جواں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ من میں ایک امنگ ۔۔۔ اور دل میں ترنگ تھی ۔۔ یہ سردیوں کے دن تھے اس دن موسم بڑا ہی شاندار تھا دھوپ نکلی ہوئی تھی اور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا حسِب معمول ادھر ادھر "جھاتیاں" مار رہا تھا لیکن اتفاق سے اس وقت آس پاس کوئی پری چہرہ نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ اور نہ ہی وہ بھی کہیں دکھائی دے رہی تھی کہ جس کے لیئے بندہ اتنی دیر سے کھڑا چھت پر سوکھ رہا تھا۔۔۔۔ جب مجھے اپنے چھت پر جھاتیاں مارتے ہوئے کافی دیر ہوگئی اور کسی مہ لقا معہ اپنی محبوبہ کا دیدار نصیب نہ ہوا ۔۔۔۔تو میں چھت کی چار دیواری سے ہٹ کر پاس پڑی چارپائی پر جا کر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے؟؟؟ کیونکہ اس وقت میرا دل بھونڈی کرنے کو چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ تب اچانک ہی ایک خیال آیا کہ کیوں نہ کسی پارک کا چکر لگایا جائے ۔۔۔۔کہ وہاں دیدار ،یار نہ سہی ۔۔۔۔کسی اور حسینہ ماہ جبیناں کا دیدار ہو جائے گا ۔۔۔اور اگر اتفاق سے وہاں پر کسی گرم آنٹی سے مڈ بھیڑ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بھائی جی۔۔۔۔۔اپنے تو وارے نیا رے ہو جائیں گے اسی سوچ کا آنا تھا کہ میں جمپ مار کا اپنی چارپائی سے ُا ٹھا اور چھت سے سیدھا نیچے چال گیا ۔۔اور پھر جلدی سے اپنی پھٹیچر بائیک کو باہر نکاال اور اسے سٹارت کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔سوچنے لگا کہ کہاں جایا جائے؟ ایک خیال ایوب پارک کا آیا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرا اس طرف جانے کو من مائل نہیں ہوا ۔۔۔ چنانچہ دو تین پارکوں کے بارے سوچتے ہوئے اچانک میرے زہن میں شکرپڑیاں کا خیال آگیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ فیصلہ کرتے ہی میں نے اپنے بائیک کو شکرپڑیاں کی طرف موڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں شکرپڑیاں پہنچا تو موسم کی رنگینی اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔ ہر طرف سرما کی فرحت بخش دھوپ چھائی ہوئی تھی اور اس پہ طرہ شکرپڑیاں آئے ہوئے حسین لوگ ۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ یہ سب مل جل کر موسم کو رنگین سے رنگین تر بنا رہے تھے۔۔ بچے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھیلیاں کر رہے تھے اور بڑے ان کو دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔ اور ہم جیسے ٹھرکی ان کے ساتھ آئی ہوئی لیڈیز کو تاڑ رہے تھے ۔ میں بھی وہاں کافی دیر تک کھڑا اس ہجوم میں کچھ " تالش" کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو آنٹیاں نظر آئی بھی ۔۔ جن کے کھڈ رات بتا رہے تھے کہ یہ عظیم عمارت مطلوبہ سہولت مہیا کرنے کی پوری پوری صالحیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن شایدفیملی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ انہوں نے۔۔۔ میری شہوت بھری نظروں کا جواب اپنی شہوت بھری نظروں سے تو ضرور دیا ۔ ۔۔۔۔۔لیکن اس کے عالوہ انہوں نے اس ۔۔۔ بندہء مسکین کو اور کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی ۔۔۔ میں بھی ان کی مجبوری کو سمجھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔خود کو انگور کھٹے ہیں کہہ کر ان کی طرف دیکھنا بند کر دیا ۔۔۔۔۔ چنانچہ ان خواتین کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد میں نے سوچا ۔۔۔شاہ جی اٹھو اب کوچ کرو۔۔۔۔پھر سوچا کہ اب جبکہ یہاں آیا ہی گیا ہوں تو کیوں نہ تھوڑی سی واک ہی کر لی جائے ۔۔۔۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی میں شکر پڑیاں سے نیچے اترا اور کنول جھیل کی طرف چال گیا ۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ہوتا ہوا کنول جھیل کے اوپر کی طرف بنے ہوئے عالقے کی طرف چال گیا ۔۔ یہاں تک کہ واک کرتے ہوئے میں کافی آگے تک بڑھ گیا۔۔۔۔ اتنی آگے جا کر سوچا کہ چلو اب واپس چلتے ہیں ۔۔۔ پھر خیال آیا کہ تھوڑا آگے سے ُم ڑ جاؤں گا۔۔۔۔۔اور چلنے لگا ۔۔۔ میں نے ابھی وہاں سے دو تین قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک مجھے پاس کی جھاڑیوں میں سے ایک عجیب سی سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ میں نے ایک لمحہ اس پر غور کیا اور پھر سر جھٹک کر چلنے لگا۔۔ ابھی میں نے ایک قدم آگے ہی بڑھایا تھا کہ ۔۔۔ اس سرسراہٹ کی آواز تھوڑی اور بڑھ گئی ۔۔۔ ۔ یہ تیز قسم کی سرسراہٹ سن کر میں وہیں ُر ک گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پہلے تو یہ سوچ کر ڈر سا گیا کہ کہیں یہ سرسراہٹ کسی سانپ کی تو نہیں؟۔۔۔۔ لیکن پھر جیسے ہی میرے کانوں نے سرسراہٹ کے ساتھ ساتھ ایک مستی بھری نسوانی سرگوشی سُن ی ۔۔۔۔۔ُا وں ُہ وں ۔۔۔ نہ کرو ناں۔۔۔۔ تو میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے جس طرف سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی اس طرف دیکھا۔۔ تو سامنے ایک بڑی سی جھاڑی کھڑی تھی میں نے غور کیا تو اس بڑی سی جھاڑی کے آس پاس چھوٹے چھوٹے بہت سے خود رو درخت بھی ُا گے ہوئے تھے ۔۔۔اور ان درختوں کی وجہ سے وہاں ایک قدرتی طور پر ایک اوٹ سی بن گئی تھی اور اسی اوٹ کے پیچھے سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی ۔۔ اور یہ سوچ کر کہ اس جھاڑی کے پیچھے دو جوان جسم موج مستی کر رہے ہیں ۔۔۔۔ میں ایک دم پرجوش سا ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی بڑی احتیاط سے اس جھاڑی کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔ میں پھونک پھونک کر قدم ُا ٹھاتا ہوا وہاں تک جا پہنچا اور ۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں ایک دم زمین پر بیٹھ گیا۔ ۔۔۔ اور پھر ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں پر سر ُا ٹھا کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جھاڑی کے اس -طرف کا نظارہ بہت ہی دلکش اور گرم تھا اس وقت میرے سامنے ایک نیم برہنہ لڑکا اور ایک نیم برہنہ لڑکی دادِ عیش دے رہے تھے ۔۔ لڑکے کی عمر 29تیس سال ہو گی ۔ اس کا جسم کافی کسرتی تھا ۔۔۔اور اس نے اپنے کسرتی جسم پر جین کی نیلی پینٹ اور اوپر سفید شرٹ پہن رکھی تھی اور اس شرٹ کے اوپر اس نے آدھے بازوؤں کی سوئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی اس مرد نے اتنی ٹائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی کہ اس شرٹ سے اس کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں ۔۔۔ مرد کی پینٹ کی زپ کھلی ہوئی تھی اور اس نے اپنا لن لڑکی کے ہاتھ میں پکڑایا ہوا تھا۔۔۔ جسے وہ بڑے پیار سے آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔ چونکہ دونوں کا میرے طرف سائیڈ پوز تھا اس لیئے میں اس لڑکے اور لڑکی کا چہرہ اچھی طرح سے نہ دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ادھر پاس زمین پر لڑکی کا جہازی سائز پرس پڑا تھا اور اس پرس کے اوپر اس کی سفید رنگ کی بڑی سی چادر بھی رکھی تھی لڑکی نے اپنی قمیض پر کالے رنگ کی سؤئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی جس کے آگے سے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اس کی قمیض سے اس کی بھاری چھاتیاں باہر کو نکلی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور ان ننگی چھاتیوں پر وہ مرد جھکا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں لڑکی کے ممے تھے جسے وہ دباتا تو لڑکی ایک سیکسی سی آہ بھر کر کہتی کہ .. ُا ف ۔۔آہستہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی کی چھاتیوں سے ہوتی ہوئی میری نگاہ نیچے پڑی تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ بات کچھ یوں تھی کہ اکڑوں بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنی قمیض کو مٹی سے بچانے کے لیئے اسے پیچھے سےکافی حد تک اوپر ُا ٹھا یا ہوا تھا جس سے اس کی گانڈ صاف نظر آرہی تھی اوپر سے غضب یہ تھا کہ قمیض کے نیچے اس لڑکی نے چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا ۔۔ اور یہ ُچ ست پاجامہ اس کی موٹی سی گانڈ کے بلکل ساتھ چپکا ہوا تھا۔۔کہ جس کی وجہ سے اس لڑکی کی گانڈ کا ایک ایک انگ بڑا ہی نمایاں نظر آ رہا تھا۔۔۔واہ۔۔۔ کیا شاندار گانڈ تھی ۔۔۔ اس لڑکی کی اتنی مست گانڈ دیکھ کر میں تو اس لڑکی پر بن دیکھے ہزار جان سے فدا ہو گیا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اتنی مست گانڈ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فورًا ہی میرے لن نے جان پکڑنا شروع کر دی۔۔۔
جبکہ دوسری طرف صورِت حال یہ تھی کہ
وہ مرد اکڑوں بیٹھی لڑکی سے اپنا لن منہ میں لینے کو کہہ رہا تھا ۔۔۔ اور لڑکی کے انداز سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ بھی مرد کا لن چوسنا چاہتی ہے لیکن جیسا کہ ہماری دیسی کڑیوں کی عادت ہے کہ دل ہونے کے باوجو د بھی ۔۔ ایسی ہی جعلی نخرے کرنا ۔۔۔۔ سو وہ یہی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔چنانچہ جب وہ لڑکا اس سے کہتا کہ پلیززززززز تھوڑا سا تو منہ میں لو ناں۔۔۔۔تو لڑکی مست اور سریلی آواز میں کہتی کہ نا بابا مجھ سے یہ گندہ کام نہیں ہو گا ۔۔۔۔ تمہارا ہاتھ میں پکڑ لیا یہ کافی نہیں ہےکیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔ تو آگے سے وہ لڑکا کہتا ۔۔۔۔۔ جان چوسنا نہیں تو پلیزززززززز۔۔ اس پر ایک کس ہی کر دو۔۔۔۔ اس پر لڑکی بڑی ادا سے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ لو میں جسٹ کس ہی کروں گی۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئے لڑکی نے ایک ادا سے اپنی گانڈ کو پیچھے سے ُا ٹھایا ۔۔۔۔اور اپنے منہ کو آگے کیا اور لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے منہ کو اس کے لن کی طرف لے گئی ۔۔۔گانڈ اوپر اٹھانے سے ۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ کے دونوں پٹ یہاں تک کہ اس کی موٹی گانڈ کے دونوں ۔۔۔ حصوں کے درمیان کی لکیر بھی نمایاں طور پر نظر آنے لگی ُ-ا ف ایک تو لڑکی کی موٹی گانڈ ۔۔ دوسرا اس موٹی گانڈ کو دو حصوں میں بانٹتی ہوئی گہری سی لکیر ۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں تو جھال ہو گیا ۔۔۔اور اس دل کش نظارے کو مزی د نزدیک سے دیکھنے کے لیئے بے اختیار اپنی جگہ سے تھوڑا آگے کو بڑھ گیا ۔۔۔ میرے آگے بڑھنے سے زمین پر پڑے ہوئے خشک پتوں سے ایک چرچراہٹ کی سی آواز پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بد قسمتی سے اس سناٹے میں یہ آواز اس قدر تیزی کے ساتھ ابھری کہ ۔۔۔اس آواز کو سنتے ہی ۔۔۔ وہ دونوں ایک دم اپنی جگہ سے اچھلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب پوزیشن یہ بنی تھی کہ اس کی گانڈ کو نذدیک سے دیکھنے کے چکر میں ۔۔۔ میں ان کے سامنے نمایاں طور پر کھڑا نظر آ رہا تھا۔۔ ۔۔۔ ادھر جیسے ہی لڑکی نے۔۔۔۔ گردن گھما کر میری طرف ۔۔۔اور میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایک دوسرے کو دیکھ کر ۔۔۔۔ہم دونوں ہی ششدر رہ گئے۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔ ہماری محلے دار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھی جسے نہ صرف یہ کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا بلکہ ہمارے ان کے ساتھ گھریلو مراسم بھی تھے۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ لڑکی جس کا نام آصفہ تھا اور جسے میں آصفہ باجی کہتا تھا ۔۔۔۔۔ ایسے ہو گئی تھی کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں۔۔وہ بڑی ہی خوف ذدہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف میں ۔۔۔ بس خالی خالی نظروں سے بڑی ہی غیر یقنی حالت میں اسے گھورے جا رہا تھا۔ دراصل میرے زہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی اس لڑکی کے بارے میں ایسا کوئی تصور موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کی فیملی کے لوگ بہت پرہیز گار اور مزہبی ٹائپ کے تھے اور خود وہ لڑکی بھی محلے سے نکلتے وقت خود کو ایک بڑی سی چادر سے ڈھکا رکھتی تھی ۔ اور محلے میں اس نے کبھی کسی کو سر ُا ٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اسی لیئے آصفہ باجی کو اس حالت میں دیکھ کر میں حیران پریشان ہو گیا تھا۔۔۔کیونکہ میرے لیئے ا ن کی یہ حرکت بڑی ہی غیر متوقع اور حیرت انگیز تھی۔۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری جگہ ہمارے محلے کا کوئی اور لڑکا اس لڑکی کے بارے میں مجھ سے اس قسم کی بات کرتا تو ہو سکتا ہے کہ جواب میں میں اس کے دانت توڑ دیتا۔۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے بڑا زبردست شاک لگا تھا اور میں اسی شاک کے زیِر اثر۔۔۔میں اس کو یک ٹک دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔ میرے برعکس آصفہ باجی جلد ہی صدمے سے باہر نکل آئی اور اس نے جلدی سی اپنی بھاری چھاتیوں کو قمیض کے اندر کیا اور پرس اور چادر ُا ٹھا کر لڑکا کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور تقریبًا بھاگتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
