Professional Documents
Culture Documents
ہیں
:اس کتاب میں مالک اشتر جیسے فاسق کو حضرت عثمان کے قتل سے بری کرنے کے لیے ایک روایت پیش کی گئی ہے
ابن إدريس ،عن حسن بن فرات ،عن أبيه ،عن عمير بن سعد ،قال :لما رجع علي من الجمل وتهيأ لصفين اجتمعت النخع
حتى دخلوا على األشتر ,فقال :هل في البيت إال نخعي؟ فقالوا :ال ,فقال :إن هذه األمة عمدت إلى خيرها فقتلته ۔۔الخ
عمیر بن سعید کہتے ہیں :کہ موال علی جنگ جمل سے واپس لوٹنے کے بعد جنگ صفین کی تیاری شروع کر دی قبیلہ
نخع کے لوگ جمع ہو کر مالک اشتر کے پاس ٓائے۔ اشتر نے کہا (بیٹھے ہوئے لوگوں سے ):اس گھر میں نخعی کے عالوہ
بھی کوئی قبیلہ کا فرد ہے؟،تو انہوں نے جواب دیا :نہیں ،پھر مالک اشتر نے کہا:اس امت نے اپنے بہترین انسان (حضرت
عثمان ) کا قصد کیا اور اس کو قتل کر ڈاال۔۔۔
]مصنف ابن ابی شیبہ برقمؒ[37784 :
لیکن یہ روایت امام شعبی کے مقابل ہے اور امام شعبی اوثق ہیں عمیر بن سعید کے مقابل اور مغازی کے بھی بڑے امام
ہیں ۔
:امام ابو نعیم ایک روایت بیان کرتے ہیں اپنی سند سے
حدثنا أبو أحمد الغطريفي ،وسليمان بن أحمد ،قاال :حدثنا أبو خليفة ،ثنا حفص بن عمر الحوضي ،ثنا الحسن بن أبي جعفر ،ثنا
مجالد ،عن الشعبي ،قال :لقي مسروق األشتر ،فقال :مسروق لألشتر :قتلتم عثمان؟ قال :نعم قال :أما والله لقد قتلتموه صواما
قواما
امام شعبی فرماتے ہیں :مسروق اشتر سے مال تو اشتر سے کہا کہ کیا تم نے حضرت عثمان کا قتل کیا ہے ؟ تو اشتر نے
جواب دیا ہاں۔
تو مسروق نے کہا واللہ تم نے ان (حضرت عثمان) کو روزے کی حالت میں کھڑے مار دیا
]حلية األولياء ،ج ،۱ص [۵۷
اس روایت پر دو اعتراض وار د ہو سکتے ہیں کہ حسن بن عجالن المعروف ابن ابی جعفر ضعیف ہے
تو ہم کو اس سے اعتراض نہیں ۔ کیونکہ و ہ اس میں منفرد نہیں اور شاہد و متابعت میں مقبول ہے
اور دوسرا اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ مجالد ضعیف ہے تو اس پر ہم کو اعتراض ہے جسکو بھی مجالد میں ضعیف نظر ٓاتا
ہے تو وہ ہمارا رد لکھے بڑے شو ق سے ۔۔۔
اور جیسے امام عالء بن منھال نے روایت بیان کر رکھی ہے جسکو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے
ویسے ہی مجالد نے امام شعبی سے بیان کر رکھی ہے ۔
أخبرنا أبو عبيد .عن مجالد .عن الشعبي .وغيره قال أقام علي بعد وقعة الجمل بالبصرة خمسين ليلة ثم أقبل إلى الكوفة
واستخلف عبد الله بن عباس على البصرة .ووجه األشتر على مقدمته إلى الكوفة فلحقه رجل فقال :من استخلف أمير المؤمنين
على البصرة؟ قال :عبد الله بن عباس .قال :ففيم قتلنا الشيخ بالمدينة أمس .۔۔۔۔الخ
امام شعبی کہتے ہیں کہ کہ موال علی پھر کوفہ ٓائے اور حضرت ابن عباس کو جانشین مقرر کیا بصرہ کا ۔ اور اشتر کوفہ کی
طرف جانے کے لیے روانہ ہوا نکے حلقہ میں ایک ٓادمی کی طرف سے کہاگیا کہ بصرہ کا امیر کس کو بنایا گیا ہے ؟ تو کہا
عبداللہ ابن عباس تو (اشتر) نے کہا تو ہم نے مدینہ میں کل شیخ (حضرت عثمان) کو کیوں شہید کیا ؟ (اگر امیر بصرہ کا
حضرت ابن عباس نے بننا تھا تو )
