You are on page 1of 59

‫‪Bahzad king‬‬

‫‪03147615013‬‬

‫*موجاں ہی موجاں ۔۔۔از قلم ۔۔شاہ جی*‬

‫دوستو یہ قصہ ہے وہاں کا جب آتش ابھی‬


‫جواں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ من میں ایک امنگ ۔۔۔‬
‫اور دل میں ترنگ تھی ۔۔ یہ سردیوں کے دن‬
‫تھے اس دن موسم بڑا ہی شاندار تھا دھوپ‬
‫نکلی ہوئی تھی اور میں اپنے گھر کی چھت‬
‫پر کھڑا حسِب معمول ادھر ادھر "جھاتیاں"‬
‫مار رہا تھا لیکن اتفاق سے اس وقت آس‬
‫پاس کوئی پری چہرہ نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ اور‬
‫نہ ہی وہ بھی کہیں دکھائی دے رہی تھی کہ‬
‫جس کے لیئے بندہ اتنی دیر سے کھڑا چھت‬
‫پر سوکھ رہا تھا۔۔۔۔ جب مجھے اپنے چھت‬
‫پر جھاتیاں مارتے ہوئے کافی دیر ہوگئی اور‬
‫کسی مہ لقا معہ اپنی محبوبہ کا دیدار‬
‫نصیب نہ ہوا ۔۔۔۔تو میں چھت کی چار‬
‫دیواری سے ہٹ کر پاس پڑی چارپائی پر جا‬
‫کر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا‬
‫جائے؟؟؟ کیونکہ اس وقت میرا دل بھونڈی‬
‫کرنے کو چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ تب اچانک ہی ایک‬
‫خیال آیا کہ کیوں نہ کسی پارک کا چکر لگایا‬
‫جائے ۔۔۔۔کہ وہاں دیدار ‪ ،‬یار نہ سہی ۔۔۔۔کسی‬
‫اور حسینہ ماہ جبیناں کا دیدار ہو جائے گا‬
‫۔۔۔اور اگر اتفاق سے وہاں پر کسی گرم آنٹی‬
‫سے مڈ بھیڑ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بھائی‬
‫جی۔۔۔۔۔اپنے تو وارے نیا رے ہو جائیں گے‬
‫اسی سوچ کا آنا تھا کہ میں جمپ مار کا‬
‫اپنی چارپائی سے ُا ٹھا اور چھت سے سیدھا‬
‫نیچے چال گیا ۔۔اور پھر جلدی سے اپنی‬
‫پھٹیچر بائیک کو باہر نکاال اور اسے سٹارت‬
‫کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔سوچنے لگا کہ کہاں جایا‬
‫جائے؟ ایک خیال ایوب پارک کا آیا ۔۔۔ لیکن‬
‫پتہ نہیں کیوں میرا اس طرف جانے کو من‬
‫مائل نہیں ہوا ۔۔۔ چنانچہ دو تین پارکوں کے‬
‫بارے سوچتے ہوئے اچانک میرے زہن میں‬
‫شکرپڑیاں کا خیال آگیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ فیصلہ‬
‫کرتے ہی میں نے اپنے بائیک کو شکرپڑیاں کی‬
‫طرف موڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں شکرپڑیاں‬
‫پہنچا تو موسم کی رنگینی اپنے عروج پر‬
‫تھی۔۔۔۔ ہر طرف سرما کی فرحت بخش‬
‫دھوپ چھائی ہوئی تھی اور اس پہ طرہ‬
‫شکرپڑیاں آئے ہوئے حسین لوگ ۔۔‬
‫واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ یہ سب مل جل کر موسم کو‬
‫رنگین سے رنگین تر بنا رہے تھے۔۔ بچے ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ اٹھیلیاں کر رہے تھے اور‬
‫بڑے ان کو دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔‬
‫اور ہم جیسے ٹھرکی ان کے ساتھ آئی ہوئی‬
‫لیڈیز کو تاڑ رہے تھے ۔ میں بھی وہاں کافی‬
‫دیر تک کھڑا اس ہجوم میں کچھ " تالش"‬
‫کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو آنٹیاں نظر آئی‬
‫بھی ۔۔ جن کے کھڈ رات بتا رہے تھے کہ یہ‬
‫عظیم عمارت مطلوبہ سہولت مہیا کرنے کی‬
‫پوری پوری صالحیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن‬
‫شایدفیملی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔‬
‫انہوں نے۔۔۔ میری شہوت بھری نظروں کا‬
‫جواب اپنی شہوت بھری نظروں سے تو‬
‫ضرور دیا ۔ ۔۔۔۔۔لیکن اس کے عالوہ انہوں نے‬
‫اس ۔۔۔ بندہء مسکین کو اور کوئی خاص‬
‫لفٹ نہیں کروائی ۔۔۔ میں بھی ان کی‬
‫مجبوری کو سمجھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔خود‬
‫کو انگور کھٹے ہیں کہہ کر ان کی طرف‬
‫دیکھنا بند کر دیا ۔۔۔۔۔ چنانچہ ان خواتین کی‬
‫طرف سے مایوس ہونے کے بعد میں نے سوچا‬
‫۔۔۔شاہ جی اٹھو اب کوچ کرو۔۔۔۔پھر سوچا‬
‫کہ اب جبکہ یہاں آیا ہی گیا ہوں تو کیوں نہ‬
‫تھوڑی سی واک ہی کر لی جائے ۔۔۔۔ چنانچہ‬
‫اس خیال کے آتے ہی میں شکر پڑیاں سے‬
‫نیچے اترا اور کنول جھیل کی طرف چال گیا‬
‫۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ہوتا ہوا کنول جھیل کے‬
‫اوپر کی طرف بنے ہوئے عالقے کی طرف چال‬
‫گیا ۔۔ یہاں تک کہ واک کرتے ہوئے میں کافی‬
‫آگے تک بڑھ گیا۔۔۔۔ اتنی آگے جا کر سوچا کہ‬
‫چلو اب واپس چلتے ہیں ۔۔۔ پھر خیال آیا کہ‬
‫تھوڑا آگے سے ُم ڑ جاؤں گا۔۔۔۔۔اور چلنے لگا‬
‫۔۔۔ میں نے ابھی وہاں سے دو تین قدم ہی آگے‬
‫بڑھائے تھے کہ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک مجھے‬
‫پاس کی جھاڑیوں میں سے ایک عجیب سی‬
‫سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ میں نے ایک‬
‫لمحہ اس پر غور کیا اور پھر سر جھٹک کر‬
‫چلنے لگا۔۔ ابھی میں نے ایک قدم آگے ہی‬
‫بڑھایا تھا کہ ۔۔۔ اس سرسراہٹ کی آواز‬
‫تھوڑی اور بڑھ گئی ۔۔۔ ۔ یہ تیز قسم کی‬
‫سرسراہٹ سن کر میں وہیں ُر ک گیا ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور پہلے تو یہ سوچ کر ڈر سا گیا کہ کہیں یہ‬
‫سرسراہٹ کسی سانپ کی تو نہیں؟۔۔۔۔ لیکن‬
‫پھر جیسے ہی میرے کانوں نے سرسراہٹ کے‬
‫ساتھ ساتھ ایک مستی بھری نسوانی‬
‫سرگوشی سُن ی ۔۔۔۔۔ُا وں ُہ وں ۔۔۔ نہ کرو‬
‫ناں۔۔۔۔ تو میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ ہی میں نے جس طرف سے وہ‬
‫نسوانی آواز آ رہی تھی اس طرف دیکھا۔۔ تو‬
‫سامنے ایک بڑی سی جھاڑی کھڑی تھی میں‬
‫نے غور کیا تو اس بڑی سی جھاڑی کے آس‬
‫پاس چھوٹے چھوٹے بہت سے خود رو درخت‬
‫بھی ُا گے ہوئے تھے ۔۔۔اور ان درختوں کی‬
‫وجہ سے وہاں ایک قدرتی طور پر ایک اوٹ‬
‫سی بن گئی تھی اور اسی اوٹ کے پیچھے‬
‫سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی ۔۔ اور یہ‬
‫سوچ کر کہ اس جھاڑی کے پیچھے دو جوان‬
‫جسم موج مستی کر رہے ہیں ۔۔۔۔ میں ایک دم‬
‫پرجوش سا ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی بڑی‬
‫احتیاط سے اس جھاڑی کی طرف بڑھنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔ میں پھونک پھونک کر‬
‫قدم ُا ٹھاتا ہوا وہاں تک جا پہنچا اور ۔۔۔ وہاں‬
‫پہنچ کر میں ایک دم زمین پر بیٹھ گیا۔ ۔۔۔‬
‫اور پھر ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں پر‬
‫سر ُا ٹھا کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جھاڑی کے اس‬
‫‪ -‬طرف کا نظارہ بہت ہی دلکش اور گرم تھا‬
‫اس وقت میرے سامنے ایک نیم برہنہ لڑکا‬
‫اور ایک نیم برہنہ لڑکی دادِ عیش دے رہے‬
‫تھے ۔۔ لڑکے کی عمر ‪ 29‬تیس سال ہو گی ۔‬
‫اس کا جسم کافی کسرتی تھا ۔۔۔اور اس نے‬
‫اپنے کسرتی جسم پر جین کی نیلی پینٹ اور‬
‫اوپر سفید شرٹ پہن رکھی تھی اور اس‬
‫شرٹ کے اوپر اس نے آدھے بازوؤں کی‬
‫سوئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی اس مرد نے‬
‫اتنی ٹائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی کہ اس‬
‫شرٹ سے اس کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑک‬
‫رہی تھیں ۔۔۔ مرد کی پینٹ کی زپ کھلی‬
‫ہوئی تھی اور اس نے اپنا لن لڑکی کے ہاتھ‬
‫میں پکڑایا ہوا تھا۔۔۔ جسے وہ بڑے پیار سے‬
‫آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔ چونکہ دونوں کا‬
‫میرے طرف سائیڈ پوز تھا اس لیئے میں اس‬
‫لڑکے اور لڑکی کا چہرہ اچھی طرح سے نہ‬
‫دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ادھر پاس زمین پر لڑکی‬
‫کا جہازی سائز پرس پڑا تھا اور اس پرس‬
‫کے اوپر اس کی سفید رنگ کی بڑی سی‬
‫چادر بھی رکھی تھی لڑکی نے اپنی قمیض‬
‫پر کالے رنگ کی سؤئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی‬
‫جس کے آگے سے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے‬
‫اس کی قمیض سے اس کی بھاری چھاتیاں‬
‫باہر کو نکلی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور ان ننگی‬
‫چھاتیوں پر وہ مرد جھکا ہوا تھا اور اس کے‬
‫ہاتھ میں لڑکی کے ممے تھے جسے وہ دباتا تو‬
‫لڑکی ایک سیکسی سی آہ بھر کر کہتی کہ ‪..‬‬
‫ُا ف ۔۔آہستہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی کی‬
‫چھاتیوں سے ہوتی ہوئی میری نگاہ نیچے‬
‫پڑی تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا‬
‫نیچے رہ گیا ۔۔۔ بات کچھ یوں تھی کہ اکڑوں‬
‫بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنی قمیض کو مٹی‬
‫سے بچانے کے لیئے اسے پیچھے سےکافی حد‬
‫تک اوپر ُا ٹھا یا ہوا تھا جس سے اس کی‬
‫گانڈ صاف نظر آرہی تھی اوپر سے غضب یہ‬
‫تھا کہ قمیض کے نیچے اس لڑکی نے چوڑی‬
‫دار پاجامہ پہنا ہوا تھا ۔۔ اور یہ ُچ ست‬
‫پاجامہ اس کی موٹی سی گانڈ کے بلکل‬
‫ساتھ چپکا ہوا تھا۔۔کہ جس کی وجہ سے‬
‫اس لڑکی کی گانڈ کا ایک ایک انگ بڑا ہی‬
‫نمایاں نظر آ رہا تھا۔۔۔واہ۔۔۔ کیا شاندار گانڈ‬
‫تھی ۔۔۔ اس لڑکی کی اتنی مست گانڈ دیکھ‬
‫کر میں تو اس لڑکی پر بن دیکھے ہزار جان‬
‫سے فدا ہو گیا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اتنی مست گانڈ‬
‫دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فورًا ہی میرے لن نے جان‬
‫پکڑنا شروع کر دی۔۔۔‬