ان کو بھاگتے دیکھ کر ۔۔۔ میں بھی شاک کی
حالت سے باہر نکل آیا ۔۔۔۔اور بڑے بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چال گیا اور لوک ورثہ کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آج کے واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔ جو کچھ میری نظروں نے دیکھا تھا ۔۔۔ میرا دل ابھی تک اسے ماننے کو تیار نہیں تھا سوچتے سوچتے خیال آیا کہ اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے؟؟ بے شک آصفہ باجی کا تعلق ایک مزہبی اور روایتی فیملی سے ہے ۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک جوان لڑکی بھی تو ہے جس کی عمر بیتی جا رہی تھی اور اس کے گھر والے ابھی تک اس کے لیئے کسی نیک اور صالع لڑکے کی تالش میں تھے جبکہ میرے اندازے کے مطابق اس وقت آصفہ باجی کی عمر ستائیس اٹھائیس سال ہو گی ۔۔۔ یعنی کہ وہ ایک بھر پور جوان لڑکی تھی اور اگر وہ جوانی کے ہاتھوں مجبور ہوکر تھوڑا بہک گئی تھی تو اس میں اچھنبے کی کیا بات تھی؟ اس کے بھی جزبات ہوں گے اس کو بھی ہوشیاری آتی ہوگی۔۔۔ ۔۔۔۔اور ویسے بھی ۔۔ ہم کون سے ایسے فرشتہ صفت بندے تھے کہ اس کی بات کو اچھالیں؟؟؟ ۔۔خود ہمارا حال یہ تھا کہ محلہ کیا آس پاس کی کوئی بھی ڈھیلی ۔۔۔ آنٹی ہمارے لن کی دسترس سے محفوظ نہ تھی۔۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں نے دل ہی دل میں یہ طے کر لیا کہ آصفہ باجی کے بارے میں آج میں نے جو کچھ بھی دیکھا اور سنا ہے وہ اسی ریسٹورنٹ میں دفن کر دیتا ہوں ۔۔۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد ۔۔۔ میں نے خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کیا ۔۔۔۔ اس کے بعد میں وہاں سے ُا ٹھا اور اپنے دوستوں کی طرف چال گیا۔۔۔۔ اور کافی دیر سے گھر پہنچا۔۔۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو امی مجھ سے کہنے لگیں کہ آصفہ کافی دیر سے تمہارا پوچھ رہی تھی اور تم سے ملنے کے لیئے اس نے ہمارے گھر کے کافی چکر بھی کاٹے ہیں اور آخری دفعہ جاتے ہوئے اس نے امی کو یہ پیغام دیا تھا کہ جیسے ہی میں گھر آؤں اس کی بات ضرور سنوں ۔۔آصفہ باجی کا پیغام سن کر میں ساری بات سمجھ گیا تھا لیکن ویسے ہی مچال بنتے ہوئے امی سے بوال۔۔۔۔ کہ امی خیریت تو ہے نا ؟ ان کو مجھ سے ایسا کیا کام پڑ گیا ہے ؟ تو امی کہنے لگی کام کا تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ البتہ شکل سے وہ بے چاری کافی پریشان لگ رہی تھی ۔۔۔۔پھر کہنے لگیں بیٹا جلدی سے جا کر اس سے مل آ ۔۔۔کہ پہلے ہی وہ ہمارے گھر کے کافی چکر لگا چکی ہے۔امی کی بات سن کر میں آصفہ باجی کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ اور جا کر ان کے گھر کی گھنٹی بجائی تو جواب میں انہوں نے ہی دروازہ کھوال ۔۔۔ اس وقت وہ خاصی پریشان اور دہشت زدہ سی لگ رہیں تھیں ۔۔ مجھے اپنے سامنے پا کر انہوں نے مجھے سیڑھیوں کی طرف جانے کا اشارہ کیا جو کہ ان کے دروازے کے ساتھ ہی بنی ہوئیں تھیں۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا ۔۔۔۔ان کی ممٹی پر پہنچا ۔۔۔ تو پیچھے سے آواز دے کر انہوں نے مجھے وہیں رکنے کا کہا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں رکا ۔۔۔۔وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ ۔۔ اور پھر میرے سامنے ُر کتے ہی انہوں نے اپنا سر جھکا لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنی ٓانکھیں پونچھنے لگیں ۔۔مجھے دیکھتے ہی وہ رونا شروع ہو گئیں تھیں انہیں روتا دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا اور اسی پریشانی کے عالم میں ان سے کہا۔۔ کیا ہوا باجی ؟ میری بات سن کر انہوں نے کچھ جواب نہ دیا ۔۔۔ پھر میرے بار بار پوچھنے پر انہوں نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٓائی ایم سوری شاہ !!!!!!!!۔۔۔۔۔اور پھر سے رونے لگیں ۔۔۔اس پر میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ سوری؟؟؟؟؟؟ پر کس بات کی؟ ٓاپ نے ایسا کیا کیا ہے؟ جو مجھ سے سوری بول رہی ہو۔۔۔۔ تو وہ آنسو پونجھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سوری دوپہر والے واقعہ پر مانگ رہی ہوں ۔۔۔۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے بوال ۔۔۔ لو کر لو گل ۔۔۔۔اس میں سوری کی کیا بات ہے باجی ؟ ۔۔۔ بلکہ سوری تو مجھے بولنا چاہیئے کہ میں نے آپ لوگوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک دم سے اپنا سر ُا ٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ؟ تت ۔۔۔تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے ہی سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔آپ کی قسم ۔۔۔ میں بلکل سچ کہہ رہا ہوں !!!!۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک بار پھر بڑی بے یقنی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔تم جو کہہ رہے ہو ۔۔۔دل سے کہہ رہے ہو ناں ۔۔۔اس پر میں نے ان سے کہا جی دل سے کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔اور اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟؟ ۔۔ پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔زیادہ حیران نہ ہوں باجی ۔۔۔۔ ۔۔۔ آپ بھی میری طرح سے ایک جیتی جاگتی انسان ہو کوئی لکڑ کی مورت تو نہیں ۔۔۔اس لیئے آپ کو بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی ا ور کو ہے۔۔۔ میری بات سن کر ان کی آنکھوں میں تشکر بھرے جزبات آ گئے اور وہ رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگیں اگر تم اس کی بجائے کوئی اور بات کرتے تو آج میں نے خود کشی کر لینی تھی۔۔۔ اس پر میں ہنستے ہوئے کہا مریں آپ کے دشمن ۔۔۔۔بھال اس میں خود کشی کی کیا بات تھی ؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بولیں ۔۔ تھی نا ۔۔ لیکن تم نہیں سمجھو گے ۔۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں۔۔۔۔۔ وعدہ کرو کہ تم اس واقعہ کا کسی سے بھی تزکرہ نہیں کرو گے؟ تو میں نے خلوِص دل سے کہا کہ باجی میرا ٓاپ کے ساتھ پکا وعدہ ہے کہ آج کے بعد میں اس بات کا اپنے آپ سے بھی تزکرہ نہیں کرو ں گا میری بات سن کر انہوں نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی ۔۔
