Professional Documents
Culture Documents
313 پیغمبروں ع
313 پیغمبروں ع
آل فرج وعجل ابراہیم! آل وعلے ابراہیم! علے صلیت کما محمد وآل محمد علے صل الھم محمد
............
ٰ
دعوی نہیں کیا ہے کہ ان کے پاس تمام جہاں تک ھمارا علم ہے دنیا میں اب تک کسی مذھب نے یہ
انبیاء اکرام ع کے اسماء محفوظ ہیں اور نہ ہی قرآن و حدیث میں ایک الکھ چوبیس ھزار انبیاء کے
تمام انبیاء کے نام اور ان کے واقعات تفصیالً بیان کرنے کیu اور چونکہ.. ناموں کا وجود ملتا ہے
قران کا اپنا ایک اسلوب ہے جس.. بھی نہ کیا گیاuضرورت نہ تھی اس لئے ان کی حفاظت کا بندوبست
میں واقعات کو اجمالی طور uپر بیان کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس لئے کہ اس کے مفاھیم انسانیت کے
لئے نمونہء عمل بن سکیں اگر قرآن کا اسلوب کسی معجم کی صورت uمیں ہوتا تو شاید پہلے نبی سے
لیکر آخری نبی تک سب کے نام و واقعات درج کر دئیے جاتے لیکن اس طرح قرآن اپنی فصاحت و
بالغت کھو دیتا اور وہ ایک معجم کی صورت میں قصے کہانیوں کی صورت میں پڑھا جاتا ..قرآن میں
..درج ذیل انبیاء علیہم السالم کے اسماء موجود uہیں
:محمد بن عبد هللا خاتم األنبياء والمرسلين عليه أفضل الصالة والسالم _25
بعض افراد کا کہنا ہے کہ رسول ہللا ص کے اجداد میں سے جو افراد معروف uہیں وہ بھی اپنے دور uکے
tانبیاء میں سے ہو سکتے ہیں لیکن یہ محض ایک قیاس ہے اس کی کوئی محکم دلیل موجود نہیں
........................
ہم اپنی بات کو حرف آخر نہیں سمجھتے ہیں دنیا میں جتنی بھی کتابیں ان میں صرف قرآن ایک ایسی
کتاب ہے جس میں شک نہیں کیا جاسکتا ہے اس کے عالوہ کوئی کتاب اول تا آخر ایسی نہیں جس کے
ایک ایک لفظ کو مستند کہا گیا ہو جہاں تک کہ نہج البالغہ کے بعض خطابات پر بھی علماء نے اشکال
کیا ،،اسی لیے ہم اپنے الفاظ کو حرف آخر نہیں سمجھتے ،،اس گروپ میں پہلے بھی کتاب سلیم بن
قیس پر ایک بحث ہوچکی ہے اب دوبارہ جاری ہے تو ہم نے جو اپنے مطالعہ uمیں اس کتاب کے بارے
میں پڑھا وہ بیان کردیتے ہیں لیکن اس کا مقصد نہ ہی تنقید ہے اور نہ ہی کسی کی دل آزاری ہے بس
اس کو ایک زاویے سے کہ ایک رائے علماء کی یہ بھی ہے اس کو بھی دیکھا جائے جس طرح
مختلف آراء ہوتی ہیں ہم ہر رائے کا احترام کرتے ہیں بس یہ کہ ہم اپنی بات کو حرف آخر بھی نہیں
سمجھتے البتہ ان ابحاث سے بہت کچھ سیکھ بھی رہے ہیں ہللا آپ تمام لوگوں کو سالمت رکھے
!!!!!!!!!
جوں ہی نبی کریم ﷺ کی رحلت سے فاصلہ بڑھتا گیا آپ ﷺ سے منسوب احادیث جعل کرنے اور
شریعت اسالم کے نظام کو درہم برہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ بعض مجہول الحال شخصیات
سے کتب منسوب کر کے مسلمانوں میں ان کی تشہیر کی گئی اس سازش کی آگ میں آج بھی مسلمان
جل رہے ہیں جس کی واضح مثال کتاب "سلیم بن قیس " ہے
کتاب سلیم بن قیس ہاللی
مقالہ نگارمحمدتقی uسبحانی لکھتے ہیں:اس کتاب میں مندرجہ uذیل نکات کواہمیت دی گئی ہے
صحیفہ ملعونہ سے مراد وہ خط ہے جوخلیفہ اول ودوم اوربعض دیگرنے مخفی معاہدہ کے تحت لکھا‘
پیغمبرکی uوفات کے بعدخالفت پرقبضہ uکریں گے۔عقبہ سے مراد
ؐ جس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ وہ
پیغمبرکے دوستوں میں سے تھے لیکن تبوک سے واپسی uپران ؐ ان افراد uکی سازش ہے جوظاہرمیںu
لوگوں نے آپ کی سواری کوگرانے کامنصوبہ بنایا‘ اس واقعہ کوکبھی uجنگ تبوک سے اورکبھیu