‫جبکہ دوسری طرف صورِت حال یہ تھی کہ‬


‫وہ مرد اکڑوں بیٹھی لڑکی سے اپنا لن منہ‬
‫میں لینے کو کہہ رہا تھا ۔۔۔ اور لڑکی کے انداز‬
‫سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ بھی مرد کا لن‬
‫چوسنا چاہتی ہے لیکن جیسا کہ ہماری دیسی‬
‫کڑیوں کی عادت ہے کہ دل ہونے کے باوجو د‬
‫بھی ۔۔ ایسی ہی جعلی نخرے کرنا ۔۔۔۔ سو‬
‫وہ یہی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔چنانچہ جب وہ لڑکا‬
‫اس سے کہتا کہ پلیززززززز تھوڑا سا تو منہ‬
‫میں لو ناں۔۔۔۔تو لڑکی مست اور سریلی آواز‬
‫میں کہتی کہ نا بابا مجھ سے یہ گندہ کام‬
‫نہیں ہو گا ۔۔۔۔ تمہارا ہاتھ میں پکڑ لیا یہ‬
‫کافی نہیں ہےکیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔ تو آگے سے وہ لڑکا‬
‫کہتا ۔۔۔۔۔ جان چوسنا نہیں تو پلیزززززززز۔۔‬
‫اس پر ایک کس ہی کر دو۔۔۔۔ اس پر لڑکی‬
‫بڑی ادا سے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ لو میں‬
‫جسٹ کس ہی کروں گی۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئے‬
‫لڑکی نے ایک ادا سے اپنی گانڈ کو پیچھے‬
‫سے ُا ٹھایا ۔۔۔۔اور اپنے منہ کو آگے کیا اور‬
‫لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے منہ کو اس کے‬
‫لن کی طرف لے گئی ۔۔۔گانڈ اوپر اٹھانے سے‬
‫۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ کے دونوں پٹ یہاں تک کہ‬
‫اس کی موٹی گانڈ کے دونوں ۔۔۔ حصوں کے‬
‫درمیان کی لکیر بھی نمایاں طور پر نظر آنے‬
‫لگی ‪ُ-‬ا ف ایک تو لڑکی کی موٹی گانڈ ۔۔‬
‫دوسرا اس موٹی گانڈ کو دو حصوں میں‬
‫بانٹتی ہوئی گہری سی لکیر ۔۔۔۔ یہ سب دیکھ‬
‫کر میں تو جھال ہو گیا ۔۔۔اور اس دل کش‬
‫نظارے کو مزی د نزدیک سے دیکھنے کے لیئے‬
‫بے اختیار اپنی جگہ سے تھوڑا آگے کو بڑھ‬
‫گیا ۔۔۔ میرے آگے بڑھنے سے زمین پر پڑے‬
‫ہوئے خشک پتوں سے ایک چرچراہٹ کی سی‬
‫آواز پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بد قسمتی سے اس‬
‫سناٹے میں یہ آواز اس قدر تیزی کے ساتھ‬
‫ابھری کہ ۔۔۔اس آواز کو سنتے ہی ۔۔۔ وہ‬
‫دونوں ایک دم اپنی جگہ سے اچھلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اب پوزیشن یہ بنی تھی کہ اس کی گانڈ کو‬
‫نذدیک سے دیکھنے کے چکر میں ۔۔۔ میں ان‬
‫کے سامنے نمایاں طور پر کھڑا نظر آ رہا تھا۔۔‬
‫۔۔۔ ادھر جیسے ہی لڑکی نے۔۔۔۔ گردن گھما کر‬
‫میری طرف ۔۔۔اور میں نے اس کی طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایک دوسرے کو دیکھ کر‬
‫۔۔۔۔ہم دونوں ہی ششدر رہ گئے۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔‬
‫ہماری محلے دار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھی جسے نہ صرف‬
‫یہ کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا بلکہ‬
‫ہمارے ان کے ساتھ گھریلو مراسم بھی‬
‫تھے۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ لڑکی جس کا نام‬
‫آصفہ تھا اور جسے میں آصفہ باجی کہتا تھا‬
‫۔۔۔۔۔ ایسے ہو گئی تھی کہ جیسے کاٹو تو لہو‬
‫نہیں۔۔وہ بڑی ہی خوف ذدہ نظروں سے میری‬
‫طرف دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف‬
‫میں ۔۔۔ بس خالی خالی نظروں سے بڑی ہی‬
‫غیر یقنی حالت میں اسے گھورے جا رہا تھا۔‬
‫دراصل میرے زہن کے کسی بعید ترین گوشے‬
‫میں بھی اس لڑکی کے بارے میں ایسا کوئی‬
‫تصور موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کی‬
‫فیملی کے لوگ بہت پرہیز گار اور مزہبی ٹائپ‬
‫کے تھے اور خود وہ لڑکی بھی محلے سے‬
‫نکلتے وقت خود کو ایک بڑی سی چادر سے‬
‫ڈھکا رکھتی تھی ۔ اور محلے میں اس نے‬
‫کبھی کسی کو سر ُا ٹھا کر بھی نہیں دیکھا‬
‫تھا ۔۔۔۔ اسی لیئے آصفہ باجی کو اس حالت‬
‫میں دیکھ کر میں حیران پریشان ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔کیونکہ میرے لیئے ا ن کی یہ حرکت‬
‫بڑی ہی غیر متوقع اور حیرت انگیز تھی۔۔‬
‫میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری جگہ‬
‫ہمارے محلے کا کوئی اور لڑکا اس لڑکی کے‬
‫بارے میں مجھ سے اس قسم کی بات کرتا‬
‫تو ہو سکتا ہے کہ جواب میں میں اس کے‬
‫دانت توڑ دیتا۔۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب‬
‫اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے بڑا‬
‫زبردست شاک لگا تھا اور میں اسی شاک کے‬
‫زیِر اثر۔۔۔میں اس کو یک ٹک دیکھے جا رہا‬
‫تھا ۔۔۔۔ میرے برعکس آصفہ باجی جلد ہی‬
‫صدمے سے باہر نکل آئی اور اس نے جلدی‬
‫سی اپنی بھاری چھاتیوں کو قمیض کے اندر‬
‫کیا اور پرس اور چادر ُا ٹھا کر لڑکا کا ہاتھ‬
‫پکڑا ۔۔۔اور تقریبًا بھاگتے ہوئے وہاں سے چلی‬
‫گئی۔۔۔‬

