You are on page 1of 105

‫یاسر اور اس کی دو بہنیں‪ ،‬وہ اور میں‬

‫ہیلو دوستو۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔ دوستو یہ تو طے ہے کہ‬


‫ب آرزو نہیں مال کرتا ۔۔۔‬‫یہاں کسی کو بھی کبھی حس ِ‬
‫بہت ہی لکی ہو گا وہ شخص جس کو اس کی پسند کی‬
‫چیز ملی ہو ۔۔۔ اور مل بھی جاۓ تو ۔۔ انسان کبھی بھی‬
‫۔۔ اس پر قانح نہیں ہوا۔۔۔ بلکہ ہل من مزید کے چکرمیں‬
‫رہتا ہے۔۔۔ ویسے زیادہ تر تو بندے کو اس کی پسند کی‬
‫چیز کم ہی ملی ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سلیم کوثر صاحب نے‬
‫شاید اسی لیۓ کہا ہے کہ میں خیال ہوں کسی اور کا‬
‫مجھے سوچتا کوئ اور ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آپ کو تھوڑا بور‬
‫کیا اس کے لیۓ سوری۔۔ پر اس بات کا اس سٹوری‬
‫سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے ۔۔۔ کیا ہے یہ آپ کو‬
‫سٹوری پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اگر نہ چال تو‬
‫ایک دفعہ پھر سوری۔۔۔‬
‫یہ کالج کے دنوں کی بات ہے میں حسب معمول‬
‫گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں گیا ۔۔۔۔ اور اس دفعہ‬
‫ُکھچ زیادہ ہی لیٹ ہو گیا ۔۔۔ وجہ ایک دو کیس تھے‬
‫(کیس ہمارا کوڈ ورڈ تھا ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔۔۔ لڑکی‬
‫) جو حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ پھر ہماری ثابت قدمی‬
‫سے آخر کار دونوں کیس حل ہوۓ اور تب ۔۔ لوٹ کے‬
‫بدھو گھر کو آۓ ۔۔۔۔ میں صبح صبح گاؤں سے چال تو‬
‫رات گۓ ہی واپس گھر پہنچا ۔۔۔ سخت تھکا ہوا تھا ۔۔۔‬
‫کھانا شانا کھا کر بستر پر لیٹا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئ‬
‫اور پھر صبح ہی اُٹھا ۔۔۔۔‬
‫سویرے جو آنکھ میری ُکھلی تو میں بھاگ کر چھت پر‬
‫گیا کہ ۔۔۔ زرا دیدار یار کر لوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ پاس والے‬
‫چھت کی پوزیشن وہ نہ تھی جو ۔۔۔۔۔ میرے خیال میں‬
‫ہونا چاہیۓ تھی ۔۔ کپڑے دھو کر تار کی بجاۓ‬
‫دیواروں پر پڑے ہوۓ تھے اور ان میں وہ ترتیب بھی‬
‫نہ تھی جو میری سرکار کی ہوتی تھی ۔۔۔ اور دیدار یار‬
‫والی چھت پر باقی چیزوں کا ڈیزائین بھی کافی چینج‬
‫تھا ۔۔۔ کچھ گڑ بڑ تھی۔۔۔ سو حقیقت حال سے آگاہی کے‬
‫لیۓ میں نے اپنے دوست محلے دار اور کسی حد تک‬
‫کالس فیلو رفیق کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا کسی‬
‫حد تک کالس فیلو سے ُمراد یہ ہے کہ ہم تھے تو ایک‬
‫ہی کالس میں پر ۔۔۔۔۔ ہمارے سیکشن الگ الگ تھے ۔۔۔۔‬
‫ہاں تو میں سویرے سویرے( مطلب ‪ 10‬بجے دن) جا‬
‫فیکے کے گھر دھمکا ۔۔ گھنٹی کے جواب میں وہ ہی‬
‫آیا ۔۔۔ مجے دیکھ کر کھل اٹھا اور فورا ً جھپی لگا کر‬
‫بوال ۔۔۔۔۔۔ اتنے زیادہ دن کیوں لگا دیۓ تم نے ؟؟ تو میں‬
‫نے اس کو بوال ۔۔بس یار ایک دو کیس حل نہیں ہو‬
‫رہے تھے ۔۔۔ اس لیۓ ٹائم لگ گیا تو وہ بوال ۔۔۔ اوہ ۔۔۔‬
‫اچھا تو یہ بات ہے۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ تو کیس حل ہو‬
‫گۓ؟؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ ہاں یار کیس حل ہوۓ تھے ۔۔۔‬
‫تو آیا ہوں ناں ۔۔۔۔ اس نے اثبات میں سر ہالیا اور بوال‬
‫۔۔ہور سنا ؟ گاؤں میں سب امن شانتی تھی۔۔؟ تو میں نے‬
‫کہا ۔۔ گاؤں کی بنڈ مار یار مجھے محلے کی خیر خبر‬
‫دے ۔۔ کہ میرے بعد کیا کیا واقعات وقوع پزیر ہوۓ ۔۔۔‬
‫سن کر اس کے چہرے پر ایک شیطانی‬ ‫میری بات ُ‬
‫کراہٹ نمودار ہوئ اور وہ بوال محلے کی ماں کی‬ ‫ُمس ُ‬
‫ُکس ۔۔ بہن چودا سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ قریشی‬
‫صاحب لوگ ہیں کہ نہیں ؟؟ پھر بوال مجھے پتہ ہے تم‬
‫سب سے پہلے چھت پر اس ماں کی تالش میں گۓ ہو‬
‫گے اور جب وہ بے بے وہاں نہیں ملی ۔۔۔ تو مجھ سے‬
‫سن کر‬ ‫پوچھنے چلے آۓ ہو۔۔۔ اس کی اتنی لمبی تقریر ُ‬
‫میں زرا بھی بے مزہ نہ ہوا بلکہ اُلٹا دانت نکال کر بوال‬
‫۔۔۔ چل یار یونہی سمجھ لو ۔۔۔ پر بتاؤ کہ قریشی لوگ‬
‫گۓ کہاں ہیں ؟؟ اب کی بار وہ کچھ سیریس ہو کر بوال‬
‫یار تم کو تو پتہ ہی ہے کہ قریشی صاحب ایک‬
‫سرکاری مالزم تھے اور انہوں نے سرکاری کوارٹر‬
‫کے لیۓ اپالئ کیا ہوا تھا ۔۔۔ تو اُن کو سرکاری کوارٹر‬
‫مل گیا ہے ۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ کہاں مال ہے ؟ تو‬
‫دوست راوی اس کے بارے میں بلکل خاموش ہے ۔ وہ‬
‫تو اپنا پتہ کسی کو بھی نہیں بتا کر گۓ ہیں ۔۔۔ کیونکہ‬
‫کسی کو انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں الل کوارٹر ز جی‪-‬‬
‫‪ 7‬اسالم آباد میں مکان مال ہے اور کسی کو کہہ کر‬
‫گۓ ہیں کہ ان کو مکان جی نائین ٹو کراچی کمپنی‬
‫(اسالم آباد) میں مال ہے ۔۔۔ ساال سچی بات کسی کوبھی‬
‫نہیں بتا کر گیا ۔۔۔ پھروہ میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔‬
‫تو بیٹا اس بات کا لُب لباب یہ ہے کہ تو ُمٹھ مار ۔۔ کہ‬
‫قریشی صاحب کی بیٹی تو اب جانے کس کے نیچے‬
‫پڑی ہو گی ۔۔۔ اس کی بات سن کر مجھے بڑا غصہ آیا‬
‫اور بوال ۔۔ فکر نہ کر بیٹا شکر خورے کو شکر مل ہی‬
‫جاتی ہے۔۔۔‬
‫پھر میری نظر سامنے ملکوں کے گھر پر پڑی اور‬
‫وہاں رنگ برنگی لڑیا ں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور‬
‫پوچھنے لگا یار یہ ملک صاحب کے ہاں الئیٹں کیوں‬
‫لگی ہوئیں ہیں ؟؟؟ تو وہ بوال یار مودے کی شادی ہے‬
‫اسی سلسلہ میں یہ الئیٹنگ وغیرہ لگی ہوئ ہیں ۔۔۔۔ تو‬
‫میں نے اچھا ہے یار مودا بھی پھدی کا منہ دیکھ لے گا‬
‫شریف آدمی آخر کب تک ُمٹھ پر گزارا کرتا ۔۔۔۔۔‬
‫اسی اثناء میں ہمارے پاس سے ایک پپو سا لڑکا اور‬
‫ایک نیم پکی عمر کی خاتون گزری ۔۔۔ لڑکے نے‬
‫شارٹ اور تنگ سی نیکر پہنی ہوئ تھی ۔۔ اور اس‬
‫نیکر میں اس کی موٹی اور گوری تھائیز بڑا دلکش‬
‫نظارہ پیش کر رہی تھیں ۔۔۔ اورخاص کر اس نیکر میں‬
‫اس کی موٹی گانڈ پھنسی ہوئ بڑی سیکسی لگ رہی‬
‫تھی۔۔ بلکل لڑکیوں جیسی گانڈ تھی اُس کی۔۔۔۔۔۔ جبکہ‬
‫خاتون نے ہلکے پیلے رنگ کی سلیولیس ٹائیٹ فٹینگ‬
‫قمیض پہنی ہوئ تھی اور نیچے کافی تنگ پاجامہ پہنا‬
‫ہوا تھا ۔۔ ۔۔۔ قمیض اتنی ٹائیٹ تھی کہ اس میں سے اس‬
‫کا ایک ایک انگ صاف دکھائ دے رہا تھا ۔۔۔۔۔ ہمارے‬
‫پاس سے گزر کر جونہی ان کی پیٹھ ہماری طرف ہوئ‬
‫تو میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور فیکے سے‬
‫بوال ۔۔۔ ۔۔۔۔ واہ یار کیا بنڈیں ہیں۔۔۔۔ عورت کی تو جو‬
‫ہے سو ہے پر یار سچ پوچھو تو عورت سے زیادہ‬
‫لڑکے کی بنڈ بڑی ہی فٹ ہے ۔۔۔۔۔ اور لڑکا دیکھ یار‬
‫سن کر وہ‬‫کتنا۔۔ چکنا ۔۔۔ کتنا پپو ہے ۔۔۔۔ میری بات ُ‬
‫تھوڑا ریش ہوا اور بوال۔۔۔" بین یکا " (بہن چودا) ایک‬
‫تو تیرا زہن بڑا ہی گندہ ہے۔۔۔۔۔ کسی کو تو بخش دیا کر‬
‫سن کر میں نے قدرے غصے‬ ‫گانڈو۔۔۔ ۔۔۔ اس کی بات ُ‬
‫سے کہا ۔۔۔۔۔ کیوں کیا یہ تیری ماں لگتی ہے جو اتنا تپا‬
‫ہوا ہے ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بوال ۔۔۔ ماں تو‬
‫نہیں ہاں یہ میری آنٹی ہیں اور جو لڑکا ان کے ساتھ جا‬
‫رہا تھا یہ ان کا بیٹا یاسر اورمیرا کزن ہے۔۔ پھر وہ‬
‫گالی دے کر بوال اور یہ لوگ قریشی صاحب والے ہی‬
‫گھر میں آۓ ہیں ۔۔۔۔ اب میں نے اس کو دیکھا اور بوال‬
‫سوری یار ۔۔ مجھے نیہں پتہ تھا کہ یہ تمھارے رشتے‬
‫دار ہیں ۔۔۔۔‬
‫تو وہ برا سا منہ بنا کر بوال ۔۔۔ یار ہر ٹائم ایک ہی موڈ‬
‫میں نہ رہا کر بندہ " کوندہ" بھی دیکھ لیا کر ۔۔۔۔۔ اس‬
‫کے بعد میں تھوڑی دیر اور اس کے پاس بیٹھا لیکن‬
‫اس کا خراب موڈ دیکھ کر گھر آ گیا۔۔۔۔ کچھ دیر گھر‬
‫بیٹھا اور پھر دوستوں سے ملنے چال گیا اس کے ساتھ‬
‫ساتھ میں نے رفیق کے کے رشتے دار اور اپنے نۓ‬
‫ہمسائیوں کے بارے میں معلُومات لینا شروع کر دیں تو‬
‫پتہ چال کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس فیملی کے ُکل ‪ 3‬ممبر تھے ایک خاتون جس کا‬
‫اصل نام شاید ہی کسی کو پتہ تھا پر سب کو یاسر کی‬
‫امی کہتے تھے دوسرا یاسر جو اُس ٹائم آٹھویں کالس‬
‫کا سٹوڈنٹ تھا اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو‬
‫غالبا ً تیسری یا چوتھی کالس میں پڑھتی تھی یعنی کہ‬
‫بہت چھوٹی تھی یاسر کا ابا سعودی عرب میں ہوتا تھا‬
‫گھر کی دیکھ بھال کرنے کے لیۓ کہنے کو تو یاسر کا‬
‫تایا۔۔ ۔۔ یا اس کی دادی ان کے ساتھ رہتی تھی لیکن‬
‫حقیقت میں وہ ان کے ساتھ کم ہی ہوتے تھے جبکہ‬
‫دیکھ بھال کے لیۓ فیکے کی فیملی تھی کہ یاسر کی‬
‫امی فیکے کی سب سے چھوٹی خالہ تھی میرے خیال‬
‫میں اس کی عمر ‪ 35/34‬سال ہو گی ۔۔۔ وہ بڑی فرینڈلی‬
‫اور پُر کشش خاتون تھی اس کی آنکھوں میں ہر ٹائم‬
‫ایک مستی سی چھائ رہتی تھی ۔۔۔ وہ کافی سمارٹ پر‬
‫گانڈ غصب کی تھی ۔۔ ممے البتہ نارمل تھی نہ موٹے نا‬
‫پتلے مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اس کے ممے گول‬
‫اور سخت پتھر تھے چونکہ وہ بہت فرینڈلی اور خوش‬
‫مزاج تھی ۔۔۔ سو تھوڑے ہر عرصے میں وہ محلے کی‬
‫عورتوں میں کافی پاپولر ہو گئ تھی ۔۔۔ محلے کی‬
‫تقریبا ً ساری ہی لیڈیز اپنے گھریلو کام کاج سے فارغ‬
‫ہو کر اس کے گھر میں آ کر منڈلی سجاتی تھیں ۔۔۔۔۔‬
‫یہ معلُومات حاصل کرنے کے بعد میں سیدھا رفیق‬
‫عرف فیکے کے گھر گیا اور بیل دی ۔۔۔۔ جواب میں‬ ‫ُ‬
‫عرف روبی نے دروازہ کھوال‬ ‫اس کی بڑی سسٹر رباب ُ‬
‫اور مجھے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔ الٹ صاحب کی آمد کب‬
‫ہوئ ۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔ جی میں رات کو ہی آ گیا تھا‬
‫۔۔۔ پھر روبی سے پوچھا کی رفیق گھر پر ہے تو وہ‬
‫بولی ہاں اپنے کمرے میں پڑھ رہا ہے یہ کہہ کر وہ‬
‫سامنے سے ہٹ گئ اور مجھے اندر جانے کا راستہ دیا‬
‫۔۔۔ ۔۔ اس لیۓ کہ ہمارا ایک دوسرے کے گھروں میں‬
‫بال روک ٹوک آنا جانا تھا سو میں اُس کے پاس سے‬
‫گزر کر سیدھا رفیق کے کمرے میں چال گیا اور یہ‬
‫دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ وہ واقعہ ہی پڑھ رہا تھا‬
‫اسے پڑھتے دیکھ کر میں نے کہا بڑی گل اے یار تو‬
‫بھی پڑھ رہا ہے تو وہ بوال ۔۔۔ یار چھٹیاں ختم ہونے‬
‫والی ہیں سوچا تھوڑا سا پڑھ ہی لوں پھر مجھ سے بوال‬
‫تُو سنا اپنی منحوس شکل کیوں الۓ ہو۔۔ تو میں نے کہا‬
‫یار صبح والی بات پر دوبارہ معزرت کرنے آیا ہوں ۔۔۔‬
‫تو وہ بوال یار دوستوں میں کیسی ناراضگی۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟‬
‫۔۔۔۔۔ پر یار بات کرتے وقت تھوڑا سوچ بھی لیا کر ۔۔۔‬
‫یہ چھٹیاں ختم ہونے سے کچھ دن پہلے کی بات ہے ۔۔۔‬
‫میں صبح سے ہی کافی تنگ تھا اور ۔۔۔ قریشی صاحب‬
‫کی بیٹی مائرہ کی یاد بڑی شدت سے آ رہی تھی ۔۔۔۔ کیا‬
‫سیکسی خاتون تھی یار ۔۔۔۔ دوپہر کا وقت تھا ۔۔ سورج‬
‫حسب معمول سوا نیزے پر تھا ۔۔۔ سخت گرمی پڑ رہی‬
‫تھی اور مجھے اس گرمی سے بھی زیادہ گرمی آئ‬
‫ہوئ تھی ۔۔۔ حالنکہ میں ایک دفعہ ُمٹھ بھی مار چکا تھا‬
‫پر ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ہوشیاری کم ہونے کی بجاۓ‬
‫پہلے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئ تھی ۔۔۔۔ پھر میں اسی‬
‫عالم میں اپنے ُروم سے نکال اور اپنے چھت پر چال گیا‬
‫سانی کا راج تھا‬ ‫۔۔۔ ہر طرف لُو چل رہی تھی ۔۔۔ اور ُ‬
‫سن َ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اِدھر اُدھر جھانک کر دیکھا تو سارے‬
‫محلے کی چھتیں خالی تھیں ۔۔۔ سخت دھوپ کی وجہ‬
‫سے سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں دبکے ہوۓ تھے‬
‫۔۔۔ اتنی گرمی اور ہیٹ تھی کہ میں نے بھی واپس‬
‫جانے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر کے بعد میں‬
‫واپس جانے لگا ۔۔۔‬
‫جاتے جاتے یاد آیا کہ ہم نے آج ہی پانی کی موٹر‬
‫ٹھیک کروائ تھی کہ وہ پانی نہیں چڑھا رہی تھی اور‬
‫جب میں اوپر آیا تونیچے وہ موٹر چل رہی تھی ۔۔۔‬
‫سوچا زرا دیکھ ہی لُوں کہ موٹر پانی ٹھیک سے چڑھا‬
‫رہی ہے کہ نہیں ۔۔۔ یہ سوچ کر میں پانی والی ٹینکی پر‬
‫چڑھ گیا اور ڈھکن کھول کر ٹینکی کے اندر جھانکا تو‬
‫دیکھا کہ پانی ٹھیک سے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مطمئین‬
‫ہو کر اُٹھا ۔۔ اور ۔۔ جیسے ہی واپس جانے لگا تو‬
‫اچانک میری نظر قریشی صاحب (اب یاسر ) والی‬
‫چھت پر پڑی ۔۔۔۔۔۔ جہاں ایک کونے میں دو جسم آپس‬
‫میں ُگتھم گھتا ہو رہے تھے یہ دیکھ کر میں ایک دم‬
‫ٹھٹھک سا گیا اور پھر دھیان لگا کر دیکھنے لگا کہ ۔۔۔‬
‫یہ کون لوگ ہیں۔۔۔ غور سے دیکھنے پر بھی میں ان‬
‫کو تھوڑا سا پہچان تو گیا لیکن ۔۔ چونکہ دونوں آپس‬
‫میں بری طرح ُجڑے ہوۓ تھے اس لیۓ کچھ سمجھ‬
‫نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون کون ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ اُن کو دیکھا تو‬
‫مجھے یاد آ گیا کہ یہ ٹھیک وہی جگہ تھی جہاں میں‬
‫قرشی صاحب کی بیٹی مائرہ کے ساتھ سیکس کیا کرتا‬
‫تھا ۔۔۔ بس فرق یہ تھا کہ ہم لوگ دیوار کے اینڈ پر‬
‫ممٹی کے چھپر کے نیچے سیکس کیا کرتے تھے کہ‬
‫وہاں سے کسی کو بھی دکھائ دیۓ جانے کا کوئ‬
‫احتمال نہ تھا جبکہ یہ لوگ اس چیز کا خیال نہیں رکھ‬
‫رہے تھے ۔۔۔ اب میں بڑی احتیاط سے نیچے اُترا اور‬
‫آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس طرف گیا جہاں یہ واردات ہو‬
‫رہی تھی ۔۔۔۔ چونکے یہ کوٹھا میرا بڑی اچھی طرح‬
‫سے دیکھا بھاال تھا اس لیۓ میں پنجوں کے بل چلتے‬
‫چلتے عین اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے خود کو‬
‫محفُوظ رکھ کر میں یہ نظارہ اچھی طرح سے دیکھ‬
‫سکتا تھا ۔۔۔اور پھر میں اس جگہ پہنچ کر نیچے بیٹھ‬
‫گیا۔۔۔۔ جیسے ہی میں نیچے بیٹھا میں نے کسی کی‬
‫سنی اور مجھے یقین ہو گیا کہ میں بل ُ‬
‫کل‬ ‫مست کراہ ُ‬
‫ٹھیک جگہ پر پہنچ گیا ہوں۔۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ‬
‫اپنے سر کو اوپر اُٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر دیوار‬
‫کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو اندر کا ماحول‬
‫میرے اندازے سے بھی زیادہ گرم تھا ۔۔ پر جس چیز‬
‫نے مجھے تھوڑا سا حیران کیا ۔۔۔ وہ یہ تھی کہ وہ‬
‫دونوں جسم اور کوئ نہیں رفیق اور یاسر کے تھے ۔۔‬
‫مجھے یاد آیا کہ جب میں نے یاسر کی گانڈ کے بارے‬
‫ریمارکس پاس کیے تھے تو رفیق نے بڑا بُرا منایا تھا‬
‫لیکن اب میں دیکھ رہا تھا کہ یاسر اسی گانڈ کو چاٹ‬
‫ت حال کچھ یوں تھی کہ ۔۔ یاسر رکوع‬ ‫رہا تھا صور ِ‬
‫کے بل جھکا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ اس کے‬
‫گھٹنون پر تھے اور اس کی ٹانگیں کافی کھلی ہوئیں‬
‫تھیں۔۔۔ جبکہ رفیق اس کے عین پیچھے اکڑوں بیٹھا اس‬
‫کی گانڈ چاٹ رہا تھا اور گانڈ چاٹنے کے ساتھ ساتھ وہ‬
‫ایک ہاتھ سے اپنے لن کو بھی آگے پیچھے کر رہا تھا‬
‫۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اور یاسر ۔۔۔۔۔ یاسر اپنے گانڈ پر رفیق کی زبان‬
‫فیل کر کے مزے کے مارے ہلکہ ہلکہ کراہ رہا تھا ۔۔۔۔‬
‫دونوں بڑے ہی مگن ہو کر لگے ہوۓ تھے۔۔۔۔‬
‫سچی بات یہ ہے کہ اگر رفیق یاسر کے بارے میں‬
‫دیۓ گۓ ریمارکس کا بُرا۔۔۔ نا مناتا تو یہ سیکس سین‬
‫دیکھ کر انجواۓ کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔ پر نہیں ۔۔۔۔ میرا خیال ہے‬
‫میں آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں کیونکہ میں ایسا ہر‬
‫گز نہ کر پاتا کہ میرے سامنے رکوع کے بل جھکے‬
‫یاسر کی گانڈ تھی جو اتنی مست اور دلکش تھی کہ‬
‫میرے لن نے بھی اس کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔‬
‫پہنے تو میں نے لن کی فریاد پر کوئ دھیان نہ دیا اور‬
‫اس کو ٹالتا رہا اور پھر جب اس کے مطالبے نے کچھ‬
‫زور پکڑنا شروع کیا تو ہیں نے ہمیشہ کی طرح اس‬
‫کے مطالبے پر سر تسلی ِم خم کر دیا ۔۔ چونکہ ان کا‬
‫گھر میرا اچھی طرح سے دیکھا بھاال تھا اس لیۓ‬
‫مجھے معلُوم تھا کہ کیسے میں نے ان کی نظروں میں‬
‫آۓ بغیر ان تک پہنچنا ہے ۔۔۔۔‬
‫سو میں وہاں سے اپنے گھر کی چھت کے کونے پر‬
‫گیا وہ اس لیۓ کہ جس جگہ پر وہ اپنا کام کر رہے‬
‫تھے ۔۔۔۔ اب وہ جگہ ان کی ممٹی کے پیچھے ہونے کی‬
‫وجہ سے چھپ سی گئ تھی ۔۔ میں نے اپنے جوتے‬
‫اپنی چھت پر اُتارے اور پھر چاردیواری پر اپنے دونں‬
‫ہاتھ ٹکا دیۓ اور پھر بڑے آرام سے ان کی چھت پر‬
‫ُکود گیا ۔۔ اور پھر دبے پاؤں ان کی طرف جانے لگا‬
‫۔۔۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد میں ان کے سر پر تھا ۔۔۔۔۔ اب‬
‫میں نے دیکھا تو وہاں کا منظر تبدیل ہو چکا تھا ۔۔۔ اب‬
‫کی بار رفیق سیدھا کھڑا تھا اور یاسر اکڑوں بیٹھا تھا‬