]الطبقات الکبری برقم[۸۸:
یحیی بن سعید القطان جیسا متشدد بھی امام جعفر صادق پر مجالد کو مقدم کرتے تھے ۔
ٰ اور امام
یحیی بن سعید القطان جو کہ امام جعفر کے بارے کہتے ہیں کہ امام جعفر سے زیادہ مجھے مجالد محبوب ہے (روایتٰ امام
حدیث میں )
:اس قول کو نقل کرکے امام ذھبی فرماتے ہیں
وقال علي :عن يحيى بن سعيد ,قال :أملى علي جعفر بن محمد الحديث الطويل -يعني :في الحج -ثم قال :وفي نفسي
.منه شيء ,مجالد أحب إلي منه
.قلت :هذه من زلقات يحيى القطان ,بل أجمع أئمة هذا الشأن على أن جعفرا أوثق من مجالد ,ولم يلتفتوا إلى قول يحيى
میں (الذھبی) کہتا ہوں یہ (جرح ) یحیی القطان کی غلطیوں میں سے ہے بلکہ اس طرح کے بڑے بڑے ائمہ اجماع کیا ہے
کہ جعفر ،مجالد سے اوثق ہے
اور یحیی کی قول کی طرف نہیں دیکھا جائیگا۔
]سیر اعالم النبالء[
معلوم ہوا امام جعفرصادق اوثق ہیں مجالد سے اور مجالد بھی امام ذھبی کے نزدیک مقبول ہے لیکن امام جعفر سے کم ۔ اور
امام ذھبی نے یہی موقف محدثین کی طرف منسوب بھی کیا ہے ۔امام ذھبی انکو فقط حدیث میں لین یعنی کمزور قرار دیتے
تھے لیکن ضعیف نہیں یعنی انکے نزدیک یہ راوی صدوق درجہ کا تھا
جیسا کہ امام ذھبی میزان االعتدال میں اس پر لین کا اطالق کیا ہے اور سیر اعالم م
(حصرت عثمان) کو شہید کروایا اور حضرت اماں حضرت موال علی کا گورنر مالک االشتر کا اعتراف کے ہم نے اس بوڑھے
عائشہ کی مالک االشتر کی مذمت
َسل ّ َ َم الل َّ ُه َ
عل َي ْ ِه ِ ,إ ن ّ َُه ل َيْ َس بِابْ ِني سیدہ عائشہؓ نے فرمایا:ل َا
کرے ،وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔ ترجمہ :الله اُس(مالک االشتر) پر کبھی سالمتی نہ
مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کیا اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے
شيبة ،جلد ،۷صفحہ نمبر (۵۳۲ )مصنف ابن أبي
:الجواب
اس روایت پر متعرض نے دو بنیادی اعتراضات کیے ہیں
اور پہال قول جناب نے امام ذھبی کا نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :ہم سب سے پہلے اعتراض پر ٓاتے ہیں
:ذہبیؒ نے فرمایا
العالء بن المنهال :والد قطبة ،عن هشام بن عروة ،فيه جهالة
ترجمہ :عالء بن منہال ،یہ قطبہ کے والد تھے ،ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے ،ان میں جہالت ہے (یعنی یہ مجہول
ہیں)۔
]ديوان الضعفاء ،صفحہ نمبر ،۲۸۰رقم[۲۸۹۲ :
عرض ہے یہ قول امام ذھبی کا اپنا نہیں بلکہ عقیلی کا نقل کیا ہے اور دیوان الضعفاء میں امام ذھبی کا یہ منہج ہے کہ وہ
بغیر ناقد کا نام لکھے وہ جرح فقط نقل کر دیتے ہیں
انکا نہیں بلکہ عقیلی کا ہے سب سے پہلے امام ذھبی سے ثبوت کہ یہ قول
المغنی میں اسکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :امام ذھبی اپنی دوسری تصنیف
العالء بن المنهال عن هشام بن عروة ،ال يتابع عليه ،وال يعرف إال به
عالء بن منھال جو کہ ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں انکی متابعت نہیں ہوتی ،اور میں سوائے اسکے کچھ نہیں جانتا
(اسکے بارے)
)الضعفاء الکبیر للعقیلی ،برقم (1372 :