‫ان کو بھاگتے دیکھ کر ۔۔۔ میں بھی شاک کی‬


‫حالت سے باہر نکل آیا ۔۔۔۔اور بڑے بوجھل‬
‫قدموں کے ساتھ واپس چال گیا اور لوک‬
‫ورثہ کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آج کے‬
‫واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔ جو کچھ‬
‫میری نظروں نے دیکھا تھا ۔۔۔ میرا دل ابھی‬
‫تک اسے ماننے کو تیار نہیں تھا سوچتے‬
‫سوچتے خیال آیا کہ اس میں اتنا حیران‬
‫ہونے کی کیا بات ہے؟؟ بے شک آصفہ باجی کا‬
‫تعلق ایک مزہبی اور روایتی فیملی سے ہے‬
‫۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک جوان‬
‫لڑکی بھی تو ہے جس کی عمر بیتی جا رہی‬
‫تھی اور اس کے گھر والے ابھی تک اس کے‬
‫لیئے کسی نیک اور صالع لڑکے کی تالش میں‬
‫تھے جبکہ میرے اندازے کے مطابق اس وقت‬
‫آصفہ باجی کی عمر ستائیس اٹھائیس سال‬
‫ہو گی ۔۔۔ یعنی کہ وہ ایک بھر پور جوان‬
‫لڑکی تھی اور اگر وہ جوانی کے ہاتھوں‬
‫مجبور ہوکر تھوڑا بہک گئی تھی تو اس میں‬
‫اچھنبے کی کیا بات تھی؟ اس کے بھی‬
‫جزبات ہوں گے اس کو بھی ہوشیاری آتی‬
‫ہوگی۔۔۔ ۔۔۔۔اور ویسے بھی ۔۔ ہم کون سے‬
‫ایسے فرشتہ صفت بندے تھے کہ اس کی‬
‫بات کو اچھالیں؟؟؟ ۔۔خود ہمارا حال یہ تھا‬
‫کہ محلہ کیا آس پاس کی کوئی بھی ڈھیلی‬
‫۔۔۔ آنٹی ہمارے لن کی دسترس سے محفوظ‬
‫نہ تھی۔۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں نے دل ہی‬
‫دل میں یہ طے کر لیا کہ آصفہ باجی کے بارے‬
‫میں آج میں نے جو کچھ بھی دیکھا اور سنا‬
‫ہے وہ اسی ریسٹورنٹ میں دفن کر دیتا ہوں‬
‫۔۔۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد ۔۔۔ میں نے خود کو‬
‫کافی ہلکا پھلکا محسوس کیا ۔۔۔۔ اس کے‬
‫بعد میں وہاں سے ُا ٹھا اور اپنے دوستوں کی‬
‫طرف چال گیا۔۔۔۔ اور کافی دیر سے گھر‬
‫پہنچا۔۔۔‬
‫جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو امی‬
‫مجھ سے کہنے لگیں کہ آصفہ کافی دیر سے‬
‫تمہارا پوچھ رہی تھی اور تم سے ملنے کے‬
‫لیئے اس نے ہمارے گھر کے کافی چکر بھی‬
‫کاٹے ہیں اور آخری دفعہ جاتے ہوئے اس نے‬
‫امی کو یہ پیغام دیا تھا کہ جیسے ہی میں‬
‫گھر آؤں اس کی بات ضرور سنوں ۔۔آصفہ‬
‫باجی کا پیغام سن کر میں ساری بات سمجھ‬
‫گیا تھا لیکن ویسے ہی مچال بنتے ہوئے امی‬
‫سے بوال۔۔۔۔ کہ امی خیریت تو ہے نا ؟ ان کو‬
‫مجھ سے ایسا کیا کام پڑ گیا ہے ؟ تو امی‬
‫کہنے لگی کام کا تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ البتہ‬
‫شکل سے وہ بے چاری کافی پریشان لگ رہی‬
‫تھی ۔۔۔۔پھر کہنے لگیں بیٹا جلدی سے جا کر‬
‫اس سے مل آ ۔۔۔کہ پہلے ہی وہ ہمارے گھر کے‬
‫کافی چکر لگا چکی ہے۔امی کی بات سن کر‬
‫میں آصفہ باجی کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔‬
‫اور جا کر ان کے گھر کی گھنٹی بجائی تو‬
‫جواب میں انہوں نے ہی دروازہ کھوال ۔۔۔ اس‬
‫وقت وہ خاصی پریشان اور دہشت زدہ سی‬
‫لگ رہیں تھیں ۔۔ مجھے اپنے سامنے پا کر‬
‫انہوں نے مجھے سیڑھیوں کی طرف جانے کا‬
‫اشارہ کیا جو کہ ان کے دروازے کے ساتھ ہی‬
‫بنی ہوئیں تھیں۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی میں‬
‫سیڑھیاں چڑھتا ہوا ۔۔۔۔ان کی ممٹی پر پہنچا‬
‫۔۔۔ تو پیچھے سے آواز دے کر انہوں نے‬
‫مجھے وہیں رکنے کا کہا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اور‬
‫جیسے ہی میں رکا ۔۔۔۔وہ تیزی سے سیڑھیاں‬
‫چڑھ کر میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ ۔۔‬
‫اور پھر میرے سامنے ُر کتے ہی انہوں نے اپنا‬
‫سر جھکا لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنی‬
‫ٓانکھیں پونچھنے لگیں ۔۔مجھے دیکھتے ہی‬
‫وہ رونا شروع ہو گئیں تھیں انہیں روتا‬
‫دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا اور اسی‬
‫پریشانی کے عالم میں ان سے کہا۔۔ کیا ہوا‬
‫باجی ؟ میری بات سن کر انہوں نے کچھ‬
‫جواب نہ دیا ۔۔۔ پھر میرے بار بار پوچھنے پر‬
‫انہوں نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٓائی ایم‬
‫سوری شاہ !!!!!!!!۔۔۔۔۔اور پھر سے رونے لگیں‬
‫۔۔۔اس پر میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫ان سے کہا ۔۔۔۔ سوری؟؟؟؟؟؟ پر کس بات‬
‫کی؟ ٓاپ نے ایسا کیا کیا ہے؟ جو مجھ سے‬
‫سوری بول رہی ہو۔۔۔۔ تو وہ آنسو پونجھتے‬
‫ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سوری دوپہر‬
‫والے واقعہ پر مانگ رہی ہوں ۔۔۔۔ اس پر میں‬
‫نے ہنستے ہوئے بوال ۔۔۔ لو کر لو گل ۔۔۔۔اس‬
‫میں سوری کی کیا بات ہے باجی ؟ ۔۔۔ بلکہ‬
‫سوری تو مجھے بولنا چاہیئے کہ میں نے آپ‬
‫لوگوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔۔‬
‫میری بات سن کر انہوں نے ایک دم سے اپنا‬
‫سر ُا ٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں ؟ تت ۔۔۔تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے‬
‫ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے ہی سنجیدہ‬
‫لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔آپ کی قسم ۔۔۔ میں بلکل‬
‫سچ کہہ رہا ہوں !!!!۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫انہوں نے ایک بار پھر بڑی بے یقنی سے میری‬
‫طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔تم جو‬
‫کہہ رہے ہو ۔۔۔دل سے کہہ رہے ہو ناں ۔۔۔اس‬
‫پر میں نے ان سے کہا جی دل سے کہہ رہا‬
‫ہوں ۔۔۔۔اور اس میں حیرانی کی کیا بات‬
‫ہے؟؟ ۔۔ پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال‬
‫۔۔۔زیادہ حیران نہ ہوں باجی ۔۔۔۔ ۔۔۔ آپ بھی‬
‫میری طرح سے ایک جیتی جاگتی انسان ہو‬
‫کوئی لکڑ کی مورت تو نہیں ۔۔۔اس لیئے آپ‬
‫کو بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اتنا‬
‫ہی حق ہے جتنا کہ کسی ا ور کو ہے۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر ان کی آنکھوں میں تشکر بھرے‬
‫جزبات آ گئے اور وہ رندھی ہوئی آواز میں‬
‫کہنے لگیں اگر تم اس کی بجائے کوئی اور‬
‫بات کرتے تو آج میں نے خود کشی کر لینی‬
‫تھی۔۔۔ اس پر میں ہنستے ہوئے کہا مریں آپ‬
‫کے دشمن ۔۔۔۔بھال اس میں خود کشی کی کیا‬
‫بات تھی ؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر‬
‫بولیں ۔۔ تھی نا ۔۔ لیکن تم نہیں سمجھو گے‬
‫۔۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫بولیں۔۔۔۔۔ وعدہ کرو کہ تم اس واقعہ کا‬
‫کسی سے بھی تزکرہ نہیں کرو گے؟ تو میں‬
‫نے خلوِص دل سے کہا کہ باجی میرا ٓاپ کے‬
‫ساتھ پکا وعدہ ہے کہ آج کے بعد میں اس‬
‫بات کا اپنے آپ سے بھی تزکرہ نہیں کرو ں‬
‫گا میری بات سن کر انہوں نے اطمینان کی‬
‫ایک گہری سانس لی ۔۔‬

