Professional Documents
Culture Documents
pm] Nawab
Zada:
بڑی_حویلی_کی#
بہو_
صفحہ_#1
رائیٹر نوابزادہ شاہد
رات کے 10بجے
تھے گاؤں کی
زیادہ تر آبادی سو
چکی تھی اور
حویلی میں
چوہدری اپنے بیٹے
سجاد کے اوپر
غصہ اتار رہا تھا
جس کی عاشقی کہ
قصے آج پورے پنڈ
کی زبان پر تھے۔
اس زیادہ غصہ اس
بات کا تھا کہ
رضیہ کو اتنی ہمت
اسی وجہ سے ہوئی
تھی کیونکہ اسے
پتہ تھا کہ سجاد اس
کے بغیر نہیں رہ
سکتا۔ ادھر رضیہ
اپنے گھر کی چھت
پر بیٹھی چوہدری
کے اس سوال پر
آگ بگولہ ہو رہی
تھی جو چوہدری
نے اسکے عورت
ہونے پر اٹھائے
تھے۔میں اس آدمی
کو سبق سکھا کر
رہوں گی رضیہ
نے اپنے آپ سے
کہا۔ لیکن بلی کے
گلے میں گھنٹی
،باندھے گا کون
پورے پنڈ میں کسی
میں اتنی ہمت نہیں
کہ چوہدری کے
سامنے کوئی سر
بھی اٹھا سکے۔جو
بھی کرنس ہے خود
ہی کرنا پڑے گا۔
اور بدلہ تو ایسا ہو
کہ چوہدری کو
اسی عورت کے
آگے سر جھکانا
پڑے جس کے
عورت ہونے پر
اس شک ہؤا تھا۔
رات کے 12بجے
رضیہ نے چپکے
سے گھر کا دروازہ
کھوال اور اندھیرے
میں چوہدری کی
حویلی کی طرف
چل پڑی۔ حویلی
کے گیٹ پر
چوکیداروں نے
اسے روکا لیکن
شناخت کے بعد پتہ
چلنے پر کہ وہ
حویلی کی ہونے
والی بہو ہے اسے
اندر جانے کی
اجازت مل گئی۔
حویلی سے اندر
آتے ہی بھت بڑا
صحن تھا جس کی
ایک طرف شیڈ میں
کے قریب 50
بھینسیں بندھی تھیں
اس سے تھوڑا
آگے ایک بہت بڑا
باغ تھا جس میں
آم کے ایک درخت
کے نیچے چوہدری
ایک کرسی پر بیٹھا
حقہ پی رہا تھا اور
اسکے کمی اور
چیلے اینٹوں کے
فرش پر نیچے
بیٹھے تھے اور ان
میں سے ایک
چوہدری کی ٹانگیں
دبا رہا تھا۔
انہوں نے رضیہ
کو آتے دیکھا تو
ایک دم سب کو
چپ لگ گئی۔
رضیہ خاموشی
سے چوہدری کی
کرسی کے پاس آ
کر کھڑی ہو گئی
اور کھنکھاری۔
کافی دور سے چل
کر آنے اور اس
ساری صورت حال
کی ٹینشن کی وجہ
سے رضیہ کا
سانس چڑھا ہؤا تھا۔
کھنکھار کی آواز
سن کر چوہدری
نے اپنی سرخ سرخ
آنکھیں کھولیں اور
رضیہ کو اس وقت
اور اس جگہ دیکھ
کر حیران ہو گیا
اور آنکھیں پھاڑ کر
اسکی طرف
دیکھنے لگا۔ مہندی
کا پیال جوڑا اس
کے پسینے میں
بھیگ کر اس کے
جسم سے چپکا ہؤا
تھا اور کرسی پر
بیٹھے چوہدری کو
نیچے سے اس
کے تنے ہوئے
پستان مغرور
پہاڑوں کی طرح
لگ رہے تھے۔
اوپر سے بلب کی
پیلے رنگ کی
روشنی رضیہ کو
مزید قیامت بنا رہی
تھی۔ اتنے میں
چوہدری کو احساس
ہوا کہ یہ کوئی عام
لڑکی نہیں بلکہ
اسکے بیٹے کی
پسند اور شاید
اسکی ہونے والی
بہو ہے۔ چوہدری
نے دیکھا کہ اس
کے چیلے بھی
آنکھیں پھاڑے
رضیہ کو ہی دیکھ
رہے تھے۔ وہ
غرایا"،او
مادرچودو دفع ہو
جاؤ میری نظروں
" کے سامنے سے
اسکی غراہٹ
سنتے ہی سب اپنے
اپنے ٹھکانے کی
طرف چل پڑے۔
اب تم یہں کیا"
"لینے آئی ہو
چوہدری نے
پوچھا ،اسے اندازہ
تھا کہ شاید یہ لڑکی
اپنی زبان درازی
پر معافی مانگنے
"آئی ہے۔
چوہدری کے
بڑھتے ہوئے ہاتھ
کو دیکھ کر پہلی
مرتبہ رضیہ کو اس
کے دراز قد ،موٹے
،اور طاقتور بازو
چوڑے کندھوں اور
اس کے گٹھے
ہوئے جسم سے
خوف محسوس ہؤا۔
اسے لگا جیسے وہ
کسی پہاڑ کے
سائے میں کھڑی
اسکی چوٹی کی
طرف دیکھ رہی
ہے۔ اس کا جسم
ایک دفعہ تو خوف
سے کانپ سا گیا
لیکن دوسرے
لمحے اسے پھر
اپنی بےعزتی یاد
آئی اور اس نے
سوچا اب تو جو ہو
گا دیکھا جائے گا۔
اس نے اپنی بڑی
بڑی آنکھیں ایک
مرتبہ پھر چوہدری
کی آنکھوں میں گاڑ
دیں اور ہموار آواز
میں پورے اعتماد
کے ساتھ
رضیہ نے چوہدری
کی کالئی پکڑی
اور اپنے گلے سے
ہٹانے کی کوشش
کی لیکن چوہدری
کا ہاتھ ہٹانا اسکے
بس کی بات نہیں
تھی۔ رضیہ کے
منہ سے جواب
نکال "میرے
عورت ہونے کے
ثبوت کے چکر میں
تم اپنی مردانگی
کی پول نہ کھلوا
لینا "یہ کہتے ہی
رضیہ کو انداذہ ہو
گیا کہ اس سے
کتنی بڑی غلطی ہو
گئی ہے۔ اتنا سننا
تھا کہ چوہدری
غصے میں اندھا ہو
گیا ۔ اسکے ہاتھ نے
رضیہ کے گریبان
کی طرف حرکت
کی اور ایک ہی
جھٹکے میں
چوہدری نے اسکا
گریبان اسکے پیٹ
تک پھاڑ دیا۔
گریبان پھٹتے ہی
کالے برا میں قید
اس کے خربوزے
کے سائز کے ممے
ایک جھٹکے سے
آزاد ہوۓ۔ چوہدری
نے اگال حملہ
اسکے برا پر کیا
اور وہ بھی ایک ہی
جھٹکے میں ٹوٹ
کر چوہدری کے
ہاتھ میں آ گیا۔
اس نے آدھے
راستے میں ہی
رضیہ کا ہاتھ اپنی
مضبوط گرفت میں
جکڑ لیا۔ رضیہ کا
دوسرا ہاتھ کسی
سپرنگ کی طرح
اسکے مموں سے
ہٹا اور چوہدری کی
دھوتی کی طرف آیا
اور اس دفعہ اس
کے ہاتھ میں
چوہدری کا نیم
کھڑا لوڑا آ ہی گیا۔
جب سے چوہدری
نے رضیہ کو
دبوچا تھا اس کا
لوڑا اس وقت سے
لگاتار کھڑا تھا
جیسے اسے کچھ
ہونے کا انتظار ہو۔
لن کو گرفت میں
لے کر رضیہ کو
چوہدری کے مرد
ہونے کا ثبوت مل
چکا تھا۔ لمحوں
میں خون نے
چوہدری کے
لوڑے کی طرف
سفر کرکے اسے
بھر کر پورا کھڑا
کر دیا۔
چوہدری نے ایک
مرتبہ اپنے اردگرد
،نظر دوڑائی
صحن میں کوئی
نہیں تھا اور جس
طرح وہ درخت
کے سائے میں
کھڑے تھے انکی
طرف کوئی غور
سے دیکھتا تو ہی
اسکی نظر ان پر
پڑتی۔ گھوم پھر کر
چوہدری کی نظر
واپس آ کر رضیہ
کے بھرے بھرے
مموں پر جم گئی
جو رضیہ کے
سانسوں کے ساتھ
اوپر نیچے ہو رہے
تھے۔ رضیہ کی
گرفت چوہدری کے
لن پر کمزور ہوئی
تو اسے لگا جیسے
چوہدری کا لن
جھٹکا کھا کر مزید
بڑا ہو گیا ہے یہ
محسوس کرتے ہی
اس نے غیرارادی
طور پر چوہدری
کے لن کو دوبارہ
دبایا جس سے
چوہدری کے منہ
سے مزے کی وجہ
سے سسکی نکل
گئی اور اس نے
اپنی گانڈ کو آگے
کی طرف حرکت
دی۔ لڑکی نے
اپنے ہاتھ کی
طرف دیکھا جس
میں اس نے
چوہدری کا لن پکڑا
ہوا تھا۔ اسکے ہاتھ
میں چوہدری کی
دھوتی کا کپڑا تھا
جس سے چوہدری
کا جناتی لوڑا باہر
آنے کے لئے مچل
رہا تھا۔ اس ساری
صورت حال سے
اس کی چھوٹی سی
چوت نے بھی رس
بہانا شروع کر دیا
تھا۔ رضیہ نے
گھبرا کر لن کو
چھوڑا اور دونوں
ہاتھ اپنے پیچھے
درخت کے تنے پر
رکھ کر نظریں
جھکا لیں۔ اسکے
ہاتھ پیچھے رکھ کر
کھڑے ہونے سے
اس کے ممے اور
اکڑ کر اسکے
سینے پر کھڑے ہو
گئے جس سے
چوہدری کا حلق
خشک ہو گیا اور
اسکے پورے جسم
میں چیونٹیاں سی
دوڑنے لگیں۔
رضیہ نے اپنی
نظر اٹھا کر
چوہدری کی طرف
دیکھا جس کی
شہوت سے بھری
نظریں رضیہ کی
آنکھوں میں ہی
دیکھ رہی تھیں۔ پھر
چوہدری نے اپنی
نظر ایک مرتبہ
پھر اسکے مموں
کی طرف دوڑائی۔
چوہدری کی
آنکھوں میں اسے
چودنے کی خواہش
اتنی واضح تھی
کے اسکی آنکھیں
شرم سے جھک
گئی اور اسکا حلق
خشک ہو گیا۔
چوہدری کا ہاتھ
نرمی سے اسکے
دائیں ممے پر جم
گیا اور اس نے
نیچے ہاتھ لے جا
کر اسکا دایاں مما
ایسے اٹھایا جیسے
اسکا وزن کر رہا
ہو۔ رضیہ کے
ہونٹ چوہدری کے
مردانہ ہاتھوں کا
لمس اپنے مموں پر
محسوس کر کے
اپنے آپ کھل گئے
تھے اور اسکا جسم
دھیرے دھیرے
کانپ رہا تھا۔ اس
نے مزید طاقت
سے درخت کے
تنے کو پکڑ لیا
جس سے اسکی
ننگی چھاتیاں اور
باہر کو ابھر آئیں۔
اور اسے انداذہ
ہوگیا کہ اب
صورت حال ہاتھ
سے نکل چکی ہے۔
چوہدری نے سخت
اور کھردرے
ہاتھوں سے رضیہ
کے مموں کو دبایا
اور اپنے انگوٹھے
سے اسکے نپل کو
مسلتے ہوئے
سرگوشی میں
بوال" ،تو ہی ہے وہ
لڑکی جس سے
میرا بیٹا شادی کرنا
چاہتا ہے؟ "رضیہ
نے ہاں میں اپنے
سر کو اوپر نیچے
ہالیا۔ رضیہ کو
احساس ہوا کہ شاید
اسکا ہونے واال
سسر اس سارے
معاملے کو آگے
لے جانا چاہتا ہے
تو اسکے ہاتھ
دوبارہ چوہدری کی
دھوتی کی طرف
بڑھے۔ اس دفعہ
رضیہ نے دھوتی
کے کھلے حصے
سے اپنا ہاتھ
چوہدری کی بائیں
ران پر رکھا اور
آہستگی سے اوپر
کی طرف حرکت
دیتے وقت چوہدری
کا لوڑا پکڑ لیا۔
جس طرح وہ
کھڑی تھی چوہدری
کا لن صحیح طرح
اسکے ہاتھ میں
نہیں آ رہا تھا تو اس
نے اپنی کالئی کی
پوزیشن تبدیل کی
اور ہتھیلی کا رخ
اوپر کی طرف کر
کے چوہدری کے
لن کو ایسے گرفت
میں لیا جیسے
کرکٹ کھیلتے وقت
بیٹسمین بیٹ کو
پکڑتا ہے۔ اسکی
انگلیاں چوہدری
کے ٹٹوں کو چھو
رہی تھیں ،ہتھیلی
میں لن تھا جس کا
ٹوپا اس کی کالئی
تک آ رہا تھا۔ "تو
اسے تم اپنے
خاندان کی
مردانگی کا ثبوت
"کہہ رہے تھے؟
رضیہ نے
سرگوشی میں
جواب دیا۔ اس نے
اپنا انگوٹھا ٹٹوں
سے ہٹا کر لوڑے
کی لمبائی پر پھیرا
اور اسے لن کی
پوری لمبائی پر
