لگ بھگ ہے میں ذات کا مسلم شیخ ہوں ہم تین بھائی ہیں مجھ سے بڑا صادق 35سال کا جبکہ مجھ سے چھوٹا عنصر 25 سال کا ہے والدہ کا انتقال ہو چکا ہے مرا گزر بسر لوگوں کے کام کاج کرکے ہی گزرتا ہے میرا والد بھی لوگوں کا کاما رہا ہے وہ اب بھی کاما ہی ہے میں نے جب سے ہوش سنبھاال پہلے ایک گاؤں کے چوہدری پر کام کرنے لگے پھر ابے نے مجھے ایک گھر پر کاما رکھوا دیا میں وہاں چند سال گزارے تو میری ان سے ان بن ہو گئی اس لیے میں واپس ابے کے پاس چال گیا اب کچھ دن سے ابے کا ہاتھ ہی بڑا رہا تھا ابے کی عمر تو پچاس کے لگ بھگ تھی پر چوہدریوں کے ہاں اچھی خوراک اور اچھے رہن سہن سے ابا ابھی بھی جوان اور صحت مند لگتا تھا ویسے بھی ہماری ہڈی کافی مضبوط تھی اس لیے میں بھی ابے پر گیا تھا کافی لمبا چوڑا اور صحت مند کام کرنے سے جسم کافی مضبوط اور سڈول تھا تنا ہوا سینہ اونچا قد آور مضبوط جسم سے کافی چوڑا اور بھرپور مردانی وجاہت میرے اندر بھر چکی تھی میں پورا دہوش لگتا تھا ابے کا نام رحمت تھا جو سب لوگوں میں رحموں کے نام سے مشہور تھا میں اب ابے کے پاس ہی تھا کچھ دن ابے کے پاس رہا تو پھر ایک دن ابے نے مجھے کام کا بتایا پاس والے گاؤں میں جو ہمارا اپنا گاؤں بھی تھا وہاں کسی کو ایک بندے کی ضرورت تھی ابا مجھے لے کر وہاں چال گیا گاؤں کی ایک طرف ہٹ کر ایک حویلی تھی جس میں گھر کے ساتھ ہی ڈنگروں کا باڑہ تھا ابا اور میں وہاں حویلی کے گیٹ پر پہنچے میں بڑے عرصے بعد گاؤں آیا تھا جب سے ہوش سنبھاال تھا یہاں سے نکل گیا تھا آج بڑے عرصے بعد یہاں آیا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے یہ حویلی پہلے نہیں دیکھی تھی پہلی بار حویلی بنی تھی ابے نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ کھال تو سامنے ایک لمبے قد آور چوڑے جسم کی عورت کھڑی تھی اس عورت نے کسا ہو لباس ڈال رکھا تھا جس سے اس کا جسم کسے لباس میں کسا ہوا صاف نظر آرہا تھا میں نے ایک نظر اس عورت کے جسم پر گھمائی تو اس کا چوڑا جسم کافی خوبصورت اور سیکسی تھا اس نے اوپر مموں پر چھوٹا سا دوپٹہ رکھا ہوا تھا جو اسکے مموں کو ڈھانپ رہا تھا لیکن چھپے ہوئے مموں بھی بال کے موٹے اور ابھرے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے میں نے اوپر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس نے دوپٹہ سر پر نہیں ہے رکھا تھا اس کی گت اور بال نظر آرہے تھے اس کا پھوال ہوا گورا چہرا ہلکا سا مسکرا کر ابے کو دیکھ کر چہک کر بولی وے آ وے رحموں آج تے بڑا دل کڈھیا ہئی آج تے ساڈے ویہڑے آ وڑیا ایں خیر تے ہے نا ابا اسے دیکھ کر ہنس دیا میں نے اس عورت کے چہرے کو گھورا تو مجھے یہ چہرہ پہچانا سا لگا پر مجھے یاد نہیں آ رہا تھا میں نے اس کی نظروں دیکھا تو ابے کو گہری نظروں سے دیکھتی اس کا چہرہ دمک سا رہا تھا جبکہ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ا چکی تھی ابا ہنس کر بوال بس او بہزاد ( سٹوری چور)آکھیا ہا کہ کاما چاہی دا اس واسطے بندہ لئے کے آیا ہاں اور میری طرف اشارہ کیا اس عورت نے مسکرا کر میری طرف دیکھا بہزاد ( سٹوری چور)کا نام سن کر میرے ذہن نے جھٹکا لیا اور میں سمجھ گیا کہ یہ تو بہزاد ( سٹوری چور)کا گھر ہے سامنے کھڑی عورت کوئی اور نہیں بہزاد ( سٹوری چور)کی ماں رفعت تھی اتنے سالوں میں اتنا کچھ بدل گیا مجھے تو یقین نہیں آیا جب چھوٹے تھے تو ابے کے ساتھ اس گھر میں آتے تھے ابے کا ان کے ہاں بہت آنا جانا تھا آنٹی رفعت کے سسر اور خاوند سے ابے کا کافی یارانہ تھا ابا جب بھی وہال ہوتا ان کے گھر ہی آتا تھا آنٹی رفعت بھی ابے کے ساتھ بہت فرینک تھی میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ فلم کی طرح چلنے لگا ابا اکثر اسوقت آنٹی رفعت کے گھر جاتا تھا جب گھر میں کوئی نا ہوتا تھا اسوقت ان کا گھر گاؤں میں تھا آنٹی رفعت کا سسر اور خاوند باہر زمینوں پر ہتے تھے ابا اکثر مجھے بھی ساتھ التا تھا میں اسوقت بہت چھوٹا بچہ تھا آنٹی جب گھر میں اکثر اکیلی ہوتی تو ابا اس کو اندر لے جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیتا تھا پھر کافی دیر بعد باہر نکلتا تھا میں وہیں گھر میں کھیلتا رہتا تھا آنٹی کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو اکثر آنٹی کے گھر ہوتی تھی اس کا نام نذیراں تھا نذیراں اسوقت فل جوان تھی اسکی بھی شادی ہوئی تھی ابا جب آنٹی رفعت جو اندر لے جاتا تو نذیراں باہر ہی ہوتی جب آدھے گھنٹے بعد وہ نکلتے تو آنٹی رفعت کمر پکڑ کر باہر نکلتی تھی ابا نذیراں کو لے کر اندر چال جاتا تھا جبکہ آنٹی رفعت چارپائی پر دوہری ہو کر پڑی ہوتی تھی مجھے سمجھ تو تھی نہیں میں سوچتا کہ پتا نہیں کیا بات ہے پر نہیں اندر کیا ہے۔ ایک دن جب نذیراں نہیں تھی ابا آٹنی رفعت کو اندر لے گیا تو مجھے تجسس ہوا میں کچھ دیر بعد اندر چال گیا دروازہ ہو دھکا مارا تو دروازہ کھل گیا سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا سامنے بیڈ پر آنٹی رفعت ننگی ہوکر لٹی تھی اس کی ٹانگیں کاندھوں سے لگی تھی جبکہ اوپر ابا پوری شدت سے گانڈ اٹھا اٹھا کر مار رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ابا آٹنی کے اندر اپنا راڈ پھیر رہا تھا جس سے آنٹی تڑپ کر ارڑا کر بکاتی ہوئی حال حال کر رہی تھی آنٹی کی حال حال سے کمرہ گونج رہا تھا میں رک سا گیا ابا مجھے اندر دیکھ کر چونک گیا اور آنٹی کے اوپر گر کر مجھے چونک کر دیکھا آنٹی نے تڑپتے ہوئے ارڑا کر مجھے دیکھا تو اس کا منہ الل سرخ تھا آنکھیں اس کی باہر کو آئی ہوئی تھیں ابا ڈر گیا تھا کہ کوئی آگیا ہے جس سے ابے نے مجھے تڑک گال نکال میں آنٹی رفعت کی حالت سے سہم گیا تھا مجھے لگا کہ ابا آنٹی رفعت کو مار رہا ہے میں ڈر کر باہر بھاگ گیا ابا کچھ دیر بعد نکال اور مجھے لے کر آگیا ڈر کے مارے میں ابے سے کچھ نا پوچھا پھر اسکے بعد ابا مجھے اس طرف نہیں ہے گیا پھر کچھ عرصہ بعد مجھے یہ بات بھول گئی تھی اسی لمحے آنٹی نے ابے کو اندر آنے کا کہا ہم اندر کی طرف چل دئیے آنٹی ہمارے آگے چل رہی تھی جس سے آنٹی کے کسے ہوئے قمیض میں پتلی قمر اور باہر کو نکلی چوڑی گانڈ ہل رہی تھی آنٹی کی چوڑی گانڈ پر لمبی گت جھول رہی تھی میری نظر آنٹی کی گانڈ پر تھی آنٹی کی چوڑی کمر اور باہر کو نکلی گانڈ پر جھولتی گت کیا منظر پیش کر رہی تھی میرے تو منہ میں پانی بھر آیا تھا میرا دل کیا ابھی پیچھے سے آنٹی کو دبوچ لوں پر ابے کا بھی لحاظ تھا ہم آگے گئے اور آنٹی دروازہ کھول کر دوسرے گھر میں داخل ہو گئی باڑے کے ساتھ ہی بیٹھ تھی جس کا ایک دروازہ باڑے کی طرف کھلتا تھا جب کہ دوسرا مین گیٹ باہر سڑک کی طرف تھا یہ حویلی گاؤں سے تھوڑا باہر تھی آگے جا کر چارائیاں اور موڑھے رکھے تھے وہاں جا کر آنٹی بولی بہ جاؤ ایتھے ہم وہاں بیٹھ گئی آنٹی کے بیٹھنے سے آنٹی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میری نظر وہیں پر تھی آنٹی بولی رحموں توں تے بہوں بڑا آدمی ہو گیا ایں ابا مسکرا کر بوال کیوں کی بنیا آنٹی شکوے کے انداز میں بولی وے ہنڑ توں آندا ہی نہوں کتنے دن ہو گئے ہینڑ تینوں آیا ہویاں آج آیا ہیں اور آنٹی ابے کو گہری آنکھوں ے دیکھ کر مسکرا دی ابا ہنس کر بوال بس کجھ مصروف ہاس۔ آنٹی بولی جی نہیں اونج ہنڑ توں ساتھو رج گیا ایں آنٹی ہنس دی ابا بھی ہنس دیا اور بوال نہیں ایسی کوئی گل نہیں ابا میری موجودگی میں جھجھک رہا تھا اس لیے ابے نے بات بدل دی اور بوال تھواڈے واسطے کاما لئے آیا ہاں آنٹی مجھے دیکھ کر ہنس دی جیسے وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ ابا مجھ سے جھجھک کر بات بدل گیا ہے آنٹی مسکرا کر بولی اے تے چنگا کم کیتا ہئی چھوار ہنڑ کم نہیں کردے اے تے بڑا کم کیتا ہئی جہڑا کاما لئے آیا ہیں ابا ہنس پڑا اور بوال مینوں تے احساس ہے نا آنٹی بھی ابے کو گہری آنکھوں سے دیکھ کر ہنس دی اور بولی توں ہی ہنڑ احساس کرنا اے پر ہنڑ توں احساس گھٹ کر گیا ایں میں سمجھ گیا کہ آنٹی کے ہاں ابے کے چکر اب کم ہو گئے ہیں اس لیے آنٹی بھی شکوہ کر رہی ہے ابا ہنس کر بوال کوئی نہیں ہنڑ تیرے اوالہمے کا دیساں آگے مصروف ہاس آنٹی کا چہرہ یہ سن کر چمک سا گیا اور مسکرا دی ابا بوال چھوار ہنڑ تیرے آزاد ہو گئے ہینڑ کم نالو آوارہ گردی کرنا اوہنا نوں چنگا لگدا آنٹی بولی ہوں تیرے تے گئے ہینڑ دوویں کم چور ابا ہنس کر بوال میں کہڑی کم چوری کیتی آنٹی نے گہری آنکھوں سے دیکھا کردا تے ہیں اس بات پر دونوں ہنس دئیے میں بھی سب سمجھ گیا تھا آنٹی بولی اے ویسے ہے کون ابا بوال اے میرا پتر اے آنٹی اس بات پر چونک گئی اور بولی اے تیرا پتر اے اے عاشق تے نہیں ابا بوال ہا اے عاشق اے آنٹی مجھے دیکھ کر چہک کر بولی ہالنی میں مر جاواں وے عاشقو دسدا ہی نہوں پیا میں تاں ہی ویکھ رہی آں کہ اے سگواں تیرے آر لگ رہیا اے آنٹی اٹھ کر کھڑی ہوئی اور بولی وے کملیا آٹھ کے مینوں مل توں تے اپنے گھر دا چھور نکلیا ہیں نی میں صدقے جاواں آنٹی کے کھڑے ہونے پر میں بھی کھڑا ہوگیا اور آنٹی کے آگے جھک گیا آنٹی نے مجھے ہاتھ پھیرا اور بولی وے عاشقا تینوں نہیں پتا تیرا پیو تے ساڈا بھرا بنیا ہویا اے توں تے اپنا پتر ہیں میں یہ سن کر ہنس دیا اور دل میں بوال کہ میں جنتا ہوں جو یہ بھرا ہے تیرا آنٹی مجھ سے مل کر کافی خوش لگ رہی تھی امی بولی رحموں اے تے چنگا کیتا ہئی جہڑا اپنا پتر رکھیا ہئی ساڈے کول گھر دا چھور ہے تینوں پتا گھر اچ جوان چھوریں پینٹ اے اپنا بندہ اے گھر آندا جاندا رہیا تے کوئی مسئلہ نہیں آنٹی کا گھر گاؤں میں ہی تھا حویلی یہاں تھی آنٹی نے ابے سے بات فائنل کی اور مجھے وہاں چھوڑ کر ابا گھر کی طرف چل دیا آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی وے توں تے گھر دا بندہ ایں ہنڑ توں سارا کجھ سنبھال لئے تیرے بھرا تے گھر آندے ہی نہیں توں ہی سنبھالنا اے سارا کجھ آنٹی نے مجھے سارا کچھ سمجھایا میں کام کرنے لگا شام سے پہلے بہزاد ( سٹوری چور)بھی آگیا بہزاد ( سٹوری چور)مجھ سے مال میں بہزاد ( سٹوری چور)کو دیکھ کر حیران بھی ہو رہا تھا بہزاد ( سٹوری چور)سے ابے کی ہلکی ہلکی جھلک نظر آرہی تھی میں سمجھ گیا کہ یہ بھی ابے کی پیداوار ہے میرا دل یہ سوچ کر نا جانے کیوں خوش سا ہو گیا بہزاد ( سٹوری چور)نے ابے جیسا ہونا ہی تھا اس کی ماں کا میرے ابے سے چکر جو تھا اس کی شکل ابے پر ہی جانی تھی بہزاد ( سٹوری چور)مجھ سے مال اور مجھے کام سمجھانے لگا کچھ دیر ہی بعد بہزاد ( سٹوری چور)کا دوسرا بھائی بھی آگیا وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا میں اسے دیکھ کر چونک گیا وہ تو ہو بہو ابے کی طرح تھا وہ آنٹی کا بڑا بیٹا تھا نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن لوگ اسے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ک( ہنٹر سٹوری چور)کے نام سے جانتے تھے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ک( ہنٹر سٹوری چور)بھی ہو بہو ابے کی شکل کا تھا میں سمجھ گیا کہ یہ ان دنوں کی ابے کی محنت کا نتیجہ ہے جب ابا اور میں آنٹی کے گھر جاتے تھے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ک( ہنٹر سٹوری چور)جتنا حرامی تھا اس کی چلتی پھرتی تصویر بھی تھا ہر برا کام اس کا تھا عالقے کے اوباشوں سے اس کی دوستیاں تھیں غلط کاموں میں پڑا ہوا تھا ہر وقت آوارہ گردی کرتا تھا بہزاد ( سٹوری چور)بھی کچھ کم نا تھا وہ بھی آوارہ گرد ہی تھا دونوں گھر سے غائب ہی رہتے تھے آنٹی رفعت کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں بڑا بیٹا ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ک( ہنٹر سٹوری چور)تھا جو میرا ہم عمر ہی ہے اس چھوٹی کا نام نصرت تھا نصرت کی عمر 28سال تھی نصرت سے چھوٹی سونیا کی عمر 26سال ہے اس سے چھوٹی سعدیہ ہے سعدیہ کی عمر 24سال ہے اس سے چھوٹا بہزاد ( سٹوری چور) 22سال کا جبکہ اس سے چھوٹی صدف کی عمر 18سال ہے آنٹی رفعت کے دونوں بیٹے تو آوارہ تھے پر اس کی بیٹیاں اچھی شہرت رکھتی تھیں کبھی ان کے بارے غلط بات نہیں سنی نصرت اور سونیا دونوں ماسٹر کر چکی تھیں سعدیہ یونیورسٹی پڑھ رہی تھی جبکہ صدف ابھی کالج میں تھی چاروں بہت ہی شریف اور باپردہ لڑکیاں تھیں شام کو کام کرنے کے بعد میں نے دودھ دوہا اور دودھ لے کر گھر کی طرف چل دیا آنٹی نے کہا تھا کہ کھانا گھر ہی آکر کھانا ہے میں گھر گیا میں نے دروازہ کھٹکایا تو آنٹی نے دروازہ کھوال سامنے مجھے دیکھ کر آنٹی مسکرا دی آنٹی دوپٹے کے بغیر تھی جس سے آنٹی کے تنے ہوئے ہوا میں اکڑے موٹے ممے صاف نظر آرہے تھے میری نظر سیدھی مموں سے ہوتی آنٹی رفعت سے ملی آنٹی نے مسکرا کر مجھ سے دودھ کے لیا اور اندر چلی گئی کچھ دیر بعد بہزاد ( سٹوری چور)نے بیٹھک کا دروازہ کھوال اور مجھے اندر چال لیا کھانا کھا کر میں ڈیرے پر آکر سو گیا صبح اٹھا اور دودھ نکاال میں نے دیکھا تو گدھا کھڑا کچھ جانوروں کو تنگ کر رہا تھا میں نے اسے باڑے کی پچھلی طرف کے درخت سے باندھ دیا بہزاد ( سٹوری چور)آیا اور دودھ لے گیا اور مجھے کھانا دے گیا میں نے کھانا کھایا اور کچھ کام کرنے لگا میری عادت تھی میں کام کرتے وقت قمیض اتار دیتا تھا میں قمیض اتار کر کام کر رہا تھا کام ختم کیا تو بدن ہلکا سا پسینے سے گیال ہو رہا تھا مجھے اب چارہ لینے جانا تھا میں پچھلی طرف بندھے گدھے کو لینے گیا میں جیسے ہی نکال سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا سامنے کھوتا فل ہوشیار کھڑا تھا کھوتے کا بازو جتنا لن فل تیار تھا وہ ہلکے ہلکے جھٹکے مار رہا تھا کھوتے کا لمبا موٹا کاال لن اتنا لمبا تھا کہ زمین کو چھو رہا تھا اتنے میں میری نظر دوسری طرف گئی تو سامنے دو عورتیں نظر آئیں جو چادر میں لپٹی ایک درخت کے نیچے کھڑی تھیں دونوں میں ایک تھوڑی بڑی عمر کی لڑکی لگ رہی تھی جیسے اس کی عمر 35سال کے قریب تھی جبکہ دوسری کی عمر 30کے قریب پگ رہی تھی دونوں بھرپور جوان تھی۔ اور دونوں گدھے کے لن ے موٹے کالے پن کو گہری آنکھوں سے دیکھ کر ہنس کر ایک دوسرے سے بات کر رہی تھی دونوں بڑی دلچسپی سے گدھے کو دیکھ رہی تھی دونوں کی آنکھوں کی اللی سب بتا رہی تھی میں ان کو یوں گدھے کو دیکھتا چونک گیا وہ بھی مجھے دیکھ کر چونک گئیں میری نظر سامنے کی طرف وہ مجھے دیکھ کر سنبھل سی گئی تھی ایک لڑکی تو یوں گدھے کو دیکھنے پر شرمندہ سی ہو کر منہ دوسری طرف کر گئی جبکہ دوسری جو ذرا بڑی تھی وہ مجھے دیکھ کر چونک گئی میں قمیض کے بغیر تھا جس سے میرا چوڑا بھرا ہوا سخت جسم وہ آنکھوں سے ٹٹول رہی تھی میں نے اسے نظر بھر کر دیکھا تو میں اسے پہچان گیا وہ آنٹی رفعت کی بہن نذیراں تھی میں نے اسے پہچان تو گیا پر میں بھی تھوڑا شرمندہ تھا اس لیے میری اس سے بات کرنے کی ہمت نا ہوئی وہ بدستور مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں مڑا اور سوچا کہ جلدی سے گدھا کھول کر اندر کے جاؤں ان کو مزید شرمندہ نا کروں میں گدھے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسی لمحے نذیراں بولی وے توں ہیں نواں کاما میں چونک کر مڑ گیا اور بوال ہاں جی نذیراں بولی اچھا جی باجی دس رہی ہا توں رحموں دا پتر ہیں میں مسکرا کر سر ہالیا تو نذیراں ہنس دی اور میرے بدن پر ایک نظر گھما کر بولی توں عاشق ہیں میں بوال جیا وہ بولی اچھا مینوں پہچانیاں ہئی میں مسکرا کر بوال توں نذیراں ہیں آنٹی دی بھین یہ سن کر نذیراں ہنس کر بولی واہ جی واہ توں تے بڑی پہچان رکھی ہوئی ہے نکا جیا ہائیں جدو آندا ہائیں ہنڑ تے وڈا سارا ہو گیا ایں اور میری طرف چلتی ہوئی قریب آکر بولی ہتھ تے پھرا میں نچے جھکا تو نذیراں نے میرے ننگے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دبا کر پھیرا نذیراں کا مالئم ہاتھ مجھے سرور سا دے گیا نذیراں مسکرا دی اور بولی وے چنگا کیتا ہئی جہڑا رہ پیا ایں سادے کول ساڈا وی دل لگ جاسی میں چونک گیا جبکہ نذیراں اس لڑکی کو دیکھ کر مسکرا دی جو کن اکھیوں سے میرے ہی بدن کو ٹٹول رہی تھی وہ بھی مسکرا دی میں نے اسے دیکھا تو وہ مستی سے مجھے دیکھ رہی تھی مجھ سے نظریں ملتے ہی وہ نظریں چرا گئی میں مسکرا دیا نذیراں اس لڑکی طرف اشارہ کرکے بولی اس نوں جانڑردا ایں میں نے مسکرا کر سر ہالیا تو وہ ہنس کر بولی چلو ہنڑ توں آگیا ہیں نا ہنڑ توں جانڑ جاسیں اے نصرت ہئی تیری آنٹی دی دھی میں یہ سن کر چونک گیا اور ایک نظر نصرت کو گہری نظروں سے دیکھا نصرت بھی ٹھیک ٹھاک چوڑے جسم کی لمبے قد والی لڑکی تھی اس کا چادر میں لپٹا جسم اپنا جلوہ دکھا رہا تھا میں نے اسے دیکھا تو وہ مسکراتی آنکھوں سے مجھے غور رہی تھی میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا نذیراں بولی اے وی تیری مالکن سے اس دا حکم وی منی رکھیں اور مسکرا کر نصرت کو دیکھا نصرت نذیراں کو غورا اور منہ پھیر گئی میں ہنس دیا اتنے میں دوسری طرف بائیک کے آنے کی آواز آئی نذیراں بولی لگدا بہزاد ( سٹوری چور)آگیا اے آجا نصرت چلیے یہ کہ کر دونوں چکی گئیں میں گدھا کے کر۔ آرہ لینے چال گیا میں سمجھ گیا تھا کہ یہاں صرف ڈیرے کا کام نہیں گھر کی عورتوں کا کام بھی کرنا پڑے گا میرا دل تو باغ باغ ہو رہا تھا پر میں جھجھک بھی رہا تھا کہ بات کیسے بڑھاؤں کیونکہ اکثر لڑکیاں صرف اشارہ دیتی ہیں ان کے ساتھ تو بات خود ہی بڑھانی پڑتی ہے میرے اندر جھجھک بہت تھی جس کی وجہ سے میں اکثر عورتوں کو گھیر نہیں پاتا تھا جو خود بخود نیچے آجاتیں وہ چد جاتی تھیں جو کہ بہت کم تھی اور میں اکثر ان کو پسند بھی نہیں کرتا جس کی وجہ سے میں ان کے قریب بھی نہیں جاتا تھا یہاں بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ بات کیسے بڑھاؤں سب کی سب ہی مجھے پسند تھیں یہ سوچ کر میرا بازو جتنا لن تن کر فل کھڑا تھا میرے چوڑے جسم کے ساتھ میرے اندر مردانی وجاہت بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی جہاں پہلے ہوتا تھا وہاں میں کثر گدھی کو چودتا رہتا تھا کیونکہ عورت تو ملتی نہیں تھی اس لیے گدھی سے کام چال لیتا تھا گدھی کی تنگ پھدی کے کھینچاؤ اور پکڑ نے میرے لن کو بازو جتنا لمبا اور موٹا کر دیا تھا میرے کالے پن کی کھردری چمڑی عورت کو دوہرا کر دیتی تھی آج تک کسی عورت نے میرا پورا لن نہیں لیا تھا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں شام تک کام کرتا رہا اور پالن بناتا رہا کہ نذیراں اور آنٹی کو کیسے گھیروں پر کوئی پالن نا بنا جو بھی بنتا پسند نہیں آیا خیر شام کو میں دودھ لے کر گھر آیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سامنے ایک نئی لڑکی نے دروازہ کھوال جو دوپٹے کے بغیر ہی تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیا وہ بھی کسے ہوئے قمیض میں تھی تنے ہوئے اکڑ کر ہوا میں کھڑے موٹے ممے قیامت ڈھا رہے تھے پتلی کمر باہر کو نکلی موٹی گانڈ مست لگ رہی تھی وہ یقینا نصرت سے چھوٹی سونیا تھی مجھے دیکھ کر چونک گئی میں بھی چونک گیا وہ بولی کون پھر خود ہی میرے ہاتھ میں ڈرمی دیکھ کر سمجھ گئی اور بولی دودھ مینوں دے چا میں نے ڈرمی اسے پکڑا دی گورے ہاتھوں نے ڈرمی مجھ سے لے لی اس نے مجھے گہری آنکھوں ے دیکھا اور دروازہ گھما کر اندر چلی گئی میں بیٹھک کھلنے کا انتظار کرنے لگا کہ اتنے میں دروازہ پھر کھال اور سامنے آنٹی رفعت سفید شلوار قمیض میں کھڑی تھی آنٹی کے موٹے ہوا میں اکڑے ہوئے تھن مجھے سالمی دے رہے تھے آنٹی نے گت کرے آگے مموں پر ڈالی ہوئی تھی آنٹی کا قمیض آنٹی کے جسم سے چپک کر جسم واضح کر رہا تھا آنٹی مجھے دیکھ مسکرا دی اور بولی عاشقو اپنا ہی گھر ہے اندر ہی آجا آنٹی کے یوں اندر گھر میں بالنے پر میں جھجھک سا گیا میں نے آنٹی کے مموں سے نظر ہٹا کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی مسکرا دی میں بوال مٹی اندر کیویں آنٹی بولی وے اے اپنا ہی گھر سمجھ اور میرے بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا میں بے اختیار کھٹکا کھا کر اندر چال گیا جیسے ہی اندر گیا تو میرا دل دھک دھک کرنے لگا آنٹی مجھے دیکھ کر بولی وے اے اپنا گھر ہی سمجھ ہنڑ توں سادے گھر دا حصہ ایں میں نے مڑ کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی ہانپ رہا ہوئی مجھے مستی سے دیکھ رہی تھی میں سمجھ گیا کہ آج میں گیا آنٹی کے تنے ہوئے ممے قیامت ڈھا رہے تھے آنٹی کا انگ انگ نظر آرہا تھا میں جھجھک بھی رہا تھا کبھی کسی کے گھر گیا نہیں تھا آنٹی آگے چل پڑی آنٹی کی پھدکتی گانڈ کو میں کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا آنٹی آگے صحن میں پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گئی اور بولی عاشق ایتھے بہ جا میں روٹی بنا رہی آں تینوں وی دیندی آں میں وہیں بیٹھ گیا اسی لمحے سامنے میری نظر پڑی تو نصرت ٹوٹی سے برتن اٹھا کر ا رہی تھی میری نظر اس سے ملی تو وہ مسکرا کر مجھے گہری آنکھوں سے غور رہی تھی نصرت بغیر دوپٹے ہے تھی نصرت نے بھی ایک کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس سے نصرت کا کسا پھول کی طرح کا گداز ہوا بدن قمیض سے جھانک رہا تھا نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا ہوا تھا نصرت کا چوڑا اٹھا ہوا سینہ قیامت ڈھا رہا تھا نصرت نصرت کے تن کر ہوا میں کھڑے ممے میرا دل چیر رہے تھے نصرت کی پتلی کمر چپٹا پیٹ باہر کو نکلی موٹی گانڈ موٹے شلوار میں کسے ہوئے پٹ قیامت ڈھا رہے تھے نصرت کے کپڑے جسم کے ساتھ چپک کر نصرت کا بھی انگ انگ دکھا رہے تھے نصرت نے چلتے ہوئے مجھے دیکھتی ہوئی کیچن کی طرف مڑ گئی نصرت کی لمبی گت نصرت کی پھڑکتی گانڈ پر کھیل رہی تھی میں تو اس منظر میں کھو سا گیا تھا نصرت نے کیچن میں داخل ہوتے ہوئے مجھے دیکھا میں اس کی گانڈ کو غور رہا تھا وہ مجھے اپنی گانڈ دکھاتی ہوئی مسکرا دی میں چونک کر نظر چرا گیا میری نظر کیچن کے دروازے پر ہی تھی کہ اسی لمحے اندر سے ایک اور لڑکی نکلی اور اندر کمرے میں جانے لگی وہ بھی دوپٹے کے بغیر ایک کسے ہوئے لباس میں تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیا اور سمجھ گیا کہ یہ سعدیہ ہے سعدیہ نے ایک گہری نظر مجھے دیکھا اور آگے چلتی ہوئی اندر جانے لگی سعدیہ کا قد تھوڑا لمبا تھا لیکن اس کا جسم تھوڑا پتال تھا لیکن اتنا بھی نہیں تھا اس کے جسم کے خدو خال باقی بہنوں سے کم نہیں تھے سعدیہ کے ممے بھی کافی اٹھے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب اپنے مموں کا خاص خیال رکھتی تھیں میں تھوڑا جھجھک بھی رہا تھا پر ان میں کوئی جھجھک نہیں تھی وہ بے دھڑک میرے سامنے چل پھر کر اپنا جسم مجھے دکھا رہی تھیں مجھے لگ رہا تھا کہ میں کسی رنڈی خانے میں آگیا ہوں تینوں بہنیں آگے پیچھے مجھے اپنے بدن کا نظرانہ کروا رہی تھیں میں بھی خوش تھا اتنے میں آنٹی کھانا الئی اور مجھے دیا آنٹی پاس ہی بیٹھ گئی میں کھانا کھانے لگا آنٹی بولی عاشق توں اپنا بندہ ہیں ہنڑ اے تیرا اپنا گھر بے فکر ہوکر گھر آیا گیا کر گھبراون دی ضرورت نہیں جو مرضی کردا کر کھا پی اپنا گھر اے میرے تو کان کھڑے ہو گئے میں سمجھ گیا کہ آنٹی سب کچھ کھانے کی آفر کر رہی ہے میں نے بھی ہاں میں سر ہال دیا آنٹی پاس ہی بیٹھی رہی اس دوران نصرت سونیا اور سعدیہ بھی میرے اوپر نیچے ہوکر مجھے اپنا آپ دکھاتی رہتی۔ میں حیران بھی ہو رہا تھا کہ کیسے یہ گاؤں میں شریف آر باپردہ مشہور ہیں پر یہاں مجھے سب کچھ دکھا رہیں میں اتنے خوبصورت نظارے کرکے خوش بھی ہو رہا تھا آنٹی کی بیٹیاں اچھی تک کنواری بیٹھی تھیں شاید انہیں بھی کسی ایسے مرد کی تالش تھی جو ان کا راز بھی رکھے اور ان کی خواہش بھی پوری کرے یں خوش بھی تھا اور ایک دھڑکا بھی تھا کہ میں ان کو کیسے سنبھال پاؤں گا یہ تو ایک سے بڑھ کر ایک جوانی تھی میں کھانا کھا کر ڈیرے پر آگیا میرے ذہن پر نصرت اور اس کی بہنیں سوار تھیں آنٹی نے مجھے کھلی چھٹی دے تو دی تھی پر میں بھی اتنی جلدی میں گرم دودھ کو منہ نہیں لگانے والے تھا ٹھنڈا کرکے پینا تھا میں ڈیرے پر آکر کچھ کام کیا اور پھر آنٹی اور نصرت لوگوں کا سوچتا ہوا جلد ہی سو گیا
