You are on page 1of 34

‫‘‘انار کلی’’ ‪ :‬ایک رکا ہوا‬

‫فیصلہ — بی بی امینہ کا مرزا‬


‫حامد بیگ کے نئے ناول پہ‬
‫تبصرہ‬
‫‘‘انار کلی’’ کے عنوان سے جنوری ‪۲۰۱۸‬ء‬
‫میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا ایک ناول‬
‫منظر عام پر آیا ہے جو اکتیس سال کے‬
‫طویل عرصے میں تحریر کردہ ایک دستاویزی‬
‫ناول ہے۔یہ ناول تقریبا اڑھائی سو صفحات‬
‫پر مشتمل ہے جسے اول ایک ہزار سے زائد‬
‫صفحات پر لکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کی‬
‫کاٹ چھانٹ کی گئی اور کمال مہارت سے‬
‫اڑھائی سو صفحات میں چار سو اٹھارہ سالہ‬
‫تاریخ ہند کو سمو دیا گیا۔ تاہم ناول‬
‫نگار کے مطابق ناول کے اصل مسودے کو بھی‬
‫محفوظ رکھا جائے گا تا کہ شائقین ادب‬
‫خود مالحظہ کر سکیں کہ یہ ناول کیسے‬
‫تحریر کیا گیا۔‬

‫ناول ‘‘انارکلی’’ میں مرزا صاحب نے اٹل‬


‫حقیقت اور ایک اہم زمینی واقعے کو زیر‬
‫بحث لنے کے لیے کہانی کا سہارا لیا ہے‬
‫اور یہی ان کا اصل فن ہے کہ موضوع سے‬
‫متعلق وہ تمام پہلو جنھیں نظر انداز کر‬
‫دیا گیا یا مسخ کرنے کی کوشش کی گئی‪ ،‬وہ‬
‫ان تمام باتوں کو سامنے لے آئے اور آخر‬
‫میں فیصلہ قاری پر چھوڑ تے ہوئے ان پر‬
‫اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔‬
‫ڈاکٹر صاحب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ‬
‫انھوں نے ناول کو تحقیقی مقالہ نہیں‬
‫بننے دیا بل کہ تمام تر معلومات کو‬
‫کہانی کا حصہ بنا کر اس میں حقیقت کا‬
‫رنگ بھر دیا ہے اور حقائق کے ساتھ ان کے‬
‫حوالہ جات کو بھی کہانی کے اندر ہی‪ ،‬اس‬
‫قدر چابک دستی کے ساتھ گتھم گتھا کر دیا‬
‫ہے کہ تحریر میں کسی بھی قم کی رکاوٹ یا‬
‫کمی محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫ہر ناول کی تحریر کا کوئی بنیادی مقصد‬


‫ہوتا ہے جو ناول کی تحریر کا باعث بنتا‬
‫ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ناول کا مقصد میل‬
‫ٔنزم اور اس کی بنیاد پر ہونے والی نا‬
‫شاو‬
‫انصافیوں کو سامنے لے کر آنا ہے جس کی‬
‫ایک نمایاں صورت‪ ،‬مرزا صاحب کے نزدیک‬
‫‘‘غیرت کے نام پر قتل’’ بھی ہے جو‬
‫مذکورہ ناول کے حوالے سے انا ر کلی کا‬
‫قتل ناحق ہے۔ اگرچہ یہ مغلیہ دور اور‬
‫بالخصوص لہور کا کوئی واحد قتل نہیں۔ اس‬
‫ٖح کے‬
‫سے پہلے اور بعد میں بھی اس طر‬
‫واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن تاریخ پر‬
‫نگاہ دوڑائی جائے تو سب سے زیادہ معروف‬
‫یہی ہے۔عالوہ ازیں بات صرف قتل پر ہی ختم‬
‫نہیں ہوتی بل کہ انارکلی پر ڈھائے جانے‬
‫والے مظالم کی داستان اس قدر طویل ہے کہ‬
‫چار سو اٹھارہ سال بعد بھی نہ تو اس کے‬
‫قتل کا کوئی فیصلہ ہو سکا اور نہ ہی ایک‬
‫سو پچپن سال سے اپنی قبر سے محروم انار‬
‫کلی اپنے مدفن میں واپس جا سکی ہے۔ یہی‬
‫ناول نگار کا بنیادی قضیہ ہے جس کی‬
‫تائید خود ناول کے انتساب سے بھی ہو‬
‫جاتی ہے جو اکبر اعظم کے نام کرنے کے‬
‫بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں‪:‬‬

‫ہ‬
‫‘‘جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعٔ‬
‫لہور میں جالیا چراغ بجھنے نہ دیا اور‬
‫ایک ننھا سا دیا پھونک مار کر بجھا‬
‫دیا۔’’‬
‫چنانچہ تحقیق و تفتیش نے انھیں اس قدر‬
‫مضطرب کر دیا کہ انھوں نے مغلیہ عہد کی‬
‫عمارات کی مضبوط فصیلوں کو توڑ کر ان کی‬
‫خستہ حال دیواروں میں موجود رازوں کو بے‬
‫نقاب کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں‬
‫وہ نہ صرف کامیاب رہے بل کہ عہد اکبری‬
‫ہ حال تک کی معاشرتی اور‬
‫سے لے کر زمانٔ‬
‫سماجی تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخ‬
‫میں بھی ایسی ایسی نا انصافیوں اور‬
‫سرقوں کی نشان دہی کر گئے جن کا بر وقت‬
‫ادراک نہ ہونے اور وقت کی دھول کی دبیز‬
‫تہوں کے نیچے چھپ جانے کے سبب ادب کے‬
‫قارئین اور محققین بل کہ تمام شائقین‬
‫ادب ہوا میں معلق تھےاور جھوٹ کو ہی سچ‬
‫مان بیٹھے تھے‪،‬لیکن حقائق کی جمع آوری‬
‫کے بعداب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ‬
‫مذکورہ معامالت پر اعتماد سے بات کر سکیں‬
‫اور ان سے متعلق اپنا فیصلہ صادر کر‬
‫سکیں۔ مرزا صاحب کی مساعی نے جن اہم‬
‫حقائق کی بازیافت کو ممکن بنایا ہے ان‬
‫میں سے چند درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫ٔرخین اور‬
‫‪۱‬۔ اکبر کے عہد اور بعد کے مو‬
‫مصنفین نے انارکلی‪ ،‬اس کی موت اور سبب‬
‫چھپانے کی سر توڑ کوشش کی۔اس کوشش میں‬
‫سب سے نمایاں کردار ابو الفضل کا تھا‬
‫اور اس نے اس لیے پردہ پوشی کی تاکہ‬
‫شاہی خاندان کے ماتھے سے ‘‘زنا‬
‫بالمحرمات’’ کا داغ دھویا جا سکے۔اس‬
‫مقصد کے لیے ابو الفضل نے ‪۱۵۹۴‬ء میں‬
‫پاگل کا بہروپ بھر کر انارکلی سے ملنے‬
‫والے سلیم کو ‘‘اکبر نامہ ’’میں ایک عام‬
‫ٔرخین اور‬
‫پاگل ہی قرار دیا لیکن یورپی مو‬
‫سفرنامہ نگاروں نے سلیم ہی کے حوالے سے‬
‫اس واقعے کا ذکر کرکے اس کی موجودگی کو‬
‫ثابت کیا ہے۔مزید برآں دربار اکبری کے‬
‫شاعر عرفی شیرازی نے بھی اپنے اشعار میں‬
‫انارکلی کے بیک وقت سلیم اور اکبر کے‬
‫ساتھ تعلقات کا ذکر کیا ہے‪،‬جس کی بنا پر‬
‫بعد میں اسے زہر دے کر قتل بھی کر دیا‬
‫گیا تھا۔‬