رگڑتی ہوئی ٹوپے
پر لے آئی جو مزی
کے قطروں سے
،گیال ہو رہا تھا
ایک دفعہ تو
چوہدری کانپ سا
گیا۔ غیر ارادی
طور پر اسکی
گرفت رضیہ کے
مموں پر اور سخت
ہوئی اور اس نے
زور سے انہیں دبایا
اور اسکے اکڑے
ہوئے نپل کو مسل
دیا جس سے درد
کی وجہ سے
رضیہ کراہی لیکن
اس درد میں ایک
عجیب طرح کا مزا
بھی شامل تھا۔
رضیہ نے اپنے
ہاتھ چوہدری کے
لن پر ایسے
چالئے جیسے مٹھ
لگا رہی ہو۔
چوہدری نے اپنے
دونوں ہاتھوں سے
اسکے ممے دبائے
اور پھر اپنے ہاتھ
اسکی موٹی گانڈ
،کی طرف لے گیا
اس نے اسکی
گوشت سے بھرپور
گانڈ کو دبایا اور
اپنی ایک انگلی کو
اسکی گانڈ کی دراڑ
میں پھنسا دیا۔
رضیہ اپنا وزن
کبھی ایک ٹانگ
پر ڈال رہی تھی
اور کبھی دوسری
ٹانگ پر اور اسے
سمجھ نہیں آ رہی
تھی کہ وہ کیا
کرے۔
چوہدری نے اسے
تھوڑا مزید اٹھایا
جس کی وجہ سے
اب چوہدری کا اپنی
ہی مزی سے گیال
لوڑا رضیہ کی
رس ٹپکاتی پھدی
سے رگڑ کھانے
لگا۔ دوسری طرف
رضیہ نے اپنی
نازک بانہیں
چوہدری کی گردن
میں ڈالیں اور اس
سے پوری طاقت
سے چمٹ گئی۔
چوہدری آہستہ
آہستہ اپنا لوڑا
رضیہ کی رسیلی
پھدی پر رگڑ رہا
تھا۔ ادھر رضیہ کو
ڈر بھی لگ رہا تھا
کہ اگر چوہدری
نے اپنا جن اسکی
نازک چوت میں
ڈال دیا تو اس پھدا
بنا کے ہی نکلے
گا۔ وہ سسکی اور
کراہی اور اس کے
ساتھ ہی اس نے
اپنی ٹانگیں اور
کھول دیں ۔
چوہدری نے اسے
سختی سے اپنی
گود میں جکڑ کر
اٹھایا ہؤا تھا اور
اس کی ان چھوئی
چوت پر اپنا لوڑا
رگڑ رہا تھا۔ اس
نے اچانک رضیہ
کو پکڑ کر
جھنجھوڑا جس
سے ٹوپے کے بہت
معمولی سے
حصے نے جیسے
چوت کے اندر
گھسے بغیر کھدائی
کی ہو ،چوہدری
اندر ڈالتے ہؤۓ
ہچکچا بھی رہا تھا
کیونکہ یہ لڑکی
اسکی بہو بننے جا
رہی تھی۔ اسے
سمجھ نہیں آ رہی
تھی کہ کیا کرے
اور اگر وہ رضیہ
کو چودتا ہے تو
رضیہ کا ردعمل
کیا ہو گا کہیں وہ
اسکی برسوں میں
بنائی عزت کو
برباد نہ کر دے۔
ادھر رضیہ کو مزہ
تو آ رہا تھا لیکن وہ
بھی اپنے ہونے
والے سسر سے
اپنی چوت پھڑواتے
ہوئے شش و پنج کا
شکار تھی۔ کہیں
اسکا سسر اسے
چودنے کے بعد
چدکڑ سمجھ کر
شادی سے انکار نہ
کر دے۔
مجھے چھوڑ"
دیں بابا "رضیہ
اپنے بازؤوں کے
بل پر مزید اوپر
ہؤئی اور چوہدری
کے کان میں بولی۔
رضیہ نے آم کے
درخت کی نیچے
تک لٹکتی ایک
شاخ کو اپنی گرفت
میں لیا اور اپنے
ہاتھوں کی طاقت
سے اپنے جسم کو
ااٹھایا۔ چوہدری
کے ہاتھوں نے
اتنی دیر سے
رضیہ کا وزن اٹھایا
ہؤا تھا لیکن اب
رضیہ کا وزن آم
کی شاخ نے اٹھایا
ہؤا تھا اور رضیہ
اپنی نازک سی
چوت چوہدری کے
جناتی لوڑے کے
نشانے پر رکھ کر
ہوا میں معلق ثھی۔
اس نے چوہدری
سے چد کر اسے
اپنے بس میں
کرنے کا فیصلہ لے
لیا تھا۔ اس کی اس
پوزیشن نے اسکی
موسمیوں کا رس
چوسنا چوہدری
کے لئے اور آسان
بنا دیا تھا اور وہ
اسکا پورا فائدہ اٹھا
رہا تھا۔ چوہدری
نے اپنے ہاتھ آزاد
ہونے کے بعد
رضیہ کی رسیلی
پھدی کو انشانہ بنایا
اور اسکی پھدی
کے دونوں لب اپنی
انگلیوں سے کھول
کر سوالیہ نظروں
سے اپنی ہونے
والی بہو کو دیکھا۔
رضیہ نے ایک
مرتبہ چوہدری کے
لن کی طرف دیکھا
جو اسکی چوت
سے ٹکرا رہا تھا
اور ایک دم اس
شاخ کو چھوڑ دیا
جس نے اسکا وزن
اٹھایا ہوا تھا۔ کہتے
ہیں العلمی بھی
بہت بڑی نعمت
ہوتی ہے اور
رضیہ کی کنواری
چوت نے العلمی
میں ایک بہادرانہ
لیکن بےوقوفی
بھرا قدم اٹھا لیا تھا۔
چوہدری کا پورا
اکڑا ہؤا اور
پھنکارتا ہوا لن اس
کی چھوٹی سی
اور معصوم سی
چوت کو ایک ہی
جھٹکے میں چیرتا
ہوا اندر تک گھس
گیا۔ درد کی لہر
ناقابل برداشت تھی
اسے لگ رہا تھا
جیسے کوئی جلتا
ہوا سریا کسی نے
پوری طاقت سے
اسکی کنواری
چوت میں گھسا دیا
ہو۔ چوہدری کا لن
اسکی بچہ دانی کو
جا کے لگا تھا اور
وہ ایسے چیخی
جیسے عید پر
بکرے کو ذبح
کرتے وقت وہ
چیختا ہے۔ اسے
اپنی چوت میں
چوہدری کا لوڑا
ٹھمکے کھاتا صاف
محسوس ہو رہا تھا
اور گرم خون کی
دھار اسکی چوت
سے نکل کر اسکی
سڈول ٹانگوں سے
ہوتی پاؤں کی
،طرف جا رہی تھی
دوسری طرف
اسکج تنگ پھدی
نے چوہدری کے
لوڑے کو شکنجے
کی طرح جکڑا ہوا
تھا۔ چوہدری کو
مزہ تو انتہا کا آ رہا
تھا لیکن ساتھ ہی
اسکے لن میں
تکلیف بھی ہو رہی
تھی۔ ادھر پورا لن
لے کر رضیہ کے
منہ سے کراہیں
اور سسکیاں بلند ہو
رہی تھیں اور اسکا
جسم تکلیف کی
شدت سے کانپ رہا
تھا۔ چوہدری نے
پیار سے اسے
اپنے گلے سے لگا
کر بھینچ لیا اور
ہلے بغیر انتظار
کرنے لگا کہ کب
وہ رونا بند کرتی
ہے ،اسے رضیہ
کی تکلیف کا پورا
احساس تھا۔ تھوڑی
دیر بعد رضیہ کی
ہچکیاں کم ہو گئی
اور اسے احساس
ہوا کہ جو ہونا تھا
وہ تو ہو گیا۔ اس
نے ایک بار پھر
شاخ پر اپنا بوجھ
ڈال کر اپنا جسم
،لوڑے سے اٹھایا
رضیہ کو لن کے
ایک ایک انچ
نکلنے کا پتہ لگ
رہا تھا۔ اسکا جسم
اٹھا اور ایک مرتبہ
پھر اسی رفتار اور
طاقت سے نیچے
آیا جیسے پہلی دفعہ
آیا تھا۔ گاؤں کی
جٹی نے ہار نہیں
مانی تھی اور اس
نے دوبارہ پورا لن
اپنی خون اگلتی
چوت میں لے لیا
تھا۔ چوہدری کے
منہ سے غراہٹ
نکلی اور اس نے
رضیہ کی گردن پر
اپنے دانت گاڑ
دیے۔ اور دھیرے
دھیرے اس کی
گردن کی حساس
جلد پر چھوٹی
چھوٹی دندیاں
کاٹنے لگا۔ رضیہ
پورا لن ے کر
ایسے ڈھے گئی
تھی جیسے اس کی
روح جسم سے
پرواز کر گئی ہو۔
چوہدری کو اسکی
تکلیف کا پورا
احساس تھا اور وہ
بغیر لن ہالئے
اسکی گردن چوس
اور چاٹ رہا تھا
جس سے رضیہ
کے جسم میں درد
کے ساتھ ساتھ
مزے کی لہریں
بھی اٹھنے لگی
تھیں۔ اس کی
کنواری پھدی
وحشیانہ انداز سے
پھٹ چکی تھی اور
اسکی ذمہ دار وہ
خود تھی۔ اسکی
آنکھوں سے آنسو
بہہ بہہ کر اسکے
چہرے سے ہوتے
ہوئے گردن تک جا
رہے تھے جہاں
چوہدری کی زبان
انہیں امرت کی
طرح چوستی جا
رہی تھی۔ رضیہ کا
جسم دوبارہ اس
درد بھری لذت کو
محسوس کرنے
کے لئیے تیار تھا۔
اس نے اپنی بانہیں
چوہدری کے گلے
میں ڈال کر اپنا
جسم پھر اٹھایا
یہاں تک کے
اسکے ممے
چوہدری کے منہ
تک آ گئے اور
صرف چوہدری
کے لن کا ٹوپا
اسکی چوت میں رہ
گیا اور ایک بار
پھر اپنے پورے
وذن سے نیچے آئی
چوہدری پھٹی پھٹی
آنکھوں سے پورا
منظر دیکھ رہا تھا
کہ کیسے اسکے
بازؤں اور کندھوں
کے پٹھے اپنے
وذن کے اٹھانے
کی وجہ سے کھچ
گئے تھے اور
کیسے مکمل
اونچائی پر پہنچ کر
اسکی چھاتیاں کھچ
کر مزید باہر کی
طرف نکل آئی تھیں
جن پر اسکے نپل
چدائی کی لذت سے
کھڑے ہو چکے
تھے۔ بلب کی
روشنی سے اسکے
جسم کی پہاڑیاں
اور کھائیاں گولڈن
رنگ میں رنگی
لگ رہی تھیں۔
چوہدری اسکے
کسے ہوئے لچکدار
جسم کو اپنی بانہوں
میں جکڑے باؤال
ہو گیا تھا۔ رضیہ کا
جسم نیچے آتے
ہوئے چوہدری کے
طاقتور ہاتھوں پر
ٹک گیا اسکی
انگلیاں اسکی موٹی
گانڈ کے گوشت
میں دھنس گئیں
اسکے ساتھ ہی
اسکا لن اسکی
پھدی کو مکمل
چیرتا ہوا ایک بار
پھر اندر تک گھس
گیا۔ اسکی پھدی ان
دھکوں میں ہی 3-4
اپنے رس اور خون
سے رواں ہو گئی
تھی اور چوہدری
کا لوڑا آسانی سے
اندر باہر ہو رہا تھا۔
آہ بابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رضیہ
کے ہونٹوں سے
لذت کے نشے میں
ڈوبی سسکی نکلی
چوہدری کے ،
لوڑے سے اسکی
چوت بچہ دانی تک
بھر گئی تھی اور
لوڑے کے پھنس
پھنس کر اندر باہر
ہونے سے دونوں
کو رگڑ کا پورا مزہ
مل رہا تھا۔
رضیہ اب روانی
اور تیزی سے
چوہدری کے لن پر
اچھل رہی تھی۔
چودو مجھے ،اور
،زور سے بابا
میری کنورای پھدی
پھاڑ دو ،رضیہ
کے منہ سے ایسے
الفاظ نکل رہے
تھے جو اس نے
کبھی خواب میں
بھی نہیں سوچے
تھے۔ ان دونوں کی
زوردار چدائی سے
آم کے درخت کی
نیچے جھکی
کمزور شاخیں ہل
رہی تھیں اور پتے
گر کر ان سسر اور
بہو کی چدائی کی
داستان رقم کر
رہے تھے۔ رضیہ
کی چوت نے
چوہدری کے لن کو
ایسے جکڑا ہوا تھا
جیسے لن کسی
شکنجے میں پھنسا
ہؤا ہو ،چوہدری
نے اپنی جوانی
سے لے کر اب تک
بہت سی پھدیاں
ماری تھیں جن میں
سے بہت سی
کنواری بھی تھیں
لیکن جو نشہ اور
گرمی اس چوت
میں تھی وہ آج تک
اسے کسی میں
نہیں ملی تھی۔
چوہدری کو رضیہ
کے گندمی چہرے
پر تھکن کے آثار
نظر آئے تو اس نے
کنٹرول اپنے
ہاتھوں میں لینے
کا فیصلہ کیا اور
اپنے ہاتھ رضیہ کی
گانڈ پر جما کر
