
‫اپنی ٹانگیں ڈھیلی چھوڑ‬
‫دی‪ ,‬فہد نے مہرین کی‬
‫ٹانگوں کو پھیال کہ مہرین‬
‫کی پھدی کو کپڑے کے اوپر‬
‫سے ہی چوم لیا‪ ,‬جیسے ہی‬
‫مہرین کی پھدی سے فہد‬
‫کے ہونٹوں کا وزن پڑا تو‬
‫مہرین نے اپنی کمر کو ہال‬
‫کہ اپنا آپ بے تابی سے‬
‫کھسکا کہ آہ بھری اور‬
‫ٹانگوں کو مزید پھیال دیا‪,‬‬
‫فہد مہرین کی طرف رخ کر‬
‫کہ ٹانگوں کو پکڑ کہ مہرین‬
‫کی ٹانگوں میں منہ دے کہ‬
‫رانوں اور پھدی سے‬
‫چومنے لگا‪ ,‬مہرین اپنی کمر‬
‫کا لچکا لچکا کہ آہ آہ کر‬
‫رہی تھی اور جب فہد کا منہ‬
‫پھدی کے قریب آتا تو وہ‬
‫فہد کے سر کو پکڑ کہ‬
‫دبانے لگ جاتی‪ ,‬مہرین کی‬
‫ٹانگیں اٹھتی اٹھتی فہد کے‬
‫کندھوں پہ آ گئی اور گیلی‬
‫پھدی فہد کے ہونٹوں کے‬
‫عین پاس گئی‪ ,‬مہرین فہد‬
‫کے ہاتھ پکڑ کہ اپنے پستان‬
‫سہلوانے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫مہرین کی قمیض کو اٹھا کہ‬
‫پیٹ ننگا کر دیا‪ ,‬پھدی کا‬
‫گیال پن اب کپڑے کے اوپر‬
‫سے ہی فہد کو ذائقہ دے رہا‬
‫تھا‪ ,‬فہد نے تڑپتی ہوئی اپنی‬
‫بہن کی شلوار کو کھینچ کہ‬
‫پھدی کو ننگا کر دیا‪ ,‬اور‬
‫ایک بار مہرین کی پھدی‬
‫کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ‬
‫مال دیے‪ ,‬فہد کی گیلی زبان‬
‫جیسے ہی پھدی سے لگی‬
‫تو سانسوں کی گرمی سے‬
‫پھدی مچل گئی مہرین فہد‬
‫کو سر سے دبا کہ پھدی‬
‫سے مزید پیار کرنے کیلیے‬
‫آنہیں بھرنے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫بنا وقفہ ڈالے پھدی سے‬
‫چومنا شروع کیا اور اب‬
‫زبان سے مہرین کی پھدی‬
‫کو چاٹنا شروع کیا‪ ,‬فہد‬
‫مہرین کی پھدی کے ذائقے‬
‫سے پہلی بار متعارف ہو رہا‬
‫تھا اسلیے کچھ لمحے زبان‬
‫کو وقفے سے ہی پھدی کے‬
‫ہونٹوں پہ پھیرتا‪ ,‬جیسے‬
‫جیسے فہد کو پھدی کا‬
‫ٹیسٹ پسند آنے لگا ویسے‬
‫ویسے مہرین کی پھدی پہ‬
‫زبان چلنے لگی اور مہرین‬
‫کراہ کہ آنہیں نکالنے لگی‪,‬‬
‫فہد نے گیلی پھدی کے‬
‫سوراح پہ اپنی زبان کو رکھ‬
‫کہ اندر ڈال دیا‪ ,‬فہد کی زبان‬
‫اب ہونٹوں کے اندر باہر پھر‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین فہد کے سر‬
‫کو دبا دبا کہ جب فہد کو‬
‫اندر کرتی تو فہد بھی پوری‬
‫طاقت سے اپنا منہ پھدی‬
‫کے اندر ڈال دیتا جس سے‬
‫دانتوں کی ایک مخصوص‬
‫چبھن اور سانسوں کی گرم‬
‫ہوا سے مزہ دوباال ہو جاتا‪,‬‬
‫فہد پوری ذمہ داری سے‬
‫پھدی کے اندر باہر زبان‬
‫سے چاٹ رہا تھا اور موقع‬
‫ملنے پہ اردگرد سے چوم‬
‫بھی رہا تھا‪ ,‬مہرین کھسک‬
‫کھسک کہ صوفے سے‬
‫گرنے والی ہو چکی تھی‬
‫مگر جتنا مہرین کھسکتی‬
‫فہد اتنا ہی پھدی کے اندر‬
‫منہ ڈال کی مہرین کے وزن‬
‫کو سنبھال لیتا‪ ,‬فہد کے‬
‫ہونٹ ناک اور گال اپنی بہن‬
‫کی پھدی کے پانی سے لیس‬
‫دار ہو چکے تھے اور‬
‫باآلخر مہرین اس پرزور‬
‫چاٹنے کی وجہ سے‬
‫ڈسچارج ہونے کے قریب آ‬
‫گئی اور اپنی ٹانگوں کو فہد‬
‫کے کندھوں پہ کس کی‬
‫صوفے پہ ہی ایک سمت‬
‫میں اپنا آپ انڈیلنے لگی‪,‬‬
‫فہد کو جب اندازہ ہوا کہ‬
‫اسکی بہن ڈسچارج ہونے‬
‫والی ہے تو اس نے اپنے‬
‫سر اور گردن کو اور زور‬
‫سے پھدی میں دبا کہ چاٹنا‬
‫شروع کر دیا‪ ,‬مہرین آہ آہ‬
‫فہد اففف آہمم آہ آہ کرتے‬
‫ڈسچارج ہو گئ‪ ,‬فہد نے اپنا‬
‫منہ پیچھے ہٹا لیا مگر اپنی‬
‫بہن کی پھدی کا رس کچھ‬
‫منہ میں چال ہی گیا‪ ,‬فہد اس‬
‫نمکین سے ذائقہ سے لطف‬
‫اندوز ہوا مگر پہلی پہلی بار‬
‫ابھی پینے کی ہمت نہیں ہو‬
‫رہی تھی‪ ,‬مہرین ہونٹ‬
‫بھنچے آنکھیں بند کر کی‬
‫صوفے پہ گر کہ اپنے‬
‫ڈسچارج کا مزہ لیتے لیتے‬
‫بے حال ہو گئی‪ ,‬فہد اپنے‬
‫تنے ہوئے لن کو پاجامے‬
‫سے آزاد کر کہ مہرین کے‬
‫اوپر آ گیا‪ ,‬اور مہرین کا‬
‫پاجامہ اتار کہ اب اپنی بہن‬
‫کو چودنے کیلیے اوپر آ گیا‪,‬‬
‫مہرین نے فورا حوش‬
‫سنبھال کہ فہد کو رکنے کا‬
‫کہا‪ ,‬فہد لن کو ہاتھوں میں‬
‫لیے صوفے پہ ایک گھٹنے‬
‫کی وزن پہ مہرین کو اٹھتا‬
‫ہوا دیکھنے لگا‪ ,‬مہرین اٹھ‬
‫کہ کمرے کی طرف گئی اور‬
‫اندر سے ایک پیکٹ کو‬
‫اپنے دانتوں میں لے کہ کاٹ‬
‫کہ کھولنے لگی‪ ,‬فہد نے‬
‫بڑی حیرانی سے مہرین کی‬
‫طرف دیکھا فہد‪ :‬یہ کیا ہے‬
‫باجی؟مہرین نے فہد کے گال‬
‫گدگدا کہ جواب دیتے ہوئے‬
‫ایک غبارے نما چیز کو اندر‬
‫سے نکاالمہرین‪ :‬کونڈمفہد‪:‬‬
‫اچھا؟ یہ ہوتا ہے کونڈم؟فہد‬
‫ایک پاؤں زمین پہ رکھے‬
‫اور ایک گھٹنے کو صوفے‬
‫پہ رکھ کہ کھڑا تھا‪ ,‬مہرین‬
‫فہد کے لن کے سامنے بیٹھ‬
‫کہ لن پہ کونڈم چڑھانے‬
‫لگی‪ ,‬فہد کا موٹا اور لمبا لن‬
‫کونڈم کے چڑھانے کے‬
‫دوران مہرین کی ہتھیلیوں‬
‫سے مسال جا رہا تھا اسلیے‬
‫فہد کی مزے سے آہ آہ‬
‫مہرین باجی افف ہونے لگی‪,‬‬
‫مہرین کسی تجربہ کار گشتی‬
‫کی طرح لن پہ کونڈم‬
‫چڑھانے کیلیے پورا زور‬
‫لگا رہی تھی اور ساتھ ساتھ‬
‫اپنی بات کو بھی جاری کیے‬
‫ہوئے تھی مہرین‪ :‬اتنا بڑا‬
‫لن ہے تمہارا‪ ,‬آج میں بازار‬
‫گئی تھی تو کونڈم لے کہ‬
‫آئی‪ ,‬تم اب احتیاط سے کرنا‪,‬‬
‫میں دوبارہ پریگنینٹ نہیں‬
‫ہونا چاہتیلن پہ کونڈم چڑھا‬
‫کہ مہرین صوفے کے ایک‬
‫بازو پہ اپنا سینا چپکا کہ فہد‬
‫کے سامنے الٹی ہو گئی‪,‬‬
‫مہرین کا سارا وزن اسکے‬
‫گھٹنوں پہ تھا‪ ,‬مہرین نے‬
‫ٹانگیں ہلکی سی پھیال کہ‬
‫اپنج گانڈ کو پیچھے کو‬
‫نکاال ہوا تھا‪ ,‬مزے اور‬
‫سرور میں ڈوبا ہوا فہد‬
‫گونڈم میں پھنسے لن کو‬
‫پکڑ کہ مہرین کی گانڈ اور‬
‫پھدی کے سوراخ پہ رگڑنے‬
‫لگا‪ ,‬مہرین نے فہد کے لن‬
‫کو پکڑ کہ پھدی پہ رکھ کہ‬
‫اپنی گانڈ کو پیچھے کو کر‬
‫کہ لن اندر لینے کی کوشش‬
‫کی‪ ,‬فہد نےلن کو دبا کہ‬
‫اپنی بہن کی پھدی میں‬
‫دھکیال تو مہرین کی آہ نکل‬
‫گئی‪ ,‬فہد مہرین کی گانڈ کو‬
‫قابو کر کہ آہستہ آہستہ چود‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین کی صوفے‬
‫سے چپکی چھاتیاں فہد نے‬
‫اپنے ہاتھ سے زور سے‬
‫مسل دیں‪ ,‬مہرین کی پھدی‬
‫میں چودتے ہوئے فہد آہ آہ‬
‫باجی افف آہہ آہہمم آف‬
‫مہرین آہ اف باجی کی‬
‫آوازیں نکال رہا تھا‪ ,‬فہد جب‬
‫طاقت سے مہرین کو‬
‫چودنے لگا تو مہرین بھی‬
‫ایسی ہی بے قراری سے‬
‫کراہنے لگی‪ ,‬فہد اپنے‬
‫نیچے والے ہونٹ کو دانتوں‬
‫میں دبائے مہرین کو کمر‬
‫سے گرفت کر کہ اب پوری‬
‫طاقت سے جھٹکے مار رہا‬
‫تھا‪ ,‬زور دار چدائی کی وجہ‬
‫سے صوفہ بھی ہل ہل کہ‬
‫آوازیں پیدا کر رہا تھا اور‬
‫چودنے کی ٹپ ٹپ کی آوز‬
‫بھی پیدا ہو رہی تھی‪ ,‬ایسے‬
‫ہی چودتے چودتے فہد اور‬
‫مہرین یکے بعد دیگرے‬
‫ڈسچارج ہو کہ اسے صوفے‬
‫پہ ہانپتے ہوئے لیٹ گئے‬
‫فہد مہرین کو اپنی بانہوں‬
‫میں لے کے مہرین کو‬
‫پیچھے سے گلے لگا کہ‬
‫لیٹ گیا‪ ,‬فہد کا لن اب ڈھیال‬
‫پڑ رہا تھا اسلیے کونڈم کو‬
‫مہرین نے اپنے ہاتھ سے‬
‫احتیاط سے اتار کہ گرہ لگا‬
‫کہ ایک طرف رکھ دیا اور‬
‫اپنے بھائی کی بانہوں میں‬
‫گھر کہ آرام کرنے لگی‪ ,‬فہد‬
‫پرسکون انداز سے اپنی بہن‬
‫سے باتیں کرنے لگا اور ایم‬
‫ہاتھ سے مہرین کے نپل کے‬
‫گرد اپنج انگلی کو بے ربط‬
‫انداز میں پھیرنے لگا‪,‬‬
‫دونوں بہن بھائی اس قلیل‬
‫سی جگہ میں ایم دوسرے‬
‫سے چپک کہ لیٹے ہوئے‬
‫تھے فہد‪ :‬ویسے باجی؟ آج‬
‫آپ اتنا تیار کیوں‬
‫تھی؟مہرین‪ :‬بدھو انسان تم‬
‫کو اب یاد آیا؟فہد‪ :‬باجی‬
‫مجھے لگا کہ آپ کا آج باہر‬
‫جانے کا ارادہ ہو گا اسلیے‬
‫تیار ہوئی ہو گیمہرین‪:‬‬
‫تمہارے لیے تیار ہوئی تھی‬
‫پاگلفہد‪ :‬میرے لیے؟‬
‫کیوں؟مہرین‪ :‬اف ہو‪ ,‬کس‬
‫نان رومانٹک بندے سے پاال‬
‫پڑ گیا ہے میرافہد‪ :‬ہاں تو‬
‫اور کیا باجی‪ ,‬بھال آپ پہلے‬
‫کم خوبصورت ہیں جو آپ‬
‫مزید تیار ہو کہ قیامت‬
‫ڈھانے لگیایسے ہی محبت‬
‫بھری باتوں کا سلسلہ چلتا‬
‫رہا اور کچھ دیر بعد وہ‬
‫دونوں بیڈ پہ آ گئے مہرین‬
‫اور فہد دونوں برہنہ حالت‬
‫میں آ کہ ایک دوسرے سے‬
‫گلے لگ کہ سونے کی‬
‫کوشش کرنے لگے‪ ,‬مہرین‬
‫نے فہد کو بہت تنبیہ کر کہ‬
‫سمجھا دیا کہ اب چدائی‬
‫کونڈم کے بغیر نہیں ہو گی‬
‫اسلیے اگر رات کو نہ رہا‬
‫جائے تو کونڈم کا استعمال‬
‫الزمی کرے‪ ,‬مہرین نے ایک‬
‫کونڈم سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کہ‬
‫فہد کو گلے لگا کہ سونے‬
‫کی کوشش شروع کر دی‬
‫اور کچھ دیر بعد دونوں بہن‬
‫بھائی نیند کی وادیوں میں‬
‫چلے گئے‪ ,‬رات کے کسی‬
‫پہر فہد کی اور مہرین کی‬
‫محبت دوبارہ بھڑک اٹھی‬
‫اور نیند کی خماری میں ہی‬
‫مہرین فہد کو چوم چوم کہ‬
‫چدوانے کیلیے ٹانگیں پھیال‬
‫کہ فہد کو اوپر لے آئی‪ ,‬فہد‬
‫نے بنا کونڈم پہنے ایک بار‬
‫پھر مہرین کو چود دیا‪,‬‬
‫ایسے ہی ساری رات ایک‬
‫دوسرے کی بانہوں میں‬
‫چدائی کے بعد سو گئے‪,‬‬
‫صبح صبح فہد کا لن دوبارہ‬
‫سے مہرین کو چودنے‬
‫کیلیے ٹائیٹ ہو گیا‪ ,‬فہد جاگ‬
‫چکا تھا اور مہرین گہری‬
‫نیند میں تھی‪ ,‬فہد نے پاس‬
‫پڑے کونڈ کو کھول کہ لن پہ‬
‫چڑھا لیا اور سوئی ہوئی‬
‫اپنی بہن کو اوپر آ کہ‬
‫چومنے لگا‪ ,‬نیند میں ہی‬
‫مہرین فہد کا ساتھ دینے‬
‫لگی اور جب تک جاگی تو‬
‫فہد نے چدائی شروع کر دی‬
‫تھی‪ ,‬فہد نے ایک اور‬
‫پرزور چدائی کے بعد نیند‬
‫کو قبول کر لیا‪ ,‬صبح جب‬
‫مہرین باقاعدہ بیدار ہوئی تو‬
‫رات کی بہترین چدائی کے‬
‫مزے سے اپنی پھدی کو‬
‫سکون میں محسوس کر‬
‫رہی تھی‪ ,‬فہد حسب معمول‬
‫اپنی بہن کے سینے میں منہ‬
‫دے کہ گھوڑے بیچ کہ سو‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرین کو جلد ہی‬
‫اندازہ ہو گیا کہ رات جس‬
‫کونڈم کو پہن کہ فہد ے‬
‫اسے چودا تھا وہ بنا لن‬
‫سے اتارے سو گیا اور اب‬
‫وہ کونڈم وہیں وزن کے‬
‫نیچے آ کہ سارا سپرم بستر‬
‫پہ پھیال چکا ہے‪ ,‬فہد بیدار‬
‫ہوتے ہی مہرین کا دودھ‬
‫پینے لگا‪ ,‬مہرین رات والی‬
‫پرتکلف چدائی سے مطمئن‬
‫اپنی چھاتیوں کو اپنے بھائی‬
‫سے چسوا رہی تھی‪ ,‬کچھ‬
‫دیر بعد معامالت زندگی کو‬
‫سر انجام دینے کیلیے بہن‬
‫بھائی حرکت میں آئے اور‬
‫محبت کے اس سحر سے‬
‫آزاد ہو کہ اپنے اپنے کاموں‬
‫میں مصروف ہو گئے‪ ,‬فہد‬
‫نے ناشتہ کیا اور گیٹ تک‬
‫آتے آتے الوداع کہتے نہ‬
‫جانے کتنی بار اپنی بہن کے‬
‫ہونٹوں کے بوسے لیے اور‬
‫جلد واپسی کے وعدے پہ‬
‫فہد دفتر کیلیے روانہ ہو گیا‬