‫جب وہ میری طرف سے پوری طرح مطمئن‬


‫ہو گئیں ۔۔۔تو پھر میں نے ان کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔۔باجی کیا میں آپ سے ایک‬
‫پوچھ سکتا ہوں نا؟ تو وہ اپنی آنکھیں‬
‫صاف کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔ ۔۔ ہاں بولو ۔۔تو‬
‫میں نے ان سے کہا کہ کون تھا وہ لکی ؟؟ کم‬
‫از کم ہمارے محلے کا تو ہر گز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ تھوڑی سی ہچکچاہٹ‬
‫سے بولیں اس کا نام جاوید ہے اور وہ میری‬
‫پہلی محبت ہے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ‬
‫مجھ سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔۔ اس کے بارے میں‬
‫تمہیں باقی باتیں پھر کبھی بتاؤں گی کہ‬
‫اس وقت ابا جی کے آنے کا ٹائم ہو گیا ہے ۔۔۔۔‬
‫اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے جانے‬
‫کا اشارہ کیا۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ ان کا اشارہ‬
‫دیکھتے ہی میں سیدھا وہاں سے اپنے گھر آ‬
‫گیا۔۔۔‬

‫پھر یوں ہوا کہ اس دن کے بعد میری ان کے‬


‫ساتھ دوستی ہو گئی اور ہاں بعد میں انہوں‬
‫نے میرے پوچھنے پر اپنے محبوب کے بارے‬
‫میں بتالیا کہ ۔۔۔وہ ان کے کالج کے دنوں کا‬
‫دوست تھا اور بقول ان کے ۔۔۔ وہ ان سے‬
‫شدید محبت کرتا ہے اور ان کے ساتھ شادی‬
‫کرنا چاہتا تھا۔اور اب ان کی چاہت بہت آگے‬
‫تک بڑھ چکی تھی ۔ یہ ساری تفصیل‬
‫پوچھنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا تھا کہ‬
‫کیا اس سے شادی کے لیئے آپ کے والدین‬
‫مان جائیں گے؟ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ‬
‫اس معاملے میں خصوصًا ان کے والد بہت ہی‬
‫سخت تھے ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔۔ کوشش تو یہی ہے کہ وہ لوگ مان‬
‫جائیں ۔۔اور پھر کہنے لگیں اس سلسلہ میں‬
‫انہوں نے اپنی خالہ کے زریعے بات چیت کا‬
‫ڈول بھی ڈاال تھا ۔۔۔۔۔ لیکن تا حال کوئی‬
‫خاص کامیابی نہ ہوئی تھی۔۔۔ میں اکثر ہی‬
‫ان کے گھر جایا کرتا تھا لیکن اس واقعہ کے‬
‫بعد تو میرا ان کے گھر اور ان کا ہمارے گھر‬
‫آنا جانا کچھ زیادہ ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی‬
‫واحد وجہ یہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔آپ سمجھ تو گئے‬
‫ہوں گے۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد وہ اپنے دل‬
‫کی ساری باتیں مجھ سے شئیر کر لیتی تھیں‬
‫۔۔۔۔ اسی لیئے تھوڑے دنوں میں ہی ہماری‬
‫دوستی اور بھی گہری ہو گئی تھی ۔۔ایک دن‬
‫میں ان کے گھر گیا تو وہ بڑی تیار شیار ہو‬
‫کر گھر سے نکلنے ہی والی تھیں ان کی تیاری‬
‫دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج پھر جاوید‬
‫سے ملنے کا پروگرام ہے لیکن محض مزہ لینے‬
‫کے لیئے میں ان سے بوال ۔۔۔۔ لگتا ہے باجی آج‬
‫پھر جاوید بھائی پر بجلیاں گرانے جا رہی ہو‬
‫۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پرحیا کی‬
‫ایک اللگی سی پھیل گئی اور وہ شرماتے‬
‫ہوئے بولیں ۔۔۔ہاں اس نے بالیا ہے ۔۔۔اس پر‬
‫میں نے شرارت بھری نظروں سے انہیں‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ چلو میں بھی انہی‬
‫درختوں کے جھنڈ کی طرف آ رہا ہوں ۔۔۔‬
‫میری بات سن کر پہلے تو وہ شرم سے الل ہو‬
‫گئیں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا‬
‫بنایا اور مجھ پر تانتے ہوئے مصنوعی غصے‬
‫کا اظہار کرتے سے بولیں۔۔۔ تمہاری جان نہ‬
‫نکال دوں گی اگر تم وہاں نظر بھی آئے‬
‫تو۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے باہر نکل‬
‫گئیں۔۔۔ جبکہ میں اندر ان کے گھر چال گیا‬
‫اور ان کی امی سے تھوڑی دیر گپ شپ‬
‫لگانے کے بعد واپس آگیا۔۔۔‬

‫اگلے دن وہ ہمارے گھر آئیں تو بڑی خوش لگ‬


‫رہیں تھیں انہیں خوش دیکھ کر میں نے‬
‫شرارت سے کہا ۔۔۔۔ لگتا ہے کل کی ڈیٹ کافی‬
‫کامیاب رہی ؟ میری بات سن کر ان کا چہرہ‬
‫الل ہو گیا ۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں ۔۔۔‬
‫پھر میرے بار بار چھیڑنے پر بس اتنا ہی کہا‬
‫۔۔۔۔ چل ہٹ بدمعاش بہنوں سے ایسی باتیں‬
‫نہیں پوچھتے ۔۔ ۔۔۔اور مسکرا دیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اور‬
‫پھر میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے‬
‫لگیں۔۔‬

‫یہ بات محسوس کرتے ہی میں مزید شیر ہو‬


‫گیا ۔۔۔اور ایک بار پھر سے اپنے ہونٹوں کو ان‬
‫کے الل الل گالوں پر رکھ دیا اور اس دفعہ‬
‫میں نے اپنے ہونٹوں کو ان کے گالوں سے‬
‫لگانے کی بجائے ان کو زبان سے چاٹ لیا۔۔۔‬
‫میری زبان کا ان کے الل گالوں پر لگنے کی‬
‫دیر تھی کہ انہوں نے ایک جھرجھری سی لی‬
‫اور ۔۔۔۔ میری طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔اس وقت‬
‫مجھے ان کی آنکھوں میں بھی ہوس کی‬
‫جھلک نظر آئی ۔۔۔۔ لیکن اس کے بر عکس وہ‬
‫مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔۔ یہ ۔۔یہ ٹھیک نہیں‬
‫ہے شاہ۔۔۔ تو میں نے ان کی بھاری چھاتیوں‬
‫کو اپنے سینے کے ساتھ پریس کرتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔۔۔ اس وقت یہی ٹھیک ہے باجی۔۔۔۔ تو‬
‫وہ اپنی چھاتیوں کو میرے سینے سے ہٹانے‬
‫کی کوشش کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ لیکن ۔۔لیکن‬
‫میں تو جاوید کی امانت ہوں ۔۔۔اس پر میں‬
‫نے اپنی زبان نکالی اور ان کے نرم ہونٹوں پر‬
‫اپنی زبان پھیر کر بوال۔۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی‬
‫شک نہیں کہ آپ جاوید کی امانت ہیں ۔۔۔۔‬
‫لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی اس وقت آپ کے جسم‬
‫کو میرے جسم کی اشد ضرورت ہے اور اس‬
‫کے ساتھ ہی میں نے دوبارہ سے ان کا ہونٹ‬
‫چاٹ لیا۔۔۔اور ان کو اپنے ساتھ اور بھی‬
‫سختی کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔ اور پھر اس سے‬
‫پہلے کہ وہ کچھ کہتیں ۔۔میں نے ان کے نیچے‬
‫والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے‬
‫چوسنے لگ گیا۔۔۔ میرے اس عمل سے آصفہ‬
‫کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی ۔۔۔اور‬
‫انہوں نے کسمسا کر اپنے آپ کومجھ سے‬
‫چھڑانے کی واجی سی کوشش کی ۔۔۔لیکن‬
‫اس وقت میری گرفت سے ان کا نکلنا کچھ‬
‫آسان کام نہ تھا اس لیئے وہ محض کسمسا‬
‫کر ہی رہ گئیں ادھر میں ان کے ہونٹوں کو‬
‫اپنے ہونٹو ں میں لیئے مسلسل چوس رہا‬
‫تھا۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ اپنے جسم کو ان کے‬
‫نرم جسم کے ساتھ رگڑ بھی رہا تھا ادھر‬
‫پینٹ میں تنا ہوا میرا لن ان کی گوشت سے‬
‫بھری رانوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔۔جس کی‬
‫سختی کو یقینًا ان کی ران نے محسوس کیا‬
‫ہو گا۔۔۔ لیکن وہ کوئی خاص رسپانس نہیں‬
‫دے رہیں تھیں۔۔۔‬