اسے اپنگ لن پر
اچھالنے لگا کچھ
دھکوں کے بعد
رضیہ دوبارہ اسکا
ساتھ دینے لگی۔
چوہدری اسے اٹھاتا
تو رضیہ اپنے
بازوؤں سے اپنے
جسم کو مزید اوپر
التی ،چوہدری ایک
دم اسے چھوڑتا
جس سے ایک
جھٹکے کے ساتھ
رضیہ کا جسم
نیچے آتا اور ایک
جاندار جھٹکے کے
ساتھ چوہدری کا
پورا لن ٹٹوں تک
اسکی سوجی ہوئی
پھدی میں گھس
جاتا۔ یہ جھٹکے
اتنے جاندار تھے
کے اب سسکیوں
کے ساتھ رضیہ
کے جسم نے کانپنا
بھی شروع کر دیا
تھا۔ اسکی کمر
درخت کے تنے
سے رگڑ کھا کھا
کر چھل گئی تھی۔
جلد ہی چوہدری
کے وحشیانہ
جھٹکوں سے
درخت کے ہلنے
سے شاخوں سے
پکے ہوئے آم
گرنے لگے۔
چوہدری کو لگا کہ
انکے شور سے
اور آموں کے
گرنے سے کہیں
کسی کا دھیان
انکی طرف نہ ہو
جائے تو چوہدری
نے اپنے جھٹکوں
کی رفتار تھوڑی
کم کی اور آرام
اور سکون سے
رضیہ کی چوت
میں اپنا لن اتارنے
لگا۔ لیکن اس وقت
تک انکے شور
سے کسی کا دھیان
انکی طرف چال گیا
تھا۔
رضیہ پکڑے
جانے کے خوف
سے سن سی ہو
گئی اس نے اپنا
جسم اوپر اٹھایا اور
چوہدری کے
لوڑے سے اترنے
کی کوشش کی۔
لیکن چوہدری پر تو
حیوانی شہوت
سوار تھی اور وہ
اسے چھوڑنے پر
تیار نہیں تھا۔
چوہدری نے ایک
مرتبہ پھر اپنا لوڑا
تلوار کی طرح
اسکی چوت میں
اتارنے کی کوشش
کی لیکن رضیہ
اسکے گلے سے
اپنی پوری طاقت
سے چمٹ گئی
تھی۔بابا ہم پکڑے
جائیں گے ،چھوڑ
دیں مجھے۔
چوہدری نے اپنی
بیوی کے قدموں
کی آہٹ قریب آتے
سنی تو رضیہ کو
گود میں اٹھائے
بھینسوں کے
چارے والے کمرے
میں گھس گیا
اسکے چلنے سے
رضیہ جھٹکا کھا
کر دوبارہ چوہدری
کے لن پر گر چکی
تھی اور چوہدری
کے چلنے سے
اسکا لن مختلف
زاویوں سے رضیہ
کی پھدی کو کھود
رہا تھا۔ چوہدری
کی بیوی آم کے
درخت تک پہنچ
چکی تھی اس نے
آم گرے دیکھے تو
اونچی آواز میں
،بولی
"کون ہے یہاں"
"آہ"
رضیہ کے منہ
سے غیر ارادی
طور پر نکال کیوں
کے چلتے چلتے
ایک جھٹکے سے
ایک بار پھر
چوہدری کا لوڑا
پورا اندر گھس چکا
تھا۔ ادھر چوہدری
مزے کی اچانک
لہر سے غرایا۔
باقی کے قدم لیتے
وقت چوہدری کا
دھیان چلنے کی
بجائے اسکی پھدی
مارنے کی طرف
زیادہ تھا۔ وہ ہر قدم
کے ساتھ جھٹکے
کو خوب انجوائے
کر رہا تھا۔ رضیہ
کی نظر چوہدری
کے کندھوں کے
اوپر سے اسکی
ہونے والی ساس
پر جمی تھی جو آم
کے پیڑ کے پاس
کھڑی کھوجتی
نگاہوں سے ادھر
ادھر دیکھ رہی
تھی۔ بابا جلدی
چلیں ہم یہ کسی اور
دن بھی کر سکتے
ہیں ،اگر ساسو ماں
نے پکڑ لیا تو بہت
برا ہو گا۔
چوہدری کو رضیہ
کی خوف زدہ آواز
سے سچویشن کا
انداذہ ہوا تو اس نے
چارے والے کمرے
کی کنڈی لگا دی۔
رضیہ ابھی تک
چوہدری کی گود
میں تھی اور اسکا
لوڑا رضیہ کی
چوت میں گھسا ہوا
تھا۔ پچھلے دس
منٹ سے رضیہ
چوہدری کی گود
میں تھی اور اب
اس کے بازو درد
کر رہے تھے۔
چوہدری نے رضیہ
کو چارپائی پر
ایسے لٹا دیا کے
اسکی اوپری دھڑ
چارپائی پر تھا اور
گانڈ چوہدری کے
ہاتھوں میں اور
دونوں ٹانگیں
چوہدری کی گانڈ
سے لپٹی ہوئی
تھیں۔ رضیہ نے
اپنی بانہیں چارپائی
پر پھیال کر انہیں
ریسٹ دیا لیکن
چوہدری کا کچھ
اور ارادہ تھا اس
نے ایک جھٹکے
سے اپنا پورا لن
رضیہ کی تنگ
چوت میں اتار دیا
اور لگاتار جھٹکے
مارنے شروع کر
دئیے۔ چوہدری
جلدی سے جلدی
فارغ ہونا چاہ رہا
تھا اس لئے اسکے
جھٹکوں کی رفتار
تیز ہوتی گئی۔
کمرہ چارپائی کی
چیخوں ،رضیہ کی
سسکیوں اور آہوں
اور چوہدری کی
حیوانی غراہٹوں
،سے بھر گیا تھا
رضیہ کے ممے ہر
جھٹکے کے ساتھ
تیزی سے اسکے
منہ کی طرف
جاتے اور اسی
رفتار سے اسکے
کسے ہوئے پیٹ
کی طرف جھٹکے
سے آتے۔ اس نے
اپنی ٹانگیں
چوہدری کی
کمرکے گرد لپیٹی
ہوئی تھیں اور
چدائی سے لطف
اندوز ہو رہی تھی۔
اسکا چہرہ سرخ ہو
چکا تھا اور اسے
لگ رہا تھا جیسے
اس کی چوت سے
کوئی سونامی
نکلنے کے لئے
تیار ہے۔ اب انہیں
اس چدائی سے دنیا
کی کوئی طاقت
نہیں روک سکتی
تھی۔۔۔
[21/06, 4:32
pm] Nawab
Zada:
بڑی_حویلی_کی#
بہو_
صفحہ_#6
رائیٹر نوابزادہ شاہد
چوہدری کو لگ
رہا تھا کہ اب اگر
کوئی اسے اس
چدائی سے روکے
تو شاید وہ پاگل ہو
جائے گا۔ رضیہ
کی ساس کو بھی
اس کمرے سے
اٹھتی آوازیں سنائی
دے گیئیں تھیں وہ
دروازے پر آئی
اور پوچھا
جلدی سے دلہن"
بن کر میرے گھر آ
"جاؤ
۔ چوہدری نے پیار
سے اسکے کان
میں سرگوشی کی۔
آپکی بن کر نہیں"
" آ رہی
رضیہ اپنے چوتڑ
ہالتی ہوئی بولی۔
تجھے۔۔۔۔۔
رضیہ بےشرمی
سے چوہدری کی
آنکھوں میں
جھانکتی ہوئی
بولی۔
تومجھے حاصل کر
چکی ہے چڑیل۔
چوہدری شکست
خوردہ انداز میں
بوال۔
شادی کب ہو رہی
ہے اب؟
رضیہ نے پوچھا۔
چوہدری اس مالش
والے دن کوپوری
طرح انجوائے کرتا
تھا۔ اسکی مالش کی
ذمہ داری حویلی
کی مالزماؤں کے
سپرد تھی۔
چوہدراین نے ان
مالزماؤں کو
رکھتے وقت ایک
بات پر دھیان دیا
تھا کہ وہ نہ ذیادہ
جوان ہوں اور نہ
ذیادہ خوبصورت
تاکہ چوہدری کو
اگر مالش کے وقت
گرمی چڑھ جائے
تو انکی پھدی مار
لے لیکن انہیں
اسکی سوکن بنانے
کا خیال اسکے ذہن
میں ہرگز نہ آئے۔
اسکی حویلی میں
دس بارہ مالزمائیں
تھیں جو اپنی اپنی
باری پر چوہدری
کی مالش کرتی
تھیں ،ان میں سے
کچھ ایسی بھی تھیں
جن سے چوہدری
کا ان دیکھا معاہدہ
تھا کہ وہ انہیں
چودے گا نہیں لیکن
چدائی کے عالوہ
باقی سب کرنے کی
اسے مکمل آزادی
تھی۔
چوہدری کے پاس
عورتوں کی ہر
طرح کی ورائٹی
تھی ،ان میں سے
کچھ کے ہاتھ
کھیتوں میں سخت
کام کرنے کی وجہ
سے سخت ہو
چکے تھے جبکہ
کچھ کے ہاتھ نرم
تھے۔ کچھ نرم
ونازک گھریلو قسم
کی دیہاتی عورتیں
تھیں جو چوہدری
کے دئیے قرض
کی ادائیگی کی
خاطر اس کی
حویلی پر مالزم
تھیں اور کچھ اپنے
شوق اور چوہدری
سے ملنے والے
انعامات اور فائدے
کے اللچ میں خود
وہاں رہ رہی تھیں۔
چوہدری کی مالش
کے دوران انکے
کپڑے پسینے اور
تیل میں لتھڑ
کرانکے جسموں
سے چپک جاتے
اور جب وہ
چوہدری کی مالش
کرتیں تو ہاتھوں
کے ساتھ انکے
جسم بھی چوہدری
کے جسم کا مساج
کرتے۔ انکے مموں
کی درمیانی لکیریں
چوہدری کے لن
میں آگ لگا دیتیں
اور انکی کسی
ہوئی گانڈیں
چوہدری کےنلن کو
،الٹیاں کروا دیتیں
چوہدری ان سب
سے پوری طرح
لطف اندوز ہوتا تھا۔
آج بھی چوہدری
اپنی مخصوص
لکڑی کی دو فٹ
اونچی پھٹی پر
ٹانگیں پھیال کر
بیٹھا تھا اسکا
اوپری جسم بالکل
ننگا تھا جبکہ
زیریں جسم پر
چھوٹی سی لنگوٹی
تھی جسے کثرت
کے وقت پہلوان
پہنتے ہیں ،مالش
کے لئیے مختصر
کپڑے پہننا تو
ضروری تھا۔جبکہ
چوہدری جسم کے
بعد اپنے سر کی
مالش کرواتا اور
اسکے بعد اسی
لباس میں نہاتا تھا۔
اس چھوٹی سی
لنگوٹی میں اس
کے لن کو صاف
دیکھا جا سکتا تھا۔
جبکہ مالش کے
وقت چوہدری کی
حرامزدگیوں کی
وجہ سے عام طور
پر تو اسکا لوڑا
کھڑا ہی رہتا تھا۔
آج مالش کے لئیے
اس کے پاس بولی
آئی تھی۔ اسکا اصل
نام تو کچھ اور تھا
لیکن سب اسکی
خاموش طبع ہونے
کی وجہ سے اسے
بولی کہنے لگے
تھے ،وہ پینتیس
چھتیس سال کی
گٹھے ہوئے جسم
کی سانولے سے
رنگ کی درازقامت
عورت تھی جو
ایک لمبے عرصے
سے حویلی کی
خدمت کرتی آ رہی
تھی ،سانوال رنگ
ہونے کے باوجود
اس میں غضب کی
سیکس اپیل تھی۔
حویلی میں کی
گئی محنت نے اس
کے جسم کو سخت
اور سڈول کر دیا
تھا۔ مالش بہت
اچھی کرتی تھی
لیکن وہ ان چند
عورتوں میں سے
تھی جو چدواتی
نہیں تھی۔ باقی
چوہدری اسکے
ہرے بھرے جسم
سے ہر طرح لطف
اندوز ہو سکتا تھا
اور بولی بھی
اسے بھرپور مزہ
دیتی تھی۔ بولی کو
بھی چوہدری کے
مضبوط جسم سے
کھیلنا بہت پسند تھا
اور اسکا جناتی
لوڑا اسکی پھدی
گیلی کر دیتا تھا
لیکن ابھی تک
اتنے سال وہ
کنٹرول کرتی آئی
تھی۔ عام طور پر
چوہدری کی مالش
کا فائدہ بولی کا
شوہر اٹھاتا تھا جب
وہ چوہدری سے
گرم ہو کر اپنے
شوہر کے ساتھ
پلنگ توڑ سیکس
کرتی تھی۔۔۔
[21/06, 4:32
pm] Nawab
Zada:
بڑی_حویلی_کی#
بہو_
صفحہ_#8
رائیٹر نوابزادہ شاہد
"آہ"
بولی کے منہ سے
غیرارادی طور پر
نکال۔
چوہدری نے اپنی
انگلی اور انگوٹھے
کے درمیان اسکا
نپل پکڑا اور اسے
ایسے دبانے
لگاجیسے ان میں
سے دودھ نچوڑ
رہا ہو۔ چوہدری
کے اس حملے نے
بولی کی چوت میں
آگ لگا دی تھی اور
وہ پانی سے نکلی
مچھلی کی طرح
منہ کھول کر لمبے
لمبے سانس لے