‫ڈاکٹر صاحب کے اس ناول کا مقصد میل‬


‫ٔنزم اور اس کی بنیاد پر ہونے والی نا‬
‫شاو‬
‫انصافیوں کو سامنے لے کر آنا ہے جس کی‬
‫ایک نمایاں صورت‪ ،‬مرزا صاحب کے نزدیک‬
‫‘‘غیرت کے نام پر قتل’’ بھی ہے‬
‫‪۲‬۔ میر عدل میر عبد الحیی کی عدالت میں‬
‫انارکلی پر ‪۱۵۹۱‬ء میں شہنشاہ اکبر کو‬
‫زہر دینے اور بعد ازاں اکبر کے حرم شاہی‬
‫کا حصہ ہوتے ہوئے بھی شہزادہ سلیم کے‬
‫ساتھ پکڑے جانے کے حوالے سے ‘‘زنا‬
‫بالمحرمات’’کے مقدمات کیے گئے۔انار کلی‬
‫نے اکبر کو زہر دینے کی سازش میں ملوث‬
‫ٔں کے‬
‫ہونے کا اقرار اذیت ناک سزاو‬
‫ٔخر‬ ‫باوجودآخر دم تک نہیں کیا۔لٰ‬
‫ہذا اسےمو‬
‫الذکر مقدمے کے لیے سزا ملی اور آئین‬
‫اکبری کے تحت اس کی ناک اور کان کاٹنے‬
‫کے بعد اسے نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے‬
‫دیوار میں چنوا دیا گیا۔‬

‫‪۳‬۔ انار کلی ‪۲۹‬؍نومبر تا ‪۶‬؍دسمبر ‪۱۵۹۹‬ء‬


‫کی درمیانی مدت میں زندہ دیوار میں چنوا‬
‫دی گئی۔ حتمی تاریخ اس لیے نہیں بتائی‬
‫گئی کیوں کہ ہجری اور عیسوی تقویم میں‬
‫افتراق کی وجہ سے حتمی تاریخ کا تعین‬
‫انتہائی مشکل ہے۔جہانگیر نے بھی انار‬
‫کلی کی قبر کے تعویز پر ‪۱۵۹۹‬ء اور ‪۱۰۰۸‬ھ‬
‫ہی لکھوایا کیوں کہ کنیز کو سزا ملنے کا‬
‫سال یہی تھا لیکن چوں کہ سزا حبس دم کی‬
‫تھی اس لیے بھی اس بات کا فیصلہ صرف‬
‫تاریخ کی مدد سے نہیں کیا جا سکتا کہ‬
‫دیوار میں چنوا دینے کے بعد اس کی سانس‬
‫کب رکی اور موت کب واقع ہوئی؟‬

‫‪۴‬۔ مقبرہ انار کلی کو سلیم کی ایک بیگم‬


‫صاحب جمال کا مدفن قرار دیا جاتا ہے۔قبر‬
‫کے اوپر سال وفات ‪۱۰۰۸‬ھ درج ہے جب کہ‬
‫صاحب جمال کا سال وفات ‪۱۰۰۷‬ھ تھا۔‬
‫‪۵‬۔ عہد اکبری کی بیش تر عمارات موجود‬
‫ہیں لیکن اکبری محل اور حرم شاہی میں‬
‫موجود بیگمات اور لونڈیوں کے حجروں کی‬
‫صرف بنیادیں باقی رہ گئی ہیں۔ناول میں‬
‫ہ‬
‫نہ صرف محل کے مختلف حصوں بل کہ قلعٔ‬
‫لہور کے مسجدی دروازے کے قریب ایستادہ‬
‫اکبری محل سے ملحقہ انار کلی کے حجرے کی‬
‫بھی نشان دہی کی گئی ہے جس میں انار کلی‬
‫‪۱۵۹۰‬ء۔تا ‪۱۵۹۱‬ء اقامت پذیر تھی۔‬

‫‪۶‬۔ ولیم فنچ نے اپنی تحقیقات میں جس‬


‫مسجد کا حوالہ دیا ہے اسے اب تک بابا‬
‫فرید گنج شکر کی مسجد سمجھا جاتا رہا‬
‫ہے‪،‬لیکن فنچ نے شیخ فرید کی مسجد بتائی‬
‫ٰ خان شیخ‬
‫ہے جو گورنر لہور نواب مصطفی‬
‫فرید بخاری تھے جو ‪۱۶۱۶‬ء تک زندہ رہے۔‬
‫‪۷‬۔شال مار باغ اور شیش محل کو عہد‬
‫شاہجہاں کی یادگاریں قرار دیا جاتا ہے‬
‫جب کہ یہ عمارات اکبر کے عہد میں موجود‬
‫تھیں اور اس وقت ‘شال مار ’ کو ‘شالی‬
‫مار’ کہا اور لکھا جاتا تھا جس کا تذکرہ‬
‫اس دور کی شاعری میں بھی ہے۔‬
‫‪۸‬۔اکبر کے مذہب کے حوالے سے یہ بحث بھی‬
‫ملتی ہے کہ ‘‘دین الٰ‬
‫ہی ’’کا کوئی وجود‬
‫تھا بھی یا نہیں؟ ناول میں نہ صرف اس کی‬
‫موجودگی کا بیان ہے بل کہ اس کے‬
‫پیروکاروں کی اس دین میں شمولیت کے‬
‫ہ کار اور کھانے پینے کے باب میں‬
‫طریقٔ‬
‫بھی مکمل تفصیل فراہم کی گئی ہے۔‬

‫‪۹‬۔ حضرت داتا گنج بخش کی قبر کے بارے‬


‫میں یہ بیان کہ یہ اکبری عہد سے پہلے‬
‫ہ لہور کی زمین پر راوی کے کنارے‬
‫قلعٔ‬
‫تھا‪،‬غلط ہے۔‬

‫‪۱۰‬۔ معروف مالمتی صوفی شاعر شاہ حسین‬


‫اکبر کا مخالف تھا لیکن اس کا شہزادہ‬
‫سلیم کے ساتھ رابطہ تھا۔‬

‫‪۱۱‬۔محمد حسین آزاد کی کتاب ‘‘دربار‬


‫اکبری’’ کی پہلی اشاعت (‪۱۸۹۸‬ء)پر مولوی‬
‫ممتاز علی نے محمد حسین آزاد کے ساتھ‬
‫اپنا نام بھی اس بیان کے ساتھ لکھا تھا‬
‫کہ انھوں نے مسودہ از سر نو مکمل کیا‬
‫ہے؛آزاد کی اغالط کو درست کیا ہے اور ستر‬
‫امرا و اعیان اکبری کے حالت بہ طور تتمہ‬
‫قلم بند کیے ہیں۔جب آزاد کے بیٹے کی طرف‬
‫سے ان کے خالف مقدمہ دائر کیا گیا تو‬
‫انھوں نے معافی مانگ لی۔بعد ازاندوسری‬
‫اشاعت صرف آزاد کے نام کے ساتھ ہی منظر‬
‫عام پر آئی۔‬

‫‪۱۲‬۔اردو ادب کا معروف ڈراما ‘‘انارکلی’’‬


‫سید امتیاز علی تاج کی تحریر نہیں بل کہ‬
‫یہ ایس۔کے۔فیروز کا ڈراما ہے جو انھوں‬
‫نے ‘‘انارکلی’’ کی اشاعت (‪۱۹۳۲‬ء) سے دس‬
‫سال پہلے دارالشاعت پنجاب کے مالک مولوی‬
‫ممتاز علی کو اشاعت کی غرض سے دیا تھا‬
‫لیکن تاج نے اسے اپنے نام سے شائع‬
‫کروایا۔‬