‫ان کے ہونٹوں کو چوستے چوستے جیسے ہی‬


‫میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں لے جانے کی‬
‫کوشش کی ۔۔تو اچانک انہوں نے اپنے منہ کو‬
‫سختی کے ساتھ بند کر دیا اور میری زبان کو‬
‫اپنے منہ کے اندر جانے سے روک دیا۔۔۔۔۔۔۔تب‬
‫میں نے اپنا منہ ان کے منہ سے ہٹایا اور ان‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ باجی‬
‫پلیززززززززززززززز۔۔۔ تو وہ میری بات س کو‬
‫سمجھتے ہوئے نفی میں سر ہالتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔۔۔اور‬
‫ایک بار پھر خود کو مجھ سے چھڑانے کی‬
‫کوشش کرنے لگیں۔۔۔۔اس پر میں نے ان کو‬
‫کہا کچھ نہیں ہو گا باجی۔۔۔ اور پھر‬
‫سرگوشی میں ان سے کہنے لگا۔۔۔۔جب اتنا‬
‫کچھ ہو گیا ہے تو پلیز تھوڑا سا اور بھی ہو‬
‫جانے دیں ۔اور ایک بار پھر اپنے منہ کو ان‬
‫کے منہ کی طرف لے گیا۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں‬
‫نے اپنے منہ کو دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔‬
‫نہیں ۔۔ناں تھوڑا اور کرنے سے ۔۔۔۔۔تھوڑا ۔۔۔‬
‫نہیں ۔۔۔بلکہ بہت کچھ ہو جائے گا ۔ اس پر‬
‫میں نے بظاہر ہار مانتے ہوئے کہا ۔۔۔چلیں‬
‫ٹھیک ہے آپ کی مرضی نہیں ہے تو کوئی‬
‫بات نہیں ۔۔۔پھر منہ ان کے ہونٹوں کے قریب‬
‫کر کے بوال۔۔۔ ۔۔لیکن ان گالب کی پنکھڑیوں‬
‫کا رس تو پینے کی اجازت ہے نا۔۔۔ ۔۔۔اور اس‬
‫کے ساتھ ہی میں نے دوبارہ سے اپنے ہونٹوں‬
‫کو ان کے ہونٹوں پر رکھ دیا۔۔۔اور ان کو‬
‫چوسنے لگ گیا۔۔۔‬

‫چونکہ مجھے اچھی طرح سے یقین ہو گیا‬


‫تھا کہ اس وقت ان کو لن کی بڑی شدید‬
‫طلب ہو رہی تھی بس وہ فطری جھجھک کی‬
‫وجہ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی تھیں اس‬
‫لیئے میں نے ایک بولڈ سٹیپ لینے کا فیصلہ‬
‫کیا اور وہ یہ کہ ان کے ہونٹ چوستے میں نے‬
‫چپکے سے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور پھر‬
‫ہاتھ ڈال کے انڈروئیر سے لن کو باہر نکال‬
‫لیا۔۔۔۔اور پھر بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان‬
‫کے ہونٹوں کو چوستے چوستے میں نے ان کا‬
‫ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔‬
‫جیسے ہی ان کا ہاتھ میرے ننگے لن پر پڑا ۔۔‬
‫وہ ایک دم سے ایسے اچھلی کہ جیسے ان کو‬
‫‪ 440‬وولٹ کا کرنٹ پڑ گیا ہو۔۔۔۔ ۔۔ اسکے‬
‫ساتھ ہی حیرت سے ان کا منہ کھل گیا ۔۔‬
‫یہی وہ موقعہ تھا جس کی میں تاک میں‬
‫تھا اس لیئے میں نے جھٹ سے اپنی زبان ان‬
‫کے منہ میں ڈال دی۔۔۔اس پر انہوں نے بھتیرا‬
‫نا ں ناں کے انداز میں سر ہالیا لیکن‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کی ایک نہ چلنے دی‬
‫اور ان کے منہ میں اپنی زبان کو گھماتا رہا۔۔۔‬
‫اور پھر ان کی زبان سے اپنی زبان ٹکرا دی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی زبان سے اپنی زبان ٹکرانے‬
‫کی دیر تھی کہ اچانک ان کے منہ سے ایک‬
‫شہوت بھری سسکی نکلی اور انہوں نے نہ‬
‫صرف میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا بلکہ‬
‫نیچے سے اپنی پھدی والی جگہ کو بھی‬
‫میری رانوں کے ساتھ رگڑنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخِر کار میں ان کے ضبط کا‬
‫بندھن توڑ نے میں کامیاب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ٹھوڑی دیر تک میری زبان کو چوسنے کے بعد‬


‫اچانک انہوں نے اپنے منہ سے میرے زبان‬
‫نکالی اور ہوس ناک لہجے میں بولیں ۔۔۔تم‬
‫بہت بد تمیز ہو شاہ۔۔۔۔۔۔۔ اتنی بات کر کے‬
‫پہلی بار انہوں نے میرے نیچے کی طرف‬
‫دیکھا جہاں پر میرا لن فل جوبن میں کھڑا ۔۔‬
‫مست ہاتھی کی طرح لہرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے لن کو دیکھتے ہی ان کی بڑی سی‬
‫آنکھوں ۔۔۔ میں حیرت ابھر آئی۔۔۔ اور وہ رہ‬
‫نہ سکیں اور میرے لن پر نظریں گاڑتے ہوئے‬
‫بولیں ۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ۔۔۔ تو ۔۔اس پر میں نے بڑی‬
‫نرمی سے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے تنے ہوئے لن‬
‫پر رکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی جی۔۔۔۔ یہ‬
‫میرا ۔۔ہی ٹول ہے۔۔۔تو وہ اسی حیرت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں۔۔۔لیکن یہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر‬
‫میں نے ان کی بات کو درمیان سے ہی کاٹتے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔ ۔۔ کافی بڑا اور موٹا ہے ناں؟ اور‬
‫پھر میں نےاپنے لن پر رکھے ہوئے ان کے نرم و‬
‫نازک ہاتھ کو دبایا ور بوال۔۔۔۔ آج کے دن یہ‬
‫آپ کی ملکیت ہے ۔۔اور ان کی بھاری‬
‫چھاتیوں کو دبانے لگا۔۔۔ جبکہ نیچے سے وہ‬
‫میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے بڑی‬
‫‪-‬آہستگی کے ساتھ دبا رہیں تھیں‬

‫تھوڑی دیر تک ان کی چھاتیوں کو دبانے کے‬


‫کے بعد ۔۔۔۔۔میں نے ان کی قمیض کو اوپر کیا‬
‫اور ان کی ایک چھاتی کو برا سے آزاد کرتے‬
‫ہوئے باہر نکال ۔۔۔واہ ۔۔!!!!۔۔۔ان کی چھاتی‬
‫کافی موٹی اور لمبوترے سائز کی تھی‬
‫تھی۔۔۔ اور چھاتی کے اوپر ایک ہلکے پنک‬
‫رنگ کا دائرہ سا بنا ہوا تھا ۔۔۔اور اس دائرے‬
‫کے عین وسط میں ان کا پتال ۔۔۔۔ لیکن تھوڑا‬
‫لمبا سا نپل بڑے غرور سے اکڑا کھڑا تھا۔۔۔‬
‫ان کے نپل کو اکڑا دیکھ کر میں نے اپنی‬
‫زبان باہر نکاللی اور اس پر گول گول پھیرنے‬
‫لگا۔۔۔ میرے ایسا کرنے سے آصفہ کے منہ سے‬
‫ایک دلکش سی سسکی نکلی اور ساتھ ہی‬
‫انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے میرے لن‬
‫کو بڑے ذور کے ساتھ دبانا شروع کر دیا۔۔۔۔‬
‫ادھر میں نے ان کے نپل پر اپنی زبان کو گول‬
‫گول پھیرتے ہوئے ۔۔۔ ۔اچانک اپنے دونوں‬
‫ہونٹو ں میں دبایا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے اس عمل سے ان کے منہ سے دوبارہ‬
‫وہی دل کش سسکی نکلی ۔۔۔آف ف ف۔۔۔‬
‫سس۔۔۔۔آہ۔۔اور پھر وہ میرے لن کو شدت کے‬
‫ساتھ دبانے لگیں۔۔۔ ۔۔۔ میں کافی دیر تک ان‬
‫کی دونوں چھاتیوں کو باری باری چوستا رہا‬
‫۔۔پھر سیدھا کھڑا ہو گیا اور ایک دفعہ پھر‬
‫ان کے ساتھ کسنگ سٹارٹ کر دی۔۔‬

