You are on page 1of 994

[21/06, 4:32

pm] Nawab
Zada:
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#1‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫یہ جھنگ کے‬


‫قریب چھوٹے سے‬
‫قصبے اور گاؤں‬
‫میں مہندی کی‬
‫تقریب کا منظر تھا۔‬
‫شادی کی تیاریاں‬
‫اچانک روک دی‬
‫گئیں تھیں۔ وجہ‬
‫وہی دیہاتوں میں‬
‫ہونے والے‬
‫جھگڑے تھے جن‬
‫کی وجہ صرف انا‬
‫پرستی‪ ،‬ضد اور‬
‫جہالت تھی۔ لڑکے‬
‫کے باپ چوہدری‬
‫سرور نے اپنے‬
‫غصے سے آسمان‬
‫سر پر اٹھایا ہؤا تھا‬
‫کیونکہ اسکی ہونے‬
‫والی بڑی حویلی‬
‫کی بہو نے اپنے‬
‫باپ اور باقی سب‬
‫لوگوں کے سامنے‬
‫چوہدری سرور‬
‫کے اپنے بیٹے کے‬
‫مستقبل کے بارے‬
‫میں کئے فیصلے‬
‫پر اعتراض اٹھایا‬
‫تھا۔‬
‫لیکن اس ساری‬
‫بحث کے بعد بات‬
‫بحث و تکرار سے‬
‫شروع ہو کر گالی‬
‫گلوچ تک آ گئی‬
‫تھی۔ چوہدری نے‬
‫اپنے حاکموں والے‬
‫سٹائل میں حکم سنا‬
‫دیا تھا کہ وہ اپنے‬
‫وارث کے لئے‬
‫صرف ‪ 9‬مہینے‬
‫انتظار کرے گا۔ یہ‬
‫حکم نامہ چوہدری‬
‫نے دولہا سجاد اور‬
‫دولہن دونوں کے‬
‫خاندان اور سب‬
‫مہمانوں کے‬
‫سامنے صادر کیا‬
‫تھا۔ دولہن رضیہ‬
‫بھی سامنے ہی‬
‫موجود تھی جس کو‬
‫گاؤں کے رواج‬
‫کے مطابق بولنے‬
‫کی اجازت نہیں‬
‫تھی۔ لیکن رضیہ‬
‫کے باپ نے اسے‬
‫بہت نازوں سے پاال‬
‫تھا اور اپنی زندگی‬
‫کے فیصلے لینے‬
‫کی پوری آزادی‬
‫دی تھی ۔ جب اس‬
‫دور میں گاؤں کے‬
‫لڑکے تعلیم کو وقت‬
‫کا زیاں سمجھتے‬
‫تھے رضیہ کے‬
‫باپ نے اسے اچھی‬
‫تعلیم دلوائی یہاں‬
‫تک کے وہ‬
‫گریجویشن کے‬
‫لئے ایک ہاسٹل میں‬
‫بھی رہتی رہی تھی۔‬
‫اس وقت وہ اپنے‬
‫گاؤں کی سب سے‬
‫تعلیم یافتہ لڑکی‬
‫تھی۔‬
‫رضیہ نے جب‬
‫دیکھا کے کیسے‬
‫اسکا ہونے واال‬
‫سسر اسکے بارے‬
‫میں کسی استعمال‬
‫ہونے والی چیز کی‬
‫طرح حکم جاری‬
‫کر رہا ہے تو بے‬
‫عزتی اور غصے‬
‫کے احساس سے‬
‫اسکا گندمی رنگ‬
‫الل سرخ ہو گیا۔ وہ‬
‫ایک دم اپنی جگہہ‬
‫سے اٹھی اور اپنے‬
‫سسر کی آنکھوں‬
‫میں جھانکتے ہؤۓ‬
‫بولی "‪:‬شادی کے‬
‫بعد ‪ 5‬سال تک‬
‫میرا ماں بننے کا‬
‫کوئی ارادہ نہیں۔‬
‫میں نوکری کروں‬
‫گی اور میرا شوہر‬
‫سجاد بھی۔ ہم اوالد‬
‫سے پہلے اپنے‬
‫پیروں پر کھڑے‬
‫ہوں گے۔ اوالد کے‬
‫بارے میں ہر‬
‫فیصلہ میں اور میرا‬
‫شوہر لیں گے "۔ یہ‬
‫سب کہتے وقت‬
‫رضیہ کا چہرہ‬
‫غصے سے الل‬
‫بھبھوکہ ہو رہا تھا‬
‫اور اسکی سانسیں‬
‫تیز تیز چل رہی‬
‫تھی جس سے اس‬
‫کے بڑے بڑے‬
‫ممے اوپر نیچے ہو‬
‫رہے تھے۔ اپنے‬
‫دل کی بات سب‬
‫کے سامنے دھڑلے‬
‫سے بول کر رضیہ‬
‫نے جب دیکھا تو‬
‫سارے مجمعے کو‬
‫جیسے سانپ‬
‫سونگھ گیا تھا۔‬

‫پورے مجمعے کی‬


‫نظریں اب چوہدری‬
‫سرور پر تھی کہ‬
‫اسکا ردعمل کیا‬
‫ہوتا ہے۔ "او‬
‫چھوکری "!تیری‬
‫ہمت کیسے ہؤئی‬
‫میرے بیٹے کا نام‬
‫اپنی زبان سے‬
‫لینے کی؟ تو ہوتی‬
‫کون ہے یہ فیصلہ‬
‫کرنے والی کہ‬
‫میرے گھر میں کیا‬
‫ہو گا؟‬
‫رضیہ نے بھی‬
‫اونچی آواز میں‬
‫جواب دیا‪" ،‬پوچھو‬
‫‪،‬اپنے بیٹے سے‬
‫جب میرے پیچھے‬
‫پیچھے پورے گاؤں‬
‫میں دم ہالتا پھرتا‬
‫تھا‪ ،‬اسی نے کہا‬
‫تھا کہ مجھے‬
‫میرے نام سے بالیا‬
‫کرو اور شادی‬
‫کے بعد جو میں‬
‫چاہوں گی وہی ہو‬
‫"گا‬
‫رضیہ کے باپ کو‬
‫انداذہ ہو گیا تھا کہ‬
‫بات بگڑتی جا رہی‬
‫ہے اور اگر رضیہ‬
‫اور چوہدری کو نہ‬
‫سمجھایا تو معاملہ‬
‫ہاتھ سے نکل جائے‬
‫گا اور پورے پنڈ‬
‫میں وہ کسی کو‬
‫منہ دکھانے الئق‬
‫نہیں بچے گا۔‬
‫رضیہ کے باپ نے‬
‫چوہدری کے آگے‬
‫ہاتھ جوڑے اور‬
‫بوال‪"،‬چوہدری‬
‫صاحب میری بیٹی‬
‫مالزمت کرنا چاہتی‬
‫ہے اور اگر ماں بن‬
‫گئی تو یہ کیسے‬
‫مالزمت کر سکے‬
‫گی۔ لیکن اہک بار‬
‫جب یہ آپکی بہو‬
‫بن گئی تو آپکا‬
‫حکم ماننا اس پر‬
‫فرض ہو گا پھر آپ‬
‫‪".‬اپنی چال لینا‬
‫چوہدری کو اسکی‬
‫بات میں چھپے‬
‫پیغام کی سمجھ آ‬
‫گئی تھی۔‬
‫لیکن حاکموں کی‬
‫ہٹ دھرمی تو‬
‫مشہور ہے اور‬
‫چوہدری کے‬
‫سامنے آج تک‬
‫کسی نے اونچی‬
‫آواز میں بات تک‬
‫نہیں کی تھی۔‬
‫‪،‬چوہدری بوال‬
‫بحث کی کوئی"‬
‫ضرورت نہیں۔‬
‫کہیں تمہاری بیٹی‬
‫میں کوئی نقص تو‬
‫نہیں جسے تم‬
‫چھپانے کی کوشش‬
‫کر رہے ہو۔ کہیں‬
‫ایسا تو نہیں کہ وہ‬
‫ماں بننے کے قابل‬
‫ہی نہ ہو؟ یا یہ‬
‫عورت کی جگہ‬
‫کھسرا ہو؟‬
‫چوہدری کے منہ‬
‫سے یہ نکلنا تھا ک‬
‫رضیہ کے برادری‬
‫والے ایک ساتھ‬
‫کھڑے ہو گئے اور‬
‫ان کی آنکھوں سے‬
‫غصہ صاف‬
‫جھلکنے لگا۔ اور‬
‫اس کے بعد وہ‬
‫گالی گلوچ شروع‬
‫ہوئی کہ االمان۔۔ یہ‬
‫سب کنجرخانہ ‪2‬‬
‫گھنٹے جاری رہا‬
‫جس کے بعد‬
‫چوہدری غصے‬
‫میں بھرا اپنے‬
‫لوگوں کو لے کر‬
‫اپنی حویلی چال گیا‬
‫اور رضیہ کے گھر‬
‫والے اپنے گھر‬
‫چلے گئے۔‬

‫رات کے ‪ 10‬بجے‬
‫تھے گاؤں کی‬
‫زیادہ تر آبادی سو‬
‫چکی تھی اور‬
‫حویلی میں‬
‫چوہدری اپنے بیٹے‬
‫سجاد کے اوپر‬
‫غصہ اتار رہا تھا‬
‫جس کی عاشقی کہ‬
‫قصے آج پورے پنڈ‬
‫کی زبان پر تھے۔‬
‫اس زیادہ غصہ اس‬
‫بات کا تھا کہ‬
‫رضیہ کو اتنی ہمت‬
‫اسی وجہ سے ہوئی‬
‫تھی کیونکہ اسے‬
‫پتہ تھا کہ سجاد اس‬
‫کے بغیر نہیں رہ‬
‫سکتا۔ ادھر رضیہ‬
‫اپنے گھر کی چھت‬
‫پر بیٹھی چوہدری‬
‫کے اس سوال پر‬
‫آگ بگولہ ہو رہی‬
‫تھی جو چوہدری‬
‫نے اسکے عورت‬
‫ہونے پر اٹھائے‬
‫تھے۔میں اس آدمی‬
‫کو سبق سکھا کر‬
‫رہوں گی رضیہ‬
‫نے اپنے آپ سے‬
‫کہا۔ لیکن بلی کے‬
‫گلے میں گھنٹی‬
‫‪،‬باندھے گا کون‬
‫پورے پنڈ میں کسی‬
‫میں اتنی ہمت نہیں‬
‫کہ چوہدری کے‬
‫سامنے کوئی سر‬
‫بھی اٹھا سکے۔جو‬
‫بھی کرنس ہے خود‬
‫ہی کرنا پڑے گا۔‬
‫اور بدلہ تو ایسا ہو‬
‫کہ چوہدری کو‬
‫اسی عورت کے‬
‫آگے سر جھکانا‬
‫پڑے جس کے‬
‫عورت ہونے پر‬
‫اس شک ہؤا تھا۔‬

‫رات کے ‪ 12‬بجے‬
‫رضیہ نے چپکے‬
‫سے گھر کا دروازہ‬
‫کھوال اور اندھیرے‬
‫میں چوہدری کی‬
‫حویلی کی طرف‬
‫چل پڑی۔ حویلی‬
‫کے گیٹ پر‬
‫چوکیداروں نے‬
‫اسے روکا لیکن‬
‫شناخت کے بعد پتہ‬
‫چلنے پر کہ وہ‬
‫حویلی کی ہونے‬
‫والی بہو ہے اسے‬
‫اندر جانے کی‬
‫اجازت مل گئی۔‬
‫حویلی سے اندر‬
‫آتے ہی بھت بڑا‬
‫صحن تھا جس کی‬
‫ایک طرف شیڈ میں‬
‫کے قریب ‪50‬‬
‫بھینسیں بندھی تھیں‬
‫اس سے تھوڑا‬
‫آگے ایک بہت بڑا‬
‫باغ تھا جس میں‬
‫آم کے ایک درخت‬
‫کے نیچے چوہدری‬
‫ایک کرسی پر بیٹھا‬
‫حقہ پی رہا تھا اور‬
‫اسکے کمی اور‬
‫چیلے اینٹوں کے‬
‫فرش پر نیچے‬
‫بیٹھے تھے اور ان‬
‫میں سے ایک‬
‫چوہدری کی ٹانگیں‬
‫دبا رہا تھا۔‬

‫انہوں نے رضیہ‬
‫کو آتے دیکھا تو‬
‫ایک دم سب کو‬
‫چپ لگ گئی۔‬
‫رضیہ خاموشی‬
‫سے چوہدری کی‬
‫کرسی کے پاس آ‬
‫کر کھڑی ہو گئی‬
‫اور کھنکھاری۔‬
‫کافی دور سے چل‬
‫کر آنے اور اس‬
‫ساری صورت حال‬
‫کی ٹینشن کی وجہ‬
‫سے رضیہ کا‬
‫سانس چڑھا ہؤا تھا۔‬
‫کھنکھار کی آواز‬
‫سن کر چوہدری‬
‫نے اپنی سرخ سرخ‬
‫آنکھیں کھولیں اور‬
‫رضیہ کو اس وقت‬
‫اور اس جگہ دیکھ‬
‫کر حیران ہو گیا‬
‫اور آنکھیں پھاڑ کر‬
‫اسکی طرف‬
‫دیکھنے لگا۔ مہندی‬
‫کا پیال جوڑا اس‬
‫کے پسینے میں‬
‫بھیگ کر اس کے‬
‫جسم سے چپکا ہؤا‬
‫تھا اور کرسی پر‬
‫بیٹھے چوہدری کو‬
‫نیچے سے اس‬
‫کے تنے ہوئے‬
‫پستان مغرور‬
‫پہاڑوں کی طرح‬
‫لگ رہے تھے۔‬
‫اوپر سے بلب کی‬
‫پیلے رنگ کی‬
‫روشنی رضیہ کو‬
‫مزید قیامت بنا رہی‬
‫تھی۔ اتنے میں‬
‫چوہدری کو احساس‬
‫ہوا کہ یہ کوئی عام‬
‫لڑکی نہیں بلکہ‬
‫اسکے بیٹے کی‬
‫پسند اور شاید‬
‫اسکی ہونے والی‬
‫بہو ہے۔ چوہدری‬
‫نے دیکھا کہ اس‬
‫کے چیلے بھی‬
‫آنکھیں پھاڑے‬
‫رضیہ کو ہی دیکھ‬
‫رہے تھے۔ وہ‬
‫غرایا‪"،‬او‬
‫مادرچودو دفع ہو‬
‫جاؤ میری نظروں‬
‫" کے سامنے سے‬
‫اسکی غراہٹ‬
‫سنتے ہی سب اپنے‬
‫اپنے ٹھکانے کی‬
‫طرف چل پڑے۔‬
‫اب تم یہں کیا"‬
‫"لینے آئی ہو‬
‫چوہدری نے‬
‫پوچھا‪ ،‬اسے اندازہ‬
‫تھا کہ شاید یہ لڑکی‬
‫اپنی زبان درازی‬
‫پر معافی مانگنے‬
‫"آئی ہے۔‬

‫میں یہ کہنے آئی‬


‫ہوں کہ آپ جیسی‬
‫بڑی بڑی مونچھیں‬
‫رکھنے سے یہ‬
‫ثابت نہیں ہوتا کہ‬
‫آپکے خاندان والے‬
‫بڑے مرد ہیں‪ ،‬آپکو‬
‫چاہیئے تھا کہ آپ‬
‫میرے عورت‬
‫ہونے پر سوال‬
‫اٹھانے سے پہلے‬
‫"دفعہ سوچتے ‪10‬‬
‫رضیہ طنزیہ انداز‬
‫میں مسکراتے‬
‫ہوۓ بولی۔‬
‫رضیہ کا طنزیہ‬
‫انداز اور اسکے‬
‫الفاظ ایسے تھے‬
‫کہ چوہدری کو لگا‬
‫کہ اسکے کانوں‬
‫میں سے دھواں‬
‫نکلنے لگا ہے۔ بلب‬
‫کی پیلی روشنی آم‬
‫کے درخت کے‬
‫پتوں سے چھن‬
‫چھن کر رضیہ پر‬
‫پڑ رہی تھی جس‬
‫سے وہ کوئی‬
‫غیرانسانی مخلوق‬
‫لگ رہی تھی۔ اس‬
‫پر اسکی آواز اور‬
‫اسکے الفاظ سے‬
‫چوہدری کی‬
‫مردانگی کو شدید‬
‫ٹھیس لگی تھی۔‬
‫چوہدری کے دماغ‬
‫میں ایک ہی بات‬
‫چل رہی تھی کہ‬
‫اس لڑکی کو سبق‬
‫سکھانا پڑے گا کہ‬
‫مرد ہوتا کیا ہے۔‬
‫وہ غصے میں بھرا‬
‫کرسی سے اٹھا اور‬
‫شیر کی طرح‬
‫رضیہ کی طرف‬
‫بڑھا۔اسکے ہاتھ‬
‫ایسے پھیلے ہوئے‬
‫تھے جیسے اس‬
‫کے منہ پر تھپڑ‬
‫مار کر اس کا منہ‬
‫توڑ دے گا۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#2‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫چوہدری کے‬
‫بڑھتے ہوئے ہاتھ‬
‫کو دیکھ کر پہلی‬
‫مرتبہ رضیہ کو اس‬
‫کے دراز قد‪ ،‬موٹے‬
‫‪،‬اور طاقتور بازو‬
‫چوڑے کندھوں اور‬
‫اس کے گٹھے‬
‫ہوئے جسم سے‬
‫خوف محسوس ہؤا۔‬
‫اسے لگا جیسے وہ‬
‫کسی پہاڑ کے‬
‫سائے میں کھڑی‬
‫اسکی چوٹی کی‬
‫طرف دیکھ رہی‬
‫ہے۔ اس کا جسم‬
‫ایک دفعہ تو خوف‬
‫سے کانپ سا گیا‬
‫لیکن دوسرے‬
‫لمحے اسے پھر‬
‫اپنی بےعزتی یاد‬
‫آئی اور اس نے‬
‫سوچا اب تو جو ہو‬
‫گا دیکھا جائے گا۔‬
‫اس نے اپنی بڑی‬
‫بڑی آنکھیں ایک‬
‫مرتبہ پھر چوہدری‬
‫کی آنکھوں میں گاڑ‬
‫دیں اور ہموار آواز‬
‫میں پورے اعتماد‬
‫کے ساتھ‬

‫بولی‪" ،‬اب آپ‬


‫مجھ پر ہاتھ اٹھا کر‬
‫اپنی نامردی پر‬
‫'پردہ ڈالیں گے؟‬
‫رضیہ کے چہرے‬
‫پر یہ کہتے ہوئے‬
‫طنزیہ مسکراہٹ‬
‫تھی جسے دیکھتے‬
‫ہی چوہدری شیر‬
‫کی طرح غرایا اور‬
‫اس نے اپنے‬
‫چوڑے چکلے‬
‫پنجے میں رضیہ‬
‫کی گردن دبوچ لی‬
‫اور اسے دھکیلتا‬
‫ہؤا پیچھے لے گیا‬
‫یہاں تک کے ایک‬
‫جھٹکے سے رضیہ‬
‫کی پیٹھ آم کے پیڑ‬
‫سے ٹکرائی۔ ادھر‬
‫چوہدری نے‬

‫جب رضیہ کی‬


‫گردن پکڑی تو‬
‫اسکی جلد کی‬
‫نرمی اور گرمی‬
‫نے اس کے اندر‬
‫سوئی ہوس کو جگا‬
‫دیا۔ یہ احساس آتے‬
‫ہی چوہدری کی‬
‫گرفت کمزور ہو‬
‫گئی‪ ،‬اب اس نے‬
‫صرف گلے پر اپنا‬
‫مضبوط ہاتھ رکھا‬
‫ہؤا تھا جس سے‬
‫رضیہ کی کمر‬
‫ابھی بھی درخت‬
‫سے لگی تھی۔‬
‫چوہدری کی‬
‫درندوں جیسی‬
‫طاقت نے رضیہ‬
‫کے اندر کا موسم‬
‫بھی تبدیل کر دیا‬
‫تھا۔ اسے اپنے‬
‫گلے پر چوہدری‬
‫کے کھردرے اور‬
‫سخت ہاتھ سے‬
‫اسکی مردانہ طاقت‬
‫کا اچھے سے انداذہ‬
‫ہو رہا تھا۔‬
‫درخت کے نیچے‬
‫ملگجا سا اندھیرا‬
‫تھا اور آم کے پتوں‬
‫سے چھن چھن کر‬
‫آتی روشنی بڑا‬
‫پراسرار ماحول پیدا‬
‫کر رہی تھی۔ جب‬
‫دونوں کی آنکھیں‬
‫اس اندھیرے میں‬
‫دیکھنے کے قابل‬
‫ہوئیں تو دونوں‬
‫کے ہوش اڑ چکے‬
‫تھے۔ ادھر رضیہ‬
‫چوہدری کی‬
‫آنکھوں میں ہوس‬
‫کے سائے دیکھ‬
‫کر سمجھ چکی‬
‫تھی کہ وہ جہاں‬
‫چوہدری کو النا چاہ‬
‫رہی تھی آخر وہ‬
‫وہاں تک آ ہی گیا‬
‫ہے۔ چوہدری کو‬
‫بھی انداذہ ہو گیا‬
‫تھا کہ وہ کتنی‬
‫نازک صورت حال‬
‫میں ہے۔ اسکی‬
‫گرفت رضیہ کے‬
‫گلے سے ختم ہو‬
‫چکی تھی اب وہ‬
‫اپنی انگلیوں سے‬
‫بے خیالی میں‬
‫رضیہ کی ٹھوڑی‬
‫کو سہال رہا تھا۔‬
‫بول دکھاؤں"‬
‫تجھے اپنی‬
‫مردانگی؟ اور تو‬
‫بتا تو کیسے ثابت‬
‫کرے گی کہ تو‬
‫"پوری عورت ہے‬
‫چوہدری دھیمی‬
‫‪،‬آواز میں بوال‬
‫اسکی آواز میں‬
‫غصے کے عالوہ‬
‫سب کچھ تھا۔‬

‫رضیہ نے چوہدری‬
‫کی کالئی پکڑی‬
‫اور اپنے گلے سے‬
‫ہٹانے کی کوشش‬
‫کی لیکن چوہدری‬
‫کا ہاتھ ہٹانا اسکے‬
‫بس کی بات نہیں‬
‫تھی۔ رضیہ کے‬
‫منہ سے جواب‬
‫نکال "میرے‬
‫عورت ہونے کے‬
‫ثبوت کے چکر میں‬
‫تم اپنی مردانگی‬
‫کی پول نہ کھلوا‬
‫لینا "یہ کہتے ہی‬
‫رضیہ کو انداذہ ہو‬
‫گیا کہ اس سے‬
‫کتنی بڑی غلطی ہو‬
‫گئی ہے۔ اتنا سننا‬
‫تھا کہ چوہدری‬
‫غصے میں اندھا ہو‬
‫گیا ۔ اسکے ہاتھ نے‬
‫رضیہ کے گریبان‬
‫کی طرف حرکت‬
‫کی اور ایک ہی‬
‫جھٹکے میں‬
‫چوہدری نے اسکا‬
‫گریبان اسکے پیٹ‬
‫تک پھاڑ دیا۔‬
‫گریبان پھٹتے ہی‬
‫کالے برا میں قید‬
‫اس کے خربوزے‬
‫کے سائز کے ممے‬
‫ایک جھٹکے سے‬
‫آزاد ہوۓ۔ چوہدری‬
‫نے اگال حملہ‬
‫اسکے برا پر کیا‬
‫اور وہ بھی ایک ہی‬
‫جھٹکے میں ٹوٹ‬
‫کر چوہدری کے‬
‫ہاتھ میں آ گیا۔‬

‫اس جھٹکے سے‬


‫اسکے مموں نے‬
‫اسکے سینے پر‬
‫ایسے باؤنس لیا‬
‫جیسے وہ پانی‬
‫والے غبارے ہوں۔‬
‫چوہدری نے برا‬
‫نیچے پھینک کر‬
‫اوپر دیکھا تو اس‬
‫کی نظر رضیہ کے‬
‫خربوزوں پر پڑی۔‬
‫انکا رنگ اسکے‬
‫جسم کے گندمی‬
‫رنگ سے زیادہ‬
‫صاف تھا اور ان پر‬
‫کسی بادشاہ کے‬
‫تاج کے جیسے‬
‫ہلکے براؤن رنگ‬
‫کے گھیروں پر مٹر‬
‫کے دانے کے سائز‬
‫‪،‬کے نپل تھے‬
‫رضیہ کے غصے‬
‫کی وجہ سے‬
‫اسکے کسے ہوئے‬
‫ممے اوپر نیچے‬
‫ہو رہے تھے۔‬
‫رضیہ نے چوہدری‬
‫کی نظروں کو‬
‫محسوس کرتے ہی‬
‫فورن اپنے ہاتھ‬
‫اپنے مموں پر رکھ‬
‫کر انہیں چھپانے‬
‫کی ناکام کوشش‬
‫کی۔ چوہدری نے‬
‫ہاتھ اسکی طرف‬
‫بڑھاۓ تاکہ اسکے‬
‫ہاتھوں کو ہٹا کر ان‬
‫رس سے بھری‬
‫مسمیوں کا نظارہ‬
‫کر سکے لیکن اسی‬
‫وقت رضیہ کا ایک‬
‫ہاتھ تھپڑ کی‬
‫صورت میں‬
‫چوہدری کی طرف‬
‫بڑھا۔ چوہدری‬
‫سرور اس عمر میں‬
‫بھی کسی چیتے کی‬
‫طرح پھرتیال تھا‬

‫اس نے آدھے‬
‫راستے میں ہی‬
‫رضیہ کا ہاتھ اپنی‬
‫مضبوط گرفت میں‬
‫جکڑ لیا۔ رضیہ کا‬
‫دوسرا ہاتھ کسی‬
‫سپرنگ کی طرح‬
‫اسکے مموں سے‬
‫ہٹا اور چوہدری کی‬
‫دھوتی کی طرف آیا‬
‫اور اس دفعہ اس‬
‫کے ہاتھ میں‬
‫چوہدری کا نیم‬
‫کھڑا لوڑا آ ہی گیا۔‬
‫جب سے چوہدری‬
‫نے رضیہ کو‬
‫دبوچا تھا اس کا‬
‫لوڑا اس وقت سے‬
‫لگاتار کھڑا تھا‬
‫جیسے اسے کچھ‬
‫ہونے کا انتظار ہو۔‬
‫لن کو گرفت میں‬
‫لے کر رضیہ کو‬
‫چوہدری کے مرد‬
‫ہونے کا ثبوت مل‬
‫چکا تھا۔ لمحوں‬
‫میں خون نے‬
‫چوہدری کے‬
‫لوڑے کی طرف‬
‫سفر کرکے اسے‬
‫بھر کر پورا کھڑا‬
‫کر دیا۔‬

‫بہت عرصے بعد‬


‫کسی جوان‬
‫خوبصورت لڑکی‬
‫کے ہاتھ نے اس‬
‫طرح چوہدری کے‬
‫لن کو جکڑا تھا اور‬
‫اسکے نرم ہاتھوں‬
‫کی مضبوط گرفت‬
‫نے چوہدری کو اس‬
‫مزے کی یاد دال‬
‫دی جسے وہ بھول‬
‫‪..‬بیٹھا تھا۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#3‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫چوہدری نے ایک‬
‫مرتبہ اپنے اردگرد‬
‫‪ ،‬نظر دوڑائی‬
‫صحن میں کوئی‬
‫نہیں تھا اور جس‬
‫طرح وہ درخت‬
‫کے سائے میں‬
‫کھڑے تھے انکی‬
‫طرف کوئی غور‬
‫سے دیکھتا تو ہی‬
‫اسکی نظر ان پر‬
‫پڑتی۔ گھوم پھر کر‬
‫چوہدری کی نظر‬
‫واپس آ کر رضیہ‬
‫کے بھرے بھرے‬
‫مموں پر جم گئی‬
‫جو رضیہ کے‬
‫سانسوں کے ساتھ‬
‫اوپر نیچے ہو رہے‬
‫تھے۔ رضیہ کی‬
‫گرفت چوہدری کے‬
‫لن پر کمزور ہوئی‬
‫تو اسے لگا جیسے‬
‫چوہدری کا لن‬
‫جھٹکا کھا کر مزید‬
‫بڑا ہو گیا ہے یہ‬
‫محسوس کرتے ہی‬
‫اس نے غیرارادی‬
‫طور پر چوہدری‬
‫کے لن کو دوبارہ‬
‫دبایا جس سے‬
‫چوہدری کے منہ‬
‫سے مزے کی وجہ‬
‫سے سسکی نکل‬
‫گئی اور اس نے‬
‫اپنی گانڈ کو آگے‬
‫کی طرف حرکت‬
‫دی۔ لڑکی نے‬
‫اپنے ہاتھ کی‬
‫طرف دیکھا جس‬
‫میں اس نے‬
‫چوہدری کا لن پکڑا‬
‫ہوا تھا۔ اسکے ہاتھ‬
‫میں چوہدری کی‬
‫دھوتی کا کپڑا تھا‬
‫جس سے چوہدری‬
‫کا جناتی لوڑا باہر‬
‫آنے کے لئے مچل‬
‫رہا تھا۔ اس ساری‬
‫صورت حال سے‬
‫اس کی چھوٹی سی‬
‫چوت نے بھی رس‬
‫بہانا شروع کر دیا‬
‫تھا۔ رضیہ نے‬
‫گھبرا کر لن کو‬
‫چھوڑا اور دونوں‬
‫ہاتھ اپنے پیچھے‬
‫درخت کے تنے پر‬
‫رکھ کر نظریں‬
‫جھکا لیں۔ اسکے‬
‫ہاتھ پیچھے رکھ کر‬
‫کھڑے ہونے سے‬
‫اس کے ممے اور‬
‫اکڑ کر اسکے‬
‫سینے پر کھڑے ہو‬
‫گئے جس سے‬
‫چوہدری کا حلق‬
‫خشک ہو گیا اور‬
‫اسکے پورے جسم‬
‫میں چیونٹیاں سی‬
‫دوڑنے لگیں۔‬
‫رضیہ نے اپنی‬
‫نظر اٹھا کر‬
‫چوہدری کی طرف‬
‫دیکھا جس کی‬
‫شہوت سے بھری‬
‫نظریں رضیہ کی‬
‫آنکھوں میں ہی‬
‫دیکھ رہی تھیں۔ پھر‬
‫چوہدری نے اپنی‬
‫نظر ایک مرتبہ‬
‫پھر اسکے مموں‬
‫کی طرف دوڑائی۔‬
‫چوہدری کی‬
‫آنکھوں میں اسے‬
‫چودنے کی خواہش‬
‫اتنی واضح تھی‬
‫کے اسکی آنکھیں‬
‫شرم سے جھک‬
‫گئی اور اسکا حلق‬
‫خشک ہو گیا۔‬
‫چوہدری کا ہاتھ‬
‫نرمی سے اسکے‬
‫دائیں ممے پر جم‬
‫گیا اور اس نے‬
‫نیچے ہاتھ لے جا‬
‫کر اسکا دایاں مما‬
‫ایسے اٹھایا جیسے‬
‫اسکا وزن کر رہا‬
‫ہو۔ رضیہ کے‬
‫ہونٹ چوہدری کے‬
‫مردانہ ہاتھوں کا‬
‫لمس اپنے مموں پر‬
‫محسوس کر کے‬
‫اپنے آپ کھل گئے‬
‫تھے اور اسکا جسم‬
‫دھیرے دھیرے‬
‫کانپ رہا تھا۔ اس‬
‫نے مزید طاقت‬
‫سے درخت کے‬
‫تنے کو پکڑ لیا‬
‫جس سے اسکی‬
‫ننگی چھاتیاں اور‬
‫باہر کو ابھر آئیں۔‬
‫اور اسے انداذہ‬
‫ہوگیا کہ اب‬
‫صورت حال ہاتھ‬
‫سے نکل چکی ہے۔‬
‫چوہدری نے سخت‬
‫اور کھردرے‬
‫ہاتھوں سے رضیہ‬
‫کے مموں کو دبایا‬
‫اور اپنے انگوٹھے‬
‫سے اسکے نپل کو‬
‫مسلتے ہوئے‬
‫سرگوشی میں‬
‫بوال‪" ،‬تو ہی ہے وہ‬
‫لڑکی جس سے‬
‫میرا بیٹا شادی کرنا‬
‫چاہتا ہے؟ "رضیہ‬
‫نے ہاں میں اپنے‬
‫سر کو اوپر نیچے‬
‫ہالیا۔ رضیہ کو‬
‫احساس ہوا کہ شاید‬
‫اسکا ہونے واال‬
‫سسر اس سارے‬
‫معاملے کو آگے‬
‫لے جانا چاہتا ہے‬
‫تو اسکے ہاتھ‬
‫دوبارہ چوہدری کی‬
‫دھوتی کی طرف‬
‫بڑھے۔ اس دفعہ‬
‫رضیہ نے دھوتی‬
‫کے کھلے حصے‬
‫سے اپنا ہاتھ‬
‫چوہدری کی بائیں‬
‫ران پر رکھا اور‬
‫آہستگی سے اوپر‬
‫کی طرف حرکت‬
‫دیتے وقت چوہدری‬
‫کا لوڑا پکڑ لیا۔‬
‫جس طرح وہ‬
‫کھڑی تھی چوہدری‬
‫کا لن صحیح طرح‬
‫اسکے ہاتھ میں‬
‫نہیں آ رہا تھا تو اس‬
‫نے اپنی کالئی کی‬
‫پوزیشن تبدیل کی‬
‫اور ہتھیلی کا رخ‬
‫اوپر کی طرف کر‬
‫کے چوہدری کے‬
‫لن کو ایسے گرفت‬
‫میں لیا جیسے‬
‫کرکٹ کھیلتے وقت‬
‫بیٹسمین بیٹ کو‬
‫پکڑتا ہے۔ اسکی‬
‫انگلیاں چوہدری‬
‫کے ٹٹوں کو چھو‬
‫رہی تھیں‪ ،‬ہتھیلی‬
‫میں لن تھا جس کا‬
‫ٹوپا اس کی کالئی‬
‫تک آ رہا تھا۔ "تو‬
‫اسے تم اپنے‬
‫خاندان کی‬
‫مردانگی کا ثبوت‬
‫"کہہ رہے تھے؟‬
‫رضیہ نے‬
‫سرگوشی میں‬
‫جواب دیا۔ اس نے‬
‫اپنا انگوٹھا ٹٹوں‬
‫سے ہٹا کر لوڑے‬
‫کی لمبائی پر پھیرا‬
‫اور اسے لن کی‬
‫پوری لمبائی پر‬
‫رگڑتی ہوئی ٹوپے‬
‫پر لے آئی جو مزی‬
‫کے قطروں سے‬
‫‪،‬گیال ہو رہا تھا‬
‫ایک دفعہ تو‬
‫چوہدری کانپ سا‬
‫گیا۔ غیر ارادی‬
‫طور پر اسکی‬
‫گرفت رضیہ کے‬
‫مموں پر اور سخت‬
‫ہوئی اور اس نے‬
‫زور سے انہیں دبایا‬
‫اور اسکے اکڑے‬
‫ہوئے نپل کو مسل‬
‫دیا جس سے درد‬
‫کی وجہ سے‬
‫رضیہ کراہی لیکن‬
‫اس درد میں ایک‬
‫عجیب طرح کا مزا‬
‫بھی شامل تھا۔‬
‫رضیہ نے اپنے‬
‫ہاتھ چوہدری کے‬
‫لن پر ایسے‬
‫چالئے جیسے مٹھ‬
‫لگا رہی ہو۔‬
‫چوہدری نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھوں سے‬
‫اسکے ممے دبائے‬
‫اور پھر اپنے ہاتھ‬
‫اسکی موٹی گانڈ‬
‫‪،‬کی طرف لے گیا‬
‫اس نے اسکی‬
‫گوشت سے بھرپور‬
‫گانڈ کو دبایا اور‬
‫اپنی ایک انگلی کو‬
‫اسکی گانڈ کی دراڑ‬
‫میں پھنسا دیا۔‬
‫رضیہ اپنا وزن‬
‫کبھی ایک ٹانگ‬
‫پر ڈال رہی تھی‬
‫اور کبھی دوسری‬
‫ٹانگ پر اور اسے‬
‫سمجھ نہیں آ رہی‬
‫تھی کہ وہ کیا‬
‫کرے۔‬