اورابوموسی اشعری uکے شامل ہونے کا ذکر کیاگیا
ٰ حجۃالوداع سے مالتے ہیں اس میں خلیفہ اول ودومu
ہے۔ ’’حدیث طاغوت‘‘ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خالفت غصب کرنے والے کوایک تابوت کے
اندربندکرکے uجہنم کے اندرڈا ال جائے گا۔
س طرح کے مشکوک ‘ مبہم و پیچیدہ اعتراضات سے پُر شخصیت سے منسوب کتاب پرعقائد کو۱
:استوار نہیں کیا جاسکتا uان کے مذکورہ تعارف کی روشنی uمیں کئی سوال جنم لیتے ہیں
ا۔ سلیم بن قیس ہاللی کے خاندان قبائل اور عالقہ کا ذکر نہیں ملتا۔کوفہ uخلیفہ دوم کے دور میں آباد ہو ا
یہاں آنے والے مدینہ ،شام یا ایران سے آئے ہیں ان میں سے کسی بھی ایک جگہ سے اس شخص کو
منسوب نہیں کیا گیا ہے۔
۔ جب اس کے خاندان کا اسالم النے کی تاریخ میں تذکرہ نہیں ملتا تو سوال پیدا ہو تا ہے وہ کب مسلمان۲
ہو ئے۔
۔ اگر جنگ صفین میں علی کے ساتھ تھے تو اس جنگ میں علی کا لشکر دو حصوں یعنی خوارج اور۴
دوسرا علی ؑ کے حامیوں میں تقسیم ہوا تھا یہ کس گروہ میں شامل تھے اس کا بھی ذکر نہیں ملتا ۔
۔ جنگ صفین کے بعد علی ؑ کا صحابی uہو نے کا شرف حاصل کرنے واال شخص امام حسن ؑ اور۵
معاویہ کی جنگ میں کہاں تھااس کاکوئی ذکرنہیں ملتا ۔
۔ امام حسین ؑ جب امت اسالمی کوجھنجوڑنے کیلئے مدینہ،مکہ اور کوفہ میں لوگوں سے مخاطب۶
ہوئے تو ان حاالت میں اس شخص کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا ۔
۔ امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد کئی قیام وجود میں آئے جیساکہ قیام توابین ‘قیام مدینہ اور قیام۷
مختاراس میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔
علی کے دور میں جنگ۸ ۔ ان تینوں اماموں کی حیات‘نشیب و فرازکے مراحل سے گزری ہے‘حضرت ؑ
حسن کی معاویہ کے ساتھ ؑ ’’جمل ،صفین اورنہروان ‘‘کے عالوہ دیگر حساس مواقع گذرے ہیں،امام
سجاد کی
ؑ حسین کی دس سالہ تلخ زندگی uکا دور اوراس کے بعدقیام uکادور،امام
ؑ صلح کا تلخ واقعہ ،امام
حیات میں مدینہ کے تاراجی کادور، uلیکن ہمیں ان ادوار میں سے کسی بھی موقع uپر سلیم بن قیس
کاکوئی ذکرنہیں ملتا۔
ب علی میں،کیا سب سے۹ ۔ حجاج بن یوسف نے جب اس کا پیچھا کیا تو اس وقت کوفہ uمیں اصحا ِ
برجستہ و وفادار uشخص سلیم ہی تھا ،اس کے عالوہ کتنے اور اشخاص تھے جو کوفہ چھوڑ uکر یا فرار
کر چکے تھے۔
۔ حجاج عبد الملک بن مروان کا دور ۶۴سے ۶۵ہے ،آیا سلیم اس دورمیں uفرار ہوا؟ پھر ابان بن۱۰
عیاش کے پاس کتنے سال رہا؟
۔ اس نے مجموعہ کتاب کواپنے تک محدود uرکھا اورموت تک اسے مخفی رکھاتواحتضارکی uحالت۱۱
میں کیوں کر اس کا ذکر کیا؟
۔ ابان بن عیاش ایک مجھول انسان تھا ،اگر وہ اس کتاب کواپنے پاس امانت سمجھتا تواسے کتاب۱۲
کسی ایسی شخص کے حوالے کرنا چاہیے تھی جسے امت میں معتبر و موثق uسمجھا جاتا ہو ۔
مندرجہ باال وجوہا ت کو سامنے رکھنے کے بعد ’’سلیم بن قیس‘‘کی شخصیت مشکوک قرار پانے کے
ساتھ ایک افسانہ uظاہر ہوتی ہے ،کیا ایسا کوئی انسان تاریخ میں موجودبھی uتھا یا نہیں؟
باقی آپ محترم دوست اس بحث کو جاری رکھیں ہم بہت کچھ ان ابحاث سیکھ رہے ہیں اور ایسی ابحاث
ایک درست نقطہ نظر کی سمت کے تعین کا ذریعہ بھی ہوسکتی uہیں آپ سب کےلیے ہللا کے بارگاہ میں
دعا کرتے ہیں ہللا پاک آپ لوگوں کا سالمت رکھے
........ !!!......
