You are on page 1of 6

‫مالک اشتر قاتل تھا حضرت عثمان کا اور اسکی زبان سے اقرار پر مبنی روایات متعدد اسانید سے مروی

ہیں‬

‫‪ :‬اس کتاب میں مالک اشتر جیسے فاسق کو حضرت عثمان کے قتل سے بری کرنے کے لیے ایک روایت پیش کی گئی ہے‬
‫ابن إدريس‪ ،‬عن حسن بن فرات‪ ،‬عن أبيه‪ ،‬عن عمير بن سعد‪ ،‬قال‪ :‬لما رجع علي من الجمل وتهيأ لصفين اجتمعت النخع‬
‫حتى دخلوا على األشتر ‪ ,‬فقال‪ :‬هل في البيت إال نخعي؟ فقالوا ‪ :‬ال ‪ ,‬فقال‪ :‬إن هذه األمة عمدت إلى خيرها فقتلته ۔۔الخ‬

‫عمیر بن سعید کہتے ہیں ‪ :‬کہ موال علی جنگ جمل سے واپس لوٹنے کے بعد جنگ صفین کی تیاری شروع کر دی قبیلہ‬
‫نخع کے لوگ جمع ہو کر مالک اشتر کے پاس ٓائے۔ اشتر نے کہا (بیٹھے ہوئے لوگوں سے )‪:‬اس گھر میں نخعی کے عالوہ‬
‫بھی کوئی قبیلہ کا فرد ہے؟‪،‬تو انہوں نے جواب دیا‪ :‬نہیں‪ ،‬پھر مالک اشتر نے کہا‪:‬اس امت نے اپنے بہترین انسان (حضرت‬
‫عثمان ) کا قصد کیا اور اس کو قتل کر ڈاال۔۔۔‬
‫]مصنف ابن ابی شیبہ برقمؒ‪[37784 :‬‬

‫‪ :‬اسکو امام حاکم نے بھی اپنی سند سے روایت کیا ہے‬


‫حدثنا أبو العباس‪ ،‬ثنا أحمد بن عبد الجبار‪ ،‬ثنا عبد الله بن إدريس‪ ،‬عن الحسن بن فرات القزاز‪ ،‬عن أبيه‪ ،‬عن عمير بن سعيد‬
‫قال ۔۔۔۔الخ‬
‫“ قال الحاکم‪ :‬هذا حديث وإن لم يكن له سند فإنه معقد‪ .‬صحيح اإلسناد في هذا الموضع‬
‫على شرط مسلم – ]التعليق – من تلخيص الذهبي[‬
‫]مستدرک للحاکم برقم‪[4571 :‬‬

‫لیکن یہ روایت امام شعبی کے مقابل ہے اور امام شعبی اوثق ہیں عمیر بن سعید کے مقابل اور مغازی کے بھی بڑے امام‬
‫ہیں ۔‬
‫‪ :‬امام ابو نعیم ایک روایت بیان کرتے ہیں اپنی سند سے‬
‫حدثنا أبو أحمد الغطريفي‪ ،‬وسليمان بن أحمد‪ ،‬قاال‪ :‬حدثنا أبو خليفة‪ ،‬ثنا حفص بن عمر الحوضي‪ ،‬ثنا الحسن بن أبي جعفر‪ ،‬ثنا‬
‫مجالد‪ ،‬عن الشعبي‪ ،‬قال‪ :‬لقي مسروق األشتر‪ ،‬فقال‪ :‬مسروق لألشتر‪ :‬قتلتم عثمان؟ قال‪ :‬نعم قال‪ :‬أما والله لقد قتلتموه صواما‬
‫قواما‬

‫امام شعبی فرماتے ہیں ‪ :‬مسروق اشتر سے مال تو اشتر سے کہا کہ کیا تم نے حضرت عثمان کا قتل کیا ہے ؟ تو اشتر نے‬
‫جواب دیا ہاں۔‬
‫تو مسروق نے کہا واللہ تم نے ان (حضرت عثمان) کو روزے کی حالت میں کھڑے مار دیا‬
‫]حلية األولياء ‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص ‪[۵۷‬‬

‫اس روایت پر دو اعتراض وار د ہو سکتے ہیں کہ حسن بن عجالن المعروف ابن ابی جعفر ضعیف ہے‬
‫تو ہم کو اس سے اعتراض نہیں ۔ کیونکہ و ہ اس میں منفرد نہیں اور شاہد و متابعت میں مقبول ہے‬

‫اور دوسرا اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ مجالد ضعیف ہے تو اس پر ہم کو اعتراض ہے جسکو بھی مجالد میں ضعیف نظر ٓاتا‬
‫ہے تو وہ ہمارا رد لکھے بڑے شو ق سے ۔۔۔‬

‫اور جیسے امام عالء بن منھال نے روایت بیان کر رکھی ہے جسکو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے‬
‫ویسے ہی مجالد نے امام شعبی سے بیان کر رکھی ہے ۔‬