اور العالء بن منھال کی صریح توثیق کے سامنے عقیلی کی جرح ال یتابع علیہ کو دلیل بنانا یقینن علم رجال سے شغف نہ
رکھنے واال ہو سکتا اور کوئی نہیں
غیر مستند قرار دیا ہے کیونکہ عقیلی کی عادت ہے وہ ثقہ سے ثقہ کیونکہ محدثین نے امام عقیلی کی ال یتابع علیہ جرح
راوی پر بھی یہی جرح کر دیتے تھے
جو کہ عقیلی کی ال یتابع علیہ کی حقیقت بیان کرتے معتدل محقق عبدالحئ لکھنووی یہاں تک کہ غیر مقلدین کے بقول
:ہوئے لکھتے ہیں
اور کثیر کتب جیسا کہ میزان وغیرہ میں اہل شان راویان کے بارے یہ جرح منقول ہوئی ہے عقیلی کی کہ ال یتابع علیہ جسکا
کثیر محدثین علماء نے رد کیا ہے
اور اس باب میں انکی جرح ال یتابع علیہ ثقات راویان کے بارے قبول نہیں ہوگی
اور اسی طرح امام ذھبی نے اکثر راویان کے بارے عقیلی سے یہ الفاظ نقل کر کے شدید رد کیا عقیلی کا
)الرفع التکمیل ص ۴۰۶
تو معلوم ہوا کہ عقیلی متشدد و متعنت تھے ال یتابع علیہ جرح کرنے میں کثیر ثقات کے بارے تو اس کا رد کیا گیا ہے اور
متعرض کا ایک ثقہ ثبت راوی کے بارے عقیلی جیسے ناقد کے ان الفاظ کو دلیل بنانا بے فائدہ ہے
اب چلتے ہیں دوسرے اعتراض کی طرف جسکو پڑھ کر میرا سر چکرا گیا کہ ایک رجال کا علم رکھنے واال بندہ یہ بات کیسے
کر سکتا ہے ؟ یا ان سے بہت بڑی فحش خطاء ہوئی ہے
جیسا کہ وہ منھال کی صریح توثیق کا رد کرتے ہو ایک ایسی عجیب بات کہی جسکا مجھے سر پیر نہ مل سکتا چناچہ
:موصوف لکھتے ہیں
:اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی کہ امام ابو زرعہؒ نے فرمایا
العالء بن المنهال والد قطبة ثقة
ترجمہ :عالء من منہال ،قطبہ کا والد ثقہ ہے۔
]الجرح والتعديل البن أبي حاتم ،جلد ،۶صفحہ نمبر [۳۶۱
یہ قول ثابت ہی نہیں ،بالسند منقول ہے۔ اس کے عالوہ امام عجلیؒ نے اس کو ثقہ کہا ہے مگر امام عجلیؒ متساہل ہیں۔
[الثقات للعجلي ط الدار ،جلد ،۵صفحہ نمبر ]۴۶۸متساہل کی توثیق معبر نہیں ،لہذا شبہ جہالت بھی ہے اور توثیق کا محکم
اثبات بھی نہیں۔
:الجواب
عرض ہے کہ امام ابو زرعہ تو امام ابن ابی حاتم کے شیخ ہیں جیسا کہ انکے والد امام ابو حاتم شیخ ہیں امام ابن ابی
حاتم کے تو جب وہ امام ابو زرعہ کا قول نقل کرتے ہیں تو انکا سماع براہ راست امام ابو زرعہ سے ہوتا ہے
اس میں سند کا روال متعرض نے کس اصول سے لگایا ہے ؟ جو خود امام ابو زرعہ کا شاگرد ہے وہ سند کیسے بیا ن کریگا ؟
اگر یہ کتاب الجرح والتعدیل میں نظر کرتے تو دیکھ لیتے کہ امام ابو زرعہ سے تو امام ابن ابی حاتم کا سماع ثابت ہے اور
ٓاج تک مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یہ اعتراض کیا ہو جیسا کہ کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے
اگر انکے علم میں یہ نہیں کہ اما م ابن ابی حاتم کا سماع امام ابو زرعہ سے ہے یا نہیں تو اسکے دالئل اسی کتاب میں
:ہیں
اور جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ شاید انہوں نے سمجھا ہوگا کہ امام ابن ابی حاتم عبدالرحمن سے ابو زرعہ سے بیان کرتے
ہیں