‫کسنگ کے بعد میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔تو‬


‫ان کی نظریں ۔۔۔میرے لن پر ہی ٹکی ہوئیں‬
‫تھیں۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ان سے‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا کیسا لگا ۔۔تو وہ مسکرا کر‬
‫بولیں۔۔۔ ۔۔۔ آمیزنگ ۔۔آسم۔۔۔۔ اس پر میں نے‬
‫کہا ۔۔۔ آمیزنگ ۔۔۔۔لیکن کیسے؟؟؟ ۔۔ ۔۔۔۔ تو وہ‬
‫مسکرا کر بولیں ۔۔ یہ مت پوچھ لیکن تمہارا‬
‫۔۔۔ ہے بہت ہی پیارا اور زبردست اس پر میں‬
‫نے شرارت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‬
‫۔۔۔ اچھا تو یہ بتائیں کہ اس کا نام کیا ہے ؟‬
‫۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں۔۔۔۔۔تمہیں نہیں معلوم کہ‬
‫اس کو کیا کہتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔تو میں نے ہاں میں‬
‫سر ہال کر کہا ۔۔پتہ ہے لیکن میں آپ کے منہ‬
‫سے سننا چاہتا ہوں ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔‬
‫اس کا مطلب ہے کہ تم ۔۔۔میرے منہ سے اس‬
‫کا نام پوچھ کر مزہ لینا چاہتے ہو؟ تو میں نے‬
‫کہا ایسا ہی سمجھ لو ۔۔۔اس پر انہوں اپنا‬
‫ہاتھ بڑھا کر میرے تنے ہوئے لن کو پکڑا اور‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ۔۔۔۔ بڑے‬
‫ہی سیکسی لہجے میں بولیں ۔۔۔۔ اس کو لوڑا‬
‫کہتے ہیں ۔۔ اس پر میں نے بھی شہوت بھرے‬
‫لہجے میں ان سے کہا ۔۔۔۔میرے اس لوڑے پر‬
‫ایک کس تو دے دیں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ایک نہیں ایک سو ایک کس‬
‫دوں گی لیکن یہاں نہیں ۔۔۔۔تو میں نے کہا‬
‫یہاں کیا ہے ؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد میں نے اس‬
‫جگہ پر کچھ بھی کرنے سے توبہ کر لی ہے‬
‫اور پھر مسکرا کر بولیں ۔۔۔ چلو اب ا س کو‬
‫اندر ڈالو اور گھر چلتے ہیں وہاں جا کر‬
‫جیسے کہو گے میں ویسے ہی کروں گی اور‬
‫اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی قمیض سے‬
‫باہر نکلی ہوئی دونوں چھاتیوں کو اپنی برا‬
‫میں واپس ڈاال اورپھر ق یمض کو درست‬
‫کرنے لگیں ۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے بھی لن کو‬
‫اپنی پینٹ کے اندر کیا اور ہم واپسی کے لیئے‬
‫چل پڑے۔۔‬

‫موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہی انہوں نے پہلے کی‬


‫طرح ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا ۔۔۔‬
‫اس پر میں نے اپنا منہ پیچھے کی طرف کیا‬
‫اور بوال۔۔۔۔ باجی بائیک پر بہنوں کی طرح‬
‫نہیں معشوقوں کی طرح بیٹھیں ۔۔میری بات‬
‫سن کر وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ۔۔۔باجی‬
‫بھی کہتے ہو اور معشوق بھی بناتے ہو ۔۔۔‬
‫پھر خود ہی بولیں ۔۔۔ آج کے بعد تم تنہائی‬
‫میں مجھے باجی نہیں کہو گے بلکہ مجھے‬
‫میرے نام سے مخاطب کرو گے ۔۔اس پر میں‬
‫نے بڑے ہی رومینٹک لہجے میں پیچھے ُم ڑ کر‬
‫ان کی طرف دیکھا اور بوال۔۔۔۔ ٹھیک ہے‬
‫آصفہ ڈارلنگ ۔۔۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے‬
‫میرے کندھے پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ ہٹا کر‬
‫میری گود میں رکھ دیا اب میں نے ان کا‬
‫ہاتھ پکڑا کر پینٹ کے اوپر سے ہی اپنے تنے‬
‫ہوئے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اور میرے لن کی‬
‫اکڑاہٹ کو دیکھ کر وہ بولیں ۔۔۔ او ہو۔۔ یہ‬
‫ظالم ابھی تک کھڑا ہے؟ تو میں نے ان سے‬
‫کہا۔۔۔۔اس کو بس آپ ہی بٹھا سکتی ہیں ۔۔۔‬
‫تو وہ کہنے لگیں ۔۔ فکر نہ کرو۔۔۔اس کو تو‬
‫میں ایسے بٹھاؤں گی ۔۔۔ کہ بس یاد رکھے گا‬
‫پھر بڑے پیار سے میری پینٹ پر بنے لن کے‬
‫ابھار پر ہاتھ پھیرنے لگیں ۔۔۔ گھر کے پاس‬
‫آتے ہی وہ بولیں بائیک کو گھر کھڑا کر کے تم‬
‫مین گیٹ کی بجائے بیٹھک ( ڈرائینگ روم)‬
‫کے دروازے سے اندر آنا وہ کھال ہو گا ۔۔۔۔۔۔‬
‫کیونکہ میں نے مین گیٹ کو تاال لگا دینا ہے‬
‫۔۔۔اور پھر بائیک سے اتر کر اپنے گھر کی‬
‫طرف چلی گئیں۔۔۔‬

‫گھر آ کر میں نے جلدی سے بائیک کو پارک‬


‫کیا اور بھاگم بھاگ آصفہ کے گھر پہنچ‬
‫گیا۔۔۔ جیسے ہی میں ان کے ڈرائینگ روم والے‬
‫دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے صوفے‬
‫پر بیٹھی آصفہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی‬
‫مجھے دیکھتے ہی وہ صوفے سے ُا ٹھ کھڑی‬
‫ہوئی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔دروازے کو الک کر دو‬
‫میں نے دروازے کو الک کیا اور ان کی طرف‬
‫بڑھ گیا۔۔۔ اور پھر ان کے ساتھ بغل گیر ہو‬
‫گیا ۔۔۔۔ بغل گیر ہوتے ہی میں نے ایک بار پھر‬
‫ان کے ساتھ کسنگ سٹارٹ کر دی۔۔کافی‬
‫دیرتک کسنگ کرنے کے بعد انہوں نے میرے‬
‫منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا اور کہنے لگیں کیا‬
‫خیال ہے بیڈ روم میں نہ چلیں۔۔۔؟ تو میں نے‬
‫کہا ۔۔یہاں نہیں کرنا ؟ تو وہ شرماتے ہوئے‬
‫بولیں ۔۔۔ نہیں پاگل ۔۔۔ بیڈ روم میں ہی کریں‬
‫گے اور پھر مجھے اپنے ساتھ لیئے ہوئے وہ‬
‫اپنے بیڈ روم میں آ گئیں۔۔۔ بیڈ روم میں‬
‫داخل ہوتے وقت وہ میرے آگے جبکہ میں ان‬
‫کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے‬
‫ان کے عقب چلتے ہوئے اچانک ہی میری نظر‬
‫ان کی موٹی سی گانڈ پر پڑی ۔۔۔جس کو وہ‬
‫بڑی مستی کے ساتھ ہال ہال کر چل رہیں تھیں‬
‫۔۔۔ ان کی مست گانڈ کو دیکھ کر مجھ پر‬
‫ایک دم سے ہوشیاری چڑھ گئی اور کمرے‬
‫میں داخل ہوتے ہی میں نے ان کو پیچھے سے‬
‫دبوچ لیا اور اپنے لن کو ان کی موٹی گانڈ کے‬
‫ساتھ رگڑنے لگا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے ایک‬
‫نظر پ ُم ڑ کر دیکھا اور بڑے پیار سے بولیں‬
‫۔۔۔تم کو بھی میری ہپس پسند آئی ہے؟‬

‫تو میں نے اپنے لن کو عین ان کی گانڈ کی‬


‫دراڑ میں پھنسا کر گھسہ مارتے ہوئے کہا ۔۔۔۔‬
‫آپ پسند کی بات کرتی ہو ۔۔۔ اس کو حاصل‬
‫کرنے کے لیئے تو میں کسی کو بھی قتل کر‬
‫سکتا ہوں۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے اپنا‬
‫منہ پیچھے کیا اور میرے ہونٹوں پر ایک‬
‫ہلکی سی کس کرتے ہوئے سرگوشی میں‬
‫بولیں ۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ تم میرے‬
‫پیچھے سے بھی اندر ڈالو گے؟؟؟؟۔۔ان کی‬
‫بات سنتے ہی میں نے ان کو بیڈ پر گرایا اور‬
‫گھوڑی بننے کو کہا۔۔۔۔وہ بڑی شرافت سے‬
‫گھوڑی بنتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ابھی نہ ہپس میں‬
‫ڈالو نا۔۔۔ پہلے تھوڑا ۔۔۔ فور پلے تو کرنے‬
‫دو۔۔۔تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔۔ میری جان‬
‫اس کو ہپس نہیں گانڈ بولو نا۔۔۔تو وہ میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔ میری طرح‬
‫سے تم کو بھی گندے لفظ بولنا اچھا لگتا‬
‫ہے؟ تو میں نے کہا ہاں ۔۔اس پر وہ اچانک‬
‫اپنی جگہ سے ُا ٹھیں اور مجھ سے گلے ملتے‬
‫ہوئے بولیں ۔۔۔۔۔۔ ننگے لفظ بولنا مجھے بھی‬
‫اچھا لگتا ہے تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔ تو‬
‫بولو نا میری جان۔۔۔۔ میری بات سن کرفورًا‬
‫ہی وہ کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے لیکن‬
‫پہلے تم میری بنڈ کو چیک کر لو۔۔ اور فورًا‬
‫ہی اپنی قمیض اور برا اتار دی۔۔۔۔ ادھر ان‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔ میں بھی اپنے‬
‫کپڑے اتارنے لگا ۔۔۔ ادھر انہوں نے شرٹ اتار‬
‫کر جیسے ہی اپنے چوڑی دار پاجامے کی‬
‫طرف ہاتھ بڑھایا تو میں جو اس وقت تک‬
‫اپنے سارے کپڑےاتار چکا تھا ۔۔ان سے‬
‫بوال۔۔۔۔ آپ کا پاجامہ میں اتاروں گا ۔۔میری‬
‫بات سنتے ہی انہوں پاجامے کو اتارتے ہوئے‬
‫رک گئیں اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں‬
‫۔۔۔۔ٹھیک ہے جان۔۔۔ جیسے تیری مرضی۔۔ اور‬
‫پھر پاجامہ اتارے بغیر ہی پھر سے گھوڑی‬
‫بن گئیں اور میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی‬
‫گانڈ کو ہالنے لگیں۔۔۔۔۔ ان کو گانڈ ہالتے‬
‫دیکھ کر میں جلدی سے ان کے پاس آیا اور‬
‫پلنگ پر بیٹھ کر بڑے غور سے ان کی موٹی‬
‫بنڈ کا جائزہ لینے لگا۔۔جو کہ اس وقت ان کے‬
‫چوڑی دار پاجامے میں پھنسی ہوئی تھی۔۔۔‬