‫اور اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے منہ میں رفیق‬
‫کا لن تھا ادھر رفیق کی آنکھیں بھی مزے کے مارے‬
‫بند تھیں اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں یاسر کے‬
‫سر کے بال پکڑے ہوۓ تھے اور وہ یاسر کا ُچوپا‬
‫انجواۓ کر رہا تھا۔۔۔۔۔‬
‫میں کچھ دیر تک کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا پھر مجھ‬
‫سے رہا نا گیا اور میں بول پڑا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ واہ۔۔!!!!! کیا‬
‫چوپا لگاتے ہو یاسر تم ۔۔۔۔۔ میری بات سن کر دونوں‬
‫ایک دم اُچھلے اور ایسے اُچھلے کہ جیسے ان کوچار‬
‫سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔۔۔ مجھے دیکھ کر‬
‫دونوں کا رنگ فق ہو گیا تھا ۔۔ اور رفیق تو ایسے ہو‬
‫گیا کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں ۔۔ ۔۔ دونوں کچھ دیر تک‬
‫سخت صدمے میں رہے ۔۔۔۔ پھر رفیق نے میری طرف‬
‫دیکھا اور پھیکی سے ُمسکراہٹ سے بوال ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔‬
‫اچھا ۔اچھا۔۔۔ تم کب آۓ یار ۔۔۔؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے‬
‫تُرنت جواب دیا جب تم یاسر کی گانڈ چاٹ رہے تھے‬
‫۔۔۔۔ میں تب آیا ۔۔۔ وہ پھر خواہ مخواہ ہنسا اور بوال ۔۔۔‬
‫اچھا ؟ یار تم کو تو پتہ ہی ہے ہم ۔۔۔۔ یو نو ۔۔۔ ؟ پھر‬
‫تھوڑا ُجھنجھال کر بوال ۔۔۔ لن تے چڑھ ۔۔۔ بہن یکا ۔۔ تم‬
‫نے بھی اسی ٹائم آنا تھا ۔۔۔۔ ہمیں کچھ کر تو لینے دیتے‬
‫!!!!! ۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کرو نا میں نے کب منع کیا‬
‫ہے تو وہ ۔۔۔ اپنے لن کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت‬
‫بلکل ُمرجھا گیا تھا اور بوال ۔۔۔ کروں لن بہن چودا ۔۔۔‬
‫تیرے چھاپے نے تو اس کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔‬
‫اس طرح کی باتیں کرنے سے اب اس کا اعتماد کافی‬
‫حد تک بحال ہو گیا تھا اور پھر وہ مجھ سے بوال یار‬
‫سن لو ۔۔۔۔۔ میں اس کے‬ ‫سائیڈ پر ہو کر میری ایک بات ُ‬
‫ساتھ چل پڑا اور جاتے جاتے ُمڑ کر دیکھا تو یاسر‬
‫ابھی تک نظریں نیچی کیۓ اکڑوں بیٹھا کسی گہری‬
‫سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ رفیق نے میرا ہاتھ پکڑا اور‬
‫تھوڑی دور لے جا کر بوال ۔۔۔ یار تم نے تو لڑکے کو‬
‫ڈرا ہی دیا ہے۔۔۔ پھر طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔۔ میرا خیال‬
‫ہے تم اس کی لینے کے چکر میں ہو۔۔ اور جب میں‬
‫نے تھوڑی ہیچر میچر کی تو وہ بوال ۔۔۔۔ بکواس نہ کر‬
‫۔۔۔بیٹا میں تم کو بچپن سے جانتا ہوں ( بچپن سے‬
‫جاننے کا تو اس نے محاورہ بوال تھا تاہم حقیقت ہی‬
‫تھی کہ وہ ہمارے محے میں گزشتہ ‪ 2،3‬سال سے رہ‬
‫رہے تھے اور یو نو ۔۔!! ہمارے جیسے محلوں میں‬
‫صرف ایک دو ہفتوں میں ہی گہرے دوستانے ہو جاتے‬
‫ہیں یہ تو پھر ‪ 2،3‬سال کی بات تھی ) اگر تم نے‬
‫کاروائ نہ ڈالنا ہوتی تو تم کھبی بھی ادھر کا ُرخ نہیں‬
‫کرتے ۔۔ پھر وہ ایک دم سیریس ہو گیا اور بوال ۔۔۔ یار‬
‫سچی بات یہ ہے کہ میں اور میرا کزن کوئ پروفیشنل‬
‫نہیں ہیں ۔۔۔ جسٹ آپس میں شغل میلہ لگا لیتے ہیں ۔۔۔۔‬
‫پھر میری طرف دیکھ کربوال تم بات سمجھ رہے ہو نا‬
‫میری۔۔ ؟؟‬
‫پھر کہنے لگا ۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ تو میں نے‬
‫کہا کہنا کیا ہے یار جو میں نے کہنا ہے تم اچھی طرح‬
‫جانتے ہو ۔۔ تو وہ بوال تُو پکا حرامی ہے ۔۔۔۔۔ پھر کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔ اوکے ۔۔۔ تھوڑا ویٹ کر میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ اور‬
‫مجھے ساتھ لے کر یاسر کے پاس آ گیا ۔۔ یاسر اب کچھ‬
‫کچھ سنبھل چکا تھا ۔۔ اور اپنی نیکر اوپر کے دیوار‬
‫کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہمارے مزاکرات کا جائزہ‬
‫لے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی ہم اس کے پاس پہنچے رفیق یاسر کی طرف‬
‫انگلی کا اشارہ کر کے بوال ۔۔ ایک منٹ یار۔۔۔ ۔۔ !!! پھر‬
‫وہ یاسر کو لے کر ٹھیک اسی جگہ بات چیت کرنے‬
‫لگا جہاں کچھ دیر قبل ہم دونوں کھڑے تھے ۔۔۔ کچھ‬
‫دیر تک وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے پھر‬
‫دونوں واپس آگۓ ۔۔ آتے ساتھ ہی یاسر تو بنا کوئ بات‬
‫کۓ نیچے اُتر گیا اور رفیق میرے پاس آ کر بوال ۔۔ چل‬
‫یار ۔!! تو میں نے اس سے پوچھا سالے میرے کام کا‬
‫کیا ہوا تو وہ کہنے لگا کام کے سلسلے میں ہی نیچے‬
‫جا رہے ہیں تو میں نے کہا نیچے کیوں ۔۔۔ یہاں کیوں‬
‫نہیں ؟؟؟؟؟ تو وہ تھوڑا تلخ ہو کر بوال ۔۔۔۔ کیا خیال ہے‬
‫ہم ُجڑے ہوں اور تمھاری طرح کوئ اور آ گیا تو۔۔۔ ۔۔۔‬
‫؟؟ ۔۔ بہتر یہی ہے کہ نیچھے چال جاۓ تو میں نے‬
‫پوچھا کہ وہ یاسر کی امی ۔۔۔۔؟ تو وہ بوال یار گھر میں‬
‫اور کوئ نہیں ہے اور پھر میرے ساتھ نیچے اترنے‬
‫لگا ۔۔‬
‫ایک دو سیڑھیاں اُترنے کے بعد وہ دفعتا ً ُرکا اور بوال‬
‫۔۔۔ دیکھو بچہ بڑا ڈرا ہوا ہے ۔۔۔ ہمیں سب سے پہلے‬
‫اس کا احتماد بحال کرنا ہو گا ۔۔۔ تو میں نے رفیق سے‬
‫کہا کہ یار رفیق تم مجھے اس لڑکے کے ساتھ بس دس‬
‫پندرہ منٹ تنہائ کے دے دو ۔۔۔۔ باقی کام میں خود کر‬
‫لوں گا ۔۔ رفیق ۔۔ سیڑھیاں اُترتے اُترتے ایک دم ُرک‬
‫گیا اور حیرانی سے مجھے دیکھ کر بوال ۔۔۔۔۔ آر یو‬
‫شوور۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا ۔۔ یار جو میں کہہ رہا‬
‫ہوں وہ کرو رزلٹ تم خود دیکھ لو گے تو وہ کہنے لگا‬
‫ٹھیک ہے شہزادے ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم نیچے سیڑھیاں‬
‫اترنے لگے ۔۔۔ اور چلتے چلتے ڈرائینگ روم میں پہنچ‬
‫گۓ ۔۔۔ یاسر وہاں پہلے سے ہی موجود تھا اور گو کہ‬
‫اب کچھ سنبھل چکا تھا پر ۔۔۔ پریشانی کے آثار اب بھی‬
‫اس کے چہرے پر دیکھے جا سکتے تھے۔۔۔‬
‫ُروم میں جا کر میں اور رفیق ڈبل سیٹر صوفے پر بیٹھ‬
‫گۓ جبکہ یاسر پہلے ہی تھری سیٹر پر سنجیدہ سا منہ‬
‫بناۓ بیٹھا تھا۔۔ ہمارے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ُروم‬
‫میں سناٹا سا چھا گیا پھر رفیق نے مجھے آنکھ مارکر‬
‫سنا یار آج کل تیری معشوقہ کیسی جا رہی ہے تو‬ ‫کہا ُ‬
‫میں بھی بات سمجھ کر بوال بڑی مست ہے یار ۔۔۔ ایک‬
‫ب توقع‬‫لن سے تو اس کو گزرا ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ حس ِ‬
‫یاسر نے سر اٹھا کر بڑی دلچسپی سے مجھے دیکھا‬
‫پر بوال کچھ نہیں ۔۔۔ کچھ دیر تک ہم دونوں اسی فرضی‬
‫محبوبہ کے بارے میں گفت گو کرتے رہے ۔۔۔ پھر میں‬
‫نے رفیق سے کہا کہ یار پانی مل سکتا ہے ؟ تو رفیق‬
‫کے جواب دینے سے پہلے ہی یاسر بول اٹھا ۔۔۔ میں‬
‫ابھی پانی التا ہوں ۔۔ یہ سن کر رفیق بوال یار پانی نہیں‬
‫میں کولڈ ڈرنک التا ہوں پھر مجھ سے پوچھنے لگا شاہ‬
‫تم کون سی بوتل پیئو گے۔۔؟ تو میں نے کہا یار میں‬
‫کوال شوال نہیں پیتا ۔۔۔۔ کوئ جوس ہو تو لے آنا جبکہ‬
‫یاسر نے اپنے لیۓ کوک النے کو کہا ۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫سنا‬
‫رفیق کمرے سے نکال میں نے یاسر سے پوچھا ۔۔۔ ُ‬
‫یار تمھاری کوئ معشوق ہے؟ تو وہ نفی میں سر ہال‬
‫کر بوال معشوق تو نہیں ہاں منگیتر ہے ۔۔۔ تو میں نے‬
‫قدرے حیران ہو کر پوچھا ۔۔۔ ابھی سے منگیتر ؟ تو وہ‬
‫بوال بس یار ۔۔۔ ماں باپ کی مرضی سے ہوئ ہے تو‬
‫میں نے پوچھا کیسی ہے تمھاری منگیتر تو وہ بوال‬
‫اچھی ہے تو میں نے معنی خیز انداز میں آنکھ مرتے‬
‫ہوے پوچھا نری اچھی ہی ہے یا کچھ کیا بھی ہے ؟ تو‬
‫وہ بوال نہیں جی وہ کرنے نہیں دیتی ۔۔۔ ہاں کسنگ بڑی‬
‫کی ہے ۔۔ تو ؐمیں نے کہا کسنگ سے کام چل جاتا ہے‬
‫تو کہنے لگا نہیں ۔۔۔ پر کیا کروں وہ اس سے آگے‬
‫جانے ہی نہیں دیتی ۔۔۔ اب وہ بلکل نارمل ہو گیا تھا او‬
‫ر بڑے مزے سے میرے ساتھ خاص کر سیکس ریلیٹڈ‬
‫باتیں کر رہا تھا۔۔۔‬
‫جب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اب بچے کا ڈر اور‬
‫جھاکا ختم ہو گیا ہے تو میں نے اپنے مطلب والی بات‬
‫کی طرف آنا شروع کر دیا ۔۔۔ اب میں نے اس کو غور‬
‫دیکھنا شروع کر دیا واقعی یاسر بڑا خوبصورت اور‬
‫پیارا تھا اس کے گال بلکل کشمیری سیب کی طرح‬
‫ہلکے الل تھے اور ہونٹ پتلے پتلے اور گالبی مائل‬
‫تھے آنکھیں کالی اور بڑی تھیں جسم بھرا بھرا اور نرم‬
‫لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے یوں اپنا پوسٹ مارٹم کرتے‬
‫دیکھ کر وہ تھوڑا سا نر ِوس ہو گیا اور پھر شرما کر‬
‫ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔ پر جب میں اسے دیکھتا ہی‬
‫رہا تو وہ میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔ یہ آپ مجھے‬
‫ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ تو میں نے اپنے لہجے‬
‫میں جہاں بھر کی حیرت بھرتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔ یار تم‬
‫لپ سٹک لگاتے ہو ؟ تو وہ ہنس پڑا اور بوال آپ ہی‬
‫نہیں اور بھی کافی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میں اپنے‬
‫سرخی لگاتا ہوں ۔۔۔ تو میں نے اپنی آنکھوں‬‫ہونٹوں پر ُ‬
‫کومزید حیرت سے پھیالتے ہوۓ کہا نہیں دوست ۔۔۔ تم‬
‫جھوٹ بول رہے ہو تم ۔۔۔ یقیننا ً لپ سٹک یوز کرتے ہو‬
‫۔۔۔ میں نہیں مانتا ہونٹوں کا اتنا پیارا رنگ تو صرف‬
‫سرخی سے ہی آ سکتا ہے ۔۔‬ ‫ُ‬
‫یہ کہا اور اس کو چیک کرنے کے بہانے اس کے پاس‬
‫چال گیا اور نزدیک سے اس کے ہونٹوں کا معائینہ‬
‫کرنے لگا ۔۔۔ اب اس نے میری طرف دیکھا اور بوال‬
‫مجھے پتہ ہے آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں ؟؟ تو میں‬
‫نے جواب دیا ۔۔۔ بتا سکتے ہو کہ میں کیا کرنے واال‬
‫ہوں ۔۔۔ تو وہ صوفے پر کھسک کر تھوڑا آگے آ گیا‬
‫اور بوال ۔۔۔۔ آپ بہانے سے مجھے ِکس کرنا چاہتے ہیں‬
‫۔۔ اب نر ِوس ہونے کی میری باری تھی سو میں نے کہا‬
‫۔۔۔۔وہ میں۔۔۔اصل میں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اتنی دیر میں اس نے اپنا‬
‫منہ مزید اگے کر دیا اور ہونٹ میرے پاس ال کر بوال‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫ِکس کرو نا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ اب مزید سوچنے کی کوئ‬
‫ضرورت نہ تھی سو میں نے بھی اپنا منہ آگے کیا اور‬
‫اس کے کے نرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور‬
‫انہیں اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا ۔۔۔ ہوں ۔۔۔ اُس‬
‫کے ہونٹ بڑے سوفٹ اور زائقہ مست تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر اس‬
‫نے خود ہی اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی اور ۔۔۔۔۔۔‬
‫اسے سارے منہ میں گھومانے لگا ۔۔۔۔ ایسے لگ رہا‬
‫تھا کہ وہ ِکسنگ میں کافی ایکسپرٹ ہے پھر اس نے‬
‫میری زبان کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور میری زبان‬
‫کا رس پینے لگا ۔۔۔۔۔ اِدھر وہ میری زبان کو چوس رہا‬
‫تھا اُدھر میرا لن پینٹ میں سخت اکڑا ہوا تھا اور باہر‬
‫نکلنے کو بے چین ہو رہا تھا ۔۔۔۔چنانہ میں نے ِکسنگ‬
‫کرتے کرتے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے‬
‫اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اس نے بڑے آرام سے لن کو‬
‫اپنی گرفت میں لیا اور اسے دبانے لگا ۔۔۔۔۔‬
‫ابھی ہماری ِکسنگ جاری تھی کہ رفیق ہاتھ میں ٹرے‬
‫پکڑے ُروم میں داخل ہوا اور ہمارے منہ آپس میں‬
‫ُجڑے دیکھ کر بوال ۔۔۔ بلے بلے ۔۔۔لگتا ہے کام سٹارٹ‬
‫سنی اور ِلپ‬
‫ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ پر ہم نے اس کی بات نہ ُ‬
‫ِکسنگ جاری رکھی پھر اس نے پاس پڑی تپائ پر‬
‫ٹرے رکھی اور ہمارے پاس آکر بوال۔۔۔ او بھائ لوگو ۔۔۔‬
‫اپنے پروگرام میں تھوڑا سا وقفہ کر لو اور کولڈ ڈرنک‬
‫سن کر‬ ‫پی لو ۔۔۔ ورنہ گرم ہو جاۓ گی ۔۔۔ اس کی بات ُ‬
‫اپنے اپنے منہ ُجدا کیے اور پھر میں نے رفیق کو‬
‫مخاطب کر کے کہا ۔۔۔ یار اتنا مزہ آ رہا تھا تم تھوڑی‬
‫دیر بعد نہیں آ سکتے تھے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ یار‬
‫تھوڑی دیر بعد بھی تم نے یہی کہنا تھا ۔۔۔ پہلے پانی پی‬
‫لو پھر جو مرضی ہے کرتے ہرنا اور اس کے ساتھ ہی‬
‫اس نے مجھے مینگو جوس کا ٹن اور کوک یاسر کو‬
‫پکڑا دی ۔۔۔ اور خود بھی بوتل پینے لگا ۔۔۔۔۔۔‬
‫کولڈ ڈرنک پینے کے بعد ہم نے اپنا اپنا سامان تپائ پر‬
‫رکھا اور دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ منہ جوڑ لیا ۔۔۔‬
‫جبکہ رفیق سامنے بیٹھ کر ہمیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ابھی‬
‫ہم نے تھوڑی ہی دیر ِکسنگ کی تھی کہ میں نے یاسر‬
‫کے ہاتھ میں اپنا لن پکڑا دیا ۔۔۔۔۔ تو وہ بوال نہیں یار‬
‫ایسے لن پکڑنے کا مزہ نہیں تم اپنے لن کو باہر نکالو‬
‫۔۔۔۔ اور پھر اس نے خود ہی میری پینٹ کی زپ کھولی‬
‫اور لن کو باہر نکال لیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے پینٹ کی‬
‫زپ کھولی ۔۔۔۔ لن جھومتا ہوا پینٹ سے باہر آگیا ۔۔۔۔ اس‬
‫کا سائیز لمبائ اور موٹائ دیکھ کر یاسر کی آنکھوں‬
‫میں ستائش کے جزبات ابھر آۓ ۔۔ اور اس نے بے‬
‫اختیار لن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیۓ اور بوال ۔۔۔ واہ‬
‫۔۔۔۔ شاہ جی ۔۔ ۔۔۔ بڑا پال ہوا لن ہے آپ کا ۔۔۔ اس کو کیا‬
‫کھالتے ہو ۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ کچھ بھی نہیں‬
‫یار عام سا لن ہے میرا تو وہ رفیق کی طرف منہ کر‬
‫سنو تو یہ شاہ کیا کہہ رہا ہے یہ اپنے کنگ‬ ‫کے بوال ۔۔۔ ُ‬
‫سائز لن کو عام سا لن کہہ رہا ہے اتنی دیر میں رفیق‬
‫بھی ہمارے پاس آ گیا تھا اس نے لن کو دیکھا تو بڑے‬
‫پُراسرار لہجے میں بوال ۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔ تم نے کھبی بتایا ہی‬
‫نہیں کہ تمہارا اتنا بڑا لن ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس‬
‫نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔۔‬
‫رفیق نے جب میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تو مجھے‬
‫کوئ خاص حیرت نہیں ہوئ ۔۔۔ کیونکہ وہ پہلے ہی‬
‫مجھے بتا چکا تھا کہ وہ اور یاسر ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ ادلہ بدلی کرتے تھے مطلب دونوں ایک دوسرے‬
‫کی گانڈ مارتے بھی تھے اور ایک دسرے سے‬
‫مرواتے بھی تھے ۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ میری رفیق‬
‫کے ساتھ ‪ 2،3‬سال سے دوستی تھی پر میں ابھی تک‬
‫اس کے اس کردار سے واقف نہ تھا اس کی وجہ شاید‬
‫یہ تھی کہ وہ کوئ عام گانڈو یا منڈے باز نہ تھا بس‬
‫اپنے کزن کے ساتھ کبھی کبھی ُموج مستی کر لیتا تھا‬
‫۔۔ ہاں تو جب رفیق نے حیرت کے مارے میرا لن اپنے‬
‫ہاتھ میں پکڑا تو میں نے اسے کہا ۔۔۔۔ کیسا لگا ۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫وہ بوال ۔۔۔بڑا شاندار ہے تمھارا لن تو میں نے کہا ۔۔۔۔‬
‫اگر اتنا ہی اچھا لگا ہے تو اس پر ایک ِکس تو کرو‬
‫نا۔۔۔۔ لن پہلے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا تھا سو اس نے‬
‫ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر ۔۔۔۔۔ وہ میرے لن‬
‫پر جھک گیا اور ۔۔ ٹوپے کو منہ میں لے لیا ۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫پھر ٹوپے پر زبان پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں‬
‫نے محسوس کیا کہ رفیق ٖصرف میرا ٹوپا ہی چوس رہا‬
‫ہے اور بس اُسی پر زبان پھیر ے جا رہا ہے تو میں‬
‫سن‬‫نے اس سے کہا ۔۔۔ یار سارا لن منہ میں ڈال نا۔۔۔۔ یہ ُ‬
‫کر اس نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور ٹوپا‬
‫منہ سے نکال کر بوال ۔۔۔۔ سوری یار مجھے لن کا‬
‫صرف ٹوپا اچھا لگتا ہے اور بس اسی کو چامتا چاٹتا‬
‫ہوں سارا لن منہ میں ڈالنے کے لیۓ یاسر ہے نا ۔۔۔‬
‫پھر اس نے یاسر کو اشارہ کیا اور خود وہاں سے ہٹ‬
‫گیا اور ۔۔۔۔ اب یاسر نے مجھے صوفے پر بٹھا کر‬
‫سیدھا کیا اور خود نیچے قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ‬
‫گیا اور میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کچھ‬
‫دیر تک اسے آگے پیچھے کرتا رہا پھر وہ لن پر جھکا‬
‫اور اپنی زبان سے ٹوپے پر مساج کرنے لگا ۔۔۔ اُف ف‬
‫ف۔۔ پھر اس نے اپنی زبان کو ٹوپے کے چاروں طرف‬
‫گول گول گھمایا اور پھر آہستہ آہستہ لن کو اپنے ہونٹوں‬
‫میں لینا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر وہ لن کو آہستہ آہستہ‬
‫اپنے گیلے منہ میں ڈالتا گیا ۔۔۔ اور پھر وہ کافی سارا‬
‫لن اپنے منہ میں لے گیا ۔۔۔ پھر اس نے منہ کے اندر‬
‫ہی اندر لن پر زبان پھیرنی شروع کر دی ہے ۔۔۔۔‬
