You are on page 1of 6

‫قاتالن امام حسین ع کا مذہب‬

‫امام حسین ع کے زمانے میں کوفہ کے سیاسی شیعہ‬


‫معاویہ کی حکومت ‪ 21‬سال کے طویل عرصہ پر محیط تھی۔ معاویہ نے خلیفہ بننے کے بعد جو اہم کام کئے‪ ،‬وہ یہ تھے کہ‬
‫زیاد بن سمعیہ کو اپنا بھائی قرار دیا (اس بنیاد پر کہ معاویہ کا باپ ابو سفیان نے زیاد کی ماں سمعیہ سے زنا کیا تھا اور اسی زنا‬
‫کی بنیاد پر زیاد پیدا ہوا تھا)‪ .‬موال علی (ع) کے زمانے میں زیاد کوفہ میں تھا اور اس لیے موال علی (ع) کے تمام شیعوں کو بہت‬
‫اچھی طرح جانتا تھا۔‪ .‬معاویہ نے زیاد بن سمعیہ کو بھائی بنا کر اپنا طرفدار بنا لیا‪ ،‬اور پھر کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا اور پھر شاہ‬
‫عبدالعزیز دھلوی کی الفاط میں اب زیاد نطفہ ناتحقیق کی شرارت دیکھئے کہ معاویہ کی رفاقت میں پہال فعل جو اس سے سرزد هوا‬
‫وہ جناب امیر کی اوالد کی عداوت تھی ‪ .‬تحفہ اثنا عشریہ‪ ،‬ص‬
‫زیاد بن سمعیہ نے کوفہ کے اُن تمام شیعوں کو (خاص طور پر مذھبی امامی شیعوں کو)‪ ،‬جو علی ابن ابی طالب کے سخت‪ W‬حامی‬
‫تھے‪ ،‬چن چن کر قتل کیا۔‬
‫البدایہ والنہایہ ‪ ،‬ج ‪3‬ص ‪ ، 51‬حافظ ابن کثیر ‪ ،‬تاریخ کامل‪ ،‬ج ‪ 3‬ص ‪ 245‬؛ ابن اثیر ‪ ]،‬تاریخ طبری‪ ،‬ج ‪ 6‬ص ‪ ، 155‬االستیعاب ‪ ،‬ج‬
‫‪ 1‬ص ‪١٣٨‬‬
‫‪:‬شدت یہ تھی کہ ایک نسل بعد جب زیاد کا بیٹا ابن زیاد گورنر بنا تو اس نے ھانی بن عروہ (جوکہ شیعہ تھے)سے کہا تھا‬
‫ہانی کیا تمہیں نہیں معلوم کہ میرا باپ جب اس شھر میں آیا تھا تو اس نے تمھارے باپ اور حجر کے سوا ان شیعوں میں سے کسی‬
‫کو بھی قتل کئیے بغیر نہیں چھوڑا۔پھر حجر کا جو انجام ہوا وہ بھی تمہیں معلوم ہے۔‬
‫تاریخ طبری ‪ ،‬ج ‪ 4‬حصہ ‪ 1‬ص ‪ 158‬؛ نفیس اکیڈمی کراچی‬
‫اسی طرح حضرت ابن عباس نے امام حسین ع کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ کوفہ میں شیعوں میں ھانی اور دو چار اور‬
‫شیعوں کے عالوہ کوئی شیعہ نہ رہ گیا تھا‪ ،‬چہ جائیکہ کوفہ کی اکثریت اہل بیت کے امامی شیعوں کی ہوتی۔جب ابن عباس امام‬
‫حسین (ع) کے پاس دوسری مرتبہ آئے تو انہوں نے کہا‪ :‬برادر میں چاہتا ہوں کہ صبر کروں لیکن صبر نہیں آتا۔ اس راہ میں مجھے‬
‫آپ کے ہالک ہونے کا خوف ہے۔اہل عراق دغا باز ہیں۔ چنانچہ ہر گز ان کے پاس نہ جائیے۔ اس شھر میں قیام کریں کیونکہ آپ اہل‬
‫حجاز کے رئیس ہیں۔ اگر عراق والے آپ کو بالتے ہیں تو ان کو لکھیں کہ وہ پہلے اپنے دشمنان سے پیچھا چھڑائیں اور صرف اس‬
‫کے بعد ان کے پاس جائیں۔ اگر آپ کو یہاں سے جانا ہی منظور ہے تو یمن کی طرف چلے جائیں کہ وہاں قلعے ہیں اور پہاڑ کی‬
‫گھاٹیاں ہیں‪ ،‬ایک طویل و عریض ملک ہے ‪ ،‬وہاں آپ کے والد کے شیعہ موجود ہیں اور وہاں آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔‬
‫اب سوال یہ ہے کہ کوفہ میں پھر باقی کون لوگ رہ گئے تھے؟‬
‫ت شیخین کے قائل تھے‪ ،‬بلکہ خلیفہ سوم عثمان ابن عفان‬‫تو جواب یہ ہے کہ کوفہ میں صرف وہ لوگ بچے جو کہ نہ صرف خالف ِ‬
‫کی خالفت‪ W‬کے بھی قائل تھے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ موال علی (ع) کے زمانے میں بھی کوفہ کی اکثریت اُن‬
‫ت عثمان ابن عفان کو بھی جائز مانتے تھے کیونکہ وہ اُسی‬‫ت شیخین کے ساتھ ساتھ خالف ِ‬ ‫سیاسی شیعوں پر مشتمل تھی جو کہ خالف ِ‬
‫اصولوں پر ہوئی تھی جس پر خالفت شیخین منعقد ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے جب عقیدتی امامی شیعہ جماعت بشمول مالک بن‬
‫اشتر نے کوفہ میں حضرت عثمان کے خالف بوال تو اہل کوفہ کو ناگوار گزرا اور وہ ان پر حملہ آور ہو گئے(حوالہ ‪ :‬تاریخ طبری ‪،‬‬
‫ج ‪ ، 5‬ب ‪ ، 19‬ص ‪189‬‬
‫مطبوعہ مصر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫قاتالن امام حسین میں اصحاب رسول ص بھی شامل تھے۔۔۔‬
‫‪:‬وہ صحابہ جو لشکر عمر سعد میں تھے اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہوئے‬
‫چند صحابہ کربالء میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اور فرزند رسول کے قتل میں شریک ہوئے۔‬
‫‪:‬ان میں سے چند کے نام ذکر ہو رہے ہیں‬
‫‪:‬كثير بن شهاب الحارثي ‪1 .‬‬