‫أخبرنا أبو عبيد‪ .‬عن مجالد‪ .‬عن الشعبي‪ .‬وغيره قال أقام علي بعد وقعة الجمل بالبصرة خمسين ليلة ثم أقبل إلى الكوفة‬
‫واستخلف عبد الله بن عباس على البصرة‪ .‬ووجه األشتر على مقدمته إلى الكوفة فلحقه رجل فقال ‪ :‬من استخلف أمير المؤمنين‬
‫على البصرة؟ قال‪ :‬عبد الله بن عباس‪ .‬قال‪ :‬ففيم قتلنا الشيخ بالمدينة أمس‪ .‬۔۔۔۔الخ‬
‫امام شعبی کہتے ہیں کہ کہ موال علی پھر کوفہ ٓائے اور حضرت ابن عباس کو جانشین مقرر کیا بصرہ کا ۔ اور اشتر کوفہ کی‬
‫طرف جانے کے لیے روانہ ہوا نکے حلقہ میں ایک ٓادمی کی طرف سے کہاگیا کہ بصرہ کا امیر کس کو بنایا گیا ہے ؟ تو کہا‬
‫عبداللہ ابن عباس تو (اشتر) نے کہا تو ہم نے مدینہ میں کل شیخ (حضرت عثمان) کو کیوں شہید کیا ؟ (اگر امیر بصرہ کا‬
‫حضرت ابن عباس نے بننا تھا تو )‬
‫]الطبقات الکبری برقم‪[۸۸:‬‬

‫اسکی سند حسن درجہ سے کم نہیں ہے ۔‬

‫یحیی بن سعید القطان جیسا متشدد بھی امام جعفر صادق پر مجالد کو مقدم کرتے تھے ۔‬
‫ٰ‬ ‫اور امام‬

‫یحیی بن سعید القطان جو کہ امام جعفر کے بارے کہتے ہیں کہ امام جعفر سے زیادہ مجھے مجالد محبوب ہے (روایت‬‫ٰ‬ ‫امام‬
‫حدیث میں )‬
‫‪ :‬اس قول کو نقل کرکے امام ذھبی فرماتے ہیں‬
‫وقال علي‪ :‬عن يحيى بن سعيد‪ ,‬قال‪ :‬أملى علي جعفر بن محمد الحديث الطويل ‪-‬يعني‪ :‬في الحج‪ -‬ثم قال‪ :‬وفي نفسي‬
‫‪.‬منه شيء‪ ,‬مجالد أحب إلي منه‬
‫‪.‬قلت‪ :‬هذه من زلقات يحيى القطان‪ ,‬بل أجمع أئمة هذا الشأن على أن جعفرا أوثق من مجالد‪ ,‬ولم يلتفتوا إلى قول يحيى‬
‫میں (الذھبی) کہتا ہوں یہ (جرح ) یحیی القطان کی غلطیوں میں سے ہے بلکہ اس طرح کے بڑے بڑے ائمہ اجماع کیا ہے‬
‫کہ جعفر‪ ،‬مجالد سے اوثق ہے‬
‫اور یحیی کی قول کی طرف نہیں دیکھا جائیگا۔‬
‫]سیر اعالم النبالء[‬

‫معلوم ہوا امام جعفرصادق اوثق ہیں مجالد سے اور مجالد بھی امام ذھبی کے نزدیک مقبول ہے لیکن امام جعفر سے کم ۔ اور‬
‫امام ذھبی نے یہی موقف محدثین کی طرف منسوب بھی کیا ہے ۔امام ذھبی انکو فقط حدیث میں لین یعنی کمزور قرار دیتے‬
‫تھے لیکن ضعیف نہیں یعنی انکے نزدیک یہ راوی صدوق درجہ کا تھا‬
‫جیسا کہ امام ذھبی میزان االعتدال میں اس پر لین کا اطالق کیا ہے اور سیر اعالم م‬

‫(حصرت عثمان) کو شہید کروایا اور حضرت اماں‬ ‫حضرت موال علی کا گورنر مالک االشتر کا اعتراف کے ہم نے اس بوڑھے‬
‫عائشہ کی مالک االشتر کی مذمت‬

‫ازقلم اسد الطحاوی‬

‫َسل ّ َ َم الل َّ ُه َ‬
‫عل َي ْ ِه ‪ِ ,‬إ ن ّ َُه ل َيْ َس بِابْ ِني‬ ‫سیدہ عائشہؓ نے فرمایا‪:‬ل َا‬
‫کرے‪ ،‬وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔‬ ‫ترجمہ‪ :‬الله اُس(مالک االشتر) پر کبھی سالمتی نہ‬
‫مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کیا‬ ‫اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے‬
‫شيبة‪ ،‬جلد ‪ ،۷‬صفحہ نمبر ‪(۵۳۲‬‬ ‫)مصنف ابن أبي‬