‫آہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔۔ اس کے چوپے نے تو میری جان ہی نکال‬
‫دی تھی ۔۔۔۔ ِکسنگ کی طرح یاسر لن چوسنے میں بھی‬
‫کافی ماہر لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔‬
‫کافی دیر تک وہ میرا لن چوستا رہا پھر وہ میرے بالز‬
‫پر آیا اور اب اس نے میرے بالز پر اپنی زبان پھیرنی‬
‫شروع کر دی اور چاٹ چاٹ کر میرے سارے ٹٹے‬
‫گیلے کر دیے ۔۔۔۔ اس کے بعد ایک بار پھر وہ اپنی‬
‫زبان کو لن تک لے آیا ۔۔۔اور ٹوپے کو چاٹنا شروع کر‬
‫دیا ۔۔ اب مجھے بھی کچھ جوش چڑھ گیا تھا چنانچہ‬
‫میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا یہ دیکھ کر وہ‬
‫تھوڑا سا اوپر کو اٹھا ٹیڑھا ہو گیا اور اپنی کمر میری‬
‫طرف کر دی اور اب میرا ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچ‬
‫رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫اب میں نے اپنا ہاتھ اس کی االسٹک والی نیکر میں ڈاال‬
‫اور اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔اس کی گانڈ نرم‬
‫اور چوتڑ کافی موٹے تھے۔۔ ۔۔۔۔ اب میں اس کی گانڈ پر‬
‫ہاتھ پھیر رہا تھا اور وہ میرا لن چوس رہا تھا ۔۔۔ پھر‬
‫میں نے اپنی انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی‬
‫اور اس پر انگلی کے پور سے ہلکہ ہلکہ مساج کرنے‬
‫لگا میرے اس مساج سے شاید اسے بڑا مزہ آیا فورا ً لن‬
‫منہ سے نکال کر بوال ۔۔۔۔ انگلی اندر ڈال کر چیک کرو‬
‫نا۔۔ اور پھر اس نے خود ہی اپنی موری پر تھوک لگایا‬
‫اور مین نے اپنی درمانی انگلی اس کی گانڈ کے‬
‫سوراخ میں ڈال دی ۔۔۔۔۔ اور ہولے ہولے اندر باہر‬
‫کرنے لگا اور پھر بعد میں درمیانی انگلی اس کی‬
‫موری کے آس پاس گھمانے لگا ۔۔۔۔ جب میری انگلی‬
‫کو اس کی موری پر گھومتے ہوۓ کافی دیر ہو گئ تو‬
‫اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکاال اور بوال ۔۔۔ اتنا‬
‫بہت ہے یا اور لن چوسوں ؟ تو میں نے کہا یہت ہے‬
‫یار ۔۔۔۔۔۔ اب آؤ کہ لن تمھارے اندر ڈالوں ۔۔۔۔ تو وہ‬
‫بوال۔۔ اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صوفے سے اُٹھ گیا اور فورا ً اپنی‬
‫نیکر اُتار دی میں نے بھی جلدی سے اپنی پینٹ اُتاری‬
‫اور اُسے صوفے پر گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر وہ بجاۓ صوفے پر گھوڑی بننے کے اس نے‬ ‫ُ‬
‫اپنے دونوں ہاتھ صوفے کے ایک بازو پر رکھے اور‬
‫خود گھٹنوں کے بل ہو گیا اور اپنی گانڈ اوپر کر دی‬
‫اب میں اس کے پیچھے گیا اور اور اس کی ننگی گانڈ‬
‫کا نظارہ کرنے لگا ۔۔۔۔ اب یاسر کی گول گول اور‬
‫موٹی گانڈ میرے سامنے تھی اور اس پر بہت سارا نرم‬
‫نرم گوشت چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫سے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ کھول کر دیکھا ۔۔۔۔ اُف‬
‫ففففف اس کی گانڈ پر ایک بھی بال نہ تھا ۔۔۔۔ اس نے‬
‫گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور بوال میری بُنڈ‬
‫کیسی ہے ؟؟ تو میں نے جواب دیا بلکل عورتوں کر‬
‫طرح نرم اور موٹی بنڈ ہے تمھاری ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا‬
‫عورتوں کی طرح نہیں میری بُنڈ عورتوں سے بہت‬
‫زیادہ اچھی ہے ان کی گانڈ پر بال ہوتے ہیں اور میری‬
‫گانڈ پرایک بھی بال نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔‬
‫سن کر میں نے اپنے ٹوپے پر تُھوک لگایا اور کچھ‬ ‫یہ ُ‬
‫تُھوک اس کی گانڈ پر لگا دیا ۔۔۔ رفیق میری یہ کاروائ‬
‫بڑے غور سے دیکھ رہا تھا پوچھنے لگا ۔۔۔۔ کیا کر‬
‫رہے ہو تو میں نے کہا لن ڈالنے لگا ہوں تو وہ فورا ً‬
‫بوال ۔۔۔ اوۓ کیوں بچے کو مارنا ہے یار ۔۔۔ تو میں نے‬
‫کہا وہ کیسے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ تو کہنے لگا ظالم انسان اپنے لن‬
‫کا سائز دیکھ اور بچے کی موری دیکھ ۔۔ کیوں بے‬
‫چارے کی گانڈ پھاڑنی ہے پھر بوال ایک منٹ ُرکو اور‬
‫پھر بھاگ کر گیا اور اندر کمرے سے سرسوں کے تیل‬
‫کی شیشی لے آیا اور آ کر پہلے تو اس نے یاسر کی‬
‫گانڈ پر اچھی طرح تیل لگایا پھر وہ میری طرف آیا‬
‫اور میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور ۔۔۔۔۔ پھر ٹوپے‬
‫کو منہ میں لیا اور چوسنے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر یاسر نے‬
‫اس سے کہا بہن چودا اتنا ہی شوق ہے تو بعد میں اس‬
‫سے گانڈ ُمروا لینا ابھی تو مجھے مزہ لینے دو ۔۔ یاسر‬
‫سن کر رفیق نے لن منہ سے باہر نکاال اور‬ ‫کی بات ُ‬
‫بوال۔۔۔ ٹھیک ہے یار پہلے تُو مزہ لے لے ۔۔۔ اور پھر‬
‫کافی سارا تیل میرے لن پر ِگرا دیا اور پھر دونوں‬
‫ہاتھوں سے اچھے طرح مل دیا اتنے میں یاسر بوال‬
‫فیکے ۔۔۔ ان کے ٹوپے کو خاص کر تیل میں اچھی‬
‫طرح سے تَر کر دینا ۔۔۔اور رفیق نے ایک دفعہ بھر‬
‫کافی سارا تیل میرے ٹوپے پر لگایا اور لن پکڑ کر‬
‫یاسر کی موری پر رکھ دیا اور پھر سامنے جا کر بیٹھ‬
‫گیا۔۔۔ اب میرا لن یاسر کی موری پر تھا جو تھوڑی‬
‫تنگ پر تیل کی وجہ سے ُخوب چکنی ہو چکی تھی‬
‫میں نے دونوں انگلیوں سے اس کے کی گانڈ کے‬
‫سوراخ کو تھوڑا سا اور کھوال اور ہلکہ سا دھکا لگایا‬
‫۔۔۔۔ یاسر کی چکنی گانڈ میں میرے موٹے لن کے ٹوبے‬
‫کی نوک اندر چلی گئ۔۔۔ اور یاسر نے ایک آہ بھری تو‬
‫میں نے پوچھا درد تو نہیں ہوا تو وہ بوال ۔۔۔ نہیں ابھی‬
‫تو صرف ٹوپے کی نوک ہی اندر گئ ہے ۔۔۔ میں نے‬
‫تو مزے سے آہ بھری تھی آپ ۔۔۔ میری گانڈ میں لن‬
‫سن کر میں نے اس کی گانڈ میں‬ ‫ڈالنا جاری رکھیں یہ ُ‬
‫نے ایک اور دھکہ مارا ۔۔۔۔ میرا تیل میں ِلتھرا ٹوپا‬
‫تھوڑا اور اس کے اندر چال گیا اور پھر اس کے منہ‬
‫سے نکال سسس سی ۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اس سے کوئ‬
‫کالم نہیں کیا اور ایک اور گھسا مارا اور اب۔۔۔ ٹوپا‬
‫پھسلتا ہوا یاسر کی گانڈ میں چال گیا تھا ۔۔۔ یاسر ایک دم‬
‫اوپر اُٹھا اور میں نے پوچھا کیا ہوا تو وہ بوال کچھ نہیں‬
‫تم اپنا کام جاری رکھو ۔۔۔ اور اب میں نے ایک اور‬
‫دھکا مارا اور میرا لن پھسلتا ہوا جڑ تک یاسر کی گانڈ‬
‫میں اُترتا چال گیا۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی لن یاسر کی گانڈ کے اندر گیا اس نے ایک‬
‫زبردست چیخ ماری ۔۔۔ آآآآآ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ ا ُ ف‬
‫فف ف ۔۔۔ رفیق جو پاس بیٹھا یہ سارا سین دیکھ رہا تھا‬
‫ایک دم اُٹھ کر میرے پاس آ گیا اور میرے گال چوم کر‬
‫بوال واہ ۔۔ شاہ جی واہ ۔۔۔۔ تم نے کمال کر دیا اتنا موٹا‬
‫لن کتنے ٹیکٹ سے یاسر کی گانڈ میں اُتار دیا ہے ۔۔۔‬
‫ورنہ میرا تو خیال تھا کہ آج بچے کی گانڈ پھٹ جاۓ‬
‫گی ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ فکر نہ کر یار جب‬
‫میں تمھاری ماروں گا نا تو تمھارے اندر بھی ایسے ہی‬
‫ڈالوں گا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ رفیق کچھ جواب دیتا‬
‫یاسر نے منہ میری طرف کر کے کہا ۔۔۔ اُستاد جی اندر‬
‫ڈاال ہے تو اب ہلو بھی نہ ۔۔۔۔ اس بہن چود سے بعد میں‬
‫بات کر لینا ۔۔۔‬
‫سن کر رفیق دوبارہ سا منے جا کر بیٹھ‬ ‫یاسر کی بات ُ‬
‫گیا اور اب میں یاسر کی طرف متوجو ہوا ۔۔۔۔ میرا تیل‬
‫سے بھیگا ہوا لن یاسر کی گانڈ میں تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کی‬
‫گانڈ اندر سے بڑی ہی گرم تھی ۔۔۔اور گانڈ کے ٹشو اس‬
‫سے بھی زیادہ نرم تھے ۔۔۔ اب میں نے آہستہ آہستہ‬
‫بلکل آرام سے لن کو اس کی گانڈ سے باہر کھینچا ۔۔۔۔۔‬
‫پھر جب ٹوپے تک لن باہر آگیا تو میں نے دوبارہ آرام‬
‫آرام سے اندر ڈال دیا اور پھر ہلکے ہلکے جھٹکے‬
‫مارنا شروع کر دیۓ ۔۔۔ اب اس کی گانڈ کے ٹشو لن‬
‫کے ساتھ کافی ایڈجسٹ ہو گۓ تھے سو اب میں نے‬
‫اپنے گھسوں کی سپیڈ بڑھا دی اور پھر زور زور سے‬
‫لن یاسر کی گانڈ میں اِن آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔ اور اس کے‬
‫سنائ‬
‫ساتھ ساتھ مجھے یاسر کی مست آوازیں بھی ُ‬
‫دینے لگیں ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔۔ یسس۔یسس۔ اور میں‬
‫یاسر کی گانڈ میں گھسے مارتا گیا مارتا گیا ۔۔۔‬
‫کافی دیر بعد مجھے ایسے لگا جیسے میرا سارا خون‬
‫میری ٹانگوں سے لن کی طرف بھاگے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔‬
‫میرا بلڈ پریشر ہائ ہو گیا۔۔۔۔ اور میرے سانس بھی بے‬
‫ترتیب سے ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہ محسوس کر کے میں‬
‫نے اپنے گھسوں کی سپیڈ پہلے سے بھی دوگنی کر دی‬
‫اور میں نے تقریبا ً چال کر یاسر سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ یاسر میں‬
‫سن کر‬‫ُچھوٹ رہا ہوں۔۔ میرا لن منی چھوڑ رہا ۔۔۔۔ یہ ُ‬
‫یاسر نے مستی میں آ کر خود ہی اپنی گانڈ میرے لن پر‬
‫مارنی شروع کر دی اور ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ چھوٹ جا میری‬
‫گانڈ میں ۔۔ اور گھسوں کر سپیڈ اور تیز کر ۔۔۔ اور تیز‬
‫۔۔۔ تیزززز۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد میرے ۔۔۔۔۔۔۔۔لن‬
‫سے منی کا طوفان نکل کر یاسر کی تیل سے ُچپڑی‬
‫گانڈ میں داخل ہونے لگا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری منی کی‬
‫پہلی بُوند یاسر کی گانڈ میں ٹپکی ۔۔۔۔وہ مست ہو گیا اور‬
‫اپنی گانڈ میرے لن کے گرد ٹائیٹ کرتا گیا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتا گیااااااااااا۔۔۔۔۔‬
‫یاسر اس وقت تک اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد‬
‫سکڑ کر چھوہارا سا‬ ‫تنگ کرتا رہا جب تک کہ میرا لن ُ‬
‫نہ بن گیا ۔۔۔ جب میرا لن اس کی گانڈ میں بلکل ُمرجھا‬
‫گیا تو میں نے اس کی گانڈ سے لن کو باہر نکال لیا ۔۔۔‬
‫تو وہ بوال یار تمھارے لن نے آج بڑا مزہ دیا ہے ۔ اور‬
‫میں دیکھا کہ اس کی گانڈ میرے دھکوں کی وجہ سے‬
‫سرخ ہو گئ تھی اور میری منی کے چند قطرے‬ ‫الل ُ‬
‫سوراخ سے باہر نکل رہے تھے ۔۔۔‬ ‫اس کی گآنڈ کے ُ‬
‫پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بوال ۔۔۔ یار تیرا لن‬
‫بڑا کمال ہے اس نے مجھے اتنا مزہ دیا ہے کہ یہ‬
‫دیکھو میں بغیر ُمٹھ کے ہی فارغ ہو گیا ہوں اور میں‬
‫نے دیکھا تو صوفے کے ساتھ نیچےقالین پر اس کی‬
‫منی گری ہوئ تھی ۔۔۔۔ پھر فوراًہی رفیق ہاتھ میں ایک‬
‫صاف سا کپڑا لیۓ میرے سامنے آگیا اور میرے لن کو‬
‫صاف کرتے ہوۓ بوال ۔۔۔ واہ شاہ کیا شاندار چودائ کی‬
‫ہے ۔۔ دیکھ تو تیرے دھکوں نے منڈے کی گانڈ کیسی‬
‫ٹماٹر کی طرح الل کر دی ہے ۔۔۔ پھر میرا لن صاف‬
‫کر کے وہ یاسر کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ جس کی گانڈ‬
‫کے سوراخ سے ابھی تک میری منی ِرس ِرس کر باہر‬
‫نکل رہی تھی اس نے جلدی سے کپڑے کا صاف حصہ‬
‫اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور اسے صاف‬
‫کرنے لگا ۔۔۔ جب وہ اس کی گانڈ پر کپڑا رکھ رہا تھا‬
‫تو اس وقت اس کی پیٹھ میری طرف تھی سو مجھے‬
‫شرارت سوجھی اور میں نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنا‬
‫شروع کر دیا ۔۔۔۔ رفیق نے ایک دم اپنا منہ میری طرف‬
‫کیا اور سیریس ہو کر بوال ۔۔۔ چودو گے مجھے۔۔ ؟؟؟‬
‫لیکن میرا ایسا کوئ ُموڈ نہ تھا سو میں نے انکار کر‬
‫دیا اور جلدی سے کپڑے پہن لیۓاور اُن سے ان کے‬
‫نیکسٹ پروگرام کے بارے میں پوچھا ۔۔ تو وہ کہنے‬
‫لگے تمہاری وجہ سے جو کام ادھورا رہ گیا تھا اسے‬
‫اب پورا کرنا ہے اور مجھے دعوت دی کہ میں چاہوں‬
‫تو ان کا الئیو پروگرام دیکھ سکتا ہوں ۔۔ لیکن میرا دل‬
‫نہ مانا اور میں ان سے اجازت لے کر جس راستے‬
‫سے آیا تھا اسی راستے سے واپس گھر چال گیا ۔۔۔‬
‫اُسی شام معمول کے مطابق میری مالقات رفیق سے‬
‫ہوئ لیکن نہ ہی اس نے اور نہ ہی میں نے اس کے‬
‫ساتھ اس ٹاپک پر کوئ گفتگو کی ۔۔۔۔ بلکہ ہم نے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ ایسا ٹریٹ کیا جیسے ایسی ویسی‬
‫کوئ بات ہی نہ ہوئ ہو ۔۔۔ رفیق لوگوں کا گھر تھوڑا‬
‫اونچا تھا اس لیۓ ہم عام طور پر ان کی سیڑھیوں پر‬
‫بیٹھ کر (جسے تھڑا بھی کہ سکتے ہیں ) گپ شپ‬
‫لگاتے تھے ۔۔۔ اسی شام ہم سیڑھوں پر بیٹھ کر گپ شپ‬
‫لگا رہے تھے کہ اچانک ملکوں کے گھر پر لگی‬
‫مرچیں (الئیٹس) جل اُٹھیں ۔۔۔۔۔ اونچی آواز میں لگے‬
‫میوزک نے پہلے ہی سارے ُمحلے کی جان عزاب میں‬
‫ڈالی ہوئ تھی الئیٹس جلتی دیکھیں تو میں نے اس سے‬
‫پوچھا یار یہ بتا سالے ملک کی شادی ہے کب ؟ تو وہ‬
‫بوال یار ابھی تواس میں پندرہ بیس دن پڑے ہیں ۔۔۔ تو‬
‫میں نے کہا اس کا مطلب یہ کہ چھٹیاں ختم ہونے کے‬
‫بعد ملک پھدی کا منہ دیکھ سکے گا ؟؟؟ تو وہ بوال جی‬
‫سر جی ان کا پروگرام تو یہی ہے تو میں نے اس سے‬
‫پوچھا یار پھر انہوں نے اتنی جلدی شادی والی الئیٹس‬
‫کیوں لگا لیں ہیں۔۔۔ ؟؟؟ اوپر سے لؤوڈ میوزک نے‬
‫ہماری َمت ماری ہوئ ہے ۔۔ تو وہ بوال بہن چودا ان کی‬
‫مرضی ہے جو چاہیں کریں تمھاری گانڈ میں کیوں‬
‫خارش ہو رہی ہے ۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟ گانڈ کا زکر کرتے ہوۓ‬
‫۔۔ اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر ہنس‬
‫پڑا ۔۔۔ اسے یوں ہنستا دیکھ کر میں نے اُس سے‬
‫پوچھا۔۔ کس بات پر ہنسی نکل رہی ہے تیری ۔۔ ؟؟ تو‬
‫وہ بوال کچھ نہیں یار بس ویسے ہی ۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی‬
‫مجھے آنکھ مار دی ۔۔‬
‫ُچھٹیوں کے دوران جب بھی یاسر کے گھر والے کہیں‬
‫جاتے یہ لوگ سیکس پروگرام بنا لیتے تھے اور پتہ‬
‫نہیں کیوں اپنے ہر پروگرام کی مجھے ضرور اطالع‬
‫دیا کرتے تھے ۔۔ لیکن اس دن کے بعد میں نے ان کے‬
‫ساتھ کوئ پروگرام نہیں کیا ۔۔ کوئ خاص وجہ بھی نہ‬
‫تھی بس ُموڈ ہی نہ بنا تھا ۔ حاالنکہ اُس دِن کی فکنگ‬
‫کے بعد دونوں خاص کر یاسر تو میرے لن کا دیوانہ‬
‫بن چکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اب وہ میرا بڑا اچھا‬
‫دوست بھی بن چکا تھا ۔۔ اور مجھے میرے نام کی‬
‫بجاۓ استاد جی کہتا تھا ہمساۓ ہونے کی وجہ سے‬
‫میرا تو ابھی نہیں پر ہمارے گھر والوں کا یاسر کے‬
‫گھر آنا جانا شروع ہو چکا تھا ۔۔۔ پھر کچھ دن بعد ہم‬
‫سب کے سکول کالج کھل گۓ اور روٹین الئف شروع‬
‫ہو گئ ۔۔۔۔ اور یہ سکول کالج ُکھلنے کے کوئ دو ہفتے‬
‫بعد کا زکر ہے۔۔۔‬
‫ب مع ُمول کالج جانے کے لیۓ گھر سے نکال‬ ‫میں حس ِ‬
‫اور گھر کے راستے میں چونکہ رفیق کا گھر آتا تھا‬
‫اس لیۓ میں اس کو ساتھ لے جاتا تھا ۔۔ اُس دن بھی‬
‫میں نے یہی پریکٹس کرنی تھی ۔۔۔ پر ہوا یہ کہ جیسے‬
‫ہی میں گھر سے نکال تو ساتھ والے گھر سے ( جو کہ‬
‫یاسر لوگوں کا تھا ) سے آنٹی کی مسلسل زور زور‬
‫سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہیں تھیں ایسا لگ رہا‬
‫تھا کہ وہ کسی کے ساتھ لڑ رہی ہوں ۔۔۔ پہلے تو میں‬
‫ان آوازوں کو معمول کی بات سمجھا پھر جب یاسر کی‬
‫امی کی آوازوں کا والیم کچھ زیادہ ہی اونچا ہونے لگا‬
‫تو میں جو رفیق کے گھر کی طرف تین چار قدم بڑھا‬
‫سن کر واپس ہو گیا اور جا کر یاسر‬ ‫چکا تھا یہ آوازیں ُ‬
‫کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔۔۔ پر کسی نے کوئ‬
‫جواب نہ دیا ۔۔۔۔ میں نے ایک دفعہ اور تھوڑا زور سے‬
‫دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔ اور انتظار کرنے لگا ۔۔ پر اس‬
‫دفعہ بھی کسی نے کوئ جواب نہ دیا ۔۔ اور میں کچھ‬
‫دیر کھڑا رہنے کے بعد سوچا شاید وہ دروازہ نہیں‬
‫کھولنا چاہتے شاید کوئ گھریلو مسلہ ہو گا اور وہاں‬
‫سے چل پڑا ابھی میں نے جانے کے لیۓ مشکل سے‬
‫ایک آدھ ہی قدم بڑھایا ہو گا کہ اچانک یاسر کے گھر‬
‫کا دروازہ ُکھل گیا اور دیکھا تو دروازے پر آنٹی‬
‫کھڑی سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں ۔۔‬
‫اُن کو یوں دیکھ کر میں تھوڑا گھبرا گیا اور ۔۔۔ پوچھا‬
‫آنٹی جی سب خیریت تو ہے نا ۔۔؟ تو وہ بولی ہاں خیر‬
‫یت ہی ہے تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔وہ آپ کے گھر‬
‫سے ۔۔۔۔۔ تو وہ جلدی سے بولی ۔۔۔ وہ اصل میں یاسر‬
‫سکول جانے سے آج پھر انکاری ہے کہتا ہے میں نے‬
‫اس سکول میں نہیں پڑھنا ۔۔۔ میرا سکول تبدیل کرو ۔۔۔‬
‫اب بتاؤ نا بیٹا میں کیا کروں ۔۔۔ کہ اب تک یہ بچہ کم از‬
‫کم چار سکول تبدیل کر چکا ہے تو میں نے پوچھا اس‬
‫کی وجہ کیا بتاتا ہے ۔۔؟ تووہ بولی وجہ ہی تو نہیں بتانا‬
‫نہ ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ میں تو اس لڑکے سے‬
‫بڑی عاجز آگئ ہوں۔۔۔ بس ایک ہی رٹ لگا ر کھی ہے‬
‫کہ سکول نہیں جانا۔۔۔ سکول نہیں جانا۔۔۔۔ تو میں نے‬
‫جواب دیا میرا خیال ہے اس نے ہوم ورک نہیں کیا ہو‬
‫گا ؟ تو وہ بولی پتہ نہیں کیا بات ہے کچھ بتاتا بھی تو‬