اجمالی طور پر دیکھا جائے تو اس کتاب سے پرایوں کو اور بعض اپنوں کو سب سے بڑا خوف ان
:نکات سے الحق ہوتا ہے
ؑ
زہرا کے گھرپراجتماع uکرنا۔۵ ۔ بنی ہاشم اوروفادران امیرالمومنین کاحضرتu
ؑ
زہرا کے گھرکو آگ لگانااورآپ کومجروح uکرنا۔۶ ۔ حضرت
باقی باتیں بھی اپنی اپنی جگہ پر اہم ہیں ۔۔۔ لیکن اگریہ تینوں باتیں سچی ہیں ،تو پھر تین ُخلفا ۶ظالم
ثابت ہوتے ہیں اور ہللا کی لعنت کی گرفت میں آ جاتے ہیں اور پھر ان کا چھٹکارا بھی ناممکن ہو جاتا
ہے ۔۔۔
باقی بہت سارے ایسے اصحاب معصومین ہیں کہ جن کے تفصیلی حاالت زندگی ہم تک نہیں پہنچے ہیں
۔۔۔ ذیل میں حسینی شاھرودی صاحب کی اس کتاب کے بارے میں رائے درج کرنا چاہوں گا ۔۔۔۔
سلیم ابن قیس ،ایک بلند مرتبہ،گرانقدر اور قاب ِل اعتماد(ثقہ) انسان تھے۔ان کے مقام کے لیے "،برقی"u
کی اس بات پر گواہی کہ وہ اولیاء اور امیرالمؤمنین علیہ السالم کے بزرگ اصحاب میں سے تھے ،کافی
ہے اس طرح سے عاّل مہ حلّی ؒ نے بھی ان کی عدالت کا حکم دیا ہے ۔کتا ِ
ب غیبت میں نعمانی uکے قول
اصول معتبر میں سے بلکہ ان میں سے سب سے بڑےاصول ہیں ،اس کا سارا ِ ب سلیم
کی بنیاد پر ،کتا ِ
محتوی صحیح ہے اور یا معصوم علیہ السالم سے یا ایسے شخص سے ہے جس کی روایت کی تصدیق ٰ
اور اسے قبول کرنے کے عالوہ کوئی چارہ نہیں ہے ،صادر ہوا ہے ۔وسائل الشیعہ کے مؤلف نے کتاب
کے اختتام میں کہا ہے کہ :کتاب سلیم قابل اعتماد کتابوں میں سے ہے کہ جس کے قرائن اس کے ثبوت
پر قائم uہیں اور یہ کتاب مؤلفین سے تواتر uکی ح ّد تک پہنچی ہے ،یا ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کتاب کی
نسبت اس کے مؤلفین کی طرف صحیح ہے ،اس طرح سے کہ اس میں کسی قسم کا شک باقی نہیں
رہتا ۔ البتہ اس کتاب کے بعض نسخوں میں ،دو مطالب پائے جاتے ہیں ۱ :۔یہ کہ آئمہ ،تیرہ ہیں ،البتہ اس
ب وسائل نے فرمایا ہے " :کتاب سلیم میں سے جو نسخہ ہم تک نسخہ میں غلطیاں موجود ہیں ۔صاح ِ
پہنچا ہے اس میں کسی قسم کا فساد uنہیں پایا جاتا اور شاید جعل کیا گیا فاسد نسخہ اس کے عالوہ ہو ۔اور
اسی وجہ سے وہ نسخہ مشہور uنہیں ہوا اور ہم تک نہیں پہنچا۔" اور شاید مراد یہ ہو کہ آئمہ علیہم السالم
آلہ وسلّم کے ساتھ مال کر تیرہ عدد ہیں ،جیسا کہ دوسرے uنسخوں میں ہے کہ پیغمبر صلّی ہللا علیہ و ٖ
آلہ وسلّم کے ساتھ تیرہ عدد ہیں ۔ ۲۔اسآئمہ فرزندا ِن اسماعیل میں سے ہیں اور پیغمبر صلّی ہللا علیہ و ٖ
کتاب میں محمد ابن ابی بکر کی اپنے باپ کو ان کی موت کے وقت نصیحت ،شامل ہے جبکہ ان کی
عمر تین سال سے بھی کم تھی۔لیکن یہ چیز بھی اس کتاب کو خدشہ دار نہیں کرتی ،کیوں کہ ہم زیادہ
سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نسخہ مخدوش ہے لیکن دوسرے نسخے اس طرح کے مطالب اور
باتوں سے خالی ہیں ۔ بعض بزرگ رجالی علماء نے (میرزا نے رجا ِل کبیر میں ) کہا ہے :جو کچھ ہم
ب سلیم میں سے) اس بات کو بیان کررہا ہے کہ محمد ابن ابی بکر نے اپنے باپ کی تک پہنچا ہے (کتا ِ
موت کے وقت نصیحت کی ،اور یہ چیز ممکن ہے اور اس کتاب کے جعلی ہونے کے حکم پر داللت
ب"نقد الرجال" کے حاشیہ میں کہا ہے :سلیم کی احادیث نہیں کررہی۔اسی uطرح سے " تفرشی " uنے کتا ِ
میں سے زیادہ تر ،شیعہ اور سنی کتابوں میں دوسرے طریقوں سے بھی روایت ہوئی uہیں ،اور یہ بات
خود اس کتاب کی صحت پر داللت کررہی ہے ۔
اور اس رائے سے بھی قطع نظر اگر دیکھا جائے تو اس کتاب کے تمام مندرجات کی احراق باب سیدہ
سالم ہللا علیھا سمیت دیگر معتبر کتب سے تائید ہو جاتی ہے ۔۔ حتی کہ اہلسنت کتب میں بھی ان باتوں
کے واضح اشارے موجود ہیں ۔۔۔۔ لہذا اس کتاب کے مندرجات پر کسی قسم کے اعتراض کا اثر بہر
!صورت uنہیں پڑتا ۔ والسالم
.................
لیکن اس کتاب کے اسناد میں ابان بن ابی عیاش جیسے شخص کا نام اتا ہے جس کے سب یہ کتاب موردu
نزاع بن گئی ہے۔
............