رہی تھیں۔
اسکا کنٹرول اپنے
جسم پر ختم ہو رہا
تھا اور وہ دل سے
چاہ رہی تھی کہ
چوہدری اپنے لن
سے اسکی پیاس
مٹا دے۔ اس نے
جب سے چوہدری
کی مالش شروع
کی تھی چوہدری کا
بڑا سا لن اس کے
دل میں سوال پیدا
کرتا تھا کہ کیسا
لگے اگر وہ
چوہدری کا لن اپنی
چوت میں لے لے۔
اور آج اپنے ممے
اس کے ہاتھوں میں
دیکھ کر پھر یہی
سوال اٹھ کھڑا ہوا
تھا۔ لیکن یہ سب
سوچ ہی رہی اور
اسکا ہاتھ تیزی سے
چوہدری کے لن پر
اوپر نیچے پھرتا
رہا۔ ادھر چوہدری
نے اپنے دوسرے
ہاتھ میں دوسرا مما
پکڑ لیا تھا اور
دونوں ہاتھوں سے
اسکے دونوں مموں
کو مسل رہا تھا۔
بولی کی آنکھیں
مزے سے بند
ہونے لگیں لیکن
اسکے ہاتھوں کا
کام جاری تھا۔ بولی
آنکھیں بند کئیے
چوہدری کا لن
مسل رہی تھی اور
مزے سے اپنا سر
ادھر ادھر مار رہی
تھی۔ وقفے وقفے
سے اسکی نظر
چوہدری کے لن پر
بھی پڑ رہی تھی
جو اب پھٹنے کو
تیار ہی تھا۔ مزے
کی لہروں میں
ڈوبے اس نے گتدن
گھمائی تو اس لگا
جیسے کوئی انہیں
دروازے سے چھپ
کر دیکھ رہا ہے۔
کسی کے ہاتھ
دروازے پر جمے
تھے اور مہندی
لگے ہاتھوں سے
اسے اندازہ لگانے
میں کوئی دشواری
نہ ہوئی کہ چھپ
کر دیکھنے والی
چوہدری کی نئی
نویلی بہو ہے لیکن
اسے سمجھ نہیں
آئی کہ چھوٹی بہو
یہاں کیوں آئی ہے۔
رضیہ نے اندر کی
طرف سر کیا اور
دوبارہ جھانکا تو
اسکی نظر بولی
سے ملی۔ بولی کی
آنکھیں بولتی ہوئی
:محسوس ہوئیں
دیکھو یہ سب کرنا"
میرے کام کا حصہ
ہے مجھے غلط نہ
"سمجھنا
رضیہ کو یہ دیکھ
کر تعجب ہو رہا
تھا ،جہاں وہ کھڑی
تھی اسے صاف
نظر آ رہا تھا کہ
بولی کے ہاتھ میں
چوہدری کا بڑا سا
اکڑا ہوا لوڑا ہے
جسے وہ ایک ہاتھ
سے آگے پیچھے
کر رہی ہے اسکا
دوسرا ہاتھ سہارے
کے لیئے ذمین پر
ہے اور چوہدری
دونوں ہاتھوں سے
اسکے سانولے
رنگ کےممے
ایسے دبا رہا ہے
جیسے وہ کسی
گائے بھینس کا
دودھ چوہ رہا ہو۔
بولی نے نظریں
جھکا دی اور اپنا
،کام جاری رکھا
چوہدری کا چہرہ
چھت کی طرف تھا
اور اسکے منہ سے
بےمعنی آوازیں
نکل رہی تھیں جس
سے یہ صاف پتہ
چل رہا تھا کہ اسکا
وقت قریب ہے۔
اچانک چوہدری
غرایا اور بولی نے
منی کی دھار سے
اپنا جسم بڑی
مشکل سے بچایا۔
تیل کے داغ تو گھر
کے کاموں میں پڑ
سکتے تھے لیکن
اگر اسکے کپڑوں
پر منی کے داغ
ہوتے تو اس کے
لیئے اپنے شوہر کو
مطمئن کرنا بہت
مشکل ہو جاتا۔
چوہدری کے لن
نے منی کی چار
پانچ پھواریں ماری
اور رضیہ نے لن
پر ہاتھ رکھ کر
انہیں ادھرادھر
گرنے سے بچا لیا۔
بولی کا ہاتھ گاڑھے
سفید مواد سے بھر
گیا تھا جو اسکے
ہاتھ سے بہہ کر
اسکی کہنی کی
طرف بھی جا رہا
تھا۔ چوہدری فارغ
ہو کر آنکھیں بند
کیئے لمبے لمبے
سانس لے رہا تھا۔
رضیہ کی نظروں
نے یہ سارا منظر
جیسے سلوموشن
میں دیکھا تھا ،بولی
آہستہ آہستہ کھڑی
ہو رہی تھی اسکے
ایک ہاتھ میں اس
نے چوہدری کی
منی اکٹھی کی ہوئی
تھی جبکہ دوسرا
ہاتھ بھی تیل اور
چوہدری کی منی
کی کچھ دھاروں
کی وجہ سے بھرا
ہوا تھا۔ بولی کے
،بکھرے بالوں
مسلے کپڑوں اور
پسینے میں ڈوبے
کپڑوں اور سب
سے بڑھ کر اسکے
منی میں لتھڑے
ہاتھوں سے صاف
لگ رہا تھا کہ
کسی مرد نے اسکا
پوری طرح مزہ لیا
ہے۔ بولی اپنے آپ
کو سنبھالتی رضیہ
کو سالم کرتی
ایسے باہر نکلی
جیسے کچھ ہوا ہی
نہ ہو ،باہر نکلتے
وقت اس نے رضیہ
کے ہاتھ میں
چوہدری کے سر
پر مالش والے تیل
کا برتن دیکھ لیا
تھا۔
چوہدری صاحب
آپ کے سر کی
مالش کے لئیے تیل
آ گیا ہے۔ بولی نے
کمرے سے باہر
جاتے وقت آنکھیں
بند کئیے اونچی
سی پیڑھی پر آرام
کرتے چوہدری کو
تیز آواز میں خبر
دی۔
رضیہ اب بھی
کھڑی سوچ رہی
تھی کہ وہ کیا
کرے۔ وہ نہیں
چاہتی تھی کہ
چوہدری کو پتہ
لگے کہ اس نے
سب کچھ ہوتے
دیکھ لیا ہے۔ اس
نے ایک لمحے کے
لیے سوچا کہ
چوہدری ابھی تو
فارغ ہوا ہے اور
اس عمر میں ایک
دفعہ فارغ ہو کر
شاید اب اسکے
اندر کچھ کرنے کی
طاقت ہی نہیں بچی
ہو گی یہ سوچ آتے
ہی رضیہ بےخوفی
سے پورے اعتماد
کے ساتھ مالش
والے کمرے میں
داخل ہوئی۔
اب صورتحال اس
رات سے بالکل
مختلف تھی جب
اس نے بھینسوں
کے چارے والے
کمرے میں اپنی
کنواری چوت
چوہدری سرور کو
سونپی تھی۔ اس دن
وہ رشتے میں سسر
اور بہو نہیں تھے
صرف مرد اور
عورت تھے جن پر
جنسی جنون طاری
ہو گیا تھا۔ اب
رضیہ کا دماغ
پورے ہوش و
حواس میں اسے
کہہ رہا تھا کہ آئندہ
ایسا کچھ بھی نہیں
ہونا چاہیئے جس
سے اس کے
ازدواجی رشتے
میں کوئی فرق آ
ئے۔ وہ بہو کے
عالوہ کسی بھی
صورت میں اپنے
بوڑھے سسر کے
آگے آنا نہیں چاہتی
تھی۔
رضیہ جسے اب
سب اسکے سسرال
میں پیار سے رجی
کہنے لگے تھے
اعتماد سے
چوہدری کی نشست
کی طرف چل پڑی۔
چوہدری کی پشت
دروازے کی طرف
تھی اور وہ آرام
سے اپنی اونچی
چوکی پر آنکھیں
،بند کئیے بیٹھا تھا
رجی کی نظر
چوہدری کے
مضبوط کندھوں
اور طاقتور بازوؤں
پر پڑی تو وہ اسکی
نظروں میں ستائش
صاف پڑھی جا
سکتی تھی۔ یہی
کمر اور کندھے
تھے جنہوں نے
کتنی آسانی سے
اس رات اسکا بوجھ
اٹھایا ہوا تھا ،اور
رجی کے ہاتھوں
نے مزے کی
بلندیوں پر سفر
کرتےچوہدری کی
،کمر کو رگڑا
کھرچا اور مسال
تھا۔ اس نے ان
خیاالت کو اپنے
دماغ سے ایسے
کھرچا جیسے وہ
اس رات سے اب
تک سینکڑوں
مرتبہ کھرچ چکی
تھی۔ اگر اسے اس
گھر میں اپنے
شوہر اور سسر کی
موجودگی میں
ایک نارمل
خوشگوار زندگی
گزارنی تھی تو ان
خیاالت سے جان
چھڑانا اسکے لئیے
ضروری تھا۔ اگر
کسی کو پتہ چل گیا
کہ اس کے
کنوارپنے کو شادی
سے دو دن پہلے
اسکے سسر نے
ختم لیا تو اسکی
شادی کو ختم ہونے
سے کوئی نہیں بچا
سکتا تھا۔
لیکن حویلی کی
مالذمہ بولی کو
چوہدری کے جناتی
لن کی مالش کرتے
دیکھ کر رجی کی
چوت گیلی ہونا
شروع ہو گئی تھی۔
اس نے صاف
دیکھا تھا کہ کیسے
بولی نے چوہدری
کی مٹھ لگاتے
ہوئے چوہدری کو
فارغ کیا تھا ،اس
منظر سے اسے
چوہدری کی عیاش
فطرت کا اچھے
سے اندازہ ہو گیا
تھا۔ رضیہ کی
ساس نے اسے
چوہدری کے سر
میں لگانے کا تیل
دے کر بھیجا تھا کہ
وہ بولی کو تیل دے
آئے پر بولی تو
شاید اپنے ہاتھوں
پر لگی منی دھونے
باہر چلی گئی تھی
اور اب کمرے میں
وہ اپنے سسر کے
ساتھ اکیلی تھی۔
چوہدری کو ابھی
تک بالکل پتہ نہیں
تھا کہ تیل لے کر
آج اسکی نئی نویلی
بہو آئی ہے وہ تو
آنکھیں بند کئیے
اپنی سوچوں میں
گم تھا۔ رضیہ
چوہدری کو
چھوتے ہوئے
خوفزدہ تھی پتہ
نہیں یہ خوف
چوہدری سے تھا یا
اس رات کے
واقعات یاد کر کے
اپنی رس ٹپکاتی
چوت سے۔ اس نے
ہمت کرکے
چوہدری کے سر
پر تیل کا برتن
ٹیڑھا کر کے کچھ
تیل گرایا لیکن
شاید تیل کی کچھ
ذیادہ مقدار سر پر
گر گئی تھی ،تیل
کی ایک دھار
چوہدری کی گردن
سے اسکے کندھے
کی طرف بہی تو
رضیہ نے غیر
ارادی طور پر
تیزی سے اپنا ہاتھ
بڑھایا اور اپنے
انگوٹھے سے
چوہدری کی گردن
سے نیچے جاتی
تیل کی دھار کو
روک لیا۔ ادھر
چوہدری نے اپنا
ہاتھ اپنے کندھے
سے پیچھے کی
طرف گھمایا اور
رضیہ کا ہاتھ تھام
کر اپنے سر پر
رکھ کر اسے بذبان
خاموشی حکم دیا
کہ یہ تیل سر کی
مالش کے لئیے ہے
اور اب وہ مالش
شروع کرے ،اسے
ابھی بھی یہ نہیں
پتہ تھا کہ اس نے
رضیہ کو حکم دیا
ہے۔ رجی نے
چوہدری کے
چھدرے بالوں میں
انگلیاں ڈالیں اور
دھیرے دھیرے
اسکی مالش شروع
کر دی۔ چوہدری
کے جسم کا لمس
محسوس کرتے ہی
ایک دفعہ تو رجی
کا سانس رک سا
گیا اور اسکی
انگلیوں کے ذریعہ
جیسے چوہدری
نے اسکے دل کے
تار چھیڑنے شروع
کر دئیے۔
چوہدری کے اندر
کا ٹھرکی انسان
جاگ گیا تھا
حاالنکہ تھوڑی دیر
پہلے ہی اس نے
اپنی منی خارج کی
تھی۔ اب اسکا ارادہ
اور کسی دن کے
لئیے اس نئی لڑکی
کو تیار کرنے کا
تھا۔ رجی نے بالوں
میں ہاتھ پھیرتے
ہوئے اسکی گردن
کے پیچھے تیل
بہتے دیکھا تو اس
تیل سے چوہدری
کی گردن پر بھی
اپنے نرم ہاتھ
چالنے لگی۔ یہ
کرتے ہوئے وہ
پیاسی نگاہوں سے
چوہدری کے
مضبوط کندھوں کو
دیکھ رہی تھی۔
اسکے سسر نے
ہاتھ پیچھے کر کے
اسکا بازو پکڑا تو
اسکے بازو کی
گوالئی اور نرمی
سے اسکی ریڑھ
کی ہڈی میں سنسنی
سی پھیل گئی۔سسر
جی نے بازو پکڑ
کر ہلکا سا جھٹکا
دیا تو رجی کا
پکے ہوئے پھل
جیسا جسم چوہدری
کی کمر سے چپک
گیا۔ رجی کی نظر
چوہدری کے
کندھوں سے ہوتی