‫نہیں ہے نا ۔۔۔ تو میں کہا آنٹی جی اگر آپ اجازت دیں‬
‫تو میں ٹرائ کروں تو وہ مجھ سے کہنے لگی اگر تم‬
‫اس سے پوچھ کر کچھ بتا سکو تو تمھاری بڑی‬
‫مہربانی ہو گی ۔۔۔ اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے اندر‬
‫آنے کے لیۓراستہ دے دیا ۔۔۔۔۔‬
‫اور میں ان کے گھر کے اندر چال گیا اور آنٹی سے‬
‫پوچھا کہ یاسر کس کمرے میں ہے تو وہ بولی ۔۔۔۔ اپنے‬
‫ُروم میں بیٹھا ہے اور میں سیدھا اس کے کمرہ میں‬
‫سورے پلنگ کے ایک‬ ‫چال گیا ۔۔ دیکھا تو یاسر منہ ب ُ‬
‫طرف بیٹھا تھا ۔۔ جبکہ دوسرے طرف اس کا سکول‬
‫ہونیفارم پڑا ہوا تھا اور سامنے تپائ پر ناشتہ رکھا تھا‬
‫۔۔۔ جو پڑے پڑے ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔ مجھے یوں اپنے‬
‫ُروم میں دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا اور بوال ۔۔۔ استاد‬
‫جی آپ ؟؟؟ (مطلب سیکس کا استاد ) تو میں نے اس‬
‫سے بوچھا یار تم نے کیا سارے گھر کو ٹینشن میں ڈال‬
‫رکھا ہے ۔۔۔ آج سکول کیوں نہیں جا رہے ؟ اور ساتھ‬
‫ہی یہ بھی سوال کر لیا کہ تمھاری امی کہہ رہی ہیں کہ‬
‫تم سکول بدلنے کا کہہ رہے ہو ؟ چکر کیا ہے ؟ میری‬
‫سن کر پہلے تو اس نے مجھے ٹالنے کی کوشش‬ ‫بات ُ‬
‫کی ۔۔۔ پر میں کہاں ٹلنے واال تھا سو میں نے اس سے‬
‫صاف صاف کہہ دیا کہ بیٹا میں تمھاری اماں جان نہیں‬
‫ہوں کہ ٹل جاؤں ۔۔۔۔ میرے ساتھ صاف اور دو ٹوک‬
‫بات کرو اور بتاؤ کہ اصل معاملہ کیا ہے تب اس نے‬
‫میری طرف دیکھا اور کچھ سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔ تو میں‬
‫نے اس کہا سوچتا کیا ہے یار تمھارا اور میرا کوئ‬
‫پروہ ہے جو بات کو یوں چ ُھپا رہے ہو تو اس نے ایک‬
‫دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور ۔۔۔ اس کے چہرے پر‬
‫کشمکش کے آثار دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔‬
‫گھبرا مت یار میں تمھارا دوست ہوں ۔۔۔۔۔ کوئ مسلہ ہے‬
‫تو ہم مل کر حل کر لیں گے اور کہنے لگا دیکھو ایک‬
‫اور ایک گیارہ ہوتے ہیں میری اس طرح کی باتوں‬
‫سے اسے کافی تسلی ہوئ اور پھر کچھ اٹک آٹک کر‬
‫اس نے مجھے بتالیا ۔۔۔۔ ۔۔۔‬
‫وہ استاد جی بات یہ ہے ۔۔۔ کہ وہ سر پی ٹی مجھے بڑا‬
‫تنگ کرتا ہے۔۔۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ میں ساری بات‬
‫سمجھ گیا لیکن پھر بھی میں نے اس سے کنفرم کرنے‬
‫کے لیۓ پوچھ لیا کہ وہ کیوں تنگ کرتا ہے ؟ تو وہ‬
‫عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔۔۔۔‬
‫یار وہ اصل میں میری لینے کے چکر میں ہے ۔۔۔۔ اور‬
‫سر جھکا لیا ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ اچھا تو‬
‫اتنے سکول بدلنے کی یہی وجہ تھی ؟ تو اس نے اپنا‬
‫سر ہاں میں ہال دیا ۔۔۔ اور میرے خیال‬
‫میں اُس کی آنکھوں میں آنسو بھی آ گے تھے ۔۔۔۔‬
‫سن کر ایک شعر یاد آ گیا کہ‬‫مجھے اس کی بات ُ‬
‫اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے‬
‫جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی‬

‫پھر میں نے اس سے اس کے سکول کا نام پوچھا تو (‬


‫یہ پنڈی میں ) مری روڈ پر ایک پرائیویٹ سکول تھا ۔۔۔‬
‫اتفاق سے جس کے پرنسپل کا بیٹا میرے ساتھ ہی کالج‬
‫میں پڑھتا تھا ۔۔۔ سو میں نے اس کو کہہ دیا کہ یاسر‬
‫یار تم یونیفارم پہنو اور بے فکر ہو کر سکول چلے‬
‫جاؤ آج کے بعد سر پی ٹی تو کیا اس کا باپ بھی‬
‫تمھاری طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھے گا اور یہ بھی‬
‫کہا کہ آئیندہ اگر کبھی ایسی بات ہوئ تو تم مجھے بتانا‬
‫سن کر اس نے بے یقینی سے میری‬ ‫۔۔۔ میری بات ُ‬
‫طرف دیکھا اور بوال ۔۔ تم سچ کہ رہے ہو استاد جی۔۔؟‬
‫سن کر وہ‬ ‫تو میں نے کہا آزمائیش شرط ہے بیٹا ۔۔۔۔ یہ ُ‬
‫تھوڑا مطمئین ہو گیا لیکن پھر فکرمند سا ہو کر بوال‬
‫دیکھ یار ُمروا نہ دینا ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ایسی کوئ بات‬
‫نہیں ہے دوست۔۔ اعتبار کرو اور کہا کہ تم بس یونیفارم‬
‫پہن کر تیار ہو جاؤ میں تمھارا کھانا گرم کروا کر التا‬
‫ہو ۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔ ٹھیک ہے پر‬
‫ایک بات اور !!! ۔۔۔ تو میں نے اس کی بات کاٹ کر‬
‫کہا ہاں بولو تو وہ کہنے لگا ۔۔ پلیز اس بات کا امی اور‬
‫رفیق کو نہیں پتہ چلنا چاہیۓ تو میں نے کہا یار امی‬
‫کی بات تو سمجھ میں آتی ہے یہ رفیق کو کیوں نہیں‬
‫بتانا۔۔۔؟ تو وہ بوال یار یہ لوگ بعد میں اس بات کا بڑا‬
‫سن کر میں نے اس سے‬ ‫مزاق اُڑاتے ہیں اس کی بات ُ‬
‫وعدہ کر لیا کہ یہ بات میرے اور اس کے بیچ ہی رہے‬
‫گی ۔۔‬
‫تو وہ ایک بار پھر مجھ سے کہنے لگا استاد جی پکی‬
‫بات ہے نا کہ آپ میرا مسلہ حل کر لو گے۔۔؟؟ تو میں‬
‫نے جواب دیا فکر نہ کر بیٹا تمھارا کام ہو جاۓ گا تو‬
‫وہ دوبارہ کہنے لگا استاد جی وہ بڑا حرامی آدمی ہے‬
‫پلیز ۔۔ پلیز اس پر زرا پکا ہاتھ ڈالنا ورنہ یو نو۔۔!! اور‬
‫ساتھ ہی سر جھکا لیا۔۔ وہ کافی ڈرا ہوا لگ رہا تھا اس‬
‫لیۓ میں نے اس کو بتا دیا کہ ان کے سکول کے‬
‫پرنسپل کا لڑکا میرے ساتھ پڑھتا ہے اور اپنا یار ہے‬
‫سن کر اس نے ایک گہری سانس لی اور بوال ٹیھک‬ ‫یہ ُ‬
‫ہے آپ جاؤ میں ہونیفارم وغیرہ پہن کر خود ہی چال‬
‫جاؤں گا پھر کہنا لگا پلیز آپ اس لیۓ بھی جاؤ کہ‬
‫کہیں رفیق آپ کی طرف ہی نہ آ جاۓ۔۔۔ تو میں نے کہا‬
‫او کے تم یونیفارم پہنو میں یہ ناشتے کے برتن تمھاری‬
‫امی کو دے کر جاتا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی پتا دیا کہ‬
‫تمھاری امی کے پوچھنے پر میں یہ وجہ بات بتاؤں گا‬
‫اور برتن لے کر باہر نکل گیا ۔۔‬
‫باہر نکال تو سامنے ہی اس کی امی کھڑی تھی اور وہ‬
‫دروازے ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں مجھے نکلتے‬
‫دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور بولی ۔۔۔ کیا بات ہوئ اس‬
‫سے؟؟ ۔۔۔۔ اور کیا کہتا ہے وہ ؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا آنٹی‬
‫جی سب ٹھیک ہو گیا ہے ۔۔۔ آپ بس اس کا کھانا گرم‬
‫کر دیں وہ ہونیفارم پہن رہا ہے اور ناشتہ کے بعد‬
‫سکول چال جاۓ گا تو وہ بولی لیکن وہ سکول کیوں‬
‫نہیں جا رہا تھا ؟؟ تو میں نے کہا اصل میں جیسا کہ‬
‫آپ کو پتہ ہے انگلش میڈیم بچوں کی اُردو بڑی کمزور‬
‫ہوتی ہے ۔۔ اور ان کی اردو کا ٹیچر بڑا سخت ہے‬
‫لیکن اب میں نے اس کو سمجھا دیا ہے اب وہ سکول‬
‫بھی جاۓ گا اور آئیندہ آپ سے سکول چھوڑنے کی‬
‫بات بھی نہیں کرے گا۔۔ پھر میں نے برتن اُن کے ہاتھ‬
‫میں پکڑا کر کہا کہ آپ پلیز اس کا کھانا گرم کر دیں ۔۔‬
‫وہ میری بات کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی پر میرے‬
‫ہاتھوں سے کھانے کا برتن لیا اور کچن کی طرف چلی‬
‫گئ ۔۔۔ اور میں وہاں سے سیدھا رفیق کی طرف گیا اور‬
‫جیسے ہی اس کے گھر پر دستک دینے لگا تو وہ گھر‬
‫سے میری ہی طرف نکل رہا تھا ۔۔ مجھے دیکھ کر‬
‫بوال خیریت تھی آج لیٹ ہو گۓ تم۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔۔‬
‫بس یار کھبی کبھی ایسا ہو جاتا ہے تو وہ بوال ہاں یہ تو‬
‫ہے اور ہم کالج کی طرف چل پڑے۔۔۔‬
‫میں کالج پہنچ کر سیدھا اپنے دوست کے پاس گیا اور‬
‫سن کر فکر مندی‬ ‫ت حال بتا دی ۔۔۔ ُ‬
‫اسے ساری صور ِ‬
‫سے بوال ۔۔۔ اب تم بتاؤ کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟ کہو تو ابا سے‬
‫بات کر اُس حرامزادے کو نوکری سے نکلوا دوں۔۔۔؟ تو‬
‫میں نے کہا نہیں یار نوکری سے نکالنے کی کوئ‬
‫ضرورت نہیں ہے ‪ -‬میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ آئیندہ‬
‫وہ یاسر کو تنگ نہ کرے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے‬
‫یار جیسے تم کہو گے ویسا ہی ہو گا اور مجھ سے بوال‬
‫تم کس ٹائم فری ہو گے تو میں نے کہا ۔۔ میرا کیا ہے‬
‫جان جی میں تو فری ہی فری ہوں ۔۔ ‪ -‬تو وہ کہنے لگا‬
‫تو پھر چلو سکول چلتے ہیں اور ہم نے کالج سے اپنے‬
‫ایک دو پیریڈ ِمس کیے اوریاسر کے سکول کی طرف‬
‫چل پڑے۔۔ راستے میں دوست نے مجھ سے یاسر کی‬
‫کالس اور دیگر معلُومات حاصل کر لیں پھر سکول‬
‫پہنچ کر اس نے مجھے سٹاف روم میں بٹھایا اور آفس‬
‫بواۓ کو میرے لیۓ چاۓ النے کا بول کر خود غائب‬
‫ہو گیا اور جاتے جاتے بوال کہ تم چاۓ پئیو ۔۔۔۔ میں‬
‫بس ابھی آیا ۔۔۔ کافی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس‬
‫کے ساتھ ایک پکی سی عمر کا گ ُھٹے ہوۓ جسم واال‬
‫مکروہ صورت آدمی بھی تھا جس کا رنگ گہرا سانوال‬ ‫ُ‬
‫اور شکل پر لعنت برس رہی تھی اس کا پیٹ کافی باہر‬
‫کو نکال ہوا تھا ناک لمبی (طوطے کی طرح) اور‬
‫آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں مجموعی طور پر وہ ایسا‬
‫شخص تھا کہ جس سے گانڈ تو بہت دُور کی بات ہے‬
‫اس سے تو ہاتھ مالنے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا آ کر‬
‫میرے پاس بیٹھ گیا اور پھر دوست مجھ سے مخاطب‬
‫ہو کر بوال شاہ یہ سر پی ٹی ہیں اور پھر میرا سر پی‬
‫تعارف کراتے ہوۓ بوال اور سر یہ میرے‬ ‫ُ‬ ‫ٹی سے‬
‫دوست ‪ ،‬کالس فیلو اور یاسر کے بڑے بھائ شاہ ہیں‬
‫اسے دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئ تھی اور‬
‫میں اسے بڑی ہی غضب ناک نظروں سے گھور رہا‬
‫تھا میری نظروں کی تاب نہ ال کر پی ٹی سر نے سر‬
‫جھکا لیا پر میں نے اسے گھورنا جاری رکھا ۔۔۔ اس‬
‫وقت سٹاف روم میں ہمارے عالوہ اور کوئ نہ تھا اور‬
‫کمرے میں عجیب پُر اسرار سی خاموشی چھائ ہوئ‬
‫تھی ۔‬
‫پھر اس خاموشی کو دوست نے ہی توڑا۔۔ اس نے پہلے‬
‫تو کھنگار کر گال صاف کیا اور پھر بوال شاہ میں نے‬
‫ان سے تفصیلی بات کر لی ہے اور ان کو ساری بات‬
‫سمجھا بھی دی ہے میرا خیال ہے آئیندہ تم کو ان سے‬
‫شکایت کا موقعہ نہیں ملے گا اس لیے پلیز تم ابھی ابا‬
‫سے ان کے بارے میں کوئ بات نہ کرنا ورنہ تم کو تو‬
‫پتہ ہی ہے کہ ابا طوفان لے آئیں گے اور سر کی جگ‬
‫ہنسائ الگ سے ہو گی ۔۔ ۔۔۔ پھر وہ پی ٹی سر سے‬
‫ُمخاطب ہو کر بوال کیوں سر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں‬
‫سن کر پی ٹی نے بے بسی سے‬ ‫نا؟؟ ۔۔ اس کی بات ُ‬
‫میری طرف دیکھا اور کھسیانی ھنس کر بوال جی ۔۔۔۔‬
‫آپ درست کہہ رہے ہیں اور پھر سر جھکا لیا اور اپنے‬
‫ہونٹ کاٹنے لگا ۔۔ پھر دوست نے میری طرف دیکھا‬
‫اور بوال شاہ کیا تم نے سر کی معزرت قبول کر لی‬
‫ہے۔۔؟؟ تو میں نے کہا یار تم میری بات چھوڑو ۔۔۔ تم‬
‫اُس لڑکے کی بابت کیوں نہیں سوچتے جو ان کی‬
‫حرکتوں کو وجہ سے سکول چھوڑ نے پر تیار ہو گیا‬
‫سن کر دوست بوال۔۔ ک ُھل کر بتاؤ تم‬‫تھا ؟؟؟ میری بات ُ‬
‫کیا چاہتے ہو؟ تو میں نے جواب دیا میں چاہتا ہوں کہ‬
‫یہ صاحب خود اس سے معزرت کریں اس طرح اس‬
‫کے دل سے ان کا ڈر بھی دُور ہو جاۓ گا اور یہ بھی‬
‫بعد میں اس کے ساتھ کوئ بدمعاشی نہیں کر سکیں گے‬
‫سن کر پی ٹی سر کو ایک دم شاک لگا‬ ‫۔۔۔ میری بات ُ‬
‫اور وہ بوال ۔۔ نہیں یہ ۔۔۔ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ میں نے آپ‬
‫سے معزرت کر لی ہے ۔۔۔ یہ کافی نہیں ہے کیا ؟ ۔۔۔۔۔‬
‫اب میں کیا بچے سے معزرت کروں گا اس طرح بچے‬
‫پر میرا امپریشن کیا رہ جاۓ گا۔۔؟؟؟؟؟ تو میں نے تلخی‬
‫سے جواب دیا کہ جناب کو اپنے امپریشن کی اُس وقت‬
‫کوئ فکر نہیں تھی جب آپ بچے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سن‬‫کرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟؟ ۔۔۔ میری بات ُ‬
‫کر پی ٹی تھوڑا کھسیانہ ہو گیا پر بوال کچھ نہیں ۔۔۔۔‬
‫بھر میں نے دوست کو مخاطب کر کے کہا کہ ۔۔ ٹھیک‬
‫ہے دوست اگر یہ بچے سے معزرت نہیں کرے گا تو‬
‫مجبورا ً مجھے یہ معاملہ انکل کے پاس لے جانا پڑے‬
‫گا پھر میں نے ہوا میں تیر چھوڑتے ہوۓ کہا کہ۔۔۔ میں‬
‫نے یاسر کے ساتھ ایک دو اور لڑکے بھی تیار کیے‬
‫ہوۓ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ۔۔۔ یہ غلیظ حرکت کی‬
‫ہوئ ہے ۔۔۔ اور وہ سب کے سب آج ان کے خالف‬
‫گواہی دیں گے ۔۔۔‬
‫میں نے یہ کہا اور اُٹھ کر چلنے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر پی‬
‫ٹی اپنی کرسی پر اضطراری حالت میں پہلو بدلتے‬
‫ہوۓ میری باڈی لینگؤیج کو نوٹ کرنے لگا اور جب‬
‫میں اُٹھ کر دروازے تک پہنچ گیا تو وہ بوال ایک منٹ‬
‫بیٹا ۔۔۔۔ پر میں نہ ُرکا تو دوست کی آواز آئ یار ایک‬
‫منٹ ان کی بات سننے میں حرج ہی کیا ہے ؟؟ تو میں‬
‫وہاں ُرک گیا اور بوال ۔۔۔ جو کہنا ہے جلدی کہیں ۔۔۔۔ تو‬
‫وہ بوال ۔۔ دیکھو بیٹا میں تمھارے باپ کی عمر کا ہوں‬
‫اور ٹیچر ویسے بھی باپ ہی ہوتا ہے تو کیا یہ اچھا‬
‫لگے کا کہ میں ایک بزرگ اپنے بیٹے سے بھی‬
‫چھوٹے لڑکے سے ایکسکیوز کرے۔۔؟ تو میں نے‬
‫جواب دیا ۔۔۔۔ یہ بات تو آپ نے پہلے سوچنے تھی ناں‬
‫اور پھر باہر جانے کے لیۓ جیسے ہی دروازے سے‬
‫باہر قدم رکھا ۔۔۔۔۔۔ پی ٹی مری ہوئ آواز میں بوال ۔۔۔۔ او‬
‫کے۔۔۔۔ بچے کو بُال لو۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ‬
‫کہتا دوست بوال مجھ سے ُمخاطب ہو کر بوال تم بیٹھو‬
‫میں یاسر کو التا ہوں ۔۔۔۔ اور میں واپس آ کر صوفے‬
‫پر بیٹھ گیا ۔۔۔‬
‫کمرے میں گھنا سناٹا چھایا ہوا تھا اور ِپن ڈراپ‬
‫سائیلنس تھا اور اس خاموشی میں پی ٹی کسی گہری‬
‫ب معمول اسے‬ ‫سوچ میں کھویا ہوا تھا اور میں حس ِ‬
‫مسلسل کھا جانے والی نظروں سے ُگھورے جا رہا تھا‬
‫۔۔ کچھ دیر بعد دیر بعد دوست کے ساتھ یاسر کمرے‬
‫میں نمودار ہوا اور مجھے اور پی ٹی کو دیکھ کر کسی‬
‫حیرت کا اظہار نہ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ دوست‬
‫سے سارے معاملے پر پہلے ہی بریف کر چکا تھا۔۔‬ ‫ا ُ‬
‫یاسر کمرے میں داخل ہوتے ہی سیدھا میرے پاس آ کر‬
‫پیٹھ گیا اور سر جھکا کر نیچے دیکھنے لگا ۔۔۔ کمرے‬
‫میں ایک بار پھر ِپن ڈراپ سائیلنس ہو گیا ۔۔۔۔ پھر میں‬
‫نے خاموشی کو توڑا اور پی ٹی سے مخاطب ہو کر‬
‫بوال ۔۔۔۔ یاسر آ گیا ہے ۔۔ پی ٹی جو کسی گہری سوچ‬
‫سن کر ہڑبڑا کر اُٹھا اور‬ ‫میں ڈوبا ہوا تھا میری بات ُ‬
‫میری طرف دیکھنے لگا تو میں نے جلدی سے یاسر‬
‫کی طرف اشارہ کر دیا ۔۔ پی ٹی کے چہرے پر تزبزب‬
‫کے آثار ۔۔۔ دیکھ کر میرے دوست نے بھی ایک‬
‫گھنگھورا مارا اور پی ٹی کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ اب‬
‫پی ٹی کے لیۓ پاۓ رفتن نہ جاۓ ماندن واال معامال ہو‬
‫گیا تھا ۔۔۔ پھر اس نے ہمت کی اور یاسر سے بوال ۔۔۔۔‬
‫یاسر بیٹا جو کچھ بھی ہوا اس کے لیۓ سوری۔۔۔۔۔ یہ‬
‫کہا اور اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔‬
‫جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکال یاسر میرے گلے‬
‫سے لگ گیا اور آہستہ سے میرے کان میں بوال ۔۔۔۔‬
‫تھینک یو ۔۔۔ تم واقعی اُستاد ہو ۔۔ اور پھر دوست کا‬
‫شکریہ ادا کیا تو وہ بوال کوئ بات نہیں ۔۔ اور کہنے لگا‬
‫۔۔۔ یار آپ نہیں آپ کے کسی بھی دوست کے ساتھ اگر‬
‫یہ بندہ دوبارہ ایسی حرکت کرے تو میری طرف اشارہ‬
‫کر کے کہنے لگا پلیز تم صرف ان کو بتا دینا ۔۔۔ پھر‬
‫خود ہی کہنے لگا آج جو اُس کے ساتھ ہو گئ ہے اُمید‬
‫ہے کہ اس کے بعد کسی کے ساتھ یہ ایسا برتاؤ نہیں‬
‫کرے گا ۔۔۔۔۔۔ اُس نے یہ کہا اور پھر مجھے چلنے کا‬
‫اشارہ کر دیا اور ہم واپس آگے ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اُسی دن شام کی بات ہے کہ میں کمیٹی چوک کسی کام‬
‫سے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے یاسر کی آواز‬
‫سنائ دی میں اسے دیکھ کر ُرک گیا اور جہسے ہی وہ‬ ‫ُ‬
‫شکریہ ادا کیا‬ ‫میرے پاس آیا اس نے ایک بار پھر میرا ُ‬
‫تو میں نے کہا یار کیوں شرمندہ کرتے ہو تو وہ بوال ۔۔۔‬
‫یار شکریہ کے ساتھ ایک معزرت بھی کرنی ہے ۔۔ تو‬
‫مین نے کہا وہ کیا تو وہ بوال یار تم کو تو پتہ ہی ہے‬
‫کہ ماما اس بات کے پیچھے ہی پڑ گئیں تھیں اور‬
‫باربار کرید کرید کر مجھ سے اس بارے میں پوچھتی‬
‫رہی تھیں تو میں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ شاہ نے مجھ‬
‫سے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ مجھے ہر شام اُردو اور‬
‫میتھ پڑھا دیا کرے گا ۔۔۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا‬
‫اور بوال کیا یہ کیا کر دیا یار ۔۔۔ تو وہ بوال مجبوری‬
‫تھی باس ورنہ ۔۔۔ یو ۔۔ نو ۔۔!!! پھر میں نے اس سے کہا‬
‫یار اُردو تو ٹھیک ہے یہ میتھ تو میرے باپ دادے کی‬
‫بھی سمجھ سے باہر ہے تو وہ ہنس کر بوال ۔۔ اُستاد آپ‬
‫اس چیز کی فکر ہی نہ کرو مجھے اُردو اور میتھ کیا‬
‫ہر سبجیکٹ خوب اچھے طرح سے آتا ہے ۔۔۔۔ پر اس‬
‫وقت مجبوری ہے ۔۔۔ ماما کو کور کرنا تھا سو جھوٹ‬