‫بابا "وہ بہت"‬


‫دھیمی آواز میں‬
‫بولی جیسے اس‬
‫نے چوہدری کی‬
‫مردانگی کے آگے‬
‫ہار مان لی ہو۔ یہ‬
‫پہلی دفعہ تھا کہ‬
‫اس نے اپنے ہونے‬
‫والے سسر کو‬
‫بابا "کہہ کے"‬
‫پکارا تھا۔ چوہدری‬
‫اسکے اوپر جھکا‬
‫ہؤا تھا اور اپنی‬
‫گانڈ ہال کر مٹھ‬
‫لگانے میں اسکا‬
‫ساتھ دے رہا تھا۔‬
‫اس نے رضیہ کی‬
‫شلوار نیچے کر دی‬
‫تھی اور اس کی‬
‫بےداغ موٹی گانڈ‬
‫پر اپنے سخت‬
‫کھردرے ہاتھ پھیر‬
‫رہا تھا‪ ،‬ہاتھ‬
‫پھیرتے پھیرتے‬
‫اس نے رضیہ کی‬
‫گانڈ کی دونوں‬
‫پھاڑیوں کو اپنی‬
‫مٹھیوں میں دبوچا‬
‫اور اسے ایسے‬
‫اوپر اٹھایا جیسے‬
‫یہ دیکھ رہا ہو کہ‬
‫وہ اسے اٹھا سکتا‬
‫ہے یا نہیں۔‬
‫چوہدری کہ اسے‬
‫ایسے اٹھانے سے‬
‫اسکی سانسوں کے‬
‫غبارے چوہدری‬
‫کے سینے کے‬
‫ساتھ لگ کر پچک‬
‫سے گئے تھے۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#4‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫بابا "وہ بہت دھیمی‬


‫آواز میں بولی‬
‫جیسے اس نے‬
‫چوہدری کی‬
‫مردانگی کے آگے‬
‫ہار مان لی ہو۔ یہ‬
‫پہلی دفعہ تھا کہ‬
‫اس نے اپنے ہونے‬
‫والے سسر کو‬
‫بابا "کہہ کے"‬
‫پکارا تھا۔ چوہدری‬
‫اسکے اوپر جھکا‬
‫ہؤا تھا اور اپنی‬
‫گانڈ ہال کر مٹھ‬
‫لگانے میں اسکا‬
‫ساتھ دے رہا تھا۔‬
‫اس نے رضیہ کی‬
‫شلوار نیچے کر دی‬
‫تھی اور اس کی‬
‫بےداغ موٹی گانڈ‬
‫پر اپنے سخت‬
‫کھردرے ہاتھ پھیر‬
‫رہا تھا‪ ،‬ہاتھ‬
‫پھیرتے پھیرتے‬
‫اس نے رضیہ کی‬
‫گانڈ کی دونوں‬
‫پھاڑیوں کو اپنی‬
‫مٹھیوں میں دبوچا‬
‫اور اسے ایسے‬
‫اوپر اٹھایا جیسے‬
‫یہ دیکھ رہا ہو کہ‬
‫وہ اسے اٹھا سکتا‬
‫ہے یا نہیں۔‬
‫چوہدری کہ اسے‬
‫ایسے اٹھانے سے‬
‫اسکی سانسوں کے‬
‫غبارے چوہدری‬
‫کے سینے کے‬
‫ساتھ لگ کر پچک‬
‫‪،‬سے گئے تھے‬

‫چوہدری نے اسے‬
‫تھوڑا مزید اٹھایا‬
‫جس کی وجہ سے‬
‫اب چوہدری کا اپنی‬
‫ہی مزی سے گیال‬
‫لوڑا رضیہ کی‬
‫رس ٹپکاتی پھدی‬
‫سے رگڑ کھانے‬
‫لگا۔ دوسری طرف‬
‫رضیہ نے اپنی‬
‫نازک بانہیں‬
‫چوہدری کی گردن‬
‫میں ڈالیں اور اس‬
‫سے پوری طاقت‬
‫سے چمٹ گئی۔‬
‫چوہدری آہستہ‬
‫آہستہ اپنا لوڑا‬
‫رضیہ کی رسیلی‬
‫پھدی پر رگڑ رہا‬
‫تھا۔ ادھر رضیہ کو‬
‫ڈر بھی لگ رہا تھا‬
‫کہ اگر چوہدری‬
‫نے اپنا جن اسکی‬
‫نازک چوت میں‬
‫ڈال دیا تو اس پھدا‬
‫بنا کے ہی نکلے‬
‫گا۔ وہ سسکی اور‬
‫کراہی اور اس کے‬
‫ساتھ ہی اس نے‬
‫اپنی ٹانگیں اور‬
‫کھول دیں ۔‬
‫چوہدری نے اسے‬
‫سختی سے اپنی‬
‫گود میں جکڑ کر‬
‫اٹھایا ہؤا تھا اور‬
‫اس کی ان چھوئی‬
‫چوت پر اپنا لوڑا‬
‫رگڑ رہا تھا۔ اس‬
‫نے اچانک رضیہ‬
‫کو پکڑ کر‬
‫جھنجھوڑا جس‬
‫سے ٹوپے کے بہت‬
‫معمولی سے‬
‫حصے نے جیسے‬
‫چوت کے اندر‬
‫گھسے بغیر کھدائی‬
‫کی ہو‪ ،‬چوہدری‬
‫اندر ڈالتے ہؤۓ‬
‫ہچکچا بھی رہا تھا‬
‫کیونکہ یہ لڑکی‬
‫اسکی بہو بننے جا‬
‫رہی تھی۔ اسے‬
‫سمجھ نہیں آ رہی‬
‫تھی کہ کیا کرے‬
‫اور اگر وہ رضیہ‬
‫کو چودتا ہے تو‬
‫رضیہ کا ردعمل‬
‫کیا ہو گا کہیں وہ‬
‫اسکی برسوں میں‬
‫بنائی عزت کو‬
‫برباد نہ کر دے۔‬
‫ادھر رضیہ کو مزہ‬
‫تو آ رہا تھا لیکن وہ‬
‫بھی اپنے ہونے‬
‫والے سسر سے‬
‫اپنی چوت پھڑواتے‬
‫ہوئے شش و پنج کا‬
‫شکار تھی۔ کہیں‬
‫اسکا سسر اسے‬
‫چودنے کے بعد‬
‫چدکڑ سمجھ کر‬
‫شادی سے انکار نہ‬
‫کر دے۔‬

‫اس لئے اگر وہ‬


‫چود دے تو اور‬
‫بات لیکن اسے یہ‬
‫پتا نہیں لگنا چاہیے‬
‫کہ وہ اپنے سسر کا‬
‫لن لینے کے لئے‬
‫کتنی بے چین ہو‬
‫رہی ہے۔‬
‫بابا؟ "رضیہ"‬
‫دھیمی آواز میں‬
‫بولی۔‬

‫اب ھم کیا کریں"‬


‫بیٹی؟ "چوہدری نے‬
‫ایسے پکارا جیسے‬
‫ایک سسر کو اپنی‬
‫بہو کو پکارنا‬
‫چاہئے۔‬

‫مجھے چھوڑ"‬
‫دیں بابا "رضیہ‬
‫اپنے بازؤوں کے‬
‫بل پر مزید اوپر‬
‫ہؤئی اور چوہدری‬
‫کے کان میں بولی۔‬

‫اور تیرا ہماری"‬


‫مردانگی کو لے‬
‫کر جو سوال تھا‬
‫اسکا کیا؟ "چوہدری‬
‫نے پوچھا۔‬

‫مجھے جواب مل"‬


‫گیا ہے کہ آپ‬
‫کتنے مرد ہیں اور‬
‫میرے خیال میں‬
‫آپکو بھی میرے‬
‫عورت ہونے کے‬
‫بارے میں کئے‬
‫سوال کا جواب مل‬
‫"گیا ہو گا‬
‫اس سچویشن"‬
‫میں کس طرح ایک‬
‫مرد اور عورت‬
‫اپنے آپ کو کنٹرول‬
‫"کر سکتے ہیں‬
‫چوہدری اپنے‬
‫ہونٹوں سے رضیہ‬
‫کے نپل چھو کر‬
‫بوال۔ اس نے اپنی‬
‫مونچھوں سے‬
‫رضیہ کے گول‬
‫مٹول مموں کی‬
‫سفید جلد کو رگڑا‬
‫اور اپنے ہونٹوں‬
‫سے اسکے مٹر‬
‫کے دانے کو‬
‫چھیڑا۔‬
‫جس طرح ایک "‬
‫سسر اور بہو کو‬
‫کنٹرول کرنا‬
‫چاہئیے بابا "رضیہ‬
‫نے چوہدری کے‬
‫کھڑے لن کو اپنی‬
‫موٹی رانوں کے‬
‫بیچ دبا کر جواب‬
‫دیا۔ چودھری کو‬
‫بیرونی اور ندرنی‬
‫خطرات بھی تھے‬
‫اسکا بھتیجا نواب‬
‫زادہ اور چوہدرانی‬
‫ہر وقت چوہدری‬
‫کے تعاقب میں‬
‫لگے رھتے‬
‫چودھری نے‬
‫اعصاب شکن‬
‫لمحے میں پہل‬
‫کرتے ہوئے کہا‬
‫کیا مجھے اپنے"‬
‫بیٹے کی شادی تم‬
‫سے ہونے دینی‬
‫چاہئیے؟ "چوہدری‬
‫اس کے خربوزوں‬
‫پر زبان پھیرتا ہوا‬
‫بوال۔ اسکی زبان‬
‫اب رضیہ کے‬
‫دونوں مموں اور‬
‫دونوں نپلز کو‬
‫لگاتار نشانہ بنا‬
‫رہی تھی اور‬
‫چوہدری کے تھوک‬
‫سے بلب کی پیلی‬
‫روشنی میں اسکے‬
‫ممے چمک رہے‬
‫تھے۔ چوہدری کو‬
‫ایسے لگ رہا تھا‬
‫جیسے وہ پوری‬
‫طرح پکے ہوئے‬
‫اور شہد کی طرح‬
‫میٹھے آم چوس رہا‬
‫ہے۔‬
‫رضیہ کی نظر‬
‫اپنے ممے چوستے‬
‫چوہدری پر پڑی تو‬
‫اسے لگا جیسے‬
‫اسکے نپلز سے‬
‫کرنٹ نکل کر‬
‫اسکی رس‬
‫چھوڑتی چوت کی‬
‫طرف جا رہا ہے۔‬
‫لیکن ابھی بھی‬
‫چوہدری کے سوال‬
‫کا جواب باقی تھا۔‬
‫رضیہ نے ایک‬
‫لمحہ سوچ کر‬
‫جواب اپنی چوت‬
‫سے دینے کا فیصلہ‬
‫کیا۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#5‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫رضیہ نے آم کے‬
‫درخت کی نیچے‬
‫تک لٹکتی ایک‬
‫شاخ کو اپنی گرفت‬
‫میں لیا اور اپنے‬
‫ہاتھوں کی طاقت‬
‫سے اپنے جسم کو‬
‫ااٹھایا۔ چوہدری‬
‫کے ہاتھوں نے‬
‫اتنی دیر سے‬
‫رضیہ کا وزن اٹھایا‬
‫ہؤا تھا لیکن اب‬
‫رضیہ کا وزن آم‬
‫کی شاخ نے اٹھایا‬
‫ہؤا تھا اور رضیہ‬
‫اپنی نازک سی‬
‫چوت چوہدری کے‬
‫جناتی لوڑے کے‬
‫نشانے پر رکھ کر‬
‫ہوا میں معلق ثھی۔‬
‫اس نے چوہدری‬
‫سے چد کر اسے‬
‫اپنے بس میں‬
‫کرنے کا فیصلہ لے‬
‫لیا تھا۔ اس کی اس‬
‫پوزیشن نے اسکی‬
‫موسمیوں کا رس‬
‫چوسنا چوہدری‬
‫کے لئے اور آسان‬
‫بنا دیا تھا اور وہ‬
‫اسکا پورا فائدہ اٹھا‬
‫رہا تھا۔ چوہدری‬
‫نے اپنے ہاتھ آزاد‬
‫ہونے کے بعد‬
‫رضیہ کی رسیلی‬
‫پھدی کو انشانہ بنایا‬
‫اور اسکی پھدی‬
‫کے دونوں لب اپنی‬
‫انگلیوں سے کھول‬
‫کر سوالیہ نظروں‬
‫سے اپنی ہونے‬
‫والی بہو کو دیکھا۔‬
‫رضیہ نے ایک‬
‫مرتبہ چوہدری کے‬
‫لن کی طرف دیکھا‬
‫جو اسکی چوت‬
‫سے ٹکرا رہا تھا‬
‫اور ایک دم اس‬
‫شاخ کو چھوڑ دیا‬
‫جس نے اسکا وزن‬
‫اٹھایا ہوا تھا۔ کہتے‬
‫ہیں العلمی بھی‬
‫بہت بڑی نعمت‬
‫ہوتی ہے اور‬
‫رضیہ کی کنواری‬
‫چوت نے العلمی‬
‫میں ایک بہادرانہ‬
‫لیکن بےوقوفی‬
‫بھرا قدم اٹھا لیا تھا۔‬
‫چوہدری کا پورا‬
‫اکڑا ہؤا اور‬
‫پھنکارتا ہوا لن اس‬
‫کی چھوٹی سی‬
‫اور معصوم سی‬
‫چوت کو ایک ہی‬
‫جھٹکے میں چیرتا‬
‫ہوا اندر تک گھس‬
‫گیا۔ درد کی لہر‬
‫ناقابل برداشت تھی‬
‫اسے لگ رہا تھا‬
‫جیسے کوئی جلتا‬
‫ہوا سریا کسی نے‬
‫پوری طاقت سے‬
‫اسکی کنواری‬
‫چوت میں گھسا دیا‬
‫ہو۔ چوہدری کا لن‬
‫اسکی بچہ دانی کو‬
‫جا کے لگا تھا اور‬
‫وہ ایسے چیخی‬
‫جیسے عید پر‬
‫بکرے کو ذبح‬
‫کرتے وقت وہ‬
‫چیختا ہے۔ اسے‬
‫اپنی چوت میں‬
‫چوہدری کا لوڑا‬
‫ٹھمکے کھاتا صاف‬
‫محسوس ہو رہا تھا‬
‫اور گرم خون کی‬
‫دھار اسکی چوت‬
‫سے نکل کر اسکی‬
‫سڈول ٹانگوں سے‬
‫ہوتی پاؤں کی‬
‫‪،‬طرف جا رہی تھی‬
‫دوسری طرف‬
‫اسکج تنگ پھدی‬
‫نے چوہدری کے‬
‫لوڑے کو شکنجے‬
‫کی طرح جکڑا ہوا‬
‫تھا۔ چوہدری کو‬
‫مزہ تو انتہا کا آ رہا‬
‫تھا لیکن ساتھ ہی‬
‫اسکے لن میں‬
‫تکلیف بھی ہو رہی‬
‫تھی۔ ادھر پورا لن‬
‫لے کر رضیہ کے‬
‫منہ سے کراہیں‬
‫اور سسکیاں بلند ہو‬
‫رہی تھیں اور اسکا‬
‫جسم تکلیف کی‬
‫شدت سے کانپ رہا‬
‫تھا۔ چوہدری نے‬
‫پیار سے اسے‬
‫اپنے گلے سے لگا‬
‫کر بھینچ لیا اور‬
‫ہلے بغیر انتظار‬
‫کرنے لگا کہ کب‬
‫وہ رونا بند کرتی‬
‫ہے‪ ،‬اسے رضیہ‬
‫کی تکلیف کا پورا‬
‫احساس تھا۔ تھوڑی‬
‫دیر بعد رضیہ کی‬
‫ہچکیاں کم ہو گئی‬
‫اور اسے احساس‬
‫ہوا کہ جو ہونا تھا‬
‫وہ تو ہو گیا۔ اس‬
‫نے ایک بار پھر‬
‫شاخ پر اپنا بوجھ‬
‫ڈال کر اپنا جسم‬
‫‪،‬لوڑے سے اٹھایا‬
‫رضیہ کو لن کے‬
‫ایک ایک انچ‬
‫نکلنے کا پتہ لگ‬
‫رہا تھا۔ اسکا جسم‬
‫اٹھا اور ایک مرتبہ‬
‫پھر اسی رفتار اور‬
‫طاقت سے نیچے‬
‫آیا جیسے پہلی دفعہ‬
‫آیا تھا۔ گاؤں کی‬
‫جٹی نے ہار نہیں‬
‫مانی تھی اور اس‬
‫نے دوبارہ پورا لن‬
‫اپنی خون اگلتی‬
‫چوت میں لے لیا‬
‫تھا۔ چوہدری کے‬
‫منہ سے غراہٹ‬
‫نکلی اور اس نے‬
‫رضیہ کی گردن پر‬
‫اپنے دانت گاڑ‬
‫دیے۔ اور دھیرے‬
‫دھیرے اس کی‬
‫گردن کی حساس‬
‫جلد پر چھوٹی‬
‫چھوٹی دندیاں‬
‫کاٹنے لگا۔ رضیہ‬
‫پورا لن ے کر‬
‫ایسے ڈھے گئی‬
‫تھی جیسے اس کی‬
‫روح جسم سے‬
‫پرواز کر گئی ہو۔‬
‫چوہدری کو اسکی‬
‫تکلیف کا پورا‬
‫احساس تھا اور وہ‬
‫بغیر لن ہالئے‬
‫اسکی گردن چوس‬
‫اور چاٹ رہا تھا‬
‫جس سے رضیہ‬
‫کے جسم میں درد‬
‫کے ساتھ ساتھ‬
‫مزے کی لہریں‬
‫بھی اٹھنے لگی‬
‫تھیں۔ اس کی‬
‫کنواری پھدی‬
‫وحشیانہ انداز سے‬
‫پھٹ چکی تھی اور‬
‫اسکی ذمہ دار وہ‬
‫خود تھی۔ اسکی‬
‫آنکھوں سے آنسو‬
‫بہہ بہہ کر اسکے‬
‫چہرے سے ہوتے‬
‫ہوئے گردن تک جا‬
‫رہے تھے جہاں‬
‫چوہدری کی زبان‬
‫انہیں امرت کی‬
‫طرح چوستی جا‬
‫رہی تھی۔ رضیہ کا‬
‫جسم دوبارہ اس‬
‫درد بھری لذت کو‬
‫محسوس کرنے‬
‫کے لئیے تیار تھا۔‬
‫اس نے اپنی بانہیں‬
‫چوہدری کے گلے‬
‫میں ڈال کر اپنا‬
‫جسم پھر اٹھایا‬
‫یہاں تک کے‬
‫اسکے ممے‬
‫چوہدری کے منہ‬
‫تک آ گئے اور‬
‫صرف چوہدری‬
‫کے لن کا ٹوپا‬
‫اسکی چوت میں رہ‬
‫گیا اور ایک بار‬
‫پھر اپنے پورے‬
‫وذن سے نیچے آئی‬
‫چوہدری پھٹی پھٹی‬
‫آنکھوں سے پورا‬
‫منظر دیکھ رہا تھا‬
‫کہ کیسے اسکے‬
‫بازؤں اور کندھوں‬
‫کے پٹھے اپنے‬
‫وذن کے اٹھانے‬
‫کی وجہ سے کھچ‬
‫گئے تھے اور‬
‫کیسے مکمل‬
‫اونچائی پر پہنچ کر‬
‫اسکی چھاتیاں کھچ‬
‫کر مزید باہر کی‬
‫طرف نکل آئی تھیں‬
‫جن پر اسکے نپل‬
‫چدائی کی لذت سے‬
‫کھڑے ہو چکے‬
‫تھے۔ بلب کی‬
‫روشنی سے اسکے‬
‫جسم کی پہاڑیاں‬
‫اور کھائیاں گولڈن‬
‫رنگ میں رنگی‬
‫لگ رہی تھیں۔‬
‫چوہدری اسکے‬
‫کسے ہوئے لچکدار‬
‫جسم کو اپنی بانہوں‬
‫میں جکڑے باؤال‬
‫ہو گیا تھا۔ رضیہ کا‬
‫جسم نیچے آتے‬
‫ہوئے چوہدری کے‬
‫طاقتور ہاتھوں پر‬
‫ٹک گیا اسکی‬
‫انگلیاں اسکی موٹی‬
‫گانڈ کے گوشت‬
‫میں دھنس گئیں‬
‫اسکے ساتھ ہی‬
‫اسکا لن اسکی‬
‫پھدی کو مکمل‬
‫چیرتا ہوا ایک بار‬
‫پھر اندر تک گھس‬
‫گیا۔ اسکی پھدی ان‬
‫دھکوں میں ہی ‪3-4‬‬
‫اپنے رس اور خون‬
‫سے رواں ہو گئی‬
‫تھی اور چوہدری‬
‫کا لوڑا آسانی سے‬
‫اندر باہر ہو رہا تھا۔‬

‫آہ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رضیہ‬
‫کے ہونٹوں سے‬
‫لذت کے نشے میں‬
‫ڈوبی سسکی نکلی‬
‫چوہدری کے ‪،‬‬
‫لوڑے سے اسکی‬
‫چوت بچہ دانی تک‬
‫بھر گئی تھی اور‬
‫لوڑے کے پھنس‬
‫پھنس کر اندر باہر‬
‫ہونے سے دونوں‬
‫کو رگڑ کا پورا مزہ‬
‫مل رہا تھا۔‬

‫رضیہ اب روانی‬
‫اور تیزی سے‬
‫چوہدری کے لن پر‬
‫اچھل رہی تھی۔‬
‫چودو مجھے‪ ،‬اور‬
‫‪ ،‬زور سے بابا‬
‫میری کنورای پھدی‬
‫پھاڑ دو‪ ،‬رضیہ‬
‫کے منہ سے ایسے‬
‫الفاظ نکل رہے‬
‫تھے جو اس نے‬
‫کبھی خواب میں‬
‫بھی نہیں سوچے‬
‫تھے۔ ان دونوں کی‬
‫زوردار چدائی سے‬
‫آم کے درخت کی‬
‫نیچے جھکی‬
‫کمزور شاخیں ہل‬
‫رہی تھیں اور پتے‬
‫گر کر ان سسر اور‬
‫بہو کی چدائی کی‬
‫داستان رقم کر‬
‫رہے تھے۔ رضیہ‬
‫کی چوت نے‬
‫چوہدری کے لن کو‬
‫ایسے جکڑا ہوا تھا‬
‫جیسے لن کسی‬
‫شکنجے میں پھنسا‬
‫ہؤا ہو‪ ،‬چوہدری‬
‫نے اپنی جوانی‬
‫سے لے کر اب تک‬
‫بہت سی پھدیاں‬
‫ماری تھیں جن میں‬
‫سے بہت سی‬
‫کنواری بھی تھیں‬
‫لیکن جو نشہ اور‬
‫گرمی اس چوت‬
‫میں تھی وہ آج تک‬
‫اسے کسی میں‬
‫نہیں ملی تھی۔‬
‫چوہدری کو رضیہ‬
‫کے گندمی چہرے‬
‫پر تھکن کے آثار‬
‫نظر آئے تو اس نے‬
‫کنٹرول اپنے‬
‫ہاتھوں میں لینے‬
‫کا فیصلہ کیا اور‬
‫اپنے ہاتھ رضیہ کی‬
‫گانڈ پر جما کر‬
‫اسے اپنگ لن پر‬
‫اچھالنے لگا کچھ‬
‫دھکوں کے بعد‬
‫رضیہ دوبارہ اسکا‬
‫ساتھ دینے لگی۔‬
‫چوہدری اسے اٹھاتا‬
‫تو رضیہ اپنے‬
‫بازوؤں سے اپنے‬
‫جسم کو مزید اوپر‬
‫التی‪ ،‬چوہدری ایک‬
‫دم اسے چھوڑتا‬
‫جس سے ایک‬
‫جھٹکے کے ساتھ‬
‫رضیہ کا جسم‬
‫نیچے آتا اور ایک‬
‫جاندار جھٹکے کے‬
‫ساتھ چوہدری کا‬
‫پورا لن ٹٹوں تک‬
‫اسکی سوجی ہوئی‬
‫پھدی میں گھس‬
‫جاتا۔ یہ جھٹکے‬
‫اتنے جاندار تھے‬
‫کے اب سسکیوں‬
‫کے ساتھ رضیہ‬
‫کے جسم نے کانپنا‬
‫بھی شروع کر دیا‬
‫تھا۔ اسکی کمر‬
‫درخت کے تنے‬
‫سے رگڑ کھا کھا‬
‫کر چھل گئی تھی۔‬
‫جلد ہی چوہدری‬
‫کے وحشیانہ‬
‫جھٹکوں سے‬
‫درخت کے ہلنے‬
‫سے شاخوں سے‬
‫پکے ہوئے آم‬
‫گرنے لگے۔‬
‫چوہدری کو لگا کہ‬
‫انکے شور سے‬
‫اور آموں کے‬
‫گرنے سے کہیں‬
‫کسی کا دھیان‬
‫انکی طرف نہ ہو‬
‫جائے تو چوہدری‬
‫نے اپنے جھٹکوں‬
‫کی رفتار تھوڑی‬
‫کم کی اور آرام‬
‫اور سکون سے‬
‫رضیہ کی چوت‬
‫میں اپنا لن اتارنے‬
‫لگا۔ لیکن اس وقت‬
‫تک انکے شور‬
‫سے کسی کا دھیان‬
‫انکی طرف چال گیا‬
‫تھا۔‬

‫کون ہمارے آم‬


‫چوری کر رہا ہے؟‬
‫چوہدری کو اپنی‬
‫بیوی کی آواز‬
‫سنائی دی۔‬

‫رضیہ پکڑے‬
‫جانے کے خوف‬
‫سے سن سی ہو‬
‫گئی اس نے اپنا‬
‫جسم اوپر اٹھایا اور‬
‫چوہدری کے‬
‫لوڑے سے اترنے‬
‫کی کوشش کی۔‬
‫لیکن چوہدری پر تو‬
‫حیوانی شہوت‬
‫سوار تھی اور وہ‬
‫اسے چھوڑنے پر‬
‫تیار نہیں تھا۔‬
‫چوہدری نے ایک‬
‫مرتبہ پھر اپنا لوڑا‬
‫تلوار کی طرح‬
‫اسکی چوت میں‬
‫اتارنے کی کوشش‬
‫کی لیکن رضیہ‬
‫اسکے گلے سے‬
‫اپنی پوری طاقت‬
‫سے چمٹ گئی‬
‫تھی۔بابا ہم پکڑے‬
‫جائیں گے‪ ،‬چھوڑ‬
‫دیں مجھے۔‬
‫چوہدری نے اپنی‬
‫بیوی کے قدموں‬
‫کی آہٹ قریب آتے‬
‫سنی تو رضیہ کو‬
‫گود میں اٹھائے‬
‫بھینسوں کے‬
‫چارے والے کمرے‬
‫میں گھس گیا‬
‫اسکے چلنے سے‬
‫رضیہ جھٹکا کھا‬
‫کر دوبارہ چوہدری‬
‫کے لن پر گر چکی‬
‫تھی اور چوہدری‬
‫کے چلنے سے‬
‫اسکا لن مختلف‬
‫زاویوں سے رضیہ‬
‫کی پھدی کو کھود‬
‫رہا تھا۔ چوہدری‬
‫کی بیوی آم کے‬
‫درخت تک پہنچ‬
‫چکی تھی اس نے‬
‫آم گرے دیکھے تو‬
‫اونچی آواز میں‬
‫‪،‬بولی‬

‫"کون ہے یہاں"‬
‫"آہ"‬

‫رضیہ کے منہ‬
‫سے غیر ارادی‬
‫طور پر نکال کیوں‬
‫کے چلتے چلتے‬
‫ایک جھٹکے سے‬
‫ایک بار پھر‬
‫چوہدری کا لوڑا‬
‫پورا اندر گھس چکا‬
‫تھا۔ ادھر چوہدری‬
‫مزے کی اچانک‬
‫لہر سے غرایا۔‬
‫باقی کے قدم لیتے‬
‫وقت چوہدری کا‬
‫دھیان چلنے کی‬
‫بجائے اسکی پھدی‬
‫مارنے کی طرف‬
‫زیادہ تھا۔ وہ ہر قدم‬
‫کے ساتھ جھٹکے‬
‫کو خوب انجوائے‬
‫کر رہا تھا۔ رضیہ‬
‫کی نظر چوہدری‬
‫کے کندھوں کے‬
‫اوپر سے اسکی‬
‫ہونے والی ساس‬
‫پر جمی تھی جو آم‬
‫کے پیڑ کے پاس‬
‫کھڑی کھوجتی‬
‫نگاہوں سے ادھر‬
‫ادھر دیکھ رہی‬
‫تھی۔ بابا جلدی‬
‫چلیں ہم یہ کسی اور‬
‫دن بھی کر سکتے‬
‫ہیں‪ ،‬اگر ساسو ماں‬
‫نے پکڑ لیا تو بہت‬
‫برا ہو گا۔‬

