You are on page 1of 65

‫حديث کی اصطالحات‬

‫اقسام حديث‪:‬۔‬
‫محدثين نے حديث کی تين قسميں بيان کی ہيں۔صحيح حسن ضعيف محدثين نے ہر ايک قسم کی جدا‬
‫جدا تعريف کی ہے اور ان کو پرکھنے کے ليے کچھ فوائد اور قوانين مرتب کيے ہيں جن کے ذريعے‬
‫يہ معلوم کيا جا سکتا ہے کہ جو حديث بيان کی جارہی ہے وه حديث کس قسم سے ہے ۔‬

‫‪ (١‬صحيح حديث‪:‬۔‬
‫صحيح اس مسند حديث کو کہتے ہيں جس کو صاحب لعدالت اور ضابطہ راوی دوسرے عادل اور‬
‫ضابطہ راوی سے روايت کرے يہاں تک کہ وه نبی صلی ﷲ عليہ وسلم تک يا صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی‬
‫عنہم يا تابعی رحمہ ﷲ ٰ‬
‫تعالی تک پہنچ جائے اور معلل اور شاذ بھی نہ ہو ۔)اختصارعلوم الحديث‬
‫ص‪ (٢١‬مذکوره تعريف ميں چندامورقابل غورہيں۔‬
‫)‪(١‬مسند )متصل( )‪(٢‬عادل )‪ (٣‬ضابطہ )‪ (۴‬معلل )‪ (۵‬شاذ۔‬

‫‪ (١‬مسند )متصل(‪:‬۔‬
‫مسند وه حديث ہوتی ہے جو پہلے راوی سے آخری راوی تک متصل ہو يعنی پوری سند ميں ايک‬
‫کﮍی بھی ٹوٹی ہوئ نہ ہو ۔ جو راوی دوسرے راوی سے بيان کرے توان دونوں کی مالقات ثابت‬
‫ہودونوں ايک ہی زمانے ميں موجود ہوں۔‬

‫‪ (٢‬عادل‪:‬۔‬
‫عادل راوی سے مراد يہ ہے کہ وه دينی امور ميں استقامت کی راه پر چلے۔ اور‬
‫فسق)گناه(اورغيراخالقی اورغيرشرعی کاموں سےکناره کش ہوخطيب بغدادی نےعادل کی تعريف‬
‫مندرجہ ذيل الفاظ ميں کی ہے۔‬
‫''عادل وه شخص ہے جو فرض کاموں اور جن کا حکم ديا گيا ہے ان کی تعميل کرے اور جن کاموں‬
‫سے منع کيا گيا ہے اور جو بے حيائ کے کام ہيں ان سے دور رہتا ہو اور افعال ومعامالت ميں حق‬
‫کا طالب ہو اور غير شرعی اور غير اخالقی کاموں سے بچنے واال ہو جس آدمی ميں يہ تمام اوصاف‬
‫پائے جاتے ہوں وه دين ميں عادل اور روايت ميں صادق کہالنے کا مستحق ہے ۔)الکفايہ ص ‪(٨٠‬‬

‫‪ (٣‬ضابط ‪:‬۔‬
‫محدثين کے نزديک ضبط سے مراد يہ ہے کہ اس نے حديث کو سنا بہت اچھی طرح سے سمجھا اور‬
‫ايسےاچھے طريقے سے ذہن ميں محفوظ رکھا ہو جس ميں شک وشبہ کی کوئ گنجائش نہ ہو نيز‬
‫يہ کہ سننے کے وقت سےلے کر روايت کرنے تک اس ميں کوئ فرق نہ آيا ہو ۔ خالصہ يہ کہ ضبط‬
‫ميں دوچيزيں ملحوظ رکھی جاتی ہيں۔ )‪ (١‬قوت حافظہ‪ (٢) ،‬غور وفکر اور دقت نظر ‪،‬‬
‫راوی کا ضبط معلوم کرنے کا طريقہ يہ ہے کہ جب اس کی روايت کا مقابلہ اصحاب حفظ وضبط‬
‫اورثقہ راويوں کی روايت کےساتھ ليا جائے۔تو اس کی روايت ان کے مطابق ہواگر اس کی روايت ثقہ‬
‫راويوں کی روايت کے خالف ہوتو اس کی روايت شاذ ہوجائے گی۔‬
‫)الکفايہ ص‪(٢١‬‬ ‫شعبہ بن حجاج فرماتےہيں حديث شاذوہی کرتاہےجوخود بھی شاذہوتا ہے‬
‫تعالی نےفن حديث کے لئے ايسےعلماء پيدا کردئيےجنہوں نے تحفظ حديث ميں سختی سے کام‬‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫ليا مگر ان کا تشدد بھی حکمت ومصلحت پر مبنی تھا۔ انہوں نے صرف صحيح حديثيں نقل کيں۔ حديث‬
‫صحيح کی پہچان صرف روايت کرنے ہی سے نہيں ہوتی بلکہ حفظ وفہم اور کثرت سماع سے بھی‬
‫ہوتی ہے۔)معرفۃ علوم حديث ص‪(٩۵‬‬
‫عبدﷲ بن مبارک کا يہ ارشاد ايک فطری امر ہے کہ ايک کثيرالغلط جھوٹے اور بدعتی شخص کی‬
‫روايت اخذ نہ کی جائے جو بدعت کی دعوت بھی ديتا ہو اور حافظہ نہ ہونے کے باوصف ربانی‬
‫حديثيں روايت کرتا ہو۔)الکفايہ۔ ص‪(١۴٣‬‬

‫‪ (۴‬معلل‪:‬۔‬
‫معلل اس حديث کو کہتے ہيں جس ميں کسی ايسی علت کا پتہ چلے جس سے حديث ميں قدح وار‬
‫ہوجاتی ہو۔‬
‫حديث کی علت معلوم کرنے کے لئے وسعت علم وقت حافظہ فہم دقيق کی ضرورت ہے اس لئے کہ‬
‫علت ايک پوشيده چيز ہے جس کا پتہ بسا اوقات علوم حديث ميں مہارت رکھنے والوں کو بھی نہيں‬
‫چلتا۔‬
‫يہ حديث کے نہايت دقيق اور مشکل علوم ميں سے ہے علت کی پہچان ميں صرف وہی شخص ماہر‬
‫تعالی نے روشن دماغی قوت حافظہ ‪،‬مراتب ورة کی پہچان اور اسانيد ومتون‬
‫ٰ‬ ‫ہوسکتا ہے جس کو ﷲ‬
‫ميں نہايت تامہ )مکمل ( سے نوازا ہو ۔‬
‫عبدالرحمان بن مھدی بن حسان ابو سعد بصری بہت بﮍے حافظ حديث تھے امام احمد بن حنبل ان کے‬
‫بارے ميں فرماتے ہيں‬
‫وه يحی القطان سے بﮍے فقيہ اور وکيع سے زياده ثقہ راوی تھے ۔ )تذکرة الحفاظ جلد ‪ ١‬ص‪(٣٢٩‬‬
‫عبدالرحمان بن مہدی فرماتے ہں حديث کی پہچان ايک الہام ہے اگر تم کسی علل حديث کے عالم سے‬
‫کہو کہ فالں علت کی کيا دليل ہے تو وه اسکا کچھ جواب نہيں دے سکے گا ۔)معرفۃ علوم الحديث‪،‬ص‪.(١١٣‬‬
‫عبدالرحمان بن مہدی سے کہا گيا آپ کسی حديث کو صحيح قرار ديتے ہيں اور کسی کو ضعيف اس‬
‫کی کيا دليل ہے فرمايا اگر تم کسی صراف کو اپنی درہم دکھاؤ اور وه کہے کہ يہ کھرے ہيں اور وه‬
‫کھوٹے ہيں تو آيا تم اسکی بات تسليم کرو گے يا اسکی دليل طلب کرو گے اس سوال کرنے والے‬
‫نےکہا! ميں اس کی بات مان لوں گا عبدالرحمان نے فرمايا تو حديث کا معاملہ بھی اسی طرز کا ہے‬
‫کيونکہ اس ميں طويل محنت مناظره اور مہارت کی ضرورت ہے‪).‬التدريب س‪(٨٩‬‬

‫اسی لئے خطيب بغدادی نے فرمايا‪.‬‬

‫‪-2-‬‬
‫'' علم حديث کے طالب کو صراف کی طرح کھوٹے اور کھرے ميں تميز کرنے واال ہونا چاہئيےجس‬
‫طرح درہم کھوٹے بھی ہوتے ہيں اور کھرے بھی حديث کی بھی يہی حالت ہے )الجامع جلد ‪ ٩‬ص ‪(١٧٧‬‬

‫معلل حديث کی پہچان کا طريقہ يہ ہے کہ حديث کے تمام طرق واسانيد کو جمع کرکے راويوں کے‬
‫اختالف اور ضبط کو ديکھا جائے ۔‬
‫محدث علی بن المدينی فرماتے ہيں‪:‬جب تک کسی حديث کے طرق واسانيد ايک جگہ نہ ہوں تو اس‬
‫کی غلطی کا پتہ نہيں چلتا‬
‫معرفۃ علوم الحديث ميں علل کی دس قسميں بيان کی گئ ہيں اور پھر ہر قسم کی مثال دے کر اسے‬
‫واضح کيا گيا ہے ياد رہے کہ علل حديث ان دس قسموں ميں محدود نہيں ہے ہم حديث نبوی ميں قدح‬
‫وارد کرنے والے ان پوشيده اسباب کی توضيح کے لئے چند اہم مثاليں بيان کريں گے ۔‬
‫مثال‪ ،‬يہ کہ ايک حديث ايک خاص صحابی کی روايت سے صحيح اور محفوظ ہو پھر يہ ہی حديث‬ ‫ً‬ ‫‪(١‬‬
‫ايک اور راوی سے روايت کی جائے جس کی جائے سکونت يعنی جہاں وه رہتا ہے وه جگہ پہلے‬
‫راوی يا رواة سے مختلف ہو تو يہ حديث معلول ہوگی۔مثال کے طور پر موسی بن عقبہ کی ابو اسحاق‬
‫سے روايت وه ابو برده سے روايت کرتے ہں۔اور ابوبرده مرفوعا ً اپنے والد سے حديث بيان کرتے‬
‫ہيں کہ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا''ميں دن ميں سو مرتبہ اپنے رب سے معافی مانگتا ہوں‬
‫اور توبہ کرتا ہوں "‬
‫مذکوره باال روايت کو ديکھنے واال ديکھنے والی پہلی نظر ميں يہ سمجھے گا کہ يہ بخاری ومسلم‬
‫کی شرط کے مطابق ہے مگر اس کی سند ميں ايک مدنی راوی کوفی سے روايت کرتا ہے اور يہ بات‬
‫مشہور ہے کہ مدينہ کے رہنے والے جب جب اہل کوفہ سے روايت کرتے ہيں تووه غلطی کرجاتے‬
‫ہيں۔)معرفۃ علوم الحديث ص‪(١١۵‬‬

‫‪ (٢‬معلول کی ايک قسم يہ بھی ہے کہ ايک شخص سے اس کے استاد کے نام ميں اختالف کيا جائے‬
‫يا اس کو مجہول )بال نام( ذکر کيا جائے مثالً ‪ ،‬ابوشہاب سفيان ثوری سے روايت کرتے ہيں وه حجاج‬
‫سے وه يحيی بن ابی کثير سے وه ابو سلمہ سے اور ابو سلمہ ابوہريره سے مرفوعا روايت کرتے‬
‫ہيں کہ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا‪ :‬مومن بھوال بھاال اور سخی ہوتا ہے اور کافر م مکار‬
‫اور کنجوس ہوتا ہے ۔‬
‫محدث حاکم کہتے ہيں کہ مذکوره صدرروايت ميں علت اس وقت پيدا ہوتی جب سند يوں بيان کی‬
‫جائے۔‬
‫ابن کثير نے کہا ميرے پاس سفيان ثوری نے حجاج سے سن کر بيان کيا اور حجاج نے ايک شخص‬
‫سے روايت کيا اور اس نے ابو سلمہ سے ۔‬
‫‪ (٣‬حديث معلوم کا ايک طريقہ يہ ہے کہ ايک شخص جس سے روايت کرتا ہواس سے مال ہو اور‬
‫اس سے حديث بھی سنيں ہوں۔ مگر خاص زير بحث احاديث کا سماع اس سے ثابت نہ ہو جب ايسی‬
‫احاديث اس شخص سے بالواسطہ روايت کرے گا تو ان ميں علت يہ ہوگی کہ ان احاديث کا سماع اس‬
‫مثال‪ ،‬يحيی بن ابی کثير کی حضرت انس سے يہ روايت کی نبی صلی ﷲ عليہ‬ ‫ً‬ ‫سے ثابت نہيں ہے‬
‫وسلم جب کسی کے گھر روزه افطار کرتے تو فرماتے۔‬
‫'' روزه داروں نے تمہارے يہاں روزه افطار کيا ''‬

‫‪-3-‬‬
‫امام حاکم مذکوره صدرحديث پر تذکره کرتے ہوئے فرماتے ہيں۔متعدد طرق سے يہ امر ہمارے يہاں‬
‫ثابت ہوچکا ہے کہ يحيی بن ابی کثير کی روايت انس بن مالک سے درست ہے مگر يحيی نے مذکوره‬
‫صدرحديث انس سے نہيں سنی پھر حاکم نے سنداً يحيی سے ذکر کيا کہ مجھ سے يہ حديث کسی نے‬
‫انس سے بن کر بتائ ہے ۔‬
‫‪(۴‬حديث معلول کی ايک صورت يہ بھی ہے کہ حديث کی سند بظاہر صحيح معلوم ہوتی مگر اس ميں‬
‫کوئ ايسا راوی ہوتا ہے جس کا اپنے شيخ سے سماع نہ ہو ً‬
‫مثال‪ ،‬موسی بن عقبہ سہل بن ابی صالح‬
‫سے روايت کرتے ہينوه اپنے والد وه ابو ہريره سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے‬
‫فرمايا‪:‬‬
‫''جو شخص کسی مجلس ميں بيٹھا جہاں بہت شوره غل ہو اور مجلس برخاست کرنے سے پہلے يہ‬
‫کلمات کہے ۔‬
‫سبحانک اللھم وبحمدک ال الہ اال انت استغفرک واتوب اليک ۔ تو اس سے جو گناه اس مجلس ميں‬
‫ہوئے تھے وه معاف کردئيے جاتے ہيں ۔‬
‫مروی ہے کہ امام مسلم’رحمۃ ﷲ عليہ امام بخاريا کی خدمت ميں حاضر ہوئےاور اس حديث کے‬
‫بارے ميں دريافت کياامام بخاری رحمۃ ﷲ عليہنے فرمايا يہ بﮍی خوبصورت حديث ہے اور دنيا بھر‬
‫ميں اس مضمون کی يہ واحد حديث ہے البتہ معلول ہے يہ حديث ہميں موسی بن اسماعيل نے وہيب‬
‫سے سن کر بتائ وہيب نے سہيل سے اور اس نے عون بن عبدﷲ سے سنی حاالنکہ موسی بن‬
‫عقبی کا سماع سہل بن ابی صالح سے مرفوع نہيں۔)معرفۃ علوم الحديث‪ ،‬ص‪(١١٣‬‬
‫‪(۵‬حديث کے طالب پر يہ فريضہ عائد ہوتا ہے کہ جب وه يہ عبارت ديکھے کہ ''يہ حديث فالں وجہ‬
‫سے معلول ہے '' تو جلدی سے يہ فيصلہ صادر نہ کرے کہ اس ميں کوئ اصطالح علت قادحہ پائ‬
‫جاتی ہے اس لئے کہ بعض علماء علت کا اطالق اصطالحی معنی ومفہوم کے عالوه دوسرے معنی پر‬
‫بھی کرتے ہيں ان کی نطر ميں علت ايک پوشيده عيب ہے جو ضعيف حافظہ يا دروغ گوئ کہ برابر‬
‫نہيں ہوتی بلکہ وه علت سے حديث کا ظاہری نقص وعيب مراد ليتے ہيں جس سے حديث کی صحت‬
‫پر کوئ اثر نہيں پﮍتا يہ امر واضح ہے کہ ضعيف حديث کہ کسی ظاہری سبب کی بناء پر حديث کو‬
‫معلول قرار نہيں دے سکتے ۔ اس لئے کہ علت غامض اورپوشيده عيب کا نام ہے جيساکہ ہم مثالوں‬
‫سے واضح کرچکے ہيں )التوضح جلد‪ ٢‬ص‪(٢٧‬‬
‫ان تمام وجوہات ميں سے اگر کوئ بھی وجہ کسی حديث ميں نہ تو وه صحيح حديث کہالئے گی ۔‬

‫‪ (۵‬شاذ‪:‬۔‬
‫شاذ حديث کی تعريف ميں دو باتيں ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہيں۔ )‪ (١‬انفراد )‪ (٢‬مخالفت‪،‬‬
‫حديث شاذ کی عام تعريف يہ ہے کہ '' وه حديث جس ميں ايک ثقہ راوياپنے سے زياده ثقہ راوی کی‬
‫مخالفت کرے حافظ ابن حجر نے تصريح کی ہےکہ حديث شاذ کی اصطالح اورقابل اعتماد تعريف يہی‬
‫ہے۔‬
‫امام شافعی فرماتے ہيں''شاذ حديث کا مطلب يہ نہيں کہ ثقہ راوی وه روايت بيان کرے جو دوسرا‬
‫کوئ راوی بيان نہ کرتا ہوبلکہ شاذ حديث سے مراد يہ ہے کہ ثقہ راوی کوئ ايسی حديث بيان نہ‬
‫کرےجو دوسرے کئ ثقہ راويوں کے خالف نہ ہو ۔کثير علماء حجاز نے اسی اصطالح کو قبول کيا‬
‫ہے ۔‬

‫‪-4-‬‬
‫ابن الصالح نے بھی اس کی تائيد کی ہے ابن کثير نے اس سے يہ نتيجہ نکاال ہے کہ جب ثقہ راوی‬
‫ايسی روايت بيان کرے جو کسی اور نے نہ کی ہو اور وه راوی حافظ وضابط بھی ہو تو اس کی‬
‫روايت کو قبول کيا جائے گا کيونکہ اگر اس حديث کو رد کرديا جائےتو بہت سی احاديث کا مرده ہونا‬
‫الزم آئے گا اور بہت سے مسائل بال دالئل ره جائيں گے ۔)علوم الحديث ص ‪(٢۵۴‬‬

‫امام ابن قيم پرزور الفاظ ميں اس کی تائيدکرتے ہوئے فرماتے ہيں۔‬
‫'' حديث شاذ سے مراد يہ ہے کہ ايک راوی دوسرے ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔ جب ثقہ راوی‬
‫ايک منفرد روايت بيان کرے اور ثقہ راويوں نے اس کی مخالفت نہ کی ہو تو اس کو شاذ نہيں کہتے‬
‫)اغاثۃ اللہفان ص‪(١۶٠‬‬

‫خالصہ يہ کہ شاذ حديث وه ہوتی ہے جس کو ايک ثقہ راوی روايت کرے اور اپنے سے زياده ثقہ‬
‫راوی يا کئ ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔‬

‫حسن‪:‬۔‬
‫حسن حديث وه ہے جس کی سند يعنی راويوں کا سلسلہ متصل ہو۔ايک دوسرے سے مال ہوا ہوپہلے‬
‫راوی نے دوسرے راوی سے وه بات سنی ہوجو وه بيان کررہا ہے۔اور اس کے تمام راوی عادل ہوں‬
‫مگر ضبط )حافظہ( ميں کچھ کمی ہواور نہ ہی راويت شاذ ہو اور نہ ہی علت ہو۔‬
‫حديث صحيح اور حسن کے درميان صرف يہ ہی فرق ہےکہ صحيح حديث کے تمام راوی مضبوط‬
‫حافظہ کے مالک ہوتےہيں مگر حسن حديث کے کم از کم کسی ايک راوی کا حافظہ کمزور ہوتا ہے‬
‫باقی تمام شرائط اس کی بھی وه ہی ہيں جو صحيح کی ہيں۔‬
‫حسن حديث کی دو قسميں ‪:‬۔‪ ( ١‬حسن لذاتيہ )‪(٢‬حسن لغيره۔‬

‫حسن لذاتيہ ‪:‬۔‬


‫کسی قيد وشرط کے بغير حسن حديث کہا جائے تو اس سے حسن لذاتيہ مراد ہوتی ہے۔ حسن لذاتيہ‬
‫کی وجہ تسميہ ہے کہ اس ميں جو خوبی پائ جاتی ہے وه اس کی ذاتی ہوتی ہے اس ميں صحيح‬
‫حديث کی تمام شرائط پائ جاتی ہيں سوائے اس کے کہ اس کے رواة ورجال ميں ضبط کی کمی ہوتی‬
‫ہے ۔‬

‫حسن لغيره ‪:‬۔‬


‫حسن لغيره وه حديث ہے جس کی سند ميں ايسا مستور)وه راوی جس کی ثقاہت کم بيان کی گئ ہو‬
‫(راوی ہو جس کی صالحيت اور عدم صالحيت کا کچھ پتہ نہيں ہوتا البتہ وه زياده غفلت پيشہ‪ ،‬کثير‬
‫الخطاء نہيں ہوتا۔ نيز کسی دوسری حديث سے اس کی تائيد بھی ہوتی ہے۔ تائيد کرنے والے حديث‬
‫کو متابع اور شاہد کہتے ہيں۔‬

‫متابع ‪:‬۔‬
‫بعض محدثين متابع ومشاہدشاہد کو ايک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہيں اوراس ميں کوئ حرج‬
‫نہيں سمجھتے۔ )شرح نخبہ ص‪(١۵‬‬

‫‪-5-‬‬
‫يہ دونوں قسميں ايسی ہيں کہ ان سے غريب حديث کو تقويت وتائيد حاصل ہوتی ہے مگر اس سے‬
‫دونوں کا مترادف ہونا الزم نہيں آتا۔ بلکہ ان کے درميان بﮍا نازک فرق پايا جاتا ہے اور علماء نے ان‬
‫کی جداگانہ تعريفيں کی ہيں۔‬

‫تعريف‪:‬۔‬
‫وه روايت جس کے راوی کی دوسرا راوی تائيد کرتا ہو۔ اور تائيد کرنے واال اس قابل ہو کہ اس کی‬
‫روايت قبول کی جاسکے ۔ تائيد کرنے واال راوی کے استاد يا اس استاد کے استاد سے ايسے الفاظ‬
‫ميں روايت کرے جو پہلے راوی کے بيان کرده الفاظ سے ملتے جلتے ہوں۔‬

‫شاہد ‪:‬۔‬
‫شاہد کی تعريف يہ ہے کہ دوسرا راوی ويسے تو اس راوی کی تائيد کرتا ہو مگر وه کسی اور‬
‫صحابی سے روايت کرتا ہو۔ اوراس کی يہ روايت لفظ ومعنی دونوں ميں يا صرف معنی ميں پہلے‬
‫راوی کی روايت سے ملتی جلتی ہو )شرح نخبہ ص ‪(١۵‬‬

‫ضعيف‪:‬۔‬
‫حديث کی تيسری قسم ضعيف حديث ہے۔ ضعيف حديث وه ہے جس ميں صحيح اور حسن کی صفات‬
‫نہ پائ جائيں يعنی جو اصول صحيح حسن کے لئے ہيں يہ ان پر پوری نہ اترے تو يہ ضعيف کہالئے‬
‫گی۔‬

‫مرسل‪:‬۔‬
‫حديث مرسل اسے کہتے ہيں جس کی سند ميں سے صحابی کا نام ساقط ہوگيا ہو ۔ مثالً نافع کہتے‬
‫ہيں‪ ،‬آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے يوں فرمايا‪ ،‬يا يوں کہا‪،‬يا آپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی موجودگی ميں‬
‫اس طرح کہا گيا‪ ،‬حاالنکہ نافع تابعی ہيں۔گويا اس حديث ميں صحابی کا نام مذکور ہی نہيں اس اعتبار‬
‫سے يہ حديث مرسل ہوئ ۔‬
‫مرسل حديث ضعيف اس لئے ہوتی ہے کہ اس ميں اتصال نہيں ہوتا۔‬

‫منقطع ‪:‬۔‬
‫منقطع وه حديث ہے جس کی سند سے کوئ راوی ساقط ہو يا اس ميں کوئ مبہم راوی ذکر کيا گيا ہو۔‬
‫حديث منقطع اس لئے ضعيف ہوتی ہے کہ اس کی سند متصل نہيں ہوتی اس لحاظ سے يہ مرسل کے‬
‫مشابہ ہوتی ہے مگر اس ميں يہ فرق ہوتا ہے کہ مرسل روايت ميں صحابی کا نام ساقط ہوتا ہے‬
‫جبکہ اس ميں يہ شرط نہيں ہوتی۔خطيب بغدادی اپنی کتاب''الکفايۃ فی علم الروايۃ''ميں فرماتے ہيں‬
‫‪:‬‬
‫''حديث منقطع مرسل کی مانند ہوتی ہے مگر يہ اصطالح وہاں استعمال کی جاتی ہے جہاں‬
‫تابعی سے نچلے درجہ کا راوی صحابہ سے روايت کرے‪).‬الکفايۃ ص‪(٢١‬‬

‫معضل‪:‬۔‬

‫‪-6-‬‬
‫معضل اس حديث کو کہتے ہيں جس ميں دو يا دو سے زياده راوی پے درپے مسلسل ساقط ہوگئے‬
‫ہوں ۔ معضل کی پہچان منقطع سے زياده دشوار ہوتی ہے اسی لئے اس کو )مشکل‪ ،‬دشوار ( کہتے‬
‫ہيں۔ )توضيح االفکارجلد‪١‬ص‪(٣٢٧‬‬

‫حديث معضل کو منقطع کی ايک خاص قسم سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ہر معضل حديث منقطع ہوتی‬
‫ہے ۔ مگر ہر منقطع معضل نہيں ہوتی ۔ )توضيح االفکارجلد‪١‬ص‪(٣٢۴‬‬

‫معضل روايت کی مثال يہ ہے ۔‬


‫اعمش شعبی سے روايت کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا''آدمی سے قيامت کے دن کہا جائے گا کہ تو‬
‫نے فالں فالں کام کئيے؟وه کہے گا نہيں"‬
‫پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی ۔‬
‫تعالی عنہ سے روايت کی ہے اور انس‬ ‫يہ روايت اس لئے معضل ہے کہ شعبی نے انس رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم سے تو گويا اعمش نے انس رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی‬ ‫رضی ﷲ ٰ‬
‫عنہ اور نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کو سند سے ساقط کرکے معضل کرديا۔)اختصار علوم الحديث ص‪.(۵۵‬‬

‫مدلس االسناد ‪:‬۔‬


‫يہ وه حديث ہے جو راوی ايسے شخص سے روايت کرے جو اس کا ہم عصر ہو اور اس سے مل‬
‫چکا ہو ہم عصر سے مراد ايک ہی وقت ميں دونوں موجود ہوں مگر اس سے اس نے کوئ بات سنی‬
‫نہ ہو يا ايسے ہم عصر سے روايت کرے جس سے مال نہ ہو مگر تاثر يہ دے کہ اس سے مال ہے ۔‬
‫اس کی مثال خشرم کا يہ قول ہے ۔‬
‫ہم سفيان بن عينيہ کے بيان حاضر تھے سفيان نے کہا ''زہری نے يوں فرمايا''سفيان سے پوچھا گيا‬
‫۔کيا آپ نے زہری سے يہ سنا ہے!سفيان نے کہا‪ ،‬مجھے عبدالرزاق نے بتايا ہے اس نے معمر سے‬
‫سنا ہے اور معمر نے زہری سے۔ )اختصار علوم الحديث ص ‪(۵٨‬‬

‫مذکوره صدر اسناد ميں سفيان زہری کے ہم عصر تھے اور ان سے مل چکے تھے مگر انہوں نے‬
‫زہری سے کوئ روايت نہيں سنی تھی بلکہ سفيان نے يہ روايت عبدالرزاق سے سنی‪ ،‬عبدالرزاق‬
‫نے معمر سے اور معمر نے زہری سے سنی اس سند ميں تدليس يہ ہے ۔کہ سفيان نے عبدالرزاق‬
‫اور معمر دونوں کا نام حذف کرديا اور ايسے الفاظ سے روايت کيا کہ اشکال پيدا ہوتا ہے کہ انہوں‬
‫نے براه راست بذات خود يہ حديث زہری سے سنی‪.‬‬
‫يہ تدليس کی نہايت بدترين قسم ہے ۔‬
‫)التوضيح‬ ‫شعبہ فرماتے ہيں ۔ميں تدليس کا مرتکب ہونے کی نسبت زنا کاری کو ترجيح ديتا ہوں ۔‬
‫جلد‪١‬ص‪( ٣۶۶‬‬

‫۔)الباعث الحثيث ص‪(۵٨‬‬ ‫تدليس جھوٹ کا بھائ ہے‬

‫مضطرب ‪:‬۔‬
‫مضطرب اس حديث کو کہتےہيں جس کی کئ روايات ہوں اور تعداد کے باوجود ان ميں اس طرح کی‬
‫مساوات پائ جاتی ہو کہ کسی طرح بھی ايک روايت کودوسرے کے مقابلہ ميں ترجيح نہ دی‬
‫‪-7-‬‬
‫جاسکتی ہو بعض اوقات ايک ہی راوی اس حديث کو دو يا دو سے زياده مرتبہ روايات کرتا ہو۔ يا دو‬
‫يا دو سے زياده راوی اس حديث کو روايت کرتے ہوں ۔‬
‫حديث مضطرب کے ضعف کی وجہ اس کے رواة کا وه اختالف ہے جو ان کے حفظ وضبط ميں پايا‬
‫جاتا ہے ۔ يہ اختالف اسی صورت ميں دور ہوسکتا ہے جب ايک راوی کی روايت اس کے حفظ وضبط‬
‫يا طول سماع کے باعث دوسری روايت کے مقابلہ ميں رائج ہو ۔ يہی وجہ ہے کہ ايک روايت يا متعدد‬
‫روايات کے راجح ہونے کی صورت ميں حديث کو مضطرب نہيں کہا جاتا ۔)التدريب ص‪(٩٣‬‬

‫مقلوب ‪:‬۔‬
‫مقلوب اس حديث کو کہتے ہيں جس ميں کسی راوی سے متن حديث کا کوئ لفظ يا سند ميں کسی‬
‫راوی کا نام ونس بدل گيا گيا ہو يا مقدم کو مؤخر کرديا ہو يا مؤخر کو مقدم يا ايک چيز کی جگہ رکھ‬
‫دی گئ ہو اس تعريف سے ثابت ہوتا ہے کہ قلب سند ومتن دونوں ميں پايا جاتا ہے ۔ حديث ميں قلب‬
‫راوی کے بھولنے کی وجہ سے ہوتا ہے وه جان کر ايسا نہيں کرتا مگر اس سے حديث ضعيف قرار‬
‫پائ جاتی ہے۔ اور اگر کوئ جان کر قلب پيدا کرے تو وه حديث مقلوب نہيں بلکہ موضوع ہے اور من‬
‫گھﮍت کہالتی ہے ۔‬

‫شاذ‪:‬۔‬
‫شاذ حديث کی تعريف ميں دو باتيں ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہيں۔‬
‫)‪ (١‬انفراد )‪(٢‬مخالفت‪،‬‬
‫حديث شاذ کی عام تعريف يہ ہے کہ '' وه حديث جس ميں ايک ثقہ راوی اپنے سے زياده ثقہ راوی‬
‫کی مخالفت کرے حافظ ابن حجر نے تصريح کی ہےکہ حديث شاذ کی اصطالح اورقابل اعتماد تعريف‬
‫يہی ہے۔‬
‫امام شافعی فرماتے ہيں''شاذ حديث کا مطلب يہ نہيں کہ ثقہ راوی وه روايت بيان کرے جو دوسرا‬
‫کوئ راوی بيان نہ کرتا ہوبلکہ شاذ حديث سے مراد يہ ہے کہ ثقہ راوی کوئ ايسی حديث بيان نہ‬
‫کرےجو دوسرے کئ ثقہ راويوں کے خالف نہ ہو ۔کثير علماء حجاز نے اسی اصطالح کو قبول کيا‬
‫ہے ۔‬
‫ابن الصالح نے بھی اس کی تائيد کی ہے ابن کثير نے اس سے يہ نتيجہ نکاال ہے کہ جب ثقہ راوی‬
‫ايسی روايت بيان کرے جو کسی اور نے نہ کی ہو اور وه راوی حافظ وضابط بھی ہو تو اس کی‬
‫روايت کو قبول کيا جائے گا کيونکہ اگر اس حديث کو رد کرديا جائےتو بہت سی احاديث کا مرده ہونا‬
‫الزم آئے گا اور بہت سے مسائل بال دالئل ره جائيں گے ۔)علوم الحديث ص ‪(٢۵۴‬‬

‫امام ابن قيم پرزور الفاظ ميں اس کی تائيدکرتے ہوئے فرماتے ہيں۔‬
‫'' حديث شاذ سے مراد يہ ہے کہ ايک راوی دوسرے ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔ جب ثقہ راوی‬
‫ايک منفرد روايت بيان کرے اور ثقہ راويوں نے اس کی مخالفت نہ کی ہو تو اس کو شاذ نہيں کہتے‬
‫)اغاثۃ اللہفان ص‪(١۶٠‬‬

‫خالصہ يہ کہ شاذ حديث وه ہوتی ہے جس کو ايک ثقہ راوی روايت کرے اور اپنے سے زياده ثقہ‬
‫راوی يا کئ ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔‬

‫منکر ‪:‬۔‬
‫‪-8-‬‬
‫منکر اس حديث کو کہتے ہيں جس کو ضعيف راوی ثقہ راوی کی مخالفت ميں بيان کرے ۔ يہ حديث‬
‫شاذ کی طرح ہی ايک قسم ہے مگر شاذ ميں ايک ثقہ راوی اپنے سے بﮍے ثقہ يا کئ ثقات کی‬
‫مخالفت کرے ۔ جبکہ منکر ميں ضعيف راوی ثقہ کی مخالفت کرتا ہے ۔‬
‫منکر حديث کے مقابل حديث کو معروف کہتے ہيں اور شاذ کے مقابل کو محفوظ کہتے ہيں۔‬
‫حافظ ابن حجر فرماتے ہيں‪:‬‬
‫اور حديث صحيح وحسن کے راوی کی زيارت قبول ہے بشرطيکہ وه اس راوی کے خالف نہ ہو جو‬
‫اس سے زياده ثقہ ہو اگر ايسا راوی اس کی مخالفت کرے جو حفظ وضبط کی زيادتی يا کثرت غور يا‬
‫کسی اور وجہ ترجيح کی بنا پر اس کے مقابلہ ميں ارجح ہو تو اس صورت ميں راجح کو محفوظ اور‬
‫مرجوح کو شاذ کہيں گے ۔اگر حديث ضعيف اس کی مخالفت ہو تا راجح کو معروف اور اس کے مقابل‬
‫کو منکر کہيں گے۔)شرح نخبہ ص ‪(١۴،١٢‬‬

‫امام سيوطی فرماتے ہيں‪:‬‬


‫محدثين کی اصطالح ميں متروک اس حديث کو کہتے ہيں جس کے راوی پر حديث ميں دروغ گوئ يا‬
‫کسی قول وفعل کی وجہ سے فسق کا الزام عائد کيا گيا ہو وه غافل طبع اور کثير الوہم ہو )الفيہ‬
‫سيوطی حاشيہ ص‪(٩۴‬‬