‫‪۱۳‬۔ انار کلی کی قبر مقبرے میں ہونے کے‬


‫باوجود اپنی جگہ پر یعنی گنبد کے عین‬
‫نیچے نہیں۔گنبد کے نیچے اس کی تالش کے‬
‫لیے ‪۱۹۹۲‬ء میں ناول نگار کی ہی کوششوں‬
‫سے ملتان سے پیشہ ور بلوا کر بورنگ‬
‫کروائی گئی تاکہ قبر کی موجودگی کا پتا‬
‫چالیا جا سکے لیکن بور کے راستے میں کوئی‬
‫رکاوٹ نہیں آئی جو اس بات کا ثبوت تھا‬
‫کہ نیچے کوئی قبر موجود نہیں۔ درحقیقت‬
‫ہ انارکلی کو چرچ بنانے‬‫‪۱۸۵۲‬ء میں مقبرٔ‬
‫کی صورت میں انارکلی کا ماندہ وجودگنبد‬
‫کے نیچے سے نکال کر صدر دروازے سے ملحقہ‬
‫بائیں برجی کے نیچے دفن کر دیا گیا تھا‬
‫جہاں وہ اب بھی موجود ہے‪،‬لیکن ناول کے‬
‫عام قارئین کے لیے اس جگہ کی نشان دہی‬
‫کے باوجود اس تک پہنچنا اس لیے مشکل‬
‫ہےکیوں کہ انھیں معلوم نہیں کہ جب یہ‬
‫عمارت بنی تھی اس وقت صدر دروازہے کے‬
‫طور پر کون سا دروازہ مستعمل تھا؟ ڈاکٹر‬
‫مرزا حامد بیگ کے بقول صرف وہ ہی اس ضمن‬
‫میں راہ نمائی کر سکتے ہیں۔‬
‫پالٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک‬
‫مربوط اور منظم پالٹ ہے بل کہ ناول میں‬
‫حقیقی اور ‘‘مجازی’’ انار کلی کے حوالے‬
‫سے دو پالٹ چلتے ہیں اور دونوں کے‬
‫حالت‪،‬اشتراکات اور معامالت اس طرح باہم‬
‫پیوسط ہیں کہ ایک کی کہانی دوسرے کو‬
‫متاثر نہیں کرتی بل کہ اس میں کچھ نہ‬
‫کچھ اضافہ ہی کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کا‬
‫سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ایک ہی طرز کے‬
‫واقعات کو ناول کے ایک ہی باب میں‬
‫سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے‪،‬جس سے قاری کی‬
‫توجہ منتشر نہیں ہونے پاتی۔ عالوہ ازیں‬
‫واقعات کا تاریخی تسلسل قابل داد ہے جو‬
‫ناول کی اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ‬
‫ناول نگار کی اکتیس سالہ تحقیق اور محنت‬
‫پر بھی دللت کرتا ہے۔قدم قدم پر اہم‬
‫سوالت اٹھائے گئے ہیں اور ان کے جوابات‬
‫خود ہی فراہم بھی کر دیے ہیں جو پالٹ میں‬
‫کوئی خال باقی نہیں رہنے دیتے۔ہاں اگر‬
‫ایک بھی کڑی نکال دی جائے تو خالکا پیدا‬
‫ہونا یقینی امر ہے۔ لیکن یہاں یہ امر‬
‫بھی قابل غور ہے کہ ناول نگار ہر موقعے‬
‫پر اعتدال و توازن قائم رکھتے ہیں۔وہ‬
‫پورے ناول میں اکبر اور سلیم کی مخالفت‬
‫اور انارکلی اور اس کے ساتھ ہونے والی‬
‫نا انصافی پر کڑھتے ضرور ہیں ‪،‬لیکن اکبر‬
‫کی پدرانہ شفقت کو بھی نظر انداز نہیں‬
‫کرتے بل کہ ایک دیانت دار فن کار کی طرح‬
‫حقیقیت کو تسلیم کرتے اور اس کی نفسیاتی‬
‫توجیہ تالشنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں‬
‫اور پھر انھیں حوالوں کی مدد سے ثابت‬
‫بھی کر جاتے ہیں۔‬

‫کردار نگاری اس ناول کا سب سے متاثر کن‬


‫ہ نظر فلسفیانہ‬
‫جز ہے۔ناول نگا ر کا نقطٔ‬
‫انداز میں کرداروں کا جائزہ لیتا ہے۔وہ‬
‫کرداروں کی نفسیات کا مشاہدہ کرتے ہیں‬
‫اور ان کرداروں کو لے کر تخلیقی انداز‬
‫میں اپنی فکر اور اپنی سوچ کے ساتھ قدم‬
‫آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے تاریخی کردار تو‬
‫اپنی جگہ مکمل ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ‬
‫ساتھ فلم یونٹ کے افراد اور شہریار مرزا‬
‫کے کردار بھی قابل تحسین ہیں۔ کوئی بھی‬
‫کردار غیر ضروری نہیں۔تمام کردار ناول‬
‫نگار کے ترتیب دیے ہوئے دائروی عمل کا‬
‫حصہ ہیں جو اس دائروی عمل میں موجود‬
‫اپنی ذات سے متعلق چھوٹے چھوٹے دائروں‬
‫کی تکمیل کے لیے اپنا کردار نبھا رہے‬
‫ہیں اور ایسا کرتے ہوئے قاری کو نہ صرف‬
‫حیران و پریشان کر دیتے ہیں بل کہ بعض‬
‫اوقات جھنجھوڑ بھی دیتے ہیں۔عالوہ ازیں‬
‫ناول کا ہر کردار جب کچھ بولتا ہے تو‬
‫ساتھ ساتھ نہایت غور سے کچھ سن بھی رہا‬
‫ہوتا ہے۔یوں خارجیت میں داخلیت اور حاضر‬
‫میں غائب کی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے‬
‫جو ناول میں شعور کی رو لیے راستہ ہموار‬
‫کر دیتی ہے‪،‬جس کی سب سے زیادہ کار‬
‫فرمائیاں شہریار مرزا میں نظر آتی ہیں۔‬

‫ناول میں اگرچہ مکالمے کم ہیں لیکن‬


‫دلچسپ‪ ،‬موزوں اور بر محل ہیں۔ یہ‬
‫کرداروں کے خیالت‪ ،‬جذبات اور احساسات کو‬
‫عیاں کرتے ہیں۔یہ مکالمے نہ صرف برجستہ‬
‫اور آسان زبان میں ہیں بلکہ کرداروں کی‬
‫تفہیم میں بھی مدد دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ‬
‫مرزا صاحب نے تاریخی کرداروں کے خیالی‬
‫مکالمے بھی لکھے ہیں لیکن ایسے مکالمے‬
‫ان کی تاریخ نویسی کی راہ میں حائل ہونے‬
‫کے بجائےکرداروں کے خیالت اور نفسیات کے‬
‫ساتھ اپنے عہد کے مسائل کی طرف بھی قاری‬
‫کی توجہ دلتے ہیں اور ان کا منااسب حل‬
‫تجویز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‬
‫تاریخی موضوع ہو اور وہ بھی اکبری عہد‬
‫اور اس میں منظر نگاری نہ ہو یہ کیسے‬
‫ممکن ہے؟چناں چہ مرزا صاحب نے موضوع سے‬
‫انصاف کرتے ہوئے سماجی اور مادی منظر‬
‫نگاری دونوں کو برتا ہے۔انھوں نے ماحول‬
‫کو جزئیات کی مدد سے قاری کے لیے اس طور‬
‫سے واضح کر دیا ہے کہ قاری اسی منظر اور‬
‫اسی عہد میں اکبر اور جہانگیر کے شانہ‬
‫بشانہ چلتا اور سانس لیتا محسوس ہوتا‬
‫ہے۔انار کلی کی موت کا واقعہ واقعہ کوئی‬
‫معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں ہے۔وہ اپنے‬
‫ساتھ کتنا بدلؤ اور انتشار لے کر آیا‪،‬جو‬
‫اس حقیقیت سے واقف ہیں وہی جانتے ہیں۔‬
‫اس کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں لیکن‬
‫مرزا صاحب نے سماجی منظر نامے کو واضح‬
‫کرتے ہوئے اور اس دور کا کوئی بھی اہم‬
‫نکتہ نظر انداز کیے اس انتشار زدہ صورت‬
‫حال کو ناول کے ابواب میں اس طرح بیان‬
‫کر دیا ہے کہ اکبر‪ ،‬سلیم‪،‬انارکلی اور دل‬
‫آرام‪،‬شہریار مرزا‪،‬شازی حیات کے عالوہ شاہ‬
‫حسین تک اس کی گرفت سے بچ نہیں پائے۔‬