ہوئی نیچے پڑی تو
وہ یہ دیکھ
کرحیرت زدہ ہو
گئی کہ اس کا شیش
ناگ ابھی بھی نیم
استادہ تھا اور ابھی
بھی اس کے پانی
سے اسکے لوڑے
کا ٹوپاگیال لگ رہا
تھا۔
کیا تم یہاں نئی"
"ہو؟
چوہدری نے اسکی
طرف دیکھے بغیر
اسکے بازو پر اپنی
کھردری انگلیاں
چالتے ہوئےسوال
کیا۔
جی بابو"
"!جی۔۔۔۔۔۔۔۔
رجی دھیرے سے
بولی۔
چوہدری نے آواز
پہچانتے ہی حیرت
سے گردن گھما کر
اپنی بہو کی طرف
دیکھا۔ اسکی
آنکھوں سے خوشی
صاف چھلک رہی
تھی۔ وہ مسکرایا
اور غیرارادی طور
پر اس نے اپنی
لنگوٹی ٹھیک کر
کے اپنے لوڑے کو
بمشکل چھپایا۔
رضیہ مسکرائی
اور ایک مرتبہ پھر
اسکے تیل میں
سنے بالوں میں
اپنی مخروطی
انگلیاں چالنے
لگی۔
یہ تو مالزماؤں"
کا کام ہے تم کیوں
اپنے ہاتھ گندے کر
"رہی ہو؟
چوہدری نے
آنکھیں بند کی اور
اسکے لمس کے
مزے میں ڈوب کر
شفقت بھرے لہجے
میں بوال۔
رضیہ کی نظریں
اب چوہدری کے
چوڑے سینے پر
موجود نپلز پر تھیں
جو رضیہ کی
قربت سے کھڑے
ہو گئے تھے۔
رجی نے جواب
دیا۔
لوگ کیوں کچھ"
سوچیں گے ،اب تو
تم اسی حویلی کی
"ایک فرد ہو
چوہدری نے سوالیہ
لہجے میں کہا۔
لیکن یہ کہتے
ہوئے چوہدری کے
لہجے میں بےیقینی
سی تھی۔ رضیہ
کی قربت کے نشے
سے اب چوہدری کا
لوڑا پوری طرح
کھڑا ہو کر جھوم
رہا تھا۔ چوہدری
پوری کوشش کر
رہا تھا کہ اپنے
اوپر قابو رکھے
لیکن اس لڑکی میں
کوئی عجیب سا
جادو تھا۔۔۔
[21/06, 4:32
pm] Nawab
Zada:
بڑی_حویلی_کی#
بہو_
صفحہ_#9
رائیٹر نوابزادہ شاہد
"آہ"
چوہدری کے منہ
سے لذت بھری
سسکاری نکلی۔
چوہدری نے اپنی
گردن گھمائی
اسکی نظریں
رضیہ کے غباروں
پر تھیں اور وہ ان
غباروں میں اپنا
چہرہ چھپانے کے
لئیے مرا جا رہا
تھا ،رضیہ نے
اسکی آنکھوں کا
پیغام پڑھا تو اسے
اپنے خوبصورت
جسم کی طاقت کا
احساس ہوا۔ وہ
مسکرائی اور
چوہدری کی
آنکھوں میں دیکھتی
،ہوئی بولی
بابا آپکی زبان"
کچھ کہہ رہی ہے
اور آپکی آنکھیں
کچھ اور ،خود ہی
بتائیں اب میں کس
"کی سنوں
چوہدری کی ذبان
خاموش رہی لیکن
رضیہ نے خود ہی
اپنے بوڑھے سسر
پر ترس کھاتے
ہوئے اپنا جسم
جھکایا اور اسکا
چہرہ اپنی بھاری
چھاتی میں چھپا لیا۔
چوہدری بڑے پیار
سے اپنا چہرہ
اسکے کپڑوں میں
چھپی چھاتیوں پر
رگڑنے لگا۔ رضیہ
کے جسم کی مدھر
مہک نے چوہدری
کا حلق خشک کر
دیا تھا اور چوہدری
اب ان پکی ہوئی
مسمیوں کا رس
چوسنے کو بےتاب
تھا۔ پر اسکے منہ
اور ان مموں کے
درمیان ابھی بھی
،اسکی قمیض
رضیہ کے گلے
میں جھولتے سونے
کے ہار اور اس کی
چھاتیوں کی
حفاظت کرتے
اسکے کالے رنگ
کے براء کا فاصلہ
باقی تھا۔
چوہدری نے اب
اپنی گردن کے
ساتھ ساتھ باقی جسم
بھی اپنی بہو کی
طرف موڑ لیا تھا
جس سے اسکی
دونوں ٹانگیں کھل
گئی تھیں ،رضیہ
نے اپنی ایک ٹانگ
چوہدری کی دونوں
ٹانگوں کے درمیان
پہنچائی اور اسکے
مزید قریب ہو گئی
اسکا گھٹنا،
چوہدری کے اکڑے
ہوئے لن کو چھو
رہا تھا۔ رضیہ نے
اپنی ٹانگ سے
اپنے سسر کے
اکڑے ہوئے لن کو
سہالیا تو اسے لگا
جیسے جھٹکا کھا
کر لن نے بھی
اسے جواب دیا ہو۔
چوہدری کے منہ
سے لذت بھری
سسکی نکلی اور
اس نے مزے میں
رضیہ کی کپڑوں
میں چھپی چھاتی
کو اپنے دانتوں
میں دبا لیا رضیہ
کو درد تو ہوا لیکن
اسکی شدت قابل
برداشت تھی۔
بابو جی
بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!
اب میں آپکی بہو !
ہوں ہمیں یہیں پر
رک جانا چاہیئیے۔
چوہدری اسکے
جسم کی مہک
سونگھتا ہوا دھیمی
آواز میں بوال۔
اسکے دماغ نے
کام کرنا چھوڑ دیا
تھا اور اب وہ دماغ
کے بجائے لن سے
سوچ رہا تھا۔ اس
نے رضیہ کے
قمیض کا دامن
اٹھایا اور اپنے ہاتھ
اسکے گندمی رنگ
کے کسے ہوئے
پیٹ پر پھیرنے لگا۔
اسکا چہرہ رضیہ
کی چھاتی میں چھپا
تھا اور وہ اسکے
پیٹ پر ہاتھ
پھیرتے ہوئے
اسکے مموں کی
طرف لے جا رہا
تھا۔ رضیہ کے
قمیض کی فٹنگ
ایسی تھی کہ
چوہدری کے لئیے
قمیض کے نیچے
سے اسکے ممے
پکڑنا ناممکن تھا۔
اس نے قمیض میں
سے ہاتھ نکالے
اور رضیہ کے
گریبان کی طرف
دیکھا جن سے اس
کے آدھے ممے
باہر لٹک رہے
تھے رضیہ اس
کے سامنے کھڑی
تھی اور وہ بیٹھا تھا
اس لئیے گریبان
سے بھی اسکے
ننگے مموں کو
تھامنا ناممکن تھا۔
رضیہ نے اسکی
بےچینی اور
بےصبری بھانپی
تو مسکراتے ہوئے
اپنے لمبے گھنے
بالوں کو ایک
جھٹکا دیا اور
چوہدری کے
کندھوں پر ہاتھ
رکھتے ہوئے اپنا
جسم اسکی گرفت
سے چھڑانے کی
کوشش کی۔
چوہدری کو احساس
تھا کہ اگر یہ لمحہ
ایسے ہی گزر گیا
تو پتہ نہیں اگال
موقعہ کب ملے۔
چوہدری نے رضیہ
کی گوشت سے پر
چوتڑوں پر اپنے
طاقتور ہاتھ رکھے
اور اسکے رسیلے
جسم کو اپنے جسم
کی طرف کھینچا۔
چوہدری کا جسم
طاقت لگانے کی
وجہ سے کھچ گیا
تھا اور اسکا چہرہ
رضیہ کے پیٹ کے
قریب تھا ،چوہدری
نے ایک لمبا سانس
لیا اور رضیہ کی
گیلی پھدی کی
جانی پہچانی مہک
اسکے نتھنوں سے
ٹکرائی۔ چوہدری
نے اپنا چہرہ مزید
جھکایا اور اسکی
پھدی کے اوپر
کے حصے پر
موجود جھانٹوں
والے مقام کو اپنے
منہ میں لے لیا۔
رضیہ اسکے
چہرے کو اپنے
چوت پر محسوس
کر کے لرز سی
گئی تھی ،اسکے
جسم پر اسکا
کنٹرول ختم ہوتا جا
رہا تھا۔
چوہدری کے
ہونٹوں کی قربت
سے اسکی پھدی
نے رس ٹپکانا
شروع کر دیا ،اب
اسکےجسم کو
کپڑے بوجھ
محسوس ہونے
لگے اور رضیہ
اپنے ننگے جسم پر
چوہدری کے جسم
کا لمس محسوس
کرنےکو پاگل
ہونے لگی۔ وہ اپنے
تپتے ہوئے جوان
جسم کو چوہدری
کے کھردرے جسم
سے مسلنا چاہ رہی
تھی۔ رضیہ نے
چوہدری کے
ہونٹوں سے اپنے
ممے چھڑائے اور
تیزی سے اپنے
قمیض اپنے سر
سے اتار دی۔
چوہدری کا منہ
کالے بریزئیر میں
چھپی رضیہ کی
چاندی جیسے رنگ
کی چھاتیوں کی
گہرائی دیکھ کر
خشک ہو گیا۔ شادی
کے بعد لگ رہا تھا
جیسے رضیہ کا
جسم کھل سا گیا
تھا ،براء میں سے
جھانکتے اس کے
گورے مموں پر
موجود سبز رگیں
نظر آنے لگیں
تھیں۔ رضیہ دوبارہ
آگے کو ہوئی اور
بڑی بےشرمی سے
چوہدری کے
لنگوٹی میں قید
لوڑے پر اپنا دایاں
ہاتھ رکھ کر پیار
سے پھیرنے لگی۔
چوہدری نے اپنا
ہاتھ لنگوٹی کی
طرف بڑھایا اور
اسکی گرہ کھول
دی تاکہ رضیہ آرام
سے اسکے لوڑے
سے کھیل سکے۔
رضیہ حیران تھی
کہ تھوڑی دیر
پہلے فارغ ہونے
کے باوجود اس کا
لن لوہے کے
سریے کی طرح
اکڑ کر سخت ہوا
ہوا تھا۔
بابوجی یہ اتنا"
،سخت کیسے ہے
کیا ابھی بولی
"نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوہدری نے روانی
سے جھوٹ بوال۔
اب تم حقیقت میں"
میرے سامنے ہو
تو تمہاری
خوبصورتی دیکھ
کر میرا لوڑا پھر
سے کھڑا ہو کر
تمہاری پھدی مانگ
"رہا ہے
بابا آپ سچ کہہ"
"رہے ہیں نہ؟
رضیہ نے سیکسی
سی مسکراہٹ دے
کر اپنے سسر سے
پوچھا ،رضیہ کے
دائیں ہاتھ کی ہتھیلی
مستقل چوہدری کے
لوڑے پر گھوم
رہی تھی۔ اسے
اندازہ تھا کہ
چوہدری جھوٹ
بول رہا ہے کیونکہ
اس نے چوہدری
کے ہاتھ بولی کے
بڑے بڑے
خربوزوں پر
گھومتے دیکھے
تھے اور چوہدری
کی لذت میں ڈوبی
غراہٹوں سے
واضح تھا کہ اس
نے بولی کی مٹھ
کو دل سے
انجوائے کیا تھا۔
لیکن اس نے سوچا
کہ کیا فرق پڑتا ہے
وہ کونسا اسکی
بیوی ہے کرنے دو
چوہدری کو جو
کرتا ہے۔ چوہدری
کے لن نے رضیہ
کی گرفت میں مذی
کے قطرے ٹپکا
دئیے تھے۔
چوہدری کا چہرہ
آگے بڑھا اور
اسکے ہونٹ رضیہ
کے پیٹ پر تھوک
کی لکیریں بنانے
لگے ،اس نے
رضیہ کا پیٹ
چومتے چومتے
اسکی دھنی کے
سوراخ میں ذبان
،ڈال دی ،آہ بابا
یہاں نہیں۔ رضیہ کا
پیٹ اسکی سانسوں
کی گرمی اور زبان
کی نمی اپنی دھنی
میں محسوس کر
کے تھرتھرا اٹھا۔
چوہدری نے
تھوڑی دیر مزید
اسکے پیٹ پر
زبان گھمائی اور
پھر اسکے مموں
کی طرف رخ کیا۔
رضیہ کی پھدی کی
بھوک جاگ اٹھی
تھی ،پچھلے کچھ
دنوں سے چوہدری
کی نظروں سے
بچنے کی کوشش
رائیگاں چلی گئی
تھی۔ اس نے
چوہدری سے
دھیمی آواز میں کہا
چوہدری نے براء
کے اوپر سے ہی
اسکے مموں کو
چباتے ہوئے
پوچھا۔
"آؤچ"
رضیہ نے سسکی
بھری کیونکہ
چوہدری نے اسکی
چھاتی پر ہلکے
سے کاٹ لیا تھا۔
رضیہ کئی دفعہ"
شادی کے بعد سجاد
سے چدوا چکی
تھی ،اور وہ بھی
اسکے تنے ہوئے
مموں کو جی بھر
کے چومتا چاٹتا تھا
لیکن چوہدری میں
کوئی خاص بات
تھی جو کسی بھی
عورت کو بےقابو
"کر سکتی تھی
اور چوسو "