اتحاد ضرور ہونا چاہئے ۔ اچھی بات ہے ۔۔۔ لیکن صرف' uمشترکات' پر ۔۔۔ اختالفی باتیں تو ویسے ہی
اختالفی ہوتی ہیں ،اُن پر اتحاد نہیں ہو سکتا ۔۔۔ !! اگر اتحاد مل کر اور صلح صفائی کے ساتھ رہنے کا
معصومین کا دیا ہوا ہے کہ کبھی دشمنوں کے خالف بھی خود سے پہل نہ
ؑ نام ہے تو اس اتحاد کا درس
علی اپنے ساتھیوں کو حملہ تک کرنے میں پہل نہیں کی جائے ۔۔۔!! جیسا کہ جنگوں میں بھی موال امام ؑ
کرنے دیتے تھے ،جب تک کہ دشمن پہلے حملہ نہ کرے ۔۔۔ تو یہ درس ہے ہمارے لئے ۔۔۔!!! باقی
کتاب پر اختالف ہو سکتا ہے ۔۔۔ لیکن اس کتاب کے مطالب و مندرجات دیگر متعدد طرق اور کتب سے
ثابت ہیں ۔ ہم ان کا انکار نہیں کر سکتے ۔ یہی روش عالمہ مجلسی نے نہج االسرار جیسی متنازعہ اور
اختالفی کتاب کے متعلق بھی اپنائی ہے کہ اس کے جن مندرجات کو انہوں نے بحار میں نقل کیا ہے ،
وہی مستند ہیں اور ان کی تائید دیگر کتب سے بھی ہوتی uہے ۔۔۔ لہذا مکمل طور پر قرٓان کے عالوہ نہ
کوئی کتاب مانی جا سکتی ہے اور نہ رد کی جا سکتی ہے ۔ ایک دوسرے کو ایسے مسائل میں مطعون
نہیں کرنا چاہئے ۔۔۔ بلکہ مسلّمات و متواترات uکی کھوج دیگر کتب سے لگا لینی چاہئے ۔۔۔ سارے کا سارا
دین قرٓان مجید کے عالوہ کسی بھی کتاب میں بند نہیں ہے ۔۔۔ خواہ پھر وہ کتب اربعہ ہی کیوں نہ ہوں ۔۔۔
!!! ..............
ہم نہیں کہ سکتے کہ کتاب سلیم مکمل معتبر یا ثقہ ہے کیونکہ اس پر علمی اشکاالت بھی بہت قوی ہیں
..
خصوصا uمحقق بہبودی جیسی شخصیت نے اس پر سخت علمی تنقید بھی کی ہے حتی کہ اسے کسی
).... :-زندیق کی کارستانی uبھی قرار uدیا ہے
اور عمر بن اذینہ سے اسکی نسبت دینے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کیونکہ وہ ان دنوں فرار تھے
...
لہذا ان سے پوچھنا uیا تایید لینا اسان نہ تھا کہ یہ نسبت انکی طرف uدرست ہے یا نہیں ؟؟
اور ہما رے فقہ میں صحیح ترین کتاب قران کے سوا کوئی کتاب نہیں لیکن کسی بھی کتاب میں
.....موجود روایت کو درایت و سند کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے
یہ دقیق uبحث ہے کیونکہ پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آیا یہ کتاب جس سے منسوب ہے واقعا اسی کی
لکھی ہوئی uہے؟
...پھر دوسرا مرحلہ آتا ہے کہ آیا اس کتاب کی روایات معیار علمی کے مطابق ہیں یا نہیں
میں حیران ہوں کہ آیت ہللا العظمی خامنئی رجال کی اساسی کتب میں تحریف uکا امکان مسترد نہیں
....کرتے جبکہ یہ واضح ہے کہ وہ رجال پر دسترس uرکھنے والے ایک ماہر فن ہیں
..............
اسکی ایک رویات میں ایک مح ّمد بن علي الصيرفي جو کہ بأبي سُمينة کے نام سے معروف uہے .اس
شخص کو بھی علماء رجال امامیہ نے سراحت کے ساتھ مشہور کذاب قرار uدیا ہے ۔
العظمی خوئی رح نے اس کو معجم رجال میں سخت ضعیف کہا ہے ۔
ٰ آیت ہللا
شیخ نجاشی رح نے اس کو سخت ضعیف ،فاسد العقیدہ ،اس کے بارے میں کسی بھی چیز پر اعتماد
نہیں کیا جا سکتا ،یہ کوفہ uمیں اپنے جھوٹ کی وجہ سے مشہور ہوا ۔
عالمہ کشی رح نے کہا ہے کہ شیخ فضل رح نے اپنی بعض کتب میں مشہور کذابوں کا ذکر کیا ہے اور
ان مشہور uجھوٹے اشخاصمیں سے ایک وأبو uسمينة ہے ۔
شیخ طوسی رح نے بھی مح ّمد بن علي الصيرفي uپر جرح کی ہے اور اس کو ضعیف uقرار دیا ہے ۔
...................
لیکن الصیرفی uکے عالوہ اس کتاب کے باقی دو طرق تو معتبر ہیں۔ ان میں سے ایک کے اسناد میں
کچہ مخالفین ضرور موجود uہیں مگر انکی ثقاہت مستند ہے
..............