‫اس روایت پر کمزور اعتراضات کا تحقیقی جائزہ‬


‫از قلم ‪ :‬اسد الطحاوی الحنفی‬

‫‪ :‬متعرض روایت کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬

‫‪:‬۔ اس کے عالوہ ایک روایت ہے کہ سیدہ عائشہؓ نے فرمایا‪۳‬‬


‫ل َا َسل ّ َ َم الل َّ ُه َ‬
‫عل َي ْ ِه ‪ِ ,‬إ ن ّ َُه ل َي ْ َس بِابْ ِني‬
‫ترجمہ‪ :‬الله اُس پر کبھی سالمتی نہ کرے‪ ،‬وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔‬
‫]مصنف ابن أبي شيبة‪ ،‬جلد ‪ ،۷‬صفحہ نمبر ‪[۵۳۲‬‬
‫اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کیا۔ یہ بھی ضعیف ہے‪،‬‬
‫‪:‬اس کا راوی عالء بن منہاج مجہول ہے۔ امام ذہبیؒ نے فرمایا‬
‫العالء بن المنهال‪ :‬والد قطبة‪ ،‬عن هشام بن عروة‪ ،‬فيه جهالة‬
‫ترجمہ‪ :‬عالء بن منہال‪ ،‬یہ قطبہ کے والد تھے‪ ،‬ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے‪ ،‬ان میں جہالت ہے (یعنی یہ مجہول‬
‫ہیں)۔‬
‫]ديوان الضعفاء‪ ،‬صفحہ نمبر ‪ ،۲۸۰‬رقم‪[۲۸۹۲ :‬‬
‫‪:‬امام عقلی رحمہ اللہ نے فرمایا‬
‫عل َي ْ ِه‬ ‫ع ْن ِه َشا ِم بْ ِن ُ‬
‫ع ْر َو َة‪ ،‬ل َا يُتَابَ ُع َ‬ ‫ال َ‬ ‫َاء بْ ُن ال ِْمن ْ َه ِ‬
‫ال َْعل ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬عالء من منہال‪ ،‬یہ ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے‪ ،‬اور ان کی روایات کی کوئی متابعت نہیں (یعنی منفرد و‬
‫عجیب روایات بیان کرتے تھے)۔‬
‫]الضعفاء الكبير للعقيلي‪ ،‬جلد ‪ ،۳‬صفحہ نمبع ‪ ،۳۴۳‬رقم‪[۱۷۳۲ :‬‬
‫یاد رہے کہ یہ جرح ہے۔‬
‫‪:‬اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی کہ امام ابو زرعہؒ نے فرمایا‬
‫العالء بن المنهال والد قطبة ثقة‬
‫ترجمہ‪ :‬عالء من منہال‪ ،‬قطبہ کا والد ثقہ ہے۔‬
‫]الجرح والتعديل البن أبي حاتم‪ ،‬جلد ‪ ،۶‬صفحہ نمبر ‪[۳۶۱‬‬
‫یہ قول ثابت ہی نہیں‪ ،‬بالسند منقول ہے۔ اس کے عالوہ امام عجلیؒ نے اس کو ثقہ کہا ہے مگر امام عجلیؒ متساہل ہیں۔‬
‫[الثقات للعجلي ط الدار‪ ،‬جلد ‪ ،۵‬صفحہ نمبر ‪ ]۴۶۸‬متساہل کی توثیق معبر نہیں‪ ،‬لہذا شبہ جہالت بھی ہے اور توثیق کا محکم‬
‫اثبات بھی نہیں۔‬
‫ابن عماد الحنبلی‬ ‫ِ‬ ‫اس کے عالوہ اس روایت کا راوی عبد الله بن يونس األندلسي بھی ثقہ نہیں۔ اس کی کوئی توثیق نہیں ہے۔‬
‫‪:‬نے صرف اتنا کہا‬
‫عبد الله بن يونس القبري األندلسي صاحب بقي بن مخلد‪ ،‬وكان كثير الحديث مقبوال‬
‫ترجمہ‪ :‬عبد اللہ بن یونس القبری االندلسی بقی بن مخلد کا شاگرد تھا‪ ،‬کثرت سے حدیث بیان کرنے واال مشہور آدمی ہے۔‬
‫]شذرات الذهب في أخبار من ذهب‪ ،‬جلد ‪ ،۴‬صفحہ نمبر ‪[۱۷۱‬‬
‫ابن عماد کوئی ناق ِد حدیث نہیں اور یہ کوئی توثیق نہیں۔‬ ‫ِ‬ ‫ّاول تو‬

‫‪:‬الجواب‬
‫اس روایت پر متعرض نے دو بنیادی اعتراضات کیے ہیں‬

‫۔ اس روایت کا بنیادی راوی العالء بن منھال مجہول ہے‪۱‬‬


‫۔ اس روایت کا راوی عبداللہ بن یونس االندلسی مجہول ہے‪۲‬‬

‫اور پہال قول جناب نے امام ذھبی کا نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬ ‫‪ :‬ہم سب سے پہلے اعتراض پر ٓاتے ہیں‬

‫‪:‬ذہبیؒ نے فرمایا‬
‫العالء بن المنهال‪ :‬والد قطبة‪ ،‬عن هشام بن عروة‪ ،‬فيه جهالة‬
‫ترجمہ‪ :‬عالء بن منہال‪ ،‬یہ قطبہ کے والد تھے‪ ،‬ہشام بن عروہ سے روایت کرتے تھے‪ ،‬ان میں جہالت ہے (یعنی یہ مجہول‬
‫ہیں)۔‬
‫]ديوان الضعفاء‪ ،‬صفحہ نمبر ‪ ،۲۸۰‬رقم‪[۲۸۹۲ :‬‬