‫‪:‬اس کے صحابی ہونے کے بارے میں‬

‫‪:‬قال أبو نعيم األصبهاني المتوفی ‪430 :‬‬


‫‪.‬كثير بن شهاب البجلي رأى النبي(ص)‬
‫کثیر بن شھاب‪ W‬نے نب ّی (ص) کو دیکھا تھا۔‬
‫تاريخ أصبهان ج ‪ 2‬ص ‪ ، ، 136‬دار النشر ‪ :‬دار الكتب العلمية – بيروت ‪ 1410 -‬هـ‪1990-‬م ‪ ،‬الطبعة ‪ :‬األولى ‪ ،‬تحقيق ‪ :‬سيد‬
‫كسروي حسن‬
‫‪:‬قال ابن حجر‬
‫‪.‬يقال ان له صحبة ‪ ...‬قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون اال الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا‬
‫اس کے صحابی ہونا کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ ساالری دیتے تھے۔‬
‫‪.‬اإلصابة في تمييز الصحابة ج ‪ 5‬ص ‪ 571‬نشر ‪ :‬دار الجيل – بيروت‬
‫‪:‬حجار بن أبجر العجلي ‪2 .‬‬

‫‪:‬ابن حجر عسقالنی نے اسے صحابی کہا ہے اور بالذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا ہے‪ ،‬کو نقل کیا ہے‬
‫‪.‬حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك‬
‫اس نے نبی(ع) کے زمانے کو درک کیا ہے۔‬
‫اإلصابة في تمييز الصحابة ج ‪ 2‬ص ‪ 167‬رقم ‪ ، 1957‬دار النشر ‪ :‬دار الجيل – بيروت‬