بابا۔۔۔۔۔۔چوسو
میرے ممے۔۔۔۔سارا
دودھ پی جاؤ
انکا۔۔۔۔۔ خالی کر دو
آج اپنی بہو کے
ممے۔۔۔۔۔ کھا جاؤ
انہیں ،ان پر آپ کا
ہی حق
!!!!!ہے۔۔۔۔۔۔۔
رضیہ نے بمشکل
خود کو سجاد کے
بازؤوں سے نکاال
اور باہر کی
طورف چل دی۔
رضیہ نے مڑ کر
اسکی طرف
مسکرا کر دیکھا
اور اپنے سر کو
اوپر نیچے ہالتی
باہر نکل گئی اور
سجاد اسکی اتھل
پتھل کرتی گانڈ کو
دیکھتا رہ گیا۔
رضیہ اپنے میکے
والوں کےساتھ
انکے گھر رہنے
چلی گئی۔
چوہدراین نے ایسی
نظروں سے اسکی
طرف دیکھا جیسے
وہ سب جانتی ہو
اور اسے کہا کہ
جاؤ جا کر اپنا کمرہ
وغیرہ دیکھو اور
مالزموں سے
صفائی وغیرہ
کرواؤ۔۔۔
[21/06, 4:32
pm] Nawab
Zada:
بڑی_حویلی_کی#
بہو_
صفحہ_#11
رائیٹر نوابزادہ شاہد
سہ پہر پانچ بجے
تھے جب حویلی
کی مالذمہ نے
رضیہ کو جگایا۔
رضیہ نے منہ ہاتھ
دھوئے اور اپنی
ساس کے پاس پہنچ
گئی جو اپنے
بیڈروم میں بیٹھی
نوکرانیوں سے
عالقے کی
رپورٹیں لے رہی
تھی۔ رضیہ تھوڑی
دیر وہاں بیٹھی رہی
لیکن اسکا دل نہیں
لگ رہا تھا ،کرنے
کو کچھ تھا ہی
نہیں۔ چوہدراین نے
رضیہ کی خاموشی
دیکھی تو سب
،ماجرا سمجھ گئی
آخر یہ سب اس پر
بھی گزری تھی۔
اس نے رضیہ کو
مخاطب کیا۔
رضیہ بیٹا جا جا"
کے لسی بنا کر
خود بھی پی اور
مجھے اور اپنے
"بابا کو بھی دے
اچھا بےبے۔ لیکن
بابا تو ابھی آئے
نہیں۔ رضیہ نے
اٹھتے ہوئے جواب
دیا۔
نہیں بیٹا وہ آ گئے"
ہیں ساتھ میں اسکا
الڈلہ نواب زادہ
شاہد وی اے دویں
چاچا بھتیجا سرے
دے ٹھرکی نیں جاہ
اس وقت وہ اوپر
چھت والے برآمدے
میں باتیں کررہے
ہیں اور حقہ وغیرہ
پیتے ہیں ،انہیں
ادھر ہی لسی دے
"آئیو دوہاں نوں
"اچھا بےبے"
رضیہ نے باہر
نکلتے وقت اپنی
ساس کو جواب دیا۔
باورچی خانے میں
ایک اونچی پیڑھی
پر بیٹھ کر وہ
مدھانی اٹھا کر لسی
،رہڑکنے لگی
رضیہ فارغ رہ رہ
کر تھک گئی تھی
اور اسکا دل کر رہا
تھا خود کچھ کرنے
کو۔ اتنے میں زبیدہ
باورچی خانے میں
داخل ہوئی اور
رضیہ کو خود لسی
رڑھکتے دیکھ کر
چیل کی طرح
اسکی طرف جھپٹی
اور بولی کہ آپاں
،چھڈ دیو مدھانی
میں بنڑا دیندی آں
لسی۔ وڈی
چوہدرانی نوں پتہ
لگیا کہ میں اوناں
دی نوی نوں نو کم
کرن دتا اے تے او
میری کھال کھچ
دینڑی جے۔ رضیہ
نے پکی عمر کی
زبیدہ کی طرف
دیکھا اور دھیمے
،لہجے سے بولی
نہ اماں زبیدہ لسی"
تے میں آپ بناواں
گی ،تو بس میرے
کول کھڑی رہ تے
مینوں کوئی شے
چاہدی ہوئے تے
پھڑا دے"۔ زبیدہ
کھڑی ہو کر رضیہ
کو لسی رڑھکتے
غور سے دیکھنے
لگی۔ مدھانی
چالتے رضیہ کے
مکھن کے پیڑے
جیسے ممے ایسے
ہل رہے تھے
جیسے زلزلہ آ گیا
ہو اور زبیدہ انہیں
دیکھ کر سوچ رہی
تھی کہ چھوٹا
چوہدری کتنا خوش
قسمت ہے کہ اسے
اتنی سوہنی کڑی
مل گئی۔ رضیہ نے
لسی بنائی اور کچھ
لسی زبیدہ کے ہاتھ
اپنی ساس کے
پاس بھیج دی اور
اپنی لسی پی کر
زبیدہ کا انتظار
کرنے لگی کہ وہ
آئے تو اپنے سسر
کو بھی لسی بھجوا
دے۔ لیکن زبیدہ
لسی پہنچانے کے
بعد چوہدراین کے
کام سے کہیں چلی
گئی تھی۔ رضیہ
نے مزید تھوڑی
دیر انتظار کیا اور
لسی کا مگا لے کر
خود چوہدری
سرور کو دینے
سیڑھیاں چڑھ کر
اوپر کی منزل کی
طرف چلی دی
جہاں چوہدری روز
دوپہر سستاتا تھا۔
روز سہ پہر کوئی
نہ کوئی مالذمہ
اسکو تازہ بنائی
لسی دے جاتی۔
لسی پہنچانے کا کام
ہمیشہ سے کوئی
مالذمہ ہی کرتی
تھی ،ایسا شازونادر
ہی ہوتا کہ کوئی
مرد مالزم چوہدری
کو لسی پہنچاتا۔
چوہدری لسی
پہنچانے والی
عورتوں کو اپنی
مرضی کے مطابق
برتتا۔ ان میں سے
کچھ ایسی بھی تھیں
جنہیں چوہدری کے
لنڈ کا نشہ لگ گیا
تھا اور وہ اس
انتظار میں رہتیں
کہ کب انہیں لسی
دے کر بھیجا جائے
اور کب چوہدری
انہیں چود چود کر
نڈھال کر دے ،کچھ
ایسی تھیں جو
مجبور تھیں
چوہدری کے آگے
اور اپنے مالی
مسائل کی وجہ سے
چوہدری کا لال لیتی
تھیں۔ چوہدری کو
زیادہ مزا کسی نئی
،مالذمہ کو تاڑنے
پھر اسے آہستہ
آہستہ اپنی ہوس
مٹانے کیلئے تیار
کرنے اور صحیح
وقت پر کسی
درندے کی طرح
انکی پھدیوں کا
شکار کرنے میں آتا
تھا۔ اسے انتظار ہی
رہتا کہ کب کوئی
نیا شکار اسکے
ہتھے چڑھے۔ پتہ
تو چوہدراین کو
بھی تھا جبھی
اسکی کوشش ہوتی
کہ کوئی بھی کمسن
یا خوبصورت
لڑکی یا تو حویلی
آئے نہ اور اگر آ
جائے تو چوہدری
کی نظروں سے
بچی رہے۔
چوہدری چھت کے
برآمدے میں اپنی
آرامدہ کرسی پر
بیٹھا جھول رہا تھا
لیکن اسکی حالت
سے واضح تھا کہ
اسکا دماغ آج کہیں
اور ہے۔ حویلی کی
تعمیر چوہدری نے
اپنی مرضی سے
کروائی تھی اور
یہاں سے کرسی پر
بیٹھے چوہدری کو
گاؤں کی سڑک اور
اپنی ذمینیں صاف
نظر آتی تھیں ،وہ
یہیں بیٹھے دیکھتا
تھا کہ گاؤں میں
کون آ رہا ہے اور
کون جا رہا ہے۔
رہی سہی خبریں
چوہدری کے چیلے
چوہدری تک پہنچا
دیتے تھے۔برآمدے
کے ساتھ ہی ایک
پرآسائش
ائیرکنڈیشنڈ کمرا
تھا جس میں قیمتی
فرنیچر کے عالوہ
ایک ڈی وی ڈی
پلئیر ،ایک بڑا سا
ایل ای ڈی ٹی وی
اور ایک ریک میں
چوہدری کی
پسندیدہ ہندی اور
پنجابی فلموں کی
ڈی وی ڈیز رکھی
تھیں۔ اسی ریک
کے ایک خانے میں
ننگے مجروں اور
بلیو پرنٹس کی بھی
کلیکشن موجود
تھی۔ اس کمرے
میں چوہدری کی
اجازت کے بغیر
سب کا داخلہ ممنوع
تھا۔
رضیہ کی آنکھیں
اس وقت بھی اپنے
سسر پر جمی رہی
جب اس نے مگے
کے کنارے پر
اپنے ہونٹ جمائے
اور گاڑھی مکھن
ملی لسی پینے لگا۔
لسی اتنی گاڑھی
تھی کہ چوہدری
کے ہونٹ گول
ہوتے اور اسے
زور لگا کر سانس
اندر کھینچ کر لسی
،کا گھونٹ لینا پڑتا
یہ سب رضیہ کو
ایسے لگ رہا تھا
جیسے چوہدری
کے ہونٹ اسکے
مالئم مموں پر
جمے ہوں اور وہ
زور لگا کر انکا
رس پی رہا ہو اور
اسکی زبان اندر ہی
اندر اسکے نپل پر
پھر رہی ہو۔ اوئی
ماں۔۔۔۔۔۔کیا ایسا
واقعی میں ہو سکتا
ہے؟ رضیہ نے
اپنے آپ سے سوال
کیا۔ اسکی چوت
اپنی مالئی ٹپکا
رہی تھی اور اسکا
دل چاہ رہا تھا کہ
لسی کی ہی طرح
چوہدری اس کا بھی
مزہ لے۔ اس نے
سنا تھا اور پڑھا تھا
چوت چٹائی کے
بارے میں لیکن
ابھی تک نہ
چوہدری نے اور نہ
رضیہ کے شوہر
نے اسکی چوت کا
رس پیا تھا۔
چوہدری نے ایک
بڑا سا گھونٹ بھر
کر لسی کا مگا
اپنے منہ سے ہٹایا۔
رضیہ کے حلق
،سے قہقہہ بلند ہوا
گاڑھی لسی کی
دبیز تہہ چوہدری
کی مونچھوں پر جم
گئی تھی جس سے
چوہدری کا چہرہ
مضحکہ خیز لگ
رہا تھا اور رضیہ
کے منہ سے
غیرارادی طور پر
اونچا اور سریال
قہقہہ نکل گیا
تھا۔اسے یاد نہ رہا
کہ کوئی سن لے
گا چوہدری ٹکٹکی
باندھ کر دیکھنے
لگا کہ کیسے
رضیہ کے قہقہہ
لگانے سے نہ
صرف اسکا چہرہ
اور آنکھیں بلکہ
اسکا پورا جسم
جیسے ہنسنے لگا
تھا ،اسکی ٹائیٹ
قمیض میں کسی
اسکی صحتمند
چھاتیاں بھی
تھرتھرا کر رضیہ
کی ہنسی میں اسکا
ساتھ دے رہی تھیں۔
اچانک چوہدری
کو احساس ہوا کہ
یہ تو مجھے دیکھ
کر ہنس رہی ہے
اور خفت کی وجہ
سے اسکا چہرہ
سرخ پڑ گیا۔
رضیہ کے قہقہے
کی آواز نیچے
صحن سے گزرتی
اسکج ساس نے
بھی سن لی جو
ایک مالذمہ کے
ساتھ ہمسائیوں کے
گھر جا رہی تھی۔
اس نے اوپر کی
طرف منہ اٹھا کر
دیکھا اور یہ سوچ
کر مطمئن ہو گئی
کہ شکر ہے اسکے
شوہر اور اسکی
بہو نے ایک
دوسرے کو قبول
کر لیا ،حویلی میں
ایک چنچل اور
شوخ بیٹی کی کمی
تھی جو اب شاید
رضیہ کے آنے
سے دور ہو جائے۔
چوہدراین مسکرائی
اور باہر نکل گئی۔
چوہدری کا چہرہ
غصے سے الل ہو
رہا تھا ،آج تک
کسی کی ہمت نہیں
ہوئی تھی کہ وہ
چوہدری کے
سامنے اونچی آواز
سے ہنسے۔ اسکے
غصے سے سب
ڈرتے تھے اور یہ
کل کی چھوکری
اسی کے اوپر
ایسے ہنس رہی
تھی جیسے اسکا
مذاق اڑا رہی ہو۔
چوہدری کرسی
کے ہتھے پر ہاتھ
رکھ کر اٹھنے ہج
لگا تھا تاکہ رضیہ
کو سبق سکھائے
کہ وہ مزید آگے
آئی اور اپنا نازک
سا ہاتھ چوہدری
کے مضبوط سینے
پر رکھ کر اسے
اٹھنے سے روکا
اور دوسرے ہاتھ
سے اپنا دوپٹہ تھام
کر چوہدری کج
مونچھیں ایسے
صاف کرنے لگی
جیسے کچھ ہوا ہی
نہ ہو۔
مونچھیں صاف
کرتے رضیہ کا
بھرا ہوا جسم
چوہدری پر جھکا
ہوا تھا۔ اسکا چہرہ
اور جسم خطرناک
حد تک چوہدری
کے قریب تھا۔ اسکا
دوپٹہ اسکی
چھاتیوں سے ہٹنے
کی وجہ سے اسکی
پتلی قمیض سے
جھکنے کے باعث
اسکی لٹکی ہوئی
چھاتیاں براء میں
قید نظارا دے رہی
تھیں۔ رضیہ کے
لمبے کالے بال