‫حديث وسنت‬
‫اگر ہم محدثين بالعموم اور متاخر محدثين بالخصوص کی غالب رائے پرعمل کريں تو ہم حديث و سنت‬
‫کے الفاظ کو مترادف ومساوی پائيں گے۔ يہ دونوں لفظ ايک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاتے‬
‫ہيں اور ان دونوں کا مفہوم کسی قول ‪،‬فعل ‪،‬تقرير يا صفت کو سرورکائنات ۖکی جانب منسوب کرنا ہے‬
‫اصول تاريخی کی روشنی ميں ديکھا جائے تو يہ حقيقت‬
‫ِ‬ ‫‪،‬البتہ اگر حديث و سنت کے الفاظ کو ان کے‬
‫نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ان دونوں کے استعمال ميں لغت واصطالح کے پيش نظر کچھ دقيق سا‬
‫فرق بھی پيا جا تا ہے۔‬
‫لفظ حديث کی لغوی تحقيق ‪:‬‬
‫ابو البقاء کے بيان کے مطابق حديث کا لفظ تحديث سے اسم ہے‪،‬تحديث کے معنی ہيں خبر دينا ‪،‬پھر‬
‫اس قول فعل يا تقرير )وه کام جو آنحضور ۖکی موجودگی ميں کيا گيا ہو اور آپ ۖ نے اس سے منع نہ‬
‫فرمايا ہو(کو حديث کہنے لگے جو نبی اکرم ۖکی جانب منسوب ہو ظہور اسالم سے پہلے بھی عرب‬
‫حديث کے لفظ کو اخبار )خبر دينا( کے معنی ميں استعمال کرتے تھے‪،‬مثالً وه اپنے مشہور ايام کو‬
‫ً‬
‫تھے۔غالبامشہور نحوی الفقراء اس حقيقت سے آگاه تھا‪ ،‬اسی لئے اس‬ ‫''احاديث ''سے تعبير کرتے‬
‫کے نزديک حديث کی جمع ُاحدوثہ اور احدثہ کی جمع احاديث ہے۔عربی محاوره ميں کہتے ہيں‬
‫ُ‬
‫''صاراحدوثة''يا ''صار حديثا''يعنی فالں چيز ضرب المثل بن گئی۔ مشہور شاعر ابو کلده نے ايک ہی‬
‫شعر ميں مثل اور احدوثہ کے الفاظ استعمال کر کے ان کے مترادف ہونے کی جانب اشاره کيا ہے۔‬
‫وال تصبحو احدوثة مثل قائل بہ يضرب االمثال من يتمثل )اس قائل کی طرح تم ضرب المثل نہ بن جاؤ‬
‫کہ جو شخص مثال دينا چاہتا ہے )تو اس کا نام پيش کر ديتا ہے‬
‫لفظ )حديث(کے ماده کو جيسے بھی تبديل کرتے چلے جائيں اس ميں خبر دينے کا مفہوم ضرور‬
‫موجود رہے گا۔ قرآن کريم ميں فرمايا‪:‬‬
‫مثلہ)سورة الطور ‪(٣٤،‬‬
‫بحدﯾث ﱢ ْ ِ‬
‫تو ِ َ ِ ْ ٍ‬ ‫َْ َ‬
‫فليا ُ ْ‬
‫دوسری جگہ فرمايا‪:‬‬
‫‪-9-‬‬
‫ن ْ َ ِْ‬ ‫نزل َ ْ َ‬ ‫ٰ‬
‫متشابﮩا )سورة الزمر ‪(٢٣،‬‬
‫کتابا ُ َ َ ِ ً‬
‫الحدﯾثِ ِ َ ً‬ ‫احس َ‬ ‫ُّ‬
‫اللہ َ ﱠ َ‬
‫حديث ضد قديم ‪:‬‬
‫بعض علماء کے نزديک لفظ حديث ميں جدت کا مفہوم پايا جاتا ہے۔اس طرح حديث قديم کی ضد‬
‫ہے۔وه قديم کتاب ﷲ اور جديد سے حديث رسول ۖمراد ليتے ہيں‪،‬شيخ االسالم ابن حجر عسقالنی فتح‬
‫الباری شرح صحيح بخاری ميں فرماتے ہيں‪''،‬شرعی اصطالح ميں حديث سے وه )قول واعمال(مراد‬
‫ہيں جو آنحضرت ۖکی جانب منسوب ہوں ‪،‬گويا حديث کا لفظ قرآن کے مقابلہ ميں بوال جاتا ہے‪،‬اس‬
‫لئے کہ قرآن قديم ہے اور حديث اس کے مقابلہ ميں جديد ہے۔''‬
‫مذکوره باال بيان اس حقيقت کی آئينہ داری کرتا ہے کہ بہت سے علماء کتاب ﷲ کو حديث اور کالم ﷲ‬
‫کے بجائے ''حديث ﷲ کہنے سے احتراز کرتے تھے۔ سنن ابن ماجہ ميں ايک روايت موجود ہے‬
‫تعالی عنہ سے روايت ہے‬ ‫ٰ‬ ‫جس سے اس انداز کی تعبير ہوتی ہے۔حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫کہ نبی اکرم ۖنے فرمايا‪:‬صرف دو ہی چيزيں اہميت کی حامل ہينايک کالم اور دوسرا طريقہ‪،‬تو بہترين‬
‫کال م تو کالم ﷲ ہے اور بہترين راستہ وه ہے جس پر محمد ۖگامزن رہے‪،‬چونکہ اکثر کتب حديث ميں‬
‫''ان احسن الحديث کتاب ﷲ ''کے الفاظ ہيں اور ابن ماجہ احسن الکالم کے الفاظ نقل کرنے مينمتفرد‬
‫ہيں اس لئے کچھ بعيد نہيں کہ وه ورع واحتياط کے پيش نظر انہوں نے يہ انداز تعبير اختيار کيا‬
‫ہو‪،‬تاہم اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعض علماء کتاب ربانی کو جو کہ قديم ہے حديث کہنے‬
‫سے احتراز کرتے تھے۔‬
‫ساالر انبياء)صلی ﷲ علہہ وسلم( نے بذات خود اپنے قول کو حديث کا نام ديا گويا آپ نے يہ نام رکھ‬
‫کر اس کو ان ديگر امور سے ممتاز ومميز کرديا جن کی نسبت آپ کی طرف کی جا تی ہے ۔اس طرح‬
‫آپ نے لفظ حديث کی وه اصطالح پہلے ہی مقرر فرمادی جس پر محدثين نے آگے چل کر اتفاق کيا‬
‫تعالی عنہ نے آپ کی خدمت ميں حاضر ہوکر‬‫ٰ‬ ‫‪،‬حديث ميں آيا ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫دريافت کيا کہ روز قيامت آپ کی شفاعت کی سعادت کس کے حصہ ميں آئے گی ؟آپ ۖ نے جوابا ً‬
‫تعالی عنہ سے پہلے کوئی شخص مجھ سے اس‬ ‫ٰ‬ ‫فرمايا ''مجھے معلوم تھا کہ ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫حديث کے بارے ميں سوال نہيں کرے گا کيونکہ وه طلب حديث کے بہت حريص ہيں ''مذکوره باال‬
‫روايت ميں آنحضرت)صلی ﷲ عليہ وسلم( نے اپنےقول کو حديث سے تعبير فرمايا۔‬

‫حديث و سنت کا فرق ‪:‬‬


‫لفظ سنت اپنی اصل کے پيش نظر لفظ حديث کے مترادف ومساوی نہيں اپنے اصل لغوی معنی کے‬
‫اعتبار سے سنت کا اطالق اس دينی طريقہ پر کيا جاتا تھا جس پر نبی کريم ۖ اپنی سيرت مطہره ميں‬
‫گامزن رہے۔ اس لئے کہ سنت کے لغوی معنی راستہ کے ہيں ۔لفظ حديث عام ہے اور اس ميں‬
‫آنحضور ۖکے اقوال و اعمال سب داخل ہيں۔بخالف ازيں سنت کا لفظ آپ کے اعمال کے ساتھ مختص‬
‫ہے۔ دونوں لفظوں کے مفہوم کے مابين اسی فرق وامتياز کے پيش نظر محدثين کبھی يوں کہہ ديتے‬
‫ہيں کہ‪:‬‬
‫ھذاالحديث مخالف للقياس والسنة واالجماع يہ حديث قياس سنت اور اجماع کے خالف ہے۔‬
‫يا يوں کہتے ہيں کہ‪:‬‬
‫امام فی الحديث وامام فی السنةوامام فيھما معا فالں شخص حديث کا امام ہے فالں سنت کا امام اور‬
‫فالں دونوں کا۔عجب تر بات يہ ہے کہ دونوں کا مفہوم بالکل جداگانہ نوعيت کا معلوم ہوتا ہے اس کی‬
‫حديہ ہے کہ ابن النديم نے ايک کتاب کا نام ''کتاب السنن نشوا ھدالحديث'' بتايا ہے )اس نام سے‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ حديث وسنت کا مفہو م باہم مختلف ہے۔‬

‫لفظ سنت کی لغوی تحقيق ‪:‬‬


‫سنت سے طريقہ اور راستہ کا مفہوم مراد لينا عربوں کے يہاں کوئی نئی بات نہيں بلکہ عرب ظہور‬
‫اسالم سے پہلے بھی سنت کے اس مفہوم اور اس کی ضد بدعت سے آگاه وآشناه تھے ۔جب سنت‬

‫‪- 10 -‬‬
‫کے لفظ کو ﷲ کی طرف مضاف کر کے ''سنت ﷲ '' کہا جاتا ہے تو اس سے بھی سنت کا مفہوم‬
‫سمجھ ليتے تھے ۔ مثالً قرآن ميں فرمايا‪:‬‬
‫قبل ٰ◌يہ ﷲ کا طريقہ ہے ان لوگوں کے بارے ميں جو گزر چکے )سورة‬
‫من َ ْ ُ‬ ‫الذﯾن َ َ ْ‬
‫خلو ِ ْ‬ ‫فی ﱠ ِ ْ َ‬ ‫سنة ٰ‬
‫الل ّ ِہ ِ‬ ‫ُ ﱠ َ‬
‫االحزاب‪(٦٢،‬‬
‫جب عربوں نے آنحضو ر ۖ ْکی زبان مبارک سے عليکم بسنتی کے الفاظ سنے تو انہون نے فورا ً‬
‫سمجھ ليا کہ اس سے نبی کريم )صلی ﷲ عليہ وسلم( کی انفردی و اجتماعی زندگی کے اطوار وآداب‬
‫مراد ہيں‪،‬‬
‫مدينہ منوره ديگر بالد عالم کی نسبت سنت نبوی کا سب سے زياده حريص تھا ‪ ،‬يہی وجہ ہے کہ‬
‫اسے ''دارالسنة''کے نام سے موسوم کيا جاتا ہے‪ ،‬اطراف مدينہ ميں سنت کے مفہوم نے سياسی‬
‫واجتماعی شکل وصورت کے بجائے دينی واساسی رنگ وروپ اختيار کرليا چنانچہ‬
‫سرورکائنات)صلی ﷲ عليہ وسلم( نے فرمايا‪:‬‬
‫تعالی ‪،‬فرشتوں اور سب لوگوں ی لعنت ہو''‬ ‫ٰ‬ ‫جس نے مدينہ مں کسی بدوت کو جنم ديا اس پر ﷲ‬
‫اس حديث ميں اس بات کی جانب اشاره کيا گيا ہے کہ جو شخص جماعت کے شيرازه کو منتشر‬
‫کردے‪،‬امير کی اطاعت سے ہاتھ کھينچ لے اور بدعت کو سنت کے مقابلے ميں ترجيح دے تو ﷲ اور‬
‫اس کا رسول ۖاس بيزار ہيں ۔يہاں حدث کے الفاظ کو بدعت کے معنی ميں استعمال کيا گيا ہے ‪،‬بايں‬
‫طور حدث وبدعت کے الفاظ باہم مترادف اور سنت کی نقيض ہيں۔‬
‫نظر بريں باپ بيٹے کو نصيحت کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے‪:‬۔‬
‫يا بنی اياک الحدث‬
‫اے بيٹے بدعت سے بچو۔‬
‫اس کے جواب ميں بيٹا اتباع سنت کا ثبوت کا ان الفاظ ميں پيش کر سکتا ہے۔‬
‫''ميں نے اصحاب رسول ۖميں سے کسی کو نہيں ديکھا کہ کوئی چيز انہيں بدعت سے زياده نا پسند‬
‫ہو۔''‬
‫اسی طرح جس شخص کو بے دين تصور کيا جاتا ہو وه اس تہمت کی ترديد ‪:‬ميں کہہ سکتا ہے کہ‬
‫''ميں نے کوئی بدعت نہيں نکالی اور نہ اطاعت سے انحراف کيا۔''‬
‫بہت جلد مسلمانوں نے )حديث وبدعت کی( محدود دنيا سے نکل کر اس سے ايک جامع اور وسيع‬
‫مفہوم مراد لينا شروع کر ديا۔مسلمان صرف مدينہ کے دارلسنة ہی ميں بدعات کی ترويج سے نہيں‬
‫ڈرتے تھے بلکہ يہ خطره نہيں ہر اس جگہ الحق تھا جہاں بھی دعوت اسالم پہنچی ۔بہر کيف حدث‬
‫وبدعت ميں چنداں فرق نہيں ۔جيسا کہ حضور )صلی ﷲ عليہ وسلم( کے ارشاد سے واضح ہے‬
‫۔آپ)صلی ﷲ عليہ وسلم( نے فرمايا "شراالمور محدثا تھا'')بدترين امور بدعات ہيں(‬
‫''جس نے ہمارے اس امر)دين(ميں کوئی نئی بات ايجاد کی تو وه مردود ہے''۔‬

‫حفاظت سنت ‪:‬‬


‫نبی کريم ۖکے مذکوره صدر ارشادات کا يہ حتمی نتيجہ بر آمد ہوا کہ بدعات کی ترويج واشاعت کا جو‬
‫خطره پيدا ہوا تھا اسی حد تک حفاظت حديث وسنت کی تحريص و تشويق پيدا ہوئی ۔اس ميں ذرا بھر‬
‫بھی شک نہيں کہ جس مسلمان کا دل و دماغ آنحضور ۖکی ذات گرامی سے وابستہ ہو مگر وه اپنے‬
‫آپ کو اسوه رسول کے سانچہ ميں نہ دھالے تو ياد رکھئے کہ نہ وه صادق االيمان ہو سکتا ہے اور‬
‫نہ مقرب بارگاه ايزده بن سکتا ہے۔جو شخص حديث رسول ۖسے وابستہ رہتا ہو وه الزمی طور پر‬
‫اتباع سنت کے جذبہ سے سر شار ہوگا وه کبھی اس بات کی جسارت نہيں کريگا جو آپ ۖنے نہ کی ہو‬
‫‪،‬بلکہ کوئی کام انجام دينے سے قبل اس بات پر غور کريگا کہ سنت نبوی ۖسے کون سا فعل قريب‬
‫ترين ہے‪،‬مثال کے طور پر کپﮍوں کو سميٹ کر رکھنا )ٹخنوں سے نيچے نہ گرنے دينا(اور محدث‬
‫کے ہا ں حاضری ديتے وقت دروازه کھٹکھٹانا ۔کثرت سے سالم کہنا مگر دہيمی آواز کے ساتھ ‪،‬جہاں‬
‫جگہ مل جائے بيٹھ جانا ‪،‬مجلس کے وسط ميں بيٹھنے سے احتراز کرنا ‪،‬دو آدميوں کے دوميان ان‬
‫کی اجازت کے بغير بيٹھنا‪،‬اور اس قسم کی ديگر عادات جن کا ذکر کتب حديث کے کتاب االدب ميں کيا‬
‫‪- 11 -‬‬
‫گيا ہے۔‬
‫عہد رسالت اور زمانہ وحی گزر جانے کے بعد علمائے سلف کے ساتھ مشابہت دی ثلث بھی يک‬
‫گونہ اتباع سنت ہی ہے۔اسالف صالحين کے ساتھ مشابہت ومماثلت رکھنے والوں کو سلفی کہا جاتا‬
‫ہے۔يہ لوگ احياء سنت اور بدعت کے مٹانے کے لئے اپنی زندگياں وقف کرديا کرتے تھے ۔مختلف‬
‫زمانوں ميں سچے دين دار لوگ ان کو عزت و وقعت کی نگاه سے ديکھتے تھے۔البتہ وه اہل بدعت‬
‫اور غالی صوفياء و اوباء کا ہدف ظلم وستم رہا کرتے تھے ۔ان کے لئے يہی اعزاز کافی تھا کہ انہوں‬
‫نے احادث نبويہ کو ضائع ہونے سے بچاليا۔‬

‫حديث وسنت کی يگانگت ‪:‬‬


‫اگرچہ اکثر جگہ حديث وسنت کے الفاظ کا اطالق جداگانہ معنی ومفہوم پر کيا جاتا ہے مگر نقاد حديث‬
‫ہميشہ ان کو مساوی مترادف يا کم از کم قريب المعنی سمجھتے رہے۔يہ بات اپنی جگہ درست ہے اس‬
‫لئے کہ عملی سنت اس کے سوا کچھ نہيں کہ وه آنحضور ۖکے طور طريقہ کا نام ہے جس کو آپ‬
‫مويد فرمايا کرتے تھے ۔پھر يہ کہ حديث وسنت دونوں کا‬ ‫ايسے حکيمانہ اقوال اور احاديث سے ّ‬
‫موضوع ايک ہے ۔دونوں کا مرکز ومحور يکساں طور پر آنحضور ۖکے اقوال واعمال ہيں ۔ظاہر ہے‬
‫کہ آپ کے اقوال آپ کے اعمال کی تائيد کرتے تھے ۔اور آپ کے اعمال سے اقوال کو تائيد وتقويت‬
‫حاصل ہوتی تھی۔‬
‫جب مذکوره صدر حقائق نقاد حديث کے ذہن ميں گردش کرنے لگے تو انہيں اس ناقابل ترديد حقيقت‬
‫کا واشگاف الفااظ ميں اعتراف کرنا پﮍا کہ اگر ہم حديث وسنت دونوں کے اصلی مورد کو نظر انداز‬
‫کردين تو )استعمال کے لحاظ سے(دونوں ايک ہيں ۔اور ان ميں کوئی فرق وامتياز نہيں پايا جاتا ۔ان‬
‫حقائق کے پيش نظر اکثر محدثين نے ان کے مترادف ہونے کا فيصلہ صادر کيا۔‬

‫طلب حديث ميں ترک وطن‪:‬۔‬


‫محدثين نے بﮍی دشوار ی اور تکليف اٹھا کر احاديث نبويہ کو جمع کيا۔اگر کسی محدث کو پتہ‬
‫چلتا کہ فالں کسی دور دراز عالقہ ميں کسی شخص کے پاس کوئ ايک حديث رسولصلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم ہے تو وه اس ايک حديث کی طلب کے لئے سامان سفر تيار کرتے اور سفر کی مشکالت‬
‫اور تکليفوں کو نطر انداز کرتے ہوئے حديث حاصل کرنے کے لئے سفر کا آغاز کرتے۔‬
‫حضرت جابر عبدﷲ متوفی‪٧٨‬ھ نے ايک اونٹ خريدا اور اس پر کجاوه باندھ کر ايک ماه کا سفر‬
‫کرکے ملک شام پہنچے اور وہاں عبدﷲ بن ُانيس سے قصاص کے بارے ميں ايک حديث دريافت‬
‫کی۔ )الجامع االخالق الراوی ‪،‬ج‪٩‬ص‪(١۶٨‬‬
‫بہت سے علماء سلف ايک حديث کے خاطر طويل سفر اختيار کرنے سے مانوس تھے حضرت‬
‫سعد بن المثيب ‪ ۶۵‬ہجری فرماتے ہيں ‪:‬ميں ايک حديث کی تالش ميں کئ کئ رات اور دن سفر‬
‫ميں گزار ديتا۔ )الجامع االخالق الراوی ‪،‬ج‪٩‬ص‪(١۶٩‬‬
‫ابو قالبہ متوفی‪١٠۴‬ھکا قول ہے ‪،‬ميں مدينے ميں تين دن ٹہرا مدينہ جانے سے ميرا مقصد‬
‫صرف يہ تھا کہ ايک شخص کو ايک حديث ياد تھی اور ميں اس سے سننا چاہتا تھا۔ )الجامع‬
‫االخالق الراوی ‪،‬ج‪٩‬ص‪(١۶٨‬‬
‫مشہور راوی مکحول جن کا انتقال ‪ ١١٢‬ہجری ميں ہوا ان کا واقعہ ايک حديث کی خاطر طويل‬
‫سفر کرنے کی واضح مثال ہے مکحول فرماتے۔‬
‫‪- 12 -‬‬
‫'' ميں مصر ميں بنی ہذيک کی ايک عورت کا غالم تھا اس نے مجھے آزاد کرديا ميں اپنے گھر‬
‫سے طلب علم کے لئے نکال اور ميری دانست ميں مصر ميں جو علم تھا وه ميں نے حاصل کرليا‬
‫پھر حجاز آيا اور اس کے اہل علم سے خوب استفاده کيا اسی طرح پھر عراق اور شام گيا اوراس‬
‫کا چھپہ چھپہ چھان مارا ميں لوگوں سے پوچھتا تھا کہ فوجيوں کو غنيمت سے زائد جو انعام ديا‬
‫جاتا ہے اس کے بارے ميں شرعی حکم کيا ہے مگر مجھے کچھ پتہ نہ چال دوران سفر ميری‬
‫مالقات زياد بن جاريہ تميمی سے ہوئ ميں نے اس سے بھی وہی مسئلہ دريافت کيا اس نے کہا‬
‫ميں نے حبيب بن مسلمہ الفہری سے سنا وه کہتے تھے کہ ميری موجودگی ميں نبی کريم صلی‬
‫ﷲ عليہ وسلم نے آغاز ميں مال غنيمت کی چوتھائ انعام کے طور پر دی اور لوٹتے وقت ايک‬
‫تہائ مال غنيمت انعام ميں ديا۔) سنن ابی داؤد‪،‬ج‪٣‬ص‪،١٠۶‬ابن ماجہ‪،‬ج‪٢‬ص‪(٩۵١‬‬
‫مکحول شام کے بہت بﮍے عالم تھے ان کا پورا نام ابو عبدﷲ بن ابی مسلم الہذلی ہے يہ حافظ‬
‫حديث اور فقيہ تھے۔)ترجمہ مکحول تذکرة الحفاظ‪،‬ج‪،١‬ص‪(١٠٧‬‬
‫علمی پياس بجھانے کے لئے عبدﷲ اٹھاره مرتبہ مصر گئے ۔)ان کا پورا نام احمد بن موسی‬
‫جواليقی تھا (علم حاصل کرنے کے لئے سفر کے طور طريقے جدا جدا تھے بعض راويان حديث‬
‫نے پندره يا بيس سال کی عمر ميں ہی سامان سفر باندھنے کا بيﮍا اٹھايا۔) تذکرة‬
‫الحفاظ‪،‬ج‪،٢‬ص‪(٧٠٨‬‬
‫بعض کے متعلق يہ کہا گيا ہے کہ وه ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے طويل سفر طے کئے‬
‫اور بﮍی زحمت اٹھائ۔‬
‫مثالً ابوبرکات بن مبارک السقطی متوفی ‪ ۵٠٩‬ھ ‪)،‬ديکھئے تذکرة الحفاظ ‪،‬ج‪،۴‬ص‪(٢۶٠‬‬

‫تھے ۔‬ ‫۔ظہور اسالم سے پہلےعرب کتاب سے آشنا‬


‫اسالم کے آنے سے پہلے عربوں کے بارے ميں يہ نہيں کہا جاسکتا کہ وه لکھنے کے سامان کی‬
‫کمی کی وجہ سے اپنے آثار وآداب کی حفاظت کے لئے اپنے حافظہ پر اعتماد کيا کرتے تھے اور‬
‫فن کتابت سے بالکل بيگانہ تھے۔ يہ بات ہر علم رکھنے واال جانتا ہے کہ مکہ آنحضرت صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کی بعث سے پہلے ايک تجارتی شہر تھا جہاں دوسرے شہر سے آنے جانے والوں کا‬
‫ايک سلسلہ لگا رہتا تھا اوراس ميں مدينہ کی نسبت پﮍھنے لکھنے والےلوگ زياده تھے ان تمام‬
‫باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئ يہ کيسے کہہ سکتا ہے کہ مکہ ميں پﮍھنے لکھنے والے‬
‫لوگوں کی کمی تھی کيونکہ کسی بھی ايسے شہر ميں جہاں مختلف طبقوں اور شہروں کے‬
‫لوگوں کی آمد کا سلسلہ ہوا اور ہو بھی تجارت کے لئے تو وہاں کے باشندوں کے لئے لکھنا‬
‫پﮍھنا جروری آنا چاہئيے ورنہ اس کے بغير تجارت ميں کافی دشواری ہوگی۔‬
‫اور اس بات کی تائيد اس حديث سے بھی ہوتی ہے جو امام بخاری نے اپنی کتاب صحيح بخاری‬
‫ميں نقل کی ہے کہ جب بدر کی لﮍائ ختم ہوئ اور کئ کافر مسلمانوں کے ساتھ قيد ہوئے تو ﷲ‬
‫کے رسول صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کی رہائ کے لئے ان سے يہ کہا کہ جو پﮍھے لکھے ہيں‬
‫وه مدينے کے دس دس بچوں کو پﮍھنا لکھنا سکھاديں تو ان کی رہائ ہوجائے گی ۔‬

‫عہد رسالت ميں تحرير شده صحيفے‪.‬‬

‫‪- 13 -‬‬
‫بعض لوگ يہ کہہ کر کہ احاديث مبارکہ ‪ ٢۵٠‬سو سال بعد لکھی گئ ہيں اس لئے ان پر بھروسہ‬
‫نہيں کيا جاسکتااور ايک روايت کے مطابق رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم نے بھی صحابہ کو‬
‫احاديث لکھنے سے منع فرمايا تھا۔ اس لئے احاديث کی کتابت حکم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫کے خالف ہے۔اور جو کام حکم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلمکے خالف ہو وه حجت نہيں ہو‬
‫سکتا۔‬
‫يہ ان لوگوں کا اعتراض ہے جوعلم سے نابلد اور نا آشنا ٰہيں کيونکہ اگر انہيں علم ہوتا تو اس‬
‫طرح کی بات نہيں کرتے يہ بات درست ہے کہ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے نبوت کے ابتدائ‬
‫دور ميں احاديث لکھنے سے منع فرمايا تھامگر انہيں ﷲ کے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کے وه‬
‫ارشادات نہيں ملے جن ميں ﷲ کے رسول صلی ﷲ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی‬
‫عنہ کو احاديث لکھنے کی اجازت دی ۔‬
‫بعد ميں لکھنے کی اجازت کی ايک واضح دليل يہ ہے کہ آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اپنی وفات‬
‫سے قبل ايک ايسی تحرير لکھنا چاہی جس کی موجودگی ميں مسلمان گمراه نہ ہوں۔)فتح الباری جلد ‪١‬‬
‫ص ‪ ١٨۵‬۔‪(١٨٢‬‬

‫اگر قرآن کے بغير کسی اور چيز کے لکھنے کی اجازت نہيں ہوتی تو آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے‬
‫صحابہ کو لکھنے کا کيوں حکم ديا ظاہر سی بات ہے کہ وه قرآن نہيں تھا کيونکہ قرآن تو پہلے‬
‫ہی مکمل ہوچکا تھا۔‬
‫اور اگر ہم ايمانداری سے کتب کا مطالعہ کريں تو ہم پر يہ بات واضح اور روشن ہوجائے گی کہ‬
‫ﷲ کے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی موجودگی ميں صحابہ احاديث جمع کيا کرتے ۔‬
‫تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ انہوں نے ايک صحيفہ‬ ‫امام ترمذی سعد بن عباده رضی ﷲ ٰ‬
‫ميں احاديث نبويہ جمع کی تھيں ۔)سنن ترمذی‪،‬کتاب االحکام‪،‬باليمين مع الشاہد صحيفہ ہمام بن منبہ ص‪(١۶‬‬

‫تھا۔)صحيفہ ہمام بن منبہ بحوالہ''تدوين حديث‬ ‫سعد بن عباده کا بيٹا اس صحيفے سے حديث روايت کيا کرتا‬
‫''موالنا مناظر احسن گيالنی (‬

‫حضرت سمره بن جندب نے بھی ايک صحيفہ لکھا تھا آپ کی وفات ‪ ۶٠‬ہجری ميں ہوئ ان کے‬
‫بعد يہ صحيفہ ان کے بيٹے سليمان کو مال۔اور اس سے وه حديث روايت کرتے تھے )تہذيب التھذيب‬
‫جلد ‪ ۴‬ص‪(٢١۴‬‬

‫اسی صحيفہ کے بارے ميں ابن سيرين )جن کی وفات ‪ ١١٠‬ہجری ميں ہوئتہذيب التھذيبجلد‪،٩‬ص‪ (٢١۴‬فرماتے ہيں‬
‫)تھذيب التھذيب‬ ‫''سمره نے جو مکتوب اپنے بيٹوں کے نام روانہ کيا اس ميں بہت سا علم موجود تھا۔‬
‫جلد‪،۴‬ص‪(٢٣۶‬‬

‫۔)طبقات ابن سعد جلد ‪ ۵‬ص‪(٣۴۴‬‬ ‫حضرت جابر بن عبدﷲ متوفی‪٧٨‬ھ نے بھی ايک صحيفہ رقم کيا تھا‬
‫جو صحيفہ عصر نبوت ميں لکھے گئے ان ٰميں''صحيفہ صادقہ ''سب سے زياده مشہور ہے ۔‬
‫يہ صحيفہ حضرت عبدﷲ بن عمروبن العاص نے لکھا تھا ان کی وفات ‪ ۶۵‬ہجری ميں ہوئ بقول‬
‫ابن االثير اس ميں ايک ہزار حديثيں تھيں ۔ )اسدالعابتہ البن االثير ترجمہ عبدﷲ بن عمروبن العاص جلد ‪ ٣‬ص‪(٢٣٣‬‬

‫‪- 14 -‬‬
‫حضرت عبدﷲ بن عمروالعاص نے بارگاه رسالت ميں حاضر ہوکردريافت کيا ميں جو کچھ آپ‬
‫سے سنو وه لکھ ليا کروں؟آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ہاں ۔ انہوں نے فرمايا آپ صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم راضی ہوں يا غصہ ميں آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ہاں اس لئے کہ ميں ہر حال‬
‫ميں حق کہتا ہوں۔ )جامع بيان العلم البن عبدالبرج‪،١‬ص‪٧١‬مسند احمدج‪،١‬ص‪،٢٠٧‬مستدرک حاکم ج‪ ١‬ص‪(١٠۵‬‬

‫حضرت عبدﷲ بن عمرالعاص کا صحيفہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم کا فتوی تھا حضرت عبدﷲ‬
‫کے صحيفے کے لکھنے کی بہت بﮍی دليل حضرت ابوہريره کا يہ قول ہے ۔ صحابہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ ميں مجھ سے زياده کثيره الروايات اور کوئ نہ تھا ۔ البتہ حجرت عمروبن العاص رضی‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ کا معاملہ جداگانہ نوعيت کا تھا اس کی وجہ يہ تھی کہ وه حديث لکھ ليا کرتے تھے‬ ‫ﷲ ٰ‬
‫اور ميں لکھتا نہ تھا۔ )تقدير العلم ص‪ ٨٢‬جامع بيان العلم ج‪ ١‬ص‪ ،٧٠‬مسند احمدج‪،٢‬ص‪٢٨۴‬واالصابہ ج‪۴‬ص‪،١١٢‬فتح‬
‫لباری ‪١‬ص‪ ( ١٨۴‬۔‬
‫حضرت عمر بن العاص متوفی‪٩۶٩‬نے بﮍےاہتمام سے آنحضرت صلی ﷲ عليہ وسلمکی حديث‬
‫وسيرت سے متعلق بہت سا مواد تختيوں ہر تحرير کيا تھا جب آپ کسی علمی مجلس ميں جاتے‬
‫تو يہ تختياں بھی ہمراه لے جاتے )طبقات ابن سعد(‬

‫نقل متواتر سے يہ بات ثابت ہوچکی ہے کے وفات کے وقت آپ نے ايک اونٹ کے بار کے برابر‬
‫کتابيں چھوڑيں تھيں۔ )طبقات ابن سعدج‪۵‬ص‪(٢١۶‬‬

‫ابو ہريره سے ان کے شاگرد ہمام بن منبہ نے اييک صحيفہ روايت کيا پھر اس کو ہمام کی طرف‬
‫منسوب کرديا اوراس کو صحيفہ ہمام کہنے لگے حاالنکہ يہ صحيفہ ابوہريره نے ہمام کے لئے‬
‫ترتيب ديا تھا ہم اس صحيفہ کو احاديث کے ان مجموعوں ميں شمار نہيں کرسکتے جو عہد‬
‫رسالت ميں لکھے گئے تھے اس لئے کہ ہمام چاليس ہجری کے لگ بھگ پيدا ہوئے ۔اور‬
‫ابوہريره کی وفات ‪ ۵٨‬ہجری ميں ہوئ ۔اس بحث وتمخيص سے ايک علمی نتيجہ نکلتا ہے اور يہ‬
‫بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ تدوين حديث کا آغاز بہت ابتدائ زمانہ ہوگيا تھا ہم نے يہ سال‬
‫وفات طبقات ابن سعد ج‪ ۵‬ص‪ ٣٩۶‬کی روايت کے مطابق تحرير کيا ہے ۔‬
‫ان تمام دالئل کی روشنی ميں يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ احاديث عہد رسالت لکھی‬
‫جاتی رہی ہيں اور جو يہ کہتے ہينکہ احاديث ڈھائ سو سال بعد لکھی گئ ہيں وه بغير دليل کے‬
‫بات کررہے ہيں۔ ہمام بن منبہ کا صحيفہ مسند احمد بن حنبل ميں دورج ہے‬

‫)رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہم(‬ ‫محديث صحابہ‬
‫تعالی عنہ کی تعداد بہت زياده ہے اور صحيح طور پر اس کی تعين نہيں کی جا‬ ‫صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫سکتی ۔علماء نے اندازه سے ان کی تعداد بتائی ہے صحيح عدد معلوم نہيں ۔ حضرت کعب بن‬
‫تعالی عنہ غزوئہ تبوک سے پيچھے رہنے کے واقعہ ميں بيان کرتے ہيں کہ‬ ‫ٰ‬ ‫مالک رضی ﷲ‬
‫اصحاب ِرسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی تعداد بہت زياده ہے اور کسی کتاب ميں ان کی گنتی مذکور‬
‫نہيں ۔)صحيح بخاری(‬
‫محدث ابو زرعہ سے دريافت کيا گيا کہ يہ بات کہاں تک درست ہے کہ احاديث نبويہ کی تعداد چار‬
‫ہزار ہے؟ فرمانے لگے يہ زنادقہ کا قول ہے۔ احاديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کو کون شمار‬
‫کر سکتا ہے؟ جب ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے وفات پائی اس وقت ايک الکھ چوده ہزار‬
‫‪- 15 -‬‬
‫صحابہ موجود تھے اور ان سب نے ٓاپ سے حديثيں سنيں اوعر روايت کيں۔ پھران سے سوال کيا‬
‫گيا يہ صحابہ کہا تھے اور انہوں نے کس جگہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے حديثيں سنيں؟فرمانے‬
‫لگے صحابہ مکہ ومدينہ اور ان کے ٓاس پاس بودو باش رکھتے تھے ۔کچھ ديہاتی تھے اور وه‬
‫بھی جو حجۃ الوداع کے موقعہ پر ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے ہمراه تھے۔ ان سب نے ٓاپ صلی‬
‫ﷲ عليہ وسلم کو عرفات کے ميدان ميں ديکھا اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے ارشادات گرامی‬
‫سنے۔‬
‫مندجہ صدر بيانات اس حقيقت کی غمازی کرتے ہيں کہ حديثيں روايت کرنے والے صحابہ کی‬
‫تعداد بہت زياده ہے ٰلہذا ہم صرف انہی صحابہ کا ذکر کريں گے جو روايت حديث ميں شہرت‬
‫رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ان کے مختصر سير وسوانح بھی بيان کريں گے۔‬

‫تعالی عنہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ ہے۔ ‪٧‬ھ ماه محرم ميں‬
‫ٰ‬ ‫اسم گرامی عبدالرحمن بن صخر اور کنيت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫غزوئہ خيبر والے سال مشرف بااسالم ہو کر زيارت نبوی کی سعادت حاصل کی ۔امام شافعی اور‬
‫ديگر محدثين کے قول کے مطابق يہ صحابہ ميں سب سے بﮍے حافظ حديظ تھے ۔حاالنکہ ان کو‬
‫صحبت نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کی سعادت بہت کم حاصل ہوئی بہت کم عرصہ صحبت نبوی‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم سے مستفيد ہونے کے باوجود ان کے کثيرالرواےة ہونے کے وجوه اسباب‬
‫حسب ذيل ہيں۔‬
‫‪١‬۔ يہ ہميشہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی مجلس ميں حاضر رہتے تھے اور شاذونادر ہی غير‬
‫تعالی عنہ سے منقول ہے کہ تم‬‫ٰ‬ ‫حاضر ہوتے تھے ۔بخاری ومسلم ميں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ حديثيں بہت رواےت کرتا ہے حقيقت يہ ہے کہ ميں ايک‬ ‫ٰ‬ ‫کہتے ہو کہ ابوہريره رضی ﷲ‬
‫مسکين ٓادمی تھا پيٹ بھر کر حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو نے کے سوا‬
‫انصار مدينہ اپنے مالوں کی‬
‫ِ‬ ‫مجھے کوئی کام نہ تھا ۔ مہاجرين بازار ميں کاروبا کرتے تھے اور‬
‫حفاظت ميں مصروف رہا کرتے تھے ميں حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی مجلس ميں حاضر تھا‬
‫ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا کون ہے ميرے بات ختم کرنےتک طادر پھيالئے اور پھر اسے‬
‫سميٹ لے اور پھر اس کے بعد اسے سنی ہوئی بات کبھی نہ بھولے يہ سن کر ميں نے طادر‬
‫بچھادی جب ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے سلسلئہ کالم ختم کيا توميں نے وه چادر سميٹ لی اس‬
‫ذات کی قسم جس کے ہاتھ ميں ميری جان ہے اس کے بعد مجھے کوئی بات نہيں بھولی۔)بخاری‬
‫ومسلم(‬
‫تعالی عنہ تحصيل علم کے بﮍے دلداده تھے اور حضور صلی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫‪٢‬۔ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫عليہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی تھی کہ انہيں نسيان کی بيماری الحق نہ ہو ۔يہی وجہ ہے‬
‫کہ وه صرف تين سال صحبت نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم ميں رہنے کے باوجود کثرت روايت ميں‬
‫سب صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ پر فوقيت لے گئے تھے ۔امام نسائی نے باب العلم ميں روايت کيا‬
‫تعالی عنہ کی خدمت ميں حاضر ہوکر چند‬
‫ٰ‬ ‫ہے کہ ايک شخص نے حضرت زيد بن ثابت رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کہنے لگے ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫مسائل دريافت کئے حضرت زيد رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ اوعر‬
‫ٰ‬ ‫سے پوچھئے پھر انہوں نے يہ واقعہ سنايا کہ ايک دن ميں ا بو ہريره رضی ﷲ‬
‫ايک شخص مسجد ميں بيٹھے ذکر ٰالہی ميں مصروف تھے اسی دوران نبی اکرم صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم تشريف ال کر ہمارے پاس بيٹھ گئے ہم خاموش ہوگئے فرمايا جو کام ٓاپ کررہے تھے اسے‬
‫تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ميں اور ميرے ساتھی نے ابو ہريره رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫جاری رکھئے زيد رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے پہلے دعا مانگی اور رسول صلی ﷲ عليہ وسلم نے ٓامين کہی پھر ابو ہريره رضی‬‫ٰ‬
‫تعالی عنہ نے دعا مانگی اور کہا اے ﷲ ميرے ساتھيوں نے جو تجھ سے طلب کيا ہے ميں‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫وه طلب کرتا ہوں اور تجھ سے ايسے علم کا طالب ہوں جو فراموش نہ ہونے پائے نبی اکرم صلی‬
‫تعالی عنہ نے کہا کہ ہم بھی ﷲ سے نہ بھو‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ عليہ وسلم نے ٓامين کہی حضرت زيد رضی ﷲ‬