‫اسی طرح اگر مادی منظر نگاری کے معاملے‬


‫کو دیکھیں تو انھوں نے مکانوں‪،‬سڑکوں اور‬
‫دوسرے مقامات کی چھوٹی چھوٹی باتوں‬
‫کوانتہائی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انھوں‬
‫نے اس ناول میں مصور کے فرائض ادا کیے‬
‫ہیں جس نے اپنی قوت مشاہدہ سے کام لے کر‬
‫ہ‬
‫ایسی جزئیات کو بیان کیا ہے جن پر قلعٔ‬
‫لہور کی سیر کے لیے جانے والے عوام کی‬
‫نظر تک نہیں پڑتی۔اس منظر نگاری میں‬
‫کرداروں کےحلیے‪ ،‬ان کے عادات و خصائل سے‬
‫لے کر ان کےطرز رہائش تک سب ہی کچھ شامل‬
‫ہے۔ حویلی‪،‬بارہ دری‪ ،‬ایوان خاص‪ ،‬خلوت‬
‫خانہ‪ ،‬شیش محل‪،‬نو‬
‫لکھا‪،‬دروازوں‪،‬برجوں‪،‬مقبروں‪،‬‬
‫محرابوں‪،‬بیگمات اور لونڈیوں کے حجروں کے‬
‫طویل سلسلوں کے بیان اور پھر ان تمام‬
‫مساکن میں خوف اور خواہشات کے تصادم‪،‬‬
‫آرزو کے حصول کی جستجو‪ ،‬تعیش پرستی‪،‬سزا‬
‫و جزا کےاحکامات اور احساس جرم نے مل‬
‫ایک عجیب و غریب‪،‬ظلم و دہشت سے‬
‫بھرپور‪،‬پر اسرار مگر مکمل منظر نامے کو‬
‫اس طرح تشکیل دیا ہے کہ ہر کردار اپنے‬
‫اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے‬
‫پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعی میں‬
‫مصروف عمل ہے۔‬

‫ناول کا اسلوب رواں ہے۔اسی کی بدولت‬


‫کہانی سست روی سے نہیں بل کہ سطر بہ سطر‬
‫آگے بڑھتی رہتی ہے کہ ایک لمحے کے لیے‬
‫بھی توجہ نہیں ہٹتی اور نہ ہی بیزاری‬
‫محسوس ہوتی ہے۔چونکا دینے والی سچائی کو‬
‫کہانی کے روپ میں ڈھالنا ایک عمدہ تکنیک‬
‫ہے‪،‬جس کی وجہ سے کہانی میں محض فکر ہی‬
‫نہیں سچائی بھی ہے۔ مکالموں کی زبان اور‬
‫ٔ کرداروں کے پیشوں‪ ،‬جنس‬‫الفاظ کا چناو‬
‫اور نفسیات کے مطابق ہے۔ درست امال کا‬
‫خیال رکھنے کی حتی المکان کوشش کی گئی‬
‫ہے اس کے لیے ناول کے آغاز میں ہی‬
‫‘‘انتباہ’’ کے عنوان سےایک عبارت دی گئی‬
‫ہے جو درج ہے‪:‬‬
‫مروج غلط امال کے عادی اس ناول کو پڑھتے‬
‫ہوئے کسی قدر دقت محسوس کر سکتے ہیں۔’’‬
‫عالمات کا استعمال کمال ذہانت اور ہوش‬
‫یاری سے کیا گیا ہے۔خصوصا ‘‘شہریار‬
‫مرزا’’‪‘‘ ،‬انار کی کلی (شازیہ حیات)’’‬
‫اور ‘‘مجنون سلیم اکبر’’ میں جو معنویت‬
‫تالش کی گئی ہے وہ بہت دل چسپ ہے۔اگرچہ‬
‫کئی مقامات پر تکرار سے بھی کام لیا گیا‬
‫ہے لیکن راقمہ کے خیال میں اس کا مقصد‬
‫اہم تاریخی حقائق اور واقعات اور ان کے‬
‫وقوع پذیر ہونے کی تواریخ کی ذہن نشینی‬
‫ہے۔جو ایک احسن اقدام ہے۔‬

‫غرض مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ‬


‫تواریخ‪ ،‬فلم‪ ،‬مضامین اور ناولوں کی‬
‫موجودگی میں اتنے عرصے بعد منظر عام پر‬
‫آنےوالی انار کلی سے متعلق تحقیق ایک‬
‫نئی سمت اور نئی جہت ہی نہیں بلکہ اردو‬
‫ناول کی تاریخ میں بھی ایک ایک نئے سفر‬
‫اور جدت کی نوید ہے جو آیندہ ناول‬
‫نگاروں کے لیے تحقیق و تفتیش کے پل صراط‬
‫سے گزرنے کے لیے ایک کڑے امتحان کی پیش‬
‫گوئی بھی ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد ادب کے‬
‫با ذوق اور سنجیدہ قارئین کے لیےکسی بھی‬
‫دستاویزی ناول میں‪ ،‬بغیر تحقیق و حوالہ‬
‫جات کے‪،‬کسی ارضی حقیقت کو ماننے میں‬
‫تامل ضرور ہو گا۔‬

‫مزید برآں آخر میں اس اہم سوال کا تذکرہ‬


‫بھی ضروری ہے جو ناول کے توسط سے مرزا‬
‫حامد بیگ نے فلم یونٹ کے افراد کے پردے‬
‫میں اپنے قارئین سے پوچھا ہے اور وہ یہ‬
‫ہے کہ مرزا حامد بیگ انار کلی کے ماندہ‬
‫وجود کو عین اسی جگہ دفنانا چاہتے ہیں‬
‫جہاں وہ ‪۱۸۵۲‬ء سے پہلے دفن تھی‪،‬لیکن کیا‬
‫اس کاوش میں ہم مرزا حامد بیگ کا ساتھ‬
‫دیں گے؟؟؟‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫مہا بلی اکبر ‪’ ،‬انارکلی‘ کی‬


‫عدالت میں‪ ،‬ایک متنی جائزہ‬
‫تبصرۂ کتاب‪ :‬نعیم بیگ‬

‫’اکبر اعظم کے نام جنھوں نے شہزادہ لوہ‬


‫کے ہاتھوں قلعہ لہور میں جالیا گیا چراغ‬
‫بجھنے نہ دیا اور ایک ننھا سا دیا پھونک‬
‫مار کر بجھا دیا۔‘‘‬
‫یہ انتساب ہے اس شاہکار دستاویزی ناول‬
‫کا‪ ،‬جسے میرزا حامد بیگ نے اندازا اکتیس‬
‫برس کی محنت شاقہ کی نذر کیا۔ زمانہ‬
‫تحریر جب اس قدر طوالت اختیار کر جائے‪،‬‬
‫تو تاریخ کی وہ گھتیاں جسے کسی عبارت کا‬
‫جزولینفک بننا ہے‪ ،‬کُ‬
‫ھلنے پر مجبور ہو‬
‫جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار سے زاید‬
‫صفحات پر لکھی گئی خونچکاں داستان جب‬
‫خود احتسابی کی نذر ہوئی‘ تو صرف ڈھائی‬
‫سو صفحات پر مواد کا نچوڑ رہ گیا‪ ،‬جس‬
‫میں زوائد کا ڈھونڈنا کار دارد ہے۔‬