‫جاری ہے‬
‫الزوال محبت ‪[22/05, 10:50 pm] Nawab Zada:‬‬

‫سیکنڈ السٹ‬
waab Zada
Na

shahid writer
Most popular
Naval
‫فہد شام کو گھر‬
‫واپس آیا تو مہرین‬
‫نے پانی کا ایک‬
‫گالس اسے پیش‬
‫کرتے ھوۓ پوچھا‬
‫کیا بات ھے فہد آپ‬
‫یوں چپ چاپ سے‬
‫آ کر بیٹھ گئے ھو‬
‫خیریت تو ھے تو‬
‫فہد بوال آپی سب‬
‫ٹھیک ھے آپ‬
‫ایسے ھی پریشان‬
‫نہ ھوا کریں‬
‫مہرین بولی کیوں‬
‫بھئ پریشان کیوں‬
‫نہ ھوں دیکھ فہد‬
‫میں تیری سب کچھ‬
‫ھوں ماں دوست بہن‬
‫اور شاید بیوی بھی‬
‫مگر آپ مجھ سے‬
‫کچھ چھپا رھے‬
‫ھیں مہرین نے‬
‫وارفتگی سے اسکا‬
‫ہاتھ پکڑ کر بوال‬
‫اپنے جذبات کا‬
‫سودا مت کیا کرو‬
‫بلکہ اسے زبان پر‬
‫النا سیکھو‬

‫فہد بوال آپی پتہ ھے‬


‫آج کیا ھوا آج ایک‬
‫لڑکی دیکھی جو‬
‫میری نظروں کو‬
‫بھا گئ وہ دراصل‬
‫میری کولیگ ھے‬
‫اس سے پہلے وہ‬
‫میرے سامنے اتنے‬
‫چست لباس میں‬
‫کبھی نہیں آئی آج‬
‫اسے دیکھا تو بس‬
‫دیکھتا ھی رہ گیا‬
‫میں مہرین جو اپنے‬
‫بھائی سے بے حد‬
‫پیار کرتی تھی ایک‬
‫دم سے سکتے میں‬
‫آ گئ اسے کچھ‬
‫بولنا بھول گیا تھا‬
‫کہتے ھیں‬

‫عورت اپنا درد‬


‫چھپالیتی ھے اور‬
‫اس کے غور و فکر‬
‫کا ایک پہلو اسکو‬
‫اپنا آپ قربان کر‬
‫دینے پر اکساتا ھے‬
‫مہرین نے اپنے آپ‬
‫کو سنبھالتے ھوۓ‬
‫بولی یہ تو بہت‬
‫اچھی بات ھے پھر‬
‫اس بات کو آ گے‬
‫بڑھاؤ اور آپکی‬
‫شادی ھوجاۓ‬
‫میرے سارے فرض‬
‫ادا ھو جائیں‬