یہ کتاب حضرت علی ع کے دور uمیں لکھی گیی .اس کتاب کو "سلیم بن قیس" کی طرف منسوب
.کرنے اور نہ کرنے میں شیعہ علماء کے درمیان اختالف پایا جاتا ہے
شیعہ اور اہل سنت کے علماء میں اس کتاب کے بہت سارے موافقین اور مخالفین پائے جاتے ہیں۔
موافقین میں ابن ندیم کہتے ہیں شیعوں کی پہلی کتاب جو منظر uعام پر آگئی وہ "کتاب سلیم بن قیس
ہاللی" ہے۔
نعمانی کہتے ہیں :علماء اور ائمہ معصومصن کی طرف سے حدیث نقل کرنے والے تمام راویوں میں
اس کتاب کے سب سے قدیمی uاور بنیادی uکتابوں میں سے ہونے میں کوئی اختالف نیہں ہے۔
قاضی بدرالدین سُبکی کہتے ہیں :پہلی کتاب جو شیعوں کے لئے لکھی گئی وہ "سلیم بن قیس ہاللی" کی
کتاب ہے۔
میر حامد حسین کہتے ہیں :کتاب سلیم بن قیس ہاللی جس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ کتاب سب سے
قدیمی کتاب ہے بالکل بجا اور حق ہے جس طرح عالمہ مجلسی نے اس کا اعتراف کیا ہے۔
اسکے عالوہ بہت سارے دوسرے علماء اور مجتہدین نے اس کتاب و سلیم بن قیس ہاللی کی طرف
نسبت دی ہے۔
مخالفین
شیخ مفید نے اپنی کتاب تصحیح االعتقاد ،عالمہ حلی نے خالصۃ االقوال ،ابن داوود uحلی نے کتاب
رجال ،محمدتقی شوشتری نے قاموس الرجال میں سلیم بن ہالل کی بنسبت تو موقف لیا ہے لیکن کتاب
کے مضامین کا انکار نہیں کیا ہے۔ بعض معاصر محققین نے بھی کتاب سلیم بن ہاللی کو کئی اشکالت
اور تناقضات کا حامل قرار دیتے ہیں۔
.............
مهدی مهریزی
شریعت مقدسہ اسالم کے سائے میں رہتے ہوئے عورتوں کی انسانی uمعراج اورتکامل uمیں کسی شک
کی گنجائش نہیں۔ خواتین کے لئے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے جوانسانی uموضوعات اورآفاقu
نمایاں فرمائے ان کاعورت کے ماضی uسے تقابل نہیں کیاجاسکتا۔عورت کارشدوتکامل uعلوم کے میدان
میں اورمعنویت uکی راہ میں قابل بحث اورقابل uاثبات ہے۔
اس موضوع uکی قرآن وسنت اورتاریخ صدراسالم uمیں واضح کیاگیاہے اسی طرح مسلمانوں uکی تاریخ
کے دیگرادوارمیں بھی اس پربحث کی جاسکتی ہے۔
قرآن کریم نے معنوی uسیروسلوک کی راہ عورتوں کے سامنے یوں ہموارکی uکہ حضرت مریم اورجنابu
آسیہ (فرعون کی زوجہ) کوتمام uمومنین کے لئے مثال اورنمونہ uقراردیا1 u۔
حضرت مریم کوان عظیم الفاظ ( ”اصطفیک وطہرک“ 2ترجمہ :ہللا نے تمہیں منتخب
کیااورطاہرومطہرقراردیا) سے نوازااوراسی uطرح ان کے معنوی مقام سے آگاہ فرمایا 3۔قرآن کریم کایہ
فتح باب کرنااتنامؤثرثابت ہواکہ تاریخ اسالم میں عارف وزاہد خواتین چمکنے لگیں۔ابوعبدالرحمن سلمی
(۳۲۵۔ )۴۱۲کتاب ”ذکرالنسوة المتعبدات الصوفیات“ 4تالیف کرتاہے اوراس میں اسی عارف خواتین
کاذکرکرکتاہے۔
عبدالرحمن بن احمدجامی(۸۱۷۔)۸۹۸نے کتاب ”نفحات االنس“ 5میں چالیس عارف خواتین کاذکرکیاہے
6عورتوں کامعنوی سیروسلوک راہ میں استحکام وثبات قدم اس حدتک تھا کہ زہری uان کے اوصاف uیوں
:بیان کرتاہے
ماارتدت امراة بعدایمان“۔ کوئی بھی عورت ایمان النے کے بعدمرتدنہیں ہوئی 7۔"
علم کے میدان میں بھی بہت سی خواتین اعلی مقام تک پہنچی ہیں۔اسے بھی قرآن کریم کے مواعظ حسنہ
اورنبی کریم کاتحصیل uعلم کی طرف ترغیب کے مرہون منت جانناچاہئے۔u
پس سیکھنا ،لکھنا ،روایت کرنا ،علوم قرآن وحدیث میں مہارت اورفقہ واصول وغیرہ کے علوم حاصل
کرنایہ سب ایک میدان کاکچھ حصہ ہیں۔
اس مضمون میں کتاب”جامع مسانیدالنسا“کے uتعارف کے بہانے ہم احادیث کے بیان میںعورتوں uکے
کردارکہ حدیث کی حفاظت اورنشرواشاعت میں ان کے گرانمایہ uکردارکوبیان کیاجائے۔