‫فکشن انسانی نفسیات میں ایسے جوہر کی‬


‫مانند ہمیشہ اپنے انگ انگ میں کوندتی‬
‫ہوئی بجلیاں چھپائے رکھتی ہے‪ ،‬جسے کوئی‬
‫بھی ذہین ادیب اپنی انگلیوں کی پوروں سے‬
‫چھیڑ کر ایسے سچ کو برآمد کر لیتا ہے‪،‬‬
‫جو بعد ازاں عالمی سچ کا روپ دھار لیتے‬
‫ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرزا حامد بیگ کے‬
‫ناول ’’ انار کلی ‘‘ میں ہوا ہے۔ تاریخ‬
‫کے جن پہلوؤں پر صدیوں کی تاریکی نے‬
‫گھنے سائے کر رکھے تھے‪ ،‬دربار اکبر کا‬
‫وقائع نویس ابوالفضل ہو یا بعد ازاں‬
‫درباری مورخین‪ ،‬ان کے قلم مصلحت کی نیو‬
‫پر خاموش رہے ‪،‬تب وقت کی خاک نے بھی ایک‬
‫دبیز چادر تن دی‪ ،‬لیکن حامد بیگ کے قلم‬
‫کی نوک نے صدیوں بعد فکشن کے کارن ایسی‬
‫راگنی چھیڑی ہے‪ ،‬جس سے سچائی کے مسحور‬
‫کن سر اہل علم و فن ‪ ،‬فکر و دانش اور‬
‫مورخین کو ایک بار پھر نئے آہنگ سے آ‬
‫شنا کر رہے ہیں۔‬

‫سچائی کیا ہے؟ وہ جو مہابلی کے دربار‬


‫میں عدل کے نام سے گونجتی تھی‪ ،‬یا وہ جو‬
‫انار کلی کی مہک کو دربار میں پھیلنے سے‬
‫نہ روک سکی ‪ ،‬اور جس کا شکار شیخو اور‬
‫خود انارکلی ہوئی۔‬

‫سچائی کیا ہے؟ وہ تاریخ جو ابولفضل نے’‬


‫آئین اکبری‘ اور ’ اکبر نامہ‘ میں سپرد‬
‫ابیض کی یا برطانوی تاجر ولیم فنچ یا‬
‫طامس ہربرٹ نے رقم کی۔ یہ تو آپ ناول‬
‫پڑھ کر ہی جان پائیں گے‪ ،‬لیکن اس سے‬
‫پہلے کہ میں ناول کے مندرجات کو متن کی‬
‫روشنی میں تجزیاتی طور پر سامنے لؤں‪،‬‬
‫مجھے دو اہم پہلوؤں پر گفتگو کرنی ہے۔‬
‫پہال نکتہ وہ مثبت عمومی تاثر کا ہے جو‬
‫اس دور کے وقائع نویسوں اور مورخین نے‬
‫رقم کیا‪ ،‬اور مغلیہ دور کے بیشتر‬
‫شہنشاہوں کے ان رویوں پر جو انسانی حقوق‬
‫ٰ کرتے ہیں ‪ ،‬کو‬
‫پر دال کرنے کا دعوی‬
‫معروف معنوں میں انسان دوست قرار دیا۔‬
‫اور دوسری سطح وہ ہے جو شاہی ثقافتی‬
‫رویوں کی ہے‪ ،‬جس میں سلطنت مغلیہ کے‬
‫وسطی ادوار بشمول اکبر اور جہانگیر بھی‬
‫شامل ہیں۔‬

‫‪۱۵۸۴‬ء سے لے کر ‪.۱۵۹۹‬ء تک کا عہد اکبری‬


‫لہور میں مدفون ہے۔ اس پر مصنف کی‬
‫محققانہ طرز نگارش نے تفصیال روشنی ڈالی‬
‫ہے۔ اس سے ُ‬
‫بعد نہیں کہ ان پندرہ سولہ‬
‫برسوں میں قلعہ لہور کا آسمان کئی ایک‬
‫منفی اور مثبت روایات کا چشم دید گواہ‬
‫ہے۔ جس نے دین الہی کی ایک روحانی انجمن‬
‫کو بنتے دیکھا ‪ ،‬مغلوں کا مذہبی جبریت‬
‫سے انکار‪ ،‬مذہبی کٹر پن کو گھٹا کر اسالم‬
‫اور ہندو مت میں براہ راست تصادم نہ‬
‫ہونے دینا ‪ ،‬ہندوؤں کے اکثر فرقوں کا‬
‫اسالمی رسم و رواج کو اپنانا‪ ،‬دوسری طرف‬
‫ہندوؤں کی بعض رسموں کو مسلمانوں کا‬
‫اپنانا ‪ ،‬جیسے بسنت ‪ ،‬مائیوں اور مہندی‬
‫کی رسومات اور پیلے پہناوے۔ جہانگیری‬
‫دور میں گرجاؤں اور گورستان بنانے اور‬
‫عیسائی مشنریوں کو آزادانہ تبلیغ کی‬
‫اجازت جیسے بیسیوں اقدامات ہیں‪ ،‬جنہیں‬
‫دربار اکبری اور جہانگیری کی تائید‬
‫اورحمایت حاصل رہی۔‬

‫تاہم ناول ’ انار کلی‘ میں یہ بھی ایک‬


‫حقیقت ہے کہ جہاں دیدہ دانستہ فراموش‬
‫کردہ حقائق کے کھوجنے کو مصنف نے اہم‬
‫سمجھا‪ ،‬وہیں انسانی حقوق کی پامالی کو‬
‫بھی زیر بحث لیا گیا۔ انار کلی کے واقعہ‬
‫پر بحیثیت حقیقت نگار مصنف نے یہ بات‬
‫شکوہ گزاری کے طور پر بیان کی ہے کہ ’’‬
‫تین سو اکانوے برس گذر گئے‪ ،‬نہ مدعیہ کو‬
‫انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے اور نہ مدعا‬
‫علیہ کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جا‬
‫سکتا ہے‪ ،‬ہاں اگرہم اپنے موضوع سے انصا‬
‫ف کر پائے تو یوں سمجھیے فرد جرم عائد‬
‫ہو گئی‪( ‘‘ ،‬صفحہ ‪)۵۳‬‬

‫آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ‬


‫عہد اکبری کے وقائع نویس اس ضمن میں‬
‫خاموش ہیں اور عہد موجود کے تاریخ دانوں‬
‫اور تجزیہ کاروں نے مقبرہ انار کلی اور‬
‫انار کلی بازار جیسے واضح نشانیوں کو‬
‫جھٹالتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ داری کا‬
‫ثبوت دیا ہے‪ ،‬آج ‪ ۸‬اکتوبر ‪.۱۹۹۰‬ء کو ہم‬
‫لگ بھگ چار سوسال پرانی ایک مبہم سی‬
‫تصویر پر پڑی ہوئی گرد جھاڑنے کی خاطر‬
‫جمع ہوئے ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر‪ ،‬جسے‬
‫ہمارے اجتماعی حافظے اور شہر لہور کی‬
‫سینہ در سینہ روایات نے ہم تک‬
‫پہنچایا۔‘‘ (صفحہ ‪)۵۳‬‬