میں صبح جاگا دودھ
دوہ کر رکھا آج بہزاد نہیں آیا تھا اس لیے مجھے ہی دودھ دینے جانا پڑا میں دودھ لے کر پہنچا تو نصرت اور سونیا وہاں سے تیار ہوکر نکل رہی تھیں دونوں نے خود کو اچھی طرح سے ڈھانپ رکھا تھا دونوں نے نقاب کیا ہوا تھا نصرت اور سونیا گھر میں فری ہوتی تھیں اس لیے وقت گزارنے کےلیے گاؤں میں کھلے پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی تھیں دونوں اب پڑھانے جا رہی تھی سعدیہ اور چھوٹی فاریہ بھی جا چکی تھی گھر میں اسوقت کوئی نہیں تھا نصرت نے گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور جاتے ہوئے مسکرا دی میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو آنٹی رفعت باہر نکلی مجھے دیکھ کر ہنس دی آنٹی اسوقت بھی کسے ہوائے لباس میں تھی میں نے ایک نظر آنٹی رفعت کے تنے ہوئے مموں پر ڈالی تو آنٹی کے تنے مموں کے موٹے نپلز قمیض میں سے نظر آ رہے تھے میں یہ دیکھ کر چونک گیا آنٹی رفعت نے برا نہیں پہن رکھی تھی میں نے چونک کر نظر اوپر آنٹی رفعت کے منہ پر ڈالی تو آنٹی گہری آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہوئی ہلکا سا مسکرا رہی تھی آنٹی کی بھری ہوئی گالوں پر اللی اتر آئی تھی آنکھوں میں نشہ تھا مجھ سے نظر ملتے ہی آنٹی بولی وے تینوں آکھیا اے کہ اے تیرا اپنا گھر دروازہ نا کھڑکایا کر آدھا اندر یا کر یہ سن کر میرے ذہن میں نصیبو کا گانا بجا بوا نا کھڑکا سوہنیا آدھا اندر آ میں یہ سوچ کر ہنس کر گہری نظر سے آنٹی کو دیکھ آنٹی مسکرا کر بولی کالو سمجھ گیا ہیں نا میرا رنگ تھوڑا کاال تھا جس سے لوگ مجھے کالو ہی بولتے تھے آنٹی بھی سمجھ گئی تھی کہ میرے ذہن میں وہی گانا بجا ہے میں بوال جی سمجھ گیا وہ میرے ہاتھ سے دودھ لے کر بولی تے وت اگاں آجا۔ سارے روٹی کھا کے وگ گئے ہینڑ ہنڑ صرف توں رہندا ایں یہ کہ کر آنٹی میرے آگے چل پڑی آنٹی رفعت کی چوڑی موٹی گانڈ پر آنٹی کی لمبی گت ہلتی ہوئی دھمال ڈال رہی تھی میرا لن تو مستیاں کرنے لگا تھا میں خود کو روک نہیں پا رہا تھا آنٹی اندر کیچن میں چلی گئی میں صحن میں رک گیا آنٹی کی ن کے دروازے پر جا کر رکی اور بولی کالو اندر ہی آجا ایتھے کیچن اچ ہی بہ کے روٹی کھا لئے میں سمجھ گیا کہ آج کالو تیری خیر کوئی نہیں یہ سوچ کر میں مسکرا دیا آنٹی مجھے ہی دیکھ رہی تھی آنٹی میری مسکراہٹ کی وجہ سمجھ گئی تھی آنٹی بھی اسی انداز سے مسکرا کر اندر چلی گئی میں بھی پیچھے اندر چال گیا آنٹی رفعت سنک پر کھڑی ہو کر کام کر رہی تھی آنٹی رفعت کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی قیامت ڈھا رہی تھی رفعت مجھے کھڑا دیکھ کر مسکرا کر بولی اندر آجا میں بلوا میں ہتھ دھو لوا آنٹی بولی ایتھے ہی دھو لئے آگے سنک پر بیان لگا تھا برتن دھونے واال میں اندر داخل ہوا اور آنٹی کے پیچھے سے گزرتے ہوئے آنٹی کی باہر کو نکلی گانڈ پر ہلکا سا ہاتھ ٹچ ہو گیا میں نے جان بوجھ کر تو نہیں کیا تھا پر ہوگیا تھا جس سے آنٹی تھوڑی سی آگے ہو کر مڑی اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں تھوڑا گھبرایا پر آنٹی کو مسکراتا دیکھ کر میں مطمئن ہوگیا کہ سب اچھا ہے میں ہاتھ دھو کر مڑا تو آنٹی شاید روٹی بنانی تھی میں آنٹی سے بوال آنٹی لسی دا گالس ملسی آنٹی نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی کیوں نہیں لسی تیری محنت نال ہی نکلدی بے جھجھک منگ لئی کر اور پاس پڑے جگ سے گالس میں ڈال کر مڑی اور میری طرف آئی میں نیچے پیڑھی پر بیٹھا تھا آنٹی میرے قریب آئی اور میرے سامنے کھل کر گالس میری طرف بڑھا دیا آنٹی رفعت کے جھکنے سے آنٹی کے موٹے تھن نیچے لٹک گئے جس سے رفعت کے سینے کا گلہ کھل گیا اور آنٹی رفعت کے موٹے تنے ہوئے گورے ممے میرے سامنے وضع ہو گئے میں آنٹی کے موٹے ممے دیکھ کر مچل سا گیا میری گہری نظر آنٹی کی مموں کے اندر تھی میں اتنا مگن تھا کہ مجھے لسی کا خیال ہی نہیں تھا آنٹی بھی مجھے اپنے مموں کو دیکھتی ہوئی گالس میرے سامنے کیے جھکی رہی آنٹی رفعت نے کوئی حرکت نہیں کی وہ میری آنکھوں میں گہری آنکھیں ڈالے دیکھتی ہوئی اپنے مموں کا نظارہ مجھے کرواتی رہی ایک منٹ بعد مجھے احساس ہوا میں نے جلدی سے نظر چرا کر آنٹی ہو دیکھا تو آنٹی گہری مست نظروں سے مجھے غورتی ہوئی مسکرا دی میں نے جلدی سے گالس پکڑ لیا آنٹی رفعت میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی سیدھی ہوکر واپس اپنے کام میں مگن تھی میں نے گالس منہ کو لگایا اور نظر اٹھا کر آنٹی کے جسم کا نظارہ کیا تو میری نظر سامنے آنٹی رفعت کی کمر پر پڑی جہاں آنٹی کے اونچے چاک سے آنٹی رفعت کا گورا بدن جھانک رہا تھا آنٹی نے اپنی شلوار بھی کافی نیچے باندھ رکھی تھی جس سے آنٹی رفعت کے چڈے کا اوپر واال حصہ صاف نظر آرہا تھا میں تو یہ دیکھ کر بوکھال سا گیا تھا میں سمجھ گیا تھا کہ یہ اب آنٹی کیوں کر رہی ہے میرا لن انگڑائی لے کر تن گیا میرے کان گرم ہونے لگا آنٹی رفعت نے ایک الکٹ بھی پیٹ کے گرد ڈال رکھا تھا جسکی لٹکی ہوئی جھانجریں ننگے چاک سے نظر آرہی تھیں مجھ سے تو رہا نہیں جا رہا تھا میں نے بات بدلنے کےلیے کہا آنٹی بہزاد تے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ککدے ہینڑ آنٹی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولی پتا نہیں کدے ہینڑ۔ اپنی زندگیاں اچ مست ہینڑ کدی کدی گھر دا راہ ویکھ لونڑ تے اجاندے ہینڑ ۔مین بوال آنٹی توں تے آوارہ کر دتے ہینڑ آنٹی ہنس دی اور بولی چلو اپنی زندگی ہے اوہناں دی مرضی نال کی پینٹ میں کدی روک ٹوک نہیں کیتی میں مسکرا کر آنٹی کے ننگے چاک کو دیکھ رہا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا تھا آنٹی بولی انڈے نال کھاسی یا دہی ناک میں بوال آنٹی دہی ہی سہی اے اگے گرمی بڑی اے آنٹی رفعت نے مسکرا کر گہری نشیلی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی انڈے اچ تے طاقت وی ہوندی اے تے تیرے جئے مرد نوں تے طاقت دی لوڑ اے یہ کہ رفعت نے ایک نگاہ میرے جسم پر پھیری میں مسکرا دیا اور بوال آگے بڑی طاقت ہے طاقت دی کمی نے آنٹی رفعت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور بولی اچھا جی ویسے لگ وی رہیا اے توں تے چنگا بھال صحت مند ہیں میں بوال ہاں جی میں اپنا خیال رکھنا اں آنٹی بولی اچھا جی وت تیری صحت دا امتحان لئے کے چیک کرئیے میں آنٹی کے کھلے انداز سے چونک کر ہنس دیا آنٹی بولی اچھا فر فریج ابو اپنے واسطے دہی لئے آ میں اٹھا اور باہر فریج سے دہی لے کر آیا آنٹی وہیں کھڑی تھی آنٹی رفعت کی باتوں اور انداز سے میرا حوصلہ بھی بڑھ چکا تھا میرا لن پہلے ہی سر اٹھا کر کھڑا تھا میں نے آنٹی کے پیچھے آکر اپنے لن کو آنٹی کی گانڈ کے چیر میں سیٹ کرکے ہلکا سا پش کرکے اپنا وزن آگے بڑھا کر آنٹی کے آگے دہی رکھ دی آنٹی کی مالئم گانڈ میں ٹوپہ چبھتے ہی آٹنی رفعت بھی کانپ کر چونک گئی آنٹی نے ہلکی سی سسکاری بھری اور اپنی گانڈ میری طرف دبا کر کھول کر مجھے دیکھا میں اپنے دھیان میں ہی رہا اور دہی آگے رکھدی آنٹی رفعت نے بھی اپنی گانڈ میری طرف دبا جس سے میرے لن کا ٹوپہ آنٹی کی گانڈ میں گھس گیا میں آنٹی کی گانڈ میں ٹوپہ گھستے ہی سسک گیا اور دہی رکھ کر پیچھے مڑے لگا تو آنٹی نے اپنی گانڈ دبا کر میرے لن کے ٹوپے کو دبوچ لیا میں آنٹی رفعت کی گانڈ میں لن کو دبا محسوس کرکے کانپ کر رک سا گیا آنٹی بھی رک کر اپنے ہاتھ سنک پر رکھ کر اپنی کمر آگے کو جھکا کر اپنی موٹی گانڈ باہر نکال کر کھول کر میرے لن کو اپنی گانڈ میں مزید دبوچ لیا آنٹی کے جسم سے آگ کے بھانبھڑ اٹھ رہے تھے جس کو محسوس کرکے میں مچل کر کراہ گیا آنٹی رفعت کی گانڈ میں آگ لگی تھی جو میرے لن کو جال کر میری شہوت بڑھا رہی تھی میں مزے سے کانپ گیا آنٹی رفعت نے میرے لن کو گانڈ میں دبوچ رکھا تھا آنٹی بھی ہلکی ہلکی کانپ رہی تھی مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے بے اختیار ہاتھ اٹھا کر آنٹی رفعت کے کاندھوں پر رکھ کر دبا دئیے جس سے آنٹی رفعت سسک کر اوپر ہوئی اور ہانپتی ہوئی پیچھے میرے سینے سے آلگی آنٹی رفعت نے بے اختیار اپنا سر میرے کاندھے پر رکھ دیا میں آنٹی کے کندھے مسلتا ہوا منہ نیچے کیا اور آنٹی رفعت کی پھولی ہوئی موٹی نرم گال کو چوم لیا آنٹی سسک کر آپ بھر کر رہ گئی آنٹی رفعت کے اندر بھی آگ لگی تھی میں نے ہونٹ کھول کر آنٹی رفعت کی گال کو منہ میں بھر کر دبا لیا اور ہاتھ نیچے پیٹ پر لے جا کر آنٹی رفعت کو اپنے ساتھ لگا کر اپنی باہو میں بھر لیا آنٹی رفعت کا نرم جسم میرے ساتھ لگ کر میرے اندر آگ لگا چکا تھا میں آنٹی رفعت کے جسم کو مسل کر آنٹی رفعت کے موٹے مموں کو ہاتھوں میں بھر کر دبا کر مسلتا ہوا آنٹی کے مموں سے کھیلتا ہوا آنٹی کی گال کو چوس کر پینے لگا مٹی رفعت اپنے مموں کو میری گرفت میں پا کر مچل کر کرال کر تڑپی اور منہ اوپر کرکے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے جوڑ کر دبا کر چوسنے لگی میں بھی آنٹی کے ہونٹوں کو دبا کر چوستا ہوا آنٹی رفعت کے موٹے ممے دبا کر مسلنے لگا آنٹی رفعت کے موٹے نرم ہونٹوں میں عجیب نشہ اور رس تھا جو میرے اندر اتر کر آگ لگا تھا آنٹی رفعت میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی تیز تیز سانس لیتی ہانپ رہی تھی آنٹی کے ہانپنے سے کیچن گونج رہی تھی آنٹی نے میرے ہونٹ داب کر میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر دبا کر چوس لی آنٹی رفعت کے گرم منہ میں میری زبان جل سی گئی آنٹی رفعت دبا کر میری زبان کو چتھ کر چوسنے لگی میں آنٹی کے موٹے مموں کو دبا کر مسلتا ہوا آنٹی رفعت کے ہونٹ دبا کر چوس رہا تھا میرا لن فل تن کر کھڑا ہوا چکا میں نے اوپر شرٹ ڈالی ہوئی تھی جو میں نے ہاتھ ڈال کر اتار کر کھینچ دی جس سے آنٹی رفعت مجھ سے الگ ہوئی اور میرے کالے ننگے جسم کر دیکھ کر مچل کر سیدھی ہو کر میری طرف گھوم آئی اور میرے ساتھ لگ کر میرے ننگے سینے پر اپنا ہاتھ پھیر کر سسک کر بولی سسسسیییی افففففف کالوووو تیرا جسم وی تیرے پیو آر بہوں سوہنا اے قسمیں اور آگے منہ کرکے میرے سینے کو چوم لیا میں آنٹی رفعت کے انداز پر مر مٹا تھا آنٹی میں بہت شہوت تھی آنٹی نے میرے سینے کو چومتے ہوئے زبان نکالی اور میرے سینے کو چومتی ہوئی چاٹتی ہوئی ہانپ کر کراہنے لگی آنٹی رفعت کا جسم کانپ رہا تھا اور آنٹی اونچی اونچی کراہیں بھر کر میرا جسم چاٹ رہی تھی آنٹی کے ہوا میں تن کر کھڑے مموں کو چھپا دیکھ کر مجھ سے رہا نا گیا میں نے قمیض کو ہاتھ ڈاال اور آنٹی کا قمیض کھینچا تو آنٹی نے خود ہی اپنا قمیض طکڑ کر اتار دیا آنٹی رفعت کا گورا بھرا ہوا سیکسی بدن میرے سامنے ننگا ہوا گیا آنٹی رفعت کے تن کر ہوا میں اکڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے اتنے موٹے اور بڑے ممے آج تک نہیں دیکھ تھے آنٹی رفعت نے دونوں مموں کے نپلز کو چھدوا کر ان میں چھلے ڈلوا رکھے تھے جن کے ساتھ چھوٹی چھوٹی زنجیریں لٹک رہی تھیں میں آنٹی رفعت کے چھدے ہوئے نپلز دیکھ کر مچل گیا اور آنٹی کے مموں کو دبا کر مسلنے لگا آنٹی کراہ کر مچل رہی تھی میں منہ آگے کرکے آنٹی کے ممے دبا کر مسلتا ہوا چوم کر چوسنے لگا آنٹی مزے سے کانپتی ہوئی کراہنے لگی تھی میرے کھردرے ہاتھ آنٹی کے مموں کی جان نکال رہے تھے آنٹی مزے سے اونچا اونچا کرالنے لگی تھی آنٹی نے میری شلوار کے نالے کو کھینچ کر میری شلوار میں ہاتھ ڈال کر میرا لن کھینچ لیا آنٹی رفعت کے نرم ہاتھ کا لمس میرے لن کا سانس ہی بند کرگیا میں تڑپ کر کراہ گیا آنٹی نے میرے لن کی جڑ پر ہاتھ رکھا اور دبا کر مسلتی ہوئی ٹوپے تک آنے لگی آنٹی میرے سر کو اپنے مموں پر دبا کر کرہا رہی تھی میرا لن اس کی آنکھوں سے اوجھل تھا آنٹی نے جیسے ہی ہاتھ سے میرے لن کی لمبائی محسوس کی تو آنٹی چونک کر پیچھے ہوئی اور میرا سر اپنے مموں سے ہٹا کر میرے لن کی لمبائی اور موٹائی دیکھ کر پھٹی آنکھوں سے میرے لن کو دیکھ کر ہانپ رہی تھی میں آنٹی کو حیرانی سے اپنا لن دیکھتا ہوا ہانپ رہا تھا آنٹی ایک لمحے بعد حیرانی سے بولی وے کالو میں مر جاواں اے تیرا ہی لن ہے میں نے ہاں میں سر ہال آنٹی رفعت بولی وے رڑا ہو جاویں مار گھتیا ہئ اور میرے لن کو مسلتی ہوئی میرے کے سامنے جا بیٹھ اور غور سے دیکھ کر مسلتی ہوئی بولی وے کالو حرامدیا اے کیڈی بال لئی ودا ایں نی مر جاواں اور آگے ہوکر میرے لن کے اوپر والے حصے کو چوم کر بولی نی میں صدقے جاواں ایڈا لن تے اج تک نہیں ویکھیا کالو وے ہنڑ تک کدے رہیا ایں تینوں پتا نہیں میں تے ایدے لن لونڑ کانڑ مر رہی آں میں سسک رہا تھا آنٹی اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسلتی ہوئی میرے لن کو چوم کر میرے لن کے صدقے واری جا رہی تھی آنٹی نے سارا لن دبا کر اپنے سارے منہ پر مسال اور سسکتی ہوئی بولی افففف کالو میں تے تیری دیوانی ہو گئی آں آنٹی بولی کالو اے جیدا لن اے اور پھر خود ہی پیچھے ہو لن ماپنے کے لیے اپنا بازو آگے کیا اور میرے لن کو بازو سے ماپنے لگی آنٹی رفعت کے قد کے حساب سے آنٹی رفعت کا بازو بھی کافی لمبا تھا پر پھر بھی میرا لن آنٹی کے بازو سے بھی بڑا تھا آنٹی یہ دیکھ کر حیران رہی گئی اور وے کالو میں صدقے جاواں تیرے لن تو تیرا لن تے تیرے پیو دے لن نالو دو گنا وڈا اے اس نوں کی کھویا ہئی آنٹی رفعت میرے لن کو دنوں ہاتھوں میں دبا کر ۔مسلتی ہوئی اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسل کر سسک رہی تھی آنٹی رفعت کے لمس نے میری جان نکال دی تھی میں مچل کر کراہ رہا تھا آنٹی میرے لن کو دبا کر مسلتی ہوئی اپنے ہونٹوں کو دبا کر لن پر پھیرتی ہوئی منہ کھوال اور میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا آنٹی کے گرم میں کو لن پر محسوس کرکے میری کراہ نکل گئی آنٹی نے مستی بھری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور میرے لن کو دبا کر ہونٹوں میں چوستی ہوئی اپنی زبان میرے لن پر پھیرنے لگی آنٹی کی زبان نے میرے لن کو مسل کر میری جان نکال دی میں کراہ کر مچل گیا آنٹی مدہوشی سے مجھے دیکھتی ہوئی میرے لن کا ٹوپہ چتھ کر چوستی ہوئی داب کر چوس کر اس پر زبان پھیرتی ہوئی ہانپ رہی تھی آنٹی کی کراہیں بھی غوں غوں میں بدل رہی تھیں میں کراہ کر مچل رہا تھا آنٹی کا منہ میری جان کھینچ رہا تھا آنٹی نے میرے لن پر ہونٹ دبا کر میرے پٹ دبا کر پکڑے اور زور لگا رج لن کو مزید اندر منہ میں لے گئی آنٹی کے منہ کا دہانہ کافی کھال تھا جس سے لن آسانی سے آنٹی رفعت کے گلے تک اتر گیا آنٹی نے کراہ کر ہونٹ لن پر دبا کر کھینچ کر چوپا مارا اور رکے بغیر لن کو دبا کر چوستی ہوئی کس کر چوپے مارنے لگی آنٹی رفعت کے موٹے نرم ہونٹ میرے لن کی چمڑی کو رگڑ کر مسلتے ہوئے میری جان نکالنے لگے میں کرال کر بکا گیا اور تڑپ گیا آنٹی کے گرم منہ کے چوپے میری جان کھینچ لی میں تڑپتا ہوا کانپنے لگا چار پانچ چوپوں پر ہی میری ٹانگیں کانپ گئی اور میں کرال کر دوہرہ ہوگیا آنٹی سمجھ گئی اور رک کر میرے لن کو چتھنے لگی جس سے میں بکا گیا مجھے لگا کہ میری ٹانگوں سے جان نکل کر لن کی طرف بہ رہی ہے جس سے میری ٹانگیں کانپ گئی اور میں گرتے گرتے سنک کا سہارہ لے کر دوہری ہوکر تڑپ کر کراہ ے لگا ساتھ ہے میرے لن سے گاڑھی سفید منی کی موٹی دھار نکل کر سیدھی آنٹی رفعت کے گلے کو بھر گئی ساتھ ہی میں مزے سے چیخ گیا آنٹی کا گال اور میری گاڑھی منی سے بھر گیا آنٹی نے کانپتے ست سے مجھے دیکھا اور گھونٹ بھر کر ساری منی پیٹ میں اتار لی گھونٹ بھرتے ہوئی آنٹی رفعت کے گلے گھرگٹ کی آواز کے ساتھ میری ساری منی آنٹی رفعت کے پیٹ میں چلی گئی ساتھ میں نے تڑپ کر دوسری دھار ماری جس سے آنٹی نچوڑ کر پی گئی میں کراہ کر تڑپتا ہوا آنٹی رفعت کے گلے میں فارغ ہوتا ہوا کراہ گیا ایک بار تو میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا تھا آج تک مجھے کسی عورت نے نہیں تھکایا تھا میں تو آنٹی رفعت کے منہ کے سامنے ہی ڈھیر ہو گیا تھا پھدی تو ابھی دور تھی آنٹی نے میری دبا کر نچوڑ کر پی اور میرے لن کو دبا کر مسلتی ہوئی چوسنے لگی میرا لن ہلکا سا سر جھکا گیا تھا آنٹی لن پچ کی آواز سے چھوڑ کر ہانپ کر بولی ہالنی میں مر جاواں کالو تیری منی کیڈی سوادی اے آج تک ایو جہیا سواد نہیں آیا منی دا پر تیری ٹائمنگ بڑی کم اے میں کانپتی از میں بوال سوہنیے ٹائمنگ تے بڑی اے پر تیرے اندر وی تے آگ بڑی اے آنٹی رفعت ہانپ کر میرے لن کو دونوں ہاتھوں سے مسلتی ہوئی بولی کالو ہنڑ میری آگ وی مٹھی ہو جاسی سہوں آلی گل اے کالو اے باہں جیڈا لن میرے سفھ تک کہ جاسی گیا اور آگے ہوکر میرے لن کا ٹوپہ چوم کر ہونٹوں میں پھر کر دبا کر چوسنے لگی میں سسسک کراہ گیا آنٹی نے میرے ٹوپے کی نوک کو ہونٹوں میں بھرا اور زبان سے چاٹ کر بولی کالو آگے وی کسے نوں اے لن جڑ تک منڈیا ہئی میں بوال سوہنیے اے آدھی تو اگاں کسے نہیں کیا نا میں کوشش کیتی آنٹی رفعت سسک کر کراہ گئی اور میرے لن کو مسل کر سسکار کر بولی ااافففف سسسسی کالووو تینوں میری سہوں اے اے آج سارا میرے سنگھ تک ٹپا دے میں تے آگ نال موئی پئی آں تیرے لن ہی میری آگ بجھانے اے یہ کہ کر آنٹی اوپر ہوئی اور بولی چل اندر چلیے میں نے آنٹی کو باہوں میں بھر کر اٹھا لیا آنٹی میرے اوپر چڑھ آئی اور میری کمر کو ٹانگوں سے دبوچ کر میری کمر کے گرد ٹانگیں کس کر دبا لیں میں آنٹی رفعت کو اٹھا کر اندر الیا میں فل ننگا تھا میں نے آنٹی کو بیڈ پر لٹا دیا آنٹی نے آپنی ٹانگیں ہوا میں اٹھا کر کھڑی کر لیں جس سے میں نے آنٹی رفعت کی شلوار کو ہاتھ ڈاال اور کھینچ کر اتار دی آنٹی نے آپنی ٹانگیں کھول کر اپنی پھدی میرے سامنے کھول دی آنٹی رفعت ہانپتی ہوئی مدہوشی سے مجھے دیکھ رہی تھی آنٹی رفعت کی موٹے ہونٹوں والی ہلکی سی براؤن پھدی کھل کر میرے سامنے آگئی آنٹی کی پھدی کا دہانہ ہلکا سا کھال تھا جبکہ آنٹی نے اوپر پھدی کے دانے کو چھدوا کر موٹا سا چھال ڈال رکھا تھا جس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی پتلی زنجیریں لٹک رہی تھی میں یہ دیکھ کر مچل سا گیا تھا آنٹی رفعت ہانپتی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی میں نے لن مسال اور اوپر بیڈ کے اوپر آکر آنٹی رفعت کی ٹانگیں دبا کر کندھوں سے لگا کر رفعت کے چڈے فل کھول دیے پھدی کھل کر میرے سامنے تھی میں پاؤں بھار اوپر ہوا تو آنٹی رفعت نے میرے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی کے دہانے پر ایڈجسٹ کیا تو میں نے ہلکا سا دھکا مار کر لن کا ٹوپہ آنٹی رفعت کی پھدی میں اتار دیا لن پچ کی آواز سے اندر اتر گیا آنٹی رفعت کی پھدی میں تو آگ لگی تھی میں تڑپ گیا آنٹی رفعت بھی ہانپ کر کانپ گئی میرا بازوجتنا لمبا لن آنٹی رفعت کے اندر جانے کو تیار تھا میں نے لن کھینچا اور گانڈ کو اٹھا کر جھسا مارا جس سے میرا لن آنٹی رفعت کی پھدی کو کھول کر کافی سارا اندر گھس گیا جس سے آنٹی رفعت تڑپ کر کراہ کر اچھلی اور کرال کر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی میں رک گیا آنٹی رفعت کی پھدی میں لن آدھے کم ہی گیا تھا آنٹی کا جسم کانپنے لگا اور آنٹی کراہنے لگی میں تو انتی کے اندر لگی آگ سے کراہ گیا اور لن کھینچ کر جھسا مارا جس سے میرا آدھا لن آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کی بچہ دانی کو کھول کر اوپر آنٹی رفعت کے ہاں میں گھس گیا جس سے آنٹی تڑپ کر اچھلی اور زوردار بکاٹ مار کر کر چیال کر دھاڑی اور میرے سینے پر ہاتھ کر مجھے روک کر بولی اوئے ہالیوئے اممممااااااں میں مر گئی اوئے ہالنی امممماااں میں آنٹی کے جسم کو پھڑکتا دیکھ کر رک سا گیا آنٹی میرے سینے کو دبا کر بولی اوئے ہالیوئے کالوووووو میں مر گئی میرا لن آنٹی رفعت کی پھدی اور بچہ دانی چیر کر آنٹی رفعت کے ہاں میں گھس چکا تھا آنٹی بوکھال کر بولی اوئے ہالیوئے کالو تیرے پیو دے لن تا ایتھو تک مینوں آگے ہی چیر کے کھولیا ہویا اے ایتھو تک تے میں برداشت کر گئی آں میں سمجھ گیا کہ ابے کا لن آنٹی رفعت ہاں تک لے چکی ہے اس لیے میرا لن آسانی سے اندر گھس گیا تھا آنٹی تڑپتی ہوئی پھڑک کر کرال رہی تھی میں ایک منٹ رہا اور لن کھینچ کر ہلکے ہلکے دھکے مار کر آنٹی کو چودنے لگا آنٹی کرال کر کراہتی ہوئی بولی اوئے ہالیوئے کالو ماردا پیا ایں وے ظالما آج میری آگ بجھا دے ساری جہڑا تیرا پیو وی نہیں بجھا آگیا آنٹی رفعت کی آگ میرے لن کو جال رہی تھی میں تڑپ کر کراہ رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میرا دل کر رہا تھا کہ سارا لن جڑ تک آنٹی رفعت کے اندر گھسا دوں یہ سوچ کر میں نے گانڈ اٹھا کر اپنا سارا زور جمع کیا اور لن کھینچ کر پوری طاقت سے جھسا مارا جس سے میرا لن آنٹی رفعت کے ہاں کو چیر کر درمیان والے حصے کو کھولتا ہوا آنٹی رفعت کے سینے میں آنٹی رفعت کی چھاتیوں تک اتر گیا جس سے میرے لن کی جرک نے آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر آنٹی رفعت کے سینے میں گھس آیا تھا میں نے زور ہی اتنا لگایا تھا کہ میرا لن اتنا ہی گھس سکا آگے میرا زور ٹوٹ گیا آنٹی رفعت کے سی ے تک پہلی بار لن اتر تھا جس سے آنٹی رفعت درد سے نڈھال ہوکر تڑپ کر اچھلی اور پوری شدت سے منہ کھول کر پورا زور لگا کر چیختی ہوئی میرے سینے کو پیچھے دبا کر اتنا زورا سے ارڑاتی ہوئی بکاٹ مارا کہ کمرہ ہل گیا آنٹی رفعت میرے لن کو اپنے سینے میں محسوس کرکے درد سے تڑپ کر دوہری ہوکر پھڑکتی ہوئی منہ کھول کر چیختی ہوئی ارڑا ارڑا کر حال حال کرتی ہوئی میرا سینہ پیچھے دبا کر مجھے خود سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی آنٹی رفعت کے سینے تک اترا میرا لن آنٹی رفعت کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا آنٹی رفعت مسلسل تڑپتی ہوئی ارڑا کر حال حال کرتی باااااااااااں باااااااااں باااااااااں کرتی مجھے اپنے اوپر سے دھکیلتی ہوئی پھڑک رہی تھی میں بھی پہلی بار پورا لن کسی عورت کی پھدی میں اتار رہا تھا جو آنٹی رفعت کے سینے میں کبھ چکا تھا میں بھی مزے سے مچل کر کراہ سا گیا اور کرال کر تڑپنے لگا تھا آنٹی رفعت کے سینے تک لن اتار کر عجیب سا سرور اندر اتر رہا تھا آنٹی تڑپ تڑپ کر بااااں باااااں بااااں کرتی حال حال کرتی ہوئی اپنا سر ادھر ادھر مار رہی تھی انٹی رفعت کے چہرے کا رنگ الل سرخ تھا اور آنٹی میرے نیچے پڑی لن سینے تک کے کر تڑپ رہی تھی آنٹی حال کرتی بولی اوئئئئے ہہہاااااللییووووئئئئے کاووووووو میں مر گئی آؤں اوئے ہالیوئے میرا سینہ چیردا پیاں ایں میرا لن ابھی آنٹی رفعت کی پھدی سے باہر تھا میں کراہ کر کانپتا ہوا اوپر ہوا مچل کر اپنا سارا زور جمع کرکے پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا سارا لن جڑ تک آنٹی رفعت کی پھدی کے پار کردیا میرا بازو جتنا لن پورا جڑ تک اتر گیا جرک لگتے ہی میرا بازوجتنا لن آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر جڑ تک اتر کر آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر آنٹی رفعت کے گلے میں اتر گیا جس سے آنٹی رفعت کی ایک چیخ نکلی اور میرے لن نے آنٹی رفعت کی آواز دبا لی آنٹی رفعت پھڑکتی ہوئی دوہری ہوکر سمٹ سی گئی اور زور زور سے چیخنے کی کوشش کرتی میرے سینے کو دبا کر مجھے خود سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی جس سے آنٹی رفعت کی سینے سے نکلتی آواز آنٹی رفعت کے گلے میں اترے لن پر دب کر غوں غوں میں بدل رہی تھی درد سے آنٹی رفعت کا چہرہ الل سرخ ہو کر تڑپ رہا تھا میں کراہ کر مچل گیا آج پہلی بار اپنا پورا لن جڑ تک کسی عورت کے اندر اتارا تھا جو آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کے سینے کو کھول کر دوسری طرف سے گلے تک گھس چکا تھا آنٹی پھڑکتی ہوئی میرے سینے کو دبا کر خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی پر میں کہاں چھوڑنے واال تھا میں نے لن کھینچا اور آنٹی کے اوپر آکر آنٹی کو دبوچ کر آنٹی کے کاندھوں میں ہاتھ ڈال کر دبا کر پن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا پوری شدت سے لن آنٹی رفعت کی پھدی میں اتارنے لگا میرا لن آدھی تک نکل کر پوری شدت واپس آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر آنٹی رفعت کے گلے تک اترنے لگا جس سے آنٹی رفعت تڑپ کر اچھلی اور بکا کر ہینگتی ہوئی باااااں باااااااں بااااااں کرتی میرے نیچے پھڑک ے لگی میں آہیں بھرتا مزے سے پوری شدت سے آنٹی رفعت کی پھدی میں لن آدھی تک نکال کر تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا آنٹی کے اندر لگی آگ میری جان نکال رہی تھی میں تڑپ کر پوری شدت سے کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر لن گلے تک اتار رہا تھا میرا لن تیزی سے آنٹی رفعت کی پھدی کو چیر کر آنٹی رفعت کا سینہ چیر کر گلے تک اتر کر اندر باہر ہورہا تھا آنٹی رفعت کے گلے میں اندر باہر ہوتا میرا لن صاف نظر آرہا تھا آنٹی رفعت بکا کر تڑپتی ہوئی پھڑک ے لگی تھی میرا لن آنٹی رفعت کو چیر کر پھدی سے اتر کر سینہ چیر کر گلے تک راستہ بنا چکا تھا آنٹی کا جسم پھڑک رہا تھا اور آنٹی پورا زور لگا کر پھڑہکتی ہوئی بااااااں بااااااں باااااااں کرتی چیخ رہی تھی میرے لن میں آواز دب کر گلے میں دب رہی تھی تین سے چار منٹ کے دھکوں سے میری ہمت ٹوٹ گئی اور میں لن کھینچ کر جر مار کر لن آنٹی رفعت کی پھدی میں جڑ تک اتار آنٹی رفعت کے گلے تک آگیا تھا جس سے میں تڑپ کر کرال کر ایک لمبی کی دھار مار کر اتنی رفعت کے گلے میں فارغ ہونے لگا میرا لن آنٹی رفعت کی پھدی نے دبوچ رکھا تھا آنٹی کے گلی میں لن فارغ ہونے سے آنٹی کا منہ منہ سے بھر گیا اور آنٹی کی باچھوں سے منی بہنے لگی آنٹی رفعت ہینگتی ہوئی میرے نیچے پڑی پھڑک رہی تھی آنٹی زور لگا کر سانس کھینچ کھینچ کر پورے زور سے بھاااااں بھاااااااں بھاااااااااں کرتی پھڑکنے لگی تھی آنٹی رفعت اصلی میں بکا رہی تھی جو کہ میرے لن پر آوازیں دب کر بھااااں بھاااااں میں بدل رہی تھی آنٹی کا جسم پھڑک رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ آنٹی کی آواز نکل رہی ہوں آنٹی رفعت کی آواز گلے میں دب رہی تھی میں نڈھال ہوکر آنٹی کے سینے میں پڑا تھا آنٹی کا دل پھڑک کر باہر آرہیا تھا میں آنٹی کے ممے مسل کر چوس رہا تھا آج جو مزہ آنٹی رفعت کی پھدی میں جڑ تک لن اتارنے کا مال تھا کہیں نہیں مال تھا میں کرال کر کراہ کر ممے چوس رہا تھا آنٹی آنکھیں بند کیے منہ کھول کر پڑی پھڑکتی ہوئی ہینگ رہی تھی آنٹی رفعت کا سر ابھی تک پھڑک رہا تھا میں تڑپتا ہوا کراہ رہا تھا آنٹی کی آگ نے میری ساری آگ ٹھنڈی کر دی تھی میں اوپر ہوا تو آنٹی بے سدھ پڑی پھڑک رہی تھی آنٹی کا سینہ اوپر کو اٹھا تھا آنٹی نے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور کانپتے سر کے ساتھ پھڑکتی ہوئی بکانے لگی آنٹی کا پورا جسم تڑپ رہا تھا میں نے پیچھے ہو کر لن آنٹی رفعت کی کی پھدی سے کھینچ لیا جس سے آنٹی رفعت کے گلے میں اترا لن پچ کی آواز سے گلے سے نکل کر آنٹی رفعت کے سینے سے پیچھے ہٹتا ہوا باہر نکلنے لگا جس سے آنٹی رفعت بکا کر ہینگ گئی آر تڑپتی ہوئی اپنا منہ کھول کر ارڑا کر ہینگنے لگی میں نے اپنا بازو جتنا لن کھینچ کر رفعت کے اندر سے نکال لیا رفعت تڑپتی ہوئی بکا کر پھڑکتی ہوئی دوہری ہوکر اکھٹی ہونے لگی میرے لن نے رفعت کو پھدی سے گلے تک اتر کر چیر کر رکھ دیا تھا جو رفعت کی برداشت سے باہر تھا رفعت گھٹنے سینے سے جوڑ کر بکاتی ہوئی اکھٹی ہو کر اپنا سینہ اور کمر دبا کر چیال رہی تھی میں بھی آگے ہوکر رفعت کو دبانے لگا کچھ دیر تک رفعت چیال کر بکاتی رہی اور پھر تڑپتی ہوئی سنبھلنے لگی کچھ دیر بعد رفعت سنبھل تو گئی پر اس کا جسم پھڑک رہا تھا میں نے اس کی کمر کو مسل اور اس کے قریب ہوکر بوال سوری میری جان تیرے نال ڈھیر ہی کم کر دتا دفعت نے سر ہالیا پر وہ بوال نا کچھ سکی میرے لن نے پھدی سے گلے تک اسے چیر کر رکھ دیا تھا میں بھی ٹھنڈا پڑ چکا تھا رفعت کانپتی ہوئی ڈاکار رہی تھی میں اٹھا اور واشروم چال گیا میں نہا کر نکال اور اندر گیا تو رفعت ایسے ہی دوہری ہوکر پڑی تھی میں اس کے اوپر جھکا اور بوال جناب رہے ہوکے نہیں رفعت کراہتی ہوئی بولی افف کالو آج تے مار دتا ہئی میں تے موئی پئی آں میں بوال چس آئی تے نہیں رفعت بولی حرامدیا تیرا لن میرا چیر کے میرے سفھ تک لگھ گیا سواد کدو آنا ہا آج تے مار دتا ہئی میں ہنس دیا اور بوال آرام کر میں کیچن میں آکر کھانا کھایا اور اور اندر چال گیا تو رفعت ایسے ہی پڑی کانپتی ہوئی کراہ رہی تھی رفعت کی ٹانگیں سینے سے لگی تھیں اور وہ اپنا سینہ دبا رہی تھی رفعت کو پھر سے درد ہونے لگا تھا رفعت کی درد بھری آہیں سن کر میں نے اسے سنبھاال تو رفعت بولی کالو بڑا ظلم کیتا ہئی انج پیالگدا اے جیوں سینہ چیر دتا ہے تیرے لن رفعت کا چہرہ اترا ہوا تھا آنکھیں باہر آچکی تھی ظاہر بات ہے یہ سب تو ہونا تھا بازو جتنا لن پھدی سے لے کر گلے تک برداشت کرنا کوئی آسان تو نہیں تھا رفعت میرا لن کے کر ٹوٹی پڑی تھی میں اس کی کمر دبا رہا تھا وہ آہیں بھرتی بولی کالو اے تیرے وس دا روگ نہیں جا نذیراں نوں آکھ مینوں سنبھالے میں گھبرا سا گیا کہ اسے کیا کہوں گا وہ میری گھبراہٹ دیکھ کر بولی مینوں کجھ نہیں ہوندا نذیراں نوں وی نہیں دسدی نا پریشان جا جلدی اس نوں گھل میں نکال نذیراں کا گھر پاس ہی تھا میں وہاں گیا دروازہ کھٹکایا تو اندر سے نذیراں نکلی مجھے دیکھ کر چہک کر بولی آؤ جی جناب آج ساڈے گھر کیویں انڑ دا دل کیتا میں اسوقت تھوڑا گھبرایا ہوا تھا وہ میرے حواس دیکھ کر بولی خیر تے ہے کی ہویا میں بوال کجھ نہیں تینوں آنٹی رفعت سددی پئی او آکھ رہی جلدی آ نذیراں میرے چہرے کو غور کر سب سمجھ گئی تھی ظاہر بات ہے پہلے بھی ان کی باتیں ساکھ ہوتی تھی دونوں بہنیں ہی رنڈیاں تھیں وہ اپنے ہاتھ اپنے تن کر کھڑے مموں کے نیچے باندھ کر ہلکے سے ممے اٹھا کر بولی سچی سچی دس کی کیتا ہئی میری بھین نال میں اس بات پر گھبرا سا گیا اور گھبرا کر اسے دیکھا رفعت کی حالت بڑی خراب تھی میرا دل کیا اسے بتا دوں تاکہ وہ جلدی سے اسے سنبھال لے پر مجھ میں ہمت نا ہوئی وہ بولی دس وی آپ آیا ہیں کجھ کرکے یا اس گھلیا ہئی۔ میں گھونٹ بھر کے بوال میں کجھ نہیں کیتا اس بات پر وہ ہنس دی اور بولی اسدا مطلب کجھ کیتا ہئی میں پھنس گیا تھا میں جلدی سے بوال نذیراں اے گالں بعد اچ کریں پہلے جا کے رفعت نوں سنبھال اس پر وہ بھی چونک گئی اور پھر ہنس کر بولی مینوں پتا ہا توں وی رحموں دا پتر ہیں پیو آر تیرا وی ہوں نہیں رہیا ہونا رفعت نوں ویکھ کے اور ہنس کر باہر نکلی اور بغیر دوپٹے کے ہی اپنے گھر کو کنڈی لگا کر باہر نکل آئی دو گر چھوڑ کے ہی اس کا گھر تھا رفعت کے گھر پہنچ کر وہ اندر چلی گئی میں دروازے میں کھڑا ہوکر بوال میں ڈیرے تے جاؤ ہاں توں سنبھال لیسیں وہ مڑ کر مجھے دیکھ کر ہنس کر بولی کالو آگے تیرا پیو وی ساڈا دوواں بھیناں دا حشر نشر کرکے سانوں چھوڑ کے وگ جاندا ہا توں وی جانا تے وگ جا اسی ہک دوجے نوں سنبھال لیندیاں ہاں میں بوال او ابے آلی گل ہور ہا پر ہنڑ کجھ ہور ہے وہ ہنس دی اور بولی وے ایو کجھ ہی گل ہونی توں جوان تے ترکڑا ہیں تیری طاقت باجی نوں زیادہ تو زیادہ بے ہوش کر دتا ہوان میں سنبھال لیساں توں جا میں یہ سن کر مطمئن ہوگیا اور نکل کر ڈیرے پر آگیا میں کام کرنے لگا پر میرا دل ڈرا ہوا بھی تھا کہ رفعت کو کچھ ہو نا جائے اگر اسے کچھ ہوگیا تو ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کاور بہزاد تو میرا حشر نشر کرد یں گے کہ میں نے ان کی ماں کی پھدی میں بازو جتنا پورا لن اتار دیا میں گھبرا رہا تھا کہ پتا نہیں کیا ہوگا اسی کشمکش میں شام ہو گئی کوئی خبر نا ملی میں دودھ دوہ کر گھر ڈرتے ڈرتے پہنچا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد دروازہ کھال تو سامنے صدف کھڑی تھی وہ بھی دوپٹے کے بغیر تھی میں نے اس کے جسم کا جائزہ لیا تو اس نے بھی کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا اس کے جسم کا انگ انگ واضح ہو رہا تھا ہلکے سے تنے ہوئے موٹے ممے پتلی کمر چوڑی گانڈ صدف بھی بھرپور جوان تھی صدف نے اپنی گت آگے مموں پر ڈال رکھی تھی اس کے ہاتھ میں کتاب تھی اس نے مجھے غورا اور پھر دروازہ کھال چھوڑ کر چھت کی طرف چلی گئی میں اندر داخل ہوا اسوقت گھر میں بچے پڑھنے آتے تھے جن کو چاروں بہنیں چھت پر پڑھاتی تھیں میں اندر داخل ہوا اور کیچن کی طرف چل دیا میں کیچن میں داخل ہوا تو سامنے رفعت کیچن میں کھڑی کام کر رہی تھی ایک ہاتھ اس نے کمر پر رکھا ہوا تھا اور دوسرے سے برتن رکھ رہی تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیاا ور میری سان میں سانس آئی اس نے گھوم کر مجھے دیکھا اور سامنے مجھے کھڑا دیکھ کر مسکرا دی اور میری طرف مڑ کر بولی آؤ جی میرے سرتاج صاحب آگئے اور چلتی ہوئی میری طرف بڑی اور میرے قریب ہوکر میرے ساتھ لگ کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر دبا کر میرے کاندھوں کو پکڑ کر دبا کر میرے قریب ہوکر اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے لگا کر چوم کر میرا ماتھا چوم کر مجھے اپنی باہوں میں بھر کر بولی کالو توں آج تو کالو نہیں میرا سائیں ہیں میں آج تو تیری رکھیل آں توں میرے نال جو مرضی کر میں تیری خادم توں میرا مالک میرے سر دا سائیں رفعت کا جسم ہلکا ہلکا سا کانپ رہا تھا میں اس کی گال کو چوم کر بوال رفعت میں تے آپ تیرا دیوانہ ہوگیا آں توں اے دس ہنڑ ٹھیک تے ہیں نا رفعت ہنس کر مجھے سینے سے لگا کر بولی میں تے ٹھیک ہاں مینوں کی ہونا میں بوال اچھا جی ویسے رفعت تیری آگ تے آج مینوں ہال کے رکھ دتا رفعت بولی وے آج تیرے لن وی مینوں چیر کے رکھ دتا سارا دن ہوش ہی نہیں آیا اے ہنڑ سنبھلی آں کجھ تے اٹھی ودی آں ویسے تیرے لن میری آگ سہی بجھائی اے میں تے تیری رکھیل بن کے رہساں میں بوال ہال ہنڑ اگاں لن پورا منڈا کے آدھا رفعت ہنس دی اور بولی ویسے تینوں ہک گل دساں تیرا لن ہلے وی نکا اے میں رفعت کی اس بات پر چونک گیا میں بوال اے لن لئے کے توں سارا دن پھڑکدی رہی ہیں تے ہلے اے نکال رفعت ہنس دی اور بولی وے نکا ہی ہے میں بوال کیوں وہ بولی تیرا باہں جیڈا لن میرا سینہ چیر کے سگھ تک تے آگیا ہا جے اگر تھوڑا ہور وڈا ہونا تے میرے سفھ اچو پار ہوکے میرے منہ آلو نکل آندا تے سواد اجاندا میں رفعت کی بات پر ہنس کر بوال واہ رنڈیے تیرے شوق رفعت ہنس دی اور بولی تے ہور کی ہنڑ میں لن گلے تک تے لئے لیا اے اگال ٹارگٹ لن پھدی آلو لئے کے منہ آلو کڈھوانا اے۔۔ میں بوال وت کوئی بندہ لبھدا جس دا میرے نالوں وی وڈا ہووے وہ ہنس دی اور بولی لبھنے دی لوڑ ہے میں اے ہی وڈا کرساں گئی میں بوال اور کنج وہ بولی مینوں پتا اے میرا ہک حکیم جانو ہے میں ہنس کر اسے سینے سے لگا کر چومنے لگا رفعت بھی مجھے باہوں میں بھر کر چومنے لگی میں بوال رفعت کے تیرے پتراں ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کتے بہزاد نوں پتا لگ گیا کہ توں میرے نال سیٹ ایں تے وت رفعت ہنس دی اور بولی ہنڑ تک تیرے پیو کولو پھدی مروائی اے تے اوہناں نوں پتا نہیں لگا تیرا وی نہیں لگدا۔ ویسے و اکثر غائب ہی رہندے ہین ناں فکر کر توں بس میری آگ ٹھنڈی کر اور مجھے چومنے لگی میں سسک کر اسے چوم رہا تھا اتنے میں چھت سے بچوں کو چھٹی ہوگئی ہم الگ ہو گئے میں باہر نکل کر بیٹھ میں آگیا اتنے میں بہزاد اور ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کدونوں آگئے میں بڑا مایوس ہوا میرا دل تھا رفعت کو ڈیرے پر لے جا کر ساری رات لن اسکی پھدی میں پیلنے کا پر سارا پالن چوپٹ ہوگیا میں کھانا کھا کر وہاں سے نکال اور ڈیرے پر آکر سو گیا
میں صبح اٹھا دودھ
دوہ کر رکھا تو بہزاد آگیا بہزاد دودھ کے کر چال گیا میں مایوس سا ہو گیا میں سوچ رہا تھا کہ میں دودھ دینے جاؤں گا تو آنٹی رفعت سے مل بھی لوں گا میرا رات کا پروگرام بھی ٹھپ ہو گیا تھا بہزاد کی وجہ سے میں چپ کرکے کام کرنے لگا دل ہی دل میں بہزاد پر غصہ بھی تھا اس کے ہوتے ہوئے اس کی ماں بہنوں سے ملنا مشکل تھا میں انہیں سوچوں میں گم تھا کہ گھنٹے ڈیڑھ بعد گیٹ کھال اور بہزاد اور اس کی بہن نصرت اندر آگئیں میں نصرت کو دیکھ کر چونک گیا ڈیرہ گاؤں سے تھوڑا باہر تھا اس لیے بائیک پر ہی وہ لوگ آتے تھے نصرت نے چادر میں خود کو ڈھانپ رکھا تھا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی وہ پرانے سے کام کرنے والے کپڑوں میں تھی نصرت کے ہاتھ میں کھانا بھی تھا بہزاد قریب آیا اور مجھے کھانا پکڑا کر بوال کالو کھانا کھا لئے میں ہاتھ دو کر کھانا کھانے لگا بہزاد پاس ہی بیٹھ گیا نصرت دور ڈنگروں کو دیکھ رہی تھی وہ ڈنگروں میں بے جھجھک پھر کر چیک کر رہی تھی میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا ورنہ لڑکیاں تو دور سے ڈنگر دیکھ لے تو ڈر کے مارے بھاگ جاتی تھیں بہزاد مجھے حیرانی سے نصرت کو دیکھتا پا کر بوال کالو کی ویکھ رہیا آہیں میناس بات چونک کر ڈر سا گیا بہزاد ہنس دیا اور بوال کالو انج پچھیا اے مینوں پتا ہے تیرا امی تیرے بارے سارا کجھ دس دتا اے تیرے ابے نال امی اوراں دی بھائی بہن دا رشتہ ہے اے تے چنگا ہویا کہ توں اپنا بندہ نکلیا ایں تیرے ابے تے میرے ابے دا بڑا اچھا وقت نبھیا اے دونوں بھائی بنے ہوئے ہانڑ تے ہنڑ توں وی اے اپنا گھر سمجھنا اے کسی قسم دی کوئی پریشانی نہیں لینی میں بہزاد کی بات کر بوال جی ٹھیک اے میں دل میں ہنس گیا کہ آنٹی اور ابا جس طرح کے بہن بھائی تھے مجھے پتا ہے بہزاد بوال کالو آگے ہنڑ تک اساں بندہ کوئی نہیں رکھیا ڈیرے دا سارا کم امی تے نصرت تے میں مل کے سنبھالیا ہویا ہا امی تے نصرت باڑے دا کم کر لیندیاں ہانڑ تے میں زمین دا کردا ہاس نصرت کافی عرصے تو ڈنگراں اچ رہ رہی اے اس توں اس دا ڈر لتھا ہویا اے میں مسکرا کر بوال میں وی اے ہی ویکھ رہیا ہاس کہ باجی بے جھجھک پھر رہی ہے نہیں تے اہناں دی تے جان جاندی اے بہزاد بھی ہنس دیا اور بوال نکے ہوندیاں تو نصرت امی نال مل کے ڈنگراں دے کم کر رہی اے اے سارے کم کر لیندی اے میں ہنس دیا اور ایک نظر نصرت کو دیکھا تو نصرت بالکل دہیاتی لڑکیوں کی طرح سادہ سی لڑکی تھی کوئی خاص فیشن نہیں کرتی تھی نصرت کا رنگ قدرتی ہی گورا تھا میں کھانا کھا کر برتن رکھے تو بہزاد بوال کالو نصرت کم کرن ہلی ہوئی اے جدو دا توں کم سنبھالیا اے اے ویلی ہو گئی اے تے تینوں پتا کم کرن آال بندہ وہال ہو جاوے تے بعد ہوجاندا اس تو اگر تینوں اعتراض ناں ہووے تے اے ڈیرے تے آ کے کجھ کم شم کر سگدی اے میں مسکرا کر بوال مینوں کی اعتراض ہونا ڈیرہ تھواڈا اپنا اے میں تے مالزم ہاں بہزاد ہنس کر بوال نہیں کالو توں مالزم نہیں توں اس نوں اپنا ڈیرہ ہی سمجھ تیرے ساڈے وچ نوکر مالک آلی گل نہیں ہونی چاہیدی امی سختی نال مینوں آکھیا اے کہ توں اسدے بھرا دا پتر ہیں سکا نا سہی پر وقت چنگا گزریا ہویا اے اوہناں دا توں مصلی ہیں تے کی ہویا بندے دا حیا ہوندا اے تے تیرے آلوں کوئی شکائیت نا ملے میں اس توں پچھ رہیا کہ توں اے ناں سمجھیں کہ باجی اس تیرے دھیان واسطے ڈیرے تے آندی کہ توں کوئی نقصان نا کریں میں اس بات پر ہنس دیا اور بوال بھائی ابے وی مینوں اے ہی گل کیتی ہا کہ اے گھر انج ہی سمجھ جیویں تیرا اپنا اے تے کوئی شکائیت نا ملے اس واسطے تسی بے فکر ہوجاؤ شکائیت ناں ملسی باقی باجی نصرت دا جیویں دل کرے او کرے تے کم دی فکر نا کرو میں اس تو کم نہیں کرویندا بہزاد ہنس دیا اور بوال نہیں کالو کم دی اس نوں فکر نہیں او آگے وی کردی آئی اے اتنے میں نصرت بھی ہماری طرف آگئی اور بہزاد کی بات سن کر بولی بھائی اس نوں دس میں ایتھے باڑے دا کم کر کر کے ہی وڈی ہوئی ہاں بہزاد بوال میں اوہ ہی دس رہیا آں نصرت قریب آگئی اور بہزاد کے پیچھے کھڑی ہوکر مجھے گہری آنکھیں بھر کر دیکھا اور مسکرا کر بولی کالو میں وی ایتھے ہی ہوناں اے تینوں کوئی پریشانی تے نا ہوسی میرے ایتھے ہونڑ نال میں بوال نہیں باجی تھواڈا اپنا ڈیرہ اے تسی جیویں مرضی آؤ جاؤ نصرت کی گہری آنکھیں مجھے ہی غور رہی تھیں میں نصرت کو دیکھ کر نصرت کی گہری آنکھوں کی تاب نہیں ال پا رہا تھا نصرت کے چہرے کا گورا رنگ جسم ہلکا سا بھرا ہوا نصرت کی گالیں ہلکے سے ماس سے بھری ہوئی بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھیں نصرت مستی سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں نے اسے اپنے اپنے میں دیکھ کر نیچے دیکھا تو بہزاد موبائل میں گم تھا میں نے نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو وہ مسکرا دی میں بھی مسکراتا مسکراتا رک گیا اور بہزاد کو دیکھا جو وہیں موبائل میں گم تھا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا میں کھانا کھا چکا تھا بہزاد بوال کالو کھانا کھا لیا ہے میں بوال جی بھائی نصرت جو مجھے ہی دیکھ رہی تھی بولی کالو وت انج کر توں پٹھے وڈھ لیا میں باڑے دے باقی کم ویکھ لیندی آں میں بوال اچھا میں ریڑھی لے کر نکال اور پٹھے لینے آگیا کچھ دیر میں نے پٹھے وڈھ کر ریڑھی پر الدے اور ڈیرے پر آگیا میں نے دیکھا تو بہزاد اور ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کدونوں کے بیٹھک پر مہمان آئے ہوئے تھے میں نے دیکھا تو نصرت دوپٹہ اتار کر پھوڑا مار کر ڈنگروں کے نیچے سے گوبر صاف کر رہی تھی میں نے نصرت کو پہلی بار دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا میں تو دیکھتا ہی رہ گیا نصرت کا جسم تو قیامت خیز تھا نصرت ہلکے سے کسے ہوئے لباس میں تھی جس سے نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں کھڑے ممے قیامت لگ رہے تھے میں تو نصرت کا ایسا سیکسی جسم دیکھ کر چونک گیا میری نظر نصرت کے جسم پر ہی گھوم رہی تھی نصرت کا قمیض تو تھوڑا کھال تھا پر اس کے ممے اتنے تھڑے اور موٹے تھے کہ نصرت کو سینے پر قمیض پھنس کر آیا ہوا تھا جس سے نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے ممے صاف واضع ہو رہے تھے نصرت کق گال کافی کھال تھا جس سے نصرت کا گورا سینہ صاف جھانک رہا تھا جبکہ کام کے دوران اوپر نیچے ہونے سے نصرت کی برا کی بلیک پٹیاں بھی قمیض سے باہر نکل کر جھانک رہی تھی وہاں تو پورا سیکسی ماحول بنا ہوا تھا نصرت کے جھکنے سے نصرت کے کھلے گلے میں سے مموں کی لکیر بھی ہلکی سی نظر آ رہی تھی میں نے اوپر نظر نصرت کے چہرے پر ڈالی تو نصرت گہری مدہوش آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا سی گئی میں تھوڑا شرما سا گیا میرے ذہن میں بہزاد کی بات تھی میں نے نظر چرا لی میں چارے والے کمرے کے سامنے ریڑھی روک دی اور پٹھے اتارنے لگا اتنے میں نصرت بھی وہیں آگئی اور وہ بھی پٹھے اتارنے لگی نصرت کو اپنے شانی بشانہ کام کرتا دیکھ کر میں حیران تو ہوا لیکن میں نے سوچا کہ اچھا نہیں ہے میں نصرت کو بازو میں پٹھے بھر کر اٹھاتا دیکھا تو نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے دبا کر واضح ہو گئے اتنے صحت مند موٹے ممے دیکھ کر میرے تو منہ میں پانی بھر آیا تھا میں گھونٹ بھر نصرت کو دیکھا اور بوال باجی تسی رہن دیو میں کر لیندا آں نصرت ہنس دی اور بولی کجھ نہیں ہوندا وے میں آگے وی کردی رہیندی آں نا فکر کر میں بوال باجی میرے رکھنے دا فایدہ وت نصرت مسکرا دی اور بولی وے تینوں اس واسطے تے نہیں رکھیا کہ سارا کم ہی تیرے تو کروائیے میں بوال باجی مالزم تے اس کم کانڑ ہی ہوندا نصرت ہنس دی اور بولی وے بس کر توں مالزم نہوں ساڈے واسطے توں اپنا ہی ہیں اور مسکرا کر بولی ہنڑ اگاں سارے کم اسی تک کے ہی کرساں گئے میں بوال باجی بہزاد ویکھ لیا تے کی آکھسی نصرت ہنس دی اور بولی اس نوں پتا اے میں آگے وی اے کم کردی رہندی آں میں چپ ہوگیا اور پٹھے اتارنے لگا نصرت میرے ساتھ پٹھے اتار رہی تھی نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا بھی رہی تھی وہ میرے بالکل قریب آنا چاہ رہی تھی پر میں جھجھک رہا تھا اسی وجہ اس کے بھائی بہزاد اور ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کوہیں موجود تھے نصرت اور میں بس ایک دوسرے کو دیکھ ہی رہے تھے ہم دونوں میں سے اس پر بات کوئی بھی نہیں کر رہا تھا نصرت بھی بات کرنے سے جھجھک رہی تھی ہم نے پٹھے اتارے اور میں کھوتے سے ریڑھی کھولنے لگا کھوتے کا منہ نصرت کی طرف تھا اور سامنے نصرت کھڑی تھی کھوتا نصرت کو دیکھ کر زور سے ہینگنے لگا میں نے کھوتے کو ہینگتے دیکھا تو کھوتا فل ہوشیار ہوکر اپنا بازو کے ا لن نکال کر جھٹکے مارتا نصرت کی طرف دیکھ رہا تھا میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت مستی سے کھوتے کے لن کو دیکھ کر گھونٹ بھرتی دیکھ رہی تھی میں نصرت کو کھوتے کے لن کو دیکھ کر حیران سا ہو گیا نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا نصرت اور میری آنکھیں ٹکرائی تو نصرت کی آنکھوں ہلکی سی اللی اتری ہوئی تھی نصرت ے مجھے دیکھا اور گہری نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر ہنس دی اور گھونٹ بھر کر کھوتے کے لن کو دیکھ کر مسکرا کر مجھے دیکھنے لگی میں نصرت کی بے قراری کھوتے کو نصرت کی طرف دیکھ کر ہوشیاری پکڑتا دیکھ کر میرے ذہن میں آوارہ سا خیال آیا کہ کہیں نصرت اور کھوتے کا چکر تو نہیں یہ سوچ کر میرے لوں کھڑے ہو گئے میں نے بے اختیار نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو وہ کھوتے کے لن کو ہی دیکھ رہی تھی کھوتے کی بے قراری میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور ہنس کر گھوم گئی کھوتا نصرت کو دیکھ کر مسلسل ہینگ ہی رہا تھا عموما کھوتا دو سے تین منٹ تک ہوشیار رہتا پھر نارممل ہو جاتا تھا پر یہ کھوتا تو نصرت کو دیکھ کر مسلسل بڑھنے لگا تھا اور لن کے جھٹکے لگانے لگا میں نے نصرت کو دیکھا تو نصرت مجھ سے نظر مال کر شرارتی انداز میں مسکرائی اور اپنی بھنویں اٹھا کر پوچھا کہ کیا ہے میں نصرت کے اشارے کو کوئی جواب نا دے سکا میرے چہرے پر بھی ایک اللی سی اتر آئی تھی نصرت مجھے دیکھتی ہوئی ہٹ گئی اور کھجوروں کی نظروں سے اوجھل ہوکر جانوروں میں چلی گئی نصرت کے جانے کے ایک منٹ بعد کھوتا بھی نارمل ہو گیا میں یہ دیکھ کر چونک گیا اور سوچا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے میرے ذہن میں عجیب سے سوال اٹھ رہے تھے لیکن کوئی جواب نہیں مل رہا تھا میں سوچ رہا تھا کہ نصرت تو اچھی بجلی سنبھلی ہوئی لڑکی لگتی ہے یہ کچھ بات پلے نہیں پڑ رہی تھی میں سارا دن یہ ہی سوچ رہا تھا اور گدھا باندھ کر میں اندر چال گیا میں کررہے کرنے لگا اب نصرت نہیں آئی تھی شاید اسے بھی اب میرا سامنا نہیں ہو رہا تھا میں ایسے ہی خود سے ہی سوال بنا کے خود ہی جواب گھڑ رہا تھا میں چارہ کتر کر نکال تو بہزاد اندر آیا اور بوال کالو میں کم جا رہیا آں وت خیال رکھیں میں بوال ٹھیک اے بہزاد چال گیا نصرت بولی کالو ڈنگراں نوں پٹھے پا میں بوال جی اچھا اور کترہ چادر پر جوڑنے لگا اتنے میں نصرت بھی اندر آگئی میں نے اسے دیکھا تو وہ مسکرا دی میری نظر اس کے اٹھے مموں پر گئی وہ مسکرا دی اور نیچے جھک کر چادر کی نہریں پکڑ لیں نصرت کے جھکنے سے نصرت کے موٹے ممے لٹک گئے اور نصرت کی گہری مموں کی لکیر اندر تک واضع ہوگئی میں اسے دیکھ کر مچل گیا اور نظر بھر کر نصرت کے سینے کو دیکھ کر گھونٹ بھرا نصرت نے اوپر مجھے دیکھا تو میں اسکے مموں کو دیکھ رہا تھا نصرت کے دیکھنے پر میں نے نظر چرا کر اس کے چہرے پر ڈالی تو نصرت مسکرا دی اور نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی کالو پہلے کررہے گھر لئے وت ویکھ لئیں یہ سن کر میں شرم سے پانی پانی ہوگیا ندامت سے میرا رنگ اڑ گیا میں نے نیچے جھک کر چادر اٹھائی اور اپنی نظر نہ ی کرکے چادر اٹھائی نصرت نے مجھے کردہ اٹھوایا اور میں کترہ ڈالنے چال گیا نصرت کی بات میرے ذہن میں گونج رہی تھی میں ندامت سے شرمندہ سا ہو گیا لیکن مجھے یاد نہیں تھا کہ لفٹ تو نصرت خود بھی کروا رہی تھی میں کترہ ڈاال اور واپس اندر آیا تو نصرت کترہ جوڑ رہی تھی نصرت کے جھکنے سے نصرت کی موٹی پھیلی ہوئی گانڈ باہر کو نکل ہوئی تھی نصرت کی لمبی پراندے والی گت سیدھی نصرت کی گانڈ کی لکیر کے درمیان اس طرح پڑی تھی جیسے نصرت نے خود رکھی ہو میں ایک لمحے کےلئے نصرت کی موٹی گانڈ میں کھو سا گیا گانڈ پر پڑی گت بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی میں نصرت کی گانڈ دیکھ رہا تھا کہ نصرت جھکی ہوئے میرے آنے کا پتا لگ گیا پر وہ جھکی رہی میں نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی اور نظر ہٹا لی نصرت پیچھے ہوئی اور مجھے دیکھا میری نظر اب نیچے ہی تھی ہم نے چارہ ڈاال۔ پھر پانی پالیا اب کوئی اور کام نہیں تھا میں کام کرنے لگا کچھ اور کام کرکے میں فری ہو گیا میں کچھ دیر وہیں صحن میں آرام کرنے لگا میں سمجھا کہ نصرت چلی گئی ہو گی اس لیے میں نے قمیض اتارا جو پسینے سے بھرا ہوا تھا میں قمیض اتار کر لیٹ گیا نصرت بیٹھک میں گئی تھی میں لیٹا تھا کہ نصرت واپس آگئی میں نصرت کو دیکھ کر بیٹھ گیا نصرت میرے ننگے بدن کو دیکھ کر مسکرا گئی میں تھوڑا جھجھک سا گیا نصرت پاس آئی مسکرا کر مجھے دیکھ کر پاس ہی بیٹھ گئی میں بھی اٹھ کر بیٹھا تھا نصرت بولی کالو کیوں شرما رہیا ایں میں بوال کوئی نہیں بس ایویں ہی نصرت ایویں کیوں میں شرما گیا نصرت نے نظر اٹھا کر میرے بدن پر گھمائی اور بولی وے ہک گل تے دس میں بوال جی وہ بولی وے تیری شادی ہوئی نہیں ہوئی ہوئی میں چونک گیا وہ مجھے چونکا دیکھ کر ہنس دی اور بولی نا شرما دس تے سہی میں بوال ہلے کوئی نہیں ہوئی نصرت ہنس دی اور بولی کیوں میں بوال بس مصروف ہی رہا نصرت بولی مصروف رہیا یا کسے تے دل نہیں آیا میں بوال بس انج ہی سمجھو نصرت ہنس دی اور میرے جسم کو دیکھ کر بولی وت گزارہ کنج ہوندا ہئی میں نصرت کی اس بات پر چونک گیا اور نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا نصرت مسکرا دی میں بوال بس ہو جاندا اے نصرت ہنس دی اور بولی ویسے اگر توں چاہویں تے میری نظر اب ہک دو رشتے ہینڑ تو آکھ تے میں گل کراں میں بوال جی نصرت مسکرا دی اور بولی کالو ہنڑ توں اپنے گھر دا بندہ ایں تیرا اچھا بھال ساڈے ذمے ہے توں دس موڈ ہے تے گل کروں میں بوال اے تے ابے نوں پتا اے نصرت ہنس دی اور بولی مینوں گل تے کرن دے توں دس تیرا دل ہے تے میں تینوں وکھا دیندی آں اس دیاں تصویراں میں بوال وکھا دیو میں ابے نوں وکھا گل کرساں نصرت نے ہنس کر مجھے ایک نظر دیکھا اور بولی اپنا نمبر دے میں سینڈ کرساں گئی میں نصرت کو دیکھا اور اپنا نمبر نصرت کو دے دیا نصرت کے پاس ٹچ موبائل تھا اس نے میرا نمبر سیو کر لیا اس دوران میں نے اپنی نظر قابو میں رکھی اور نصرت کے جسم پر ایک بار بھی نہیں ڈالی نصرت میرے سامنے دوپٹے کے بغیر ہی تھی نصرت مجھے غور کر بولی کالو ہک گل دس تسی رشتے داراں توں باہر کر لیندے ہو مطلب کہ اگر او ہور ذات دے ہوون تے میں بوال باجی او کون ہینڑ وہ بولی دس تے سہی میں بوال اگر لڑکیاں اچھیاں ہینڑ تے وت کوئی اعتراض نہیں جو وی ہونڑ اسی آپ کہڑے کوئی بڑی اچی ذات ہاں اسی وی کمی ہی ہاں اور ہنس دیا نصرت بھی ہنس دی اور بولی کالو ذاتاں اچ کجھ نہیں پیا بندے دے دل نوں ویکھنا چاہی دا میں بوال ایو جئے لوگ بڑے گھٹ ہوندے نصرت بوال ساڈے پنڈ اب ہینڑ میں بوال کونڑ نصرت ہنس دی اور بولی صبر کر جا گھر جا کے وکھا دیساں اور ہنس دی میں بھی ہنس دیا نصرت اور کچھ دیر باتیں کرتے رہے میری بھی جھجھک اتر گئی تھی اس کی تو پہلے ہی اتری تھی اتنے میں دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا نصرت چلی گئی اور مجھ سے بولی کہ آکے کھانا کھا جانا میں بوال اچھا جی میں نے کچھ دیر کام کیا اور پھر کھانے کے وقت گھر چال گیا میں گھر پہنچا دروازہ کھٹکھٹایا تو آنٹی رفعت نے دروازہ کھوال اور مجھے دیکھ کر مسکرا دی آنٹی رفعت کا منہ گالبی سا ہو رہا تھا آنٹی رفعت سسک کر بولی ہالنی اماں میں صدقے جاواں میرا سائیں آیا ہے میری جان اور مجھے باہوں میں بھر کر اپنے گلے سے لگا کر دبا لیا میں چونک گیا کہ آنٹی یہ کیا کر رہی ہے کوئی گھر میں ہوا تو آنٹی مجھے پیچھے ہٹتا دیکھ کر بولی میری جان کل دا ملیا ہی نہیں جپھی گھٹ کے پا کے مینوں مل گھر اچ کوئی نہیں نا گھبرا میں یہ سن کر مطمئن ہو گیا اور آنٹی رفعت کو دونوں بازوؤں میں دبوچ کر کس کر سینے سے لگا لیا رفعت کے جسم کا لمس محسوس کرکے میرا انگ انگ ناچنے لگا میرا لن تن کر رفعت کے چڈوں میں گھس گیا رفعت کے تن کر کھڑے ممے میرے سینے میں دب گئے اور رفعت میرے لن کو چڈوں میں دبوچ کر مجھے دبا کر چوستی ہوئی بولی نی میں صدقے جاواں میرا شہزادہ میرے واسطے اودریا ودا میں اپنی جان واسطے حاضر ہاں ہم دونوں وہی دروازے پر کھڑے ہوکر ہی ایک دوسرے کو چومنے لگے رفعت میری زبان دبا کر کس کر چوستی ہوئی سسکنے لگی میں رفعت کی گانڈ دبا کر مسل رہا تھا رفعت میرے ہونٹ چھوڑ کر بولی وے کالو کل میرے سگھ تک لن الہ دتا ہئی تے وت ہٹ کے میرا پتا ہی نہوں کیتا میں بوال میری جان کل دا ویال ہی نہیں ہویا شامی دل ہا تیرے نال کھٹ گزارن تے میرا دل ہا تینوں نال لئے جاواں ہاس ڈیرے تے پر تیرے پتر آگئے رفعت ہنس دی اور بولی وے میں صدقے جاواں کالو تیرے توں توں مینوں اکھیں ہاہ تے میں اجاواں ہاس میں بوال توں کنج آویں ہا وہ بولی میری جان میں تیرے پیو دی پرانی مشوق ہاں اپنے مرد کولو اٹھ کے تیرے پیو کول جا کے ساری ساری رات تیرے پیو دا لن لیندی ہاس تے اس نوں پتا نہیں لگا تے اے میرے پتر کی ہینڑ میں ہنس دیا اور رفعت کو جپھی میں دبا کر اٹھا کر بوال واہ میری گشتیے توں تے پوری آگ ہیں اور اٹھا کر اندر چل دیا رفعت بولی کالو ہاس تے میں آگ پر تیرے لن میری سہی آگ بجھائی اے کل میں ہنس دیا اور رفعت کو وہیں صحن میں چارپائی پر لٹا کر اوپر چڑھ کر چومتا ہوا بوال میری جان کیوں کہ بنیا رفعت بولی وے سوہنیا نا پچھ کی بنیا میں بوال وت وی رفعت بولی کالو تیرے لن سگھ تک کہ ہے انگ انگ چیر گیا میں ہنس دیا رفعت نے مجھے گھما کر اپنے نیچے کر لیا اور اوپر ہو کر میرا ناال کھول کر میرا لن کھینچ کر باہر نکال لیا میرا بازو جتنا لن رفعت دیکھ کر سسک کر ہانپ گئی اور اپنے ہاتھ میں دبا کر مسلتی ہوئی سسک کر بولی اوئے ہالنی اماں میں صدقے جاواں اپنی جان توں اور منہ آگے کرکے میرے لن کے ٹوپے کو چوم لیا میں سسک کر کراہ گیا رفعت زبان نکال کر میرے لن کو چاروں طرف سے چاٹتی ہوئی کراہنے گی رفعت کے ہانپنے سے گرم سانس میرے لن کو بے حال کر رہا تھا میں سسک رہا تھا رفعت اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسلتی ہوئی۔ چوس رہی تھی رفعت سسک کر بولی افففف میرا شہزادہ میرے دل دا جانی رفعت میرے لن کو مسل کر دبا کر چوستی ہوئی بولی کالو اس لن نوں میں ہور لما کرنا اے اے سگھ تک جاندا اے میرے سگھ اچو لگھ کے میرے منہ آلو نکل آسی گیا میں بوال اسدا کی فائدہ رفعت ہنس کر بولی بس ایویں شوق اے اور میرے لن کا ٹوپہ دبا کر چوستی ہوئی دبا کر مسلنے لگی رفعت کے گرم منہ نے میری جان ہی نکال لی تھی میں کراہ کر تڑپ سا گیا رفعت ہونٹ دبا کر میرے لن کو گلے تک اتار کر ہونٹ لن پر دبا کر مسلتی ہوئی میرے لن کو چوس کر ہانپنے لگی رفعت کے منہ کا دہانہ کافی کھال تھا اس لیے میرا موٹا لن رفعت دبا کر چوس رہی تھی میرا بازو جتنا لن رفعت کے سر تک تن کر کھڑا تھا رفعت جو جس سے کھلنا نہیں پڑ رہا تھا رفعت بیٹھ کر ہی منہ میں دبا کر چوس رہی تھی رفعت تیز تیز سر میرے لن پر مارتی میرے لن کے چوپے مارتی کراہ رہی تھی میرا لن رفعت کے گلے تک اتر رہا تھا میں مزے سے مچل کر کراہ رہا تھا رفعت نے میرے لن کو دبا کر اپنے گلے میں اتار کر رک کر اپنا سر میرے لن پر دبا کر میرے لن کو اپنے گلے میں دبانے لگی رفعت اپنے گھٹنوں کے بل کھڑی ہوئی اور میرے لن کے اوپر آکر اپنا پورا زور لگا کر میرا لن گلے کے اندر دبا دیا جس سے زور لگنے سے میرے لن کا ٹوپہ رفعت کے گلے میں اتر کر رفعت کا گلہ کھول کر اندر اتر گیا ساتھ ہی رفعت میرے لن کو گلے میں اتار کر تڑپ کر کراہ گئی اور تڑپ کر زور سے ہینگ کر پھنکار گئی رفعت کے گلے سے بھاں بھاں کی آوازیں نکلنے لگی رفعت کا سر کانپنے لگا اور منہ کا سرخ ہوگیا رفعت کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور رفعت کی سرخ آنکھیں مدہوشی سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی لن رفعت کے گلے میں محسوس کرکے میں مزے سے تڑپ کر بوکھال سا گیا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن کسی چیز نے دبا کر مسل دیا ہو میں کراہ کر تڑپ سا گیا مجھ سے رہا نا گیا میں نے ٹانگیں اٹھا کر رفعت کے کانپتے سر پر رکھ کر پوری شدت سے رفعت کا سر اپنے لن پر دبا دیا جس سے میرے زور لگانے پر میرا لن رفعت کا گلہ کھول کر رفعت کے سینے میں اترنے لگا جس سے رفعت تڑپ کر اچھل کر پھڑکی اور بکا کر زور سے ہینگ ہینگ کر پھنکارتی ہوئی تڑپ کر اپنے ہاتھ سے میری ٹانگیں دبا کر سر سے ہٹانے کی کوشش کرنے لگی پر میں لن رفعت کے سینے میں اتار کر مزے سے تڑپ کر کرال گیا رفعت پھنکارتی ہوئی بھاں بھوں کرنے لگی میں تو مزے سے جنونی ہو کر تڑپ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ لن کسی تندور میں اتر رہا ہو میں رکے بغیر لن دباتا ہوا مزے سے مچل رہا تھا لیکن ایک حد تک لن جا کر رک گیا ساتھ ہی رفعت پھڑکنے لگی میرا دل تھا کہ لن سارا جڑ تک رفعت کے اندر کر دوں پر آگے لن نا جا سکا میں رفعت کی حالت دیکھ کر تھوڑا گھبرا گیا اور لن واپس کھینچ لیا جس سے لن نکلتے ہی رفعت تڑپ کر اچھلی اور ہانپتی ہوئی پیچھے کر گری اور اپنا گلی دبا کر دوہری ہوکر تیز تیز سانس لیتی اپنا سانس بحال کرنے لگی رفعت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا رفعت کھانسی ہوئی سانس بحال کر رہی تھی میں تھوڑا گھبرا پر رفعت کچھ دیر میں سنبھل گئی میں رفعت کو چوم کر بوال سوری میری جان تینوں زیادہ ہی تنگ کر گیا رفعت بولی وے لعنتیا مینوں چھڈیا کیوں ہئی میں رفعت کی بات پر چونک گیا کہ یہ آنٹی تو کچھ اور ہی چیز ہے وہ اٹھ کر بولی آج سارا لن میرے منہ آلو منڈ کے میرے پھدی آلو کڈھ دینا ہویا میں بوال اس ٹائم تے پھڑک رہی ہائیں وہ ہنس دی اور بولی وے توں اپنا سواد لئے میری فکر نا کر مینوں کجھ نہیں ہوندا رفعت کی بات سن کر میرے دل نے انگڑائی کی اور میں سوچا کہ اگر لن سارا ہی آنٹی رفعت کے منہ میں ڈال کر آنٹی کی پھڈی سے باہر کردوں تو مزہ آ جائے یہ سوچ کر میں مچل سا گیا اور بوال رفعت کی خیال ہے پورا لن لئے لیسین رفعت ہنس کر بولی میری جان تیرا دل ہے تے میں کوشش کردی ہاں میں ہنس دیا اور بوال نصرت اوری کدے وہ بولی او اپنی ماسی نال گئی اے بازار تک باقی سونیا سکول پڑھانڑ گئی اے سعدیہ یونیورسٹی تے صدف کالج گئی اے میں بوال وت تے کھال ٹائم اے رفعت اٹھی اور بولی چل اندر چلیے میں رفعت کے پیچھے اندر چال گیا اندر بیڈ پر پہنچ کر رفعت نے اپنا قمیض اتار دیا اور اپنے موٹے ممے ننگے کرکے میرے بیٹھ گئی میں بھی قمیض اتار کر فل ننگا ہوگیا رفعت نے اپنے مموں کے درمیان کی لکیر میں ایک بڑی سی تھوک پھینک کر لکیر گیلی کی اور میرا لن مموں کے درمیان رکھ کر دبا کر مسلتی ہوئی لن کو چاٹنے لگی رفعت کے انداز سے میں مچل گیا اور سسکنے لگا رفعت نے اچھی طرح لن مسال اور اٹھ کر اپنی شلوار بھی اتار دیا رفعت نے اپنے تھوک سے لن سہی گیا کر دیا تھا اور اٹھ کر بیڈ پر لیٹ کر اپنا منہ بیڈ سے نیچے پیچھے کی طرف لٹکا کر میرے لن کے سامنے کھول دیا میں رفعت کو پن کے سامنے لیٹا دیکھ کر لن رفعت کے منہ میں سیٹ کیا اور ہلکا سا دھکا مار کر لن گلے تک اتار دیا میں نے آگے بیڈ پر ہاتھ رکھ کر گانڈ دبا کر زور سے گھسا مارا جس سے لن رفعت کا گلہ کھول کر سینے میں اتر کر پہلے والی جگہ تک پہنچ گیا جس ساتھ ہی رفعت کرال کر بکا گئی اور ہینگتی ہوئی پھنکار گئی رفعت کی ٹانگیں بے اختیار اٹھ گئیں اور گھٹنے پیٹ سے لگ گئے رفعت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اور رفعت بکانے لگی رفعت کے گلے سے گھوں گھوں کی آواز نکلنے لگی میں مزے تڑپ کر کانپ گیا میرا لن اندر رفعت نے دبوچ رکھا تھا لن رفعت کے سینے تک اترا تھا میں نے گانڈ اٹھا کر زور سے دھکا مارا جس سے لن نیچے آنٹی رفعت کے سینے سے ہاں میں اتر کر اسی رستے پر پر اتر گیا جو میرا لن نے پھدی سے گھس کر کل بنایا تھا رفعت نے اپنا زور اکھٹا کر پوری شدت سے دھاڑی اور پھڑکتی ہوئی بااااں باااااں کرتی پھڑکنے لگی رفعت کا جسم مچھی کی طرح پھڑک ے لگا میں تو مزے سے جنونی ہوکر تڑپنے لگا تھا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا آنٹی رفعت بھی بھاں بھوں کرتی ہوئی تڑپ رہی تھی میں نے لن کھینچا اور کراہ کر کس کر دھکا مارا جس سے میرا لن آنٹی رفعت کے ہاں کو کھول کر آنٹی رفعت کی بچہ دانی کے اندر اتر گیا جس کے ساتھ ہی میرے لن کے موٹے حصے نے آنٹی رفعت کے منہ کو فل کھول لیا تھا جس سے رفعت تڑپ تڑپ کر پھڑکتی ہوئی غرانے لگی میرا لن رفعت کی آواز کو دبا رہا تھا لن بچی دانی میں گھستے ہی رفعت بکا گئی اور تڑپ کر ہینگنے لگی مجھ سے رہا نا گیا اور میں نے کر دھکا مار اور اپنا بازو جتنا لن پورا جڑ تک آنٹی رفعت کے گلے تک اتار دیا جس سے میرا لن آنٹی کے منہ کو چیر رہا ہوا گلہ پھاڑ کر آنٹی رفعت کے سینے سے ہوتا بچہ دانی کھولتا ہوا آٹنی رفعت کی پھدی کے دہانے سے ٹکرایا جس سے آنٹی بکا کر اچھلی اور تڑپ کر پھڑکتی ہوئی پھنکارنے لگی میں کراہ کر آگے جھکا اور آنٹی رفعت کی پھدی کا جائزہ لیا کہ لن پھدی سے نکال کہ نہیں لیکن مجھے لن آنٹی رفعت کی پھدی سے نکال نظر نا آیا میں نے کراہ کر آنٹی رفعت کی پھدی کے ہونٹ دونوں ہاتھوں سے دبا کر کھول دیے جس سے مجھے آگے گہرائی میں اپنے لن کا ٹوپہ آنٹی کی پھدی سے نظر آگیا میں یہ دیکھ کر مچل گیا آنٹی پڑی پڑی پھڑک رہی تھی میرا لن اسی آواز دبا چکا تھا میں نے بے اختیار کراہ کر گانڈ کھینچ کر کس کر دو تین دھکے مارے جس سے میرا لن مزید آنٹی رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی کی طرف اتر آیا جس سے میری بھی ہمت ٹوٹ گئی اور میں مزے سے تڑپ کر بکا گئی میری بکاٹ کمرے میں پھدی گئی ساتھی لن مزید اندر گھس کر آنٹی رفعت کی پھدی کے دہانے کے بالکل ساتھ لگ گیا جس سے میرے لن کے ٹوپے کی نوک آنٹی رفعت کی پھدی کے دہانے کو کھول کر اتنی باہر آگئی کی کہ میرے لن کی موری آنٹی رفعت کی پھدی کو کھول کر باہر نکل کر نظر آنے لگی اسی لمحے آنٹی ارڑا کر تڑپی اور آنٹی کی پھدی کھلتی بند ہوتی پچ پچ کرتی میرے لن کو دبوچنے لگی جس سے آنٹی رفعت کی پھدی کی گرمی میرے لن کو نچوڑنے لگی میرا بازو جتنا لمبا لن آج آنٹی رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی سے نکل آیا تھا آنٹی کی پھدی تیز تیز سے پچ پچ کرتی میرے لن دبا کر نچوڑ گئی جس سے میں تڑپ کر رہا کر ایک لمبی منی کی گاڑھی منی دھار ماری کر فارغ ہوگیا آنٹی رفعت کی پھدی سے باہر نکلے لن کی موری سے میری سفید منہ پھوارے مارتی ہوئی آنٹی رفعت کی پھدی سے باہر گرنے لگی جس سے میں تڑپ کر کراہ کر مچل سا گیا اور آنٹی رفعت کے پیٹ پر منہ رکھ کر پھڑکتی پیٹ کو چومتا فارغ ہونے لگا میرا آنٹی رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی سے باہر نکلے لن جو آنٹی دبوچ رہی تھی میں فارغ ہوکر نڈھال رفعت کے اوپر پڑا تھا میری ساری منی رفعہ کی پھدی سے باہر بہر بہ گئی میں تو حیراں تھا کہ آنٹی تو عجیب ہی چیز ہے لن منہ سے لے کر پھدی تک اتروا لیا اور تڑپتی ہوئی ایسے پڑی تھی کہ اس کےلیے کچھ بات نا تھی میں کراہ کر اٹھا اور لن رفعت کے منہ سے کھینچ کر نکال لیا رفعت پھڑکتی ہوئی اپنا گال دبا کر مسلتی ہوئی کراہتی ہوئی سیدھی لیٹ کر سنبھلنے لگی رفعت کے گھنٹے سینے سے لگے تھے اور اسی کی پھدی ہلکی سی کھلتی بند ہوتی میری سفید منی چھوڑ رہی تھی میں رفعت کے اوپر ہوا اور اسے چوم کر واشروم میں چال گیا واپس آیا تو رفعت آٹھ کر بیٹھی تھی مجھے دیکھ ہنس دی اور بولی کالو توں تے میرے منہ تو لے کے پھدی تک راہ بنا دتا اے ہن تے آرام نال سب کجھ لنگھ جاندا میں ہنس دیا اور بوال اے راہ تے اگے ابے ہی بنا دتا ہا رفعت ہنسدی اور بولی ہا اے تیری گل سچ اے اور ہنس کر بولی چل ہنڑ کجھ کم کر لواں چھوریں انڑ آلیاں ہونیا اور کپڑے پہن کر نکل گئی میں بھی کپڑے پہن کر صحن میں آکر بیٹھ گیا کچھ ہی دیر بعد گیٹ کھال اور نصرت اندر آ گئی نصرت کے ساتھ نذیراں بھی تھی مجھے دیکھ کر نصرت کھل سی گئی اور بولی واہ جی واہ کالو صاحب آوری تے گھر آئے بیٹھے ہینڑ میں ہنسدہا اور بوال جی ہاں روٹی کھاونڑ آیا نصرت بولی وے تیرا اپنا گھر اے صرف روٹی کھاونڑ نا آیا کر جس ویلے دل کری آ گیا کر میں ہنس کر بوال اچھا جی نذیراں بھی قریب آئی نذیراں درمیانہ عمر کی نا بڑی عورت لگتی تھی نا ہی لڑکی نذیراں بھر پور بھرے ہوئے جسامت کی عورت تھی نذیراں اور نصرت میں تھوڑا ہی فرق لگ رہا تھا نذیراں کا رنگ ہلکا سا سانوال تھا جو اس پر جب رہا تھا ہلکی سی پھولی ہوئی گالیں دل کر رہا تھا کہ گالوں کو دبا کر چوس لوں نذیراں بولی کالو دھیان کریں اے جوان چھوریں پینڑ تے بندہ کھا جاندیاں یہ سن کر میں چونکا نصرت نے اسے آنکھیں بھر کر دیکھا اور دونوں ہنس دی نصرت بولی اے ماسی ہر ویلے مذاق ہی کردی رہندی اے اور ہنس دیں میں بھی ہنس دیا پھر ہم بیٹھ کر باتیں کرنے لگے میں بوال باجی ہنڑ تے میں توڑ ا گیا ہاں ہنڑ تے دس دے کون ہے او نصرت ہنس دی اور بولی صبر کر جا دس دیساں گئی ہلے اس نال گل تے کر لواں نذیراں بولی کون کس دی گل ہو رہی نصرت بولی ماسی میں سوچیا اے کہ کالو گھر دا بندہ اے ہنڑ تے اسدا کجھ بھال ہی کر دیواں اس واسطے ہک رشتہ ویکھیا اے اس دی شادی کرواؤ آں یہ سن کر نذیراں بولی ہنی کون ہئی نصرت ہنس دی اور میری طرف ایک نظر ڈال کر بولی دس دیندی آں خیر تے ہے میں بوال خیر ہنڑ کی ہونی ہنڑ تے ویکھو دے نذیراں بولی ویکھو دے بیچارے دس دل کڑھتا پیا ہئی اور ہنس دی میری جھجھک بھی اب ختم ہوگئی تھی میں کھل کر بات کر رہا تھا وہ بولی شانی تینوں ویکھیاں گئی اتنے میں آنٹی رفعت کھانا الئی اور مجھے دیا میں کھانا کھا کر واپس ڈیر پر آگیا کچھ دیر آرام کیا پھر کچھ کام کیا اتنے میں شام ہونے لگی تو دودھ دوہ کر رکھا بہزاد اتنے میں ڈیرے پر آگیا اور دودھ لے کر چال گیا شام کو وہ میرے لیے کھانا الیا میں کھان کھا کر نصرت کی بات پر غور کرنے لگا تو مجھے لگا کہ نصرت ایسے ہی مجھے چھڑ رہی تھی جان بوجھ کر تنگ کر رہی تھی کہاں رشتہ کروانا اس نے میرا میں جو خوش ہو رہا تھا نصرت کے ہاتھوں پاگل بننے پر ہنس دیا اور آٹھ کر کچھ کام کیا رات کافی ہو چکی تھی میں سمجھ گیا تھا کہ نصرت میرے ساتھ بس مذاق ہی کر رہی تھی میں ایسے ہی پاگل بن گیا اور لیٹ کر سونے لگا اتنے میں میرے فون پر بیل بجی میں نے دیکھا تو کوئی نیا نمبر تھا یہ دیکھ کر میں چونک سا گیا میں نے کال اٹھائی تو آگے سے کوئی لڑکی بولی جناب اور جاگ رہے ہینڑ میں پہلے تو کچھ نا سمجھا پھر سمجھ آئی کہ نصرت تھی میرا تو دل ہی لڑھک گیا میں ہنس دیا اور بوال کیا تھواڈا ہی انتظار کر رہیا ہاس وہ کھلکھال کر ہنس دی اور بولی کویں میرا انظار کیوں کر رہیا شرم نہیں آندی میں ہنس دیا اور بوال آپ تے آکھیا ہایا وہ ہنس دی اور بولی ہاں جی مینوں پتا اے تو بڑا بے صبرا ہیں میں بوال بے صبرا تے ہونا ہی ہا نا وہ بولی حوصلہ کر کالو کے لڑکی تیوں بے صبرا ویکھ کے ہتھو نکل گئی تے فر کی کرسیں میں بوال بہتیاں گالں نا کر وکھا کے وکھانی ہئی تے وہ بولی ہا وے کالو کجھ سانوں وی گل کرن دے میں بوال تیرے نال ہی کر رہیا ایں وہ ہنس دی اور بولی بہوں بے شرم ہیں میں بوال ہنڑ توں آپ ہی کیتا اے میرے نال فری ہوکے وہ بولی چلو ساڈا ہی قصور سہی ہنڑ راضی میں اچھا جی معاف کر دے وہ بولی وے نہیں وے میں بوال فر نصرت ایک لمحہ چپ ہوئی اور بولی میری گل ہوئی اے اس نال او تے آپ بڑی بے صبری تیرے واسطے میں یہ بات سن کر کھل کر ہنسا اور بوال اچھا جی میرے اچ ایسی کی گل ویکھی کہ میرے واسطے ہی بے صبری ہوئی پئی نصرت ہنس دی کالو اس تیرے اچ اوہ ویکھ لیا اے جس دا اوہ ساالں توں انتظار کر رہی ہا میں بوال مثال وہ بولی مثال دا مینوں نہیں پتا پر توں اس نوں پسند بڑا آیا ہیں میرے تو دل میں لڈو سے پھٹ گئے پر مجھے لگا کہ کہیں مذاق نا کر رہی ہو میں بوال باجی سچی سچی دسیں مذاق تے نہیں کر رہی نصرت کھلکھال کر ہنس دی مجھے لگا کہ واقعی میری بات ٹھیک تھی وہ مذاق ہی کر رہی تھی میں مایوس سا ہوا وہ بوال وے بدھو انسان میں بھال کیوں تیرے نال مذاق کر نا سچ بول رہی آں میں بوال ہال فر وکھا وہ بولی کی وکھاواں میں بوال جس نال میری گل چالئی ہئی نصرت بولی کالو ویسے ہنڑ تینوں وکھا ہی دینی ہاں پھر نصرت بولی ہال اے دس تصویر گھالں کہ گل کرواں میں یہ سن کر چونک گیا اور بوال باجی سچی دس مذاق تے نہیں وہ بولی وے تینوں میری گل تے یقین کیوں نہیں آ رہیا میں بوال س واسطے کہ میرے کالے تے کس مرنا اے نا میری شکل ہے نا رنگ وہ بولی وے نہیں وے اے تینوں لگدا اے سارا کجھ رنگ شکل ہی نہیں ہوندا ہور وی بڑا کجھ ہوندا تیری رنگ شکل تے نہیں اور تیرے کجھ ہور تے موئی ودی اے ہے ہنڑ مسیں ودی آکھ رہی کہ میرا دل کر رہیا اے کہ میں اس کے کالو کول وگ جاواں نصرت کی اس بات پر میں ہنس دیا نصرت بولی ہال ہنڑ دس تصویراں ویکھنیاں کہ گل کرنی میں بوال جو تھوانوں بہتر لگے وہ بولی ہال میں ویڈیو کال کردی آں توں اس