‫بول دیا بس اب تم شام سے ہمارے گھر مجھے پڑھانے‬
‫آ جانا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔ او یار شام کا ٹائم‬
‫کیوں رکھ دیا تو نے ؟؟؟؟ ۔۔ تو وہ بوال کیوں شام کو کیا‬
‫ہوتا ہے ؟؟ ۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا سالے یہی ٹائم تو‬
‫چھت پر بھونڈی کا ہوتا ہے اور میں اس ٹائم تمھارے‬
‫ساتھ مغز ماری کروں گا تو وہ کہنے لگا یار تم نے‬
‫کون سا پڑھانا ہے ۔۔۔ بس ڈرامہ ہی کرنا ہے نہ۔۔۔ اور‬
‫ڈرامہ بھی ایک ماہ کرنا ہے ۔۔۔پھر ماما کو بتا دینا کہ‬
‫بچہ چل گیا ہے اب اسے ٹیچر کی کوئ ضرورت نہیں‬
‫رہی اور دوسری بات بھونڈی تو تم جانتے ہو کہہ میں‬
‫لڑکی سے زیادہ اچھا چوپا لگا تا ہوں سو جب تم چاہو‬
‫میں تمھارا اے ون چوپا لگا دیا کروں گا تم بس اب‬
‫میری بات مان لو ۔۔۔۔ اور میں نے اس کی بات مان لی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫جب میں کمیٹی چوک سے واپس گھر آیا تو امی میرے‬
‫پاس کمرے میں آ گئ اور بولی آج یاسر کی امی ہمارے‬
‫گھر آئ تھی اور تمھارا پوچھ رہی تھی ۔۔۔ تو میں نے‬
‫پوچھا کیا کہیتی تھی وہ ۔۔ تو امی کہنے لگی وہ کہہ‬
‫رہی تھی کہ تم ان کے بیٹے کو پڑھا دیا کرو ۔۔۔ پھر‬
‫بولی پُتر ہمسائیوں کے بڑے حقُوق ہوتے ہیں اب وہ‬
‫بے چاری چل کے ہمارے گھر آ گئ ہے تو تم نہ‪ ،‬نہ‬
‫کرنا ۔۔۔ اور کل سے یاسر کو پڑھانے چلے جانا ۔۔۔۔ کہ‬
‫میں نے بھی اسے حامی بھر دی ہے پھر کہنے لگی‬
‫تمھارا کیا خیال ہے۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ بے‬
‫بے جب آپ نے حامی بھر لی ہے تو اب انکار کی‬
‫کوئ ُگنجائیش ہی نہیں رہی ۔۔۔ سو آپ کے حکم کے‬
‫مطابق کل سے میں یاسر کو پڑھانے چال جاؤں گا۔۔‬
‫سن کر بے بے کہنے لگی جیتے رہو پُتر‬ ‫میری بات ُ‬
‫مجھے یقین تھا کہ تم میری بات کو کبھی نہیں ٹالو گے‬
‫۔‬
‫اگلے دن شام کو میں یاسر کے گھر گیا اور گھنٹی‬
‫بجائ تو یاسر باہر نکال اور بڑی گرم جوشی سے‬
‫میرے ساتھ ہاتھ مالیا اور ایک دفعہ پھر میرا شکریہ ادا‬
‫کیا اور پھر مجھے اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گیا اور‬
‫مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کروہاں سے ہی آواز‬
‫لگائ ۔۔۔ ما ما ۔۔ ٹیچر آ گۓ ہیں ۔۔!!!! اور پھر میری‬
‫طرف دیکھ کر آنکھ مار دی ۔۔۔ میں بھی اس کی طرف‬
‫کراہٹ کے ساتھ ہنس پڑا ۔۔۔ اور‬ ‫دیکھ کر پھیکی سی ُمس ُ‬
‫ان کے ڈرائینگ ُروم کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔ ان لوگوں‬
‫نے ڈرائینگ روم بڑی اچھی طرح سے سجایا ہوا تھا‬
‫ابھی میں اس کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ یاسر کی امی‬
‫ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئ جسے دیکھ کر میں‬
‫احتراما ً کھڑا ہو گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی ارے ارے ۔۔‬
‫آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں نہ پلیز۔۔۔ !!! لیکن میں اُس‬
‫وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ وہ میرے سامنے‬
‫صوفے پر نہ بیٹھ گئ ۔۔۔ انہوں نے کالے رنگ کی‬
‫ُکھلے گلے والی سلیو لیس قمیض پہنی ہوئ تھی اور‬
‫اس کالے رنگ کی قمیض میں ان کا گورا بدن صاف‬
‫چھلک رہا تھا اور اور قمیض کے اوپر انہوں نے ایک‬
‫باریک سا کالے ہی رنگ کا دوپٹہ لیا ہوا تھا جس کی‬
‫سنگ مر مر سے تراشا ہوا گورا بدن‬‫ِ‬ ‫وجہ سے ان کا‬
‫مزید نکھر کر سامنے آ گیا تھا ۔۔۔ ان کے شانے چوڑے‬
‫اور کافی بڑے تھے اس لیۓ ان پر سلیو لیس بڑا جچ‬
‫رہا تھا ۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ صوفے پر‬
‫بیٹھ گئ تو میں بھی بیٹھ گیا ۔۔۔ بیٹھے ہی وہ مجھ سے‬
‫ُمخاطب ہو کر بولی کال میں آپ کے گھر بھی گئ تھی‬
‫۔۔۔ لیکن آپ گھر پرموجود نہ تھے ۔۔۔ تو میں نے آپ‬
‫کی امی سے ریکؤئسٹ کی تھی کہ آپ یاسر کو پڑھا‬
‫شکر ہے کہ خالہ جان نے میری‬ ‫دیا کریں اور ُ‬
‫درخواست منظور کر لی تھی ۔۔ اور تھینک یو آپ کا کہ‬
‫آپ آ گۓ۔۔ پھر کہنے لگی دیکھو مجھے بات کرتے‬
‫ہوۓ لگ تو عجیب رہا ہے لیکن شرع میں شرم نہیں‬
‫ہونا چاہیۓ اسلیۓ آپ خود ہی بتا دو کہ آپ فی‬
‫سن کر میں‬‫سبجیکٹ کتنے پیسے لو گے ؟ اُن کی بات ُ‬
‫واقعہ ہی حیران ہو گیا اور بوال ۔۔۔۔ کیسے پیسے جی ؟‬
‫تو وہ کہنے لگی یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ‬
‫اپنےقیمتی وقت میں سے کچھ ٹائم میرے بچے کو دے‬
‫رہے ہیں تو ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی شرمائیں نہ پلیز ۔۔۔ آپ‬
‫کی جو بھی ڈیمانڈ ہے بتا دیں ۔۔ اب میں نے اُن کو کہا‬
‫کہ اگر تو آپ نے پیسے دے کر ہی پڑھوانا ہے تو‬
‫سن کر‬‫میری طرف سے معزرت قبول کرلیں ۔۔ یہ بات ُ‬
‫وہ کہنے لگی او ہو ۔۔ آپ تو ناراض ہی ہو گۓ ہیں ۔۔‬
‫چلیں اس ٹاپک پہ ہم بعد میں گفتگو کر لیں گے آپ‬
‫بچے کو پڑھانا شروع کریں میں آپ کے لیے ٹھنڈا لے‬
‫کر آتی ہوں اور وہ اُٹھ کر چلی گئ۔۔‬
‫اب میں اور یاسر کمرے میں اکیلے رہ گۓ تو میں نے‬
‫اُس سے کہا یہ تم نے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے یار‬
‫۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگا ۔۔۔ سب چلتا ہے باس اور‬
‫بیگ کھول کر کتابیں نکالنے لگا۔۔۔ اور اس طرح میں‬
‫نے یاسر کو پڑھانا شروع کر دیا ۔۔۔ مجھے یاسر کو‬
‫پڑھاتے ہوۓ ‪ 3،4‬دن ہو گۓ تھے۔۔ اوراس کی امی‬
‫ریگولرلی میرے لیۓ ٹھنڈا یا گرم لے کر آتی تھی اور‬
‫مجھ سے یاسر کی پڑھائ کے بارے ڈسکس کرتی تھی‬
‫۔۔ اصل میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیۓ کافی فکر‬
‫مند تھی اور اس طرح کرتے کرتے اب میری یاسر کی‬
‫ماما سے بہت اچھی گپ شپ ہو گئ تھی ۔۔۔ یہ پانچویں‬
‫یا چھٹے دن کی بات ہے کہ وہ ٹرے میں چاۓ کے‬
‫ساتھ کافی لوازمات الئی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی‬
‫یاسر سے بولی ۔۔۔ تمھارا فون ہے ۔۔ تو وہ کہنے لگا‬
‫سنتے ہی‬ ‫کس کا ہے مام ۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ وہی ۔۔ یہ ُ‬
‫یاسر نے چھالنگ لگائ اور فون کی طرف دوڑ پڑا ۔۔‬
‫اب میں نے تھوڑا حیران ہو کر اُس سے پوچھا ۔۔۔ کس‬
‫کا فون تھا ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ اس کی منگیتر کا تھا ۔۔۔ اور‬
‫ہنستے ہوۓ بولی ۔۔۔۔ یو نو۔!!! پھر میز پر برتن رکھ کر‬
‫چاۓ بنانے لگی اور بولی کتنی چینی ڈالوں ؟؟ تو‬
‫مجھے شرارت سوجھی اور بوال آپ چاۓ میں انگلی‬
‫ڈال کر دو دفعہ ہال دیں تو چاۓ خود بخود میٹھی ہو‬
‫جاۓ گی تو وہ ہنس کر کہنے لگی سر جی !! چاۓ‬
‫بڑی گرم ہے کیوں میری انگلیاں جالنی ہیں تو میں نے‬
‫کہہ دیا اچھا تو چلیں ایک چمچ ڈال دیں ۔۔۔ اس نے‬
‫چاۓ میں چینی ڈالی اور مجھے دیکھتے ہوۓ شرارت‬
‫سے بولی ۔۔۔۔۔ چچ ۔۔۔ چچ چچ۔۔ آئ ایم سوری سر جی ؟‬
‫تو میں نے حیران ہو کر کہا ۔۔۔ سوری کس بات کی‬
‫سنا ہے ہم نے آپ کی راہ کھوٹی‬ ‫جی؟ تو وہ کہنے لگی ُ‬
‫کی ہے ۔۔۔ تو میں نے پھر بھی بات کو نہ سمجھتے‬
‫ہوۓ ان سے کہا کہہ میں سمجھا نہیں میم ۔۔۔ آپ کیا‬
‫سنا ہے ہم سے‬ ‫کہہ رہی ہیں ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ُ‬
‫پہلے یہاں مس مائرہ نامی ۔۔۔۔ تو میں نے ایک گہرا‬
‫سانس لیتے ہوۓ کہا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی؟ تو‬
‫وہ بولی ۔۔۔ لو جی ہمارے پاس تو آپ کا پُورا بائیو ڈیٹا‬
‫اکھٹا ہو گیا ہے ۔۔۔ اور ہنسنے لگی ۔۔۔۔ پھر ایک دم‬
‫سیریس ہو کر بولی ۔۔۔۔ سر جی اب بھی اگر مائرہ آۓ‬
‫تو میرا گھر حاضر ہے اور تیزی سے کمرے سے باہر‬
‫نکل گئ۔۔ اور میں ہکا بکا ہو کر اسے جاتے ہوۓ‬
‫دیکھنے لگا۔۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف ملک صاحب کے‬
‫بیٹے کی شادی بھی بہت قریب آ گئ تھی اور دوستو‬
‫جیسا کہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ گلی محلوں میں خاص‬
‫کر شادی بیاہ پر لڑکیوں سے نئ نئ دوستیاں بنتیں ہیں‬
‫اور قسمت اچھی ہو تو کوئ آنٹی بھی پھنس ہی جاتی‬
‫ہے محلے میں چونکہ بڑے دنوں بعد کوئ خوشی کا‬
‫موقع آیا تھا اور ویسے بھی ملک فیملی ہمارے محلے‬
‫کی ایک بہت موٹی آسامی تھی اس لیۓ محلے کے‬
‫تقریبا ً سارے ہی لوگ بڑھ چڑھ کر اس فنگشن میں‬
‫حصہ لے رہے تھے۔۔۔ میرا شمار چونکہ محلے کے‬
‫اچھے لوگوں میں ہوتا تھا (کیا ستم ظریفی کی بات ہے)‬
‫اس لیۓ مہندی سے ایک دن قبل ہی بڑے ملک صاحب‬
‫ہمارے گھر آۓ تھے اور مجھے اور بعد میں رفیق‬
‫ساتھ محلے کے دورے لڑکوں کو بھی مہندی اور‬
‫ولیمے کے کافی کام سونپ گۓ تھے کہ ان کا پروگرام‬
‫ولیمہ بھی گلی میں ہی کرنے کا تھا ۔۔۔ اس لیۓ ہم‬
‫سرشام ہی ملک صاحب کے گھر پہچ‬ ‫مہندی والے دن ِ‬
‫گۓ تھے ۔۔ ہمارے ساتھ یاسر بھی تھا میں نے رفیق‬
‫سے چوری چوری پتہ کروا لیا تھا کہ مہندی پر‬
‫عورتوں کو کہاں بٹھانا ہے اور مردوں کو کہاں ۔۔۔ تو‬
‫پتہ چال کہ ان کے گھر کے ساتھ والے خالی پالٹ‬
‫عورتوں کے لیۓ مختص کیا گیا ہے جبکہ ان کی چھت‬
‫پر مرد حضرات کے لیۓ بندوبست کرنا تھا ۔۔ یاسر اور‬
‫میں نے چاالکی سے اپنی ڈیوٹی عورتوں والی سائیڈ پر‬
‫جبکہ رفیق اور ایک اور ُمحلے دار کی ڈیوٹی مردوں‬
‫والی سائیڈ پر لگوا دی تھی ۔۔ یہ بات جب رفیق کو پتہ‬
‫سود۔۔‬‫چلی تو اس نے بہت واویال کیا تھا پر ۔۔۔۔ بے ُ‬
‫سنی ۔۔۔ ہاں‬‫!!!!!! بے چارے کی کسی نے ایک نہیں ُ‬
‫ایک اور بات بتانا تو میں بھول ہی گیا وہ یہ کہ مہندی‬
‫والے دن میں ‪ ،‬رفیق اور یاسر نے ایک جیسے ہی‬
‫سوٹ پہنے ہوۓ تھے جو کہ یاسر کی امی نے بنواۓ‬
‫تھے میں نے بھتیرا منع کیا تھا مگر ان لوگوں نے‬
‫چوری چوری اور پھر زبردستی ویسا ہی میرا بھی‬
‫سوٹ سلوا ہی دیا تھا ۔۔۔ اس شام یاسر اور میں نے‬
‫دوسروں کے ساتھ مل کر خالی پالٹ میں ُکرسیاں‬
‫رکھوائیں اور پھر سٹیج وغیرہ بنوا رہا تھے کہ سٹیج‬
‫پر بپچھانے کے لیۓ ہمیں دری کی ضرورت پڑگئ تو‬
‫میں نے یاسر سے کہا کہ ٹھہرو میں اندر سے پتہ کرتا‬
‫ہوں کہ دری ہے کہ نہیں ورنہ ٹینٹ والے سے منگوا‬
‫لیں گے ۔۔۔ یہ کہہ کر میں ملک صاحب کے گھر چال‬
‫گیا اور آنٹی سے دری کا پوچھا تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔‬
‫پُتر اس شادی نے تو میری َمت ماری ہوئ ہے میرا‬
‫خیال ہے دری ہے تو سہی پر کہا ہے یاد نہیں آ رہا ۔۔۔۔‬
‫سلطانہ سے پوچھ‬ ‫پھر کچھ سوچ کر بولی ۔۔۔ تم ایسا کر ُ‬
‫لو۔۔۔ اسے ضرور پتہ ہو گا۔۔۔‬
‫سنتے ہی میری تو گانڈ پھٹ گئ ۔۔۔‬
‫سلطانہ کا نام ُ‬ ‫ُ‬
‫سلطانہ ملک ۔۔۔ ملک صاحب کی سب سے بڑی صاحب‬ ‫ُ‬
‫زادی تھی ۔۔ جس کی عمر ‪ 29،30‬سال ہو گی اور جو‬
‫اچھے رشتے کے چکر میں اوور ایج ہو گئ تھی ۔۔ بَال‬
‫مغرور‬
‫کی خوب صورت اور اس سے بھی زیادہ ُ‬
‫خاتون تھی ۔۔۔۔ مائرہ سے پہلے میرا اس کے ساتھ آنکھ‬
‫مٹکا چل رہا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی مائرہ آئ میں نے‬
‫سلطانہ کو چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ وجہ وہی ایک انگریزی‬ ‫ُ‬
‫ُمحاورے کے ُمطابق آ برڈ ان ہینڈ ۔۔۔ والی تھی۔۔ کیونکہ‬
‫ایک تو مائرہ نے " دینے " میں دیر نہیں لگائ تھی‬
‫دوسرا اس کی چھت ہماری چھت سے بلکل ملی ہوئ‬
‫تھی اور وہ ایزی ایکسیس تھی چھت ٹاپو اور اس کے‬
‫پاس ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف سلطانہ کا گھر بھی تھوڑا‬
‫سلطانہ کا ناز نخرہ ہی‬
‫دور تھا اور اس پہ طرہ یہ کہ ُ‬
‫ختم نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔ پھر آنٹی نے خود ہی آواز لگی ۔۔‬
‫سن کر‬‫سطانہ بیٹا ۔۔۔۔۔ ادھر آنا ۔۔۔ اپنی امی کی آواز ُ‬ ‫ُ‬
‫سلطانہ کمرے سے باہر نکل آئ ۔۔۔ اور ۔۔۔ مجھے دیکھ‬
‫کر ٹھٹھک گئ اور پھر مجھے خونخوار نظروں سے‬
‫گھورتے ہوۓ بولی۔۔ جی امی جی ۔۔۔ تو انٹی نے اس‬
‫سے کہا پُتر ۔۔ شاہ دری مانگ رہا ہے ۔۔ کہاں پر رکھی‬
‫ہے ؟ تو وہ کہنے لگی امی وہ سٹور میں پڑی ہے ۔۔۔ تو‬
‫آنٹی بولی پُترا شاہ کو لے جاؤ اور اسے دری دے دو۔۔۔‬
‫تو میں ان سے کہا آپ دری نکالیں میں کسی کو بھیج‬
‫سلطانہ آہستہ سے‬ ‫سن کر ُ‬ ‫کر منگوا لیتا ہوں میری بات ُ‬
‫بولی تمہیں میرے ساتھ چلتے ہوۓ موت پڑتی ہے کیا‬
‫؟؟ ۔۔۔ چلو میرے ساتھ ۔۔۔ اور میں نا چاہتے ہوۓ بھی‬
‫ُچپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔‬
‫سنسان جگہ پر وہ ُرک‬ ‫تھوڑی دُور جا کر ایک نسبتا ً ُ‬
‫گئ اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تمھاری‬
‫ماں کدھر ہے؟؟ میں اس کا طنز اچھی طرح سے‬
‫سمجھ گیا تھا پر ویسے ہی انجان بن کر بوال جی وہ‬
‫سن کر اس کی آنکھوں‬ ‫امی رات کو آئیں گی میری بات ُ‬
‫میں ایک شعلہ سا لپکا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ‬
‫سختی سے دانت پیستے ہوۓ بولی ۔۔۔ تمھاری امی کی‬
‫نہیں اُس ماں کی بات کر رہی ہوں جس کی وجہ سے‬
‫تم نے ۔۔۔۔ اور پھر خاموش ہو گئ ۔۔۔اس سے پہلے کہ‬
‫میں کوئ جواب دیتا یاسر بھاگتا ہوا آیا اور بوال ۔۔ سر‬
‫جی حاجی صاحب (بڑے ملک صاحب ) آپ کو فورا ً‬
‫سن کر وہ آہستہ سے‬ ‫بُال رہے ہیں ۔۔۔ یاسر کی بات ُ‬
‫کہنے لگی ابھی تو ابا نے تمھاری جان ُچھڑا دی ہے‬
‫لیکن تم کو میرے سوال کو جواب ضرور دینا ہو گا‬
‫سنی کی اور یاسر کے‬ ‫سنی ان ُ‬‫میں نے اس کی بات ُ‬
‫ساتھ چل پڑا ۔۔ راستے میں یاسر مجھ بوال استاد جی‬
‫آنٹی بڑی گرم تھی کوئ ایسی ویسی حرکت تو نہیں کر‬
‫دی ؟؟؟ ۔۔۔ میں اس کی بات سن کر ُچپ رہا اور بڑے‬
‫ملک صاحب کے پاس چال گیا انہوں نے مجھ سے‬
‫مہندی کے کھانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے ان‬
‫سن کر وہ مطمئین ہو کر‬‫کو سب ڈیٹیل بتا دی جسے ُ‬
‫سبکی‬‫بولے دیکھنا یار کھانا کم نہ پڑ جاۓ ورنہ بڑی ُ‬
‫ہو جاۓ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہاں سے چلے گۓ ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رات ‪ 9‬بجے تک ہم نے مہندی کے سارے انتظام مکمل‬
‫کر لیۓ تھے اس دوران ایک دو دفعہ میرے ُمڈ بھیڑ‬
‫سلطانہ سے بھی ہوئ لیکن رش کی وجہ سے کوئ بات‬
‫نہ ہو سکی ہاں اسکی شکایتی اور غضب ناک نظریں‬
‫ہر جگہ میرا تعاقب کرتی رہیں ۔۔ سلطانہ کے ساتھ اس‬
‫کی بیسٹ فرینڈ اور رفیق کی بڑی بہن ُروبی بھی ساتھ‬
‫ہی ہوتی تھی مجھے دیکھ کر روبی بولی ہیلو الٹ‬
‫صاحب !! ان کپڑوں میں بڑے ہنیڈ سم لگ رہے ہو ۔۔۔۔‬
‫تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بوال آپ بھی بڑی‬
‫اچھی لگ رہی ہیں ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مہمانوں کی آمد‬
‫شروع ہو گئ ۔۔۔ میرے خیال میں تو محلے کے سارے‬
‫راستے ہی ملکوں کے گھر کی طرف جا رہے تھے‬
‫ادھر شادی واال گھر بھی زبردست برقی قمقوں سے‬
‫سجا ہوا تھا اور اسکے ساتھ ہی بہت اونچی آواز میں‬
‫ریکارڈنگ بھی لگی ہوئ تھی اور الؤڈ میوزک کی‬
‫سنائ نہیں دے رہی تھی‬‫وجہ سے کان پڑی آواز ُ‬
‫غضب میک اَپ اور جدید فیشن کے سوٹوں میں ملبوس‬
‫لڑکیاں ادھر اُدھر پُھدک رہی تھیں اور ہم ان کی تاڑوں‬
‫میں ان کے آگے پیچھے پھرتے ہوۓ خاہ مخواہ کی‬
‫افیشنسیاں دکھا رہے تھے ۔۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے‬
‫مین فنگشن شروع ہو گیا یعنی کہ ڈانس پروگرام ۔۔۔۔‬
‫لیڈیزکرسیوں پر بیٹھی ڈانس دیکھ رہی تھیں اور جن کو‬
‫ُکریسوں پر جگہ نہ ملی تھی وہ کھڑی تھیں اور ۔۔۔‬
‫سٹیج پر ایک ُکھسرا نما لڑکا تیز میوزک پر ڈانس کے‬
‫نام پر عجیب و غریب سٹیپ کر رہا تھا جسے دیکھ کر‬
‫لیڈیز بڑے شوق سے تالیاں بجا کر اس کو داد دے‬
‫رہے تھے لڑکے کا عجیب ڈانس دیکھ کر میں بور ہو‬
‫گیا اور وہاں سے باہر نکل آیا جبکہ باقی دوست وہیں‬
‫کھڑے رہے ۔۔۔ باہر آ کر سوچا چلو مردانہ پارٹی کا‬
‫جائزہ لے لوں اور میں چھت پر چال گیا وہاں سب مرد‬
‫ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے اُس لڑکے کے ڈانس سے‬
‫بھی بور کام کر رہے تھے مطلب سیاست پر بحث‬
‫جاری تھی ۔۔۔ یہ حالت دیکھ کر میں نے سوچا اس سے‬
‫تو لڑکے کا ڈانس زیادہ بیسٹ تھا یہ سوچ کر میں‬
‫نیچے اُتر آیا اور لیڈیز کی طرف چال گیا۔۔۔۔‬
‫وہاں اب پہلے سے بھی زیادہ رش ہو گیا تھا ۔ میرا‬
‫تعلُق چونکہ انتظامیہ سے تھا سو میں ایک طرف ہو کر‬
‫سٹیج پر چڑھ گیا اور پنڈال کا جائزہ لینے لگا اسی‬
‫دوران مجھے محسوس ہوا کہ کوئ مجھے مسلسل‬
‫اشارے کر رہا ہے غور کیا تو وہ یاسر تھا ۔۔ اُس کے‬
‫آگے ایک نقاب پوش حسینہ کھڑی تھی اور وہ آئ‬
‫تھنک یاسر کے ساتھ چپکی ہوئ تھی اب میں نے یاسر‬
‫کی طرف دیکھا جو بڑے طریقے سے مجھے اپنی‬
‫طرف متوجو کر رہا تھا ۔۔۔ جیسے ہی ہماری نظریں‬
‫ملیں میری اور اس کی اشاراتی زبان شروع ہو گئ اُس‬
‫نے مجھے اشارے سے کہا کہ میرے پاس آؤ !! تو میں‬