‫عرض ہے یہ قول امام ذھبی کا اپنا نہیں بلکہ عقیلی کا نقل کیا ہے اور دیوان الضعفاء میں امام ذھبی کا یہ منہج ہے کہ وہ‬
‫بغیر ناقد کا نام لکھے وہ جرح فقط نقل کر دیتے ہیں‬

‫انکا نہیں بلکہ عقیلی کا ہے‬ ‫سب سے پہلے امام ذھبی سے ثبوت کہ یہ قول‬

‫المغنی میں اسکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬ ‫‪ :‬امام ذھبی اپنی دوسری تصنیف‬

‫يه َج َهال َة ذكره ال ْعقيلِ ّي ‪-‬‬


‫ع ْر َوة ِف ِ‬ ‫ال َْعل َاء بن ال ْمن ْ َهال َوا ِلد ق ُْطبَة َ‬
‫عن ِه َشام بن ُ‬
‫عالء بن منھال جو کہ ھشام سے روایت کرتے ہیں ان میں جہالت ذکر کی ہے عقیلی نے‬
‫)المغنی فی الضعفاء‪ ،‬برقم‪(4192 :‬‬

‫اور عقیلی کا کالم پڑھیں تو وہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے‬

‫العالء بن المنهال عن هشام بن عروة‪ ،‬ال يتابع عليه‪ ،‬وال يعرف إال به‬
‫عالء بن منھال جو کہ ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں انکی متابعت نہیں ہوتی ‪ ،‬اور میں سوائے اسکے کچھ نہیں جانتا‬
‫(اسکے بارے)‬
‫)الضعفاء الکبیر للعقیلی ‪ ،‬برقم ‪(1372 :‬‬

‫اور العالء بن منھال کی صریح توثیق کے سامنے عقیلی کی جرح ال یتابع علیہ کو دلیل بنانا یقینن علم رجال سے شغف نہ‬
‫رکھنے واال ہو سکتا اور کوئی نہیں‬

‫غیر مستند قرار دیا ہے کیونکہ عقیلی کی عادت ہے وہ ثقہ سے ثقہ‬ ‫کیونکہ محدثین نے امام عقیلی کی ال یتابع علیہ جرح‬
‫راوی پر بھی یہی جرح کر دیتے تھے‬

‫جو کہ عقیلی کی ال یتابع علیہ کی حقیقت بیان کرتے‬ ‫معتدل محقق عبدالحئ لکھنووی‬ ‫یہاں تک کہ غیر مقلدین کے بقول‬
‫‪ :‬ہوئے لکھتے ہیں‬

‫كثيرا ما تَجِ د ِفي ال ِْمي َزان َوغَيره من كتب اهل ّ َ ْأ‬


‫ْعلماء ِفي‬‫عل َي ْ ِه ال َ‬
‫عن ال ْعقيلِ ّي بانه ل َا يُتَابع عليهوقد رد َ‬ ‫الش ن ِفي ال ْ‬
‫ْجرح ال َْمنْقُول َ‬ ‫َ‬
‫كثير‬
‫عل َيْ ِه َول َا تجاسره ِفي الْكَل َام ِفي ال ِثّقَات االثبات‬
‫اضع على جرحه بقوله ل َا يُتَابع َ‬ ‫من ال َْم َو ِ‬
‫عل َيْ ِه ِفي تَ ْر َج َمة‬
‫شد النكير َ‬
‫ّ‬ ‫نه النَّقْل ِفي كتبه لكنه‬ ‫ع ُ‬ ‫والذهبي وان اكثر َ‬

‫اور کثیر کتب جیسا کہ میزان وغیرہ میں اہل شان راویان کے بارے یہ جرح منقول ہوئی ہے عقیلی کی کہ ال یتابع علیہ جسکا‬
‫کثیر محدثین علماء نے رد کیا ہے‬
‫اور اس باب میں انکی جرح ال یتابع علیہ ثقات راویان کے بارے قبول نہیں ہوگی‬
‫اور اسی طرح امام ذھبی نے اکثر راویان کے بارے عقیلی سے یہ الفاظ نقل کر کے شدید رد کیا عقیلی کا‬
‫)الرفع التکمیل ص ‪۴۰۶‬‬

‫تو معلوم ہوا کہ عقیلی متشدد و متعنت تھے ال یتابع علیہ جرح کرنے میں کثیر ثقات کے بارے تو اس کا رد کیا گیا ہے اور‬
‫متعرض کا ایک ثقہ ثبت راوی کے بارے عقیلی جیسے ناقد کے ان الفاظ کو دلیل بنانا بے فائدہ ہے‬