کھلے اور انہوں
نے رضیہ اور
چوہدری دونوں
کے چہروں کو
ڈھانپ لیا۔ چوہدری
نے اس صورتحال
کا بھرپور فائدہ
اٹھایا اور رضیہ
کے رسیلے ہونٹوں
کو اپنے ہونٹوں
میں قید کر لیا۔
رضیہ کینہمت نہ
ہوئی کہ وہ اپنے
سسر کے بوسے کا
کوئی جواب دے۔ یہ
حیوانی کشش اور
دوسری طرف انکا
نازک رشتہ اسے
پاگل کر رہا تھا۔
رضیہ کا منہ کھال
ہی رہا لیکن دماغ
ابھی تک کوئی
فیصلہ کرنے سے
قاصر تھا۔ چوہدری
اسکے سانسوں کی
گرمی اور خوشبو
سے پوری طرح
مدہوش ہو رہا تھا۔
اسکے ہونٹ رضیہ
کے مالئم رسیلے
ہونٹوں پر جمے
رہے اور وہ اسکے
،ہونٹ چومنے
چوسنے اور چاٹنے
لگا۔ رضیہ کا منہ
ویسے ہی پانی
چھوڑنے لگا
جیسے اسکی پھدی
پانی چھوڑنے لگی
تھی۔ اسکے ہونٹ
دونوں کے تھوک
،سے گیلے ہو گئے
چوہدری نے اپنے
ہونٹ ہٹائے اور
زبان نکال کر کتے
کی طرح اسکے
ہونٹ چاٹنے لگا۔ آہ
بابو جی۔۔۔۔۔۔۔ رضیہ
کا منہ جیسے ہی یہ
کہتے وقت کھال
چوہدری کی زبان
کسی تیر کی طرح
اسکے ہونٹوں اور
پھر اسکے سفید
ہموار دانتوں کی
قطار عبور کرتی
اسکے منہ میں
پیوست ہو گئی۔
رضیہ کی زبان پر
جب چوہدری نے
اپنی زبان رگڑی تو
اسکے جوان جسم
نے جھرجھری سی
لی۔ رضیہ نے اپنے
ہونٹوں کو گول کیا
اور چوہدری کی
زبان کو اپنے منہ
میں اہسے آگے
پیچھے کرنے لگی
جیسے وہ زبان کی
بجائے چوہدری کا
لمبا اور موٹا لن ہو۔
چوہدری نے دونوں
ہاتھوں سے رضیہ
کے کاندھوں کو
مضبوطی سے
تھاما ہوا تھا اور
اپنی زبان پر رضیہ
کے چوسے
انجوائے کر رہا
تھا۔ جب چوہدری
کی زبان رضیہ
کے منہ کی گہرائی
میں پہنچتی تو وہ
رضیہ کے منہ کو
اپنی زبان کی نوک
سے ایسے کھرچتا
جیسے وہ منہ کی
بجائے رضیہ کی
چوت کی تہیں ہوں۔
چوہدری نےتھوڑی
دیر اپنی زبان سے
رضیہ کے منہ کی
چدائی جاری رکھی
اور پھر جیسے
کوئی فیصلہ کرنے
کے بعد زبان
رضیہ کے منہ سے
نکال کر کرسی
سے کھڑا ہو گیا۔
چوہدری کی دھوتی
اسکے کھمبے
جیسے لنڈ کو
چھپانے سے قاصر
تھی۔ رضیہ نے
اسکے اکڑے لن کو
دیکھ کر بےخیالی
سے اپنی زبان
اپنے ہونٹوں پر
پھیری۔ چوہدری
نے ایک قدم آگے
کی طرف لیا تو
رضیہ شرارت سے
مسکراتے ہوئے
پیچھے کو ہٹی۔
چوہدری نے قدم
بڑھانے اور رضیہ
نے الٹے پیر واپسی
جاری رکھی یہاں
تک کے رضیہ کی
موٹی گانڈ دیوار
سے لگی الماری
سے ٹکرا گئی جس
کے اوپر چوہدری
کے دھلے ہوئے
کپڑے قرینے سے
تہہ کئے رکھے
تھے۔ چوہدری نے
ایک قدم اور بڑھایا
اور بالکل رضیہ
کے قریب پہنچ کر
رک گیا ،ان کے
چہرے اتنے قریب
تھے کہ دونوں ایک
دوسرے کی
سانسیں محسوس
کر رہے تھے۔
رضیہ کے ممے
چوہدری کے سینے
کو چھو رہے تھے
اور چوہدری کا
مکمل طور پر کھڑا
لنڈ رضیہ کے پیٹ
کو کھرچنے لگا
تھا۔ رضیہ نے اپنا
خوبصورت چہرہ
جھکایا اور
چوہدری کی چوڑی
چھاتی میں گھسا
دیا۔ اسکی آنکھیں
شدید جنسی خواہش
سے الل ہو گئی
تھیں اور جسم ہلکا
ہلکا کانپ رہا تھا۔
چوہدری نے تھوڑا
جھک کر اسکے
موٹے نرم چوتڑوں
سے نیچے ہاتھ
جمائے اور اسکا
جسم اپنے سینے
،تک اوپر اٹھا لیا
رضیہ نے الماری
کی سب سے اوپر
والی شیلف پر ہاتھ
جمائے اور اپنے
جسم کا بوجھ خود
اٹھا کر چوہدری
کو ریلیف دی۔
رضیہ نے جیسے
ہی اپنا وزن خود
اٹھایا ،چوہدری
نے اپنے ہاتھ آزاد
کرکے رضیہ کی
شلوار کے نیفے
میں ڈالے اور ایک
ہی جھٹکے میں
اسکی شلوار اسکی
ٹانگوں سے نکال
دی۔ چوہدری نے
اسکی چکنی اور
سڈول ٹانگیں
دیکھیں تو اسکے
منہ میں پانی آ گیا۔
اسنے دوبارہ رضیہ
کی چمکتی ہوئی
ننگی ٹانگوں کو
اپنی مضبوط گرفت
میں لیا اور اسے
مزید اوپر کر کے
الماری کے اوپر
بٹھا دیا۔ رضیہ آرام
سے پاؤں لٹکا کر
الماری پر بیٹھ گئی۔
الماری کی
اونچائی اتنی تھی
کہ پاؤں لٹکا کر
بیٹھی رضیہ کی
اسکے رس سے
چمکتی پھدی
چوہدری کے
کاندھوں کی
اونچائی پر تھی۔
چوہدری جھکا اور
اس نے پہال بوسہ
رضیہ کے دائیں
پاؤں کے ٹخنے پر
کیا اور اپنے دونوں
سخت کھردرے
ہاتھوں سے رضیہ
کی گوری نرم
پنڈلیوں کو سہالنے
لگا۔ رضیہ کے منہ
سے سسکیاں
نکلنے لگیں ،اس
نرمی اور نزاکت
سے تو کبھی سجاد
نے بھی اسے نہیں
چھوا تھا۔ وہ رضیہ
سے پیار تو کرتا
تھا لیکن اسکا پیار
ہونٹوں سے شروع
ہوتا مموں تک آتا
اور اسکے بعد وہ
لن پھدی میں ڈالتا
اور کچھ ہی
جھٹکوں میں فارغ
ہو کر سو جاتا تھا۔
چوہدری نے تو
اسے لذت کے نئے
معنی سے آشنا کیا
تھا۔ چوہدری کا منہ
اسکے ٹخنے سے
ہوتا اسکی پنڈلی پر
آ گیا ،چوہدری
چھوٹے چھوٹے
بوسے لیتا اور اپنی
زبان نکال کر
رضیہ کی پنڈلی پر
پھیرتا اوپر آتا گیا۔
اسکے ہاتھ اب
رضیہ کے گھٹنوں
کے پیچھے دائرے
بنا رہے تھے اور
رضیہ کی وہ حالت
تھی کہ اسے لگ
رہا تھا کہ وہ ابھی
فارغ ہو جائے گی۔
چوہدری نے اپنے
ہاتھ مزید اوپر
کئے اور اسکی
رانوں پر پھیرنے
لگا ،اس کی زبان
اور ہونٹ سفر
کرتے اسکی موٹی
رانوں پر پہنچ
گئے۔ وہ ایک ران
کو چوم اور چاٹ
رہا تھا جبکہ
دوسری ران پر
اسکی انگلیاں بڑی
نزاکت سے دائرے
بنا رہی تھیں۔
رضیہ کو چوہدری
کا سر ہی نظر آ رہا
تھا جس کے بالوں
میں رضیہ کی
مخروطی انگلیاں
نرمی اور پیار سے
مساج کر رہی تھیں۔
چوہدری نے دونوں
رانوں سے اچھی
طرح انصاف
کرنے کے بعد اپنا
سر اٹھا کر رضیہ
کی آنکھوں میں
دیکھا اور اسکی
گانڈ کے پیچھے
ہاتھ رکھ کر اسے
آگے کر کے بالکل
کنارے پر کھینچ
لیا۔ اسکی ہتھیلیاں
رضیہ کے گھٹنوں
پر آئیں اور اس نے
آہستگی سے انہیں
جتنا کھوال جا سکتا
تھا کھول دیا۔ رضیہ
کو سب سمجھ آ
رہی تھی کہ اب کیا
ہونے جا رہا ہے
اور اسکی چوت تو
جیسے اذل سے
اسی انتظار میں
تھی۔ چوہدری نے
رضیہ کی نظروں
میں دیکھ کر دوبارہ
اپنا سر جھکایا اور
سانپ کی طرح
زبان نکال کر
اسکی رانوں کے
اندرونی طرف
پھیرنے لگا۔ رضیہ
کی ٹانگوں کی
نازک جلد چوہدری
کی زبان کے لمس
سے لرزنے لگی
تھی ،چوہدری کو
اسکے جسم سے
ایسی خوشبو مل
رہی تھی جیسے وہ
ابھی نہا کر آئی ہو
لیکن اسکی جلد کا
ذائقہ نمکین پسینے
کا تھا۔ چوہدری
اپنی زبان پھیرتا
آہستہ آہستہ رضیہ
کی شہد ٹپکاتی
چوت کی طرف جا
رہا تھا اسکا سر اب
رضیہ کی گیلی
پھدی کو رگڑ رہا
تھا اور چوہدری کو
اپنے سر کے بال
گیلے ہونے سے
رضیہ کی چوت
کے گیلےپن کا
اچھے سے علم تھا۔
اب کی بار جب
چوہدری نے اسکی
رانوں پر زبان
چالئی تو جان بوجھ
کر اپنے سفید
بالوں واال سر
رضیہ کی پھدی پر
رگڑ دیا۔ رضیہ کی
چوت اسکے بالوں
کی رگڑ سے ایسی
گدگدائی کہ وہ تڑپ
کر رہ گئی۔
چوہدری نے اپنا
چہرہ اٹھایا اور اس
بار رضیہ کی شہد
ٹپکاتی پھدی کو
غور سے دیکھا
اور سحرزدہ ہو گیا۔
بالمبالغہ اپنی
جوانی سے اب تک
اس نے سینکڑوں
پھدہاں دیکھی اور
ماری تھیں پر
ایسی چوت تو آج
تک اسکی نظر
سے نہیں گزری
تھی۔ اسکی چوت کا
سائز ابھی چھوٹا
تھا اور اسکے اوپر
بالکل پتلے پتلے
اور چھوٹے
چھوٹے بال تھے۔
چوت کے لب اتنی
دفعہ چد کے بھی
ابھی بند کلی جیسے
تھے اور رس ان
لبوں پر ایسے
چمک رہا تھا
جیسے کسی پھول
پر شبنم کے قطرے
پڑے ہوں۔ رنگ
بےشک باقی جسم
کی نسبت گہرا تھا
پھر بھی اس میں
ایک نمکین سی
کشش تھی۔ ادھر
رضیہ نے چوہدری
کو اتنے غور سے
اپنی چوت کو
گھورتے دیکھا تو
اس کی آنکھیں
خودی شرم سے بند
ہو گئی اور اس نے
اپنی ٹانگیں بند
کرنے کی ناکام
کوشش کی۔
چوہدری اپنی ناک
چوت کے قریب
لے گیا اور ایک
گہری سانس لی تو
اسے ایک جانی
پہچانی دلفریب سی
مہک آئی جس نے
چوہدری کو مزید
اتاوال کر دیا۔ اس
نے اپنی زبان
نکالی اور ہلکے
سے اپنی زبان
رضیہ کی چوت پر
لگا کر پیچھے کی
جیسے وہ اسے
چکھ کر دیکھ رہا
ہو چوہدری کی
زبان کو اسکی
چوت کا ذائقہ کچھ
تیکھا اور نمکین سا
لگا۔ چوہدری کے
ہاتھ آگے بڑھے
اور اس نے دونوں
ہاتھ پھدی کی
دونوں طرف رکھ
کر کھوال تو اسکا
استقبال گالبی
گوشت نے کیا جو
اپنے ہی پانی سے
چمک رہا تھا اور
اس انتظار میں تھا
کہ کب اسکی
قسمت کھلے اور
چوہدری اس سے
کھیلے۔ چوہدری
نے اپنا منہ چوت
سے جوڑا اور
اسے چوم لیا۔
چوہدری نے سنی
ان سنی کی اور
رضیہ کی چوت کو
کسی کتے کی طرح
چاٹنے لگا ،اس کے
منہ سے ایسی ہی
آوازیں نکل رہی
تھیں جیسے کتے
کے اپنے برتن سے
دودھ پیتے وقت
نکلتی ہے۔ اس کا
بالکل ارادہ نہیں تھا
کہ ابھی اپنی زبان
کا استعمال اپنی
الڈلی بہو رانی کی
