You are on page 1of 3

‫باغ فدک کے معاملے پر خلیفہ بال فصل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کا موقف باالتفاق اہلسنت

اور دالئل کی روشنی میں‬


‫صواب تھا‬
‫بقلم‪ :‬رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی‬
‫‪:‬نوٹ‬
‫میں اس تحریر کو زیادہ کوئی لمبی چوڑی نہیں کرونگا اور نہ ہی زیادہ تمہید باندھونگا کیونکہ لوگوں کو شکایت ہوتی ہے کہ‬
‫لمبی تحاریر کی وجہ سے وہ پڑھتے ہی نہیں خیر اپنی طرف سے میں کوشش کرونگا کہ یہ تحریر تاویل نہ بنے اور کسی کی‬
‫طبیعت کے مطابق یہ تحریر بھی تاویل محسوس ہو تو گزارش ہے کہ ایسے لوگ مجھ ناچیز کو ان فرینڈ کریں اور کسی ایسے‬
‫بندے کے لیے ایڈ ہونا کا موقع دستیاب کریں جو تحقیقی طبیعت رکھتے ہیں اور تحاریر کو پڑھنا انکا شوق ہو جزاک اللہ‬
‫سب سے پہلے میں نے اس مسٸلہ پر مختلف اہل علم لوگوں کوآراء کا جو جائزہ لیا ہے ان میں سے درج ذیل موقف سامنے آئے‬
‫ہیں‬
‫! ۔ پہال موقف‪1‬‬
‫حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا بھی موقف صحیح تھا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بھی‬
‫چونکہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث پیش کر دی تو بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموشی سے واپس‬
‫چلی گئیں کوئی بھی خطائے اجتہادی پر نہیں تھا‬
‫!۔ دوسرا موقف‪2‬‬
‫حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جو موقف اختیار کیا تھا وہ حدیث رسولﷺ پر مطلع نہ ہونے کی وجہ سے کیا تھا‬
‫جب مطلع ہو گئیں تو انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے دوبارہ مطالبہ نہ کیا خوموشی اختیار کر گئیں‬
‫ایسا موقف رکھنے والے حضرات اس بات کا جواب نہیں دیتے ہیں کہ کیا پھر حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہہا حضرت (‬
‫) ابو بکر رضی اللہ عنہ سے متفق ہوئیں تھیں یا نہیں‬
‫!۔ تیسرا موقف‪3‬‬
‫جس کا میں قائل ہوں اور جیسا کہ جمہور بھی ج۔ل۔ا۔ل ۔ی صاحب کے موقف کی تائید بھی کرتے ہیں‬
‫وہ یہ ہے کہ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا جب باغ فدک کے مطالبہ کے لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ‬
‫کے پاس گئیں اور اپنے مطالبے پر قرآن کی دلیل پیش کی‬
‫اور جو دلیل بی بی فاطمہ نے پیش کی تھی وہ قرآ ن کی عمومی آیت سے پیش کی اس آیت کا اطالق امت محمدیہ پر تو تھا‬
‫لیکن انبیاء کو اس آیت سے استثناء تھا‬
‫اور اسکی دلیل حضر ت ابو بکر صدیق نے انکے سامنے پیش کر دی تھی حدیث رسولﷺ سنا کر‬
‫لیکن کیا اسی موقع پر حضرت بی بی فاطمہ حضرت ابو بکر صدیق کی دلیل کو تسلیم کر کے چلی گئیں تھیں یا ناراض ہو کر‬