‫آپی میرا ایک‬


‫دوست ھے وہ کہتا‬
‫ھے کہ لڑکی کی‬
‫فیملی سے میرے‬
‫بہت اچھے تعلقات‬
‫ھیں آپ کہو تو میں‬
‫رشتے کی بات چال‬
‫دوں انکے کیساتھ‬
‫تو مہرین بولی فہد‬
‫ایک نہ ایک دن‬
‫آپکو شادی کرنا ھی‬
‫ھے اب وقت ھے‬
‫تم اپنے گھر والے‬
‫ھو جاؤ ورنہ پکی‬
‫عمر میں جا کر‬
‫شادی کریں تو پھر‬
‫اوال جلد نہیں ھوتی‬
‫اور اگر ھوتی بھی‬
‫ھے تو پھر جب‬
‫اوالد جوان ھوتی‬
‫ھے تب آپ خود‬
‫بوڑھے ھو جاتے‬
‫ھیں‬
‫آپ ایسا کریں کہ‬
‫اپنے دوست کو فون‬
‫کرو کہ کل ھم‬
‫لڑکی دیکھنے‬
‫آرھے ھیں آپ ان‬
‫سے بات کرو تو‬
‫فہد نے مہرین کا‬
‫حکم بجا التے ھی‬
‫نمبر مال دیا دوسری‬
‫طرف سے آواز آئی‬
‫جی فہد صاحب‬
‫السالم علیکم فہد‬
‫نے جواب دیا‬
‫وعلیکم سالم‬
‫نوابزادہ صاحب یار‬
‫وہ میری آپی مان‬
‫گئ ھیں وہ کل‬
‫رشتہ دیکھنے‬
‫آئینگی آپ کہہ‬
‫رھے تھے نہ کہ‬
‫لڑکی والے رشتہ‬
‫تالش کر رھے ھیں‬
‫تو آپ جاؤ آپی‬
‫کیساتھ اور بات‬
‫پکی کر کے آجاؤ‬
‫تو فہد کا دوست‬
‫بوال میں آج رات‬
‫بات کرکے ان کو‬
‫کل کا ٹائم دوں گا‬
‫آپ لوگ بے فکر‬
‫رھیں‬

‫آج مہرین نے‬


‫کڑھی اور پکوڑے‬
‫بناۓ تھے ماں کی‬
‫مرنے کے بعد فہد‬
‫اور مہرین کڑھی‬
‫پکوڑے بہت کم‬
‫بناتے تھے کیونکہ‬
‫اس ڈش سے ان‬
‫دونوں کی بہت‬
‫یادیں جڑی ھوئی‬
‫تھیں ناشتے کی میز‬
‫پر جب مہرین نے‬
‫کھانا لگایا تو کڑھی‬
‫دیکھ کر فہد بوال‬
‫واہ آپی آج بہت‬
‫پیاری خوشبو آ‬
‫رھی ھے تو مہرین‬
‫بولی‬

‫اپنے بھائی کے‬


‫لئیے اسکی پسندیدہ‬
‫ڈش بنائی ھے اب‬
‫آپ اپنی بہن کے‬
‫ہاتھ کی بنائی ھوئی‬
‫ڈشز کو یاد کیا‬
‫کروگی فہد مہرین‬
‫کی گردان سمجھ گیا‬
‫تھا اس نے ایک‬
‫نواال توڑا اور‬
‫مہرین کے منہ میں‬
‫ڈال دیا جو شاید‬
‫اپنے بچے کو دودھ‬
‫پال رھی تھی‬

‫وہ شروع سے ھی‬


‫بچے کو اپنے ساتھ‬
‫ھی ڈنر میں شامل‬
‫کیا کرتی تھی اسکا‬
‫ھاتھ اب آگے بڑھا‬
‫اور اس نے نواال‬
‫توڑ کر فہد کے منہ‬
‫میں ڈال دیا فہد نے‬
‫اپنی بہن مہرین کی‬
‫انگلی کو کاٹ لیا‬
‫مہرین آہ آہ بہت‬
‫ظالم ھو تم قسم سے‬
‫تو فہد مسکرا کر‬
‫بوال بس غلطی سے‬
‫سب کچھ ھوگیا اب‬
‫میرا کیا قصور ھے‬
‫دونوں بہن بھائی‬
‫ایک دوسرے‬
‫کیساتھ شرارتیں‬
‫کرنے لگے اور‬
‫کھانا کھا کر فہد‬
‫کچھ دیر کے لئیے‬
‫واک کرنے باہر‬
‫نکل گیا اور پھر‬
‫مہرین سوچنے لگی‬
‫کہ ا گر فہد شادی‬
‫کے بعد بدل گیا تو‬
‫پھر کیا ھوگا اسکا‬
‫یہی تو ایک سہارا‬
‫ھے جس نے کسی‬
‫رشتے ناطے کی‬
‫کمی اسے محسوس‬
‫تک نہیں ھونے دی‬

‫آج وہ پراۓ دھن‬


‫کی برمال تعریف‬
‫بھی کر رہا تھا شاید‬
‫وہ لڑکی فہد کا سب‬
‫کچھ چھین کر لے‬
‫گئ تھی اور فہد‬
‫ایک لوٹی ھوئی‬
‫جاگیر لگ رہا تھا‬
‫سیانے سچ ھی‬
‫کہتے ھیں‬
‫صدا نہ ماپے حسن‬
‫جوانی‬
‫صدا نہ صحبت‬
‫یاراں‬
‫پنجابی کا ایک‬
‫خوبصورت کالم‬
‫اسکے ذہن میں‬
‫اسکے ٹوٹتے ھوۓ‬
‫خوابوں کی عکاسی‬
‫کر رہا تھا اسے لگا‬
‫کہ وہ خوامخواہ‬
‫اپنے ذہن پر دباؤ‬
‫ڈال رھی اسے خود‬
‫کو سنبھالنا چاھئیے‬
‫تاکہ زندگی پھر‬
‫سے چین سے جی‬
‫سکے تو مہرین نے‬
‫ایک سائٹ پر بولڈ‬
‫ناول پڑھنا شرو ع‬
‫کر دیا جسکا ٹائٹل‬
‫تھا چھوٹا وارث جو‬
‫فیس بک پر‬
‫نوابزادہ شاہد نے‬
‫لکھا تھا مہرین کا‬
‫موڈ اس گھریلو‬
‫ناول کو پڑھ کر‬
‫کچھ اپ سیٹ سا ھو‬
‫گیا تھا اسکی اس‬
‫کی نظر سامنے‬
‫لگے کالک پر گئ‬
‫جہاں رات کے نو‬
‫بج رھے تھے اسکو‬
‫فکر ھونے لگئ کہ‬
‫فہد کہاں چال گیا‬
‫ھے تو‬

‫اس نے فہد کو کال‬


‫کی تو اسکو ایک‬
‫دھچکاسا لگا‬
‫کیونکہ فہد کا نمبر‬
‫مصروف جارہا تھا‬
‫تو مہرین نے ایک‬
‫بار پھر سے کوشش‬
‫کی اس نے دوبارہ‬
‫سے نمبر مالیا تو‬
‫موبائل سکرین پر‬
‫وھی الئن مصروف‬
‫واال انٹر فیس آیاتو‬
‫مہرین سمجھ گئ کہ‬
‫فہد ضرور اسی‬
‫لڑکی کیساتھ اپنا‬
‫چکر چال رہا ھے‬
‫اب اس تخت پر‬
‫ایک نئ ملکہ آ کر‬
‫حکمرانی کریگی‬
‫اب اس گھڑی کے‬
‫لئیے خود کو تیار‬
‫کرنا ھوگا وہ جتنا‬
‫اس پہیلی کو‬
‫سلجھانا چاھتی تھی‬
‫اب اتنا ھی فہد اس‬
‫اسکے سارے‬
‫حواسوں پر چھایا‬
‫ھوا تھا‬

‫رات کا اگال پہر‬


‫شرو ع ھوچکا تھا‬
‫فہد واپس گھر آیا تو‬
‫اسکو بہت افسوس‬
‫ھوا کہ مہرین اسکا‬
‫انتظار کرتے کرتے‬
‫سو گئ تھی نائٹی‬
‫سلیپنگ ڈریس میں‬
‫سوئی ھوئی مہرین‬
‫آج بھی پری لگ‬
‫رھی تھی اس نے‬
‫اپنے ہاتھ مہرین کی‬
‫ٹانگوں پر پھیرنا‬
‫شرو ع کر دیا‬
‫اسکی نرم و مالئم‬
‫ٹانگیں ھمیشہ سے‬
‫فہد کی توجہ کا‬
‫مرکز رھیں فہد نے‬
‫اپنے ھونت مہرین‬
‫کی رانوں پر رکھ‬
‫دئیے اور چومنا‬
‫شرو ع کر دیا وہ‬
‫اپنی بہن کو چومتا‬
‫ھوا لذتوں کے‬
‫سمندر میں ڈوبتا‬
‫جارہا تھااس نے اپنا‬
‫ھاتھ اب مہرین کے‬
‫گورے گورے‬
‫مموں پر پھیرنا‬
‫شرو ع کر دیا اف‬
‫مہرین اس سے‬
‫پہلے سنبھلتی اسکی‬
‫چوت والی سلطنت‬
‫پر فہد حملہ کر چکا‬
‫تھا اس نے اپنے‬
‫ھونٹ اپنی بہن کے‬
‫ھونٹوں سے مال‬
‫دئیے اور کسنگ‬
‫شرو ع ھوگئ‬

‫فہد نے کس کرتے‬
‫کرتے اپنا ایک ھاتھ‬
‫نیچے لے جا کر‬
‫مہرین کی چوت پر‬
‫لے جا کر اپنا لن‬
‫اس مہرین کی چوت‬
‫پر رگڑنا شرو ع‬
‫کر دیا دونوں ایک‬
‫دوسرے کو چومتے‬
‫چاٹتے ھوۓ مست‬
‫ھو چکے تھے فہد‬
‫نے دیکھا کہ اسکی‬
‫بہن کی چوت کے‬
‫اوپر رگڑ کھا رہا‬
‫مہرین اب پوری‬
‫طر ح گرم ھوچکی‬
‫تھی اس نے اپنا‬
‫ھاتھ نیچے لے جا‬
‫کر فہد کا لنڈ اپنی‬
‫چوت پر سیٹ کر‬
‫دیا اور فہد کو ایک‬
‫جسم دو جان ھونے‬
‫کی دعوت پیش کر‬
‫دی‬

‫فہد نے اپنے‬
‫کالوے میں لیکر‬
‫مہرین کو دبو چ لیا‬
‫اسکی سسکاری نے‬
‫اسکے جاگتے‬
‫رہنے کا بھید کھول‬
‫دیا‬

