Professional Documents
Culture Documents
قاتلان امام حسین کا مزہب
قاتلان امام حسین کا مزہب
:ابن حجر عسقالنی نے اسے صحابی کہا ہے اور بالذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے ،کو نقل کیا ہے
.حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك
اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔
اإلصابة في تمييز الصحابة ج 2ص 167رقم ، 1957دار النشر :دار الجيل – بيروت
... .قالوا :وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ...وحجار بن أبجر العجلي
امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔
أنساب Wاألشراف ج 1ص 411
قال ابن حجر أبو الفضل العسقالني الشافعي Wالمتوفي :852 :عبد هللا بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔
طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
اإلصابة في تمييز الصحابة ج 4ص 61رقم ، ،4630دار النشر :دار الجيل – بيروت
عبد ہللا ازدی نے کہا :اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے
گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔
أنساب Wاألشراف ج 1ص 417
:عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی 4.
قال ابن عبد البر المتوفي :463عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا
...فسماه رسول هللا صلى هللا عليه وسلم عبد الرحمن
اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔
.االستيعاب ج 2ص 834رقم ،1419نشر :دار الجيل – بيروت
:اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا
قال ابن األثير المتوفي630 :هـ :وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد هللا بن زهير األزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن
األشعث Wبن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤالء
.كلهم مقتل الحسين
وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا ساالر تھا اور کربالء میں حاضر ہوا۔
الكامل في التاريخ ج 3ص ، 417دار النشر :دار الكتب العلمية -بيروت
:عزرة بن قيس األحمسی 5.
له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى هللا عليه وسلم وصلى خلفه۔
وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔
:یہ واقعہ اس قدر بڑا ہو گیا تھا کہ موال علی(ع) نے مسجد میں خطبہ پڑھا اور فرمایا
میں نے اس تراویح کے مسئلے میں فقط کوفے میں حکومت اسالمی اور وحدت امت کے لیے زیادہ سختی سے کام نہیں لیا۔
موال علی(ع) کا یہ قول واضح کرتا ہے کہ کوفے کے اکثر لوگ تابع و پیرو کار عمر تھے لھذا یہ کہنا کہ کوفے میں فقط شیعہ رہتے
تھے غلط بات ہو گی۔
علي بن إبراهيم ،عن أبيه ،عن حماد بن عيسي ،عن إبراهيم بن عثمان ،عن سليم بن قيس الهاللي قال :خطب أمير المؤمنين عليه السالم
فحمد هللا وأثني عليه ثم صلي علي النبي صلي هللا عليه وآله ،ثم قال ...قد عملت الوالة قبلي أعماال خالفوا فيها رسول هللا صلي هللا عليه
وآله متعمدين لخالفه ،ناقضين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس علي تركها وحولتها إلي مواضعها وإلي ما كانت في عهد رسول هللا
صلي هللا عليه وآله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي وفرض إمامتي من كتاب هللا عز وجل وسنة
رسول هللا صلي هللا عليه وآله ...وهللا لقد أمرت الناس أن ال يجتمعوا في شهر رمضان إال في فريضة وأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل
بدعة فتنادي بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي :يا أهل االسالم غيرت سنة عمر ينهانا عن الصالة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن
.يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه األمة من الفرقة وطاعة أئمة الضاللة والدعاة إلي النار
:امیر المؤمنین علی (ع) نے خطبہ پڑھا اور کہا
مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام انجام دئیے ہیں کہ انھوں نے ان کاموں میں سنت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی ہے اور انھوں
نے یہ مخالفت جان بوجھ کر کی ہے۔ اب اگر میں لوگوں کو کہوں کہ یہ سنت نہیں ہے اور ان کو سیدھا سنت کا راستہ دکھاؤں تو
خود میرا لشکر مجھ سے دور ہو جائے گا اور اس کام میں کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔
خدا کی قسم میں نے لوگوں کو کہا ہے کہ ماہ رمضان میں مستحب Wنماز کو جماعت کے ساتھ نہ پڑھو کیونکہ یہ کام بدعت ہے۔
میری اس بات پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اے اہل اسالم عمر کی سنت تبدیل کر دی گئی ہے۔ میں نے فقط امت اسالمی میں
تفرقے کے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں کہا بس اتنا کہا ہے کہ بدعت کو انجام دینے واال جھنم میں داخل ہو گا۔
الكافي ،شيخ كليني ،ج ،8ص ،58ح 21
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علی(ع) اپنے زمانے میں بھی کوفے میں شیعہ کو اقلیت میں مانتے تھے۔
کتب اسالمی اور فقھی میں یہ عبارت ذکر ہے کہ « هذا راي كوفي» یعنی یہ نظر و رائے ابو حنیفہ کے پیروکاروں میں سے ایک
کی ہے۔ یہ اس بات کی عالمت ہے کہ شهادت امام حسين (ع) سے چند سال بعد کوفہ حنفیوں کا مرکز بن گیا تھا اور یہ بات کوفے
میں شیعوں کی کثرت سے ہونے کی نفی کرتی ہے۔
:امام حسین(ع) کے قاتل شیعہ آل ابی سفیان
امام حسین(ع) نے روز عاشورا لشکر یزید میں کافی سارے خطبے پڑھے ہیں ۔ان میں سے ایک خطبہ ہے جو امام نے اپنی شھادت
:سے بالکل تھوڑی دیر پہلے پڑھا ہے اور اس قوم ظالم کو اس طرح خطاب کیا ہے
ويحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين ،وكنتم ال تخافون المعاد ،فكونوا أحراراً في دنياكم هذه ،وارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم
ُ .عرُبا ً كما تزعمون
افسوس ہے تم پر اے پیروان آل ابی سفیان ،اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تمہارا قیامت Wکے دن پر بھی ایمان نہیں ہے تو کم از کم
دنیا میں غیرت سے کام لو اور اپنے حسب نسب کی طرف توجہ کرو کہ تم اپنے آپ کو عرب کہتے ہو۔
.مقتل الحسين ،خوارزمي ،ج ،2ص 38ـ بحار األنوار ،ج ،45ص 51ـ اللهوف في قتلي الطفوف ،ص 45