‫گئی تھیں‬
‫اور اگر ناراض ہو کر گئی تھیں تو بعد میں صلح ہوئی تھی یا بغیر صلح اللہ کے حضور جا ملیں‬
‫اور اگر صلح ہوئی بھی تو حضرت ابو بکر صدیق حضرت بی بی فاطمہ کے موقف کو تسلیم کر کے صلح کی یا حضرت بی‬
‫بی فاطمہ نے حضرت ابو بکر صدیق کے موقف کو تسلیم کر کے صلح کی‬
‫ان سب باتوں پر ہم اثار پیش کرتے ہیں اسکے بعد میں اپنا تجزیہ پیش کرونگا‬
‫جو حدیث رافضی و تفضیلی بخاری شریف سے پیش کرتے ہیں جس میں یہ الفاظ ہیں کہ حضرت فاطمہ حضرت ابو بکر صدیق‬
‫سے غصے ہو گئیں اور پھر انکے بیچ دوبارہ کبھی بات نہ ہوئیں اور اسی حالت میں حضرت بی بی فاطمہ وصال پا گئیں‬
‫اس روایت میں زہری کا ادراج ہے جیسا کہ اسی روایت کو امام بیھقی نے السنن الکبری میں نقل کیا ہے اور اس متن کے شروع‬
‫سے پہلے‬
‫قال ‪ ،‬کا صیغہ موجود ہے یعنی زہری کے شاگرد نے اما م زہری کے الفاظ جو بیان کیے اس کی شناخت کے لیے قال کے‬
‫الفاظ بیان کر دیے‬
‫اسی طرح دوسری کتب میں بھی یہ الفاظ قال کے صیغے سے شروع ہوتے ہیں‬
‫لیکن بخاری شریف میں امام زہری کے الفاظ حدیث میں شامل ہوگئے لیکن ادراج کی نشاندہی جب مل جائے دیگر طریق تو پھر‬
‫بات حتمی ہو جاتی ہے‬
‫قال کا صیغے کا ثبوت پیش کرتے ہیں‬ ‫صحیح اضافی متن نقل کرنے سے پہلے َأ‬ ‫؎‪ :‬جیسا کہ امام بیھقی اپنی سند‬ ‫َأ ْخ َن َأ‬
‫ْغ‬ ‫ْل‬
‫َب َر ا ُب و ُم َح َّم ٍد َع ْب ُد اللِه ْبُن َي ْح َي ى ْب ِن َع ْب ِد ا َج َّب اِر ِب َب َد اَد ‪ ،‬أنا ِإ ْس َم اِع يُل ْبُن ُم َح َّم ٍد الَّص َّف اُر ‪ ,‬ثنا ْح َم ُد ْبُن َم ْن ُص وٍر ‪ ,‬ثنا ‪127322 -‬‬
‫َع ْبُد الَّر َّز اِق ‪ ,‬أنا َم ْع َم ٌر ‪َ ,‬ع ِن الُّز ْهِر ِّي ‪َ ,‬ع ْن ُعْر َو َة ‪َ ,‬ع ْن َعاِئَشَة َر ِض َي اللُه َع ْنَها‪َ ،‬أَّن َفاِط َم َة َو اْلَع َّباَس َر ِض َي اللُه َع ْنُهَم ا َأَتَيا َأَبا َبْك ٍر‬
‫َيْلَتِمَس اِن ِم يَر اَثُهَم ا ِم ْن َر ُسوِل اللِه َص َّلى اللُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم ‪َ ،‬و ُهَم ا ِح يَنِئٍذ َيْطُلَباِن َأْر َض ُه ِم ْن َفَدٍك ‪َ ،‬وَس ْهَم ُه ِم ْن َخْيَبَر ‪َ ،‬فَقاَل َلُهَم ا َأُبو َبْك ٍر‪َ :‬سِم ْع ُت‬
‫َر ُسوَل اللِه َص َّلى اللُه َع َلْيِه َو َس َّلَم َيُقوُل ‪ " :‬اَل ُنوَر ُث ‪َ ،‬م ا َتَر ْك َناُه َصَد َقٌة؛ ِإَّنَم ا َيْأُك ُل آُل ُمَحَّمٍد ِم ْن َهَذ ا اْلَم اِل " َو اللِه ِإِّني اَل َأَد ُع َأْم ًر ا‬
‫‪َ،‬ر َأْيُت َر ُسوَل اللِه َص َّلى اللُه َع َلْي ِه َو َس َّلَم َيْص َنُعُه َبْعُد ِإاَّل َص َنْع ُتُه‬