‫چوہدری کو رضیہ‬
‫کی خوف زدہ آواز‬
‫سے سچویشن کا‬
‫انداذہ ہوا تو اس نے‬
‫چارے والے کمرے‬
‫کی کنڈی لگا دی۔‬
‫رضیہ ابھی تک‬
‫چوہدری کی گود‬
‫میں تھی اور اسکا‬
‫لوڑا رضیہ کی‬
‫چوت میں گھسا ہوا‬
‫تھا۔ پچھلے دس‬
‫منٹ سے رضیہ‬
‫چوہدری کی گود‬
‫میں تھی اور اب‬
‫اس کے بازو درد‬
‫کر رہے تھے۔‬
‫چوہدری نے رضیہ‬
‫کو چارپائی پر‬
‫ایسے لٹا دیا کے‬
‫اسکی اوپری دھڑ‬
‫چارپائی پر تھا اور‬
‫گانڈ چوہدری کے‬
‫ہاتھوں میں اور‬
‫دونوں ٹانگیں‬
‫چوہدری کی گانڈ‬
‫سے لپٹی ہوئی‬
‫تھیں۔ رضیہ نے‬
‫اپنی بانہیں چارپائی‬
‫پر پھیال کر انہیں‬
‫ریسٹ دیا لیکن‬
‫چوہدری کا کچھ‬
‫اور ارادہ تھا اس‬
‫نے ایک جھٹکے‬
‫سے اپنا پورا لن‬
‫رضیہ کی تنگ‬
‫چوت میں اتار دیا‬
‫اور لگاتار جھٹکے‬
‫مارنے شروع کر‬
‫دئیے۔ چوہدری‬
‫جلدی سے جلدی‬
‫فارغ ہونا چاہ رہا‬
‫تھا اس لئے اسکے‬
‫جھٹکوں کی رفتار‬
‫تیز ہوتی گئی۔‬
‫کمرہ چارپائی کی‬
‫چیخوں‪ ،‬رضیہ کی‬
‫سسکیوں اور آہوں‬
‫اور چوہدری کی‬
‫حیوانی غراہٹوں‬
‫‪ ،‬سے بھر گیا تھا‬
‫رضیہ کے ممے ہر‬
‫جھٹکے کے ساتھ‬
‫تیزی سے اسکے‬
‫منہ کی طرف‬
‫جاتے اور اسی‬
‫رفتار سے اسکے‬
‫کسے ہوئے پیٹ‬
‫کی طرف جھٹکے‬
‫سے آتے۔ اس نے‬
‫اپنی ٹانگیں‬
‫چوہدری کی‬
‫کمرکے گرد لپیٹی‬
‫ہوئی تھیں اور‬
‫چدائی سے لطف‬
‫اندوز ہو رہی تھی۔‬
‫اسکا چہرہ سرخ ہو‬
‫چکا تھا اور اسے‬
‫لگ رہا تھا جیسے‬
‫اس کی چوت سے‬
‫کوئی سونامی‬
‫نکلنے کے لئے‬
‫تیار ہے۔ اب انہیں‬
‫اس چدائی سے دنیا‬
‫کی کوئی طاقت‬
‫نہیں روک سکتی‬
‫تھی۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#6‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫چوہدری کو لگ‬
‫رہا تھا کہ اب اگر‬
‫کوئی اسے اس‬
‫چدائی سے روکے‬
‫تو شاید وہ پاگل ہو‬
‫جائے گا۔ رضیہ‬
‫کی ساس کو بھی‬
‫اس کمرے سے‬
‫اٹھتی آوازیں سنائی‬
‫دے گیئیں تھیں وہ‬
‫دروازے پر آئی‬
‫اور پوچھا‬

‫کون اپنی ماں " ‪،‬‬


‫"چدعا رہا ہے یہاں‬
‫بہن کی لوڑی"‬
‫میں ہوں یہاں‪ ،‬دفع‬
‫"ہو جا یہاں سے‬

‫چوہدری اپنی بیوی‬


‫پر غرایا۔‬
‫چوہدراین نے اپنے‬
‫شوہر کی آواز سن‬
‫لی اسے پتہ تھا کہ‬
‫وہ کمرے میں کیا‬
‫کر رہا ہے لیکن‬
‫چوہدری کے آگے‬
‫بولنے کی کسی‬
‫میں ہمت نہیں تھی۔‬
‫اس نے لکڑی کے‬
‫دروازے میں سے‬
‫ایک چھوٹی سی‬
‫درز ڈھونڈی اور‬
‫اپنی آنکھیں اس پر‬
‫جما دی۔ اندھیرے‬
‫میں وہ بمشکل‬
‫چوہدری کی ننگی‬
‫گانڈ دیکھ پا رہی‬
‫تھی جو کسی کو‬
‫چودتے ہوئے آگے‬
‫پیچھے ہو رہی‬
‫تھی۔ اتنے اندھیرے‬
‫میں یہ پتہ لگانا‬
‫مشکل تھا کہ وہ‬
‫کس کی لے رہا‬
‫ہے۔ اور اپنی ساری‬
‫عمر چوہدری کے‬
‫ساتھ گزار کر اسے‬
‫اتنا تو پتہ تھا کہ وہ‬
‫کبھی کبھار ادھر‬
‫ادھر منہ مار لیتا‬
‫تھا جو زمینداروں‬
‫کے لئے عام سی‬
‫بات تھی۔ اس نے‬
‫دروازے سے اپنی‬
‫نظد ہٹائی اور واپس‬
‫رہائشی عمارت کی‬
‫طرف چل دی۔ لیکن‬
‫آم کے درخت کے‬
‫پاس پہنچ کر‬
‫چوہدراین کے دماغ‬
‫میں آیا کے دیکھنا‬
‫تو چاہیئے کہ‬
‫چوہدری کس کو‬
‫چود رہا ہے‪ ،‬یہ‬
‫سوچ کر وہ درخت‬
‫کے پیچھے چھپ‬
‫گئی۔‬
‫ادھر چوہدری کے‬
‫طوفانی جھٹکوں‬
‫کے آگے رضیہ کی‬
‫بس ہو رہی تھی۔ آہ‬
‫بابا اور زور سے‬
‫چودو۔ چودو اور‬
‫چودو‪ ،‬پورا ڈالو۔ آہ‬
‫آہ آہ اور اچانک‬
‫رضیہ کا آتش‬
‫فشاں پھوٹ پڑا اور‬
‫وہ کانپتی ہوئی‬
‫فارغ ہو گئی۔‬
‫چوہدری کو اسکی‬
‫پھدی اپنے لن پر‬
‫کھلتی اور بند ہوتی‬
‫محسوس ہو رہی‬
‫تھی۔ رضیہ فارغ‬
‫ہو کر مردہ چھپکلی‬
‫کی طرح بےجان‬
‫پڑی تھی۔ چوہدری‬
‫کی منزل ابھی بھی‬
‫‪،‬تھوڑی دور تھی‬
‫رضیہ ہلکہ سا ہلی‬
‫اور اس نے‬
‫چوہدری کا لوڑا‬
‫اپنی چوت سے‬
‫نکاال جس پر اسکی‬
‫منی اور خون لگا‬
‫ہوا تھا اور وہ‬
‫ایسے سخت ہوا ہوا‬
‫تھا جیسے ابھی‬
‫‪،‬پھٹ جائے گا‬
‫اسکی رگیں پھولی‬
‫ہوئی تھی۔ وہ اندر‬
‫ہی اندر خوش تھی‬
‫کہ اسکی چوت کا‬
‫افتتاح ایک ایسے‬
‫شاندار لوڑے نے‬
‫کیا ہے لیکن فارغ‬
‫ہو کر اب اسکے‬
‫دماغ نے کام کرنا‬
‫شروع کر دیا تھا۔‬
‫وہ چارپائی سے‬
‫اتری اور ذمین پر‬
‫گھٹنے ٹکا کر بیٹھ‬
‫گئی اور چوہدری‬
‫کا لوڑا ہاتھ میں لے‬
‫لیا اسکا دل تھا کے‬
‫اسے منی میں لے‬
‫لیکن اپنی ہی منی‬
‫اور خون میں‬
‫لتھڑے ہوئے لن‬
‫سے اسے کراہت‬
‫بھی آ رہی تھی۔‬
‫چوہدری نے اسے‬
‫سوچ میں ڈوبے‬
‫دیکھ کر اپنا لن‬
‫اسکے منہ کے‬
‫آگے کر دیا اور‬
‫اسکے رسیلے‬
‫ہونٹوں پر رکھ کر‬
‫ہلکا سا دبایس تو‬
‫اسکا منہ اپنے آپ‬
‫کھل گیا۔ سرگودھا‬
‫ھاسٹل میں اس نے‬
‫پورن موویز میں یہ‬
‫سب ہوتے دیکھا ہوا‬
‫تھا اس لئے وہ‬
‫کسی گشتی کی‬
‫طرح چوہدری کے‬
‫لن کے ٹوپے کو‬
‫چوسنے لگی اور‬
‫اس اپنی زبان‬
‫‪،‬چالنے لگی‬
‫چوہدری تو مزے‬
‫کے مارے پاگل ہو‬
‫رہا تھا تھوڑی دیر‬
‫چوپے لگوا کر اس‬
‫نے رضیہ کو‬
‫گھوڑی بنایا اور‬
‫اسکی چوت میں لن‬
‫گھسانے کے لئے‬
‫حملہ کیا لیکن عین‬
‫وقت پر رضیہ نے‬
‫اپنی گول مٹول گانڈ‬
‫اسکے نشانے سے‬
‫ہٹا دی۔ چوہدری‬
‫کو حیرت ہوئی کہ‬
‫وہ اہسے کیوں کر‬
‫رہی ہے لیکن‬
‫شہوت میں ڈوبے‬
‫اس نے ایک اور‬
‫حملہ کیا‪ ،‬رضیہ‬
‫کگ ہلنے سے ایک‬
‫دفعہ پھر اسکا‬
‫نشانہ خطا چال گیا۔‬
‫بھین چود کیا کر‬
‫رہی ہے تو؟‬
‫چوہدری نے‬
‫غصے سے پوچھا۔‬
‫رضیہ نے اپنی‬
‫موٹی گانڈ بہت ہی‬
‫سیکسی طریقے‬
‫سے گھمائی اور‬
‫‪:‬بولی‬
‫تو آپکو میری پھدی‬
‫چاہیئے سسر جی‬
‫تو اسکے لئیے تو‬
‫ضروری ہے میں‬
‫آپکے گھر بہو بن‬
‫کر آؤں تبھی تو آپ‬
‫جب جی چاہے اس‬
‫میں اپنا لن گھسا‬
‫پائیں گے۔ بولیں‬
‫الئیں گے نہ مجھے‬
‫اپنی بہو بنا کر؟‬
‫‪:‬چوہدری بوال‬

‫میرے بیٹے کی اگر‬


‫شادی ہو گی تو‬
‫‪،‬تجھ سے ہی ہو گی‬
‫چل اب اور تنگ نہ‬
‫کر۔‬

‫رضیہ کی تسلی ہو‬


‫گئی تھی کہ بڈھا‬
‫اب کہیں نہیں ہل‬
‫سکتا اسکی مرضی‬
‫کے بغیر۔ اس نے‬
‫خود ہی اپنی گانڈ‬
‫پیچھے کر کے‬
‫چوہدری کے لن‬
‫کے ساتھ لگا دی۔‬
‫چوہدری کے لئیے‬
‫اتنا اشارہ ہی کافی‬
‫تھا‪ ،‬وہ رضیہ پر‬
‫جھکا اور اسکے‬
‫بڑے بڑے ممے‬
‫اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫میں لے کر ایک‬
‫‪،‬جاندار گھسا مارا‬
‫رضیہ کے منہ‬
‫سے ایک مرتبہ‬
‫پھر چیخ نکلی مگر‬
‫اس دفعہ اس میں‬
‫اتنا درد نہیں تھا۔‬
‫چوہدری اس دفعہ‬
‫پوری طاقت اور‬
‫رفتار سے اسے‬
‫چود رہا تھا۔ رضیہ‬
‫کی چوت ابھی گرم‬
‫ہی تھی اسکے منہ‬
‫سے لذت بھری‬
‫سسکیاں نکل رہی‬
‫تھیں اور ایک اور‬
‫سیالب آنے کو تیار‬
‫ہو رہا تھا۔ چوہدری‬
‫کے ہر دھکے سے‬
‫اسکی گانڈ اور‬
‫ممے تھرتھراتے‬
‫تھے اور چوہدری‬
‫کو مجبور کرتے‬
‫تھے کہ وہ اور‬
‫زور لگائے۔‬
‫چوہدری کا ٹائم‬
‫قریب آ گیا تو اس‬
‫نے آخری چند‬
‫دھکے دے کر لن‬
‫نکال کر کھینچنے‬
‫کی کوشش کی پر‬
‫رضیہ بولی بابو‬
‫جی اندر ہی فارغ‬
‫ہو جائیں اور‬
‫مجھے اپنے وارث‬
‫کی ماں بنا دیں۔‬
‫رضیہ یہ کہتے‬
‫ہوئے اتنی سیکسی‬
‫لگ رہی تھی کہ‬
‫چوہدری کی بس ہو‬
‫گئی اور منی کا‬
‫فوارہ اس کے لن‬
‫سے نکل کر رضیہ‬
‫کی پھدی کو‬
‫‪،‬سیراب کر گیا‬
‫چوہدری نے اس‬
‫وقت تک لن نہ‬
‫نکاال جب تک اس‬
‫کا لن نچڑ نہیں گیا۔‬
‫رضیہ بھی‬
‫چوہدری کے ساتھ‬
‫ہی دوبارہ فارغ ہو‬
‫کر چارپائی پر الٹی‬
‫ہے لیٹ گئی۔ اسے‬
‫اب اپنے ہونے‬
‫والے سسر پر پیار آ‬
‫رہا تھا جس نے‬
‫اسے کلی سے‬
‫پھول بنا دیا تھا۔‬
‫ایک چیلنج سے‬
‫شروع ہونے والی‬
‫بات‪ ،‬کنٹرول گیم‬
‫سے ہوتے ہوئے‬
‫مزے کی وادیوں‬
‫میں ختم ہو گئی‬
‫تھی۔‬

‫جلدی سے دلہن"‬
‫بن کر میرے گھر آ‬
‫"جاؤ‬
‫۔ چوہدری نے پیار‬
‫سے اسکے کان‬
‫میں سرگوشی کی۔‬

‫آپکی بن کر نہیں"‬
‫" آ رہی‬
‫رضیہ اپنے چوتڑ‬
‫ہالتی ہوئی بولی۔‬

‫میں نے ایسا تو‬


‫نہیں کہا بیٹی۔ لیکن‬
‫میرے لوڑے کے‬
‫بغیر اب تیری پھدی‬
‫کو چین نہیں آنا اور‬
‫تیری پھدی کے‬
‫بغیر میرے لوڑے‬
‫کو۔ تو اب تو یہ‬
‫سب چلتا رہے گا۔‬
‫یہ کہتے وقت‬
‫چوہدری کے‬
‫چہرے پر ایک‬
‫پراسرار مسکراہٹ‬
‫تھی۔‬
‫آپ وعدہ کرتے ہیں‬
‫کہ مجھے ایسے ہی‬
‫خوش رکھیں گے؟‬
‫یہ کہتے ہوئے‬
‫رضیہ کی چوت‬
‫کھل کر بند ہوئی‬
‫تھی جیسے اپنی‬
‫رضامندی کا اعالن‬
‫کر رہی ہو۔ رضیہ‬
‫نے یہ کہتے ہوئے‬
‫اپنے گول مٹول‬
‫چوتڑ چوہدری کے‬
‫لن کے ساتھ‬
‫جوڑے جو اب‬
‫سکڑ کر چھوہارے‬
‫کے سائز کا ہو چکا‬
‫تھا لیکن تقریبا ایک‬
‫گھنٹے کی چدائی‬
‫کر کے اسکے لن‬
‫کی جلد حساس ہو‬
‫چکی تھی۔ اسکے‬
‫نرم کولہے اپنے‬
‫سوئے ہوئے لن پر‬
‫محسوس کر کے‬
‫چوہدری کو کرنٹ‬
‫سا لگا۔‬
‫آہ۔۔۔۔۔ اب تو کیا‬
‫چاہتی ہے؟‬
‫چوہدری بڑبڑایا۔‬

‫تجھے۔۔۔۔۔‬
‫رضیہ بےشرمی‬
‫سے چوہدری کی‬
‫آنکھوں میں‬
‫جھانکتی ہوئی‬
‫بولی۔‬
‫تومجھے حاصل کر‬
‫چکی ہے چڑیل۔‬
‫چوہدری شکست‬
‫خوردہ انداز میں‬
‫بوال۔‬
‫شادی کب ہو رہی‬
‫ہے اب؟‬

‫رضیہ نے پوچھا۔‬

‫جیسے پالن کیا تھا‬


‫ویسے ۔‬
‫رضیہ یہ سنتے‬
‫ہوئے فاتحانہ انداز‬
‫میں مسکرائی۔‬
‫چوہدری کی بیوی‬
‫شاہدہ آم کے‬
‫درخت کے نیچے‬
‫کھڑی تھک چکی‬
‫تھی لیکن کمرے‬
‫کی خاموشی سے‬
‫اسے اندازہ ہو گیا‬
‫تھا کہ دنگل ختم ہو‬
‫چکا ہے اور اب‬
‫چوہدری اور وہ‬
‫عورت کمرے سے‬
‫باہر آنے والے‬
‫ہیں۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#7‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬
‫اچانک پوری‬
‫حویلی مکمل‬
‫تاریکی میں ڈوب‬
‫گئی‪ ،‬الئٹ چلی‬
‫گئی تھی۔ واپڈا‬
‫والوں کی بھین نوں‬
‫لن‪ ،‬چوہدرائین‬
‫کےمنہ سے‬
‫بےساختہ نکال۔اس‬
‫نے اپنے بھتیجے‬
‫شاہد کو بالیا شاہد‬
‫دیکھیں ذرا کیہڑی‬
‫حوراں پری اج‬
‫چوہدری نوں کھڈی‬
‫الئن الئی کھڑی‬
‫اے شاہد سمجھ گیا‬
‫کہ چاچو اج راونڈ‬
‫تے وے اس نے کہا‬
‫تائی کرن دے جو‬
‫پئے کردے نیں‬
‫شاہد چودھری‬
‫صاحب کا الڈلہ‬
‫بھتیجا تھا اس وجہ‬
‫سے کباب میں ہڈی‬
‫نہ بنا ادھر رضیہ‬
‫نے اپنے پھٹے‬
‫ہوئے کپڑوں کو‬
‫اس چادر میں‬
‫چھپایا جس میں وہ‬
‫گھر سے نکلتے‬
‫وقت چھپی تھی اور‬
‫رات کی تاریکی‬
‫میں چوہدراین کی‬
‫نظروں میں آئے‬
‫بغیر اپنے گھر کی‬
‫طرف چل دی۔‬
‫چوہدری نے بھی‬
‫حویلی کی طرف‬
‫اپنے قدم بڑھ دئیے۔‬
‫چوہدراین کو اس‬
‫سے کچھ پوچھنے‬
‫کی ہمت ہی نہ‬
‫ہوئی۔‬

‫ایک بھرے ہوئے‬


‫بدن کی پینتیس‬
‫چھتیس سالہ عورت‬
‫چوہدری کے گٹھے‬
‫ہوئے جسم کی‬
‫مالش کر رہی تھی‬
‫یہ پچھلے بیس سال‬
‫سے چوہدری کی‬
‫ہر ہفتے کی روٹین‬
‫تھی جسے چوہدری‬
‫پچھلے دو ہفتوں‬
‫میں سجاد اور‬
‫رضیہ کی شادی‬
‫کی وجہ سے نہیں‬
‫کروا پایا تھا۔ دونوں‬
‫کی شادی دس دن‬
‫پہلے خوش اسلوبی‬
‫سے ہو گئی تھی‬
‫جس کے بعد‬
‫چوہدری نے نئے‬
‫جوڑے کو ہنی مون‬
‫منانے ایک ہفتے‬
‫کے لئیے بھیج دیا‬
‫تھا جہاں سے انکی‬
‫واپسی دو رات‬
‫پہلے ہوئی تھی۔‬
‫رضیہ "چوہدری"‬
‫دل ہی دل میں‬
‫بدبدایا اور اسکے‬
‫ساتھ ہی رضیہ کے‬
‫ساتھ کی چدائی کی‬
‫ساری یادیں ایک‬
‫سیالب کی طرح‬
‫چوہدری کے دماغ‬
‫میں گھس گئیں۔‬
‫چوہدری نے‬
‫محسوس کیا تھا‬
‫کے شادی کے بعد‬
‫سے رضیہ اسکے‬
‫قریب آتی جھجھک‬
‫رہی تھی اور جب‬
‫بھی اسے سامنے‬
‫آنا پڑتا وہ اپنی‬
‫چادر یا دوپٹے کا‬
‫بڑا سا گھونگھٹ بنا‬
‫کر اپنا چہرہ اور‬
‫پورا جسم چھپا‬
‫لیتی‪ ،‬چوہدری کو‬
‫اس سے الجھن ہو‬
‫رہی تھی کہ اس‬
‫رات پوری‬
‫بےشرمی کے ساتھ‬
‫جانوروں کی طرح‬
‫چدنے والی بہو اب‬
‫اسے نظرانداز کر‬
‫رہی ہے۔ یہ سب‬
‫سوچتے ہوئے‬
‫چوہدری کے‬
‫لوڑے کو ہوشیاری‬
‫آ رہی تھی۔‬

‫چوہدری اس مالش‬
‫والے دن کوپوری‬
‫طرح انجوائے کرتا‬
‫تھا۔ اسکی مالش کی‬
‫ذمہ داری حویلی‬
‫کی مالزماؤں کے‬
‫سپرد تھی۔‬
‫چوہدراین نے ان‬
‫مالزماؤں کو‬
‫رکھتے وقت ایک‬
‫بات پر دھیان دیا‬
‫تھا کہ وہ نہ ذیادہ‬
‫جوان ہوں اور نہ‬
‫ذیادہ خوبصورت‬
‫تاکہ چوہدری کو‬
‫اگر مالش کے وقت‬
‫گرمی چڑھ جائے‬
‫تو انکی پھدی مار‬
‫لے لیکن انہیں‬
‫اسکی سوکن بنانے‬
‫کا خیال اسکے ذہن‬
‫میں ہرگز نہ آئے۔‬
‫اسکی حویلی میں‬
‫دس بارہ مالزمائیں‬
‫تھیں جو اپنی اپنی‬
‫باری پر چوہدری‬
‫کی مالش کرتی‬
‫تھیں‪ ،‬ان میں سے‬
‫کچھ ایسی بھی تھیں‬
‫جن سے چوہدری‬
‫کا ان دیکھا معاہدہ‬
‫تھا کہ وہ انہیں‬
‫چودے گا نہیں لیکن‬
‫چدائی کے عالوہ‬
‫باقی سب کرنے کی‬
‫اسے مکمل آزادی‬
‫تھی۔‬
‫چوہدری کے پاس‬
‫عورتوں کی ہر‬
‫طرح کی ورائٹی‬
‫تھی‪ ،‬ان میں سے‬
‫کچھ کے ہاتھ‬
‫کھیتوں میں سخت‬
‫کام کرنے کی وجہ‬
‫سے سخت ہو‬
‫چکے تھے جبکہ‬
‫کچھ کے ہاتھ نرم‬
‫تھے۔ کچھ نرم‬
‫ونازک گھریلو قسم‬
‫کی دیہاتی عورتیں‬
‫تھیں جو چوہدری‬
‫کے دئیے قرض‬
‫کی ادائیگی کی‬
‫خاطر اس کی‬
‫حویلی پر مالزم‬
‫تھیں اور کچھ اپنے‬
‫شوق اور چوہدری‬
‫سے ملنے والے‬
‫انعامات اور فائدے‬
‫کے اللچ میں خود‬
‫وہاں رہ رہی تھیں۔‬
‫چوہدری کی مالش‬
‫کے دوران انکے‬
‫کپڑے پسینے اور‬
‫تیل میں لتھڑ‬
‫کرانکے جسموں‬
‫سے چپک جاتے‬
‫اور جب وہ‬
‫چوہدری کی مالش‬
‫کرتیں تو ہاتھوں‬
‫کے ساتھ انکے‬
‫جسم بھی چوہدری‬
‫کے جسم کا مساج‬
‫کرتے۔ انکے مموں‬
‫کی درمیانی لکیریں‬
‫چوہدری کے لن‬
‫میں آگ لگا دیتیں‬
‫اور انکی کسی‬
‫ہوئی گانڈیں‬
‫چوہدری کےنلن کو‬
‫‪،‬الٹیاں کروا دیتیں‬
‫چوہدری ان سب‬
‫سے پوری طرح‬
‫لطف اندوز ہوتا تھا۔‬
‫آج بھی چوہدری‬
‫اپنی مخصوص‬
‫لکڑی کی دو فٹ‬
‫اونچی پھٹی پر‬
‫ٹانگیں پھیال کر‬
‫بیٹھا تھا اسکا‬
‫اوپری جسم بالکل‬
‫ننگا تھا جبکہ‬
‫زیریں جسم پر‬
‫چھوٹی سی لنگوٹی‬
‫تھی جسے کثرت‬
‫کے وقت پہلوان‬
‫پہنتے ہیں‪ ،‬مالش‬
‫کے لئیے مختصر‬
‫کپڑے پہننا تو‬
‫ضروری تھا۔جبکہ‬
‫چوہدری جسم کے‬
‫بعد اپنے سر کی‬
‫مالش کرواتا اور‬
‫اسکے بعد اسی‬
‫لباس میں نہاتا تھا۔‬
‫اس چھوٹی سی‬
‫لنگوٹی میں اس‬
‫کے لن کو صاف‬
‫دیکھا جا سکتا تھا۔‬
‫جبکہ مالش کے‬
‫وقت چوہدری کی‬
‫حرامزدگیوں کی‬
‫وجہ سے عام طور‬
‫پر تو اسکا لوڑا‬
‫کھڑا ہی رہتا تھا۔‬
‫آج مالش کے لئیے‬
‫اس کے پاس بولی‬
‫آئی تھی۔ اسکا اصل‬
‫نام تو کچھ اور تھا‬
‫لیکن سب اسکی‬
‫خاموش طبع ہونے‬
‫کی وجہ سے اسے‬
‫بولی کہنے لگے‬
‫تھے‪ ،‬وہ پینتیس‬
‫چھتیس سال کی‬
‫گٹھے ہوئے جسم‬
‫کی سانولے سے‬
‫رنگ کی درازقامت‬
‫عورت تھی جو‬
‫ایک لمبے عرصے‬
‫سے حویلی کی‬
‫خدمت کرتی آ رہی‬
‫تھی‪ ،‬سانوال رنگ‬
‫ہونے کے باوجود‬
‫اس میں غضب کی‬
‫سیکس اپیل تھی۔‬
‫حویلی میں کی‬
‫گئی محنت نے اس‬
‫کے جسم کو سخت‬
‫اور سڈول کر دیا‬
‫تھا۔ مالش بہت‬
‫اچھی کرتی تھی‬
‫لیکن وہ ان چند‬
‫عورتوں میں سے‬
‫تھی جو چدواتی‬
‫نہیں تھی۔ باقی‬
‫چوہدری اسکے‬
‫ہرے بھرے جسم‬
‫سے ہر طرح لطف‬
‫اندوز ہو سکتا تھا‬
‫اور بولی بھی‬
‫اسے بھرپور مزہ‬
‫دیتی تھی۔ بولی کو‬
‫بھی چوہدری کے‬
‫مضبوط جسم سے‬
‫کھیلنا بہت پسند تھا‬
‫اور اسکا جناتی‬
‫لوڑا اسکی پھدی‬
‫گیلی کر دیتا تھا‬
‫لیکن ابھی تک‬
‫اتنے سال وہ‬
‫کنٹرول کرتی آئی‬
‫تھی۔ عام طور پر‬
‫چوہدری کی مالش‬
‫کا فائدہ بولی کا‬
‫شوہر اٹھاتا تھا جب‬
‫وہ چوہدری سے‬
‫گرم ہو کر اپنے‬
‫شوہر کے ساتھ‬
‫پلنگ توڑ سیکس‬
‫کرتی تھی۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#8‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫پر ابھی تو‬


‫چوہدری کی باری‬
‫تھی‪ ،‬بولی نے‬
‫چوہدری کے باالئی‬
‫جسم کی مالش ختم‬
‫کر لی تھی اور اب‬
‫اسکی ٹانگوں کی‬
‫‪،‬مالش کر رہی تھی‬
‫اس ساری محنت‬
‫سے اسکا جسم‬
‫پسینے میں‬
‫شرابور تھا‪ ،‬اسکے‬
‫پسینے سے‬
‫چمکتے ادھ ننگے‬
‫لٹکتے ہوئے مموں‬
‫نگ چوہدری کا‬
‫لوڑا پورا کھڑا کر‬
‫دیا تھا اور اسکا لن‬
‫اب منی کی‬
‫پچکاریاں چھوڑنا‬
‫چاہتا تھا۔ بولی کو‬
‫بھی اسکا احساس‬
‫تھا اور وہ اسکے‬
‫جن کو اپنے ہاتھوں‬
‫میں لینے کو‬
‫بےچین تھی۔‬
‫چوہدری نے بغیر‬
‫کوئی لفظ کہے‬
‫بولی کا ہاتھ پکڑا‬
‫اور اسے اپنے‬
‫گھٹنوں کے اوپر‬
‫سے اپنی رانوں پر‬
‫ال کر رکھ دیا۔ بولی‬
‫نے چوہدری سے‬
‫اپنا ہاتھ چھڑایا اور‬
‫اپنے دوسرے ہاتھ‬
‫سے اپنی کالئی‬
‫میں موجود چوڑیاں‬
‫اوپر کو چڑھا دیں‬
‫تاکہ وہ اسکے ہاتھ‬
‫کی حرکت سے‬
‫شور نہ مچائیں۔ وہ‬
‫کتیا کی طرح‬
‫گھٹنوں کے بل‬
‫ہوئی اور چوہدری‬
‫کی لنگوٹی کھول‬
‫کر اسکا اکڑا ہوا‬
‫لوڑا اپنے دائیں‬
‫ہاتھ میں پکڑ لیا۔‬
‫اس اینگل سے لن‬
‫پکڑ کر مٹھ لگانا‬
‫بہت مشکل تھا لیکن‬
‫بولی تو ابھی‬
‫چوہدری کا لوڑا‬
‫ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫اسکی سختی اور‬
‫سائز جانچ رہی تھی‬
‫اور اپنی انگلی اور‬
‫انگھوٹھے سے‬
‫بہت نرمی سے لن‬
‫پکڑے آگے پیچھے‬
‫کر رہی تھی دوسرا‬
‫ہاتھ اس نے‬
‫چوہدری کے پیٹ‬
‫‪،‬پر رکھا ہوا تھا‬
‫چوہدری کی نظر‬
‫اس کی گیلی قمیض‬
‫سے جھانکتے‬
‫اسکے مموں پر‬
‫تھی جو براء نہ‬
‫پہننے کی وجہ سے‬
‫مستقل اس کی‬
‫قمیض میں ناچ‬
‫‪،‬رہے تھے۔ تیل لگا‬
‫چوہدری ہلکی آواز‬
‫میں بوال۔ بولی نے‬
‫ہاتھوں پر مزید تیل‬
‫لگایا اور چوہدری‬
‫کے اکڑے ہوئے‬
‫ڈنڈے کہ مالش‬
‫کرنے لگی۔‬
‫چوہدری کا لوڑا اب‬
‫تیل سے چمک رہا‬
‫تھا اور تیل کی‬
‫بوندیں بہہ بہہ کر‬
‫نیچے مٹی میں‬
‫جذب ہو رہیں تھیں۔‬
‫چوہدری کا لوڑا اب‬
‫بارش برسانا چاہتا‬
‫تھا اس لئیے‬
‫چوہدری نے کہا کہ‬
‫جلدی کر بولی۔‬
‫بولی نے دونوں‬
‫ہاتھوں سے‬
‫چوہدری کا لن‬
‫اپنے چکنے ہاتھوں‬
‫میں پکڑا اور ایک‬
‫ردھم میں آگے‬
‫پیچھے کرنے لگی۔‬
‫چوہدری کی مذی‬
‫نکل آئی اور ایک‬
‫سفید لکیر بناتی‬
‫بولی کے ہاتھ سے‬
‫فرش پر ٹپک گئی۔‬
‫بولی اب ایک ردھم‬
‫میں ہلکی رفتار‬
‫سے اسکا لن آگے‬
‫پیچھے کر رہی‬
‫تھی اور چوہدری‬
‫کی نظریں اسکے‬
‫گریبان میں موجود‬
‫ہلچل پر تھی اور وہ‬
‫مزے میں ڈوبا ہوا‬
‫تھا۔ چوہدری کے‬
‫ہاتھ دھیرے سے‬
‫رینگتے ہوئے بولی‬
‫کے سر پر جم گئے‬
‫اور اسکے بالوں‬
‫میں چوہدری کی‬
‫انگلیاں رینگنے‬
‫لگیں۔ بولی آج تک‬
‫سمجھ نہیں پائی‬
‫تھی کہ ایسا‬
‫چوہدری پیار آنے‬
‫پر کرتا تھا یا اس‬
‫کی نیت اسکے منہ‬
‫میں لن گھسانے‬
‫کی تھی۔ لیکن‬
‫چوہدری نہ کبھی‬
‫منہ سے کہتا تھا‬
‫اور نہ ہی کبھی اس‬
‫نے ذبردستی کرنے‬
‫کی کوشش کی۔‬