نوں ویکھ وی لئے تے گل وی کر لئے میں اس بات پر مچل سا گیا اور بوال اے سہی اے وہ بولی ہال میں کردی ناں اور کال کاٹ دی دو تین منٹ بعد نصرت کی پھر ویڈیو کال آگئی میں نے اٹینڈ کی تو سامنے کیمرے کے نصرت کی تصویر ابھی نصرت دوپٹے کے بغیر تھی نصرت ہلکا سا میک اپ کر کے الل سرخی لگائے ناک میں کوکا ڈالے سامنے نظر آ رہی تھی نصرت کے ناک میں کوکا کہر ڈھا رہا تھا میں تو ایک بار نصرت کو دیکھتا ہی رہ گیا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی کالو تیاری پھڑ لئے ہنڑ میں بوال ویکھاؤ وہ بولی ہال اکھاں بند کر میں ہنس دیا اور بوال کی کراؤ ہیں وہ بولی بند تے کر میں اس نوں کیندے دے سامنے کراں جس ویلے میں اکھاں اس ویلے کھولیں میں نے آنکھیں بند کر لیں اور تھوڑے ہی لمحے بعد نصرت بولی وے ہن کھول میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے نصرت نے کیمرہ بالکل اپنے چہرے پر فوکس کیا ہوا تھا نصرت کے چہرے کی تصویر نظر آ رہی تھی نصرت کی نظر جھکی تھی میں چونک گیا مجھے لگا نصرت نے مذاق کیا ہے میں بوال باجی مذاق کیتا ہئی نا نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی کالو ویکھ تے سہی سامنے او ہی لڑکی بیٹھی ہے جہڑی تینوں پسند کردی اے میں ہکا بکا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت گہری آنکھوں سے ٹھوڑی ہاتھ پر رکھ کر مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں باجی توں ہی نصرت بولی ہا کالو میں ہی او لڑکی ہاں جہڑی تیرے نال پرنیناں چاہندی آں میں بوال باجی توں اے کی آکھ رہی ایں نصرت بولی کالو جو توں سن رہیا ایں میں بوال باجی سے کنج ہوسگدا اے وہ بولی کالو کیوں نہیں ہو سگدا میں بوال باجی تیرا میرا جوڑ کوئی نہیں تے ناں اے کسے ہونڑ دینا نصرت بولی کالو مینوں ہور کجھ پتا نہیں میں جدو دا تینوں ویکھیا اے میرے دل اچ توں وس گیا ایں مینوں تیرے نال پیار تے عشق ہو گیا اے مینوں اپنا بنا لئے میں تینوں او پیار دیساں گئیں جہڑا توں چاہندا ایں میں ہکا بکا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت کی گہری نشیلی آنکھیں مجھے ہی دیکھ رہی تھیں میں گھونٹ بھر کر رہ گیا اور بوال نصرت نصرت بولی جی میری جان میں بوال نصرت کے اے گل تیرے بھراواں ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کتے بہزاد نوں پتا لگ گئی تے پتا ہے کی ہوسی نصرت بولی مینوں کوئی ڈر نہیں سوہنا دا کالو مینوں بس توں چاہیدا ایں نالے اوہناں نوں دسنا کس اے میں بوال نصرت کے اوہناں نوں پتا لگ گیا ناں تے خیر کوئی نہیں نصرت بولی کالو کے اوہناں نوں پتا گ گیا تے میں تیرے نال نس ویساں گئی توں مینوں جتھے مرضی دل کری لئے جاویں میں ہنڑ تیری ہاں تیرے نال نسنڑ کانڑ تیار ہاں میرا تو یہ سن کر گلہ ہی خشک ہوگیا تھا اس گھر کی سب سے خوبصورت لڑکی مجھ پر فدا ہو گئی تھی میں نے خواب میں بھی اتنی خوبصورت لڑکی نہیں سوچی تھی نصرت کسی لڑکی میرے ساتھ سونے کو تیار تھی میں بوال نصرت ویکھ لئے پر ساڈی شادی تے راضی ہوں ہوسی نصرت بولی کالو شادی تے لوگاں نوں وکھانڑ واسطے ہوندی اے اساں کہڑا کسے نوں وکھانڑا میں بوال مطلب کی شادی واسطے نکاہ تے ہو دا نا نصرت ہنس دی اور بولی کالو چھوڑ نکاہ نوں نکاہ ہنڑ کون کرے نصرت سسکار کر بولی آف کالو میں تے ہنڑ مسیں ودی آں میرے کولو ہنڑ رہیا نہیں جاندا توں اپنے ہیٹھ لئے کے مسل دے میں بوال نصرت کجھ لحاظ کر نصرت بولی میرا کسے لحاظ نہیں کیتا تے میں کیوں کراں میں جوانی آگ اچ سردی بلدی پئی آں مینوں وی حق اے اپنی آگ بجھاونڑ دا افففف کالووو تیرا کاال جسم کیڈا سوہنا اے قسمیں کالو میرا ہونا بہوں سواد دیساں گئی میں بوال نصرت ویکھ لئے مروا نا دیویں نصرت بولی کالو میرے تے یقین رکھ میں تینوں کجھ نہیں ہوونڑ دیندی میں تو خود نصرت کی باتوں سے پگھل گیا تھا مجھ سے بھی رہا نہیں جا رہا تھا پر بات بہت خطرے کی تھی نصرت بولی گل ہی کوئی نہیں توں بے فکر ہوجا کیوں پریشان ہوندا پیا ایں میں بوال نصرت پریشان تے کر دتا ہئی وہ بولی وے میرے دلدارا ناں پریشان ہو میں تیرے نال ہاں میں بوال اے بڑی اوکھی ذمہداری اے نصرت بولی کالو توں کجھ وی نہیں کرنا بس توں میری آگ ٹھنڈی کرنی اے تے بدلے اچ توں جو اکھسیں تینوں دیساں گئی میری جان ہنڑ من جا نا میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب نصرت کا کیا کروں مجھے صرف نصرت کے بھائیوں بہزاد اور ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ککا ڈر تھا باقی دل تو میرا بھی تھا اتنی خوبصورت لڑکی میری جھولی میں خود ہی گر رہی تھی مجھے اور کیا چاہئیے تھا نصرت بولی کالو زیادہ سوچ نا بس ہاں کر دے توں نہوں جانندا میں کیڈی اوکھی بیٹھی آں میرا دل پیا کردا اے ہنڑ نکل کے تیرے کول اجاواں اففف کالو آکھ تے تینوں ننگی ہوکے اپنا سب کجھ وکھا دیواں تا کہ توں فیصلہ سوکھا کر کویں میں نصرت کی بات سے مچل سا گیا اتنے میں نصرت کا دروازہ کھٹکا نصرت قریب ہوکر جلدی سے بولی کالو رات ساری ہئی سوچ لئے صبح میں آکے پچھ لیندی آں اور کال کٹ گئی میرا دل تو خوشی سے ناچ بھی رہا تھا کہ نصرت خود ہی میری جھولی میں آگرہ اور ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں گر بڑ ہو گئی تو مسئلہ خراب ہو جائے گا یہی سوچتا ہوا میں نصرت کے ابھرے سوچتا سو گیا
میں صبح اٹھا اور
دودھ دوہ کر گھر لے کر آگیا میں گھر آیا تو بہزاد نکل رہا تھا میں گھر گیا تو آنٹی رفعت مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور اس وقت نصرت کی بہنیں جانے کےلیے تیار ہو رہی تھیں نصرت اس وقت جاگی تھی وہ دوپٹے کے بغیر تھی نصرت کے موٹے تنے کر کھڑے ہوئے ممے میں دیکھ کر مسکرا دیا نصرت بھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی مجھے رات کی بات یاد آ گئی نصرت میرے قریب ہونا چاہ رہی تھی یہ سوچ کر میں مچل گیا اور ہنس کر اندر کیچن میں چال گیا آنٹی رفعت کھانا بنا رہی تھی پاس اس کے صدف بیٹھی تھی رفعت بھی بغیر دوپٹے کے کسے ہوئے لباس میں تھی جس سے اس کے تنے ہوئے ممے اور جسم نظر آرہا تھا رفعت مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں نے دودھ رکھا رفعت بولی کالو آگیا ایں میں بوال جیا آگیا آن وہ بولی بہ جا میں وہیں پاس ہی بیٹھ گیا رفعت صدف سے بولی صدف مینوں گالس دودھ دا پا دے صدف ڈرمی سے دودھ کا گالس نکال کر رفعت کو پکڑایا۔ رفعت نے دودھ کیتلی میں گرم کرنے لگی اور مجھے دیکھ کر ہنس دی میں سمجھا کہ چائے پکانے لگی ہے رفعت بولی صدف جا کالج جانڑ دی تیاری کر صدف اٹھی اور گھوم کر مجھے دیکھا میں صدف کو دیکھ رہا تھا صدف کا جسم تھوڑا پتال تھا اور وہ ابھی جوان ہو رہی تھی لیکن اس کے جسم کے خدو خال کافی خوبصورت تھے صرف کی عمر 18 سال کے لگ بھگ تھی لیکن اس کے جسم کے ابھار ابھی بن رہے تھے میں نے جسم کو ایک نظر دیکھ کر صدف کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالی تو صدف بھی مجھے دیکھ رہی تھی میرے دیکھنے پر صدف کی نظر مجھ سے ٹکرائی تو صدف کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی صدف نے ہلکا سا مسکرا کر گہری نظر مجھ پر ڈالی میں بھی صدف کو دیکھ کر مسکرا دیا صدف مسکراتی ہوئی نکل گئی میں نے سامنے رفعت کو دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھی میں بھی اسے دیکھ کر مسکرا دیا رفعت بولی کالو صدف کی آکھدی اے میں ہنس دیا اور بوال تیری دھی اے کی اکھنڑا ہیس او ہی آکھدی جہڑی توں آکھدی ہیں رفعت مجھے شرارتی انداز میں دیکھ کر ہنس دی اور بولی بھیڑا تے نہیں آکھ رہی جے اسدا وی دل ہے تے توں من لئے میں ہنس دیا اور بوال رفعت ساریاں ہی انج ہینڑ تیریاں دھیاں وہ ہنس دی اور بولی پتا نہیں پچھ لئے آپ جا کے میں ہنس دیا آنٹی نے اتنے میں اٹھ کر ایک الماری سے ایک پڑی نکالی اور کھول کر مجھے دکھائی تو اس میں پسی ہوئہ کچھ دوا تھی میں بوال اے کس واسطے رفعت ہنس کر بولی دسدی آں کیوں پریشان ہو رہیا ایں میں ہنس دیا آنٹی نے وہ پڑی دودھ میں مال دی اور دودھ اتار کر ٹھنڈا کرکے ایک کپ میں ڈال کر مجھے دیا اور دوسری پڑی سے دو کالی گولیاں نکال کر مجھے دیں اور بولی دودھ نال پی جا میں دونوں گولیا دوائی ملے دودھ سے پی گیا میں دودھ پی کر بوال آنٹی دس تے سہی اے کس واسطے ہے آنٹی نے ہنس کر مجھے دیکھا اور بولی اے تیرے لن نو تگڑا کرن دی دوائی اے اس نال تیرا لن لمبا تے موٹا ہو جاسی میں ہنس دیا اور بوال آگے تھوڑا لمبا ہئی رجی نہوں رفعت ہنس دی اور بولی میرا دل کردا تیرا لن ایڈا لما کراں کہ میری پھدی آلو وڑے تے منہ آلو نکل آوے میں ہنس دیا اور آنٹی کی جنونیت پر ہنس دیا آنٹی کھانا بنا رہی تھی اتنے میں سونیا اندر آئی اور بولی امی ہلے روٹی نہیں بنائی میں نے گھوم کر دیکھا تو سونیا بالکل نصرت جیسی تھی دونوں کی شکل اور جسامت بھی ایک جیسی تھی سونیا کی آنکھیں مجھ سے ٹکرائیں اور اس نے ایک نظر مجھے غورا میں سونیا کو دیکھا وہ سکول جانے کہ تیاری کر رہی تھی جس سے وہ دوپٹے کی بغیر تھی اس کا جسم صاف نظر آ رہا تھا میں نے ایک نظر اس کے جسم کو غورا اور نظر اٹھا کر اس کے چہرے پر ڈالی تو اس کی آنکھیں مجھے ہی دیکھ رہی تھیں مجھ سے ٹکرائی تو اس کی آنکھوں میں چمک تھی مجھے دیکھ کر وہ سنبھلی اور ہٹ گئی میں نے رفعت کو دیکھا تو وہ مسکرا دی میں بوال آنٹی تیری دھیاں تے ہک تو ودھ ہین وہ ہنس دی اور بولی میری دھیاں ہین میرے آل ہی ہوسن میں ہنس دیا رفعت بولی کالو ہنڑ دوائی کے لی ہئی تے تینوں ہنڑ روٹی نہیں دینی میں بوال وت وہ بولی میں ساریاں نوں روٹی دے کے تینوں دیساں تا کہ لن وڈا کرن آلی دوائی سہی طرح کم کر لئے میں ہنس دیا اور بوال ٹھیک ہے میں وت ڈیرے تے جاندا آں اوتھے کوئی کم کر پئیں وہ بوال ہال وت نصرت آنا ہے اوہ تیری روٹی لئی آسی میں نصرت کا سن کر مچل گیا اور بوال اچھا جی اور اٹھ کر باہر نکل آیا سونیا اور صدف دونوں باہر کھڑی تھیں مجھے دونوں گہری آنکھوں سے غورنے لگی میں ان کو دیکھ کر مسکراتا ہوا باہر نکل آیا میں سوچ رہا تھا کہ بہزاد اور ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)ککی بہنیں تو ایک سے بڑھ کر ایک ہی مزہ آئے گا ساری لفٹ بھی کروا رہی تھی لیکن میں ابھی نصرت پر توجہ دینا چاہتا تھا میں ڈیرے پر آکر کام کرنے لگا اور پھر پٹھے کاٹ کے الیا میں پٹھے اتار رہا تھا کہ اتنے میں نصرت بھی آگئی نصرت آج سفید سوٹ میں تھی جس سے اس کے جسم کا انگ انگ نظر آ رہا تھا نصرت نے نیچے کالی برا ڈال رکھی تھی جو کے صاف نظر آ رہی تھی نصرت کے تن کر کھڑے موٹے اکڑے ممے ہوا میں کھڑے ہوکر ہل رہے تھے نصرت میرے قریب آئی اور بولی کالو کی آ جاؤ روٹی کھا لئو میں نصرت کی اس بات پر تھوڑا شرمندہ سا ہوگیا اور کام چھوڑ کر کھانا لیا اور آکے کھانے لگا آنٹی رفعت نے اچھی طرح دیسی گھی میں تل کے دو روٹیاں بنا کر بھیجی تھی وہ بھی میری صحت کا برابر خیال رکھ رہی تھی اس کی بیٹیوں کی بھی مجھ پر نظر تھی میں دوستی کھا رہا تھا نصرت پاس ہی بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی نصرت پھر بولی کالو وت تیرا خیال ہے میں نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور بوال نصرت میرا کی خیال ہونا تیرے بھراواں دا ڈر لگدا اوہناں نوں پتا لگا تے میری خیر نہیں نصرت ہنس دی اور بولی وے کملیا تینوں کوئی کجھ نہیں آکھدا اپنے جوائیاں نوں وی بھال کجھ کوئی آکھدا اے اوہ ہنڑ تیرے سالے ہینڑ توں اوہناں دی بھین دا گھر آال بنن جا رہیا ایں میں نصرت کی اس بات پر مچل سا گیا نصرت مجھ گھونٹ بھرتا دیکھ کر مسکرا دی اور بوال کالو دس نا کی توں میرا گھر آال بنائیں کہ نہیں میں نصرت کو دیکھ رہا تھا پر میں جواب نہیں دے رہا تھا نصرت کو اپنانے کو میں بھی بے قرار تھا پر عجیب سا خوف تھا میں نصرت کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا نصرت مجھے دیکھتی ہوئی بولی کالو تینوں نہیں پتا جدو دا تینوں ویکھیا ہے نا میں تے تیرے تے عاشق ہو گئی ہاں میں بوال نصرت مینوں صرف اے تیرے بھراواں دا خوف اے میں کھانا کھا کر فری ہوکر بیٹھا تھا نصرت میرے قریب ہوئی اور میرا ہاتھ تھام کر بولی کالو میں وعدہ کردی آں اگر تیرے میرے تعلق دا بہزاد ہا ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کنوں پتا لگ گیا توں جو اکھسیں میں اوہ کرساں گئی میں تے تیرے نال نس جاساں گئی اسی اے عالقہ ہی چھوڑ کے نس جاساں گئے میں بوال نصرت پاگل تے نہوں توں اپنے بھراواں دی عزت رول کے میرے نال نس کے چنگا کرسیں وت تیرے بھرا تینوں زندہ چھڈسن نصرت بولی کالو میری بڑی فکر ہے اوہناں نوں کے میں اوہناں دی عزت دی فکر کراں ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کتے بہزاد نوں نہیں پتا کہ اوہناں دیاں بھیناں جوان ہو گئیاں ہینڑ اوہنا دی وی کجھ خواہشات ہینڑ بہزاد اوراں نوں بس اسی کم آلیاں ملیاں ہویاں ہاں اسی کم کر کر کے اوہناں نوں پالیے تے اوہ اپنی مرضی دیاں چھوریں نال موجاں کرن کالو سانوں وی حق ہے اپنا مرضی دا مرد رکھنے تے اپنے مرضی دے مرد نال تعلق بناونڑ تے اگر اوہناں نوں پتا لگدا تے لگ جاوے کالو با میں فیصلہ کر لیا ہے جلد ہی توں مینوں لئے کے نس جا میں تیرے نال نس کے شادی کرنے نوں تیار ہاں میں نصرت کی اس بات پر حیران ہوگیا اور بوال او تے گل ٹھیک اے پر اے فیصلہ لئینڑ لگیاں ویکھ تے سہی آنٹی کی آکھسی کہ میں چنگی عزت رکھی اوہناں دی نصرت بولی کالو وت توں میرے نال انج تعلق بنا لئے میری صرف ہک ہی طلب ہے میں چاہندی آں کہ مینوں کوئی تگڑا مرد اپنے ہتھ لئے کے مسل دے میرے آگ چھڈی جوانی نوں کوئی تے نتھ پاوے کالو ہنڑ میں نہیں رہ سگدی جے توں مینوں اپنا نا بنایا تے میں کسے ہور مرد نال نس جانا میں یہ سن کر بوال اچھا جی جذباتی نا ہو کجھ سوچدے آں اتنے میں گیٹ سے بہزاد داخل ہوا جسے دیکھ کر نصرت بولی اس میرے بھرا الی وی بڑی مصیبت ہے تیرے نال وقت گزارنے ہی نہیں دیندا بہزاد قریب آیا اور بوال ہاں کالو کی رپورٹ ہے میں بوال سب اوکے ہے وہ ہنس دیا اور نصرت سے باتیں کرنے لگا نصرت اور بہزاد باتیں کر رہے تھے میں اندر آکر پٹھے کتر کر فارغ ہوا مجھے کافی پسینہ ا کا تھا اس لیے میں نے قمیض اتار دیا میں کترہ ڈالنے کےلیے کترا جوڑ کر اٹھا کر باہر نکال تو سامنے نصرت پاؤں بھار بیٹھ کر ہاتھیوں کےلیے گوبر اکھٹا کر رہی تھی نصرت کی کمر میری طرف تھی اس کے جسم سے چپکے کپڑوں سے جسم صاف جھانک رہا تھا نصرت کا انگ انگ دیکھ کر میں مچل سا گیا میں نے آگے جا کر کترہ ڈاال اور واپس مڑا تو نصرت کا منہ میری طرف تھا میں نصرت کی طرف دیکھا اور چونک گیا میرے قدم وہیں رک سے گئے میری نظر سیدھی نصرت کے نچے حصے پر گئی تو سامنے نصرت کی شلوار پٹھی تھی جس سے نصرت کی گوری گالبی ہونٹوں والی ایک پیک پھدی صاف نظر آرہی تھی نصرت کی پھدی کے گالبی ہونٹ آپس میں جڑ کر پھدی کو خوبصورت بنا رہے تھے نصرت کی پھدی کا گالبی دہانہ کھلتا بند ہوتا ہلکا ہلکا سفید پانی چھوڑ رہا تھا نصرت کی پھدی سے بہتا ہوا پانی نیچے زمین پر اکھٹا ہوا رہا تھا نصرت کی جوانی کی آگ نصرت کی پھدی سے بہ رہی تھی میں نصرت کی پھدی سے بہتا پانی دیکھ کر سمجھ گیا کہ نصرت کتنی بے قرار اور تڑپ رہی ہے مرد کےلیے میں یہ سب دیکھ کر چونک گیا تھا میں نے نصرت کی پھدی کو دیکھ کر اوپر نصرت کی آنکھوں میں دیکھ کر گھونٹ بھرا نصرت کی مدہوش آنکھوں میں اتری بے قراری میرے اندر اتر رہی تھی نصرت کے چہرے پر اللی اتری تھی اور نصرت بھی بے قراری سے گھونٹ بھرتی ہوئی مجھے مدہوشی سے دیکھ کر ہانپ رہی تھی میں نے ایک نظر نصرت کو دیکھا تو نصرت کی آنکھوں اترے گالبی ڈورے مجھے نہال کر گئے نصرت نے مجھے آنکھیں مال کر آنکھوں کا اشارہ نیچے اپنی پھدی کی طرف کیا میں نے بے اختیار آنکھیں جھکا کر نیچے دیکھا تو نصرت کی پھدی کا دہانہ تیزی سے کھلتا بند ہوتا پانی چھوڑ رہا تھا نصرت نے نیچے ہاتھ کیا اور اپنی انگلیوں سے اپنی پھدی کے ہونٹ کھول دیے جس سے نصرت کی پھدی کے اندر کا گالبی حصہ صاف دکھنے لگا ساتھ ہی نصرت زور سے کانپ گئی اور نصرت کی کراہ نکلی ساتھ ہی نصرت کی پھدی سے پانی کی ایک موٹی لمبی دھار پریشر کے ساتھ نیچے زمین پر زور سے لگی اور چھررررر کی آواز گونج گئی میں نصرت کی پھدی سے نکلتا پانی دیکھ کر چونک گیا ساتھ ہی نصرت نے ایک لمبی دھار اور ماری اور کراہ گئی نصرت کی گانڈ زور زور سے کانپنے لگی نصرت کا منہ الل سرخ ہو گیا اور ہلکا سا کانپنے لگا میں نصرت کی حالت دیکھ کر شرمندہ سا ہو گیا اور نصرت سنبھل گئی اور مدہوش نظروں سے مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا اور وہاں سے چلتا ہوا اندر کترہ لینے آگیا میں حیران تھا کہ نصرت کی پھدی ابھی تک کنواری تھی نصرت کے چال چل سے تو لگتا تھا کہ وہ پھٹی ہو گی پر اس نے خود کو بچا کر رکھا ہوا تھا یہ دیکھ کر میں بھی خوش ہوا نصرت کی حالت وار ہی خراب تھی جوانی اسے اب بے چین کر رہی تھی اسی لمحے باہر سے بہزاد کی آواز آئی وہ مجھے بال رہا تھا میں چونک کر جلدی سے باہر نکل آیا میں باہر نکال تو میری نظر سامنے نصرت پر پڑی نصرت ایسے ہی بیٹھی ہوئی تھی اور اپنی پھدی کو ننگا کیے مجھے دکھا رہی تھی میں چونک گیا اس کا بھائی بہزاد اس کی طرف ہی جا رہا تھا لیکن وہ بے جھجھک سامنے سے مجھے پھدی کا نظارہ کروائے رکھا میں تھوڑا گھبرا گیا کہ بہزاد دیکھ نا لے پر نصرت نہیں ڈری اور خود کو ننگا کیے رکھا میں یہ دیکھ کر ایک نظر پھدی کو دیکھا تو نصرت کی پھدی کا دہانہ کھلتا بند ہوتا پانی چھوڑی رہا تھا نصرت نے اسی لمحے اپنی انگلیاں پھدی پر رکھیں اور پھدی کو کھول کر پیشاب کی دھار مار کر پیشاب کرنے لگی نصرت کو اپنے بھائی بہزاد کی موجودگی میں میرے سامنے اپنی پھدی ننگی کیے پیشاب کرتا دیکھ کر میں تو مچل گیا نصرت نے ایک لمحے کےلیے انگلی رکھ کر پھدی کھول کر پیشاب کرتی رہی حتی کہ اس کا بھائی بہزاد بالکل اس کے اوپر پہنچ گیا لیکن وہ آگے نہیں بڑھا اور قریب ہی رک گیا میں نصرت کی پھدی سے پیشاب کی دھار نکلتا دیکھ کر حیران تھا کہ اسی لمحے بہزاد بوال کالو یار میرے کجھ مہمان آ رہے ہین تے میں ہک کم جاؤ آں جے اگر او آ جونڑ تے اوہناں نوں پانی پالئیں اتنے تک میں آجاساں میں بوال اچھا اور نظر جھکا کر نصرت کو دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ کر ہنس رہی تھی اس نے اشارے سے نیچے اپنی پھدی کی طرف اشارہ کیا میں نے نصرت کی پھدی کو دیکھا تو نصرت پھدی کا دہانہ کھول کر پیشاب کرنے لگی بہزاد نصرت سے بوال باجی میں گھر آل جاؤ آں جے توں آنا تے آجا میں نے چونک کر بہزاد کو دیکھا وہ نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت تو جیسے چوکنا تھی وہ بہزاد کی بات سن کر بولی بھائی میں اے پھاتیاں بنا لئیں مینوں اس تے ٹائم لگ جانا توں وگ جا وہ بوال اچھا اور مڑ گیا میں حیرانی سے نصرت کو دیکھ رہا تھا جو بہزاد سے کنفیڈینس سے بات کرتی ہوئی پھدی مجھے دکھاتی ہوئی پیشاب کرتی رہی نصرت نے اپنے بھائی سے بات کرتے ہوئے پشاب کو روکا نہیں میں حیران تھا کہ نصرت پیشاب ختم کر کی تھی بہزاد جا چکا تھا نصرت کی پھدی بند کھلتی پچ پچ کرتی قطرے چھوڑ رہی تھی میں نے اوپر نصرت کو دیکھا تو نصرت مجھے آنکھ مار کر ہنس دی میں اسے دیکھ کر اندر آگیا اور کترہ جوڑنے لگا میں کترہ جوڑ کر نکال تو مجھے نصرت نظر نہیں آئی میں حیران ہوا کہ یہ کہاں گئی مجھے لگا کہ واشروم گئی ہو گی سامنے نصرت کی پھدی سے نکال موتر پڑا تھا میں یہ دیکھ کر مچل گیا میں کترہ ڈال کر واپس آیا اور اور کترہ جوڑنے لگا کہ اسی لمحے پیچھے سے کوئی آیا اور میں اوپر ہوا تو مجھے پیچھے سے نصرت نے اپنی باہوں بھر کراپنی جپھی میں دبوچ لیا میں قمیض اتار رکھا تھا میرے جسم پر پسینہ بھی تھا میرے ننگے جسم سے نصرت کا جسم ٹچ ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ نصرت ننگی ہے میں یہ دیکھ کر چونک گیا اور جلدی سے پیچھے ہٹا تو پیچھے نصرت کو ننگا دیکھ کر میں ہکا بکا ہو گیا نصرت کا گورا ننگا جسم چمک رہا تھا نصرت کے ہوا میں تن کر اکڑے ہوئے موٹے ممے قیامت خیز تھے نصرت ہانپتی ہوئی مجھے دیکھا اور جلدی سے مجھے باہوں میں بھر کر دبا کر جپھی ڈال لی نصرت کے موٹے مموں کے اکڑے نپز میرے جسم میں چبھ سے گئے میں یہ دیکھ کر مچل کر کراہ گیا نصرت نے مجھے اپنے سینے میں دبوچ کر میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں کس کر دبا کر چوسنے لگی نصرت کے جسم سے اٹھتی ہوئی بھینی مہک اور جوانی کی آگ کی گرمی مجھے محسوس ہو رہی تھی میں تو نصرت کی آگ میں جلنے لگا نصرت اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر رگڑنے لگی نصرت کے مموں کا لمس میں محسوس کرکے مچل کر تڑپ ے لگا نصرت کراہ کر مچلتی ہوئی آہیں بھر کر رہ گئی اور بھوکی بلی کی طرح میرے ہونٹ پر ٹوٹ پڑی اور دبا کر کس کر چوستی ہوئی مجھے دبوچ لیا میرا لن تن کر نصرت کے چڈوں میں اتر گیا نصرت میرے لن کو چڈوں میں دبا کر گانڈ ہال کر مسلتی ہوئی اونچا اونچا کراہتی ہوئی اپنے ممے دبا کر میرے جسم سے مسلتی ہوئی میرے ہونٹ دبا کر چوسنے لگی میں پسینے سے بھرا تھا میرا سارا پسینہ نصرت اپنے جسم پر مل چکی تھی نصرت کے موٹے ممے میرے پسینے سے بھر تھے جس سے نصرت کے جسم کی رگڑ سے پچ پچ ہونے لگی تھی نصرت کے چڈوں میں آگ لگی تھی میرا لن جل رہا تھا نصرت تڑپ کر کراہ رہی تھی منصرف کی آگ میں جلتی پھدی میرے لن کا لمس برداشت نا کر پائی اور کرالتی ہوئی بکا کر تڑپتی ہوئی ہنیگ کر تڑپی اور مجھے لگا کہ میرے لن پر آگ کا بھانبڑ گر گیا نصرت کا آگ میں جلتا پانی نکل گیا میرے لن کو جال گیا نصرت پھڑکتی ہوئی ہینگتی ہوئی میرے جسم کو دبوچ کر تڑپنے لگی دو منٹ میں نصرت کا کام تمام ہو گیا نصرت کے اندر آگ لگی تھی نصرت نے آہیں بھرتی ہوئی میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی ہانپنے لگی نصرت کی گرم سانسیں میری سانوں سے گھتم گتھا تھیں میں بھی کراہ کر نصرت کو چوس رہا تھا نصرت ایک بار فارغ ہوکر بھی بے قابو تھی نصرت پیچھے ہوکر میرے سینے کو مسلتی ہوئی منہ آگے کیا اور ہانپتی ہوئی زبان نکال کر میرے سینے کو چاٹنے لگی نصرت کی جنونیت سے میں بھی مچل رہا تھا نصرت اپنی زبان دبا کر کراہتی ہوئی میرے سارے سینے کو دبا کر مسلتی ہوئی چوسنے لگی نصرت کا گورا جسم میرے کالے بدن سے لگ کر بن رہا تھا نصرت ہونٹ دبا کر میرے جسم پر مسل رہی تھی نصرت کی گرم سانسیں مجھے نڈھال کر رہی تھی نصرت اپنے ہونٹوں کو میرے جسم پر پھیرتی ہوئی چاٹ رہی تھی نصرت اپنا چہرہ میرے پسینے سے بھیگے بدن پر دبا کر مسلتی ہوئی میرے پسینے سے اپنا چہرہ تر کر لیا اور ہانپتی ہوئی دبا کر میرا سارا پسینہ چاٹ کر ہانپنے لگی میں بھی نصرت کی آگ سے تڑپ سا گیا نصرت پیچھے ہوئی میں نصرت کے موٹے تنے کر کھڑے مموں کو دبا کر ہاتھوں میں پکڑ کر مسلنے لگا نصرت کے ممے اکڑ کر سخت ہو رہے تھے نصرت کے موٹے گالبی نپلز اکڑ کر کھڑے تھے میں نصرت کے مموں کو مسل نپلز کو انگوٹھوں میں دبا کر مسلنے لگا جس سے نصرت کا جسم تھر تھر کانپ ے لگا اور نصرت مزے سے کراہ کر ہانپنے لگی میں نصرت کے ممے مسلتا ہوا آگے ہوا اور دونوں ممے باری باری چوسنے لگا نصرت کراہ کر ہاتھ نیچے کیا اور میرا لن کھول دیا میرا لن نصرت کی گرمی سے نڈھال ہوکر تن کر کھڑا تھا جیسے ہی شلوار اتری میرا بازو جتنا لن پھنکارتا ہوا شلوار سے باہر آسکر ہلنے لگا نصرت میرے