‫َقاَل ‪َ :‬فَغ ِضَبْت َفاِط َم ُة َر ِض َي اللُه َع ْنَها َو َهَج َر ْت ُه‪َ ،‬فَلْم ُتَك ِّلْم ُه َح َّتى َم اَتْت ‪َ ،‬فَد َفَنَها َع ِلٌّي َر ِض َي اللُه َع ْن ُه َلْياًل ‪َ ،‬و َلْم ُيْؤ ِذ ْن ِبَها َأَبا َبْك ٍر َر ِض َي اللُه‬
‫َع ْن ُه‪َ .‬قاَلْت َعاِئَش ُة َر ِض َي اللُه َع ْنَها‪َ :‬فَك اَن ِلَعِلٍّي َر ِض َي اللُه َع ْنُه ِم َن الَّناِس َو ْج ٌه َحَياَة َفاِط َم َة َر ِض َي اللُه َع ْنَها‪َ ،‬فَلَّم ا ُتُو ِّفَيْت َفاِط َم ُة َر ِض َي‬
‫‪.‬اللُه َع ْنَها اْنَصَر َف ُو ُجوُه الَّناِس َع ْن ُه ِع ْنَد َذ ِلَك‬
‫ُقْلُت ِللُّز ْهِر ِّي ‪َ :‬ك ْم َم َك َثْت َفاِط َم ُة َبْعَد الَّنِبِّي َص َّلى اللُه َع َلْيِه َو َس َّلَم ؟ َقاَل ‪ِ :‬س َّتَة َأْش ُهٍر ‪َ ,‬فَقاَل َر ُجٌل ِللُّز ْهِر ِّي ‪َ :‬فَلْم ُيَباِيْعُه َع ِلٌّي َر ِض َي اللُه ‪:‬‬
‫َع ْنُه َح َّتى َم اَتْت َفاِط َم ُة َرِض َي اللُه َع ْنَها؟ َقاَل ‪َ :‬و اَل َأَح ٌد ِم ْن َبِني َهاِش ٍم‬
‫)السنن الکبری للبیھقی(‬
‫یہاں معمر نے زہری سے اس اضافی متن کو قال کے صیغے سے بیان کیا حدیث سے علیحدہ جس سے زہری کے ادراج کا‬
‫قطعی ثبوت مل جاتا ہے‬
‫لیکن امام زہری نے جو یہ بات بیان کی کہ حضرت بی بی فاطمہ حضرت ابو بکر صدیق سے ناراض ہو گئیں‬
‫اس بات کا ثبوت دالئل کی روشنی میں ثابت ہے لیکن چونکہ حضرت بی بی فاطمہ نے وفات سے قبل حضرت ابو بکر صدیق‬
‫سے صلح کر لی تھی اس خبر پر امام زہری مطلع نہ ہو سکے‬
‫سند صحیح سے اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ نے حضرت ابو بکر صدیق سے صلح کر لی تھی لیکن‬
‫حضرت ابو بکر صدیق کے موقف پر‬
‫‪ :‬جیسا کہ امام بیھقی سند صحیح سے روایت التے ہیں‬
‫َأْخ َبَر َنا َأُبو َعْبِد اللِه اْلَح اِفُظ ‪ ,‬ثنا َأُبو َعْبِد اللِه ُمَحَّم ُد ْبُن َيْع ُقوَب اْلَح اِفُظ‪ ،‬ثنا ُمَحَّم ُد ْبُن َعْبِد اْلَو َّهاِب ‪ ,‬ثنا َعْبَد اُن ْبُن ُع ْثَم اَن ‪12735 -‬‬
‫اْلَع َتِكُّي ِبَنْيَس اُبوَر ‪ ،‬ثنا َأُبو َضْمَر َة ‪َ ,‬ع ْن ِإْس َم اِع يَل ْبِن َأِبي َخ اِلٍد ‪َ ,‬ع ِن الَّش ْع ِبِّي َقاَل ‪َ :‬لَّم ا َم ِر َض ْت َفاِط َم ُة َرِض َي اللُه َع ْنَها َأَتاَها َأُبو َبْك ٍر‬
‫الِّص ِّديُق َر ِض َي اللُه َع ْنُه َفاْسَتْأَذ َن َع َلْيَها‪َ ،‬فَقاَل َع ِلٌّي َر ِض َي اللُه َع ْن ُه‪َ :‬يا َفاِط َم ُة‪َ ،‬هَذ ا َأُبو َبْك ٍر َيْسَتْأِذ ُن َع َلْيِك ‪َ ،‬فَقاَلْت ‪َ :‬أُتِح ُّب َأْن آَذ َن َلُه؟ َقاَل ‪:‬‬