جب وہ میری طرف سے پوری طرح مطمئن
ہو گئیں ۔۔۔تو پھر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔باجی کیا میں آپ سے ایک پوچھ سکتا ہوں نا؟ تو وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔ ۔۔ ہاں بولو ۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ کون تھا وہ لکی ؟؟ کم از کم ہمارے محلے کا تو ہر گز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ تھوڑی سی ہچکچاہٹ سے بولیں اس کا نام جاوید ہے اور وہ میری پہلی محبت ہے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔۔ اس کے بارے میں تمہیں باقی باتیں پھر کبھی بتاؤں گی کہ اس وقت ابا جی کے آنے کا ٹائم ہو گیا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ ان کا اشارہ دیکھتے ہی میں سیدھا وہاں سے اپنے گھر آ گیا۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ اس دن کے بعد میری ان کے
ساتھ دوستی ہو گئی اور ہاں بعد میں انہوں نے میرے پوچھنے پر اپنے محبوب کے بارے میں بتالیا کہ ۔۔۔وہ ان کے کالج کے دنوں کا دوست تھا اور بقول ان کے ۔۔۔ وہ ان سے شدید محبت کرتا ہے اور ان کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا۔اور اب ان کی چاہت بہت آگے تک بڑھ چکی تھی ۔ یہ ساری تفصیل پوچھنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا اس سے شادی کے لیئے آپ کے والدین مان جائیں گے؟ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس معاملے میں خصوصًا ان کے والد بہت ہی سخت تھے ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ کوشش تو یہی ہے کہ وہ لوگ مان جائیں ۔۔اور پھر کہنے لگیں اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی خالہ کے زریعے بات چیت کا ڈول بھی ڈاال تھا ۔۔۔۔۔ لیکن تا حال کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی تھی۔۔۔ میں اکثر ہی ان کے گھر جایا کرتا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد تو میرا ان کے گھر اور ان کا ہمارے گھر آنا جانا کچھ زیادہ ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد وہ اپنے دل کی ساری باتیں مجھ سے شئیر کر لیتی تھیں ۔۔۔۔ اسی لیئے تھوڑے دنوں میں ہی ہماری دوستی اور بھی گہری ہو گئی تھی ۔۔ایک دن میں ان کے گھر گیا تو وہ بڑی تیار شیار ہو کر گھر سے نکلنے ہی والی تھیں ان کی تیاری دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج پھر جاوید سے ملنے کا پروگرام ہے لیکن محض مزہ لینے کے لیئے میں ان سے بوال ۔۔۔۔ لگتا ہے باجی آج پھر جاوید بھائی پر بجلیاں گرانے جا رہی ہو ۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پرحیا کی ایک اللگی سی پھیل گئی اور وہ شرماتے ہوئے بولیں ۔۔۔ہاں اس نے بالیا ہے ۔۔۔اس پر میں نے شرارت بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ چلو میں بھی انہی درختوں کے جھنڈ کی طرف آ رہا ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ شرم سے الل ہو گئیں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا اور مجھ پر تانتے ہوئے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے سے بولیں۔۔۔ تمہاری جان نہ نکال دوں گی اگر تم وہاں نظر بھی آئے تو۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے باہر نکل گئیں۔۔۔ جبکہ میں اندر ان کے گھر چال گیا اور ان کی امی سے تھوڑی دیر گپ شپ لگانے کے بعد واپس آگیا۔۔۔
اگلے دن وہ ہمارے گھر آئیں تو بڑی خوش لگ
رہیں تھیں انہیں خوش دیکھ کر میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔۔ لگتا ہے کل کی ڈیٹ کافی کامیاب رہی ؟ میری بات سن کر ان کا چہرہ الل ہو گیا ۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں ۔۔۔ پھر میرے بار بار چھیڑنے پر بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔ چل ہٹ بدمعاش بہنوں سے ایسی باتیں نہیں پوچھتے ۔۔ ۔۔۔اور مسکرا دیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اور پھر میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں۔۔
یہ بات محسوس کرتے ہی میں مزید شیر ہو
گیا ۔۔۔اور ایک بار پھر سے اپنے ہونٹوں کو ان کے الل الل گالوں پر رکھ دیا اور اس دفعہ میں نے اپنے ہونٹوں کو ان کے گالوں سے لگانے کی بجائے ان کو زبان سے چاٹ لیا۔۔۔ میری زبان کا ان کے الل گالوں پر لگنے کی دیر تھی کہ انہوں نے ایک جھرجھری سی لی اور ۔۔۔۔ میری طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔اس وقت مجھے ان کی آنکھوں میں بھی ہوس کی جھلک نظر آئی ۔۔۔۔ لیکن اس کے بر عکس وہ مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔۔ یہ ۔۔یہ ٹھیک نہیں ہے شاہ۔۔۔ تو میں نے ان کی بھاری چھاتیوں کو اپنے سینے کے ساتھ پریس کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ اس وقت یہی ٹھیک ہے باجی۔۔۔۔ تو وہ اپنی چھاتیوں کو میرے سینے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ لیکن ۔۔لیکن میں تو جاوید کی امانت ہوں ۔۔۔اس پر میں نے اپنی زبان نکالی اور ان کے نرم ہونٹوں پر اپنی زبان پھیر کر بوال۔۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ جاوید کی امانت ہیں ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی اس وقت آپ کے جسم کو میرے جسم کی اشد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی میں نے دوبارہ سے ان کا ہونٹ چاٹ لیا۔۔۔اور ان کو اپنے ساتھ اور بھی سختی کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔ اور پھر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں ۔۔میں نے ان کے نیچے والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگ گیا۔۔۔ میرے اس عمل سے آصفہ کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی ۔۔۔اور انہوں نے کسمسا کر اپنے آپ کومجھ سے چھڑانے کی واجی سی کوشش کی ۔۔۔لیکن اس وقت میری گرفت سے ان کا نکلنا کچھ آسان کام نہ تھا اس لیئے وہ محض کسمسا کر ہی رہ گئیں ادھر میں ان کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹو ں میں لیئے مسلسل چوس رہا تھا۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنے جسم کو ان کے نرم جسم کے ساتھ رگڑ بھی رہا تھا ادھر پینٹ میں تنا ہوا میرا لن ان کی گوشت سے بھری رانوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔۔جس کی سختی کو یقینًا ان کی ران نے محسوس کیا ہو گا۔۔۔ لیکن وہ کوئی خاص رسپانس نہیں دے رہیں تھیں۔۔۔