‫‪- 16 -‬‬
‫لنے والے علم کے خواستگار ہيں ‪،‬حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا دوسی )ابو ہريره رضی‬
‫تعالی عنہ(لﮍکا اس بات ميں تم پر فضيلت لے گيا۔)سنن نسائی(‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم سے دريافت کيا کہ روز قيامت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی شفاعت کی سعادت سب سے زياده کس کو نصيب ہوگی ؟حضو ر صلی‬
‫تعالی عنہ سے پہلے کوئی شخص مجھ‬‫ٰ‬ ‫ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ميرا خيال تھا کہ ٓاپ رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫سے يہ سوال نہيں کرے گا ۔اس لئے کہ ٓاپ رضی ﷲ تعالی عنہحديثوں کے بہت مشتاق ہيں ۔ميری‬
‫شفاعت کی سعادت سب سے بﮍھ کر روز قيامت اس شخص کو نصيب ہوگی جو خلوص دل سے ال‬
‫الہ اال ﷲ پﮍھے۔)بخاری(‬

‫تعالی عنہ نے کبار صحابہ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫‪٣‬۔ کثرت روايت کی تيسری وجہ يہ ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہ سے مل کر استفاده کيا تھا ۔اس لئے ان کا علم کامل اور وسعت پذير ہو گيا ۔‬
‫تعالی عنہ نے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد طويل عمر پائی ٓ‬
‫‪،‬اپ نبی‬ ‫ٰ‬ ‫‪۴‬۔ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد سينتاليس سال بقيد حيات ره کر حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کی‬
‫‪،‬اپ مناصب ومشاغل اور فتنوں سے دور رہے۔‬ ‫نشرو اشاعت کرتے رہے ٓ‬
‫تعالی عنہ تمام صحابہ رضی‬ ‫ٰ‬ ‫مندرجہ صدر وجوه اسباب کے پيش نظر حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہميں عظيم تر حافظ حديث تھے اور حديث کے اخذ و تحمل اوعر رويت دونوں ميں‬ ‫ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ بحيثيت مجموعی جن‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ پر فائق تھے ۔ابوہريره رضی ﷲ‬‫سب صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫احاديث کے حافظ تھے وه انفرادی طور پر تمام يا اکثر صحابہ کو ياد تھيں ‪ ،‬يہی وجہ ہے کہ اکثر‬
‫تعالی عنہ کی جانب‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہپيش ٓامده مسائل حل ميں حضرت ابوہريره رضی ﷲ‬ ‫صحابہرضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ کے جنازه‬
‫ٰ‬ ‫رجوع کرتے اور ان پر اعتماد کيا کرتے تھے ‪،‬حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے فرمايا تھا ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫کے موقع پر حضرت ابن عمر رضی ﷲ‬
‫مسلمانوں کے لئے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی احاديث محفوظ رکھا کرتے تھے ۔ بقول امام‬
‫تعالی عنہ سے قريبا ً ٓاٹھ سو اہل علم صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی‬ ‫ٰ‬ ‫بخاری حضرت ابوہريره رضی ﷲ‬
‫عنہم و تابعين نے حديثيں روايت کی ہيں ۔‬
‫تعالی عنہ سے پانچ ہزار تين سو چوہتر )‪(۴٧٣۵‬احاديث مروی ہيں‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫‪،‬ان ميں سے بخاری مسلم ميں تی سو پچيس روايات ہيں ۔صرف بخاری ميں ترانوے اور صرف‬
‫تعالی عنہ نے مدينہ ميں‬ ‫ٰ‬ ‫مسلم ميں ايک سو چوراسی حديثيں ہيں ‪،‬حضرت ابوہريره رضی ﷲ‬
‫‪٧۵‬ھ ميں بعمر اٹھتر سال وفات پائی۔‬

‫تعالی عنہ ‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫ابو سعيد خدری رضی ﷲ‬
‫نام ونسب سعد بن مالک بن سنان خدری انصاری خزرجی ہے‪،‬ان کے والد غزوه احد ميں شہيد ہو‬
‫گئے اور کوئی ورثہ باقی نہ چھوڑا اس طرح ابو سعيد بچپن ہی ميں عسرت وافالس کی زندگی‬
‫بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ‪،‬مگر ان کی اقتصادی بد حالی ان کو ٓانحضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم کی مجلس ميں حاضر ہو کر استفاده کرنے سے باز نہ رکھ سکی ‪،‬چنانچہ يہ بﮍے ذوق‬
‫وشوق کے ساتھ احاديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کی تحصيل کرتے رہے اور احاديث کا اس قدر‬
‫ذخيره جمع کيا کہ ان جيسی معاشی مشکالت ميں مبتال کوئی شخص اس باب ميں ان کا حريف‬
‫تعالی عنہ کا شمار کثيرالرواےةاور محدث‬
‫ٰ‬ ‫ثابت نہ ہو سکا ‪،‬حضرت ابو سعيد خدری رضی ﷲ‬
‫وفاضل صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہميں ہوتا ہے۔‬
‫تعالی عنہ ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد چونسٹھ سال‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو سعيد خدری رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫زنده رہے۔ اس عرصہ ميں انہوں نے کبار صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہسے حديثيں اخذ کيں اور‬
‫انہيں لوگوں تک پہنچايا ‪،‬اسی لئے ان کی مرويات ايک ہزار ايک سو ستر تک پہنچ گئيں‪،‬ان ميں‬
‫سے چھياليس احاديث بخاری و مسلم دونوں ميں ہيں ‪،‬سولہ احاديث کے روايت کرنے ميں امام‬
‫‪- 17 -‬‬
‫بخاری منفرد ہيں امام مسلم باون احاديث کے رويت کرنے ميں منفرد ہيں ۔‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہ سے کثير صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہم وتابعين رحمہ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو سعيد خدری رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے حديثيں روايت کی ہيں ‪ ،‬صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہ ميں سے ٓاپ سے حضرت جابر‪،‬‬ ‫ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہم اجمعين نے روايت کی‬‫ٰ‬ ‫زيد بن ثابت‪،‬ابن عباس ‪،‬انس بن عمر‪ ،‬اور ابن زبير رضی ﷲ‬
‫ہيں ‪،‬تابعين ميں سے سعيد بن المسيب ‪،‬ابو سلمہ عبيدﷲ بن عبدﷲ بن عتبہ ‪،‬عطا بن يسار اور‬
‫ديگر حضرات نے استفاده کيا ہے ۔‬
‫تعالی عنہ نے باره غزوات ميں نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو سعيد رضی ﷲ‬
‫شرکت کی ان ميں سب سے پہال غزوئہ خندق ہے يہ بﮍے بے باک حق گو تھے اور کسی کی‬
‫تعالی عنہ نےمدينہ ميں ‪۴٧‬ھ بعمر اسی سال اور‬
‫ٰ‬ ‫پروانہ کرتے تھے ‪ ،‬حضرت ابو سعيد رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫کچھ زائد وفات پائی‪ ،‬حضرات صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہان کو بﮍی قدرومنزلت کی نگاه سے‬
‫ديکھتے تھے۔‬

‫تعالی عنہ ‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫حضرت جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫‪،‬اپ کے والد بھی صحابی تھے يہ‬ ‫تعالی عنہ انصاری ہے ٓ‬
‫ٰ‬ ‫نام ونسب جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫بﮍے کثير الروايۃ صحابی تھے۔‬
‫مثالحضرت ابو‬ ‫تعالی عنہ نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم اور کثير صحابہ ً‬‫ٰ‬ ‫حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہم اجمعين سے حديثيں روايت کيں ‪،‬حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ عمر علی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫بکر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے ان کے بيٹوں ‪،‬عبدالرحمن ‪،‬عقيل ‪،‬محمد‪،‬اور اکابر تابعين ً‬
‫مثالسعيد‬ ‫ٰ‬ ‫جابر رضی ﷲ‬
‫بن المسيب عمر وبن دينار حسن بصری وغيره ہم نے استفاده کيا‪،‬۔‬
‫تعالی عنہ کے والد غزوه احد ميں شہادت سے سرفراز ہوئے‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫اور پسماندگان ميں چند کم عمر بيٹياں چھوڑگئے عالوه ازيں واجب االدقرض بھی با قی چھوڑا‬
‫تعالی عنہ کو حديث عسرت وافالس کی زندگی بسر‬ ‫ٰ‬ ‫جس کی وجہ سے حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫کرنے پر مجبور ہوگئے ‪،‬مگر نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی کرم نوازی سے ٓاپ کو کوئی تکليف نہ‬
‫پہنچی حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے جابر کا قرض ادا کرديا۔ مگر صعوبات اور مشکالت يہ‬
‫تعالی عنہ کو حديث نبو ی صلی ﷲ عليہ وسلم کے اخذ واستفاده سے‬ ‫ٰ‬ ‫ہجوم حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫باز نہ رکھ سکا ‪،‬چنانچہ ٓاپ تمام غزوات ميں حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ شريک رہے‬
‫چونکہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے وقت ٓاپ صغير السن تھے‪،‬اور ٓاپ نے اس کے‬
‫تعالی عنہسے ملے ‪،‬اس لئے ٓاپ کو حديث نبو صلی‬ ‫بعد طويل عمر پائی اور کبار صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫ﷲ عليہ وسلم کے اخذ وتحمل اور نشرواشاعت کا خوب موقع مال ۔مسجد نبوی صلی ﷲ عليہ‬
‫تعالی عنہ سے‬ ‫ٰ‬ ‫وسلم ميں ٓاپ کا ايک حلقہ تھا لوگ اس ميں حاضر ہو کر حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫استفاده کيا کرتے تھے۔‬
‫تعالی عنہ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد چونسٹھ سال تک زنده رہے ٓاپ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫نے يہ مدت حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت واشاعت ميں گزاری ٓاپ کی مرويات کی‬
‫تعداد ايک ہزار پانچ سو چاليس ہے ۔بخاری ومسلم ساٹھ احاديث کے رويت کرنے پر متفق ہيں‬
‫چھبيس احاديث کے رويت کرنے ميں بخاری منفرد ہيں اور صحيح مسلم نے صرف ايک سو‬
‫چھبيس احاديث روايت کی ہيں۔‬
‫تعالی عنہ کے اوصاف ومناقب بے شمار ہيں چنانچہ بخاری ومسلم خودان‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے ہميں صلح حديبيہ کے روز فرمايا تم ٓاج‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫روئے زمين کے لوگوں سے افضل ہو ہماری تعداد اس دن چوده تھی حضرت جابر رضی ﷲ‬
‫عنہ کہتے ہيں اگر ميری نظر تو ميں تہميں اس درخت کی جگہ دکھاتا )جس کے نيچے بيٹھ کر‬

‫‪- 18 -‬‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے بيعت رضوان لی تھی(عمر کے ٓاخری حصہ ميں ٓاپ نابينا ہوگئے‬
‫تھے ٓاپ نے ايک قول کے مطابق ‪٨٧‬ھ ميں وفات پائی ۔‬

‫تعالی عنہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حضرت انس بن مالک رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہبن نضر انصار خزرجی ہے‪،‬يہ رسول صلی ﷲ عليہ‬ ‫نام ونسب انس بن مالک رضی ﷲ ٰ‬
‫وسلم کے خادم تھے اگے چل کر بصره ميں سکوبت گزيں ہوگئے تھے جب حضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم مدينہ تشريف الئے تو ان کی والده ام سليم ان کو ٓاپ کی خدمت ميں الئيں او رکہا کہ يہ لﮍکا‬
‫ٓاپ کی خدمت کريگا ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اس پيش کش کو قبول فرمايا۔‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی صورت ميں انس بن مالک کو اپنے والد کا نعم البدل مل گيا چنانچہ‬
‫وه خانواده نبوت ميں پروان چﮍھے اور ان امور کو بچشم خود ديکھا جن کا مشاہده دوسرے لوگ‬
‫نہ کرسکے سرور کائنات کے افعال واحوال سے پوری طرح باخبر تھے حضرت انس رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد تراسی برس زنده رہے اس عرصہ ميں ان‬ ‫ٰ‬
‫کو احاديث نبويہ صلی ﷲ عليہ وسلم ‪.‬کے اخذ واستفاده اور نشرو اشاعت کا خوب موقع مالمدينہ‬
‫منوره کے بعد يہ بصره ميں سکونت پذير ہوگئے تھے چنانچہ کثير تابعين ائمہ حديث مثالً حسن‬
‫بصری‪ ،‬ابن سيرين‪ ،‬حميد الطويل‪،‬ثابت بنانی وغيرہم نے ان سے خوب استفاده کيا ‪،‬حضرت انس‬
‫تعالی عنہ سے ايک ہزار دو سو چھياسی احاديث منقول ہيں بخاری ومسلم ان ميں سے‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫ايک سو اڑسٹھ احاديث رويت کرنے ميں متفق ہيں صرف صحيح بخاری مينتراسی احاديث ہيں‬
‫اور مسلم ميں صرف اکہتر۔‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫امام بخاری اپنی تاريخ ميں قتاده سے رويت کرتے ہيں کہ جب حضرت انس رضی ﷲ‬
‫نے وفات پائی تو مورق نے کہا ٓاج سے ٓادہا علم رخصت ہوگيا ان سے دريافت کيا گيا يہ کيوں‬
‫کر؟ کہنے لگے جب کوئی بدعتی شخص حديث کے بار ميں ہماری مخالفت کرتا تو ہم کہتے ٓائو‬
‫اس شخص کے پاس جس نے يہ حديث خود نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنی ہے۔‬
‫تعالی عنہ کی وفات بصره سے چار ميل دور وقوع پذير ہوئی ٓاپ کو اس‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت انس رضی ﷲ‬
‫جگہ دفن کيا گيا جسے قصرانس کتے ہيں بقول صحيح تو ٓاپ کی وفات ‪٣٩‬ھ ميں ہوئی۔‬

‫تعالی عنہا‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫امو منين حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫ام ٔ‬

‫امو منين ميں سے ايک‬ ‫تعالی عنہ کی دختر نيک اختر امہات ٔ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو بکر صديق رضی ﷲ‬
‫ہيں‪،‬اپ کی والدت حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی بعثت کے دو سال بعد مکہ ميں ہوئی ‪،‬احاديث‬‫ٓ‬
‫صحيحہ سے ثابت ہے کہ حضو رصلی ﷲ عليہ وسلم نے جب ان کے ساتھ عقد نکاح کيا ان کی‬
‫عمر چھ سال تھی جب نو برس کی ہوئيں تو اپنے گھر ميں ٓاباد ہوئيں يہ ماه شوال اور ہجرت کے‬
‫سال اول کا واقعہ ہے ‪،‬ايک قول کے مطابق حضرت عائشہ کو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے‬
‫غزوه بدر سے واپس ٓاکر ہجرت کے دوسرے سال شرف خانہ ٓابادی بخشا۔‬
‫زوجہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ہونے کی حيثيت سے جو شرف صحبت حضرت عائشہ کو ميسر‬
‫تھا وه ٓاپ کے لے تحصيل علم کے سلسلہ ميں بﮍا مفيد ثابت ہوا ‪،‬اس کے ساتھ ساتھ ٓاپ کی‬
‫ذہانت وفطانت اور فراست رغبت علم نے سونے پر سہاگے کا کام کيا ‪،‬چنانچہ حضرت عائشہ نے‬
‫القران ميں دسترس حاصل کرلی يہ اسی کا نتيجہ ہے کہ صحابہ رضی ﷲ‬ ‫ٓ‬ ‫احاديث نبويہ اور علوم‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہکے مابين جب بھی کسی مسئلہ ميں اختالف رونما ہوتا وتو ان کی جانب رجوع کيا جاتا‬
‫‪ ،‬اس ميں حيرت واستعجاب کی کوئی بات نہيں کہ کبار صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ نے ٓاپ کے‬
‫چشمہ فيض سے اپنی علمی پياس بجھائی ۔رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی صحبت ميں رہنے کے‬
‫براں حضرت‬‫تعالی عنہ نے ٓاپ سے حديثيں رويت کيں ‪،‬مزيد ٓ‬
‫ٰ‬ ‫باوجود حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫عائشہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد انتاليس سال تک بقيد حيات رہيں اور لوگ ٓاپ‬
‫‪- 19 -‬‬
‫کے بحر علم سے مستفيض ہوتے رہے۔‬
‫تعالی عنہا کا کثير الروايۃ ہونا کچھ بھی محل تعجب نہيں ‪،‬چنانچہ‬
‫ٰ‬ ‫بنابريں حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫ٓاپ سے دوہزار دوسو دس احاديث مروی ہيں ‪ ،‬ان ميں سے بخاری ومسلم ايک سو چوہتر احاديث‬
‫رويت کرنے ميں متفق ہيں‪،‬بخاری چون احاديث رويت کرنے ميں منفرد ہيں اورامام مسلم چونسٹھ‬
‫تعالی عنہکو حضرت عائشہ‬‫روايات ‪،‬مسروق تابعی کا قول ہے کہ ميں نے اکابر صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫‪،‬اپ نے ‪٧۵‬ھ ميں‬ ‫تعالی عنہا سے تقسيم وراثت کے مسائل دريافت کرتے ديکھا ہے ٓ‬‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫وفات پائی۔‬

‫تعالی عنہ ‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ‬

‫تعالی عنہ بن عبدالمطلب ہے ‪،‬يہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم‬ ‫نام ونسب عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہبنت حارث کے بھانجے تھے بقول‬ ‫امو منين ميمونہ رضی ﷲ ٰ‬ ‫چچا زاد بھائی تھے اور ام ٔ‬
‫صحيح تو ہجرت سے تين سال قبل پيدا ہوئے ۔جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے وفات پائی ان‬
‫تعالی عنہ کی عمر صرف تيره برس تھی ۔احاديث صحيحہ ميں ٓايا ہے کہ‬ ‫ٰ‬ ‫وقت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کو سينہ سے لگا کر يہ دعا فرمائی کہ ’’اے ﷲ اسے حکمت‬
‫سکھا سے‘‘‬
‫تعالی عنہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے قريبی رشتہ دار اور صغير‬ ‫ٰ‬ ‫چونکہ ابن عباس رضی ﷲ‬
‫السن تھے ‪،‬اس لئے ان کو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے گھر ميں ٓانے جانے کے بکثرت مواقع‬
‫براں ٓاپ کے‬ ‫حاصل تھے ۔اسی وجہ سے ٓاپ صحابہ ميں بﮍے کثير الرواےة مشہور تھے۔ مزيد ٓ‬
‫اندر تحصيل علم کا جو طبعی ذوق پاياجاتا تھا ۔اس نے ٓاپ کو نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی‬
‫خصوصی شفقت کامرکز بناديا تھا چنانچہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کے حق ميں دعا‬
‫فرمائی ۔يہ تمام عوامل ومحرکات اس جليل القدر صحابی کی شخصيت پر اثر انداز ہوئے اور ان‬
‫القران حبر االمت کے نام سے مشہور ہوئے‬ ‫ٓ‬ ‫تعالی عنہ ترجمان‬
‫ٰ‬ ‫کے زير اثر ابن عباس رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫اور ٓاپ کو کثير الرواےة صحابہ ميں شمار کيا جانے لگا۔حضرت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد اٹھاون برس تک زنده رہے ۔اس طويل مدت ميں ٓاپ‬
‫تعالی عنہ رويت کرتے‬ ‫نے صغار وکبار سے خوب خوب استفاده کيا ۔حضرت ابن عباس رضی ﷲ ٰ‬
‫ہيں کہ جب نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے وفات پائی تو ميں نے ايک انصاری سے کہا ’’ٓاج کل‬
‫‪،‬ائے ان سب سے کسب فيض کريں ‪،‬وه کہنے لگے ’’تعجب کی بات‬ ‫بکثرت صحابہ بقيد حيات ہيں ٓ‬
‫ہے کيا ٓاپ يہ سمجھتے ہيں کہ لوگ ٓاپ کے پاس دينی مسائل دريافت کرنے کے لئے ٓايا کريں‬
‫تعالی عنہ کہتے ہيں ميں نے اس شخص کو نظر انداز کر کے صحابہ‬ ‫گے؟ابن عباسرضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہسے استفاده کرنے گا اغاز کرديا ۔بسا اوقات ايسا ہوتا کہ کسی شخص کے‬ ‫رضی ﷲ ٰ‬
‫بارے ميں مجھے پتہ چلتا کہ انہيں نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کی کوئی حديث ياد ہے ‪،‬چنانچہ‬
‫جب ميں اس کے گھر کے دروازه پر پہنچتا تو وه سو رہا ہوتا ‪،‬ميں اسی حالت ميں اپنی چادر کو‬
‫تکيہ بنائے اس کے دروازه کے سامنے ليٹ جاتا ‪،‬ہوا کے جھونکے ٓاتے اور مجھ پر مٹی اڑاتے‬
‫ہوئے گزر جاتے ۔گھر کا مالک باہر نکل کر ديکھتا تو کہتا اے رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫کے چچا زاد بھائی کيسے تشريف فرما ہوئے؟ ٓاپ نے مجھے کيوں نہ بال ليا ؟ميں اس کے جواب‬
‫ميں کہتا کہ نہيں مجھے ہی ٓانا چاہيئے تھا ‪،‬ميں ٓاپ سے ايک حديث کے بارے دريافت کرنے ٓايا‬
‫ہوں۔سابق الذکر انصاری شخص اس وقت بقيد حيات تھے اس نے بچشم خود ديکھا کہ لو گ‬
‫ميرے ارد گرد کھﮍے مجھ سے دينی مسائل دريافت کررہے ہيں انصاری کہنے لگا ’’يہ نو جوان‬
‫مجھ سے زياده دانشمند نکال۔‬
‫تعالی عنہ کس‬ ‫ٰ‬ ‫مندرجہ واقعہ اس حقيقت کی ٓائينہ داری کرتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫قدر ذہين وفطين تھے اورحديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ انہيں کس قدر والہانہ شغف‬
‫‪- 20 -‬‬
‫تعالی عنہ حديث نبوی صلی ﷲ عليہ‬
‫ٰ‬ ‫تھا ‪،‬اس سے يہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی ﷲ‬
‫وسلم ميں امامت کے درجہ پر فائز تھے اور ان پر ہر وقت حديث کی نشرواشاعت کی دہن سوار‬
‫رہتی تھی ۔لوگ ٓاپ کے ارد گرد جمع ہوتے اور ٓاپ سے حديثيں سنتے تھے حضرت فاروق اعظم‬
‫تعالی عنہ کی يہ حالت تھی کہ علمی مہارت وحذاقت کے باوجود انہيں جب کسی دقيق‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے کہتے’’ہميں ايک پيچيده مسئلہ‬ ‫ٰ‬ ‫دينی مسئلہ سے سابقہ پﮍتا تو ابن عباس رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ پيش کرتے اسے‬
‫ٰ‬ ‫سے واسطہ پﮍا ہے حل کيجيئے ‘‘پھر جو حل ابن عباس رضی ﷲ‬
‫قبول فرماتے۔‬
‫تعالی عنہ متعدد علوم مثالً حديث وفقہ وتاويل وحساب علم الفرائض‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫اور عربيت ميں ديگر اصحاب پر فائق تھے ٓ۔اپ کا معمول يہ تھا کہ ايک دن صرف فقہی مسائل‬
‫بيان کرتے ‪،‬ايک دن تاويل وتفسير کے لئے‪،‬ايک دن مغازی کے لئے اور ايک دن ايام العرب بيان‬
‫کرنے کے لئے مخصوص کررکھاتھا۔ جس عالم کو بھی ٓاپ کی ہم نشينی کا موقع مال ٓاپ کے علم‬
‫سے متاثر ہوا اور جو مسئلہ بھی پوچھا اس کا جواب مال ۔مشہور تابعی طائوس سے سوال کيا گيا‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کو چھوڑ کر اس نوجوان )ابن عباس رضی ﷲ‬ ‫کہ ٓاپ اکابر صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫(کے وابستئہ دامن کيوں کر ہوگئے ؟کہنے لگے ‘‘ميں نے ستر صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہکو‬
‫تعالی عنہ کی‬
‫ٰ‬ ‫ديکھا ہے جب ان کے يہاں کوئی مسئلہ ميں نزاع پيدا ہوتا تو ابن عباس رضی ﷲ‬
‫جانب رجوع کرتے۔‘‘‬
‫تعالی عنہ علم حديث ميں تنہا ايک جماعت کے برابر‬
‫ٰ‬ ‫خالصہ يہ کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫تھے ٓ۔ا پ کی مرويات کی تعداد ايک ہزار چھ سو ساٹھ ہے۔ ا ن مينسے پچانوے احاديث بخاری‬
‫ومسلم دونوں نے رويت کی ہيں ۔امام بخاری ايک سو بيس احاديث رويت کرنے ميں منفرد ہيں‬
‫اور امام مسلم انچاس روايات ميں۔‬
‫تعالی عنہ کو‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے اپنے عہد خالفت ميں ابن عباس رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫بصره کا گورنر مقرر کيا تھا حضرت علی کی شہادت سے قبل ٓاپ نے يہ منصب ترک کرديا اور‬
‫حجاز لوٹ ٓائے زندگی کے باقی دن ٓاپ نے مکہ ميں گزارے ۔وہاں لوگوں کو دينی احکام کی تعليم‬
‫ديتے رہے ٓاپ نے طائف ميں ‪٨۶‬ھ ميں وفات پائی۔‬

‫حضرت عبدﷲ بن عمر ‪:‬‬


‫گي ے تھے اپنے والد کے‬
‫حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ بچپن ہی ميں مشرف با اسالم ہو ٔ‬
‫ساتھ ہجرت مدينہ کی سعادت حاصل ہوئی ايک قول کے مطابق اپنے والد سے پہلے ہجرت کی‬
‫غزوئہ احد خندق اورا س کے بعد وقوع پذير ہونے والے غزوات ميں شرکت کی ۔حضور صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کی وفات کے بعد يرموک ‪،‬فتح مصر‪،‬اور افريقہ ميں شريک ہوئے ۔يہ حدردجہ متبع‬
‫سنت تھے‬
‫تعالی عنہ نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم ‪،‬اپنے والد ‪،‬اپنے چچا زيد رضی‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہا نيز حضرت ابو بکر‬ ‫ٰ‬ ‫امو منين حضرت حفصہ رضی ﷲ‬ ‫تعالی عنہ اپنی ہمشيره ام ٔ‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬باللرضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ‪ ،‬علی رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬عثمان رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬ابن مسعودرضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ صہيب رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫‪،‬زيد بن ثابت رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہ ‪،‬رافع بن خديج وديگر صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہسے حديثيں‬ ‫ٰ‬ ‫‪،‬عائشہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬اغر مزنی رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ‪،‬جابر رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫رويتکيں۔عباس رضی ﷲ‬
‫‪،‬اور ديگر بزرگوں نے ٓاپ سے استفادی کيا ‪،‬تابعين ميں سے ٓاپ کے چاروں بيٹے بالل وحمزه‬
‫لی عنہ کے ٓازاد کرده غالم‬
‫وسلم وعبدﷲ ٓاپ کے ٓازاد کرده غالم نافع نيز حضرت عمررضی ﷲ تعا ٰ‬
‫اسلم اور ان کے دونوں بيٹے زيد وخالد اور عالوه ازيں عروه بن زبير اور ديگر اکابر نے ٓاپ‬

‫‪- 21 -‬‬
‫سے حديثيں رويت کيں۔‬
‫تعالی عنہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم سے‬ ‫ٰ‬ ‫زبير بن بکار فرماتے ہيں کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫جو کچھ سنتے اسے ياد کرليتے ۔جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم موجود نہ ہوتے تو عبدﷲ‬
‫دوسروں سے ٓاپ کے اقوال وافعال کے بارے ميں دريافت کرتے ۔امام زہری فرماتے ہيں کہ کوئی‬
‫تعالی عنہ کے نظريات کا مقابلہ نہيں کر سکتا ٓ۔اپ حضور صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫شخص ابن عمر رضی ﷲ‬
‫وسلم کے بعد ساٹھ سال تک زنده رہے۔ اس لئے ان سے رسول صلی ﷲ عليہ وسلم اور صحابہ‬
‫تعالی عنہکی کوئی بات پوشيده نہ تھی )بيہقی فی الدخل(۔‬ ‫رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ رسول صلی ﷲ‬‫ٰ‬ ‫تعالی فرماتے ہيں کہ حضر ت عبدﷲ رضی ﷲ‬ ‫امام مالک رحمہ ﷲ ٰ‬
‫عليہ وسلم کی وفات کے بعد ساٹھ سال تک بقيد حيات رہے‪،‬لوگوں کے وفد ان کی خدمت ميں‬
‫تعالی عنہ نے‬
‫ٰ‬ ‫حاضر ہو کر دينی مسائل دريافت کيا کرتے تھے ۔حضرت عمر بن الخطاب رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫شوری ميں‬ ‫تعالی عنہ کو خالفت سے دور رکھا تھا اور ان کی حيثيت اصحاب‬ ‫ٰ‬ ‫عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ امور سلطنت سے الگ‬ ‫ٰ‬ ‫صرف ايک مشير کی تھی ۔يہی وجہ ہے کہ ابن عمر رضی ﷲ‬
‫رہے اور صحابہ کے مابين وقوع پذير ہونے والے فتنوں سے جداره کر علم وعبادت کے دامن‬
‫سے وابستہ رہے۔ ان کا شمار کثير الروےة صحابہ ميں ہوتا ہے۔اس کے وجوه اسباب حسب ذيل‬
‫ہيں ۔‬
‫‪١‬۔يہ بہت پہلے اسالم الئے اور طويل عمر پائی ۔حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی علمی مجالس ميں‬
‫باقاعدگی کے ساتھ شريک رہے۔ حد درجہ کے متبع سنت تھے۔ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی‬
‫عدم موجودگی ميں دوسروں سے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے افعال واقوال کے بارے ميں دريافت‬
‫کيا کرتے تھے يہ جملہ امور اس امر کی نشان دہی کرتے ہيں کہ يہ علم او خصوصا ً حديث نبوی‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کےساتھ حدی درجہ شغف رکھتے تھے۔‬
‫تعالی عنہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کے قرابت دار تھے ۔ ان کی‬ ‫ٰ‬ ‫‪٢‬۔حضرت ابن عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہا حضو ر صلی ﷲ عليہ وسلم کی زوجہ مطہره تھيں ۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہمشيره حضرت حفصہ رضی ﷲ‬
‫اس لئے ان کو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ ملنے جلنے کے بکثرت مواقع ملے تھے۔‬
‫تعالی عنہکے مابين جو‬ ‫‪٣‬۔يہ دنيوی امو ر اور دولت وثروت کے حريص نہ تھے صحابہرضی ﷲ ٰ‬
‫لﮍائياں ہوئيں ٓاپ ان ميں غير جانبدار رہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ان کو حديثيں سيکھنے اور ان کو‬
‫دوسروں تک پہنچانے کا بﮍا وقت مال۔‬
‫ٰ‬
‫متذکره صدر وجوه واسباب کے پيش نظر ٓاپ کثير الروےة صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہميں شمار‬
‫ہوتے ہيں ٓاپ سے ايک ہزار چھ سو تيس احاديث منقول ہيں ۔بخاری ومسلم ان ميں سے ايک سو‬
‫ستر احاديث رويت کرنے ميں متفق ہيں۔ بخاری اکاسی احاديث رويت کرنے ميں منفرد ہيناور‬
‫مسلم اکتيس روايات ۔ باقی احاديث ديگر محدثين نے روايت کی ہيں۔‬
‫تعالی عنہ کی شہادت کے تين ماه بعد بعمر‬
‫ٰ‬ ‫ٓاپ نے ‪٣٧‬ھميں حضرت عبدﷲ بن زبير رضی ﷲ‬
‫ستاسی سال وفات پائی۔‬
‫حضرت عبدﷲ بن عمروبن العاص رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ‪:‬‬
‫نام نسب عبدﷲ بن عمر و بن العاس کنيت ابو محمد اور نسبت قرشی سہمی ہے۔ اپنے والد سے‬
‫قران کرنے والے تھے ۔حديث‬ ‫پہلے مشرف باسالم ہوئے۔بﮍے عابد زاہد اور کثرت سے تالوت ٓ‬
‫نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ والہانہ لگائو تھا۔ امام بخاری نے کتاب العلم ميں حضرت ابو‬
‫تعالی عنہ سے رويت کيا ہے کہ صحابہرضی ﷲ تعاٰلی عنہميں عبدﷲ بن عمر وبن‬ ‫ٰ‬ ‫ہريره رضی ﷲ‬
‫العاص کے سوا اور کوئی شخص مجھ سے بﮍھ کر حديثيں نہيں جانتا ۔اس کی وجہ يہ تھی کہ‬
‫تعالی عنہ لکھ ليا کرتے تھے ‪،‬اور ميں لکھتا نہ تھا۔ )صحيح بخاری(‬
‫ٰ‬ ‫عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہا نے اپنے بھانجے عروه بن زبير سے کہا مجھے پتہ چال ہے‬ ‫ٰ‬ ‫حضر ت عائشہ رضی ﷲ‬

‫‪- 22 -‬‬
‫کہ عبدﷲ بن عمرو بن العاص يہاں سے گزر کر حج کو جانے والے ہيں ۔ ان سے مل کر دينی‬
‫مسائل دريافت کيجئے ۔اس لئے کہ ان کے پاس رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی بکثرت احاديث‬
‫تعالی عنہ کے‬ ‫ٰ‬ ‫محفوظ ہيں ۔ابن سعد مجاہد سے رويت کرتے ہيں کہ ميں نے عبدا  رضی ﷲ‬
‫پاس ايک صحيفہ ديکھا۔ جب اس کے بارے ميں ان سے دريافت کيا گيا تو کہا يہ ’’ صادقہ ‘‘ہے‬
‫۔اس ميں وه احاديث محفوظ ہيں جو ميں نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم سے براه راست بال واسطہ‬
‫سنی تھيں۔ )طبقات ابن سعد(‬
‫تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ميں نے نبی صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫ابن سعد حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫وسلم سے دريافت کيا کہ ٓايا ميں وه احاديث لکھ ليا کروں جو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنتا‬
‫ہوں ؟جب ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی تو ميں نے لکھنے کا ٓاغاز کرديا۔‬
‫تعالی عنہ )اپنے پاس تحرير کرده رسالہ کو’’صادقہ‘‘ کہا کرتے تھے ۔‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہکے يہاں‬ ‫مندرجہ صدر امور سے يہ حقيقت واضح ہوتی ہے کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ ٰ‬
‫حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے اخذ وتحمل کے متعدد اسباب جمع ہوگئے تھے ۔ جو دوسروں‬
‫مثاليہ کہ ٓاپ قديم االسالم تھے ۔احاديث نبويہ کو حفظ بھی کرتے تھے اور‬ ‫کو ميسر نہ ٓائے تھے ً‬
‫تعالی عنہ سے‬ ‫ٰ‬ ‫اپنے قلم کے ساتھ تحرير بھی کرليا کرتے تھے چنانچہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫منقول ہے کہ ميں نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم سے سن کر ايک ہزار حديثيں روايت کيں۔‬
‫تعالی عنہ کی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫اب سوال يہ ہے کہ حضرت ابوہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫طرح حديثيں لکھا نہيں کرتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے منقول احاديث کی نسبت کئی گنا ہيں ۔صحيح‬ ‫ٰ‬ ‫کی مرويات حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے منقول ہيں اس سے بھی مستفاد ہوتا ہے‬ ‫ٰ‬ ‫بخاری کی جو روايات ابوہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کو زياده حديثيں ياد تھيں ۔پھرابو ہريره رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے مقابلہ ميں کيوں زياده ہيں ؟ اس کا جواب يہ‬ ‫ٰ‬ ‫کی مرويات حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی مرويات کی کثرت اور حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے منقول احاديث کی قلت کے وجوه حسب ذيل ہيں۔‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ زياده تو مصر اور طائف ميں قيام‬ ‫ٰ‬ ‫‪١‬۔اسالمی فتوحات کے بعدحضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫پذير رہے ظاہر ہے کہ حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے طلبہ کی اکثريت عازم مدينہ ہوا کرتی‬
‫تھی ۔مصر ميں طلبہ کی اتنی کثرت نہ تھی۔ بخالف ازيں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی‬
‫فتوی کا مرکز بنے رہے۔ اس کا بين ثبوت يہ‬ ‫ٰ‬ ‫عنہمدينہ ميں سکونت گزيں ره کر اشاعت حديث اور‬
‫تعالی عنہ سے ٓاٹھ سو تابعين نے حديثيں روايت کيں ۔جب کہ‬ ‫ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہکو يہ سعادت حاصل نہ ہوئی۔‬ ‫ديگر صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ تعليم وتدريس کی نسبت زياده تر عبادت ميں مشغول رہا‬ ‫ٰ‬ ‫‪٢‬۔ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫کرتے تھے ۔بخالف ازيں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ تعالی عنہ نے اپنی زندگی اشاعت حديث کے‬
‫لئے وقف کر دکھی تھی۔‬
‫ٰ‬
‫‪٣‬۔ سرور کائنات صلی ﷲ عليہ وسلم نے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ تعالی عنہ کے حق ميں دعا‬
‫فرمائی تھی کہ جو بات سنيں انہيں يار رہے اوربھولنے نہ پائيں۔‬
‫تعالی عنہ کو ملک شام ميں اہل کتا ب کی چند کتابيں دستياب ہوئی‬ ‫ٰ‬ ‫‪۴‬۔ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تھيں وه ان کو پﮍھتے اور ان کے بعض جملوں کو خوب ياد رکھتے اور دوسروں کو سناتے تھے‬
‫۔ اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ ائمہ تابعين ٓاپ سے روايت کرنے ميں احتراز کرنے لگے۔‬
‫ان اسباب کے پيش نظر جو احاديث ٓاپ سے مروی ہيں وه ٓاپ کے علم کی وسعت وکثرت کے‬
‫مقابلہ ميں بہت کم ہيں ۔چنانچہ ٓاپ سے صرف سات سو احاديث منقول ہيں ۔بخاری ومسلم نے ان‬
‫ميں سے باالتفاق ستره احاديث روايت کی ہيں ۔ان ميں سے بخاری ميں ٓاٹھ احاديث ہيں اور مسلم‬
‫ميں بيس روايات۔‬
‫تعالی عنہ سے بکثرت تابعين نے حديثيں روايت کی ہيں ۔ مثالً سعيد بن‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫‪- 23 -‬‬
‫ٓ‬
‫وغيرہم۔اپ نے ‪٣۶‬‬ ‫المسيب وعروه۔عبدالرحمن کے دونوں بيٹوں ابو سلمہ اور حميد نيز مسروق‬
‫ھ ميں مصر ميں وفات پائی۔ اس وقت ٓاپ کی عمر بہتر سال تھی يہ ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫کی وفات کے بعد تريپن سال زنده رہے۔‬