علم رجال کے علماء کہتے ہیں کہ کسی عورت کوروایت uکوعورت ہونے کی بناء پرردنہیں کیاگیا۔
:شوکانی اس بارے میں کہتے ہیں کہ
لم ینقل عن احدمن العلماء بانہ قدتعلقتھااالمة بالقبول من امراة واحدة من الصحابة وھذاالینکرہ من لہ ادنی”
نصیب من علم السنة“ 9
ترجمہ :علماء میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے کسی حدیث کواس لئے
ردکیاہوکہ یہ حدیث کسی عورت نے نقل کیاہوکہ یہ حدیث کسی عورت نے نقل کی ہے۔کتنی ہی احادیث
ہیں جوامت نے قبول کی ہیں جب کہ وہ صحابہ میں سے کسی ایک خاتون کی ہیں اوریہ مطلب اس
شخص کے لئے قابل انکارنہیں جوتھوڑاسابھی احادیث کے بارے علم میں رکھتاہے۔
لم یوثرعن امراة انھاکذبت فی حدیث“ 10۔ نقل حدیث میںعورت سے جھوٹ نہیں ملتا۔"
مسندفاطمہ یامصحف uفاطمہ کے نام سے دس سے زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں کہ جوحضرت فاطمہu
کی روایات اورآپ کے کالم پرمشتمل ہیں 11۔
اس موضوع uپراورکتابیں uبھی دوسرے ناموں سے لکھی جاچکی ہیں جیسے نہج الحیات ،فرہنگ سخنان
فاطمہ 12عوالم سیدة النساء 13وغیرہ۔
بدرالدین زرکشی نے (م )۷۹۴کتاب”االجابة الیراد ما استدرکتہ uعائشة علی الصحابة 14لکھی اوراس
میں صحابہ پرحضرت عائشہ کی تنقیدی روایات جمع کیں۔اس کتاب میں تیس صحابہ پراعتراض والی
نوے احادیث بیان ہوئی ہیں۔ذہبی نے ”اخبار ام المومنین عائشہ“ نامی ایک کتاب تصنیف uکی 15۔
اسی طرح ابن حجر عسقالنی (۷۷۲۔۸۵۲ق) نے ”مسند عائشہ“ لکھی 16کتاب ”موسوعة امھات
المومنین“ میں /۱۴۷۰احادیث ہیں جوآنحضرت کی ازواج نے روایت کی ہیں۔ان کوموضوعاتی شکل میں
جمع کیاگیاہے 17۔
ایسی خواتین جوشیخ اجازہ 18تھیں اوربہت عظیم انسانوں نے ان کے مکتب میں پرورش پائی کم نہیں
ہیں۔ابن حجرعسقالنی نے اکیاسی شیخ اجازہ عورتوں سے اجازے لئے ہیں۔ابن عساکرنے فاطمہ بنت
المنجاکے مکتب حدیث سے کسب فیض کیا 19ابن عربی (۵۶۰۔۶۱۸ق) نے فخرالنساء uسے اجازہ
روایت لیا 20ازہری uاورفراء ”ام السالمة“نامی خاتون سے حدیث نقل کرتے ہیں۔
خطیب بغدادی uنے کریمہ uنامی خاتون سے صحیح بخاری uپڑھی۔سمعانی uاور خطیب نے یہی کتاب
مروزیہ uنامی خاتون سے پڑھی۔ابن جوزی نے مسند شافعی کوفاطمہ uبنت الحسین سے سنا۔
اس طرح کے اور واقعات بھی ہیں 21دورحاضرکی uایرانی خاتون بانوامین کانام بھی نمایاں ہے جنہوں
نے عالمہ امینی صاحب الغدیر اورآیة ہللا مرعشی نجفی جیسی عظیم شخصیت کو اجازہ روایت دیا 22۔
شیعہ واہل سنت کی بہت ساری کتب رجال میں کجھ حصہ خاتون راویوں کے حاالت سے مخصوص ہے
شیعہ کتب کی چندمثالیں یہ ہیں۔
۔رجال ابن داؤد ،ابن داؤدالحلی ،منشورات الرضی ،ص۲۲۴ ،۲۲۲۔(بائیس خاتون راوی)۔۱
۔معجم رجال الحدیث ،آیة ہللا خوئی ،مدینة العلم ،ج۲۳ص۱۷۰۔۱۳۴( ۲۰۱خاتون راوی)۔۳
اہل سنت کے منابع میں سے ایک کتاب یہ ہے۔ تہذیب الکمال ،ابوالحجاج ،دارالفکر ،بیروت ،ج۲۲ص
۲۰۹۔( ۵۰۳خاتون راوی)۔
۔ محدثان شیعہ ،نہالغروی نائینی ،دانشگاہ تربیت استاد ،تہران ۱۳۷۵ش۔یہ کتاب ڈاکٹریٹ کاتحقیقی1
مقالہ ہے جس میں ۱۹۵خاتون راویوں کے حاالت بیان ہوئے ہیں۔
۔ زنان دانشمندان راوی حدیث ،احمدصادقی uاردستانی ،دفترتبلیغات اسالمی قم ۱۳۷۵ش اس کتاب میں2
۱۷۶خاتون راویان حدیث پرمطالعہ وتحقیق uشامل ہے۔اب کتاب”جامع مسانیدالنساء“کامختصرساتعارف
کراتے ہیں۔
جامع مسانیدالنساء میں عورتوں سے منقول احادیث لکھی گئی ہیں۔اس کتاب میں جودوجلدوں پرمشتمل
ہے۱۴۵۲غیرتکراری uاحادیث ہیں اس طرح کہ /۸۱۴احادیث پہلی جلدمیں اور۹۳۸روایات دوسری