‫یہ بھی کہا گیا کہ اکبر اعظم کے معاصر‬


‫تاریخ نگاروں نے جان بوجھ کر اس لرزا‬
‫دینے والے واقعہ کو قلمبند کرنے سے گریز‬
‫کیا‪ ،‬کیونکہ انار کلی کو ‪.۱۵۹۹‬ء میں‬
‫زندہ دفن کر دینے کے بعد ‪.۱۶۰۵‬ء سے‬
‫‪.۱۶۱۵‬ء کے درمیانی عرصہ میں جہانگیر کے‬
‫حکم سے انار کلی کا مقبرہ تعمیر ہوا‪ ،‬جو‬
‫اس دور کی لہور کی شاہی عماراتمیں ایک‬
‫شاندار اضافہ تھا۔‬

‫عالمی ادب میں ایک قدیم اور گہری روایت‬


‫ہے‪ ،‬جسے فرانسیسی میں ’ مائز این ابیمی‬
‫‘ کہا جاتا ہے جس میں کہانی کے اندر ایک‬
‫اور کہانی ُ‬
‫بنی جاتی ہے جو بڑی کہانی کے‬
‫تناظر میں اس چھوٹی کہانی کے مراحل طے‬
‫کرتی ہے ۔جیسے قدیم یونانی شاعر ہومر‬
‫اپنی نظم ’اوڈیسی ‘ میں اس تکنیک کو‬
‫پہلی بار استعمال میں لیا۔ درحقیقت‬
‫کہانی اندر کہانی کی بنت کے ذریعے اس سچ‬
‫کو اگلوانا از حد ضروری ہو جاتا ہے جو‬
‫مصنف اپنے تئیں پورے ناول میں مرکزی‬
‫خیال کے تحت لتا ہے۔ ناول ’ انار کلی ‘‬
‫میں یہی تکنیک استعمال کی گئی ہے ‪ ،‬جسے‬
‫مصنف بڑی ہنر مندی سے عکسی حقیقت کے‬
‫پیرائے میں ’ انارکلی‘ جیسے تاریخی‬
‫موضوع کی سچائی کو سامنے لتا ہے۔‬
‫ناول ’ انارکلی‘ میں مصنف کا مقصد اول‬
‫یہی ہے‪ ،‬کہ وہ یہ ثابت کرے ‪،‬کہ انار کلی‬
‫کا کردار کوئی امجیری ‪ ،‬کوئی الوژن ‪،‬‬
‫کوئی واہمہ نہیں بلکہ انارکلی ایک حقیقت‬
‫تھی اور ہے ‪،‬جو مہابلی کے قہر کا نشانہ‬
‫بنی۔ عین اسی تیکنیک کے تحت شکسپئیر‬
‫اپنے ڈرامے ’ ہیلمٹ ‘ میں سچ اگلوانے کے‬
‫لیے کردار اوفیلیا کو استعمال کیا۔ ناول‬
‫’ انار کلی ‘ میں اردو ادب کے مخصوص‬
‫لسانی و تہذیبی پس منظر میں یہ تکنیک‬
‫استعمال کی گئی ہے ‪ ،‬جسے مصنف بڑی ہنر‬
‫مندی سے ’ انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع‬
‫کی عکسی سچائی کو سامنے لنے کے لیے‬
‫بروئے کار لتا ہے۔‬

‫یہاں کہانی کی ابتدا ہی میں ایک وسط‬


‫ایشیائی تیموری خون رگوں میں دوڑاتا شہر‬
‫یار مرزا مرکزی تمثیلی کردار کے روپ میں‬
‫سامنے آتا ہے۔ یہ مغلئی آنکھوں وال‪،‬‬
‫دراز قد نوجوان طالب علم جو پی ایچ ڈی‬
‫کے مقالے کی ریسرچ کرتے ہوئے کہانی کے‬
‫ُس وقت داخل ہوتا ہے‪ ،‬جب مری سے‬
‫اندر ا‬
‫ذرا آگے خانسپور کے مقام پر سپانسرڈ‬
‫فلمی یونٹ بمع اپنے تمام ضروری فلمی‬
‫یونٹ کے ہمراہ ’ انار کلی‘ فلم بنانے کے‬
‫ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے ۔‬
‫فلمی یونٹ کے سیٹ ڈیزائنر مسعود احمد (‬
‫نک نیم ہد ہد ) شہر یار مرزا کے دیرینہ‬
‫دوست ہیں اور یوں مغلئی آنکھوں وال‬
‫کردار وہیں فلمی یونٹ کی انچارچ‬
‫پروڈیوسر میڈم ڈاکٹر سرجیت کور کی بیٹی‬
‫شازیہ سے ملتا ہے ‪ ،‬جسے وہ اپنے تخیل‬
‫میں انار کی کلی پکار اٹھتا ہے۔‬

‫کہانی کی ابتدا میں دو حریف کردارمغلئی‬


‫آنکھوں وال شہر یار مرزا اور ٹیلی ویژن‬
‫اداکار سنی جو ہمہ وقت اپنے آپ کو ہیرو‬
‫ہی سمجھتا ہے کو اس عمدگی سے آمنے سامنے‬
‫لیا گیا ہے کہ وہ ناول کی سطروں سے ہی‬
‫مالحظہ ہو سکتی ہیں ۔ بیڈ منٹن کے کورٹ‬
‫میں جب سنی دھان پان سی لڑکیوں انار کی‬
‫کلی (شازی) اور صفیہ کو ہرا دینے کے بعد‬
‫تفاخرانہ انداز سے آس پاس دیکھتا ہے‪،‬‬
‫اور کُ‬
‫ھال چیلنج دیتا ہے تو شہر یار مرزا‬
‫آگے بڑھتا ہے اور یوں ایک نیا کھیل شروع‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫’’جب شہر یار میرزا نے میچ پوائنٹ لو‬


‫کہتے ہوئے ریکٹ کو جھٹکا دیکر شٹل کاک‬
‫دھیرے سے نیٹ کے ساتھ پش کی تو سنی‬
‫بجائے آگے آنے کے ہانپ کر پیچھے ہٹا اور‬
‫شٹل‪ ،‬اس کے عین سامنے جا گری۔ سنی بغیر‬
‫کوئی پوائنٹ بنائے ایک سیٹ ہار چکا تھا۔‬
‫یہ دیکھ کر کورٹ کے اطراف میں ہاہاکار‬
‫مچ گئی اور جب شہریار مرزا نے سنی سے‬
‫پوچھا کہ ’بیسٹ آف تھری‘ کھیلو گے تو وہ‬
‫پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ریکٹ پھینک کر‬
‫کورٹ سے باہر چال گیا۔ ایسے میں راجہ‬
‫رسالو کے اشارے پر کچھ منچلے اسے دوبارہ‬
‫کورٹ میں لے آئے۔ وہ شہر یار مرزا کے‬
‫ہاتھوں مزید خوار کرنے کی کوشش میں تھے‬
‫کہ ڈاکٹر نذیر برلس کی بروقت مداخلت نے‬
‫سنی کو بچا لیا۔ وہ یہ میچ کیا ہارا‪،‬‬
‫ہیرو سے زیرو ہو گیا۔‘‘ (صفحہ ‪)۶۶‬‬