‫بولی اپنے کام میں‬


‫مگن تھی اور‬
‫اسکے ہاتھ ایک‬
‫ردھم میں چوہدری‬
‫کے لن پر گھوم‬
‫‪،‬رہے تھے‬
‫چوہدری کے‬
‫سانولے لن پر‬
‫اسکی پھولی ہوئی‬
‫رگیں سانپوں کی‬
‫طرح نظر آ رہی‬
‫تھیں۔ بولی نے‬
‫اسکے لن پر ہاتھ‬
‫چالتے چالتے اپنا‬
‫دایاں ہاتھ ہٹایا اور‬
‫مذی سے چمکتے‬
‫چوہدری کے لن‬
‫کے ٹوپے پر اپنے‬
‫‪،‬انگلیاں گھمائی‬
‫چوہدری کا پورا‬
‫جسم کانپ اٹھا اور‬
‫اسکے منہ سے‬
‫لذت میں ڈوبی آہ‬
‫نکلی۔ بولی کولگا‬
‫کے چوہدری کا‬
‫وقت قریب ہے اس‬
‫لئیے اس نے اپنے‬
‫ہاتھوں کی گرفت‬
‫مزید سخت کر کے‬
‫انکی رفتار بڑھا‬
‫دی۔ لیکن چوہدری‬
‫تو لمبی ریس کا‬
‫گھوڑا تھا‪ ،‬اتنی‬
‫آسانی سے اس سے‬
‫جان نہیں چھڑائی‬
‫جا سکتی تھی۔ بولی‬
‫کے ہاتھ درد کرنے‬
‫لگے تو اس نے اپنا‬
‫ایک ہاتھ فرش پر‬
‫ٹکایا اور چوہدری‬
‫کے مزید قریب ہو‬
‫کر دوسرے ہاتھ‬
‫سے مٹھ لگانے‬
‫لگی۔ اسکی گرفت‬
‫کی طاقت اور‬
‫اسکی رفتار سے‬
‫چوہدری کو اندازہ‬
‫ہو رہا تھا کہ بولی‬
‫کے ہاتھ تھک‬
‫چکے ہیں اور اب‬
‫وہ اسے جلدی سے‬
‫جلدی فارغ کرکے‬
‫اپنی جان چھڑانا‬
‫چاہ رہی ہے۔ ارادہ‬
‫تو چوہدری کا بھی‬
‫یہی تھا کیونکہ‬
‫بولی کو مٹھ لگاتے‬
‫کافی دیر ہو گئی‬
‫تھی اور اب کوئی‬
‫اور مالذمہ اسکے‬
‫سر کی مالش کے‬
‫لئیے تیل لے کر‬
‫آنے ہی والی تھی۔‬
‫اور چوہدری نہیں‬
‫چاہتا تھا کہ کسی‬
‫کے آنے کی وجہ‬
‫سے اسے جلدی‬
‫میں فارغ ہونا پڑے‬
‫وہ اپنے آرگیزم کو‬
‫تسلی سے انجوائے‬
‫کرنا چاہتا تھا ایسے‬
‫کہ اسے اپنی منی‬
‫کے ایک ایک‬
‫قطرے کے نکلنے‬
‫کا مزہ ملے۔‬
‫چوہدری نے اپنے‬
‫قریب بیٹھی بولی‬
‫کے دائیں کندھے‬
‫پر اپنا ہاتھ رکھا‬
‫اور اسکی سانولی‬
‫جلد پر پھیرتا ہوا‬
‫اسکی قمیض کے‬
‫گریبان کی طرف‬
‫لے گیا جہاں سے‬
‫اسکے پوری طرح‬
‫پکے ہوئے آم‬
‫جیسے ممے جانے‬
‫کتنی دیر سے باہر‬
‫نکلنے کو اتاولے‬
‫ہو رہے تھے۔ براء‬
‫نہ ہونے کی وجہ‬
‫سے بولی کی ہر‬
‫حرکت پر قمیض‬
‫کے اندر ان کی‬
‫اتھل پتھل صاف‬
‫دیکھی جا سکتی‬
‫تھی۔ بولی کی عمر‬
‫کی وجہ سے وہ اب‬
‫تھوڑے لٹک چکے‬
‫تھے لیکن اس نے‬
‫انکی کشش اور‬
‫بھی بڑھا دی تھی۔‬
‫چوہدری کا ہاتھ‬
‫بولی کے گریبان‬
‫میں گھسا اور فورا‬
‫ہی ان تجربہ کار‬
‫ہاتھوں نے بولی‬
‫کے انگور جیسے‬
‫نپل کو اپنی انگلی‬
‫سے رگڑ دیا۔‬

‫"آہ"‬
‫بولی کے منہ سے‬
‫غیرارادی طور پر‬
‫نکال۔‬

‫چوہدری نے اپنی‬
‫انگلی اور انگوٹھے‬
‫کے درمیان اسکا‬
‫نپل پکڑا اور اسے‬
‫ایسے دبانے‬
‫لگاجیسے ان میں‬
‫سے دودھ نچوڑ‬
‫رہا ہو۔ چوہدری‬
‫کے اس حملے نے‬
‫بولی کی چوت میں‬
‫آگ لگا دی تھی اور‬
‫وہ پانی سے نکلی‬
‫مچھلی کی طرح‬
‫منہ کھول کر لمبے‬
‫لمبے سانس لے‬
‫رہی تھیں۔‬
‫اسکا کنٹرول اپنے‬
‫جسم پر ختم ہو رہا‬
‫تھا اور وہ دل سے‬
‫چاہ رہی تھی کہ‬
‫چوہدری اپنے لن‬
‫سے اسکی پیاس‬
‫مٹا دے۔ اس نے‬
‫جب سے چوہدری‬
‫کی مالش شروع‬
‫کی تھی چوہدری کا‬
‫بڑا سا لن اس کے‬
‫دل میں سوال پیدا‬
‫کرتا تھا کہ کیسا‬
‫لگے اگر وہ‬
‫چوہدری کا لن اپنی‬
‫چوت میں لے لے۔‬
‫اور آج اپنے ممے‬
‫اس کے ہاتھوں میں‬
‫دیکھ کر پھر یہی‬
‫سوال اٹھ کھڑا ہوا‬
‫تھا۔ لیکن یہ سب‬
‫سوچ ہی رہی اور‬
‫اسکا ہاتھ تیزی سے‬
‫چوہدری کے لن پر‬
‫اوپر نیچے پھرتا‬
‫رہا۔ ادھر چوہدری‬
‫نے اپنے دوسرے‬
‫ہاتھ میں دوسرا مما‬
‫پکڑ لیا تھا اور‬
‫دونوں ہاتھوں سے‬
‫اسکے دونوں مموں‬
‫کو مسل رہا تھا۔‬
‫بولی کی آنکھیں‬
‫مزے سے بند‬
‫ہونے لگیں لیکن‬
‫اسکے ہاتھوں کا‬
‫کام جاری تھا۔ بولی‬
‫آنکھیں بند کئیے‬
‫چوہدری کا لن‬
‫مسل رہی تھی اور‬
‫مزے سے اپنا سر‬
‫ادھر ادھر مار رہی‬
‫تھی۔ وقفے وقفے‬
‫سے اسکی نظر‬
‫چوہدری کے لن پر‬
‫بھی پڑ رہی تھی‬
‫جو اب پھٹنے کو‬
‫تیار ہی تھا۔ مزے‬
‫کی لہروں میں‬
‫ڈوبے اس نے گتدن‬
‫گھمائی تو اس لگا‬
‫جیسے کوئی انہیں‬
‫دروازے سے چھپ‬
‫کر دیکھ رہا ہے۔‬
‫کسی کے ہاتھ‬
‫دروازے پر جمے‬
‫تھے اور مہندی‬
‫لگے ہاتھوں سے‬
‫اسے اندازہ لگانے‬
‫میں کوئی دشواری‬
‫نہ ہوئی کہ چھپ‬
‫کر دیکھنے والی‬
‫چوہدری کی نئی‬
‫نویلی بہو ہے لیکن‬
‫اسے سمجھ نہیں‬
‫آئی کہ چھوٹی بہو‬
‫یہاں کیوں آئی ہے۔‬
‫رضیہ نے اندر کی‬
‫طرف سر کیا اور‬
‫دوبارہ جھانکا تو‬
‫اسکی نظر بولی‬
‫سے ملی۔ بولی کی‬
‫آنکھیں بولتی ہوئی‬
‫‪:‬محسوس ہوئیں‬
‫دیکھو یہ سب کرنا"‬
‫میرے کام کا حصہ‬
‫ہے مجھے غلط نہ‬
‫"سمجھنا‬

‫رضیہ کو یہ دیکھ‬
‫کر تعجب ہو رہا‬
‫تھا‪ ،‬جہاں وہ کھڑی‬
‫تھی اسے صاف‬
‫نظر آ رہا تھا کہ‬
‫بولی کے ہاتھ میں‬
‫چوہدری کا بڑا سا‬
‫اکڑا ہوا لوڑا ہے‬
‫جسے وہ ایک ہاتھ‬
‫سے آگے پیچھے‬
‫کر رہی ہے اسکا‬
‫دوسرا ہاتھ سہارے‬
‫کے لیئے ذمین پر‬
‫ہے اور چوہدری‬
‫دونوں ہاتھوں سے‬
‫اسکے سانولے‬
‫رنگ کےممے‬
‫ایسے دبا رہا ہے‬
‫جیسے وہ کسی‬
‫گائے بھینس کا‬
‫دودھ چوہ رہا ہو۔‬
‫بولی نے نظریں‬
‫جھکا دی اور اپنا‬
‫‪،‬کام جاری رکھا‬
‫چوہدری کا چہرہ‬
‫چھت کی طرف تھا‬
‫اور اسکے منہ سے‬
‫بےمعنی آوازیں‬
‫نکل رہی تھیں جس‬
‫سے یہ صاف پتہ‬
‫چل رہا تھا کہ اسکا‬
‫وقت قریب ہے۔‬
‫اچانک چوہدری‬
‫غرایا اور بولی نے‬
‫منی کی دھار سے‬
‫اپنا جسم بڑی‬
‫مشکل سے بچایا۔‬
‫تیل کے داغ تو گھر‬
‫کے کاموں میں پڑ‬
‫سکتے تھے لیکن‬
‫اگر اسکے کپڑوں‬
‫پر منی کے داغ‬
‫ہوتے تو اس کے‬
‫لیئے اپنے شوہر کو‬
‫مطمئن کرنا بہت‬
‫مشکل ہو جاتا۔‬
‫چوہدری کے لن‬
‫نے منی کی چار‬
‫پانچ پھواریں ماری‬
‫اور رضیہ نے لن‬
‫پر ہاتھ رکھ کر‬
‫انہیں ادھرادھر‬
‫گرنے سے بچا لیا۔‬
‫بولی کا ہاتھ گاڑھے‬
‫سفید مواد سے بھر‬
‫گیا تھا جو اسکے‬
‫ہاتھ سے بہہ کر‬
‫اسکی کہنی کی‬
‫طرف بھی جا رہا‬
‫تھا۔ چوہدری فارغ‬
‫ہو کر آنکھیں بند‬
‫کیئے لمبے لمبے‬
‫سانس لے رہا تھا۔‬
‫رضیہ کی نظروں‬
‫نے یہ سارا منظر‬
‫جیسے سلوموشن‬
‫میں دیکھا تھا‪ ،‬بولی‬
‫آہستہ آہستہ کھڑی‬
‫ہو رہی تھی اسکے‬
‫ایک ہاتھ میں اس‬
‫نے چوہدری کی‬
‫منی اکٹھی کی ہوئی‬
‫تھی جبکہ دوسرا‬
‫ہاتھ بھی تیل اور‬
‫چوہدری کی منی‬
‫کی کچھ دھاروں‬
‫کی وجہ سے بھرا‬
‫ہوا تھا۔ بولی کے‬
‫‪،‬بکھرے بالوں‬
‫مسلے کپڑوں اور‬
‫پسینے میں ڈوبے‬
‫کپڑوں اور سب‬
‫سے بڑھ کر اسکے‬
‫منی میں لتھڑے‬
‫ہاتھوں سے صاف‬
‫لگ رہا تھا کہ‬
‫کسی مرد نے اسکا‬
‫پوری طرح مزہ لیا‬
‫ہے۔ بولی اپنے آپ‬
‫کو سنبھالتی رضیہ‬
‫کو سالم کرتی‬
‫ایسے باہر نکلی‬
‫جیسے کچھ ہوا ہی‬
‫نہ ہو‪ ،‬باہر نکلتے‬
‫وقت اس نے رضیہ‬
‫کے ہاتھ میں‬
‫چوہدری کے سر‬
‫پر مالش والے تیل‬
‫کا برتن دیکھ لیا‬
‫تھا۔‬
‫چوہدری صاحب‬
‫آپ کے سر کی‬
‫مالش کے لئیے تیل‬
‫آ گیا ہے۔ بولی نے‬
‫کمرے سے باہر‬
‫جاتے وقت آنکھیں‬
‫بند کئیے اونچی‬
‫سی پیڑھی پر آرام‬
‫کرتے چوہدری کو‬
‫تیز آواز میں خبر‬
‫دی۔‬

‫جاؤ وہ انتظار کر‬


‫رہے ہیں‪ ،‬بولی نے‬
‫دھیمی آواز میں‬
‫نئی بہو کو اطالع‬
‫دی۔‬

‫رضیہ اب بھی‬
‫کھڑی سوچ رہی‬
‫تھی کہ وہ کیا‬
‫کرے۔ وہ نہیں‬
‫چاہتی تھی کہ‬
‫چوہدری کو پتہ‬
‫لگے کہ اس نے‬
‫سب کچھ ہوتے‬
‫دیکھ لیا ہے۔ اس‬
‫نے ایک لمحے کے‬
‫لیے سوچا کہ‬
‫چوہدری ابھی تو‬
‫فارغ ہوا ہے اور‬
‫اس عمر میں ایک‬
‫دفعہ فارغ ہو کر‬
‫شاید اب اسکے‬
‫اندر کچھ کرنے کی‬
‫طاقت ہی نہیں بچی‬
‫ہو گی یہ سوچ آتے‬
‫ہی رضیہ بےخوفی‬
‫سے پورے اعتماد‬
‫کے ساتھ مالش‬
‫والے کمرے میں‬
‫داخل ہوئی۔‬
‫اب صورتحال اس‬
‫رات سے بالکل‬
‫مختلف تھی جب‬
‫اس نے بھینسوں‬
‫کے چارے والے‬
‫کمرے میں اپنی‬
‫کنواری چوت‬
‫چوہدری سرور کو‬
‫سونپی تھی۔ اس دن‬
‫وہ رشتے میں سسر‬
‫اور بہو نہیں تھے‬
‫صرف مرد اور‬
‫عورت تھے جن پر‬
‫جنسی جنون طاری‬
‫ہو گیا تھا۔ اب‬
‫رضیہ کا دماغ‬
‫پورے ہوش و‬
‫حواس میں اسے‬
‫کہہ رہا تھا کہ آئندہ‬
‫ایسا کچھ بھی نہیں‬
‫ہونا چاہیئے جس‬
‫سے اس کے‬
‫ازدواجی رشتے‬
‫میں کوئی فرق آ‬
‫ئے۔ وہ بہو کے‬
‫عالوہ کسی بھی‬
‫صورت میں اپنے‬
‫بوڑھے سسر کے‬
‫آگے آنا نہیں چاہتی‬
‫تھی۔‬
‫رضیہ جسے اب‬
‫سب اسکے سسرال‬
‫میں پیار سے رجی‬
‫کہنے لگے تھے‬
‫اعتماد سے‬
‫چوہدری کی نشست‬
‫کی طرف چل پڑی۔‬
‫چوہدری کی پشت‬
‫دروازے کی طرف‬
‫تھی اور وہ آرام‬
‫سے اپنی اونچی‬
‫چوکی پر آنکھیں‬
‫‪،‬بند کئیے بیٹھا تھا‬
‫رجی کی نظر‬
‫چوہدری کے‬
‫مضبوط کندھوں‬
‫اور طاقتور بازوؤں‬
‫پر پڑی تو وہ اسکی‬
‫نظروں میں ستائش‬
‫صاف پڑھی جا‬
‫سکتی تھی۔ یہی‬
‫کمر اور کندھے‬
‫تھے جنہوں نے‬
‫کتنی آسانی سے‬
‫اس رات اسکا بوجھ‬
‫اٹھایا ہوا تھا‪ ،‬اور‬
‫رجی کے ہاتھوں‬
‫نے مزے کی‬
‫بلندیوں پر سفر‬
‫کرتےچوہدری کی‬
‫‪،‬کمر کو رگڑا‬
‫کھرچا اور مسال‬
‫تھا۔ اس نے ان‬
‫خیاالت کو اپنے‬
‫دماغ سے ایسے‬
‫کھرچا جیسے وہ‬
‫اس رات سے اب‬
‫تک سینکڑوں‬
‫مرتبہ کھرچ چکی‬
‫تھی۔ اگر اسے اس‬
‫گھر میں اپنے‬
‫شوہر اور سسر کی‬
‫موجودگی میں‬
‫ایک نارمل‬
‫خوشگوار زندگی‬
‫گزارنی تھی تو ان‬
‫خیاالت سے جان‬
‫چھڑانا اسکے لئیے‬
‫ضروری تھا۔ اگر‬
‫کسی کو پتہ چل گیا‬
‫کہ اس کے‬
‫کنوارپنے کو شادی‬
‫سے دو دن پہلے‬
‫اسکے سسر نے‬
‫ختم لیا تو اسکی‬
‫شادی کو ختم ہونے‬
‫سے کوئی نہیں بچا‬
‫سکتا تھا۔‬
‫لیکن حویلی کی‬
‫مالذمہ بولی کو‬
‫چوہدری کے جناتی‬
‫لن کی مالش کرتے‬
‫دیکھ کر رجی کی‬
‫چوت گیلی ہونا‬
‫شروع ہو گئی تھی۔‬
‫اس نے صاف‬
‫دیکھا تھا کہ کیسے‬
‫بولی نے چوہدری‬
‫کی مٹھ لگاتے‬
‫ہوئے چوہدری کو‬
‫فارغ کیا تھا‪ ،‬اس‬
‫منظر سے اسے‬
‫چوہدری کی عیاش‬
‫فطرت کا اچھے‬
‫سے اندازہ ہو گیا‬
‫تھا۔ رضیہ کی‬
‫ساس نے اسے‬
‫چوہدری کے سر‬
‫میں لگانے کا تیل‬
‫دے کر بھیجا تھا کہ‬
‫وہ بولی کو تیل دے‬
‫آئے پر بولی تو‬
‫شاید اپنے ہاتھوں‬
‫پر لگی منی دھونے‬
‫باہر چلی گئی تھی‬
‫اور اب کمرے میں‬
‫وہ اپنے سسر کے‬
‫ساتھ اکیلی تھی۔‬
‫چوہدری کو ابھی‬
‫تک بالکل پتہ نہیں‬
‫تھا کہ تیل لے کر‬
‫آج اسکی نئی نویلی‬
‫بہو آئی ہے وہ تو‬
‫آنکھیں بند کئیے‬
‫اپنی سوچوں میں‬
‫گم تھا۔ رضیہ‬
‫چوہدری کو‬
‫چھوتے ہوئے‬
‫خوفزدہ تھی پتہ‬
‫نہیں یہ خوف‬
‫چوہدری سے تھا یا‬
‫اس رات کے‬
‫واقعات یاد کر کے‬
‫اپنی رس ٹپکاتی‬
‫چوت سے۔ اس نے‬
‫ہمت کرکے‬
‫چوہدری کے سر‬
‫پر تیل کا برتن‬
‫ٹیڑھا کر کے کچھ‬
‫تیل گرایا لیکن‬
‫شاید تیل کی کچھ‬
‫ذیادہ مقدار سر پر‬
‫گر گئی تھی‪ ،‬تیل‬
‫کی ایک دھار‬
‫چوہدری کی گردن‬
‫سے اسکے کندھے‬
‫کی طرف بہی تو‬
‫رضیہ نے غیر‬
‫ارادی طور پر‬
‫تیزی سے اپنا ہاتھ‬
‫بڑھایا اور اپنے‬
‫انگوٹھے سے‬
‫چوہدری کی گردن‬
‫سے نیچے جاتی‬
‫تیل کی دھار کو‬
‫روک لیا۔ ادھر‬
‫چوہدری نے اپنا‬
‫ہاتھ اپنے کندھے‬
‫سے پیچھے کی‬
‫طرف گھمایا اور‬
‫رضیہ کا ہاتھ تھام‬
‫کر اپنے سر پر‬
‫رکھ کر اسے بذبان‬
‫خاموشی حکم دیا‬
‫کہ یہ تیل سر کی‬
‫مالش کے لئیے ہے‬
‫اور اب وہ مالش‬
‫شروع کرے‪ ،‬اسے‬
‫ابھی بھی یہ نہیں‬
‫پتہ تھا کہ اس نے‬
‫رضیہ کو حکم دیا‬
‫ہے۔ رجی نے‬
‫چوہدری کے‬
‫چھدرے بالوں میں‬
‫انگلیاں ڈالیں اور‬
‫دھیرے دھیرے‬
‫اسکی مالش شروع‬
‫کر دی۔ چوہدری‬
‫کے جسم کا لمس‬
‫محسوس کرتے ہی‬
‫ایک دفعہ تو رجی‬
‫کا سانس رک سا‬
‫گیا اور اسکی‬
‫انگلیوں کے ذریعہ‬
‫جیسے چوہدری‬
‫نے اسکے دل کے‬
‫تار چھیڑنے شروع‬
‫کر دئیے۔‬

‫اس رات چوہدری‬


‫نے اسکا پردہ‬
‫بکارت پھاڑ کر‬
‫اسے کلی سے‬
‫پھول بنایا تھا اور‬
‫وہ اسکی ذندگی کا‬
‫پہال جنسی تجربہ‬
‫تھا‪ ،‬اب شادی کے‬
‫بعد اسے اپنے‬
‫شوہر کی شکل میں‬
‫دوسرا جنسی تجربہ‬
‫بھی ہو چکا تھا‬
‫لیکن ایک بات‬
‫واضح تھی کہ‬
‫جوان ہونے کے‬
‫باوجود سجاد میں‬
‫چوہدری جیسی بات‬
‫نہیں تھی۔ نہ تو‬
‫اسکے پاس‬
‫چوہدری جیسا‬
‫جنسی تجربہ تھا‬
‫اور نہ ہی اس‬
‫جیسا تباہ کن ہتھیار۔‬
‫اسکے عالوہ وہ‬
‫مشکل سے پانچ‬
‫منٹ میں ہی فارغ‬
‫ہو جاتا تھا جبکہ‬
‫چوہدری کا اسٹیمنا‬
‫اتنا تھا کہ اس رات‬
‫اس نے رجی کو‬
‫تقریبا ایک گھنٹہ‬
‫چودا تھا۔ ادھر‬
‫چوہدری نے جب‬
‫رجی کا ہاتھ پکڑ‬
‫کر اپنے سر پر‬
‫رکھا تھا تو اسے‬
‫اسکے ہاتھ کی‬
‫نرمی اور نزاکت‬
‫سے پتہ لگ گیا تھا‬
‫کہ یہ کوئی نئی‬
‫لڑکی ہے کیونکہ‬
‫اسکی حویلی پر کام‬
‫کرنے والی‬
‫عورتوں کے ہاتھ‬
‫سخت کام کر کر‬
‫کے کھردرے اور‬
‫سخت ہو چکے‬
‫تھے۔‬

‫چوہدری کے اندر‬
‫کا ٹھرکی انسان‬
‫جاگ گیا تھا‬
‫حاالنکہ تھوڑی دیر‬
‫پہلے ہی اس نے‬
‫اپنی منی خارج کی‬
‫تھی۔ اب اسکا ارادہ‬
‫اور کسی دن کے‬
‫لئیے اس نئی لڑکی‬
‫کو تیار کرنے کا‬
‫تھا۔ رجی نے بالوں‬
‫میں ہاتھ پھیرتے‬
‫ہوئے اسکی گردن‬
‫کے پیچھے تیل‬
‫بہتے دیکھا تو اس‬
‫تیل سے چوہدری‬
‫کی گردن پر بھی‬
‫اپنے نرم ہاتھ‬
‫چالنے لگی۔ یہ‬
‫کرتے ہوئے وہ‬
‫پیاسی نگاہوں سے‬
‫چوہدری کے‬
‫مضبوط کندھوں کو‬
‫دیکھ رہی تھی۔‬
‫اسکے سسر نے‬
‫ہاتھ پیچھے کر کے‬
‫اسکا بازو پکڑا تو‬
‫اسکے بازو کی‬
‫گوالئی اور نرمی‬
‫سے اسکی ریڑھ‬
‫کی ہڈی میں سنسنی‬
‫سی پھیل گئی۔سسر‬
‫جی نے بازو پکڑ‬
‫کر ہلکا سا جھٹکا‬
‫دیا تو رجی کا‬
‫پکے ہوئے پھل‬
‫جیسا جسم چوہدری‬
‫کی کمر سے چپک‬
‫گیا۔ رجی کی نظر‬
‫چوہدری کے‬
‫کندھوں سے ہوتی‬
‫ہوئی نیچے پڑی تو‬
‫وہ یہ دیکھ‬
‫کرحیرت زدہ ہو‬
‫گئی کہ اس کا شیش‬
‫ناگ ابھی بھی نیم‬
‫استادہ تھا اور ابھی‬
‫بھی اس کے پانی‬
‫سے اسکے لوڑے‬
‫کا ٹوپاگیال لگ رہا‬
‫تھا۔‬
‫کیا تم یہاں نئی"‬
‫"ہو؟‬

‫چوہدری نے اسکی‬
‫طرف دیکھے بغیر‬
‫اسکے بازو پر اپنی‬
‫کھردری انگلیاں‬
‫چالتے ہوئےسوال‬
‫کیا۔‬

‫جی بابو"‬
‫"!جی۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رجی دھیرے سے‬
‫بولی۔‬

‫چوہدری نے آواز‬
‫پہچانتے ہی حیرت‬
‫سے گردن گھما کر‬
‫اپنی بہو کی طرف‬
‫دیکھا۔ اسکی‬
‫آنکھوں سے خوشی‬
‫صاف چھلک رہی‬
‫تھی۔ وہ مسکرایا‬
‫اور غیرارادی طور‬
‫پر اس نے اپنی‬
‫لنگوٹی ٹھیک کر‬
‫کے اپنے لوڑے کو‬
‫بمشکل چھپایا۔‬
‫رضیہ مسکرائی‬
‫اور ایک مرتبہ پھر‬
‫اسکے تیل میں‬
‫سنے بالوں میں‬
‫اپنی مخروطی‬
‫انگلیاں چالنے‬
‫لگی۔‬

‫یہ تو مالزماؤں"‬
‫کا کام ہے تم کیوں‬
‫اپنے ہاتھ گندے کر‬
‫"رہی ہو؟‬

‫چوہدری نے‬
‫آنکھیں بند کی اور‬
‫اسکے لمس کے‬
‫مزے میں ڈوب کر‬
‫شفقت بھرے لہجے‬
‫میں بوال۔‬

‫ہاتھ تو دھوئے جا"‬


‫سکتے ہیں بابو جی‬
‫پر شاید آپکی‬
‫ایسے خدمت کرنے‬
‫کا موقع مجھے‬
‫"باربار نہ ملے‬

‫رضیہ کی نظریں‬
‫اب چوہدری کے‬
‫چوڑے سینے پر‬
‫موجود نپلز پر تھیں‬
‫جو رضیہ کی‬
‫قربت سے کھڑے‬
‫ہو گئے تھے۔‬

‫"کیوں نہ ملے گا"‬


‫چوہدری نے‬
‫مسکراتے ہوئے‬
‫کہا۔رجی کی قربت‬
‫اور اسکے ہاتھوں‬
‫کے کومل لمس‬
‫سے چوہدری کے‬
‫لوڑے میں جان‬
‫پڑنی شروع ہو گئی‬
‫تھی حاالنکہ ابھی‬
‫پندرہ منٹ پہلے ہی‬
‫اس نے منی نکالی‬
‫تھی اور اتنی جلدی‬
‫اس عمر میں‬
‫دوبارہ تیار ہونا‬
‫ناممکنات میں سے‬
‫تھا۔‬

‫وہ اس لئیے بابو"‬


‫جی کے اگر میں‬
‫باربار آپکے پاس‬
‫اکیلے میں آؤں گی‬
‫تو لوگ طرح طرح‬
‫کی باتیں سوچیں‬
‫"گے‬

‫رجی نے جواب‬
‫دیا۔‬
‫لوگ کیوں کچھ"‬
‫سوچیں گے‪ ،‬اب تو‬
‫تم اسی حویلی کی‬
‫"ایک فرد ہو‬

‫چوہدری نے سوالیہ‬
‫لہجے میں کہا۔‬
‫لیکن یہ کہتے‬
‫ہوئے چوہدری کے‬
‫لہجے میں بےیقینی‬
‫سی تھی۔ رضیہ‬
‫کی قربت کے نشے‬
‫سے اب چوہدری کا‬
‫لوڑا پوری طرح‬
‫کھڑا ہو کر جھوم‬
‫رہا تھا۔ چوہدری‬
‫پوری کوشش کر‬
‫رہا تھا کہ اپنے‬
‫اوپر قابو رکھے‬
‫لیکن اس لڑکی میں‬
‫کوئی عجیب سا‬
‫جادو تھا۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#9‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫اوہ دیکھو تیل"‬


‫آپکی بہتا ہوا آپکی‬
‫چھاتی تک آ گیا‬
‫"ہے‬
‫رضیہ نے چوہدری‬
‫کے کندھے سے‬
‫جھک بہتے ہوئے‬
‫تیل کی ایک دھار‬
‫کو مزید نیچے‬
‫جانے سے روکا۔ یہ‬
‫اس نے بےخیالی‬
‫میں غیرارادی طور‬
‫پر کیا تھا۔ وہ یہ‬
‫کرتے ہوئے‬
‫چوہدری پر جھک‬
‫گئی تھی جس کی‬
‫وجہ سے اسکا کسا‬
‫ہوا پیٹ چوہدری‬
‫کی کمر سے ٹکرایا‬
‫اور اسکے گول‬
‫مٹول بڑے بڑے‬
‫ممے چوہدری کے‬
‫تیل میں چپڑے سر‬
‫پر ٹک گئے۔ ادھر‬
‫رضیہ کی نظریں‬
‫چوہدری کی‬
‫لنگوٹی کے ابھار‬
‫پر جم گیئیں۔ رضیہ‬
‫کی قربت سے‬
‫چوہدری کی‬
‫لنگوٹی پر ہونے‬
‫واال اثر بالکل‬
‫واضح تھا۔ حاالنکہ‬
‫چوہدری کا لوڑا‬
‫لنگوٹی میں قید تھا‬
‫پھر بھی اسکی‬
‫لمبائی اور موٹائی‬
‫اسکی چھوٹی سی‬
‫لنگوٹی سے صاف‬
‫محسوس کی جا‬
‫سکتی تھی۔ رضیہ‬
‫کے دماغ میں فلم‬
‫چل پڑی کہ کیسے‬
‫اس لوڑے نے‬
‫اسکی کنواری‬
‫چوت کو پھاڑا تھا‬
‫وہ بھی ایسے کے‬
‫کافی وقت تک‬
‫اسکی چوت سوجی‬
‫رہی تھی۔ اسکا‬
‫دماغ یہ سوچتے‬
‫وقت سن ہو گیا اور‬
‫اسکی چوت رس‬
‫ٹپکانے لگی تھی۔‬
‫رضیہ نے‬
‫بےخیالی میں اپنے‬
‫تیل میں چپڑے‬
‫ہاتھوں سے‬
‫چوہدری کے نپل‬
‫مسل دئیے۔‬