‫تعالی عنہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬

‫لی عنہ کی کنيت ابو عبدالرحمن ہے ان کا نسب ہذيل بن‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعا ٰ‬
‫مدرکہ بن الياس کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ان کی والده کا نام ام عبد بنت عبد و د بن سواء ہذيل‬
‫ہے۔يہ مشرف باسالم ہوئيں اور ہجرت کی سعادت حاصل کی ۔حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہمشرف‬ ‫تعالی عنہ قديم االسالم تھے يہ اس وقت اسالم الئے جب سعيد بن زيد رضی ﷲ ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫باسالم ہوئے تھے۔حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ تعالی عنہتاہنوز اسالم نہ الئے تھے ۔حضرت‬
‫تعالی عنہ خود فرمايا کرتے تھے۔‬
‫ٰ‬ ‫عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫’’ميں چھٹا مسلمان تھا ‪،‬ہمارے سوا روئے زمين پر اور کوئی مسلمان نہ تھا‘‘۔‬
‫ٓاپ نے پہلے حبشہ اور پھر مدينہ ہجرت فرمائی ۔رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی رفاقت ميں‬
‫غزوات بدر واحد‪،‬خندق‪،‬بيعت الرضوان اور ديگر لﮍائيوں ميں شرکت کی ۔وه حضرت عبدﷲ بن‬
‫تعالی عنہ ہی تھے جس نے غزوئہ بدر ميں ابو جہل پر حملہ کر کہ اس کا سر‬ ‫ٰ‬ ‫مسعود رضی ﷲ‬
‫تھا۔اپ نے غزوئہ ير موک ميں بھی شرکت کی سعادت حاصل کی ۔نبی صلی ﷲ عليہ وسلم‬ ‫ٓ‬ ‫کاٹ ليا‬
‫کے جوتوں کی حفاظت کا شرف ان کے حصے ميں ٓايا تھا ۔جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم اٹھتے‬
‫تو يہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کو جوتے پہناتے ‪،‬جب بيٹھ جاتے تو حضرت عبدﷲ بن مسعود‬
‫تعالی عنہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے جوتوں کو بغل ميں دبائے رکھتے ۔يہ حضور‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کے يہاں بﮍی کثرت سے ٓايا جايا کرتے تھے اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی‬
‫خدمت کيا کرتے تھے ‪.‬‬
‫ٰ‬
‫موسی اشعری رضی ﷲ تعالی عنہفرماتے ہيں کہ ميں اور ميرا بھائی يمن سے ٓائے‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو‬
‫تعالی عنہ اور ان کی والده اس کثرت‬‫ٰ‬ ‫اور کچھ عرصہ قيام کيا ۔حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫سے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے يہاں جايا کرتے تھے کہ ہم ان کو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫کے اہل بيت ميں شمار کرنے لگے۔‬
‫)بخاری ومسلم(‬
‫اسالم ميں سبقت کرنے اور حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ ان کو جو دل بستگی تھی اس‬
‫تعالی عنہ ميں ہوتا تھا ٓ‬
‫۔قران کريم‬ ‫کی بنا پر ان کا شمار کبار اور فضالء فقہاء صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫۔حتی کہ خود رسول‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ پر فائق تھے‬ ‫وفتوی ميں يہ دوسرے صحابہ رضی ﷲ ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫اور حديث‬
‫قرانيہ ہونے کی شہادت دی ہے ۔حضور صلی ﷲ عليہ‬ ‫صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کے ماہع علوم ٓ‬
‫تعالی عنہ‪،‬سالم‬
‫ٰ‬ ‫قران کريم چار صحابہ سيکھو‪ ،‬يعنی عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬ ‫وسلم نے فرمايا ٓ‬
‫تعالی عنہم اجمعين سے۔)بخاری‬ ‫ٰ‬ ‫مولی ابی حذيفہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬
‫ومسلم(‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫نعمت خداوندی کا شکريہ ادا کرتے ہوئے خود حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫فرماتے ہيں۔‬
‫’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہيں کتاب ﷲ کی کوئی سورت ايسی نہيں جس کے‬
‫بارے ميں مجھے معلوم نہ ہو کہ وه کہاں اتری اور کس ضمن ميں اتری ‪،‬اگر مجھے معلوم ہوتا‬
‫قران کا کوئی عالم موجود ہے اور اونٹ وہاں تک پہنچا سکتا تو ميں‬ ‫کہ کوئی مجھ سے بﮍھ کر ٓ‬
‫سوار ہو کر اس کی خدمت ميں حاضر ہوتا۔)صحيح مسلم(‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ تعالی عنہکے علم وفضل کا اعتراف‬ ‫کبار صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫کرتے تھے ۔چنانچہ حضرت عمر نے اہل کوفہ کے نام ايک خط لکھا‪:‬‬
‫‪- 24 -‬‬
‫ميں نے عمار کو تمہارا امير اور عبدﷲ بن مسعود کو معلم اور وزير بنا کر بھيجا ہے ۔يہ دونوں‬
‫رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کے چيده اصحاب اور اہل بدر ميں سے ہيں ۔ان کی پيروی‬
‫کيجيئے۔عبدﷲ کو تمہاری طرف بھيج کر ميں نے تمہيں اپنی ذات پر ترجيح دی ہے۔‬
‫تعالی عنہ کی عظمت وفضيلت کے اثبات ميں حضرت عمر‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫ًٓ‬
‫ہے۔خصوصااپ کا يہ قول کہ ’’تم کو اپنی ذات پر‬ ‫سے بﮍھ کر اور کس کی شہادت ہو سکتی‬
‫ٰ‬
‫ترجيح دی‘‘قابل غور ہے۔حضرت عمر رضی ﷲ تعالی عنہوه شخص ہيں جب کے قلب وزبان پر‬
‫قرانی ٓايا ت‬
‫ﷲ نے حق کو جاری کرديا تھا۔وه جب کسی رائے کا اظہار کرتے تو اس کی تائيد ميں ٓ‬
‫نازل ہوجاتيں۔صاحب فضيلت کا قدر شناس وہی ہوسکتا ہے جو خود بھی فضيلت کا حامل ہو جب‬
‫تعالی عنہنے وفات پائی تو حضرت ابو درداء نے کہا‪:‬‬ ‫ابن مسعود رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہنے اپنے بعد کوئی ايسا شخص نہيں چھوڑا جو ان جيسا ہو۔‬ ‫’’ابن مسعود رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہ سے بے شمار لوگوں نے حديثيں روايت کيں‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫موسی اشعری‪،‬عمران بن حصين‪،‬ابن‬ ‫ٰ‬ ‫‪،‬صحابہ ميں سے مندجہ ذيل کے اسماء قابل ذکر ہيں۔ابو‬
‫عباس‪،‬ابن عمر ‪،‬جابر ‪،‬انس‪،‬ابن زبير ‪،‬ابو سعيد خدری‪،‬ابو ہريره‪ ،‬ابو رافع‪،‬رضوان ﷲ عليہم‬
‫اجمعين۔تابعين ميں سے علقمہ‪،‬ابو وائل ‪،‬اسود‪،‬مسروق‪،‬عبيده‪،‬قيس بن ابی حازم‪،‬رحمہم ﷲ عليہم‬
‫اور ديگر اکابر نے استفاده کيا۔‬
‫تعالی عنہ سے ٓاٹھ سو اڑتاليس احاديث منقول ہيں ۔بخاری‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫ومسلم نے چونسٹھ احاديث باالتفاق روايت کيں ہيں۔بخاری اکيس احاديث کے روايت کرنے ميں‬
‫منفرد ہيں اور مسلم نے پينتيس احاديث روايت کيں ہيں ۔‬
‫ً‬
‫تعالی عنہ جن صفات سے متصف تھے مثالقدامت اسالم اور‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫طويل صحبت نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کا تقاضہ يہ تھا کہ وه مذکوره صدر احاديث سے زياده‬
‫احاديث روايت کرتے ۔انہوں نے تمام عصر نبوت کو بچشم خود ديکھا اور ٓانحضرت صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم کی صحبت سے بھو پور استفاده کيا۔وه حديثيں ياد کرنے کے حريص بھی تھے اس کے‬
‫ساتھ ساتھ ا ن کا حافظہ بھی بہت قوی تھا۔دنيوی سازوساما ن سے انہيں چنداں دلچسپی نہ‬
‫تھی۔مگر رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد وه بہت کم عرصہ تک زنده رہے اور جس طرح‬
‫تعالی عنہکو حديثوں کی اشاعت کے لئے طويل مدت ملی تھی ان کو‬ ‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ ٰ‬
‫نہ مل سکی ۔‬
‫تعالی عنہ نے ‪٢٣‬ھ ميں ايک قول کے مطابق کوفہ اور‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫دوسرے قول کے مطابق مدينہ ميں بعمر ساٹھ سال سے کچھ زائد وفات پائی۔‬

‫اور‬ ‫انسائيکلو پيڈيا ٓاف اسالم‬


‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ‪:‬‬
‫عالمہ شيخ محمد عرفہ ممبر جمعيۃ کبارالعلماء نے ازہر يونيورسٹی کے مجلہ''نور االسالم''کی‬
‫جلد پنجم ميں صفحہ ‪ ۶٣٩‬پر حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے متعلق ايک تحقيقی مقالہ سپر‬
‫د قلم کيا ہے جس ميں اس جليل القدر راوی کا دفاع کيا اور ان اتہامات کا جواب ديا جو انگريزی‬
‫انسائيکلو پيڈيا ٓاف اسالم کے مقالہ نگاروں نے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ پر باندھے ہيں ہم‬
‫ذيل ميں اس قيمتی مقالہ کا خالصہ پيش کرتے ہيں۔‬
‫مستشرق گولڈ زيھر‪:‬‬

‫‪- 25 -‬‬
‫مشہور مستشرق گولڈ زيہر نے انسائيکلو پيڈيا ٓاف اسالم جلد اول عدد ہفتم ميں حضرت ابو ہريره‬
‫رضی ﷲ عنہ پر چند اتہامات باندھے ہيں جو کو کسی علمی وتاريخی دليل پر مبنی نہيں ہيں۔ان‬
‫اتہامات کا خالصہ يہ ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ حديثيں روايت کرنے کے سلسلہ ميں امانت‬
‫ٰ‬
‫وتقوی کے‬ ‫وديانت کا خيال نہيں رکھتے تھے۔گولڈ زيہر کا کہنا ہے کہ ابوہريره رضی ﷲ عنہ زہد‬
‫بل بوتے پر حديثيں گھﮍليا کرتے تھے اور جو لوگ براه راست ان سے حديثيں رايت کرتے تھے‬
‫وه بھی ان کی مرويات پر شک وشبہ کا اظہار کرتے تھے بلکہ بالفاظ صحيح تر وه ان کا مذاق‬
‫اڑاتے تھے ۔ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی يہ عادت تھی کہ معمولی باتوں کو بھی بﮍے دلکش انداز‬
‫ميں بيان کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وه بﮍے زنده دل اور ظريف الطبع تھے۔ يہ ابو‬
‫ہريره رضی ﷲ عنہ کی خوش مذاقی ہی تھی جو بہت سی دلچسپ کہانيوں کی موجب بنی۔لطف يہ‬
‫ہے کہ گولڈزيہر اپنی اسالم دشمنی پر پرده ڈالنے کے لئے ان اتہامات کو اسالمی کتب کی جانب‬
‫منسوب کرتا ۔اس سے دراصل وه يہ تاثر دينا چاہتا ہے کہ يہ واقعات بجائےخود درست ہيں ورنہ‬
‫مسلم مصنفين ان کو بيان نہ کرتے اس کا يہ انداز بﮍی گہری اور پر فريب چال پر منبی ہے۔ ہم ان‬
‫شاء ﷲ اس کی بہت اچھی طرح پرده دری کريں گے۔‬
‫اتہام کی حقيقت‪:‬‬
‫اس ميں شبہ نہيں کہ حضرت ابو ہرير ه رضی ﷲ عنہ جن کی ذات گرا می پر يہ کيچﮍ‬
‫اچھاال جاتا ہے نہايت جليل القدر صحابی ہيں اور عبدﷲ بن عمر بن العاص کو چھوڑ کر سب‬
‫صحابہ ميں کثير الروا يۃ مشہور تھے۔ ظاہر ہے کہ احاديث نبويہ کے بحر بيکراں حضرت ابو‬
‫ہريره رضی ﷲ عنہ پر جرح و نقد کے يہ معنی ہيں کہ حديث کے پورے ذخيره اور ابوہريره رضی‬
‫ﷲ عنہ کی تمام مرويات کو مشکوک ٹھرايا جائے تاکہ اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جا ئے اور‬
‫يہ کوئی معمولی درجے کا فساد نہيں اور اگر اس جرح وطعن ميں صداقت کا کچھ بھی عنصر‬
‫شامل ہوتا تو اس کو تسليم کر ليا جاتا مگر يہ طعن باطل ہے اور حق سے يکسرعاری ہے۔‬
‫بقول اما م بخاری حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے ٓاٹھ سو اہل علم نے احاديث روايت کيں ہيں‬
‫اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وه ان پر اعتماد کرتے تھےورنہ ان سے حديثيں روايت نہ کرتے سب‬
‫صحابہ اور محدثين ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو ثقہ تسليم کرتے رہے ہيں حضرت ابن عمر‬
‫فرماتے ہيں‪:‬‬
‫ابو ہريره رضی ﷲ عنہ مجھ سے بہتر ہيں اور جو حديث وه بيان کرتے ہيں اس کو وه خوب‬
‫جانتے ہيں۔‬
‫حضرت طلحہ جو عشره مبشره ميں سے ہيں فرماتےہيں‪:‬‬
‫اس ميں شک نہيں ابو ہر يره رضی ﷲ عنہ نے حضور صلی ﷲ عليہ وسليم سے وه حديثيں‬
‫سنيں جو ہم نہ سن سکے۔‬
‫امام نسائی ذکر کرتے ہيں کہ ايک شخص نے حضرت زيد بن ثابت کی خدمت ميں حاضر ہو کر‬
‫کوئی مسئلہ پوچھا ‪،‬حضرت کہنے لگے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کے پاس جاؤاور ان سے‬
‫دريافت کرو ۔امام نسائی نے پوارا واقعہ ذکر کيا۔‬
‫بقول اہل علم وثقات محدثين ابو ہريره رضی ﷲ عنہ حد درجہ حافظ اور ضابط تھے۔ امام‬
‫شافعی فرمايا کرتے تھے کہ ابو ہريره تمام راويان حديث سے بﮍھ کر حافظ ہے۔اعمش ابو صالح‬
‫سے ذکر کرتے ہيں کہ ابو ہريره تمام اصحاب محمد صلی ﷲ عليہ وسلم سے بﮍھ کر حافظ تھے۔‬

‫‪- 26 -‬‬
‫مروان کا کاتب ابو زعيزعہ ذکر کرتا ہے کہ مروان نے ابو ہريره کو باليا اور وه حديثيں بيان‬
‫کرنے لگے ‪،‬ميں ايک چار پائی کے پيچھے چھپا بيٹھا تھا اور لکھتا جا رہا تھا جب ايک سال‬
‫گزرا تو مروان نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو بال کر ان احاديث کے بارے ميں پوچھا اور مجھے‬
‫تحرير کرده احاديث کو ديکھتے رہنے کا حکم ديا ‪،‬ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے من عن وه حديثيں‬
‫سنا ديں اور ايک حرف کو بھی تبديل نہ کيا ۔‬
‫يہ ہيں ابويره رضی ﷲ عنہ کے بارے جليل القدر محدثين کے نظريات۔ان کی رائے سند کا درجہ‬
‫رکھتی ہے۔جس کو يہ ثقہ قرار ديں اس کو کوئی مجروح نہيں ٹھہرا سکتا ۔ اور جس کو نقدو‬
‫جرح کے تيروں سے گھائل کر ديں کھوٹے سکے کی طرح کوئی اس کی توثيق نہيں کرسکتا۔‬
‫بھال جو شخص ان اکا بر کی مدح وتوصيف سے بہره ور ہو چکا ہو اس کو کسی کی مذمت کی کيا‬
‫پروا ۔‬
‫ان مختصر تمہيدی سطور کے بعد اب ہم ان اعتراضات کی اصل حقيقت ب نقاب کرتے ہيں‪:‬‬
‫‪١‬۔مستشرق مذکور کا يہ قول کہ کثرت روايت کی بناء پر ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت‬
‫کرنے والے شک وشبہ کا اظہار کرنے لگے تھے۔اور اس کی دليل بخاری کی وه روايت ہے جو‬
‫بخاری کتاب فضائل االصحاب حديث نمبر ‪ ١١‬ميں مذکور ہے ‪،‬اس ميں درج ہے کہ ''لوگ کہتے‬
‫ہيں کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ زياده حديثيں بيان کرتا ہے۔بات يہ ہے کہ ميں اپنا پيٹ بھر کر‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذيذ کھانے مجھے نصيب‬
‫تھے نہ عمده کپﮍا‪،‬نہ ميرا کوئی خادم اور نوکر تھا‪،‬جب بھوک ستاتی تو ميں پيٹ کے بل کنکريوں‬
‫پر الٹا ليٹ جايا کرتا تھا۔''‬
‫ايک با انصاف ٓادمی مذکوره صدر روايت سے سمجھ سکتا ہے کہ بعض لوگوں نے کثرت حفظ و‬
‫روايت پر تعجب کيا تھا ‪،‬ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے اس کی وجہ يہ بيان کی کہ وه ٓانحضور صلی‬
‫ﷲ عليہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتے تھے۔انہيں مال متاع جمع کرنے کے بجائے‬
‫صرف حديثيں جمع کرنے کا شوق تھا جب بھوک ستاتی تو وه کنکريوں پر ليٹ جاتے تجارت ہو‬
‫يا زراعت ‪،‬انہيں رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے باز نہ رکھ سکی اس لئے انہوں نے‬
‫دوسروں سے زياده احاديث ياد کر ليں اورحضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے وه استفاده کيا جس‬
‫سےديگر صحابہ قاصر رہے۔جب ابوہريره رضی ﷲ عنہ نے يہ وجہ بيان کردی تو اعتراض کرنے‬
‫والے خاموش ہوگئے‬
‫اگر ہم مستشرق مذکور کی يہ بات تسليم کر بھی ليں کہ وه لوگ ابوہريره رضی ﷲ عنہ پر تعجب‬
‫نہيں کرتے تھے بلکہ ان کے بارے ميں شکوک شبہات کا اظہار کرتے تھے تو سوال يہ پيدا ہوتا‬
‫ہے کہ انہوں نے رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے‬
‫حديثيں اخذ کرنا ترک کيوں نہ کيا ؟حاالنکہ ابوہريره رضی ﷲ عنہ اس کے بعد پچاس سال بقيد‬
‫حيات رہےمعلوم ہوتا ہے کہ وه ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی بيان کرده وجہ سے مطمئن ہو گئے‬
‫تھےاور ان کے شکوک شبہات زائل ہوگئے تھے اگر ان کی مرويات ميں انہيں کچھ شبہ ہوتا تو‬
‫وه ان کے اخذ کر نے سے باز رہتے ‪،‬حاالنکہ وه رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی احاديث کے‬
‫محافظ اور ان ميں تدليس وکذب کی ٓاميزش کو روکنے والے تھے۔‬
‫‪٢‬۔جہاں تک گولڈ زيہر کے اس زعم باطل کا تعلق ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ ايک ظريف طبع‬
‫ٓادمی تھے اور وه معمولی معمولی باتوں کو بﮍے دلکش انداز ميں بيان کرنے کےعادی تھے يہی‬
‫وجہ ہے کہ بہت سی کہانياں ان کے بارے ميں مشہور ہوگئيں ‪،‬ابن قتيبہ نے يہ دلچسپ واقعات‬
‫بيان کئے ہيں۔يہ بيان حد درجہ مبہم و مجمل اور گمراه کن ہے۔ہم نہيں جانتے وه کہانياں کيا‬
‫‪- 27 -‬‬
‫ہيں؟مستشرق مذکور کو چاہيئے تھا کہ وه کہانياں بيان کرتا‪،‬تاکہ ہم ان پر غور وفکر کر سکتے‬
‫۔اس نے يہ بھی نہيں بتايا کہ ابن قتيبہ نے يہ واقعات اپنی کس کتاب ميں ذکر کئے ہيں‪،‬ابن قتيبہ‬
‫ايک کثير التصانيف عالم ہيں اور ان کی متعدد تصانيف زيور طبع سے ٓاراستہ ہو چکی ہيں ۔اگر‬
‫مستشرق مذکور امانت وديانت سے کام لے کر ابن قتيبہ کی کتاب کا نام ذکر کرديتا تو ہم اسے بتا‬
‫تے کہ وه ابن قتيبہ کی بات سمجھنے سے قاصر رہا۔‬
‫‪٣‬۔منکرين حديث نے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کے بارے ميں ڈاکٹر اسپرنگر کا جو قول نقل‬
‫وتقوی کے پيش نظر احاديث وضع کيا کرتے تھے ہم‬ ‫ٰ‬ ‫کيا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ ورع‬
‫اسپرنگر وغيره کے مزعومات باطلہ کو تسليم نہيں کر سکتے ۔يہ لوگ تو خود صحابہ پر بہتان‬
‫طرازی ميں حد سے بﮍہے ہوئے ہيں ۔ان کا مقصد وحيد ملسمانوں کو گمراه کرنا ‪،‬دين ميں انتشار‬
‫پيدا کرنا ‪،‬حقيقت کو مسخ کرنا ‪،‬اور اصليت پر پرده ڈالنا ہے‪،‬اسپرنگر کےاس طعن کے لئے کوئی‬
‫جواز نہيں اور يہ بال دليل وبرہان ہے۔‬
‫اسپرنگرکا يہ کہنا کہ ''ابو ہريره رضی ﷲ عنہ زہد وتقوی کی بناء پر حديثيں وضع کيا کرتے‬
‫تھے۔''ايک اليعنی گفتگو ہے۔ جس کا کوئی مطلب مفہوم نہيں ۔اس لئے کہ زہد وتقوی تو لوگوں‬
‫پر جھوٹ باندھنے سے بھی روکتا ہے۔چہ جائے کہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم پر افتراء پردازی‬
‫کی جائے ۔ابو ہريره رسول صلی ﷲ عليہ وسلم پر جھوٹ کيسے باندھ سکتے تھے جب کہ وه‬
‫خود رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی يہ حديث روايت کرتے تھے کہ جس نے مجھ پر دانستہ‬
‫جھوٹ باندھا وه اپنا گھر دوزخ ميں بنا لے۔‬
‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ جب حديث روايت کرنے لگتے تو اس حديث سے ٓاغاز کرتے‬
‫ظاہر ہے کہ جس شخص نے يہ حديث نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنی ‪،‬اسے اچھی طرح‬
‫ياد رکھا دوسروں تک پہنچايا بلکہ دوسروں کو ياد داليا اور ہر مرتبہ روايت حديث سے قبل وه‬
‫حديث دوسروں کو سنائی اس کے ساتھ ساتھ وه مومن بھی ہواور زہد وتقوی سے بھی متصف ہو‬
‫عادةً محال ہے کہ ايسا شخص رسول صلی ﷲ عليہ وسلم پر جھوٹ باندھے ۔دروغ گوئی ميں‬
‫مبالغہ ٓاميزی اور اس کو ايک دينی کام خيال کرنا تو بﮍی بات ہے۔‬
‫‪۴‬۔ مستشرقين کا يہ قول کہ ''اکثر احاديث جو ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی جانب منسوب ہيں‬
‫‪،‬پچھلے تاريخی ادوار ميں گھﮍ کر ان کی جانب منسوب کی گئی ہيں'' ہم اس بات کو تسليم کرتے‬
‫ہيں کہ بہت سی حديثيں وضع کر کے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ جيسے عظيم ترين محدث‬
‫کی جانب منسوب کر دی گئی تھيں مگر نقاد حديث نے ان ميں سے ايک ايک موضوع حديث کو‬
‫چھانٹا اور کھوٹی کھری احاديث کو مميز وممتاز کرديا اور اس طرح انہوں نے واضعين کے سب‬
‫راستے مسدود کردئے ۔‬
‫اب سوال يہ ہے کہ انسائکلوپيڈيا کے مصنفين نے يہ کانامہ کس لئے انجام ديا تھا؟اگر ان کا‬
‫مقصد يہ تھا کہ علوم اسالميہ کو ان کی اصل شکل وصورت ميں لوگوں کے سامنے پيش کيا‬
‫جائے تو افسوس ہے کہ يہ مقصد بالکل پوارا نہيں ہوا۔اور اگر اس محنت و کا وش کی غرض‬
‫وغايت يہ تھی کہ اہل مغرب کے سامنے مسلمانوں کی تصوير قابل مذمت حال ميں کھينچی جائے‬
‫‪،‬مسلمانوں کے عقائد ميں انتشار پيدا کيا جائے ‪،‬ملسم نوجوانوں کو دين سے برگشتہ کيا جائے‬
‫تو اس ميں شبہ نہيں کہ يہ مجموعہ بﮍی حدی تک اس غرض کو پورا کرتا ہے۔‬
‫)شيخ محمد عرفہ کا بيان ختم ہوا(‬
‫کلمتہ الختام‪:‬‬
‫‪- 28 -‬‬
‫سابقہ بيانات کا خالصہ يہ ہے کہ ارباب بدعت مستشرقين اعدائے دين اور ان کے جاہل‬
‫تالمذه اصحاب رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی تحقير کے لئے اسالم کو نقصان پہنچانے کی‬
‫کوشش کرتے رہتے ہيں ‪،‬احاديث نبويہ کے عظيم راوی ابو ہريره کے ساتھ تو انہيں خاص‬
‫عداوت ہے۔‬
‫عصر حاضر ميں نام نہاد اہل علم اور بد اخالق لوگوں کی ايک جماعت اٹھی ہے جنہوں نے‬
‫سابقہ ادوار کے تمام عيوب ومطاعن کا کوڑا کرکٹ حضرات صحابہ پر بالعموم حضرت ابو ہريره‬
‫رضی ﷲ عنہ پر بالخصوص ڈالنے کی کوشش کی ہے ان کا مقصد يہ ہے کہ دين اسالم کے اسد‬
‫بلند پايہ ستو ن کو مسمار کر ديا جائے‪،‬وه عظيم ستون رسول پاک صلی ﷲ عليہ وسلم کی حديث‬
‫وسنت ہے۔چنانچہ انہوں نے سابقہ الذکر اتہامات پر ہی اکتفا نہيں کيا بلکہ اس پر جھوٹ کا طومار‬
‫باندھنے کی کوشش کی ہے ۔چنانچہ ہم ان اعتراضات کا ذکر کر کے ان کا مختصر جواب پيش‬
‫کرتے ہيں‬
‫‪١‬۔ مستشرق اور ان کے جاہل تالمذه کا دعوی ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو دين سے ٰ‬
‫کوئی‬
‫دلچسپی نہ تھی وه صرف دنيا کی خاطر مشرف باسالم ہوئے ‪،‬حاالنکہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ فقر‬
‫وفاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے اور سب کاموں کو چھوڑ کر انہوں نے اپنی زندگی علم وعبادت‬
‫‪،‬جہاد فی سبيل ﷲ اور دين کی تبليغ و دعوت کے لئے وقف کر رکھی تھی اس سے ان کے‬
‫دعوے کی تکذيب ہوتی ہے‪،‬‬
‫‪٢‬۔ان کا دعوی ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو علم فقہ ميں چنداں مہارت حاصل نہ تھی يہ‬
‫تاريخ اسالم پر ايک عظيم دھبہ ہے اس لئے کہ واقعہ اس کے خالف ہے ابن سعد طبقات ميں‬
‫لکھتے ہيں کہ حضرات صحابہ مثالً ابن عباس ‪،‬ابن عمر ‪،‬ابو سعيد خدری‪،‬ابو ہريره‪ ،‬عبدﷲ بن‬
‫عمرو بن العاص ‪،‬جابر رافع بن خديج‪،‬سلمہ بن اکوع‪،‬ابو واقد ليثی اور عبدﷲ بن بحينہ رضی ﷲ‬
‫عنہم حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اپنی وفات تک مدينہ منوره ميں حديثيں روايت کرتے‬
‫اور فتوی ديتے رہےاس کا مطلب يہ ہے کہ حضرت ابو ہريره اکابر صحابہ وتابعين کی موجودگی‬
‫ميں تيئس سال تک مدينہ ميں فتوی ديتے رہے۔)طبقات ابن سعد(‬
‫امام ابن قيم نے مفتی صحابہ کا ذکر کيا اور بتايا ہے کہ ان ميں زياده فتوی دينے والے بھی تھے‬
‫اور کم فتوی دينے والے بھی۔بعض صحابہ فتوی دينے می متوسط درجہ کے تھے ‪،‬حضرت ابو‬
‫ہريره کو انہوں نے متوسط فتوی دينے والوں اور حضرت ابو بکر و عثمان و ابو سعيد خدری وام‬
‫سلمہ وابوموسی اشعری ومعاذ بن جبل وسعد بن ابی وقاص وجابر رضی ﷲ عنہم کے زمره ميں‬
‫شامل کيا ہے جو شخص کہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ فقيہ نہ تھےوه خود فقہ سے عاری‬
‫ہے۔)اعالم الموقعين ج‪١‬ص‪(٩‬‬
‫‪٣‬۔ مستشرقين کا قول ہے کہ حضرت عمر نے ابو ہريره کو بحرين کا عامل مقرر کيا پھر ٓاپ کو‬
‫پتہ چال کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے خيانت کی ہے چنانچہ ٓاپ نے ان کو معزول کر ديا ان کے‬
‫پاس جو مال تھا وه لے ليا اور ان کو اس قدر پيٹا کہ خون بہنےلگا ۔يہ اس شخص کا قول ہے جو‬
‫مؤرخين کے سچے جھوٹے اقوال جمع کرنے کا عادی ہو اور حق وباطل ميں تميز کرنے سے‬
‫اسے کوئی سروکار نہ ہو اصل واقعہ صرف اتنا تھا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ابو ہريره‬
‫رضی ﷲ عنہ کو بحرين سے طلب کر کے پوچھا کہ يہ مال ٓاپ نے کہاں سے حاصل کيا ؟حضرت‬
‫ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے کہا ميرے پاس کچھ گھوڑيا تھيں ان کی نسل ميں افزئش ہوئی اس‬
‫کے ساتھ ساتھ کچھ تنخواہيں جمع ہوگئيں‪،‬باقی مانده مال ميرے غالم کی کمائی کا ہے۔تحقيق‬
‫کرنے پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اسے درست پايا پھر ٓاپ نے دوباره ابو ہريره رضی ﷲ‬

‫‪- 29 -‬‬
‫عنہ کو بحال کرنا چاہا مگر وه نہ مانے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمايا ''مالزمت تو اس‬
‫سے بہتر شخص )حضرت يوسف (نے بھی طلب کی تھی ''ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کہنے لگے وه‬
‫تو حضرت يوسف عليہ السالم تھے جو خود نبی بھی تھے اور نبی زاده بھی تھےاور ميں اميمہ‬
‫کا بيٹا ابو ہريره ہوں۔''‬
‫اس واقعہ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ديگر عمال کی طرح حضرت عمر نے ابو ہريره‬
‫رضی ﷲ عنہ کا محاسبہ کيا تھا اور تحقيق کرنے پر ابو ہريره رضی ﷲ عنہ پر جو الزام تھا وه‬
‫غلط ثابت ہوا۔حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو جو دوباره بحال کرنا چاہا‬
‫تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی سيرت بے داغ تھی حضرت‬
‫عمر رضی ﷲ عنہ ٓاپ پر اعتماد کرتے تھے اور ٓاپ کو امين خيال کر تےتھے۔‬
‫‪۴‬۔ مستشرقين کا دعوی ہے کہ جب حضرت علی ومعاويہ رضی ﷲ عنہما کے درميان فتنہ بپا‬
‫ہوا۔ان دنوں ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نماز علی رضی ﷲ عنہ کے ساتھ پﮍھتے تھے اور کھانا‬
‫حضرت معاويہ کے ساتھ کھايا کرتے تھے‪،‬جب ميدان کار زار گرم ہوجاتا تو پہاڑ ميں چھپ کر‬
‫پناه ليتے۔جب ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو کہتے علی بہتر عالم ہيں‬
‫اور معاويہ کے يہاں لذيذ کھانا ملتا ہے۔اور امن سالتی پہاڑ کے دامن ہی ميں حاصل ہوتی ہے۔يہ‬
‫واقعہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے تاريخ سے ثا بت ہے کہ حضرت ابوہريره رضی ﷲ عہ فتنہ‬
‫کے زمانے ميں الگ تھلگ رہے اور مدينہ سے باہر نہ گئے۔‬
‫‪۵‬۔ منکرين حديث کا کہنا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ بنو اميہ کے حامی تھے او ر حضرت‬
‫علی کی مذمت ميں حديثيں وضع کر کے معاوضہ ليا کرتے تھےبخالف ازيں صحيح تاريخ سے‬
‫اس امر کا اثبات ہوتا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے حضر ت علی رضی ﷲ عنہ اور اہل بيت‬
‫کی مدح ميں حديثيں روايت کيں ہيں۔چنانچہ مسند احمد اور مجمع الزوائد ميں يہ احاديث مذکور‬
‫ہيں ‪،‬حضرت حسن رضی ﷲ عنہ کو جب نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کے روضہ ميں دفن کر‬
‫نے کا سوال اٹھا تو اس وقت مروان کے ساتھ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو جو واقعہ پيش ٓايا اس‬
‫سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بيت کے ساتھ ان کو کس قدر والہانہ محبت تھی ‪،‬مؤرخ ابن کثير نے يہ‬
‫واقعہ ذکر کيا ہے۔)البدايہ ج‪٨‬ص‪(١٠٨‬‬

‫پھر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی مذمت‬
‫ميں جو حديثيں وضع کی تھيں وه کہاں گئيں اور کن ثقہ راويوں نے ان کو نقل وروايت کيا ؟اس‬
‫کے سوا کيا کہا جا سکتا ہے کہ ان احاديث کا وجود ان لوگوں کے دماغ کے سوا اور کہيں نہيں‬
‫ہے ۔‬
‫محدث حاکم وابو ہريره رضی ﷲ عنہ‪:‬‬
‫مشہور محدث امام حاکم نے اپنی کتاب ''المستدرک''ميں حضرت ابو ہريره کی مدح‬
‫وتوصيف ميں ايک نہايت قيمتی فصل منعقد کر کے بکثرت احاديث نقل کی ہيں جن سے ان کی‬
‫عظمت اور فضيلت ثابت ہوتی ہے‪،‬امام حاکم نے اس فصل کو اپنے استاد محترم ابو بکر کے‬
‫مندرجہ ذيل نظريات پر ختم کيا ہے چنانچہ ابو بکر فرماتے ہيں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ‬
‫تعالی نے اندھا‬
‫ٰ‬ ‫کی احاديث کو رد کرنے کے لئے وه شخص گفتگو کرتا ہے جس کے دل کو ﷲ‬
‫کرديا ہو اور وه احاديث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہويا تو وه شخص فرقہ جہميہ معطلہ ميں‬
‫سے ہوگاجو اپنے نظريے کے خالف ابو ہريره کی مرويات سن کر ان کو گالياں ديگا اور ٰ‬
‫ادنی‬
‫درجے کے لوگوں کو يہ تاثر دينےکی کوشش کريگا کہ يہ حديث قابل احتجاج نہيں ہيں۔‬

‫‪- 30 -‬‬
‫يا وه شخص خارجی ہوگا جس کے نزديک ساری امت محمدی واجب القتل ہے اور کسی‬
‫خليفہ اور امام کی اطاعت ضروری نہيں ايسا شخص جب اپنے گمرہانہ عقائد کے خالف حضرت‬
‫ابو ہريره رضی ﷲ عنی کی روايت کرده احاديث کو ديکھے گا اور کسی دليل اور برہان سے ان کا‬
‫جواب نہ دے سکے گا تو فی الفور ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو برا بھال کہنے لگے گا۔‬
‫يا وه شخص قدريہ)منکرين تقدير(ميں سے ہوگا جن کا اسالم اور اہل اسالم سے کچھ تعلق‬
‫نہيں اور جو تقدير کا عقيده رکھنے والے مسلمانوں کی تکفير کرتے ہيں ايسا شخص جب اثبات‬
‫تقدير کے مسئلہ سے متعلق ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی روايت کرده احاديث ديکھے گا تو اپنی بر‬
‫کفر عقيدے کی تائيد و حمايت ميں اسے کوئی دليل نہ ملے گی تو وه کہے گا کہ ابو ہريره رضی‬
‫ﷲ عنہ کی مرويات استناد واحتجاج کے قابل نہيں۔‬
‫يا وه شخص جاہل ہوگا جو جہالت کے باوجود فقہ دانی کا مدعی ہے اس شخص نے جس‬
‫امام کی تقليد کا قالده اپنی گردن ميں ڈاال ہوا ہے جب اس کے خالف ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی‬
‫مرويات ديکھے گا تو ان کی ترديد کرنے لگے گا اور ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو مطعون ٹھہرائے‬
‫گا۔ليکن جب ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی روايت کرده احاديث اس کے امام کے مسلک سے ہم‬
‫ٓاہنگ ہونگی تو اس وقت وه ان کو اپنے مخالفين کی ترديد ميں استعمال کريگا۔)المستدرک‬
‫ج‪٣‬ص‪(۵٠۶‬‬
‫اکابر صحابہ جنہوں نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت کی‪:‬‬
‫امام حاکم فرماتے ہيں کہ مندرجہ ذيل اکابر صحابہ نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے حديثيں‬
‫روايت کی ہيں۔‬
‫زيد بن ثابت‪،‬ابو ايوب انصاری‪ ،‬ابن عباس‪،‬ابن عمر‪،‬عبدﷲ بن زبير‪،‬ابی بن کعب‪،‬جابر‬
‫ٰ‬
‫موسی اشعری ‪،‬انس بن مالک‪،‬سائب بن زيد‪،‬ابو رافع‬ ‫‪،‬عائشہ‪،‬مسور بن مخرمہ‪،‬عقبہ بن حارث‪،‬ابو‬
‫مولی رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم‪،‬ابو عمامہ بن سہل ‪،‬ابو طفيل ‪،‬ابو نضره غفاری ‪،‬ابو رہم‬ ‫ٰ‬
‫غفاری ‪،‬شداد بن الہاد‪،‬ابو حدرد‪،‬عبدﷲ بن حدرد اسلمی ‪،‬ابو رز ين عقيلی‪،‬واثلہ بن اسقع‪،‬قبيصہ‬
‫بن ذويب‪،‬عمر وبن الحمق ‪،‬حجاج اسلمی ‪،‬عبدﷲ بن عقيل‪،‬االغرالجہنی‪،‬شريد بن سويد رضی ﷲ‬
‫عنہم اجمعين۔‬
‫اس سے معلوم ہوا کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت کرنے والے صحابہ کی تعداد‬
‫اٹھائيس تک پہنچ گئی تھی جہانتک تابعين کا تعلق ہے ان ميں کوئی بھی ابو ہريره رضی ﷲ عنہ‬
‫کے اصحاب وتالمذه سے بﮍھ کر عالم اور مشہور تر نہ تھا ان کی تعداد اس قدر زياده ہے کہ ان‬
‫سب کا ذکر طوالت کا موجب ہے ‪،‬خداوند کريم ہميں رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم ‪،‬ان کے‬
‫صحابہ ‪،‬تابعين اور سب ائمہ دين کی مخالفت سے محفوظ رکھے۔)امام حاکم کا کالم ختم ہوا(‬
‫اس پر جس قدر تاسف کا اظہار کيا جائے کم ہے کہ کچھ نوخيز مدعيان اسالم جو علم کے‬
‫ذوق سے ٓاشنا ہيں اور نہ اسالم کے قدر شناس ‪،‬رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کے اصحاب‬
‫رضی ﷲ عنہم کی مذمت کر کے بزعم خويش اسالم کو نقصان پہنچانے کے در پر ہيں ان کا کام‬
‫صرف دولت جمع کرنا ہے ۔حيرت کی بات تو يہ ہےکہ وه ابو ہريره رضی ﷲ عنہ پر يہ بہتا ن‬
‫طرازی کرتے ہيں کہ حضرت معاويہ رضی ﷲ عنہ سے معاوضہ لے کر حضرت علی رضی ﷲ‬
‫عنہ کی مذمت ميں حديثيں وضع کيا کرتے تھے۔‬