‫صریح توثیق کے مقابل‬ ‫تو عقیلی کی جرح ساقط ہوئی‬

‫اب چلتے ہیں دوسرے اعتراض کی طرف جسکو پڑھ کر میرا سر چکرا گیا کہ ایک رجال کا علم رکھنے واال بندہ یہ بات کیسے‬
‫کر سکتا ہے ؟ یا ان سے بہت بڑی فحش خطاء ہوئی ہے‬
‫جیسا کہ وہ منھال کی صریح توثیق کا رد کرتے ہو ایک ایسی عجیب بات کہی جسکا مجھے سر پیر نہ مل سکتا چناچہ‬
‫‪ :‬موصوف لکھتے ہیں‬
‫‪:‬اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی کہ امام ابو زرعہؒ نے فرمایا‬
‫العالء بن المنهال والد قطبة ثقة‬
‫ترجمہ‪ :‬عالء من منہال‪ ،‬قطبہ کا والد ثقہ ہے۔‬
‫]الجرح والتعديل البن أبي حاتم‪ ،‬جلد ‪ ،۶‬صفحہ نمبر ‪[۳۶۱‬‬
‫یہ قول ثابت ہی نہیں‪ ،‬بالسند منقول ہے۔ اس کے عالوہ امام عجلیؒ نے اس کو ثقہ کہا ہے مگر امام عجلیؒ متساہل ہیں۔‬
‫[الثقات للعجلي ط الدار‪ ،‬جلد ‪ ،۵‬صفحہ نمبر ‪ ]۴۶۸‬متساہل کی توثیق معبر نہیں‪ ،‬لہذا شبہ جہالت بھی ہے اور توثیق کا محکم‬
‫اثبات بھی نہیں۔‬

‫‪ :‬الجواب‬

‫عرض ہے کہ امام ابو زرعہ تو امام ابن ابی حاتم کے شیخ ہیں جیسا کہ انکے والد امام ابو حاتم شیخ ہیں امام ابن ابی‬
‫حاتم کے تو جب وہ امام ابو زرعہ کا قول نقل کرتے ہیں تو انکا سماع براہ راست امام ابو زرعہ سے ہوتا ہے‬

‫اس میں سند کا روال متعرض نے کس اصول سے لگایا ہے ؟ جو خود امام ابو زرعہ کا شاگرد ہے وہ سند کیسے بیا ن کریگا ؟‬

‫اگر یہ کتاب الجرح والتعدیل میں نظر کرتے تو دیکھ لیتے کہ امام ابو زرعہ سے تو امام ابن ابی حاتم کا سماع ثابت ہے اور‬
‫ٓاج تک مجھے نہیں معلوم کہ کسی نے یہ اعتراض کیا ہو جیسا کہ کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے‬

‫اگر انکے علم میں یہ نہیں کہ اما م ابن ابی حاتم کا سماع امام ابو زرعہ سے ہے یا نہیں تو اسکے دالئل اسی کتاب میں‬
‫‪ :‬ہیں‬

‫حدثنا عبد الرحمن نا أبو زرعة الخ۔۔۔‬


‫حدثنا عبد الرحمن نا أبو زرعة عبد الرحمن بن عمرو الدمشقي‬
‫حدثنا عبد الرحمن نا أبو زرعة‬
‫) الجرح والتعدیل(‬

‫اور جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ شاید انہوں نے سمجھا ہوگا کہ امام ابن ابی حاتم عبدالرحمن سے ابو زرعہ سے بیان کرتے‬
‫ہیں‬
‫جبکہ یہ عبد الرحمن خود امام ابن ابی حاتم ہیں اور یہ ابو زرعہ سے بیان کرتے ہیں اور یہ کتاب الجرح والتعدیل امام ابن‬
‫ابی حاتم کے شاگرد نے نقل کی ہے تو وہ پہلے امام ابن ابی حاتم کا نام لیتے ہیں اور پھر انکا امام ابو زعہ سے قول نقل‬
‫کرتے ہیں‬

‫امام ابن ابی حاتم کا مکمل کالم درج ذیل ہے‬ ‫‪ :‬اب‬

‫العالء بن المنهال الغنوى سمع عاصم بن كليب وهشام بن عروة ومهندا القيسي روى عنه ابن إدريس وأبو اسامة وزيد بن الحباب‬
‫‪.‬وابنه قطبة بن العالء وأحمد بن عبد الله بن يونس سمعت أبي يقول ذلك‪ ،‬قال أبو زرعة العالء بن المنهال والد قطبة ثقة‬

‫عالء بن منھال جنہوں نے سماع کیا ہے عاصم سے اور ہشام سے اور القیسی سے ‪ ،‬اور ان سے بیان کرنے والے ابن ادریس ‪،‬‬
‫ابو سلمہ ‪ ،‬زید بن حباب اور قطبہ بن عالء (انکے بیٹے) اور احمد بن عبداللہ بن یونس االندلسی ہیں‬
‫یہی میں نے اپنے والد (ابو حاتم) سے سنا‬
‫اور ابو زرعہ کہتے ہیں کہ عالء یہ قطبہ کے والد ہیں اور ثقہ ہیں‬
‫برقم‪(1992 :‬‬‫ُ‬ ‫)الجرح والتعدیل ‪،‬‬