‫درحقیقت دو کرداروں کے درمیان یہ معمولی‬


‫سا کھیل اور چیلنج پوری کہانی کے اس بڑے‬
‫سچ کو تقویت دیتا ہے جہاں مہا بلی اور‬
‫شیخو انار کلی کے معاملے میں ایک دوسرے‬
‫کے مد مقابل آ جاتےہیں‬
‫یں ۔‬
‫ناول کا ایک باب یہ واقع یوں پیش کرتا‬
‫ہے‪ ،‬کہ ایک روز شام کے وقت پہرے داروں‬
‫کی غفلت کی وجہ سے ایک شخص پاگل کا‬
‫سوانگ رچائے حرم سرا کے اس حصے سے پکڑ‬
‫لیا گیا ‪ ،‬جو صرف شہنشاہ کے لیے مختص‬
‫تھا‪ ،‬شور مچنے پر ظل الہی باہر نکل آئے‪،‬‬
‫گو شہزادہ دانیال نے اس پاگل کو پکڑ‬
‫رکھا تھا لیکن اسے پاگل سمجھ کر چھوڑ‬
‫دیا گیا۔‬

‫’’سال ‪.۱۵۹۴‬ء نومبر کا مہینہ‪ ،‬موسم‬


‫سرما۔ شام کو اندھیرا جلد چھا جاتا ہے۔‬
‫وہ پاگل شخص کون تھا؟ کوئی اور نہیں‬
‫یقینا شہزادہ سلیم جو انار کلی سے ملنے‬
‫ایک پاگل کا بہروپ بھر کر آیا تھا اور‬
‫حرم شاہی کی نگران پہرہ دار خواتین نے‬
‫چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی‪ ،‬لیکن‬
‫دیوان عام کے قریب کھڑے شہزادہ دانیال‬
‫کی اس پر نظر پڑ گئی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر‬
‫‪)۱۰۹‬‬

‫’’ ابو الفضل کے مطابق تو اکبر نے اس‬


‫پاگل شخص کو معافی مانگنے پر جانے دیا‪،‬‬
‫لیکن سر ٹامس ہر برٹ نے اپنے سفر نامہ‬
‫میں لکھا ہے ‪ ،‬کہ جہانگیر کے معافی‬
‫مانگنے پر معاف کر دینے کا وعدہ کر کے‬
‫بادشاہ اسے حرم سرا میں لے آیا۔ حرم سرا‬
‫میں آتے ہی پھر طیش میں آ گیا کہ بیٹے‬
‫کو ایسے مکے مارے کہ وہ گر پڑا۔ ’ اکبر‬
‫چنگھاڑا‪ :‬ابے او احمق اور گدھے تو نے کس‬
‫طرح میرے وعدے پر یقین کر لیا؟ ‘‘ (صفحہ‬
‫نمبر‪)۱۰۹‬‬

‫یہ بات پہلے بھی منظر پر آ چکی تھی کہ‬


‫اکبر کو زہر دینے کی کوشش کی گئی تھی ‪،‬‬
‫لیکن شاہی اطباء کے بروقت عالج کی وجہ سے‬
‫جانبر ہو گیا تھا۔‬

‫’’لگتا ہے کہ اکبر کو پھر ایک بار‬


‫شہزادہ سلیم کے اشارے پر اناد کلی کے‬
‫ہاتھوں زہر دئیے جانے کا خطرہ محسوس‬
‫ہوا۔ اس بد گمانی کی فضا میں چند ماہ‬
‫بعد ‪.۱۵۹۸‬ء میں اکبر نے شہزادہ سلیم کو‬
‫حکم دیا کہ وہ ماورا النہر کی طرف ایک‬
‫فوجی مہم کی قیادت کرے‪ ،‬لیکن سلیم نے‬
‫کسی خدشے کے پیش نظر اس درو دراز مہم پر‬
‫جانے سے انکار کر دیا۔ اس سے باپ بیٹے‬
‫کے درمیان تلخی بڑھی۔ تب یقینا شاہی حرم‬
‫سرا میں انار کلی کی حرکات و سکنات پر‬
‫بہت سی نظریں گڑی ہو ں گی۔ ‘‘ ( صفحہ‬
‫نمبر ‪)۱۱۱‬‬

‫یہ ناول کے حوادث کی تنظیمی خوبی ہے‪ ،‬کہ‬


‫یہ تاریخی المیہ کسی فرد سے کہیں زیادہ‬
‫اس سے وارد ہونے والے اعمال اور زندگی‬
‫کا عکس پیش کرتا ہے۔ جوں جوں مہابلی ‪،‬‬
‫شیخو اور انارکلی کے تاریخی تمثیلی‬
‫واقعات آگے بڑھتے ہیں‪ ،‬اسی طرح ناول کی‬
‫کہانی میں شہر یار مرزا ‪ ،‬انار کی کلی (‬
‫شازی) اور سنی کے واقعات وقت کی ڈور پر‬
‫اسی طرح سیریز آف ایونٹس کی مماثلت میں‬
‫آگے بڑھتے ہیں۔‬

‫’’سنی کو میں نے دل سے چاہا تھا‪ ،‬پر وہ‬


‫دھوکے باز نکال‪ ،‬اب تم درمیان میں آن‬
‫کھڑے ہوئے۔ میں بٹ گئی۔ تم ہی بتاؤ میں‬
‫کیا کروں؟‘‘ ’’ میں ہٹ جاتا ہوں درمیان‬
‫سے‪ ،‬یوں بھی کل خانسپورمیں ہمارا آخری‬
‫دن ہے‪ ،‬شام کو چل پڑیں گے‪ ،‬یہاں سے مری‬
‫کی طرف۔ مجھے وہاں اتار کر تمہاری بس‬
‫آگے نکل جائے گی۔ پیچھے رہ جاؤں گا میں‬
‫اور ہوٹل برائیٹ کے برآمدے میں دھری بید‬
‫کی خالی کرسیاں۔‘‘‬
‫’’ کون کہہ رہا ہے تمہیں پیچھے ہٹ جانے‬
‫کے لیے۔۔۔ لہور سے کوہ مری تک کے سفر‬
‫میں مجھ سے مدیحہ نے سنی کو چھینا‪ ،‬تم‬
‫نے سنی سے مجھے چھین لیا۔ اگر دل لگی‬
‫کرنی ہے تو بے شک پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں‬
‫راجپوت ہوں مدیحہ سے کبھی ہار نہیں‬
‫ماننے کی۔۔۔۔ ’’ کیا تم رات ایک بجے‬
‫گرجا گھر کے ساتھ والی راہداری پر مجھ‬
‫سے ملنے آ سکتے ہو۔ میں ماما کو ان کے‬
‫کمرے تک پہنچا کر نکل آؤں گی۔۔۔ ‘‘‬
‫(صفحہ نمبر ‪)۱۷۴‬‬

‫انار کی کلی (شازی) اور شہر یار مرزا کی‬


‫خانسپور میں ہونے والی یہ گفتگو کہانی‬
‫کو ایک نیا موڑ دیتی ہے۔ جب رات ڈھلتے‬
‫ہوئے گرجے کے بائیں جانب راہداری پر‬
‫سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا شہر یار مرزا‬
‫انتظار کی گھڑیاں گزار رہا تھاکہ دو‬
‫سایوں نے اسے چونکا دیا‪ ،‬ریسٹ ہاؤس سے‬
‫کوئی نکل کر گرجے کی جانب مڑ گیا۔ مرزا‬
‫یہی سوچ رہا تھا کہ سایہ اس کی طرف آنے‬
‫کی بجائے دوسری طرف کیوں مڑ گیا ہے تب‬
‫ایک بوجھل سایہ ریسٹ ہاؤس کی طرف قدم‬
‫بڑھا رہا تھا‪ ،‬جسے چھٹکی ہوئی چاندنی‬
‫میں پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ یہ انار کی‬
‫کلی تھی‪ ،‬اس کے ہاتھ میں چاندی کا کڑا‬
‫چمک رہا تھا۔۔۔۔ تو پہال سایہ کون تھا ؟‬
‫سنی تھا یقینا۔ انار کی کلی نے ایسا‬
‫کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب کچھ‬
‫میں دیکھ لوں گا۔ اگر وہ مجھے یہاں نہ‬
‫بالتی تو کیا میں یہ منظر دیکھ سکتا۔‬
‫شہریار چکرا کر رہ گیا ‪ ،‬کیونکہ اس کا‬
‫احساس فتح مندی ہزیمت میں ڈھل چکا تھا۔‬
‫جب وہ اس کے قریب پہنچا تو جب صبح کے‬
‫آثار جاگ رہے تھے‪ ،‬اس کی ٹانگیں شل‬
‫تھیں‪ ،‬شہریار چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا‬
‫رہا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے۔‬