‫فہد نے دیکھا کہ‬


‫مہرین جاگ رھی‬
‫ھے تو اس نے‬
‫اپنے ھونٹ اسکے‬
‫ھونٹوں پر رکھ‬
‫دئیے اور اسکے‬
‫لبوں کی چاشنی کو‬
‫چوسنا شرو ع کر‬
‫دیا مہرن نے بھی‬
‫اپنی زبان فہد کے‬
‫منہ میں داخل کر‬
‫دی فرنچ کس کا‬
‫تجربہ رکھنے والے‬
‫فہد نے اپنی بہن کی‬
‫زبان کو چوسنا‬
‫شرو ع کر دیا‬
‫مہریں بہت گرم ھو‬
‫چکی تھی تو اس‬
‫نے اپنے بھائی کا‬
‫لنڈ پکڑ کر اپنی‬
‫چوت پر رکھا اور‬
‫اپنی کمر کو اچھال‬
‫دیا مہرین کی تنگ‬
‫چوت نے فہد کا‬
‫ٹوپہ اپنے اندر سما‬
‫لیا‬

‫فہد نے بھی ایک‬


‫زبر دست شارٹ‬
‫مارا لنڈ مہرین کی‬
‫چوت چیرتا ھوا‬
‫سارا اندر چال گیا‬
‫ظالم کی یہ ادا تھی‬
‫کہ پہال وار وہ بڑا‬
‫زور دار طریقے‬
‫سے کر تا تھا‬
‫‪[22/05, 10:50‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫الزوال ‪Zada:‬‬
‫محبت‬
‫پارٹ ‪2‬‬
‫فہد نے اپنا لنڈ جڑ‬
‫تک اپنی بہن کی‬
‫رسیلی چوت میں‬
‫داخل کر دیا مہرین‬
‫کی چیخ نکل گئ‬
‫اس نے اپنے ناخن‬
‫گاڑ دئیے اپنے‬
‫بھائی فہد کی کمر‬
‫پر اور لنڈ کی اس‬
‫وحشی پن کو‬
‫محسوس کرتے‬
‫ھوۓ اس نے بھی‬
‫اپنی کمر کو اچھالنا‬
‫شروع کر دیا‬

‫فہد کالنڈ اب بہت‬


‫تیزی سے اندر باہر‬
‫ھو رہا تھا مہرین‬
‫کی چوت نے ایک‬
‫گرفت بنالی تھی فہد‬
‫کے لن پر چوت‬
‫کے لب اب فہد کے‬
‫لن کو پوری طرح‬
‫رگڑ دے رھے‬
‫تھے مہرین نے‬
‫اپنی چوت کو‬
‫سکیڑتے ھوۓ فہد‬
‫کو نچوڑنے کا‬
‫فیصلہ کر لیا فہد‬
‫مہرین کو چودتے‬
‫ھوۓ ہانپنے لگا‬
‫فہد نے ایک زور‬
‫دار گھسا مارا اور‬
‫اپنا رس چھوڑ دیا‬
‫دونوں کا ایک‬
‫شاندار مالپ ھوا‬
‫اور پھر مہرین کی‬
‫جھیل جیسی گہری‬
‫چوت کناروں سے‬
‫رس ٹپکانےلگی‬
‫اور دونوں ایک‬
‫دوسرے پر نڈھال‬
‫ھو کر گر پڑے‬
‫مہرین لیٹ گئ‬
‫اسکی بغل میں فہد‬
‫بھی لیٹ گیا دونوں‬
‫بہن بھائیوں کی یہ‬
‫عادت تھی کہ‬
‫آرگزم ھوتے ھی‬
‫انکو قہر کی نیند‬
‫آتی تھی وہ ایک‬
‫دوسرے کی آغوش‬
‫میں خواب خرگوش‬
‫میں مصروف‬
‫ھوگئے‬
‫اگلی صبح مہرین‬
‫نے ناشتے کی میز‬
‫پر فہد کو بالیا آفس‬
‫کا ٹائم ھورہا تھا فہد‬
‫فریش ھوکر باہر آیا‬
‫تو دونوں بہن بھائی‬
‫ناشتہ کرنے لگے‬
‫عمبرین نے کہا فہد‬
‫آپ اپنے دوست کو‬
‫فون لگاؤ کیا‬
‫پروگرام بنایا ھے‬
‫تو فہد بوال جی اچھا‬
‫آپی میں کرتا ھوں‬
‫پہلے ناشتہ کر لوں‬
‫فہد نے ناشتہ کیا تو‬
‫اسکے دوست‬
‫نوابزادہ کا فون آ گیا‬
‫جناب کیا حال ھیں‬
‫فہد صاحب تو فہد‬
‫بوال کہ جی بھائی‬
‫میں خیریت سے‬
‫ھوں آپ سنائیں تو‬
‫اسکا دوست بوال‬
‫جناب کرم ھے‬
‫مالک کا دراصل‬
‫بات یہ ھے کہ میں‬
‫نے بات فائنل کر‬
‫لی ھے آپ دونوں‬
‫بہن بھائی آج آ کر‬
‫صباکو دیکھ لیں وہ‬
‫لوگ بھی آپکو دیکھ‬
‫لیں گے‬
‫جی بھائی جیسا آپکا‬
‫حکم چلیں شام کو‬
‫ملتے ھیں‬

‫چلیں صیح ھے آپ‬


‫لوگ کب آؤگے فہد‬
‫بوال میں شام کو‬
‫آؤں گاباجی بھی‬
‫ساتھ ھوگی تو اس‬
‫نے کہا میں آپکو‬
‫لینے آجاؤں گا اور‬
‫ڈراپ بھی کر جاؤں‬
‫گا آپ لوگ تیار‬
‫رہنااور کال کٹ گئ‬
‫مہرین خوشی سے‬
‫فہد کے گلے لگ‬
‫گئ اسکو یقین نہ‬
‫تھا کہ فہد اتنی‬
‫جلدی مان جاۓ گا‬
‫وارفتگی سے اب‬
‫وہ فہد سے لپٹ گئ‬
‫وہ جان چھڑاتا ھوا‬
‫بوال کہ سوری میں‬
‫لیٹ ھو رہا ھوں‬
‫مہرین نے اجازت‬
‫لی اور پھر وہ آفس‬
‫چال گیا‬
‫مہرین تیار ھونے‬
‫لگی اور اس نے آج‬
‫اپنی پسندیدہ فراک‬
‫پہنی تھی ٹائیٹ‬
‫چوڑی دار پاجامہ‬
‫اورسفید فراک پہنی‬
‫ھوۓ وہ پری لگ‬
‫رھی تھی اس نے‬
‫کالے رنگ کے‬
‫سینڈل پہنے کاال‬
‫چشمہ لگایا ہاتھوں‬
‫میں چوڑیاں پہنیں‬
‫اور کھنکھناتے‬
‫ھوئی چوڑیاں دیکھ‬
‫کر بہت خوش ھو‬
‫رھی تھی‬

‫عصر کا وقت تھا‬


‫جب دروازے پر‬
‫ہارن بجا تو مہرین‬
‫نے غور کیا اس‬
‫نے دروازہ کھوال‬
‫تو ہارن پھر بجا تو‬
‫مہرین نے ڈور‬
‫اوپن کرکے دیکھا‬
‫تو کالی شرٹ پہنے‬
‫پینٹ شرٹ میں‬
‫ملبوس چشمہ لگاۓ‬
‫ڈرائیونگ سیٹ پر‬
‫بیٹھا ایک نوجوان‬
‫اسے دیکھ کر‬
‫مسکرایا وہ شرما‬
‫گئ اور تب فہد ڈور‬
‫اوپن کر کے اندر‬
‫داخل ھو گیا‬
‫فہد نے مہرین کو‬
‫بوال کہ میرے‬
‫دوست کو کولڈ‬
‫ڈرنک دو اور خود‬
‫تیار ھونے چال گیا‬
‫تو مہرین نے‬
‫صوفے پر اپنے‬
‫سامنے براجمان‬
‫نوجوان کو کولڈ‬
‫ڈرنک پیش کی تو‬
‫اس نے کہا آپ‬
‫مہرین ھو تو وہ‬
‫شرما کر بولی جی‬
‫میں مہرین ھوں وہ‬
‫بوال میں نوابزادہ‬
‫شاہد ھوں فہد میرا‬
‫بھائی ھے آپکی‬
‫خوشی دیدنی ھے‬
‫آج بھائی کی خوشی‬
‫میں شریک ھوکر‬
‫آپ نے ھمارا مان‬
‫بڑھایا ھے‬

‫وہ دونوں باتیں کر‬


‫رھے تھے تب فہد‬
‫بوال جی چلیں تو‬
‫نوابزادہ بوال چلو‬
‫دیر ھورھی ھےوہ‬
‫دونوں پچھلی سیٹ‬
‫پر براجمان تھے‬
‫شاہد ڈرائیونگ‬
‫سیٹ پر تھا وہ دیکھ‬
‫رہا تھا بہن بھائی کا‬
‫پیار دیکھنے الئق‬
‫تھا کار اس وقت‬
‫ایک حویلی کے‬
‫سامنے جا رکی یہ‬
‫ایک جوائنٹ فیملی‬
‫سسٹم تھادروازے‬
‫پر انہیں خوش آمدید‬
‫کہا گیا اور پھر وہ‬
‫ایک بڑے سے روم‬
‫میں بیٹھ گئے اور‬
‫کچھ لوازمات اور‬
‫چاۓ کی محفل کے‬
‫بعد لڑکی کو بالیا‬
‫گیا اور سب افراد‬
‫ایک دوسرے سے‬
‫خاندانی بیک راؤنڈ‬
‫کے چرچے ایک‬
‫دوسرے کیساتھ‬
‫شئیر کئیے گئے‬
‫تیکھے نین نقش‬
‫سانولی رنگت پتلی‬
‫کمر صبا ایک‬
‫شرمیلی سی لڑکی‬
‫تھی اس نے مہرین‬
‫کو سالم کیا اور‬
‫اسکے ساتھ بیٹھ‬
‫گئی‬
‫مہرین کو لڑکی کی‬
‫ماں نے پوچھا آپ‬
‫کے آباؤ اجداد کس‬
‫شہر سے تھے تو‬
‫اس نے کہا ھم‬
‫بھارت کے شہر‬
‫جالندھر سے ہجرت‬
‫کرکے پاکستان آۓ‬
‫تھے اور ماں بتاتی‬
‫تھی کہ جالندھر‬
‫کے لوگ بہت‬
‫اچھے ھوتے ھیں‬
‫لڑکی کی ماں بولی‬
‫یہ تو بہت اچھی‬
‫بات ھے اصل میں‬
‫ھم بھی جالندھر‬
‫سے ھی ھیں‬