‫نے بھی اشارے سے پوچھا ۔۔ کوئ خاص بات ہے ؟؟‬
‫تو اس نے اپنے سامنے کھڑی خاتون کی طرف اشارہ‬
‫کیا اور بتالیا کہ ۔۔۔۔ میڈم لفٹی ہے ۔۔۔۔ تو میں نے بھی‬
‫اشارے سے اس کو کہا کہ بیٹا موج کر تو وہ کہنے لگا‬
‫۔۔ نہیں مجھے آنٹیاں نہیں پسند اور پھر اشارہ کیا آنا ہے‬
‫یا میں جاؤں تو میں نے اس کو کہا کہ ہلنا مت‪ ،‬میں‬
‫آرہا ہوں۔۔‬
‫گو کہ وہاں بہت رش تھا لیکن میں کسی نہ کسی طرح‬
‫یاسر کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر اس‬
‫کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا اور وہاں جو ہو رہا تھا‬
‫اس کا بغور جائزہ لینے لگا اور میں نے دیکھا کہ اُس‬
‫خاتون نے جدید فیشن کی چولی ٹائپ تنگ سی قمیض‬
‫اور اس کے نیچے ُکھلے گھیرے والی ریشمی شلوار‬
‫پہنی ہوئ تھی اور اس نے اپنی بڑی اور موٹی سی گانڈ‬
‫یاسر کے ساتھ چپکائ ہوئ تھی ۔۔ کچھ دیر تک تو میں‬
‫یہ سب دیکھتا رہا ۔۔ اور جب مجھے کنفرم ہو گیا کہ‬
‫بوجھ کر اپنی گانڈ یاسر کے ساتھ‬‫خاتون نے جان ُ‬
‫چپکائ ہوئ ہے تو میں نے پیچھے سے یاسر کا کندھا‬
‫تھپتھپایا۔۔۔۔ فورا ً ہی یاسر نے ُمڑ کر میری طرف دیکھا‬
‫اور اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر ایک گہرا‬
‫اطمینان چھا گیا پھر میں نے اس کو ہٹنے کا اشارہ کیا‬
‫تو وہ ۔وہاں سے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گیا ۔۔‬
‫حتی کہ رش کی وجہ سے اس کو ایک دھکا سا لگا‬
‫اور میں نے مو قعہ کا فائیدہ اُٹھاتے ہوۓ بڑی پھرتی‬
‫سے یاسر کو پیچھے کی طرف دھکیال اور خود اس‬
‫لیڈی کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا چونکہ میں نے‬
‫اور یاسر نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوۓ تھے‬
‫اورہماری فزیک بھی تقریبا ً ملتی ُجلتی تی اوپر سے‬
‫رش اور شور اتنا زیادہ تھا کہ اس خاتون نے ہماری‬
‫اس چینچ کو نوٹ نہیں کیا ۔ دھکہ لگنے کی وجہ سے‬
‫میں اس خاتون سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا تھا ۔۔۔ یہ بات‬
‫اس نے بھی فیل کی اور وہ تھوڑا کھسک کر میرے‬
‫پاس آ گئ ۔۔ اورپھر اس کی گانڈ کا دائیں حصہ میرے‬
‫ساتھ ٹچ ہوا۔۔۔ واؤ۔۔۔۔ اس کی گانڈ بڑی ہی نرم اور ریشم‬
‫کی طرح ُمالئم تھی۔۔ پھر اسکے بعد وہ آہستہ آہستہ‬
‫میرے ساتھ ُجڑنا شروع ہو گئ ۔۔۔۔اور چند سیکنڈ بعد‬
‫ہی اس کی نرم اور موٹی گانڈ میری تھائیز کے ساتھ‬
‫لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔ یاسر کا تو پتہ نہیں پر جیسے ہی اس‬
‫کی گانڈ نے میری تھائیز کو ٹچ کیا میرا لن کھڑا ہو گیا‬
‫اور کچھ ہی دیر بعد اس میرا کھڑا لن اس کی گانڈ سے‬
‫رگڑ کھا رہا تھا لیکن پرابلم یہ تھی کہ لن اس کی بڑی‬
‫سی گانڈ کے ایک سائیڈ پر ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اس کا حل‬
‫اس نے یہ نکال کہ اس نے اپنی گانڈ کو کچھ اس طرح‬
‫ہالیا کہ لن صاحب اس کی بُنڈ کی دراڑ کےعین بیچ‬
‫میں آ گیا ۔۔۔ میں نے کوشش کی مگر لن ٹھیک سے اس‬
‫کی دراڑ کے اندر نا جا پا رہا تھا وجہ یہ تھی کہ ہم‬
‫دونوں کی قمیضیں راستے میں حائل تھیں ۔۔۔ اب میں‬
‫نے ہمت کی اور تھوڑا سا پیچھے ہٹ کے اپنا ایک ہاتھ‬
‫آگے بڑھا کر اپنی قیمض کا کپڑا ایک سائیڈ پر کر دیا‬
‫۔۔ اور پھر اسی پ ُھرتی کے ساتھ اس کی گانڈ کے‬
‫سامنے سے بھی اس کی قمیض کا کپڑا ہٹا دیا ۔۔۔ اب‬
‫میرا لن فُل مستی میں تن کر لہرا رہا تھا اور دوستو آپ‬
‫تو جانتے ہی ہیں کہ جب لن جوبن میں کھڑا ہوتا ہے تو‬
‫اُس کا ُرخ آسمان کی طرف ہوتا ہے یعنی ‪ 90‬ڈگری‬
‫کے زاویہ پر ۔۔۔ ادھر اس لیڈی نے اپنی گانڈ پیچھے‬
‫کی طرف کی اور لن ورٹیکل اینگل میں اس کی گانڈ‬
‫کے دراڑ میں پھنس گیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اور چونکہ میرا لن اس‬
‫کی موٹی بُنڈ کی دراڑ سے کافی لمبا تھا اس لیۓ لن‬
‫کی ٹوپی اس کی نرم بُنڈ سے باہر کو نکلی ہوئ تھی ۔۔۔‬
‫اس کو اس بات کا اس وقت پتہ چال جب اس نے اپنی‬
‫گانڈ کو میرے لن کے گرد ٹائیٹ کرنا شروع کیا ۔۔۔۔ تب‬
‫اس کو احساس ہوا کہ میرے لن کی ٹوپی اس کی گانڈ‬
‫سوراخ کو ٹچ نہیں کر رہی ۔۔۔ لیکن اس کے‬ ‫کے ُ‬
‫باوجود بھی اس نے کافی دفعہ میرے لن کو اپنی گانڈ‬
‫میں سمو کر بھینچا اور اپنی نرم گانڈ کے ٹشوز کو‬
‫میرے لن کے گرد ٹائیٹ کیا ۔۔۔ اُف ف ف ف اس کی‬
‫گانڈ بہت نرم اور گرم تھی اور جب وہ اپنی نرم گانڈ‬
‫میرے لن کے گرد بھینچتی تو میرے سارے جسم میں‬
‫اک سرور سا بھر جاتا تھا ۔۔۔۔‬
‫اور میں دل ہی دل میں حیران ہوتا کہ اتنی ہاٹ لیڈی‬
‫کون ہو سکتی ہے جو اس قدر بولڈ ہے کہ اتنے لوگوں‬
‫کی موجودگی میں بھی لن کو اپنی گانڈ میں لے کر‬
‫اسے بھینچے جا رہی ہے ۔۔۔ کافی سوچا پر میں اس‬
‫لیڈی کے بارے میں کوئ بھی اندازہ لگانے میں ناکام‬
‫رہا ۔۔۔ اور پھر جب میں اس سیکسی لیڈی کو پہچاننے‬
‫میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا تو۔۔۔ تو میں نے دل میں‬
‫کہا دفعہ کر یار ۔۔ اور اس کی سیکسی بُنڈ کو انجواۓ‬
‫کر ۔۔۔ دیکھ اس کی نرم گانڈ کیسے تیرے سخت لن کے‬
‫گرد کسی ہوئ ہے ۔۔۔ یہ سوچا اور لن کو اس کی گانڈ‬
‫میں رگڑنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں اسے وہ‬
‫سوراخ پر لن کی‬ ‫مزہ نہ مل پا رہا تھا جو گانڈ کے ُ‬
‫ٹھوکر سے آتا ہے چناچہ کچھ دیر تک وہ اپنی گانڈ کو‬
‫میرے لن کے گرد کسنے کے بعد اب وہ نیچے کی‬
‫طرف جھکی اور ساتھ ہی اس نے اس نے اپنا ایک ہاتھ‬
‫پیچھے کر کے میرے لن کو پکڑا اور اپنی گانڈ کے‬
‫سوراخ پر فٹ کر دیا اور پھر کھڑی ہو کر بڑے زور‬ ‫ُ‬
‫سئ اپنی گانڈ کو میرے طرف پُش کیا ۔۔۔۔۔۔ اس کے‬
‫زور لگانے سے میرے لن کی آگے کی تھوڑی سی‬
‫ٹوپی (یا چونچ ) اس کی ریشمی شلوار سمیت اسکی بنڈ‬
‫سوراخ میں پھنس گئ ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ اب مجھے اپنی‬ ‫کے ُ‬
‫ٹوپی کے گرد اس کی بُنڈ کی سوراخ کا ِرنگ محسوس‬
‫ہوا جو نہ تو لوز تھا اور ناں ہی ٹائیٹ ۔۔۔۔ اس کی گانڈ‬
‫بڑی ہی گرم مست اور زبردست تھی اوپر سے اس کا‬
‫اپنے گانڈ کے بمز کو بار بار میرے سخت لن کے گرد‬
‫کسنا ۔۔۔۔ ۔۔۔ آہ۔۔ ہ سواد آ گیا بادشاہو ۔۔۔ اب پوزیشن یہ‬
‫تھی کہ میرا لن اس کی ریشمی شلوار سمیت اس کی‬
‫نرم گانڈ کے سوراخ میں پھنسا ہوا تھا اور وہ اپنی گانڈ‬
‫کو بار بار بھینچ کر میرے لن کے گرد کس رہی تھی‬
‫۔۔!! اس کی گانڈ کے سوراخ کا لمس پاتے ہی میرے‬
‫سارے جسم میں چیونٹیاں رینگنا شروع ہو گئیں اور ۔۔۔۔‬
‫مزے کی ایک تیز لہر اٹھی اور میرے سارے جسم میں‬
‫سرائیت کر گئ ۔۔۔ لن اور تن گیا ۔۔۔ جوش اور بڑھ گیا‬
‫اور سارا جسم آگ کی طرح گرم ہو گیا اور میں بے‬
‫اختیار گھسے مار مار کر لن کو اس کی گانڈ میں مزید‬
‫اندر تک گھسانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ اور اس‬
‫کی ساری باڈی بھی سخت ہیٹ اپ ہو چکی تھی اور وہ‬
‫بھی اب مست ہو کر اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد‬
‫نان سٹاپ کسے جا رہی تھی ۔۔۔ بُنڈ تنگ کررہی تھی‬
‫پھر لُوزکر دیتی جب وہ اپنی گانڈ لن کے گرد زور لگا‬
‫سوراخ بھی تنگ ہو کر‬ ‫کر کستی تو اس کی گانڈ کا ُ‬
‫میرے ٹوپے کے گرد کسا جاتا اوراس کی شلوار‬
‫ریشمی ہونے کی وجہ سے اس کے گانڈ بھینچنے کے‬
‫عمل میں لن پھسل کر اس کی گانڈ کے سوراخ سے‬
‫پھسل کر باہر آ جاتا اور جب وہ اپنی گانڈ ڈھیلی کرتی‬
‫تو میں پیچھے سے گھسا لگا کر دوبارہ لن اس کی‬
‫موری میں فٹ کر دیتا اس عمل میں خاص کر جب اس‬
‫کا تنگ سوراخ میرے ٹوپے کے گرد کسا جاتا تو‬
‫مجھے اتنی لزت ملتی جو بیان سے باہر ہے۔۔‬

‫پھر ایسا ہوا کہ ہم دونوں کا جوش بڑھ گیا اور وہ بار‬


‫بار لن کے گرد اپنی گانڈ کو بھینچنے لگی ۔۔ اسی‬
‫دوران ایسا ہوا کہ اس نے جونہی اپنی گانڈ کو بھینچا‬
‫اور پھر۔۔۔ کچھ سکینڈ کے بعد اسے ڈھیال کیا تو میں‬
‫نے جوش میں آ کر دونوں ہاتھوں سے اس کی گانڈ کے‬
‫دونوں پٹ کھولے اور ایک زور دار گھسا مارا ۔۔۔۔۔۔‬
‫اور لن اس کی ریشمی شلوار کو چیرتا ہوا اس کی گانڈ‬
‫کے کافی اندر تک چال گیا اور جاتے ہی میرے لن نے‬
‫ایک زور دار پچکاری ماری اور ۔۔۔۔۔۔۔ منی کا پہال‬
‫قطرہ اس کی گانڈ میں گر گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اسے فیل‬
‫ہوا کہ میں ُچھوٹ گیا ہوں اس کے منہ سے آواز نکلی‬
‫۔۔۔ ہا۔۔ آ ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے منہ سے نقاب ہٹایا اور گردن‬
‫کراتے ہوۓ میری طرف دیکھا اور جیسے‬ ‫گھما کر ُمس ُ‬
‫ہی اس کی نظر مجھ پڑی تو وہاں یاسر کی بجاۓ‬
‫کراتا ہوا چہرہ حیرت‬ ‫مجھے کھڑا دیکھ کر اس کا ُمس ُ‬
‫۔۔۔ غم اور مایوسی میں بدل گیا منہ کھلے کا کھال رہ گیا‬
‫اور وہ ایک دم پریشان ہو گئ ۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میری‬
‫نظر نے اس خاتون کو بنا نقاب کے دیکھا تو۔۔۔۔ تو‬
‫میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گۓ اور فرشتے ُکوچ کر‬
‫گۓ میں نے اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا تھا میں‬
‫اسے دیکھ کر گرتے گرتے بچا ۔ مجھے بڑا گہرا‬
‫صدمہ لگا تھا ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہیلو دوستو۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔ دوستو یہ تو طے ہے کہ‬
‫ب آرزو نہیں مال کرتا ۔۔۔‬‫یہاں کسی کو بھی کبھی حس ِ‬
‫بہت ہی لکی ہو گا وہ شخص جس کو اس کی پسند کی‬
‫چیز ملی ہو ۔۔۔ اور مل بھی جاۓ تو ۔۔ انسان کبھی بھی‬
‫۔۔ اس پر قانح نہیں ہوا۔۔۔ بلکہ ہل من مزید کے چکرمیں‬
‫رہتا ہے۔۔۔ ویسے زیادہ تر تو بندے کو اس کی پسند کی‬
‫چیز کم ہی ملی ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سلیم کوثر صاحب نے‬
‫شاید اسی لیۓ کہا ہے کہ میں خیال ہوں کسی اور کا‬
‫مجھے سوچتا کوئ اور ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آپ کو تھوڑا بور‬
‫کیا اس کے لیۓ سوری۔۔ پر اس بات کا اس سٹوری‬
‫سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے ۔۔۔ کیا ہے یہ آپ کو‬
‫سٹوری پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اگر نہ چال تو‬
‫ایک دفعہ پھر سوری۔۔۔‬
‫یہ کالج کے دنوں کی بات ہے میں حسب معمول‬
‫گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں گیا ۔۔۔۔ اور اس دفعہ‬
‫ُکھچ زیادہ ہی لیٹ ہو گیا ۔۔۔ وجہ ایک دو کیس تھے‬
‫(کیس ہمارا کوڈ ورڈ تھا ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔۔۔ لڑکی‬
‫) جو حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ پھر ہماری ثابت قدمی‬
‫سے آخر کار دونوں کیس حل ہوۓ اور تب ۔۔ لوٹ کے‬
‫بدھو گھر کو آۓ ۔۔۔۔ میں صبح صبح گاؤں سے چال تو‬
‫رات گۓ ہی واپس گھر پہنچا ۔۔۔ سخت تھکا ہوا تھا ۔۔۔‬
‫کھانا شانا کھا کر بستر پر لیٹا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئ‬
‫اور پھر صبح ہی اُٹھا ۔۔۔۔‬
‫پھر ایسا ہوا کہ ہم دونوں کا جوش بڑھ گیا اور وہ بار‬
‫بار لن کے گرد اپنی گانڈ کو بھینچنے لگی ۔۔ اسی‬
‫دوران ایسا ہوا کہ اس نے جونہی اپنی گانڈ کو بھینچا‬
‫اور پھر۔۔۔ کچھ سکینڈ کے بعد اسے ڈھیال کیا تو میں‬
‫نے جوش میں آ کر دونوں ہاتھوں سے اس کی گانڈ کے‬
‫دونوں پٹ کھولے اور ایک زور دار گھسا مارا ۔۔۔۔۔۔‬
‫اور لن اس کی ریشمی شلوار کو چیرتا ہوا اس کی گانڈ‬
‫کے کافی اندر تک چال گیا اور جاتے ہی میرے لن نے‬
‫ایک زور دار پچکاری ماری اور ۔۔۔۔۔۔۔ منی کا پہال‬
‫قطرہ اس کی گانڈ میں گر گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اسے فیل‬
‫ہوا کہ میں ُچھوٹ گیا ہوں اس کے منہ سے آواز نکلی‬
‫۔۔۔ ہا۔۔ آ ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے منہ سے نقاب ہٹایا اور گردن‬
‫کراتے ہوۓ میری طرف دیکھا اور جیسے‬ ‫گھما کر ُمس ُ‬
‫ہی اس کی نظر مجھ پڑی تو وہاں یاسر کی بجاۓ‬
‫کراتا ہوا چہرہ حیرت‬ ‫مجھے کھڑا دیکھ کر اس کا ُمس ُ‬
‫۔۔۔ غم اور مایوسی میں بدل گیا منہ کھلے کا کھال رہ گیا‬
‫اور وہ ایک دم پریشان ہو گئ ۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میری‬
‫نظر نے اس خاتون کو بنا نقاب کے دیکھا تو۔۔۔۔ تو‬
‫میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گۓ اور فرشتے ُکوچ کر‬
‫گۓ میں نے اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا تھا میں‬
‫اسے دیکھ کر گرتے گرتے بچا ۔ مجھے بڑا گہرا‬
‫صدمہ لگا تھا ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اُس نے بس ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر‬
‫مجھے پہچان کر اس نے فورا ً ہی ایک لمبی زقند بھری‬
‫اور پھر کسی خوف ذدہ ہرنی کی طرح قالنچیاں بھرتی‬
‫ہو وہاں سے غائب ہو گئ ۔۔۔ ادھر میں نے بھی اسے‬
‫دیکھتے ہی پہچان لیا تھا ۔۔ وہ رابعہ تھی رفیق کی سب‬
‫شدہ تھی اور ڈھوک کھبہ‬ ‫سے بڑی بہن جو کہ شادی ُ‬
‫کے پاس ہی ُمکھا سنگھ اسٹیٹ میں اپنے سسرال کے‬
‫سسرال میں بڑی خوش‬ ‫ساتھ رہتی تھی پر وہ تو اپنے ُ‬
‫اور خوش حال تھی ۔۔۔ اس کا خاوند بھی اچھا خاصہ تھا‬
‫اور شہر میں بڑے اچھا کاروبار کا مالک تھا خاصے‬
‫سودہ حال لوگ تھے اور جہاں تک رابعہ کا تعلُق تھا‬ ‫آ ُ‬
‫تو وہ بڑی ہی پاکیزہ ‪ ،‬معصوم ‪ ،‬بہت پڑھی لکھی اور‬
‫نہایت ہی خوبصورت لڑکی تھی ۔۔ میں کافی دیر تک‬
‫شاک میں رہا اور اسی کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔۔‬
‫پھر رابعہ کو بھاگتے دیکھ کر اچانک ہوش میں آ گیا‬
‫اورجب پوری طرح حواس میں واپس آ یا تو دیکھا کہ‬
‫وہ بھاگتی جا رہی ہے اسے بھاگتے دیکھ کر میں نے‬
‫بھی بنا سوچے سمجھے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی‬
‫لیکن اس وقت تک وہ خاصی دُور نکل گئ تھی دوسرا‬
‫وہ چونکہ مجھ سے آگے سب سے اگلی رو میں کھڑی‬
‫تھی اسلیۓ اس کو بھاگنے میں کوئ خاص رکاوٹ نہ‬
‫پیش آئ تھی جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑا تھا اور‬
‫میرے آگے لیڈیز کا کافی رش تھا اس لیۓ میں اُس‬
‫رفتار سے نہ جا سکا پھر بھی میں کسی نہ کسی طرح‬
‫لیڈیز سے بچتا بچاتا اس بھیڑ سے باہر نکل آیا اور پھر‬
‫ادھر اُدھر نظر دوڑا کر دیکھنے لگا ‪ -‬سامنے دیکھا تو‬
‫سنسان نظر آ ئ ‪ -‬اور میں سوچنے‬ ‫دُور تک ساری گلی ُ‬
‫لگا کہ وہ جا کہاں سکتی ہے ؟؟ ۔۔۔ پھر خیال آیا ہو نا ہو‬
‫وہ ملکوں کے گھر گئ ہو گی یہ سوچ کر میں ملکوں‬
‫کے گھر کے میں داخل ہو گیا ‪ -‬دیکھا تو ان کا گھر‬
‫تقریبا ً خالی نظر آ یا کہ اُس وقت مہندی کا فنگشن اپنے‬
‫عروج پر تھا اور سارے ہی لوگ اسے انجواۓ کر‬
‫سنسان نظر آ رہا‬ ‫رہے تھے اس لیۓ تقریبا ً سارا گھر ُ‬
‫تھا پھر بھی میں نے ادھر اُدھر جھانک کر دیکھا تو‬
‫وہاں کسی زی روح کو نہ پایا پھر میں نے سوچا ہو‬
‫سکتا ہے وہ کسی لیٹرین وغیرہ میں نہ چھپی ہو یہ‬
‫سوچ کر میں ایک ایک کر کے سارے کمروں کے‬
‫واش ُرومز کو چیک کرنے لگا ۔۔۔ لیکن میں نے ان کو‬
‫خالی پایا – پتہ نہیں رابعہ کو زمین کھا گئ تھی یا‬
‫آسمان نگل گیا تھا کیونکہ میں نے گھر کا چپہ چپہ‬
‫چھان مارا تھا لیکن اُس کا کوئ ُ‬
‫سوراخ نہ پا سکا ۔۔۔۔‬
‫میں اسی پریشانی میں کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ‬
‫یاد آیا کہ کارنر واال ُروم جو وہاں سے تھوڑا ہٹ کر‬
‫تھا تو چیک ہونے سے رہ گیا ہے بظاہر تو وہاں کسی‬
‫کے ہونے کا امکاں نہ تھا پر میں نے سوچا کہ جہاں‬
‫اتنے ُروم چیک کرلیۓ ہیں چلو اس کو بھی چیک کرتا‬
‫جاؤں یہ سوچ کر میں اُس روم کی طرف چال گیا ۔۔۔‬
‫اور ایک نظر دیکھا تو اسے خالی پایا پھر میری نظر‬
‫واش روم پر پڑی تو وہ تھوڑا کو ڈھکا ہوا تھا سو میں‬
‫اپنا شک دُور کرنے کے لیۓ روم کے اندر چال گیا اور‬
‫جیسے ہی واش ُروم کو چیک کرنے کے لیے اس کے‬
‫قریب پہنچا تو ۔۔۔۔ اندر سے ُروبی نکل رہی تھی اس‬
‫کے ہاتھ گیلے تھے اور ٹاول ابھی تک اس کے ہاتھ‬
‫میں تھا جس سے وہ اپنے ہاتھ صاف کر رہی تھی مجھ‬
‫پر نظر پڑتے ہی وہ ایک دم ٹھٹھک گئ اور بڑی‬
‫حیرانی سے بولی ۔۔۔ تم اور یہاں ۔۔۔ ؟؟ خیریت تو ہے نا‬
‫؟ تو میں نے کہا جی بلکل خیریت ہے دراصل میں یہاں‬
‫کسی بندے کو ڈوھنڈ رہا تھا تو وہ بولی میں کافی دیر‬
‫سے ادھر ہی ہوں اور میں نے تو یہاں کوئ بندہ پرندہ‬
‫نہیں دیکھا تو میں نے کہا ۔۔۔ ٹھیک ہے جی تھینک یو‬
‫۔۔۔۔۔۔ اور واپسی کے لیۓ چل پڑا۔۔۔ ایک قدم بعد ہی میں‬
‫سنی ایک منٹ ایک منٹ‬ ‫نے پیچھے سے اس کی آواز ُ‬
‫۔۔ رکو اور میں وہاں پر ُرک گیا اور سوالیہ نظروں‬
‫سے اُسے دیکھنے لگا ۔۔۔ وہ میرے بلکل پاس آ گئ اور‬
‫سکیڑ کر فضا میں کچھ سونگھنے کی کوشش‬ ‫اپنی ناک ُ‬
‫کرنے لگی ۔۔۔ پھر اس کی نظر میری شلوار پر پڑی ۔۔۔۔‬