‫"آہ"‬
‫چوہدری کے منہ‬
‫سے لذت بھری‬
‫سسکاری نکلی۔‬

‫بیٹی کیا کر رہی"‬


‫ہو‪ ،‬اب ہم ہرگز‬
‫کچھ ایسا ویسا نہیں‬
‫"کر سکتے‬

‫چوہدری نے اپنی‬
‫گردن گھمائی‬
‫اسکی نظریں‬
‫رضیہ کے غباروں‬
‫پر تھیں اور وہ ان‬
‫غباروں میں اپنا‬
‫چہرہ چھپانے کے‬
‫لئیے مرا جا رہا‬
‫تھا‪ ،‬رضیہ نے‬
‫اسکی آنکھوں کا‬
‫پیغام پڑھا تو اسے‬
‫اپنے خوبصورت‬
‫جسم کی طاقت کا‬
‫احساس ہوا۔ وہ‬
‫مسکرائی اور‬
‫چوہدری کی‬
‫آنکھوں میں دیکھتی‬
‫‪،‬ہوئی بولی‬
‫بابا آپکی زبان"‬
‫کچھ کہہ رہی ہے‬
‫اور آپکی آنکھیں‬
‫کچھ اور‪ ،‬خود ہی‬
‫بتائیں اب میں کس‬
‫"کی سنوں‬
‫چوہدری کی ذبان‬
‫خاموش رہی لیکن‬
‫رضیہ نے خود ہی‬
‫اپنے بوڑھے سسر‬
‫پر ترس کھاتے‬
‫ہوئے اپنا جسم‬
‫جھکایا اور اسکا‬
‫چہرہ اپنی بھاری‬
‫چھاتی میں چھپا لیا۔‬
‫چوہدری بڑے پیار‬
‫سے اپنا چہرہ‬
‫اسکے کپڑوں میں‬
‫چھپی چھاتیوں پر‬
‫رگڑنے لگا۔ رضیہ‬
‫کے جسم کی مدھر‬
‫مہک نے چوہدری‬
‫کا حلق خشک کر‬
‫دیا تھا اور چوہدری‬
‫اب ان پکی ہوئی‬
‫مسمیوں کا رس‬
‫چوسنے کو بےتاب‬
‫تھا۔ پر اسکے منہ‬
‫اور ان مموں کے‬
‫درمیان ابھی بھی‬
‫‪،‬اسکی قمیض‬
‫رضیہ کے گلے‬
‫میں جھولتے سونے‬
‫کے ہار اور اس کی‬
‫چھاتیوں کی‬
‫حفاظت کرتے‬
‫اسکے کالے رنگ‬
‫کے براء کا فاصلہ‬
‫باقی تھا۔‬
‫چوہدری نے اب‬
‫اپنی گردن کے‬
‫ساتھ ساتھ باقی جسم‬
‫بھی اپنی بہو کی‬
‫طرف موڑ لیا تھا‬
‫جس سے اسکی‬
‫دونوں ٹانگیں کھل‬
‫گئی تھیں‪ ،‬رضیہ‬
‫نے اپنی ایک ٹانگ‬
‫چوہدری کی دونوں‬
‫ٹانگوں کے درمیان‬
‫پہنچائی اور اسکے‬
‫مزید قریب ہو گئی‬
‫اسکا گھٹنا‪،‬‬
‫چوہدری کے اکڑے‬
‫ہوئے لن کو چھو‬
‫رہا تھا۔ رضیہ نے‬
‫اپنی ٹانگ سے‬
‫اپنے سسر کے‬
‫اکڑے ہوئے لن کو‬
‫سہالیا تو اسے لگا‬
‫جیسے جھٹکا کھا‬
‫کر لن نے بھی‬
‫اسے جواب دیا ہو۔‬
‫چوہدری کے منہ‬
‫سے لذت بھری‬
‫سسکی نکلی اور‬
‫اس نے مزے میں‬
‫رضیہ کی کپڑوں‬
‫میں چھپی چھاتی‬
‫کو اپنے دانتوں‬
‫میں دبا لیا رضیہ‬
‫کو درد تو ہوا لیکن‬
‫اسکی شدت قابل‬
‫برداشت تھی۔‬
‫بابو جی‬
‫بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫!‬
‫اب میں آپکی بہو !‬
‫ہوں ہمیں یہیں پر‬
‫رک جانا چاہیئیے۔‬

‫اس سے پہلے تم"‬


‫‪،‬میری ہو گئی تھیں‬
‫تم اس رات بھی‬
‫میری عورت تھیں‬
‫اور آج بھی میری‬
‫"عورت ہو‬

‫چوہدری اسکے‬
‫جسم کی مہک‬
‫سونگھتا ہوا دھیمی‬
‫آواز میں بوال۔‬
‫اسکے دماغ نے‬
‫کام کرنا چھوڑ دیا‬
‫تھا اور اب وہ دماغ‬
‫کے بجائے لن سے‬
‫سوچ رہا تھا۔ اس‬
‫نے رضیہ کے‬
‫قمیض کا دامن‬
‫اٹھایا اور اپنے ہاتھ‬
‫اسکے گندمی رنگ‬
‫کے کسے ہوئے‬
‫پیٹ پر پھیرنے لگا۔‬
‫اسکا چہرہ رضیہ‬
‫کی چھاتی میں چھپا‬
‫تھا اور وہ اسکے‬
‫پیٹ پر ہاتھ‬
‫پھیرتے ہوئے‬
‫اسکے مموں کی‬
‫طرف لے جا رہا‬
‫تھا۔ رضیہ کے‬
‫قمیض کی فٹنگ‬
‫ایسی تھی کہ‬
‫چوہدری کے لئیے‬
‫قمیض کے نیچے‬
‫سے اسکے ممے‬
‫پکڑنا ناممکن تھا۔‬
‫اس نے قمیض میں‬
‫سے ہاتھ نکالے‬
‫اور رضیہ کے‬
‫گریبان کی طرف‬
‫دیکھا جن سے اس‬
‫کے آدھے ممے‬
‫باہر لٹک رہے‬
‫تھے رضیہ اس‬
‫کے سامنے کھڑی‬
‫تھی اور وہ بیٹھا تھا‬
‫اس لئیے گریبان‬
‫سے بھی اسکے‬
‫ننگے مموں کو‬
‫تھامنا ناممکن تھا۔‬
‫رضیہ نے اسکی‬
‫بےچینی اور‬
‫بےصبری بھانپی‬
‫تو مسکراتے ہوئے‬
‫اپنے لمبے گھنے‬
‫بالوں کو ایک‬
‫جھٹکا دیا اور‬
‫چوہدری کے‬
‫کندھوں پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوئے اپنا‬
‫جسم اسکی گرفت‬
‫سے چھڑانے کی‬
‫کوشش کی۔‬
‫چوہدری کو احساس‬
‫تھا کہ اگر یہ لمحہ‬
‫ایسے ہی گزر گیا‬
‫تو پتہ نہیں اگال‬
‫موقعہ کب ملے۔‬
‫چوہدری نے رضیہ‬
‫کی گوشت سے پر‬
‫چوتڑوں پر اپنے‬
‫طاقتور ہاتھ رکھے‬
‫اور اسکے رسیلے‬
‫جسم کو اپنے جسم‬
‫کی طرف کھینچا۔‬
‫چوہدری کا جسم‬
‫طاقت لگانے کی‬
‫وجہ سے کھچ گیا‬
‫تھا اور اسکا چہرہ‬
‫رضیہ کے پیٹ کے‬
‫قریب تھا‪ ،‬چوہدری‬
‫نے ایک لمبا سانس‬
‫لیا اور رضیہ کی‬
‫گیلی پھدی کی‬
‫جانی پہچانی مہک‬
‫اسکے نتھنوں سے‬
‫ٹکرائی۔ چوہدری‬
‫نے اپنا چہرہ مزید‬
‫جھکایا اور اسکی‬
‫پھدی کے اوپر‬
‫کے حصے پر‬
‫موجود جھانٹوں‬
‫والے مقام کو اپنے‬
‫منہ میں لے لیا۔‬
‫رضیہ اسکے‬
‫چہرے کو اپنے‬
‫چوت پر محسوس‬
‫کر کے لرز سی‬
‫گئی تھی‪ ،‬اسکے‬
‫جسم پر اسکا‬
‫کنٹرول ختم ہوتا جا‬
‫رہا تھا۔‬

‫چوہدری کے‬
‫ہونٹوں کی قربت‬
‫سے اسکی پھدی‬
‫نے رس ٹپکانا‬
‫شروع کر دیا‪ ،‬اب‬
‫اسکےجسم کو‬
‫کپڑے بوجھ‬
‫محسوس ہونے‬
‫لگے اور رضیہ‬
‫اپنے ننگے جسم پر‬
‫چوہدری کے جسم‬
‫کا لمس محسوس‬
‫کرنےکو پاگل‬
‫ہونے لگی۔ وہ اپنے‬
‫تپتے ہوئے جوان‬
‫جسم کو چوہدری‬
‫کے کھردرے جسم‬
‫سے مسلنا چاہ رہی‬
‫تھی۔ رضیہ نے‬
‫چوہدری کے‬
‫ہونٹوں سے اپنے‬
‫ممے چھڑائے اور‬
‫تیزی سے اپنے‬
‫قمیض اپنے سر‬
‫سے اتار دی۔‬
‫چوہدری کا منہ‬
‫کالے بریزئیر میں‬
‫چھپی رضیہ کی‬
‫چاندی جیسے رنگ‬
‫کی چھاتیوں کی‬
‫گہرائی دیکھ کر‬
‫خشک ہو گیا۔ شادی‬
‫کے بعد لگ رہا تھا‬
‫جیسے رضیہ کا‬
‫جسم کھل سا گیا‬
‫تھا‪ ،‬براء میں سے‬
‫جھانکتے اس کے‬
‫گورے مموں پر‬
‫موجود سبز رگیں‬
‫نظر آنے لگیں‬
‫تھیں۔ رضیہ دوبارہ‬
‫آگے کو ہوئی اور‬
‫بڑی بےشرمی سے‬
‫چوہدری کے‬
‫لنگوٹی میں قید‬
‫لوڑے پر اپنا دایاں‬
‫ہاتھ رکھ کر پیار‬
‫سے پھیرنے لگی۔‬
‫چوہدری نے اپنا‬
‫ہاتھ لنگوٹی کی‬
‫طرف بڑھایا اور‬
‫اسکی گرہ کھول‬
‫دی تاکہ رضیہ آرام‬
‫سے اسکے لوڑے‬
‫سے کھیل سکے۔‬
‫رضیہ حیران تھی‬
‫کہ تھوڑی دیر‬
‫پہلے فارغ ہونے‬
‫کے باوجود اس کا‬
‫لن لوہے کے‬
‫سریے کی طرح‬
‫اکڑ کر سخت ہوا‬
‫ہوا تھا۔‬

‫بابوجی یہ اتنا"‬
‫‪،‬سخت کیسے ہے‬
‫کیا ابھی بولی‬
‫"نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫رضیہ نے اپنا جملہ‬


‫‪،‬ادھورا چھوڑ دیا‬
‫اسے سمجھ میں‬
‫نہیں آ رہا تھا کہ‬
‫تھوڑی دیر پہلے‬
‫بولی کے ہاتھوں‬
‫ہوئی واردات کے‬
‫بارے میں اپنے‬
‫سسر سے کیسے‬
‫کچھ کہے۔‬
‫بہو اس رات کے"‬
‫بعد سے تمہارے‬
‫بارے میں سوچ‬
‫سوچ کر میرا لوڑا‬
‫درد کرنے لگ گیا‬
‫تھا‪ ،‬اور اس ٹینشن‬
‫کو ختم کرنے کے‬
‫لئیے آج میں بولی‬
‫سے مٹھ لگوانے‬
‫کے لئیے مجبور ہو‬
‫"گیا تھا‬

‫چوہدری نے روانی‬
‫سے جھوٹ بوال۔‬
‫اب تم حقیقت میں"‬
‫میرے سامنے ہو‬
‫تو تمہاری‬
‫خوبصورتی دیکھ‬
‫کر میرا لوڑا پھر‬
‫سے کھڑا ہو کر‬
‫تمہاری پھدی مانگ‬
‫"رہا ہے‬

‫بابا آپ سچ کہہ"‬
‫"رہے ہیں نہ؟‬
‫رضیہ نے سیکسی‬
‫سی مسکراہٹ دے‬
‫کر اپنے سسر سے‬
‫پوچھا‪ ،‬رضیہ کے‬
‫دائیں ہاتھ کی ہتھیلی‬
‫مستقل چوہدری کے‬
‫لوڑے پر گھوم‬
‫رہی تھی۔ اسے‬
‫اندازہ تھا کہ‬
‫چوہدری جھوٹ‬
‫بول رہا ہے کیونکہ‬
‫اس نے چوہدری‬
‫کے ہاتھ بولی کے‬
‫بڑے بڑے‬
‫خربوزوں پر‬
‫گھومتے دیکھے‬
‫تھے اور چوہدری‬
‫کی لذت میں ڈوبی‬
‫غراہٹوں سے‬
‫واضح تھا کہ اس‬
‫نے بولی کی مٹھ‬
‫کو دل سے‬
‫انجوائے کیا تھا۔‬
‫لیکن اس نے سوچا‬
‫کہ کیا فرق پڑتا ہے‬
‫وہ کونسا اسکی‬
‫بیوی ہے کرنے دو‬
‫چوہدری کو جو‬
‫کرتا ہے۔ چوہدری‬
‫کے لن نے رضیہ‬
‫کی گرفت میں مذی‬
‫کے قطرے ٹپکا‬
‫دئیے تھے۔‬
‫چوہدری کا چہرہ‬
‫آگے بڑھا اور‬
‫اسکے ہونٹ رضیہ‬
‫کے پیٹ پر تھوک‬
‫کی لکیریں بنانے‬
‫لگے‪ ،‬اس نے‬
‫رضیہ کا پیٹ‬
‫چومتے چومتے‬
‫اسکی دھنی کے‬
‫سوراخ میں ذبان‬
‫‪،‬ڈال دی‪ ،‬آہ بابا‬
‫یہاں نہیں۔ رضیہ کا‬
‫پیٹ اسکی سانسوں‬
‫کی گرمی اور زبان‬
‫کی نمی اپنی دھنی‬
‫میں محسوس کر‬
‫کے تھرتھرا اٹھا۔‬
‫چوہدری نے‬
‫تھوڑی دیر مزید‬
‫اسکے پیٹ پر‬
‫زبان گھمائی اور‬
‫پھر اسکے مموں‬
‫کی طرف رخ کیا۔‬
‫رضیہ کی پھدی کی‬
‫بھوک جاگ اٹھی‬
‫تھی‪ ،‬پچھلے کچھ‬
‫دنوں سے چوہدری‬
‫کی نظروں سے‬
‫بچنے کی کوشش‬
‫رائیگاں چلی گئی‬
‫تھی۔ اس نے‬
‫چوہدری سے‬
‫دھیمی آواز میں کہا‬

‫چودو مجھے بابو"‬


‫"جی‬
‫بہو اتنے دن تو"‬
‫نے مجھے کیوں‬
‫"تڑپایا‬

‫چوہدری نے براء‬
‫کے اوپر سے ہی‬
‫اسکے مموں کو‬
‫چباتے ہوئے‬
‫پوچھا۔‬

‫وہ میری غلطی"‬


‫"تھی بابا‬
‫رضیہ نے یہ کہتے‬
‫ہی اپنی کالی براء‬
‫کے دونوں کپ‬
‫اپنے مموں سے‬
‫اوپر کر کے انہیں‬
‫ننگا کر دیا۔‬
‫چوہدری تو کب‬
‫سے انکی آزادی‬
‫کے انتظار میں‬
‫تھا‪ ،‬اس نے رضیہ‬
‫کے مموں پر کسی‬
‫بھوکے بچے کی‬
‫طرح حملہ کر دیا۔‬
‫وہ ایسے اسکے‬
‫ممے چوسنے لگا‬
‫جیسے ان میں سے‬
‫میٹھا اور مزےدار‬
‫دودھ نکل رہا ہو۔‬
‫چوہدری نے‬
‫دوسرے ممے کو‬
‫اپنے ہاتھ سے دبانا‬
‫شروع کر دیا‪ ،‬اس‬
‫کی انگلی اور‬
‫انگوٹھا رضیہ کے‬
‫نپل کو مسلنے‬
‫لگے‪ ،‬چوہدری نے‬
‫اپنے ہونٹوں کی‬
‫گرفت رضیہ کے‬
‫ممے سے ختم کی‬
‫اور دوسرے ممے‬
‫کے نپل کو اپنی‬
‫زبان سے چھیڑنے‬
‫لگا‪ ،‬وہ کبھی‬
‫اسکے نپل پر اپنی‬
‫زبان پھیرتا‪ ،‬کبھی‬
‫اسے چاٹتا اور‬
‫کبھی چوسنے لگتا۔‬

‫"آؤچ"‬
‫رضیہ نے سسکی‬
‫بھری کیونکہ‬
‫چوہدری نے اسکی‬
‫چھاتی پر ہلکے‬
‫سے کاٹ لیا تھا۔‬
‫رضیہ کئی دفعہ"‬
‫شادی کے بعد سجاد‬
‫سے چدوا چکی‬
‫تھی‪ ،‬اور وہ بھی‬
‫اسکے تنے ہوئے‬
‫مموں کو جی بھر‬
‫کے چومتا چاٹتا تھا‬
‫لیکن چوہدری میں‬
‫کوئی خاص بات‬
‫تھی جو کسی بھی‬
‫عورت کو بےقابو‬
‫"کر سکتی تھی‬
‫اور چوسو "‬
‫بابا۔۔۔۔۔۔چوسو‬
‫میرے ممے۔۔۔۔سارا‬
‫دودھ پی جاؤ‬
‫انکا۔۔۔۔۔ خالی کر دو‬
‫آج اپنی بہو کے‬
‫ممے۔۔۔۔۔ کھا جاؤ‬
‫انہیں‪ ،‬ان پر آپ کا‬
‫ہی حق‬
‫!!!!!ہے۔۔۔۔۔۔۔‬

‫رضیہ مزے سے‬


‫پاگل ہو چکی تھی۔‬
‫اس نے اپنے ہاتھ‬
‫نیچے کی طرف‬
‫بڑھائے اور ایک‬
‫مرتبہ پھر چوہدری‬
‫کے لن سے کھیلنے‬
‫لگی۔ اسکی پھدی‬
‫پانی پانی ہو رہی‬
‫تھی اور رو روکر‬
‫لوڑا مانگ رہی‬
‫تھی۔ چوہدری نے‬
‫اپنا پورا منہ کھوال‬
‫اور رضیہ کا پورا‬
‫مما منہ میں لینے‬
‫کی کوشش کی‬
‫لیکن وہ اسکے منہ‬
‫سے بہت بڑا تھا۔‬
‫جتنا مما اسکے منہ‬
‫میں آ سکا چوہدری‬
‫نے لیا اور اندر ہی‬
‫اندر اپنی زبان منہ‬
‫میں موجود ممے‬
‫کے نپل پر پھیرنے‬
‫لگا ۔ رضیہ ہلکی‬
‫آواز میں چالئی‬
‫اور مزے کی بلندی‬
‫پر پہنچ کر اس کی‬
‫چوت نے پانی‬
‫چھوڑ دیا۔‬
‫رضیہ کے گھٹنوں‬
‫نے اسکا وزن‬
‫اٹھانے سے انکار‬
‫کر دیا وہ جھکی‬
‫اور اپنی کھلتی بند‬
‫ہوتی چوت سے‬
‫بہتے پانی کے ساتھ‬
‫ملنے والے سکون‬
‫کو انجوائے کرنے‬
‫لگی۔ چوہدری‬
‫مسکراتے ہوئے‬
‫اپنی بہو کو فارغ‬
‫ہوتے دیکھ رہا تھا‬
‫اور انتظار میں تھا‬
‫کہ کب وہ اسکے‬
‫لن کو چوت میں‬
‫لے گی۔ چوہدری‬
‫کے کھردرے ہاتھ‬
‫رضیہ کے جوان‬
‫جسم پر گھومتے‬
‫رہے۔ رضیہ کو‬
‫ہوش آیا تو وہ اپنی‬
‫پوری طاقت سے‬
‫چوہدری سے لپٹ‬
‫گئی اور اسکے‬
‫چہرے پر بوسوں‬
‫کی برسات کر دی۔‬
‫چوہدری کے ہاتھ‬
‫اسکی کمر پر‬
‫گھومتے ہوئے‬
‫اسکے موٹے‬
‫کولہوں پر ٹک‬
‫گئے اور وہ انہیں‬
‫مسلنے لگا۔‬
‫چوہدری نے چوتڑ‬
‫مسلتے مسلتے‬
‫رضیہ کو بالکل‬
‫ننگا کیا اور اپنا‬
‫اکڑا ہوا لن رضیہ‬
‫کی گیلی پھدی پر‬
‫رگڑا‪ ،‬چوہدری کے‬
‫لن کے ٹوپے کی‬
‫رگڑ چوت کے‬
‫دانے پر پڑی تو‬
‫رضیہ کے منہ سے‬
‫نکل پڑا کہ بابا اب‬
‫اتار دو اپنا لن‬
‫‪،‬میری چوت میں‬
‫اور صبر نہیں ہو‬
‫رہا مجھ سے۔‬
‫چوہدری نے رضیہ‬
‫کے ہاتھ اپنی چوکی‬
‫پر رکھ کر اسے‬
‫گھوڑی بنایا اور‬
‫اپنا اکڑا ہوا لوڑا‬
‫اسکی پھدی کے‬
‫گیلے لبوں پر رگڑا۔‬
‫رضیہ نے بےچین‬
‫ہو کر بےصبری‬
‫سے اپنی گانڈ‬
‫پیچھے کی تو‬
‫چوہدری کے لن کا‬
‫ٹوپا رضیہ کی‬
‫چوت میں جا کر‬
‫پھنس گیا‪ ،‬رضیہ‬
‫کی چوت کے لئیے‬
‫اب بھی اسکے لن‬
‫کی موٹائی بہت‬
‫ذیادہ تھی‪ ،‬اس لئیے‬
‫رضیہ کے منہ‬
‫سے درد بھری‬
‫سسکی نکلی۔‬
‫چوہدری نے بس‬
‫ایک لمحے کو‬
‫انتظار کیا اور ایک‬
‫زوردار جھٹکا‬
‫لگایا‪ ،‬رضیہ کے‬
‫منہ سے گھٹی‬
‫گھٹی چیخ نکلی‬
‫اور چوہدری کا‬
‫پورا لن رضیہ کی‬
‫چوت میں پھنس‬
‫گیا۔ چوہدری کو‬
‫لگ رہا تھا جیسے‬
‫اس نے کسی جلتی‬
‫ہوئی بھٹی میں اپنا‬
‫‪،‬لن دے دیا ہو‬
‫اسکی تنگ چوت‬
‫اندر سے جل رہی‬
‫تھی۔ چوہدری سے‬
‫مزید صبر نہ ہوا‬
‫اور اس نے اپنے‬
‫ہاتھ رضیہ کی‬
‫پرگوشت گانڈ پر‬
‫رکھے اور ٹوپے‬
‫تک اپنا لن رضیہ‬
‫کی چوت سے نکال‬
‫کر ایک ہی‬
‫جھٹکے میں دوبارہ‬
‫‪،‬چوت میں ڈال دیا‬
‫رضیہ درد سے‬
‫کراہی اور اسکی‬
‫آنکھوں میں آنسو آ‬
‫گئے۔ چوہدری نے‬
‫آٹھ دس مزید دھکے‬
‫لگائے تو رضیہ‬
‫کی چوت رواں ہو‬
‫گئی اور لن نسبتا‬
‫آسانی سے اندر‬
‫باہر ہونے لگا۔ اس‬
‫سٹائیل میں‬
‫چوہدری کا لن‬
‫رضیہ کا لن پورا‬
‫اندر گھس کر‬
‫چوٹ لگاتا اور‬
‫اسکے ٹٹے رضیہ‬
‫کی تھرکتی ہوئی‬
‫گانڈ سے جاکر‬
‫ٹکراتے۔ اب کراہیں‬
‫اور لذت میں ڈوبی‬
‫سسکیاں ایک ساتھ‬
‫رضیہ کے منہ سے‬
‫‪،‬رواں تھیں‬
‫چوہدری کے‬
‫طاقتور جھٹکوں‬
‫سے رضیہ کے‬
‫لٹکے ہوئے ممے‬
‫پینگ کی طرح‬
‫جھول رہے تھے۔‬
‫چوہدری نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھ رضیہ‬
‫کے کولہوں پر‬
‫جمائے اور‬
‫جھٹکوں کی رفتار‬
‫بڑھا دی۔ اب‬
‫رضیہ نے بھی اپنی‬
‫گانڈ ہال کر‬
‫چوہدری کا ساتھ‬
‫دینا شروع کر دیا‬
‫تھا‪ ،‬چوہدری نے‬
‫ایک ہاتھ گانڈ سے‬
‫ہٹایا اور رضیہ کی‬
‫لٹکتی ہوئی چوٹی‬
‫کو اپنے ہاتھوں میں‬
‫لے کر ہلکا سا‬
‫کھینچا جس سے‬
‫رضیہ کا نیچے‬
‫جھکا سر اوپر کی‬
‫طرف اٹھا اور پورا‬
‫جسم کمان بن گیا۔‬
‫ایسے لگ رہا تھا‬
‫جیسے کوئی‬
‫طاقتور گھوڑا کسی‬
‫جوان اور چست‬
‫گھوڑی پر چڑھا‬
‫اسے پوری قوت‬
‫سے چود رہا ہو۔‬

‫آہ اماں جی میں"‬


‫گئی‪ ،‬اور زور سے‬
‫بابا میں فارغ ہونے‬
‫"لگی ہوں‬

‫رضیہ چالئی اور‬


‫اسکی چوت نے‬
‫ہار مان لی۔‬
‫چوہدری نے دو‬
‫چار جھٹکے مزید‬
‫مارے اور اپنا لن‬
‫رضیہ کی پھدی‬
‫سے نکال لیا جس‬
‫سے رضیہ کی‬
‫چوت کا پانی ٹپک‬
‫رہا تھا۔ چوہدری‬
‫نے قریب پڑے‬
‫کپڑے سے اپنا لن‬
‫اور رضیہ کی‬
‫چوت صاف کی‬
‫اور دوبارہ اپنی‬
‫چوکی پر بیٹھ کر‬
‫رضیہ کو اپنی گود‬
‫میں بیٹھا کر اس‬
‫کے ہونٹ چوسنے‬
‫لگا۔ رضیہ کو‬
‫دوبارہ تیار ہونے‬
‫میں کوئی وقت نہ‬
‫لگا اور اس نے گود‬
‫سے اپنا جسم اٹھایا‬
‫اور چوہدری کا لن‬
‫اپنی چوت میں لے‬
‫کر دوبارہ بیٹھ گئی۔‬
‫چوہدری کو پتا تھا‬
‫کہ جہاں بیٹھ کر وہ‬
‫چدائی کر رہے ہیں‬
‫وہاں کبھی بھی‬
‫کوئی آ سکتا ہے‬
‫اس لئیے چوہدری‬
‫نے شروع سے ہی‬
‫اپنے دھکوں کی‬
‫رفتار تیز رکھی۔‬
‫رضیہ تیزی سے‬
‫اس کے لن پر‬
‫اچھلنے لگی جس‬
‫سے اس کے بڑے‬
‫بڑے غبارے‬
‫ایسے اسکے سینے‬
‫پر اچھلنے لگے‬
‫جیسے ان میں پانی‬
‫بھرا ہو۔ چوہدری‬
‫کے ہونٹ رضیہ‬
‫کے پورے چہرے‬
‫کو چوم اور چاٹ‬
‫رہے تھے۔ پانچ‬
‫منٹ کی زوردار‬
‫چدائی نے ہی‬
‫رضیہ اور چوہدری‬
‫دونوں کو آرگیزم‬
‫کے قریب پہنچا‬
‫دیا۔ چوہدری ہر‬
‫دھکے کے ساتھ‬
‫شیر کی طرح غرا‬
‫رہا تھا اور رضیہ‬
‫آہ آہ کرتی اسکا‬
‫ساتھ دے رہی تھی۔‬
‫اچانک رضیہ کا‬
‫جسم اکڑا اور اس‬
‫نے منی کی دھار‬
‫چوہدری کے‬
‫‪،‬لوڑے پر ٹپکا دی‬
‫اسکے ساتھ ہی‬
‫چوہدری کی بھی‬
‫بس ہو گئی اور وہ‬
‫ایک دھاڑ کے ساتھ‬
‫رضیہ کی چوت‬
‫کی گہرائیوں میں‬
‫فارغ ہو گیا۔ رضیہ‬
‫فارغ ہو کر‬
‫چوہدری کے‬
‫مرجھاتے ہوئے لن‬
‫پر بیٹھی اسکا‬
‫موازنہ اپنے شوہر‬
‫سے کر رہی تھی‬
‫کہ نہ تو اس کے لن‬
‫کی اتنی لمبائی ہے‬
‫نہ موٹائی اور نہ‬
‫ہی اسکو اپنی بیوی‬
‫کو مطمئن کرنا آتا‬
‫ہے‪ ،‬وہ تو شکر ہے‬
‫کہ اسی گھر میں‬
‫اسے ایسا شاندار‬
‫مرد مل گیا۔ رضیہ‬
‫چوہدری کا سہارہ‬
‫لے کر اسکے لن‬
‫سے نیچے اتری‬
‫اور اپنی اور اپنے‬
‫کپڑوں کی حالت‬
‫دیکھ کر اسکا چہرہ‬
‫شرم سے سرخ ہو‬
‫گیا۔ ہوس میں آ کر‬
‫اس نے جم کر‬
‫چدائی کی تھی‬
‫لیکن اب ہوش میں‬
‫آنے کے بعد وہ‬
‫سوچ رہی تھی کہ‬
‫سب کا سامنا کیسے‬
‫کرے گی اور اپنے‬
‫سسر کے ساتھ ایسا‬
‫کب تک چلتا رہے‬
‫گا۔‬
‫خودکو سمیٹ کر‬
‫رضیہ باہر نکلی‬
‫اور اپنے کمرے‬
‫کی طرف چل دی۔‬
‫سجاد آنے ہی واال‬
‫تھا اور اسے اب نہا‬
‫کر اپنے کپڑے بھی‬
‫تبدیل کرنے تھے۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#10‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬
‫رضیہ سب کی‬
‫نظروں سے چھپتی‬
‫چھپاتی اپنے‬
‫کمرے میں پہنچی‬
‫تو اس نے سکون‬
‫کا سانس لیا۔ اس‬
‫کے کپڑوں کی‬
‫حالت ایسی تھی کہ‬
‫اگر کسی کی نظر‬
‫پڑتی تو اسے‬
‫الزمی شک پڑ‬
‫جاتا۔ چوہدری‬
‫سرور اور اسکے‬
‫لوڑے کی کشش‬
‫ایسی تھی کہ‬
‫اسکے دماغ کے‬
‫الکھ منع کرنے پر‬
‫بھی وہ اس سے‬
‫چدائے بغیر رہ نہ‬
‫سکی تھی‪ ،‬اب پتہ‬
‫نہیں یہ جنسی تعلق‬
‫اسے کہاں لے‬
‫جائے۔ رجی نے نہا‬
‫کر کپڑے بدلے اور‬
‫باورچی خانے میں‬
‫گھس گئی۔‬
‫رضیہ کا دماغ‬
‫شادی کے بعد سے‬
‫چوہدری اور‬
‫اسکے بیٹے سجاد‬
‫کا موازنہ کئے‬
‫بغیر نہیں رہ پا رہا‬
‫تھا۔ سجاد کی‬
‫بانہوں میں لیٹے‬
‫اسے وہ بازو‬
‫کمزور اور بےجان‬
‫لگتے جیسے شہر‬
‫میں کسی عام‬
‫لکھت پڑھت کا کام‬
‫کرنے والے کے‬
‫ہوں۔ آج بھی رضیہ‬
‫حویلی کے صحن‬
‫میں سرخ مرچیں‬
‫پیستی ہوئی سوچ‬
‫رہی تھی کہ فلموں‬
‫میں دکھائے جانے‬
‫والت باڈی بلڈرز‬
‫کی جسمانی بناوٹ‬
‫اور سختی بھی‬
‫ظاہری طور پر‬
‫آرٹیفیشل ہی لگتی‬
‫تھی اور ان میں‬
‫بھی وہ حیوانی‬
‫کشش نہیں تھی جو‬
‫اس کے سسر کے‬
‫بوڑھے مگر کسی‬
‫گھوڑے کے‬
‫جیسے طاقتور جسم‬
‫میں تھی۔ اس عمر‬
‫میں بھی چوہدری‬
‫کا جسم پتھر کی‬
‫طرح سخت تھا اور‬
‫تھکنا تو جیسے وہ‬
‫جانتا ہی نہیں تھا۔‬
‫رضیہ نے پسی‬
‫ہوئی مرچیں‬
‫باورچی خانے میں‬
‫رکھیں اور چولہا‬
‫جالنے کے لئے‬
‫ماچس اٹھائی اور‬
‫ایک تیلی نکال کر‬
‫اسے ماچس کی‬
‫مصالحے والی‬
‫طرف رگڑا تو اس‬
‫کے دماغ میں آیا کہ‬
‫جیسے ماچس کی‬
‫تیلی کو ڈبی کے‬
‫کھردرے مصالحے‬
‫پر رگڑنے سے وہ‬
‫جل پڑتی ہے ایسے‬
‫ہی چوہدری کے‬
‫کھردرے ہاتھوں کو‬
‫اپنے نرم مالئم جسم‬
‫پر محسوس کرتے‬
‫ہی اسکے جسم میں‬
‫جیسے چنگاریاں‬
‫سی جلنے لگتی‬
‫ہیں۔چوہدری کیسے‬
‫اسے کسی کھالنے‬
‫کی طرح آسانی‬
‫سے آٹھاتا‪ ،‬پٹختا‬
‫اور حیوانی طاقت‬
‫سے جم کر چودتا‬
‫ہے‪ ،‬یہ سوچتے‬
‫ہوئے رضیہ کی‬
‫شلوار اسکے چوت‬
‫رس سے گیلی‬
‫ہونے لگی تھی۔‬
‫رضیہ کے ہنی‬
‫مون پر گزرے دن‬
‫سجاد کی محبت‬
‫سے بھرے تھے‬
‫اور چوہدری کے‬
‫ساتھ ہوس کا رشتہ‬
‫تھا اسکا جسم‬
‫چوہدری کی‬
‫وحشیانہ چودائی‬
‫مانگتا تھا۔ اسکی‬
‫پھدی کا رس نکالنا‬
‫سجاد کے بس سے‬
‫باہر تھا یہ سکون‬
‫اسے چوہدری کے‬
‫لن سے ہی ملتا تھا۔‬
‫اس رات رضیہ‬
‫کے گھر والے آئے‬
‫رضیہ اپنے ہنی ‪،‬‬
‫مون پر جانے کی‬
‫وجہ سے شادی‬
‫کے بعد اپنے‬
‫میکے نہ جا سکی‬
‫تھی اور اب اسکے‬
‫میکے والے اس‬
‫رسم کو پورا کرنا‬
‫چاہ رہے تھے۔‬
‫چوہدری نے رات‬
‫کے کھانے پر‬
‫رضیہ کے گھر‬
‫والوں کے لئے‬
‫دعوت کا اہتمام کیا‬
‫تھا جس میں انواع‬
‫و اقسام کے کھانے‬
‫بنائے گئے تھے۔‬
‫سب نے مل کر‬
‫خوشگوار ماحول‬
‫میں کھانا کھایا۔‬
‫کھانا کھا کر رضیہ‬
‫اپنا سامان اٹھانے‬
‫بیڈروم میں آئی تو‬
‫پیچھے پیچھے‬
‫سجاد بھی کمرے‬
‫میں آ گیا۔ رضیہ‬
‫شیشے کے سامنے‬
‫کھڑے ہو کر اپنے‬
‫شوخ میک اپ کو‬
‫درست کرنے لگی‬
‫تھی کہ سجاد‬
‫اسکے پیچھے آ‬
‫کر کھڑا ہو گیا اور‬
‫اسے پیچھے سے‬
‫اپنی بانہوں میں‬
‫جکڑ لیا اور اپنا نیم‬
‫کھڑا لنڈ رضیہ کے‬
‫موٹے نرم چوتڑوں‬
‫کی دراڑ میں پھنسا‬
‫کر آگے پیچھے‬
‫ہوتے ہوئے اسکی‬
‫گردن چومنے لگا۔‬
‫سجاد کے ہاتھوں‬
‫نے بھی گستاخیاں‬
‫شروع کر دیں اور‬
‫وہ کپڑوں کے اوپر‬
‫سے ہی اسکی‬
‫چھاتیاں دبانے لگا۔‬
‫رضیہ کو اچھا لگ‬
‫رہا تھا تو وہ بھی‬
‫اپنے چوتڑ مزید‬
‫پیچھے کر کے‬
‫اسکے لنڈ پر‬
‫مسلنے لگی۔‬
‫چھوٹی"‬
‫مالکن۔۔۔۔۔۔آپکو‬
‫چوہدری صاحب‬
‫"بال رہے ہیں۔‬
‫حویلی کی کم عمر‬
‫مالذمہ جیرو نے‬
‫دروازے کے باہر‬
‫سے آواز لگائی۔‬
‫ساجی چھوڑو"‬
‫مجھے‪ ،‬کوئی آ‬
‫"جائے گا‬