ان کے ہونٹوں کو چوستے چوستے جیسے ہی
میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں لے جانے کی کوشش کی ۔۔تو اچانک انہوں نے اپنے منہ کو سختی کے ساتھ بند کر دیا اور میری زبان کو اپنے منہ کے اندر جانے سے روک دیا۔۔۔۔۔۔۔تب میں نے اپنا منہ ان کے منہ سے ہٹایا اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ باجی پلیززززززززززززززز۔۔۔ تو وہ میری بات س کو سمجھتے ہوئے نفی میں سر ہالتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔۔۔اور ایک بار پھر خود کو مجھ سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگیں۔۔۔۔اس پر میں نے ان کو کہا کچھ نہیں ہو گا باجی۔۔۔ اور پھر سرگوشی میں ان سے کہنے لگا۔۔۔۔جب اتنا کچھ ہو گیا ہے تو پلیز تھوڑا سا اور بھی ہو جانے دیں ۔اور ایک بار پھر اپنے منہ کو ان کے منہ کی طرف لے گیا۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے منہ کو دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔ نہیں ۔۔ناں تھوڑا اور کرنے سے ۔۔۔۔۔تھوڑا ۔۔۔ نہیں ۔۔۔بلکہ بہت کچھ ہو جائے گا ۔ اس پر میں نے بظاہر ہار مانتے ہوئے کہا ۔۔۔چلیں ٹھیک ہے آپ کی مرضی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں ۔۔۔پھر منہ ان کے ہونٹوں کے قریب کر کے بوال۔۔۔ ۔۔لیکن ان گالب کی پنکھڑیوں کا رس تو پینے کی اجازت ہے نا۔۔۔ ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے دوبارہ سے اپنے ہونٹوں کو ان کے ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔اور ان کو چوسنے لگ گیا۔۔۔
چونکہ مجھے اچھی طرح سے یقین ہو گیا
تھا کہ اس وقت ان کو لن کی بڑی شدید طلب ہو رہی تھی بس وہ فطری جھجھک کی وجہ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی تھیں اس لیئے میں نے ایک بولڈ سٹیپ لینے کا فیصلہ کیا اور وہ یہ کہ ان کے ہونٹ چوستے میں نے چپکے سے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور پھر ہاتھ ڈال کے انڈروئیر سے لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔اور پھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان کے ہونٹوں کو چوستے چوستے میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔ جیسے ہی ان کا ہاتھ میرے ننگے لن پر پڑا ۔۔ وہ ایک دم سے ایسے اچھلی کہ جیسے ان کو 440وولٹ کا کرنٹ پڑ گیا ہو۔۔۔۔ ۔۔ اسکے ساتھ ہی حیرت سے ان کا منہ کھل گیا ۔۔ یہی وہ موقعہ تھا جس کی میں تاک میں تھا اس لیئے میں نے جھٹ سے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی۔۔۔اس پر انہوں نے بھتیرا نا ں ناں کے انداز میں سر ہالیا لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور ان کے منہ میں اپنی زبان کو گھماتا رہا۔۔۔ اور پھر ان کی زبان سے اپنی زبان ٹکرا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی زبان سے اپنی زبان ٹکرانے کی دیر تھی کہ اچانک ان کے منہ سے ایک شہوت بھری سسکی نکلی اور انہوں نے نہ صرف میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا بلکہ نیچے سے اپنی پھدی والی جگہ کو بھی میری رانوں کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخِر کار میں ان کے ضبط کا بندھن توڑ نے میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھوڑی دیر تک میری زبان کو چوسنے کے بعد
اچانک انہوں نے اپنے منہ سے میرے زبان نکالی اور ہوس ناک لہجے میں بولیں ۔۔۔تم بہت بد تمیز ہو شاہ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی بات کر کے پہلی بار انہوں نے میرے نیچے کی طرف دیکھا جہاں پر میرا لن فل جوبن میں کھڑا ۔۔ مست ہاتھی کی طرح لہرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لن کو دیکھتے ہی ان کی بڑی سی آنکھوں ۔۔۔ میں حیرت ابھر آئی۔۔۔ اور وہ رہ نہ سکیں اور میرے لن پر نظریں گاڑتے ہوئے بولیں ۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ۔۔۔ تو ۔۔اس پر میں نے بڑی نرمی سے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جی۔۔۔۔ یہ میرا ۔۔ہی ٹول ہے۔۔۔تو وہ اسی حیرت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔لیکن یہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے ان کی بات کو درمیان سے ہی کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ ۔۔ کافی بڑا اور موٹا ہے ناں؟ اور پھر میں نےاپنے لن پر رکھے ہوئے ان کے نرم و نازک ہاتھ کو دبایا ور بوال۔۔۔۔ آج کے دن یہ آپ کی ملکیت ہے ۔۔اور ان کی بھاری چھاتیوں کو دبانے لگا۔۔۔ جبکہ نیچے سے وہ میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے بڑی -آہستگی کے ساتھ دبا رہیں تھیں
تھوڑی دیر تک ان کی چھاتیوں کو دبانے کے
کے بعد ۔۔۔۔۔میں نے ان کی قمیض کو اوپر کیا اور ان کی ایک چھاتی کو برا سے آزاد کرتے ہوئے باہر نکال ۔۔۔واہ ۔۔!!!!۔۔۔ان کی چھاتی کافی موٹی اور لمبوترے سائز کی تھی تھی۔۔۔ اور چھاتی کے اوپر ایک ہلکے پنک رنگ کا دائرہ سا بنا ہوا تھا ۔۔۔اور اس دائرے کے عین وسط میں ان کا پتال ۔۔۔۔ لیکن تھوڑا لمبا سا نپل بڑے غرور سے اکڑا کھڑا تھا۔۔۔ ان کے نپل کو اکڑا دیکھ کر میں نے اپنی زبان باہر نکاللی اور اس پر گول گول پھیرنے لگا۔۔۔ میرے ایسا کرنے سے آصفہ کے منہ سے ایک دلکش سی سسکی نکلی اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے میرے لن کو بڑے ذور کے ساتھ دبانا شروع کر دیا۔۔۔۔ ادھر میں نے ان کے نپل پر اپنی زبان کو گول گول پھیرتے ہوئے ۔۔۔ ۔اچانک اپنے دونوں ہونٹو ں میں دبایا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔۔ میرے اس عمل سے ان کے منہ سے دوبارہ وہی دل کش سسکی نکلی ۔۔۔آف ف ف۔۔۔ سس۔۔۔۔آہ۔۔اور پھر وہ میرے لن کو شدت کے ساتھ دبانے لگیں۔۔۔ ۔۔۔ میں کافی دیر تک ان کی دونوں چھاتیوں کو باری باری چوستا رہا ۔۔پھر سیدھا کھڑا ہو گیا اور ایک دفعہ پھر ان کے ساتھ کسنگ سٹارٹ کر دی۔۔
کسنگ کے بعد میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔تو
ان کی نظریں ۔۔۔میرے لن پر ہی ٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ان سے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا کیسا لگا ۔۔تو وہ مسکرا کر بولیں۔۔۔ ۔۔۔ آمیزنگ ۔۔آسم۔۔۔۔ اس پر میں نے کہا ۔۔۔ آمیزنگ ۔۔۔۔لیکن کیسے؟؟؟ ۔۔ ۔۔۔۔ تو وہ مسکرا کر بولیں ۔۔ یہ مت پوچھ لیکن تمہارا ۔۔۔ ہے بہت ہی پیارا اور زبردست اس پر میں نے شرارت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ اچھا تو یہ بتائیں کہ اس کا نام کیا ہے ؟ ۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر شہوت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔۔۔تمہیں نہیں معلوم کہ اس کو کیا کہتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔تو میں نے ہاں میں سر ہال کر کہا ۔۔پتہ ہے لیکن میں آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ تم ۔۔۔میرے منہ سے اس کا نام پوچھ کر مزہ لینا چاہتے ہو؟ تو میں نے کہا ایسا ہی سمجھ لو ۔۔۔اس پر انہوں اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے تنے ہوئے لن کو پکڑا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ۔۔۔۔ بڑے ہی سیکسی لہجے میں بولیں ۔۔۔۔ اس کو لوڑا کہتے ہیں ۔۔ اس پر میں نے بھی شہوت بھرے لہجے میں ان سے کہا ۔۔۔۔میرے اس لوڑے پر ایک کس تو دے دیں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔ایک نہیں ایک سو ایک کس دوں گی لیکن یہاں نہیں ۔۔۔۔تو میں نے کہا یہاں کیا ہے ؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد میں نے اس جگہ پر کچھ بھی کرنے سے توبہ کر لی ہے اور پھر مسکرا کر بولیں ۔۔۔ چلو اب ا س کو اندر ڈالو اور گھر چلتے ہیں وہاں جا کر جیسے کہو گے میں ویسے ہی کروں گی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی قمیض سے باہر نکلی ہوئی دونوں چھاتیوں کو اپنی برا میں واپس ڈاال اورپھر ق یمض کو درست کرنے لگیں ۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے بھی لن کو اپنی پینٹ کے اندر کیا اور ہم واپسی کے لیئے چل پڑے۔۔
موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہی انہوں نے پہلے کی
طرح ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا ۔۔۔ اس پر میں نے اپنا منہ پیچھے کی طرف کیا اور بوال۔۔۔۔ باجی بائیک پر بہنوں کی طرح نہیں معشوقوں کی طرح بیٹھیں ۔۔میری بات سن کر وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ۔۔۔باجی بھی کہتے ہو اور معشوق بھی بناتے ہو ۔۔۔ پھر خود ہی بولیں ۔۔۔ آج کے بعد تم تنہائی میں مجھے باجی نہیں کہو گے بلکہ مجھے میرے نام سے مخاطب کرو گے ۔۔اس پر میں نے بڑے ہی رومینٹک لہجے میں پیچھے ُم ڑ کر ان کی طرف دیکھا اور بوال۔۔۔۔ ٹھیک ہے آصفہ ڈارلنگ ۔۔۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے میرے کندھے پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹا کر میری گود میں رکھ دیا اب میں نے ان کا ہاتھ پکڑا کر پینٹ کے اوپر سے ہی اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اور میرے لن کی اکڑاہٹ کو دیکھ کر وہ بولیں ۔۔۔ او ہو۔۔ یہ ظالم ابھی تک کھڑا ہے؟ تو میں نے ان سے کہا۔۔۔۔اس کو بس آپ ہی بٹھا سکتی ہیں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ فکر نہ کرو۔۔۔اس کو تو میں ایسے بٹھاؤں گی ۔۔۔ کہ بس یاد رکھے گا پھر بڑے پیار سے میری پینٹ پر بنے لن کے ابھار پر ہاتھ پھیرنے لگیں ۔۔۔ گھر کے پاس آتے ہی وہ بولیں بائیک کو گھر کھڑا کر کے تم مین گیٹ کی بجائے بیٹھک ( ڈرائینگ روم) کے دروازے سے اندر آنا وہ کھال ہو گا ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں نے مین گیٹ کو تاال لگا دینا ہے ۔۔۔اور پھر بائیک سے اتر کر اپنے گھر کی طرف چلی گئیں۔۔۔
گھر آ کر میں نے جلدی سے بائیک کو پارک
کیا اور بھاگم بھاگ آصفہ کے گھر پہنچ گیا۔۔۔ جیسے ہی میں ان کے ڈرائینگ روم والے دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے صوفے پر بیٹھی آصفہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے دیکھتے ہی وہ صوفے سے ُا ٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔دروازے کو الک کر دو میں نے دروازے کو الک کیا اور ان کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ اور پھر ان کے ساتھ بغل گیر ہو گیا ۔۔۔۔ بغل گیر ہوتے ہی میں نے ایک بار پھر ان کے ساتھ کسنگ سٹارٹ کر دی۔۔کافی دیرتک کسنگ کرنے کے بعد انہوں نے میرے منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا اور کہنے لگیں کیا خیال ہے بیڈ روم میں نہ چلیں۔۔۔؟ تو میں نے کہا ۔۔یہاں نہیں کرنا ؟ تو وہ شرماتے ہوئے بولیں ۔۔۔ نہیں پاگل ۔۔۔ بیڈ روم میں ہی کریں گے اور پھر مجھے اپنے ساتھ لیئے ہوئے وہ اپنے بیڈ روم میں آ گئیں۔۔۔ بیڈ روم میں داخل ہوتے وقت وہ میرے آگے جبکہ میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے ان کے عقب چلتے ہوئے اچانک ہی میری نظر ان کی موٹی سی گانڈ پر پڑی ۔۔۔جس کو وہ بڑی مستی کے ساتھ ہال ہال کر چل رہیں تھیں ۔۔۔ ان کی مست گانڈ کو دیکھ کر مجھ پر ایک دم سے ہوشیاری چڑھ گئی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے ان کو پیچھے سے دبوچ لیا اور اپنے لن کو ان کی موٹی گانڈ کے ساتھ رگڑنے لگا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے ایک نظر پ ُم ڑ کر دیکھا اور بڑے پیار سے بولیں ۔۔۔تم کو بھی میری ہپس پسند آئی ہے؟
تو میں نے اپنے لن کو عین ان کی گانڈ کی
دراڑ میں پھنسا کر گھسہ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ پسند کی بات کرتی ہو ۔۔۔ اس کو حاصل کرنے کے لیئے تو میں کسی کو بھی قتل کر سکتا ہوں۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے اپنا منہ پیچھے کیا اور میرے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی کس کرتے ہوئے سرگوشی میں بولیں ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ تم میرے پیچھے سے بھی اندر ڈالو گے؟؟؟؟۔۔ان کی بات سنتے ہی میں نے ان کو بیڈ پر گرایا اور گھوڑی بننے کو کہا۔۔۔۔وہ بڑی شرافت سے گھوڑی بنتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ابھی نہ ہپس میں ڈالو نا۔۔۔ پہلے تھوڑا ۔۔۔ فور پلے تو کرنے دو۔۔۔تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔۔ میری جان اس کو ہپس نہیں گانڈ بولو نا۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ میری طرح سے تم کو بھی گندے لفظ بولنا اچھا لگتا ہے؟ تو میں نے کہا ہاں ۔۔اس پر وہ اچانک اپنی جگہ سے ُا ٹھیں اور مجھ سے گلے ملتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔۔۔ ننگے لفظ بولنا مجھے بھی اچھا لگتا ہے تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔ تو بولو نا میری جان۔۔۔۔ میری بات سن کرفورًا ہی وہ کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن پہلے تم میری بنڈ کو چیک کر لو۔۔ اور فورًا ہی اپنی قمیض اور برا اتار دی۔۔۔۔ ادھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔ میں بھی اپنے کپڑے اتارنے لگا ۔۔۔ ادھر انہوں نے شرٹ اتار کر جیسے ہی اپنے چوڑی دار پاجامے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں جو اس وقت تک اپنے سارے کپڑےاتار چکا تھا ۔۔ان سے بوال۔۔۔۔ آپ کا پاجامہ میں اتاروں گا ۔۔میری بات سنتے ہی انہوں پاجامے کو اتارتے ہوئے رک گئیں اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔۔ٹھیک ہے جان۔۔۔ جیسے تیری مرضی۔۔ اور پھر پاجامہ اتارے بغیر ہی پھر سے گھوڑی بن گئیں اور میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی گانڈ کو ہالنے لگیں۔۔۔۔۔ ان کو گانڈ ہالتے دیکھ کر میں جلدی سے ان کے پاس آیا اور پلنگ پر بیٹھ کر بڑے غور سے ان کی موٹی بنڈ کا جائزہ لینے لگا۔۔جو کہ اس وقت ان کے چوڑی دار پاجامے میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔
ان کی گانڈ کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے
بعد ۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ میں نے ان کے ٹائیٹ فٹنگ پاجامے کو اتارنا شروع کر دیا ۔۔ جیسے جیسے ان کی گانڈ ننگی ہو کر میرے سامنے آتی جاتی ۔۔۔ میں اس کے ایک ایک انچ کو چومتا جاتا۔۔۔ اپنی گانڈ کو یوں بے خودی سے چومتے دیکھ کر انہوں نے ایک مست سی سسکی بھری اور کہنے لگیں۔۔۔ کیا کر رہے ہو۔۔۔۔؟ تو میں نے ان کی گانڈ کے نرم نرم پٹ پرہونٹ رکھتے ہوئے۔۔۔۔میں تو بس۔۔۔ تمہاری گانڈ کے نرم نرم گوشت کو چوم رہا ہوں۔۔۔تو وہ سسکی بھر کر بولی۔۔۔۔۔ میری بنڈ کو بس چومتے ہی رہو گے یا کچھ کرو گے بھی؟
ان کی بات سن کر میں نے ان کو ُا ٹھنے کو
کہا۔۔۔۔ میری بات کو سن کر وہ پلنگ سے ُا ٹھی اور میرے تنے ہوئے لن پر نظریں جما کر بیٹھ گئیں ۔۔۔ پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر ہوس بھرے لہجے میں بولی۔۔۔سنو تم نے درختوں کے اس جھنڈ میں اس کے بارے میں مجھ سے کیا فرمائیش کی تھی ؟؟ تو میں نے ان سے کہا کہ آصفہ جی آپ کس کی بات کر رہی ہو؟ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔۔۔۔ اس پر و ہ آگے بڑھی اور بڑے پیار سے میرے لن پر ہاتھ پھیر کر بولیں ۔۔۔۔ تم مجھ سے اس لوڑے کے بارے میں کچھ فرمائیش کر رہے تھے۔۔۔ ۔۔۔۔۔تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ میرے لن کو چوسو گی ۔۔۔؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے کھڑے ہونے کو کہا اور وہ خود پلنگ پر گھٹنوں کے بل کھڑی ہو گئیں اور میرے لن کو پکڑ کر اپنے منہ کے قریب کر کےبولی۔۔۔۔ کچھ بھی ہو تم سے زیادہ تمہارا ۔۔یہ لوڑا بہت شاندار ہے۔۔۔۔۔اور پھر زبان نکال کر اس کے ٹوپے پر اپنی زبان پھیرنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُا ف۔۔۔ جیسے ہی ان کی زبان نے میرے ٹوپے کو ٹچ کیا ۔۔۔۔۔۔ بے اختیار میرے منہ سی ایک سسکی نکل گئی۔۔۔ جسے سن کر وہ مست ہو گئی اور ۔۔۔ اپنے منہ کو کھول کر میرے ٹوپے کو اندر لے لیا ۔۔۔اور صرف ٹوپے کو ہی چوسنے لگیں۔۔۔۔ کچھ دیر تک اسے چوسنے کے بعد انہوں نے میرے ٹوپے کو اپنے منہ سے باہر نکاال ۔۔ اور پھر میرے لن پر بہت سا تھوک لگا کر اسے آگے پیچھے کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ۔ ویسے تو مجھے تمہارا سارے کا سارا ہی لوڑا بہت پسند آیا ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔اس لوڑے پر بنے اس تاج ( ٹوپے ) کی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔اور میری ہلکی ہلکی مٹھ مارنے لگیں ۔۔۔اسی دوران میرے لن سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ نکل کر باہر آ گیا ۔۔۔ جسے دیکھتے ہی وہ ایک دم سے پرجوش ہو گئیں اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔اب دیکھو میں تمہارے اس لوڑے سے نکلنے والے اس گاڑھے قطرے کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں ۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کی نوک سی بنا کر مزی کے اس گاڑھے قطرے پر رکھ دی اور پھر۔۔۔۔۔میرے لن سے نکلنے والےمزی کے اس قطرے کو اپنی زبان کی نوک کی مدد سے سارے ٹوپے پر پھیال دیا ۔۔۔۔ ان کے ایسا کرنے سے مجھے اتنا مزہ آیا کہ اسی دوران جوش کے مارے میرے لن سے مزی کا ایک اور قطرہ نکال اور ۔۔۔۔ اسے بھی انہوں نے اسی طرح لن کے ہیڈ پر پھیال دیا۔۔۔۔۔۔اور جب ساری مزی میرے لن کے ہیڈ پر پھیل گئی تو پھر انہوں نے میرے ٹوپے پر اپنی ساری زبان کو رکھا اور آہستہ آہستہ اسے چاٹنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹوپے کو چاٹتے چاٹتے اچانک ہی انہوں نے میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگیں۔۔۔۔
پھر کچھ دیر تک لن کو چوسنے کے بعد
اچانک انہوں نے اپنے منہ سے میرے لن کو باہر نکاال ۔۔۔۔ اور سیدھی لیٹ کر بولیں ۔۔۔ آ۔۔ اب میری چوت کو مار۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے ان کی دونوں ٹانگوں کو کھوال ۔۔۔اور درمیان میں آ کر بیٹھ گیا۔۔۔اور بڑ ے غور سے ان کی چوت کو دیکھتے ہوئے اس کی نرم سکن پر اپنے ہاتھ کو پھیرنے لگا۔۔۔۔ میری طرح انہوں نے بھی اپنی چوت کی تازہ شیو کی ہوئی تھی ۔۔ان کی چوت ڈبل روٹی کی طرح پھولی ہوئی تھی۔۔۔اور ۔۔ان کی پھدی کی درمیان والی لکیر کافی لمبی اور باریک تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ چوت کے دونوں ہونٹ آپس میں ملے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ اور ان ہونٹوں کے عین اوپر۔۔۔۔۔۔پھوال ہوا براؤن سا دانہ تھا۔۔۔۔۔۔ جسے دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور اس کو دیکھتے ہوئے میں نیچے جھک گیا اور اس پھولے ہوئے دانے کو اپنے منہ میں لے کر مزے سے چوسنے لگا۔۔۔۔ میرے ایسا کرنے سے وہ اپنے منہ سے مستی بھری آوازیں نکالتے ہوئے ۔۔۔۔ سر کو بڑی شدت سے دائیں بائیں مارنے لگیں اور پھر بولیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو چھوڑو ۔۔۔چوت مارو۔۔۔۔اور ساتھ ہی اپنے دانے پر رکھے میرے منہ کو وہاں سے ہٹا دیا۔۔۔۔۔
یہ دیکھ کر میں بھی گھٹنوں کے بل ان کی