بازو جتنے لن کو دیکھ کر ایک بار تو چونک کر بے اختیار پیچھے کو ہوگئی اور ہلکی سی چیخ مار کر دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر حیرانی سے میرے لن کو دیکھنے لگی نصرت پھٹی آنکھوں سے میرے لن کو دیکھ کر بولی اوئے ہالنی اماں میں مر جاواں کالو اے کی بالں لئی ودا ایں میں نصرت کو حیران دیکھ کر ہنس دیا نصرت نے آگے ہاتھ کیا اور میرے کو پکڑ لیا نصرت کے نرم ہاتھ کا لمس مجھے نڈھال کر گیا میں کراہ گیا نصرت سسک کر بولی افففف کالو ایڈا لما تے موٹا لن آج تک فلماں وچ وی نہیں ویکھیا اور نیچے بیٹھ کر مسلتے ہوئی دیکھ کر بولی کالو اے اصلی ہی ہے نان میں ہنس دیا نصرت کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنا بڑا لن ہے میں بوال نصرت چیک کر لئے نصرت بولی ہالنی اماں میں تے اے سارا لن لئے کے مر جاساں گئی نصرت سسکتی ہوئی بے قراری سے میرے لن کو مسل ہونٹ میرے لن پر مسلتی ہوئی میرے لن کو چومتی ہوئی بولی رہی ہالنی اماں میں صدقے جاواں کالو تیرے توں تیرے لن توں نصرت کی آنکھوں میں عجیب سی چمک اتر چکی تھی جیسے اس کی دلی خواہش پوری ہو گئی ہو نصرت بے قراری سے سسکتی ہوئی میرے لن کو ہونٹوں سے مسل کر چوم رہی تھی نصرت کے نرم ہونٹوں کا لمس مجھے نڈھال کر رہا تھا میں تڑپ کر کراہ رہا تھا نصرت آہیں بھرتی جا رہی تھی میں نصرت کی بے قراری پہ مر رہا تھا نصرت ہانپتی ہوئی منہ کھوال اور میرے لن کے ٹوپے کو دبا کر چوس لیا جس سے میں سسک گیا نصرت کے گرم منہ کا لمس میرے لن کو نڈھال کر رہا تھا نصرت لن چوس کر کراہ گئی اور بولی اففف کالو تیرے لن دا ذائقہ تے بہوں مزیدار اے میں سسک گیا نصرت نے ہاتھ آگے کیا اور میرے لن کو ناپا جو کہ نصرت کے بازو سے بھی بڑا تھا نصرت بولی ہالنی اماں میں مر جاواں کالو میں تے اے سارا لن پھدی اچ لیساں میں نصرت کے لن چوسنے سے نڈھال تھا نصرت بولی اے اگے کسے سارا لیا اے میں بوال نصرت سچی دسواں وہ بولی ہاں دس میں بوال تیری ماں لیا اے پورا لن نصرت کا منہ کھل گیا اور ہہہہاااں کالووو امی پورا لئے چکی میں بوال ہا ہک واری منہ آلو تے ہک واری پھدی آلو وہ بولی ہالنی اماں میں مر جاواں اماں تے کلی کلی ہی تیرے سواد لئے رہی واقعی امی پورا کیا میں سسک گیا نصرت ساتھ میرے لن کو مسل کر چاٹتی بھی جا رہی تھی جس سے میں تڑپ رہا تھا اور میری ہمت ٹوٹ رہی تھی نصرت کے منہ میں کوئی جادو تھا میں کراہ کر بوال ہا پورا کیا وہ بوال وت اس نوں کتھے تک گیا میں بوال پھدی آلو لگھ کے گلے تک اپڑ گیا ہا نصرت یہ سن کر مچل کر رہا گئی اور بولی ہالنی اماں کالو میرے اندر وی پورا جڑ تک مند دیوں کدی سواد آ جائے جیڈی آگ میرے اندر لگی مینوں تے اے وی تھوڑا لگ رہا اور آگے ہوکر میرے لن کے ٹوپے پر زبان پھیر کر چاٹتی ہوئی نیچے سے لن کو مسل کر جڑ تک جانے لگی اور ٹٹوں کے قریب پہنچ کر نصرت میرے ٹٹے چومتی ہوئی چاٹنے لگی میں نصرت کے انداز سے تڑپ کر مچل گیا اور کراہ گیا نصرت رکے بغیر منہ کھوال اور میرے ٹٹے دبا کر منہ میں بھر کر دبا کر چوسنے لگی نصرت کے منہ کی آگ میرے ٹٹے کو جال کر میری جان نکالنے لگی نصرت نے دبا کر ٹٹے چوس کر چھوڑ دیے اور اپنے ہونٹوں کو میرے لن کی جڑ پر سیٹ کرکے میرے لن کو دبا کر چوستی ہوئی اوپر لن کے ٹوپے کی طرف آتی ہوئی ہونٹ سے مسل کر چوسنے لگی نصرت کے انداز نے میرے اندر آگ لگا دی میں تڑپ کر کرال سا گیا گیا نصرت لن کو ہونٹوں سے چوس کر مسلتی ہوئی اوپر ٹوپے تک آئی اور منہ کھول کر میں لن کے ٹوپے کو دبا کر چوستی ہوئی اس پر زبان پھیر کر چتھنے لگی ساتھ ہی نصرت میرے لن کے سامنے بیٹھ کر میرے لن کو دونوں ہاتھوں میں دبا کر تیزی سے مسل کر میرے لن کو چوسنے لگی نصرت بھی میرے لن کی گرمی سے ہانپنتی ہوئی میری آنکھوں میں دیکھتی کراہنے لگی تھی نصرت کے نرم ہاتھوں کی رگڑ اور نصرت کے گرم منہ کی آگ نے مجھے نڈھال کرکے میری جان کھینچ لی میں تڑپ کر کرال گیا میری ٹانگیں کانپ گئی۔ اور بے اختیار مجھے لگا کہ میری جان لن کی طرف چل پڑی ہو میں تڑپتا ہوا کرال گیا اور بکا ہینگ گیا مجھ خود سمجھ نا آئی کہ میری ہینگ کیوں نکلی اگلے لمحے نصرت نے ہونٹ دبا کر زبان پھیری جس سے میرے اندر سے آگ لن کی طرف تیزی سے گئی اور میرے لن نے گاڑھی سفید منی ایک ایک لمبی دھار کس کر نصرت کے گلے میں ماری ساتھ ہی میری ہینگ بھی نکل گئی اور میں مزے سے تڑپنے لگا میری منی کی لمبی گاڑھی دھو ر نصرت کے گلے کو بھر کر نصرت کو بھی تڑپا گئی نصرت بھی بے اختیار آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور نصرت کیے گلے سے ایک لمبی غوووووووں نکل کر میرے لن دب گئی میری منی اتنی لمبی دھار تھی کہ نصرت کا منہ اور گلہ بھر گیا جس سے نصرت نے بے اختیار گلہ کھول کر غر گھٹا بھر کر میری منی کے دو گھونٹ بنا کر گلے سے پیٹ میں اتار دیے میری منی پیتے ہوئے نصرت کی کراہ نکل گئی اور نصرت کا سر ایک بار کانپ گیا نصرت کی آنکھوں میں پانی آگیا اور نصرت کی مزے سے آنکھوں میں اللی اتر آئی اسی لمحے میں تڑپ کر ایک اور لمبی منی کی دھار سیدھی نصرت کے گلے میں ماری اور نصرت کو تڑپا دیا نصرت بھی ہمت ہارنے بغیر میرے لن کو منہ میں ہاتھوں سے قابو کرکے میری منی نچوڑ کر پی رہی تھی نصرت کے منہ پینے کے انداز پر میں مر مٹا تھا نصرت تڑپتی ہوئی کراہ رہی تھی میں کراہتا ہوا نصرت کے گلے میں دو تین منٹ تک فارغ ہوتا رہا نصرت بھی میرے لن کو داب کر چوستی ہوئی نچوڑ گئی میں ہانپ کر تھک سا گیا نصرت کے اندر واقعی آگ لگی تھی جس نے مجھے نچوڑ دیاتھا میں تڑپ کر رہا رہا تھا نصرت ہانپتی ہوئی میرے لن کا دبا کر چوسا اور ہانپتی ہوئی کراہ کر لن چھوڑ کر بولی ہالنی اماں میں صدقے جاواں تیرے کالو تیری منی دا نمکین ذائقہ تے میرے اندر آگ ال گیا وے میں تے اس لن دی دیوانی ہوئی پئی آں اور لن دبا کر چوستی ہوئی مسلنے لگی میں مزے سے نڈھال ہو چکا تھا نصرت لن کو چومتی ہوئی اپنے چہرے پر اچھی طرح مسل کر لن کو پیار کرتی جا رہی تھی میں کراہ کر مچل رہا تھا نصرت نے دونوں ہاتھ میری گانڈ پر کسے اور جپھی کے انداز میں میرے لن کو باہوں میں دبا کر اپنا چہرہ اپنے گال اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسلتی ہوئی چاٹنے لگی نصرت اپنے ناک سے میرے لن کو مسل کر چومتی ہوئی پیار کر رہی تھی اور بولی اففف میرا شہزادہ میں تیرے صدقے واری جاواں آج توں میں تیری رکھیں توں میرا مالک افففف میری پھدی تیرے توں قربان جاوے میں نصرت کےا داز سے مچل رہا تھا کہا تنے میں دروازے پر ہارن بجا میں جلدی سے پیچھے ہو گیا اور نصرت بھی ہٹ گئی نصرت ہانپتی ہوئی میرے لن کو دیکھ رہی تھی میں نے شلوار اوپر کیا ور چاند کی نصرت ہیں بیٹھی ہوں رہی تھی میں باہر نکال اور دروازہ کھوال تو وہی مہمان تھے اتنے میں بہزاد آگیا اور مجھ سے بوال توں جا کم کر میں واپس اندر آیا تو نصرت ایسے ہی ننگی بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئی اور میرے گلے لگ کر مجھے چومنے لگی میں بوال نصرت بہزاد آگیا کپڑے پا لئے نصرت مچل کر بولی کالو میرا کجھ کر مینوں نہیں پتا میں بوال نصرت کجھ کردے آں پر ہنڑ کپڑے پا نصرت تو میری دیوانہ ہو چکی تھی وہ بولی کالو بس میری پھدی اندر سے لن ٹپا کیویں میں مر جاساں گئی میں اسے چومنے لگا اور کچھ دیر بعد اسے کپڑے پہنائے پھر ہم کام کرنے لگے نصرت تو میرے لن کو دیکھ کر بے قابو ہو رہی تھی بار بار میرے ساتھ لگ رہی تھی مجھے باہوں میں بھر کر چوم رہی تھی میں جھجھک رہا تھا کہ بہزاد یہیں تھا لیکن نصرت نہیں ہٹ رہی تھی میں نصرت کو چوم رہا تھا میں نے وہیں کھڑے کھڑے نصرت کو انگلی سے فارغ کیا تو نصرت کچھ سنبھلی اتنے میں بہزاد اندر آیا وہ بوال کام ختم ہو چکا ہے میں بوال ہاں جی وہ بوال چل نصرت چلئیے نصرت کچھ نا بولی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ میرے پاس ہی رہنا چاہ رہی ہو پر پھر وہ بہزاد کے ساتھ چلی گئی میں کام کرنے لگا شام سے کچھ پہلے میرے فون پر نصرت کی کال آگئی میں نے کال اٹینڈ کی تو نصرت چہک کر بولی میں صدقے جاواں میری جان میں ہنس دیا نصرت بولی کالو تینوں نہیں پتا میں کیڈی خوش آں میں ہنس دیا پیچھے سے آنٹی بولی کالو نصرت نوں کی ویکھایا ہئی اس دے تے پیر ہی زمین تے نہیں لگ رہے میں ہنس دیا کہ نصرت نے آنٹی رفعت کو بھی بتا دیا ہے اچھا ہی ہوا جو نصرت اور آنٹی کے درمیان پردہ نہیں رہا میں۔ بوال آنٹی او ہی ویکھایا جہڑا تینوں پایا اے آنٹی ہنس دی نصرت بولی کالو مینوں کدو پا رہیا ایں میں ہنس دیا آنٹی بولی نصرت دو دن ٹھہر جا ہنڑ نصرت بولی امی کیوں ہنڑ رہیا نہیں جا رہیا جس ٹائم دا کالو دا لن ویکھیا اے پھدی دا منہ کھال ہی اے آنٹی ہنس دی اور بولی صبر کر جا نصرت نصرت بولی امی کیوں آنٹی بولی کالو دے لن نوں کجھ ہور لما کر لواں نصرت ہنس دی اور بولی امی آگے تھوڑا لمبا اے آنٹی بولی نصرت میرے تے گلے تک آیا ہے میں تے پھدی آلو لئے کے منہ آلو کڈھنا ہے۔ نصرت ہنس کر ہا نی اماں میں مر جاواں میرے کولو تے صبر نہیں ہو رہیا آنٹی پیچھے آکر بولی نصرت ہنڑ کالو تیرا ہی ہے کیوں پریشان ہو رہی ایں نصرت بولی پر امی کالو بھائی ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)( ہنٹر سٹوری چور)کتے بہزاد توں ڈردا پیا اے میں تے آکھیا ے توں مینوں لئے کے نس جاویں اگر اہناں نوں پتا لگ گیا تے رفعت بولی وے کالو نا ڈر میرے ہوندیاں کجھ نہیں ہوندا اگر پتا لگ وی گیا تے دوویں نس جاویائے نصرت ہنس دی اور بولی میری جان ہنڑ تے ٹھیک اے ناں نیں ہنس دیا اور بوال ہال ٹھیک ہے میری جان نصرت ہنس دی میں نے کال کاٹ دی اور دودھ چو کر گھر لے گیا تو آنٹی نے مجھے دودھ گرم کرکے اس میں گری بادام اور دوائی مال کر دوسری دوائی کھال دی اسوقت نصرت کی بہنیں اندر تھیں آنٹی مجھے بیٹھی میں کوئی اور مجھے لٹا کر میرا لن نکال کر ڈانڈے کے تیل سے اچھی طرح دونوں ہاتھوں سے مالش کی کہ میں کراہ کر مچل گیا آنٹی نے مالش کرکے مجھے کھانا دیا اور بولی جدو تک دوائی کھا رہیا ایں نصرت دے نیڑے نا جائیں میں ڈیرے پر آکر سو گیا صبح اٹھا تو مجھے دو تین انچ تک لن بڑھا ہوا محسوس ہوا ساتھ میں اندر کی طاقت بھی کافی بڑھی ہوئی تھی اگلے دو تین دن مزید دوائی سے میرا لن ایک فٹ تک بڑھ چکا تھا میں بھی حیران تھا کہ آنٹی پوری تجربہ کار تھی لن کو بڑا کرنا جانتی تھی میں خوش بھی تھا دو تین دن تک نصرت کو آنٹی نے ڈیرے نہیں بھیجا کس طرح نصرت کو قابو کیا یہ میں نہیں جانتا لیکن ان دو تین دنوں میں نصرت ہر وقت مجھ سے فون پر باتیں ہی کرتی رہتی تھی اپنی بہنوں کے سامنے بھی میرے ساتھ باتیں کرتی رہتی تھی ب تو سب کو پتا چل چکا تھا کہ میں نصرت کا یار ہوں تین چار دن کے بعد اگلے دن ایسے ہی میں کسی کام سے گھر گیا میں نے دروازہ کھوال تو آنٹی رفعت نے دروازہ کھوال مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں اندر داخل ہوا تو نذیراں بھی بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی آؤ جی کالو جی سانوں وی لفٹ کروا دیو تھواڈیاں بڑیاں تعریفوں سنیاں ہینڑ میں ہنس دیا اور بوال تسی آپ ہی مصروف ہو نذیراں ہنس دی اور بولی کالو تیرے پیو تے باجی رفعت نوں اوالد دتی ہے ہنڑ توں مینوں اوالد دینی اے میں نے ہنس کر رفعت کو دیکھا تو رفعت بولی نذیراں سہی آکھ رہی اے ہلے تک بچہ کوئی نسو میں بوال کیوں ابے اس نوں نہیں دتا وہ بوال نہیں اس تے بڑی واری مینوں آکھیا ہر میرا دل ہا اپنے بندے دا جمن تے پر او میرا گھر آال ہی نامرد اے ہنڑ میں سوچیا اے کہ توں مینوں بچہ دے میں ہنس دیا اور بوال جناب اسی تے حاضر ہاں رفعت مجھے باہوں میں بھر کر چومنے لگی میں بھی رفعت کو دبا سینے سے لگا کر چومنے لگا رفعت نے میرا نال کھول دیا اور میرا گھٹنوں تک لٹکا لن نکال کر مسلنے لگی نذیراں میرا لن دیکھ کر مچل گئی اور بولی آف ااماااں میں مر جاواں ایڈا وڈا لن وے اے کدو لیا ہئی اور قریب آکر لن کو چومنے لگی میں سسک کر کرہا گیا دونوں بہنوں نے لن دبا کر کس کر چوس کر کھڑا کر دیا رفعت اور نذیراں لن دیکھ کر حیران ہوئی اور رفعت بولی کالو لن تے چنگا وڈا ہو گیا اے میں سسک کر کراہ گیا رفعت بولی چل اندر چلیے وہ مجھے لے کر اندر چلی گئی اور لن کو مسل کر چوسنے لگی رفعت اٹھی اور ننگی ہو کر بیڈ پر لیٹ کر منہ نیچے لٹکا لیا اور بولی کالو پہلو لن میرے منہ آلو پا کے پھدی آلو کڈھ لئے میں خود بھی مچل کر سسک گیا کافی دنوں سے بٹ تھا اب میں بھی مچل گیا تھا میں نے لن نکاال رفعت نے منہ کھول کر میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا چوس لیا میں سسک کر کراہ گیا اور ہاتھ بیڈ پر رکھ کر زور لگا کر لن رفعت کے گلے میں اتار دیا جس سے رفعت کراہ کر کانپ گئی لن رفعت کے گلے میں اتار کر میں سسک کر کراہ گیا میرے اندر کی آگ نے مجھے نڈھال کر دیا میں نے گانڈ کھینچ کر دھکا مار لن رفعت کا گلہ کھول کر رفعت کے سینے میں اتر گیا لن نے پہلے بھی راستہ بنا رکھا تھا جس سے لن رفعت کے سینے میں آرام سے اتر گیا رفعت کراہ کر بکانے لگی اور ہینگنے لگی میں سسک کر کراہ گیا اور بے اختیار لن کھینچ کر دھکا مارا جس سے لن رفعت کے ہاں کو کھول کر رفعت کی بچہ دانی میں اتر گیا رفعت کی چیخ نکل گئی اور رفعت بااں بااااں کرتی چیخ کر پھڑکنے لگی میں سسک کر کراہ گیا میں نے رکے بغیر گانڈ کھینچ کر دھکا مارا جس سے لن پورا جڑ تک رفعت کے منہ کو کھول کر پورا جڑ تک گھس کر رفعت کو درمیان سے چیرتا ہوا رفعت کی پھدی سے باہر نکل آیا لن رفعت کی پھدی سے باہر نکلتے ہی میں تڑپ کر کرال گیا رفعت پھنکارنے لگی اور ہینگتی ہوئی پھڑکنے لگی میرا لن رفعت کے منہ میں جڑ تک گھس کر کافی سارا رفعت کی پھدی سے باہر نکل آیا رفعت کی پھدی کھلتی بند ہوتی میرے لن کو دبوچنے لگی میں پہلے ہی بھرا پڑا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا میں لن کھینچ کھینچ کر دھکے مارتا ہوا لن رفعت کے منہ کے اندر باہر کرتا ہوا رفعت کو چودنے لگا میرا لن منہ سے گھس کر رفعت کی پھدی کے اندر باہر ہونے لگا میں سسک کر کرال کر بکا گیا نذیراں میرا لن رفعت کے منہ سے گھس کر پھدی سے نکال دیکھ کر چونک گئی وہ بھی کپڑے اتار کر رفعت کی پھدی کی طرف آئی اور پھدی سے نکال لن منہ میں بھر کر دبا کر چوسنے لگی میرالن رفعت کے اندر پھرتا ہوا پھدی سے نکل کر نذیراں کے منہ میں جا رہا تھا دونوں بہنوں کی گرمی کے سامنے میں ایک منٹ بھی نا ٹھہر پایا اور تڑپ کر بکا کر جھٹکے مارتا ہوا لن رفعت کے منہ سے گھسا کر رفعت کی پھدی سے پار کرکے نڈھال تھا پھدی سے نکلے لن کو نذیراں دبا کر چوستی ہوئی کرا گئی میں تڑپ کر بکا کر نڈھال ہوگیا اور میرا لن جھٹکے مارتا رفعت کی پھدی سے ہوتا نذیراں کے منہ میں فارغ ہوگیا جس سے میں کراہ کر رفعت کے اوپر گر گیا نذیراں میری ساری منی نچوڑ کر پی گئی میں سکتا ہوا کراہ گیا اور اوپر ہو کر لن رفعت کے منہ سے کھینچ کیا رفعت بکا کر ہینگتی ہوئی پھڑکنے لگی اور دوہری ہوکر تڑپنے لگی میں کراہ کر گر گیا نذیراں رفعت کو سنبھالنے لگی میں لیٹ گیا میرا لن تن کر کھڑا تھا نذیراں رفعت کو سنبھال کر میرے لن کے پاس آئی اور پن دبا کر مسلنے لگی نذیراں کا جسم بھی بہت ہی سیکسی تھا نذیراں کے موٹے تنے کر کھڑے ممے باہر کو نکلی گانڈ قیامت ڈھا رہی تھی نذیراں کا سیکسی جسم اور سانوال رنگ قیامت ڈھا رہا تھا میں کراہ کر مچل گیا نذیراں کو دبا کر میرے لن کو مسل رہی تھی میرا لن تن کر کھڑا تھا میں بے قرار ہو کر اٹھا اور نذیراں کو پکڑ کر لٹا دیا نذیراں نے خود ہی ٹانگیں اٹھا لیں نذیراں کی موٹے ہونٹوں والی کھلی پھدی کھلتی بند ہوتی جا رہی تھی میں نے پیچھے ہو کر لن نذیراں کی پھدی سے ٹچ کی اور کھینچ کر دھکا مارا جس سے میرا لن نذیراں کی پھدی کو چیر کر کھولتا ہوا اندر اتر گیا جس سے نذیراں ارڑا کر بکا گئی نذیراں پہلے ابے کا لن لیتی تھی جو نذیراں کے سینے تک جاتا تھا اس لیے میں نے دھکا مارا اور ایک دھکے میں پن نذیراں کے سینے تک اتار دیا جس سے نذیراں تڑپ کر اچھلی ر بکا کر پوری شدت سے ارڑا کر چیختی ہوئی حال حال کرنے لگی نذیراں کا جسم پھڑکنے لگا اور ہاتھ اٹھا کر مجھے روکنے لگی رفعت نذیراں کو پھڑکتا دیکھ کر اٹھی اور نذیراں کو سنبھالنے ہوئی بولی نذیراں ہمت کر کجھ نہیں ہوندا اور مجھے آنکھ ماری میں نے پیچھے ہو کر دھکا مارا اور اپنا سارا زور نذیراں کے اوپر ڈال کر لن دبا دیا جس سے میرا لن نذیراں کا سینہ کھول کر ہاں میں اتر گیا جس سے نذیراں تڑپ کر اچھلی اور بکا کر چیختی ہوئی بااں باننں کرتی ارڑانے لگی میں نذیراں کے سینے میں لن اتار کر سسک گیا اور بے اختیار لن کھینچ کر دھکا مارا جس سے میرا لن نذیراں کا سینہ چیر کر پھاڑتا ہوا سیدھا نذیراں کے گلے میں اتر گیا جس سے میرے لن نے نذیراں کی آواز دبا لی اور نذیراں تڑپ کر پھڑکتی ہوئی غووووں غووووں کرنے لگی نذیراں کا منہ فل کھل گیا اور چہرہ کا سرخ ہوگیا رفعت نذیراں کا سینہ دبا کر مسلتی ہوئی نذیراں کو سنبھالنے لگی نذیراں کے جسم نے میرا لن دبوچ کر مسل رکھا تھا جس سے میں مزے سے تڑپ کر مر رہا تھا نذیراں تھر تھر کانپتی مر رہی تھی نذیراں کا جسم پھڑک رہا تھا میں کراہ کر کرال رہا تھا مزے سے میرا بھی حال برا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے گانڈ کھینچ کر کس کر دھکا مارا اور لن جڑ تک نذیرا کی پھڈی میں پار کر دیا میرا بازو سے بھی بڑا لن نذیراں کی پھدی پھاڑ کر نذیراں کا سینہ چیر کر گلے کو نذیراں کے منہ کا کھول کر نذیراں کے منہ سے کافی سارا باہر نکل آیا نذیراں کے منہ سے باہر نکال میرا لن نذیرا کے تھوک وغیرہ سے لتھڑا ہوا تھا میں نذیراں کے منہ سے لن باہر نکال دیکھ کر تڑپ کر مچل گیا تھا رفعت نذیرا کے منہ سے باہر نکلے میرے لن کو ہاتھ میں بھر کر مسل کر لن پر لگی تھوک مسل دی میں پہلے ہی کرا کر نڈھال ہو رہا تھا میں لن نذیراں کی پھدی میں جڑ تک گھسا کر پورے جسم سے گزار کر منہ سے نکال کر کراہ رہا تھا لن کو نذیرا کے جسم نے دبوچ رکھا تھا جس سے میں کانپنے لگا نذیراں بھی بلبال کر ہینگتی ہوئی پھڑپھڑا رہی تھی رفعت بولی کالو جلدی فارغ ہو نذیراں کولو لن برداشت نہیں ہو رہیا میں سسک کر لن کھینچا اور دھکے مارتا نذیرا کوں چودنے لگا نذیرا پھڑپھڑا کر تڑپتی ہوئی ہینگنے لگی میرا لن نذیراں کی پھدی چیر کر اندر باہر ہوتا نذیراں کے منہ سے نکل کر اندر باہر ہو رہا تھا جسے رفعت منہ میں بھر کر دبا کر چوسنے لگی میں یہ دیکھ کر مچل کر نڈھال ہوگیا میرا لن نذیراں کی پھدی سے منہ تک اندر ہوتا نذیراں کے منہ سے نکل کر رفعت کے منہ میں جا رہا تھا جسے رفعت دبا کر چوس رہی تھی جس سے میں مزے سے تڑپ کر کرال گیا رفعت ہونٹ دبا کر نذیراں کے منہ سے نکلے لن جو چوس کر مجھے نڈھال کر گئی میں تڑپ کر کرالتا ہوا کراگیا اور میری ہمت ٹوٹ گئی جس سے میرے لن نے ایک لمبی منی کی دھار ر رفعت کے منہ میں مار کر رک گیا جس سے رفعت تڑپ کر کراہ گئی لن نچوڑ کر پینے لگی نذیراں جو میرے لن کے گھروں سے تڑپ کر پھڑک رہی تھی میرے لن کی رگڑ سے چیختی ہوئی ہینگ کر بے ہوش چکی تھی میں تڑپ کر رفعت کے منہ میں فارغ ہوگیا رفعت منی چوس کر پیچھے ہوئی اور نذیرا کو بے ہوش دیکھ کر بولی کالو لن کڈھ کئے میں نے اوپر ہوکر لن نذیرا کی پھڈی سے کھینچ کیا جس سے لن نذیراں کے منہ سے ہو کر نذیرا کی پھدی سے نکل گیا جس سے نذیراں ارڑا کر پوری شدت سے چیخی اور ارڑا ارڑا کر تڑپنے لگی رفعت نذیراں کو سنبھالنے لگی نذیراں کا جسم پھڑک رہا تھا رفعت نذیراں جو دبا کر مسلتی ہوئی سنبھال رہی تھی میں پاس ہی نڈھال پڑا تھا نذیراں چیختی ہوئی ہینگتی ہوئی کراہنے لگی میں اٹھا اور واشروم چال گیا میرے اندر عجیب سی تبدیلی آ چکی تھی میں کراہ کر مچل رہا تھا میں جنونی سا ہو رہا تھا میں تڑپ کر مچل رہا تھا میری بھوک ابھی تک مٹی نہیں تھی میرا دل کر رہا تھا کہ کوئی سامنے آئے اور پھڑ دوں نذیراں کو میں پھدی سے لن گھسا کر منہ سے نکال کر چیر تو چکا تھا میں واشروم سے نکال اور اندر آیا تو رفعت نذیراں جو سنبھال رہی تھی نذیراں پڑی ابھی تک پھڑک رہی تھی اور آہیں بھرتی ہینگ رہی تھی میرا دل تو تھا کہ رفعت کو بھی اسی طرح پھاڑ کر رکھ دوں پر بہزاد کا فون آیا ڈیرے پر آو میں کپڑے ڈال کر ڈیرے پر چال گیا۔ میں ڈیرے پر آکے کام کرنے لگا لن نذیراں اور اس کی بہن کی پھدیوں میں ڈال کر عجیب سی آگ لگ چکی تھی میں نے کم ختم کیا کہ اتنے میں نصرت کی کال آگئی میں نے کال اٹینڈ کی جس سے سامنے نصرت اور اس کی بہن سونیا دونوں مجھے اکھٹی نظر آئیں سونیا مجھے دیکھ کر ہنس دی وہ بھی دوپٹے کے بغیر تھی نصرت بولی میں صدقے جاواں کالو آج تے میرا یار سوہنا لگ رہیا اے میں ہنس دیا اور بوال جی میری جان آج توں وی سوہنی لگ رہی ایں نصرت بولی مینوں اپنی بیگم سدیا کر ہنڑ میں ہنس دیا اور بوال اچھا بیگم جی سوہنی لگ رہی ہیں نصرت سسکار کر بولی اففف سسسسی میرے یاراااا میں تے تیرے واسطے موئی پئی آں نصرت ہنس دی سونیا بھی ہمیں دیکھ کر مسکرا رہی تھی میں بوال آج نواں پیس لئے آئی نصرت ہنس دی اور بولی تمیز نال تیری سالی اے میں ہنس دیا اور بوال اچھا بیگم صاحبہ تمیز نال کی ہنڑ میری سالی اے میں مذاق نہیں کر سگدا نصرت بولی مذاق کر پر اپنی سوانی دے سامنے تے الئن ناں مار اس نوں پچھے ماردا رہویں میں ہنس دیا نصرت سونیا بھی ہنس دیں اور بولی اے آکھ رہی ہا کہ تیرے یار نال میں وی گل بات کرنی میں بوال جناب کراؤ نوں وہ ہنس دی اور بولی سوہنیا جتھے زنانیاں ویکھدا این پاگل ہو جاندا ایں صبر وی کیتا کر اور ہنس دی میں بھی ہنس دیا نصرت بولی سالی صاحبہ نوں سالم کرو جناب میں ہنس دیا اور سالم کیا سونیا نے جواب دیا اور بولی سناؤ جی بہنوئی صاحب کی حال اے میں بوال ٹھیک ہاں توں سنا وہ بولی میں وی ٹھیک آں تے اے دسو جناب کہ ساڈی بھین نوں خوش وی کردے ہو یا بس اتو اتو ہی اور دونوں ہنس دیں میں سمجھ گیا کہ نصرت اپنی بہنوں سے سب شئیر کرتی ہے میں بوال خوش تے ہلے اس نوں کرنا اے سونیا بولی تے کرو ناں اس نوں اے تے مسیں ودی اے تیرے کانڑ میں اس بات پر چونک گیا سونیا مجھے دیکھ کر بولی وے ناں پریشان ہو سانوں پہلے دن دا پتا ہے جدو توں پہلے دن آیا ہائیں تے نصرت تاں اودو ہی تیرے تے مر مٹ گئی ہا میں چونک سا گیا اور بوال اچھا جی وت اس تے مینوں دسیا ہی نہیں وہ بولی میں جے دس رہی آں ویسے اے دس نصرت نال سہاگ رات کدو منانی ہئی میں بوال جدو تسی اکھو وہ ہنس دی اور بولی آج ہی منا لئے بیچاری مسیں ودی اے روز رات نوں تینوں یاد کر کے سسکتی رہندی میں ہنس دیا اور بوال توں سفارش کرن آئی ایں وہ بولی ہا تے ہور کی میں جاننڑدی آں اس دی حالت میں بوال جناب ہنڑ اگاں روز رات نوں اے میرے کول میری باہواں اب ہی ہوسی نصرت چونک کر بولی سچی کالو توں سچ آکھ رہیا ایں میں بوال تے ہور کی اتنے میں پیچھے سے آنٹی کیچن میں آئی اور ان کر بولی کالو لئے جا اس اپنی بیگم نصرت نوں اپنے کول ہی رکھی رکھ سانوں تے اے کھا گئی میں ہنس دیا اور بوال کیوں کی آکھدی آنٹی بولی آکھنا کی ہیس روز آکھدی کہ مینوں کالو کول گھل آج لئے جا اسدی سدھر الہ میں ہنس دیا اور بوال آنٹی جیویں توں آکھنا نصرت ہنس کر بولی وے ہک گل دس اے میں کی سن رہی آں میں بوال کی توں اج ماسی نذیراں نوں پاڑ دتا اے میں ہنس دیا اور بوال تیری ماں مینوں تے آکھیا کیوں چنگا نہیں کیتا سونیا یہ سن کر ہنس رہی تھی نصرت بولی نہیں چنگا کیتا ہئی او وی مسیں ودی ہا آنٹی پیچھے سے بولی اس دی پھدی دا سہی کچومر کڈھیا کالو کوئی کم دا لن اس وی نہیں لیا آج کالو سہی پھدی کھولی اے اے ہنڑ جا کے سنبھلی اے یہ سن کر نصرت بولی ہالنی اماں کے ماسی دا اے حال ہویا اے تے کالو میرا کی حال کرسی میں تے ہلے فل کواری تے سیل پیک آں آنٹی ہنس دی اور بولی کجھ وی نہیں ہوندا تیرے اچ تے آگ ہی بڑی ہے توں برداشت کر جاسیں گئی میں ہنس دیا سونیا بھی ہنس دی اور بولی باجی تیرا آج پتا لگسی انج تے توں ساڈی ساریاں بھیناں دے قابو نہوں آندی میں ہنس دیا سونیا بولی کالو اسی ساری بھیناں تھک جاندیاں آں اے نہیں تھکتی نصرت ہنس رہی تھی میں بوال کیویں سونیا ہنس دی اور بولی ہنڑ تیرے توں کی لکانا اسی ساریاں راتیں اپنی آگ ٹھڈی کردیاں ہاں اسی تھک جاندیاں پر نصرت دی آگ نہیں تھکن دیندی میں ہنس دیا آنٹی بولی اسدا عالج کالو دس لن ہی کرسی میں بھی حیران تھا جو سمجھ رہا تھا کہ باقی بہنیں ٹھیک ہوں گی پر سونیا تو بغیر جھجھک کے میرے ساتھ گندی باتیں کر رہی تھی میں مچل سا گیا تھا کہ ساری بہنیں میرے نیچے مزے لیں گی میں یہ سوچ کر مچل گیا اتنے میں بہزاد حویلی میں آگیا میں نے کال کاٹ کر کام پر لگ گیا میں نے شام کو دودھ دوہا اور لے کر گھر کی طرف چل پڑا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سعدیہ نے دروازہ کھوال جیسے ہی میں اندر داخل ہوا تو سعدیہ مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا سعدیہ دوپٹے کے بغیر ہی تھی جس سے سعدیہ کے ممے باہر کو نکل کر نظر آ رہے تھے ساری بہنیں ایک سے بڑھ کر ایک تھیں میں اندر داخل ہوا تو سعدیہ بولی جناب سناؤں وی ٹائم دے دیو سارا وقت باجی تے امی تے ہی خرچ کر دیندے ہو اسی وی اس گھر اچ ہی وسدے ہاں میں اس کی بات سن کر ہنس دیا میں نے جائزہ لیا تو مجھے کوئی نظر نہیں آیا شام سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا میں مسکرا کر بوال جناب تسی نظر ہی آج آئے ہو سعدیہ مسکرا کر بولی جناب تھواڈی نظر امی تے باجی توں ہٹے تے ساتھے پوے میں ہنس دیا اور بوال تیری باجی کدائیں ونجن ہی نہیں دیندی وہ ہنس دی اور بولی چلو آج تے اسی تینوں مل اگدیاں ہاں نا آج باجی تے امی دوویں کوئی نہیں میں بوال کیوں کدے گیاں سعدیہ بولی امی ماسی آل گیاں ہینڑ میں یہ سن کر آگے کیچن کی طرف چل پڑا وہ ہنس کر بولی جیویں تینوں نہیں پتا میں ہنس دیا اور بوال مینوں کی پتا سعدیہ بولی ماسی نذیراں دا توں ہی حشر نشر کیتا ہے ہنڑ بنڑ رہیا ایں میں اندر کیچن میں داخل ہوا تو سونیا مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی کالو اس دا مطلب توں تے بڑا بے وفا ہیں میں نے اندر جا کر دودھ رکھا اور بوال ہنڑ میں کی کیتا سونیا ہنس کر بولی ماسی نذیراں نال جو کیتا ہئی اس توں بعد مکر گیا ہیں سعدیہ ہنس کر بولی باجی اس دا مطلب کل نوں سے ساڈت توں مطلب کڈھ کے آکھسی تسی کونڑ میں نہیں جانڑدا میں سعدیہ کی بات سے سمجھ گیا تھا کہ سب کو پتا چل گیا ہے اس لیے اب میں بھی پیچھے نا ہٹنے کا فیصلہ کیا اور آگے بڑھ کر سعدیہ کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا سعدیہ بوکھال سی گئی اور میرے بازو کو پکڑ کر چھڑواتی ہوئی بولی وے کالو کی کرو ہیں چھڈ دے مینوں اور پیچھے کو چھڑوانے لگی میں بھیا جانتا کہ جان بوجھ کر بن رہی ہے میں نے زور سے جھسا مار کر سعدیہ کو اپنی طرف کھینچ لیا سعدیہ لڑھکتی ہوئی سیدھی میرے سینے سے آلگی اور اپنے اٹھے ہوئے ممے سیدھے میرے سینے پر زور سے مارے جس سے دھب کی آواز آئی اور سعدیہ کے موٹے ممے میرے سینے میں دب گئے ساتھ ہی سعدیہ کے اندر سے بکاٹی بھی نکلی اور وے بولی ہالنی اماں میں مر گئی افففففففف کالوووووو میرا ہاں ہی ہال دتا ہئی اور مجھے خود ہی باہوں میں بھر کر جپھی میں دبا کر بولی ہالنی اماں میں تے اس موقعے واسطے مردی ودی ہاس کہ کدو کسی مرد دے سینے لگ کے اپنے ممے اس دے سینے اچ کھبا دیواں یہ کہ کر سعدیہ نے جپھی کس کر مجھے دبوچ کر اپنے ممے میرے سینے میں دبا کر سسکنے لگی سعدیہ ہے ممے میرے سینے میں فل دب سے گئے میں سسک گیا سعدیہ نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے وڑ کر چوس لیے میں بھی سعدیہ کو دبا کر چوسنے لگا سعدیہ اپنے ممے دبا کر سسکتی ہوئی کراہ کر میرے ہونٹ چوسنے لگی میں سعدیہ میں مگن تھا سعدیہ مجھ میں مگن تھی سعدیہ پیچھے ہوئی اور میری شرٹ کھینچ کر اتار دی جس سے میں ننگا ہوا گیا سعدیہ میرا ننگا جسم دیکھ کر سسک گئی اور ہاتھ پھیر کر سسک کر بولی ہالنی اماں مر جاواں کیڈا سوہنا پنڈا اے تیرا کالو اور آگے ہوکر میرے سینے کو چومنے لگی اتنے میں سونیا آگے آئی تو وہ قمیض اتار کر ننگی ہو چکی تھی سونیا کے تن کر کھڑے اکڑ ممے قیامت لگ رہے تھے میں یہ منظر دیکھ کر مچل گیا سونیا بولی کالو ساڈی واری تے باجی نصرت توں بعد انی اے پر اپنا ننگا جسم سادے ننگے جسم نال مال کے سانوں کجھ تے ٹھنڈا ہوونڑ دے سعدیہ سسک کر بولی ہالنی باجی مینوں تے دسدی اور کھٹ سے وہ بھی اپنا قمیض اتار کر ننگی ہونے لگی میں دو گرم جوانیوں کے بیچ خود کو پا کر تڑپ سا گیا تھا میں سونیا سے بوال میری جان روکیا کس ہے تینوں اور سونیا کو ایک ہاتھ کی جپھی میں بھر کر سینے سے لگا لیا دوسری طرف سعدیہ میرے ساتھ لگ گئی دونوں بہنیں میرے سینے سے لگ گئی اور دونوں ہی میرے ہونٹوں کو دبا کر چوستی ہوئی سسکنے لگیں میں کراہ گیا دونوں کے ہونٹ دونوں طرف سے سے میرے ہونٹوں کو چوس رہے تھے دونوں کے ہونٹ ایک دوسرے سے مل کر چوس رہی تھی میں کراہ سا گیا دونوں میری گالیں چومتی ہوئی اپنی ممے میرے سینے سے لگا کر مسل کر کراہنے لگی دونوں کی کراہوں سے کیچن گونج رہی تھی میں کراہ کر مچل گیا تھا دونوں بہنیں میرے ہونٹ دبا کر چوس رہی تھی سعدیہ نے میری زبان ن کھینچ لی میں نے زبان باہر نکالی تو سعدیہ نے ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس کر ہونٹ میری زبان پر دبا کر اس کو ہونٹوں سے مسلنے لگی میں سعدیہ کے انداز سے سسک گیا سونیا نیچے میرا سینہ چاٹ رہی تھی میں دونوں کی ننگی کمر دبا کر مسل کر سسک رہا تھا سونیا اوپر ہوکر سعدیہ کے ساتھ مل کر میرے زبان جو دبا کر چوس رہی تھیں سعدیہ نے میرے ہونٹوں کو دبا کر چوس لیا اور اوپر ہوکر دونوں سعدیہ اور سونیا میرے زبان کو دونوں طرف سے اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوسنے لگیں جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا دونوں کے انداز سے لگ رہا تھا کہ دونوں کتنی ترسی ہوئی ہیں میں کراہ کر مچل گیا دونوں سسک کر بولیں کالو ہک واری ساڈے سارے جسم تے ہتھ پھیر یہ کہ ہر دونوں یچھے دیوار کے ساتھ لگ کر اپنے ممے ہوا میں اٹھا کر کھڑی ہو گئیں میں سعدیہ اور سونیا کے ممے ہاتھوں میں بھر کر دبا کر مسلتا ہوا رگڑنے لگا سعدیہ اور سونیا میرے ہاتھوں کو جسم پر محسوس کرکے مچل سی گئیں اور کراہ کر مچلنے لگی دونوں کی کراہوں سے کمرہ گونج رہا تھا میں دونوں کے پورے ننگے جسم کو چھو کر مسل رہا تھا سعدیہ بولی کالو ممے ہتھ اچ پھدی کے چنگی طرح گھٹ میں نے دونوں کے ممے ہاتھوں میں پکڑ کر کس کر دبا دئیے دونوں کے ممے تن کر اکڑ کر سخت ہو رہے تھے میرے دبانے سے نصرت کراہ کر مچل کر کرال سی گئی اور آہیں بھرتی ہینگ سی گئی میں رکے بغیر زور لگا کر دونوں ہاتھوں سے سعدیہ کے ممے دبا کر پوری شدت سے دبا کر مسل دیے جس سے سعدیہ تڑپ کر کرال گئی سعدیہ کا جسم بے اختیار زور سے کانپنے لگا اور سعدیہ ہانپتی ہوئی آنکھیں بند کرکے ہینگ سی گئی اور ساتھ ہی سعدیہ کی گانڈ زور سے کانپ گئی سعدیہ کے دونوں ہاتھ پیچھے دیوار پر لگ گئے ساتھ ہی سعدیہ زور زور سے سانس لیتی ہانپنے لگی اگلے لمحے سعدیہ کی چیخ نکلی اور سعدیہ کی ہمت جواب دے گئی جس سے سعدیہ کی پھدی پچ پچ کرتی پانی چھوڑ گئی ساتھ ہی سعدیہ بکا کر ہینگ سی گئی میں سمجھ گیا کہ ساری بہنیں آگ میں جل رہی تھیں سعدیہ پھڑکتی ہوئی کرالتی فارغ ہوکر نڈھال ہو گئی میں سسک کر کرا رہا تھا سونیا مجھے دیکھ کر مچل کر میرے سینے سے آلگی اور اپنے ننگے ممے میرے سینے میں دبا کر مسلنے لگی میں سونیا کے ممے سینے میں محسوس کرکے سسک گیا میرا لن تن چکا تھا جسے سونیا نے چڈوں کے کر دبوچ لیا سعدیہ آگے آئی اور پیچھے سے مجھے جپھی میں بھر کر اپنے ممے میرے ننگی کمر پر مسل کر سسکنے لگی میں بھی کرہا کر مچل رہا تھا سونیا میرے لن کو چڈوں میں کے کر بوکھال گئی اور لن پھدی پر دبا کر تیز تیز جھٹکے مارتی لن کو مسلنے لگی جس سے سونیا دو منٹ میں کرال کر فارغ ہوکر نڈھال ہو گئی میں بھی سو یا کی آگ محسوس کرکے مچل سا گیا اور آہیں بھر کرکے بے قابو ہونے لگا مجھے گرمی فل چڑھ گئی تھی سعدیہ پیچھے سے بولی کالو سنیا ہے تیرا لن بڑا ظالم ہے سانوں وکھا تے سہی میں سسک کر بولی میری جان ہنڑ میری ہر شئے تھواڈی اے سعدیہ میرا ناال کھول چکی تھی سونیا پیچھا ہوکر میری شلوار گرا دی جس سے میرا بازو سے بھی بڑا لن ننگا ہوکر لہرانے لگا جس کو دیکھ کر سعدیہ اور سونیا کراہ کر مچل کر بولیں اوئے ہالنی اماں میں مر گئی کالو اے تے بہوں وڈا اے اور آگے ہتھ کرکے مسلنے لگی میں بھی کراہ کر مچل سا گیا سونیا میرے لن کو آگے سے مسل رہی تھی سعدیہ پیچھے سے دونوں کے گورے ہاتھوں میں میرا کاال لن چمک رہا تھا جسے میں مچل رہا تھا دونوں لن کی دونوں سائیڈ پر بیٹھ گئی اور نسل کر دونوں طرف سے چومتی ہوئی سسکنے لگیں سعدیہ اور سونیا کے ہونٹوں کے لمس کو محسوس کرکے میں تڑپ کر کرال گیا تھا دونوں کے نرم ہونٹ میری جان نکال رہے تھے دونوں نے میرے لن کی چمڑی ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس رہی تھیں دونوں کا قاتالنہ انداز مجھے مار رہ تھا سعدیہ نے منہ کھول اور میرے لن کا ٹوپہ منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا جس سے میں کراہ گیا سعدیہ کا گرم منہ مجھے نڈھال کر گیا سعدیہ۔ نے پچ کی آواز سے میرا لن چھوڑا تو سونیا نے دبا کر چوس لیا سونیا کے گرم منہ نے میرے لن کا ٹوپہ دبا کر چتھ دیا جس سے میں تڑپ کر کرال گیا سونیا اور سعدیہ دونوں میرے لن کے ٹوپے کو اکھٹا مل کر منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر پیچھے زور لگا کر میرے لن کو دونوں سائیڈوں سے اپنے نرم ہونٹوں میں دبا کر پیچھے لن کی جڑ کی طرف جاتی ہوئی لن کو ہونٹوں سے مسل کر لن پر زبان پھیرنے لگی جس سے میں تڑپ کر کرال گیا میں پلی بار مزے سے کانپ گیا اور میری ٹانگوں کی جان لن کی طرف دوڑنے لگی جس سے میری ٹانگیں کانپنے لگیں میں تڑپ کر دھوکے سر لن پر دبا کر لن کھینچا اور کراہ کر پھر زوردار دھکے مار کر سونیا اور سعدیہ کے ہونٹوں کے بیچ اپنا لن دبا کر مسلنے لگا جس سے میں تو ہونٹوں کے نرم لمس سے مچل کر نڈھال ہوگیا اور میری کراہیں نکل گئیں جبکہ سعدیہ اور سونیا کے نرم ہونٹوں کو میرے لن کی کھردری چمڑی نے چھیل کر رکھ دیا جس سے دونوں بہنیں بلبال کر تڑپ سی گئی اتنے میں میرا کام بھی ہوگیا اور میں نے باہر لن کھینچا جس سے دونوں بھی میرے لن کی کیفیت سمجھ گئی اور جھٹ سے دونوں نے میرے لن پر اپنے منہ مال کر دبا کر جوڑ لیے ساتھ ہی میرے لن نے ایک لمبی گاڑھی منی کہ دھار سیدھی سعدیہ اور سونیا ہے گلے میں پڑی جسسے دونوں کراہ کر دبا کر گھونٹ بھر کر پینے لگی میں کرال کر سعدیہ اور سونیا کے گلے میں فارغ ہو رہا تھا جسے دونوں گھٹا گھٹا نچوڑ کر پی گئی سعدیہ اور سونیا نے میری گاڑھی منی کھینچ کر چوس کی میں کراہ کر سسکنے لگا اتنے میں ہمیں پتا ہی نا چال نصرت اندر داخل ہوئی اور سعدیہ اور سونیا کو ننگا دیکھ رک مچل گئی اور چونک کر بولی ہال نی اماں میں مر جاواں نی میرے گھر آلے نوں تے کھا گئیاں یہ سن کر دونوں سسک کر اوپر ہوئین اور رکے بغیر نصرت کے سامنے میرے لن کو ہونٹوں سے چوستی ہوئی ہانپتی رہیں سعدیہ بولی اففف باجی تیرے گھر آکے دی منی تے بہوں چس دیندی اے قسمیں سواد آگیا نصرت ہنس دی اور بولی گشتی دیاں بچیاں ہو حیا کرو تھواڈا بہنوئی اے وہ بولی باجی سالیاں دا وی بہنوئی تے حق ہوندا اتنے میں آنٹی اندر داخل ہوئی اور سونیا اور سعدیہ کو میرا لن چوستا دیکھ کر ہنس دی اور بولی نصرت خیر اے کالو دا لن تھوڈے تناں بھیناں تے نہیں مکدا نصرت بولی امی ہر اے پہلے میں پھدی اچ کیناں اے آنٹی ہنس کر بولی توں ہی لل لئیں سعدیہ سسک کر ہونٹ دبا کر بولی اففف باجی اس تے ساڈے ہونٹ ہی رگڑ دتے پتا نہیں ساڈی پھدیاں دا کی حشر کرسی نصرت ہنس دی آنٹی بولی میری جان پھدیاں اچ لئو تھواڈی ساری آگ ٹھڈی کر دیسی نصرت بولی ہالنی اماں اے تے کدی کرے ناں قسمیں سواد سجائے میرے آگ تےمیننوں ہنڑ چین نہیں لینے دیندی آنٹی ہنس دی اور بولی ہال ہنڑ ہک واری کالو دی بس کرو تے کجھ کم کرو اور مجھ سے بولی کالو توں وی ہنڑ لن لیا نہیں تے اے میری دھیاں اس نوں کھا جاسن اے تے مسیں ودیاں ہنڑ یہ سن کر میں ہنس دیا اور شلوار اوپر کرکے اندر بیٹھک میں چال آیا
میں باہر صحن میں
آکر بیٹھ گیا گھر کا صحن کھال تھا اوپر سے آدھی چھت تھی آدھا خالی تھا گھر کے باہر والے صحن میں میں چارپائی پر بیٹھا تھا دروازے کو کنڈی لگی تھی نصرت لوگوں کا گھر کوڑھی نما تھا میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں نصرت اندر کیچن سے باہر آگئی وہ دوپٹے کے بغیر ہی تھی میں نصرت کو دیکھ کر مسکرا دیا نصرت کے موٹے تنے ممے صاف نظر آ رہے تھے نصرت آتے ہی مسکرا کر مجھ سے بولی وے میرے یارا توں کیڈا ہیں تے میرے تے نیڑے ہی نہیں آیا تے سونیا تے سعدیہ نوں پہلی واری ہی مل لیا ہئی میں ہنس دیا اور نصرت کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا نصرت بے خود ہو کر میری طرف لڑھکتی آئی اور سیدھی میرے اوپر آگئی میں نصرت کے وزن سے پیچھے لیٹ گیا نصرت ہنس کر میرے اوپر گر کر میرے اوپر چڑھ آئی اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا کر چومتی ہوئی چوم لیا میں نصرت کے ہونٹ دبا کر چوسنے لگا نصرت مجھے لٹا کر میرے اوپر چڑھ سی گئی تھی میں نے نصرت کو دونوں بازوؤں میں کس کر دبوچ لیا جس سے نصرت کے ممے میرے سینے میں دب گئے نصرت کے موٹے ممے میرے سینے میں دب کر مجھے نڈھال کر رہے تھے نصرت سرعام کھلے صحن میں ہی میرے اوپر چڑھ کر لیٹ کر میرے ہونٹ دبا کر چوس رہی تھی میں بھی نصرت کو دونوں بازوں میں اپنے ساتھ دبا کر چوس رہا تھا نصرت کراہ کر مچل رہی تھی میں بھی مزے سے نڈھال تھا۔ نصرت کراہ کر ہانپتی ہوئی میرے زبان کھینچ کر کھینچ کر چوس رہی تھی میں بھی نصرت کے گرم منہ سے نڈھال تھا نصرت ہانپتی ہوئی میرے ہونٹ دبا کر چوستی ہوئی ہانپنے لگی تھی جس سے نصرت کی گرم سانسیں تیزی سے اندر باہر ہوتی میرے اندر اتر کر اودھم مچا رہی تھیں میں تڑپ کر بے قراری سے مچل رہا تھا نصرت اوپر ہوئی اور اپنا قمیض پکڑ کر کھینچ دیا میں پہلے ہی شرٹ کے بغیر تھا نصرت ننگی ہو گئی نصرت کے تنے موٹے ممے باہر نکل کر لہرا گئے نصرت پہلے ہی برا کے بغیر تھی نصرت کے موٹے ممے تن کر کھڑے قیامت لگ رہے تھے آج تک اتنے بڑے ممے آنٹیوں کے ہی دیکھے تھے کسی لڑکی کے اتنے موٹے اور تنے ہوئے ممے پہلی بار دیکھ رہا تھا نصرت کا گورا جسم بیچ صحن میں ننگا تھا اتنے میں اندر سے سونیا نکلی اور صحن میں نصرت کو میرے اوپر چڑھے ننگا دیکھ کر چونک کر بولی ہالنی اماں میں مر جاواں اور بولی امی سعدو باہر آؤ تھوانوں ہک شئے وکھاواں رفعت اور سعدیہ بھی باہر نکلی تو سامنے صحن میں نصرت میرے اوپر چڑھی قمیض اتار کر ننگی میرے اوپر جھک کر مجھے چوم رہی تھی آنٹی رفعت بھی یہ دیکھ کر بولی ہالنی نصرت تے ہنجار ہی الہ چاہ گئی اے سعدو ہنس کر بولی امی خیر اے کی ہویا باجی اپنے یار نال مستیاں ہی کر رہی کرن دے رفعت ہنس دی اور بولی میں کہڑا روک رہی ہاں بس ویکھ رہی آں کہ میری دھی دی آگ ہنڑ بے قابو ہو رہی اے اس دی پھدی نوں کالو دے لن دی سیر آج کروا دیندی آں سونیا بولی امی سچی اے تے کر تا کہ ساڈی واری وی آوے رفعت ہنس دی اور بولی ہال ٹھیک ہے تسی اپنا کم کرو تے اس لیلی مجنوں نوں مستیاں کرنے دیو نصرت ہنڑ مسیں ودی رفعت ہنس کر اندر چلی گئی سونیا اور سعدیہ وہیں کھڑی ہوکر ہمیں پیار کرتا دیکھنے لگیں نصرت نیچے ہوکر میرے سینے پر زبان پھیر کر چاٹتی ہوئی ہانپ رہی تھی میں بھی مزے سے مچل کر کراہ رہا تھا نصرت کی گرمی سے میرا لن تن کر نصرت کے چڈوں کے نیچے آچکا تھا جو نصرت کی پھدی کی گرمی سے آگ بگوال تھا نصرت نیچے ہوئی اور اپنے گورے ممے ممے میرے سینے میں دبا کر میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر کر کس کر چوس کر اپنے موٹے ممے میرے سینے پر رگڑتی ہوئی اپنی موٹی گانڈ ہالتی ہوئی میرے لن کو اپنی پھدی پر رگڑتی ہوئی کراہ گئی نصرت کی مزے سے بکاٹی سی نکل کر میرے منہ میں دب گئی نصرت کا جسم میرے جسم کے لن س کو محسوس کرکے کانپ سا گیا نصرت ہانپتی ہوئی کراہ کر میرے ہونٹ دبا دی ہوئی اپنے ممے میرے سینے پر رگڑ کر چڈوں میں میرا لن رگڑ کر مزے سے کانپتی ہوئی آہیں بھرتے ہینگنے لگی نصرت کی ہینگ میرے منہ میں دب کر غوں غوں کتنے لگی جس سے میں بھی مچل رہا تھا نصرت کا ناک فل کھل کر نظر آرہا تھا میں تڑپ کر کراہ سا گیا تھا نصرت میرے لن کا لمس محسوس کرے تڑپ رہی تھی نصرت کا جسم کانپنے لگا اور نصرت بے اختیار جھٹکا مار کر اچھلی اور ارڑا کر میرے اوپر گر کر تڑپتی ہوئی ہینگتی ہوئی پانی چھوڑ گئی نصرت کا جسم ڈھیال پڑ کر میرے اوپر گر گیا نصرت کی ارڑاٹ صحن میں گونج سی گئی تھی پاس کھڑی سونیا اور سعدیہ بھی نصرت کو فارغ ہوکر ارڑاتا دیکھ کر مچل گئی تھیں میں بھی مزے سے نڈھال تھا نصرت کے اندر کی آگ مجھے بھی بے حال سی کر دیتی تھی نصرت آہیں بھرتی کراہتی ہوئی میرے اوپر ننگی لیٹی تھی اس کے گھر والے سب اسے میرے ساتھ مستیاں کرتے دیکھ رہے تھے میں مچل کر کراہ رہا تھا نصرت ہانپنتی ہوئی سنبھلی اور بولی میری جان میری آگ آج بجھا دے نہیں تے میں مر جاساں گئی میرا بازو جتنا لن فل تن کر کھڑا تھا نصرت میرے اوپر چڑھ کر مجھے دبا کر چوم رہی تھی میں بوال نصرت توں سیل پیک ہیں میرا باہں جیڈ لن لئے لیسین نصرت سسک کر بولی میری جان میری پھدی لن واسطے مر رہی اے توں بے پورا جڑ تک منڈ دے میں سہ جاساں گئی میں یہ ان کر سسک کر نصرت کو چومنے لگا میرا بھی اب دل کر رہا تھا کہ نصرت کو چیر کر رکھ دوں نصرت اوپر ہوئی اور میرا ناال کھول کر میرا بازو جتنا لن ننگا کرکے نکال لیا میرا لن تن کر کھڑا ہوکر نصرت کے سر کے اوپر تک لمبا تھا نصرت دونوں ہاتھ سے میرے لن کو مسل کر منہ آگے کیا اور میرے لن کو چوم کر سسک کر بولی ااافففف میں صدقے جاواں اپنے شہزادے توں اور ہونٹ دبا کر کس کر چوسنے لگی نصرت ہانپتی ہوئی اپنے نرم ہونٹوں کو میرے لن پر دبا کر مسلنے لگی جس سے میں کراہ کر مچلنے لگا نصرت ہانپنتی ہوئی میرے لن کو دبا کر چاٹتی ہوئی چوس رہی تھی جس سے نصرت کی گرم سانسیں میرے لن کو ٹچ کرکے مجھے نڈھال کر رہی تھی میں مزے سے کراہ رہا تھا نصرت میرے لن کو مسلتی ہوئی اوپر ٹوپے پر کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر پچ کی آواز سے چھوڑ کر نیچے لن کی جڑ تک دو تین بار اوپر نیچے ہوکر زبان پھیر کر چاٹتی ہوئی نیچے لن کی جڑ پر ہونٹوں کو دبا کر چوسنے لگی نصرت کے انداز سے میں مزے سے کراہ گیا نصرت سب کے سامنے بے اختیار مجھے چاٹ رہی تھی نصرت نے میرے لن کی جڑ چاٹ کر میرے لن کے ٹٹے دبا کر چوم کر چاٹ لیے میں ہانپتاہوا مزے سے مچل کر نڈھال ہو رہا تھا میری آپی۔ نکل گئی نصرت کی زبان ٹٹوں پر محسوس کرکے کے اگلے لمحے نصرت نے میرے ٹٹوں کو چاٹ کر منہ کھول کر میرے ٹٹوں کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس لیا نصرت کے گرم منہ میں ٹٹے جاتے ہی میری کراہ نکل گئی اور میں نصرت کے منہ کی گرمی سے تڑپ گیا نصرت بھی مزے سے مچل کر گھوں گھوں کرتی میرے ٹٹے دبا کر چوس رہی تھی مزے سے بے اختیار میرے گھٹنے اوپر ہوکر پیٹ سے لگ گئے تھے نصرت نے اچھی طرح میرے ٹٹے چوس کر چھوڑ دیے اور میرے ٹٹے اٹھا کر میرے ٹٹوں اور گانڈ کے نچے حصے کو دیکھا اور اپنا ناک قریب لے جا کر سونگ کر مچل گئی نصرت کی سانس اپنی گانڈ پر محسوس کرکے میں تڑپ سا گیا نصرت نے منہ آگے کر گاڈ اور ٹٹوں کے درمیان کا حصہ دبا کر چوس لیا جس سے میں تڑپ کر کراہ گیا میری ٹانگیں مزے سے کانپ گئیں نصرت نے چوم کر زبان نکالی اور کس کر میرے ٹٹوں کے نیچے واال حصہ چوم کر چاٹ لیا میں تڑپ کر کراہ گیا نصرت نے ہانپ کر کراہ بھری اور مزے سے مچل کر میری رانوں کو میرے پیٹ سے دبا کر لگا دیا جا سے میری گانڈ کھل کر اوپر آگئی میری گانڈ لن سے بھی زیادہ کالی تھی نصرت مزے سے تڑپ کر ہانپ رہی تھی نصرت کی آنکھوں میں وحشت اتری تھی نصرت نے میری گانڈ کو دیکھا تو کراہ کر بولی میں مر جاواں میری جان آج میں اپنی جان دے جسم دا ہر حصہ بن کے چٹنا ہے نصرت کی شہوت آخری حدوں کو چھو رہی تھی نصرت نے میر کھلی گانڈ کو دکھا اور نیچے ہوکر اپنے ہونٹوں کو میرے گانڈ کی موری پر دبا کر کس کر چومنے لگی نصرت کے نرم ہونٹوں کا لمس اپنی گانڈ کی موری پر محسوس کرکے میں تڑپ کر کرال گیا نصرت بے اختیار رکے بغیر میری گانڈ کی موری کو کس کر چومتی جا رہی تھی میں نصرت کےا انداز سے مزے سے مر سا گیا تھا نصرت کی بھی میری گاندھی کی موری چوم کر آہیں نکل گئی اور وہ مزے سے تڑپتی ہوئی کانپ کر بکا سی گئی نصرت ہونٹوں کو دبا کر میری گانڈ کی موری کس کر چوم رہی تھی نصرت ہانپتی ہوئی آہیں بھرتی پھڑک رہی تھی نصرت کا انداز قاتالنہ تھا نصرت مسلسل میری گانڈ پچ پچ کرتی چومتی جا رہی تھی نصرت گانڈ چوم کر پیچھے ہوئی اور سسک کر بولی ااافففف کالو میں صدقے جاواں کیڈی مزے دار خوشبو ہے اور آگے ہوکر زبان نکال کر میری گانڈ کی موری پر زبان کس کر پھیرتی ہوئی میری گانڈ کو چاٹنے لگی نصرت کی گرم زبان اپنی گانڈ کی موری پر پھرتا دیکھ کر میں مزے سے تڑپ کر نڈھال ہو رہا تھا میرے جسم مزے سے کانپنے لگا نصرت بے اختیار ہانپنتی ہوئی اپنی زبان کس کر میری گانڈ کی موری پر پھیرتی گانڈ کو چاٹ رہی تھی نصرت کو گانڈ کی موری چاٹے پر عجیب ہی مزہ آرہا تھا میں مزے سے نڈھال تڑپ رہا تھا نصرت مزے سے کراہ کر گانڈ چاٹتی ہوئی رک گئی اور گانڈ کو کس کر پپی کی اور گانڈ اور اوپر اٹھا کر دونوں انگھوٹے گانڈ پر رکھ کر گاڈ تھوڑی کھول کر نصرت نے اوپر سے ایک تھوک گانڈ پر پھینک کر زبان سے تھوک گانڈ کی موری پر مسل دی جس سے میں تڑپ گیا نصرت نے اپنا پورا منہ کھوال اور میرے گانڈ پر رکھ کر آپ ء ہونٹ دبا کر کس کر میری گانڈ کی موری کو زبان سے چاٹتی ہوئی چوسنے لگی میں مزے سے تڑپ کر کراہ گیا نصرت بھی مزے سے بکا سی گئی نصرت کی بکاٹ میری گانڈ پر دب گئی نصرت رکے بغیر منہ گانڈ پر دبا کر زبان سے چاٹتی ہوئی مزے سے بلبال سی گئی میں بھی تڑپ گیا نصرت ہانپتی ہوئی کراہ کر اوپر ہوئی اور بے اختیار بولی اففف اماں میں مر جاواں انج دا مزہ آج تک نہیں ملیا کالووو میں بھی کراہ گیا تھا نصرت نے مجھے دیکھا نصرت کی آنکھوں ے شہوت بہ رہی تھی نصرت میری گانڈ کچا چبا رہی تھی نصرت نے اپنا ناک نیچے کیا اور میری گانڈ کی موری پر ٹچ کرے مسال میں نصرت کے ناک اور گرم سانس سے تڑپ گیا نصرت نے کراہ کراپنے ناک کو میری گانڈ کی موری پر سیٹ کرکے دبا دیا جس سے نصرت کا ناک میری گانڈ کو کھول کر اندر اتر گیا جس سے نصرت خود بھی بکا کر اوپر اچھل سی گئی اور کانپنے لگی میں بھی نصرت کے ناک کو گانڈ میں محسوس کرکے تڑپ گیا نصرت کا ناک میری گانڈ میں اتر گیا نصرت نے ناک میری گانڈ میں اتار کر اندر ہی دو تین بار سانس کھینچا نصرت کا سانس رک گیا جس سے نصرت نے اوپر ہوکر ناک نکال کر ہاپنتی ہوئی کرال کر اوپر ہوئی اور پھر منہ نیچے کرکے اسی طرح منہ کھول کر پوری گانڈ کی موری ہو ہونٹوں میں دبا کر چوس کر زبان جو گانڈ کی موری پر پھیرتی ہوئی چاٹتی ہوئی گانڈ کی موری پر سیٹ کرکے زبانی کی نوک ہلکی سی موری کے اوپر رکھ کر دبا دی میں نصرت کے انداز سے مچل کر کانپ گیا اگلی لمحے نصرت نے زبان گانڈ کی موری پر سیٹ کرکے زور سے دبا دی جس سے نصرت کی زبان کی نوک میری گانڈ کی موری کو کھول کر اندر اتر گئی جس سے میں نصرت کی زبان کو اپنی گانڈ کے اندر اترتا محسوس کرکے مزے سے تڑپ کر اچھل گیا ساتھ ہی نصرت بھی زبان گانڈ میں اتار کر بکا سی گئی اور اپنا سر میری گانڈ پر دبا کر نیچے جھسا مارا ساتھ ہی نصرت بکا گئی اور نصرت نے زور لگا کر اپنی ساری زبان میری گانڈ کے اندر اتار دی میری گانڈ میں نصرت کی زبان اترتے ہی نصرت مزے سے بکا کر اچھل کر نصرت زور سے ارڑائی اور پھڑکتی ہوئی ارڑاتی ہوئی اپنی زبان میری گانڈ میں دباتی گئی نصرت کی زبان کو گانڈ میں اترتا محسوس کرکے میری تو مزے سے بکاٹی نکل گئی میں تڑپ کر کرال کر کراہ گیا نصرت کے زور لگانے سے نصرت کا سر میری گانڈ میں دب سا گیا جس سے نصرت کا سر کانپنے لگا ایسا لگ رہا تھا کہ نصرت اپنےسر کو آج میری گانڈ میں اتار دے گی نصرت میری گانڈ میں سر دبائے اپنی زبان کو میری گانڈ میں دبائے مچھلی کی طرح پھڑک کر ارڑا کر غرا رہی تھی نصرت کا جسم ستھ ہی جھٹکے مارنے لگا اور نصرت تڑپ کر مزے سے نڈھال ہوتی فارغ ہوگئی نصرت فارغنہوتے ہوئے غرا کر زبان میری گانڈ ہے اندر پھیر کر مجھے نڈھال کر رہی تھی نصرت تڑپ کر فارغ ہوتی بے اختیار اچھلی جس سے نصرت کی زبان میری گانڈ سے نکل گئی اور نصرت تڑپتی ہوئی اوپر ہوئی نصرت کا منہ تھوک سے بھر کر مزے سے کا تھا نصرت اوپر اچھل کر میرے اوپر آگری میرا لن نصرت کے سینے سے دب کر میرے منہ تک آگیا جس سے میں تڑپ سا گیا نصرت کے نیچے بازو جتنا لن دبنے سے مجھے درد سا ہوا جس سے میرا مزہ کرکرا ہوگیا میں کراہ کر ایک سائڈ نصرت کو گرا دیا نصرت پھڑکتی ہوئی آہیں بھرتی فارغ ہوکر ڈھیلی پڑنے لگی میرا لن تن کر کھڑا تھا مجھے اب مزہ بے قرار رکنے لگا تھا میں خود ہی لن کو دبا کر مسلنے لگا اتنے میں سونیا اور سعدیہ میرے پاس آئیں اور میرے کو پکڑ کر مسل کر قریب ہو کر اپنی زبانوں سے میرے لن کو چاٹنے لگیں نصرت پاس پڑی ہانپر رہی تھی جبکہ سونیا اور سعدیہ میرے لن کو چاٹ رہی تھیں نصرت کچھ دیر بعد سنبھلی اور سونیا اور سعدیہ ہو چاٹ کر بولی افففف میں مرجاواں کالو میرے حصے دا سواد وی اے کئے گئیاں اور اٹھ کر میری ٹانگوں کے بیچ آکر بیٹھ کر میرے لن کو پکڑ کر چاٹتی ہوئی مسل کر منہ کھوال اور میرے لن کا ٹوپہ چوس لیا نصرت کے منہ میں ٹوپ جاتے ہیں میں تڑپ کر کرال گیا اور میرا بند ٹوٹ گیا میں جھٹکے مارتا ہوا لمبی منی کی دھار نصرت کے گلے میں ماری نصرت نے کراہ کر تڑپ کر مجھے میری۔ منی غرگٹے بھرتی چوس کر نچوڑ گئی میں مزے سے پڑا ہانپنے لگا نصرت بھی کراہتی ہوئی میرے اوپر لیٹ کر ہانپنے لگی میرا لن ابھی تک تن کر کھڑا تھا میں اٹھا اور بوال نصرت ہنڑ تے راضی ہوجا نصرت ہانپتی ہوئی بولی ایڈی جلدی میں نہیں راضی ہوندی آج تیرا لن لئے کے ہی رہساں میں ہنسدیا رفعت آئی اور بولی ہنڑ بس کرو تے روٹی کھا لئو نصرت بولی امی تے میں تے رجی پئی ہاں کالو دی منی پی کے بڑا سواد آیا بڑی مزے دار ہا رفعت ہنس دی اور بولی میری محنت ہے سوادی تے ہونی ہا میں ہنس دیا اور آٹھ کر واشروم گیا واپس آیا تو نصرت صحن میں ہی اپنا اور میرا کھانا الئی باقی بھی لوگ آگئے ہم بیٹھ کر کھانا کھا رہیے تھے نصرت میرے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھا رہی تھی کھانا کھا کر ہم فری ہوئے کچھ دیر بعد سعدیہ چائے الئی سونیا بولی باجی آج تے کالو ہر شئے چٹ لئی ہئی چت وی چٹ گئی نصرت ہنس کر بولی اففف سونیا کجھ نا پچھ کالو دی ہر شئے مزے نال بھری ہاں کالو دی چت دا نمکین ذائقہ تے جان ہی کڈھ گیا رفعت یہ سن کر بولی نصرت ہنڑ تیری بجھانڑی ہی ہوسی گئی نصرت سسک کر بولی اففف امی میں تے کاہلی ودی آں کالو دا لن پھدی اچ کینٹ کانڑ رفعت بولی کالو وت آج نصرت تے مینوں ڈیرے تے نال لئی جا آج نصرت دی سیل پٹ دے نصرت چہک کر بولی توں کی کرنا میں ہلکی ہی جاساں گئی رفعت ہنس کر بولی میری کملی دھی کالو دا لن پورا تیری پھدی اچ آج جانا اے تے تیری پھدی اس لن پاڑ دینی وت تینوں کوئی سنبھالنے آال وی تے ہووے ناں نصرت یہ سن کر سسک گئی اور بولی سسسسی اففففف اماں واقعی آج میری پھدی پاڑو اے کالو رفعت بولی تے ہور کی نصرت بولی آف اماں میں تے سوچ کے ہی مر رہی آں ہنڑ صبر نہیں ہو رہیا چل چلیے رفعت ہنس دی اور بولی میری دھی ول۔ہوجاندی ایں ہک آدھا گھنٹہ ٹھہر جا نصرت بولی امی اے آدھا گھنٹہ میرے واسطے پہاڑ اے میں ہنس کر چائے پیتا ہوا نصرت کو دیکھ رہا تھا نصرت میرے لن کےلیے اوتاولی ہو رہی تھی نصرت کی بے قراری بڑھتی ہی جا رہی تھی رفعت کچھ کام کر رہی تھی نصرت رفعت کو بار بار بے قراری سے کہے جا رہی تھی امی چلیے کالو نال ڈیرے تے رفعت نصرت کی بے قراری دیکھ کر سعدیہ سے بولی سعدو اے کم رہندا توں کر لئے میں نصرت دی پھدی دا کیڑہ ماری آواں سعدیہ بولی امی ایتھے گھر ہی پھدی مروا لوے باجی ڈیرے تے ضرور جانا رفعت بولی نی تینوں نہیں پتا کالو دے لن تے نذیراں جئی گشتی دیاں بکاٹیاں کڈھ دتیاں ہین تے اے نصرت ہلے کواری اے اسدی حال حال تے پورا پنڈ سنسی ایتھے ڈیرے دے کمرے ساؤنڈ پروف ہین اوتھے نصرت جیڈا وی ارڑاٹ گھتیا باہر کوئی نہیں سننا نصرت بھی یہ سن رہی تھی وہ تو شہوت کی آگ میں جل رہی تھی اسے لن چاہئیے تھا نصرت بولی امی مینوں تے لن چاہیدا اے بھاویں جیڈی حال حال کراں آج مینوں ناں چھڈیں میں ہنس دیا کافی اندھیرا چھا چکا تھا آنٹی رفعت نے ایک بیڈ شیٹ لے لی نصرت بولی امی اس دا کی کرنا رفعت ہنس کر بولی میری دھی توں پہلی واری پھدی مروان جاؤ ایں تے کالو تیری پھدی دی رت کڈھ دینی بیڈ تے اوتھے بیڈ تے اے وچھانی اے تا کہ تیرے بھراواں نوں ناں پتا لگے کہ کالو اوہنا دی بھین پاڑ دتی اے نصرت یہ سن کر ہنس دی میں بائیک پر نصرت اور رفعت کو بٹھا کر ڈیرے کی طرف چل دیا نصرت میرے پیچھے بیٹھی تھی اس نے اپنے اٹھے ہوئے ممے ہوا میں اٹھا کر میری کمر میں دبا رکھے تھے جس سے میں بھی مچل رہا تھا نصرت کی آگ بھڑک رہی تھی نصرت راستے میں بھی میرے لن کو پکڑ کر مسل رہی تھی میں ڈیرے پر پہنچا مجھے کچھ کام کرنا تھا لیکن نصرت کی آگ نے مجھے روک لیا میں نے بائیک کھڑا کیا اور بوال کہ کچھ کام کر لوں نصرت بولی وے پہلے میرے آال تے کم کرلئے وت او کم وی کر لئی میں یہ سن کر ہنس دیا نصرت نے مجھے پکڑا اور بازو سے خود ہی پکڑ کر اندر کمرے میں کے کر چلی گئی اور مجھے باہوں میں بھر کر دبا کر چومنے لگی میں بھی نصرت کو چومنے لگا نصرت اپنا قمیض اتار چکی تھی اتنے میں پیچھے سے آنٹی رفعت بھی ا گئی اس نے بیڈ سے چادر اتار کر ساتھ الئی ہوئی چادر بچھا دی اور دروازے کو کنڈی لگا دی نصرت مجھے ننگا کرکے اپنے ممے میرے ساتھ مسل کر میرے لن کے پاس بیٹھ کر اسے ہونٹوں سے دبا کر چوس رہی تھی میں سسک کر کراہ رہا تھا نصرت کے ہونٹوں میں جادو تھا جس سے میں تڑپ رہا تھا نصرت نے ہونٹوں سے لن چوس کر چاٹتے ہوئے کافی گیال کر دیا تھا میں نے نصرت کی گت سے پکڑ کر کھینچ لیا اور باہوں میں بھر کر نصرت کو بیڈ پر پھینک دیا نصرت بیڈ پر گرتے ہی پیچھے لیٹ کر اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی شلوار کھینچ کر خود ہی نیچے کردی میں نے شلوار کو ہاتھ ڈال کر کھینچ کر نصرت کو فل ننگا کردیا شلوار اترتے ہی نصرت نے ٹانگیں کھول کر اپنی سیل پیک گالبی پھدی میرے سامنے کھول دی میں نصرت کی پھدی دیکھ کر مچل گیا نصرت کی پھدی کا گالبی دہانہ کھلتا بند ہوتا پانی چھوڑتا پچ پچ کر رہا تھا میں نے لن نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھ دیا نصرت میرے لن کا لمس محسوس کرکے کراہ گئی رفعت نصرت کے سر کی طرف آئی اور نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر دبا کر کھول دیں جس سے نصرت کے چڈے کھل گئے نصرت چڈے کھلتے ہی کراہ کر کانپنے لگی اور بولی افففف کالوووووو لن کو پھدی دی سیر کرا وی دے اہہہہ میں نے گھنٹوں بھار ہوکر نصرت کی رانوں پر ہاتھ رکھ دئیے مزے آگے نہیں ہو سکتا تھا لن کی لمبائی کی وجہ سے نصرت کی ٹانگیں رفعت نے کھول رکھی تھیں میں نے نصرت کی رانوں پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دھکا مارا جس سے میرے لن کا موٹا سخت ٹوپہ نصرت کی پھدی کے ہونٹ کو کھول کر اندر اتر گیا نصرت کی تنگ پھدی میں لن کے ٹوپے کے اترتے ہی نصرت تڑپ کر چیخی اور کرال کر بولی ہالنی اماں میں مر گئی رفعت نصرت کی چیخ سن کر بولی نصرت ہمت نال کجھ نہیں ہوندا نصرت کا جسم تڑپنے لگا اور نصرت کراہتی ہوئی آہیں بھرتی سر ادھر ادھر مارنے لگی رفعت نے ہاتھ نیچے کرکے نصرت کے جسم کو سہالتے ہوئے نصرت کے پیٹ پھدی تک ہتھیلی سے سہالنے لگی میرا لن ٹوپہ نصرت کی پھدی میں اتر کر آگ میں اترا محسوس ہو رہا تھا میں کراہ کر تڑپ رہا تھا مجھے رہا نا گیا میں نے گانڈ کھینچ کر دھکا مار جس سے میرا لن نصرت کی سیل پیک پھدی کو پھاڑتا ہوا نصرت کی پھدی کا پردہ چیر کر نصرت کی پھدی کو پھاڑتا ہوا ایک ہی دھکے میں نصرت کی بچہ دانی میں اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر مچھلی کی طرح پھڑکی اور کمر اٹھا کر پھڑکتی ہوئی پوری شدت گلہ پھاڑ کر ارڑا کر چیخی اور چیختی ہوئی بکری کی طرح پوری شدت سے باااااااں بااااااں کرتی بکانے لگی نصرت کے بکاٹ اتنے زوردار تھے کہ نصرت کے بکاٹوں سے کمرہ ہل گیا میں نصرت کو پھڑکتا دیکھ کر رک گیا رفعت ہاتھ آگے کرکے نصرت کے پیٹ کو سہال کر بلوچی نصرت ہمت کر نصرت بری طرح چیختی ہوئی بکاٹ مارتی پھڑک رہی تھی نصرت کا منہ الل سرخ تھا اور آنکھیں باہر آرہی ہوں نصرت کی ہمت ٹوٹ گئی اور نصرت ایک لمبی بکاٹ مار کر بے سدھ ہوکر بے ہوش ہو گئی میں نصرت کو بے ہوش ہوتا دیکھ کر گھبرا گیا اور رفعت سے بوال اے تے بے ہوش ہو گئی میں لن کڈھ لواں رفعت بولی وے ٹھہر جا کجھ نہیں ہوندا گشتی نوں ہنڑ باہں جیڈا لن لینڑا ہووے تے برداشت تے کرنا ہونا اور نصرت کے سینے کو مسل کر سہالتی ہوئی بولی نصرت۔ نصرت ہمت کر کجھ نہیں ہویا نصرت پھڑکتی ہوئی بے سدھ پڑی تھی نصرت کا جسم پھڑک رہا تھا رفعت نصرت کو ہال کر ہوش دالتی بولی نصرت ہمت کر ہلے اے سارا لینا ہئی۔ نصرت دو منٹ بعد ہوش پکڑا تو ہوش میں آتے ہی نصرت تڑپتی ہوئی بکانے لگی نصرت حال حال کرتی ہوئی بکاتی ہوئی بولی اوئے ہالنی اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں میری پھدی پاٹ گئی اوئے ہالنی اماں اوئے ہالیوئے کالو مینوں مار دتا ہئی میں مر گئی نصرت کو رفعت نے قابو کرلیا اور مجھے آنکھ ماری کر بولی لن اگاں پوچھا کرکے میں آہستہ سا لن کھینچا تو میرا لن نصرت کی پھدی کے خون سے بھرا تھا لن نکلتے ہی نصرت کی پھدی سے خون کی دھار بہ گئی جسے دیکھ کر میں چونکا نصرت کی پھدی سے خون ٹپکنے لگا ساتھ ہی نصرت پھڑکتی ہوئی زور زور سے بکانے لگی رفعت بولی کجھ نہیں اے تے ہونا ہا نصرت دی سیل پھٹی اے میں نے لن کھینچ کر آگے پیچھے کرتا ہوا آہستہ آہستہ نصرت کی پھڈی میں لن گھماتا ہوا نصرت کو چودنے لگا لن نصرت کی پھڈی کھولتا ہوا بچہ دانی کے اندر آجا رہا تھا جس سے نصرت تڑپ کر بکا رہی تھی کچھ دیر میں راستہ کھل گیا اور آسانی سے اندر باہر ہونے لگا نصرت کی پھدی سے پچ پچ کی آوازیں آنے لگیں ہر نصرت کراہ کر تڑپ رہی تھی نصرت کی پھدی لن کو دبوچ کر مسل رہی تھی جس سے لن بھی نڈھال ہوتا تھا میں نصرت کو چودتا ہوا مچل کر بے قابو ہریا تھا جس سے میری سپیڈ بھی تیز ہونے لگی تھی جس سے نصرت کراہنے لگی نصرت کی پھدی کی آگ میرے لن اپنی طرف کھینچ رہی تھی میں نے بے اختیار لن کھینچ کر دھکا مارا جس سے لن نصرت کی بچہ دانی کو چیر کر پھاڑتا ہوا نصرت کی بچہ دانی سے گزر کر اوپر نصرت کے ہاں سے جا لگا جس سے نصرت بلبال کر اچھلی اور پوری شدت سے چیخ کر گالہ پھاڑ کر اتنی شدت سے ارڑائج کہ کمرہ ہل گیا نصرت کا سانس ایک بار ٹوٹ گیا تو نصرت نے سانس کھینچ کر پھر پوری شدت سے گلہ پھاڑ کر چیختی ہوئی ہالل ہوتی بکری کی طرح سانس کھینچ کر اتنا زور کا بکاٹ مارا کہ میرے کان کے کیڑے نکل گئی نصرت نے زور لگا کر ولیٹے کھاتی خود کو چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی میرے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی رفعت نصرت کی ٹانگیں دبا کر اوپر چڑھ سی گئی اور پھڑپھڑاتی ہوئی ارڑا کر بکاتی ہوئی نصرت کو دبا کر بولی نی نصرت رڑا ہو جاویں ہمت کر کجھ نہیں ہوندا نصرت نصرت ہمت کر چوپڑی آ ہمت کر کجھ نہیں ہویا نصرت پوری شدت سے ارڑا کر بکاٹ مارتی بکری کی طرح تڑپ رہی تھی رفعت نصرت کو قابو کیے ہوئی تھی میرا لن نصرت کے ہاں میں اتر چکا تھا جسے نصرت کے جسم نے دبوچ رکھا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ کسی چیز نے میرا لن دبوچ رکھا ہو نصرت کی آگ میرے لن کو جال رہی تھی نصرت کی ہمت جواب دے رہی تھی نصرت ارڑا کر بکاتی ہوئی ہینگنے لگی تھی نصرت کا منہ کھال تھا اور سر الل سرخ چہرے کے ساتھ کانپ رہا تھا میرا آدھے سے کم لن نصرت کے اندر جا چکا تھا اور ابھی آدھے سے کچھ زیادہ باہر تھا میں بھی اب مزے سے نڈھال ہوکر کراہ رہا تھا مجھے خماری چڑھ رہی تھی میرا دل کر رہا تھا کہ ایک ہی دھکے میں سارا لن نصرت کےا ندر پیک دوں رفعت بولی کالو نصرت دی پھدی نو ایتھ تک یہو میں نے لن کھینچا اور کراہ کر پیچھے گانڈ کھینچ کر بے اختیار دھکے مارتا لن نصرت کے ہاں تک دھکے مار کر اتارتا ہوا نصرت کو چودنے لگا لن کھینچنے سے پھر ایک دھار کے ساتھ نصرت کی پھدی سے خون کی دھار نکل کر بہ گئی ساتھ ہی دھکے سے لن واپس ہاں میں اترنے سے نصرت بوکھال کر تڑپی اور سینہ اٹھا کر بے اختیار منہ کھول کر گلہ پھاڑ کر پوری شدت سے ارڑا کر چیخ اور چیختی ہوئی بکانے لگی میں کراہ کر لن کھینچ کھینچ کر پوری شدت سے دھکے مارتا لن نصرت کے ہاں تک اتارتا ہوا پوری شدت سے نصرت کو چود کر چیرنے لگا میرے ہر دھکے پر نصرت بوکھال کر تڑپ کر ہینگتی ہوئی بکا کر دھاڑنے لگی نصرت کا جسم پھڑکنے لگا اور نصرت کا سینہ ہوا میں بے اختیار اٹھ کر پھڑ رہا تھا میں کس کس کر دھکے مارتا ہوا پوری شدت سے لن نصرت کی پھڈی کے ار پار کرتا نصرت کی پھدی چیرتا لن نصرت کے ہاں تک آر پار کر رہا تھا جس سے نصرت بکا کر دھاڑتی جا رہی تھی نصرت کی مسلسل دھاڑوں سے کمرہ گونج رہا تھا نصرت ادھر ادھر سر مارتی اپنی کمر اٹھا اٹھا کر بیڈ پر امرتی حال حال کرتی باں باں کر رہی تھی چار پانچ دھکوں سے میرے لن نے راستہ بنا لیا میں مزے سے نڈھال ہوکر کراہ کر مچل رہا تھا میرا لن نصرت کی پھدی دبا کر نڈھال کر رہی تھی دو منٹ کے دھکوں کے بعد نصرت ہینگنے لگی تھی میں مزے سے تپ کر کرالنے لگا تھا نصرت کی پھڈی کی آگ میرے لن کو جال کر مجھے نڈھال کر رہی تھی پھدی کی آگ سے لن تپ رہا تھا میرے اندر بھی وحشت اور جنونیت اتر رہی تھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میرے اندر سے زور کہاں سے آ رہا ہے میں مزے سے بے اختیار ہنہنانے لگا اور کس کس کر دھکے مارنے لگا جو نصرت کے ہاں میں ٹھوک مارنے لگے جس سے نصرت تڑپ کر چیخی اورت رہتی ہوئی بکا گئی اگلے لمحے میں وحشی سا ہوکر بے قابو ہوگیا اور لن کھینچ کر گانڈ میں پورا زور جمع کرکے کس کر پوری طاقت سے دھکا مارا جس سے پڑڑڑچچچ کی آواز نصرت کے سینے سے نکلی اور میرا لن نصرت کے ہاں کو چیر کر نصرت کے سینے کو چیر کر نصرت کے سینے میں اتر گیا جس سے نصرت تڑپ کر بلبال کر اچھلی اور بے اختیار پورا منہ کھوال کر پوری شدت سے ایسے چنگھاڑی جیسے شیرنی جنگی میں چنگھاڑ رہی ہو میرا لن نصرت کے ہاں کو چیر کر نصرت کے سینے کو چیرتا ہوا نصرت کے سینے میں اتر چکا تھا جس سے نصرت ارڑا کر پوری شدت سے چیختی ہوئی چنگھاڑنے لگی نصرت کی چنگھاڑ اتنی اونچی تھی کہ ساؤنڈ پروف کمرے سے بھی باہر نکل رہی تھی اگر کوئی باہر ہوتا تو نصرت کی چیخیں اور چنگھاڑیں ضرور سن لیتا نصرت پھڑکتی ہوئی تڑپ تڑپ کر شہر ینہی طرح دھاڑتی ہوئی چنگھاڑتی زور لگا رہی تھی نصرت کا جسم تھر تھر کانپنے لگا جیسے نصرت کی جان نکل رہی ہو میں تو جنونی ہو چکا تھا مزے سے میری آنکھوں کو کچھ نظر نہیں آیا نصرت کے سینے نے میرے لن فل دبا کر مسل دیا تھا جس سے میں تڑپ کر بکا گیا اور بے اختیار گانڈ کھینچ کر پوری شدت سے دھکا مارا جس سے میرا لن نصرت کا سینہ کھول کر نصرت کے گلے میں اتر گیا جس سے نصرت پوری شدت سے پھڑک کر زور سے بکا کر چیخی لیکن اگلے لمحے میرے لن نے نصرت کے گلے میں اتر کر نصرت کی آواز دبا لی ادھر نیچے پھدی کا دہانہ فل۔کھل کر پھٹ رہا تھا سدھر لن نصرت کے گلے تک پہنچ گیا تھا نصرت بے اختیار ہاتھ اٹھا کر اپنے گلے کر دبا کر چیالنے کی کوشش کر رہی تھی نصرت کے گلے سے کھششش کھششش کی آوازیں آنے لگی نصرت کا جسم پھڑکنے لگا نصرت کا چہرہ الل سرخ تھا رفعت بولی کالو سارا لن مند کے نصرت دے منہ آلو کڈھ دے نصرت دا ساہ بند ہو رہیا اے یہ سن کر میں ہنہنا سا گیا اور لن کھینچ کر اپنی پوری طاقت سے دھکہ مارا جس سے میرا لن جڑ تک نصرت کی پھڈی میں اتر گیا اور میرے لن کا ٹوپہ نصرت کے گلے کو چیرتا ہوا نصرت کے منہ سے باہر نکل آیا جس سے نصرت کا سینہ ہوا میں اٹھ گیا اور نصرت کا سر پیچھے کو بیڈ سے لگ گیا میں تڑپ کر ہینگنے لگا میرا پورا لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتر کر نصرت کو درمیان سے چیر کر نصرت کے منہ سے کافی سا باہر نکال ہوا تھا نصرت میرے لن کی رگڑ نا سہ پائی اور تڑپتی ہوئی بے سد ہو کر بے ہوش ہو چکی تھی نصرت کو بے ہوش دیکھ کر رفعت نصرت کے سینہ کو مسلتی ہوئی بولی نی مر جانیے ہمت کر نصرت نصرت اور نصرت کے سینے پر ہلکے ہلکے تھپڑ مار کر نصرت کا سانس بحال کرنے لگی میں رک کر کرالتا ہوا تڑپ رہا تھا رفعت بولی کالو ہک واری ہلیں نہیں مینوں نصرت نوں ہوش اب لیاونڑ دے رفعت نصرت کو بالتی ہوئی نصرت کے سینے کو کھڑکا کر نصر رہا سانس بحال رکھ کر نصرت کو ہوش دال رہی تھی نصرت کا منہ پورا کھال تھا اور میرا لن نصرت کی پھدی میں جڑ تک اتر کر نصرت کے منہ سے کافی باہر نکل آیا تھا جس پر کچھ تھوک اور ہلکا سا خون لگا نظر آرہا تھا نصرت کچھ ہی لمحوں میں ہوش پکڑ کر بجائی اور بلبال کر ہینگنے لگی میں مزے سے تڑپ رہا تھا نصرت کو ہوش میں دیکھ کر رفعت نے میرے لن کو صاف کیا اور میرے لن کے ٹوپے کو منہ میں بھر کر چوس لیا میں مزے سے تڑپ کر لن کھینچا جو واپس نصرت کے سینے میں اتر گیا میں نے کس کر لن نصرت کی پھدی میں اتار دیا دھکا جس سے لن نصرت کے سینے کو چیر کر نصرت کے گلے کو کھول کر نصرت کے منہ سے باہر نکل آیا رفعت نصرت کے منہ سے منہ لگا کر بیٹھی تھی میرا لن نصرت کے منہ سے نکل کر رفعت کے منہ میں اتر رہا تھا جس سے رفعت ہونٹوں میں دبا کر سک کر چوس رہی تھی جس سے نصرت کی بکاٹیاں نکل گئیں میں تیز تیز دھکے مارتا نصرت کو چودتا ہوا لن نصرت کے سینے تک کھینچ کر واپس نصرت کے گلے سے نصرت کے منہ باہر نال دیتا جو آگے سے رفعت منہ میں ہے کر چوس لیتی میں تو پہلی لن نصرت تکی پھدی میں جڑ تک اتار کر نصرت کو درمیان سے چیر کر نصرت کے سینے سے گزارتا ہوا نصرت کے گلے کو چیر کر نصرت کے منہ سے ابہر ناکل کر نڈھال تھا آگے نصرت کے منہ سے ابہر نکلتے لن کو آنٹی رفعت چوس کر میری ہمت توڑ گئی نصرت کی پھدہ میں جڑ تک لن اتر کر نصرت کو درمیان سے چیر کر نصرت کے منہ سے لن اندر باہر ہو رہا تھا جسے آنٹی رفعت نصر رکے منہ سے منہ لگائے چوس رہی تھی جبکہ نصرت نیچے پڑی پھڑکتی ہوئی غاں غاں کرتی تڑپ رہی تھی دو منٹ میں ہی۔ میں نڈھال ہوگیا اور کرال کر ہینگ کر لن جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتار کر نصرت کے کو درمیان سے چیر کر نصرت کے منہ سے باہر نکال کر تڑپ کر نڈھال ہوکر کر ایک لمبی منی کی دھار مار کر فارغ ہوگیا رفعت نصرت کی پھڈٹی میں جڑ تک اتر کر منہ سے باہر نکلے میرے لن کو اپنی منہ میں دبا کر چوستی ہوئی میری منی کی دھار نچوڑ کر چوس گئی جس سے میں تڑپ کر بکا کر ہینگتا ہوا منی کی دھاریں رفعت کے منہ میں مار کر فارغ ہوتا نڈھال ہوکر نصرت کے اوپر گر گیا نصرت میرے نیچے تڑپ تڑپ کر ہینگ رہی تھی جبکہ میں کراہتا وہا لن نصرت کی پھڈی میں جڑ تک اتار کر نصرت کے منہ سے نکل کر رفعت کے گلے میں منی چھوڑتا ہینگ رہا تھا رفعت میری منی نچوڑ کر پی رہی تھی جبکہ نصرت جس کی پھدی سے لن اتر کر منہ سے نکل آیا تھا وہ پھڑکتی ہوئی ایسے ہی ہینگ رہی تھی ایک منٹ میں رفعت مجھے نچوڑ کر پی گئی میں آہیں بھرتا نصرت کے اوپر نڈھال پڑا تھا رفعت لن چوس کر منی ڈکار کر اوپر ہوئی اور بولی کالو ہنڑ بس کر لن کڈھ لئے نصرت نوں ساہ کڈھن دے میں اوپر ہوا تو نصرت بے سدھ پڑی بے ہو چکی تھی جبکہ لن نصرت کے کھلے منہ سے باہر نکل نظر آ رہا تھا میں اوپر ہوا رفعت نصرت کے سینے کو سہالنے لگی میں آہستہ سے لن کھینچ کر نکالنے لگا جس سے جہاں سے لن نکل رہا تھا پچ پچ کی آواز اندر ر سے نکل رہی تھی جبکہ نصرت بے اختیار پھڑکتی جا رہی تھی نصرت کا جسم دھڑک رہا تھا نصرت بے اختیار بکاتی ہوئی بااااں باااااں باااااااں کرتی جا رہی تھی نصرت زور زور سے دھاڑتی ہوئی شور مچاتی چیالنے لگی جیسے نصرت لٹی پٹی گئی ہو آنٹی نصرت کو سنبھالتی ہوئی باہوں میں بھر کر نصرت کو سنبھال کر بول رہی تھی بس بس میری دھی ہمت کر کجھ وی نہیں ہویا میری جان میں نے لن پورا کھینچ کر نکال لیا نصرت کی پھدی میں کھپا ہو چکا تھا جس سے نصرت کی پھدی سے ہلکا ہلکا خون نکلنے لگا نصرت لن نکلتے ہی تڑپی اور پھڑکتی ہوئی بیڈ پر ولیٹے کھوتی دوہری ہوکر گھٹنے سینے سے لگا کر کرال کرال کر سر گھٹنوں میں دباتی ہوئی بکانے لگی آنٹی رفعت نصرت کی کمر مسلتی ہوئی نصرت کے سینے کو دبا کر بولی بس بس میری دھی ہمت کر کجھ وی نہیں ہویا میری کملی دھی نصرت میری دھی نصرت نصرت ہمت کر نصرت کرال کر بجائے جارہی تھی جسکے نصرت اندر گہری چوٹ لگی ہو گہری چوٹ ہی لگی تھی میرا بازو جتنا پورا لن نصرت کہ پھدی میں جڑ تک اتر کر نصرت کو درمیان سے چیر کر نصرت کے منہ کو کھول کر منہ سے نکل آیا تھا میرے لن نے نصرت کے درمیان سے کھول کر الگ کر دیا تھا نصرت سسکارتی ہوئی حال حال کرتی جا رہی تھی جس سے آنٹی نصرت کو سنبھالتی ہوئی بولرہی تھی نصرت ہمت کر نصرت اے لن تیری آگ آگے تے کجھ وی نہیں دل نکا نا کر ہمت کر میں تھوڑا سا گبھرا گیا تو رفعت بولی وے کجھ نہیں ہویا نصرت بڑی ہمت آلی اے برداشت کر گئی نا فکر کر اور بولی کے پانی لئے میں پانی الیا تو آنٹی نے بڑی بڑی کالی گولیاں نصرت کو کھال دیں اور پانی پالیا نصرت کی ہمت ٹوٹ چکی تھی نصرت کا چہرہ اتر گیا اور رنگ پیال ہو گیا تھا ظاہری بات ہے نصرت کی ہمت تھی جو بازو جتنا لن پھدی سے کے کر منہ سے نکال لیا تھا نصرت دوائی کے کر کجھ ہی دیر میں سنبھل کر لیٹ گئی آنٹی بولی کالو ہن اس نوں آرام کرن دے اس نوں ہنڑ کجھ وی نہیں اے توں گھنٹے بعد ویکھیں پہلے آر پھڑک رہی ہوسی جیویں لن کونڑ توں پہلے اچھل رہی ہا میں ہنس دیا اور باہر نکل کر اپنے کام میں لگ گیا