جلدمیں ہیں۔جن عورتوں سے احادیث نقل کی ہیں ان کی تعدادسوہے۔ اس کتاب کی احادیث کوجن منابع
سے اخذکیاگیاہے وہ اٹھائیس ہیں۔
۔صحیح مسلم۔۲
۔المستدرک للحاکم۔۵
۔سنن الدارقطنی۔۶u
۔مسندالشافی۔۱۰
۔مسندابی حنیفہ۔۱۱
۔مصنف عبدالرزاق۔۱۲
۔ سنن البہیقی۔۱۶
۔مسندااالمام uاحمد۔۲۰
۔لفتح الربانی۔۲۱u
۔معاجم الطبرانی۔۲۳
۔مسندابن یعلی۔۲۴
۔مسندالبزار۔۲۵u
۔نیل اوالطار۔۲۶u
۔مجمع الزوائد۔للھیثمی۔۲۷u
اس کتاب کے پہلے حصے میں صحیح بخاری uاورصحیح مسلم کی روایات آئی ہیں اوردوسرے حصے
میں دیگرتمام روایات uکابیان ہے۔ روایات کی ترتیب وتنظیم uصحیح بخاری uکی طرزپرہے۔مؤلف uلکھتاہے
جوروایات uضعیف معلوم ہوتی ہیں ان کااس کتاب میں ذکرنہیں ہے۔(ج۲ص)۸۔دونوں جلدوں کے پیش
لفظ میں اہم ترین راوی خواتین کے حاالت اختصارکے ساتھ دئیے گئے ہیں۔
جن خواتین کے حاالت بیان ہوئے ہیں ان کی تعدادچالیس ہے ان میں سے ستائیس پہلی جلدمیں
اورتیراکادوسراجلدمیں ذکرہواہے نبی اکرم کی ازواج کے مختصرحاالت پہلی جلدمیں بیان ہوئے ہیں۔
مؤلف نے حاشیے میں احادیث کے منابع اوت ماخذکوذکرکیاہے اس کے عالوہ سند ،راویوں اوربعض
الفاظ کے متعلق الفاظ کے متعلق چندتوضیحات کابھی اضافہ کیاہے۔اس نے حضرت عائشہ کی راویات
آخرمیں اعالم النساء کی فہرستیں ،اطراف الحدیث اورموضوعات الئے ہیں جن سے قاریu
مستفیدہوسکتاہے۔
یہ کام اس وسیع شکل میں تازگی رکھتاہے اوربہتراورمضبوط کاموں کاباعث بن سکتاہے مؤلف uکاکام
واقعی قابل ستائش ہے۔اگرمولف مندرجہ uذیل نکات پرتوجہ دیتاتوبے شک یہ موجودہ صورت سے بھی
زیادہ بہترکام uہوسکتاتھا۔
۔ اس کتاب میں کوئی واحدطریقہ استعمال نہیں ہواہے۔جس کی وجہ سے احادیث کے اعراب دوجلدوں1
میں ایک دوسرے uسے مختلف ہیں۔بعض احادیث پرمکمل طورپراعراب uلگے ہیں جب کہ بعض میں
ایسانہیں ہے۔
۔ مصنف نے کتاب کی باب بندی اورترتیب میں اپناطریقہ uکاربیان نہیں کیابلکہ یہ معلومات ہمیں کتاب2
اور منابع وماخذ uکوسامنے رکھتے ہوئے ملے ہیں۔
۔ ضروری uتھاکہ کتاب کے دیباچے میں عورتوں کی روایات کی ایک اجمالی تاریخ ،علماء رجال کی5
اس بارے رائے اوروہ کتابیں جوراوی uخواتین کے حاالت پرہیں ان سب کاکچھ بیان ہوجاتاتاکہ uقاری کے
پاس موضوع uکاایک طائرانہ uجائزہ موجودہوتا۔u
ذكرالنسوه المتعبدات الصوفيات uابوعبدالرحمن السلمي ،تحقيق محمود محمد الطناحي ،اول ،مكتبه 4.
.الخانجي قاهره1413 ،هـ1993 ،
نفحات االنس ،عبدالرحمن بن احمد جامي تصحيح مهدي توحيدي پور ،كتاب فروشي uسعدي1336 ،ق ـ 5.
.ص635 ،615
ان كے عالوه اس موضوع uپراوركتابيں بهي شائع هوچكي ہیں جيسے اعالم العابدات الزاهدات،محمد 6.
.احمد درنيقه ـ المؤسسه الجامعيه للدراسات و النشر و التوزيع ،بيروت 1410هـ1990 ،
تحرير المراه فی عصر الرساله ،عبدالحليم ابوشقه ،اول ،دارالقلم ،كويت1410ق ـ ،1990ج ،2ص 7.
،423.بنقل از صحيح بخاري ،ج ،2ص281
.عوالم سيده النساء ،عبدهللا البحراني االصفهاني ،مؤسسه امام المهدي ،قم ج11ص13. 634 -279
االجابه اليراد ما استدركته عائشه علي الصحابه ،بدر الدين زركشي ،تحقيق سعيد االفغاني،الو ،مطبعه 14.
.الهاشمسه ،دمشق ،1939دوم المكتب االسالمي ،بيروت1390 ،ق1970 ،ص212
.مسند عائشه،ابن حجر عسقالني ،اول ،مكتبه السنه ،قاهره 1416ق16. 1995
موسوعه امهات المومنين عبدالصبور شاہیں و اصالح عبدالسالم الرفاعي ،اول ،الزهراء ،قاهره 17.
1412ق ،1991 ،ص565-201
علم رجال كي اصطالح ہے شيخ اجازه يعني ده شخصيت جو دو سروں کواحاديث بيان کر نے كي 18.