پھخی چاٹنے کے
عالوہ کسی اور کام
کے لئے کرے۔
چوہدری کا تھوک
بھی رضیہ کے
چوت رس میں
شامل ہو گیا جس
سے اسکے رس
کی تلخی اور بو
بھی کم ہو گئی کچھ
چوہدری بھی اتنی
دیر میں کچھ عادی
ہو گیا تھا۔ اب
چوہدری نے ایک
قدم مزید آگے
بڑھنے کا فیصلہ
کیا اور اپنی زبان
کو لمبائی میں
دوہرا کیا تاکہ اسے
رضیہ کی چوت
میں داخل کر کے
اپنے زبان سے
اسکی پھدی چود
سکے۔ چوہدری نے
اپنی دہری ہوئی
زبان رضیہ کی
رسیلی پھدی میں
داخل کی تو تھوڑا
ہی اندر جانے کے
بعد رضیہ کی
چوت کی دیواروں
نے اسکی زبان کو
جکڑ کر مزید آگے
جانے سے روک
دیا۔ چوہدری نے
اپنی دو انگلیاں
اندر گھسا کر چوت
کے لب کھلے اور
کسی چاقو کی طرح
اپنی زبان اندر
گھسا دی۔ رضیہ
نے پوری زبان
اپنی چوت میں
گھستے محسوس
کی تو مزے کی
وجہ سے تڑپ کر
رہ گئی۔ چوہدری
نے اپنی زبان اندر
باہر کرنا جارج
رکھا اور اسکے
ہاتھ کے دونوں
انگوٹھے رضیہ کی
چوت کی اوپری
دیواروں کو
رگڑنے لگے۔ اسی
رگڑائی کے دوران
چوہدری کے
انگوٹھے اسکی
پوری چوت کے
چپے چپے پر گھوم
رہے تھے۔ اچانک
رضیہ کا جسم اکڑا
اور ایک لمبی سی
سسکی اسکے منہ
سے نکلی۔ چوہدری
کے انگوٹھے اپنے
سفر کے دوران
اسکی چوت کے
دانے کو چھیڑ گئے
تھے۔ رضیہ کے
جسم نے چوہدری
کو بتا دیا تھا کہ
یہی اسکا چور
سوئچ ہے۔ چوہدری
نے زبان پھدی سے
نکالی اور رضیہ
کہ اکڑے ہوئے
دانے پر پھیرنے
لگا ،رضیہ تو
ایسے تڑپی جیسے
اس پر کسی نے
چھری چال دی ہو۔
چوہدری کے لئے
اسکی ٹانگیں قابو
کرنا مشکل ہو گیا۔
چوہدری نے
تھوڑی ہی دیر اور
اسکا چھوال رگڑا
تھا کہ ضیہ کی
سسکیاں اور آہیں
بلند ہونے لگیں۔
چوہدری نے اپنی
موٹی سی انگلی
رضیہ کی پھدی
میں اتاری اور
تیزی سے آگے
پیچھے کرتے اپنی
زبان دانے پر
پھیرتا رہا۔ ہائے
میں گئی۔۔۔۔۔۔۔رضیہ
اونچی آواز میں
چال ئی ،اسکی
ٹانگیں کانپنے لگیں
اور اسکی چوت
نے گدال سا پانی
چھوڑ دیا۔ چوہدری
نے عین آخری ٹائم
پر اپنا منہ ہٹا کر
سیالب سے خود کو
بچایا۔
دھڑام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک باہر سے
کوئی برتن گرنے
کی آواز آئی۔
چوہدری بھاگتا ہوا
باہر گیا تو۔۔۔اس نے
دیکھا شاہد
دروازے پر کھڑا
سارا ڈرامہ دیکھ
چکا تھا شرم کے
مارے رضیہ
چوہدری کے
پیچھے چھپ گئی
اور چودھری بوال
نواب زادے توں
کدوں پرتیا ایں
[21/06, 4:32
pm] Nawab
Zada:
بڑی_حویلی_کی#
بہو_
صفحہ_#12
رائیٹر نوابزادہ شاہد
جب شاہدکی
نظررضیہ پے پڑی
تو اس نے فورا
شرما کے اپنا منہ
نیچے کر لیا اور
ِپھر تایا اندر داخل
ہوا اور شاھد کو
سیکسی سی سمائل
دی تایا بیڈ کے
پاس پہنچ گیا لیکن
رضیہ دروازے پر
ہی کھڑی تھی
جب شاہد کی نظر
اس پے پڑی تو
اس نے فورا شرما
کے اپنا منہ نیچے
کر لیا تو اس سے
بوال رضیہ کیا ہوا
اندر آؤ نا شرما
کیوں رہی ہے وہ
ِپھر چوہدری کی
آواز پے چلتی ہوئی
اندر آئی اور بیڈ
کے ساتھ رکھی
ہوئی کرسیوں میں
سے ایک کرسی
.پے بیٹھ گئی
اسےحیرت کا
جھٹکا لگا اس نے
شلوار میں السٹک
ڈاال ہوا تھا اور شاہد
کا ہاتھ آرام سے اس
کی شلوار میں
گھس گیا اور سیدھا
رضیہ کی چھوٹی
سی کلین شیو پنک
پھدی کے ہونٹوں
سے جا لگا اور
حیرت کا دوسرا
جھٹکا لگا کے اس
کی پھدی بہت
سوفٹ اور نرم
مالئم تھی اور اس
کے پھدی گرم گرم
پانی چھوڑ رہی
تھی .شاہد نے اپنی
درمیانی انگلی اس
کی پھدی کے اندر
داخل کی تو اس کی
منہ سے ایک
دلکش سی خمار
بھری آواز نکلی
آؤچ میں مر ویساں
شاہد ننن نہ کر اف
.میں مر گئی
جب اس نے اس
رضیہ کی پھدی
میں اپنی ُزبان ڈالی
تو وہ مست ہو کر
اپنی گانڈ اٹھا اٹھا
کر اور شاہد کے
سر اور اپنی پھدی
پے دبانے لگی اور
منہ سے آوازیں
نکالنے لگی آہ
نوابزادہ مت تڑپاؤ
. .آہ آؤچ آہ اوہ اوہ
میں کوئی 5منٹ
تک شاہداس کی
پھدی کی سکنگ
کرتا رہا اور وہ
پھر شاہد کی
سکنگ سے ایک
بار فارغ ہو چکی
تھی
جس کا اندازہ شاہد
کو اس وقت ہوا
جب شاہد نے اس
کی پھدی کا نمکین
پانی اپنی ُزبان پے
محسوس کیا ِ .پھر
رضیہ بولی شاہد
جی اب اور ہمت
نہیں ہے آپ بس
میرے اندر ڈالو
مجھ میں سما جاؤ
اور مجھے ٹھنڈا
کرو .شاہد نے کہا
جی ٹھنڈا تو میں
آپ کو کروں گا
ضرور لیکن پہلے
میرے لن کا ایک
اچھا سا چوپا لگا
کے اِس کو اپنی
پھدی میں لینڈنگ
کے لیے تیار تو
کرو .وہ بولی جی
ٹھیک ہے اور
ِپھر گھوڑی
اسٹائل میں ہو کر
شاہد کے لن کو منہ
میں لے لیا اور اس
کو ٹوپی سے لے
کر جہاں تک ہو
سکا اپنے منہ میں
لیتی اور ِپھر اندر
.باہر کرنے لگی
اندر ہی اندر وہ
اپنی ُزبان کو گول
گھما کے شاہد کے
گورے لن کو
چاٹتی تو اسکے
اندر سرور کی لہر
دوڑ جاتی .اس کے
ہو شر با چو پوں
سے شاہد کا لن فل
آکر کر تن گیا اور
اس نے اس کو
مزید چو پے لگانے
سے روک دیا
رضیہ کو شاہد نے
بوال کمال کا
چوستی ھو کس
سے سیکھا یہ سب
آپ نے تو رضیہ
بولی بہت بھوال
ھے تو نواب زادے
شاہد بوال کیا مطلب
آپ تو رضیہ بولی
چوپا لگانے میں
سنی لیون میری
استاد ھے آج اسکا
فارموال تم
پراستعمال کیا ھے
اور جو تم تایا
کیساتھ کر رھی
تھی وہ تو رضیہ
شرماکر بولی بس
پہلی بار تھا تو بہک
گئ تھی میں تمہارا
کزن کا اتنا کام
نہیں کرتا جتنا
جوش تجھ میں اور
چوہدری صاحب
کے ہتھیار میں
ھےپھر شاہد اس کو
بوال کے کہ رضیہ
بھابھی چدوانے
میں کونسا انداز
پسند کروگی آپ تو
رضیہ بولی میری
ٹانگیں اٹھاؤ اور
دکھا دوآپ اپنا
جوش رضیہ اب
سیدھی ٹانگیں
.کھول کر لیٹ گئ
رضیہ جب لیٹ
گئی اور شاہد ِپھر
ایک دفعہ اس کی
ٹانگوں کے درمیان
آ گیا اور اس کی
ٹانگوں کو اپنے
کندھوں پے رکھ لیا
اور اپنا لن اس کی
گوری کلین شیو
پھدی پے سیٹ کر
کے پہلے ٹوپی کو
اندر گھسایا اور ِپھر
باقی لن اندر کرنے
لگا وہ نیچے سے
تھوڑا کسمسا رہی
تھی آہ آؤ چ آؤ چ
آرام سے آپکا لوڑا
سجاد اور سسر
سے بہت بڑا ھے
دھیرے سے
ڈالوگے تو پھر بھی
چانس مل سکتا ھے
اس کی پھدی ایسے
لگ رہی تھی کے
جیسے لوہے کی
بھٹی میں اپنا لن ڈال
دیا ہو اور اس کی
پھدی ٹائیٹ بھی
کافی تھی اور
جیسے جیسے شاھد
کا لن اندر جا رہا
تھا
ایک دن رضیہ
رات کو ابکائیاں
لینے لگی طبیعت
خراب تھی جب
کلینک پر جب اسکا
چیک اپ کیا گیا تو
لیڈی ڈاکٹر
چوہدارائن کو بولی
بی بی جی مبارک
ھو آپ دادی بننے
والی ھو بڑی
حویلی کی بہو دو
ماہ سے پریگنٹ
ہیں بہت مبارکاں
بہو چوہدری
نےبوال
بابا جی چھوٹا
چوہدری بھی اپنے
دادا جیسا بنے گا
بالکل نوابزادہ لگے
گا
ختم شد
کہانی کے سب
کردار فرضی ھیں
بہت رومانٹک
کہانی رائیٹر نواب
زادہ شاہد نے پدو
ماوتی کے بعد ایک
زبردست کہانی
بڑی حویلی کی بہو
لکھی ھےجسے
ناول یا کوئی فیملی
انسیسٹ کہانی
چاھئیے وہ پرسنل
رابطہ کرکے
حاصل کر سکتا
ھے وٹس ایپ اور
ٹیلی گرام پر
نوابزادہ شاہدکہانی
یا ناول کا نام بتائیں
اور وٹس ایپ پر
خرید لیں۔۔
کہانیاں خریدنے
کے لیے انبکس
رابطہ کریں ایک
بات یاد رکھیں جو
خریدنا چاہتا ہو
صرف وہ ہی میسج
کرے۔لکھنے والے
نوجوان رابطہ
کریں۔۔پی ڈی ایف
میکر بھی ھم سے
رابطہ کریں ھم
سے اپنی کہانی
بھی لکھوا سکتے
ھیں
فضول لوگ دور
رہیں۔۔
نوٹ
وٹس ایپ گروپ
میں شامل ھونے
کے لئیے ھم سے
رابطہ کریں ھمارا
ٹیلی گرام چینل بھی
جوائن کریں پڑھیں
نامور رائیٹرز کی
بک پڑھیں
بھولی
داستان۔۔۔ہماکی
شرارتیں۔۔سینچری۔۔
۔۔۔پنڈ دا
ڈاکٹر۔۔حویلی
مکمل۔۔فہد اور
مہرین۔۔۔ڈاکٹرہما۔۔۔ڈ
اکٹر سونیا۔۔۔چھوٹا
چوہدری۔۔چوہدرائن
۔۔بڑی حویلی کی
بہو۔۔۔پشتون
گھوڑیاں۔۔کراچی
کی
لڑکیاں۔۔۔گینگسٹر۔۔۔
رکھیل۔۔۔دیوداس۔۔۔
کلثوم کی
بہنیں۔۔۔شاہد تیرے
نکاح میں۔۔۔۔گرم
فیملی۔۔۔سلمان کی
بہنیں۔۔۔۔الل
پری۔۔۔۔۔سالیوں کی
پنٹی۔۔۔ھوسٹل کی
لڑکیاں۔۔۔میکوں
حسرت
ہائی۔۔۔۔۔چھوٹا
وارث۔۔۔میری کزن
ندا۔۔۔خالہ
جمیلہ۔۔کھلی
زپ۔۔۔سوتن میری
سہیلی۔۔۔مارننگ شو
کا نواب۔۔میرا
شہشوار۔۔۔سبزی
واال سائیں۔۔۔۔پرانی
حویلی۔۔مالں پور کا
سائیں۔۔عروسہ
بہن۔۔۔ساگر کی
فیملی۔۔۔عشق
اوارہ۔۔۔اجنبی۔۔۔پور
ی رات کا
ملن۔۔۔ساس۔شاہد
افریدی کی گیم
چینجر۔۔۔۔پدوماوتی۔۔
۔۔میل کروا
دےربا۔۔اور سچی
کہانی
پڑھیں بیشمار ناول
وٹس ایپ پر پڑھیں
اور شامل ھو جائیں
من پسند محفل میں
فیس بک گروپ
سے ھمارا ڈیٹا
چوری ھو جاتا
ھے
03067007824