‫‪- 31 -‬‬
‫دوسری طرف ان کا اپنا يہ حال ہے کہ عيسائی مشينريوں سے بھاری تنخواہيں وصول کر کے ان‬
‫کے کاموں ميں تعاون کر رہے ہيں ‪،‬اوريہ صرف اس بات کا صلہ ہے کہ دين اسالم کو ہدف تنقيد‬
‫بنايا جائے اور علمائے اسالم کی تحقيرو تذليل کی جائے۔‬
‫ٓ‬
‫قران عزيز ميں فرمايا‪) :‬ومن ﯾکسب خطيئۃ اؤ اثما ﯾرم بہ برﯾئافقد احتمل بھتانا واثما مبينا(‬
‫''اور جو غلطی يا گناه کا مرتکب ہو پھر کسی بے گناه کو اس سے متہم کر دے تو اس نے بہتان‬
‫تراشا اور بﮍا بھاری گناه اٹھايا''۔‬

‫حديث نبوی عہد رسالت ميں۔‬


‫• بعثت محمدی سے قبل عربوں پر جہالت کی تاريکی چھائی ہوئی تھی ۔ جہالت کی حد يہ تھی‬
‫کہ جو بت انہوں نے اپنے ہاتھوں کے ساتھ پتھروں سے تراشے تھے ان کو معبود بنا رکھا تھا‬
‫ان کی سنگدلی کا يہ عالم تھا کہ عارياتنگ دستی کی بنا پر اپنی اوالد کو قتل کرڈالتے تھے‬
‫۔جنگجو اور خونخوار اس قسم کے تھے کہ معمولی معمولی باتوں پر دشمن لو لوٹ ليتے اوراس‬
‫پر دھاوا بول ديتے تھے۔جاہلی حميت وغيرت اور قبائلی تعصب ان ميں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا‬
‫تھا۔شراب اور جوا ا ن کی گھٹی ميں پﮍا تھا۔‬
‫لﮍائيوں کا سلسلہ جب ايک مرتبہ شروع ہو جا تا تو پھر سالہا سال تک رکنے ميں نہ ٓاتا ۔‬
‫نہ کوئی حاکم تھا جوان کو منکرات سے روکتا‪،‬اور نہ وه کسی مذہب کے پيرو تھے ۔جو ان کی‬
‫برائيوں سے باز رکھتا۔بہر کيف دور جاہليت پر دور تاريکی کے سائے دراز تھے۔اور ضاللت‬
‫وجہالت نے ان کو چاروں طرف سے کھير رکھا تھا جس کے نتيجہ ميں جزيره نمائے عرب حرب‬
‫وپيکار کی جگہ بن چکا تھا۔خدا کی زمين اس خونريزی سے تنگ ٓاچکی تھی اور اس پر بسنے‬
‫والے انسان ايسے شخص کی تالش ميں تھے جو ان کو اس تير و تار اور وحشت وجہالت سے‬
‫نجات دال سکے ‪،‬مگر اس ميں کاميابی کی راه دکھائی نہيں ديتی تھی۔ان کی جہالت بعينہ اس‬
‫شخص جيسی تھی جو پياس کی شدت ميں مبتالء ہوکر پانی کے لئے ہاتھ مار رہا ہو مگر پانی‬
‫ہاتھ نہ ٓائے۔‬
‫خداوند کريم کو عربوں کی اس حالت زار بلکہ پوری انسانيت پر ترس ٓايا اور اس نے‬
‫عربوں ہی ميں سے ايک رسول مبعوث فرمايا‪،‬يہ رسول ان کو ٓايات خداوندی پرھ کر سناتا‪،‬ان کا‬
‫تزکيہ کرتا اور ان کو کتاب و حکمت کی تعليم ديتا۔اس رسول کا اسم گرامی محمد بن عبدﷲ بن‬
‫تھا۔اپ صلی ﷲ عليہ وسلم حسب ونسب کے اعتبار سے سب سے اعلی اور قريش‬ ‫ٓ‬ ‫عبدالمطلب‬
‫کے بزرگ ترين قبيلہ سے تعلق رکھتے تھے۔‬
‫سرور کائنات نے اسالمی دعوت وارشاد کا کام رازدارانہ طور پر رفتہ رفتہ شروع کيا تاکہ‬
‫يہ جہالت زده قوم بدک نہ جائےاس دعوت کے نتيجہ ميں چند افراد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم پر‬
‫ايمان لے ٓائے جن کی تعداد ہاتھوں کی انگليوں سے زياده نہ تھی۔پھر ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے‬
‫اعالنيہ دعوت کا ٓاغاز کيا اور بﮍے بﮍے لوگ مشرف بااسالم ہوئے ۔ان لوگوں نے اعلی وجہ‬
‫البصيرت)بال جبر واکراه (اسالم قبو ل کيا ۔کتاب ﷲ اور سنت رسول ميں بيان کرده احکام سنے‬
‫۔اسالم کو سوچ سمجھ کر قبول کرنے کا فائده يہ ہوا کہ اسالم ان کےر گ وپے ميں سما گيا۔‬
‫س کی بﮍی وجہ يہ تھی کہ وه پہلے ہی شرک کی تاريکيوں سے نکلنے کے خواہاں‬
‫تھے‪،‬چنانچہ اسالم نے رشدو ہدايت کے پياسے دلوں کو پايا اور ان ميں داخل ہوگيا۔ان کو رسول‬

‫‪- 32 -‬‬
‫اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم سے اس بات کا پتہ چل گيا تھا کہ دين ہی ان کی سعادت کا منبع اوراسی‬
‫کے ساتھ ان کا عزو شرف وابستہ ہے۔اس لئے وه دين کی پيروی کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم رسول اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کے دل وجان سے شيدا تھے اور ٓاپ‬
‫کو اپنے والدين اور اپنے بال بچوں سے زياده چاہتے تھے۔ ٓ‬
‫قران ان کا اوڑہنا بچھونا تھا وه اس‬
‫کو نوک زبان ياد کرتے اور اس کی شرح تفسير معلوم کرنے ميں لگے رہتے۔ حضور اکرم صلی‬
‫قران کی جو تفسير بيان کرتے يا اسالمی احکام پر جو روشنی ڈالتے صحابہ رضی‬‫ﷲ عليہ وسلم ٓ‬
‫ﷲ عنہم اس کو اپنے سينوں ميں محفوظ کر ليتے ۔پھر ہجرت مدينہ کا واقعہ پيش ٓايا اور سماع‬
‫قران اور حضور کی علمی مجلس سے استفاده کا دائره وسيع تر ہو گيا۔‬ ‫ٓ‬
‫حضرات صحابہ رضی ﷲ عنہم حديث نبوی کی اہميت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ‬
‫تعالی نے حديث کی پيروی کا حکم ديا ہے اور اس کی خالف ورزی سے بار رکھا ہے وه اس‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫حقيقت سے بھی باخبر تھے کہ حديث کے معاملہ ميں افراط وتفريط سے کام لينے واال بدبخت‬
‫انسان ہے اور جو شخص حديث کو ياد کرتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو وه خوش نصيب ٓادمی ہے‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم کی نگاه سے يہ حقيقت پوشيده نہ تھی کہ ٓ‬
‫قران عزيز نے علم اور علماء‬
‫کا مرتبہ بلند کيا ہے اور جہالت وجہالء کو نفرت وحقارت کی نگاه سے ديکھا ہے ۔چنانچہ ارشاد‬
‫فرمايا‪:‬‬
‫)قل ھل ﯾستوی الذﯾن ﯾعلمون والذﯾن ال ﯾعلمون(''الزمر ‪''٩:‬‬

‫''کہہ ديجئے کہ کيا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہيں ''۔‬
‫)ﯾرفع ﷲ الذﯾن امنو منکم والذﯾن اوتوالعلم درجت(''المجادلہ‪''١١:‬‬

‫تعالی تم ميں سے اصحاب علم وايمان کے درجات بلند کرتا ہے''۔‬


‫ٰ‬ ‫''ﷲ‬
‫علم دين اورا س کی تبليغ کی فضيلت ان الفاظ ميں واضح فرمائی ‪:‬‬
‫''وما کان المؤمنون لينفرو کافۃ فلو ال نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ ليتفقھو فی الدﯾن ولينذرو‬
‫قومھم اذا رجعو اليھم لعلھم ﯾحذرون'')التوبہ‪(١٢٢:‬‬

‫''سب مومنوں کو )طلب علم کے لئے (گھر سے نہيں نکل جانا چاہيے ايسا کيوں نہيں ہوتا کہ‬
‫ايک جماعت ميں سے کچھ لوگ دين کا علم حاصل کرنے کے لئے چلے جائيں اور جب واپس‬
‫ٓائيں تو اپنی قوم کو ڈرائيں تاکہ وه پرہيز کريں''۔‬
‫وعيد شديد وارد ہوئی ہے ۔‬
‫ِ‬ ‫علم کو چھپانے اور اس کا اظہار نہ کرنے کے سلسلہ ميں جو‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم اس سے بھی ٓاگاه تھے ٓ‬
‫قران عزيز ميں فرمايا‪:‬‬
‫''ان الذﯾن ﯾکتمون ما انزلنا من البينات والھدی من بعد ما بيناه للناس فی الکتب اولئک‬
‫ﯾلعنھم ﷲ وﯾلعنھم اللعنون'')البقرة‪(١۵٩:‬‬

‫''بےشک وه لوگ جو ان دالئل اور ہدايت کو چھپاتے ہيں جس کو ہم نے اتارا ہے اس کے بعد کہ‬
‫ہم نے اس کو لوگوں کے لئے کتاب ميں واضح کرديا ہے ان پر ﷲ بھی لعنت بھيجتا ہےاور لعنت‬
‫بھيجنے والے ''۔‬

‫‪- 33 -‬‬
‫قرانی نصوص ميں دينی علم حاصل کرنے اوراس کی نشرواشاعت کی فضيلت‬ ‫جس طرح ٓ‬
‫بيان کی گئی ہے اسی طرح بکثرت احاديث نبويہ علوم دينيہ کی تحصيل وتبليغ اور کتمان علم کی‬
‫مذمت ميں وارد ہوئی ہيں۔‬
‫چند احاديث مالحظہ ہوں رسول اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا‪:‬‬
‫ہے۔)صحيح بخاری‬ ‫تعالی جس کے ساتھ بھالئی کرنا چاہتا ہے اس کو دين کی سمجھ عطا کرتا‬
‫ٰ‬ ‫‪١‬۔ ﷲ‬
‫ومسلم(‬

‫‪٢‬۔ دنيا ومافيہا ملعون ہے سوائے ذکر الہی اور عالم ومتعلم کے ۔)ترمذی(‬
‫رتعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور بالکم وکاست‬
‫ٰ‬ ‫‪٣‬۔ﷲ‬
‫ٓاگے پہنچاديا۔اس لئے کہ جن کو بات پہنچائی جاتی ہے ان ميں سے بعض سننے والے سے بھی‬
‫زياده ياد رکھتے ہيں۔)ترمذی(‬
‫تعالی اس کے‬
‫ٰ‬ ‫‪۴‬۔ جو شخص کسی راه پر اس لئے چال کہ علم حاصل کرے اس کی وجہ سے ﷲ‬
‫لئے جنت کے راستہ کو ٓاسان کرديتا ہے۔)صحيح مسلم(‬
‫‪۵‬۔جس شخص سے کوئی علمی مسئلہ دريافت کيا جائے اور وه اسے چھپائے تو قيامت کے روز‬
‫اس کو ٓاگ کی لگام پہنائی جائے گی۔)ابو يعلی(‬
‫باالايات واحاديث حضرات صحابہ رضی ﷲ عنہم کے رگ وپے ميں سما گئيں اور‬ ‫مذکوره ٓ‬
‫ان کے قلب اذہان پر چھا گئی تھيں ۔ان کے دل ﷲ اور اس کے رسول کی محبت سے بھر پور‬
‫ومعمور تھے ان کے نفوس ميں علم وعمل کی شمع فروزاں تھی چنانچہ انہوں نے اپنی احکام‬
‫وسنن کے تحفظ ونگہداشت ميں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اس کی خاطر انہوں نے اپنے مال‬
‫وجان کو قربان کرنے سے بھی دريغ نہ کيا ‪،‬مزير ٓ‬
‫براں دينی حميت وغيرت کے پہلو بہ پہلو‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم حد درجہ کی فطری استعداد سے بھی بہره ور تھے ان کی قوت حافظہ اور‬
‫ذہانت وفطانت ضرب المثل کی حد تک مشہور تھی اور اس ضمن ميں وه يگانہ روز گار تھے۔‬
‫اس کی وجہ يہ تھی کہ خالص عرب تھے اور لکھنے پﮍہنے سے ٓاشنا نہ تھے اکثرو بيشتر‬
‫وه اپنے حافظہ پر اعتماد کرنے کی عادی تھے ۔دور جاہليت ميں ان کی حالت يہ تھی کہ اشعار‬
‫خطبات اور انساب ومناقب ان کو زبانی ياد ہوا کرتے تھے اکثر ايسا ہوتا کہ حسب ونسب ميں ايک‬
‫دوسرے پر فخر کا اظہار کرتے اس سلسلہ ميں اپنے اور دشمن کے جو اخبار واقعات ان کو ياد‬
‫ہوا کرتے تھے بيان کرتے اور اس طرح مخالفين پر اپنی عظمت کا سکہ بٹھاتے ۔ہر شخص اپنی‬
‫عقل اور قوت حافظہ کی حد تک اپنے قبيلہ کا تر جمان ہوا کرتا تھا۔ وه اپنے قبيلہ کے اوصاف‬
‫ومحاسن بيان کرتا اور قبيلہ اس کو خراج تحسين پيش کرتا تھا گويا قبيلہ کوئی تاريخ کتاب ہے‬
‫جو اخبار وحوادث سے بھرپور ہے۔عربوں کے اندر حسب ونسب پر فخر کرنے اور دوسروں کے‬
‫عيوب ونقائص گنوانے کا جو ملکہ راسخ ہوچکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جو قبائلی تعصب ان‬
‫ميں پايا جاتا تھا وه ان کی قوت حفظ ضبط کے لئے مزيد معاون ثابت ہوتا تھا يہی وجہ ہے کہ‬
‫قوت حافظہ ميں دنيا کی کوئی قوم عربوں کا مقابلہ نہيں کر سکتی تھی۔‬
‫گويا خداوند کريم نے اس امت عربيہ کو يہ حير ت ناک استعداد دے کر اسی لئے خلق‬
‫فرمايا تھا کہ رسالت محمدی صلی ﷲ عليہ وسلم کے لئے اساس وبنياد کا کام دے سکے چنانچہ‬
‫اس امت کے سينے ٓايات قراانی کے سفينے قرار پائے اور ان کے قوت حفظ وضبط سے بھر پور‬
‫دل حديث نبوی کے ملجا ومامن ٹھہرے يہ اسی کا نتيجہ ہے کہ حضور کے صحابہ رضی ﷲ عنہم‬
‫‪- 34 -‬‬
‫والہانہ ذوق شوق کے ساتھ حديث کے اخذ وتحمل ميں لگ گئے اور ان کی برکت سے خداوند‬
‫کريم نےاس دين کو جملہ مذاہب عالم پر برتری عطا فرمائی۔‬
‫خالصہ يہ کہ امت عربيہ ميں روحانی وفطری دو قسم کے عوامل جمع ہوگئے تھے ۔جن کی‬
‫بدولت وه امت ايسے کارنامے انجام دے سکی جو کسی قوم نے ٓاغاز ٓافرينش سے انجام نہيں‬
‫دئے تھے۔انہوں نے کتاب سنت کی حفاظت وصيانت کا فريضہ بطريق احسن ادا کيا۔ حضور صلی‬
‫ﷲ عليہ وسلم کی الئی ہوئی شريعت کو دينی ودنيوی جملہ امور ميں مشعل راه بنايا اور جوں کی‬
‫توں اسے دوسرے لوگوں تک پہنچايا۔‬

‫‪٢‬۔سرور کائنات کی علمی مجالس‪:‬‬


‫قران عزيز کے احکام پر روشنی ڈالتے اور دعوت وارشاد کے‬ ‫سرورکائنات جس طرح ٓ‬
‫فريضہ کی ادائيگی فرماتے تھے اس کی ايک جھلک ٓاپ ديکھ چکے ہيں مگر اس کا يہ مطلب‬
‫نہيں کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے کوئی اسکول يا کالج تعمير کررکھا تھا اور حسب قاعده اس‬
‫ميں بيٹھ کر صحابہ رضی ﷲ عنہم کو پﮍھايا کرتے تھے بخالف ازيں ہوتا يوں ں تھا کہ جہاں‬
‫بھی موقع ملتا ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم علمی مجالس جماليتے ميدان جہاد ميں جرأت وجالدت کی‬
‫تلقين کر کے دلوں کو گرماتے سفر ميں ہوتے تو لوگوں کو رشدو ہدايت کی راه دکھاتے گھر ميں‬
‫مقيم ہوتے تو اہل خانہ کو تعليم ديتے مسجد ميں ايک مدرس ‪،‬خطيب ‪،‬قاضی اور مفتی کا پارٹ ادا‬
‫کرتے۔‬
‫تعليم وتدريس کی حديہ ہے کہ راه چلتے لوگوں کو کھﮍا کر کے دينی مسائل سمجھاتے گويا‬
‫يوں کہئے کہ حالت کوئی اور کيسی بھی ہو ٓاپ ايک مرشد ‪،‬ناصح اور معلم کا فريضہ ادا کرنے‬
‫ميں کبھی بھی سہل انگاری سے کام نہ ليتے جب لوگ نماز ادا کرنےکے لئے مسجد ميں حاضر‬
‫ہوتے تو بسااوقات ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم علمی مجالس منعقد کر کےان کو وعظ وتذکير فرمايا‬
‫کرتے تھے مگر لوگوں کی نفسيات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ٓاپ ہميشہ ايسا نہيں کرتے تھے‬
‫۔مبادا اکتاہٹ وبيزاری کے ٓاثار پيدا ہوجائيں ۔حضرت ابو سعيد خدری رضی ﷲ عنہ سے منقول‬
‫ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم بيزاری کے ڈر سے ہميں کبھی کھبی وعظ فرمايا کرتے تھے‬
‫۔)صحيح بخاری(‬

‫نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم اپنی علمی مجالس ميں ايسی پاکيزه اور مفيد باتيں ارشاد فرماتے‬
‫جن سے صحابہ رضی ﷲ عنہم کو شرح صدر عطا ہوتا اور ان کےدل ايمان سے جگمگا اٹھتے‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم ان علمی مجالس ميں اپنے بچوں کو بھی ہمراه التے تھے تاکہ وه بھی‬
‫ٓ‬
‫کےاداب‬ ‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ارشادت گرامی سے مستفيد ہوسکيں اور مجلس نبوی‬
‫سيکھيں‪،‬بعض اوقات ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سےکوئی مسئلہ دريافت کيا جاتا اور ٓاپ صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم اس کا جواب ارشاد فرماتے ۔گاہے کوئی حادثہ رونما ہوتا اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫قرانی ٓايت نازل ہوتی اور ٓاپ صلی ﷲ‬
‫اس کے بارے ميں حکم خداوندی سے ٓاگاه فرماتے ۔يا کوئی ٓ‬
‫عليہ وسلم اس کی تفسير کرتے بعض اوقات ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے سامنے کوئی کام کيا جاتا‬
‫اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم خاموش رہتے يہ اس جانب اشاره تھا کہ يہ کام شرعا جائز ہے اور‬
‫ممنوع نہيں ۔‬
‫حضور کی نسبت يہ گمان درست نہيں کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم بادشاہوں کی طرح لوگوں سے‬
‫الگ تھلگ رہا کرتے تھے اور افراد امت کے ساتھ گھل مل کر رہنے کو ناپسند کرتے تھے‬
‫بخالف ازيں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم لوگوں کے ساتھ ميل جول کو پسند فرماتے تھے لوگوں کو‬
‫وعظ فرماتےتھے بيماروں کی عيادت کرتے تھے جنازه ميں شرکت کرتے لوگوں کے جھگﮍے‬
‫‪- 35 -‬‬
‫چکاتے اور ان کے متنازعہ امور ميں فيصلے کرتے صحابہ رضی ﷲ عنہم حضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم کے ان سب معامالت کو بچشم خود ديکھتے تھے اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے ارشادات‬
‫کود ل کے کانوں سے سنتے ۔‬
‫مگر يہ امر پيش نظر رہے کہ سب صحابہ رضی ﷲ عنہم ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی‬
‫علمی مجالس سے اخذ واستفاده ميں مساوی نہ تھے ۔کچھ خوش نصيب ايسے بھی تھے جو ہر‬
‫جگہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے وابستہ دامن رہتے اورسفر ہو ياحضر کسی حالت ميں بھی‬
‫ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے الگ نہيں ہوتے تھے ۔‬
‫مثال ً◌حضرت ابو بکر صديق رضی ﷲ عنہ وحضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ ۔بعض ايسے بھی‬
‫تھے جو زراعت وتجارت ميں مشغول ہونے کی وجہ سے ہر وقت حاضری سے معذور تے ۔مگر‬
‫بايں ہمہ حديث نبوی کے ساتھ ان کی شيفتگی ودل بستگی کا يہ عالم تھا کہ جب واپس ٓاتے تو‬
‫ديگر صحابہ رضی ﷲ عنہم سے پوچھ کر وه احاديث ياد کرليتے جو ان کی عدم حاضری ميں ٓاپ‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھيں ۔بعض صحابہ رضی ﷲ عنہم نے يہ طريقہ اختيار کر‬
‫رلکھاتھا کہ ايک روز خود اور ايک روز ان کا پروسی باری باری خدمت اقدس ميں حاضر ہوتے‬
‫اور جو کچھ سنتے ايک دوسرے کو بتا ديتے جيسا کہ جناب فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ اور ان‬
‫کےايک انصاری پﮍوسی کے بارے ميں منقول ہے کہ دونوں باری باری ٓانحضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم کی مجلس ميں حاضر ہوتے اور جو کچھ ديکھتے يا سنتے ايک دوسرے کو بتا ديتے‬
‫۔)صحيح بخاری(‬
‫مدينہ منوره سے دور رہنے والے صحابہ رضی ﷲ عنہم کی حالت يہ تھی کہ جب کسی نئے‬
‫مسئلے سے دوچار ہوتے اور اسے حل نہ کر پاتے تو اونٹوں پر سوار دور دراز کا سفر طے‬
‫کرتے اور مدينہ پہنچ کر يہ مسئلہ دريافت کرتے ۔بعض اوقات کئی کئی دن اور راتيں سفر ميں لگ‬
‫جاتيں ‪،‬چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث رضی ﷲ عنہ بيان کرتے ہيں کہ ايک عورت نے انہيں بتايا‬
‫کہ ''ميں نے تم اور تمہاری بيوی دونوں کو دودھ پاليا ہے ''۔ يہ سن کر وه مکہ سے روازنہ‬
‫ہوئے اور مدينہ پہنچ کر حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے مسئلہ دريافت کيا ‪،‬حضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم نے فرمايا جب تم دونوں نے ايک عورت کا دودھ پيا ہے تو تمہاری بيوی تمہارے نکاح ميں‬
‫کيسے ره سکتی ہے ؟چنانچہ حضرت عقبہ نے اپنی بيوی کو طالق دے دی۔)صحيح بخاری(‬
‫ساال رسل صلی ﷲ عليہ وسلم اس حقيقت سے ٓاگاه تھے کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد دعوت‬
‫وارشاد کا کام صحابہ رضی ﷲ عنہم کے کندھون پر ٓاپﮍے گا اس لئے ٓاپ اپنے تعليمی اسباق ميں‬
‫اس بات کا خاص خيال رکھتے تھے کہ اس کام کے لئے صحابہ رضی ﷲ عنہم حضور صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کی اس خصوصی تربيت کا ذکر کريں گے جو صحابہ رضی ﷲ عنہم کےلئے مشعل راه‬
‫ثابت ہوئی۔اور صحابہ رضی ﷲ عنہم حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد اس کی روشنی ميں‬
‫دعوت وارشاد کا فريضہ بجاال تے رہے۔‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم صحابہ رضی ﷲ عنہم کو تربيت ديتے تھے اس کے خصوصی‬
‫پہلو حسب ذيل تھے۔‬
‫‪١‬۔ جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے کوئی ايسی بات دريافت کی جاتی جو ٓاپ صلی ﷲ عليہ‬
‫ٓ‬
‫انتظار کرتے۔‬ ‫وسلم کو معلوم نہ ہوتی تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سکوت فرماتے اور وحی کا‬
‫‪٢‬۔ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی يہ عادت مبارکہ تھی کہ جو بات کرتے اسے تين مرتبہ دہراتے‬
‫تاکہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی بات اچھی طرح سمجھی جائے۔‬
‫‪- 36 -‬‬
‫‪٣‬۔ بعض اوقات صحابہ رضی ﷲ عنہم کی ذہانت وفطانت معلوم کرنے کے لئے ان سے بعض‬
‫مسائل دريافت فرمايا کرتے تھے۔‬
‫‪۴‬۔ جب ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے کوئی سوال کيا جاتا تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم جواب ديتے‬
‫اور حاضرين کے فائده کے لئے جواب سے ملتے جلتے مسائل بھی بيان کرديتے ۔‬
‫‪۵‬۔ٓاپ وعظ ناغہ کے ساتھ فرمايا کرتے تھے تاکہ سامعين اکتا نہ جائيں ۔حضرت عبدﷲ بن مسعود‬
‫رضی ﷲ عنہ کے تالمذه نے ان سے عرض کی کہ ٓاپ ہر روز ہميں حديثيں سنايا کريں تو انہوں‬
‫نے تسليم نہ کيا اور کہا ميں ناغہ سے تمہيں حديثيں سنايا کروں گا کيونکہ حضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم بھی ناغہ کے ساتھ وعظ فرمايا کرتے تھے تاکہ لوگ اکتا نہ جائيں‬
‫‪۶‬۔ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم بعض صحابہ رضی ﷲ عنہم کو خصوصی مسائل سے ٓاگاه کرتے‬
‫تھے ‪،‬جب کہ دوسروں کو يہ علمی باتيں نہ جاتيں مباداکہ وه فتنہ ميں مبتال ہوجائيں اور ديگر‬
‫امثلہ جن سے يہ حقيقت واضح ہوتی ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کس طرح صحابہ رضی‬
‫ﷲ عنہم کی علمی تربيت فرماتے تھے ۔نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کی تعليم وتربيت ہی کا‬
‫خوشگوار ثمره تھا کہ صحابہ رضی ﷲ عنہم کو جليل القدر اساتذه کی حيثيت حاصل ہوئی اور وه‬
‫دينی احکا م ومسائل کے امين قرار پائے۔‬

‫‪٣‬۔اخذ حديث کے سلسلہ ميں صحابہ رضی ﷲ عنہم کا طرز وانداز‪:‬‬


‫اصحاب رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ميں سے جو لوگ پﮍھنا جانتے تھے وه انگليوں پر‬
‫گنے جا سکتے تھے اکثر وبيشتر ان ميں ناخوانده تھے يہی وجہ ہے کہ ٓانحضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم سے احاديث سيکھتے و قت وه زياده تر اپنے حافظہ پر اعتماد کيا کرتے تھے حفظ پر‬
‫بھروسہ کرنے کی ايک وجہ يہ بھی تھی کہ ٓاغاز اسالم ميں ان کو کتابت حديث سے منع کر ديا‬
‫قران عزيز کےساتھ مل جائے اور دونوں ميں امتياز مشکل ہو ۔صحابہ رضی ﷲ‬ ‫گيا تھا مبادا وه ٓ‬
‫عنہم يا تو ٓانحضورصلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر نہ ہو کر بالمشافہ احاديث اخذ کرتے‬
‫يا ٓاپ کے افعال وتقريرات کو بچشم خود ديکھ کر دوسروں تک پہنچاتے يا ديگر صحابہ رضی ﷲ‬
‫عنہم سے احاديث سنتے جنہوں نے بذات خود ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو کر‬
‫وه احاديث سنی تھيں اس کی وجہ يہ تھی کہ سب صحابہ رضی ﷲ عنہم ٓانحضور صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم کی علمی مجلس ميں حاضر ہو کر استفاده کرنے سے قاصر تھے وه اپنے کام کاج کے‬
‫سلسلہ ميں لگے رہتے تھے۔‬
‫چونکہ سب صحابہ رضی ﷲ عنہم ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے استفاده کرنے ميں‬
‫يکساننہ تھے اسی لئے ان کی مرويات ميں بھی فرق مراتب پايا جاتا ہے چنانچہ بعض احاديث‬
‫تواتر کے درجہ پر فائز ہيں جب کہ بعض ايسی نہيں متواتر اس حديث کو کہتے ہيں جس کی‬
‫روايت کرنے والے اشخاص اس قدر زياده ہوں کہ عقل انسانی ان کے کذب پر متفق ہونے کو‬
‫محال سمجھتی ہو ۔متواتر کی دو قسميں ہيں ۔‬
‫‪١‬۔ متواتر لفظی ‪ :‬اﯾسی احادﯾث بﮩت کم ﮨيﮟ مثال ً''من کذب علی متعمدا فليتبوءمقعده من النار''۔‬

‫‪٢‬۔ متواتر معنوی‪ :‬ايسی احاديث کی تعداد بہت زياده ہے مثالً طہارت ‪،‬نماز‪،‬روزه‪ ،‬اور حج وزکوة‬
‫کے احکام سے متعلق احاديث جن ميں بيع کے اقسام نکاح اور غزوات کا ذکر کيا گيا ہے اور جن‬
‫کے بارے ميں سب فرقہ ہائے اسالم متفق الخيال ہيں ۔‬
‫بعض احاديث وه ہيں جو تواتر کے درجہ تک نہيں پہينچ سکيں ان کو ''اخبار ٓاحاد ''کہتے ہيں۔‬
‫‪- 37 -‬‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم احاديث نبويہ کو زبانی ياد کرتے اور لو گوں کو مل کر پہنچا ديا‬
‫کرتے تھے البتہ صحابہ رضی ﷲ عنہم ميں چند ايسے بھی تھے جو حديثيں لکھ ليا کرتے تھے۔‬
‫مثالً حضرت عبدﷲ بن عمر وبن العاص رضی ﷲ عنہ کو نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم نے حديثين‬
‫لکھنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔‬
‫چنانچہ حضرت عبدﷲ کا بيان ہے کہ ميں جو چيز بھی ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنتا‬
‫اس کو حفظ کرنے کے اراده سے لکھ ليا کرتا تھا قريش نے مجھے اس سے منع کيا اور کہا کہ‬
‫''تم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم سے جو چيز بھی سنتے ہو اس کو لکھ ليتے ہو حاالنکہ ٓاپ‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم بھی ايک انسان ہيں کبھی ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم غصہ ميں ہوتے ہيں اور‬
‫کبھی حالت رضا ميں اس لئے ہر چيز کا لکھ لينا موزوں نہيں ''۔چنانچہ ميں نے لکھنا بند کرديا‬
‫اور نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلمکی خدمت ميں ماجرا بيان کيا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫نےفرمايا ''لکھتے رہو مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت ميں ميری جان ہے ميری‬
‫زبان سے جوبات بھی نکلتی ہے حق ہوتی ہے۔)مسند احمد(‬
‫جس طرح سب صحابہ رضی ﷲ عنہم لکھنے پﮍہنے سے ٓاشنا ہونے اور نہ ہونے نيز حضور‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کی علمی مجالس ميں حاضری دينےکے اعتبار سے مساوی الدرجہ نہ تھے‬
‫اسی طرح حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے روايات کے اخذ وتحمل اور اس کو لوگوں تک‬
‫پہنچانے کےسلسلے ميں بھی يکساں نہ تھے چنانچہ ان ميں قليل الروايت اور کثير الروايت‬
‫دونوں قسم کے صحابہ رضی ﷲ عنہم پائے جاتے تھے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ فرماتے‬
‫ہيں‪:‬‬
‫اصحاب رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ميں کوئی صحابی مجھ سے کثير الروايت نہ تھا بجز‬
‫عبدﷲ بن عمر وبن العاص کے اور ا س کی وجہ يہ تھی کہ عبدﷲ حديثيں لکھ ليا کرتا تھے‬
‫جبکہ ميں لکھا نہيں کرتا تھا ۔)بخاری کتاب العلم(‬
‫جس طرح صحابہ رضی ﷲ عنہم رسول صلی ﷲ عليہ وسلم سے روايات اخذ کرنے ميں‬
‫متفاوت الدرجہ تھے اسی طرح حديث نبوی کے فہم وادراک ميں بھی سب کی حالت يکساں نہ تھی‬
‫اور اس کی وجہ فطری استعداد کا فرق وتفاوت ہے يہ اسی کا نتيجہ ہے کہ ناسخ ومنسوخ عام‬
‫وخاص مطلق ومفيد اور مجمل ومفسر احاديث کے جاننے پہچاننے ميں بھی سب صحابہ رضی ﷲ‬
‫عنہم مساوی الدرجہ نہ تھے تاہم جب ان کے يہاں کسی مسئلہ ميں اختالف رونما ہوتا تو وه‬
‫رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی جانب رجوع کيا کرتے اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم اس ميں‬
‫منصفانہ فيصلہ صادر فرمايا کرتے تھے۔‬

‫اشاعت حديث ميں خواتين کا حصہ ‪:‬‬


‫ساالر رسل صلی ﷲ عليہ وسلم کی علمی مجالس کا سلسلہ مردوں تک ہی محدود نہ تھا‬
‫بلکہ بکثرت خواتين مسجد نبوی ميں حاضر ہوکر حديث نبوی سنا کر تی تھيں عالوه ازيں حضور‬
‫کی عام مجالس مثالً عيد کے اجتماع ميں شرکت کر کے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے مواعظ حسنہ‬
‫سے مستفيد ہوتيں حضور اکر م صلی ﷲ عليہ وسلم کا معمول يہ تھا کہ مردود کی اگلی صفوں‬
‫ميں خطبہ دے کر عورتوں کی صفوں کی طرف تشريف لے جاتے اور ان کو دينی احکام سے ٓاگاه‬
‫فرماتے ۔مگر اکثر حضور کی علمی مجالس ميں مرد ہی ہوا کرتے تھے يہی وجہ ہے کہ ايک‬
‫مرتبہ خواتين کے وفد نے ٓانحضور کی خدمت ميں حاضر ہوکر درخواست کی کہ ہمارے لئے ايک‬
‫دن مقرر کر کے اس ميں ہميں دينی مسائل سے ٓاگاه فرمائيں ٓ۔اپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اس‬
‫درخواست کو شرف قبوليت بخشا۔‬
‫‪- 38 -‬‬
‫تاہم اس کے يہ معنی نہيں کہ ان عمومی يا خصوصی مجالس سے خواتين کی دينی‬
‫ضروريات پوری ہوگئی تھيں بخالف ازيں ان کو نئے مسائل سے سابقہ پﮍتا رہتا تھا اس کی بﮍی‬
‫وجہ يہ بھی تھی کہ ان کو اسالم کو قبول کئے ہوئے زياده عرصہ نہ گزرا تھا ۔ جب کسی خاتو ن‬
‫کو کوئی نيا مسئلہ پيش ٓاتا تو وه ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوکر ٓاپ‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم سے اس کا حل دريافت کرتی۔ ايسا کرتے ہوئے حيا کا جذبہ ان کی راه ميں‬
‫اس لئے حائل نہيں ہوا کرتا تھا کہ دينی مسائل سيکھنے ميں حياء کو مانع نہيں ہونا چاہيے۔‬
‫بعض دفعہ ايسا بھی ہوتا کہ کوئی شرميلی خاتون دينی مسئلہ دريافت کرنے سلے پہلے يہ جملہ‬
‫تعالی شرم کی بناء پر حق مسئلہ دريافت کرنے سے‬
‫ٰ‬ ‫دہراتی ''يا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم ﷲ‬
‫نہيں روکتا ''پھر بارگاه نبوی ميں عرض پرداز ہوتيں کہ''جب عورت کو احتالم ہوجائے تو اس پر‬
‫غسل واجب ہے؟انصاری خواتين اس ضمن ميں زياده بے باک واقع ہوئی تھيں ۔ حتی کہ حضرت‬
‫عائشہ کو ان کی شان ميں يہ فقره کہنا پﮍا کہ''انصاری خواتين کيا خوب ہيں حيا ان کو دينی‬
‫مسائل سيکھنے سے نہ روک سکی۔)صحيح بخاری(‬
‫اگر کوئی شرميلی خاتون براه راست حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے مسئلہ دريافت نہ کر‬
‫سکتی تو امہات المؤمنين رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے پوچھ کر اس کو مسئلہ سے ٓاگاه‬
‫کرتيں۔‬