‫‪... .‬قالوا‪ :‬وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ‪ ...‬وحجار بن أبجر العجلي‬
‫امام حسین(ع) کو بزرگان کوفہ نے خط لکھے ہیں ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔‬
‫أنساب‪ W‬األشراف ج ‪ 1‬ص ‪411‬‬

‫‪:‬وہ ایک ہزار کے لشکر کی ساالری کرتا ہوا کربالء پہنچا‬


‫‪:‬قال أحمد بن يحيى بن جابر البالذری‬
‫وسرح ابن زياد أيضا ً حصين بن تميم في األربعة اآلالف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين‪ ،‬ووجه‬
‫‪.‬أيضا ً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف‬
‫وہ کربالء میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔‬
‫أنساب‪ W‬األشراف ج ‪ 1‬ص ‪416‬‬
‫‪:‬عبد هللا بن حصن األزدی ‪3.‬‬
‫‪:‬اس کے صحابی ہونے کے بارے میں‬

‫قال ابن حجر أبو الفضل العسقالني الشافعي‪ W‬المتوفي‪ :852 :‬عبد هللا بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔‬
‫طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔‬
‫اإلصابة في تمييز الصحابة ج ‪ 4‬ص ‪ 61‬رقم ‪ ، ،4630‬دار النشر ‪ :‬دار الجيل – بيروت‬

‫‪:‬کربالء میں اس کا امام حسین(ع) کی توھین کرنا‬


‫‪.‬وناداه عبد هللا بن حصن األزدي‪ :‬يا حسين أال تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء‪ W،‬وهللا ال تذوق منه قطرة حتى تموت عطشا ً‬

‫عبد ہللا ازدی نے کہا‪ :‬اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے‬
‫گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔‬
‫أنساب‪ W‬األشراف ج ‪ 1‬ص ‪417‬‬
‫‪:‬عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی ‪4.‬‬

‫‪:‬اس کے صحابی ہونے کے بارے میں‬

‫قال ابن عبد البر المتوفي ‪ :463‬عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا‬
‫‪ ...‬فسماه رسول هللا صلى هللا عليه وسلم عبد الرحمن‬
‫اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(ص) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔‬
‫‪.‬االستيعاب ج ‪ 2‬ص ‪ 834‬رقم ‪ ،1419‬نشر ‪ :‬دار الجيل – بيروت‬

‫‪:‬اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(ع) کے قتل میں شریک ہونا‬
‫قال ابن األثير المتوفي‪630 :‬هـ ‪ :‬وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد هللا بن زهير األزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن‬
‫األشعث‪ W‬بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤالء‬
‫‪.‬كلهم مقتل الحسين‬
‫وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا ساالر تھا اور کربالء میں حاضر ہوا۔‬
‫الكامل في التاريخ ج ‪ 3‬ص ‪ ، 417‬دار النشر ‪ :‬دار الكتب العلمية ‪ -‬بيروت‬
‫‪:‬عزرة بن قيس األحمسی ‪5.‬‬

‫‪:‬اس کے صحابی ہونے کے بارے میں‬


‫قال ابن حجر أبو الفضل العسقالني الشافعي‪ W‬المتوفي‪ :852 :‬عزرة بن قيس بن غزية األحمسي البجلي ‪ ...‬وذكره بن سعد في الطبقة‬
‫األولى۔‬
‫اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔( یعنی صحابی تھا)‬

‫‪.‬اإلصابة في تمييز الصحابة ج ‪ 5‬ص ‪ 125‬رقم ‪ ،6431‬نشر ‪ :‬دار الجيل – بيروت‬


‫‪:‬اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا‬

‫قالوا‪ :‬وكتب إليه أشراف أهل الكوفة ‪ ...‬وعزرة بن قيس األحمسی۔‬


‫اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔‬
‫أنساب‪ W‬األشراف ج ‪ 1‬ص ‪411‬‬