‫َنَعْم ‪َ ،‬فَأِذ َنْت َلُه ‪َ ,‬فَد َخ َل َع َلْيَها َيَتَر َّضاَها َو َقاَل ‪َ " :‬و اللِه َم ا َتَر ْكُت الَّداَر َو اْلَم اَل َو اَأْلْهَل َو اْلَعِش يَر َة ِإاَّل اْبِتَغاَء َم ْر َض اِة اللِه َو َم ْر َض اِة َر ُسوِلِه‬
‫َو َم ْر َض اِتُك ْم َأْهَل اْلَبْيِت "‪ُ ،‬ثَّم َتَر َّضاَها َح َّتى َر ِضَيْت‬
‫َهَذ ا ُم ْر َس ٌل َحَس ٌن ِبِإْسَناٍد َص ِح يٍح‬
‫‪ :‬امام شعبی فرماتے ہیں‬
‫جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے گھر تشریف الئے اور عیادت کے لیے‬
‫اجازت طلب کی۔ موال علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا‪ :‬فاطمہ! ابوبکر تشریف الئے ہیں آپ کی عیادت کی اجازت چاہتے‬
‫ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا‪ :‬کیا آپ ان سے مالقات کی اجازت دیں گے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا‪:‬‬
‫ہاں۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف الئے اور ان کو راضی کیا۔‬
‫اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا‪ :‬میں نے اپنا گھر بار‪ ،‬اپنی جان و مال اور اپنی اوالد سب اللہ‘ اس کے‬
‫رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت کو راضی کرنے کے لیے قربان کر دی۔‬
‫امام بیھقی کہتے ہیں یہ روایت مرسل صحیح االسناد ہے‬
‫اس روایت کے متن کا تبصرہ کرنے سے پہلے ا س اعتراض کا جواب دے دیتا ہوں کہ کچھ لوگ کہیں کہ یہ روایت مرسل ہے‬
‫اور امام شعبی نے یہ روایت کس مجہول سے سنی اور مراسیل کی حجیت میں اختالف ہے وغیرہ وغیرہ تو اسکا تحقیقی جواب‬
‫‪ :‬درج ذیل ہے‬
‫‪ :‬امام عجلی الثقات میں فرماتے ہیں‬
‫‪.‬مرسل الشعبي صحيح‪ ،‬ال يرسل إال صحيًحا صحيًح ا‬
‫امام شعبی کی مراسیل صحیح (درجہ) ہوتی ہیں کہ وہ ارسال نہیں کرتے تھے سوائے صحیح کے‬
‫) الثقات العجلی(‬
‫اسی طرح امام ذھبی نے بھی سیر اعالم میں امام عجلی قول کو نقل کرنے کے بعد نکارت نہیں کی یعنی امام ذھبی نے بھی‬
‫موافقت کی ہے اس موقف کی‬
‫‪ :‬جیسا کہ امام ذھبی فرماتے ہیں‬
‫كمراسيل‪ :‬مجاهد‪ ،‬وإبراهيم‪ ،‬والشعبي‪ .‬فهو ُم رَس ل جّيد ال بأَس به‬
‫امام مجاہد‪ ،‬ابراہیم ‪ ،‬شعبی انکی مراسیل جید ہیں ان میں کوئی حرج نہیں‬
‫)الموقظة في علم مصطلح الحديث ‪ ،‬ص ‪(400‬‬
‫‪ :‬نیز امام ابی داود جنکا راویان کی مرسل روایات پر استقراء تھا وہ فرماتے ہیں‬
‫" ‪ .‬قلت ألبي داود ‪ :‬مراسيل الشعبي أحب إليك أو مراسيل إبراهيم ؟ قال ‪ :‬مراسيل الشعبي‬
‫سؤاالت اآلجري (‪()1/219‬‬
‫امام ابی داود کہتے ہیں مجھے امام شعبی کی مراسیل امام ابرہیم کے مقابل زیادہ پسند ہیں‬
‫جبکہ امام ابن معین کاموقف اسکے برعکس تھا‬
‫الغرض ‪ :‬امام شعبی کی مراسیل محدثین کے نزدیک قابل قبول تھیں‬