‫وہ سب باتیں کر ھی‬


‫رھے تھے کہ لڑکی‬
‫کا اکلوتا بھائی جس‬
‫کا نام سمیر تھا وہ‬
‫بوال کہ اگر بات‬
‫پکی ھوگئ ھے تو‬
‫پھر منہ میٹھا کروا‬
‫دیا جاۓ تو صبا جو‬
‫چوری چوری فہد‬
‫کو دیکھ رھی تھی‬
‫اور دیکھ تو پہلے‬
‫ھی لیا تھا سمیر اور‬
‫صبا بس دو بہن‬
‫بھائی ھی تھے‬
‫سمیر کام کے‬
‫سلسلے میں باہر‬
‫جانا چاہتا تھا‬
‫گھر میں چار‬
‫کمرے تھے جس‬
‫میں صبا اور سمیر‬
‫اپنے ماں باپ‬
‫کیساتھ رہ رھے‬
‫تھے انکے گھر کا‬
‫ماحول مہرین کو‬
‫بہت اچھا لگا‬

‫‪[22/05, 10:50‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫الزوال ‪Zada:‬‬
‫محبت‬
‫‪Last 3‬‬
‫فہد اور مہرین واال‬
‫شاہکار ناول پڑھیں‬
‫مکمل‬
‫مہرین اور فہد کو‬
‫لیونگ روم میں بٹھا‬
‫کر صبا کے سارے‬
‫گھر والےاندرونی‬
‫کمرے میں چلے‬
‫گئے اور یہ فیصلہ‬
‫کرنے لگے کہ اب آ‬
‫گے کا سیٹ اپ‬
‫کیسا ھونا چاھئیے‬
‫اور مہرین بھی بہت‬
‫خوش تھی کہ اسکو‬
‫ایک چاند جیسی‬
‫بھابھی ملنے والی‬
‫تھی فہد نے بوال‬
‫کیسی لگی میری‬
‫پسند تو مہرین بولی‬
‫آپکی پسند بہت‬
‫اچھی ھے مجھے‬
‫صبا نے پہلی‬
‫مالقاپ میں ھی‬
‫بہت امپریس کیا‬
‫ھے‬

‫شاہد سامنے تھا‬


‫اسی لیئے مہرین‬
‫شرما رھی تھی‬
‫شاہد بوال مہرین‬
‫صاحبہ آپ ایک بار‬
‫فائنل ھونے دیں ھم‬
‫دونوں بہن بھائی مل‬
‫کر اپنے بھائی فہد‬
‫کی شادی کی‬
‫شاپنگ کرینگے فہد‬
‫بوال جی جی بھال‬
‫میرا کون ھے آپ‬
‫کے سوا آپ لوگ‬
‫ھی میرا سب کچھ‬
‫ھو مہرین کچھ‬
‫بولتی مگر صبا اور‬
‫اسکے ماں باپ‬
‫دوبارہ لیونگ روم‬
‫میں آ کر بیٹھ گئے‬
‫اور تب سمیر بوال‬
‫کہ دیکھیں نوابزادہ‬
‫صاحب ھم سب گھر‬
‫والوں کو یہ رشتہ‬
‫پسند ھے اور ھم یہ‬
‫شادی جلد کرنا‬
‫چاھتے ھیں‬

‫کیونکہ ابھی میں‬


‫نے بیرون ملک‬
‫جانا ھے فالئٹ‬
‫اوپن ھیں اور‬
‫ھوسکتا ھے اگلے‬
‫ھفتے دوبارہ الک‬
‫ڈاؤن ھوجاۓ میں‬
‫چاہتا ھوں میرے‬
‫جانے سے پہلے‬
‫صبا اپنے گھر والی‬
‫ھو جاۓ تو میں‬
‫ایک بڑی ذمہ داری‬
‫سے آزاد ھوجاؤں‬
‫اور فری ھوکر ھی‬
‫جاؤں اگر آپ کا‬
‫کوئی ایشو ھے تو‬
‫بتا دیں ھم ابھی‬
‫سے ساری باتیں‬
‫کلیر کرلیں تو‬
‫مہرین نے کہا سمیر‬
‫بھائی اتنی جلدی ھم‬
‫تیاری کیسے‬
‫کرینگے میں اکیلی‬
‫ھی ھوں اسکی بہن‬
‫کچھ وقت تو دیا‬
‫ھوتا‬

‫سمیر بوال آپی آپ‬


‫بے فکر رھیں فہد‬
‫آج سے اس گھر کا‬
‫داماد ھے ھمیں‬
‫کسی چیز کی توقع‬
‫نہیں ھے بس آپ‬
‫لوگ خود آ جائیے‬
‫گا بڑا الجک مارا‬
‫ھے سمیر بھائی‬
‫نوابزادہ شاہد انکی‬
‫بات کو کاٹتے ھوۓ‬
‫بوال تو ساری محفل‬
‫مسکرا دی تو شاہد‬
‫بوال چلو فیر منہ‬
‫میٹھا کرواؤ کڑی‬
‫منڈے دا تے رسم‬
‫کرکے بات پکی‬
‫کریں‬
‫مہرین اٹھی اور اس‬
‫نے ایک رس گالب‬
‫جامن اٹھایا اور‬
‫اسے پھر صبا کے‬
‫لبوں کو لگا دیا اور‬
‫ساتھ ھی پانچ پانچ‬
‫ھزار کے دو نوٹ‬
‫اسکی مٹھی میں‬
‫دے دئیے مہرین کو‬
‫دیکھ کر صبا کی‬
‫امی نے بھی فہد کو‬
‫داماد تسلیم کرتے‬
‫ھوۓ اس کا منہ‬
‫میٹھا کروا دیا اور‬
‫پھر اتوار کادن‬
‫فائنل کر دیا گیا‬
‫سب ایک دوسرے‬
‫کو مبارکباد دینے‬
‫لگے‬
‫آج کا دن بہت‬
‫مبارک ھے میرے‬
‫بھائی کو اسکی‬
‫پسند مل گئ ایک‬
‫دوسرے کو‬
‫مبارکباد دیکر فہد‬
‫اور مہرین ان سے‬
‫اجاز ت لیکر گھر‬
‫واپس آ گئے دونوں‬
‫آج بہت شاد باد سی‬
‫ھو گیا اور شاہد‬
‫انکو گھر ڈراپ‬
‫کرکے اپنے گھر‬
‫چال گیا دونوں بہن‬
‫بھائی گھر واپس آ‬
‫کر بہت خوش تھے‬
‫مہرین بولی چاند‬
‫جیسی ھے میری‬
‫بھابھی فہد تم تو اس‬
‫کے پیچھے لٹو کی‬
‫طر ح گھوما کرو‬
‫گے فہد مہرین کو‬
‫بوال ابھی تو آغاز‬
‫ھے انجام خدا‬
‫جانے دونوں بہن‬
‫بھائی اب پالننگ‬
‫کر نے لگے شادی‬
‫کے انتظامات کی‬
‫اور پھر‬

‫فہد نے اب شاپنگ‬
‫شرو ع کر دی تھی‬
‫تو فہد بوال آپی اتنا‬
‫سارا کام ھے میں‬
‫اکیال کیسے ہینڈل‬
‫کروں گا آپ اپنے‬
‫دوست کو ساتھ‬
‫شامل کر لیں آپی‬
‫آپکو کوئی اعتراض‬
‫تو نہیں ھوگا تو‬
‫مہرین بولی بھال‬
‫مجھے کیا اعتراض‬
‫ھو سکتا ھے دونوں‬
‫بہن بھائی صبح‬
‫مارکیٹ جاتے اور‬
‫شام گئے واپس آتے‬
‫مہرین نے اپنے‬
‫شوہر کو بھی فہد‬
‫کی شادی کی‬
‫بریکننگ نیوز‬
‫سنائی اور وہ بھی‬
‫بہت خوش ھوۓ‬
‫مہرین نے اسے کہا‬
‫کہ آپ اب واپس‬
‫آجائیں اب میں بہت‬
‫کمی محسوس‬
‫کرونگی آپکی تو‬
‫اسکا شوہر اسے‬
‫کوشش کرنے کا‬
‫بول کر محو گفتگو‬
‫ھوگیا‬
‫دن گزرتے جارھے‬
‫تھے کل شام کو‬
‫مہندی تھی ابھی‬
‫بہت سارے‬
‫انتظامات باقی تھے‬
‫شاہد آیا اور اس نے‬
‫فہد سے پوچھا‬
‫بھائی شادی کی‬
‫تیاریاں کیسی‬
‫جارھی ھیں تو‬
‫مہرین بولی اچھے‬
‫دوست ھیں آپ ابھی‬
‫بہت ساری شاپنگ‬
‫رھتی ھے اور آپ‬
‫ھم سے جان چھڑوا‬
‫رھے ھو کاش آپ‬
‫ھمارے سگے بھائی‬
‫ھوتے تو ھمارے‬
‫ساتھ ھماری ھیلپ‬
‫کرتے نوابزادہ شاہد‬
‫نے فہد سے پوچھا‬
‫کہ آپکو پیسوں کی‬
‫ضرورت تو نہیں‬
‫تو فہد بوال یا ر‬
‫صرف کچھ‬
‫انتظامات باقی ھیں‬
‫اور سب کچھ ھے‬
‫میرے پاس‬
‫مہرین شاہد کیساتھ‬
‫مارکیٹ میں شاپنگ‬
‫کر رھی تھی اور‬
‫یہ انڈرگارمنٹس کی‬
‫مارکیٹ تھی مہرین‬
‫ایک شاپ میں داخل‬
‫ھوئی اور اس نے‬
‫کچھ بریزر اور‬
‫سامان خریدنا تھا وہ‬
‫تھوڑا شرما رھی‬
‫تھی شاہد کیساتھ‬
‫شاہد نے اسکا‬
‫حوصلہ بڑھایا اور‬
‫کہا آپ بالوجہ‬
‫پریشان ھورھی ھیں‬
‫مجھے آپ اپنا‬
‫بھائی ھی سمجھیں‬
‫اور اپنی پسند کی‬
‫ھر چیز خرید لیں‬
‫شاہد کی بات سن‬
‫کر مہرین کو فہد‬
‫یاد آ گیا کہ کاش وہ‬
‫ھوتا تو اپنے پسند‬
‫کی برا نکال کر‬
‫اسے دیتا اسکا‬
‫زیادہ تجربہ تھا‬
‫مہرین سے اس نے‬
‫ایک فوم والی برا‬
‫نکالی اور اس کی‬
‫گریس دیکھ کر‬
‫کافی امپریس ھوئی‬
‫مہرین نے چھتیس‬
‫اے سلیکٹ کیا تھا‬
‫سیلز مین نے مہرین‬
‫سے کہا کہ آپ‬
‫ٹرائی روم میں‬
‫جاکر اسے ٹرائی‬
‫کرلیں چاھیں تو‬
‫اپنے شوہر کو بھی‬
‫لے جائیں‬
‫سیلز مین کی بات‬
‫سن کر مہرین شرما‬
‫گئ اور بولی کچھ‬
‫نہیں شاہد نے‬
‫مہرین کے کان میں‬
‫کہا یہ تو مجھے آپ‬
‫کا شوہر سمجھ بیٹھا‬
‫ھے اب شوہر‬
‫کیساتھ ٹرائی روم‬
‫میں نہیں چلو گی تو‬
‫مہرین بولی سب‬
‫لوگ دیکھ رھے‬
‫ھیں کچھ خیال کرو‬
‫شاہد بوال وہ بھی‬
‫سوچیں گے کہ‬
‫اسکی بیوی ھے‬
‫بڑی خوبصورت‬
‫شاہد کے منہ سے‬
‫اپنی تعریف سن کر‬
‫وہ شرما گئ آج‬
‫پہلی بار کسی غیر‬
‫مرد کے منہ سے‬
‫اپنی تعریف سنی‬
‫تھی اس نے وہ کچھ‬
‫نروس تھی پر اسکو‬
‫بہت اچھا لگا تھا کہ‬
‫اسے کسی نے‬
‫خوبصورت کہا وہ‬
‫برا لیکر ٹرائی روم‬
‫جانے لگی تو شاہد‬
‫بھی اسکے پیچھے‬
‫پیچھے اندر داخل‬
‫ھونے لگا تو مہرین‬
‫نے ڈور الک کر دیا‬
‫بہت کمینی ھو تم‬
‫مہرین تمہیں جب‬
‫سے دیکھا ھے‬
‫تجھے پالینے کو دل‬
‫کرتا ھے‬
‫شاہد نے یہ بات‬
‫سرگوشی کے انداز‬
‫سے کہی تھی مگر‬
‫اندر ٹرائی روم میں‬
‫مہرین نے سن سن‬
‫لیا تھا اس نے ھنس‬
‫کر ٹال دیا اور‬
‫سوچنے لگی کہ یہ‬
‫بھی دیوانہ ھوا‬
‫پھرتا میرا نہ جانے‬
‫مجھ میں ایسی‬
‫کونسی خوبی ھے‬
‫کہ فہد کی طر ح‬
‫مجھ پر لٹو ھی‬
‫ھوگیا ھے‬