‫ان کی گانڈ کا اچھی طرح سے جائزہ لینے کے‬


‫بعد ۔۔۔۔پھر آہستہ آہستہ میں نے ان کے ٹائیٹ‬
‫فٹنگ پاجامے کو اتارنا شروع کر دیا ۔۔ جیسے‬
‫جیسے ان کی گانڈ ننگی ہو کر میرے سامنے‬
‫آتی جاتی ۔۔۔ میں اس کے ایک ایک انچ کو‬
‫چومتا جاتا۔۔۔ اپنی گانڈ کو یوں بے خودی‬
‫سے چومتے دیکھ کر انہوں نے ایک مست‬
‫سی سسکی بھری اور کہنے لگیں۔۔۔ کیا کر‬
‫رہے ہو۔۔۔۔؟ تو میں نے ان کی گانڈ کے نرم نرم‬
‫پٹ پرہونٹ رکھتے ہوئے۔۔۔۔میں تو بس۔۔۔‬
‫تمہاری گانڈ کے نرم نرم گوشت کو چوم رہا‬
‫ہوں۔۔۔تو وہ سسکی بھر کر بولی۔۔۔۔۔ میری‬
‫بنڈ کو بس چومتے ہی رہو گے یا کچھ کرو گے‬
‫بھی؟‬

‫ان کی بات سن کر میں نے ان کو ُا ٹھنے کو‬


‫کہا۔۔۔۔ میری بات کو سن کر وہ پلنگ سے‬
‫ُا ٹھی اور میرے تنے ہوئے لن پر نظریں جما کر‬
‫بیٹھ گئیں ۔۔۔ پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر‬
‫کر ہوس بھرے لہجے میں بولی۔۔۔سنو تم نے‬
‫درختوں کے اس جھنڈ میں اس کے بارے میں‬
‫مجھ سے کیا فرمائیش کی تھی ؟؟ تو میں‬
‫نے ان سے کہا کہ آصفہ جی آپ کس کی بات‬
‫کر رہی ہو؟ مجھے تو کچھ یاد نہیں۔۔۔۔ اس‬
‫پر و ہ آگے بڑھی اور بڑے پیار سے میرے لن‬
‫پر ہاتھ پھیر کر بولیں ۔۔۔۔ تم مجھ سے اس‬
‫لوڑے کے بارے میں کچھ فرمائیش کر رہے‬
‫تھے۔۔۔ ۔۔۔۔۔تو میں نے ان کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہا ۔۔۔ میرے لن کو چوسو گی ۔۔۔؟ تو‬
‫وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی انہوں نے مجھے کھڑے ہونے کو کہا‬
‫اور وہ خود پلنگ پر گھٹنوں کے بل کھڑی ہو‬
‫گئیں اور میرے لن کو پکڑ کر اپنے منہ کے‬
‫قریب کر کےبولی۔۔۔۔ کچھ بھی ہو تم سے‬
‫زیادہ تمہارا ۔۔یہ لوڑا بہت شاندار ہے۔۔۔۔۔اور‬
‫پھر زبان نکال کر اس کے ٹوپے پر اپنی زبان‬
‫پھیرنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ُا ف۔۔۔ جیسے ہی ان‬
‫کی زبان نے میرے ٹوپے کو ٹچ کیا ۔۔۔۔۔۔ بے‬
‫اختیار میرے منہ سی ایک سسکی نکل‬
‫گئی۔۔۔ جسے سن کر وہ مست ہو گئی اور ۔۔۔‬
‫اپنے منہ کو کھول کر میرے ٹوپے کو اندر لے‬
‫لیا ۔۔۔اور صرف ٹوپے کو ہی چوسنے لگیں۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر تک اسے چوسنے کے بعد انہوں نے‬
‫میرے ٹوپے کو اپنے منہ سے باہر نکاال ۔۔ اور‬
‫پھر میرے لن پر بہت سا تھوک لگا کر اسے‬
‫آگے پیچھے کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ۔ ویسے تو‬
‫مجھے تمہارا سارے کا سارا ہی لوڑا بہت‬
‫پسند آیا ہے ۔۔۔ لیکن ۔۔۔اس لوڑے پر بنے اس‬
‫تاج ( ٹوپے ) کی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔اور‬
‫میری ہلکی ہلکی مٹھ مارنے لگیں ۔۔۔اسی‬
‫دوران میرے لن سے مزی کا ایک موٹا سا‬
‫قطرہ نکل کر باہر آ گیا ۔۔۔ جسے دیکھتے ہی‬
‫وہ ایک دم سے پرجوش ہو گئیں اور میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔اب دیکھو‬
‫میں تمہارے اس لوڑے سے نکلنے والے اس‬
‫گاڑھے قطرے کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں‬
‫۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی‬
‫زبان باہر نکالی اور اس کی نوک سی بنا کر‬
‫مزی کے اس گاڑھے قطرے پر رکھ دی اور‬
‫پھر۔۔۔۔۔میرے لن سے نکلنے والےمزی کے اس‬
‫قطرے کو اپنی زبان کی نوک کی مدد سے‬
‫سارے ٹوپے پر پھیال دیا ۔۔۔۔ ان کے ایسا کرنے‬
‫سے مجھے اتنا مزہ آیا کہ اسی دوران جوش‬
‫کے مارے میرے لن سے مزی کا ایک اور قطرہ‬
‫نکال اور ۔۔۔۔ اسے بھی انہوں نے اسی طرح لن‬
‫کے ہیڈ پر پھیال دیا۔۔۔۔۔۔اور جب ساری مزی‬
‫میرے لن کے ہیڈ پر پھیل گئی تو پھر انہوں‬
‫نے میرے ٹوپے پر اپنی ساری زبان کو رکھا‬
‫اور آہستہ آہستہ اسے چاٹنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹوپے‬
‫کو چاٹتے چاٹتے اچانک ہی انہوں نے میرے‬
‫لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے‬
‫لگیں۔۔۔۔‬

‫پھر کچھ دیر تک لن کو چوسنے کے بعد‬


‫اچانک انہوں نے اپنے منہ سے میرے لن کو‬
‫باہر نکاال ۔۔۔۔ اور سیدھی لیٹ کر بولیں ۔۔۔ آ۔۔‬
‫اب میری چوت کو مار۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر‬
‫میں نے ان کی دونوں ٹانگوں کو کھوال ۔۔۔اور‬
‫درمیان میں آ کر بیٹھ گیا۔۔۔اور بڑ ے غور‬
‫سے ان کی چوت کو دیکھتے ہوئے اس کی‬
‫نرم سکن پر اپنے ہاتھ کو پھیرنے لگا۔۔۔۔ میری‬
‫طرح انہوں نے بھی اپنی چوت کی تازہ شیو‬
‫کی ہوئی تھی ۔۔ان کی چوت ڈبل روٹی کی‬
‫طرح پھولی ہوئی تھی۔۔۔اور ۔۔ان کی پھدی‬
‫کی درمیان والی لکیر کافی لمبی اور باریک‬
‫تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ چوت کے دونوں ہونٹ آپس میں‬
‫ملے ہوئے تھے۔۔۔۔۔ اور ان ہونٹوں کے عین‬
‫اوپر۔۔۔۔۔۔پھوال ہوا براؤن سا دانہ تھا۔۔۔۔۔۔‬
‫جسے دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور اس‬
‫کو دیکھتے ہوئے میں نیچے جھک گیا اور اس‬
‫پھولے ہوئے دانے کو اپنے منہ میں لے کر مزے‬
‫سے چوسنے لگا۔۔۔۔ میرے ایسا کرنے سے وہ‬
‫اپنے منہ سے مستی بھری آوازیں نکالتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔ سر کو بڑی شدت سے دائیں بائیں مارنے‬
‫لگیں اور پھر بولیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو‬
‫چھوڑو ۔۔۔چوت مارو۔۔۔۔اور ساتھ ہی اپنے‬
‫دانے پر رکھے میرے منہ کو وہاں سے ہٹا‬
‫دیا۔۔۔۔۔‬