‫اوہ۔۔۔ یہ تو میں بھول ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی دیکھا‬
‫دیکھی اب جو میں نے اپنے نیچے نظر دوڑائ تو‬
‫دیکھا کہ میری ساری شلوارگیلی ہو چکی تھی اور وہ‬
‫منی سے بھری ہوئ ہے جبکہ آگے سے میری قمیض‬
‫ُچرنڈ ُمرنڈ ہو کر اوپر کو اُٹھی ہوئ تھی ۔۔ روبی نے‬
‫ایک نظر مجھے اور ایک نظر میری شلوار پر ڈالی‬
‫اور وہ ایک سکینڈ میں ہی ساری بات سمجھ گئ پھر‬
‫اس نے نیچے سے اوپر تک مجھے اور شلوار کو‬
‫دیکھا اور بولی ۔۔۔ تم اپنی حرامزدگیوں سے باز کیوں‬
‫نہیں آتے ۔ تو میں نے قدرے حیرانگی سے کہا ۔۔ میں‬
‫نے کیا کیا ہے روبی جی ؟ تو وہ قدرے سخت لہجے‬
‫میں میری شلوار کی طرف اشارہ کر کے بولی ۔۔۔۔ اچھا‬
‫تو پھر یقیننا ً یہ آپ کا پیشاب نکال ہو گا ۔۔۔ اس کی یہ‬
‫سن کر میں خاصہ شرمندہ ہو گیا اوراپنا سر نیچے‬ ‫بات ُ‬
‫جھکا لیا یہ دیکھ کر وہ اور بھی سخت لیجے میں بولی‬
‫زیادہ ایکٹینگ کرنے کی ضرو رت نہیں ہے یہ شرم تم‬
‫نے اُس وقت کرنی تھی کہ جب تم یہ حرکت فرما رہے‬
‫تھے۔۔‬
‫پھر کہنے لگی ویسے باۓ دی وے الٹ صاحب وہ‬
‫کون تھی جس کے ساتھ آپ نے یہ حرکت فرمائ ہے ۔۔‬
‫میرا ایک دل تو کیا کہ میں اس کو صاف صاف بتا دوں‬
‫کہ میں نے یہ حرکت آپ کی بڑی بہن کے ساتھ فرمائ‬
‫تھی ۔۔ پر ُچپ رہا اور کوئ جواب نہ دیا تب وہ کہنے‬
‫لگی اچھا اچھا اگر تم اس کا نام نہیں بتانا چاہتے تو‬
‫میری طرف سے تم دونوں جہنم میں جاؤ مجھے کیا ۔۔‬
‫سکیڑی‬ ‫پھر اچانک اس نے کوئ تیسری دفعہ اپنی ناک ُ‬
‫اور ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ او کے جو ہوا‬
‫سو ہوا اب تم ایسا کرو کہ اپنی شلوار اُتار کے مجھے‬
‫دو کہ میں اس کو دھو کر استری کر دوں ۔۔۔ اور پھر‬
‫سکیڑ کر فضا میں کچھ سونگھ کر گہرے‬ ‫اپنی ناک ُ‬
‫گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی نشیئوں‬
‫کی طرح اس نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لیں ۔۔۔ اچانک‬
‫میرے زہن میں جھماکا ہوا اور مجھے سمجھ میں آ گیا‬
‫کہ وہ کس چیز کو سونگھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ جہاں تک میں‬
‫سمجھ پایا تھا وہ میری منی کی بُو سونگھ رہی تھی اس‬
‫وقت تک مجھے چھوٹے ہوۓ بس دو تین منٹ ہی ہوۓ‬
‫تھے دوسرا یہ کہ چانکہ لن کے سامنے اس کی پسندیدہ‬
‫چیز یعنی کہ ایک نرم موٹی اور ُمالئم گانڈ تھی اس‬
‫لیۓ لن نے بھی جی بھر کے اور معمول سے تھوڑی‬
‫زیادہ منی چھوڑی تھی اور اسی منی کی مست بُو اس‬
‫کے نتھنوں میں آ رہی تھی جسے وہ بار بار اپنی‬
‫آنکھیں بند کر کے سونگھ رہی تھی اور اسی لیۓ اس‬
‫نے مجھے کہا تھا کہ میں شلوار اُتار کر دوں کہ وہ‬
‫اسے دھو کر استری کر دے گی جب میں ساری بات‬
‫سمجھ گیا تو میں نے اسے ٹیز کرنے کا فیصلہ کر لیا‬
‫لیکن ویسے ہی کھڑا رہا ۔۔۔ جب اس نے دیکھا کہ میں‬
‫سنا‬
‫سنی تو وہ کہنے لگی اوۓ ُ‬ ‫نے اس کی بات نہیں ُ‬
‫نہیں جلدی سے شلوار اُتار کر مجھے دو کہ میں اسے‬
‫دھو کر استری کر دوں ورنہ کوئ آ گیا اور اس نے‬
‫تمہیں اس حالت میں دیکھ لیا تو بڑا مسلہ ہو جاۓ گا تو‬
‫میں نے اس سے کہا کہ شلوار میں خود دھو لوں گا آپ‬
‫بس اس پر استری مار دینا تو وہ بے چارگی سے بولی‬
‫نہیں تم دھوتے ہوۓ اچھے لگو گے تو میں نے تُرت‬
‫ہی جواب دیا کہ آپ میری ۔۔۔۔۔ والی جگہ دھوتی ہوئ‬
‫سن کر وہ ایک دم ہنس پڑی اور بولی‬ ‫اچھی لگو گی یہ ُ‬
‫تم میرے اندازے سے زیادہ انٹیلی جنٹ ہو ۔۔۔ اور چپ‬
‫کر گئ پھر میں اس کے پاس چال گیا اور بوال ۔۔۔ آپ‬
‫نے( گیلی شلوار کی طرف اشارہ کر کے ) اس کی‬
‫سمیل کو اِن ہیل کرنی ہے نا ۔۔ تو اس نے کوئ جواب‬
‫نہ دیا اور خاموش رہی ۔۔ اب میں نے اپنی شلوار کے‬
‫دونوں گھیروں کو کونوں سے پکڑا اور انہیں ہالنے‬
‫لگا جس سے فضا میں تھوڑا سا ارتعاش پیدا ہوا اور‬
‫تھوڑی سی ہوا چلنے سے گیلی شلوار سے منی کی‬
‫مخصوص بُو تیزی سے نکل کر فضا میں پھیل گئ‬
‫روبی نے کسی نشئ کی طرح فورا ً ہی اپنا ناک کو‬
‫سکیڑا اور آنکھیں بند کر کے گہرے گہرے سانس‬ ‫ُ‬
‫لینے لگی پھر اس نے فورا ً ہی اپنی آنکھیں کھولیں اور‬
‫کہنے لگی بڑے حرامی ہو تم ۔۔۔ تو میں نے کہا میڈم‬
‫آپ سیدھی بات جو نہیں کر رہی تھیں اس لیۓ مجبوراً۔۔‬
‫مجھے یہ ڈرامہ کرنا پڑا تو وہ بولی اب جبکہ تم ساری‬
‫بات جان گۓ ہو تو پلیز فورا ً اپنی شلوار کو میرے‬
‫حوالے کر دو تا کہ میں اسے اچھی طرح انجواۓ کر‬
‫سکوں اور پھر میں نے وہیں کھڑے کھڑے ہی شلوار‬
‫اُتارنے لگا تو وہ بولی ۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ایڈیٹ ؟؟؟‬
‫۔۔۔ یہاں نہیں تم واش روم میں جا کر اُتارو اور میں‬
‫واش روم میں چال گیا اور اپنی شلوار اُتار کے اس کے‬
‫حوالے کر دی اور چوری چوری اسے دیکھنے لگا تو‬
‫وہ واقعہ ہی کسی نشئ کی طرح میری شلوار کو اپنے‬
‫سونگھ رہی تھی پھر وہ شلوار لیۓ‬ ‫ناک سے لگا کر ُ‬
‫باہر نکل گئ اور میں واش روم میں دُبکا اس کا انتظار‬
‫کرتا رہا ۔۔۔‬
‫کوئ پندرہ منٹ بعد وہ واپس ُروم میں آئ اور دُور سے‬
‫کھڑے ہو کر آواز دی ۔۔۔۔ شاہ تم ہو نا تو میں اس کی‬
‫سن کر ایسے ہی باہر آیا تو وہ مجھے دیکھ کر‬ ‫آواز ُ‬
‫بولی ۔۔ کچھ شرم کرو ایڈیٹ ۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو‬
‫وہ شلوار دھو کر استری بھی کر الئ تھی مجھے‬
‫شلوار دیتے ہوۓ بولی اب اپنی قمیض بھی دو کہ میں‬
‫اس کو بھی استری کر دوں ۔۔ اور میں جو شلوار پہن‬
‫چکا تھا قمیض اتار کر اس کے حوالے کر دی اس نے‬
‫قمیض لی اور فورا ً ہی باہر نکل گئ اور پھر تھوڑی ہی‬
‫دیر بعد وہ میری قمیض کو بھی اچھی طرح سے‬
‫استری کر الئ تھی ۔۔ مجھے قیمض پکڑا کر جیسے‬
‫ہی جانے لگی تو میں نے اسے آواز دے کر روک لیا‬
‫اور بوال ۔۔۔ روبی جی ایک منٹ ُرکو تو۔۔۔ اور وہ واپس‬
‫جاتے جاتے ُرک گئ اور وہیں سے بولی ۔۔۔ جی‬
‫فرمائیۓ ؟‬
‫سونگھنی ہے ؟؟‬ ‫تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اور خوشبو ُ‬
‫سن کر وہ ایک دم ہنس پڑی اور بولی ۔۔۔ تم‬ ‫میری بات ُ‬
‫پکے حرامی ہو ۔۔۔۔ تو میں نے کہا اچھا چلیں یہ تو اس‬
‫حرامی کو بتا دیں کہ میری ۔۔۔۔ کی بُو آپ کو کیسی‬
‫لگی ؟ میری بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گئ اور‬
‫میرے خیال میں وہ دل ہی دل میں یہ فیصلہ کررہی‬
‫تھی کہ آیا وہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے ۔۔۔ کافی‬
‫دیر تک وہ ُچپ رہی اور اس کے چہرے پر کشمکش‬
‫کے آثار واضع طور پر دکھائ دینے لگے ۔۔ پھر‬
‫اچانک اس کا چہرہ نارمل ہو گیا اور وہ یقینا ً کسی‬
‫فیصلے پر پہنچ گئ تھی پھر اس نے میری طرف دیکھا‬
‫اور بولی وہ تو میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی پہلے تم‬
‫سچ سچ بتاؤ کہ وہ کون تھی جس کے ساتھ تم نے یہ‬
‫حرکت کی تھی ۔۔۔ اب میں نے بھی اسے آدھا سچ اور‬
‫باقی جھوٹ بولنے کا فیصلہ کر لیا اور کہا اسی کو تو‬
‫ڈھونڈتے ڈھونتے آپ کے پاس پہنچ گیا تھا تو وہ بولی‬
‫کیا مطلب تم نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا تو میں نے‬
‫نفی میں سر ہال دیا تو وہ کہنے لگی ۔۔ میں نہیں مانتی‬
‫تو میں نے کہا کہ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ وہاں کتنا‬
‫رش ہے تو یہ جو کوئ بھی تھی میری آگے کھڑی‬
‫ہوئ تھی تو وہ بولی پہل کس نے کی تھی تو میں نے‬
‫کہا کسی نے بھی نہیں تو وہ بولی ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا‬
‫ہے ؟ تو میں نے کہا حضور یہ ایسے ہو سکتا ہے کہ‬
‫پہلے تو رش کی وجہ سے ایک آدھ دھکہ لگا اور وہ‬
‫میرے پاس آ گئ اور اتفاق سے اس نے اپنی نرم ۔۔۔۔‬
‫اور پھر میں نے تھوڑا وقفہ دیے کر کہا میرا مطلب‬
‫سمجھ رہی ہیں نا آپ تو وہ بولی ۔۔۔ سمجھ رہی ہوں پر‬
‫چونکہ اب ہم میں کوئ پردہ نہیں رہا اس لیۓ تم ُکھل‬
‫کر بات بتا سکتے ہو ۔۔۔ اور میں نے دل ہی دل میں‬
‫خود سے کہا ۔۔۔۔ لو اُستاد ایک اور میچور لڑکی مبارک‬
‫ہو اور پھر میں نے داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر‬
‫سنانے کا فیصلہ کر لیا‬
‫– ُ‬
‫طرف‬ ‫اور اسے بتانے لگا کہ میں ویسے ہی لیڈیز کی ٖ‬
‫کھڑا حاالت کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک رش میں‬
‫ایک دھکہ سا لگا اور اس دھکے میں بائ چانس ایک‬
‫خاتون عین میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئ ۔۔۔ اُس کے‬
‫اس طرح کھڑے ہونے سے اس کی تشریف میری‬
‫تھائیز کے ساتھ ٹچ ہونئ ۔۔۔ اُف ۔۔۔ اس کی تشریف اتنی‬
‫نرم‪ُ ،‬مالئم اور موٹی تھی کہ میرا دل بے ایمان ہو گیا‬
‫۔۔۔۔ حاالنکہ وہ اس طرح میرے ساتھ بس میں چند ہی‬
‫سکینڈ رہی ہو گی لیکن ان چند سیکنڈ میں اس کی گانڈ‬
‫کے لمس نے مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں نے رسک‬
‫لینے کا فیصلہ کر لیا اور ( اپنے لن کی طرف اشارہ‬
‫کر کے بوال کہ) اپنا یہ اس کی نرم بُنڈ کے ساتھ ٹچ کر‬
‫دیا ۔۔۔ رش کی وجہ سے پہلے تو اس کو پتہ ہی نہ چال‬
‫کہ اس کے ساتھ کیا واردات ہو رہی ہے لیکن جب میرا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ مسلسل اس کے ساتھ ٹچ ہونے لگا تو وہ بھی‬
‫چونکی اور اس نے ُمڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا پھر‬
‫پتہ نہیں اس کے دل کیا بات آئ کہ مجھے دیکھ کر اس‬
‫نے خود ہی اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کر کے میرے‬
‫ساتھ ٹچ کر دیا اور پھر گانڈ کو آہستہ آہستہ میرے ساتھ‬
‫رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد میں نے جان‬
‫بوجھ کر حکایت کو اتنا لزیز کر کے پیش کیا کہ‬
‫وہ گرم ہونا شروع ہو گئ اور واضع طور پر اس کا‬
‫چہرے پر اللی آ گئ ۔۔۔۔ اور وہ تھوڑا سا آگے جھک‬
‫کر میری داستان سننے لگی ۔۔۔۔۔ اور میں داستان سنانے‬
‫کے ساتھ ساتھ اس کے کھلے گلے میں نظر آنے والے‬
‫سفید مموں کا بھی نظارہ کرنے لگا ۔۔ میری داستان‬
‫سنتے اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ کہنے لگی‬ ‫سنتے ُ‬‫ُ‬
‫۔۔‬
‫ایک بات تو بتاؤ ۔۔ تو میں نے کہا جی پوچھو پلیز ۔۔۔ تو‬
‫وہ کہنے لگی تم نے اتنی دیر اس کے ساتھ حرام زدگی‬
‫کی اور ایک دفعہ بھی اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے یہ‬
‫بات مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی تو میں نے کہا روبی‬
‫جی اب میں آپ کو کیسے یقین دالؤں تو وہ کہنے لگی‬
‫کوئ ضرورت نہیں یقین دالنے کی۔۔۔۔۔ پھر بولی بلکہ‬
‫تم اس ٹاپک کو ہی چھوڑو اور مجھے ایک اور بات کا‬
‫جواب دو جومیں بڑے عرصے سے تم سے جاننا‬
‫چاہتی تھی بولو بتاؤ گے نا ۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ‬
‫آپ پوچھو میں ضرور بتاؤ گا۔۔۔ تو وہ بولی اچھا تو پھر‬
‫سلطانہ کو چھوڑ کو مائرہ کو کیوں‬ ‫سچ سچ بتاؤ تم نے ُ‬
‫پسند کیا تو میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو بلکل سچ‬
‫سلطانہ سے اس کا زکر‬ ‫بتاؤں گا لیکن آپ وعدہ کریں ُ‬
‫نہیں کریں گی تو وہ کہنے لگی یہ بات تو میں نے بھی‬
‫تم سے کرنی تھی کہ آج جو کچھ بھی ہوا ہے تم اس کا‬
‫زکر کسی سے بھی نہیں کرو گے تو میں نے جھٹ‬
‫وعدہ کر لیا اور اس نے بھی کہہ دیا کہ وہ میری کسی‬
‫سلطانہ ملک سے نہیں کرے گی پھر کہنے‬ ‫بات کا زکر ُ‬
‫لگی ویسے ایک بات ہے تم نے اس پر مائرہ کو ترجیح‬
‫دے کر اس کی انا کو بڑا ہڑت کیا ہے پھر کہنے لگی‬
‫سلطانہ جیسی‬ ‫ہاں بتاؤ کیا وجہ تھی جو تم نے ُ‬
‫خوبصورت لڑکی کو چھوڑ کر مائرہ جیسی کالی کلوٹی‬
‫لڑکی کو پسند کر لیا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا‬
‫۔۔۔‬
‫سلطانہ بڑی ہی حسین لڑکی‬ ‫اس میں کوئ شک نہیں کہ ُ‬
‫ہے اور ایسی معشوق قسمت والوں کو ہی ملتی ہے پر‬
‫روبی جی وہ ہر وقت یہی چاہتی تھی کہ میں اس کی‬
‫خوبصورتی کے گیت گاؤں اور ہر ٹائم اس کا احسان‬
‫مانوں کہ محلے کی نہیں عالقے کی سب سے زیادہ‬
‫خوبصورت لڑکی میرے ساتھ سیٹ ہے میں نے اس‬
‫سے ہزار دفعہ ملنا کا کہا پر وہ ہر دفعہ یہی کہتی کہ‬
‫ٹائم نہیں ہے اسکے عالوہ بھی وہ نا تو کس دیتی تھی‬
‫سن کر روبی کہنے لگی تو‬ ‫اور نا کوئ اور چیز ۔۔۔۔ یہ ُ‬
‫مسڑ یہ بتاؤ مائرہ ۔۔۔ یہ سب کرتی تھی تو میں نے بے‬
‫دھڑک کہہ دیا جی وہ یہ سب نہیں ان سے کچھ زیادہ‬
‫سن کر اس کی آنکھیں کھلی‬ ‫ہی کرتی تھی میری بات ُ‬
‫کی کھلی رہ گئیں اور وہ بڑے پُر اسرار لہجے میں‬
‫بولی شاہ !! ۔۔ کیا تم نے مائرہ کے ساتھ انٹر کورس کیا‬
‫ہے ؟ تو میں نے کہا جی کیا ہے تو وہ بولی کتنی دفعہ‬
‫۔۔۔۔ ؟؟ تو میں نے کہا یاد نہیں تو وہ تھوڑا حیران ہو کر‬
‫بولی ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ رئیلی تو میں نے کہا جی میں سچ کہہ‬
‫رہا ہو تو وہ بولی اچھا یہ بتاؤ کہ تمھاری اس کے ساتھ‬
‫دوستی کیسے ہوئ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔۔‬
‫روبی جی یہ تو آپ جانتی ہی ہیں کہ لڑکی جتنی بھی‬
‫کرپٹ کیوں کرتی۔۔۔۔ پہل نہ ہو وہ کبھی بھی پہل نہیں‬
‫کرتی ۔۔۔ پہل ہمیشہ مرد ہی کی طرف سے کی جاتی‬
‫سناتے ہو بوال ۔۔ یہ ان دنوں کی‬ ‫ہے ۔۔۔ اور پھر کہانی ُ‬
‫عروج پر‬ ‫سلطانہ کے ساتھ میرا آنکھ مٹکا ُ‬ ‫بات ہےجب ُ‬
‫تھا لیکن اس کے نخروں نے مجھے عاجز کر رکھا تھا‬
‫۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے ساتھ والے گھر میں مائرہ‬
‫لوگ آ گۓ یہ ُکل ‪ 3‬لوگ تھے ایک مائرہ کی امی جس‬
‫کو گھٹنوں کی پرابلم تھی اور وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ‬
‫سکتی تھی دوسرا اس کا باپ جو پاک سیکٹریئٹ اسالم‬
‫آباد میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھا اور تیسری وہ‬
‫سلطانہ کے ترلے‬ ‫خود ۔۔۔۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں ُ‬
‫ڈال رہا تھا کہ ساتھ والے چھت پر مائرہ آ گئ میں نے‬
‫ساتھ ولے چھت پر ایک سانولی سے خاتون دیکھی پر‬
‫سلطانہ کے ساتھ بزی تھا اس لیۓ کوئ ۔۔۔‬ ‫چونکہ میں ُ‬
‫نوٹس نہ لیا ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن وہ جب بھی چھت پر آتی وجہ‬
‫بے وجہ کھڑی رہتی ۔۔۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ آ بیل‬
‫میری مار ۔۔۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر میں چونک گیا‬
‫اور میری چھٹی حس نے مجھے اس لڑکی کے بارے‬
‫میں بتا دیا کہ ۔۔۔ جو بڑھ کے ہاتھ تھام لے ساغر اسی‬
‫کا ہے اس سے پہلے کہ کوئ اور یہ پتنگ لُوٹ لے ۔۔‬
‫جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ دیر نہ ہو جاۓ ۔۔۔ یہ سوچ کر‬
‫میں اس کی طرف بڑے ہی محطاط انداز میں متوجہ ہو‬
‫گیا ۔۔۔ اب میری ایک نظر سلطانہ کر طرف ہوتی اور‬
‫دوسری مائرہ کی طرف ۔۔ (جو مجھے بعد میں پتہ‬
‫چال) پھر آہستہ آہستہ مائرہ کے ساتھ بھی آنکھ لڑ گئ‬
‫۔۔۔۔ یہ سلسلہ کچھ دن تک چلتا رہا ۔۔ پھر میں نے سوچا‬
‫کہ اب بات آگے بڑھانی چاہیۓ۔۔ کافی سوچا پر کوئ‬
‫ترکیب سمجھ میں نہ آ رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔‬
‫پھر ایک دن کی بات ہے میں مقررہ وقت پر چھت پر‬
‫گیا تو گھر والوں نے کپڑے دھو کر سوکھنے کے لیۓ‬
‫تار پر لٹکاۓ ہوۓ تھے انہیں دیکھ کر اچانک میرے‬
‫زھن میں ایک آئیڈیا آگیا اور میں نے فورا ً ہی تار پر‬
‫لٹکے ہوۓ کپڑے اتارے اور اس کے آنے سے پہلے‬
‫ہی اس کی چھت پر پھینک دییۓ ۔۔ اور اس کے آنے کا‬
‫انتظار کرنے لگا کچھ دیر بعد جب وہ اپنی چھت پر آئ‬
‫تو میں اس کے پاس چال گیا اور بوال ایکسکیوز می‬
‫جی !! آپ کی چھت پر ہمارے کپڑے ِگرے ہیں پلیز‬
‫دے دیں اس نے فورا ً کپڑے اٹھاۓ اور مجھے دیتے‬
‫ہوۓ بولی اچھا طریقہ ہے بات کرنے تو میں نے کہا‬
‫جی اس کے بغیر گزارہ بھی تو نہیں ہے نا پھر میں‬
‫نے اس سے اس کا نام پوچھا اور اپنا بتایا اور اس نے‬
‫بتایا کہ وہ لوگ پہلے آریہ محلہ میں رہتے تھے یوں‬
‫اس طرح میری مائرہ سے بات چیت شروع ہو گئ کچھ‬
‫عرصہ تو میں نے بڑی شرافت سے اس کے ساتھ بڑی‬
‫اچھی اچھی باتیں کیں پھر اس کے بعد میں نے ایک‬
‫دفعہ اس کے ساتھ باتوں باتوں میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا‬
‫اور سہالنے لگا پھر اس کے بعد کچھ عرصہ بعد‬
‫ہاتھوں سے میں تھوڑا آگے بڑھنے لگا تو اس نے کہا‬
‫کہ یہ ٹائم مناسب تم رات ‪ 9،10‬بجے آنا ۔۔ چانچہ میں‬
‫اس کے دیۓ ہوۓ ٹائم پر رات اس کے ساتھ مال اور‬
‫باتوں باتوں میں اس سے ھگ کی درخواست کی تو اس‬
‫نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے جپھی لگائ‬
‫اور پھر کچھ دیر بعد اس نے مجھے جانے کو کہہ دیا‬
‫اور میں بڑی شرافت سے واپس آ گیا کہ بہتری اسی‬
‫میں تھی۔۔‬
‫اس کے بعد پھر ایک دن رات کو میں اس کی چھت پر‬
‫سہانی رات تھی ہر طرف سناٹا تھا میں نے جاتے‬