چوت کے پاس بیٹھ گیا ا ور پھر ان کی گانڈ پر انگلی پھیرتے ہوئے بوال بوال۔۔۔ لیکن اس سے پہلے میں آپ کی گانڈ ماروں گا۔۔ میری بات سن کر وہ مصنوعی غصے سے بولیں۔۔۔۔۔۔ پہلے پھدی مار سالے ۔۔اور پھر کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ہاں جب فارغ ہونے لگو تو اپنے لن کو میری پھدی سے نکال کر گانڈ میں دے دینا۔۔۔۔ اس پر میں نے ان سے کہا۔۔۔۔ آپ کی گانڈ میرے لوڑے کو لے پائے گی؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ تھوڑی سی کوشش کرو گے تو اندر چال جائے گا۔۔۔پھر خود ہی بولیں۔۔۔ جاوید کے ساتھ شروع دوستی میں ۔۔۔۔میں اسے صرف بیک ڈور ہی یوز کرنے دیتی تھی ۔۔اس لیئے تم میری گانڈ کی فکر نہیں کرو۔۔تھوڑی سی کوشش کے بعد یہ بھی آرام سے اندر چال جائے گا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنی چوت پہ رکھ کر بولیں ۔۔۔۔۔۔ چل اب دھکا مار۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اپنے لن کو ان کی چوت پر رکھا تو اسے از حد چکنا پایا۔۔۔ ۔۔ پھر بھی میں نے لن پر تھوڑ ا تھوک لگا کر اسے گیال کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لن کے اگلے سرے کو ان کی چوت کے اینڈ پر رکھ کر ہلکا سا پش کیا۔۔۔۔ میرا لن ان کی چوت کے لبوں کے درمیان سے ہوتا ہوا۔۔ ان کی چوت کے اندر چال گیا۔۔۔۔ جیسے ہی لن ان کی چوت کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔ وہ چالئیں ۔۔۔۔۔۔۔ شاہ!!!!!!!!!!!۔۔۔ لن کو جڑ تک لے جا ۔۔۔۔۔۔۔ ان کی بات سن کر اگلے ہی لمحے میں نے ایک اور گھسہ مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لن پھسلتا ہوا ان کی چوت کی گہرائی تک اتر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی لن ان کی چوت کی اندرونی تہہ کو چیرتا ہوا ۔۔۔ ان کی چوت کی گہرائی میں اترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ایک زور دار چیخ ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کہنے لگیں ۔۔اب رکنا نہیں ۔۔۔۔اور پھر واقعی میں نہیں ُر کا ۔۔۔اور پے در پے دھکے مارنا شروع کر دیئے۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بولیں ایک منٹ رکو ۔۔۔۔اور جب میں نے ان کی چوت میں پمپنگ کرنا بند کر دی تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری کیا پوزیشن ہے ؟ فارغ تو نہیں ہونے والے؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ نہیں ۔۔ منزل ابھی دور ہے ۔۔۔۔۔تو وہ ُا ٹھ کر بیٹھ گئیں اور خود ہی گھوڑی بنتے ہوئے بولیں۔۔۔اب مجھے گھوڑی بنا کے چودو پھر مجھے ہدایت دیتی ہوئے بولی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جب فارغ ہونے لگو ۔۔۔تو میری گانڈ میں اپنے لن کو ڈالنے سے پہلے تھوک سے میری بنڈ کو پوری طرح چکنا کر لینا فورًا پھدی سے لوڑا نکال کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ڈال دینا۔ اور میری پھدی میں ہر گز پانی کو نہیں چھوڑنا ۔۔۔ اور پھر میرے سامنے اپنی گانڈ کر ہال کر بولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوت تو تم نے پہلے ہی پھاڑ دی ہے اب میری بنڈ کو بھی پھاڑ دینا۔۔۔ان کی یہ بات سنتے ہی میں نے ایک دفعہ پھر لن کو چکنا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کی چوت مارنے لگا۔۔۔ میرے ہر دھکے پر وہ چیخ مارتی اور کہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مار۔۔۔۔۔۔
ان کی پھدی کو مارتے ہوئے میں نے دو تین
دفعہ محسوس کیا تھا کہ وہ فارغ ہو گئیں ہیں۔۔۔ لیکن میں نے کوئی پرواہ نہ کی ۔۔۔ اوراپنے لن کو ان کی پھدی میں ان آؤٹ کرتا رہا۔۔اسی دوران۔۔۔۔میں نے محسوس کیا کہ اب میں بھی جانے واال ہوں تو اچانک میں نے ان کی پھدی سے اپنا لن نکال ۔۔۔۔ تو وہ اپنے منہ کو پیچھے کی طرف کر کے بولیں ۔ ۔۔ میری بنڈ کو ایک دفعہ پھر چکنا کر لو۔۔ یہ سن کر میں نے ان کی گانڈ پر بہت سارا تھوک پھینکا ۔۔۔اور لن کو ان کی گانڈ کے رنگ پر رکھا ۔۔۔اور تھوڑا دبا کر سے بش کیا۔۔۔۔ ابھی میرے لن کی بمشکل آدھی ٹوپی ہی ان کی گانڈ میں گھسی ہو گی کہ انہوں نے ایک ذور دار چیخ ماری۔۔اور بولیں ۔۔۔ ہائے درد ہو رہا ہے۔۔۔ پلیززززز اور نہ اندر ڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے ان کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے اگال دھکا مارا ۔۔۔تو لن ان کی سلپری گانڈ میں کافی اندر تک چال گیا ۔۔۔ لن کو اپنی گانڈ میں توڑ تک محسوس کرتے ہی انہوں نے پیچھے ُم ڑ کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔۔ تمہارا لن میری گانڈ میں اتر گیا ہے۔۔۔اب رج کے گھسے مارو۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھسے مارتے مارتے آخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ اب میری ٹانگوں سے جان نکلنے لگی ہے ۔۔تو اسی لیئے میں شور مچاتے ہوئے بوال۔۔۔۔آٖص فہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں فارغ ہونے واال ہوں۔۔۔۔تو جواب میں انہوں نے اپنی گانڈ کو میرے لن کے ساتھ جوڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری دھکے ذور سے مار۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میں نے پوری طاقت لگا کر دھکے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید دو تین دھکوں کے بعد ہی ۔۔ میرے لن کے منہ سے منی کا ایک سیالب نکال اور ان کی پیاسی گانڈ کو سیراب کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میرے لن سے نکلنے والی ساری منی ان کی گانڈ میں اتر گئی تو انہوں نے مجھے اپنی گانڈ سے لن نکالنے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیسے ہی میں نے ان کی ٹائیٹ گانڈ سے اپنے لن کو باہر نکال وہ پیچھے مڑیں اور مجھے اپنے گلے کے ساتھ لگا کر مجھے بے تحاشہ چومنے لگیں ۔۔۔۔اسی دوران جب میرا سانس کچھ بحال ہوا تو میں میں نے ان کو ہونٹوں پہ ایک پپی دی اور بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چودائی۔۔۔کیسی لگی؟؟ ۔۔۔۔تو وہ ایک دم سے بولیں۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔یہ بھی امیزنگ۔۔آسم۔۔۔۔اور پھرکہنے لگیں ۔۔۔۔۔ یقین کرو شاہ ۔۔۔۔۔۔ بے شک جاوید میری پہلی محبت ہے۔۔۔لیکن آج سے تم میری دوسری محبت ہو۔۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی ُذ و معنی لہجے میں بولیں ۔۔اور اپنی اس دوسری محبت کو میں کبھی بھی مایوس نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی یہ بات سنتے ہی میں نےدل ہی دل میں نعرہ لگایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام سویرے ہن موجاں ای موجاں۔۔۔۔۔۔۔