جبکہ یہ عبد الرحمن خود امام ابن ابی حاتم ہیں اور یہ ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ کتاب الجرح والتعدیل امام ابن
ابی حاتم کے شاگرد نے نقل کی ہے تو وہ پہلے امام ابن ابی حاتم کا نام لیتے ہیں اور پھر انکا امام ابو زعہ سے قول نقل
کرتے ہیں
امام ابن ابی حاتم کا مکمل کالم درج ذیل ہے :اب
العالء بن المنهال الغنوى سمع عاصم بن كليب وهشام بن عروة ومهندا القيسي روى عنه ابن إدريس وأبو اسامة وزيد بن الحباب
.وابنه قطبة بن العالء وأحمد بن عبد الله بن يونس سمعت أبي يقول ذلك ،قال أبو زرعة العالء بن المنهال والد قطبة ثقة
عالء بن منھال جنہوں نے سماع کیا ہے عاصم سے اور ہشام سے اور القیسی سے ،اور ان سے بیان کرنے والے ابن ادریس ،
ابو سلمہ ،زید بن حباب اور قطبہ بن عالء (انکے بیٹے) اور احمد بن عبداللہ بن یونس االندلسی ہیں
یہی میں نے اپنے والد (ابو حاتم) سے سنا
اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ عالء یہ قطبہ کے والد ہیں اور ثقہ ہیں
برقم(1992 :ُ )الجرح والتعدیل ،
حد ہے اس میں کونسی سند درکار ہے اور کیسی سند درکار ہے ؟؟؟؟؟؟
دعوی کرنا کہ
ٰ :خود اتنی بڑی فحش خطاء کرنا اور پھر علماء کثیر پر یہ
''اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی ''
اب اس بات پر ہنسا جائے یا رویا جائے امید ہے اپنی اصالح کرینگے عکاشہ صاحب ۔
باقی امام عجلی کی صریح توثیق اور امام ابن حبان کی بھی صریح توثیق جو کہ معروف راوی کے بارے ہے انکو فقط مجہول
کہہ کر ہضم جو کرنے کی کوشش کی وہ بھی باطل ہوئی انکے ساتھ امام ابو زرعہ ہیں تو یہ راوی متفقہ علیہ ثقہ ہے
فحش ہے اب ٓاتے ہیں تیسرے اعتراض کی طرف جو اس سے بھی زیادہ
:الجواب
عرض ہے یہاں متعرض کو بہت بڑی خطاء ہوئی ہے اصل میں یہ جو راوی ہے
روایت کا راوی نہیں ہے بلکہ یہ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب الجمل کا عبداللہ بن یونس المرادی االندلسی یہ اس جزوی
راوی ہے اور امام ابو بکر ابن ابی شیبہ کے شاگرد بقی بن مخلد کا خاص شاگرد تھے
تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن یونس المرادی االندلسی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ کتاب جمل کا راوی نہ کہ جزوی روایت کا
ساری کتاب الجمل اسی راوی ہی سے مروی ہیں
تو گویا جناب نے اس راوی پر اعتراض کر کے پوری مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الجمل کا ہی رد کر دیا ہے انجانے میں
:اگر جناب سند پر غور کرتے تو انکو یہ بات عیاں ہو جاتی جیسا کہ اس روایت کی سند یوں ہے مصنف میں
حدثنا
عبد الله بن يونس ،قال :حدثنا بقي بن مخلد ،قال :حدثنا أبو بكر ،قال حدثنا أبو أسامة ،قال :حدثني العالء بن 37757 -
المنهال ،قال حدثنا عاصم بن كليب الجرمي ،قال :حدثني أبي قال
یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ حدثنا کے بعد عبداللہ بن یونس ہے وہ کہتے ہیں مجھے بیان کی بقی بن مخلد نے وہ کہتے ہیں
مجھے بیان کیا ابو بکر ابن ابی شیبہ نے
اور چونکہ یہ کتاب تو امام ابن ابی شیبہ کی ہے اصل سند اب ابو سلمہ سے شروع ہوتی ہے جس میں ٓاگے عالء راوی ہے