‫‪:‬گھوڑے سواروں کا ساالر‬


‫وجعل عمر بن سعد ‪ ...‬وعلى الخيل عزرة بن قيس األحمسی۔‬
‫أنساب‪ W‬األشراف ج ‪ 1‬ص ‪419‬‬
‫وہ گھوڑے سوار لشکر کا ساالر تھا۔‬
‫‪:‬شھداء کے سر لے کر ابن زیاد کے پاس گیا‬
‫واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأسا ً مع شمر‪ ...‬وعزرة بن قيس األحمسي من بجيلة‪ ،‬فقدموا بالرؤوس على ابن‬
‫زياد۔‬
‫أنساب‪ W‬األشراف ج ‪ 1‬ص ‪424‬‬
‫‪:‬عبـد الرحمن بن َأبْـزى ‪6 -‬‬

‫له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى هللا عليه وسلم وصلى خلفه۔‬
‫وہ صحابی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(ص) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔‬

‫اإلصابة ‪ -‬ابن حجر ‪ -‬ج ‪ 4‬ص ‪239‬‬


‫زیاد ایک ہوشیار و ذہین انسان تھا اور سیاست کو بھی خوب جانتا تھا وہ پہلے شیعیان علی(ع) میں سے تھا لیکن جب وہ معاویہ سے‬
‫مل گیا تو اس نے سخت ترین اور بد ترین مظالم خاندان اور شیعیان علی(ع) پر ڈھائے۔ زیاد وہی بندہ تھا جس نے حجر ابن عدی اور‬
‫کے ساتھیوں کے قتل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔‬

‫‪.‬لسان الميزان‪ ،‬ابن حجر‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪495‬‬


‫مذکورہ مطالب کی روشنی میں واضح ہو گیا کہ واقعہ کربالء کے وقت کوفہ میں کوئی قابل ذکر شیعہ بچا ہی نہیں تھا کہ جو امام‬
‫حسین(ع) سے جنگ کرنے کے لیے کربالء آیا ہو۔ پس کیسے یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ کوفہ کے شیعوں نے امام حسین(ع) کو‬
‫شھید کیا ہے ؟‬
‫کوئی بھی با انصاف انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ شیعوں نے امام حسین(ع) کو خط لکھے ہیں اور آنےکی دعوت دی ہے کیونکہ‬
‫معروف ترین بندے جہنوں نے خط لکھے ہیں وہ شبث بن ربعي و حجار بن أبجر و عمرو بن حجاج و غيره ہیں کہ کسی نے بھی‬
‫نہیں کہا کہ یہ شیعہ تھے۔‬
‫‪:‬تین خلفاء کے دور میں اہل کوفہ کی حالت‬
‫بہت سی روایات اور کتب تاریخی داللت کرتی ہیں کہ اس دور میں اہل کوفہ علی(ع) سے پہلے تین خلفاء کے حامی اور طرف دار‬
‫تھے۔ بہترین دلیل اس مطلب پر یہ واقعہ ہے کہ بہت سے مصنّفین نے اپنی کتابوں اس کو ذکر کیا ہے۔‬
‫وہ یہ کہ ہو جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاھا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے‬
‫امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو بس نے کہا «وا‬
‫عمراه‪ ،‬وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے ہو عمر کی سنت کو کیا کر رہے ؟ اس پر علی(ع) نے فرمایا کہ «قل لهم صلوا» ان‬
‫سے کہو کہ جیسے تمہارا دل ہے نماز پڑھو۔‬
‫وقد روي ‪ :‬أن عمر خرج في شهر رمضان ليال فرأي المصابيح في المسجد ‪ ،‬فقال ‪ :‬ما هذا ؟ فقيل له‪ :‬إن الناس قد اجتمعوا لصالة‬
‫التطوع ‪ ،‬فقال ‪ :‬بدعة فنعمت البدعة ! فاعترف كما تري بأنها بدعة‪ ،‬وقد شهد الرسول صلي هللا عليه وآله أن كل بدعة ضاللة ‪ .‬وقد روي‬
‫أن أمير المؤمنين عليه السالم لما اجتمعوا إليه بالكوفة فسألوه أن ينصب لهم إماما يصلي بهم نافلة شهر رمضان ‪ ،‬زجرهم وعرفهم أن ذلك‬
‫خالف السنة فتركوه واجتمعوا ألنفسهم وقدموا بعضهم فبعث إليهم ابنه الحسن عليه السالم فدخل عليهم المسجد ومعه الدرة فلما رأوه‬
‫! تبادروا األبواب وصاحوا وا عمراه‬
‫روایت ہوئی ہے کہ عمر ماہ رمضان میں رات کو گھر سے باہر آیا دیکھا کہ مسجد میں روشنی ہے۔ عمر نے پوچھا کہ اس وقت‬
‫مسجد میں کیا ہو رہا ہے ؟ کہا گیا کہ لوگ مستحبی نماز پڑھ رہے ہیں( نماز مستحب با جماعت) عمر نے کہا یہ کام بدعت ہے لیکن‬
‫اچھی بدعت ہے۔ خود عمر اعتراف ار رہا ہے کہ یہ کام بدعت ہے۔‬
‫رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ جب علی(ع) خلیفہ بنے تو انھوں نے جب چاھا کہ عمر کی ایجاد کی ہوئی‬
‫بدعت(نماز تراویح) کو ختم کریں تو انھوں نے امام حسن(ع) کو حکم دیا کہ مسجد جائے اور لوگوں کو اس کام سے منع کرے۔ جب‬
‫لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو بس نے کہا «وا عمراه‪ ،‬وا عمراه» عمر کی سنت کو کیا کر رہے کیا تم عمر کی سنت کو ختم کرنا‬
‫چاہتے ہو ؟‬
‫شرح نهج البالغة ابن أبي الحديد از علماي اهل سنت‪ ،‬ج ‪ ،12‬ص ‪ 283‬ـ وسائل الشيعة (اإلسالمية) مرحوم حر عاملي از علماي شيعه‪،‬‬
‫‪.‬ج ‪ ،5‬ص ‪ ،192‬ح ‪2‬‬