‫حد ہے اس میں کونسی سند درکار ہے اور کیسی سند درکار ہے ؟؟؟؟؟؟‬
‫دعوی کرنا کہ‬
‫ٰ‬ ‫‪ :‬خود اتنی بڑی فحش خطاء کرنا اور پھر علماء کثیر پر یہ‬
‫''اس کی توثیق کی غلط فہمی بہت سے علماء کو امام ابو زرعہ کی توثیق کی وجہ سے ہوئی ''‬

‫اب اس بات پر ہنسا جائے یا رویا جائے امید ہے اپنی اصالح کرینگے عکاشہ صاحب ۔‬

‫باقی امام عجلی کی صریح توثیق اور امام ابن حبان کی بھی صریح توثیق جو کہ معروف راوی کے بارے ہے انکو فقط مجہول‬
‫کہہ کر ہضم جو کرنے کی کوشش کی وہ بھی باطل ہوئی انکے ساتھ امام ابو زرعہ ہیں تو یہ راوی متفقہ علیہ ثقہ ہے‬

‫فحش ہے‬ ‫اب ٓاتے ہیں تیسرے اعتراض کی طرف جو اس سے بھی زیادہ‬

‫‪ :‬چونکہ متعرض لکھتے ہیں‬


‫ابن عماد الحنبلی‬
‫ِ‬ ‫اس کے عالوہ اس روایت کا راوی عبد الله بن يونس األندلسي بھی ثقہ نہیں۔ اس کی کوئی توثیق نہیں ہے۔‬
‫‪:‬نے صرف اتنا کہا‬
‫عبد الله بن يونس القبري األندلسي صاحب بقي بن مخلد‪ ،‬وكان كثير الحديث مقبوال‬
‫ترجمہ‪ :‬عبد اللہ بن یونس القبری االندلسی بقی بن مخلد کا شاگرد تھا‪ ،‬کثرت سے حدیث بیان کرنے واال مشہور آدمی ہے۔‬
‫]شذرات الذهب في أخبار من ذهب‪ ،‬جلد ‪ ،۴‬صفحہ نمبر ‪[۱۷۱‬‬
‫ابن عماد کوئی ناق ِد حدیث نہیں اور یہ کوئی توثیق نہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ّاول تو‬

‫‪ :‬الجواب‬

‫عرض ہے یہاں متعرض کو بہت بڑی خطاء ہوئی ہے اصل میں یہ جو راوی ہے‬
‫روایت کا راوی نہیں ہے بلکہ یہ امام ابن ابی شیبہ کی کتاب الجمل کا‬ ‫عبداللہ بن یونس المرادی االندلسی یہ اس جزوی‬
‫راوی ہے اور امام ابو بکر ابن ابی شیبہ کے شاگرد بقی بن مخلد کا خاص شاگرد تھے‬

‫فتاوی اور انکے اقوال‬


‫ٰ‬ ‫اور مصنف یہ ایسی کتاب حدیث اور اثار صحابہ کے اثار کی اس قسم کی کتاب ہوتی ہے جس میں‬
‫کو فقہی ترتیب سے لکھا جا تا ہے اور امام ابن ابی شیبہ کی المصنف کا جز کتاب الجمل جو ہے اسکی متصل سند امام‬
‫ابو بکر ابن ابی شیبہ تک متفقہ علیہ ہے اور اس سند میں عبداللہ بن یونس ہے جیسا کہ اسکی ٓاگے تفصیل ٓائے گی‬

‫تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن یونس المرادی االندلسی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ کتاب جمل کا راوی نہ کہ جزوی روایت کا‬
‫ساری کتاب الجمل اسی راوی ہی سے مروی ہیں‬
‫تو گویا جناب نے اس راوی پر اعتراض کر کے پوری مصنف ابن ابی شیبہ کی کتاب الجمل کا ہی رد کر دیا ہے انجانے میں‬

‫‪ :‬اگر جناب سند پر غور کرتے تو انکو یہ بات عیاں ہو جاتی جیسا کہ اس روایت کی سند یوں ہے مصنف میں‬

‫كتاب الجمل ‪38 -‬‬


‫وصلى الله على سيدنا محمد النبي وآله‬

‫في مسير عائشة وعلي وطلحة والزبير‬

‫حدثنا‬
‫عبد الله بن يونس‪ ،‬قال‪ :‬حدثنا بقي بن مخلد‪ ،‬قال‪ :‬حدثنا أبو بكر‪ ،‬قال حدثنا أبو أسامة‪ ،‬قال‪ :‬حدثني العالء بن ‪37757 -‬‬
‫المنهال‪ ،‬قال حدثنا عاصم بن كليب الجرمي‪ ،‬قال‪ :‬حدثني أبي قال‬