‫مہرین شاپنگ‬
‫کرکے باہر آئی تو‬
‫شاہد نے اسے‬
‫ڈرائیونگ سیٹ پر‬
‫بیٹھنے کو کہا اور‬
‫مہرین نے اسکی‬
‫بات مانتے ھوۓ‬
‫جلد ڈور کھول کر‬
‫اسکے ساتھ بیٹھ‬
‫جانا ھی مناسب‬
‫سمجھا اور شاپنگ‬
‫کا بل کیلکو لیٹ‬
‫کرنے لگے اس نے‬
‫پوچھا مہرین ایک‬
‫بات پوچھوں پھر‬
‫چلتے ھیں تو مہرین‬
‫اسکی آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر‬
‫دیکھتے ھوۓ بولی‬
‫جی فرمائیے تو‬
‫شاہد بوال آپ مجھ‬
‫سے اتنا ڈرتی کیوں‬
‫ھو تو مہرین بولی‬
‫میں تو نہیں ڈرتی‬
‫آپکو غلط فہمی‬
‫ھوئی ھے‬

‫شاہد بوال کہ آپ کو‬


‫محسوس کیا آپ‬
‫مجھ سے نظریں‬
‫چراتی ھو تو مہرین‬
‫بولی آپکی کوئی‬
‫گرل فرینڈ نہیں ھے‬
‫کیا شاہد نے کہا‬
‫اسی منزل کا‬
‫مسافرھوں‬
‫مگرمنزل مجھ سے‬
‫بہت دور بھاگ‬
‫رھی ھے مہرین‬
‫اس سے پہلے کچھ‬
‫سمجھتی شاہد نے‬
‫اپنا ہاتھ بڑھا کر‬
‫اسکی رانوں پر‬
‫پھیرنا شرو ع کر‬
‫دیا‬
‫مہرین کے جسم‬
‫میں ایک کرنٹ سا‬
‫لگا شاہد کے ہاتھ کا‬
‫لمس پاکر وہ حیا‬
‫سے سمٹ سی گئ‬
‫اس نے شاہد کا ھاتھ‬
‫جھٹک دیا اور بولی‬
‫کہ آپ مت کرو ایسا‬
‫ھم روڑ پر ھیں‬
‫کوئی دیکھ لے گا‬
‫شاہد بوال رھنے دو‬
‫نہ آپ مجھے اپنالو‬
‫نہ بہت ادھورا ھوں‬
‫مجھے مکمل کردو‬

‫مہرین اب گرم‬
‫ھونے لگی تھی‬
‫شاہد کا ہاتھ رینگتا‬
‫ھوا اسکی چوت‬
‫کے قریب تر جا‬
‫پہنچا تھا‬
‫‪[22/05, 10:51‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫الزوال ‪Zada:‬‬
‫محبت‬
‫السٹ پارٹ فور‬

‫مہرین نے شاہد کو‬


‫کہا چلیں اب گھر‬
‫چلتے ھی فہد‬
‫انتظار کرتا‬
‫ھوگا‪.‬شاہد نے‬
‫مہرین سے کہا آپ‬
‫مجھے بہت اچھی‬
‫لگتی ھو قسم سے‬
‫جب سے پہلی بار‬
‫آپکو دیکھا ھے تب‬
‫سے ھی میری‬
‫راتوں کی نیند حرام‬
‫ھوگئ ھے مہرین‬
‫شاہد کے منہ سے‬
‫نکلے ھوۓ الفاظ‬
‫سن کر شرم سے‬
‫الل ھو گئ وہ اپنی‬
‫ساری ہمت جتاتے‬
‫ھوۓ بولی‬

‫دیکھیں شاہد میں‬


‫ایک شادی شدہ‬
‫لڑکی ھوت میری‬
‫یہ الزوال محبت‬
‫کے حقدار صرف‬
‫میرے شوہر ھیں‬
‫وھی میری وجود‬
‫پر قابض ھیں شاہد‬
‫نے مہرین کا گورا‬
‫ہاتھ پکڑ کر سہالنا‬
‫شروع کر دیا اور‬
‫اسے بوال مہرین‬
‫جی اگر کوئی بہک‬
‫جاۓ تو‬

‫مہرین بولی آپ‬


‫شادی کرلیں تو شاہد‬
‫بوال تجربہ بت کم‬
‫ھے آپ کچھ‬
‫سکھادیں تاکہ کسی‬
‫سے مار نہ کھا‬
‫سکوں مہرین شاہد‬
‫کے سینے پر مکہ‬
‫مارتے ھوۓ بولی‬
‫تم بہت کمینے ھو‬
‫گھر تو جانے دو‬
‫ایسا نہ ھو جلدبازی‬
‫میں تم ہوش کھو‬
‫بیٹھو چلو اب گاڑی‬
‫سٹارٹ کرو بہت‬
‫دیر ھوگئ ھے‬
‫مہرین کی بات سن‬
‫کر شاہد نے‬
‫سٹیرنگ سنبھالتے‬
‫ھوۓ ایک دم گاڑی‬
‫سٹارٹ کر کے‬
‫ریس پر پاؤں رکھ‬
‫دیا شاید وہ عادت‬
‫سے مجبور تھا وہ‬
‫جب خوش ھوتا تو‬
‫وہ برق رفتاری کا‬
‫مظاہرہ کرتا اس نے‬
‫ایک خوبصورت سا‬
‫سونگ پلے راحت‬
‫فتح علی خان کا‬
‫ایسا بننا چھوڑ دے‬
‫ایسا سنوارنا چھوڑ‬
‫دے‬
‫گاڑی گھر کی‬
‫طرف بھاگ رھی‬
‫تھی اور دونوں‬
‫نظریں چرا چرا کر‬
‫ایک دوسرے کی‬
‫طرف دیکھ رھے‬
‫تھے مہرین بھی اب‬
‫فرینک ھورہی تھی‬
‫شاہد کیساتھ دونوں‬
‫یہ غزل انجوائے‬
‫کرنے لگے دوستو‬
‫یہ کہانی ایڈمن‬
‫نوابزادہ شاہد نے‬
‫اپنے چینل پر لکھی‬
‫اکثر چور حضرات‬
‫میرا ڈیٹا چوری‬
‫کرلیتے ھیں اسی‬
‫وجہ سے میں نے‬
‫یہ کہانی روک دی‬
‫تھیں چلیں پڑھیں‬
‫شاھب اور مہرین آ‬
‫گے بڑھنا چاھتے‬
‫تھے پر انہیں موقع‬
‫نہیں مل رھا تھا‬
‫مہرین کو بھی شاہد‬
‫اچھا لگنے لگا تھا‬
‫دونوں اب گھر پہنچ‬
‫گئے ڈھیر ساری‬
‫چیزیں اس نے‬
‫مہرین کے حوالے‬
‫کیں تو مہرین نے‬
‫فہد کو شاپنگ کی‬
‫تفصیالت دیں اور‬
‫کچھ دیر بعد شاہد‬
‫بوال جی اب مجھے‬
‫دو اجازت تو فہد‬
‫نے شاہد کو بوال‬
‫یار کل سے مہمان‬
‫آنا شرو ع ھو‬
‫جائینگے تم آج‬
‫بیڈپر مسہری سجا‬
‫دو تو شاہد بوال یار‬
‫ڈیکوریشن والے کو‬
‫فون کر دیتا ھوں وہ‬
‫سب کچھ سیٹ کر‬
‫دے گا تو مہرین‬
‫بولی آپ اور میں‬
‫کرینگے نہ مسہری‬
‫سیٹ بالوجہ‬
‫ڈیکوریشن والے کو‬
‫پیسے دیں شاید‬
‫مہرین بھی شاہد‬
‫کیساتھ اپنا وقت‬
‫گزارنا چاھتی تھی‬
‫مہرین کو شاہد ایک‬
‫دلچسپ انسان لگا‬
‫تھا اسی لئیے وہ‬
‫بھی شاہد کو الئن‬
‫مارنے لگی تھی‬
‫صبافہد کا جہیز کا‬
‫سامان آج شفٹ‬
‫ھوگیا تھا جس کو‬
‫شاہد اور مہرین نے‬
‫مل کر سیٹ کر دیا‬
‫تھا صبا کے بھائی‬
‫سمیر نے ضرورت‬
‫زندگی کی ھر چیز‬
‫اسے دی تھی جسے‬
‫بڑے سلیقے سے‬
‫سجایا گیا تھا ڈبل‬
‫بیڈ پر شاہد مسہری‬
‫کی لڑیاں لگا کر بیڈ‬
‫کو چاروں طرف‬
‫سے خوبصورت‬
‫لڑیوں سے سجادیا‬
‫گیا تھامہرین نے بیڈ‬
‫پر ایک خوبصورت‬
‫انگلش کا لفظ ایف‬
‫اور ایس لکھا اور‬
‫بیڈ کے میٹرس پر‬
‫چادر پچھا کر فہد‬
‫کی سہاگ رات کی‬
‫سیج کو خوبصورت‬
‫پھولوں سے سجا‬
‫دیا گیا تھا دونوں‬
‫سہاگ کی سیج پر‬
‫ایک دوسرے‬
‫کیساتھ شرارتیں کر‬
‫رھے تھے‬