‫‪:‬یہ واقعہ اس قدر بڑا ہو گیا تھا کہ موال علی(ع) نے مسجد میں خطبہ پڑھا اور فرمایا‬
‫میں نے اس تراویح کے مسئلے میں فقط کوفے میں حکومت اسالمی اور وحدت امت کے لیے زیادہ سختی سے کام نہیں لیا۔‬
‫موال علی(ع) کا یہ قول واضح کرتا ہے کہ کوفے کے اکثر لوگ تابع و پیرو کار عمر تھے لھذا یہ کہنا کہ کوفے میں فقط شیعہ رہتے‬
‫تھے غلط بات ہو گی۔‬

‫علي بن إبراهيم‪ ،‬عن أبيه‪ ،‬عن حماد بن عيسي‪ ،‬عن إبراهيم بن عثمان‪ ،‬عن سليم بن قيس الهاللي قال‪ :‬خطب أمير المؤمنين عليه السالم‬
‫فحمد هللا وأثني عليه ثم صلي علي النبي صلي هللا عليه وآله‪ ،‬ثم قال‪ ...‬قد عملت الوالة قبلي أعماال خالفوا فيها رسول هللا صلي هللا عليه‬
‫وآله متعمدين لخالفه‪ ،‬ناقضين لعهده مغيرين لسنته ولو حملت الناس علي تركها وحولتها إلي مواضعها وإلي ما كانت في عهد رسول هللا‬
‫صلي هللا عليه وآله لتفرق عني جندي حتي أبقي وحدي أو قليل من شيعتي الذين عرفوا فضلي وفرض إمامتي من كتاب هللا عز وجل وسنة‬
‫رسول هللا صلي هللا عليه وآله ‪ ...‬وهللا لقد أمرت الناس أن ال يجتمعوا في شهر رمضان إال في فريضة وأعلمتهم أن اجتماعهم في النوافل‬
‫بدعة فتنادي بعض أهل عسكري ممن يقاتل معي‪ :‬يا أهل االسالم غيرت سنة عمر ينهانا عن الصالة في شهر رمضان تطوعا ولقد خفت أن‬
‫‪.‬يثوروا في ناحية جانب عسكري ما لقيت من هذه األمة من الفرقة وطاعة أئمة الضاللة والدعاة إلي النار‬
‫‪:‬امیر المؤمنین علی (ع) نے خطبہ پڑھا اور کہا‬
‫مجھ سے پہلے خلفاء نے ایسے کام انجام دئیے ہیں کہ انھوں نے ان کاموں میں سنت رسول خدا(ص) کی مخالفت کی ہے اور انھوں‬
‫نے یہ مخالفت جان بوجھ کر کی ہے۔ اب اگر میں لوگوں کو کہوں کہ یہ سنت نہیں ہے اور ان کو سیدھا سنت کا راستہ دکھاؤں تو‬
‫خود میرا لشکر مجھ سے دور ہو جائے گا اور اس کام میں کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔‬
‫خدا کی قسم میں نے لوگوں کو کہا ہے کہ ماہ رمضان میں مستحب‪ W‬نماز کو جماعت کے ساتھ نہ پڑھو کیونکہ یہ کام بدعت ہے۔‬
‫میری اس بات پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اے اہل اسالم عمر کی سنت تبدیل کر دی گئی ہے۔ میں نے فقط امت اسالمی میں‬
‫تفرقے کے ڈر سے کسی کو کچھ نہیں کہا بس اتنا کہا ہے کہ بدعت کو انجام دینے واال جھنم میں داخل ہو گا۔‬
‫الكافي‪ ،‬شيخ كليني‪ ،‬ج ‪ ،8‬ص ‪ ،58‬ح ‪21‬‬
‫اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ علی(ع) اپنے زمانے میں بھی کوفے میں شیعہ کو اقلیت میں مانتے تھے۔‬