‫یہاں دیکھا جا سکتا ہے کہ حدثنا کے بعد عبداللہ بن یونس ہے وہ کہتے ہیں مجھے بیان کی بقی بن مخلد نے وہ کہتے ہیں‬
‫مجھے بیان کیا ابو بکر ابن ابی شیبہ نے‬
‫اور چونکہ یہ کتاب تو امام ابن ابی شیبہ کی ہے اصل سند اب ابو سلمہ سے شروع ہوتی ہے جس میں ٓاگے عالء راوی ہے‬
‫جسکی جید توثیق اوپر ثابت ہو چکی ہے‬
‫جبکہ عبداللہ بن یونس تو مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الجمل کا راوی ہے‬

‫مذکورہ روایت کے بار باقی تمام کتاب کی اگلی روایات امام ابن ابی شیبہ کے بعد شروع ہوتی ہیں کیونکہ کتاب جمل‬ ‫اب‬
‫کی سند پہلی بار فقط نقل ہوتی ہے نسخہ میں‬

‫اب چونکہ عبداللہ بن یونس بھی کوئی عام راوی نہیں اور نہ ہی مجہول بلکہ انکی اتنی توثیق ثابت ہے جتنی ایک کتاب‬
‫بیان کرنے والے راوی کے لیے درکار ہوتی ہے اور نہ بھی ہوتی تو مصنف ابن ابی شیبہ تو متواتر سے علماء میں ثابت ہے تو‬
‫اسکے کتاب کے سند کے راوی پر اعتراض کرنا ال علمی کے عالوہ کچھ نہیں‬

‫! امام عبداللہ بن یونس االندلسی کا تعارف‬


‫‪ :‬االندلس کے مشہور ناقد و مورخ امام ابن الفرضی بیان کرتے ہیں تاریخ االندلس میں‬

‫من قَبْ َرة‪،‬‬


‫أصله ْ‬
‫ْ‬ ‫عرف؛ بالقَبري‪.‬‬ ‫المرا ِد ّي‪ :‬ي ُ َ‬
‫عبيْد الله بن عبّاد بن ِزياد بن يَزيد ابن أبي يَحيى ُ‬ ‫عبد الله بن يُونُس بن ُمحمد بن ُ‬
‫يُكنّى‪ :‬أبا محمد‬ ‫ُرطبة؛‬
‫ُ‬ ‫ق‬ ‫كن‬ ‫‪.‬وس‬
‫َ‬
‫السالم‬ ‫بن عبْد ّ‬ ‫مع‪ِ :‬من محمد‬ ‫حدث عن ْ ُه‪َ .‬و َس َ‬ ‫ّ‬ ‫والحسن بن َس ْعد آخر َمن‬
‫َ‬ ‫وكان‪ :‬هو‬
‫َ‬ ‫مخل َد كثيرا ً َ‬
‫وصحبِه‪.‬‬ ‫ْ‬ ‫َس ِم َع‪ :‬من بَ ّ‬
‫قي بن‬
‫منه النّاس كثيرا ً‬
‫ُ‬ ‫وسمع‬‫َ‬ ‫‪.‬‬ ‫هم‬ ‫وغير‬
‫ِ‬ ‫ي‬‫ّ‬ ‫ِ‬
‫ق‬ ‫األعنا‬ ‫ْمان‬ ‫ث‬ ‫ع‬
‫ُ‬ ‫بن‬ ‫عيد‬ ‫وس‬
‫َ‬ ‫رطوشي‪،‬‬ ‫الط‬
‫ُ‬ ‫يسر‬ ‫م‬
‫َ‬ ‫بن‬ ‫وأحمد‬ ‫‪،‬‬ ‫شني‬
‫‪.‬الخ ّ‬
‫ُ‬

‫ِ‬
‫وثالث مائةٍ‬ ‫الباجي‪ .‬تُوفّي (رحمه الله) ‪ :‬في َش ْه َر َرمضان سن َة ثالثين‬
‫ّ‬ ‫وقال لِي أبو ُم َ‬
‫حمد‬ ‫َ‬ ‫عنه جماعة‬
‫ُ‬ ‫‪.‬حدثنا‬
‫ّ‬

‫عبداللہ بن یونس المرادی جو قرطبہ کے رہنے والے تھے اور انکی کنیت ابو محمد ہے اور یہ القبری سے معروف تھے‬
‫انہوں نے سماع کیا ہے بقی بن مخلد سے بہت زیادہ اور یہ انکے صحبت میں رہنے والے تھے ‪ ،‬اور احسن بن سعد وہ ٓاخری‬
‫شخص ہیں جو ان سے روایت کرنے والے ہیں‬
‫اور انہوں نے سماع کیا ہے محمد ب ن سالم‪ ،‬احمد بن میسر اور سعید بن عثمان وغیرہم سے‬
‫اور ان سے لوگوں کی کثیر تعداد نے سماع کیا ہے‬
‫)تاریخ االندلس ابن الفرضی برقم‪(680 :‬‬

