ہیلو دوستو۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔ دوستو یہ تو طے ہے کہ
ب آرزو نہیں مال کرتا ۔۔۔یہاں کسی کو بھی کبھی حس ِ بہت ہی لکی ہو گا وہ شخص جس کو اس کی پسند کی چیز ملی ہو ۔۔۔ اور مل بھی جاۓ تو ۔۔ انسان کبھی بھی ۔۔ اس پر قانح نہیں ہوا۔۔۔ بلکہ ہل من مزید کے چکرمیں رہتا ہے۔۔۔ ویسے زیادہ تر تو بندے کو اس کی پسند کی چیز کم ہی ملی ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سلیم کوثر صاحب نے شاید اسی لیۓ کہا ہے کہ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئ اور ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آپ کو تھوڑا بور کیا اس کے لیۓ سوری۔۔ پر اس بات کا اس سٹوری سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے ۔۔۔ کیا ہے یہ آپ کو سٹوری پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اگر نہ چال تو ایک دفعہ پھر سوری۔۔۔ یہ کالج کے دنوں کی بات ہے میں حسب معمول گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں گیا ۔۔۔۔ اور اس دفعہ ُکھچ زیادہ ہی لیٹ ہو گیا ۔۔۔ وجہ ایک دو کیس تھے (کیس ہمارا کوڈ ورڈ تھا ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔۔۔ لڑکی ) جو حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ پھر ہماری ثابت قدمی سے آخر کار دونوں کیس حل ہوۓ اور تب ۔۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آۓ ۔۔۔۔ میں صبح صبح گاؤں سے چال تو رات گۓ ہی واپس گھر پہنچا ۔۔۔ سخت تھکا ہوا تھا ۔۔۔ کھانا شانا کھا کر بستر پر لیٹا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئ اور پھر صبح ہی اُٹھا ۔۔۔۔ سویرے جو آنکھ میری ُکھلی تو میں بھاگ کر چھت پر گیا کہ ۔۔۔ زرا دیدار یار کر لوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ پاس والے چھت کی پوزیشن وہ نہ تھی جو ۔۔۔۔۔ میرے خیال میں ہونا چاہیۓ تھی ۔۔ کپڑے دھو کر تار کی بجاۓ دیواروں پر پڑے ہوۓ تھے اور ان میں وہ ترتیب بھی نہ تھی جو میری سرکار کی ہوتی تھی ۔۔۔ اور دیدار یار والی چھت پر باقی چیزوں کا ڈیزائین بھی کافی چینج تھا ۔۔۔ کچھ گڑ بڑ تھی۔۔۔ سو حقیقت حال سے آگاہی کے لیۓ میں نے اپنے دوست محلے دار اور کسی حد تک کالس فیلو رفیق کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا کسی حد تک کالس فیلو سے ُمراد یہ ہے کہ ہم تھے تو ایک ہی کالس میں پر ۔۔۔۔۔ ہمارے سیکشن الگ الگ تھے ۔۔۔۔ ہاں تو میں سویرے سویرے( مطلب 10بجے دن) جا فیکے کے گھر دھمکا ۔۔ گھنٹی کے جواب میں وہ ہی آیا ۔۔۔ مجے دیکھ کر کھل اٹھا اور فورا ً جھپی لگا کر بوال ۔۔۔۔۔۔ اتنے زیادہ دن کیوں لگا دیۓ تم نے ؟؟ تو میں نے اس کو بوال ۔۔بس یار ایک دو کیس حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ اس لیۓ ٹائم لگ گیا تو وہ بوال ۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اچھا تو یہ بات ہے۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ تو کیس حل ہو گۓ؟؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ ہاں یار کیس حل ہوۓ تھے ۔۔۔ تو آیا ہوں ناں ۔۔۔۔ اس نے اثبات میں سر ہالیا اور بوال ۔۔ہور سنا ؟ گاؤں میں سب امن شانتی تھی۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔ گاؤں کی بنڈ مار یار مجھے محلے کی خیر خبر دے ۔۔ کہ میرے بعد کیا کیا واقعات وقوع پزیر ہوۓ ۔۔۔ سن کر اس کے چہرے پر ایک شیطانی میری بات ُ کراہٹ نمودار ہوئ اور وہ بوال محلے کی ماں کی ُمس ُ ُکس ۔۔ بہن چودا سیدھی طرح کیوں نہیں کہتا کہ قریشی صاحب لوگ ہیں کہ نہیں ؟؟ پھر بوال مجھے پتہ ہے تم سب سے پہلے چھت پر اس ماں کی تالش میں گۓ ہو گے اور جب وہ بے بے وہاں نہیں ملی ۔۔۔ تو مجھ سے سن کر پوچھنے چلے آۓ ہو۔۔۔ اس کی اتنی لمبی تقریر ُ میں زرا بھی بے مزہ نہ ہوا بلکہ اُلٹا دانت نکال کر بوال ۔۔۔ چل یار یونہی سمجھ لو ۔۔۔ پر بتاؤ کہ قریشی لوگ گۓ کہاں ہیں ؟؟ اب کی بار وہ کچھ سیریس ہو کر بوال یار تم کو تو پتہ ہی ہے کہ قریشی صاحب ایک سرکاری مالزم تھے اور انہوں نے سرکاری کوارٹر کے لیۓ اپالئ کیا ہوا تھا ۔۔۔ تو اُن کو سرکاری کوارٹر مل گیا ہے ۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ کہاں مال ہے ؟ تو دوست راوی اس کے بارے میں بلکل خاموش ہے ۔ وہ تو اپنا پتہ کسی کو بھی نہیں بتا کر گۓ ہیں ۔۔۔ کیونکہ کسی کو انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں الل کوارٹر ز جی- 7اسالم آباد میں مکان مال ہے اور کسی کو کہہ کر گۓ ہیں کہ ان کو مکان جی نائین ٹو کراچی کمپنی (اسالم آباد) میں مال ہے ۔۔۔ ساال سچی بات کسی کوبھی نہیں بتا کر گیا ۔۔۔ پھروہ میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔ تو بیٹا اس بات کا لُب لباب یہ ہے کہ تو ُمٹھ مار ۔۔ کہ قریشی صاحب کی بیٹی تو اب جانے کس کے نیچے پڑی ہو گی ۔۔۔ اس کی بات سن کر مجھے بڑا غصہ آیا اور بوال ۔۔ فکر نہ کر بیٹا شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔۔۔ پھر میری نظر سامنے ملکوں کے گھر پر پڑی اور وہاں رنگ برنگی لڑیا ں دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور پوچھنے لگا یار یہ ملک صاحب کے ہاں الئیٹں کیوں لگی ہوئیں ہیں ؟؟؟ تو وہ بوال یار مودے کی شادی ہے اسی سلسلہ میں یہ الئیٹنگ وغیرہ لگی ہوئ ہیں ۔۔۔۔ تو میں نے اچھا ہے یار مودا بھی پھدی کا منہ دیکھ لے گا شریف آدمی آخر کب تک ُمٹھ پر گزارا کرتا ۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں ہمارے پاس سے ایک پپو سا لڑکا اور ایک نیم پکی عمر کی خاتون گزری ۔۔۔ لڑکے نے شارٹ اور تنگ سی نیکر پہنی ہوئ تھی ۔۔ اور اس نیکر میں اس کی موٹی اور گوری تھائیز بڑا دلکش نظارہ پیش کر رہی تھیں ۔۔۔ اورخاص کر اس نیکر میں اس کی موٹی گانڈ پھنسی ہوئ بڑی سیکسی لگ رہی تھی۔۔ بلکل لڑکیوں جیسی گانڈ تھی اُس کی۔۔۔۔۔۔ جبکہ خاتون نے ہلکے پیلے رنگ کی سلیولیس ٹائیٹ فٹینگ قمیض پہنی ہوئ تھی اور نیچے کافی تنگ پاجامہ پہنا ہوا تھا ۔۔ ۔۔۔ قمیض اتنی ٹائیٹ تھی کہ اس میں سے اس کا ایک ایک انگ صاف دکھائ دے رہا تھا ۔۔۔۔۔ ہمارے پاس سے گزر کر جونہی ان کی پیٹھ ہماری طرف ہوئ تو میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور فیکے سے بوال ۔۔۔ ۔۔۔۔ واہ یار کیا بنڈیں ہیں۔۔۔۔ عورت کی تو جو ہے سو ہے پر یار سچ پوچھو تو عورت سے زیادہ لڑکے کی بنڈ بڑی ہی فٹ ہے ۔۔۔۔۔ اور لڑکا دیکھ یار سن کر وہکتنا۔۔ چکنا ۔۔۔ کتنا پپو ہے ۔۔۔۔ میری بات ُ تھوڑا ریش ہوا اور بوال۔۔۔" بین یکا " (بہن چودا) ایک تو تیرا زہن بڑا ہی گندہ ہے۔۔۔۔۔ کسی کو تو بخش دیا کر سن کر میں نے قدرے غصے گانڈو۔۔۔ ۔۔۔ اس کی بات ُ سے کہا ۔۔۔۔۔ کیوں کیا یہ تیری ماں لگتی ہے جو اتنا تپا ہوا ہے ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بوال ۔۔۔ ماں تو نہیں ہاں یہ میری آنٹی ہیں اور جو لڑکا ان کے ساتھ جا رہا تھا یہ ان کا بیٹا یاسر اورمیرا کزن ہے۔۔ پھر وہ گالی دے کر بوال اور یہ لوگ قریشی صاحب والے ہی گھر میں آۓ ہیں ۔۔۔۔ اب میں نے اس کو دیکھا اور بوال سوری یار ۔۔ مجھے نیہں پتہ تھا کہ یہ تمھارے رشتے دار ہیں ۔۔۔۔ تو وہ برا سا منہ بنا کر بوال ۔۔۔ یار ہر ٹائم ایک ہی موڈ میں نہ رہا کر بندہ " کوندہ" بھی دیکھ لیا کر ۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں تھوڑی دیر اور اس کے پاس بیٹھا لیکن اس کا خراب موڈ دیکھ کر گھر آ گیا۔۔۔۔ کچھ دیر گھر بیٹھا اور پھر دوستوں سے ملنے چال گیا اس کے ساتھ ساتھ میں نے رفیق کے کے رشتے دار اور اپنے نۓ ہمسائیوں کے بارے میں معلُومات لینا شروع کر دیں تو پتہ چال کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس فیملی کے ُکل 3ممبر تھے ایک خاتون جس کا اصل نام شاید ہی کسی کو پتہ تھا پر سب کو یاسر کی امی کہتے تھے دوسرا یاسر جو اُس ٹائم آٹھویں کالس کا سٹوڈنٹ تھا اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو غالبا ً تیسری یا چوتھی کالس میں پڑھتی تھی یعنی کہ بہت چھوٹی تھی یاسر کا ابا سعودی عرب میں ہوتا تھا گھر کی دیکھ بھال کرنے کے لیۓ کہنے کو تو یاسر کا تایا۔۔ ۔۔ یا اس کی دادی ان کے ساتھ رہتی تھی لیکن حقیقت میں وہ ان کے ساتھ کم ہی ہوتے تھے جبکہ دیکھ بھال کے لیۓ فیکے کی فیملی تھی کہ یاسر کی امی فیکے کی سب سے چھوٹی خالہ تھی میرے خیال میں اس کی عمر 35/34سال ہو گی ۔۔۔ وہ بڑی فرینڈلی اور پُر کشش خاتون تھی اس کی آنکھوں میں ہر ٹائم ایک مستی سی چھائ رہتی تھی ۔۔۔ وہ کافی سمارٹ پر گانڈ غصب کی تھی ۔۔ ممے البتہ نارمل تھی نہ موٹے نا پتلے مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اس کے ممے گول اور سخت پتھر تھے چونکہ وہ بہت فرینڈلی اور خوش مزاج تھی ۔۔۔ سو تھوڑے ہر عرصے میں وہ محلے کی عورتوں میں کافی پاپولر ہو گئ تھی ۔۔۔ محلے کی تقریبا ً ساری ہی لیڈیز اپنے گھریلو کام کاج سے فارغ ہو کر اس کے گھر میں آ کر منڈلی سجاتی تھیں ۔۔۔۔۔ یہ معلُومات حاصل کرنے کے بعد میں سیدھا رفیق عرف فیکے کے گھر گیا اور بیل دی ۔۔۔۔ جواب میں ُ عرف روبی نے دروازہ کھوال اس کی بڑی سسٹر رباب ُ اور مجھے دیکھ کر بولی ۔۔۔۔۔ الٹ صاحب کی آمد کب ہوئ ۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔ جی میں رات کو ہی آ گیا تھا ۔۔۔ پھر روبی سے پوچھا کی رفیق گھر پر ہے تو وہ بولی ہاں اپنے کمرے میں پڑھ رہا ہے یہ کہہ کر وہ سامنے سے ہٹ گئ اور مجھے اندر جانے کا راستہ دیا ۔۔۔ ۔۔ اس لیۓ کہ ہمارا ایک دوسرے کے گھروں میں بال روک ٹوک آنا جانا تھا سو میں اُس کے پاس سے گزر کر سیدھا رفیق کے کمرے میں چال گیا اور یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ وہ واقعہ ہی پڑھ رہا تھا اسے پڑھتے دیکھ کر میں نے کہا بڑی گل اے یار تو بھی پڑھ رہا ہے تو وہ بوال ۔۔۔ یار چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں سوچا تھوڑا سا پڑھ ہی لوں پھر مجھ سے بوال تُو سنا اپنی منحوس شکل کیوں الۓ ہو۔۔ تو میں نے کہا یار صبح والی بات پر دوبارہ معزرت کرنے آیا ہوں ۔۔۔ تو وہ بوال یار دوستوں میں کیسی ناراضگی۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔ پر یار بات کرتے وقت تھوڑا سوچ بھی لیا کر ۔۔۔ یہ چھٹیاں ختم ہونے سے کچھ دن پہلے کی بات ہے ۔۔۔ میں صبح سے ہی کافی تنگ تھا اور ۔۔۔ قریشی صاحب کی بیٹی مائرہ کی یاد بڑی شدت سے آ رہی تھی ۔۔۔۔ کیا سیکسی خاتون تھی یار ۔۔۔۔ دوپہر کا وقت تھا ۔۔ سورج حسب معمول سوا نیزے پر تھا ۔۔۔ سخت گرمی پڑ رہی تھی اور مجھے اس گرمی سے بھی زیادہ گرمی آئ ہوئ تھی ۔۔۔ حالنکہ میں ایک دفعہ ُمٹھ بھی مار چکا تھا پر ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ہوشیاری کم ہونے کی بجاۓ پہلے سے کچھ زیادہ ہی بڑھ گئ تھی ۔۔۔۔ پھر میں اسی عالم میں اپنے ُروم سے نکال اور اپنے چھت پر چال گیا سانی کا راج تھا ۔۔۔ ہر طرف لُو چل رہی تھی ۔۔۔ اور ُ سن َ ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اِدھر اُدھر جھانک کر دیکھا تو سارے محلے کی چھتیں خالی تھیں ۔۔۔ سخت دھوپ کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں دبکے ہوۓ تھے ۔۔۔ اتنی گرمی اور ہیٹ تھی کہ میں نے بھی واپس جانے کا ارادہ کر لیا ۔۔۔۔۔ اور کچھ دیر کے بعد میں واپس جانے لگا ۔۔۔ جاتے جاتے یاد آیا کہ ہم نے آج ہی پانی کی موٹر ٹھیک کروائ تھی کہ وہ پانی نہیں چڑھا رہی تھی اور جب میں اوپر آیا تونیچے وہ موٹر چل رہی تھی ۔۔۔ سوچا زرا دیکھ ہی لُوں کہ موٹر پانی ٹھیک سے چڑھا رہی ہے کہ نہیں ۔۔۔ یہ سوچ کر میں پانی والی ٹینکی پر چڑھ گیا اور ڈھکن کھول کر ٹینکی کے اندر جھانکا تو دیکھا کہ پانی ٹھیک سے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مطمئین ہو کر اُٹھا ۔۔ اور ۔۔ جیسے ہی واپس جانے لگا تو اچانک میری نظر قریشی صاحب (اب یاسر ) والی چھت پر پڑی ۔۔۔۔۔۔ جہاں ایک کونے میں دو جسم آپس میں ُگتھم گھتا ہو رہے تھے یہ دیکھ کر میں ایک دم ٹھٹھک سا گیا اور پھر دھیان لگا کر دیکھنے لگا کہ ۔۔۔ یہ کون لوگ ہیں۔۔۔ غور سے دیکھنے پر بھی میں ان کو تھوڑا سا پہچان تو گیا لیکن ۔۔ چونکہ دونوں آپس میں بری طرح ُجڑے ہوۓ تھے اس لیۓ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون کون ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ اُن کو دیکھا تو مجھے یاد آ گیا کہ یہ ٹھیک وہی جگہ تھی جہاں میں قرشی صاحب کی بیٹی مائرہ کے ساتھ سیکس کیا کرتا تھا ۔۔۔ بس فرق یہ تھا کہ ہم لوگ دیوار کے اینڈ پر ممٹی کے چھپر کے نیچے سیکس کیا کرتے تھے کہ وہاں سے کسی کو بھی دکھائ دیۓ جانے کا کوئ احتمال نہ تھا جبکہ یہ لوگ اس چیز کا خیال نہیں رکھ رہے تھے ۔۔۔ اب میں بڑی احتیاط سے نیچے اُترا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس طرف گیا جہاں یہ واردات ہو رہی تھی ۔۔۔۔ چونکے یہ کوٹھا میرا بڑی اچھی طرح سے دیکھا بھاال تھا اس لیۓ میں پنجوں کے بل چلتے چلتے عین اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے خود کو محفُوظ رکھ کر میں یہ نظارہ اچھی طرح سے دیکھ سکتا تھا ۔۔۔اور پھر میں اس جگہ پہنچ کر نیچے بیٹھ گیا۔۔۔۔ جیسے ہی میں نیچے بیٹھا میں نے کسی کی سنی اور مجھے یقین ہو گیا کہ میں بل ُ کل مست کراہ ُ ٹھیک جگہ پر پہنچ گیا ہوں۔۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ اپنے سر کو اوپر اُٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر دیوار کی جھری سے جھانک کر دیکھا تو اندر کا ماحول میرے اندازے سے بھی زیادہ گرم تھا ۔۔ پر جس چیز نے مجھے تھوڑا سا حیران کیا ۔۔۔ وہ یہ تھی کہ وہ دونوں جسم اور کوئ نہیں رفیق اور یاسر کے تھے ۔۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں نے یاسر کی گانڈ کے بارے ریمارکس پاس کیے تھے تو رفیق نے بڑا بُرا منایا تھا لیکن اب میں دیکھ رہا تھا کہ یاسر اسی گانڈ کو چاٹ ت حال کچھ یوں تھی کہ ۔۔ یاسر رکوع رہا تھا صور ِ کے بل جھکا ہوا تھا اور اس کے دونوں ہاتھ اس کے گھٹنون پر تھے اور اس کی ٹانگیں کافی کھلی ہوئیں تھیں۔۔۔ جبکہ رفیق اس کے عین پیچھے اکڑوں بیٹھا اس کی گانڈ چاٹ رہا تھا اور گانڈ چاٹنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ہاتھ سے اپنے لن کو بھی آگے پیچھے کر رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اور یاسر ۔۔۔۔۔ یاسر اپنے گانڈ پر رفیق کی زبان فیل کر کے مزے کے مارے ہلکہ ہلکہ کراہ رہا تھا ۔۔۔۔ دونوں بڑے ہی مگن ہو کر لگے ہوۓ تھے۔۔۔۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر رفیق یاسر کے بارے میں دیۓ گۓ ریمارکس کا بُرا۔۔۔ نا مناتا تو یہ سیکس سین دیکھ کر انجواۓ کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔ پر نہیں ۔۔۔۔ میرا خیال ہے میں آپ سے جھوٹ بول رہا ہوں کیونکہ میں ایسا ہر گز نہ کر پاتا کہ میرے سامنے رکوع کے بل جھکے یاسر کی گانڈ تھی جو اتنی مست اور دلکش تھی کہ میرے لن نے بھی اس کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ پہنے تو میں نے لن کی فریاد پر کوئ دھیان نہ دیا اور اس کو ٹالتا رہا اور پھر جب اس کے مطالبے نے کچھ زور پکڑنا شروع کیا تو ہیں نے ہمیشہ کی طرح اس کے مطالبے پر سر تسلی ِم خم کر دیا ۔۔ چونکہ ان کا گھر میرا اچھی طرح سے دیکھا بھاال تھا اس لیۓ مجھے معلُوم تھا کہ کیسے میں نے ان کی نظروں میں آۓ بغیر ان تک پہنچنا ہے ۔۔۔۔ سو میں وہاں سے اپنے گھر کی چھت کے کونے پر گیا وہ اس لیۓ کہ جس جگہ پر وہ اپنا کام کر رہے تھے ۔۔۔۔ اب وہ جگہ ان کی ممٹی کے پیچھے ہونے کی وجہ سے چھپ سی گئ تھی ۔۔ میں نے اپنے جوتے اپنی چھت پر اُتارے اور پھر چاردیواری پر اپنے دونں ہاتھ ٹکا دیۓ اور پھر بڑے آرام سے ان کی چھت پر ُکود گیا ۔۔ اور پھر دبے پاؤں ان کی طرف جانے لگا ۔۔۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد میں ان کے سر پر تھا ۔۔۔۔۔ اب میں نے دیکھا تو وہاں کا منظر تبدیل ہو چکا تھا ۔۔۔ اب کی بار رفیق سیدھا کھڑا تھا اور یاسر اکڑوں بیٹھا تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں اور اس کے منہ میں رفیق کا لن تھا ادھر رفیق کی آنکھیں بھی مزے کے مارے بند تھیں اور اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں یاسر کے سر کے بال پکڑے ہوۓ تھے اور وہ یاسر کا ُچوپا انجواۓ کر رہا تھا۔۔۔۔۔ میں کچھ دیر تک کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا پھر مجھ سے رہا نا گیا اور میں بول پڑا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ واہ۔۔!!!!! کیا چوپا لگاتے ہو یاسر تم ۔۔۔۔۔ میری بات سن کر دونوں ایک دم اُچھلے اور ایسے اُچھلے کہ جیسے ان کوچار سو چالیس وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔۔۔ مجھے دیکھ کر دونوں کا رنگ فق ہو گیا تھا ۔۔ اور رفیق تو ایسے ہو گیا کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں ۔۔ ۔۔ دونوں کچھ دیر تک سخت صدمے میں رہے ۔۔۔۔ پھر رفیق نے میری طرف دیکھا اور پھیکی سے ُمسکراہٹ سے بوال ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ اچھا ۔اچھا۔۔۔ تم کب آۓ یار ۔۔۔؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے تُرنت جواب دیا جب تم یاسر کی گانڈ چاٹ رہے تھے ۔۔۔۔ میں تب آیا ۔۔۔ وہ پھر خواہ مخواہ ہنسا اور بوال ۔۔۔ اچھا ؟ یار تم کو تو پتہ ہی ہے ہم ۔۔۔۔ یو نو ۔۔۔ ؟ پھر تھوڑا ُجھنجھال کر بوال ۔۔۔ لن تے چڑھ ۔۔۔ بہن یکا ۔۔ تم نے بھی اسی ٹائم آنا تھا ۔۔۔۔ ہمیں کچھ کر تو لینے دیتے !!!!! ۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کرو نا میں نے کب منع کیا ہے تو وہ ۔۔۔ اپنے لن کی طرف اشارہ کیا جو اس وقت بلکل ُمرجھا گیا تھا اور بوال ۔۔۔ کروں لن بہن چودا ۔۔۔ تیرے چھاپے نے تو اس کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔ اس طرح کی باتیں کرنے سے اب اس کا اعتماد کافی حد تک بحال ہو گیا تھا اور پھر وہ مجھ سے بوال یار سن لو ۔۔۔۔۔ میں اس کے سائیڈ پر ہو کر میری ایک بات ُ ساتھ چل پڑا اور جاتے جاتے ُمڑ کر دیکھا تو یاسر ابھی تک نظریں نیچی کیۓ اکڑوں بیٹھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ رفیق نے میرا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی دور لے جا کر بوال ۔۔۔ یار تم نے تو لڑکے کو ڈرا ہی دیا ہے۔۔۔ پھر طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔۔ میرا خیال ہے تم اس کی لینے کے چکر میں ہو۔۔ اور جب میں نے تھوڑی ہیچر میچر کی تو وہ بوال ۔۔۔۔ بکواس نہ کر ۔۔۔بیٹا میں تم کو بچپن سے جانتا ہوں ( بچپن سے جاننے کا تو اس نے محاورہ بوال تھا تاہم حقیقت ہی تھی کہ وہ ہمارے محے میں گزشتہ 2،3سال سے رہ رہے تھے اور یو نو ۔۔!! ہمارے جیسے محلوں میں صرف ایک دو ہفتوں میں ہی گہرے دوستانے ہو جاتے ہیں یہ تو پھر 2،3سال کی بات تھی ) اگر تم نے کاروائ نہ ڈالنا ہوتی تو تم کھبی بھی ادھر کا ُرخ نہیں کرتے ۔۔ پھر وہ ایک دم سیریس ہو گیا اور بوال ۔۔۔ یار سچی بات یہ ہے کہ میں اور میرا کزن کوئ پروفیشنل نہیں ہیں ۔۔۔ جسٹ آپس میں شغل میلہ لگا لیتے ہیں ۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کربوال تم بات سمجھ رہے ہو نا میری۔۔ ؟؟ پھر کہنے لگا ۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو؟ تو میں نے کہا کہنا کیا ہے یار جو میں نے کہنا ہے تم اچھی طرح جانتے ہو ۔۔ تو وہ بوال تُو پکا حرامی ہے ۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ اوکے ۔۔۔ تھوڑا ویٹ کر میں دیکھتا ہوں ۔۔۔ اور مجھے ساتھ لے کر یاسر کے پاس آ گیا ۔۔ یاسر اب کچھ کچھ سنبھل چکا تھا ۔۔ اور اپنی نیکر اوپر کے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہمارے مزاکرات کا جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی ہم اس کے پاس پہنچے رفیق یاسر کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے بوال ۔۔ ایک منٹ یار۔۔۔ ۔۔ !!! پھر وہ یاسر کو لے کر ٹھیک اسی جگہ بات چیت کرنے لگا جہاں کچھ دیر قبل ہم دونوں کھڑے تھے ۔۔۔ کچھ دیر تک وہ دونوں آپس میں باتیں کرتے رہے پھر دونوں واپس آگۓ ۔۔ آتے ساتھ ہی یاسر تو بنا کوئ بات کۓ نیچے اُتر گیا اور رفیق میرے پاس آ کر بوال ۔۔ چل یار ۔!! تو میں نے اس سے پوچھا سالے میرے کام کا کیا ہوا تو وہ کہنے لگا کام کے سلسلے میں ہی نیچے جا رہے ہیں تو میں نے کہا نیچے کیوں ۔۔۔ یہاں کیوں نہیں ؟؟؟؟؟ تو وہ تھوڑا تلخ ہو کر بوال ۔۔۔۔ کیا خیال ہے ہم ُجڑے ہوں اور تمھاری طرح کوئ اور آ گیا تو۔۔۔ ۔۔۔ ؟؟ ۔۔ بہتر یہی ہے کہ نیچھے چال جاۓ تو میں نے پوچھا کہ وہ یاسر کی امی ۔۔۔۔؟ تو وہ بوال یار گھر میں اور کوئ نہیں ہے اور پھر میرے ساتھ نیچے اترنے لگا ۔۔ ایک دو سیڑھیاں اُترنے کے بعد وہ دفعتا ً ُرکا اور بوال ۔۔۔ دیکھو بچہ بڑا ڈرا ہوا ہے ۔۔۔ ہمیں سب سے پہلے اس کا احتماد بحال کرنا ہو گا ۔۔۔ تو میں نے رفیق سے کہا کہ یار رفیق تم مجھے اس لڑکے کے ساتھ بس دس پندرہ منٹ تنہائ کے دے دو ۔۔۔۔ باقی کام میں خود کر لوں گا ۔۔ رفیق ۔۔ سیڑھیاں اُترتے اُترتے ایک دم ُرک گیا اور حیرانی سے مجھے دیکھ کر بوال ۔۔۔۔۔ آر یو شوور۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا ۔۔ یار جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو رزلٹ تم خود دیکھ لو گے تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے شہزادے ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم نیچے سیڑھیاں اترنے لگے ۔۔۔ اور چلتے چلتے ڈرائینگ روم میں پہنچ گۓ ۔۔۔ یاسر وہاں پہلے سے ہی موجود تھا اور گو کہ اب کچھ سنبھل چکا تھا پر ۔۔۔ پریشانی کے آثار اب بھی اس کے چہرے پر دیکھے جا سکتے تھے۔۔۔ ُروم میں جا کر میں اور رفیق ڈبل سیٹر صوفے پر بیٹھ گۓ جبکہ یاسر پہلے ہی تھری سیٹر پر سنجیدہ سا منہ بناۓ بیٹھا تھا۔۔ ہمارے بیٹھنے کے کچھ دیر بعد ُروم میں سناٹا سا چھا گیا پھر رفیق نے مجھے آنکھ مارکر سنا یار آج کل تیری معشوقہ کیسی جا رہی ہے تو کہا ُ میں بھی بات سمجھ کر بوال بڑی مست ہے یار ۔۔۔ ایک ب توقعلن سے تو اس کو گزرا ہی نہیں ہوتا ۔۔۔ حس ِ یاسر نے سر اٹھا کر بڑی دلچسپی سے مجھے دیکھا پر بوال کچھ نہیں ۔۔۔ کچھ دیر تک ہم دونوں اسی فرضی محبوبہ کے بارے میں گفت گو کرتے رہے ۔۔۔ پھر میں نے رفیق سے کہا کہ یار پانی مل سکتا ہے ؟ تو رفیق کے جواب دینے سے پہلے ہی یاسر بول اٹھا ۔۔۔ میں ابھی پانی التا ہوں ۔۔ یہ سن کر رفیق بوال یار پانی نہیں میں کولڈ ڈرنک التا ہوں پھر مجھ سے پوچھنے لگا شاہ تم کون سی بوتل پیئو گے۔۔؟ تو میں نے کہا یار میں کوال شوال نہیں پیتا ۔۔۔۔ کوئ جوس ہو تو لے آنا جبکہ یاسر نے اپنے لیۓ کوک النے کو کہا ۔۔۔۔ جیسے ہی سنا رفیق کمرے سے نکال میں نے یاسر سے پوچھا ۔۔۔ ُ یار تمھاری کوئ معشوق ہے؟ تو وہ نفی میں سر ہال کر بوال معشوق تو نہیں ہاں منگیتر ہے ۔۔۔ تو میں نے قدرے حیران ہو کر پوچھا ۔۔۔ ابھی سے منگیتر ؟ تو وہ بوال بس یار ۔۔۔ ماں باپ کی مرضی سے ہوئ ہے تو میں نے پوچھا کیسی ہے تمھاری منگیتر تو وہ بوال اچھی ہے تو میں نے معنی خیز انداز میں آنکھ مرتے ہوے پوچھا نری اچھی ہی ہے یا کچھ کیا بھی ہے ؟ تو وہ بوال نہیں جی وہ کرنے نہیں دیتی ۔۔۔ ہاں کسنگ بڑی کی ہے ۔۔ تو ؐمیں نے کہا کسنگ سے کام چل جاتا ہے تو کہنے لگا نہیں ۔۔۔ پر کیا کروں وہ اس سے آگے جانے ہی نہیں دیتی ۔۔۔ اب وہ بلکل نارمل ہو گیا تھا او ر بڑے مزے سے میرے ساتھ خاص کر سیکس ریلیٹڈ باتیں کر رہا تھا۔۔۔ جب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ اب بچے کا ڈر اور جھاکا ختم ہو گیا ہے تو میں نے اپنے مطلب والی بات کی طرف آنا شروع کر دیا ۔۔۔ اب میں نے اس کو غور دیکھنا شروع کر دیا واقعی یاسر بڑا خوبصورت اور پیارا تھا اس کے گال بلکل کشمیری سیب کی طرح ہلکے الل تھے اور ہونٹ پتلے پتلے اور گالبی مائل تھے آنکھیں کالی اور بڑی تھیں جسم بھرا بھرا اور نرم لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے یوں اپنا پوسٹ مارٹم کرتے دیکھ کر وہ تھوڑا سا نر ِوس ہو گیا اور پھر شرما کر ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔ پر جب میں اسے دیکھتا ہی رہا تو وہ میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔ یہ آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ تو میں نے اپنے لہجے میں جہاں بھر کی حیرت بھرتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔۔ یار تم لپ سٹک لگاتے ہو ؟ تو وہ ہنس پڑا اور بوال آپ ہی نہیں اور بھی کافی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ میں اپنے سرخی لگاتا ہوں ۔۔۔ تو میں نے اپنی آنکھوںہونٹوں پر ُ کومزید حیرت سے پھیالتے ہوۓ کہا نہیں دوست ۔۔۔ تم جھوٹ بول رہے ہو تم ۔۔۔ یقیننا ً لپ سٹک یوز کرتے ہو ۔۔۔ میں نہیں مانتا ہونٹوں کا اتنا پیارا رنگ تو صرف سرخی سے ہی آ سکتا ہے ۔۔ ُ یہ کہا اور اس کو چیک کرنے کے بہانے اس کے پاس چال گیا اور نزدیک سے اس کے ہونٹوں کا معائینہ کرنے لگا ۔۔۔ اب اس نے میری طرف دیکھا اور بوال مجھے پتہ ہے آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں ؟؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ بتا سکتے ہو کہ میں کیا کرنے واال ہوں ۔۔۔ تو وہ صوفے پر کھسک کر تھوڑا آگے آ گیا اور بوال ۔۔۔۔ آپ بہانے سے مجھے ِکس کرنا چاہتے ہیں ۔۔ اب نر ِوس ہونے کی میری باری تھی سو میں نے کہا ۔۔۔۔وہ میں۔۔۔اصل میں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اتنی دیر میں اس نے اپنا منہ مزید اگے کر دیا اور ہونٹ میرے پاس ال کر بوال ۔۔۔۔۔ ِکس کرو نا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ اب مزید سوچنے کی کوئ ضرورت نہ تھی سو میں نے بھی اپنا منہ آگے کیا اور اس کے کے نرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور انہیں اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا ۔۔۔ ہوں ۔۔۔ اُس کے ہونٹ بڑے سوفٹ اور زائقہ مست تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے خود ہی اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی اور ۔۔۔۔۔۔ اسے سارے منہ میں گھومانے لگا ۔۔۔۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ ِکسنگ میں کافی ایکسپرٹ ہے پھر اس نے میری زبان کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور میری زبان کا رس پینے لگا ۔۔۔۔۔ اِدھر وہ میری زبان کو چوس رہا تھا اُدھر میرا لن پینٹ میں سخت اکڑا ہوا تھا اور باہر نکلنے کو بے چین ہو رہا تھا ۔۔۔۔چنانہ میں نے ِکسنگ کرتے کرتے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اس نے بڑے آرام سے لن کو اپنی گرفت میں لیا اور اسے دبانے لگا ۔۔۔۔۔ ابھی ہماری ِکسنگ جاری تھی کہ رفیق ہاتھ میں ٹرے پکڑے ُروم میں داخل ہوا اور ہمارے منہ آپس میں ُجڑے دیکھ کر بوال ۔۔۔ بلے بلے ۔۔۔لگتا ہے کام سٹارٹ سنی اور ِلپ ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ پر ہم نے اس کی بات نہ ُ ِکسنگ جاری رکھی پھر اس نے پاس پڑی تپائ پر ٹرے رکھی اور ہمارے پاس آکر بوال۔۔۔ او بھائ لوگو ۔۔۔ اپنے پروگرام میں تھوڑا سا وقفہ کر لو اور کولڈ ڈرنک سن کر پی لو ۔۔۔ ورنہ گرم ہو جاۓ گی ۔۔۔ اس کی بات ُ اپنے اپنے منہ ُجدا کیے اور پھر میں نے رفیق کو مخاطب کر کے کہا ۔۔۔ یار اتنا مزہ آ رہا تھا تم تھوڑی دیر بعد نہیں آ سکتے تھے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ یار تھوڑی دیر بعد بھی تم نے یہی کہنا تھا ۔۔۔ پہلے پانی پی لو پھر جو مرضی ہے کرتے ہرنا اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے مینگو جوس کا ٹن اور کوک یاسر کو پکڑا دی ۔۔۔ اور خود بھی بوتل پینے لگا ۔۔۔۔۔۔ کولڈ ڈرنک پینے کے بعد ہم نے اپنا اپنا سامان تپائ پر رکھا اور دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ منہ جوڑ لیا ۔۔۔ جبکہ رفیق سامنے بیٹھ کر ہمیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ابھی ہم نے تھوڑی ہی دیر ِکسنگ کی تھی کہ میں نے یاسر کے ہاتھ میں اپنا لن پکڑا دیا ۔۔۔۔۔ تو وہ بوال نہیں یار ایسے لن پکڑنے کا مزہ نہیں تم اپنے لن کو باہر نکالو ۔۔۔۔ اور پھر اس نے خود ہی میری پینٹ کی زپ کھولی اور لن کو باہر نکال لیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔۔ لن جھومتا ہوا پینٹ سے باہر آگیا ۔۔۔۔ اس کا سائیز لمبائ اور موٹائ دیکھ کر یاسر کی آنکھوں میں ستائش کے جزبات ابھر آۓ ۔۔ اور اس نے بے اختیار لن پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیۓ اور بوال ۔۔۔ واہ ۔۔۔۔ شاہ جی ۔۔ ۔۔۔ بڑا پال ہوا لن ہے آپ کا ۔۔۔ اس کو کیا کھالتے ہو ۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ کچھ بھی نہیں یار عام سا لن ہے میرا تو وہ رفیق کی طرف منہ کر سنو تو یہ شاہ کیا کہہ رہا ہے یہ اپنے کنگ کے بوال ۔۔۔ ُ سائز لن کو عام سا لن کہہ رہا ہے اتنی دیر میں رفیق بھی ہمارے پاس آ گیا تھا اس نے لن کو دیکھا تو بڑے پُراسرار لہجے میں بوال ۔۔۔۔ شاہ ۔۔۔ تم نے کھبی بتایا ہی نہیں کہ تمہارا اتنا بڑا لن ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔۔ رفیق نے جب میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تو مجھے کوئ خاص حیرت نہیں ہوئ ۔۔۔ کیونکہ وہ پہلے ہی مجھے بتا چکا تھا کہ وہ اور یاسر ایک دوسرے کے ساتھ ادلہ بدلی کرتے تھے مطلب دونوں ایک دوسرے کی گانڈ مارتے بھی تھے اور ایک دسرے سے مرواتے بھی تھے ۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ میری رفیق کے ساتھ 2،3سال سے دوستی تھی پر میں ابھی تک اس کے اس کردار سے واقف نہ تھا اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کوئ عام گانڈو یا منڈے باز نہ تھا بس اپنے کزن کے ساتھ کبھی کبھی ُموج مستی کر لیتا تھا ۔۔ ہاں تو جب رفیق نے حیرت کے مارے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا تو میں نے اسے کہا ۔۔۔۔ کیسا لگا ۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ بوال ۔۔۔بڑا شاندار ہے تمھارا لن تو میں نے کہا ۔۔۔۔ اگر اتنا ہی اچھا لگا ہے تو اس پر ایک ِکس تو کرو نا۔۔۔۔ لن پہلے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا تھا سو اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر ۔۔۔۔۔ وہ میرے لن پر جھک گیا اور ۔۔ ٹوپے کو منہ میں لے لیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ٹوپے پر زبان پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ رفیق ٖصرف میرا ٹوپا ہی چوس رہا ہے اور بس اُسی پر زبان پھیر ے جا رہا ہے تو میں سننے اس سے کہا ۔۔۔ یار سارا لن منہ میں ڈال نا۔۔۔۔ یہ ُ کر اس نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور ٹوپا منہ سے نکال کر بوال ۔۔۔۔ سوری یار مجھے لن کا صرف ٹوپا اچھا لگتا ہے اور بس اسی کو چامتا چاٹتا ہوں سارا لن منہ میں ڈالنے کے لیۓ یاسر ہے نا ۔۔۔ پھر اس نے یاسر کو اشارہ کیا اور خود وہاں سے ہٹ گیا اور ۔۔۔۔ اب یاسر نے مجھے صوفے پر بٹھا کر سیدھا کیا اور خود نیچے قالین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور کچھ دیر تک اسے آگے پیچھے کرتا رہا پھر وہ لن پر جھکا اور اپنی زبان سے ٹوپے پر مساج کرنے لگا ۔۔۔ اُف ف ف۔۔ پھر اس نے اپنی زبان کو ٹوپے کے چاروں طرف گول گول گھمایا اور پھر آہستہ آہستہ لن کو اپنے ہونٹوں میں لینا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر وہ لن کو آہستہ آہستہ اپنے گیلے منہ میں ڈالتا گیا ۔۔۔ اور پھر وہ کافی سارا لن اپنے منہ میں لے گیا ۔۔۔ پھر اس نے منہ کے اندر ہی اندر لن پر زبان پھیرنی شروع کر دی ہے ۔۔۔۔ آہ۔۔۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔۔ اس کے چوپے نے تو میری جان ہی نکال دی تھی ۔۔۔۔ ِکسنگ کی طرح یاسر لن چوسنے میں بھی کافی ماہر لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ میرا لن چوستا رہا پھر وہ میرے بالز پر آیا اور اب اس نے میرے بالز پر اپنی زبان پھیرنی شروع کر دی اور چاٹ چاٹ کر میرے سارے ٹٹے گیلے کر دیے ۔۔۔۔ اس کے بعد ایک بار پھر وہ اپنی زبان کو لن تک لے آیا ۔۔۔اور ٹوپے کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔ اب مجھے بھی کچھ جوش چڑھ گیا تھا چنانچہ میں اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا یہ دیکھ کر وہ تھوڑا سا اوپر کو اٹھا ٹیڑھا ہو گیا اور اپنی کمر میری طرف کر دی اور اب میرا ہاتھ اس کی گانڈ تک پہنچ رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اب میں نے اپنا ہاتھ اس کی االسٹک والی نیکر میں ڈاال اور اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔اس کی گانڈ نرم اور چوتڑ کافی موٹے تھے۔۔ ۔۔۔۔ اب میں اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور وہ میرا لن چوس رہا تھا ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور اس پر انگلی کے پور سے ہلکہ ہلکہ مساج کرنے لگا میرے اس مساج سے شاید اسے بڑا مزہ آیا فورا ً لن منہ سے نکال کر بوال ۔۔۔۔ انگلی اندر ڈال کر چیک کرو نا۔۔ اور پھر اس نے خود ہی اپنی موری پر تھوک لگایا اور مین نے اپنی درمانی انگلی اس کی گانڈ کے سوراخ میں ڈال دی ۔۔۔۔۔ اور ہولے ہولے اندر باہر کرنے لگا اور پھر بعد میں درمیانی انگلی اس کی موری کے آس پاس گھمانے لگا ۔۔۔۔ جب میری انگلی کو اس کی موری پر گھومتے ہوۓ کافی دیر ہو گئ تو اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکاال اور بوال ۔۔۔ اتنا بہت ہے یا اور لن چوسوں ؟ تو میں نے کہا یہت ہے یار ۔۔۔۔۔۔ اب آؤ کہ لن تمھارے اندر ڈالوں ۔۔۔۔ تو وہ بوال۔۔ اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صوفے سے اُٹھ گیا اور فورا ً اپنی نیکر اُتار دی میں نے بھی جلدی سے اپنی پینٹ اُتاری اور اُسے صوفے پر گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ بجاۓ صوفے پر گھوڑی بننے کے اس نے ُ اپنے دونوں ہاتھ صوفے کے ایک بازو پر رکھے اور خود گھٹنوں کے بل ہو گیا اور اپنی گانڈ اوپر کر دی اب میں اس کے پیچھے گیا اور اور اس کی ننگی گانڈ کا نظارہ کرنے لگا ۔۔۔۔ اب یاسر کی گول گول اور موٹی گانڈ میرے سامنے تھی اور اس پر بہت سارا نرم نرم گوشت چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ کھول کر دیکھا ۔۔۔۔ اُف ففففف اس کی گانڈ پر ایک بھی بال نہ تھا ۔۔۔۔ اس نے گردن موڑ کر میری طرف دیکھا اور بوال میری بُنڈ کیسی ہے ؟؟ تو میں نے جواب دیا بلکل عورتوں کر طرح نرم اور موٹی بنڈ ہے تمھاری ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا عورتوں کی طرح نہیں میری بُنڈ عورتوں سے بہت زیادہ اچھی ہے ان کی گانڈ پر بال ہوتے ہیں اور میری گانڈ پرایک بھی بال نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ سن کر میں نے اپنے ٹوپے پر تُھوک لگایا اور کچھ یہ ُ تُھوک اس کی گانڈ پر لگا دیا ۔۔۔ رفیق میری یہ کاروائ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا پوچھنے لگا ۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو تو میں نے کہا لن ڈالنے لگا ہوں تو وہ فورا ً بوال ۔۔۔ اوۓ کیوں بچے کو مارنا ہے یار ۔۔۔ تو میں نے کہا وہ کیسے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ تو کہنے لگا ظالم انسان اپنے لن کا سائز دیکھ اور بچے کی موری دیکھ ۔۔ کیوں بے چارے کی گانڈ پھاڑنی ہے پھر بوال ایک منٹ ُرکو اور پھر بھاگ کر گیا اور اندر کمرے سے سرسوں کے تیل کی شیشی لے آیا اور آ کر پہلے تو اس نے یاسر کی گانڈ پر اچھی طرح تیل لگایا پھر وہ میری طرف آیا اور میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور ۔۔۔۔۔ پھر ٹوپے کو منہ میں لیا اور چوسنے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر یاسر نے اس سے کہا بہن چودا اتنا ہی شوق ہے تو بعد میں اس سے گانڈ ُمروا لینا ابھی تو مجھے مزہ لینے دو ۔۔ یاسر سن کر رفیق نے لن منہ سے باہر نکاال اور کی بات ُ بوال۔۔۔ ٹھیک ہے یار پہلے تُو مزہ لے لے ۔۔۔ اور پھر کافی سارا تیل میرے لن پر ِگرا دیا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اچھے طرح مل دیا اتنے میں یاسر بوال فیکے ۔۔۔ ان کے ٹوپے کو خاص کر تیل میں اچھی طرح سے تَر کر دینا ۔۔۔اور رفیق نے ایک دفعہ بھر کافی سارا تیل میرے ٹوپے پر لگایا اور لن پکڑ کر یاسر کی موری پر رکھ دیا اور پھر سامنے جا کر بیٹھ گیا۔۔۔ اب میرا لن یاسر کی موری پر تھا جو تھوڑی تنگ پر تیل کی وجہ سے ُخوب چکنی ہو چکی تھی میں نے دونوں انگلیوں سے اس کے کی گانڈ کے سوراخ کو تھوڑا سا اور کھوال اور ہلکہ سا دھکا لگایا ۔۔۔۔ یاسر کی چکنی گانڈ میں میرے موٹے لن کے ٹوبے کی نوک اندر چلی گئ۔۔۔ اور یاسر نے ایک آہ بھری تو میں نے پوچھا درد تو نہیں ہوا تو وہ بوال ۔۔۔ نہیں ابھی تو صرف ٹوپے کی نوک ہی اندر گئ ہے ۔۔۔ میں نے تو مزے سے آہ بھری تھی آپ ۔۔۔ میری گانڈ میں لن سن کر میں نے اس کی گانڈ میں ڈالنا جاری رکھیں یہ ُ نے ایک اور دھکہ مارا ۔۔۔۔ میرا تیل میں ِلتھرا ٹوپا تھوڑا اور اس کے اندر چال گیا اور پھر اس کے منہ سے نکال سسس سی ۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اس سے کوئ کالم نہیں کیا اور ایک اور گھسا مارا اور اب۔۔۔ ٹوپا پھسلتا ہوا یاسر کی گانڈ میں چال گیا تھا ۔۔۔ یاسر ایک دم اوپر اُٹھا اور میں نے پوچھا کیا ہوا تو وہ بوال کچھ نہیں تم اپنا کام جاری رکھو ۔۔۔ اور اب میں نے ایک اور دھکا مارا اور میرا لن پھسلتا ہوا جڑ تک یاسر کی گانڈ میں اُترتا چال گیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی لن یاسر کی گانڈ کے اندر گیا اس نے ایک زبردست چیخ ماری ۔۔۔ آآآآآ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ ا ُ ف فف ف ۔۔۔ رفیق جو پاس بیٹھا یہ سارا سین دیکھ رہا تھا ایک دم اُٹھ کر میرے پاس آ گیا اور میرے گال چوم کر بوال واہ ۔۔ شاہ جی واہ ۔۔۔۔ تم نے کمال کر دیا اتنا موٹا لن کتنے ٹیکٹ سے یاسر کی گانڈ میں اُتار دیا ہے ۔۔۔ ورنہ میرا تو خیال تھا کہ آج بچے کی گانڈ پھٹ جاۓ گی ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ فکر نہ کر یار جب میں تمھاری ماروں گا نا تو تمھارے اندر بھی ایسے ہی ڈالوں گا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ رفیق کچھ جواب دیتا یاسر نے منہ میری طرف کر کے کہا ۔۔۔ اُستاد جی اندر ڈاال ہے تو اب ہلو بھی نہ ۔۔۔۔ اس بہن چود سے بعد میں بات کر لینا ۔۔۔ سن کر رفیق دوبارہ سا منے جا کر بیٹھ یاسر کی بات ُ گیا اور اب میں یاسر کی طرف متوجو ہوا ۔۔۔۔ میرا تیل سے بھیگا ہوا لن یاسر کی گانڈ میں تھا ۔۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ اندر سے بڑی ہی گرم تھی ۔۔۔اور گانڈ کے ٹشو اس سے بھی زیادہ نرم تھے ۔۔۔ اب میں نے آہستہ آہستہ بلکل آرام سے لن کو اس کی گانڈ سے باہر کھینچا ۔۔۔۔۔ پھر جب ٹوپے تک لن باہر آگیا تو میں نے دوبارہ آرام آرام سے اندر ڈال دیا اور پھر ہلکے ہلکے جھٹکے مارنا شروع کر دیۓ ۔۔۔ اب اس کی گانڈ کے ٹشو لن کے ساتھ کافی ایڈجسٹ ہو گۓ تھے سو اب میں نے اپنے گھسوں کی سپیڈ بڑھا دی اور پھر زور زور سے لن یاسر کی گانڈ میں اِن آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔ اور اس کے سنائ ساتھ ساتھ مجھے یاسر کی مست آوازیں بھی ُ دینے لگیں ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔۔ یسس۔یسس۔ اور میں یاسر کی گانڈ میں گھسے مارتا گیا مارتا گیا ۔۔۔ کافی دیر بعد مجھے ایسے لگا جیسے میرا سارا خون میری ٹانگوں سے لن کی طرف بھاگے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ میرا بلڈ پریشر ہائ ہو گیا۔۔۔۔ اور میرے سانس بھی بے ترتیب سے ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔ یہ محسوس کر کے میں نے اپنے گھسوں کی سپیڈ پہلے سے بھی دوگنی کر دی اور میں نے تقریبا ً چال کر یاسر سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ یاسر میں سن کرُچھوٹ رہا ہوں۔۔ میرا لن منی چھوڑ رہا ۔۔۔۔ یہ ُ یاسر نے مستی میں آ کر خود ہی اپنی گانڈ میرے لن پر مارنی شروع کر دی اور ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ چھوٹ جا میری گانڈ میں ۔۔ اور گھسوں کر سپیڈ اور تیز کر ۔۔۔ اور تیز ۔۔۔ تیزززز۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد میرے ۔۔۔۔۔۔۔۔لن سے منی کا طوفان نکل کر یاسر کی تیل سے ُچپڑی گانڈ میں داخل ہونے لگا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری منی کی پہلی بُوند یاسر کی گانڈ میں ٹپکی ۔۔۔۔وہ مست ہو گیا اور اپنی گانڈ میرے لن کے گرد ٹائیٹ کرتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتا گیااااااااااا۔۔۔۔۔ یاسر اس وقت تک اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد سکڑ کر چھوہارا سا تنگ کرتا رہا جب تک کہ میرا لن ُ نہ بن گیا ۔۔۔ جب میرا لن اس کی گانڈ میں بلکل ُمرجھا گیا تو میں نے اس کی گانڈ سے لن کو باہر نکال لیا ۔۔۔ تو وہ بوال یار تمھارے لن نے آج بڑا مزہ دیا ہے ۔ اور میں دیکھا کہ اس کی گانڈ میرے دھکوں کی وجہ سے سرخ ہو گئ تھی اور میری منی کے چند قطرے الل ُ سوراخ سے باہر نکل رہے تھے ۔۔۔ اس کی گآنڈ کے ُ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بوال ۔۔۔ یار تیرا لن بڑا کمال ہے اس نے مجھے اتنا مزہ دیا ہے کہ یہ دیکھو میں بغیر ُمٹھ کے ہی فارغ ہو گیا ہوں اور میں نے دیکھا تو صوفے کے ساتھ نیچےقالین پر اس کی منی گری ہوئ تھی ۔۔۔۔ پھر فوراًہی رفیق ہاتھ میں ایک صاف سا کپڑا لیۓ میرے سامنے آگیا اور میرے لن کو صاف کرتے ہوۓ بوال ۔۔۔ واہ شاہ کیا شاندار چودائ کی ہے ۔۔ دیکھ تو تیرے دھکوں نے منڈے کی گانڈ کیسی ٹماٹر کی طرح الل کر دی ہے ۔۔۔ پھر میرا لن صاف کر کے وہ یاسر کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔ جس کی گانڈ کے سوراخ سے ابھی تک میری منی ِرس ِرس کر باہر نکل رہی تھی اس نے جلدی سے کپڑے کا صاف حصہ اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور اسے صاف کرنے لگا ۔۔۔ جب وہ اس کی گانڈ پر کپڑا رکھ رہا تھا تو اس وقت اس کی پیٹھ میری طرف تھی سو مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اس کی گانڈ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ رفیق نے ایک دم اپنا منہ میری طرف کیا اور سیریس ہو کر بوال ۔۔۔ چودو گے مجھے۔۔ ؟؟؟ لیکن میرا ایسا کوئ ُموڈ نہ تھا سو میں نے انکار کر دیا اور جلدی سے کپڑے پہن لیۓاور اُن سے ان کے نیکسٹ پروگرام کے بارے میں پوچھا ۔۔ تو وہ کہنے لگے تمہاری وجہ سے جو کام ادھورا رہ گیا تھا اسے اب پورا کرنا ہے اور مجھے دعوت دی کہ میں چاہوں تو ان کا الئیو پروگرام دیکھ سکتا ہوں ۔۔ لیکن میرا دل نہ مانا اور میں ان سے اجازت لے کر جس راستے سے آیا تھا اسی راستے سے واپس گھر چال گیا ۔۔۔ اُسی شام معمول کے مطابق میری مالقات رفیق سے ہوئ لیکن نہ ہی اس نے اور نہ ہی میں نے اس کے ساتھ اس ٹاپک پر کوئ گفتگو کی ۔۔۔۔ بلکہ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ ایسا ٹریٹ کیا جیسے ایسی ویسی کوئ بات ہی نہ ہوئ ہو ۔۔۔ رفیق لوگوں کا گھر تھوڑا اونچا تھا اس لیۓ ہم عام طور پر ان کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر (جسے تھڑا بھی کہ سکتے ہیں ) گپ شپ لگاتے تھے ۔۔۔ اسی شام ہم سیڑھوں پر بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے تھے کہ اچانک ملکوں کے گھر پر لگی مرچیں (الئیٹس) جل اُٹھیں ۔۔۔۔۔ اونچی آواز میں لگے میوزک نے پہلے ہی سارے ُمحلے کی جان عزاب میں ڈالی ہوئ تھی الئیٹس جلتی دیکھیں تو میں نے اس سے پوچھا یار یہ بتا سالے ملک کی شادی ہے کب ؟ تو وہ بوال یار ابھی تواس میں پندرہ بیس دن پڑے ہیں ۔۔۔ تو میں نے کہا اس کا مطلب یہ کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ملک پھدی کا منہ دیکھ سکے گا ؟؟؟ تو وہ بوال جی سر جی ان کا پروگرام تو یہی ہے تو میں نے اس سے پوچھا یار پھر انہوں نے اتنی جلدی شادی والی الئیٹس کیوں لگا لیں ہیں۔۔۔ ؟؟؟ اوپر سے لؤوڈ میوزک نے ہماری َمت ماری ہوئ ہے ۔۔ تو وہ بوال بہن چودا ان کی مرضی ہے جو چاہیں کریں تمھاری گانڈ میں کیوں خارش ہو رہی ہے ۔۔۔ ؟؟؟؟؟؟؟ گانڈ کا زکر کرتے ہوۓ ۔۔ اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر ہنس پڑا ۔۔۔ اسے یوں ہنستا دیکھ کر میں نے اُس سے پوچھا۔۔ کس بات پر ہنسی نکل رہی ہے تیری ۔۔ ؟؟ تو وہ بوال کچھ نہیں یار بس ویسے ہی ۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مجھے آنکھ مار دی ۔۔ ُچھٹیوں کے دوران جب بھی یاسر کے گھر والے کہیں جاتے یہ لوگ سیکس پروگرام بنا لیتے تھے اور پتہ نہیں کیوں اپنے ہر پروگرام کی مجھے ضرور اطالع دیا کرتے تھے ۔۔ لیکن اس دن کے بعد میں نے ان کے ساتھ کوئ پروگرام نہیں کیا ۔۔ کوئ خاص وجہ بھی نہ تھی بس ُموڈ ہی نہ بنا تھا ۔ حاالنکہ اُس دِن کی فکنگ کے بعد دونوں خاص کر یاسر تو میرے لن کا دیوانہ بن چکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ اب وہ میرا بڑا اچھا دوست بھی بن چکا تھا ۔۔ اور مجھے میرے نام کی بجاۓ استاد جی کہتا تھا ہمساۓ ہونے کی وجہ سے میرا تو ابھی نہیں پر ہمارے گھر والوں کا یاسر کے گھر آنا جانا شروع ہو چکا تھا ۔۔۔ پھر کچھ دن بعد ہم سب کے سکول کالج کھل گۓ اور روٹین الئف شروع ہو گئ ۔۔۔۔ اور یہ سکول کالج ُکھلنے کے کوئ دو ہفتے بعد کا زکر ہے۔۔۔ ب مع ُمول کالج جانے کے لیۓ گھر سے نکال میں حس ِ اور گھر کے راستے میں چونکہ رفیق کا گھر آتا تھا اس لیۓ میں اس کو ساتھ لے جاتا تھا ۔۔ اُس دن بھی میں نے یہی پریکٹس کرنی تھی ۔۔۔ پر ہوا یہ کہ جیسے ہی میں گھر سے نکال تو ساتھ والے گھر سے ( جو کہ یاسر لوگوں کا تھا ) سے آنٹی کی مسلسل زور زور سے باتیں کرنے کی آوازیں آ رہیں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی کے ساتھ لڑ رہی ہوں ۔۔۔ پہلے تو میں ان آوازوں کو معمول کی بات سمجھا پھر جب یاسر کی امی کی آوازوں کا والیم کچھ زیادہ ہی اونچا ہونے لگا تو میں جو رفیق کے گھر کی طرف تین چار قدم بڑھا سن کر واپس ہو گیا اور جا کر یاسر چکا تھا یہ آوازیں ُ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔۔۔ پر کسی نے کوئ جواب نہ دیا ۔۔۔۔ میں نے ایک دفعہ اور تھوڑا زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔ اور انتظار کرنے لگا ۔۔ پر اس دفعہ بھی کسی نے کوئ جواب نہ دیا ۔۔ اور میں کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد سوچا شاید وہ دروازہ نہیں کھولنا چاہتے شاید کوئ گھریلو مسلہ ہو گا اور وہاں سے چل پڑا ابھی میں نے جانے کے لیۓ مشکل سے ایک آدھ ہی قدم بڑھایا ہو گا کہ اچانک یاسر کے گھر کا دروازہ ُکھل گیا اور دیکھا تو دروازے پر آنٹی کھڑی سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھیں ۔۔ اُن کو یوں دیکھ کر میں تھوڑا گھبرا گیا اور ۔۔۔ پوچھا آنٹی جی سب خیریت تو ہے نا ۔۔؟ تو وہ بولی ہاں خیر یت ہی ہے تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔وہ آپ کے گھر سے ۔۔۔۔۔ تو وہ جلدی سے بولی ۔۔۔ وہ اصل میں یاسر سکول جانے سے آج پھر انکاری ہے کہتا ہے میں نے اس سکول میں نہیں پڑھنا ۔۔۔ میرا سکول تبدیل کرو ۔۔۔ اب بتاؤ نا بیٹا میں کیا کروں ۔۔۔ کہ اب تک یہ بچہ کم از کم چار سکول تبدیل کر چکا ہے تو میں نے پوچھا اس کی وجہ کیا بتاتا ہے ۔۔؟ تووہ بولی وجہ ہی تو نہیں بتانا نہ ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ میں تو اس لڑکے سے بڑی عاجز آگئ ہوں۔۔۔ بس ایک ہی رٹ لگا ر کھی ہے کہ سکول نہیں جانا۔۔۔ سکول نہیں جانا۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا میرا خیال ہے اس نے ہوم ورک نہیں کیا ہو گا ؟ تو وہ بولی پتہ نہیں کیا بات ہے کچھ بتاتا بھی تو نہیں ہے نا ۔۔۔ تو میں کہا آنٹی جی اگر آپ اجازت دیں تو میں ٹرائ کروں تو وہ مجھ سے کہنے لگی اگر تم اس سے پوچھ کر کچھ بتا سکو تو تمھاری بڑی مہربانی ہو گی ۔۔۔ اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے اندر آنے کے لیۓراستہ دے دیا ۔۔۔۔۔ اور میں ان کے گھر کے اندر چال گیا اور آنٹی سے پوچھا کہ یاسر کس کمرے میں ہے تو وہ بولی ۔۔۔۔ اپنے ُروم میں بیٹھا ہے اور میں سیدھا اس کے کمرہ میں سورے پلنگ کے ایک چال گیا ۔۔ دیکھا تو یاسر منہ ب ُ طرف بیٹھا تھا ۔۔ جبکہ دوسرے طرف اس کا سکول ہونیفارم پڑا ہوا تھا اور سامنے تپائ پر ناشتہ رکھا تھا ۔۔۔ جو پڑے پڑے ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔ مجھے یوں اپنے ُروم میں دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا اور بوال ۔۔۔ استاد جی آپ ؟؟؟ (مطلب سیکس کا استاد ) تو میں نے اس سے بوچھا یار تم نے کیا سارے گھر کو ٹینشن میں ڈال رکھا ہے ۔۔۔ آج سکول کیوں نہیں جا رہے ؟ اور ساتھ ہی یہ بھی سوال کر لیا کہ تمھاری امی کہہ رہی ہیں کہ تم سکول بدلنے کا کہہ رہے ہو ؟ چکر کیا ہے ؟ میری سن کر پہلے تو اس نے مجھے ٹالنے کی کوشش بات ُ کی ۔۔۔ پر میں کہاں ٹلنے واال تھا سو میں نے اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ بیٹا میں تمھاری اماں جان نہیں ہوں کہ ٹل جاؤں ۔۔۔۔ میرے ساتھ صاف اور دو ٹوک بات کرو اور بتاؤ کہ اصل معاملہ کیا ہے تب اس نے میری طرف دیکھا اور کچھ سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔ تو میں نے اس کہا سوچتا کیا ہے یار تمھارا اور میرا کوئ پروہ ہے جو بات کو یوں چ ُھپا رہے ہو تو اس نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور ۔۔۔ اس کے چہرے پر کشمکش کے آثار دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ گھبرا مت یار میں تمھارا دوست ہوں ۔۔۔۔۔ کوئ مسلہ ہے تو ہم مل کر حل کر لیں گے اور کہنے لگا دیکھو ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں میری اس طرح کی باتوں سے اسے کافی تسلی ہوئ اور پھر کچھ اٹک آٹک کر اس نے مجھے بتالیا ۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ استاد جی بات یہ ہے ۔۔۔ کہ وہ سر پی ٹی مجھے بڑا تنگ کرتا ہے۔۔۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ میں ساری بات سمجھ گیا لیکن پھر بھی میں نے اس سے کنفرم کرنے کے لیۓ پوچھ لیا کہ وہ کیوں تنگ کرتا ہے ؟ تو وہ عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔۔۔۔ یار وہ اصل میں میری لینے کے چکر میں ہے ۔۔۔۔ اور سر جھکا لیا ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ اچھا تو اتنے سکول بدلنے کی یہی وجہ تھی ؟ تو اس نے اپنا سر ہاں میں ہال دیا ۔۔۔ اور میرے خیال میں اُس کی آنکھوں میں آنسو بھی آ گے تھے ۔۔۔۔ سن کر ایک شعر یاد آ گیا کہمجھے اس کی بات ُ اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی
پھر میں نے اس سے اس کے سکول کا نام پوچھا تو (
یہ پنڈی میں ) مری روڈ پر ایک پرائیویٹ سکول تھا ۔۔۔ اتفاق سے جس کے پرنسپل کا بیٹا میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتا تھا ۔۔۔ سو میں نے اس کو کہہ دیا کہ یاسر یار تم یونیفارم پہنو اور بے فکر ہو کر سکول چلے جاؤ آج کے بعد سر پی ٹی تو کیا اس کا باپ بھی تمھاری طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھے گا اور یہ بھی کہا کہ آئیندہ اگر کبھی ایسی بات ہوئ تو تم مجھے بتانا سن کر اس نے بے یقینی سے میری ۔۔۔ میری بات ُ طرف دیکھا اور بوال ۔۔ تم سچ کہ رہے ہو استاد جی۔۔؟ سن کر وہ تو میں نے کہا آزمائیش شرط ہے بیٹا ۔۔۔۔ یہ ُ تھوڑا مطمئین ہو گیا لیکن پھر فکرمند سا ہو کر بوال دیکھ یار ُمروا نہ دینا ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ایسی کوئ بات نہیں ہے دوست۔۔ اعتبار کرو اور کہا کہ تم بس یونیفارم پہن کر تیار ہو جاؤ میں تمھارا کھانا گرم کروا کر التا ہو ۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔ ٹھیک ہے پر ایک بات اور !!! ۔۔۔ تو میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا ہاں بولو تو وہ کہنے لگا ۔۔ پلیز اس بات کا امی اور رفیق کو نہیں پتہ چلنا چاہیۓ تو میں نے کہا یار امی کی بات تو سمجھ میں آتی ہے یہ رفیق کو کیوں نہیں بتانا۔۔۔؟ تو وہ بوال یار یہ لوگ بعد میں اس بات کا بڑا سن کر میں نے اس سے مزاق اُڑاتے ہیں اس کی بات ُ وعدہ کر لیا کہ یہ بات میرے اور اس کے بیچ ہی رہے گی ۔۔ تو وہ ایک بار پھر مجھ سے کہنے لگا استاد جی پکی بات ہے نا کہ آپ میرا مسلہ حل کر لو گے۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا فکر نہ کر بیٹا تمھارا کام ہو جاۓ گا تو وہ دوبارہ کہنے لگا استاد جی وہ بڑا حرامی آدمی ہے پلیز ۔۔ پلیز اس پر زرا پکا ہاتھ ڈالنا ورنہ یو نو۔۔!! اور ساتھ ہی سر جھکا لیا۔۔ وہ کافی ڈرا ہوا لگ رہا تھا اس لیۓ میں نے اس کو بتا دیا کہ ان کے سکول کے پرنسپل کا لڑکا میرے ساتھ پڑھتا ہے اور اپنا یار ہے سن کر اس نے ایک گہری سانس لی اور بوال ٹیھک یہ ُ ہے آپ جاؤ میں ہونیفارم وغیرہ پہن کر خود ہی چال جاؤں گا پھر کہنا لگا پلیز آپ اس لیۓ بھی جاؤ کہ کہیں رفیق آپ کی طرف ہی نہ آ جاۓ۔۔۔ تو میں نے کہا او کے تم یونیفارم پہنو میں یہ ناشتے کے برتن تمھاری امی کو دے کر جاتا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی پتا دیا کہ تمھاری امی کے پوچھنے پر میں یہ وجہ بات بتاؤں گا اور برتن لے کر باہر نکل گیا ۔۔ باہر نکال تو سامنے ہی اس کی امی کھڑی تھی اور وہ دروازے ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں مجھے نکلتے دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور بولی ۔۔۔ کیا بات ہوئ اس سے؟؟ ۔۔۔۔ اور کیا کہتا ہے وہ ؟؟ ۔۔۔ تو میں نے کہا آنٹی جی سب ٹھیک ہو گیا ہے ۔۔۔ آپ بس اس کا کھانا گرم کر دیں وہ ہونیفارم پہن رہا ہے اور ناشتہ کے بعد سکول چال جاۓ گا تو وہ بولی لیکن وہ سکول کیوں نہیں جا رہا تھا ؟؟ تو میں نے کہا اصل میں جیسا کہ آپ کو پتہ ہے انگلش میڈیم بچوں کی اُردو بڑی کمزور ہوتی ہے ۔۔ اور ان کی اردو کا ٹیچر بڑا سخت ہے لیکن اب میں نے اس کو سمجھا دیا ہے اب وہ سکول بھی جاۓ گا اور آئیندہ آپ سے سکول چھوڑنے کی بات بھی نہیں کرے گا۔۔ پھر میں نے برتن اُن کے ہاتھ میں پکڑا کر کہا کہ آپ پلیز اس کا کھانا گرم کر دیں ۔۔ وہ میری بات کچھ سمجھی کچھ نہ سمجھی پر میرے ہاتھوں سے کھانے کا برتن لیا اور کچن کی طرف چلی گئ ۔۔۔ اور میں وہاں سے سیدھا رفیق کی طرف گیا اور جیسے ہی اس کے گھر پر دستک دینے لگا تو وہ گھر سے میری ہی طرف نکل رہا تھا ۔۔ مجھے دیکھ کر بوال خیریت تھی آج لیٹ ہو گۓ تم۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ بس یار کھبی کبھی ایسا ہو جاتا ہے تو وہ بوال ہاں یہ تو ہے اور ہم کالج کی طرف چل پڑے۔۔۔ میں کالج پہنچ کر سیدھا اپنے دوست کے پاس گیا اور سن کر فکر مندی ت حال بتا دی ۔۔۔ ُ اسے ساری صور ِ سے بوال ۔۔۔ اب تم بتاؤ کیا چاہتے ہو ۔۔۔؟ کہو تو ابا سے بات کر اُس حرامزادے کو نوکری سے نکلوا دوں۔۔۔؟ تو میں نے کہا نہیں یار نوکری سے نکالنے کی کوئ ضرورت نہیں ہے -میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ آئیندہ وہ یاسر کو تنگ نہ کرے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے یار جیسے تم کہو گے ویسا ہی ہو گا اور مجھ سے بوال تم کس ٹائم فری ہو گے تو میں نے کہا ۔۔ میرا کیا ہے جان جی میں تو فری ہی فری ہوں ۔۔ -تو وہ کہنے لگا تو پھر چلو سکول چلتے ہیں اور ہم نے کالج سے اپنے ایک دو پیریڈ ِمس کیے اوریاسر کے سکول کی طرف چل پڑے۔۔ راستے میں دوست نے مجھ سے یاسر کی کالس اور دیگر معلُومات حاصل کر لیں پھر سکول پہنچ کر اس نے مجھے سٹاف روم میں بٹھایا اور آفس بواۓ کو میرے لیۓ چاۓ النے کا بول کر خود غائب ہو گیا اور جاتے جاتے بوال کہ تم چاۓ پئیو ۔۔۔۔ میں بس ابھی آیا ۔۔۔ کافی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک پکی سی عمر کا گ ُھٹے ہوۓ جسم واال مکروہ صورت آدمی بھی تھا جس کا رنگ گہرا سانوال ُ اور شکل پر لعنت برس رہی تھی اس کا پیٹ کافی باہر کو نکال ہوا تھا ناک لمبی (طوطے کی طرح) اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی تھیں مجموعی طور پر وہ ایسا شخص تھا کہ جس سے گانڈ تو بہت دُور کی بات ہے اس سے تو ہاتھ مالنے کو بھی جی نہیں چاہتا تھا آ کر میرے پاس بیٹھ گیا اور پھر دوست مجھ سے مخاطب ہو کر بوال شاہ یہ سر پی ٹی ہیں اور پھر میرا سر پی تعارف کراتے ہوۓ بوال اور سر یہ میرے ُ ٹی سے دوست ،کالس فیلو اور یاسر کے بڑے بھائ شاہ ہیں اسے دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئ تھی اور میں اسے بڑی ہی غضب ناک نظروں سے گھور رہا تھا میری نظروں کی تاب نہ ال کر پی ٹی سر نے سر جھکا لیا پر میں نے اسے گھورنا جاری رکھا ۔۔۔ اس وقت سٹاف روم میں ہمارے عالوہ اور کوئ نہ تھا اور کمرے میں عجیب پُر اسرار سی خاموشی چھائ ہوئ تھی ۔ پھر اس خاموشی کو دوست نے ہی توڑا۔۔ اس نے پہلے تو کھنگار کر گال صاف کیا اور پھر بوال شاہ میں نے ان سے تفصیلی بات کر لی ہے اور ان کو ساری بات سمجھا بھی دی ہے میرا خیال ہے آئیندہ تم کو ان سے شکایت کا موقعہ نہیں ملے گا اس لیے پلیز تم ابھی ابا سے ان کے بارے میں کوئ بات نہ کرنا ورنہ تم کو تو پتہ ہی ہے کہ ابا طوفان لے آئیں گے اور سر کی جگ ہنسائ الگ سے ہو گی ۔۔ ۔۔۔ پھر وہ پی ٹی سر سے ُمخاطب ہو کر بوال کیوں سر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں سن کر پی ٹی نے بے بسی سے نا؟؟ ۔۔ اس کی بات ُ میری طرف دیکھا اور کھسیانی ھنس کر بوال جی ۔۔۔۔ آپ درست کہہ رہے ہیں اور پھر سر جھکا لیا اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگا ۔۔ پھر دوست نے میری طرف دیکھا اور بوال شاہ کیا تم نے سر کی معزرت قبول کر لی ہے۔۔؟؟ تو میں نے کہا یار تم میری بات چھوڑو ۔۔۔ تم اُس لڑکے کی بابت کیوں نہیں سوچتے جو ان کی حرکتوں کو وجہ سے سکول چھوڑ نے پر تیار ہو گیا سن کر دوست بوال۔۔ ک ُھل کر بتاؤ تمتھا ؟؟؟ میری بات ُ کیا چاہتے ہو؟ تو میں نے جواب دیا میں چاہتا ہوں کہ یہ صاحب خود اس سے معزرت کریں اس طرح اس کے دل سے ان کا ڈر بھی دُور ہو جاۓ گا اور یہ بھی بعد میں اس کے ساتھ کوئ بدمعاشی نہیں کر سکیں گے سن کر پی ٹی سر کو ایک دم شاک لگا ۔۔۔ میری بات ُ اور وہ بوال ۔۔ نہیں یہ ۔۔۔ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ میں نے آپ سے معزرت کر لی ہے ۔۔۔ یہ کافی نہیں ہے کیا ؟ ۔۔۔۔۔ اب میں کیا بچے سے معزرت کروں گا اس طرح بچے پر میرا امپریشن کیا رہ جاۓ گا۔۔؟؟؟؟؟ تو میں نے تلخی سے جواب دیا کہ جناب کو اپنے امپریشن کی اُس وقت کوئ فکر نہیں تھی جب آپ بچے کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنکرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟؟ ۔۔۔ میری بات ُ کر پی ٹی تھوڑا کھسیانہ ہو گیا پر بوال کچھ نہیں ۔۔۔۔ بھر میں نے دوست کو مخاطب کر کے کہا کہ ۔۔ ٹھیک ہے دوست اگر یہ بچے سے معزرت نہیں کرے گا تو مجبورا ً مجھے یہ معاملہ انکل کے پاس لے جانا پڑے گا پھر میں نے ہوا میں تیر چھوڑتے ہوۓ کہا کہ۔۔۔ میں نے یاسر کے ساتھ ایک دو اور لڑکے بھی تیار کیے ہوۓ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے ۔۔۔ یہ غلیظ حرکت کی ہوئ ہے ۔۔۔ اور وہ سب کے سب آج ان کے خالف گواہی دیں گے ۔۔۔ میں نے یہ کہا اور اُٹھ کر چلنے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر پی ٹی اپنی کرسی پر اضطراری حالت میں پہلو بدلتے ہوۓ میری باڈی لینگؤیج کو نوٹ کرنے لگا اور جب میں اُٹھ کر دروازے تک پہنچ گیا تو وہ بوال ایک منٹ بیٹا ۔۔۔۔ پر میں نہ ُرکا تو دوست کی آواز آئ یار ایک منٹ ان کی بات سننے میں حرج ہی کیا ہے ؟؟ تو میں وہاں ُرک گیا اور بوال ۔۔۔ جو کہنا ہے جلدی کہیں ۔۔۔۔ تو وہ بوال ۔۔ دیکھو بیٹا میں تمھارے باپ کی عمر کا ہوں اور ٹیچر ویسے بھی باپ ہی ہوتا ہے تو کیا یہ اچھا لگے کا کہ میں ایک بزرگ اپنے بیٹے سے بھی چھوٹے لڑکے سے ایکسکیوز کرے۔۔؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ یہ بات تو آپ نے پہلے سوچنے تھی ناں اور پھر باہر جانے کے لیۓ جیسے ہی دروازے سے باہر قدم رکھا ۔۔۔۔۔۔ پی ٹی مری ہوئ آواز میں بوال ۔۔۔۔ او کے۔۔۔۔ بچے کو بُال لو۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا دوست بوال مجھ سے ُمخاطب ہو کر بوال تم بیٹھو میں یاسر کو التا ہوں ۔۔۔۔ اور میں واپس آ کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔ کمرے میں گھنا سناٹا چھایا ہوا تھا اور ِپن ڈراپ سائیلنس تھا اور اس خاموشی میں پی ٹی کسی گہری ب معمول اسے سوچ میں کھویا ہوا تھا اور میں حس ِ مسلسل کھا جانے والی نظروں سے ُگھورے جا رہا تھا ۔۔ کچھ دیر بعد دیر بعد دوست کے ساتھ یاسر کمرے میں نمودار ہوا اور مجھے اور پی ٹی کو دیکھ کر کسی حیرت کا اظہار نہ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ دوست سے سارے معاملے پر پہلے ہی بریف کر چکا تھا۔۔ ا ُ یاسر کمرے میں داخل ہوتے ہی سیدھا میرے پاس آ کر پیٹھ گیا اور سر جھکا کر نیچے دیکھنے لگا ۔۔۔ کمرے میں ایک بار پھر ِپن ڈراپ سائیلنس ہو گیا ۔۔۔۔ پھر میں نے خاموشی کو توڑا اور پی ٹی سے مخاطب ہو کر بوال ۔۔۔۔ یاسر آ گیا ہے ۔۔ پی ٹی جو کسی گہری سوچ سن کر ہڑبڑا کر اُٹھا اور میں ڈوبا ہوا تھا میری بات ُ میری طرف دیکھنے لگا تو میں نے جلدی سے یاسر کی طرف اشارہ کر دیا ۔۔ پی ٹی کے چہرے پر تزبزب کے آثار ۔۔۔ دیکھ کر میرے دوست نے بھی ایک گھنگھورا مارا اور پی ٹی کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔ اب پی ٹی کے لیۓ پاۓ رفتن نہ جاۓ ماندن واال معامال ہو گیا تھا ۔۔۔ پھر اس نے ہمت کی اور یاسر سے بوال ۔۔۔۔ یاسر بیٹا جو کچھ بھی ہوا اس کے لیۓ سوری۔۔۔۔۔ یہ کہا اور اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے باہر نکال یاسر میرے گلے سے لگ گیا اور آہستہ سے میرے کان میں بوال ۔۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔ تم واقعی اُستاد ہو ۔۔ اور پھر دوست کا شکریہ ادا کیا تو وہ بوال کوئ بات نہیں ۔۔ اور کہنے لگا ۔۔۔ یار آپ نہیں آپ کے کسی بھی دوست کے ساتھ اگر یہ بندہ دوبارہ ایسی حرکت کرے تو میری طرف اشارہ کر کے کہنے لگا پلیز تم صرف ان کو بتا دینا ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگا آج جو اُس کے ساتھ ہو گئ ہے اُمید ہے کہ اس کے بعد کسی کے ساتھ یہ ایسا برتاؤ نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔ اُس نے یہ کہا اور پھر مجھے چلنے کا اشارہ کر دیا اور ہم واپس آگے ۔۔۔۔۔۔۔ اُسی دن شام کی بات ہے کہ میں کمیٹی چوک کسی کام سے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے یاسر کی آواز سنائ دی میں اسے دیکھ کر ُرک گیا اور جہسے ہی وہ ُ شکریہ ادا کیا میرے پاس آیا اس نے ایک بار پھر میرا ُ تو میں نے کہا یار کیوں شرمندہ کرتے ہو تو وہ بوال ۔۔۔ یار شکریہ کے ساتھ ایک معزرت بھی کرنی ہے ۔۔ تو مین نے کہا وہ کیا تو وہ بوال یار تم کو تو پتہ ہی ہے کہ ماما اس بات کے پیچھے ہی پڑ گئیں تھیں اور باربار کرید کرید کر مجھ سے اس بارے میں پوچھتی رہی تھیں تو میں نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ شاہ نے مجھ سے وعدہ کر لیا ہے کہ وہ مجھے ہر شام اُردو اور میتھ پڑھا دیا کرے گا ۔۔۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا اور بوال کیا یہ کیا کر دیا یار ۔۔۔ تو وہ بوال مجبوری تھی باس ورنہ ۔۔۔ یو ۔۔ نو ۔۔!!! پھر میں نے اس سے کہا یار اُردو تو ٹھیک ہے یہ میتھ تو میرے باپ دادے کی بھی سمجھ سے باہر ہے تو وہ ہنس کر بوال ۔۔ اُستاد آپ اس چیز کی فکر ہی نہ کرو مجھے اُردو اور میتھ کیا ہر سبجیکٹ خوب اچھے طرح سے آتا ہے ۔۔۔۔ پر اس وقت مجبوری ہے ۔۔۔ ماما کو کور کرنا تھا سو جھوٹ بول دیا بس اب تم شام سے ہمارے گھر مجھے پڑھانے آ جانا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔ او یار شام کا ٹائم کیوں رکھ دیا تو نے ؟؟؟؟ ۔۔ تو وہ بوال کیوں شام کو کیا ہوتا ہے ؟؟ ۔۔۔۔ تو میں نے جواب دیا سالے یہی ٹائم تو چھت پر بھونڈی کا ہوتا ہے اور میں اس ٹائم تمھارے ساتھ مغز ماری کروں گا تو وہ کہنے لگا یار تم نے کون سا پڑھانا ہے ۔۔۔ بس ڈرامہ ہی کرنا ہے نہ۔۔۔ اور ڈرامہ بھی ایک ماہ کرنا ہے ۔۔۔پھر ماما کو بتا دینا کہ بچہ چل گیا ہے اب اسے ٹیچر کی کوئ ضرورت نہیں رہی اور دوسری بات بھونڈی تو تم جانتے ہو کہہ میں لڑکی سے زیادہ اچھا چوپا لگا تا ہوں سو جب تم چاہو میں تمھارا اے ون چوپا لگا دیا کروں گا تم بس اب میری بات مان لو ۔۔۔۔ اور میں نے اس کی بات مان لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں کمیٹی چوک سے واپس گھر آیا تو امی میرے پاس کمرے میں آ گئ اور بولی آج یاسر کی امی ہمارے گھر آئ تھی اور تمھارا پوچھ رہی تھی ۔۔۔ تو میں نے پوچھا کیا کہیتی تھی وہ ۔۔ تو امی کہنے لگی وہ کہہ رہی تھی کہ تم ان کے بیٹے کو پڑھا دیا کرو ۔۔۔ پھر بولی پُتر ہمسائیوں کے بڑے حقُوق ہوتے ہیں اب وہ بے چاری چل کے ہمارے گھر آ گئ ہے تو تم نہ ،نہ کرنا ۔۔۔ اور کل سے یاسر کو پڑھانے چلے جانا ۔۔۔۔ کہ میں نے بھی اسے حامی بھر دی ہے پھر کہنے لگی تمھارا کیا خیال ہے۔۔؟؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ بے بے جب آپ نے حامی بھر لی ہے تو اب انکار کی کوئ ُگنجائیش ہی نہیں رہی ۔۔۔ سو آپ کے حکم کے مطابق کل سے میں یاسر کو پڑھانے چال جاؤں گا۔۔ سن کر بے بے کہنے لگی جیتے رہو پُتر میری بات ُ مجھے یقین تھا کہ تم میری بات کو کبھی نہیں ٹالو گے ۔ اگلے دن شام کو میں یاسر کے گھر گیا اور گھنٹی بجائ تو یاسر باہر نکال اور بڑی گرم جوشی سے میرے ساتھ ہاتھ مالیا اور ایک دفعہ پھر میرا شکریہ ادا کیا اور پھر مجھے اپنے ساتھ گھر کے اندر لے گیا اور مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کروہاں سے ہی آواز لگائ ۔۔۔ ما ما ۔۔ ٹیچر آ گۓ ہیں ۔۔!!!! اور پھر میری طرف دیکھ کر آنکھ مار دی ۔۔۔ میں بھی اس کی طرف کراہٹ کے ساتھ ہنس پڑا ۔۔۔ اور دیکھ کر پھیکی سی ُمس ُ ان کے ڈرائینگ ُروم کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔ ان لوگوں نے ڈرائینگ روم بڑی اچھی طرح سے سجایا ہوا تھا ابھی میں اس کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ یاسر کی امی ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئ جسے دیکھ کر میں احتراما ً کھڑا ہو گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بولی ارے ارے ۔۔ آپ کھڑے کیوں ہیں بیٹھیں نہ پلیز۔۔۔ !!! لیکن میں اُس وقت تک بیٹھا رہا جب تک کہ وہ میرے سامنے صوفے پر نہ بیٹھ گئ ۔۔۔ انہوں نے کالے رنگ کی ُکھلے گلے والی سلیو لیس قمیض پہنی ہوئ تھی اور اس کالے رنگ کی قمیض میں ان کا گورا بدن صاف چھلک رہا تھا اور اور قمیض کے اوپر انہوں نے ایک باریک سا کالے ہی رنگ کا دوپٹہ لیا ہوا تھا جس کی سنگ مر مر سے تراشا ہوا گورا بدنِ وجہ سے ان کا مزید نکھر کر سامنے آ گیا تھا ۔۔۔ ان کے شانے چوڑے اور کافی بڑے تھے اس لیۓ ان پر سلیو لیس بڑا جچ رہا تھا ۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ صوفے پر بیٹھ گئ تو میں بھی بیٹھ گیا ۔۔۔ بیٹھے ہی وہ مجھ سے ُمخاطب ہو کر بولی کال میں آپ کے گھر بھی گئ تھی ۔۔۔ لیکن آپ گھر پرموجود نہ تھے ۔۔۔ تو میں نے آپ کی امی سے ریکؤئسٹ کی تھی کہ آپ یاسر کو پڑھا شکر ہے کہ خالہ جان نے میری دیا کریں اور ُ درخواست منظور کر لی تھی ۔۔ اور تھینک یو آپ کا کہ آپ آ گۓ۔۔ پھر کہنے لگی دیکھو مجھے بات کرتے ہوۓ لگ تو عجیب رہا ہے لیکن شرع میں شرم نہیں ہونا چاہیۓ اسلیۓ آپ خود ہی بتا دو کہ آپ فی سن کر میںسبجیکٹ کتنے پیسے لو گے ؟ اُن کی بات ُ واقعہ ہی حیران ہو گیا اور بوال ۔۔۔۔ کیسے پیسے جی ؟ تو وہ کہنے لگی یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ اپنےقیمتی وقت میں سے کچھ ٹائم میرے بچے کو دے رہے ہیں تو ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی شرمائیں نہ پلیز ۔۔۔ آپ کی جو بھی ڈیمانڈ ہے بتا دیں ۔۔ اب میں نے اُن کو کہا کہ اگر تو آپ نے پیسے دے کر ہی پڑھوانا ہے تو سن کرمیری طرف سے معزرت قبول کرلیں ۔۔ یہ بات ُ وہ کہنے لگی او ہو ۔۔ آپ تو ناراض ہی ہو گۓ ہیں ۔۔ چلیں اس ٹاپک پہ ہم بعد میں گفتگو کر لیں گے آپ بچے کو پڑھانا شروع کریں میں آپ کے لیے ٹھنڈا لے کر آتی ہوں اور وہ اُٹھ کر چلی گئ۔۔ اب میں اور یاسر کمرے میں اکیلے رہ گۓ تو میں نے اُس سے کہا یہ تم نے کس مصیبت میں ڈال دیا ہے یار ۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے لگا ۔۔۔ سب چلتا ہے باس اور بیگ کھول کر کتابیں نکالنے لگا۔۔۔ اور اس طرح میں نے یاسر کو پڑھانا شروع کر دیا ۔۔۔ مجھے یاسر کو پڑھاتے ہوۓ 3،4دن ہو گۓ تھے۔۔ اوراس کی امی ریگولرلی میرے لیۓ ٹھنڈا یا گرم لے کر آتی تھی اور مجھ سے یاسر کی پڑھائ کے بارے ڈسکس کرتی تھی ۔۔ اصل میں وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لیۓ کافی فکر مند تھی اور اس طرح کرتے کرتے اب میری یاسر کی ماما سے بہت اچھی گپ شپ ہو گئ تھی ۔۔۔ یہ پانچویں یا چھٹے دن کی بات ہے کہ وہ ٹرے میں چاۓ کے ساتھ کافی لوازمات الئی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی یاسر سے بولی ۔۔۔ تمھارا فون ہے ۔۔ تو وہ کہنے لگا سنتے ہی کس کا ہے مام ۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ وہی ۔۔ یہ ُ یاسر نے چھالنگ لگائ اور فون کی طرف دوڑ پڑا ۔۔ اب میں نے تھوڑا حیران ہو کر اُس سے پوچھا ۔۔۔ کس کا فون تھا ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ اس کی منگیتر کا تھا ۔۔۔ اور ہنستے ہوۓ بولی ۔۔۔۔ یو نو۔!!! پھر میز پر برتن رکھ کر چاۓ بنانے لگی اور بولی کتنی چینی ڈالوں ؟؟ تو مجھے شرارت سوجھی اور بوال آپ چاۓ میں انگلی ڈال کر دو دفعہ ہال دیں تو چاۓ خود بخود میٹھی ہو جاۓ گی تو وہ ہنس کر کہنے لگی سر جی !! چاۓ بڑی گرم ہے کیوں میری انگلیاں جالنی ہیں تو میں نے کہہ دیا اچھا تو چلیں ایک چمچ ڈال دیں ۔۔۔ اس نے چاۓ میں چینی ڈالی اور مجھے دیکھتے ہوۓ شرارت سے بولی ۔۔۔۔۔ چچ ۔۔۔ چچ چچ۔۔ آئ ایم سوری سر جی ؟ تو میں نے حیران ہو کر کہا ۔۔۔ سوری کس بات کی سنا ہے ہم نے آپ کی راہ کھوٹی جی؟ تو وہ کہنے لگی ُ کی ہے ۔۔۔ تو میں نے پھر بھی بات کو نہ سمجھتے ہوۓ ان سے کہا کہہ میں سمجھا نہیں میم ۔۔۔ آپ کیا سنا ہے ہم سے کہہ رہی ہیں ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ُ پہلے یہاں مس مائرہ نامی ۔۔۔۔ تو میں نے ایک گہرا سانس لیتے ہوۓ کہا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی؟ تو وہ بولی ۔۔۔ لو جی ہمارے پاس تو آپ کا پُورا بائیو ڈیٹا اکھٹا ہو گیا ہے ۔۔۔ اور ہنسنے لگی ۔۔۔۔ پھر ایک دم سیریس ہو کر بولی ۔۔۔۔ سر جی اب بھی اگر مائرہ آۓ تو میرا گھر حاضر ہے اور تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئ۔۔ اور میں ہکا بکا ہو کر اسے جاتے ہوۓ دیکھنے لگا۔۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری طرف ملک صاحب کے بیٹے کی شادی بھی بہت قریب آ گئ تھی اور دوستو جیسا کہ آپ کو پتہ ہی ہے کہ گلی محلوں میں خاص کر شادی بیاہ پر لڑکیوں سے نئ نئ دوستیاں بنتیں ہیں اور قسمت اچھی ہو تو کوئ آنٹی بھی پھنس ہی جاتی ہے محلے میں چونکہ بڑے دنوں بعد کوئ خوشی کا موقع آیا تھا اور ویسے بھی ملک فیملی ہمارے محلے کی ایک بہت موٹی آسامی تھی اس لیۓ محلے کے تقریبا ً سارے ہی لوگ بڑھ چڑھ کر اس فنگشن میں حصہ لے رہے تھے۔۔۔ میرا شمار چونکہ محلے کے اچھے لوگوں میں ہوتا تھا (کیا ستم ظریفی کی بات ہے) اس لیۓ مہندی سے ایک دن قبل ہی بڑے ملک صاحب ہمارے گھر آۓ تھے اور مجھے اور بعد میں رفیق ساتھ محلے کے دورے لڑکوں کو بھی مہندی اور ولیمے کے کافی کام سونپ گۓ تھے کہ ان کا پروگرام ولیمہ بھی گلی میں ہی کرنے کا تھا ۔۔۔ اس لیۓ ہم سرشام ہی ملک صاحب کے گھر پہچ مہندی والے دن ِ گۓ تھے ۔۔ ہمارے ساتھ یاسر بھی تھا میں نے رفیق سے چوری چوری پتہ کروا لیا تھا کہ مہندی پر عورتوں کو کہاں بٹھانا ہے اور مردوں کو کہاں ۔۔۔ تو پتہ چال کہ ان کے گھر کے ساتھ والے خالی پالٹ عورتوں کے لیۓ مختص کیا گیا ہے جبکہ ان کی چھت پر مرد حضرات کے لیۓ بندوبست کرنا تھا ۔۔ یاسر اور میں نے چاالکی سے اپنی ڈیوٹی عورتوں والی سائیڈ پر جبکہ رفیق اور ایک اور ُمحلے دار کی ڈیوٹی مردوں والی سائیڈ پر لگوا دی تھی ۔۔ یہ بات جب رفیق کو پتہ سود۔۔چلی تو اس نے بہت واویال کیا تھا پر ۔۔۔۔ بے ُ سنی ۔۔۔ ہاں!!!!!! بے چارے کی کسی نے ایک نہیں ُ ایک اور بات بتانا تو میں بھول ہی گیا وہ یہ کہ مہندی والے دن میں ،رفیق اور یاسر نے ایک جیسے ہی سوٹ پہنے ہوۓ تھے جو کہ یاسر کی امی نے بنواۓ تھے میں نے بھتیرا منع کیا تھا مگر ان لوگوں نے چوری چوری اور پھر زبردستی ویسا ہی میرا بھی سوٹ سلوا ہی دیا تھا ۔۔۔ اس شام یاسر اور میں نے دوسروں کے ساتھ مل کر خالی پالٹ میں ُکرسیاں رکھوائیں اور پھر سٹیج وغیرہ بنوا رہا تھے کہ سٹیج پر بپچھانے کے لیۓ ہمیں دری کی ضرورت پڑگئ تو میں نے یاسر سے کہا کہ ٹھہرو میں اندر سے پتہ کرتا ہوں کہ دری ہے کہ نہیں ورنہ ٹینٹ والے سے منگوا لیں گے ۔۔۔ یہ کہہ کر میں ملک صاحب کے گھر چال گیا اور آنٹی سے دری کا پوچھا تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ پُتر اس شادی نے تو میری َمت ماری ہوئ ہے میرا خیال ہے دری ہے تو سہی پر کہا ہے یاد نہیں آ رہا ۔۔۔۔ سلطانہ سے پوچھ پھر کچھ سوچ کر بولی ۔۔۔ تم ایسا کر ُ لو۔۔۔ اسے ضرور پتہ ہو گا۔۔۔ سنتے ہی میری تو گانڈ پھٹ گئ ۔۔۔ سلطانہ کا نام ُ ُ سلطانہ ملک ۔۔۔ ملک صاحب کی سب سے بڑی صاحب ُ زادی تھی ۔۔ جس کی عمر 29،30سال ہو گی اور جو اچھے رشتے کے چکر میں اوور ایج ہو گئ تھی ۔۔ بَال مغرور کی خوب صورت اور اس سے بھی زیادہ ُ خاتون تھی ۔۔۔۔ مائرہ سے پہلے میرا اس کے ساتھ آنکھ مٹکا چل رہا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی مائرہ آئ میں نے سلطانہ کو چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ وجہ وہی ایک انگریزی ُ ُمحاورے کے ُمطابق آ برڈ ان ہینڈ ۔۔۔ والی تھی۔۔ کیونکہ ایک تو مائرہ نے " دینے " میں دیر نہیں لگائ تھی دوسرا اس کی چھت ہماری چھت سے بلکل ملی ہوئ تھی اور وہ ایزی ایکسیس تھی چھت ٹاپو اور اس کے پاس ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف سلطانہ کا گھر بھی تھوڑا سلطانہ کا ناز نخرہ ہی دور تھا اور اس پہ طرہ یہ کہ ُ ختم نہیں ہوتا تھا ۔۔۔۔ پھر آنٹی نے خود ہی آواز لگی ۔۔ سن کرسطانہ بیٹا ۔۔۔۔۔ ادھر آنا ۔۔۔ اپنی امی کی آواز ُ ُ سلطانہ کمرے سے باہر نکل آئ ۔۔۔ اور ۔۔۔ مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئ اور پھر مجھے خونخوار نظروں سے گھورتے ہوۓ بولی۔۔ جی امی جی ۔۔۔ تو انٹی نے اس سے کہا پُتر ۔۔ شاہ دری مانگ رہا ہے ۔۔ کہاں پر رکھی ہے ؟ تو وہ کہنے لگی امی وہ سٹور میں پڑی ہے ۔۔۔ تو آنٹی بولی پُترا شاہ کو لے جاؤ اور اسے دری دے دو۔۔۔ تو میں ان سے کہا آپ دری نکالیں میں کسی کو بھیج سلطانہ آہستہ سے سن کر ُ کر منگوا لیتا ہوں میری بات ُ بولی تمہیں میرے ساتھ چلتے ہوۓ موت پڑتی ہے کیا ؟؟ ۔۔۔ چلو میرے ساتھ ۔۔۔ اور میں نا چاہتے ہوۓ بھی ُچپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔ سنسان جگہ پر وہ ُرک تھوڑی دُور جا کر ایک نسبتا ً ُ گئ اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تمھاری ماں کدھر ہے؟؟ میں اس کا طنز اچھی طرح سے سمجھ گیا تھا پر ویسے ہی انجان بن کر بوال جی وہ سن کر اس کی آنکھوں امی رات کو آئیں گی میری بات ُ میں ایک شعلہ سا لپکا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ سختی سے دانت پیستے ہوۓ بولی ۔۔۔ تمھاری امی کی نہیں اُس ماں کی بات کر رہی ہوں جس کی وجہ سے تم نے ۔۔۔۔ اور پھر خاموش ہو گئ ۔۔۔اس سے پہلے کہ میں کوئ جواب دیتا یاسر بھاگتا ہوا آیا اور بوال ۔۔ سر جی حاجی صاحب (بڑے ملک صاحب ) آپ کو فورا ً سن کر وہ آہستہ سے بُال رہے ہیں ۔۔۔ یاسر کی بات ُ کہنے لگی ابھی تو ابا نے تمھاری جان ُچھڑا دی ہے لیکن تم کو میرے سوال کو جواب ضرور دینا ہو گا سنی کی اور یاسر کے سنی ان ُمیں نے اس کی بات ُ ساتھ چل پڑا ۔۔ راستے میں یاسر مجھ بوال استاد جی آنٹی بڑی گرم تھی کوئ ایسی ویسی حرکت تو نہیں کر دی ؟؟؟ ۔۔۔ میں اس کی بات سن کر ُچپ رہا اور بڑے ملک صاحب کے پاس چال گیا انہوں نے مجھ سے مہندی کے کھانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے ان سن کر وہ مطمئین ہو کرکو سب ڈیٹیل بتا دی جسے ُ سبکیبولے دیکھنا یار کھانا کم نہ پڑ جاۓ ورنہ بڑی ُ ہو جاۓ گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہاں سے چلے گۓ ۔۔۔۔۔۔۔ رات 9بجے تک ہم نے مہندی کے سارے انتظام مکمل کر لیۓ تھے اس دوران ایک دو دفعہ میرے ُمڈ بھیڑ سلطانہ سے بھی ہوئ لیکن رش کی وجہ سے کوئ بات نہ ہو سکی ہاں اسکی شکایتی اور غضب ناک نظریں ہر جگہ میرا تعاقب کرتی رہیں ۔۔ سلطانہ کے ساتھ اس کی بیسٹ فرینڈ اور رفیق کی بڑی بہن ُروبی بھی ساتھ ہی ہوتی تھی مجھے دیکھ کر روبی بولی ہیلو الٹ صاحب !! ان کپڑوں میں بڑے ہنیڈ سم لگ رہے ہو ۔۔۔۔ تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بوال آپ بھی بڑی اچھی لگ رہی ہیں ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ مہمانوں کی آمد شروع ہو گئ ۔۔۔ میرے خیال میں تو محلے کے سارے راستے ہی ملکوں کے گھر کی طرف جا رہے تھے ادھر شادی واال گھر بھی زبردست برقی قمقوں سے سجا ہوا تھا اور اسکے ساتھ ہی بہت اونچی آواز میں ریکارڈنگ بھی لگی ہوئ تھی اور الؤڈ میوزک کی سنائ نہیں دے رہی تھیوجہ سے کان پڑی آواز ُ غضب میک اَپ اور جدید فیشن کے سوٹوں میں ملبوس لڑکیاں ادھر اُدھر پُھدک رہی تھیں اور ہم ان کی تاڑوں میں ان کے آگے پیچھے پھرتے ہوۓ خاہ مخواہ کی افیشنسیاں دکھا رہے تھے ۔۔۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مین فنگشن شروع ہو گیا یعنی کہ ڈانس پروگرام ۔۔۔۔ لیڈیزکرسیوں پر بیٹھی ڈانس دیکھ رہی تھیں اور جن کو ُکریسوں پر جگہ نہ ملی تھی وہ کھڑی تھیں اور ۔۔۔ سٹیج پر ایک ُکھسرا نما لڑکا تیز میوزک پر ڈانس کے نام پر عجیب و غریب سٹیپ کر رہا تھا جسے دیکھ کر لیڈیز بڑے شوق سے تالیاں بجا کر اس کو داد دے رہے تھے لڑکے کا عجیب ڈانس دیکھ کر میں بور ہو گیا اور وہاں سے باہر نکل آیا جبکہ باقی دوست وہیں کھڑے رہے ۔۔۔ باہر آ کر سوچا چلو مردانہ پارٹی کا جائزہ لے لوں اور میں چھت پر چال گیا وہاں سب مرد ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے اُس لڑکے کے ڈانس سے بھی بور کام کر رہے تھے مطلب سیاست پر بحث جاری تھی ۔۔۔ یہ حالت دیکھ کر میں نے سوچا اس سے تو لڑکے کا ڈانس زیادہ بیسٹ تھا یہ سوچ کر میں نیچے اُتر آیا اور لیڈیز کی طرف چال گیا۔۔۔۔ وہاں اب پہلے سے بھی زیادہ رش ہو گیا تھا ۔ میرا تعلُق چونکہ انتظامیہ سے تھا سو میں ایک طرف ہو کر سٹیج پر چڑھ گیا اور پنڈال کا جائزہ لینے لگا اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ کوئ مجھے مسلسل اشارے کر رہا ہے غور کیا تو وہ یاسر تھا ۔۔ اُس کے آگے ایک نقاب پوش حسینہ کھڑی تھی اور وہ آئ تھنک یاسر کے ساتھ چپکی ہوئ تھی اب میں نے یاسر کی طرف دیکھا جو بڑے طریقے سے مجھے اپنی طرف متوجو کر رہا تھا ۔۔۔ جیسے ہی ہماری نظریں ملیں میری اور اس کی اشاراتی زبان شروع ہو گئ اُس نے مجھے اشارے سے کہا کہ میرے پاس آؤ !! تو میں نے بھی اشارے سے پوچھا ۔۔ کوئ خاص بات ہے ؟؟ تو اس نے اپنے سامنے کھڑی خاتون کی طرف اشارہ کیا اور بتالیا کہ ۔۔۔۔ میڈم لفٹی ہے ۔۔۔۔ تو میں نے بھی اشارے سے اس کو کہا کہ بیٹا موج کر تو وہ کہنے لگا ۔۔ نہیں مجھے آنٹیاں نہیں پسند اور پھر اشارہ کیا آنا ہے یا میں جاؤں تو میں نے اس کو کہا کہ ہلنا مت ،میں آرہا ہوں۔۔ گو کہ وہاں بہت رش تھا لیکن میں کسی نہ کسی طرح یاسر کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر اس کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا اور وہاں جو ہو رہا تھا اس کا بغور جائزہ لینے لگا اور میں نے دیکھا کہ اُس خاتون نے جدید فیشن کی چولی ٹائپ تنگ سی قمیض اور اس کے نیچے ُکھلے گھیرے والی ریشمی شلوار پہنی ہوئ تھی اور اس نے اپنی بڑی اور موٹی سی گانڈ یاسر کے ساتھ چپکائ ہوئ تھی ۔۔ کچھ دیر تک تو میں یہ سب دیکھتا رہا ۔۔ اور جب مجھے کنفرم ہو گیا کہ بوجھ کر اپنی گانڈ یاسر کے ساتھخاتون نے جان ُ چپکائ ہوئ ہے تو میں نے پیچھے سے یاسر کا کندھا تھپتھپایا۔۔۔۔ فورا ً ہی یاسر نے ُمڑ کر میری طرف دیکھا اور اس کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر ایک گہرا اطمینان چھا گیا پھر میں نے اس کو ہٹنے کا اشارہ کیا تو وہ ۔وہاں سے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گیا ۔۔ حتی کہ رش کی وجہ سے اس کو ایک دھکا سا لگا اور میں نے مو قعہ کا فائیدہ اُٹھاتے ہوۓ بڑی پھرتی سے یاسر کو پیچھے کی طرف دھکیال اور خود اس لیڈی کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا چونکہ میں نے اور یاسر نے ایک جیسے کپڑے پہنے ہوۓ تھے اورہماری فزیک بھی تقریبا ً ملتی ُجلتی تی اوپر سے رش اور شور اتنا زیادہ تھا کہ اس خاتون نے ہماری اس چینچ کو نوٹ نہیں کیا ۔ دھکہ لگنے کی وجہ سے میں اس خاتون سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا تھا ۔۔۔ یہ بات اس نے بھی فیل کی اور وہ تھوڑا کھسک کر میرے پاس آ گئ ۔۔ اورپھر اس کی گانڈ کا دائیں حصہ میرے ساتھ ٹچ ہوا۔۔۔ واؤ۔۔۔۔ اس کی گانڈ بڑی ہی نرم اور ریشم کی طرح ُمالئم تھی۔۔ پھر اسکے بعد وہ آہستہ آہستہ میرے ساتھ ُجڑنا شروع ہو گئ ۔۔۔۔اور چند سیکنڈ بعد ہی اس کی نرم اور موٹی گانڈ میری تھائیز کے ساتھ لگی ہوئ تھی ۔۔۔۔ یاسر کا تو پتہ نہیں پر جیسے ہی اس کی گانڈ نے میری تھائیز کو ٹچ کیا میرا لن کھڑا ہو گیا اور کچھ ہی دیر بعد اس میرا کھڑا لن اس کی گانڈ سے رگڑ کھا رہا تھا لیکن پرابلم یہ تھی کہ لن اس کی بڑی سی گانڈ کے ایک سائیڈ پر ٹچ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اس کا حل اس نے یہ نکال کہ اس نے اپنی گانڈ کو کچھ اس طرح ہالیا کہ لن صاحب اس کی بُنڈ کی دراڑ کےعین بیچ میں آ گیا ۔۔۔ میں نے کوشش کی مگر لن ٹھیک سے اس کی دراڑ کے اندر نا جا پا رہا تھا وجہ یہ تھی کہ ہم دونوں کی قمیضیں راستے میں حائل تھیں ۔۔۔ اب میں نے ہمت کی اور تھوڑا سا پیچھے ہٹ کے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی قیمض کا کپڑا ایک سائیڈ پر کر دیا ۔۔ اور پھر اسی پ ُھرتی کے ساتھ اس کی گانڈ کے سامنے سے بھی اس کی قمیض کا کپڑا ہٹا دیا ۔۔۔ اب میرا لن فُل مستی میں تن کر لہرا رہا تھا اور دوستو آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب لن جوبن میں کھڑا ہوتا ہے تو اُس کا ُرخ آسمان کی طرف ہوتا ہے یعنی 90ڈگری کے زاویہ پر ۔۔۔ ادھر اس لیڈی نے اپنی گانڈ پیچھے کی طرف کی اور لن ورٹیکل اینگل میں اس کی گانڈ کے دراڑ میں پھنس گیا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ اور چونکہ میرا لن اس کی موٹی بُنڈ کی دراڑ سے کافی لمبا تھا اس لیۓ لن کی ٹوپی اس کی نرم بُنڈ سے باہر کو نکلی ہوئ تھی ۔۔۔ اس کو اس بات کا اس وقت پتہ چال جب اس نے اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد ٹائیٹ کرنا شروع کیا ۔۔۔۔ تب اس کو احساس ہوا کہ میرے لن کی ٹوپی اس کی گانڈ سوراخ کو ٹچ نہیں کر رہی ۔۔۔ لیکن اس کے کے ُ باوجود بھی اس نے کافی دفعہ میرے لن کو اپنی گانڈ میں سمو کر بھینچا اور اپنی نرم گانڈ کے ٹشوز کو میرے لن کے گرد ٹائیٹ کیا ۔۔۔ اُف ف ف ف اس کی گانڈ بہت نرم اور گرم تھی اور جب وہ اپنی نرم گانڈ میرے لن کے گرد بھینچتی تو میرے سارے جسم میں اک سرور سا بھر جاتا تھا ۔۔۔۔ اور میں دل ہی دل میں حیران ہوتا کہ اتنی ہاٹ لیڈی کون ہو سکتی ہے جو اس قدر بولڈ ہے کہ اتنے لوگوں کی موجودگی میں بھی لن کو اپنی گانڈ میں لے کر اسے بھینچے جا رہی ہے ۔۔۔ کافی سوچا پر میں اس لیڈی کے بارے میں کوئ بھی اندازہ لگانے میں ناکام رہا ۔۔۔ اور پھر جب میں اس سیکسی لیڈی کو پہچاننے میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا تو۔۔۔ تو میں نے دل میں کہا دفعہ کر یار ۔۔ اور اس کی سیکسی بُنڈ کو انجواۓ کر ۔۔۔ دیکھ اس کی نرم گانڈ کیسے تیرے سخت لن کے گرد کسی ہوئ ہے ۔۔۔ یہ سوچا اور لن کو اس کی گانڈ میں رگڑنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میرے خیال میں اسے وہ سوراخ پر لن کی مزہ نہ مل پا رہا تھا جو گانڈ کے ُ ٹھوکر سے آتا ہے چناچہ کچھ دیر تک وہ اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد کسنے کے بعد اب وہ نیچے کی طرف جھکی اور ساتھ ہی اس نے اس نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کر کے میرے لن کو پکڑا اور اپنی گانڈ کے سوراخ پر فٹ کر دیا اور پھر کھڑی ہو کر بڑے زور ُ سئ اپنی گانڈ کو میرے طرف پُش کیا ۔۔۔۔۔۔ اس کے زور لگانے سے میرے لن کی آگے کی تھوڑی سی ٹوپی (یا چونچ ) اس کی ریشمی شلوار سمیت اسکی بنڈ سوراخ میں پھنس گئ ۔۔۔۔ آہ ۔۔۔ اب مجھے اپنی کے ُ ٹوپی کے گرد اس کی بُنڈ کی سوراخ کا ِرنگ محسوس ہوا جو نہ تو لوز تھا اور ناں ہی ٹائیٹ ۔۔۔۔ اس کی گانڈ بڑی ہی گرم مست اور زبردست تھی اوپر سے اس کا اپنے گانڈ کے بمز کو بار بار میرے سخت لن کے گرد کسنا ۔۔۔۔ ۔۔۔ آہ۔۔ ہ سواد آ گیا بادشاہو ۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ میرا لن اس کی ریشمی شلوار سمیت اس کی نرم گانڈ کے سوراخ میں پھنسا ہوا تھا اور وہ اپنی گانڈ کو بار بار بھینچ کر میرے لن کے گرد کس رہی تھی ۔۔!! اس کی گانڈ کے سوراخ کا لمس پاتے ہی میرے سارے جسم میں چیونٹیاں رینگنا شروع ہو گئیں اور ۔۔۔۔ مزے کی ایک تیز لہر اٹھی اور میرے سارے جسم میں سرائیت کر گئ ۔۔۔ لن اور تن گیا ۔۔۔ جوش اور بڑھ گیا اور سارا جسم آگ کی طرح گرم ہو گیا اور میں بے اختیار گھسے مار مار کر لن کو اس کی گانڈ میں مزید اندر تک گھسانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔ وہ اور اس کی ساری باڈی بھی سخت ہیٹ اپ ہو چکی تھی اور وہ بھی اب مست ہو کر اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد نان سٹاپ کسے جا رہی تھی ۔۔۔ بُنڈ تنگ کررہی تھی پھر لُوزکر دیتی جب وہ اپنی گانڈ لن کے گرد زور لگا سوراخ بھی تنگ ہو کر کر کستی تو اس کی گانڈ کا ُ میرے ٹوپے کے گرد کسا جاتا اوراس کی شلوار ریشمی ہونے کی وجہ سے اس کے گانڈ بھینچنے کے عمل میں لن پھسل کر اس کی گانڈ کے سوراخ سے پھسل کر باہر آ جاتا اور جب وہ اپنی گانڈ ڈھیلی کرتی تو میں پیچھے سے گھسا لگا کر دوبارہ لن اس کی موری میں فٹ کر دیتا اس عمل میں خاص کر جب اس کا تنگ سوراخ میرے ٹوپے کے گرد کسا جاتا تو مجھے اتنی لزت ملتی جو بیان سے باہر ہے۔۔
پھر ایسا ہوا کہ ہم دونوں کا جوش بڑھ گیا اور وہ بار
بار لن کے گرد اپنی گانڈ کو بھینچنے لگی ۔۔ اسی دوران ایسا ہوا کہ اس نے جونہی اپنی گانڈ کو بھینچا اور پھر۔۔۔ کچھ سکینڈ کے بعد اسے ڈھیال کیا تو میں نے جوش میں آ کر دونوں ہاتھوں سے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ کھولے اور ایک زور دار گھسا مارا ۔۔۔۔۔۔ اور لن اس کی ریشمی شلوار کو چیرتا ہوا اس کی گانڈ کے کافی اندر تک چال گیا اور جاتے ہی میرے لن نے ایک زور دار پچکاری ماری اور ۔۔۔۔۔۔۔ منی کا پہال قطرہ اس کی گانڈ میں گر گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اسے فیل ہوا کہ میں ُچھوٹ گیا ہوں اس کے منہ سے آواز نکلی ۔۔۔ ہا۔۔ آ ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے منہ سے نقاب ہٹایا اور گردن کراتے ہوۓ میری طرف دیکھا اور جیسے گھما کر ُمس ُ ہی اس کی نظر مجھ پڑی تو وہاں یاسر کی بجاۓ کراتا ہوا چہرہ حیرت مجھے کھڑا دیکھ کر اس کا ُمس ُ ۔۔۔ غم اور مایوسی میں بدل گیا منہ کھلے کا کھال رہ گیا اور وہ ایک دم پریشان ہو گئ ۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میری نظر نے اس خاتون کو بنا نقاب کے دیکھا تو۔۔۔۔ تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گۓ اور فرشتے ُکوچ کر گۓ میں نے اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا تھا میں اسے دیکھ کر گرتے گرتے بچا ۔ مجھے بڑا گہرا صدمہ لگا تھا ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو دوستو۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔ دوستو یہ تو طے ہے کہ ب آرزو نہیں مال کرتا ۔۔۔یہاں کسی کو بھی کبھی حس ِ بہت ہی لکی ہو گا وہ شخص جس کو اس کی پسند کی چیز ملی ہو ۔۔۔ اور مل بھی جاۓ تو ۔۔ انسان کبھی بھی ۔۔ اس پر قانح نہیں ہوا۔۔۔ بلکہ ہل من مزید کے چکرمیں رہتا ہے۔۔۔ ویسے زیادہ تر تو بندے کو اس کی پسند کی چیز کم ہی ملی ہے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سلیم کوثر صاحب نے شاید اسی لیۓ کہا ہے کہ میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئ اور ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آپ کو تھوڑا بور کیا اس کے لیۓ سوری۔۔ پر اس بات کا اس سٹوری سے تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے ۔۔۔ کیا ہے یہ آپ کو سٹوری پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اگر نہ چال تو ایک دفعہ پھر سوری۔۔۔ یہ کالج کے دنوں کی بات ہے میں حسب معمول گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں گیا ۔۔۔۔ اور اس دفعہ ُکھچ زیادہ ہی لیٹ ہو گیا ۔۔۔ وجہ ایک دو کیس تھے (کیس ہمارا کوڈ ورڈ تھا ۔۔۔ اس کا مطلب ہے ۔۔۔۔ لڑکی ) جو حل نہیں ہو رہے تھے ۔۔۔ پھر ہماری ثابت قدمی سے آخر کار دونوں کیس حل ہوۓ اور تب ۔۔ لوٹ کے بدھو گھر کو آۓ ۔۔۔۔ میں صبح صبح گاؤں سے چال تو رات گۓ ہی واپس گھر پہنچا ۔۔۔ سخت تھکا ہوا تھا ۔۔۔ کھانا شانا کھا کر بستر پر لیٹا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئ اور پھر صبح ہی اُٹھا ۔۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ ہم دونوں کا جوش بڑھ گیا اور وہ بار بار لن کے گرد اپنی گانڈ کو بھینچنے لگی ۔۔ اسی دوران ایسا ہوا کہ اس نے جونہی اپنی گانڈ کو بھینچا اور پھر۔۔۔ کچھ سکینڈ کے بعد اسے ڈھیال کیا تو میں نے جوش میں آ کر دونوں ہاتھوں سے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ کھولے اور ایک زور دار گھسا مارا ۔۔۔۔۔۔ اور لن اس کی ریشمی شلوار کو چیرتا ہوا اس کی گانڈ کے کافی اندر تک چال گیا اور جاتے ہی میرے لن نے ایک زور دار پچکاری ماری اور ۔۔۔۔۔۔۔ منی کا پہال قطرہ اس کی گانڈ میں گر گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی اسے فیل ہوا کہ میں ُچھوٹ گیا ہوں اس کے منہ سے آواز نکلی ۔۔۔ ہا۔۔ آ ۔۔۔۔۔ اس نے اپنے منہ سے نقاب ہٹایا اور گردن کراتے ہوۓ میری طرف دیکھا اور جیسے گھما کر ُمس ُ ہی اس کی نظر مجھ پڑی تو وہاں یاسر کی بجاۓ کراتا ہوا چہرہ حیرت مجھے کھڑا دیکھ کر اس کا ُمس ُ ۔۔۔ غم اور مایوسی میں بدل گیا منہ کھلے کا کھال رہ گیا اور وہ ایک دم پریشان ہو گئ ۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میری نظر نے اس خاتون کو بنا نقاب کے دیکھا تو۔۔۔۔ تو میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گۓ اور فرشتے ُکوچ کر گۓ میں نے اسے اور اس نے مجھے پہچان لیا تھا میں اسے دیکھ کر گرتے گرتے بچا ۔ مجھے بڑا گہرا صدمہ لگا تھا ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے بس ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر مجھے پہچان کر اس نے فورا ً ہی ایک لمبی زقند بھری اور پھر کسی خوف ذدہ ہرنی کی طرح قالنچیاں بھرتی ہو وہاں سے غائب ہو گئ ۔۔۔ ادھر میں نے بھی اسے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا ۔۔ وہ رابعہ تھی رفیق کی سب شدہ تھی اور ڈھوک کھبہ سے بڑی بہن جو کہ شادی ُ کے پاس ہی ُمکھا سنگھ اسٹیٹ میں اپنے سسرال کے سسرال میں بڑی خوش ساتھ رہتی تھی پر وہ تو اپنے ُ اور خوش حال تھی ۔۔۔ اس کا خاوند بھی اچھا خاصہ تھا اور شہر میں بڑے اچھا کاروبار کا مالک تھا خاصے سودہ حال لوگ تھے اور جہاں تک رابعہ کا تعلُق تھا آ ُ تو وہ بڑی ہی پاکیزہ ،معصوم ،بہت پڑھی لکھی اور نہایت ہی خوبصورت لڑکی تھی ۔۔ میں کافی دیر تک شاک میں رہا اور اسی کے بارے میں سوچتا رہا ۔۔۔ پھر رابعہ کو بھاگتے دیکھ کر اچانک ہوش میں آ گیا اورجب پوری طرح حواس میں واپس آ یا تو دیکھا کہ وہ بھاگتی جا رہی ہے اسے بھاگتے دیکھ کر میں نے بھی بنا سوچے سمجھے اس کے پیچھے دوڑ لگا دی لیکن اس وقت تک وہ خاصی دُور نکل گئ تھی دوسرا وہ چونکہ مجھ سے آگے سب سے اگلی رو میں کھڑی تھی اسلیۓ اس کو بھاگنے میں کوئ خاص رکاوٹ نہ پیش آئ تھی جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑا تھا اور میرے آگے لیڈیز کا کافی رش تھا اس لیۓ میں اُس رفتار سے نہ جا سکا پھر بھی میں کسی نہ کسی طرح لیڈیز سے بچتا بچاتا اس بھیڑ سے باہر نکل آیا اور پھر ادھر اُدھر نظر دوڑا کر دیکھنے لگا -سامنے دیکھا تو سنسان نظر آ ئ -اور میں سوچنے دُور تک ساری گلی ُ لگا کہ وہ جا کہاں سکتی ہے ؟؟ ۔۔۔ پھر خیال آیا ہو نا ہو وہ ملکوں کے گھر گئ ہو گی یہ سوچ کر میں ملکوں کے گھر کے میں داخل ہو گیا -دیکھا تو ان کا گھر تقریبا ً خالی نظر آ یا کہ اُس وقت مہندی کا فنگشن اپنے عروج پر تھا اور سارے ہی لوگ اسے انجواۓ کر سنسان نظر آ رہا رہے تھے اس لیۓ تقریبا ً سارا گھر ُ تھا پھر بھی میں نے ادھر اُدھر جھانک کر دیکھا تو وہاں کسی زی روح کو نہ پایا پھر میں نے سوچا ہو سکتا ہے وہ کسی لیٹرین وغیرہ میں نہ چھپی ہو یہ سوچ کر میں ایک ایک کر کے سارے کمروں کے واش ُرومز کو چیک کرنے لگا ۔۔۔ لیکن میں نے ان کو خالی پایا – پتہ نہیں رابعہ کو زمین کھا گئ تھی یا آسمان نگل گیا تھا کیونکہ میں نے گھر کا چپہ چپہ چھان مارا تھا لیکن اُس کا کوئ ُ سوراخ نہ پا سکا ۔۔۔۔ میں اسی پریشانی میں کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ یاد آیا کہ کارنر واال ُروم جو وہاں سے تھوڑا ہٹ کر تھا تو چیک ہونے سے رہ گیا ہے بظاہر تو وہاں کسی کے ہونے کا امکاں نہ تھا پر میں نے سوچا کہ جہاں اتنے ُروم چیک کرلیۓ ہیں چلو اس کو بھی چیک کرتا جاؤں یہ سوچ کر میں اُس روم کی طرف چال گیا ۔۔۔ اور ایک نظر دیکھا تو اسے خالی پایا پھر میری نظر واش روم پر پڑی تو وہ تھوڑا کو ڈھکا ہوا تھا سو میں اپنا شک دُور کرنے کے لیۓ روم کے اندر چال گیا اور جیسے ہی واش ُروم کو چیک کرنے کے لیے اس کے قریب پہنچا تو ۔۔۔۔ اندر سے ُروبی نکل رہی تھی اس کے ہاتھ گیلے تھے اور ٹاول ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا جس سے وہ اپنے ہاتھ صاف کر رہی تھی مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ ایک دم ٹھٹھک گئ اور بڑی حیرانی سے بولی ۔۔۔ تم اور یہاں ۔۔۔ ؟؟ خیریت تو ہے نا ؟ تو میں نے کہا جی بلکل خیریت ہے دراصل میں یہاں کسی بندے کو ڈوھنڈ رہا تھا تو وہ بولی میں کافی دیر سے ادھر ہی ہوں اور میں نے تو یہاں کوئ بندہ پرندہ نہیں دیکھا تو میں نے کہا ۔۔۔ ٹھیک ہے جی تھینک یو ۔۔۔۔۔۔ اور واپسی کے لیۓ چل پڑا۔۔۔ ایک قدم بعد ہی میں سنی ایک منٹ ایک منٹ نے پیچھے سے اس کی آواز ُ ۔۔ رکو اور میں وہاں پر ُرک گیا اور سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا ۔۔۔ وہ میرے بلکل پاس آ گئ اور سکیڑ کر فضا میں کچھ سونگھنے کی کوشش اپنی ناک ُ کرنے لگی ۔۔۔ پھر اس کی نظر میری شلوار پر پڑی ۔۔۔۔ اوہ۔۔۔ یہ تو میں بھول ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی دیکھا دیکھی اب جو میں نے اپنے نیچے نظر دوڑائ تو دیکھا کہ میری ساری شلوارگیلی ہو چکی تھی اور وہ منی سے بھری ہوئ ہے جبکہ آگے سے میری قمیض ُچرنڈ ُمرنڈ ہو کر اوپر کو اُٹھی ہوئ تھی ۔۔ روبی نے ایک نظر مجھے اور ایک نظر میری شلوار پر ڈالی اور وہ ایک سکینڈ میں ہی ساری بات سمجھ گئ پھر اس نے نیچے سے اوپر تک مجھے اور شلوار کو دیکھا اور بولی ۔۔۔ تم اپنی حرامزدگیوں سے باز کیوں نہیں آتے ۔ تو میں نے قدرے حیرانگی سے کہا ۔۔ میں نے کیا کیا ہے روبی جی ؟ تو وہ قدرے سخت لہجے میں میری شلوار کی طرف اشارہ کر کے بولی ۔۔۔۔ اچھا تو پھر یقیننا ً یہ آپ کا پیشاب نکال ہو گا ۔۔۔ اس کی یہ سن کر میں خاصہ شرمندہ ہو گیا اوراپنا سر نیچے بات ُ جھکا لیا یہ دیکھ کر وہ اور بھی سخت لیجے میں بولی زیادہ ایکٹینگ کرنے کی ضرو رت نہیں ہے یہ شرم تم نے اُس وقت کرنی تھی کہ جب تم یہ حرکت فرما رہے تھے۔۔ پھر کہنے لگی ویسے باۓ دی وے الٹ صاحب وہ کون تھی جس کے ساتھ آپ نے یہ حرکت فرمائ ہے ۔۔ میرا ایک دل تو کیا کہ میں اس کو صاف صاف بتا دوں کہ میں نے یہ حرکت آپ کی بڑی بہن کے ساتھ فرمائ تھی ۔۔ پر ُچپ رہا اور کوئ جواب نہ دیا تب وہ کہنے لگی اچھا اچھا اگر تم اس کا نام نہیں بتانا چاہتے تو میری طرف سے تم دونوں جہنم میں جاؤ مجھے کیا ۔۔ سکیڑی پھر اچانک اس نے کوئ تیسری دفعہ اپنی ناک ُ اور ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ او کے جو ہوا سو ہوا اب تم ایسا کرو کہ اپنی شلوار اُتار کے مجھے دو کہ میں اس کو دھو کر استری کر دوں ۔۔۔ اور پھر سکیڑ کر فضا میں کچھ سونگھ کر گہرے اپنی ناک ُ گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی نشیئوں کی طرح اس نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لیں ۔۔۔ اچانک میرے زہن میں جھماکا ہوا اور مجھے سمجھ میں آ گیا کہ وہ کس چیز کو سونگھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ جہاں تک میں سمجھ پایا تھا وہ میری منی کی بُو سونگھ رہی تھی اس وقت تک مجھے چھوٹے ہوۓ بس دو تین منٹ ہی ہوۓ تھے دوسرا یہ کہ چانکہ لن کے سامنے اس کی پسندیدہ چیز یعنی کہ ایک نرم موٹی اور ُمالئم گانڈ تھی اس لیۓ لن نے بھی جی بھر کے اور معمول سے تھوڑی زیادہ منی چھوڑی تھی اور اسی منی کی مست بُو اس کے نتھنوں میں آ رہی تھی جسے وہ بار بار اپنی آنکھیں بند کر کے سونگھ رہی تھی اور اسی لیۓ اس نے مجھے کہا تھا کہ میں شلوار اُتار کر دوں کہ وہ اسے دھو کر استری کر دے گی جب میں ساری بات سمجھ گیا تو میں نے اسے ٹیز کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن ویسے ہی کھڑا رہا ۔۔۔ جب اس نے دیکھا کہ میں سنا سنی تو وہ کہنے لگی اوۓ ُ نے اس کی بات نہیں ُ نہیں جلدی سے شلوار اُتار کر مجھے دو کہ میں اسے دھو کر استری کر دوں ورنہ کوئ آ گیا اور اس نے تمہیں اس حالت میں دیکھ لیا تو بڑا مسلہ ہو جاۓ گا تو میں نے اس سے کہا کہ شلوار میں خود دھو لوں گا آپ بس اس پر استری مار دینا تو وہ بے چارگی سے بولی نہیں تم دھوتے ہوۓ اچھے لگو گے تو میں نے تُرت ہی جواب دیا کہ آپ میری ۔۔۔۔۔ والی جگہ دھوتی ہوئ سن کر وہ ایک دم ہنس پڑی اور بولی اچھی لگو گی یہ ُ تم میرے اندازے سے زیادہ انٹیلی جنٹ ہو ۔۔۔ اور چپ کر گئ پھر میں اس کے پاس چال گیا اور بوال ۔۔۔ آپ نے( گیلی شلوار کی طرف اشارہ کر کے ) اس کی سمیل کو اِن ہیل کرنی ہے نا ۔۔ تو اس نے کوئ جواب نہ دیا اور خاموش رہی ۔۔ اب میں نے اپنی شلوار کے دونوں گھیروں کو کونوں سے پکڑا اور انہیں ہالنے لگا جس سے فضا میں تھوڑا سا ارتعاش پیدا ہوا اور تھوڑی سی ہوا چلنے سے گیلی شلوار سے منی کی مخصوص بُو تیزی سے نکل کر فضا میں پھیل گئ روبی نے کسی نشئ کی طرح فورا ً ہی اپنا ناک کو سکیڑا اور آنکھیں بند کر کے گہرے گہرے سانس ُ لینے لگی پھر اس نے فورا ً ہی اپنی آنکھیں کھولیں اور کہنے لگی بڑے حرامی ہو تم ۔۔۔ تو میں نے کہا میڈم آپ سیدھی بات جو نہیں کر رہی تھیں اس لیۓ مجبوراً۔۔ مجھے یہ ڈرامہ کرنا پڑا تو وہ بولی اب جبکہ تم ساری بات جان گۓ ہو تو پلیز فورا ً اپنی شلوار کو میرے حوالے کر دو تا کہ میں اسے اچھی طرح انجواۓ کر سکوں اور پھر میں نے وہیں کھڑے کھڑے ہی شلوار اُتارنے لگا تو وہ بولی ۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو ایڈیٹ ؟؟؟ ۔۔۔ یہاں نہیں تم واش روم میں جا کر اُتارو اور میں واش روم میں چال گیا اور اپنی شلوار اُتار کے اس کے حوالے کر دی اور چوری چوری اسے دیکھنے لگا تو وہ واقعہ ہی کسی نشئ کی طرح میری شلوار کو اپنے سونگھ رہی تھی پھر وہ شلوار لیۓ ناک سے لگا کر ُ باہر نکل گئ اور میں واش روم میں دُبکا اس کا انتظار کرتا رہا ۔۔۔ کوئ پندرہ منٹ بعد وہ واپس ُروم میں آئ اور دُور سے کھڑے ہو کر آواز دی ۔۔۔۔ شاہ تم ہو نا تو میں اس کی سن کر ایسے ہی باہر آیا تو وہ مجھے دیکھ کر آواز ُ بولی ۔۔ کچھ شرم کرو ایڈیٹ ۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو وہ شلوار دھو کر استری بھی کر الئ تھی مجھے شلوار دیتے ہوۓ بولی اب اپنی قمیض بھی دو کہ میں اس کو بھی استری کر دوں ۔۔ اور میں جو شلوار پہن چکا تھا قمیض اتار کر اس کے حوالے کر دی اس نے قمیض لی اور فورا ً ہی باہر نکل گئ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ میری قمیض کو بھی اچھی طرح سے استری کر الئ تھی ۔۔ مجھے قیمض پکڑا کر جیسے ہی جانے لگی تو میں نے اسے آواز دے کر روک لیا اور بوال ۔۔۔ روبی جی ایک منٹ ُرکو تو۔۔۔ اور وہ واپس جاتے جاتے ُرک گئ اور وہیں سے بولی ۔۔۔ جی فرمائیۓ ؟ سونگھنی ہے ؟؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اور خوشبو ُ سن کر وہ ایک دم ہنس پڑی اور بولی ۔۔۔ تم میری بات ُ پکے حرامی ہو ۔۔۔۔ تو میں نے کہا اچھا چلیں یہ تو اس حرامی کو بتا دیں کہ میری ۔۔۔۔ کی بُو آپ کو کیسی لگی ؟ میری بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گئ اور میرے خیال میں وہ دل ہی دل میں یہ فیصلہ کررہی تھی کہ آیا وہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے ۔۔۔ کافی دیر تک وہ ُچپ رہی اور اس کے چہرے پر کشمکش کے آثار واضع طور پر دکھائ دینے لگے ۔۔ پھر اچانک اس کا چہرہ نارمل ہو گیا اور وہ یقینا ً کسی فیصلے پر پہنچ گئ تھی پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بولی وہ تو میں تمہیں بعد میں بتاؤں گی پہلے تم سچ سچ بتاؤ کہ وہ کون تھی جس کے ساتھ تم نے یہ حرکت کی تھی ۔۔۔ اب میں نے بھی اسے آدھا سچ اور باقی جھوٹ بولنے کا فیصلہ کر لیا اور کہا اسی کو تو ڈھونڈتے ڈھونتے آپ کے پاس پہنچ گیا تھا تو وہ بولی کیا مطلب تم نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا تو میں نے نفی میں سر ہال دیا تو وہ کہنے لگی ۔۔ میں نہیں مانتی تو میں نے کہا کہ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ وہاں کتنا رش ہے تو یہ جو کوئ بھی تھی میری آگے کھڑی ہوئ تھی تو وہ بولی پہل کس نے کی تھی تو میں نے کہا کسی نے بھی نہیں تو وہ بولی ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو میں نے کہا حضور یہ ایسے ہو سکتا ہے کہ پہلے تو رش کی وجہ سے ایک آدھ دھکہ لگا اور وہ میرے پاس آ گئ اور اتفاق سے اس نے اپنی نرم ۔۔۔۔ اور پھر میں نے تھوڑا وقفہ دیے کر کہا میرا مطلب سمجھ رہی ہیں نا آپ تو وہ بولی ۔۔۔ سمجھ رہی ہوں پر چونکہ اب ہم میں کوئ پردہ نہیں رہا اس لیۓ تم ُکھل کر بات بتا سکتے ہو ۔۔۔ اور میں نے دل ہی دل میں خود سے کہا ۔۔۔۔ لو اُستاد ایک اور میچور لڑکی مبارک ہو اور پھر میں نے داستان کو خوب نمک مرچ لگا کر سنانے کا فیصلہ کر لیا – ُ طرف اور اسے بتانے لگا کہ میں ویسے ہی لیڈیز کی ٖ کھڑا حاالت کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک رش میں ایک دھکہ سا لگا اور اس دھکے میں بائ چانس ایک خاتون عین میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئ ۔۔۔ اُس کے اس طرح کھڑے ہونے سے اس کی تشریف میری تھائیز کے ساتھ ٹچ ہونئ ۔۔۔ اُف ۔۔۔ اس کی تشریف اتنی نرمُ ،مالئم اور موٹی تھی کہ میرا دل بے ایمان ہو گیا ۔۔۔۔ حاالنکہ وہ اس طرح میرے ساتھ بس میں چند ہی سکینڈ رہی ہو گی لیکن ان چند سیکنڈ میں اس کی گانڈ کے لمس نے مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ( اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے بوال کہ) اپنا یہ اس کی نرم بُنڈ کے ساتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔ رش کی وجہ سے پہلے تو اس کو پتہ ہی نہ چال کہ اس کے ساتھ کیا واردات ہو رہی ہے لیکن جب میرا ۔۔۔۔۔۔۔ مسلسل اس کے ساتھ ٹچ ہونے لگا تو وہ بھی چونکی اور اس نے ُمڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا پھر پتہ نہیں اس کے دل کیا بات آئ کہ مجھے دیکھ کر اس نے خود ہی اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کر کے میرے ساتھ ٹچ کر دیا اور پھر گانڈ کو آہستہ آہستہ میرے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد میں نے جان بوجھ کر حکایت کو اتنا لزیز کر کے پیش کیا کہ وہ گرم ہونا شروع ہو گئ اور واضع طور پر اس کا چہرے پر اللی آ گئ ۔۔۔۔ اور وہ تھوڑا سا آگے جھک کر میری داستان سننے لگی ۔۔۔۔۔ اور میں داستان سنانے کے ساتھ ساتھ اس کے کھلے گلے میں نظر آنے والے سفید مموں کا بھی نظارہ کرنے لگا ۔۔ میری داستان سنتے اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ کہنے لگی سنتے ُُ ۔۔ ایک بات تو بتاؤ ۔۔ تو میں نے کہا جی پوچھو پلیز ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی تم نے اتنی دیر اس کے ساتھ حرام زدگی کی اور ایک دفعہ بھی اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے یہ بات مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی تو میں نے کہا روبی جی اب میں آپ کو کیسے یقین دالؤں تو وہ کہنے لگی کوئ ضرورت نہیں یقین دالنے کی۔۔۔۔۔ پھر بولی بلکہ تم اس ٹاپک کو ہی چھوڑو اور مجھے ایک اور بات کا جواب دو جومیں بڑے عرصے سے تم سے جاننا چاہتی تھی بولو بتاؤ گے نا ۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ آپ پوچھو میں ضرور بتاؤ گا۔۔۔ تو وہ بولی اچھا تو پھر سلطانہ کو چھوڑ کو مائرہ کو کیوں سچ سچ بتاؤ تم نے ُ پسند کیا تو میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو بلکل سچ سلطانہ سے اس کا زکر بتاؤں گا لیکن آپ وعدہ کریں ُ نہیں کریں گی تو وہ کہنے لگی یہ بات تو میں نے بھی تم سے کرنی تھی کہ آج جو کچھ بھی ہوا ہے تم اس کا زکر کسی سے بھی نہیں کرو گے تو میں نے جھٹ وعدہ کر لیا اور اس نے بھی کہہ دیا کہ وہ میری کسی سلطانہ ملک سے نہیں کرے گی پھر کہنے بات کا زکر ُ لگی ویسے ایک بات ہے تم نے اس پر مائرہ کو ترجیح دے کر اس کی انا کو بڑا ہڑت کیا ہے پھر کہنے لگی سلطانہ جیسی ہاں بتاؤ کیا وجہ تھی جو تم نے ُ خوبصورت لڑکی کو چھوڑ کر مائرہ جیسی کالی کلوٹی لڑکی کو پسند کر لیا تھا تو میں نے کہنا شروع کر دیا ۔۔۔ سلطانہ بڑی ہی حسین لڑکی اس میں کوئ شک نہیں کہ ُ ہے اور ایسی معشوق قسمت والوں کو ہی ملتی ہے پر روبی جی وہ ہر وقت یہی چاہتی تھی کہ میں اس کی خوبصورتی کے گیت گاؤں اور ہر ٹائم اس کا احسان مانوں کہ محلے کی نہیں عالقے کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی میرے ساتھ سیٹ ہے میں نے اس سے ہزار دفعہ ملنا کا کہا پر وہ ہر دفعہ یہی کہتی کہ ٹائم نہیں ہے اسکے عالوہ بھی وہ نا تو کس دیتی تھی سن کر روبی کہنے لگی تو اور نا کوئ اور چیز ۔۔۔۔ یہ ُ مسڑ یہ بتاؤ مائرہ ۔۔۔ یہ سب کرتی تھی تو میں نے بے دھڑک کہہ دیا جی وہ یہ سب نہیں ان سے کچھ زیادہ سن کر اس کی آنکھیں کھلی ہی کرتی تھی میری بات ُ کی کھلی رہ گئیں اور وہ بڑے پُر اسرار لہجے میں بولی شاہ !! ۔۔ کیا تم نے مائرہ کے ساتھ انٹر کورس کیا ہے ؟ تو میں نے کہا جی کیا ہے تو وہ بولی کتنی دفعہ ۔۔۔۔ ؟؟ تو میں نے کہا یاد نہیں تو وہ تھوڑا حیران ہو کر بولی ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ رئیلی تو میں نے کہا جی میں سچ کہہ رہا ہو تو وہ بولی اچھا یہ بتاؤ کہ تمھاری اس کے ساتھ دوستی کیسے ہوئ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔۔ روبی جی یہ تو آپ جانتی ہی ہیں کہ لڑکی جتنی بھی کرپٹ کیوں کرتی۔۔۔۔ پہل نہ ہو وہ کبھی بھی پہل نہیں کرتی ۔۔۔ پہل ہمیشہ مرد ہی کی طرف سے کی جاتی سناتے ہو بوال ۔۔ یہ ان دنوں کی ہے ۔۔۔ اور پھر کہانی ُ عروج پر سلطانہ کے ساتھ میرا آنکھ مٹکا ُ بات ہےجب ُ تھا لیکن اس کے نخروں نے مجھے عاجز کر رکھا تھا ۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے ساتھ والے گھر میں مائرہ لوگ آ گۓ یہ ُکل 3لوگ تھے ایک مائرہ کی امی جس کو گھٹنوں کی پرابلم تھی اور وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھی دوسرا اس کا باپ جو پاک سیکٹریئٹ اسالم آباد میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھا اور تیسری وہ سلطانہ کے ترلے خود ۔۔۔۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں ُ ڈال رہا تھا کہ ساتھ والے چھت پر مائرہ آ گئ میں نے ساتھ ولے چھت پر ایک سانولی سے خاتون دیکھی پر سلطانہ کے ساتھ بزی تھا اس لیۓ کوئ ۔۔۔ چونکہ میں ُ نوٹس نہ لیا ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن وہ جب بھی چھت پر آتی وجہ بے وجہ کھڑی رہتی ۔۔۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ آ بیل میری مار ۔۔۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر میں چونک گیا اور میری چھٹی حس نے مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتا دیا کہ ۔۔۔ جو بڑھ کے ہاتھ تھام لے ساغر اسی کا ہے اس سے پہلے کہ کوئ اور یہ پتنگ لُوٹ لے ۔۔ جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ دیر نہ ہو جاۓ ۔۔۔ یہ سوچ کر میں اس کی طرف بڑے ہی محطاط انداز میں متوجہ ہو گیا ۔۔۔ اب میری ایک نظر سلطانہ کر طرف ہوتی اور دوسری مائرہ کی طرف ۔۔ (جو مجھے بعد میں پتہ چال) پھر آہستہ آہستہ مائرہ کے ساتھ بھی آنکھ لڑ گئ ۔۔۔۔ یہ سلسلہ کچھ دن تک چلتا رہا ۔۔ پھر میں نے سوچا کہ اب بات آگے بڑھانی چاہیۓ۔۔ کافی سوچا پر کوئ ترکیب سمجھ میں نہ آ رہی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے میں مقررہ وقت پر چھت پر گیا تو گھر والوں نے کپڑے دھو کر سوکھنے کے لیۓ تار پر لٹکاۓ ہوۓ تھے انہیں دیکھ کر اچانک میرے زھن میں ایک آئیڈیا آگیا اور میں نے فورا ً ہی تار پر لٹکے ہوۓ کپڑے اتارے اور اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی چھت پر پھینک دییۓ ۔۔ اور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا کچھ دیر بعد جب وہ اپنی چھت پر آئ تو میں اس کے پاس چال گیا اور بوال ایکسکیوز می جی !! آپ کی چھت پر ہمارے کپڑے ِگرے ہیں پلیز دے دیں اس نے فورا ً کپڑے اٹھاۓ اور مجھے دیتے ہوۓ بولی اچھا طریقہ ہے بات کرنے تو میں نے کہا جی اس کے بغیر گزارہ بھی تو نہیں ہے نا پھر میں نے اس سے اس کا نام پوچھا اور اپنا بتایا اور اس نے بتایا کہ وہ لوگ پہلے آریہ محلہ میں رہتے تھے یوں اس طرح میری مائرہ سے بات چیت شروع ہو گئ کچھ عرصہ تو میں نے بڑی شرافت سے اس کے ساتھ بڑی اچھی اچھی باتیں کیں پھر اس کے بعد میں نے ایک دفعہ اس کے ساتھ باتوں باتوں میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور سہالنے لگا پھر اس کے بعد کچھ عرصہ بعد ہاتھوں سے میں تھوڑا آگے بڑھنے لگا تو اس نے کہا کہ یہ ٹائم مناسب تم رات 9،10بجے آنا ۔۔ چانچہ میں اس کے دیۓ ہوۓ ٹائم پر رات اس کے ساتھ مال اور باتوں باتوں میں اس سے ھگ کی درخواست کی تو اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مجھ سے جپھی لگائ اور پھر کچھ دیر بعد اس نے مجھے جانے کو کہہ دیا اور میں بڑی شرافت سے واپس آ گیا کہ بہتری اسی میں تھی۔۔ اس کے بعد پھر ایک دن رات کو میں اس کی چھت پر سہانی رات تھی ہر طرف سناٹا تھا میں نے جاتے گی ا ُ ہی اس کو اپنے گلے سے لگا لیا اور ایک ٹائیٹ سا ہگ دیا پھر میں نے اس کے نرم لبوں کو چوما اور ۔۔۔۔ دوران کسنگ میں نے اس کے ممے دبا دیۓِ اور پھر اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔ اس پہلے کہ میں آگے کچھ کہتا ۔۔۔ روبی فورا ً بولی ۔۔ بس بس۔۔ اس سے آگے کچھ نہ ُ سنانا میں ساری بات سمجھ گئ ہوں تو میں نے کہا ُروبی جی ابھی تو مسالے والی داستان شروع ہوئ تھی تو وہ ہنس کر بولی تمھارے اسی مسالے سے تو میں پچنا چاہتی ہوں۔۔ تو میں نے کہا آپ کی مرضی ہے لیکن اب تو آپ کو بتانا پڑے گا کہ میری منی کی بُو کیسی تھی تو وہ میری طرف گہری نظروں سے دیکھ کر بولی ۔۔۔ تم اور تمھارے سیمنز (منی) کی سمیل (بُو) اک دم فسٹ کالس ہے اور یقین کرو میں نے اسے بڑا انجواۓ کیا ہے اور ابھی تک کر رہی ہوں تو میں نے حیرانی سے کہا ابھی تک کیسے ؟ تو وہ کہنے لگی بےوقوف آدمی تم کو معلُوم نہیں کہ تمھارے پسینے میں ڈُوبی باڈی کی سمیل کتنی سیکسی ہے اسی لیۓ تو میں ابھی تک تمھارے پاس بیٹھی ہوئ ہوں تو میں نے ڈرتے ڈرتے روبی سے کہا ۔۔۔ روبی جی !! اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں آپ سے ایک سوال پوچھوں ؟ تو وہ کہنے لگی ہاں ضرور پوچھو ۔۔۔ تو میں نے کہا آپ کا شوق کچھ عجیب سا نہیں ہے اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ آپ کو اس چیز کو شوق کیسے ہوا۔۔؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر شرارت سے بولی بتا دوں ؟ تو میں نے کہا بتانے کے لیۓ ہی تو پوچھ رہا ہوں تو وہ سنجیدہ ہو کر بولی اس کے لیئے تمیں مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا تو میں اس کی بات سمجھ کر بوال جی میں آپ کی ساری بات سمجھ گیا ہوں اور آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ یہ بات صرف میرے اور آپ کے بیچ میں ہی رہے گی ۔۔۔ سن کر وہ کہنے لگی سالے تم بڑے انٹیلی میری بات ُ جنٹ ہو ِادھر میں بات کی اُدھر تم سمجھ گۓ پھر سیریس ہو کر بولی پلیز اپنے وعدے کا پاس نبھانا ۔۔۔۔ تو میں نے کہا اس بات سے آپ بے فکر رہو میں اپنے وعدے کا ہر حال میں پاس کروں گا ۔ تو وہ مطمئین ہو کر بولی ۔۔۔۔۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ میٹرک میں نے سینٹ میری سکول مری روڈ سے کی تھی اس کے بعد آپی (رابعہ ) نے میرا داخلہ اپنے کالج یعنی گورنمنٹ کالج براۓ خواتین سکستھ روڈ راولپنڈی میں کروا دیا تھا تب ہم لوگ بھی ُمکھا سنگھ اسٹیٹ میں رہتے تھے اور تم کو پتہ ہی ہے کہ ہم لوگ کمیٹی چوک سے بزریعہ بس سکستھ روڈ جاتے تھے پھر کہنے لگی اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ سکستھ روڈ پرعین ہمارے کالج کے سامنے 8نمبر بس کا سٹاپ تھا جس کے رش کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ کالج جانے کے لیۓ ہمارے ہمارے محلے ہی کی ایک لڑکی جو مجھ سے ایک کالس سنیئر تھی کا ساتھ مجھے ُمیسر آ گیا تھا ۔۔ میں اُس کے ساتھ خوشی خوشی جانے لگی ۔ ایک آدھ ماہ تو مجھے پتہ بھی نہیں چال اور سچی بات ہے میں نے غور بھی نہیں کیا پھر آہستہ آہستہ میں نے نوٹ کیا کہ میرے ساتھ جانے والی لڑکی ہمیشہ بس کے گیٹ کے پاس ہی کھڑی ہوتی تھی اور مجھے بس کے اگلے حصہ میں جانے کے لیۓ کہتی تھی ایک دو ماہ تو میں نے اس کی ہدایت پر بے چوں و چراہ عمل کیا پھر آہستہ آہستہ مجھ پر بس کے اگلے گیٹ پر کھڑے ہونے کا راز ُکھل گیا ویسے بھی اب کالج میں میری کافی فرینڈز بن گئیں تھیں اور جو بھی مجھ سے پوچھتی کہ تم کہاں سے آتی ہو تو جب میں اُن کو بس کا بتاتی وہ یہ بات ضرور کہتی کہ پھر تو تم شروع میں شروع ُ ایک ٹکٹ میں دو مزہ لیتی ہو گی ۔۔۔ ُ تو مجھے اس بات کا مطلب سمجھ نہ آیا ۔۔ پھر میری ایک دوست نے جو خود بھی لیاقت باغ سٹاپ سے بیٹھتی تھی نے مجھے ساری بات سمجھا دی ۔۔ اور پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ہماری محلے دار نے کسی وجہ سے کالج سے اکھٹی چار پانچ چھٹیاں کر لیں ۔۔۔ میری تو جیسے عید ہو گئ اور نیکسٹ ڈے میں اکیلی ہی کالج جانے کے لیۓ گھر سے نکلی اور اپنے پالن کے ُمطابق بس کے گیٹ کے پاس ہی کھڑی ہو گئ ۔۔۔ جیسے ہی بس چلی اور اس نے کمیٹی چوک کا اشارہ کراس کیا تو کھیل شروع ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ کھڑی لڑکی کے عین پیچے ایک لڑکا کھڑا ہوا ہے اور کچھ دیر بعد وہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے ساتھ پیچے کی طرف سے ُجڑ گۓ تھے اور پھر میں نے دیکھا لڑکے کہ جس نے پینٹ پہنی ہوئ تھی ہولے سے لڑکی کا ایک بریسٹ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے پریس کرنے لگا پھر میں نے بڑی مشکل سے ۔۔۔ اس لیۓ کہ رش بہت زیادہ تھا سے دیکھا تو لڑکے کا اگلے واال حصہ (لن) لڑکی کے پچھلے والے حصے میں ُکھبا ہوا تھا اور وہ لڑکی خود ہی ہولے ہولے پیچھے کی طرف گھسے لگا رہی تھی یہ منظر دیکھ کر میں کافی گرم ہو گئ اور ایک عجیب سی فیلنگ میری ساری باڈی میں پھیل گئ میں ان کو یہ کام کرتے ہوۓ بڑے ہی غور سے دیکھ رہی تھی جیسے ہی کوئ سٹاپ آتا وہ وہ دونوں تھوڑی دیر کے لیۓ علیحدہ ہو جاتے اور جیسے ہی بس چلتی وہ لوگ پھر ایک دوسرے کے ساتھ ُجڑ جاتے مجھے یہ سین دیکھ کر بڑا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ پھر ایسا ہوا کہ آئ تھنک ناز سینما سٹاپ پر ایک دو عورتیں اُتریں اور ان کی جگہ 3،4کالج کی لڑکیاں سوار ہو گئیں ایک دم دھکم پیل سے میری جگہ تبدیل ہو گئ اور پتہ نہیں کیسے میں بس کی سیڑھیوں کے پاس کھڑی ہو گئ ۔۔۔ بس چلنے کے کچھ ہی دیر بعد مجھے اپنی بیک پر کچھ فیل ہوا ۔۔۔۔ کوئ میرے ساتھ ُجڑنے کوشش کر رہا تھا ۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے اپنی بیک پر ایک ہاتھ کو فیل کیا جو بڑے ہی پیار سے میرے بیک پر مساج کر رہا تھا ۔۔۔ چونکہ یہ میرا فسٹ ٹائم تھا اس لیۓ میرے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئ ۔۔ پہلی دفعہ کسی میل کا ہاتھ میری بیک پر ٹچ ہوا تھا اس لیۓ مجھے بڑا عجیب سا فیل ہو رہا تھا لیکن مزہ بھی ا رہا تھا اور ٹانگیں بھی کانپ رہی تھیں پر میں نے حوصلے سا کام لیا اور ویسے ہی کھڑی رہی ۔۔۔ اور پھر اگلے سٹاپ پر جب دھکم پیل ہوئ تو پتہ نہیں وہی لڑکا تھا یا کوئ ۔۔۔ عین میرے پیچھے کھڑا ہو گیا اور اپنا ڈِک ( لن) میری بیک (گانڈ ) کے ساتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔ اس کا ڈِک بڑا ہی ہارڈ تھا اور اس نے پینٹ پہنی ہوئ تھی اس لیۓ وہ میری بیک میں تو نہ جا سکا پر اس کی اس ہارڈنس کی زبر دست فیلنگ میرے سارے جسم میں سرائیت کر گئی اور پہلی دفعہ مجھے اپنی پوسی (چوت ) سے پانی ِرستا ہوا فیل ہوا ۔۔۔ اور میں اک سرور جس سے میں سرور میں ڈوب گئ ایسا ُ انوکھے ُ آج تک نا بلد تھی اور پھر میں اپنی ساری بیک اس کے ساتھ جوڑ دی اور اس نے بھی اپنا ڈِک میری بیک کے دراڑ میں گھسا دیا پینٹ کی وجہ سے اس کے ڈِک کی نوک تو میری بیک کی دراڑ میں نہ جا سکی لیکن اس کا ڈک ٹیرھا میڑھا ہو کر میری بیک کی دراڑ میں پھنس گیا اور میں اس کے ڈِک کو اپنی بیک میں فیل کر کے مزے لینے لگی ۔۔ پھر یہ ہُوا کہ ابھی میں اس لڑکے کا ڈِک اپنی بیک پر انجواۓ کر رہی تھی کہ اچانک میرے آس پاس ایک عجیب سی نشہ آور بُو پھیل گئ ایک دم تو مجھے کچھ سمجھ نہ آئ کہ یہ کیا چیز ہے پھر میں نے غور سے دیکھا تو وہی لڑکا لڑکی جن کا میں شو دیکھ رہی تھی ۔۔ اور جس نے اپنی بیک اس لڑکے کے ساتھ فٹ کی ہوئ تھی وہ ایک دم آگے ہو گئ اور میں نے دیکھا تو لڑکے کی آگے والی سائیڈ پوری طرح سے گیلی ہو چکی تھی اور یہ دلکش بُو اسی گیلی پتلُون سے آ رہی تھی بعد میں مجھے پتہ چال کہ اس دلکش بُو کو منی کی بُو کہتے ہیں ۔۔ اور مجھے پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایسا لگتا تھا کہ میں نے کوئ 10بوتل شراب پی رکھی ہے اب تم اس کو میری دیونگی سمجھو یا کچھ اور میں کسی نہ کسی طرح اس لڑکے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئ اور اس کی پینٹ سے نکلنے والی بپو کو انہیل کرنے لگی پھر تو میں اس بُو کی دیوانی ہو گئ۔۔ بلکہ یہ میرا شوق بن گیا اس کے بعد وہ لڑکا فورا ً ہی بس سے اتر گیا اور میں دوبارہ اسی لڑکے کے پاس چلی گئ اور سلسلہ وہیں سے جوڑ لیا جہاں سے ٹوٹا تھا ۔۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ کہہ اس کا ڈِک میری بیک میں پھنسا ہوا تھا اور میں اسے انجواۓ کر رہی تھی کہ اتنے میں کنڈیکٹر نے آواز لگائ سکستھ روڈ والے تیار ہو جائیں اور میں ہڑ بڑا گئ اور جی تو نہ کر رہا تھا پر پھر بھی میں نے اپنی بیک اس سے علیحدہ کی اور سٹاپ آنے پر نیچے اُتر گئ ۔۔۔ اس واقعہ کے بعد اس رات میں سو نہ سکی ساری رات میں نے اپنی بیک میں اس نامعلوم لڑکا کا ڈِک فیل کرتی رہی اور پھر ساتھ ہی سیمنز کی وہ بُو مجھے یاد آ کر پاگل بنا دیتی تھی ۔۔۔ اور پھر میں نے الئیف میں پہلی دفعہ واش ُروم میں جا کر دروازے کے ساتھ اپنی پُوسی (چوت) خوب رگڑی اور فنگرنگ بھی کی اور اپنی پوسی (چوت ) سے نکلنے والے پانی کو اپنی فنگر پر لگا کر سونگھا مجھے اپنے اس عمل پر خود بھی بہت خوب ُ حیرت ہو رہی تھی کہ یہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔ ؟؟؟ پر میں اپنے جزبات کے ہاتوں مجبور تھی اور اسی رات مجھ پر یہ بات ُکھلی کہ مجھے منی کی بُو بہت اچھی لگتی ہے ۔۔۔۔ اس کی کوئ نفسیاتی وجہ تو مجھے نہیں معلوم پر اتنا معلوم ہے کہ میں اس چیز کی دیوانی ہوں سنائ اور ُچپ ہو گئ تو میں نے ۔۔۔ روبی نے اتنی بات ُ کہا بڑا مزہ آ رہا ہے پلیز آگے بھی بتائیں نا تو وہ بولی۔۔ آگے کیا بتاؤں یار ۔۔۔۔ اس طرح مجھے بس میں ہونے والی وارداتوں کا پوری طرح سے علم ہو گیا اور کچھ ہی عرصہ میں میں بھی اس کام میں بڑی ایکسپرٹ ہو گئ تو میں نے کہا کہ روبی جی جب آپ کی محلے دار چھٹیوں سے واپس آئ تو پھر کیا ہوا ۔۔۔ ؟؟ اسے آپ کی وارداتوں کا علم نہیں ہوا ۔۔۔ تو وہ بولی ہونا کیا تھا ہمارا درمیان ایک خاموش معاہدہ طے پا گیا تھا کہ جس کی جو مرضی ہے کرو اور ہم نے ایک دوسرے کے کاموں میں دخل نہیں دینا نہ ہی ایک دوسرے کے بھید کھولنا ہے کیونکہ وہ بھی سمجھ گئ تھی کہ میں سب جان گئ ہوں اب وہ اپنا شکار کرتی اور میں اپنا۔۔ بس اس طرح ہمارا کھیل جاری رہتا اور تقریبا ً ہر دوسرے تیسرے دن کوئ نہ کوئ لڑکا ڈسچارج ہو جاتا تو وہ میرے لیۓ اصل مزہ ہوتا تھا جبکہ دوسرا کام میں صرف بونس میں انجواۓ کرتی تھی تو میں نے پوچھا روبی جی یہ حرکت آپ کسی مخصوص لڑکے کے ساتھ کرتی تھی یا جو بھی سامنے آ جاۓ اور دوسرا آپ کو اس بات سے ڈر نہیں لگتا تھا کہ کوئ آپ کو پہچان نہ لے تو وہ کہنے لگی بات تمھاری ٹھیک ہے پر شروع میں ہی مجھے ان کاموں کی ایک ایکسپرٹ لڑکی نے بتا دیا تھا کہ جب بھی یہ کام کرو تو اپنا منہ ضرور ڈھانپ لیا کرو تا کہ کوئ آپ کو پہچان نہ سن سکے اور میں ایسا ہی کرتی تھی ( روبی کی بات ُ کر مجھے اچانک رابعہ یاد آگئ جب وہ میرے ساتھ اپنی گانڈ رگڑ رہی تھی تو میں حیران تھا کہ اتنی شریف لڑکی کس طرح تجربہ کار رنڈیوں کی طرح اپنی گانڈ میرے ساتھ لگا رگڑ رہی ہے اور کتنی مہارت کے ساتھ میرا ٹوپا اپنی گانڈ کی موری کے اندر لے رہی تھی ۔۔۔ روبی نے بتایا تو اب سمجھ میں آیا کہ چونکہ وہ بھی گورنمنٹ کالج براۓ خواتین میں پڑھی تھی اور وہ بھی بس میں جاتی آتی تھی اس لیۓ ۔۔۔ پھر یاد آیا یہ تینوں بہن بھائ شکل سے جتنے شریف ، معصوم اور ُمہزب لگتے تھے اندر سے اُتنے ہی سیکسی ہیں ۔۔ تو گویا ایں خانہ ہمہ آفتاب است واال معاملہ تھا ) ادھر میرے زہن میں یہ خیال آ رہا تھا ادھر روبی کہہ رہی تھی سو مائ ڈئیر میں بھی ہمیشہ اپنا منہ اچھی طرح ڈھانپ کر یہ واردات کرتی تھی تو میں نے پوچھا کہ کسی نے پہچانا بھی ؟ تو وہ کہنے لگی پہچانا تو نہیں ہاں ایک لڑکے کے ساتھ اچھی گپ شپ ہو گئ تھی اور اس کے ساتھ ایک آدھ ڈیٹ بھی ماری تھی لیکن تم یقین کرو گے کہ نا تو میں نے اس کے ساتھ کوئ ایسا کام کیا ۔۔ نا اسے کرنے دیا ۔۔ ہاں ۔۔۔ وہ جو تم جانتے ہو بڑا کیا بس میں بھی اور باہر بھی ۔۔۔ تو میں نے کہا ُروبی جی یہ تو ہوئ کالج کی باتیں ۔۔ کالج کے بعد آپ اپنا یہ شوق کیسے پورا کرتی ہیں سرخ ہو کر ُچپ ہو سن کر وہ ایک دم الل ُ میری بات ُ گئ اور اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔۔۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں بڑا حیران ہوا اور بوال روبی جی کوئ خاص بات ہے جو آپ بتانا نہیں چاہ سن کر اس نے اپنا سر اوپر اُٹھایا اور میرے رہی ؟ یہ ُ طرف دیکھ کر بولی بتانا ضروری ہے کیا ؟ تو میں نے کہا نہیں بلکل بھی ضروری نہیں ہے ۔۔۔ لیکن آپ کی اس حرکت سے میرا اندر ایک تجسس ضرور جاگ گیا ہےکہ آخر ایسی کیا بات ہے جو آپ اچانک خاموش ہو گیئں ہیں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ہاں خاص بات تو ہے ۔۔ تو میں نے پوچھا اگر آپ بتا دیں گیں تو بڑہ مہربانی ہو گی اور اس کے ساتھ تھوڑا مزید نمک مرچ لگا کر اس کی خوش آمد کی ۔۔ آخر کافی اصرار اور منت سماجت کے بعد وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالج الئیف کے بعد کافی دنوں تک میں بڑی پریشان رہی کہ اب کیا ہو گا ؟؟ ۔۔ بہت سوچا پر کچھ سمجھ میں نہ آیا ۔۔۔ آخر میں نے خود کو حاالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔۔۔۔ اور فنگرنگ وغیرہ کرکے گزارہ کر لیتی تھی پھر ایک دن کی بات ہے اس دن ماما کی طبیعت کچھ خراب تھی اور انہوں نے میری ڈیوٹی لگائ تھی کہ میں رفیق کو صبع اُٹھاؤں اور ابو کے ساتھ اس کو بھی ناشتہ دے کر ُرخصت کروں ۔۔۔ اس دن میں صبح جلدی اُٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر ابو کے روم کی طرف گئ تو وہ پہلے سے ہی جاگے ہوۓ تھے انہیں اُٹھا دیکھ کر میں رفیق کی طرف چل دی اور پھر جیسے ہی میں رفیق کے ُروم میں انٹر ہوئ تو میں ٹھٹھک کر ُرک گئ ۔۔۔۔ کیونکہ میرے نتھنوں میں منی کی وہی مخصوص بُو آ رہی تھی جو میری پسندیدہ سونگھ کر میں بڑی حیران ہوئ کہ یہ مرغوب تھی ُُ اور سمیل کہاں سےآ رہی ہے ؟؟ پھر جونہی میرے نتھنوں نے سمت کا تعین کیا تو ایک دم میں سمجھ گئ کہ یہ مخصوص بُو رفیق کہ منی کی بُو ہے میرے خیال میں اسے تھوڑی دیر پہلے ہی احتالم ہوا تھا اب میں دبے پاؤں آگے بڑھی اور رفیق کے پلنگ کے پاس چلی گئ دیکھا تو وہ چادر لے کر سو رہا تھا اب میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اس پر سے چادر ہٹائ اور ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں حیران ہی رہ گئ کہ میرا وہ بھائ کہ جسے میں بچہ سمجھتی تھی وہ فُل جوان تھا اور اس کا ۔۔۔۔۔۔ وہ پوری طرح کھڑا تھا اور اس کے ساتھ اس کی ساری شلوار اس کی منی سے بھیگی ہوئ تھی ۔۔۔ اسے بڑا زبردست احتالم ہوا تھا ۔۔۔ اس کی جوان منی کی بُو سے سارے کمرہ مہک رہا تھا ۔۔ میری تو عید ہو گئ ۔۔ اب میں پلنگ پر اس کے پاس بیٹھ گئ اور جی بھر کے اس کی جوان منی کی مہک کو انجواۓ کیا ۔۔ پھر اچانک یاد آیا کہ ابو انتظار میں ہوں گے سو باد ِل نخواستہ وہاں سے اٹھی اور چادر کو دوبارہ اس پر اُڑھا دیا اور جا کر دروازے میں کھڑی ہو کر رفیق کو زور زور سے آوازیں دینا شروع ہو گئ ۔۔۔ کافی آوازوں کے بعد اس کی آنکھ کھلی اور وہ مجھ سے بوال کیا ہے باجی اتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا کہ تم نے جگا کر اس کا ستیا ناس کر دیا ۔۔ تو میں نے کہا جلدی اُٹھو کہ سکول جانے کا ٹائم ہو گیا ہے اور ابو تمھارا سن کر اس نے انتطار کر رہے ہیں ۔۔۔۔ ابو کا نام ُ چھالنگ لگائ اور واش روم میں چال گیا ۔۔۔ ناشتے کے بعد جب ابو اور وہ چلے گۓ تو میں بھاگ کر رفیق کے واش ُروم میں گئ اور کھونٹی پر ٹنگی اس کی شلوار اتاری جو اب کافی حد تک سوکھ گئ تھی میں نے اسے دونوں ہاتھوں میں لیا اور متاثرہ جگہ کو اپنی ناک سے لگا لیا اور خوب انجواۓ کیا اور ھم ابھی تک انجواے کر رھے ھیں ۔۔۔دوستو کیسی لگی میری کہانی۔۔۔۔