‫‪:‬شیعوں سے خالی کوفہ‬


‫مہم ترین افراد کہ جہنوں نے امام حسین(ع) سے جنگ کی اور امام کو شھید کیا ان میں عمر بن سعد بن أبي وقاص و شمر بن ذی‬
‫الجوشن و شبث بن ربعی و حجار بن أبجر و حرملة بن كاهل و سنان وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔‬
‫جتنے بھی افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں ان میں سے ایک فرد بھی شیعہ معروف و مشھور نہیں ہے۔‬

‫کوفہ مرکز حنفيان‪ (:‬پیروان ابو حنیفہ)‬

‫کتب اسالمی اور فقھی میں یہ عبارت ذکر ہے کہ « هذا راي كوفي» یعنی یہ نظر و رائے ابو حنیفہ کے پیروکاروں میں سے ایک‬
‫کی ہے۔ یہ اس بات کی عالمت ہے کہ شهادت امام حسين (ع) سے چند سال بعد کوفہ حنفیوں کا مرکز بن گیا تھا اور یہ بات کوفے‬
‫میں شیعوں کی کثرت سے ہونے کی نفی کرتی ہے۔‬
‫‪:‬امام حسین(ع) کے قاتل شیعہ آل ابی سفیان‬
‫امام حسین(ع) نے روز عاشورا لشکر یزید میں کافی سارے خطبے پڑھے ہیں ۔ان میں سے ایک خطبہ ہے جو امام نے اپنی شھادت‬
‫‪:‬سے بالکل تھوڑی دیر پہلے پڑھا ہے اور اس قوم ظالم کو اس طرح خطاب کیا ہے‬

‫ويحكم يا شيعة آل أبي سفيان! إن لم يكن لكم دين‪ ،‬وكنتم ال تخافون المعاد‪ ،‬فكونوا أحراراً في دنياكم هذه‪ ،‬وارجعوا إلي أحسابكم إن كنتم‬
‫‪ُ .‬عرُبا ً كما تزعمون‬
‫افسوس ہے تم پر اے پیروان آل ابی سفیان‪ ،‬اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے اور تمہارا قیامت‪ W‬کے دن پر بھی ایمان نہیں ہے تو کم از کم‬
‫دنیا میں غیرت سے کام لو اور اپنے حسب نسب کی طرف توجہ کرو کہ تم اپنے آپ کو عرب کہتے ہو۔‬
‫‪.‬مقتل الحسين‪ ،‬خوارزمي‪ ،‬ج ‪ ،2‬ص ‪ 38‬ـ بحار األنوار‪ ،‬ج ‪ ،45‬ص ‪ 51‬ـ اللهوف في قتلي الطفوف‪ ،‬ص ‪45‬‬

You might also like