‫بھی انکے بارے یوں بیان کرتے ہیں‬ ‫‪ :‬اور دوسرے اندلس کے محدث ابن الضبی‬

‫عبد الله بن يونس بن محمد بن عبيد الله بن عباد بن رماد المرادي‬


‫أندلسي يروى عن بقى بن مخلد‪ ،‬وكان من المكثرين عنه‪ ،‬مات باألندلس سنة ثالثين وثالثمائة‪ ،‬روى عنه عبد بن نصر وخالد بن‬
‫سعد وغير واحد اخبر أبو محمد علي بن أحمد قال‪ :‬أخبرنا الكناني‪ ،‬أخبرنا أحمد بن خليل أخبرنا خالد بن سعد أخبرنا عبد الله‬
‫بن يونس المرادي من كتابه‪ ،‬أخبرنا بقى بن مخلد قال‪ :‬أخبرنا سحنون والحارث بن مسكين عن ابن القاسم عن مالك‪ :‬أنه كان‬
‫[ يكثر أن يقول‪{ :‬إن نظن إال ظنا ً وما نحن بمستيقنين}‬
‫عبداللہ بن یونس المرادی االندلسی یہ بقی بن مخلد سے روایت کرتے ہیں اور یہ ان سے سب سے زیادہ روایت کرنے والو ٰں‬
‫میں سے تھے ۔‬
‫اور اس کے بعد امام الضبی اپنی سند سے انکی رویات بیان کرتے ہیں جس میں تصریح ہے کہ عبداللہ بن یونس نے کتاب‬
‫سے بیان کیا ہے بقی بن مخلد سے‬

‫تو معلوم ہوا یہ صاحب کتب تھے اور اگر یہ جزوی روایت کے راوی بھی ہوتے تو کتاب سے بیان کرنے کی تصریح کے بعد‬
‫انکے ضبط کی دلیل کی بھی ضرورت نہ ہوتی‬
‫)‪-‬بغية الملتمس في تاريخ رجال أهل األندلس ‪،‬أبو جعفر الضبي برقم‪(961 :‬‬

‫ایک راوی کے ترجمہ میں انکی مصنف عبدالرزاق بیان کرنے کو لکھتے ہیں‬ ‫‪ :‬اسی طرح امام ذھبی‬

‫* ابن الباجي أحمد بن عبد الله بن محمد اللخمي‬


‫‪ :‬انکے ترجمہ میں امام ذھبی لکھتے ہیں‬

‫‪.‬ع من‪ :‬والده جميع ما عنده‪ ،‬من ذلك (مصنف ابن أبي شيبة) بروايته ‪ ،‬عن القبري ‪ ،‬عن بقي بن مخلد‪ ،‬عنه‬
‫انہوں نے سماع کیا ہے والد سے اور جمع کیا جس میں ایک مصنف بن ابی شیبہ بھی جو بروایت القبری (عبداللہ بن یونس‬
‫الندلسی) اور وہ بقی بن مخلد کےطریق سے انکو بیان کی‬
‫)سیر اعالم النبالء‪ ،‬برقم‪(۴۱:‬‬

‫‪ :‬اسی طرح ایک مقام پر انکو محدث کا لقب دیتے ہوئے لکھتے ہیں‬

‫وصاحب بقي بن مخلد المحدث عبد الله بن يونس القبري‬


‫اور صاحب بقی بن مخلد محدث عبداللہ بن یونس القبری‬
‫)سیر اعالم النبالء(‬

‫تو ایک کتاب کے راوی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس سے جماعت بیان کرنے والی تھی اور یہ بقی بن مخلد کے خاص‬
‫تالمذہ تھے اور انہی سے مصنف ابن ابی شیبہ روایت کرتے تھے جو کہ متفقہ علیہ ہے‬

‫‪ :‬تو پس یہ روایت ثابت ہوئی جس میں یہ خود تصریح کرتا ہے حضرت عثمان کے قتل کی جوکہ متعرض نے بھی مانا ہے‬

‫‪:‬سیدہ عائشہؓ نے فرمایا‬


‫ل َا َسل ّ َ َم الل َّ ُه َ‬
‫عل َي ْ ِه ‪ِ ,‬إ ن ّ َُه ل َي ْ َس بِابْ ِني‬
‫ترجمہ‪ :‬الله اُس پر کبھی سالمتی نہ کرے‪ ،‬وہ میرا بیٹا ہے ہی نہیں۔‬
‫]مصنف ابن أبي شيبة‪ ،‬جلد ‪ ،۷‬صفحہ نمبر ‪[۵۳۲‬‬
‫اسی روایت کے مطابق اس نے اپنے قتل کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے مدینہ کے اس بوڑھے کو قتل کی‬

‫اس صریح اور سند جید سے روایت کو رد کرنا ایک فضول بات ہوگی اتنے صریح دالئل پر مطلع ہونے کے بعد‬

‫اس سے ثابت ہوا کہ بظاہر وہ لوگ جو قتل خلیفہ سوم مین ملوث تھے وہ موال علی کے ساتھی بنے ہوئے تھے جسکی وجہ‬
‫سے حضرت امیر معاویہ زمینی حقائق میں اس طرح اجتیہاد میں اپنے اعتبار سے اجتیہاد پر تھے کہ موال علی انکو ہمارے‬
‫حوالے کریں جبکہ موال علی نے کسی حکمت کی وجہ سے انکو حوالے نہ کیا ۔‬

‫تحقیق‪ :‬دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی‬

You might also like