‫شاھد نے مہرین‬
‫سے کہا آپکا بھائی‬
‫سہاگ رات مناۓ گا‬
‫اس بیڈ پر اور ھم‬
‫ایسے ھی محنت کر‬
‫رھے تو مہرین‬
‫بولی یہ وقت تو‬
‫سب پر آتا ھے‬
‫تمہارے اوپر بھی آ‬
‫سکتا ھے تو شاہد‬
‫بوال آیا تو تھا مگر‬
‫تم ڈر گئ مہرین‬
‫نروس ھوتے ھوۓ‬
‫بولی آپ تو روڑ کا‬
‫خیال بھی نہیں‬
‫کرتے جہاں دیکھا‬
‫بس شروع ھو گئے‬
‫تو شاہد بوال ابھی تو‬
‫موقع ھے وہ بولی‬
‫کبھی لڑکی نئیں‬
‫دیکھی تو شاہد بوال‬
‫دیکھی ھیں مگر تم‬
‫پہلی بار ملی ھو‬
‫شاہد نے اسکا ھاتھ‬
‫پکڑ کر بوال دیکھو‬
‫سہاگ رات کی سیج‬
‫تیار ھے آپ‬
‫چاھوتو ھم اس‬
‫گھڑی کا فائدہ‬
‫اٹھاسکتے ھیں ھم‬
‫کیونکہ فہد ابھی‬
‫اپنے سوٹ کا اور‬
‫شیروانی کا آڈر‬
‫دینے گیا ھوا ھے‬
‫مہرین بولی شاہد‬
‫آپ میرے بھائی‬
‫جیسے ھو پلیز‬
‫ایسانہیں ھوسکتا‬
‫مہرین نے روائیتی‬
‫نخرہ دکھایا عورت‬
‫کے پاس شاید نخرہ‬
‫دکھانے کا یہی ایک‬
‫موقع ھوتا ھے‬
‫پھولوں کی سیج‬
‫جوان ھمسفر اور‬
‫تنہائی ھر رت پیار‬
‫کی تو تھی تبھی تو‬
‫شاہد نے مہرین کو‬
‫اپنے حصار میں‬
‫لے لیا اور اسکے‬
‫ھونٹ چوسنا شروع‬
‫کر دیا‬

‫مہرین نہ نہ کرتی‬
‫رھی مگر شاہد نے‬
‫اسکی چھاتیوں پر‬
‫اپنا جادو چالنا‬
‫شروع کر دیا تھا‬
‫دونوں ایک بار بہت‬
‫قریب تر ھوکر‬
‫واپس آۓ تھے جب‬
‫شاپنگ کر نے گئے‬
‫تھے مگر وہاں‬
‫ھجوم تھا اور یہاں‬
‫تنھائی تھی تو شاہد‬
‫نے مہرین کی‬
‫شارٹ شرٹ اتار‬
‫دی اس نے دیکھا‬
‫کہ مہرین نے وھی‬
‫فوم والی برا پہنی‬
‫ھوئی تھی جو اس‬
‫نے شاہد کے‬
‫سامنے مارکیٹ‬
‫سے خریدی تھی‬
‫شاہد نے دیکھا‬
‫مہرین کے ٹینس‬
‫کے بال جیسے‬
‫مموں کو مسلنے‬
‫لگا اور اپنے مموں‬
‫پر پرایا لمس پا کر‬
‫مہرین کے پورے‬
‫وجود میں ایک‬
‫سنسنی سی دوڑ گئ‬
‫شاہد جانتا تھا کہ‬
‫فہد کسی بھی وقت آ‬
‫سکتا ھے تو اس‬
‫نے مہرین کو لٹا دیا‬
‫بیڈ پر اور خود‬
‫نیچے کھڑا ھوگیا‬
‫شاہد نے مہرین کی‬
‫ٹائیٹ اتارنا چاھی‬
‫تو مہرین بولی شاہد‬
‫پلیز میں کسی کو‬
‫امانت ھوں‬

‫مجھے چھوڑ دیں‬


‫پلیز جو ھوگیا بس‬
‫اتنا ھی کافی ھے‬
‫مگر شہوت سے‬
‫چوری مہرین کی‬
‫اٹھتی ھوئی کمر‬
‫اور تنے ھوۓ نپل‬
‫دیکھ کر پکڑی گئ‬
‫شاہد دل میں‬
‫سوچنے لگا کہ‬
‫سالی کی بلی پورا‬
‫کباب کھانے کو‬
‫تیار ھے مگر‬
‫نخرے دکھا رھی‬
‫ھے تو اس نے‬
‫دیکھا کہ مہرین کی‬
‫آنکھیں بند ھیں تو‬
‫اس نے ٹائیٹ کو‬
‫پکڑا اور کھینچ کر‬
‫نکال دیا ساتھ اسکی‬
‫ننگی چوت سامنے‬
‫عیاں ھو گئی‬
‫ٹائیٹ نکل کر‬
‫جیسے نیچے گری‬
‫تو مہرین کو گوری‬
‫چوت شاہد کے‬
‫سامنے آ گئ اس‬
‫نے اپنی گوری‬
‫چوت پر اپنے ھاتھ‬
‫رکھ لئیے اور اپنے‬
‫گورے گورے‬
‫ھاتھوں سے اپنی‬
‫چوت کو چھپا لیا‬
‫مہرین کی یہ ادا‬
‫دیکھ کر شاہد کے‬
‫لنڈ نے انگڑائی لن‬
‫اور پینٹ میں تمبو‬
‫سا بن گیا اس نے‬
‫مہرین سے کہا بہت‬
‫ظالم ھو آپ مہرین‬
‫ایسا کیا کر دیا میں‬
‫نے مہرین سریلی‬
‫اواز میں بولی تو‬
‫شاہد بوال ہاتھ کیوں‬
‫رکھ لیا تم نے اپنی‬
‫چوت پر مہرین اااہ‬
‫ممم مم مت کرو‬
‫شاہد‬
‫شاہد نے بڑے پیار‬
‫کیساتھ پہلے ایک‬
‫ہاتھ اٹھایا مہرین کی‬
‫چوت سے تو پھر‬
‫دوسرا ہاتھ اس نے‬
‫دبا کر رکھ لیا اپنی‬
‫چوت پر شاہد نے‬
‫مہرین کی کالئی‬
‫پکڑی تو اسکا ہاتھ‬
‫اسکی گوری چوت‬
‫سے دور ھٹ گیا‬

‫مہرین نے اپنی‬
‫کالئی چھڑانا چاھی‬
‫تو اسکی چوڑیاں‬
‫کھنکتی ھوئی ٹوٹ‬
‫کر بیڈ پر جا گریں‬
‫بہت پیارا احساس‬
‫تھا یہ کہ مہرین‬
‫ایک سہاگ رات‬
‫کی سیج پر نئ دلہن‬
‫جتنا نخرہ دکھا‬
‫رھی تھی حسن کی‬
‫یہی ادا دیوانوں کا‬
‫دل لوٹ لیا کرتی‬
‫ھے اور لوڑے کا‬
‫غرور بن جایا کرتی‬
‫ھے‬
‫مہرین کا ہاتھ اسکی‬
‫گوری چوت سے‬
‫ھٹتے ھی اسکا‬
‫سارا نخرہ ایک پل‬
‫میں ختم ھوگیا‬
‫کیونکہ مہرین کی‬
‫کلین شیو چوت‬
‫خوشی کے آنسو بہا‬
‫چکی تھی لنڈ سے‬
‫مالپ کا یہ لمحہ‬
‫اسکی چوت کو‬
‫خوشی کے آنسو‬
‫رال رہا تھا شاہد نے‬
‫اپنالنڈ مہرین کی‬
‫چوت پر رکھا اور‬
‫اسے رگڑنا شرو ع‬
‫کر دیا‬

‫شاہد نے اپنا لنڈ‬


‫سے مہرین کی‬
‫چوت کے تاج کو‬
‫چھیڑنا شروع کر‬
‫دیا لنڈ اور پھدی‬
‫ایک دوسرے کو‬
‫چوم رھے تھے‬
‫مہرین کی چوت اس‬
‫نئے لن کو پہچان‬
‫رھی تھی اس کو‬
‫اب سرور آ گیا تھا‬
‫شہوت نے مہرین‬
‫کو آن گھیرا تو اس‬
‫نے اپنا ھاتھ نیچے‬
‫لیجاکر شاہد کا لن‬
‫اپنی پنک چوت کے‬
‫لبوں پر رکھا شاہد‬
‫سمجھ گیا لوہا‬