‫امہات المؤمنين مبلغ احاديث کی حيثيت سے‪:‬‬


‫مسلم خواتين ميں امہات المؤمنين نے حديث نبوه کی نشرواشاعت ميں جو پارٹ ادا کيا تھا اسے‬
‫فراموش نہيں کيا جا سکتا ۔ خصوصا حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا کی خدمات جليلہ اس ضمن‬
‫ميں قابل ذکر ہيں ۔ ٓاپ حد درجہ ذہن وفطين تھيں ٓ۔اپ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم سے دينی‬
‫قران واحاديث کی شرح وتفسير کے بارے ميں سوال کيا کرتی‬ ‫مسائل دريافت کرتيں اور اکثر ٓ‬
‫تھيں۔‬
‫ابن ابی مليکہ رضی ﷲ عنہ روايت کرتے ہيں کہ حضرت عائشہ کو جو مسئلہ معلوم نہ‬
‫حتی کہ اس‬
‫ہوتا اور وه کسی سے سنتيں تو اس کے بارے ميں بحث تمحيص اور نقد جرح کرتيں ٰ‬
‫مسئلے سے ٓاگاه ہو جاتيں ۔ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ''جس شخص سے حساب ليا‬
‫تعالی تو فرماتا‬
‫ٰ‬ ‫جائے گا اسے عذاب ہوگا '' حضرت عائشہ نے يہ سن کر سوال کيا کہ ﷲ‬
‫ہے)فسوف يحاسب حسابا يسيرا('' اس سے ٓاسان حساب ليا جائے گا''۔‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ''يہ تو اعمال کے پيش کرنے کے وقت ہوگا البتہ‬
‫جس پر محاسبہ اعمال کے وقت جرح وقدح کی جائے گی اسے سخت عذاب ديا جائے گا''۔‬
‫)صحيح البخاری(‬
‫تعالی نے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کو چار سے زياده‬ ‫ٰ‬ ‫جن حکم مصالح کے پيش نظر ﷲ‬
‫ازواج دی تھيں ان ميں سے ايک بات يہ تھی کہ ازواج مطہرات فريضہ دعوت ارشاد بجا الئيں‬
‫۔خصوصا ايسے مسائل جو ٓاپ صحابہ رضی ﷲ عنہم کے سامنے انجام نہيں دے سکتے تھے‬
‫‪،‬اور ازواج مطہرات کے سوا کوئی ان سے ٓاگاه نہيں ہوسکتا تھا اسی لئے جب حضور صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کے صحابہ رضی ﷲ عنہم ٓاپ کے بعد کسی مسئلہ ميں مختلف الرائے ہوتے‬
‫مثال‪،‬غسل ‪،‬حيض‪،‬اور جماع کی قسم کے مسائل تو امہات المؤمنين کی جانب رجوع کرتے اور ان‬ ‫ً‬
‫کے فيصلہ کو تسليم کرتے اسی طرح ان کا باہمی نزاع اور جدال ختم ہوتا۔‬

‫‪۴‬۔ حديث کی نشر واشاعت ميں قبائلی وفود کا کردار‪:‬‬


‫‪- 39 -‬‬
‫دعوت محمدی صلی ﷲ عليہ وسلم کا ٓاغاز پوشيده طور پر ہوااور تين سال تک يونہی رہا‬
‫جب کچھ لوگ مشرف باسالم ہوگئے تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کو اعالنيہ دعوت کا حکم مال‬
‫‪،‬حتی کہ اکثر اہل مدينہ حلقہ‬
‫ٰ‬ ‫۔قريش نے ٓاپ کا ڈٹ کر مقابلہ کيا کچھ عرصہ تک يہی کيفيت رہی‬
‫بگوش اسالم ہوئے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کو ہجرت مدينہ کا حکم مال چنانچہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم اپنے صحابہ رضی ﷲ عنہم کے ساتھ عازم مدينہ ہوگئے مدينہ اس وقت سے مہبط وحی‬
‫اور مرکز اسالم ٹھرا ۔مدينہ ميں مقيم ره کر ٓاپ نے اعدائے دين کے خالف علم جہاد بلند کيا اور‬
‫وہيں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے احا يث کی نشرو اشاعت کا فريضہ انجام ديا ۔ مگر قتال وجہاد کا‬
‫سلسلہ جس طرح بہت سے قبائل کے حلقہ بگوش اسالم ہونے ميں سد راه تھا ۔اسی طرح بيرون‬
‫عرب دعوت اسالمی کے پھيلنے ميں بھی رکاوٹ بنا ہوا تھا ‪،‬جونہی نبی اکر م صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم اور اہل مکہ کے درميان صلح حديبيہ کا معاہده ہوا اور فريقين کو ملنے جلنے اور اس نئے‬
‫دين کے بارے ميں غور وخوض کرنے کے مواقع ميسر ٓائے تو اسالم کو بيش از بيش پھيلنے کا‬
‫موقع مال چنانچہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اس موقع کو غنيمت جانا اور اطراف واکناف کے‬
‫سالطين کو دعوت اسالم پر مشتمل خطوط ارسال فرمائے ‪،‬جو قبيلے مشرف باسالم ہوچکے تھے‬
‫ان کو دينی احکام سکھالنے کے لئے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے اطراف ملک ميں وفود‬
‫بھيجنے کا ٓاغاز کيا ۔چنانچہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے يمن ‪،‬بحرين ‪ ،‬يمامہ‬
‫‪،‬حضرموت‪،‬عمان‪،‬اور ديگر بالد ميں مسلمانوں کے وفد بھيج کر ان کو اسالمی احکام سے ٓاگاه‬
‫کيا ۔‬
‫نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کے بھيجے ہوئے يہ وفود لوگوں کے لئے ہدايت ورحمت کے‬
‫پيامبر ثابت ہوئے اس لئے کہ يہ لوگوں تک ٓ‬
‫قرا ن و سنت کی وه غذا پہنچاتے تھے جس پر‬
‫روحانی زندگی کا مدار وانحصار ہے۔ اس کے دوش بدوش يہ وفود اطراف عرب ميں حديث نبوی‬
‫کی نشرو اشاعت کا زبردست ذريعہ تھے حضور اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم اس مقصد کے لئے‬
‫صحابہ رضی ﷲ عنہم کو منتخب فرمايا کرتے تھے جو کتاب وسنت ميں ماہرانہ بصيرت رکھتے‬
‫تھے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم ان کو کتاب وسنت کی تعليم ديتے اور دعوت وارشاد کے مناسب‬
‫طريقوں سے ٓاگاه فرماتے چناچہ سرورکائنات نے حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ کو جب يمن‬
‫بھيجا تو ارشاد فرمايا‪:‬‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫'' ٓاپ کی مالقات اہل کتاب کی ايک قوم سے ہوگی جب ٓاپ ان سے مليں تو کہيں کہ ﷲ‬
‫نے تم پر شب وروز پانچ نمازيں فرض کی ہيں اگر وه ٓاپ کی اطاعت کرنے پر رضامند ہوں تو ان‬
‫تعالی نے سال بھر ميں تم پر ماه رمضان کے روزے فرض کئے ہيں اگر وه اس‬‫ٰ‬ ‫سے کہيں کہ ﷲ‬
‫تعالی نے تم پر حج فرض کيا ہے جو اس کی‬ ‫ٰ‬ ‫کو بھی تسليم کر ليں تو ان سے کہيں کہ ﷲ‬
‫تعالی نے تمہارے‬
‫ٰ‬ ‫استطاعت سے بہره ور ہو اگر وه اس کی بھی اطاعت کريں تو کہيں کہ ﷲ‬
‫مالوں ميں زکوة فرض کی ہے جو دولتمند سے لے کر تنگدستوں ميں بانٹی جاتی ہے۔''‬
‫غرض يہ کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلمکا فر ستاده شخص حسب موقع ومقام دينی احکام‬
‫ومسائل جو اسے معلوم ہوتے بيان کيا کرتا تھا يہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی اسی رہنمائی کا‬
‫نتيجہ تھا کہ يہ وفود حديث نبوی کی نشرواشاعت کے سلسلہ ميں بﮍے مفيد ثابت ہوئے۔‬

‫مدينہ پہنچنے والے قبائلی وفود‪:‬‬


‫جب عہد رسالت ميں اسالمی فتوحات کا دائره پھيال اورغزوه تبوک سے فارغ ہوئے تو‬
‫عربی قبائل کے وفد اپنے اونٹوں کو ہانکتے اور سفر کی وسعتوں کو سميٹتے ہوئے نبی امين‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کی مالقات کا شوق لے کر مدينہ حاضر ہوئے تاکہ دين کے اولين سرچشمہ‬

‫‪- 40 -‬‬
‫سے اپنی علمی پياس بجھائيں ‪،‬وه قبائل اس حقيقت سے بخوبی ٓاشنا ہو چکے تھے کہ جب قريش‬
‫نے اسالم کے جھنڈے تلے اپنا سر جھکا ديا ہے تو بھال وه رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کے‬
‫خالف کيسے نبرد ٓازما ہو سکيں گے حلقہ بگوش اسالم ہوئے اور انفرادی يا اجتماعی طور پر‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت اقدس ميں باياب ہوئے ٓ‬
‫قران اسی ضمن ميں فرماتا ہے‪:‬‬
‫''اذا جا ء نصر ﷲ والفتح وراﯾت الناس ﯾدخلون فی دﯾن الله افواجا'‬
‫جب ﷲ کی مدد اور فتح ٓاگئی اور تونے ديکھ ليا کہ لوگ ﷲ کے دين ميں فوج در فوج داخل ہو‬
‫رہے ہيں۔ )النصر(‬
‫يہ وفود يکے بعد ديگر سے ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں پہنچے اسی طرح‬
‫بيرونی سالطين کے خطوط اور قاصد يہ پيغام لے کر حاضر ہوئے کہ ہم نے اسالم قبول کر ليا اور‬
‫شرک کو ترک کرديا ہے جو وفد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوتا ٓاپ صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم اس کا اکرام واحترام بجاالتے ان کی رہنمائی کرتے ان کو دينی احکام ومسائل‬
‫سے ٓاگاه فرماتے اطاعت کی صورت ميں بشارت سناتے اور ان کے حقوق فرائض اور واجبات‬
‫سے مطلع فرماتے تھے ۔ يہ بيرونی وفد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں ‪ ٩‬ہجری ميں‬
‫حاضر ہوئے ۔اسی لئے اس کو عام الوفود )وفدوں کا سال ( کہتے ہيں ۔يہ وفود ٓاپ صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم سے عطيات لينے نہيں ٓاتے تھے يہ دوسری بات ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم ان کا‬
‫اکرام فرماتے اور خدا کے عطا کرده مال سے ان کو نوازتے ۔ان کا مقصد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫کے يہاں حاضر ہوکر اسالم کے اصول وفروع معلوم کرنا ہوتا تھا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم ان‬
‫سے بات چيت کرتے ان کے سواالت کا جواب ديتے ان کو وعظ سناتے دينی احکام بيان کرتے‬
‫اور خدا سے ڈرتے رہنے کی تلقين کرتے تھے۔‬
‫کتب سيرت کا قاری اس حقيقت سے ٓاگاه ہے کہ سر ور کائنات کی خدمت ميں بہت سے‬
‫حتی کہ عربی قبائل ميں سے کوئی قبيلہ ايسا نہ تھا جس ميں کوئی وفد بارگاه‬
‫وفود حاضر ہوئے ٰ‬
‫نبوت ميں شرف باريابی حاصل نہ کر چکا ہو ۔ صحابہ رضی ﷲ عنہم ان ميں کے ايک ايک وفد‬
‫واشنا تھے اور بخوبی جانتے تھے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے کون کون سی‬ ‫سے ٓاگاه ٓ‬
‫احاديث سنائيں يا کون سا خطبہ ديا ۔وه پوری طرح با خبر تھے کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان‬
‫کو کن مواعظ ونصائح اور احکام وسنن سے مستفيد فرمايا ۔ حديث نبوی اور سير ومغازی پر‬
‫مشتمل کتب ان وفود کے ذکر سے مملو ہيں ۔ ان کے مطالعہ سے يہ حقيقت کھل کر سامنے ٓاتی‬
‫ہے کہ حديث رسول کی نشرواشاعت ميں ان وفود نے کيا پارٹ ادا کيا خواه يہ وفود ‪ ٩‬ہجری ميں‬
‫حاضر بارگاه ہوئے ہوں يا اس سے پہلے ذيل ميں چند وفود کا ذکر کيا جاتا ہے جو ٓاپ صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کی مالقات سے مشرف ہوئے۔‬

‫وفد بنی سعد بن بکر‪:‬‬


‫اس قبيلہ کا سردار ضمام بن ثعلبہ رضی ﷲ عنہ ‪ ٩‬ہجری ميں ٓانحضرت کی خدمت ميں‬
‫حاضر ہوا جب مدينہ پہنچا تو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کو صحابہ رضی ﷲ عنہم کے درميان‬
‫تشريف فرما پايا۔ کہنے لگا ''تم ميں ابن عبدالمطلب کون ہے؟ صحابہ رضی ﷲ عنہم نے حضور‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کی جانب اشاره کيا وه ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے قريب ٓاکر کہنے لگا ''ميں‬
‫ٓاپ سے چند باتيں پوچھوں گا اور سوال ميں سختی سے کام لوں گا''فرمايا ''جوجی ميں ٓائے‬
‫پوچھو ''کہنے لگا''اے محمد صلی ﷲ عليہ وسلم ٓا پ کا فرستاده ہمارے يہاں ٓايا اور کہنے لگا کہ‬
‫دعوی ہے کہ ٓاپ کو خدانے بھيجا ہے ''ٓاپ نے فرمايا ''يہ درست ہے''ضمام نے‬ ‫ٰ‬ ‫ٓاپ کا يہ‬
‫کہا''ميں ٓا پ کو ٓاپ سے پہلے اور پچھلوں کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ٓايا يہ درست ہے؟‬
‫‪- 41 -‬‬
‫حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ''ہاں يہ ٹھيک ہے''ضمام نے کہا''ميں ٓاپ کو خدا کی قسم‬
‫دے کر پوچھتا ہوں کيا خدا نے ٓاپ کو پانچ نمازوں کا حکم ديا ہے ؟ ''فرمايا ''جی ہاں '' اس نے‬
‫پھر کہا '' ميں ٓاپ کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کيا ﷲ نے ٓاپ کو حکم ديا ہے کہ ٓاپ‬
‫دولتمند کے مال کا کچھ حصہ ان سے لے کر فقرا کو ديں ؟ ''فرمايا''بخدا بالکل درست'' ضمام‬
‫نے کہا'' ميں ٓاپ کو ﷲ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کيا ﷲ نے ٓاپ کو رمضان کے روزے رکھنے‬
‫کا حکم ديا ہے ؟'' فرمايا''جی ہاں'' ضمام نے پھر کہا'' کيا ﷲ نے ٓاپ کو اس بات کا حکم ديا‬
‫ہے کہ جو شخص استطاعت رکھتا ہو وه بيت ﷲ کا حج کرے؟'' فرمايا'' ہاں يہ درست ہے''‬
‫ضمام کہنے لگا تو ميں تصديق کرتا ہوں اور ان پر ايمان التا ہوں ۔ ميرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے ۔‬
‫پھر ضمام اپنی قوم کی طرف لوٹ گيا اور وه مشرف باسالم ہوگئے۔‬

‫وفد عبدالقيس‪:‬‬
‫عبدالقيس نامی قبيلہ سرکار دوعالم صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض‬
‫پرداز ہوا کہ ہم ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے پاس صرف محرم کے مہينے ميں حاض ہوسکتے ہيں‬
‫)جب کہ جنگ جدال بند ہوتا ہے( ہمارے اور ٓاپ کے درميان مضر )کا کافر قبيلہ( حائل رہتا ہے۔‬
‫لہذا ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم ہميں کوئی فيصلہ کن بات بتائيں جو ہم اپنے پچھلوں کو بتالديں اور‬
‫اس پر عمل کر کے جنت کے مستحق ٹھريں ۔انہوں ٓاپ سے پانی کے برتنوں کے بارے ميں بھی‬
‫سوال کيا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نےان کو چار باتوں کا حکم ديا اور چار سے منع فرمايا ٓ۔اپ‬
‫نے ان کو خدائے واحد پر ايمان النے کا حکم ديا پھر فرمايا کيا ٓاپ کو معلوم ہے کہ خدائے واحد‬
‫پر ايمان کيسے اليا جاتا ہے ؟ وه کہنے لگے ''ﷲ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہيں '' ٓاپ‬
‫نے فرمايا ايمان با يہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہيں اور حضرت محمد صلی ﷲ عليہ‬
‫وسلم ﷲ کے رسول ہيں ۔‬
‫جن چار باتوں کا حکم ديا وه يہ ہيں۔‬
‫‪١‬۔اقامت الصلوة‬
‫‪٢‬۔ادائيگی زکوة‬
‫‪٣‬۔ماه رمضان کے روزے‬
‫‪۴‬۔ مال غنيمت ميں سے خمس کی ادائيگی‬
‫مندرجہ ذيل چار برتنوں کو استعمال کرنے سے منع فرمايا ۔‬
‫‪١‬۔جس برتن ميں الخ ال روغن لگا ہو۔‬
‫‪٢‬۔ کدو کے بنے ہوئے برتن‬
‫‪٣‬۔ لکﮍی کھود کر جو برتن بنائے گئے ہوں‬
‫‪۴‬۔ جن برتنوں پر رال کا روغن کيا گيا ہو‬
‫ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ان کو ياد رکھو اور پچھلے لوگوں کو اس کی اطالع دے‬
‫)بخاری کتاب االيمان(‬ ‫دو۔‬

‫‪- 42 -‬‬
‫وفد تجيب‪:‬‬
‫يہ وفد تيره افراد پر مشتمل تھا ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو تے وقت يہ‬
‫زکوة کے مويشی بھی ہمراه الئے تھے ۔ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم ان کو ديکھ کر بہت خوش‬
‫ہوئے اور ان کی ميزبانی کا حق ادا فرمايا۔ کہنے لگے ہمارے اموال پر خدا کا جو حق تھا ہم وه‬
‫بھی ساتھ الئے ہيں ۔ فرمايا ان مويشيوں کو واپس لے جائے اور ٓاپ کے يہا نجو تنگ دست ہوں‬
‫ان ميں تقسيم کرديجيے ۔ وه کہنے لگے ہم فقراه کو پہلے دے چکے ۔جو مال بچ گيا تھا وه ہمراه‬
‫الئے ہيں جناب صديق رضی ﷲ عنہ فرمانے لگے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم ‪ٓ:‬اج تک عرب بھر‬
‫سے اس قسم کا وفد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے پاس نہيں ٓايا فرمايا ہدايت خداوند کريم کے ہاتھ‬
‫ميں ہے۔ جس کے ساتھ وه بھالئی کرنا چاہے اس کے سينہ کو ايمان کے لئے کھول ديتا ہے۔‬
‫وفد تجيب نے حضور سے کتاب وسنت کے مسائل دريافت کئے رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم‬
‫کی ان کے ساتھ رغبت ميں مزيد اضافہ ہوا جب انہوں نے واپسی کا ارده کيا تو حضور صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم نے فرمايا ٓاپ کيا چاہتے ہيں ؟ عرض کرنے لگے ۔ہم واپس جا کر لوگوں کو بتائيں‬
‫گے کہ ہم رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی زيارت سے مشرف ہوئے اور ٓاپ نے ہميں فالں‬
‫فالں دينی احکام سنائے پھر حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوکر اجازت چاہی‬
‫جب رخصت ہوئے تو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے حضرت بالل کو بھيج کر پھر انہيں باليا اور‬
‫عمده قسم کے تحائف ديے۔ جو اس سے پہلے ٓاپ نے کسی وفد کو نہ ديئے تھے ٓ۔اپ نے دريافت‬
‫کيا تم سے کوئی شخص ره تو نہيں گيا جس کو تحفہ نہ مال ہو؟ انہوں نے کہا کہ ايک لﮍکا باقی‬
‫ره گيا ہے جس کو ہم سامان کی حفاظت کے لئے پيچھے چھوڑ ٓائے ہيں فرمايا اس کو بھيج دو۔‬
‫جب وه خدمت ميں حاضر ہوا تو کہنے لگا ‪،‬حضور !ميں اس قبيلہ سے تعلق رکھتا ہوں جو ابھی‬
‫ٓاپ کے يہاں ٓايا تھا ٓاپ نے ان کی ضروريات پوری فرماديں اب ميری حاجت روائی فرمائے‬
‫۔فرمايا ٓاپ کيا چاہتے ہيں ‪،‬عرض کی بارگاه خداوندی ميں دعا کيجئے کہ خدا مجھے بخشے اور‬
‫مجھ پر رحم فرمائے اور ميرے دل کو غنی کردے ۔حضور نے دعا فرمائی۔پھراس کو اسی قسم کا‬
‫تحفہ ديا جيسا اس کے قبيلہ والوں کو دياتھا۔‬
‫منی کے ميدان ميں حضور سے ملے مگر‬ ‫کچھ عرصہ بعد اسی قبيلہ کے لوگ ايام حج ميں ٰ‬
‫وه لﮍ کا موجود نہ تھا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے اس کے بارے ميں پوچھا تو انہوں نے کہا‬
‫يا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم ہم نے اس جيسا کوئی شخص نہيں ديکھا اور نہ ہی اس سے‬
‫بﮍھ کر کسی کو صابر پايا۔ اگر لوگوں کو ساری دنيا بھی مل جائے تووه اس کی طرف ٓانکھ اٹھا‬
‫کر بھی نہ ديکھے ۔حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ''ﷲ کا شکر ہے مجے اميد ہے کہ وه‬
‫بﮍے اطمينان سے جان دے گا۔ ايک شخص نے کہا کيا اور کوئی شخص اطمينان سے نہيں مرتا‬
‫فرمايا لوگوں کے خياالت امنگيں دنيا کی واديوں ميں ہر جگہ بھٹکتی پھرتی ہيں اور اسی قسم کی‬
‫کسی وادی ميں انسان کی موت ٓاجاتی ہے‪ ،‬ايسے ميں خداکو بھی اس کی پروا نہيں ہوتی کہ اس‬
‫کی موت کس وادی ميں ٓائی۔‬
‫مندرجہ صدر بيانات اس حقيقت کی ٓائينہ داری کرتے ہيں کہ بيرونی قبائل کے وفود علم دين‬
‫کے سر چشمہ صافی سے اپنی علمی پياس بجھانے اور دينی احکام ومسائل سے ٓاگاه ہونے کے‬
‫لئے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوتے تھے ۔پھر وطن واپس لوٹتے‬
‫تھے اور اپنے متعلقين کو دينی مسائل سے ٓاگاه کرتے صحابہ رضی ﷲ عنہم کے جو وفد حضور‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم مختلف قبائل کی جانب دعوت ارشاد کے سلسلہ ميں بھيجا کرتے تھے وه‬
‫اس پر مزيد ہيں خالصہ يہ کہ ان دونوں قسم کے وفود نے حديث نبوی کی نشرو اشاعت ميں‬
‫خصوصی پارٹ ادا کيا ۔ اور احاديث جزيره نمائے عرب کے کونے کونے تک پہنچ گئيں ۔‬
‫‪- 43 -‬‬
‫اشاعت حديث ميں حجۃ الوداع کے اثرات‪:‬‬
‫جب جزيره نمائے عر ب پر نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کو پورا تسلط حاصل ہوگيا تو ٓاپ‬
‫نے حج کا اراده فرمايا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے اہل اسالم کو مخاطب کر کے ايک جامع‬
‫خطبہ ديا جس ميں اکثر احکام وسنن پر روشنی ڈالی اور جاہلی رسوم کو باطل قرار ديا لوگوں کے‬
‫ہجوم کی وجہ سے ربيعہ بن اميہ بن خلف ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی ٓاواز لوگوں تک پہنچا رہے‬
‫تھے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے خطبہ کا ٓاغاز الحمد  کے الفاظ سے فرمايا اور کہا‪:‬‬
‫اے لوگو! ميری بات سنو۔ شائد اس سال کے بعد ميں ٓاپ کو يہاں کھبی نہ ملوں ۔‬
‫يہ طويل خطبہ ہے اس ميں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے مناسک حج پر روشنی ڈالی حضور‬
‫صلی ﷲ عليہ وسلم کو اس بات کا احساس ہوگيا تھا کہ ٓاپ کی وفات کا وقت قريب ہے اس لئے‬
‫ٓاپ نے ہر ضروری بات بيان فرمادی اس عظيم اجتماع ميں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کا يہ جامع‬
‫خطبہ حديث نبوی کی نشرو اشاعت کے عوامل ميں سے ايک عظيم عامل تھا گويا يہ دعوت‬
‫اسالمی بالعموم اور حديث نبوی بالخصوص کا ٓاخری پروگرام تھا اس موقع پر يہ ٓايت کريمہ نازل‬
‫ہوئی ''اليوم اکملت لکم دﯾنکم واتممت عليکم نعمتی ورضيت لکم االسالم دﯾنا''‬
‫''ٓاج کے دن ميں نے تمہارے دين کو کامل کرديا اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے دين‬
‫اسالم کو پسند فرمايا''۔‬

‫حديث نبوی خالفت راشده ميں‪:‬‬


‫‪١‬۔ خالفت راشده کے سياسی حاالت‪:‬‬

‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے وفات پائی اور صحابہ ميں سے کسی کو بھی اپنا‬
‫جانشين مقرر نہ کيا ۔اس لئے مہاجرين وانصار کے درميان نزاع پيدا ہوئی کہ ٓاپ کا جانشين کن‬
‫ميں سے ہو؟ چنانچہ يہ سب لوگ سقيفہ بنی ساعده ميں جمع ہوئے حضرت ابو بکر صديق رضی‬
‫ﷲ عنہ نے يہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دياکہ مہاجرين سبقت فی االسالم کی بنا پر خالفت کا‬
‫اولين استحقاق رکھتے ہيں چنانچہ فاروق اعظم ٓاگے بﮍھے اور جناب صديق کے دست حق پر‬
‫بيعت کی يکايک دوسرے لوگوں نےبھی بيعت کر لی اور اس طرح اس نزاع کا خاتمہ ہوگيا۔‬
‫حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ کو خالفت پر فائز ہوئے زياده عرصہ گزرنے نہ پايا تھا کہ‬
‫مدينہ ميں نفاق کی ہوائيں چلنے لگيں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے کچھ قبيلے ايسے بھی تھے‬
‫جنہوں نے زکوة دينے سے انکار کرديا حضرت ابو بکررضی ﷲ عنہ ان کے خالف اعالن جہاد‬
‫کرديا۔ وه کہنے لگے ہم نماز پﮍ ھ ليا کريں گے مگر زکوة نہ دينگے بعض صحابہ نے حضرت‬
‫صديق کو يہ مشوره ديا کہ ان کی بات قبول کر لی جائے اس لئے کہ ابھی ٓاغاز اسالم ہے عربوں‬
‫کی تعداد بہت ہے اور ہم معدودے چند ٓادمی ہيں ہم ان کا مقابلہ نہيں کرسکتے انہوں نے رسول‬
‫ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی يہ حديث پيش کی کہ ٓاپ نے فرمايا ‪:‬مجھے لوگوں سے اس وقت‬
‫لﮍنے کا حکم ديا گيا ہے جب تک وه الالہ نہ کہيں جب وه يہ کلمہ پﮍھ ليں تو مجھ سے اپنا خون‬
‫اور مال بچاليں اور ان کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ نے کہا ''زکوة‬
‫بھی اسالم کا حق ہے اس لئے جہاد ناگزير ہے۔‬

‫‪- 44 -‬‬
‫حضرت عمر بھی ان لوگوں کے ہمنوا تھے جو ترک جہاد کا مشوره دے رہے تھے چنانچہ‬
‫حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ نے اس ضمن ان کا مشوره قبو ل نہ کيا اور اپنا يہ مشہور فقره کہا‬
‫کہ جا ہليت ميں ٓاپ جابر تھے مگر اسالم ميں بزدل ہوگئے ۔اے ابن الخطاب!بخدا اگر منکرين‬
‫زکوة ايک رسی دينے سے بھی انکار کرينگے جسے وه عہد رسالت ميں ديا کرتے تھے تو ميں‬
‫ان کے خالف جہاد کرونگا اور اگر کوئی دوسرا شخص ميرے ساتھ نہ ہوگا تو ميں تنہا لﮍوں گا ۔‬
‫يہاں تک کہ ﷲ اپنا فيصلہ صادر کردے ۔اور وه سب سے بہتر فيصلہ کرنے والہے ۔حضرت عمر‬
‫نے ابوبکر کا يہ خطبہ سن کر سر تسليم خم کر ليا۔جناب ابو بکر رضی ﷲ عنہ نہ جھکے نہ نرم‬
‫پﮍے اور اپنی راه پر رواں دواں رہے ٓاپ اپنے اطاعت شعائروں کو لے کر باغی قبائل کے خالف‬
‫۔حتی کے سر کش قبيلے حکم خداوندی کے سامنے جھک گئے ۔ انہوں نے‬ ‫نبر د ٓازما ہوئے ٰ‬
‫نخوشی يا نا خوشی دوباره اسالم قبول کرليا اور باقاعده زکوة دينے لگے اس طرح حضرت ابو‬
‫بکر کے فہم فراست سے اسالم کا بکھرا ہوا شيرازه پھر مستحکم ہوگيا ۔ لوگ حضرت ابو بکر‬
‫رضی ﷲ عنہ کے مدح سرا ہوئے اور ٓاپ کے مرتبہ ومقام کو پہچان گئے ۔‬
‫حضرت ابو بکر وعمر وعثمان رضی ﷲ عنہم کی خالفت ميں مسلمانوں کی سياسی‬
‫واجتماعی زندگی پورے امن سکون سے گزرتی رہی يہی وجہ ہے کہ اس عہد ميں صغار صحابہ‬
‫ٰ‬
‫وفتاوی کا‬ ‫نے علوم دينيہ کی تکميل کی اور اکثر تابعين نے احاديث نبويہ اور صحابہ کے احکام‬
‫درس ليا۔‬
‫ٓاگے چل کر جب لوگوں نے حضرت عثمان کو بالوجہ ہدف بنايا تو چند لوگوننے جو بظاہر مسلمان‬
‫اور بباطن يہود تھے اسالم کا لباد ه اوڑھ کر لوگوں کو اپنے دام فريب ميں پھنسانا چاہا ان کا‬
‫سرغنہ عبدﷲ بن سبا نامی ايک يہودی تھا جو حمير کے قبيلے سے تعلق رکھتا تھا يہود بے‬
‫بہود نے فتنے کو ہوا دينا شروع کيا اور اطراف عرب کے لوگوں کو حضرت عثمان کے خالف‬
‫اکسانہ شروع کيا اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ حضرت عثمان بحالت مظلومی اپنے گھر ميں شہيد‬
‫کرديے گئےاس وقت سے مسلمانوں ميں شرارت کا ايسا دروازه کھال جو کثير صحابہ کی موت کا‬
‫باعث بنا۔‬
‫جو نہی خليفہ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب رضی ﷲ عنہ مسند خالفت پر فائز ہوئے‬
‫حضرت معاويہ رضی ﷲ عنہ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے خون کا مطالبہ کرنے کے لئے اٹھ‬
‫کھﮍے ہوئے دونوں کے دوميان لﮍائيوں کا ايسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس نے مسلمانوں کے‬
‫شيرازه کو بکھير کر رکھ ديا ۔ حرب ضرب کا يہ طويل سلسلہ جنگ صفين پر جاکر ختم ہوا نتيجہ‬
‫کے طور پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے رفقاء شيعہ خوارج دو فرقوں ميں تقسيم ہوگئے‬
‫شکست خورده عناصر مثالً يہود اور اہل فارس نے مسلمانوں کی نااتفاقی سے فائده اٹھايا اور‬
‫مقدور بھر اسالم کے خالف ريشہ دوانيوں ميں لگ گئے ۔‬

‫روايت حديث ميں صحابہ کا طرز و منہاج‪:‬‬


‫جب تک سرور جہاں صلی ﷲ عليہ وسلم صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہم کے درميان بقيد حيات‬
‫ره کر ان کو کتاب و حکمت کی تعليم ديتے رہے صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہم دين و دنيا دونوں‬
‫کے اعتبار سے کوش قسمت تھے اس عہد سعادت ميں صحابہ رضی ﷲ ٰ‬
‫تعالی عنہم کو يہ خطره‬
‫دامنگير نہ تھا کہ منافق اور جھوٹے لوغ حديث نبوی ميں اپنی طرف سے کچھ مال ديں گے جب‬
‫تک حضور صلی ﷲ عليہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہی اس کے ذريعے منافقين کے دجل و فريب‬
‫کو طشت ازبام کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور حديث نبوی بھی ان کی کارستانيوں سے مامون و‬
‫مصئون رہی۔ منافق اس بات سے خائف وہراساں رہا کرتے تھے کہ مبادا کوئی سورت حضور‬

‫‪- 45 -‬‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم ان کے باطنی کفر ونفاق سے مسلمانوں کو ٓاگاه کردے ۔مزيد ٓ‬
‫براں حديث‬
‫کی نقد جرح کا اس کے سوا کوئی طريقہ نہ تھ اکہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی خدمت ميں‬
‫حاضر ہوکر اس کی ترديد يا تصديق سے ٓاگاه ہوں ۔صحابہ کے يہاں جب بھی کوئی نزاع واختالف‬
‫پيدا ہوتا تو حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی جانب رجوع کر کے اس کا حل دريافت کرتے۔‬

‫''فان تنازعتم فی شیء فردوه الی ﷲ والرسول'')النساء ‪(۵٩:‬‬

‫''اگر کسی بات ميں تمہارے يہاں اختالف پيدا ہو جائے تو اسے ﷲ اور اس کے رسول کی طرف‬
‫لوٹا دو''۔‬
‫تعالی عنہ کو مختلف طريقہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے ہشان بن حکيم رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫سے سورة الفرقان کی تالوت کرتے سنا تو ان کے گلے ميں چادر ڈال کے رسول اکرم صلی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کی خدمت ميں الئے اوعر کہا کہ يہ شخص سورة الفرقان کی تالست اس طريقہ سے‬
‫نہيں کر رہا جيدے ٓاپ نے مجھے يہ سورة پﮍھائی تھی حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے‬
‫انہيں پرھنے کا حکم ديا اور سن کر فرماتے ہيں کہ يہ سورة يونہی نازل ہوئی تھی پھر ٓاپ نے‬
‫تعالی عنہ کو اسی سورت کو پﮍھنے کاحکم ديا اور سن کر فرمايا ۔يہ سورة‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫قران سات طرح اتارا گيا ہے جيسے بھی ٓاسان ہو پﮍھ ليا کرو۔‬
‫يونہی اتری تھی پھر فرمايا يہ ٓ‬
‫)صحيح بخاری(‬

‫اس قسم کے حوادث وامثلہ کی کمی نہيں جن ميں حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے‬
‫فيصلہ صادر فرمايا۔ سابقہ بيانات سے يہ حقيقت منصئہ شہود پر جلوه فگن ہوتی ہے کہ حضور‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے عين حيات کسی خالف ونزاع يا شک اور وسوسے کے ظہور‬
‫وشيوع کا کوئی امکان نہ تھا اور اگر ايسی کوئی بات ظاہر ہوتی تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم اسے‬
‫فورا ختم کرديتے۔‬
‫تعالی عنہ کے سينوں کے سوا حديث‬ ‫ٰ‬ ‫جب سرورکائنات نے وفات پائی تو صحابہ رضی ﷲ‬
‫نبوی کا دوسرا کوئی محافظ نہ تھا وحی کا سلسلہ بند ہو چکا تھا نفاق کا دور دوره تھا يہ کوئی‬
‫عجيب بات نہ تھی کہ منافقين حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم پر افترا پردازی سے کام ليتے جو‬
‫دعوی کر سکتے تھے کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی رسوالت ٓاپ کی موت ہی کے ساتھ‬ ‫ٰ‬ ‫بدو يہ‬
‫ختم ہوگئی ان سے کچھ بعيد نہ تھا کہ حديث رسول کے ساتھ دل لگی کرنے لگيں مگتر حضرت‬
‫تعالی عنہ نے حزم واحتياطکا شيوه اختيار کيا انہوں نے جس طرح مرتدين اور‬
‫ٰ‬ ‫ابو بکر رضی ﷲ‬
‫مانعين زکوة کی ريشہ دوانيوں کا خاتمہ کيا اسی طرح قوانين روايت وجع کر کے حديث ميں دروغ‬
‫تعالی عنہ کا دور ٓايا تو انہوں‬
‫ٰ‬ ‫گوئی کے راستہ کو مسدود کر ديا ان کے بعد فاروق اعظم رضی ﷲ‬
‫نے جھوٹوں کو ڈرايا اور کثير الروايت لوگوں کو خفزده کر ديا حديث کی راه ميں انجام دی گئيں‬
‫ان خدمات جليلہ کا مختصر تذکره حسب ذيل ہے۔‬