.اجازت دے
.بانوي مجتهد ايراني ،ناصر باقري uبيد هندي ،دفتر تبليغات اسالمي قم1371 ،ص ص 113و22. 117
//////////////////////
رسول خدا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ علیھم السالم کے اصحاب میں علم دوست اور بامعرفت
خواتین بھی تھیں۔کہ جنہوں نے روایات کو بیان کر کے اپنی قابلیت کو دکھایا ۔علم رجال کے ایک حصہ
میں ان عورتوں کو متعارف کرایا گیا ہے
اسماء کہ جو عمیس کی بیٹی اور ہمسر uرسول خدا ہیں۔ آپ نے پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب سے
شادی کی اور آپ کے ساتھ ہی حبشہ ہجرت کی 8ہجری میں حضرت جعفر طیار کی شہادت کے بعد
حضرت ابوبکر سے آپ کی شادی ہوئی uاور حضرت محمد بن ابی بکر اس شادی کا ہی ثمر تھے۔
حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد آپ نے امام علی علیہ السالم سے نکاح کیا۔ اورآپ 40ئھ میں فوت
ہوئیں۔ اسماء اسالم میں سبقت النے والوں میں سے تھیں اور ہمیشہ خاندان پیغمبر uسے محبت کرنے
والی اور وفادار رہیں۔ اورجب سے مدینہ آئیں حضرت فاطمہ uزہرا ص کے لئے مہربان ماں کی طرح
اور اسرار کی محرم رہیں۔
آپ نے حضرت زہرا ص کی خواہش کے مطابق uایک تابوت بنوایا تاکہ آپ کا بدن مبارک ظاہر نہ ہو۔
حضرت فاطمہ زہراء ص کی وصیت کے مطابق اسماء نے امام علی ع کو آپ کے پاک بدن کو غسل
دینے میں مدد دی۔
اسماء قضیہ uفدک کے گواہ اور حدیث نحن معاشر uاالنبیاء ال نورث ماتر کناہ صدقہ uکی تکذیب کرنے
والی تھیں لیکن حضرت ابو بکر نے آپ کی گواہی کو قبول نہ کیا۔
امام محمد باقرع uایک روایت میں سات جنتی بہنوں کے نام بیان کرتے ہیں اور ان کے لئے خدا کی
رحمت کے طلبگار تھے۔ اس میں اسماء بنت عمیس کا نام تھا۔
پیغمبر اکرم کی ایک حدیث میں مومن بہنوں میں اسماء کا نام آیا ہے۔
اسماء پیغمبر اکرم اور حضرت فاطمہ uسالم ہللا علیھا سے روایت بیان کرتی ہیں۔
عبدہللا بن جعفر‘ قاسم بن محمد بن ابی بکر‘ فاطمہ بنت علی اور عبدہللا بن عباس اور دوسروں نے آپ
سے حدیث کو سنا۔
//////////////
سالم علیکم رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آل وسلم کو أمي کیوں کہا ہے؟
ایک وجہ یہ ہے کہ مکہ ام القری ہے اور اس حوالے سے آپکو امی کہا جاتا ہے
دوسری uوجہ یہ ہے کہ اپ بظاہر کسی شخص سے پڑہے ہوئے نہ تہے بلکہ براہ راست وحی الہی سے
فیض یافتہ تہے اور اپنے پروردگار uکے تربیت یافتہ تہے اس لیے بہی امی کہا جاتا ہے
امی کے لغوی معنی ان پڑہ کے ہین لیکن یہ ختمی مرتبت صلی ہللا علیہ والہ وسلم کیلئے نہیں کہا
جاسکتا جو علوم اولین و اخرین کے حامل اور ہللا کے رازوں کے امین تہے
یہی فرق ہے مکتب تشیع اور دیگر مکاتب میں کہ ہم اپ کو امی اس معنی مین کہتے ہیں کہ
اپ نے کسی سے نہین پڑہا نہ ہی لکھتے تہے البتہ آپکے کاتب امیر المومنین علیہ السالم تہے جو آپ
کے شاگرد تھے ۔۔
.......
روایات کے مطابق آپ کو امی اس لئے کہا ہے کیونکہ آپ ام القری سے تعلق رکھتے تھے باقی ان پڑھ
ہونے سے متعلق اعتراض کا جواب قرآن مجید ہی نے دیا ہے ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت uنہیں ہے
:قرآن کی آیت
ما کنت تتلو من قبلہ من کتاب و ال تخطہ بیمینک اذا الرتاب المبطلون
یعنی آپ مصلحت کے خاطر پڑھتے نہیں تھے (( نہ کہ یہ معنی ہے کہ آپ کو پڑھنا نہیں آتا تھا )) اور
نہ ہی لکھتے تھے (( کیونکہ پڑھے لکھے لوگوں کا فصیح و بلیغ کالم کا پیش کرنا کوئی تعجب کا معنی
نہیں رکھتا )) جب ایک آدمی جس نے کسی کتاب کو نہ ہی پڑھتا ہو اور نہ ہی لکھتا ہو لیکن اس کا کالم
پڑھے لکھے فصاحت و بالغت کے شہسواروں کے کالموں کو زیر کر لے تو ایک بدترین دشمن بھی
اعتراف کرنے پر مجبور uہو جائے گا کہ ہاں اسے غیبی مدد حاضل ہے ۔۔۔ اسی مصلحت کی بنا پر آپ نہ
پڑھتے تھے اور نہ لکھتے تھے اور اسی مقصد کو قرآن نے بھی ذکر کیا ہے اور آپ کو ان پڑھ کہنا
جائز نہیں ہے ایک تو یہ کہ ان پڑھ ہونا ایک عیب ہے جس کی نسبت نبی پاک ص کی طرف نہیں دی
جا سکتی دوسرا uیہ کہ ان پڑھ اسے کہتے ہیں جسے پڑھنا لکھنا آتا ہی نہ ہو حاالنکہ ہمارے نبی کو
لکھنا پڑھنا آتا تھا کہنا بھی ان کی شان میں گستاخی uہے ۔۔۔ آخری بات یہ ہے کہ کل جو صورت حال تھی
ولی آج بھی ہے
مشرکین اور منافقین کی نظر میں آپ کو لکھنا پڑھنا آتا ہی نہیں تھا مومنوں کی نظر میں آپ پڑھتے
!! لکھتے نہیں تھے تاکہ کافروں کو شک نہ ہو
,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,