جسکی جید توثیق اوپر ثابت ہو چکی ہے
جبکہ عبداللہ بن یونس تو مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الجمل کا راوی ہے
مذکورہ روایت کے بار باقی تمام کتاب کی اگلی روایات امام ابن ابی شیبہ کے بعد شروع ہوتی ہیں کیونکہ کتاب جمل اب
کی سند پہلی بار فقط نقل ہوتی ہے نسخہ میں
اب چونکہ عبداللہ بن یونس بھی کوئی عام راوی نہیں اور نہ ہی مجہول بلکہ انکی اتنی توثیق ثابت ہے جتنی ایک کتاب
بیان کرنے والے راوی کے لیے درکار ہوتی ہے اور نہ بھی ہوتی تو مصنف ابن ابی شیبہ تو متواتر سے علماء میں ثابت ہے تو
اسکے کتاب کے سند کے راوی پر اعتراض کرنا ال علمی کے عالوہ کچھ نہیں
ِ
وثالث مائةٍ الباجي .تُوفّي (رحمه الله) :في َش ْه َر َرمضان سن َة ثالثين
ّ وقال لِي أبو ُم َ
حمد َ عنه جماعة
ُ .حدثنا
ّ
عبداللہ بن یونس المرادی جو قرطبہ کے رہنے والے تھے اور انکی کنیت ابو محمد ہے اور یہ القبری سے معروف تھے
انہوں نے سماع کیا ہے بقی بن مخلد سے بہت زیادہ اور یہ انکے صحبت میں رہنے والے تھے ،اور احسن بن سعد وہ ٓاخری
شخص ہیں جو ان سے روایت کرنے والے ہیں
اور انہوں نے سماع کیا ہے محمد ب ن سالم ،احمد بن میسر اور سعید بن عثمان وغیرہم سے
اور ان سے لوگوں کی کثیر تعداد نے سماع کیا ہے
)تاریخ االندلس ابن الفرضی برقم(680 :
بھی انکے بارے یوں بیان کرتے ہیں :اور دوسرے اندلس کے محدث ابن الضبی
تو معلوم ہوا یہ صاحب کتب تھے اور اگر یہ جزوی روایت کے راوی بھی ہوتے تو کتاب سے بیان کرنے کی تصریح کے بعد
انکے ضبط کی دلیل کی بھی ضرورت نہ ہوتی
)-بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل األندلس ،أبو جعفر الضبي برقم(961 :
ایک راوی کے ترجمہ میں انکی مصنف عبدالرزاق بیان کرنے کو لکھتے ہیں :اسی طرح امام ذھبی
.ع من :والده جميع ما عنده ،من ذلك (مصنف ابن أبي شيبة) بروايته ،عن القبري ،عن بقي بن مخلد ،عنه
انہوں نے سماع کیا ہے والد سے اور جمع کیا جس میں ایک مصنف بن ابی شیبہ بھی جو بروایت القبری (عبداللہ بن یونس
الندلسی) اور وہ بقی بن مخلد کےطریق سے انکو بیان کی
)سیر اعالم النبالء ،برقم(۴۱:
:اسی طرح ایک مقام پر انکو محدث کا لقب دیتے ہوئے لکھتے ہیں
تو ایک کتاب کے راوی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس سے جماعت بیان کرنے والی تھی اور یہ بقی بن مخلد کے خاص
تالمذہ تھے اور انہی سے مصنف ابن ابی شیبہ روایت کرتے تھے جو کہ متفقہ علیہ ہے
:تو پس یہ روایت ثابت ہوئی جس میں یہ خود تصریح کرتا ہے حضرت عثمان کے قتل کی جوکہ متعرض نے بھی مانا ہے
اس صریح اور سند جید سے روایت کو رد کرنا ایک فضول بات ہوگی اتنے صریح دالئل پر مطلع ہونے کے بعد
اس سے ثابت ہوا کہ بظاہر وہ لوگ جو قتل خلیفہ سوم مین ملوث تھے وہ موال علی کے ساتھی بنے ہوئے تھے جسکی وجہ
سے حضرت امیر معاویہ زمینی حقائق میں اس طرح اجتیہاد میں اپنے اعتبار سے اجتیہاد پر تھے کہ موال علی انکو ہمارے
حوالے کریں جبکہ موال علی نے کسی حکمت کی وجہ سے انکو حوالے نہ کیا ۔