‫تعالی عنہ کو تقليل روايت کا حکم‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫‪٣‬۔صحابہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہم کی نگاه ميں حديث نبوی ايک ايسا‬
‫ٰ‬ ‫خلفائے راشدين اور ديگر صحابہ رضی ﷲ‬
‫بيش قيمت خزانہ ہے جو اہل علم کے سينوں ميں محفوظ ہے تاہم وه اسے روايت کی منڈی ميں‬
‫فروخت کے لئے لے جانا نہ چاہتے تھے تاکہ منافقين کو اس ميں اضافہ کرنے کا موقعہ نہ ملے‬
‫اور وه اس کو حديثيں گھﮍنے کا ذريعہ نہ بناليں ۔نيز اس لئے کہ کثير الروايت صحابہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے قدم پھسل نہ جائيں اور وه خطا ونسيان کے گﮍھے ميں نہ جا گريں اور اس طرح‬
‫ٰ‬
‫غير شعوری طور پر حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم پر دروغ بانی کے مرتکب ہوں خلفائے‬
‫‪- 46 -‬‬
‫راشدين نے کثرت روايت سے اس لئے بھی منع کيا تھا کہ مبادا لوگ حديثوں ميں منہمک ہو کر‬
‫قران کو خير باد کہہ ديں اس لئےو ه ديکھتے ہيں کہ خلفائے راشدين صرف انہی احاديث‬ ‫تالوت ٓ‬
‫ٰ‬
‫فتاوی کے لئے ناگزير ہيں ۔‬ ‫کی نقل و روايت پر متفق تھے جو پيش ٓامده مسائل و‬
‫تعالی عنہ کو ديکھئے کہ کثرت سماع کے باوجود بہت کم احاديث‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫روايت کرتے تھے يہی حال حضرت عمران بن حصين ‪،‬ابو عبيده اور عباس بن عبدالمطلب رضی‬
‫تعالی عنہ جو عشره مبشره ميں سے تھے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہم کا تھا ۔ حضرت سعيد بن زيد رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے موزوں‬
‫ٰ‬ ‫ان سے صرف دو يا تين احديث منقول ہيں حضرت ابی بن عماره رضی ﷲ‬
‫پر مسح سے متعلق صرف ايک حديث مروی ہے۔‬
‫تعالی عنہ کثير الروايت صحابہ ميں سے تھے تاہم خالفت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫فاروقی ميں انہوں نے روايت حديث کا مشغلہ ترک کرديا تھا عرصہ دراز يکے بعد جب ضرورت‬
‫روايت حديث کی مقتضی ہوئی توانہوں نے تواہت حديث کا سلسلہ پھر شروع کر ديا حضرت ابو‬
‫تعالی عنہ کثير‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کہا کرتے تھے '' لوگ کہتے ہيں کہ ابو ہريره رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ہريره رضی ﷲ‬
‫قران کريم کی دو ٓايتيں نہ ہوتيں تو ميں ايک حديث بھی روايت نہ کرتا پھر ٓاپ‬ ‫الروايت ہے اگر ٓ‬
‫نے وه ٓايتيں تالوت کيں يعنی''ان الذﯾن ﯾکتمون ما انزلنا من البينات والھدی من بعد ما بينا ه‬
‫للناس'' يہ ٓايت ٓاپ نے ''انا التواب الرحيم '' تک پﮍھی ۔‬
‫''بے شک جو لوگ ہمارے نازل کرده دالئل اور ہدايت کو چھپاتے ہيں اس کے بعد کہ ہم نے‬
‫تعالی اور اس کے فرشتے لعنت کرتے ہيں ''‬
‫ٰ‬ ‫ان کو لوگوں کے لئے واضح کر ديا ہے ان پر ﷲ‬
‫تعالی عنہ بيان کرتے ہيں کہ ہمارتے مہاجر بھائی بازار ميں خريد‬
‫ٰ‬ ‫ابوہريره رضی ﷲ‬
‫وفروخت کرتے رہتے انصار اپنے اپنے کاموں ميں مشغول رہتے مگر مجھے شکم سيری کے‬
‫سوا کسی بات کی فکر دامنگير نہ ہوتی اور ميں حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے ساتھ لگا‬
‫رہتا اور وه حديثيں ياد کرتا جو دوسروں کو محفوظ نہ ہوتيں۔ )صحيح بخاری(‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے جب اپنے والد حضرت زبير رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن زبير رضی ﷲ‬
‫عنہ سے سوال کيا کہ ٓاپ فالں شخص کی طرح زياده حديثيں روايت کيوں نہيں کرتے ؟ توا نہوں‬
‫نے جواب ديا کہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی صحبت کا فخر تومجھے بھی حاصل ہے مگر‬
‫ميں نے سنا ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے فرمايا''جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وه‬
‫تعالی عنہ سے جب کہا جاتا کہ ہميں‬‫ٰ‬ ‫اپنا گھر دوزخ ميں بنالے ''حضرت زيد بن ارقم رضی ﷲ‬
‫حديثيں سناؤ تو وه کہتے ہم بوڑھے ہو کر حديثيں بھول گئے حديثيں بيان کرنا معمولی کام نہيں ۔‬
‫تعالی عنہ کا مدينہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کتہے ہيں کہ سعد بن مالک رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫سائب بن يزيد رضی ﷲ‬
‫سے مکہ تک رفيق سفر رہا اس دوران انہوں نے مجھے ايک حديث بھی نہ سنائی امام شعبی کا‬
‫تعالی عنہ کا ہم نشين رہا ميں نے‬
‫ٰ‬ ‫قول ہے ''ميں سال بھر تک حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ‬
‫کبھی ان کو حديثروايت کرتے نہ سنا ۔''‬
‫حضرت انس بن مالک جب حديث روايت کرکے فارغ ہوتے تو کہا کرتے تھے ''او کما قال''يا ٓاپ‬
‫نے جيسا بھی فرمايا۔ تاکہ جھوٹ سے احتراز کيا جائے ۔‬
‫اور اس قسم کے کثير اقوال ٓ‬
‫واثار جن سے يہ حقيقت عياں ہوتی ہے کہ صحابہ حزم واحتياط کی‬
‫بنا پر حديثيں کم روايت کرتے تھے ۔ مبادا منافقين حديث کو اپنی اغراض خبيثہ پورا کرنے کا‬
‫براں وه حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی اس حديث سے بھی ٓاگاه تھے کہ‬ ‫ذريعہ بناا ليں مزيد ٓ‬

‫‪- 47 -‬‬
‫''کثرت حديث سے پرہيز کرو۔ اور جو شخص حديث روايت کرے وه سچی روايت بيان کرے''۔‬
‫)احمد ‪،‬حاکم‪ ،‬ابن ماجہ(صحابہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے اس ار شاد گرامی سے ٓاگاه‬
‫تھے کہ ميری اور ميرے ہدايت يافتہ خلفائے راشدين کی سنت کا دامن تھامے رکھو''۔‬

‫‪۴‬۔ روايت حديث ميں حزم واحتياط‬


‫حضرات صحابہ جس طرح روايت حديث ميں قل کا حکم ديتے تھے اور کثرت سے منع‬
‫کرتے تھے اسی طرح راوی اور مروی دونوں کے بارے ميں حزم واحتياط کی راه پر گامزن تھے‬
‫اس ضمن ميں وه کتاب ﷲ اور احاديث متواتره و مشہوره سے استناد و احتجاج کرتے تھے حديچ‬
‫سے استدالل کرتے وقت حد در جہ حزم و احتياط سے کام ليتے تھے جس حديث سے اس کا دل‬
‫مطمئن ہوتا مثالً يہ کہ متواتر يا مشہور ہو يا اس قسم کی خبر واحد ہو جس کے راوی ميں ايسا‬
‫کوئی شخص نہ ہو جس کے حفظ و ضبط ميں شک کی گنجائش ہو اس کو قبول کر کے عمل‬
‫کرتے اور اس پر گواه طلب کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتے جس حديث ميں شک محسوس‬
‫کرتے اس پر گواه طلب کرتے اگر مشکوک کی صداقت شہادت سے ثابت نہ ہوتی يا وه حديث‬
‫کتاب ﷲ کے مخالف ہوتی تو اس کو رد کرديتے ۔‬
‫اس ضمن ميں چند روايات مالحظہ ہوں۔‬
‫تعالی عنہ کے ترجمہ ميں لکھتے ہيں‬
‫ٰ‬ ‫‪١‬۔ حافظ ذہبی تذکرة الحفاظ ميں حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫کہ اولين شخص تھے جنہوں نے قبوليت احاديث ميں احتياط سے کام ليا ۔ابن شہاب حضرت قبيصہ‬
‫تعالی عنہ کی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ايک دادی حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫خدمت ميں حاضر ہوکر عرض پرداز ہوئی کہ اس کے پوتے کے ترکہ سے اسے ورثہ داليا جائے‬
‫کہنے لگے ميں خدا کی کتاب ميں تمہارے لئے کچھ نيہں پاتا اور مجھے نہيں معلوم کہ رسول ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے تمہارے لئے ترکہ ميں سے حصہ مقرر کيا ہے پھر اس ضمن ميں‬
‫لی عنہ کھﮍے ہو گئے کہنے لگے رسول ﷲ‬ ‫لوگوں سے پوچھا تو حضرت مغيره رضی ﷲ تعا ٰ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم دادی کو ترکہ جميں سے چھٹا حصہ داليا کرتے تھے ۔ فرمايا کوئی‬
‫تعالی عنہ نے ان کے حق ميں‬ ‫ٰ‬ ‫شخص تمہاری تائيد کرے گا؟چنانچہ محمد بن مسلمہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے دادی کو چھٹا حصہ داليا۔‬
‫ٰ‬ ‫شہادت دی حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے ترجمہ ميں لکھتے ہيں کہ وه اولين شخص‬ ‫ٰ‬ ‫‪٢‬۔ حافظ ذہبی حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫تھے جس نے روايت حديث ميں بيدار مغزی اور احتياط کی راه نکالی جب ٓاپ کو شک پﮍجاتا تو‬
‫تعالی عنہ روايت کرتے ہيں کہ حضرت ابو‬
‫ٰ‬ ‫قبوليت ميں توقف فرماتے ۔ حضرت ابو سعيد رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو دروازه کے شگاف ميں سے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫موسی رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تين مرتبہ سالم کيا اوع جب اندر ٓانے کی اجازت نہ ملی تو لوٹ گئے حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫عنہ نے ان کے پيچھے ٓادمی بھيجا اور پوچھا کہ ٓاپ لوٹ کيوں گئے تھے ؟کہنے لگے ميں‬
‫نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے سنا ٓاپ فرماتے تھے جب کوئی شخص تين مرتبی‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫سالم کہے اوراسے جواب نہ ديا جائے تو واپس لوٹ جائے ۔ حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫نے فرمايا اس حديث کی تائيد ميں شہادت پيش کيجيے ۔ ورنہ ميں تمہيں سزادوں گا حضرت ابو‬
‫تعالی عنہ ہمارے پاس ٓائے تو ان کے چہرے پر ہوائياں اڑ رہی تھيں ہم بيٹھے‬
‫ٰ‬ ‫موسی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬
‫ہوئے تھے ہم نے پو چھا کيا بات ہے؟ انہوں نے ماجرا کہہ سنايا اور پوچھا کہ کيا تم ميں سے‬
‫کسی نے يہ حديث سنی ہے؟ ہم نے کہا ''يہ حديث ہم سب نے سنی ہے'' چنانچہ ايک شخص ان‬
‫تعالی عنہ کے سامنے شہادت دی۔)تذکرة الحفاظ(‬
‫ٰ‬ ‫کے ساتھ گيا اور حضرت عمر رضی ﷲ‬

‫‪- 48 -‬‬
‫‪٣‬۔امام ذہبی روايت کرتے ہيں کہ ہشام کے والد نے جب ايک حديث بيان کی تو حضرت عمر‬
‫تعالی عنہ نے کہا کہ شہادت پيش کيجئے وه باہر نکال تو چند انصاری صحابہ کھﮍے‬
‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫تھے اس نے ماجرا بيان کيا وه کہنے لگے ہم نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے يہ‬
‫تعالی عنہ يہ سن کر کہنے لگے ميں ٓاپ پر جھو ٹ کی‬
‫ٰ‬ ‫حديث سنی ہے حضررت عمر رضی ﷲ‬
‫تہمت نہيں لگاتا ميرا مقصد صرف تحقيق کرناتھا۔‬
‫تعالی عنہ کے ترجمہ ميں اسماء بن حکم الفزاری رضی ﷲ‬‫ٰ‬ ‫‪۴‬۔امام ذہبی حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو يہ فرماتے ہو‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫ئے سنا کہ '' جب ميں براه راست رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے کوئی حديچ سنتا تو‬
‫مستفيد ہوتا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھے حديچ سناتا تو اسے حلف ديتا جب حلف اٹھا ليتا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ فرماتے ہيں ابو بکر رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫تو اس کی تصديق کرتا ''۔ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے سچ فرمايا ۔کہ ميں رسول ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫عنہ نے مجھے يہ حديث سنائی اورابو بکر رضی ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کر فرماتے سنا کہ جو مسلمان شخص کسی گناه کا ارتکاب کر کے وضو‬
‫تعالی اسے بخش دياتا ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫کرے اور پھر دو رکعت نماز پﮍھے اور ﷲ سے بخشش مانگے تو ﷲ‬
‫تعالی عنہا نے اس حديث کو رد کر ديا جس ميں ہے کہ سب‬
‫ٰ‬ ‫‪۵‬۔اسء طرغ غحرت عائشی رضی ﷲ‬
‫معراج رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے اپنے رب کريم کو ديکھا کيونکہ ٓ‬
‫قران ميں اس کے‬
‫خالف مذکور ہے ارشاد فرمايا۔‬
‫''ال تدرکہ االبصار وھو ﯾدرک االبصار'' )االنعام ‪ٓ'' (١٠٣:‬انکھيں اس کا ادراک نہيں کر سکتيں اور‬
‫وه ٓانکھوں کا ادراک کر سکتا ہے''۔‬
‫دعوی کرتا ہے کہ رسول ﷲ‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہافرماتی ہيں جو شخص يہ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫تعالی کو ديکھا اس نے زبردست جھوٹ بوال يہ ان‬ ‫ٰ‬ ‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے شب معراج ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے خالف ہيں ان کے‬ ‫ٰ‬ ‫کے اجتہاد پر مبنی ہے بعض علماء حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫تعالی کا احاطہ نہيں کر سکتيں اگر يہ‬
‫ٰ‬ ‫نزديک مذکوره صدر ٓايت کے معنہ يہ ہيں کہ ٓانکھيں ذات‬
‫مفہوم مراد ليا جئے ٓ‬
‫توايت و حديث ميں کسی قسم کا تعار ض باقی نہينرہتا۔‬
‫تعالی عنہامتن حديث پر غور کر کے اس پر نقد وجرح‬
‫ٰ‬ ‫جس طرح سيده عائشہ رضی ﷲ‬
‫کرتيں اور اسے ٓ‬
‫قران کے معيار پر رکھ کر جانچتی پر کھتی تھيں اسی طرح وه راوی کے حفظ و‬
‫ضبط کا امتحان بھی ليا کرتی تھيں۔‬
‫تعالی عنہ سے کہا اے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا نے عروه بن زبير رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫ايک مرتبہ حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ ہمارے يہاں سے‬
‫ٰ‬ ‫بھانجے ! مجھے پتہ چال ہے کہ عبدﷲ بن عمر وبن العاص رضی ﷲ‬
‫گزر کر حج کو جا رہے ہيں ان کو مل کر چند مسائل پوچھئے اس لئے کہ انہوں نے رسول ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے بہت استفاده کيا ےتھا جناب عروه نے حسب ارشاد حضرت عبدﷲ‬
‫تعالی عنہ کو مل کر چند باتيں دريافت کيں ان کے جواب ميں حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے جو احاديث ذکر کيں ان ميں سے ايک حديچ يہ بھی تھی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬
‫تعالی يوں لوگوں کے سينوں سے علم کو جھٹ پٹ کھينچ نہيں لے گا‬ ‫ٰ‬ ‫والہ وسلم نے فرمايا ''ﷲ‬
‫بلکہ وه علماء کو وفات دے دے گا۔ اور اس طرح علم لوگوں کے درميان سے اٹھ جائے گا لوگوں‬
‫فتوی ديں گے خود بھی گمره ہوں گے اور‬‫ٰ‬ ‫ميں جاہل باقی ره جائيں گے جو بغير دليل وبرہان‬
‫دوسريں کو بھی گمراه کريں گے''۔‬

‫‪- 49 -‬‬
‫تعالی عنہ کا بيان ہے ''جب ميں نے يہ حديث حضرت عائشہ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫عروه رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہا کو سنائی تو انہيں بﮍا تعجب ہوا اور اس سے انکار کر ديا کہنے لگيں کيا يہ حديث‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ نے خود رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے سنی ہے؟ عروه نے‬ ‫ٰ‬ ‫عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ ٓائے تو حضرت‬
‫ٰ‬ ‫کہا جی ہاں ۔ايک سال گزرنے پر جب پھر حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے مل کر‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا نے عروه سے کہا کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫عائشہ رضی ﷲ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫پھر اسی حديث کے بارے پوچھئے ۔عروه کہتے ہيں کہ ميں جب حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬
‫عنہ سے مل کر جب پھر اسی حديث کے بارے ميں سوال کيا تو انہوں نے وه حديث من و عن‬
‫تعالی عنہا کو بتايا فرمانے لگيں ۔ميرا خيال ہے‬
‫ٰ‬ ‫بيان کر دی پھر ميں نے حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫کہ ان کی بيان کرده حديث درست ہے ۔عبدﷲ نے )ايک سال گزرنے کے باوجود‪ ٩‬اس کے الفاظ‬
‫ميں کچھ کمی بيشی نہيں کی۔ )اعالم الموقعين ج‪ ١،‬ص‪(۴٣‬‬

‫تعالی عنہ کی قوت‬


‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا نے گويا حضرت عبدﷲ رضی ﷲ‬‫ٰ‬ ‫حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫حفظ و ضبط کا امتحان ليا پہلی مرتبہ انہيں شک گزرا جب دوسری مرتبہ معلوم ہوا کہ عبدﷲ‬
‫تعالی عنہ نے حديث کے الفاظ ميں کسی قسم کی کمی بيشی نہيں کی حاالنکہ پورا ايک‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫سال گزر چکا تو انہيں يقين ٓاگيا کہ ان کا حافظہ مضبوط ہے اس لئے ان کی تصديق کی اور ان کی‬
‫روايت کو قبو ل کر ليا ۔‬
‫اس قسم کے ٓاثار و اقوال جو بکثرت ہيں اس حقيقت پر روشنی ڈالتے ہيں کہ صحابہ حديث‬
‫کو بﮍی لے دے کے بعد قبول کرتے تھے ۔وه حديث اور اس کے راوه کو نقد وجرح کے ترازو‬
‫ميں رکھ کر جانچتے پرکھتے تھے اور رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی وفات کے بعد يہ‬
‫ايک فطری امر تھا اس لئے کہ جب تک رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم بقيد حيات رہے اس‬
‫وقت وه ٓاپ سے مل کر حديث کے بارے ميں سوال کرسکتے تھے مگر ٓاپ کی وفات کے بعد اس‬
‫کا امکان نہ تھا ۔‬

‫عسير الفھم احاديث روايت کرنے کی ممانعت ‪:‬‬


‫قبل ازيں بيان کر چکے ہيں کہ ذہيں وفطين صحابہ کو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم‬
‫خصوصی علوم سے بہره ور کرتے تھے اور فرمايا کرتے تھے کہ عوام کو ان علوم سے ٓاشنا نہ‬
‫کيا جائے اس لئے کہ وه ان کے سمجھنے سے قاصر ره کر فتنے ميں مبتالء ہو جائيں گے۔‬
‫ايک مرتبہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم اونٹ پر سوار تھے اور حضرت معاذ رضی‬
‫تعالی عنہ ٓاپ کے ہم رکاب تھے فرمايا اے معاذ بن جبل!جو شخص بھی خلوص دل سے ال الہ‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫ﷲ کہہ دے ﷲ اس پر ٓاتش جہنم کو حرام کر دے گا ۔حضرت معاذ نے کہا يا رسول ﷲ ميں لوگوں‬
‫کو بتانہ دوں وه سن کر خوش ہو جائيں گے ۔فرمايا!نہيں اس طرح وه کلمہ ہی پر بھرسہ کر ليں‬
‫گے ۔اور اعمال صالحہ ترک کرديں گے ۔جب حضرت معاذ فوت ہونے لگے تو يہ حديث بيان کی‬
‫تاکہ وه کتمان علم کے مرتکب نہ ٹھريں ۔)صحيح بخاری(‬
‫تعالی عنہ کو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے حکم ديا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے مضمون سے لوگوں کو ٓاگاه کرديں‬
‫ٰ‬ ‫تھا کہ مندرجہ صدر حديث معاذ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو اس‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کو پتہ چال توانہوں نے ابو ہريره رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫اقدام سے باز رکھا اور نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض پرداز‬
‫ہوئے کہ کيا ٓاپ نے ابو ہريره رضی ﷲ ت ٰ‬
‫عالی عنہ کو فالں بات کا حکم ديا ہے ؟ رسول ﷲ صلی‬
‫تعالی عنہ نے عرض کی‬‫ٰ‬ ‫ﷲ عليہ والہ وسلم نے اثبات ميں جواب ديا ۔حضرت عمر رضی ﷲ‬

‫‪- 50 -‬‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم ايسا نہ کيجئے ‪،‬مجھے ڈر ہے کہ کہيں لوگ اسی پر بھروسہ‬
‫نہ کرليں لہذا ٓاپ لوگوں کو عمل کرنے ديجئے۔)صحيح مسلم کتاب االيمان(‬
‫امام مسلم نے مقدمہ صحيح مسلم ميں روايت کی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم‬
‫نے فرمايا ٓ‬
‫‪،‬ادمی کے لئے يہی جھوٹ کافی ہے کہ جو بات سنے اسے بيان کردے۔‬
‫عوام کو ناقابل فہم باتيں بتانا اس لئے شرعا ممنوع ہے کہ وه ايسی باتيں سمجھنے سے‬
‫قاصر ہوتے ہيں جب وه ايک بات کو سمجھ نہ پائيں گےتو اسے جھٹال ديں گے اوران کا اعتماد‬
‫اس راوی سے اٹھ جائے گا ۔اور اگر وه اس کی تکذيب نہ کريں گے اور جو بات سمجھ ميں‬
‫ٓاجائے اس پر عمل کريں گے تو اس کا الزمی نتيجہ يہ ہوگا کہ جو بات سمجھ ميں نہ ٓائے گی اس‬
‫کو چھوڑ ديں گے اس سے بعض شرعی احکام کا ترک کرنا الزم ٓائے گا اور اس سے يہ ہوگا کہ‬
‫جس شخص نے وه حديث بتائی تھی اس نے وه حديث بيان کر کے ان کو شرعی احکام پر عمل‬
‫کرنے سے روک ديا ‪،‬بلکہ اس سے بﮍھ کر ہم يہ کہتے ہيں کہ لوگوں کو ايسی باتيں بتانا جو ان‬
‫کی سمجھ ميں نہ ٓائيں ان کو دين کے بارے ميں شکوک شبہات ميں مبتالء کردينے کے مترادف‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہيں ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫ہے اسی لئے حضرت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫''لوگوں کو وه بات بتائے جو ان کی سمجھ ميں ٓاجائے کيا تم يہ چاہتے ہو کہ ﷲ اور اس‬
‫کے رسول ککو جھٹاليا جائے ۔''‬
‫خالفت راشده ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے صحابہ ٓاپ کی ہموار کرده راه پر‬
‫گامزن رہے اور عوام کے لئے جو باتيں ناقابل فہم تھيں ان بتانے سے احتراز کرتے رہے مبادا‬
‫وه فتنے ميں مبتالء ہوکر بعض دينی فرائض کو چھوڑ بيٹھيں۔‬
‫تعالی عنہ بيان کرتے ہيں ''جس قول کو بھی ايسی بات‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫بتائيں گے جو ان کی سمجھ ميں نہ ٓاسکے وه بعض لوگوں کے لئے فتنے کا موجب ہوگی۔'')مقدمہ‬
‫صحيح مسلم(‬

‫تعالی عنہ بيان کرتے ہيں کہ ميں نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابوہريره رضی ﷲ‬
‫والہ وسلم سے سن کر دو باتيں ياد رکھيں ايک لوگوں کو بتادی اگر دوسری بھی بتا دوں تو ميرا‬
‫گال کٹ جائے )صحيح بخاری(‬

‫تعالی عنہ فرماتے ہيں ''لوگوں کو وه باتيں بتاؤ جو ان کی سمجھ‬


‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ميں ٓاجائيں کيا تم چاہتے ہو کہ ﷲ اور اس کے رسول کو جھٹاليا جائے ۔''‬
‫تعالی عنہ سے‬
‫ٰ‬ ‫امام ابن عبدالبر نے اسی قسم کی ايک روايت حضرت ابن عباس رضی ﷲ‬
‫بھی نقل کی ہے غرض يہ کہ حضرات صحابہ تابعين اور ائمہ کرام شروع ہی سے ايسی حديثوں‬
‫کو روايت کرنے سے روکتے رہے جو لوگوں کی کم فہم کی وجہ سے فتنہ وفساد کی موجب‬
‫محرک ہو سکتی ہو۔ يا جن کو اصحابہ بدعت اور گمره سالطين ان کے ظاہری الفاظ کی بناپر اپنے‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫ناروا مقاصد اور جو روا استبداد کے لئے استعمال کر سکتے ہيں ۔ حضرت انس رضی ﷲ‬
‫عنہ نے جب حجاج ثقفی کو قبيلہ عرينہ کےواقعہ پر مشتمل حديث سنائی تو حضرت حسن بصری‬
‫اس پر معترض ہوئے اس لئے کہ حجاج نے تاويل کر کے اس سے ناروا خون ريزی کا جواز‬
‫نکاال ےتھا ۔ امام احمد بن حنبل ان احاديث کی نقل وروايت سے منع کيا کرتے تھے ۔جن کے‬
‫ظاہری الفاظ سے حاکم وقت کے خالف بغاوت کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ قاضی ابو يوسف‬
‫ايسی احاديث کے روايت کرنے کو نا پسند کيا کرتے تھے جن ميں کوئی نرالی يا انوکھی بات بيان‬
‫کی گئی ہو۔‬
‫‪- 51 -‬‬
‫ائمہ کرام نے ايسی احاديث کی نقل و روايت سے اسی لئے منع کيا تھا تاکہ دين اصحابہ‬
‫بدعت کی ريشہ دوانيوں سے محفوظ رہے اور امت مسلمہ ان فتنہ بازوں کے دام فريب ميں نہ‬
‫ٓانے پائے اس لئے کہ باطل پرست اور اباحيت پسند لوگ احاديث کے ظاہری الفاظ سے استدالل کر‬
‫کے اور دينی محرمات کو حالل ٹھہرا کر شعوری يا غير شعوری طور پر کفر کا ارتکاب کرتے‬
‫رہے ہيں يہ بات اکثر و بيشتر ان لوگوں ميں پائی جا تی ہے جو اپنے ٓاپ کو دين کا داعی ومبلغ‬
‫قرار ديتے ہيں کسی نے سچ کہا ہے کہ جاہل داعيوں کی وجہ سے مذاہب ٓافات کی ٓاماجگاه بن‬
‫جاتے ہيں ۔ اسی لئے صحابہ ايسی احاديث کی نشرواشاعت سے دامن بچاتے رہے جو کوتاه‬
‫نظری کے باعث غلط فہمی کی باعث بن سکتی ہوں يا جن سے اصحاب بدعات واہواء ناجائز فائده‬
‫اٹھاسکتےہوں تاکہ ﷲ کی زمين فتنہ وفساد کی ٓاماجگاه نہ بننے پائے۔)فتح الباری‪:‬ج‬
‫‪١،‬ص‪(١۶٠‬‬

‫‪۶‬۔صحابہ کے طرز روايت پر اعتراض اور اس کا جواب‪:‬‬


‫معترض کہہ سکتا ہے کہ صحابہ روايت حديث ميں چنداں دلچسپی نہيں ليتے تھے اس لئے‬
‫قرانی اور احاديث مشہوره پر عمل کرتے تھے اس کے بعد اگر انہيں‬ ‫کہ وه صرف نصوص ٓ‬
‫ضرورت الحق ہوتی تو اپنی رائے پر عمل کرتے اسی لئے وه حديثيں کم روايت کرنے کا حکم ديا‬
‫کرتے تھے صحابہ کے بارے ميں يہ بھی منقول ہے کہ وه اکثر نو پيد مسائل ميں اپنی رائے کو‬
‫معمول بہا بناتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بعض احاديث کو رد کرديا تھا اور بعض کی‬
‫صحت کے بارے ميں شہادت طلب کی يا راوی کو حلف داليا تھا کہ اس نے فالں روايت رسول ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے سنی ہے ۔مندرجہ صدر امور سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ اخبار‬
‫احاد کو رد کرتے اور رائے کو نص کے مقابلہ ميں ترجيح ديا کرتے تھے ۔‬
‫اس اعتراض کے جوابات حسب ذيل ہيں ۔‬
‫‪١‬۔ صحابہ نے تقليل روايت کا حکم اس لئے ديا تھا کہ کثير الروايت راوی سے غلطی کا احتمال‬
‫رہتا ہے بخالف ازيں قليل الروايت راوی احاديث کو زياده محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ صحابہ کے‬
‫کثرت روايت سے روکنے کی ايک وجہ يہ بھی تھی کہ منافقين کو اس بات کا موقع نہ ملے کہ وه‬
‫اپنے حسب منشاء احاديث وضع کر کے احاديث صحيحہ ميں شامل کرديں ۔ عالوه ازيں کچھ لوگ‬
‫قران کريم بھی نہيں پﮍھ سکتے تھےاور اس کا خطره دامن گير‬ ‫ايسے بھی تھےجو اچھی طرح ٓ‬
‫قران کريم کی قرأت وتالو سے محروم رہيں‬ ‫تھا کہ وه اگر کسی اور چيز ميں مشغول ہوگئے تو ٓ‬
‫گے۔ حاالنکہ وه دين اسالم کا اولين ماخذ ہے۔‬
‫‪٢‬۔ جہاں تک سماع حديث کے بارے ميں گواه طلب کرنے يا راوی کو حلف دينے کا تعلق ہے ۔‬
‫صحابہ ہميشہ ايسا نہيں کرتے تھے بخالف ازيں ايسا اس وقت کرتے تھے جب انہيں راوی کے‬
‫حفظ وضبط کے بارے شک گزرتا‪ ،‬اس کی دليل يہ ہے کہ وه بعض صحابہ کی ايسی روايت بھی‬
‫قبول کر ليا کرتے تھے جن کو ان کےسوا کسی دوسرے صحابی نے روايت نہ کيا ہو تا بشر‬
‫طيکہ صحابہ کو راوی کے حافظہ پر اعتماد ہوتا ۔‬
‫تعالی عنہ کی يہ روايت‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے ضحاک بن سفيان رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫مثال ً◌حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫قبول کر لی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے ضحاک کو لکھا تھا کہ اشيم ضبابی کی‬
‫تعالی عنہ نے ضحاک رضی‬ ‫ٰ‬ ‫بيوی کو اس کی ديت سے ورثہ داليا جائے ۔ حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے کوئی گواه طلب نہ کيا اسی طرح جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے روايت بيان کی کہ جس جگہ وبا پﮍچکی ہو وہاں جانا نہيں چاہيے ۔ تو حضرت عمر‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہ جو کہ عازم شام تھے يہ حديث سن کر مقام سرغ سے واپس مدينہ لوٹ ٓائے‬
‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫‪- 52 -‬‬
‫تعالی عنہ کے ساتھ جو مہاجرين و انصار موجود تھے ان ميں‬ ‫ٰ‬ ‫حاالنکہ حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے عبدالرحمن بن‬
‫ٰ‬ ‫سے کسی کو بھی يہ حديث معلوم نہ تھی جناب فاروق رضی ﷲ‬
‫سابق الذکر حديث ميں‬ ‫تعالی عنہ سے کوئی بھی تائيدی شہادت طلب نہ کی‬ ‫ٰ‬ ‫عوف رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کا يہ مقولہ مشہور ہے کہ )وحدثنی ابو بکر وصدق ابو بکر(‬
‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫''ابو بکر نے مجھے يہ حديث سنائی اور ابو بکر نے سچ کہا ''۔‬
‫تعالی عنہ کو صادق‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫چونکہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو حلف نہ ديا ۔ حضرت‬‫ٰ‬ ‫القول تصور کرتے تھے اس لئے انہوں نے ابو بکر رضی ﷲ‬
‫ٰ‬
‫موسی اشعر ی کو مخاطب کر کے کہا تھا ''ميں ٓاپ پر تہمت نہيں‬ ‫تعالی عنہ نے ابو‬
‫ٰ‬ ‫عمر رضی ﷲ‬
‫لگاتا صرف تصديق کرنا چاہتا ہوں اس لئے ميں نے گواه طلب کيا ہے''۔‬
‫‪٣‬۔باقی رہی يہ بات کہ صحابہ حديث کو چھوڑ کر رائے پر عمل کيا کرتےتھے تو يہ غلط ہے اور‬
‫تعالی عنہ فرماتےہيں ۔‬
‫ٰ‬ ‫واقعات ٓ‬
‫واثار اس کی ترديد کرتے ہيں ۔ چنانچہ حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫''رائے سے احتراز کيجئے۔اس لئے کہ اصحاب الرائے سنت کے دشمن ہوتے ہيں وه‬
‫احاديث کو حفظ کر نے سے قاصر رہتے ہيں عنقريب ايک ايسی قوم ظہور پذير ہوگی جو ٓ‬
‫قران کی‬
‫ٓايات و متشابہات کا سہارا لے کر تم سے جھگﮍے گی ۔ احاديث کے ذريعہ ان پر گرفت کرو اس‬
‫قران سيکھتے ہو اس طرح‬‫لئے کہ اصحاب الحديث کتا ب کو زياده بہتر ??تے ہيں جس طرح تم ٓ‬
‫سنت اور فرائض سيکھو۔''‬
‫رائے کے بارے ميں صحابہ سے جو کچھ منقول ہے اس کا خالصہ يہ ہے کہ جب طلب‬
‫تالش کے باوجود صحابہ کو حديث نہ ملتی تو وه رائے سے کام ليتے اور کہا کرتے تھے۔‬
‫''يہ ہماری ذاتی رائے ہے اگر غلطی نکلی تو ہمارا اور شيطان کا قصور ہے اوراگر درست‬
‫ثابت ہوئی تو عنايت خداوندی ہے۔''‬
‫اگر اس کے بعد ان کو حديث نبوی مل جاتی تو رائے کو ترک کر کے حديث پر عمل کرتے‬
‫تعالی عنہ کے بارے ميں فرماتے ہيں ۔‬
‫ٰ‬ ‫جناب ميمون بن مہرا حضرت ابوبکر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے دريافت کيا جاتا تو اس کا‬
‫ٰ‬ ‫''جب کوئی نيا مسئلہ حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫فيصلہ کتاب ﷲ ميں تالش کرتے اگر اس کا حل مل جاتا تو اس کے مطابق فيصلہ کرتے ورنہ‬
‫حديث رسول ميں تالش کرتے اگر تالش کرنے ميں کا مياب ہوجاتے تو اس کی روشنی ميں فيصلہ‬
‫کرتے اور اگر تالش کرنے ميں کاميابی نہ ہوتی تو لوگوں سے پوچھتے کيا تمہيں معلوم ہے کہ‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے اس معاملہ ميں کيا فرمايا ؟ بعض اوقات ايسا بھی ہوتا کہ‬
‫کچھ لوگ کھﮍے ہوکر کہتے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے اس ضمن يہ فيصلہ ديا‬
‫تھا۔ اگر سنت رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم ميں اس کا حل نہ ملتا تو سرکرده لوگوں کو جمع‬
‫کرتے اور ان سے مشوره طلب کرتے جب وه ايک مسئلہ پر متفق ہوجاتے تو اس کے مطابق‬
‫فيصلہ کرتے ۔''‬
‫ميمون بن مہرا ن مزيد فرماتے ہيں ‪:‬‬
‫تعالی عنہ کا طريق کار بھی يہی تھا جب کسی مسئلہ کا حق انہيں‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے اس کے بارے ميں‬
‫ٰ‬ ‫کتاب وسنت ميں نہ ملتا تو پوچھتے کہ کيا ابوبکر رضی ﷲ‬
‫کوئی فيصلہ کيا ہے؟اگر کسی فيصلہ کا پتہ چلتا تو اس کے مطابق فيصلہ ديتے ورنہ اہل علم‬

‫‪- 53 -‬‬
‫صحابہ کو جمع کر کے مشوره کرتے جب کسی بات پر ان کے يہاں اتفاق رائے ہوجاتا تو اس کے‬
‫مطابق فيصلہ صادر کرتے ۔''‬
‫تعالی عنہ نے جب شريح کو کوفہ کا قاضی بنا کر بھيجا تو يہ‬
‫ٰ‬ ‫جناب فاروق رضی ﷲ‬
‫نصيحت فرمائی ‪:‬‬
‫قران کريم ميں نظر ٓائے اس کے بارے ميں کسی سے مت‬ ‫''ديکھے جو بات ٓاپ کو ٓ‬
‫پوچھئے ‪،‬اور بات سنت رسول ميں نہ ملے اس ميں سنت رسول کی پيروی کيجئے جو بات سنت‬
‫رسول ميں بھی نہ ملے اس کے بارے ميں اپنی رائے سے اجتہاد کيجئے۔''‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہيں ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫''جب کسی شخص کو کسی نئے مسئلہ کا سابقہ پﮍے وه کتاب ﷲ کے مطابق فيصلہ کرے‬
‫اگر کتا ب ميں اس کا حل نہ ملے تو حديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی روشنی ميں حل کرے‬
‫۔اگر ايسا حادثہ رونما ہو جو کتاب ﷲ ميں بھی مذکور نہيں اور رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم‬
‫نے بھی اس ضمن ميں کوئی فيصلہ صادر نہيں کيا ‪،‬تواس کو اس طرح حل کرے جس طرح خدا‬
‫کے نيک بندوں نےکيا ہو ‪ ،‬اگر اس کی نظير بھی نہ مل سکے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرے اور‬
‫شرمائے نہيں ۔'')اعالم اموقعين ج‪،١‬ص‪،۵١‬وحجۃ ﷲ البالغہ ج‪١‬۔ ص‪(١٢٩‬‬