‫’’تب شازیہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔‬


‫’’ بولو۔۔۔ کیا میں تمہارے لیے اب بھی‬
‫۔۔۔ ؟‘‘ مغلئی آنکھوں وال چپ کھڑا اسے‬
‫تکتا رہا۔ پھر یکلخت تیزی سے پلٹا اور‬
‫بول ’’ بہت دیر ہوگئی۔‘‘‬
‫یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ریسٹ‬
‫ہاوس سے نکل گیا۔‘‘ ( صفحہ ‪)۱۹۶‬‬

‫ناول میں دستاویزی واقعات کی روشنی میں‬


‫ٰ میں کوئی معانی پیدا کر‬
‫مصنف اپنے دعوی‬
‫سکا ہے یا نہیں؟ یہ ناول کا قاری یا‬
‫کوئی تاریخ دان ہی طے کرے گا کہ اگا کہ‬
‫اس دستاویزی سچائی میں حقیقت کا عکس کس‬
‫قدر نمایاں رہا ہے۔ راقم کا منصب نہیں‬
‫کہ وہ اس پر حدود جاری کرے۔ تاہم یہ‬
‫کہنا کافی ہوگا کہ ناول کا متن حقیقتا‬
‫ُس تمثیلی عکس‬
‫اپنے جوہر میں واقعات کی ا‬
‫کو بیان کرتا ہے‪ ،‬جسے افالطون نے عکسی‬
‫حقیقت قرار دیا ہے۔ گو وہ اپنے فلسفیانہ‬
‫نظریات کے جوہر کو حامل وجود اور بصری‬
‫الفاظ کو ثانوی حقیقت کہتا ہے‪ ،‬لیکن‬
‫یہاں مصنف نے اسی فلسفے اور ادب کے‬
‫استاد اول ارسطو کے تخلیقی رحجانات کی‬
‫بنیاد پر اس پورے تاریخی واقعہ کی مربوط‬
‫اور حوالہ جاتی عکسی حقیقت کو بیان کر‬
‫دیا ہے۔ مصنف نے اس المیہ کو بیان کرتے‬
‫ہوئے اس واقعہ کی غنائیت‪ ،‬تاثر آفرینی‪،‬‬
‫طریق کار اور حدود کا مکمل ادراک کیا‬
‫ہے۔ جس عمل کا عکس پیش کیا گیا وہ‬
‫سنجیدہ‪ ،‬مکمل اور خاص حجم کا حامل ہے۔‬
‫اس کی کرافٹ میں فکشن اور حقیقت کا‬
‫لزوال امتزاج رقم کرنے کی شاندار مثال‬
‫قائم کی گئی ہے۔ راقم کی نظر میں اس‬
‫ناول کی تاریخی حیثیت کے عالوہ بھی اور‬
‫کئی سامان موجود ہیں جس سے ناول کی‬
‫زبان‪ ،‬ہیئت‪ ،‬تلفیظ (ڈکشن)‪ ،‬المیہ کے عمل‬
‫اور تاریخی میالن‪ ،‬جذباتی توازن و‬
‫اعتدال‪ ،‬تکمیل اور قطعیت شامل ہیں۔‬

‫’ انار کلی‘ جیسے تاریخی المیہ کی‬


‫داستان کو بیان کرتے ہوئے ناول کے انت‬
‫میں مصنف نے کمال مہارت سے ایک ایسی‬
‫سچائی کو حقیقت کے آہنگ میں فکشنالئز کیا‬
‫ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔‬

‫’’ساری تفصیل سن لی نا آپ نے۔۔۔ وہ کوئی‬


‫اور نہیں۔۔۔ میں ہوں نادرہ۔ شہنشاہ جالل‬
‫الدین محمد اکبر کی ایک لونڈی‪ ،‬جو انار‬
‫کلی کہالئی۔ یہ نام سن رکھا ہے نا آپ سب‬
‫نے۔۔۔ کتنے سال ہوگئے ہیں کہ میں چیخ‬
‫‪I am the‬چیخ کر بتا رہی ہوں کہ‬
‫ایک سو ‪sufferer of male chauvinism،‬‬
‫چھبیس سال ہوگئے ہیں‪ ،‬مجھے میری قبر سے‬
‫بے دخل کر دیا گیا ہے‪ ،‬ہللا کا گھر آباد‬
‫کرنے ے نام پر‪ ،‬گوری چمڑی والوں نے پورے‬
‫چالیس سال میرے مقبرے کو کھیتڈرل چرچ‬
‫بنائے رکھا۔ اب تو گوری چمڑی والے حاکم‬
‫نہیں رہے۔۔۔ چار سو اٹھارہ سال پرانے‬
‫میرے بوسیدہ ڈھانچے کو نکالو اور میڈیکو‬
‫لیگل کروا لو۔ کر لو تسلی‪ ،‬ثابت ہو جائے‬
‫گا کہ میری ناک اور کان کاٹے گئے۔۔۔‬
‫میری موت دم گھٹنے سے ہوئی۔۔۔‘‘‬

‫’’چلو‪ ،‬بی بی چلیں ‪ ،‬پولیس وین سے نیچے‬


‫اترتی ہوئی لیڈی پولیس آفیسر کی آواز‬
‫سنائی دی۔ عین اسی لمحے زرد رنگ کا ایک‬
‫بڑا چھکڑا آن پہنچا‪ ،‬جس سے اتر کر ٹی‬
‫ایم او آفس کی زرد وردی والے چاک و‬
‫چوبند اہلکاروں نے آنا فانا وہ چھوٹا سا‬
‫سائبان کھول دیا اور اس کے سایہ میں‬
‫سجایا گیا مختصر سا سٹیج ڈھا کر سارا‬
‫سامان چھکڑے میں بھرا اور یہ جا‪ ،‬وہ جا۔‬
‫’’ تمہاری عربی لغت میں امراۃ کے یہی‬
‫ٰ درج ہیں نا ۔۔۔ نامکمل‪ ،‬داغ‪ ،‬دھبا‬
‫معنی‬
‫۔۔‬
‫شازی چیخی۔‬

‫’’چلو بی بی چلیں۔ ‘‘‬

‫دیکھتے ہی دیکھتے پولیس آفیسر نے شازی‬


‫کو اپنے حصار میں لیا اور ایک لیڈی‬
‫کانسٹیبل کی مدد سے اپنے بازؤں میں بھر‬
‫کر پولیس وین میں بٹھا لیا۔ شازی نے‬
‫بیٹھے بیٹھے اپنا دائیں ہاتھ باہر نکال‬
‫دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا‪ ،‬تو‬
‫اس کی کالئی میں پہنا چاندی کا کڑا تیز‬
‫دھوپ میں ڈلک رہا تھا۔‬

‫وین چل پڑی تو مجمع چھٹتا گیا‪ ،‬ٹریفک‬


‫رواں ہو گئی لوگوں نے ایک ایک کر کے‬
‫اپنی راہ لی اور شہر یار مرزا بہت دیر‬
‫ہکے بکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ کچھ بھی تو‬
‫نہ کر سکے۔‘‘ (صفحہ ‪۲۴۴‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

You might also like