‫رضیہ نے بمشکل‬
‫خود کو سجاد کے‬
‫بازؤوں سے نکاال‬
‫اور باہر کی‬
‫طورف چل دی۔‬

‫رجی میری جان"‬


‫جلدی واپس آ جانا‬
‫تجھے پتا ہے‬
‫مجھے اب تیرے‬
‫"بغیر نیند نہیں آتی‬

‫رضیہ نے مڑ کر‬
‫اسکی طرف‬
‫مسکرا کر دیکھا‬
‫اور اپنے سر کو‬
‫اوپر نیچے ہالتی‬
‫باہر نکل گئی اور‬
‫سجاد اسکی اتھل‬
‫پتھل کرتی گانڈ کو‬
‫دیکھتا رہ گیا۔‬
‫رضیہ اپنے میکے‬
‫والوں کےساتھ‬
‫انکے گھر رہنے‬
‫چلی گئی۔‬

‫رضیہ آج صبح ہی‬


‫پورا ہفتہ‬
‫اپنےمیکے گزار‬
‫کر واپس آئی تھی۔‬
‫سجاد نے بہت‬
‫مشکل سے یہ ہفتہ‬
‫گزارا تھا لیکن اس‬
‫دوران بھی اس نے‬
‫اپنا سسرال اسی‬
‫قصبے میں ہونے‬
‫کا پورا فائدہ اٹھایا‬
‫تھا۔ وہ وہاں جا کر‬
‫وقت گزارتا رہا تھا‬
‫اور موقع میسر‬
‫آنے پر دو دفعہ‬
‫اسکی پھدی بھی‬
‫بجا چکا تھا۔ سجاد‬
‫صبح اٹھتے ہی‬
‫سرگودھا چال گیا‬
‫تھا جہاں اسے اپنی‬
‫زمینوں سے متعلق‬
‫‪،‬کوئی کام تھا‬
‫چوہدری سرور‬
‫بھی اپنی زمینوں‬
‫کے دورے پر گیا‬
‫تھا اس لئے حویلی‬
‫پر صرف‬
‫چوہدراین اور‬
‫مالزمین تھے۔‬
‫رضیہ اپنی ساس‬
‫کے پاس تھوڑی‬
‫دیر بیٹھی لیکن اس‬
‫کی نظریں آس پاس‬
‫‪،‬بھٹک رہی تھی‬
‫چوہدراین نے بھی‬
‫اسکی کیفیت‬
‫محسوس کی تو‬
‫مسکرا کر اسے‬
‫‪:‬بولی‬
‫بیٹی کسے ڈھونڈ"‬
‫رہی ہو‪ ،‬سجاد تو‬
‫سرگودھا گیا ہے‬
‫اور اب تو اسکی‬
‫واپسی میں دو یا‬
‫تین دن لگ جائیں‬
‫"گے‬

‫رضیہ نے شرما کر‬


‫اپنی ساس کی‬
‫طرف دیکھا اور‬
‫بولی نہیں اماں‬
‫ایسی تو کوئی بات‬
‫نہیں۔‬

‫چوہدراین نے ایسی‬
‫نظروں سے اسکی‬
‫طرف دیکھا جیسے‬
‫وہ سب جانتی ہو‬
‫اور اسے کہا کہ‬
‫جاؤ جا کر اپنا کمرہ‬
‫وغیرہ دیکھو اور‬
‫مالزموں سے‬
‫صفائی وغیرہ‬
‫کرواؤ۔۔۔‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#11‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬
‫سہ پہر پانچ بجے‬
‫تھے جب حویلی‬
‫کی مالذمہ نے‬
‫رضیہ کو جگایا۔‬
‫رضیہ نے منہ ہاتھ‬
‫دھوئے اور اپنی‬
‫ساس کے پاس پہنچ‬
‫گئی جو اپنے‬
‫بیڈروم میں بیٹھی‬
‫نوکرانیوں سے‬
‫عالقے کی‬
‫رپورٹیں لے رہی‬
‫تھی۔ رضیہ تھوڑی‬
‫دیر وہاں بیٹھی رہی‬
‫لیکن اسکا دل نہیں‬
‫لگ رہا تھا‪ ،‬کرنے‬
‫کو کچھ تھا ہی‬
‫نہیں۔ چوہدراین نے‬
‫رضیہ کی خاموشی‬
‫دیکھی تو سب‬
‫‪،‬ماجرا سمجھ گئی‬
‫آخر یہ سب اس پر‬
‫بھی گزری تھی۔‬
‫اس نے رضیہ کو‬
‫مخاطب کیا۔‬
‫رضیہ بیٹا جا جا"‬
‫کے لسی بنا کر‬
‫خود بھی پی اور‬
‫مجھے اور اپنے‬
‫"بابا کو بھی دے‬
‫اچھا بےبے۔ لیکن‬
‫بابا تو ابھی آئے‬
‫نہیں۔ رضیہ نے‬
‫اٹھتے ہوئے جواب‬
‫دیا۔‬
‫نہیں بیٹا وہ آ گئے"‬
‫ہیں ساتھ میں اسکا‬
‫الڈلہ نواب زادہ‬
‫شاہد وی اے دویں‬
‫چاچا بھتیجا سرے‬
‫دے ٹھرکی نیں جاہ‬
‫اس وقت وہ اوپر‬
‫چھت والے برآمدے‬
‫میں باتیں کررہے‬
‫ہیں اور حقہ وغیرہ‬
‫پیتے ہیں‪ ،‬انہیں‬
‫ادھر ہی لسی دے‬
‫"آئیو دوہاں نوں‬
‫"اچھا بےبے"‬

‫رضیہ نے باہر‬
‫نکلتے وقت اپنی‬
‫ساس کو جواب دیا۔‬
‫باورچی خانے میں‬
‫ایک اونچی پیڑھی‬
‫پر بیٹھ کر وہ‬
‫مدھانی اٹھا کر لسی‬
‫‪،‬رہڑکنے لگی‬
‫رضیہ فارغ رہ رہ‬
‫کر تھک گئی تھی‬
‫اور اسکا دل کر رہا‬
‫تھا خود کچھ کرنے‬
‫کو۔ اتنے میں زبیدہ‬
‫باورچی خانے میں‬
‫داخل ہوئی اور‬
‫رضیہ کو خود لسی‬
‫رڑھکتے دیکھ کر‬
‫چیل کی طرح‬
‫اسکی طرف جھپٹی‬
‫اور بولی کہ آپاں‬
‫‪،‬چھڈ دیو مدھانی‬
‫میں بنڑا دیندی آں‬
‫لسی۔ وڈی‬
‫چوہدرانی نوں پتہ‬
‫لگیا کہ میں اوناں‬
‫دی نوی نوں نو کم‬
‫کرن دتا اے تے او‬
‫میری کھال کھچ‬
‫دینڑی جے۔ رضیہ‬
‫نے پکی عمر کی‬
‫زبیدہ کی طرف‬
‫دیکھا اور دھیمے‬
‫‪،‬لہجے سے بولی‬
‫نہ اماں زبیدہ لسی"‬
‫تے میں آپ بناواں‬
‫گی‪ ،‬تو بس میرے‬
‫کول کھڑی رہ تے‬
‫مینوں کوئی شے‬
‫چاہدی ہوئے تے‬
‫پھڑا دے"۔ زبیدہ‬
‫کھڑی ہو کر رضیہ‬
‫کو لسی رڑھکتے‬
‫غور سے دیکھنے‬
‫لگی۔ مدھانی‬
‫چالتے رضیہ کے‬
‫مکھن کے پیڑے‬
‫جیسے ممے ایسے‬
‫ہل رہے تھے‬
‫جیسے زلزلہ آ گیا‬
‫ہو اور زبیدہ انہیں‬
‫دیکھ کر سوچ رہی‬
‫تھی کہ چھوٹا‬
‫چوہدری کتنا خوش‬
‫قسمت ہے کہ اسے‬
‫اتنی سوہنی کڑی‬
‫مل گئی۔ رضیہ نے‬
‫لسی بنائی اور کچھ‬
‫لسی زبیدہ کے ہاتھ‬
‫اپنی ساس کے‬
‫پاس بھیج دی اور‬
‫اپنی لسی پی کر‬
‫زبیدہ کا انتظار‬
‫کرنے لگی کہ وہ‬
‫آئے تو اپنے سسر‬
‫کو بھی لسی بھجوا‬
‫دے۔ لیکن زبیدہ‬
‫لسی پہنچانے کے‬
‫بعد چوہدراین کے‬
‫کام سے کہیں چلی‬
‫گئی تھی۔ رضیہ‬
‫نے مزید تھوڑی‬
‫دیر انتظار کیا اور‬
‫لسی کا مگا لے کر‬
‫خود چوہدری‬
‫سرور کو دینے‬
‫سیڑھیاں چڑھ کر‬
‫اوپر کی منزل کی‬
‫طرف چلی دی‬
‫جہاں چوہدری روز‬
‫دوپہر سستاتا تھا۔‬
‫روز سہ پہر کوئی‬
‫نہ کوئی مالذمہ‬
‫اسکو تازہ بنائی‬
‫لسی دے جاتی۔‬
‫لسی پہنچانے کا کام‬
‫ہمیشہ سے کوئی‬
‫مالذمہ ہی کرتی‬
‫تھی‪ ،‬ایسا شازونادر‬
‫ہی ہوتا کہ کوئی‬
‫مرد مالزم چوہدری‬
‫کو لسی پہنچاتا۔‬

‫چوہدری لسی‬
‫پہنچانے والی‬
‫عورتوں کو اپنی‬
‫مرضی کے مطابق‬
‫برتتا۔ ان میں سے‬
‫کچھ ایسی بھی تھیں‬
‫جنہیں چوہدری کے‬
‫لنڈ کا نشہ لگ گیا‬
‫تھا اور وہ اس‬
‫انتظار میں رہتیں‬
‫کہ کب انہیں لسی‬
‫دے کر بھیجا جائے‬
‫اور کب چوہدری‬
‫انہیں چود چود کر‬
‫نڈھال کر دے‪ ،‬کچھ‬
‫ایسی تھیں جو‬
‫مجبور تھیں‬
‫چوہدری کے آگے‬
‫اور اپنے مالی‬
‫مسائل کی وجہ سے‬
‫چوہدری کا لال لیتی‬
‫تھیں۔ چوہدری کو‬
‫زیادہ مزا کسی نئی‬
‫‪،‬مالذمہ کو تاڑنے‬
‫پھر اسے آہستہ‬
‫آہستہ اپنی ہوس‬
‫مٹانے کیلئے تیار‬
‫کرنے اور صحیح‬
‫وقت پر کسی‬
‫درندے کی طرح‬
‫انکی پھدیوں کا‬
‫شکار کرنے میں آتا‬
‫تھا۔ اسے انتظار ہی‬
‫رہتا کہ کب کوئی‬
‫نیا شکار اسکے‬
‫ہتھے چڑھے۔ پتہ‬
‫تو چوہدراین کو‬
‫بھی تھا جبھی‬
‫اسکی کوشش ہوتی‬
‫کہ کوئی بھی کمسن‬
‫یا خوبصورت‬
‫لڑکی یا تو حویلی‬
‫آئے نہ اور اگر آ‬
‫جائے تو چوہدری‬
‫کی نظروں سے‬
‫بچی رہے۔‬
‫چوہدری چھت کے‬
‫برآمدے میں اپنی‬
‫آرامدہ کرسی پر‬
‫بیٹھا جھول رہا تھا‬
‫لیکن اسکی حالت‬
‫سے واضح تھا کہ‬
‫اسکا دماغ آج کہیں‬
‫اور ہے۔ حویلی کی‬
‫تعمیر چوہدری نے‬
‫اپنی مرضی سے‬
‫کروائی تھی اور‬
‫یہاں سے کرسی پر‬
‫بیٹھے چوہدری کو‬
‫گاؤں کی سڑک اور‬
‫اپنی ذمینیں صاف‬
‫نظر آتی تھیں‪ ،‬وہ‬
‫یہیں بیٹھے دیکھتا‬
‫تھا کہ گاؤں میں‬
‫کون آ رہا ہے اور‬
‫کون جا رہا ہے۔‬
‫رہی سہی خبریں‬
‫چوہدری کے چیلے‬
‫چوہدری تک پہنچا‬
‫دیتے تھے۔برآمدے‬
‫کے ساتھ ہی ایک‬
‫پرآسائش‬
‫ائیرکنڈیشنڈ کمرا‬
‫تھا جس میں قیمتی‬
‫فرنیچر کے عالوہ‬
‫ایک ڈی وی ڈی‬
‫پلئیر‪ ،‬ایک بڑا سا‬
‫ایل ای ڈی ٹی وی‬
‫اور ایک ریک میں‬
‫چوہدری کی‬
‫پسندیدہ ہندی اور‬
‫پنجابی فلموں کی‬
‫ڈی وی ڈیز رکھی‬
‫تھیں۔ اسی ریک‬
‫کے ایک خانے میں‬
‫ننگے مجروں اور‬
‫بلیو پرنٹس کی بھی‬
‫کلیکشن موجود‬
‫تھی۔ اس کمرے‬
‫میں چوہدری کی‬
‫اجازت کے بغیر‬
‫سب کا داخلہ ممنوع‬
‫تھا۔‬

‫چوہدری کرسی پر‬


‫بیٹھے بیٹھے‬
‫اونگھ رہا تھا شاید‬
‫شاہد زبیدہ کے‬
‫چکر میں جا چکا‬
‫تھا شادی کے بعد‬
‫رضیہ شاہد سے‬
‫پردہ کرتی تھی‬
‫اسکی شاہد سے‬
‫بنتی بھی ذرا کم ھی‬
‫تھی‪ ،‬چوھدری‬
‫تھوڑی دیر بعد وہ‬
‫کرسی پر آگے ہو‬
‫کر بیٹھتا حقے کا‬
‫ایک کش لیتا اور‬
‫پھر ٹیک لگا کر‬
‫بیٹھ جاتا۔ مادرچود‬
‫کوئی لسی لے کر‬
‫‪،‬نہیں آیا ابھی تک‬
‫چوہدری منہ ہی منہ‬
‫میں بڑبڑایا۔ ایک‬
‫ہفتہ پہلے رضیہ‬
‫کی پھدی میں‬
‫‪،‬چھوٹا تھا وہ‬
‫اسکے بعد سے‬
‫چوہدری نے کسی‬
‫کی نہیں لی تھی‬
‫اور اب اسکی بس‬
‫ہو گئی تھی اور وہ‬
‫سوچ رہا تھا کہ جو‬
‫بھی لسی الئے گی‬
‫اسکی جم کے‬
‫چدائی کروں گا۔‬

‫ہونے والی چدائی‬


‫کو سوچ کر ہی‬
‫چوہدری کا بوڑھا‬
‫شیر کھڑا ہونے کو‬
‫تیار تھا۔ اسے پتہ‬
‫تھا کہ اسکی الڈلی‬
‫بہو میکے سے‬
‫واپس آ گئی ہے‬
‫لیکن اسے بالکل‬
‫امید نہیں تھی کہ‬
‫لسی لے کر رضیہ‬
‫بھی آ سکتی ہے۔‬
‫رضیہ کے رس‬
‫بھرے جسم کا سوچ‬
‫کے ہی اسکی نبض‬
‫تیز چلنے لگی‬
‫تھی‪ ،‬چوہدری نے‬
‫اپنے نیم کھڑے لن‬
‫پر ہاتھ پھیرا اور‬
‫اسے دبا کر اپنے‬
‫چڈوں میں لے لیا‬
‫جیسے کسی کی‬
‫نظروں میں آنے‬
‫سے چھپا رہا ہو۔‬
‫اس نے اس پورے‬
‫ہفتہ کے دوران‬
‫رضیہ کے بارے‬
‫میں بہت سوچا تھا‬
‫اسکا دماغ بار بار‬
‫سوچتا کہ سجاد تو‬
‫روز رضیہ کی لیتا‬
‫ہو گا اور وہ بھی‬
‫پتہ نہیں دن میں‬
‫کتنی دفعہ۔ اسکے‬
‫دماغ میں جب بھی‬
‫خیال آتا کہ سجاد تو‬
‫جب چاہے رضیہ‬
‫کو چود سکتا ہے‬
‫تو جانے کیوں اپنی‬
‫ہی اوالد سے اسے‬
‫جلن محسوس ہونے‬
‫لگتی۔ چوہدری نے‬
‫اپنی رانوں کی‬
‫گرفت اپنے لن پر‬
‫‪،‬سے ہلکی کی‬
‫اسکے لن میں‬
‫سختی اور پریشر‬
‫کی وجہ سے درد‬
‫ہونے لگا تھا۔ آ بھی‬
‫جاؤ میری پھدی‬
‫رانی‪ ،‬چوہدری نے‬
‫بچوں کی طرح‬
‫بےصبری سے‬
‫تلمال کر کہا۔‬
‫چوہدری نے ہاتھ‬
‫اوپر اٹھائے اور‬
‫شیر کی طرح جسم‬
‫اکڑاء کر انگڑائی‬
‫لی‪ ،‬اسکا جسم‬
‫شہوت سے ٹوٹ‬
‫رہا تھا۔ ٹک۔۔۔۔۔۔‬
‫ٹک ٹک۔۔۔۔۔۔۔ ٹک‬
‫ٹک چوہدری کو‬
‫کسی کے سیڑھیاں‬
‫چڑھنے کی آواز‬
‫سنائی دی۔ چوہدری‬
‫نے لن کو ایک بار‬
‫پھر رانوں میں لیا۔‬
‫تبھی سیڑھیوں سے‬
‫رضیہ ایسے‬
‫نمودار ہوئی جیسے‬
‫چودھویں کا چاند‬
‫کسی بدلی کی اوٹ‬
‫سے نکلتا ہے۔‬
‫رضیہ کے‬
‫خوبصورت چہرے‬
‫پر نظر پڑتے ہی‬
‫چوہدری کے لن‬
‫کی سختی اور اکڑ‬
‫میں مزید اضافہ ہو‬
‫گیا۔ اسکے دماغ‬
‫نے ایک دفعہ اسے‬
‫وارننگ دی کہ‬
‫بھین کے لوڑے یہ‬
‫تیری بہو ہے‪ ،‬باز آ‬
‫جا اس کنجرخانے‬
‫سے۔ چوہدری نے‬
‫جھرجھری لی اور‬
‫اس نے یہ سوچ کر‬
‫خود پر قابو پانے‬
‫کی کوشش کی کہ‬
‫بہو رانی صرف‬
‫اور صرف لسی‬
‫دینے آئی ہے۔‬
‫مدھانی چالتے‬
‫ہوئے رضیہ کی‬
‫قمیض پر لسی کے‬
‫کچھ چھینٹے اڑ کر‬
‫گرے تھے جسے‬
‫وہ پانی سے صاف‬
‫‪،‬کر کے آئی تھی‬
‫لیکن اسکا نقصان‬
‫یہ ہوا کہ اب رضیہ‬
‫کی قمیض گیلی ہو‬
‫کر آگے سے اس‬
‫کے کسے ہوئے‬
‫پیٹ پر چپک گئی‬
‫تھی۔ چوہدری کا‬
‫دماغ یہ دیکھتے‬
‫ہی مالش والے دن‬
‫پر پہنچ گیا جب‬
‫اس تنہائی میں‬
‫اسکی بہو نے اپنے‬
‫سیکسی جسم کے‬
‫جلوے دکھائے‬
‫تھے۔ رضیہ نے‬
‫لسی کا مگا‬
‫چوہدری کو پکڑایا‬
‫تو اسکی مغرور‬
‫تنی ہوئی چھاتیاں‬
‫چوہدری کو انکی‬
‫خوشبو اور ذائقہ یاد‬
‫کروانے لگیں‪ ،‬آم‬
‫کے پیڑ کے نیچے‬
‫اور پھر چارے‬
‫والے کمرے میں‬
‫چوہدری نے ان‬
‫مسمیوں کا سارا‬
‫رس نچوڑ لیا تھا۔‬

‫جتنا وہ اپنے دماغ‬


‫کو ان شہوت زدہ‬
‫خیاالت سے آزاد‬
‫کروانے کی کوشش‬
‫کر رہا تھا اتنا ہی‬
‫وہ سیالب کی‬
‫طرح اس پر‬
‫چڑھے آ رہے‬
‫تھے۔ مگا پکڑتے‬
‫وقت رضیہ کی‬
‫مخروطی انگلیاں‬
‫چوہدری کے‬
‫مضبوط کھردرے‬
‫‪،‬ہاتھ سے چھو گئیں‬
‫اس معمولی سے‬
‫لمس سے ہی رضیہ‬
‫کا گندمی چہرہ‬
‫سرخ ہو گیا اور اس‬
‫کا سانس تیز چلنے‬
‫سے اسکے نتھنے‬
‫پھولنے پچکنے‬
‫لگے۔ رضیہ کی‬
‫آنکھیں جھکی اور‬
‫وہ چوہدری کی‬
‫دھوتی کی تہوں‬
‫میں سے اسکا‬
‫گھوڑے جیسا لوڑا‬
‫کھوجنے لگی۔‬
‫اسکی پھدی نے‬
‫بڑی بےشرمی سے‬
‫رالیں ٹپکانی شروع‬
‫کر دی تھیں۔ رضیہ‬
‫کچھ بھی کہے بغیر‬
‫اپنے پاؤں جما کر‬
‫کھڑی تھی۔‬
‫چوہدری نے مگا‬
‫اٹھایا اور لسی پینے‬
‫کے لئے اپنے منہ‬
‫سے لگایا۔ چوہدری‬
‫نے منہ کھوال اور‬
‫اپنی زبان نکال کر‬
‫لسی کے اوپر آئی‬
‫باالئی چاٹنے لگا۔‬
‫چوہدری کی باز‬
‫جیسی نگاہیں‬
‫رضیہ پر جمی‬
‫تھیں۔ رضیہ نے‬
‫دیکھا کہ کیسے‬
‫چوہدری نے زبان‬
‫لمبی کر کے ایک‬
‫بڑی سی چسکی‬
‫لے کر ساری‬
‫‪،‬باالئی چاٹ لی‬
‫رضیہ کو ایسے‬
‫محسوس ہوا جیسے‬
‫چوہدری نے باالئی‬
‫کی جگہ اسکے‬
‫ممے اور ان پر‬
‫موجود گھنڈیوں کو‬
‫چاٹا ہو۔ اسی سوچ‬
‫سے ہی رضیہ کو‬
‫صاف احساس ہوا‬
‫جیسے اسکے نپل‬
‫چھالنگ لگا کر‬
‫کھڑے ہو گئے‬
‫تھے۔‬

‫رضیہ کی آنکھیں‬
‫اس وقت بھی اپنے‬
‫سسر پر جمی رہی‬
‫جب اس نے مگے‬
‫کے کنارے پر‬
‫اپنے ہونٹ جمائے‬
‫اور گاڑھی مکھن‬
‫ملی لسی پینے لگا۔‬
‫لسی اتنی گاڑھی‬
‫تھی کہ چوہدری‬
‫کے ہونٹ گول‬
‫ہوتے اور اسے‬
‫زور لگا کر سانس‬
‫اندر کھینچ کر لسی‬
‫‪،‬کا گھونٹ لینا پڑتا‬
‫یہ سب رضیہ کو‬
‫ایسے لگ رہا تھا‬
‫جیسے چوہدری‬
‫کے ہونٹ اسکے‬
‫مالئم مموں پر‬
‫جمے ہوں اور وہ‬
‫زور لگا کر انکا‬
‫رس پی رہا ہو اور‬
‫اسکی زبان اندر ہی‬
‫اندر اسکے نپل پر‬
‫پھر رہی ہو۔ اوئی‬
‫ماں۔۔۔۔۔۔کیا ایسا‬
‫واقعی میں ہو سکتا‬
‫ہے؟ رضیہ نے‬
‫اپنے آپ سے سوال‬
‫کیا۔ اسکی چوت‬
‫اپنی مالئی ٹپکا‬
‫رہی تھی اور اسکا‬
‫دل چاہ رہا تھا کہ‬
‫لسی کی ہی طرح‬
‫چوہدری اس کا بھی‬
‫مزہ لے۔ اس نے‬
‫سنا تھا اور پڑھا تھا‬
‫چوت چٹائی کے‬
‫بارے میں لیکن‬
‫ابھی تک نہ‬
‫چوہدری نے اور نہ‬
‫رضیہ کے شوہر‬
‫نے اسکی چوت کا‬
‫رس پیا تھا۔‬

‫ایسے لگا جیسے‬


‫دونوں کے دماغ‬
‫ایک ہی طرح‬
‫سوچتے ہیں کیونکہ‬
‫چوہدری بھی اس‬
‫وقت یہی سوچ رہا‬
‫تھا۔ لسی کے‬
‫گھونٹ بھرتے وہ‬
‫بھی سوچ رہا تھا‬
‫کہ کیا رضیہ کی‬
‫چوت بھی اسکی‬
‫موجودگی میں‬
‫ایسے ہی زد کرتی‬
‫اور رالیں ٹپکاتی‬
‫ہے جیسے اسکا‬
‫لنڈ ٹپکاتا ہے۔ اور‬
‫پتہ نہیں اسکی‬
‫چوت کے رس کا‬
‫کیا ذائقہ ہو گا۔‬
‫چوہدری نے بھی‬
‫کبھی کسی کی‬
‫پھدی نہیں چاٹی‬
‫تھی‪ ،‬وہ خودغرض‬
‫قسم کا مرد تھا‬
‫جسے بس اپنے‬
‫مزے سے مطلب‬
‫ہوتا ہے۔ پیار محبت‬
‫جیسے نازک‬
‫جذبات سے وہ ابھی‬
‫تک ناآشنا تھا لیکن‬
‫رضیہ کی قربت‬
‫میں کوئی ایسا جادو‬
‫تھا کہ وہ اسکی‬
‫خوشی کے لئے‬
‫اسکی چوت بھی‬
‫چاٹ سکتا تھا اور‬
‫چوہدری نے یہ بھی‬
‫سوچ لیا تھا کہ اگر‬
‫ایسا وقت آیا تو وہ‬
‫کیسے اسکی چوت‬
‫کا رس پیئے گا۔‬
‫چوہدری نادانستگی‬
‫میں لسی پیتے‬
‫ہوئے اپنی ساری‬
‫سوچیں رضیہ تک‬
‫پہنچانے کی کوشش‬
‫کر رہا تھا۔‬

‫چوہدری نے ایک‬
‫بڑا سا گھونٹ بھر‬
‫کر لسی کا مگا‬
‫اپنے منہ سے ہٹایا۔‬
‫رضیہ کے حلق‬
‫‪،‬سے قہقہہ بلند ہوا‬
‫گاڑھی لسی کی‬
‫دبیز تہہ چوہدری‬
‫کی مونچھوں پر جم‬
‫گئی تھی جس سے‬
‫چوہدری کا چہرہ‬
‫مضحکہ خیز لگ‬
‫رہا تھا اور رضیہ‬
‫کے منہ سے‬
‫غیرارادی طور پر‬
‫اونچا اور سریال‬
‫قہقہہ نکل گیا‬
‫تھا۔اسے یاد نہ رہا‬
‫کہ کوئی سن لے‬
‫گا چوہدری ٹکٹکی‬
‫باندھ کر دیکھنے‬
‫لگا کہ کیسے‬
‫رضیہ کے قہقہہ‬
‫لگانے سے نہ‬
‫صرف اسکا چہرہ‬
‫اور آنکھیں بلکہ‬
‫اسکا پورا جسم‬
‫جیسے ہنسنے لگا‬
‫تھا‪ ،‬اسکی ٹائیٹ‬
‫قمیض میں کسی‬
‫اسکی صحتمند‬
‫چھاتیاں بھی‬
‫تھرتھرا کر رضیہ‬
‫کی ہنسی میں اسکا‬
‫ساتھ دے رہی تھیں۔‬
‫اچانک چوہدری‬
‫کو احساس ہوا کہ‬
‫یہ تو مجھے دیکھ‬
‫کر ہنس رہی ہے‬
‫اور خفت کی وجہ‬
‫سے اسکا چہرہ‬
‫سرخ پڑ گیا۔‬
‫رضیہ کے قہقہے‬
‫کی آواز نیچے‬
‫صحن سے گزرتی‬
‫اسکج ساس نے‬
‫بھی سن لی جو‬
‫ایک مالذمہ کے‬
‫ساتھ ہمسائیوں کے‬
‫گھر جا رہی تھی۔‬
‫اس نے اوپر کی‬
‫طرف منہ اٹھا کر‬
‫دیکھا اور یہ سوچ‬
‫کر مطمئن ہو گئی‬
‫کہ شکر ہے اسکے‬
‫شوہر اور اسکی‬
‫بہو نے ایک‬
‫دوسرے کو قبول‬
‫کر لیا‪ ،‬حویلی میں‬
‫ایک چنچل اور‬
‫شوخ بیٹی کی کمی‬
‫تھی جو اب شاید‬
‫رضیہ کے آنے‬
‫سے دور ہو جائے۔‬
‫چوہدراین مسکرائی‬
‫اور باہر نکل گئی۔‬