‫گی ا ُ‬
‫ہی اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور ایک ٹائیٹ سا‬
‫ہگ دیا پھر میں نے اس کے نرم لبوں کو چوما اور ۔۔۔۔‬
‫دوران کسنگ میں نے اس کے ممے دبا دیۓ‬‫ِ‬ ‫اور پھر‬
‫اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔ اس پہلے کہ میں آگے کچھ کہتا ۔۔۔ روبی‬
‫فورا ً بولی ۔۔ بس بس۔۔ اس سے آگے کچھ نہ ُ‬
‫سنانا میں‬
‫ساری بات سمجھ گئ ہوں تو میں نے کہا ُروبی جی‬
‫ابھی تو مسالے والی داستان شروع ہوئ تھی تو وہ ہنس‬
‫کر بولی تمھارے اسی مسالے سے تو میں پچنا چاہتی‬
‫ہوں۔۔‬
‫تو میں نے کہا آپ کی مرضی ہے لیکن اب تو آپ کو‬
‫بتانا پڑے گا کہ میری منی کی بُو کیسی تھی تو وہ‬
‫میری طرف گہری نظروں سے دیکھ کر بولی ۔۔۔ تم‬
‫اور تمھارے سیمنز (منی) کی سمیل (بُو) اک دم فسٹ‬
‫کالس ہے اور یقین کرو میں نے اسے بڑا انجواۓ کیا‬
‫ہے اور ابھی تک کر رہی ہوں تو میں نے حیرانی سے‬
‫کہا ابھی تک کیسے ؟ تو وہ کہنے لگی بےوقوف آدمی‬
‫تم کو معلُوم نہیں کہ تمھارے پسینے میں ڈُوبی باڈی کی‬
‫سمیل کتنی سیکسی ہے اسی لیۓ تو میں ابھی تک‬
‫تمھارے پاس بیٹھی ہوئ ہوں تو میں نے ڈرتے ڈرتے‬
‫روبی سے کہا ۔۔۔ روبی جی !! اگر آپ مائینڈ نہ کریں‬
‫تو میں آپ سے ایک سوال پوچھوں ؟ تو وہ کہنے لگی‬
‫ہاں ضرور پوچھو ۔۔۔ تو میں نے کہا آپ کا شوق کچھ‬
‫عجیب سا نہیں ہے اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ آپ کو اس‬
‫چیز کو شوق کیسے ہوا۔۔؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر‬
‫شرارت سے بولی بتا دوں ؟ تو میں نے کہا بتانے کے‬
‫لیۓ ہی تو پوچھ رہا ہوں تو وہ سنجیدہ ہو کر بولی اس‬
‫کے لیئے تمیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا تو میں‬
‫اس کی بات سمجھ کر بوال جی میں آپ کی ساری بات‬
‫سمجھ گیا ہوں اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ بات‬
‫صرف میرے اور آپ کے بیچ میں ہی رہے گی ۔۔۔‬
‫سن کر وہ کہنے لگی سالے تم بڑے انٹیلی‬ ‫میری بات ُ‬
‫جنٹ ہو ِادھر میں بات کی اُدھر تم سمجھ گۓ پھر‬
‫سیریس ہو کر بولی پلیز اپنے وعدے کا پاس نبھانا ۔۔۔۔‬
‫تو میں نے کہا اس بات سے آپ بے فکر رہو میں اپنے‬
‫وعدے کا ہر حال میں پاس کروں گا ۔ تو وہ مطمئین ہو‬
‫کر بولی ۔۔۔۔۔‬
‫یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میٹرک میں نے سینٹ میری‬
‫سکول مری روڈ سے کی تھی اس کے بعد آپی (رابعہ‬
‫) نے میرا داخلہ اپنے کالج یعنی گورنمنٹ کالج براۓ‬
‫خواتین سکستھ روڈ راولپنڈی میں کروا دیا تھا تب ہم‬
‫لوگ بھی ُمکھا سنگھ اسٹیٹ میں رہتے تھے اور تم کو‬
‫پتہ ہی ہے کہ ہم لوگ کمیٹی چوک سے بزریعہ بس‬
‫سکستھ روڈ جاتے تھے پھر کہنے لگی اور تم یہ بھی‬
‫جانتے ہو کہ سکستھ روڈ پرعین ہمارے کالج کے‬
‫سامنے ‪ 8‬نمبر بس کا سٹاپ تھا جس کے رش کے‬
‫بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ کالج‬
‫جانے کے لیۓ ہمارے ہمارے محلے ہی کی ایک لڑکی‬
‫جو مجھ سے ایک کالس سنیئر تھی کا ساتھ مجھے‬
‫ُمیسر آ گیا تھا ۔۔ میں اُس کے ساتھ خوشی خوشی جانے‬
‫لگی ۔ ایک آدھ ماہ تو مجھے پتہ بھی نہیں چال اور‬
‫سچی بات ہے میں نے غور بھی نہیں کیا پھر آہستہ‬
‫آہستہ میں نے نوٹ کیا کہ میرے ساتھ جانے والی لڑکی‬
‫ہمیشہ بس کے گیٹ کے پاس ہی کھڑی ہوتی تھی اور‬
‫مجھے بس کے اگلے حصہ میں جانے کے لیۓ کہتی‬
‫تھی ایک دو ماہ تو میں نے اس کی ہدایت پر بے چوں‬
‫و چراہ عمل کیا پھر آہستہ آہستہ مجھ پر بس کے اگلے‬
‫گیٹ پر کھڑے ہونے کا راز ُکھل گیا ویسے بھی اب‬
‫کالج میں میری کافی فرینڈز بن گئیں تھیں اور جو بھی‬
‫مجھ سے پوچھتی کہ تم کہاں سے آتی ہو تو جب میں‬
‫اُن کو بس کا بتاتی وہ یہ بات ضرور کہتی کہ پھر تو تم‬
‫شروع میں‬ ‫شروع ُ‬ ‫ایک ٹکٹ میں دو مزہ لیتی ہو گی ۔۔۔ ُ‬
‫تو مجھے اس بات کا مطلب سمجھ نہ آیا ۔۔ پھر میری‬
‫ایک دوست نے جو خود بھی لیاقت باغ سٹاپ سے‬
‫بیٹھتی تھی نے مجھے ساری بات سمجھا دی ۔۔ اور پھر‬
‫ایک دن ایسا ہوا کہ ہماری محلے دار نے کسی وجہ‬
‫سے کالج سے اکھٹی چار پانچ چھٹیاں کر لیں ۔۔۔ میری‬
‫تو جیسے عید ہو گئ اور نیکسٹ ڈے میں اکیلی ہی‬
‫کالج جانے کے لیۓ گھر سے نکلی اور اپنے پالن کے‬
‫ُمطابق بس کے گیٹ کے پاس ہی کھڑی ہو گئ ۔۔۔‬
‫جیسے ہی بس چلی اور اس نے کمیٹی چوک کا اشارہ‬
‫کراس کیا تو کھیل شروع ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ‬
‫میرے ساتھ کھڑی لڑکی کے عین پیچے ایک لڑکا کھڑا‬
‫ہوا ہے اور کچھ دیر بعد وہ لڑکا اور لڑکی ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ پیچے کی طرف سے ُجڑ گۓ تھے‬
‫اور پھر میں نے دیکھا لڑکے کہ جس نے پینٹ پہنی‬
‫ہوئ تھی ہولے سے لڑکی کا ایک بریسٹ اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑ لیا اور اسے پریس کرنے لگا پھر میں نے‬
‫بڑی مشکل سے ۔۔۔ اس لیۓ کہ رش بہت زیادہ تھا سے‬
‫دیکھا تو لڑکے کا اگلے واال حصہ (لن) لڑکی کے‬
‫پچھلے والے حصے میں ُکھبا ہوا تھا اور وہ لڑکی خود‬
‫ہی ہولے ہولے پیچھے کی طرف گھسے لگا رہی تھی‬
‫یہ منظر دیکھ کر میں کافی گرم ہو گئ اور ایک عجیب‬
‫سی فیلنگ میری ساری باڈی میں پھیل گئ میں ان کو‬
‫یہ کام کرتے ہوۓ بڑے ہی غور سے دیکھ رہی تھی‬
‫جیسے ہی کوئ سٹاپ آتا وہ وہ دونوں تھوڑی دیر کے‬
‫لیۓ علیحدہ ہو جاتے اور جیسے ہی بس چلتی وہ لوگ‬
‫پھر ایک دوسرے کے ساتھ ُجڑ جاتے مجھے یہ سین‬
‫دیکھ کر بڑا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔‬
‫پھر ایسا ہوا کہ آئ تھنک ناز سینما سٹاپ پر ایک دو‬
‫عورتیں اُتریں اور ان کی جگہ ‪ 3،4‬کالج کی لڑکیاں‬
‫سوار ہو گئیں ایک دم دھکم پیل سے میری جگہ تبدیل‬
‫ہو گئ اور پتہ نہیں کیسے میں بس کی سیڑھیوں کے‬
‫پاس کھڑی ہو گئ ۔۔۔ بس چلنے کے کچھ ہی دیر بعد‬
‫مجھے اپنی بیک پر کچھ فیل ہوا ۔۔۔۔ کوئ میرے ساتھ‬
‫ُجڑنے کوشش کر رہا تھا ۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے‬
‫اپنی بیک پر ایک ہاتھ کو فیل کیا جو بڑے ہی پیار سے‬
‫میرے بیک پر مساج کر رہا تھا ۔۔۔ چونکہ یہ میرا فسٹ‬
‫ٹائم تھا اس لیۓ میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئ‬
‫۔۔ پہلی دفعہ کسی میل کا ہاتھ میری بیک پر ٹچ ہوا تھا‬
‫اس لیۓ مجھے بڑا عجیب سا فیل ہو رہا تھا لیکن مزہ‬
‫بھی ا رہا تھا اور ٹانگیں بھی کانپ رہی تھیں پر میں‬
‫نے حوصلے سا کام لیا اور ویسے ہی کھڑی رہی ۔۔۔‬
‫اور پھر اگلے سٹاپ پر جب دھکم پیل ہوئ تو پتہ نہیں‬
‫وہی لڑکا تھا یا کوئ ۔۔۔ عین میرے پیچھے کھڑا ہو گیا‬
‫اور اپنا ڈِک ( لن) میری بیک (گانڈ ) کے ساتھ ٹچ کر‬
‫دیا ۔۔۔‬
‫اس کا ڈِک بڑا ہی ہارڈ تھا اور اس نے پینٹ پہنی ہوئ‬
‫تھی اس لیۓ وہ میری بیک میں تو نہ جا سکا پر اس‬
‫کی اس ہارڈنس کی زبر دست فیلنگ میرے سارے جسم‬
‫میں سرائیت کر گئی اور پہلی دفعہ مجھے اپنی پوسی‬
‫(چوت ) سے پانی ِرستا ہوا فیل ہوا ۔۔۔ اور میں اک‬
‫سرور جس سے میں‬ ‫سرور میں ڈوب گئ ایسا ُ‬ ‫انوکھے ُ‬
‫آج تک نا بلد تھی اور پھر میں اپنی ساری بیک اس‬
‫کے ساتھ جوڑ دی اور اس نے بھی اپنا ڈِک میری بیک‬
‫کے دراڑ میں گھسا دیا پینٹ کی وجہ سے اس کے ڈِک‬
‫کی نوک تو میری بیک کی دراڑ میں نہ جا سکی لیکن‬
‫اس کا ڈک ٹیرھا میڑھا ہو کر میری بیک کی دراڑ میں‬
‫پھنس گیا اور میں اس کے ڈِک کو اپنی بیک میں فیل‬
‫کر کے مزے لینے لگی ۔۔‬
‫پھر یہ ہُوا کہ ابھی میں اس لڑکے کا ڈِک اپنی بیک پر‬
‫انجواۓ کر رہی تھی کہ اچانک میرے آس پاس ایک‬
‫عجیب سی نشہ آور بُو پھیل گئ ایک دم تو مجھے کچھ‬
‫سمجھ نہ آئ کہ یہ کیا چیز ہے پھر میں نے غور سے‬
‫دیکھا تو وہی لڑکا لڑکی جن کا میں شو دیکھ رہی تھی‬
‫۔۔ اور جس نے اپنی بیک اس لڑکے کے ساتھ فٹ کی‬
‫ہوئ تھی وہ ایک دم آگے ہو گئ اور میں نے دیکھا تو‬
‫لڑکے کی آگے والی سائیڈ پوری طرح سے گیلی ہو‬
‫چکی تھی اور یہ دلکش بُو اسی گیلی پتلُون سے آ رہی‬
‫تھی بعد میں مجھے پتہ چال کہ اس دلکش بُو کو منی‬
‫کی بُو کہتے ہیں ۔۔ اور مجھے پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایسا‬
‫لگتا تھا کہ میں نے کوئ ‪ 10‬بوتل شراب پی رکھی ہے‬
‫اب تم اس کو میری دیونگی سمجھو یا کچھ اور میں‬
‫کسی نہ کسی طرح اس لڑکے کے پاس جا کر کھڑی‬
‫ہو گئ اور اس کی پینٹ سے نکلنے والی بپو کو انہیل‬
‫کرنے لگی پھر تو میں اس بُو کی دیوانی ہو گئ۔۔ بلکہ‬
‫یہ میرا شوق بن گیا اس کے بعد وہ لڑکا فورا ً ہی بس‬
‫سے اتر گیا اور میں دوبارہ اسی لڑکے کے پاس چلی‬
‫گئ اور سلسلہ وہیں سے جوڑ لیا جہاں سے ٹوٹا تھا ۔۔‬
‫ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ کہہ اس کا ڈِک میری بیک‬
‫میں پھنسا ہوا تھا اور میں اسے انجواۓ کر رہی تھی‬
‫کہ اتنے میں کنڈیکٹر نے آواز لگائ سکستھ روڈ والے‬
‫تیار ہو جائیں اور میں ہڑ بڑا گئ اور جی تو نہ کر رہا‬
‫تھا پر پھر بھی میں نے اپنی بیک اس سے علیحدہ کی‬
‫اور سٹاپ آنے پر نیچے اُتر گئ ۔۔۔ اس واقعہ کے بعد‬
‫اس رات میں سو نہ سکی ساری رات میں نے اپنی‬
‫بیک میں اس نامعلوم لڑکا کا ڈِک فیل کرتی رہی اور‬
‫پھر ساتھ ہی سیمنز کی وہ بُو مجھے یاد آ کر پاگل بنا‬
‫دیتی تھی ۔۔۔ اور پھر میں نے الئیف میں پہلی دفعہ واش‬
‫ُروم میں جا کر دروازے کے ساتھ اپنی پُوسی (چوت)‬
‫خوب رگڑی اور فنگرنگ بھی کی اور اپنی پوسی‬
‫(چوت ) سے نکلنے والے پانی کو اپنی فنگر پر لگا کر‬
‫سونگھا مجھے اپنے اس عمل پر خود بھی بہت‬ ‫خوب ُ‬
‫حیرت ہو رہی تھی کہ یہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔ ؟؟؟ پر‬
‫میں اپنے جزبات کے ہاتوں مجبور تھی اور اسی رات‬
‫مجھ پر یہ بات ُکھلی کہ مجھے منی کی بُو بہت اچھی‬
‫لگتی ہے ۔۔۔۔ اس کی کوئ نفسیاتی وجہ تو مجھے نہیں‬
‫معلوم پر اتنا معلوم ہے کہ میں اس چیز کی دیوانی ہوں‬
‫سنائ اور ُچپ ہو گئ تو میں نے‬ ‫۔۔۔ روبی نے اتنی بات ُ‬
‫کہا بڑا مزہ آ رہا ہے پلیز آگے بھی بتائیں نا تو وہ‬
‫بولی۔۔‬
‫آگے کیا بتاؤں یار ۔۔۔۔ اس طرح مجھے بس میں ہونے‬
‫والی وارداتوں کا پوری طرح سے علم ہو گیا اور کچھ‬
‫ہی عرصہ میں میں بھی اس کام میں بڑی ایکسپرٹ ہو‬
‫گئ تو میں نے کہا کہ روبی جی جب آپ کی محلے دار‬
‫چھٹیوں سے واپس آئ تو پھر کیا ہوا ۔۔۔ ؟؟ اسے آپ کی‬
‫وارداتوں کا علم نہیں ہوا ۔۔۔ تو وہ بولی ہونا کیا تھا‬
‫ہمارا درمیان ایک خاموش معاہدہ طے پا گیا تھا کہ جس‬
‫کی جو مرضی ہے کرو اور ہم نے ایک دوسرے کے‬
‫کاموں میں دخل نہیں دینا نہ ہی ایک دوسرے کے بھید‬
‫کھولنا ہے کیونکہ وہ بھی سمجھ گئ تھی کہ میں سب‬
‫جان گئ ہوں اب وہ اپنا شکار کرتی اور میں اپنا۔۔ بس‬
‫اس طرح ہمارا کھیل جاری رہتا اور تقریبا ً ہر دوسرے‬
‫تیسرے دن کوئ نہ کوئ لڑکا ڈسچارج ہو جاتا تو وہ‬
‫میرے لیۓ اصل مزہ ہوتا تھا جبکہ دوسرا کام میں‬
‫صرف بونس میں انجواۓ کرتی تھی تو میں نے پوچھا‬
‫روبی جی یہ حرکت آپ کسی مخصوص لڑکے کے‬
‫ساتھ کرتی تھی یا جو بھی سامنے آ جاۓ اور دوسرا‬
‫آپ کو اس بات سے ڈر نہیں لگتا تھا کہ کوئ آپ کو‬
‫پہچان نہ لے تو وہ کہنے لگی بات تمھاری ٹھیک ہے‬
‫پر شروع میں ہی مجھے ان کاموں کی ایک ایکسپرٹ‬
‫لڑکی نے بتا دیا تھا کہ جب بھی یہ کام کرو تو اپنا منہ‬
‫ضرور ڈھانپ لیا کرو تا کہ کوئ آپ کو پہچان نہ‬
‫سن‬
‫سکے اور میں ایسا ہی کرتی تھی ( روبی کی بات ُ‬
‫کر مجھے اچانک رابعہ یاد آگئ جب وہ میرے ساتھ‬
‫اپنی گانڈ رگڑ رہی تھی تو میں حیران تھا کہ اتنی‬
‫شریف لڑکی کس طرح تجربہ کار رنڈیوں کی طرح‬
‫اپنی گانڈ میرے ساتھ لگا رگڑ رہی ہے اور کتنی‬
‫مہارت کے ساتھ میرا ٹوپا اپنی گانڈ کی موری کے اندر‬
‫لے رہی تھی ۔۔۔ روبی نے بتایا تو اب سمجھ میں آیا کہ‬
‫چونکہ وہ بھی گورنمنٹ کالج براۓ خواتین میں پڑھی‬
‫تھی اور وہ بھی بس میں جاتی آتی تھی اس لیۓ ۔۔۔ پھر‬
‫یاد آیا یہ تینوں بہن بھائ شکل سے جتنے شریف ‪،‬‬
‫معصوم اور ُمہزب لگتے تھے اندر سے اُتنے ہی‬
‫سیکسی ہیں ۔۔ تو گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است واال‬
‫معاملہ تھا ) ادھر میرے زہن میں یہ خیال آ رہا تھا‬
‫ادھر روبی کہہ رہی تھی سو مائ ڈئیر میں بھی ہمیشہ‬
‫اپنا منہ اچھی طرح ڈھانپ کر یہ واردات کرتی تھی تو‬
‫میں نے پوچھا کہ کسی نے پہچانا بھی ؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی پہچانا تو نہیں ہاں ایک لڑکے کے ساتھ اچھی گپ‬
‫شپ ہو گئ تھی اور اس کے ساتھ ایک آدھ ڈیٹ بھی‬
‫ماری تھی لیکن تم یقین کرو گے کہ نا تو میں نے اس‬
‫کے ساتھ کوئ ایسا کام کیا ۔۔ نا اسے کرنے دیا ۔۔ ہاں ۔۔۔‬
‫وہ جو تم جانتے ہو بڑا کیا بس میں بھی اور باہر بھی‬
‫۔۔۔ تو میں نے کہا ُروبی جی یہ تو ہوئ کالج کی باتیں ۔۔‬
‫کالج کے بعد آپ اپنا یہ شوق کیسے پورا کرتی ہیں‬
‫سرخ ہو کر ُچپ ہو‬ ‫سن کر وہ ایک دم الل ُ‬ ‫میری بات ُ‬
‫گئ اور اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔۔۔‬
‫اس کی یہ حالت دیکھ کر میں بڑا حیران ہوا اور بوال‬
‫روبی جی کوئ خاص بات ہے جو آپ بتانا نہیں چاہ‬
‫سن کر اس نے اپنا سر اوپر اُٹھایا اور میرے‬
‫رہی ؟ یہ ُ‬
‫طرف دیکھ کر بولی بتانا ضروری ہے کیا ؟ تو میں‬
‫نے کہا نہیں بلکل بھی ضروری نہیں ہے ۔۔۔ لیکن آپ‬
‫کی اس حرکت سے میرا اندر ایک تجسس ضرور جاگ‬
‫گیا ہےکہ آخر ایسی کیا بات ہے جو آپ اچانک خاموش‬
‫ہو گیئں ہیں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ہاں خاص بات تو ہے ۔۔‬
‫تو میں نے پوچھا اگر آپ بتا دیں گیں تو بڑہ مہربانی ہو‬
‫گی اور اس کے ساتھ تھوڑا مزید نمک مرچ لگا کر اس‬
‫کی خوش آمد کی ۔۔ آخر کافی اصرار اور منت سماجت‬
‫کے بعد وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کالج الئیف کے بعد کافی دنوں تک میں بڑی پریشان‬
‫رہی کہ اب کیا ہو گا ؟؟ ۔۔ بہت سوچا پر کچھ سمجھ میں‬
‫نہ آیا ۔۔۔ آخر میں نے خود کو حاالت کے رحم و کرم‬
‫پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔ اور فنگرنگ وغیرہ کرکے گزارہ کر‬
‫لیتی تھی پھر ایک دن کی بات ہے اس دن ماما کی‬
‫طبیعت کچھ خراب تھی اور انہوں نے میری ڈیوٹی‬
‫لگائ تھی کہ میں رفیق کو صبع اُٹھاؤں اور ابو کے‬
‫ساتھ اس کو بھی ناشتہ دے کر ُرخصت کروں ۔۔۔ اس‬
‫دن میں صبح جلدی اُٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر ابو کے‬
‫روم کی طرف گئ تو وہ پہلے سے ہی جاگے ہوۓ‬
‫تھے انہیں اُٹھا دیکھ کر میں رفیق کی طرف چل دی‬
‫اور پھر جیسے ہی میں رفیق کے ُروم میں انٹر ہوئ تو‬
‫میں ٹھٹھک کر ُرک گئ ۔۔۔۔ کیونکہ میرے نتھنوں میں‬
‫منی کی وہی مخصوص بُو آ رہی تھی جو میری پسندیدہ‬
‫سونگھ کر میں بڑی حیران ہوئ کہ یہ‬ ‫مرغوب تھی ُ‬‫ُ‬ ‫اور‬
‫سمیل کہاں سےآ رہی ہے ؟؟ پھر جونہی میرے نتھنوں‬
‫نے سمت کا تعین کیا تو ایک دم میں سمجھ گئ کہ یہ‬
‫مخصوص بُو رفیق کہ منی کی بُو ہے میرے خیال میں‬
‫اسے تھوڑی دیر پہلے ہی احتالم ہوا تھا اب میں دبے‬
‫پاؤں آگے بڑھی اور رفیق کے پلنگ کے پاس چلی گئ‬
‫دیکھا تو وہ چادر لے کر سو رہا تھا اب میں نے بڑی‬
‫احتیاط کے ساتھ اس پر سے چادر ہٹائ اور ۔۔۔۔ یہ دیکھ‬
‫کر میں حیران ہی رہ گئ کہ میرا وہ بھائ کہ جسے‬
‫میں بچہ سمجھتی تھی وہ فُل جوان تھا اور اس کا ۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ پوری طرح کھڑا تھا اور اس کے ساتھ اس کی‬
‫ساری شلوار اس کی منی سے بھیگی ہوئ تھی ۔۔۔ اسے‬
‫بڑا زبردست احتالم ہوا تھا ۔۔۔ اس کی جوان منی کی بُو‬
‫سے سارے کمرہ مہک رہا تھا ۔۔ میری تو عید ہو گئ ۔۔‬
‫اب میں پلنگ پر اس کے پاس بیٹھ گئ اور جی بھر کے‬
‫اس کی جوان منی کی مہک کو انجواۓ کیا ۔۔ پھر‬
‫اچانک یاد آیا کہ ابو انتظار میں ہوں گے سو باد ِل‬
‫نخواستہ وہاں سے اٹھی اور چادر کو دوبارہ اس پر‬
‫اُڑھا دیا اور جا کر دروازے میں کھڑی ہو کر رفیق کو‬
‫زور زور سے آوازیں دینا شروع ہو گئ ۔۔۔ کافی‬
‫آوازوں کے بعد اس کی آنکھ کھلی اور وہ مجھ سے‬
‫بوال کیا ہے باجی اتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا کہ تم نے‬
‫جگا کر اس کا ستیا ناس کر دیا ۔۔ تو میں نے کہا جلدی‬
‫اُٹھو کہ سکول جانے کا ٹائم ہو گیا ہے اور ابو تمھارا‬
‫سن کر اس نے‬ ‫انتطار کر رہے ہیں ۔۔۔۔ ابو کا نام ُ‬
‫چھالنگ لگائ اور واش روم میں چال گیا ۔۔۔ ناشتے کے‬
‫بعد جب ابو اور وہ چلے گۓ تو میں بھاگ کر رفیق‬
‫کے واش ُروم میں گئ اور کھونٹی پر ٹنگی اس کی‬
‫شلوار اتاری جو اب کافی حد تک سوکھ گئ تھی میں‬
‫نے اسے دونوں ہاتھوں میں لیا اور متاثرہ جگہ کو اپنی‬
‫ناک سے لگا لیا اور خوب انجواۓ کیا اور ھم ابھی تک‬
‫انجواے کر رھے ھیں ۔۔۔دوستو کیسی لگی میری‬
‫کہانی۔۔۔۔‬

You might also like