‫یہ دیکھ کر میں بھی گھٹنوں کے بل ان کی‬


‫چوت کے پاس بیٹھ گیا ا ور پھر ان کی گانڈ‬
‫پر انگلی پھیرتے ہوئے بوال بوال۔۔۔ لیکن اس‬
‫سے پہلے میں آپ کی گانڈ ماروں گا۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ مصنوعی غصے سے‬
‫بولیں۔۔۔۔۔۔ پہلے پھدی مار سالے ۔۔اور پھر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ہاں جب فارغ ہونے لگو تو اپنے‬
‫لن کو میری پھدی سے نکال کر گانڈ میں دے‬
‫دینا۔۔۔۔ اس پر میں نے ان سے کہا۔۔۔۔ آپ کی‬
‫گانڈ میرے لوڑے کو لے پائے گی؟ تو وہ کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔ تھوڑی سی کوشش کرو گے تو اندر‬
‫چال جائے گا۔۔۔پھر خود ہی بولیں۔۔۔ جاوید‬
‫کے ساتھ شروع دوستی میں ۔۔۔۔میں اسے‬
‫صرف بیک ڈور ہی یوز کرنے دیتی تھی ۔۔اس‬
‫لیئے تم میری گانڈ کی فکر نہیں کرو۔۔تھوڑی‬
‫سی کوشش کے بعد یہ بھی آرام سے اندر‬
‫چال جائے گا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے‬
‫میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنی‬
‫چوت پہ رکھ کر بولیں ۔۔۔۔۔۔ چل اب دھکا‬
‫مار۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اپنے لن کو ان کی‬
‫چوت پر رکھا تو اسے از حد چکنا پایا۔۔۔ ۔۔‬
‫پھر بھی میں نے لن پر تھوڑ ا تھوک لگا کر‬
‫اسے گیال کیا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لن کے اگلے‬
‫سرے کو ان کی چوت کے اینڈ پر رکھ کر ہلکا‬
‫سا پش کیا۔۔۔۔ میرا لن ان کی چوت کے لبوں‬
‫کے درمیان سے ہوتا ہوا۔۔ ان کی چوت کے‬
‫اندر چال گیا۔۔۔۔ جیسے ہی لن ان کی چوت کے‬
‫اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔ وہ چالئیں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شاہ!!!!!!!!!!!۔۔۔ لن کو جڑ تک لے جا ۔۔۔۔۔۔۔ ان‬
‫کی بات سن کر اگلے ہی لمحے میں نے ایک‬
‫اور گھسہ مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لن پھسلتا‬
‫ہوا ان کی چوت کی گہرائی تک اتر‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی لن ان کی چوت کی‬
‫اندرونی تہہ کو چیرتا ہوا ۔۔۔ ان کی چوت‬
‫کی گہرائی میں اترا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے‬
‫ایک زور دار چیخ ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔ہ۔ہ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور کہنے لگیں ۔۔اب رکنا نہیں ۔۔۔۔اور پھر‬
‫واقعی میں نہیں ُر کا ۔۔۔اور پے در پے دھکے‬
‫مارنا شروع کر دیئے۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ‬
‫بولیں ایک منٹ رکو ۔۔۔۔اور جب میں نے ان‬
‫کی چوت میں پمپنگ کرنا بند کر دی تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری کیا پوزیشن ہے ؟‬
‫فارغ تو نہیں ہونے والے؟ تو میں نے کہا ۔۔۔‬
‫نہیں ۔۔ منزل ابھی دور ہے ۔۔۔۔۔تو وہ ُا ٹھ کر‬
‫بیٹھ گئیں اور خود ہی گھوڑی بنتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔اب مجھے گھوڑی بنا کے چودو پھر‬
‫مجھے ہدایت دیتی ہوئے بولی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جب‬
‫فارغ ہونے لگو ۔۔۔تو میری گانڈ میں اپنے لن‬
‫کو ڈالنے سے پہلے تھوک سے میری بنڈ کو‬
‫پوری طرح چکنا کر لینا فورًا پھدی سے لوڑا‬
‫نکال کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں ڈال دینا۔‬
‫اور میری پھدی میں ہر گز پانی کو نہیں‬
‫چھوڑنا ۔۔۔ اور پھر میرے سامنے اپنی گانڈ‬
‫کر ہال کر بولیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوت تو تم نے‬
‫پہلے ہی پھاڑ دی ہے اب میری بنڈ کو بھی‬
‫پھاڑ دینا۔۔۔ان کی یہ بات سنتے ہی میں نے‬
‫ایک دفعہ پھر لن کو چکنا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس‬
‫کی چوت مارنے لگا۔۔۔ میرے ہر دھکے پر وہ‬
‫چیخ مارتی اور کہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مار۔۔۔۔۔۔‬

‫ان کی پھدی کو مارتے ہوئے میں نے دو تین‬


‫دفعہ محسوس کیا تھا کہ وہ فارغ ہو گئیں‬
‫ہیں۔۔۔ لیکن میں نے کوئی پرواہ نہ کی ۔۔۔‬
‫اوراپنے لن کو ان کی پھدی میں ان آؤٹ کرتا‬
‫رہا۔۔اسی دوران۔۔۔۔میں نے محسوس کیا کہ‬
‫اب میں بھی جانے واال ہوں تو اچانک میں نے‬
‫ان کی پھدی سے اپنا لن نکال ۔۔۔۔ تو وہ اپنے‬
‫منہ کو پیچھے کی طرف کر کے بولیں ۔ ۔۔‬
‫میری بنڈ کو ایک دفعہ پھر چکنا کر لو۔۔ یہ‬
‫سن کر میں نے ان کی گانڈ پر بہت سارا‬
‫تھوک پھینکا ۔۔۔اور لن کو ان کی گانڈ کے‬
‫رنگ پر رکھا ۔۔۔اور تھوڑا دبا کر سے بش‬
‫کیا۔۔۔۔ ابھی میرے لن کی بمشکل آدھی ٹوپی‬
‫ہی ان کی گانڈ میں گھسی ہو گی کہ انہوں‬
‫نے ایک ذور دار چیخ ماری۔۔اور بولیں ۔۔۔ ہائے‬
‫درد ہو رہا ہے۔۔۔ پلیززززز اور نہ اندر‬
‫ڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے ان کی بات کو‬
‫سنی ان سنی کرتے ہوئے اگال دھکا مارا ۔۔۔تو‬
‫لن ان کی سلپری گانڈ میں کافی اندر تک چال‬
‫گیا ۔۔۔ لن کو اپنی گانڈ میں توڑ تک محسوس‬
‫کرتے ہی انہوں نے پیچھے ُم ڑ کر میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔۔ تمہارا لن میری گانڈ‬
‫میں اتر گیا ہے۔۔۔اب رج کے گھسے مارو۔۔۔۔۔‬
‫اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھسے‬
‫مارتے مارتے آخر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے محسوس‬
‫کیا کہ اب میری ٹانگوں سے جان نکلنے لگی‬
‫ہے ۔۔تو اسی لیئے میں شور مچاتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔آٖص فہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں فارغ ہونے واال‬
‫ہوں۔۔۔۔تو جواب میں انہوں نے اپنی گانڈ کو‬
‫میرے لن کے ساتھ جوڑتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری دھکے ذور سے‬
‫مار۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میں نے پوری طاقت لگا کر‬
‫دھکے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید دو‬
‫تین دھکوں کے بعد ہی ۔۔ میرے لن کے منہ‬
‫سے منی کا ایک سیالب نکال اور ان کی‬
‫پیاسی گانڈ کو سیراب کرنے‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میرے لن سے نکلنے‬
‫والی ساری منی ان کی گانڈ میں اتر گئی تو‬
‫انہوں نے مجھے اپنی گانڈ سے لن نکالنے کو‬
‫کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیسے ہی میں نے ان کی‬
‫ٹائیٹ گانڈ سے اپنے لن کو باہر نکال وہ‬
‫پیچھے مڑیں اور مجھے اپنے گلے کے ساتھ‬
‫لگا کر مجھے بے تحاشہ چومنے لگیں ۔۔۔۔اسی‬
‫دوران جب میرا سانس کچھ بحال ہوا تو‬
‫میں میں نے ان کو ہونٹوں پہ ایک پپی دی‬
‫اور بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری چودائی۔۔۔کیسی لگی؟؟‬
‫۔۔۔۔تو وہ ایک دم سے بولیں۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔یہ بھی‬
‫امیزنگ۔۔آسم۔۔۔۔اور پھرکہنے لگیں ۔۔۔۔۔ یقین‬
‫کرو شاہ ۔۔۔۔۔۔ بے شک جاوید میری پہلی‬
‫محبت ہے۔۔۔لیکن آج سے تم میری دوسری‬
‫محبت ہو۔۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بڑے ہی ُذ و معنی لہجے میں بولیں ۔۔اور‬
‫اپنی اس دوسری محبت کو میں کبھی بھی‬
‫مایوس نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی یہ بات‬
‫سنتے ہی میں نےدل ہی دل میں نعرہ‬
‫لگایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام سویرے ہن موجاں ای‬
‫موجاں۔۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم ُش د۔۔۔‬

‫مزید ایسی سٹوری کے لیے رابطہ کریں‬

‫‪03147615013 ‬‬

You might also like