‫اب پوری طر ح‬
‫سے گرم ھے تو‬
‫اس نے لنڈ کو چوت‬
‫کے نرم سوراخ پر‬
‫محسوس کیا مہرین‬
‫نے ایک بار پھر لنڈ‬
‫نشانے پر رکھا اور‬
‫اپنی کمر کو اچھال‬
‫دیا اسکایہ انداز لن‬
‫کو اندر جانے کا‬
‫راستہ فراہم کرنے‬
‫لگا شاہد کے لئیے‬
‫یہ لمحہ حیران کن‬
‫تھا تھوڑی دیر‬
‫پہلے نہ نہ کرنے‬
‫والی مہرین اب اپنی‬
‫کمر اچھال کر اسکا‬
‫الل سپاڑہ اپنی‬
‫چوت میں لے چکی‬
‫تھی شاھد نے‬
‫مہرین کے کندھوں‬
‫پر اپنا ھاتھ رکھا‬
‫اور ایک زور دار‬
‫جھٹکا مارا تو اس‬
‫کا لن مہرین کی‬
‫چوت کے ٹشوز پر‬
‫رگڑدیتا ھوا اندر‬
‫تک چال گیا مہرین‬
‫اااہ ممم ممم مر‬
‫گگگ گگگ گئی‬
‫شش شش شاہد‬
‫مہرین کی ایک‬
‫زور دار چیخ نکلی‬
‫جسے شاہد نے‬
‫اپنے لبوں کو‬
‫اسکے لبوں پر رکھ‬
‫کر خاموش کروا دیا‬
‫اس نے ایک اور‬
‫دھکا مارا تو‬
‫سسکتی ھوئی‬
‫مہرین تھوڑا‬
‫پیچھے ھٹی مگر‬
‫شاہد نے اسے اپنے‬
‫نیچے دبوچ لیا تھا‬
‫مہرین کی چوت‬
‫کے اندرونی‬
‫دیواریں بہت زیادہ‬
‫رگڑ دینے لگیں اور‬
‫وہ اب اپنی کمر کو‬
‫اچھال کر شاہد کا‬
‫ساتھ دینے لگی‬
‫شاہد کا پیٹ مہرین‬
‫کے گورے پیٹ‬
‫سے مس ھورھا تھا‬
‫مہرین کے گول‬
‫گول ممے اب شاہد‬
‫کے ھاتھوں کی‬
‫زینت بنے ھوۓ‬
‫تھے شاہد نے اپنا‬
‫لنڈ مہرین کی چوت‬
‫کے اندر باہر کرنا‬
‫شروع کر دیا تھا‬
‫مہرین نے اپنے ہاتھ‬
‫شاہد کی کمر پر‬
‫رکھ کر اسے آ گے‬
‫بڑھنے کو کہا اب آ‬
‫گ نے دونوں کو‬
‫اپنی لپیٹ میں لے‬
‫لیا تھا اس نے اپنی‬
‫ٹانگیں لپیٹ دی‬
‫شاہد کی کمر کے‬
‫گرد اااہ فک می اااہ‬
‫ہارڈ وہ بے باکی‬
‫سے جو منہ میں ایا‬
‫بولتی گئی‬

‫مہرین نے شاہد کے‬


‫جاندار گھسوں کی‬
‫بدولت جلد پانی‬
‫چھوڑ دیا اسکی‬
‫خوشی دیدنی تھی‬
‫اس نے اپنی چوت‬
‫کو صاف کیا اور‬
‫شاہد نے خود لیٹ‬
‫کر مہرین کو اپنے‬
‫لنڈ کی سواری کی‬
‫دعوت دے دی‬
‫جسے اس نے قبول‬
‫کر لیا اور مہرین‬
‫نے شاہد کے لنڈ پر‬
‫اپنا تھوک لگایا اور‬
‫اسے بڑی غور‬
‫سے دیکھنے لگی‬
‫مہرین نے لنڈ پر‬
‫اپنے ھونٹ رکھ کر‬
‫ایک شاندار چوسا‬
‫لگایا اور اپنی چوت‬
‫پر سیٹ کیا اور‬
‫اپنی کمر کو‬
‫زبردست جھٹکا دیا‬
‫تو‬

‫شاہد کا لنڈ مہرین‬


‫کی چوت کو چیرتا‬
‫ھوا مہرین کی ناف‬
‫تک چال گیا آج پہلی‬
‫بار مہرین کا بڑے‬
‫لن اور پراۓ مرد‬
‫سے واسطہ پڑا تھا‬
‫مہرین اب لنڈ کے‬
‫اوپر نیچے ھورھی‬
‫تھی اور اسکے‬
‫ممے ہل رھے تھے‬
‫دونوں طرف‬
‫برداشت کی حد ختم‬
‫ہوتی جارہی مہرین‬
‫شاہد کو بولی تم باز‬
‫نہیں ائے نہ اگر‬
‫بچہ ھو گیا تو شاہد‬
‫بوال تم مانع حمل‬
‫والی ٹیبلٹ استعمال‬
‫کر لینا مہرین بولی‬
‫وہ تو میں کرونگی‬
‫ہی مگر تم احتاط‬
‫سے اندر فارغ مت‬
‫ھونا شاہد اپنے لنڈ‬
‫پر سواری کرتے‬
‫ھوئے مہرین کو‬
‫دیکھ رہا تھا مہرین‬
‫نے بھی اوپر نیچے‬
‫ھوتے ھوئے نیچے‬
‫دیکھا تو سارا لن‬
‫اسکی چوت میں‬
‫چال گیا تھا مہرین‬
‫شاہد سے بولی بہت‬
‫بڑا ھے تمہارا پتہ‬
‫نہیں کیا کھاتے ھو‬
‫تو شاہد بوال سالی‬
‫پورا لے تو لیا تم‬
‫نے اب کونسا باقی‬
‫رہ گئیا ھے مہرین‬
‫بولی پتہ ھے کتنی‬
‫مشکل سے لیا ھے‬
‫ساال میری ناف تک‬
‫گیا ھے بہت مار‬
‫کرتا ھے شاہد نے‬
‫مہرین کی گانڈ کے‬
‫نیچے ہاتھ رکھا‬
‫اور اپنی رفتار بڑھا‬
‫دی مہرین بھی اب‬
‫گرم ھو چکی تھی‬
‫وہ چالنے لگی اااہ‬
‫فک می فک می‬
‫ہارڈ ااہ ممم اااہ‬
‫ززززو زور سے‬
‫ااہ ممم مار ڈڈا ڈڈ‬
‫ڈاال ااااہ اف اس نے‬
‫شاہد کی آنکھوں‬
‫میں آنکھیں ڈال کر‬
‫ایک فاتحانہ‬
‫مسکراہٹ دی اور‬
‫شاہد نے اپنا پانی‬
‫مہرین کی چوت‬
‫میں ھی چھوڑ دیا‬
‫اور لذت کے سمندر‬
‫میں ڈوب گئے آج‬
‫بڑی دیر بعد شاہد کا‬
‫اتنا سرور بھرا آ‬
‫رگزم ھوا تھا اسکا‬
‫لنڈ کافی دیر اپنی‬
‫برسات مہرین کی‬
‫چوت پر کرتا رہا‬
‫مہرین شہوت کی‬
‫لذت سے باہر ھوئی‬
‫تو اسکو شرمساری‬
‫ھوئی کہ اس نے‬
‫کیا کر دیا ھے‬
‫دونوں مستی کی‬
‫دنیا سے باہر آۓ‬
‫اور فریش ھونے‬
‫چلے گئے دونوں‬
‫جلدی سے ایک ھی‬
‫واش روم میں گھس‬
‫گئے فہد جب واپس‬
‫آیا تو اس نے اپنے‬
‫بیڈ پر ٹوٹی ھوئی‬
‫چوڑیاں دیکھیں اور‬
‫مہرین کے گیلے‬
‫بال دیکھے تو وہ‬
‫سمجھ گیا کہ‬

‫اسکی اور مہرین‬


‫کی مجبت اب تقسیم‬
‫ھو چکی ھے‬
‫مہرین نے فہد کے‬
‫استفار پر مسکرا‬
‫کر سب اچھا ھے کا‬
‫گرین سگنل دے دیا‬
‫تو فہد بھی سمجھ‬
‫گیا کہ مہرین میری‬
‫شادی کے بعد اکیلی‬
‫رہ جائیگی اس کو‬
‫بھی شاہد کی‬
‫صورت اعتماد‬
‫ساتھی مل گیا ھے‬

‫آج اتوار کے دن فہد‬


‫اور صبا کی شادی‬
‫بڑے جوش و‬
‫خروش سے انجام‬
‫پائی اورشادی کے‬
‫پروقارموقع پر‬
‫دونوں بہت خوش‬
‫تھےمہرین نے‬
‫دودھ گرم کرکے‬
‫روم میں رکھ دیااور‬
‫فہد کو بولی اب‬
‫میرا بھائی ساری‬
‫توجہ اپنی بیوی پر‬
‫دو اسکا تم پر حق‬
‫ھےشاید یہ بات اس‬
‫نے دل پر پتھر رکھ‬
‫کر کہی تھی اب‬
‫مہرین حرص میں‬
‫جلنے لگی اور فہد‬
‫صبا کیساتھ راتیں‬
‫رنگین کرتا رہا‬
‫مہرین نے شاہد‬
‫کیساتھ شامیں‬
‫گزارنا شروع کر‬
‫دیں جب شام کو‬
‫صبا اور فہد باہر‬
‫گھومنے جاتے تو‬
‫مہرین اداس ھو‬
‫جاتی اسکو سبق‬
‫یہی مال پرایا مرد‬
‫پرایا ھوتا ھے اور‬
‫اپنا مرد ہی ساری‬
‫عمر وفا کرتا ھے‬

‫پھر صبا کے پیار‬


‫میں فہد سب کچھ‬
‫بھول گیا اس نے‬
‫جلد ھی ھنی مون کا‬
‫پروگرام بنایا اور‬
‫ایک ماہ کے وزٹ‬
‫پر سوئٹزرلینڈ نکل‬
‫گیا بعد میں گھر‬
‫میں شاہد اور مہرین‬
‫رہ گئے دونوں نے‬
‫کچھ دن اکٹھے‬
‫گزارے پھر مہرین‬
‫کو ایک دن اسکے‬
‫شوہر کی کال آئی‬

‫اسکے شوہر نے‬


‫کہا ڈارلنگ آپکے‬
‫لئیے ایک سرپرائز‬
‫ھے بھال بوجھو تو‬
‫مہرین بولی آپ‬
‫واپس آ جائینگے نہ‬
‫تو اسکا شوہر بوال‬
‫جان آجاؤنگا نہیں‬
‫بلکہ آ گیا ھوں ابھی‬
‫کراچی ائیر پورٹ‬
‫پر اترا ھوں سوچا‬
‫آپکو سرپرائز دے‬
‫دوں خوشی سے‬
‫اسکی اکھیاں چھلک‬
‫گئیں وہ شاھد‬
‫کیساتھ سوئی ھوئی‬
‫تھی مہرین نے جلد‬
‫کپڑے پہنے اور‬
‫شاہد کو بولی شکر‬
‫ھے پکڑے نہیں‬
‫گئے اس نے پہلے‬
‫ہی انفارمیشن دے‬
‫دی آپ جلدی سے‬
‫فریش ھوجاؤ وہ آ‬
‫رھے ھیں‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم‬
‫شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫یہ کہانی نوابزادہ‬
‫شاہد نے مکمل کی‬
‫اپنے ٹیلی گرام‬
‫چینل کے لیئے‬
‫مزید ناول پڑھنے‬
‫کےلئیے ھمارا‬
‫چینل سبسکرائب‬
‫کریں اور پڑھیں‬
‫منفرد ناول‬

‫‪03067007824‬‬

You might also like