‫اس روایت کے تحت امام زہری کے کالم کو پرکھا جائے تو انکی یہ بات صحیح تھی کہ حضرت بی بی فاطمہ ناراض رہیں ایک‬
‫مدت تک اور امام شعبی کی روایت کے مطابق انکی صلح ہو گئی تھی‬
‫اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حدیث رسول سن لینے کے بعد بھی حضرت بی بی‬
‫فاطمہ رضی اللہ عنہ اپنے موقف پرقائم رہیں نہ صرف قائم رہیں بلکہ ناراض بھی رہیں‬
‫اور جس وقت تک ناراض رہیں اس وقت تک اہلسنت نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کو صواب قرار دیا یا‬
‫بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ ان علمائے اہلسنت کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو دھڑا دھڑ تحاریر میں اہلسنت کے موقف کے‬
‫خالف اشاعت کر رہے ہیں اور جانے انجانے میں تفضیلیہ پارٹی کا کھلونا بنے ہوئے ہیں اورچرن اہل بیت سے محبت کا بیچ کر‬
‫صحابہ پر طعن کا دروازہ کھوال جا رہا ہے‬
‫اسی موقف کو بیان کرتے ہوئے ج۔ ل۔ا۔ل۔ی۔ صاحب نے اور فاحشہ عورت جس نے ٹی وی پر یہ کہا تھا کہ عدالتی نظام تو تب‬
‫سے خراب ہو گیا تھا جس وقت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق مار لیا گیا تھا‬
‫اس فاحشہ عورت کے رد میں ہمارے عالم صاحب نے تفصیلی تقریر کی تھی اور انہوں نے جو کہا کہ جس وقت تک مطالبہ‬
‫کررہی تھیں اس وقت تک خطائے اجتہادی پر تھیں ( خطائے اجتہادی کی تصریح بعد میں انہوں نے کر دی تھی )‬
‫اسکے بعد گستاخی کے فتوے لگانے اہل سنت کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ‪ ،‬جنہوں نے کوئی ذاتی عداوت یا تنظیمی اختالف‬
‫مجھے نہیں معلوم کسی بھی سبب اہلسنت میں ایک متفقہ علیہ مسٸلہ کو ہوا دی‬
‫باقی خطائے اجتہادی اہلسنت کے نزدیک عصمت میں سے نہیں تو پھر اسکے اطالق پر طوفان بد تمیزی کرنا شیعوں و تفضیلیوں‬
‫کا شیوہ ہے‬
‫لیکن جب بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ انکے موقف پر صلح کر لی تو بات ختم‬
‫ہو گئی کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عہ نے جو فرمایا دیا کہ‬
‫میری۔۔۔۔۔۔ جان و مال اہلبیت پر قربان ہے لیکن یہ بات متفقہ ہے کہ باغ فدک کسی نے بھی اپنی ذاتی مال میں نہ الئے خلفاۓ‬
‫راشدین رضی اللہ عنھم میں سے‬
‫تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی جان و مال فدا کرنے کا اعالن تو کردیا لیکن ساتھ ہی باغ فدک پر حکم رسولﷺ کا‬
‫پہرا بھی دیا‬
‫تو باغ فدک پر حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا موقف صواب تھا‬
‫جزاک اللہ‬
‫دعاگو‪ :‬رانا اسد الطحاوی الحنفی البریلوی‬

You might also like