‫چوہدری کا چہرہ‬
‫غصے سے الل ہو‬
‫رہا تھا‪ ،‬آج تک‬
‫کسی کی ہمت نہیں‬
‫ہوئی تھی کہ وہ‬
‫چوہدری کے‬
‫سامنے اونچی آواز‬
‫سے ہنسے۔ اسکے‬
‫غصے سے سب‬
‫ڈرتے تھے اور یہ‬
‫کل کی چھوکری‬
‫اسی کے اوپر‬
‫ایسے ہنس رہی‬
‫تھی جیسے اسکا‬
‫مذاق اڑا رہی ہو۔‬
‫چوہدری کرسی‬
‫کے ہتھے پر ہاتھ‬
‫رکھ کر اٹھنے ہج‬
‫لگا تھا تاکہ رضیہ‬
‫کو سبق سکھائے‬
‫کہ وہ مزید آگے‬
‫آئی اور اپنا نازک‬
‫سا ہاتھ چوہدری‬
‫کے مضبوط سینے‬
‫پر رکھ کر اسے‬
‫اٹھنے سے روکا‬
‫اور دوسرے ہاتھ‬
‫سے اپنا دوپٹہ تھام‬
‫کر چوہدری کج‬
‫مونچھیں ایسے‬
‫صاف کرنے لگی‬
‫جیسے کچھ ہوا ہی‬
‫نہ ہو۔‬

‫مونچھیں صاف‬
‫کرتے رضیہ کا‬
‫بھرا ہوا جسم‬
‫چوہدری پر جھکا‬
‫ہوا تھا۔ اسکا چہرہ‬
‫اور جسم خطرناک‬
‫حد تک چوہدری‬
‫کے قریب تھا۔ اسکا‬
‫دوپٹہ اسکی‬
‫چھاتیوں سے ہٹنے‬
‫کی وجہ سے اسکی‬
‫پتلی قمیض سے‬
‫جھکنے کے باعث‬
‫اسکی لٹکی ہوئی‬
‫چھاتیاں براء میں‬
‫قید نظارا دے رہی‬
‫تھیں۔ رضیہ کے‬
‫لمبے کالے بال‬
‫کھلے اور انہوں‬
‫نے رضیہ اور‬
‫چوہدری دونوں‬
‫کے چہروں کو‬
‫ڈھانپ لیا۔ چوہدری‬
‫نے اس صورتحال‬
‫کا بھرپور فائدہ‬
‫اٹھایا اور رضیہ‬
‫کے رسیلے ہونٹوں‬
‫کو اپنے ہونٹوں‬
‫میں قید کر لیا۔‬
‫رضیہ کینہمت نہ‬
‫ہوئی کہ وہ اپنے‬
‫سسر کے بوسے کا‬
‫کوئی جواب دے۔ یہ‬
‫حیوانی کشش اور‬
‫دوسری طرف انکا‬
‫نازک رشتہ اسے‬
‫پاگل کر رہا تھا۔‬
‫رضیہ کا منہ کھال‬
‫ہی رہا لیکن دماغ‬
‫ابھی تک کوئی‬
‫فیصلہ کرنے سے‬
‫قاصر تھا۔ چوہدری‬
‫اسکے سانسوں کی‬
‫گرمی اور خوشبو‬
‫سے پوری طرح‬
‫مدہوش ہو رہا تھا۔‬
‫اسکے ہونٹ رضیہ‬
‫کے مالئم رسیلے‬
‫ہونٹوں پر جمے‬
‫رہے اور وہ اسکے‬
‫‪،‬ہونٹ چومنے‬
‫چوسنے اور چاٹنے‬
‫لگا۔ رضیہ کا منہ‬
‫ویسے ہی پانی‬
‫چھوڑنے لگا‬
‫جیسے اسکی پھدی‬
‫پانی چھوڑنے لگی‬
‫تھی۔ اسکے ہونٹ‬
‫دونوں کے تھوک‬
‫‪،‬سے گیلے ہو گئے‬
‫چوہدری نے اپنے‬
‫ہونٹ ہٹائے اور‬
‫زبان نکال کر کتے‬
‫کی طرح اسکے‬
‫ہونٹ چاٹنے لگا۔ آہ‬
‫بابو جی۔۔۔۔۔۔۔ رضیہ‬
‫کا منہ جیسے ہی یہ‬
‫کہتے وقت کھال‬
‫چوہدری کی زبان‬
‫کسی تیر کی طرح‬
‫اسکے ہونٹوں اور‬
‫پھر اسکے سفید‬
‫ہموار دانتوں کی‬
‫قطار عبور کرتی‬
‫اسکے منہ میں‬
‫پیوست ہو گئی۔‬
‫رضیہ کی زبان پر‬
‫جب چوہدری نے‬
‫اپنی زبان رگڑی تو‬
‫اسکے جوان جسم‬
‫نے جھرجھری سی‬
‫لی۔ رضیہ نے اپنے‬
‫ہونٹوں کو گول کیا‬
‫اور چوہدری کی‬
‫زبان کو اپنے منہ‬
‫میں اہسے آگے‬
‫پیچھے کرنے لگی‬
‫جیسے وہ زبان کی‬
‫بجائے چوہدری کا‬
‫لمبا اور موٹا لن ہو۔‬
‫چوہدری نے دونوں‬
‫ہاتھوں سے رضیہ‬
‫کے کاندھوں کو‬
‫مضبوطی سے‬
‫تھاما ہوا تھا اور‬
‫اپنی زبان پر رضیہ‬
‫کے چوسے‬
‫انجوائے کر رہا‬
‫تھا۔ جب چوہدری‬
‫کی زبان رضیہ‬
‫کے منہ کی گہرائی‬
‫میں پہنچتی تو وہ‬
‫رضیہ کے منہ کو‬
‫اپنی زبان کی نوک‬
‫سے ایسے کھرچتا‬
‫جیسے وہ منہ کی‬
‫بجائے رضیہ کی‬
‫چوت کی تہیں ہوں۔‬

‫چوہدری نےتھوڑی‬
‫دیر اپنی زبان سے‬
‫رضیہ کے منہ کی‬
‫چدائی جاری رکھی‬
‫اور پھر جیسے‬
‫کوئی فیصلہ کرنے‬
‫کے بعد زبان‬
‫رضیہ کے منہ سے‬
‫نکال کر کرسی‬
‫سے کھڑا ہو گیا۔‬
‫چوہدری کی دھوتی‬
‫اسکے کھمبے‬
‫جیسے لنڈ کو‬
‫چھپانے سے قاصر‬
‫تھی۔ رضیہ نے‬
‫اسکے اکڑے لن کو‬
‫دیکھ کر بےخیالی‬
‫سے اپنی زبان‬
‫اپنے ہونٹوں پر‬
‫پھیری۔ چوہدری‬
‫نے ایک قدم آگے‬
‫کی طرف لیا تو‬
‫رضیہ شرارت سے‬
‫مسکراتے ہوئے‬
‫پیچھے کو ہٹی۔‬
‫چوہدری نے قدم‬
‫بڑھانے اور رضیہ‬
‫نے الٹے پیر واپسی‬
‫جاری رکھی یہاں‬
‫تک کے رضیہ کی‬
‫موٹی گانڈ دیوار‬
‫سے لگی الماری‬
‫سے ٹکرا گئی جس‬
‫کے اوپر چوہدری‬
‫کے دھلے ہوئے‬
‫کپڑے قرینے سے‬
‫تہہ کئے رکھے‬
‫تھے۔ چوہدری نے‬
‫ایک قدم اور بڑھایا‬
‫اور بالکل رضیہ‬
‫کے قریب پہنچ کر‬
‫رک گیا‪ ،‬ان کے‬
‫چہرے اتنے قریب‬
‫تھے کہ دونوں ایک‬
‫دوسرے کی‬
‫سانسیں محسوس‬
‫کر رہے تھے۔‬
‫رضیہ کے ممے‬
‫چوہدری کے سینے‬
‫کو چھو رہے تھے‬
‫اور چوہدری کا‬
‫مکمل طور پر کھڑا‬
‫لنڈ رضیہ کے پیٹ‬
‫کو کھرچنے لگا‬
‫تھا۔ رضیہ نے اپنا‬
‫خوبصورت چہرہ‬
‫جھکایا اور‬
‫چوہدری کی چوڑی‬
‫چھاتی میں گھسا‬
‫دیا۔ اسکی آنکھیں‬
‫شدید جنسی خواہش‬
‫سے الل ہو گئی‬
‫تھیں اور جسم ہلکا‬
‫ہلکا کانپ رہا تھا۔‬
‫چوہدری نے تھوڑا‬
‫جھک کر اسکے‬
‫موٹے نرم چوتڑوں‬
‫سے نیچے ہاتھ‬
‫جمائے اور اسکا‬
‫جسم اپنے سینے‬
‫‪،‬تک اوپر اٹھا لیا‬
‫رضیہ نے الماری‬
‫کی سب سے اوپر‬
‫والی شیلف پر ہاتھ‬
‫جمائے اور اپنے‬
‫جسم کا بوجھ خود‬
‫اٹھا کر چوہدری‬
‫کو ریلیف دی۔‬
‫رضیہ نے جیسے‬
‫ہی اپنا وزن خود‬
‫اٹھایا‪ ،‬چوہدری‬
‫نے اپنے ہاتھ آزاد‬
‫کرکے رضیہ کی‬
‫شلوار کے نیفے‬
‫میں ڈالے اور ایک‬
‫ہی جھٹکے میں‬
‫اسکی شلوار اسکی‬
‫ٹانگوں سے نکال‬
‫دی۔ چوہدری نے‬
‫اسکی چکنی اور‬
‫سڈول ٹانگیں‬
‫دیکھیں تو اسکے‬
‫منہ میں پانی آ گیا۔‬
‫اسنے دوبارہ رضیہ‬
‫کی چمکتی ہوئی‬
‫ننگی ٹانگوں کو‬
‫اپنی مضبوط گرفت‬
‫میں لیا اور اسے‬
‫مزید اوپر کر کے‬
‫الماری کے اوپر‬
‫بٹھا دیا۔ رضیہ آرام‬
‫سے پاؤں لٹکا کر‬
‫الماری پر بیٹھ گئی۔‬
‫الماری کی‬
‫اونچائی اتنی تھی‬
‫کہ پاؤں لٹکا کر‬
‫بیٹھی رضیہ کی‬
‫اسکے رس سے‬
‫چمکتی پھدی‬
‫چوہدری کے‬
‫کاندھوں کی‬
‫اونچائی پر تھی۔‬
‫چوہدری جھکا اور‬
‫اس نے پہال بوسہ‬
‫رضیہ کے دائیں‬
‫پاؤں کے ٹخنے پر‬
‫کیا اور اپنے دونوں‬
‫سخت کھردرے‬
‫ہاتھوں سے رضیہ‬
‫کی گوری نرم‬
‫پنڈلیوں کو سہالنے‬
‫لگا۔ رضیہ کے منہ‬
‫سے سسکیاں‬
‫نکلنے لگیں‪ ،‬اس‬
‫نرمی اور نزاکت‬
‫سے تو کبھی سجاد‬
‫نے بھی اسے نہیں‬
‫چھوا تھا۔ وہ رضیہ‬
‫سے پیار تو کرتا‬
‫تھا لیکن اسکا پیار‬
‫ہونٹوں سے شروع‬
‫ہوتا مموں تک آتا‬
‫اور اسکے بعد وہ‬
‫لن پھدی میں ڈالتا‬
‫اور کچھ ہی‬
‫جھٹکوں میں فارغ‬
‫ہو کر سو جاتا تھا۔‬
‫چوہدری نے تو‬
‫اسے لذت کے نئے‬
‫معنی سے آشنا کیا‬
‫تھا۔ چوہدری کا منہ‬
‫اسکے ٹخنے سے‬
‫ہوتا اسکی پنڈلی پر‬
‫آ گیا‪ ،‬چوہدری‬
‫چھوٹے چھوٹے‬
‫بوسے لیتا اور اپنی‬
‫زبان نکال کر‬
‫رضیہ کی پنڈلی پر‬
‫پھیرتا اوپر آتا گیا۔‬
‫اسکے ہاتھ اب‬
‫رضیہ کے گھٹنوں‬
‫کے پیچھے دائرے‬
‫بنا رہے تھے اور‬
‫رضیہ کی وہ حالت‬
‫تھی کہ اسے لگ‬
‫رہا تھا کہ وہ ابھی‬
‫فارغ ہو جائے گی۔‬
‫چوہدری نے اپنے‬
‫ہاتھ مزید اوپر‬
‫کئے اور اسکی‬
‫رانوں پر پھیرنے‬
‫لگا‪ ،‬اس کی زبان‬
‫اور ہونٹ سفر‬
‫کرتے اسکی موٹی‬
‫رانوں پر پہنچ‬
‫گئے۔ وہ ایک ران‬
‫کو چوم اور چاٹ‬
‫رہا تھا جبکہ‬
‫دوسری ران پر‬
‫اسکی انگلیاں بڑی‬
‫نزاکت سے دائرے‬
‫بنا رہی تھیں۔‬
‫رضیہ کو چوہدری‬
‫کا سر ہی نظر آ رہا‬
‫تھا جس کے بالوں‬
‫میں رضیہ کی‬
‫مخروطی انگلیاں‬
‫نرمی اور پیار سے‬
‫مساج کر رہی تھیں۔‬

‫چوہدری نے دونوں‬
‫رانوں سے اچھی‬
‫طرح انصاف‬
‫کرنے کے بعد اپنا‬
‫سر اٹھا کر رضیہ‬
‫کی آنکھوں میں‬
‫دیکھا اور اسکی‬
‫گانڈ کے پیچھے‬
‫ہاتھ رکھ کر اسے‬
‫آگے کر کے بالکل‬
‫کنارے پر کھینچ‬
‫لیا۔ اسکی ہتھیلیاں‬
‫رضیہ کے گھٹنوں‬
‫پر آئیں اور اس نے‬
‫آہستگی سے انہیں‬
‫جتنا کھوال جا سکتا‬
‫تھا کھول دیا۔ رضیہ‬
‫کو سب سمجھ آ‬
‫رہی تھی کہ اب کیا‬
‫ہونے جا رہا ہے‬
‫اور اسکی چوت تو‬
‫جیسے اذل سے‬
‫اسی انتظار میں‬
‫تھی۔ چوہدری نے‬
‫رضیہ کی نظروں‬
‫میں دیکھ کر دوبارہ‬
‫اپنا سر جھکایا اور‬
‫سانپ کی طرح‬
‫زبان نکال کر‬
‫اسکی رانوں کے‬
‫اندرونی طرف‬
‫پھیرنے لگا۔ رضیہ‬
‫کی ٹانگوں کی‬
‫نازک جلد چوہدری‬
‫کی زبان کے لمس‬
‫سے لرزنے لگی‬
‫تھی‪ ،‬چوہدری کو‬
‫اسکے جسم سے‬
‫ایسی خوشبو مل‬
‫رہی تھی جیسے وہ‬
‫ابھی نہا کر آئی ہو‬
‫لیکن اسکی جلد کا‬
‫ذائقہ نمکین پسینے‬
‫کا تھا۔ چوہدری‬
‫اپنی زبان پھیرتا‬
‫آہستہ آہستہ رضیہ‬
‫کی شہد ٹپکاتی‬
‫چوت کی طرف جا‬
‫رہا تھا اسکا سر اب‬
‫رضیہ کی گیلی‬
‫پھدی کو رگڑ رہا‬
‫تھا اور چوہدری کو‬
‫اپنے سر کے بال‬
‫گیلے ہونے سے‬
‫رضیہ کی چوت‬
‫کے گیلےپن کا‬
‫اچھے سے علم تھا۔‬
‫اب کی بار جب‬
‫چوہدری نے اسکی‬
‫رانوں پر زبان‬
‫چالئی تو جان بوجھ‬
‫کر اپنے سفید‬
‫بالوں واال سر‬
‫رضیہ کی پھدی پر‬
‫رگڑ دیا۔ رضیہ کی‬
‫چوت اسکے بالوں‬
‫کی رگڑ سے ایسی‬
‫گدگدائی کہ وہ تڑپ‬
‫کر رہ گئی۔‬

‫چوہدری نے اپنا‬
‫چہرہ اٹھایا اور اس‬
‫بار رضیہ کی شہد‬
‫ٹپکاتی پھدی کو‬
‫غور سے دیکھا‬
‫اور سحرزدہ ہو گیا۔‬
‫بالمبالغہ اپنی‬
‫جوانی سے اب تک‬
‫اس نے سینکڑوں‬
‫پھدہاں دیکھی اور‬
‫ماری تھیں پر‬
‫ایسی چوت تو آج‬
‫تک اسکی نظر‬
‫سے نہیں گزری‬
‫تھی۔ اسکی چوت کا‬
‫سائز ابھی چھوٹا‬
‫تھا اور اسکے اوپر‬
‫بالکل پتلے پتلے‬
‫اور چھوٹے‬
‫چھوٹے بال تھے۔‬
‫چوت کے لب اتنی‬
‫دفعہ چد کے بھی‬
‫ابھی بند کلی جیسے‬
‫تھے اور رس ان‬
‫لبوں پر ایسے‬
‫چمک رہا تھا‬
‫جیسے کسی پھول‬
‫پر شبنم کے قطرے‬
‫پڑے ہوں۔ رنگ‬
‫بےشک باقی جسم‬
‫کی نسبت گہرا تھا‬
‫پھر بھی اس میں‬
‫ایک نمکین سی‬
‫کشش تھی۔ ادھر‬
‫رضیہ نے چوہدری‬
‫کو اتنے غور سے‬
‫اپنی چوت کو‬
‫گھورتے دیکھا تو‬
‫اس کی آنکھیں‬
‫خودی شرم سے بند‬
‫ہو گئی اور اس نے‬
‫اپنی ٹانگیں بند‬
‫کرنے کی ناکام‬
‫کوشش کی۔‬
‫چوہدری اپنی ناک‬
‫چوت کے قریب‬
‫لے گیا اور ایک‬
‫گہری سانس لی تو‬
‫اسے ایک جانی‬
‫پہچانی دلفریب سی‬
‫مہک آئی جس نے‬
‫چوہدری کو مزید‬
‫اتاوال کر دیا۔ اس‬
‫نے اپنی زبان‬
‫نکالی اور ہلکے‬
‫سے اپنی زبان‬
‫رضیہ کی چوت پر‬
‫لگا کر پیچھے کی‬
‫جیسے وہ اسے‬
‫چکھ کر دیکھ رہا‬
‫ہو چوہدری کی‬
‫زبان کو اسکی‬
‫چوت کا ذائقہ کچھ‬
‫تیکھا اور نمکین سا‬
‫لگا۔ چوہدری کے‬
‫ہاتھ آگے بڑھے‬
‫اور اس نے دونوں‬
‫ہاتھ پھدی کی‬
‫دونوں طرف رکھ‬
‫کر کھوال تو اسکا‬
‫استقبال گالبی‬
‫گوشت نے کیا جو‬
‫اپنے ہی پانی سے‬
‫چمک رہا تھا اور‬
‫اس انتظار میں تھا‬
‫کہ کب اسکی‬
‫قسمت کھلے اور‬
‫چوہدری اس سے‬
‫کھیلے۔ چوہدری‬
‫نے اپنا منہ چوت‬
‫سے جوڑا اور‬
‫اسے چوم لیا۔‬

‫آہ بابو جی کہاں"‬


‫منہ لگا رہے ہیں‬
‫"آپ‬
‫رضیہ کا منہ‬
‫کھال اور اس نے‬
‫بوجھل سانسوں کے‬
‫ساتھ ہلکی آواز میں‬
‫پوچھا۔ سوال ہی‬
‫بےوقوفی واال تھا‬
‫کیونکہ اس نے‬
‫خود ہی تو اپنی‬
‫پھدی کسی پکے‬
‫ہوئے پھل کی طرح‬
‫چوہدری کے‬
‫حوالے کی تھی۔‬
‫"مم ممممم"‬

‫چوہدری نے سنی‬
‫ان سنی کی اور‬
‫رضیہ کی چوت کو‬
‫کسی کتے کی طرح‬
‫چاٹنے لگا‪ ،‬اس کے‬
‫منہ سے ایسی ہی‬
‫آوازیں نکل رہی‬
‫تھیں جیسے کتے‬
‫کے اپنے برتن سے‬
‫دودھ پیتے وقت‬
‫نکلتی ہے۔ اس کا‬
‫بالکل ارادہ نہیں تھا‬
‫کہ ابھی اپنی زبان‬
‫کا استعمال اپنی‬
‫الڈلی بہو رانی کی‬
‫پھخی چاٹنے کے‬
‫عالوہ کسی اور کام‬
‫کے لئے کرے۔‬
‫چوہدری کا تھوک‬
‫بھی رضیہ کے‬
‫چوت رس میں‬
‫شامل ہو گیا جس‬
‫سے اسکے رس‬
‫کی تلخی اور بو‬
‫بھی کم ہو گئی کچھ‬
‫چوہدری بھی اتنی‬
‫دیر میں کچھ عادی‬
‫ہو گیا تھا۔ اب‬
‫چوہدری نے ایک‬
‫قدم مزید آگے‬
‫بڑھنے کا فیصلہ‬
‫کیا اور اپنی زبان‬
‫کو لمبائی میں‬
‫دوہرا کیا تاکہ اسے‬
‫رضیہ کی چوت‬
‫میں داخل کر کے‬
‫اپنے زبان سے‬
‫اسکی پھدی چود‬
‫سکے۔ چوہدری نے‬
‫اپنی دہری ہوئی‬
‫زبان رضیہ کی‬
‫رسیلی پھدی میں‬
‫داخل کی تو تھوڑا‬
‫ہی اندر جانے کے‬
‫بعد رضیہ کی‬
‫چوت کی دیواروں‬
‫نے اسکی زبان کو‬
‫جکڑ کر مزید آگے‬
‫جانے سے روک‬
‫دیا۔ چوہدری نے‬
‫اپنی دو انگلیاں‬
‫اندر گھسا کر چوت‬
‫کے لب کھلے اور‬
‫کسی چاقو کی طرح‬
‫اپنی زبان اندر‬
‫گھسا دی۔ رضیہ‬
‫نے پوری زبان‬
‫اپنی چوت میں‬
‫گھستے محسوس‬
‫کی تو مزے کی‬
‫وجہ سے تڑپ کر‬
‫رہ گئی۔ چوہدری‬
‫نے اپنی زبان اندر‬
‫باہر کرنا جارج‬
‫رکھا اور اسکے‬
‫ہاتھ کے دونوں‬
‫انگوٹھے رضیہ کی‬
‫چوت کی اوپری‬
‫دیواروں کو‬
‫رگڑنے لگے۔ اسی‬
‫رگڑائی کے دوران‬
‫چوہدری کے‬
‫انگوٹھے اسکی‬
‫پوری چوت کے‬
‫چپے چپے پر گھوم‬
‫رہے تھے۔ اچانک‬
‫رضیہ کا جسم اکڑا‬
‫اور ایک لمبی سی‬
‫سسکی اسکے منہ‬
‫سے نکلی۔ چوہدری‬
‫کے انگوٹھے اپنے‬
‫سفر کے دوران‬
‫اسکی چوت کے‬
‫دانے کو چھیڑ گئے‬
‫تھے۔ رضیہ کے‬
‫جسم نے چوہدری‬
‫کو بتا دیا تھا کہ‬
‫یہی اسکا چور‬
‫سوئچ ہے۔ چوہدری‬
‫نے زبان پھدی سے‬
‫نکالی اور رضیہ‬
‫کہ اکڑے ہوئے‬
‫دانے پر پھیرنے‬
‫لگا‪ ،‬رضیہ تو‬
‫ایسے تڑپی جیسے‬
‫اس پر کسی نے‬
‫چھری چال دی ہو۔‬
‫چوہدری کے لئے‬
‫اسکی ٹانگیں قابو‬
‫کرنا مشکل ہو گیا۔‬

‫چوہدری نے‬
‫تھوڑی ہی دیر اور‬
‫اسکا چھوال رگڑا‬
‫تھا کہ ضیہ کی‬
‫سسکیاں اور آہیں‬
‫بلند ہونے لگیں۔‬

‫آہ بابو جی اور"‬


‫تیزی سے۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫زور سے رگڑو‬
‫اسے۔۔۔۔۔۔۔میں فارغ‬
‫"ہونے لگی ہوں‬

‫چوہدری نے اپنی‬
‫موٹی سی انگلی‬
‫رضیہ کی پھدی‬
‫میں اتاری اور‬
‫تیزی سے آگے‬
‫پیچھے کرتے اپنی‬
‫زبان دانے پر‬
‫پھیرتا رہا۔ ہائے‬
‫میں گئی۔۔۔۔۔۔۔رضیہ‬
‫اونچی آواز میں‬
‫چال ئی‪ ،‬اسکی‬
‫ٹانگیں کانپنے لگیں‬
‫اور اسکی چوت‬
‫نے گدال سا پانی‬
‫چھوڑ دیا۔ چوہدری‬
‫نے عین آخری ٹائم‬
‫پر اپنا منہ ہٹا کر‬
‫سیالب سے خود کو‬
‫بچایا۔‬

‫دھڑام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اچانک باہر سے‬
‫کوئی برتن گرنے‬
‫کی آواز آئی۔‬
‫چوہدری بھاگتا ہوا‬
‫باہر گیا تو۔۔۔اس نے‬
‫دیکھا شاہد‬
‫دروازے پر کھڑا‬
‫سارا ڈرامہ دیکھ‬
‫چکا تھا شرم کے‬
‫مارے رضیہ‬
‫چوہدری کے‬
‫پیچھے چھپ گئی‬
‫اور چودھری بوال‬
‫نواب زادے توں‬
‫کدوں پرتیا ایں‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫صفحہ_‪#12‬‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬

‫توں کدوں پرتیا ایں‬


‫کاکا چوہدری نے‬
‫کہا شاھد جو‬
‫چوہدری کو اتنا‬
‫گرتے ھوۓ دیکھ‬
‫چکا تھا بوال تایا ابا‬
‫میں کافی دیر تو‬
‫دیکھ رہیا واں‬
‫رضیہ جو شاہد‬
‫سے بہت پردہ‬
‫کرتی تھی شرم‬
‫سے مرے جارہی‬
‫تھی اسے یہ امید‬
‫کبھی نہ تھی کہ‬
‫شاہد انہیں رنگ‬
‫رلیاں مناتے پکڑ‬
‫لے گا چوہدری‬
‫سرور کو یقین تو‬
‫تھا اپنے بھتیجے پر‬
‫مگر پھر بھی اسے‬
‫اپنی اس گھٹیا پن‬
‫کا احساس تھا اس‬
‫نے دانشمندی کا‬
‫ثبوت دیا اور‬
‫شاہد کو ٹٹولنے‬
‫لگا دیکھ نوابزادہ‬
‫بیٹا لسی بڑی مٹھی‬
‫سی تاں دل کیتا‬
‫تھوڑی چکھ لئ‬
‫جاوے تو میرا پتر‬
‫کسے نوں نہ دسیں‬
‫جا ساتھ والے‬
‫کمرے وچ جا کے‬
‫موجاں مار تایا جی‬
‫موجیں تو سامنے‬
‫پڑی ھیں اگر آپ‬
‫مارنے دیں تو‬
‫چوہدری کو بات‬
‫بنتی نظر نہ آئی تو‬
‫اس نے کہا تو چل‬
‫تے سہی میں کجھ‬
‫کرنا واں ویسے تایا‬
‫لسی بانٹ کی پی‬
‫لیں تو زیادہ بہتر‬
‫رھے گا شاہد‬
‫رضیہ کو دیکھتے‬
‫ھوۓ‬
‫_بڑی_حویلی_کی‬
‫بہو‬

‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬


‫بوال اور موبائل‬
‫نکال کر دوسرے‬
‫روم میں چال گیا‬
‫شاہد کے جاتے ھی‬
‫چوہدری سرور‬
‫بوال بہو رانی اے‬
‫شکر اے کہ شاہد‬
‫اپنا ہی بچہ سی تاں‬
‫بال ٹل گئ دیکھ‬
‫میرا چن اوہ وی‬
‫جوان ایں تو اس‬
‫مشکل گھڑی وچ‬
‫میرا ساتھ دے‬
‫رضیہ سمجھ تو‬
‫گئ تھی پھر بھی‬
‫بولی کیا کروں میں‬
‫تو چوہدری صاحب‬
‫بولے تھوڑی جئ‬
‫لسی شاہد نوں وی‬
‫دے آ میرا مطلب‬
‫سمجھ گئ ایں نہ‬
‫نواں منہ ایں گل‬
‫ودھ نہ جاوے تو‬
‫رضیہ بولی ابا جی‬

‫مگر میں تے شاہد‬


‫توں پردہ کرنی آں‬
‫چوہدری بوال تم‬
‫پڑھی لکھی ھو‬
‫ویلے نوں سدہارنا‬
‫سکھ میری بہو‬
‫سسر اور بہو نئ‬
‫ڈیل کر رھے تھے‬
‫رضیہ شاہد کو‬
‫اپنے اوپر چڑھنے‬
‫کا سو چ بھی کیسے‬
‫سکتی تھی چوہدری‬
‫نے کہا دیکھ بہو‬
‫شاہد جوان ایں تو‬
‫وی اجے کنواری‬
‫لڑکیاں ورگی ایں‬
‫کیا پتہ تیری گود‬
‫وچ شاہد ورگا جوان‬
‫جنم لے دیکھ میرے‬
‫تیرے نال آں گھبرا‬
‫ناں گل تیرے تے‬
‫میرے وچ رھیگی‬
‫دونوں کا مکالمہ‬
‫جاری تھا دوسری‬
‫طرف شاہد پردے‬
‫میں چھپی اس کلی‬
‫کے درشن کرکے‬
‫اپنے اوپر کنٹرول‬
‫کھو چکا تھا وہ‬
‫سوچ ھی رہا تھا کہ‬
‫ساتھ ہی باہر کا‬
‫دروازہ کھلنے کی‬
‫آواز آئی اور کسی‬
‫لڑکی کی تایا کے‬
‫ساتھ باتیں سنائی‬
‫‪ . .‬دینے لگی‬
‫ِپھر یہ آوازیں‬
‫نزدیک ہوتی ہوئی‬
‫محسوس ہوئی اور‬
‫تھوڑی دیر بعد تایا‬
‫چوہدری سرور‬
‫نے اپنے بیڈروم کا‬
‫دروازہ کھوال تو‬
‫سامنے تایا‬
‫اوررضیہ کھڑی‬
‫تھی‬

‫جب شاہدکی‬
‫نظررضیہ پے پڑی‬
‫تو اس نے فورا‬
‫شرما کے اپنا منہ‬
‫نیچے کر لیا اور‬
‫ِپھر تایا اندر داخل‬
‫ہوا اور شاھد کو‬
‫سیکسی سی سمائل‬
‫دی تایا بیڈ کے‬
‫پاس پہنچ گیا لیکن‬
‫رضیہ دروازے پر‬
‫ہی کھڑی تھی‬
‫جب شاہد کی نظر‬
‫اس پے پڑی تو‬
‫اس نے فورا شرما‬
‫کے اپنا منہ نیچے‬
‫کر لیا تو اس سے‬
‫بوال رضیہ کیا ہوا‬
‫اندر آؤ نا شرما‬
‫کیوں رہی ہے وہ‬
‫ِپھر چوہدری کی‬
‫آواز پے چلتی ہوئی‬
‫اندر آئی اور بیڈ‬
‫کے ساتھ رکھی‬
‫ہوئی کرسیوں میں‬
‫سے ایک کرسی‬
‫‪.‬پے بیٹھ گئی‬

‫ِپھر چوہدری شاہد‬


‫کی طرف دیکھ کر‬
‫بوال لوبھتیجے تم‬
‫دونوں کا سکون‬
‫اور مزے کا‬
‫بندوبست میں نے‬
‫کر دیا ہے اب تم‬
‫دونوں کے پاس‬
‫تقریبا ‪ 2‬گھنٹے ہیں‬
‫دونوں اپنی اپنی آگ‬
‫کو ٹھنڈا کر لو اور‬
‫ِپھر بوال بھتیجے‬
‫ذرا خیال رکھنا‬
‫میری بہو رانی کا‬
‫یہ میری الڈاں‬
‫والی بہو رانی اے‬
‫اور نرم اور نازک‬
‫بھی ہے اِس کو مزہ‬
‫بھی دینا اور زیادہ‬
‫‪.‬تکلیف نا دینا‬
‫چوہدری ِپھر بوال‬
‫میں ٹی وی والے‬
‫کمرے میں ہی ہوں‬
‫باہر کا خیال میں‬
‫رکھوں گا تم دونوں‬
‫بے فکر ہو کر‬
‫ایک دوسرے سے‬
‫مزہ لو اور اگر‬
‫کسی چیز کی‬
‫ضرورت ہو تو‬
‫ساتھ والے کمرے‬
‫میں مجھے آ کر بتا‬
‫دینا اور ِپھر وہ‬
‫یہ کہہ کر باہر چال‬
‫گیا اور دروازہ بند‬
‫‪ .‬کر دیا‬
‫اب شاہد اور‬
‫رضیہ ہی دونوں‬
‫کمرے میں تھے‬
‫اور رضیہ اتنی‬
‫شرمیلی تھی کے‬
‫نیچے ہی دیکھ رہی‬
‫تھی شاہد نے کچھ‬
‫دیر تو اس کے ری‬
‫ایکشن کا انتظار کیا‬
‫لیکن کوئی فائدہ نہ‬
‫ہوا کیونکہ اس کا‬
‫اپنی عمر مرد کے‬
‫ساتھ پہال تجربہ تھا‬
‫اور شاہد کا بھی‬
‫لیکن شاہد کی تو‬
‫ساری جھجھک‬
‫چوہدری کی باتوں‬
‫سے ختم ہو چکی‬
‫تھی ‪ِ .‬پھر شاہد‬
‫نے ہی ہمت کی‬
‫اور اس رضیہ سے‬
‫کہا کے رضیہ جی‬
‫یہاں بیڈ پے آ کر‬
‫آرام سے بیٹھ جائیں‬
‫وہاں کرسی پے‬
‫تنگ ہو رہی ہوں‬
‫گی ‪.‬شاہد نے غور‬
‫سے دیکھا اس کا‬
‫چہرے کا رنگ‬
‫اسکی بات سن کر‬
‫الل سرخ ہو گیا تھا‬
‫اور وہ بدستور‬
‫نیچے ہی دیکھ رہی‬
‫‪ .‬تھی‬
‫لیکن وہ کرسی‬
‫پے ہی بیٹھی رہی‬
‫اور وہاں سے نا‬
‫ہلی اور دھیمی سی‬
‫آواز میں بولی‬
‫نوابزداہ میں یہاں‬
‫ٹھیک ہوں شاہد نے‬
‫ِدل میں سوچا کہ‬
‫بیٹا خود ہی سب‬
‫کچھ کرنا ہو گا‬
‫نہیں تو سارا ٹائم‬
‫اِس ہی چکر میں‬
‫گزر جائے گا ‪.‬وہ‬
‫بیڈ سے اٹھا اور جا‬
‫کر جس جگہ‬
‫رضیہ بیٹھی تھی‬
‫اس کے ساتھ والی‬
‫‪ .‬کرسی پے بیٹھ گیا‬
‫اور ِپھر اس نے‬
‫اس کا ایک ہاتھ‬
‫اپنے ہاتھ میں تھاما‬
‫تورضیہ نے فورا‬
‫شرما کے اپنا ہاتھ‬
‫پیچھے کھینچ لیا‬
‫شاہد نے دوبارہ‪.‬‬
‫اس کا ہاتھ پکڑا اور‬
‫اس کے کان میں جا‬
‫کر بوال‬
‫رضیہ جی‬
‫ڈرنےکی ضرورت‬
‫نہیں ہے میں آپ‬
‫کو کوئی کھا تو‬
‫نہیں جاؤں گا اب‬
‫سوچوں سے نکل‬
‫آؤ میرا ساتھ دو اور‬
‫میرے بچے کی کی‬
‫ماں بنوگی ‪.‬وہ ہم‬
‫دونوں کو ہی پتہ‬
‫ہے آج ہم اِس‬
‫کمرے میں کیوں‬
‫ہیں تو ِپھر شرما‬
‫کیوں رہی ہیں‬
‫میرے پے پورا‬
‫بھروسہ رکھو آپ‬
‫کو کوئی میری‬
‫طرف سے نقصان‬
‫نہیں ہو گا اور نا‬
‫ہی کبھی بھی بدنام‬
‫کروں گا یہ میرا آپ‬
‫سے وعدہ ہے‬
‫آپکو خوش کردوں‬
‫گا ویسے بھی تو‬
‫میری عمر کی ھے‬
‫جوڑ برابر کا ھوگا‬
‫رضیہ بولی زبیدہ‬
‫کا کیا ہوگا پھر شاہد‬
‫مسکرا کر بوال‬
‫اسکو بھی دیکھ لیں‬
‫گے پہال تمہارا نشہ‬
‫تو اتاردو رضیہ‬
‫بولی بہت ناز ھے‬
‫نواب زادے اپنی‬
‫جوانی پر کہیں‬
‫میرے سحرمیں جلد‬
‫پگھل نہ جانا‬
‫رضیہ کے ہاتھ میں‬
‫اپنا ہاتھ دیکر شاہد‬
‫بوال یاد کروگی کہ‬
‫کوئی آیا تھا اور‬
‫پھر تھکا کر چال‬
‫گیا ایسی بھی کیا‬
‫تھکاوٹ ھے تو‬
‫شاہد بوال جوانی کا‬
‫اپنا ھی سرور ھے‬
‫جان من تم بہت‬
‫بچتی رہی مجھ سے‬
‫اور آج دینی پڑیگی‬
‫رضیہ نئ دلہن کی‬
‫طر ح شرما گئ‬
‫‪[21/06, 4:32‬‬
‫‪pm] Nawab‬‬
‫‪Zada:‬‬
‫بڑی_حویلی_کی‪#‬‬
‫بہو_‬
‫رائیٹر نوابزادہ شاہد‬
‫‪Last Episode‬‬
‫‪13‬‬

‫رضیہ شرم سے‬


‫الل ھوگئ اور اب‬
‫وہ بیڈ کی طرف‬
‫‪ .‬دیکھ رہی تھی‬
‫شاہد نے اس کا‬
‫ہاتھ سہالیا اور ِپھر‬
‫اس کے کان میں‬
‫بوال رضیہ جی کیا‬
‫موڈ ہے بیڈ پے‬
‫چلیں اور ایک‬
‫دوسرے کی طاقت‬
‫کو آزمالیں دو دو‬
‫ہاتھ کریں تو وہ‬
‫شرما گئی اور بہت‬
‫ہی ہلکی سی آواز‬
‫میں بولی جی شاہد‬
‫جیسے آپ کی‬
‫مرضی ‪.‬شاہد نے‬
‫ہاتھ پکڑ کے اس‬
‫کو کھڑا کیا اور‬
‫دوسرا ہاتھ نیچے‬
‫سے اس کی رانوں‬
‫میں سے نکال کر‬
‫اٹھا لیا اور بیڈ پے‬
‫لے گیا‬
‫جب شاہد نے اس‬
‫کو اٹھایا تو اس‬
‫کے الل قندہاری‬
‫انار جیسے ممے‬
‫شاہدکے سینے‬
‫ساتھ لگے تو شاہد‬
‫کے لن نے ایک‬
‫زور دار جھٹکا‬
‫مارا اور اسنے‬
‫رضیہ کو اٹھا کے‬
‫بیڈ پے درمیان میں‬
‫لیٹا دیا اور ساتھ ہی‬
‫خود اس کے ساتھ‬
‫لیٹ گیا شاہد نے‬
‫ایک ہاتھ اس کی‬
‫گردن کے نیچے‬
‫سے ڈال کر اس کو‬
‫اپنے ساتھ لگا لیا‬
‫اور اس کے‬
‫رسیلے ہونٹوں کو‬
‫‪ .‬چومنے لگا‬
‫تھوڑی ہی دیر میں‬
‫رضیہ نے اپنا منہ‬
‫کھول لیا وہ سمجھ‬
‫گیا کے یہ اب ایک‬
‫دوسرے کے‬
‫ہونٹوں کا رس پینا‬
‫‪ .‬چاہتی ہے‬

‫شاہد نے بھی جواب‬


‫میں اپنے ہونٹ اس‬
‫کے ہونٹ کے ساتھ‬
‫مال دیئے اوردونوں‬
‫ایک دوسرے کا‬
‫‪ .‬رس پینے لگے‬
‫شاہد نے محسوس‬
‫کیا وہ ُزبان اپنے‬
‫منہ میں لے کر‬
‫بڑے ہی سرور کے‬
‫ساتھ چوس رہی ہے‬
‫وہ جیسے جیسے ‪.‬‬
‫اسکی ُزبان چوس‬
‫رہی تھی‬

‫شاہد کنوار تھا‬


‫جوان بھی وہ اب‬
‫مزے کی دنیا میں‬
‫ڈوبتا ھی جا رہا تھا‬
‫شاہد نے بھی اس‬
‫کے ساتھ ساتھ اس‬
‫کی ُزبان کو چوسنا‬
‫شروع کر دیا اور‬
‫اپنے ایک ہاتھ کو‬
‫اس کی قمیض کے‬
‫اندر ڈال کے اس‬
‫کے گورے مسمی‬
‫جیسے مموں کو‬
‫سہالنے لگا اور‬
‫اس کی نپلز کو‬
‫سہالنے لگا ‪.‬جب‬
‫اس کے نپلز کے‬
‫ساتھ اس نے کھیلنا‬
‫شروع کیا تو وہ‬
‫اور مستی میں آ‬
‫گئی اور اس نے‬
‫زیادہ طاقت کے‬
‫ساتھ اپنی دونوں‬
‫‪ .‬بانہوں میں جڑ لیا‬
‫اور دوسرے کی‬
‫ُزبان بھی مسلسل‬
‫چوس رہے تھے‬
‫شاہد نے اب اپنا ہاتھ‬
‫قمیض سے نکاال‬
‫اور ناف کے پاس‬
‫لے گیا اور اس کی‬
‫شلوار میں ڈالنے‬
‫کی کوشش کرنے‬
‫لگا‬

‫اسےحیرت کا‬
‫جھٹکا لگا اس نے‬
‫شلوار میں السٹک‬
‫ڈاال ہوا تھا اور شاہد‬
‫کا ہاتھ آرام سے اس‬
‫کی شلوار میں‬
‫گھس گیا اور سیدھا‬
‫رضیہ کی چھوٹی‬
‫سی کلین شیو پنک‬
‫پھدی کے ہونٹوں‬
‫سے جا لگا اور‬
‫حیرت کا دوسرا‬
‫جھٹکا لگا کے اس‬
‫کی پھدی بہت‬
‫سوفٹ اور نرم‬
‫مالئم تھی اور اس‬
‫کے پھدی گرم گرم‬
‫پانی چھوڑ رہی‬
‫تھی ‪.‬شاہد نے اپنی‬
‫درمیانی انگلی اس‬
‫کی پھدی کے اندر‬
‫داخل کی تو اس کی‬
‫منہ سے ایک‬
‫دلکش سی خمار‬
‫بھری آواز نکلی‬
‫آؤچ میں مر ویساں‬
‫شاہد ننن نہ کر اف‬
‫‪ .‬میں مر گئی‬

‫شاہد اپنی آدھی‬


‫انگلی اندر باہر‬
‫کرنے لگا اور وہ‬
‫نشیلی آوازیں‬
‫نکالنے لگی شاہد‬
‫نے کچھ دیر کے‬
‫لیے ہاتھ روک کر‬
‫اپنے ہاتھ سے اس‬
‫کا ہاتھ پکڑا اور‬
‫اپنے تانے ہوئے لن‬
‫پے رکھ دیا اس نے‬
‫شاہد کے لن کی‬
‫لمبائی اور موٹائی‬
‫ناپتے ھوۓ لن کو‬
‫مٹھی میں پکڑ کر‬
‫ِپھر آواز نکالی ہا‬
‫اے میں مر گئی‬

‫اور وہ اپنے نرم‬


‫مالئم ہاتھ سے‬
‫شاہد کے بڑے لن‬
‫کو آہستہ آہستہ‬
‫سہالنے لگی اور‬
‫شاہد دوبارہ رضیہ‬
‫کی شلوار میں ہاتھ‬
‫ڈال کے اپنی انگلی‬
‫اس کی پھدی کے‬
‫اندر باہر کرنے لگا‬
‫یہ مزہ کوئی ‪5‬منٹ‬
‫تک چلتا رہا ِپھر‬
‫شاہد نے اس کے‬
‫کان میں کہا جان‬
‫آب ہم دونوں کو‬
‫پورا مزہ لینا‬
‫چاہیے ‪.‬وہ بولی‬
‫شاہد جو آپ کی‬
‫مرضی شاہد بیڈ پے‬
‫کھڑا ہو گیا اور‬
‫اپنے کپڑےاتارنے‬
‫لگا‬

‫وہ بھی اٹھ کر اپنے‬


‫کپڑےاتارنے لگی‬
‫اور کچھ ہی دیر‬
‫میں وہ دونوں‬
‫پورے ننگے ہو‬
‫گئے اس نے جب‬
‫شاہد کے تنے‬
‫ہوئے لن کو نزدیک‬
‫سے دیکھا تو شرما‬
‫گئی ‪.‬شاہد نے کہا‬
‫اتنا کچھ ہونے کے‬
‫بَ ْعد بھی شرما رہی‬
‫ہو ‪.‬وہ بولی ایسی‬
‫بات نہیں ہے ‪ِ .‬پھر‬
‫وہ دوبارہ بیڈ پے‬
‫سیدھی لیٹ گئی‬
‫شاہد پھر وہاں سے‬
‫اس کی ٹانگوں کو‬
‫کھول کے درمیان‬
‫میں بیٹھ گیا اور اس‬
‫کی پھدی کے پاس‬
‫اپنا منہ لگا کے اس‬
‫کی پھدی کو چاٹنے‬
‫لگا‬

‫جب اس نے اس‬
‫رضیہ کی پھدی‬
‫میں اپنی ُزبان ڈالی‬
‫تو وہ مست ہو کر‬
‫اپنی گانڈ اٹھا اٹھا‬
‫کر اور شاہد کے‬
‫سر اور اپنی پھدی‬
‫پے دبانے لگی اور‬
‫منہ سے آوازیں‬
‫نکالنے لگی آہ‬
‫نوابزادہ مت تڑپاؤ‬
‫‪ . .‬آہ آؤچ آہ اوہ اوہ‬
‫میں کوئی ‪ 5‬منٹ‬
‫تک شاہداس کی‬
‫پھدی کی سکنگ‬
‫کرتا رہا اور وہ‬
‫پھر شاہد کی‬
‫سکنگ سے ایک‬
‫بار فارغ ہو چکی‬
‫تھی‬
‫جس کا اندازہ شاہد‬
‫کو اس وقت ہوا‬
‫جب شاہد نے اس‬
‫کی پھدی کا نمکین‬
‫پانی اپنی ُزبان پے‬
‫محسوس کیا ‪ِ .‬پھر‬
‫رضیہ بولی شاہد‬
‫جی اب اور ہمت‬
‫نہیں ہے آپ بس‬
‫میرے اندر ڈالو‬
‫مجھ میں سما جاؤ‬
‫اور مجھے ٹھنڈا‬
‫کرو ‪.‬شاہد نے کہا‬
‫جی ٹھنڈا تو میں‬
‫آپ کو کروں گا‬
‫ضرور لیکن پہلے‬
‫میرے لن کا ایک‬
‫اچھا سا چوپا لگا‬
‫کے اِس کو اپنی‬
‫پھدی میں لینڈنگ‬
‫کے لیے تیار تو‬
‫کرو ‪.‬وہ بولی جی‬
‫ٹھیک ہے اور‬
‫ِپھر گھوڑی‬
‫اسٹائل میں ہو کر‬
‫شاہد کے لن کو منہ‬
‫میں لے لیا اور اس‬
‫کو ٹوپی سے لے‬
‫کر جہاں تک ہو‬
‫سکا اپنے منہ میں‬
‫لیتی اور ِپھر اندر‬
‫‪ .‬باہر کرنے لگی‬
‫اندر ہی اندر وہ‬
‫اپنی ُزبان کو گول‬
‫گھما کے شاہد کے‬
‫گورے لن کو‬
‫چاٹتی تو اسکے‬
‫اندر سرور کی لہر‬
‫دوڑ جاتی ‪.‬اس کے‬
‫ہو شر با چو پوں‬
‫سے شاہد کا لن فل‬
‫آکر کر تن گیا اور‬
‫اس نے اس کو‬
‫مزید چو پے لگانے‬
‫سے روک دیا‬
‫رضیہ کو شاہد نے‬
‫بوال کمال کا‬
‫چوستی ھو کس‬
‫سے سیکھا یہ سب‬
‫آپ نے تو رضیہ‬
‫بولی بہت بھوال‬
‫ھے تو نواب زادے‬
‫شاہد بوال کیا مطلب‬
‫آپ تو رضیہ بولی‬
‫چوپا لگانے میں‬
‫سنی لیون میری‬
‫استاد ھے آج اسکا‬
‫فارموال تم‬
‫پراستعمال کیا ھے‬
‫اور جو تم تایا‬
‫کیساتھ کر رھی‬
‫تھی وہ تو رضیہ‬
‫شرماکر بولی بس‬
‫پہلی بار تھا تو بہک‬
‫گئ تھی میں تمہارا‬
‫کزن کا اتنا کام‬
‫نہیں کرتا جتنا‬
‫جوش تجھ میں اور‬
‫چوہدری صاحب‬
‫کے ہتھیار میں‬
‫ھےپھر شاہد اس کو‬
‫بوال کے کہ رضیہ‬
‫بھابھی چدوانے‬
‫میں کونسا انداز‬
‫پسند کروگی آپ تو‬
‫رضیہ بولی میری‬
‫ٹانگیں اٹھاؤ اور‬
‫دکھا دوآپ اپنا‬
‫جوش رضیہ اب‬
‫سیدھی ٹانگیں‬
‫‪ .‬کھول کر لیٹ گئ‬
‫رضیہ جب لیٹ‬
‫گئی اور شاہد ِپھر‬
‫ایک دفعہ اس کی‬
‫ٹانگوں کے درمیان‬
‫آ گیا اور اس کی‬
‫ٹانگوں کو اپنے‬
‫کندھوں پے رکھ لیا‬
‫اور اپنا لن اس کی‬
‫گوری کلین شیو‬
‫پھدی پے سیٹ کر‬
‫کے پہلے ٹوپی کو‬
‫اندر گھسایا اور ِپھر‬
‫باقی لن اندر کرنے‬
‫لگا وہ نیچے سے‬
‫تھوڑا کسمسا رہی‬
‫تھی آہ آؤ چ آؤ چ‬
‫آرام سے آپکا لوڑا‬
‫سجاد اور سسر‬
‫سے بہت بڑا ھے‬
‫دھیرے سے‬
‫ڈالوگے تو پھر بھی‬
‫چانس مل سکتا ھے‬
‫اس کی پھدی ایسے‬
‫لگ رہی تھی کے‬
‫جیسے لوہے کی‬
‫بھٹی میں اپنا لن ڈال‬
‫دیا ہو اور اس کی‬
‫پھدی ٹائیٹ بھی‬
‫کافی تھی اور‬
‫جیسے جیسے شاھد‬
‫کا لن اندر جا رہا‬
‫تھا‬

‫وہ شاہد کے لن پے‬


‫اپنی پھدی کی‬
‫گرفت اور ٹائیٹ‬
‫کرتی جا رہی تھی‬
‫شاید اسکا ارادہ تھا‬
‫شاہد جلد میدان‬
‫چھوڑ کر نالہ باندھ‬
‫لے گا مگر اس‬
‫سے شاہد کوایک‬
‫الگ ہی سرور مل‬
‫رہا تھا ‪.‬جب شاہد کا‬
‫لن تقریبا ‪ 5‬انچ تک‬
‫اندر اُتَر چکا‬
‫تھا تو نورین نے‬
‫اپنے ہاتھ شاہد کے‬
‫سینے پے رکھ‬
‫دیئے اور بولی شاہد‬
‫بس اب اور اندر‬
‫نہیں لے سکوں گی‬
‫اب یہاں تک ہی‬
‫‪ .‬اندر باہر کرو‬
‫شاہد نے کہا جان‬
‫تقریبا سارا تو اندر‬
‫جا چکا ہے بس ‪1‬‬
‫انچ ہی رہ گیا ہے‬
‫تھوڑا اور برداشت‬
‫کر لو جب پورا‬
‫اندر ہو جائے گا تو‬
‫جب ہم دونوں کا‬
‫جسم جھٹکے لگنے‬
‫سے ایک دوسرے‬
‫سے ملے گا تو ہم‬
‫دونوں کو بہت‬
‫زیادہ مزہ آئے گا‬
‫اور ایک دوسرے‬
‫کے جسموں کی‬
‫گرمائش سے اور‬
‫لطف آئے گا ‪.‬وہ‬
‫بولی ٹھیک ہے‬
‫شاہد لیکن آب باقی‬
‫کا ایک ہی جھٹکے‬
‫میں میرے اندر کر‬
‫دو میں ایک ہی‬
‫دفعہ برداشت کر‬
‫لوں گی‪.‬اسے‬
‫کیامعلوم تھا کہ لنڈ‬
‫آدھا باہر ھی ھے‬
‫شاہد نے شرمیلی‬
‫اور نئ دلہن کی‬
‫چوت میں آدھا لن‬
‫ڈال کر فائنل شارٹ‬
‫مارا اور اپنا لنڈ‬
‫رضیہ کی ناف تک‬
‫اسکے اندر پیل دیا‬
‫اسکی درد بھری‬
‫چیخ آہ آؤچ اف مار‬
‫ڈاال رے باہر حقۂ‬
‫پیتے چوہدری‬
‫سرور نے بھی سنی‬
‫چوہدری کو پتا تھا‬
‫کہ نئ سبزی خوب‬
‫چبا کر کھائی جاتی‬
‫ھے تو وہ باہر بیٹھا‬
‫انجواۓ کرتا رہا‬
‫شاید اپنے بچپن کو‬
‫یاد کرتا ھو جیسے‬
‫ادھر ِپھر شاہد نے‬
‫پورا اندر کر کے‬
‫تھوڑی دیر بعد‬
‫جھٹکے مارنا‬
‫شروع کرنا شاہد‬
‫نے آگے ہو کر‬
‫اپنے ہونٹ رضیہ‬
‫کے نرم ہونٹوں‬
‫کے ساتھ الک کر‬
‫دیئے اور ایک زور‬
‫دار جھٹکا مارا اور‬
‫پورا لن اندر اُتَر گیا‬
‫رضیہ کی ایک‬
‫چیخ شاہد کے منہ‬
‫میں ہی نکل کر‬
‫اندر ہی رہ گئی‬
‫اور ِپھر شاہد اس‬
‫کے اوپر ہی‬
‫تھوڑی دیر کے‬
‫لیے لیٹ گیا ‪.‬اور‬
‫ِپھر اس نے‬
‫کوئی ‪ 2‬سے ‪3‬‬
‫منٹ کے بعد آہستہ‬
‫آہستہ اپنا لن اندر‬
‫باہر کرنا شروع کر‬
‫دیا ‪.‬شاہد کی‬
‫کوشش یہ ہی تھی‬
‫کے اس کو درد کم‬
‫سے کم ہو اِس لیے‬
‫شاہد نے پہلے ‪5‬‬
‫منٹ تک آہستہ‬
‫آہستہ اندر باہر کرنا‬
‫‪ . .‬شروع کر دیا‬
‫لیکن جیسے ہی‬
‫رضیہ نے لن کو‬
‫اپنے اندر آرام سے‬
‫اندر باہر ہونا‬
‫محسوس کیا اس‬
‫نے کہا آب درد‬
‫نہیں ہو رہا آپ‬
‫تھوڑا تیز تیز کریں‬
‫شاہد نے اپنی رفتار‬
‫تیز کر دی اور پورا‬
‫اندر گھساکر ِپھر‬
‫باہر تک واپس ال‬
‫کر اندر باہر‬
‫جھٹکے لگانے لگا‬
‫جھٹکوں سے دھپ‬
‫دھپ کی آوازیں‬
‫آنے لگیں اور‬
‫رضیہ بھی مستی‬
‫میں منہ سے نشیلی‬
‫اور سیکسی آوازیں‬
‫نکلنے لگی اور‬
‫جب رضیہ نے‬
‫نیچے سے گانڈ اٹھا‬
‫اٹھا کے پھدی‬
‫مروانہ شروع کی‬
‫تو شاہد نے بھی‬
‫طوفانی جھٹکے‬
‫مارنے شروع کر‬
‫دیئے ‪.‬اور پورا‬
‫کمرا اس چدائی کی‬
‫آوازوں سے گونجتا‬
‫رہا اور شاہد مزید‬
‫اس کو ‪10‬منٹ‬
‫تک چودتا رہا لن‬
‫اور چوت کی تال‬
‫سے تال مل چکی‬
‫تھی اور رضیہ‬
‫اِس دوران ‪2‬‬
‫دفعہ فارغ ہو چکی‬
‫تھی ‪.‬شاہد جب فل‬
‫چدائی کے بعد‬
‫فارغ ہونے پے آیا‬
‫تو اس نے رضیہ‬
‫سے پوچھا پانی‬
‫کہاں نکالوں تو اس‬
‫نے خمار بھری‬
‫آواز میں کہا اندر‬
‫ہی چھوڑ دو میں‬
‫اپنی پھدی میں‬
‫تمہارا گرم گرم‬
‫جوان سپرم‬
‫محسوس کرنا‬
‫چاہتی ہوں شاہد نے‬
‫اس کے بعد اپنا‬
‫پانی کا گرم گرم‬
‫الوا اس کی پھدی‬
‫کے اندر چھوڑ دیا‬
‫اور اس کے اوپر‬
‫لیٹ کر لمبی لمبی‬
‫‪.‬سانسیں لینے لگا‬
‫آج پہلی بار اسکا‬
‫اتنا شدید آرگزم ھوا‬
‫تھا جب اسکی گرم‬
‫سانسیں بَحال ہوئیں‬
‫تو وہ رضیہ کے‬
‫پہلو میں لیٹ گیا‬
‫اور ِپھر انکے‬
‫درمیان کوئی ‪5‬‬
‫منٹ تک خاموشی‬
‫رہی ‪.‬اور رضیہ‬
‫نے شاہد کا ماتھا‬
‫چوم کر کہا کہ‬
‫بڑی حویلی کی بہو‬
‫اب تمہاری نوکر بن‬
‫کر رہیگی تمہارے‬
‫برف رفتار نے‬
‫مجھے چاروں‬
‫شانے چت کر دیا‬
‫ھے‬

‫اس نے شاہد کے‬


‫بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرتے ھوۓ کہا‬
‫کہ اس گھوڑی کے‬
‫اگلے شاہ سوار تم‬
‫ھو وہ دونوں لپٹے‬
‫ھوۓ تھے تب‬
‫چوہدری اپنے بڑی‬
‫حویلی کی بہو کو‬
‫بوال اس گھوڑی پر‬
‫زین تو میں نے‬
‫ڈاال تھا چوہدری کا‬
‫انداز مزاحیہ سا تھا‬
‫رضیہ بولی بابا جی‬
‫گھوڑی نے سوار‬
‫لمبے سفر کے‬
‫لئیے چنا ھے باقی‬
‫آپ تو چوبیس‬
‫گھنٹے حاضر‬
‫سروس ھو اور‬
‫کچھ نیا پن بھی‬
‫ھونا‬

‫ایک دن رضیہ‬
‫رات کو ابکائیاں‬
‫لینے لگی طبیعت‬
‫خراب تھی جب‬
‫کلینک پر جب اسکا‬
‫چیک اپ کیا گیا تو‬
‫لیڈی ڈاکٹر‬
‫چوہدارائن کو بولی‬
‫بی بی جی مبارک‬
‫ھو آپ دادی بننے‬
‫والی ھو بڑی‬
‫حویلی کی بہو دو‬
‫ماہ سے پریگنٹ‬
‫ہیں بہت مبارکاں‬
‫بہو چوہدری‬
‫نےبوال‬
‫بابا جی چھوٹا‬
‫چوہدری بھی اپنے‬
‫دادا جیسا بنے گا‬
‫بالکل نوابزادہ لگے‬
‫گا‬
‫ختم شد‬

‫کہانی کے سب‬
‫کردار فرضی ھیں‬
‫بہت رومانٹک‬
‫کہانی رائیٹر نواب‬
‫زادہ شاہد نے پدو‬
‫ماوتی کے بعد ایک‬
‫زبردست کہانی‬
‫بڑی حویلی کی بہو‬
‫لکھی ھےجسے‬
‫ناول یا کوئی فیملی‬
‫انسیسٹ کہانی‬
‫چاھئیے وہ پرسنل‬
‫رابطہ کرکے‬
‫حاصل کر سکتا‬
‫ھے وٹس ایپ اور‬
‫ٹیلی گرام پر‬
‫نوابزادہ شاہدکہانی‬
‫یا ناول کا نام بتائیں‬
‫اور وٹس ایپ پر‬
‫خرید لیں۔۔‬
‫کہانیاں خریدنے‬
‫کے لیے انبکس‬
‫رابطہ کریں ایک‬
‫بات یاد رکھیں جو‬
‫خریدنا چاہتا ہو‬
‫صرف وہ ہی میسج‬
‫کرے۔لکھنے والے‬
‫نوجوان رابطہ‬
‫کریں۔۔پی ڈی ایف‬
‫میکر بھی ھم سے‬
‫رابطہ کریں ھم‬
‫سے اپنی کہانی‬
‫بھی لکھوا سکتے‬
‫ھیں‬
‫فضول لوگ دور‬
‫رہیں۔۔‬

‫نوٹ‬
‫وٹس ایپ گروپ‬
‫میں شامل ھونے‬
‫کے لئیے ھم سے‬
‫رابطہ کریں ھمارا‬
‫ٹیلی گرام چینل بھی‬
‫جوائن کریں پڑھیں‬
‫نامور رائیٹرز کی‬
‫بک پڑھیں‬

‫بھولی‬
‫داستان۔۔۔ہماکی‬
‫شرارتیں۔۔سینچری۔۔‬
‫۔۔۔پنڈ دا‬
‫ڈاکٹر۔۔حویلی‬
‫مکمل۔۔فہد اور‬
‫مہرین۔۔۔ڈاکٹرہما۔۔۔ڈ‬
‫اکٹر سونیا۔۔۔چھوٹا‬
‫چوہدری۔۔چوہدرائن‬
‫۔۔بڑی حویلی کی‬
‫بہو۔۔۔پشتون‬
‫گھوڑیاں۔۔کراچی‬
‫کی‬
‫لڑکیاں۔۔۔گینگسٹر۔۔۔‬
‫رکھیل۔۔۔دیوداس۔۔۔‬
‫کلثوم کی‬
‫بہنیں۔۔۔شاہد تیرے‬
‫نکاح میں۔۔۔۔گرم‬
‫فیملی۔۔۔سلمان کی‬
‫بہنیں۔۔۔۔الل‬
‫پری۔۔۔۔۔سالیوں کی‬
‫پنٹی۔۔۔ھوسٹل کی‬
‫لڑکیاں۔۔۔میکوں‬
‫حسرت‬
‫ہائی۔۔۔۔۔چھوٹا‬
‫وارث۔۔۔میری کزن‬
‫ندا۔۔۔خالہ‬
‫جمیلہ۔۔کھلی‬
‫زپ۔۔۔سوتن میری‬
‫سہیلی۔۔۔مارننگ شو‬
‫کا نواب۔۔میرا‬
‫شہشوار۔۔۔سبزی‬
‫واال سائیں۔۔۔۔پرانی‬
‫حویلی۔۔مالں پور کا‬
‫سائیں۔۔عروسہ‬
‫بہن۔۔۔ساگر کی‬
‫فیملی۔۔۔عشق‬
‫اوارہ۔۔۔اجنبی۔۔۔پور‬
‫ی رات کا‬
‫ملن۔۔۔ساس۔شاہد‬
‫افریدی کی گیم‬
‫چینجر۔۔۔۔پدوماوتی۔۔‬
‫۔۔میل کروا‬
‫دےربا۔۔اور سچی‬
‫کہانی‬
‫پڑھیں بیشمار ناول‬
‫وٹس ایپ پر پڑھیں‬
‫اور شامل ھو جائیں‬
‫من پسند محفل میں‬
‫فیس بک گروپ‬
‫سے ھمارا ڈیٹا‬
‫چوری ھو جاتا‬
‫ھے‬
‫‪03067007824‬‬

You might also like