‫اس قسم کے اقوال ٓ‬


‫واثار التعداد ہيں مالحظہ فرمائے‪:‬‬
‫صحابہ سے اس بات کا تصور بھی نہيں کيا جا سکتا تھا کہ انہوننے سنت رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫والہ وسلم سے انحرا ف کر کے اپنی رائے سے عمل کيا ہو۔حضرت علی رضی ﷲ‬
‫فرماتے ہيں ‪:‬‬
‫''اگر دين کا انحصار رائے پر ہوتا تو موزوں پر نچلی جانب مسح کرنا باالئی طرف کے‬
‫مسحسے افضل ہوتا۔''‬
‫حضرت عبدﷲ بن عباس‪ ،‬معاذ بن جبل‪ ،‬عبدﷲ بن عمر ‪،‬سہل بن حنيف ‪،‬معاويہ ‪،‬ابوبکر‪،‬عمر او‬
‫تعالی عنہم يہ تمام اکابر صحابہ رائے کی مذمت فرماتے اور اتباع سنت کی تاکيد‬
‫ٰ‬ ‫عثمان رضی ﷲ‬
‫کرتے تھے۔‬
‫مندرجہ صدر بيانا ت سے يہ حقيقت منصہ شہود جلوه گر ہوتی ہے کہ حديث نبوی صحابہ‬
‫کا اوڑھنا بچھونا تھی وه حديث نبوی کی روشنی ميں چلتے اور ٓاخری درجہ کی اہميت ديتے‬
‫تھے۔ اور اگر صحيح مقصد کی خاطر وه روايت حديث کم کرنے کا مشوره ديں تو اس کے معنی‬
‫يہ نہيں کہ وه سنت کو کچھ اہميت نہيں دہتے تھے۔اگر يہ بات ہوتی تو روايت کی قلت ہو يا کثرت‬
‫دونوں ان کے نزديک شجره ممنوعہ ہوتيں‪،‬يہ حقيقت قبل ازيں واضح ہو چکی ہے کہ صحابہ‬
‫حديث نبوی کے مرتبہ مقام سے ٓاشنا تھے اور اسی لئے وه اس کو بے حد قدر و منزلت کی نگاه‬
‫قران کی طرح سنت کی جمع تدوين انجام نہ دے‬ ‫سے ديکھتےتھے۔يہ دوسری بات ہے کہ وه ٓ‬
‫سکے اس ميں شبہ نہيں کہ احاديث نبويہ کی انہوں نے اپنے سينوں ميں جگہ دی اور اس کے‬
‫تعالی نے ان کو عديم النظير قوت حافظہ‬
‫ٰ‬ ‫حفظ وضبط کا پورا پورا اہتمام کيا اس پر مزيد يہ کہ ﷲ‬
‫سے بہره ور کيا تھا۔‬
‫صحابہ کے بارے ميں يہ جو مشہور ہے کہ انہوں نے بعض احاديث کو تسليم نہيں کيا تھا‬
‫اس کی وجہ يہ ہے کہ يا تو وه اس حديث کے روای کو ضعيف سمجھتے تھے يا ان کے نزديک‬
‫‪- 54 -‬‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫دوسری قوی تر حديث اس کی ناسخ يا معارض ہوتی جس طرح حضرت عائشہ رضی ﷲ‬
‫عنہا نے اس حديث کو تسليم نہيں کيا تھا جس ميں مذ کور ہے کہ شب معراج رسول ﷲ صلی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کو ديکھا تھا ۔اور جس طرح حضرت عمر رضی ﷲ‬ ‫عليہ والہ وسلم نے ﷲ ٰ‬
‫فاطمہ بنت قيس کی اس روايت کو رد کيا تھا کہ مطلقہ ثالثہ ہونے کے باوجود رسول ﷲ صلی ﷲ‬
‫عليہ والہ وسلم نے اس کو نان ونفقہ اور سکونت نہيں دلوائی تھی‪،‬فاطمہ کے بيان کے برعکس‬
‫ٰ‬
‫فتوی ديا کہ جس عور ت کو تين طالقيں ہو جائيں اس کو‬ ‫تعالی عنہ نے يہ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫نفقہ اور سکونت ملے گی۔ اس کی دليل ميں وه يہ ٓايت پيش کرتے تھے۔‬
‫ال تخرجوھن من بيوتھن وال ﯾخرجن اال ان ﯾاتين بفاحشۃ مبينۃ'')لطالق‪(١:‬‬ ‫''‬
‫''ان عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وه خود نکليں بجز اس صورت کے‬
‫جب کہ وه بظاہر بے حيائی کے مرتکب ہوں''۔‬
‫تعالی عنہ فرمايا کرتے تھے ''ايک عورت )فاطمہ بنت قيس(کے‬‫ٰ‬ ‫حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫کہنے پر ہم ﷲ کی کتاب اور نبی کی سنت کو نہيں چھوڑ سکتے جب کہ يہ بھی معلوم نہيں کہ وه‬
‫سچ بولتی ہے يا جھوٹ اسے ياد بھی ہے يا نہيں''۔‬
‫اور اس قسم ديگر واقعات جن ميں صحابہ کسی حديث کو تسليم نہ کرنے کے لئے مجبورو‬
‫معذور تھے مگر حقيقت االمر سے ٓ‬
‫نااشنا شخص يہ سمجھتا ہے کہ صحابہ سنت پر عمل نہيں‬
‫کرتے حاالنکہ صحابہ کا دامن اس تہمت سے پاک ہے۔‬
‫اس بات کی ترديد کہ صحابہ خبر واحد پر اعتماد نہيں کرتےتھے ‪:‬‬
‫بعض لوگوں کے نزديک اخبار ٓاحاد اس لئے قابل احتجاج نہيں کہ صحابہ ان کے قبول کرنے ميں‬
‫توقف سے کام ليتے تھے۔ اور ان پر عمل کرنے سے گريز کيا کرتے تھے جمہور علماء کے‬
‫نزديک اخبار ٓاحاد دين ميں حجت ہے‪،‬‬

‫حديث خالفت راشده کے بعد تا اختتام پہلی صدی ہجری‪:‬‬


‫‪١‬۔خالفت راشده کے سياسی حاالت اور فرقوں کا ظہور وشيوع‪:‬‬
‫تعالی عنہ مسند ٓارائے‬
‫ٰ‬ ‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی وفات کے بعد جب صديق رضی ﷲ‬
‫خالفت ہوئے تو بعض قبائل دينی ذمہ داريوں کا جوا اتار کر ٓزاد منش ہوگئے ‪ ،‬چنانچہ بعض‬
‫قبيلے ايسے تھے جنہوں نے زکوة دينے سے انکار کرديا بعض اسالم سے اس لئے منحرف‬
‫ہوگئے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی دين بھی اپنی موت مر چکا‬
‫حتی کہ بعض گمراه شعراء نے اس ضمن ميں اشعار بھی نظم کئے۔‬ ‫ہے ٰ‬
‫تعالی عنہ نے ان حاالت ميں وہی کچھ کيا جس کی ايک غيور و جسور‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫تجربہ کار قائد سے توقع کی جاسکتی ہے‪ ،‬چنانچہ ٓاپ نے اس فتنہ کو سر اٹھاتے ہی کچل ديا اور‬
‫اس کے جراثيم کو بﮍا ہونے سے پہلے ہی ختم کر ديا جو لوگ دين اسالم پر حملہ ٓاور ہوئے تھے‬
‫خائب وخاسر لوٹے اوران کی گردنيں احکام خداوندی کے ٓاگے جھک گئيں حضرت ابو بکر رضی‬
‫تعالی عنہ دو سال اوعرر چند ماه مسند خالفت پر متمکن رہے اس قليل مدت ميں اسالم کا‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫قران عزيز کی جمع وتدوين کا کا رضی ﷲ‬ ‫جھنڈا سر زمين فارس و روم پر لہرانے لگا ٓاپ نے ٓ‬
‫تعالی عنہ نامہ سر انجام ديا اور حديث کے بارے ميں احتياطی اقدامات کئے ۔‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ کو اپنا جانشين منتخب‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫جناب صديق رضی ﷲ‬
‫فرمايا فاروقی عہدميں اسالمی فتوحات کا دائره شماالً جنوبا ً اور شرقا ً غربا ً ہر جانب وسعت پذير‬
‫‪- 55 -‬‬
‫ہوا ۔ ملک شام و مصر اور جزيده اسالمی حکومت کے زير نگين ہوئے ٓاپ دس سال اور چند ماه‬
‫خالفت کے منصب پر فائز رہے ٓاپ کے عہد ميں نہ قوی شخص ٓاپ کے صبرو تحمل کا اميدوار ہو‬
‫سکتا تھا اور نہ کمزور ٓادمی ٓاپ کے عدل و انصاف سے مايوس ره سکتا تھا ٓاپ نے احديث نبويہ‬
‫قران اور حديثيں کم روايت‬‫کو منافقين کی ريشہ دوانيوں سے محفوظ رکھا ٓاپ نے صحابہ کو حفظ ٓ‬
‫کرنے کا مشوره ديا غرض يہ کہ جملہ امور و افعال سنت نبوی کے زير اثر تھے۔‬
‫خالفت فاروقی کے دوران مسلمانوں ميں حد درجہ وحدت اور شيرازه بندی پائی جاتی تھی جب‬
‫تعالی عنہ نے مسند خالفت کو رونق بخشی تو اسالمی فتوحات کا دائره‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت عثمان رضی ﷲ‬
‫قران کريم کی نقليں کروائيں اور ان کو اطراف ملک بھيج کر اس‬ ‫مزيد پھيال ٓاپ نے جمع شده ٓ‬
‫اختالف کا خالتمہ کر ديا جو مسلمانوں کی تفريق کا باعث بننے واال تھا۔‬
‫ٓاپ باره سال تک خالفت کے فرائض سرانجام ديتے رہے پہلے چھ سال کا مل امن وامان اور‬
‫خوش حالی و فارغ البالی ميں گزرے خالفت عثمانی کے نصف ثانی ميں کچھ لوگوں نے ٓاپ پر‬
‫الزام لگايا کہ ٓاپ اپنے اقارب کو کليدی مناصب تفويض کررہے ہيں غير مسلموں نے اس زريں‬
‫موقع سے فائدی اٹھايا اور مسلمانوں کو خليفہ کے بر خالف بغاوت پر ٓاماده کر کے فتنہ کی ٓاگ‬
‫ميں نزاع وجدال پيدا کر کے ملت کا شيرازه پرا‬ ‫بھﮍکائی۔ دراصل ان کا مقصد يہ تھا کہ ملسمانوں ؓ‬
‫گنده کر ديا جائے چنانچہ ان لوگوں نے مختلف سنٹروں کے لوگوں کو حضرت عثما ن رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے خالف برانگيختہ کيا جس کے نتيجہ ميں حضرت عثمان شہادت سے سرفراز‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ سے قصر اسالم کی بنياديں ايسی ہليں کہ پھر انہيں وه‬‫ٰ‬ ‫ہوئے‪،‬شہادت عثمان رضی ﷲ‬
‫استحکام دوباره نصيب نہ ہوسکا ‪،‬ملت اسالمی کی وحدت پاره پاره ہوگئی۔حضرت علی رضی ﷲ‬
‫الی عنہ کی خالفت کو ايک دن بھی امن و‬ ‫تعالی عنہ بے شک خليفہ بن گئے مگر ٓاپ رضی ﷲ تع ٰ‬ ‫ٰ‬
‫سکون کا ميسر نہ ٓايا اور نہ ہی تمام اسالمی بالد ٓاپ کے زير نگيں ہوئے ۔ملک شام شروع سے‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کے زير تسلط تھا جو اب قصاص عثمان رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ہی امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے انکار کر ديا۔چنانچہ دونوں‬‫ٰ‬ ‫دعوی لے کر کھﮍے ہوگئے اور بيعت علی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫کا‬
‫تعالی عنہم مارے‬
‫ٰ‬ ‫کے درميان مہلک لﮍائيوں کا سلسلہ شروع ہواجن ميں کثير صحابہ رضی ﷲ‬
‫گئےبے پناه لﮍائيوں کا سلسلہ جنگ صفين پر جا کر ختم ہوا۔اس جنگ ميں حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے رفقاء ميں ايک فريق نے تحکيم کے فيصلہ کو قبول کر ليا دوسرے انکار پر مصر‬ ‫ٰ‬
‫رہے جس کا نتيجہ يہ ہوا کہ يہ لوگ بھائی بھائی بن کر گئے مگر جب لوٹے تو ايک دوسرے کے‬
‫جانی دشمن تھے۔ جنگ صفين کے بعد ملت اسالميہ تين فرقوں ميں بٹ گئی۔‬
‫‪١‬۔ خوارج‪:‬‬
‫يہ لوگ تحکيم )حکم بنانا‪،‬کسی کو ثالث مقرر کرنا(قبول کرنے کو کفر تصور کرتے تھے ان کا‬
‫تعالی عنہ اور ان کے ہمنوا تحکيم قبول کرنے کی بناء پر‬
‫ٰ‬ ‫کہنا يہ تھا کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫کافر ٹھہرے اس لئے کہ ان کے خيال ميں حکم خداوندی کے سوا کوئی دوسرا نہيں ہو سکتا۔‬
‫‪-٢‬۔شيعہ‪:‬‬
‫تعالی عنہ کا ساتھ دينے کی وجہ سے ان لوگوں کو شيعہ )گروه علی(کہا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی رفاقت ميں تحکيم کے فيصلے کو قبول‬
‫ٰ‬ ‫جانے لگا۔ انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫کر ليا تھا ۔امامت کے بارے ميں يہ خصوصی عقائد رکھتےہيں جو کسی دوسرے فرقے ميں نہيں‬
‫پائے جاتے۔‬
‫‪-٣‬۔جمہور‪:‬‬
‫يہ وه لوگ تھے جو خروج و تشيع دونوں قسم کی بدعت سے ٓالود نہ ہوئے ان کا ايک گروه‬
‫تعالی عنہ کا‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کے ساتھ تھا اور دوسرا امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ہمنوا تھا تيسرا غير جانب دار تھا جو کسی کے ساتھ بھی شريک نہ ہوا۔‬
‫تعالی عنہ کے گروه کے لئے مستقل خطره بن گيا اور ٓاپ‬
‫ٰ‬ ‫خوارج کا گروه حضرت علی رضی ﷲ‬
‫‪- 56 -‬‬
‫تعالی عنہ ان کے ساتھ جنگوں ميں الجھے رہے اس سے حضرت معاويہ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کا لشکر رفاداری ميں بے نظير‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کو مزيد تقويت ملی يوں بھی ٓاپ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬
‫تھا ابھی زياده عرصہ نہ گرنے پايا تھا کہ تين خارجی حضرت علی ‪،‬امير معاويہ‪ ،‬اور عمر بن‬
‫تعالی عنہم کو قتل کرنے کے لئے تيار ہوگيا ۔خوارج سمجھتے تھے کہ تينوں‬ ‫ٰ‬ ‫العاص رضی ﷲ‬
‫اشخاص مسلمانوں کے لئے باعث فتنہ ہيں اس لئے ان کا قلع قمع کرنا ضروری ہے۔حضرت‬
‫تعالی عنہما تو اس شازش سے زنده بچ نکلے مگر‬ ‫ٰ‬ ‫عمرو بن العاص اور امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو شہيد کرنے ميں کامياب ہوگئے۔ ان کو عبدالرحمن بن‬ ‫ٰ‬ ‫خارجی حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ملجم خارجی نے شہيد کر ديا۔‬
‫تعالی عنہ کی شہادت کے بعد اہل کوفہ نے باالتفاق ان کے بيٹے حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی بيعت کر لی ٓاپ چھ ماه چند روز تک مسند خالفت پر فائز رہے بعد‬ ‫ٰ‬ ‫حسن رضی ﷲ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫ازاں مسلمانوں کو خون ريزی سے بچانے کے لئے ‪۴١‬ہجری ميں حضرت معاويہ رضی ﷲ‬
‫عنہ کے حق ميں خالفت سے دستبردار ہوگئے ۔‪ ۴١‬ہجری اسی لئے ''عام الجماعۃ'' کہا جاتا ہے‬
‫تعالی عنہ کی خالفت پر جمع ہوگئے تھے مگر حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫کہ اس سال لوگ حضرت معاويہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے حق ميں خالفت سے دست‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کے امير معاويہ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫حسن رضی ﷲ‬
‫بردار ہونے کے باوجود شيعہ و خوارج کے جذبات فرونہ ہوئے بخالف ازيں دونوں فريق اپنے‬
‫عقائد و نظريات ميں مبالغہ وافراط سے کام ليتے رہے جس کا نتيجہ يہ ہوا کہ يہ دونوں مستقل‬
‫گروه بن گئے اور انہوں نے حديث وفقہ پر خاصا اثر ڈاال اب ہم شيعہ و خوارج ميں سے ہر ايک‬
‫کے متعلق ايک جداگانہ فصل قائم کر کے ان کے مشہور عقائد و تعليمات کا ذکر کريں گے۔ اور‬
‫بتائيں گے کہ انہوں نے حديث نبوی پر کيا اثرات ڈالے۔‬
‫خوارج اور خالفت کے بارے ميں ان کے نطريات‪:‬‬
‫تعالی عنہ کے تحکيم قبول کرنے کی بنا پر ان کے‬ ‫ٰ‬ ‫يہ وہی فرقہ ہے جس نے حضرت رضی ﷲ‬
‫خالف خروج کيا تھا يہ عجيب بات ہے کہ پہلے انہوں نے تحکيم کو قبول کيا اور اسے پسنديدگی‬
‫تعالی عنہ نے اس کو قبول کر نے سے‬ ‫ٰ‬ ‫کی نگاه سے ديکھا تھا جب کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫انکار کر ديا تھا اور اس کے بدترين نتائج سے انہيں ٓاگاه کيا تھا مگر خوارج بضد ہوئے اور‬
‫تعالی عنہ کی بات نہ مانی۔‬ ‫ٰ‬ ‫انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫خوارج کے عام نظريات‪:‬‬
‫خوارج کی رائے ميں خالفت کا انعقاد ٓازادانہ انتخاب سے ہوتا ہے جب امام ايک دفعہ منتخب‬
‫ہوجائے تو وه اس سے نہ دست بردار ہوسکتا ہے نہ کسی کو حکم ٹھہرا سکتا ہے خالفت کا‬
‫تعلق نہ کسی خاص گھرانہ سے ہے اور نہ کسی خاص قبيلہ کے ساتھ قبيلہ قريش کی بھی اس‬
‫ميں کچھ تخصيص نہيں خوارج کے نزديک کافر وفاسق دونوں ميں کچھ فرق نہيں بخالف ازيں‬
‫جو شخص بھی حدود ﷲ سے تجاوز کرتا ہے وه فاسق ہے اور فاسق ان کے نزديک کافر ہے اس‬
‫کی وجہ يہ ہے کہ خوارج کی رائے ميں عمل جزوايمان ہے اس لئے کبائر کا ارتکاب کرنے واال‬
‫ان کی نگاه ميں کافر ہے۔‬
‫تعالی عنہما کی خالفت کو تسليم کرتے تھے اس لئے کہ‬ ‫ٰ‬ ‫خوارج حضرت ابو بکر و عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی خالفت کے ابتدائی سالوں‬ ‫ٰ‬ ‫ان کا انتخاب صحيح طور پر تھا ۔ حضرت عثمان رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہما‬
‫ٰ‬ ‫کو وه درست تسليم کرتے تھے کيونکہ ان ميں وه حضرت ابو بکر و عمر رضی ﷲ‬
‫کی استوار کرده راه پر گامزن رہے۔ جب ٓاپ نے اپنے اقارب کو کليدی مناصب تفويض کئے تو‬
‫تعالی عنہ کی خالفت بقول خوارج تحکيم‬ ‫ٰ‬ ‫خوارج ٓاپ کے خالف بھﮍک اٹھے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫کو قبول کرنے تک درست تھی جب ٓاپ نے جنگ صفين ميں اپنے اور امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫عنہ کے درميان حکم مقرر کر لئے تو کافر ٹھہرے )نعوذبا من ذالک(۔خوارض اس کی دليل يہ‬
‫تعالی عنہ نے خدا کے دين ميں اشخاص و رجال کو حکم‬ ‫ٰ‬ ‫ديتے تھے کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی کا کام ہے وه اس کی دليل ميں يہ ٓايت پيش‬‫ٰ‬ ‫بنايا۔ حاالنکہ فيصلہ صادر کرنا تو صرف ﷲ‬
‫‪- 57 -‬‬
‫کرتے تھے۔‬
‫''ومن لم يحکم بما انزل ﷲ فاولئک ھم الکافرون'')المائده‪(۴۴:‬‬
‫''اور جوخدا کے نازل کرده احکام کے مطابق فيصلہ نہ کريں وه کافر ہيں''‬
‫تعالی عنہ خوارج کی نگاه ميں جبراً خالفت پر قابض ہوئے تھے اور اس‬ ‫ٰ‬ ‫امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے ساتھ‬ ‫ٰ‬ ‫لئے غاصب تھے ان کا زاويہ نگاه يہ تھا کہ جو شخص امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہما سے بيزاری کا اظہار نہ کرے وه‬ ‫ٰ‬ ‫تعاون کرے اور حضرت عثمان و علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ اور ان کے ہمنوا اور اسی طرح‬ ‫ٰ‬ ‫کافر اور مباح الدم ہے۔ بنابريں حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ اور جو‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ اور ان کے رفقاء نيز حضرت عثمان رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫شخص بھی ان تمام لوگوں سے اظہار براءت نہيں کرتا خوارج کی رائے ميں کافر اور مباح الدم‬
‫ہے۔‬
‫نظراتا ہے کہ خوارج دراصل درشت طبع اور سنگدل قسم کے بدوی لوگ تھے اسی قسم‬ ‫ٓ‬ ‫کچھ يوں‬
‫ٓ‬
‫کے لوگوں کے بارے ميں قران نے کہا ہے۔‬
‫''االعرب اشد کفرا ونفاقا واجدراال ﯾعلموا حدود ما انزل ﷲ علی رسولہ'')التوبہ‪(٧٩:‬‬
‫''بدوی لوگ کفر ونفاق ميں نہايت سخت ہيں اور اس الئق ہيں کہ جو چيز ﷲ نے اپنے رسول‬
‫)صلی ﷲ عليہ والہ وسلم ( پر اتاری ہے اس کی حدود سے ٓاگاه نہ ہوں''۔‬
‫تعالی عنہم جو نور نبوت سے مستنيرہوئے تھے اور جنہوں نے صحيح طور‬ ‫ٰ‬ ‫صحابہ رضی ﷲ‬
‫قران کريم کا فہم و ادراک حاصل کيا تھا ان ميں سے کوئی بھی خوارج ميں موجود نہ تھا‬ ‫سے ٓ‬
‫قران عزيز ميں‬ ‫قران سے دھوکہ کھا جانا کچھ عجب نہيں اور اگر وه ٓ‬ ‫اس لئے خوارج کا ظواہر ٓ‬
‫فکر ونظر کی زحمت گوارا کرتے تو انہيں ايسی ٓايا ت ضرور مل جاتيں جن ميں حکم بنانے کی‬
‫ہدايت کی گئی ہے ً ٓ‬
‫مثالقران حکيم ميں فرمايا‪:‬‬
‫''فابعثو حکما من اھلہ وحکما من اھلھا ان ﯾرﯾدا اصالحا ﯾوفق ﷲ بينھا'')النساء‪(٣۵:‬‬
‫''پس ايک ثالث خاوند کے گھر والوں ميں سے بھيجو اور ايک ثالث بيوی کے گھر والوں ميں‬
‫تعالی ان کو توفيق سے ہمکنار کردے گا''۔‬ ‫ٰ‬ ‫سے اگر وه اصالح کا اراده کريں گے تو ﷲ‬
‫اس ٓايت سے مستفاده ہوتا ہے کہ کسی شخص کو فيصلہ کرنے کے لئے ثالث بنانا جائز ہے اور‬
‫قران کريم ہی کی روشنی ميں فيصلہ صادر کريں‬ ‫جن دوشخصوں کوحکم )ثالث(بنايا جائے گا وه ٓ‬
‫گے نيز فرمايا‪:‬‬
‫''فان تنازعتم فی شیء فردوه الی ﷲ والرسول'')النساء‪(۵٩:‬‬
‫''اگر کسی بات ميں تمہارے يہاں نزاع پيدا ہوجائے تو اسے ﷲ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا‬
‫دو''۔‬
‫فقہالخوارج‪:‬‬
‫خوارج حديث نبوی سے بالکل بيگانہ تھے وه دوسرے مسلمانوں سے حديث کی نقل وروايت اس‬
‫لئے نہيں کرتے تھے کہ وه ان کے نزديک جھوٹے تھے يہی وجہ ہے کہ خوارج کی فقہ نہ‬
‫قرانی سے بھی متصادم ہے فقہ خوارج کے چند‬ ‫صرف شرعی احکام کے خالف بلکہ نصوص ٓ‬
‫مسائل مالحظہ ہوں۔‬
‫حتی کہ جو شخص کنويں کے‬ ‫‪١‬۔بعض خوارج کے نزديک تيمم ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے ٰ‬
‫نزديک بيٹھا ہو وه بھی تيمم کر سکتا ہے۔‬
‫‪٢‬۔نماز جو مسلمانوں پر فرض ہے وه صرف اتنی ہے کہ ايک رکعت فجر کو اور ايک رکعت عشاء‬
‫کے وقت پﮍھ لی جائے۔‬
‫‪٣‬۔ حج سال بھر کے تمام مہينوں ميں کيا جاسکتا ہے۔‬
‫‪۴‬۔غير خوارج کے بچے اور ان کی عورتيں بھی مباح الدم ہيں۔‬
‫‪۵‬۔دختردرازی اور پوتی کے ساتھ نکاح جائز ہے۔‬
‫قرانی نصوص سے ٓاشنانہ تھے۔ اس‬ ‫خوارج کے يہ فقہی مسائل اس امر کے ٓائينہ دار ہيں کہ وه ٓ‬
‫‪- 58 -‬‬
‫جہالت کی بﮍی وجہ يہ ہے کہ خوارج عام مسلمانوں کی روايت کرده احاديث کو تسليم نہيں کرتے‬
‫قران کے صحيح فہم و ادراک‬ ‫تھے حاالنکہ وه سنت رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم اور ٓ‬
‫دونوں سے کورے تھے مگر يہ بات تمام خوار پر صادق نہيں ٓاتی بالشبہ متاخرين خوارج ميں‬
‫بﮍے بﮍے محدثين و فقہاء پيدا ہوئے اور بقول ابن الصالح امام بخاری جيسے نقاد حديث نے ان‬
‫کی نقل و روايت کو بنظر استحسان ديکھا مثالً امام بخاری عمران بن حطان کی مرويات سے‬
‫احتجاج کرتے ہيں اس کی ايک وجہ يہ بھی تھی کہ خوارج کے نزديک جھوٹ بولنا کفر کے‬
‫مترادف ہے کيونکہ کبيره کا مرتکب ان کے نزديک کافر ہے اور کذب بھی کبائر ميں شامل ہے۔‬
‫خوارج اور وضع حديث‪:‬‬
‫ايک طرف تو خوارج کا ذب کو کافر قرار ديتے تھے اور دوسری جانب ان ميں ايسے لوگ بھی‬
‫پائے جاتے تھے جو اپنے باطل عقائد کی ترويج واشاعت کے لئے حديثيں وضع کر کے ان کو‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی جانب منسوب کر ديا کرتے تھے محدث ابن الجوزی اپنی‬
‫کتاب الموضوعات کے مقدمہ ميں ابن لہيعہ سے روايت کرتے ہيں کہ ايک خارجی نے وضع‬
‫الحديث سے توبہ کرلی تھی اور وه کہا کرتا تھا کہ ''يہ احاديث دين کا سر چشمہ ہيں اس لئے ذرا‬
‫ديکھ ليا کرو تم کس شخص سے اپنا دين اخذ کر دہے ہو ہماری حالت تو يہ تھی کہ جس بات کو‬
‫پسندکرتے اس کے متعلق حديث گھﮍ ليا کرتے تھے''۔)موضوعات ابن الجوزی(‬
‫مشہور محدث عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہيں کہ لوگوں نے اس بات کو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬
‫والہ وسلم کی جانب منسوب کر رکھا ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے فرمايا جب‬
‫تمہيں ميری کوئی حديث ملے تو اسے کتاب ﷲ پر پرکھ ليا کرو۔ اگر کتاب ﷲ سے ہم ٓاہنگ ہو تو‬
‫اسے ميری بيان کرده حديث ہی سمجھو حاالنکہ اس کو خوارج اور زنادقہ نے وضع کر کے‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی جانب منسوب کر ديا ہے حقيقت يہ ہے کہ ايک ظاہر پرست‬
‫اور عام اہل اسالم کی مرويات کو ٹھکرادينے والی قوم سے يہ بات کچھ بعيد نہيں مگر اس ميں‬
‫شبہ نہيں کہ خوارج کی ساختہ پر داختہ احاديث شيعہ موضوعات کے مقابلہ ميں نہايت کم ہيں اس‬
‫کی تين وجوه ہيں ۔‬
‫‪١‬۔خوارج کا ذب کی تکفير کرتے تھے اس لئے کذب ان ميں بہت کم پايا جاتا ہے ۔‬
‫‪٢‬۔چونکہ خوارج غير مہذب اور درشت طبع قسم کے ديہاتی لوگ تھے اس لئے ديگر اقوام مثالً‬
‫ايرانيوں اور يہوديوں کو اپنی قوم ميں سمونے کے لئے تيار نہ تھے بخالف ازيں عجمی لوگ‬
‫شيعہ ميں گھس ٓائے تھے اور انہوں نے بکثرت احاديث وضع کی تھيں ۔‬
‫‪٣‬۔خوارج اپنے اعداء وخصوم کے مقابلہ ميں اپنے اسلحہ اور قوت و شجاعت سے کام لينے کے‬
‫عادی تھے وه شيعہ کی طرح تقيہ سے ٓاشنا نہ تھے بلکہ اعالنيہ اپنے عقائد کا اظہار پوری بے‬
‫باکی سے کرتےتھے اس لئے وه اپنے دشمنوں کو نيچا دکھانے کے لئے جھوٹ کا سہارا نہيں‬
‫ليتے تھے کيونکہ وه ان کی نگاه ميں کافر تھے اور کفر سے بﮍھ کر عيب و نقص اور کيا‬
‫ہوسکتا ہے؟وه تلوار کے دھنی تھے اور بالمحابا اسے استعمال کرتےتھے۔‬
‫مندجہ صدر عوامل ومحرکات کے پيش نظر ديگر فرقہ ہائے اسالمی کے مقابلہ ميں خوارج کے‬
‫يہاں حديث ميں دروغ گوئی کی قلت پائی جاتی ہے تاہم يہ نہيں کہا جا سکتا کہ خوارج کا دامن‬
‫وضع حديث کی ٓالودگی سے پاک ہے۔ بالشبہ ان ميں حديثيں وضع کرنے والے موجود تھے يہ‬
‫دوسری بات ہے کہ ان کی تعداد کم تھی۔‬
‫شيعہ اور ان کے افکار و معتقدات‪:‬‬
‫تعالی عنہ يا کسی اور کے‬‫ٰ‬ ‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی رضی ﷲ‬
‫حق ميں خالفت کی وصيت نہيں فرمائی تھی کسی صحيح حديث ميں وارد نہيں ہوا کہ ٓاپ نے‬
‫تعالی عنہ کو خليفہ مقرر کيا تھا ۔اسی طرح کسی روايت صحيحہ سے ثابت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫دعوی کيا تھا اور اگر حضرت علی‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے خود بھی اس کا‬
‫ٰ‬ ‫نہيں کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو اس قسم کی وصيت کا علم ہوتا تو يہ ممکن نہ تھا کہ ٓاپ صحابہ سے اس‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫‪- 59 -‬‬
‫کا ذکر نہ فرماتے جو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی وصيت نافذ کرنے ميں ذرا بھی ليت‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے بالترتيب حضرات ابو بکر رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ولعل نہ کرتے بخالف ازيں علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہم کی خالفت کو تسليم کيا اور ان کے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ عثما ن رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫عنہ عمر رضی ﷲ‬
‫دست حق پر بيعت کی تھی ۔‬
‫تعالی عنہم کا خيال‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کا بنيادی نقطہ يہ ہے کہ چند صحابہ رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫شيعان علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ بوجوه رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے بعد ٓاپ کے‬ ‫ٰ‬ ‫تھا کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ عم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫جانشين ہيں ايک تو اس لئے کہ حضرت عباس رضی ﷲ‬
‫والہ وسلم کے بعد ٓاپ کے قريبی رشتہ دار ہيں دوسرے يہ کہ ٓاپ سابق االسالم تھے اور غزوه‬
‫بدر اور ديگر غزوات ميں شرکت کرچکے تھے ‪،‬تيسرے يہ کہ ٓاپ جگر گوشہء رسول ﷲ صلی‬
‫تعالی عنہا کے خاوند تھے ۔ حضرت علی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ عليہ والہ وسلم فاطمۃ الزہره رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ ميں موجود جو ديگر فضائل اور اوصاف پائے جاتے تھے وه اس پر مزيد ہيں مثالً يہ‬ ‫ٰ‬
‫کہ ٓاپ حد درجہ شجاع اور اس کے ساتھ ساتھ مفتی اور قاضی بھی تھے اس ميں ٓاپ کو ضرب‬
‫المثل کی حد تک شہرت حاصل تھی۔‬
‫تعالی عنہ متاخر االسالم‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کے مقابلہ ميں حضرت عباس رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تھے ٓاپ فتح مکہ کے دن حلقہ بگوش اسالم ہوئے غزوه بدر ميں قريش مکہ کی امداد کے لئے‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫حاضر ہوئے تھے ‪،‬مزيد براں وه ان خصوصيات سے عاری تھے جو جناب علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے اعوان و انصار نے ملت کے‬ ‫ٰ‬ ‫عنہ کا طره امتياز تھيں۔ مگر حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے فضائل کا اظہار نہ‬ ‫ٰ‬ ‫شيرازه کو پراگند گی سے بچانے کےلئے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی بيعت کر لی اسی طرح وه جناب فاروق اعظم رضی‬ ‫ٰ‬ ‫کيا اور حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی بيعت سے بھی پيچھے نہ رہے۔ جب حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ عثمان غنی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی شہادت سے امت ميں فتنہ بازی کا ظہور ہوا تو شيعان علی رضی‬ ‫ٰ‬ ‫عثما ن رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے باصرار ان کو خالفت کی زمہ داريا ں ان کو سنبھالنے کے لئے ان کو کہا جس‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ کا مطالبہ لے کر کھﮍے‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ قصاص عثمان رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫وقت امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے درميان لﮍائيوں کا طويل سلسلہ شروع‬ ‫ٰ‬ ‫ہوئے تو ان کے اور حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ہو گيا جس کا سلسلہ جنگ صفين پر جاکر ختم ہوا۔جنگ صفين کے بعد شيعی فکر نے ايک نيا رخ‬
‫بدال اور بکثرت زنادقہ منافقين اور ارباب بدعت و اہواء دين ميں فساد و بگاڑ پيدا کرنے کے لئے‬
‫تعالی عنہ کے اعوان و انصار کے ساتھ مل گئے ۔ يہ لوگ ٓاگے چل کر‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫شيعہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ان لوگوں نے کہنا شروع کيا کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫عنہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی وصيت پر خالفت کا اولين استحقاق رکھتے ہيں ‪،‬يہ‬
‫تعالی عنہ کو وصی کہا کرتے تھے ‪،‬ان کا زاويہ نگاه يہ تھا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫لوگ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی وفات کے بعد خالفت کا حق ان کے بيٹوں کو پہنچتا ہے اور‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫جو شخص ان کو ان کے جائز حق سے محروم دکھتا ہے وه غاصب وظالم ہے۔ اسی عقيده کے‬
‫تعالی عنہما( کی شان ميں گستاخی‬
‫ٰ‬ ‫زير اثر وه جناب شيخين)حضرت ابو بکرو عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کا حق غصب کياہے۔ حضرت علی‬ ‫ٰ‬ ‫کرنے لگے کہ انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہما‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کے بعد پھر وه حضرت حسن اور پھر حضرت حصين رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫کی خالفت کے قائل تھے حضرت حصين کی شہادت کے بعد وه مختلف الرائے تھے کہ خالفت کا‬
‫حقدار کون ہے؟ شيعہ کی ايک جماعت کے مطابق خالفت کے مستحق حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی اوالد ميں سب سے بﮍے بيٹے محمد بن حنفيہ تھے۔ جب کہ دوسرا گروه خالفت کو‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہا کی اوالد ميں محدود قرار ديتا تھا۔ اور اس اعتبار سے حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت فاطمہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے بعد ان کے بيٹے علی زين العابدين کو مستحق خالفت قرار ديتا تھا‬ ‫ٰ‬ ‫حسين رضی ﷲ‬
‫پھر زين العابدين کے بعد ان کے بہٹے محمد الباقر ‪،‬امام باقر کی وفات کے بعد شيعہ کے يہاں پھر‬
‫اختالف رونما ہوا شيعہ کی ايک جماعت زيد بن علی کے حق ميں تھی جن کو زيد يہ کہا جاتا ہے۔‬
‫‪- 60 -‬‬
‫بخالف ازيں دوسرا گروه محمد باقر کے بيٹے جعفر صادق کو مستحق خالفت خيال کرتا تھا ۔‬
‫شيعہ کے تمام فرقوں ميں زيد يہ فرقہ اعتدال پسند اور مبالغہ ااميزی سے پاک تھا يہ شيخين‬
‫تعالی عنہ ميں‬
‫ٰ‬ ‫سے اظہار براءت نہيں کرتے تھے ان کے خيال ميں خالفت اوالد علی رضی ﷲ‬
‫لی عنہا کے بطن اطہر سے ہو ۔ ان کے نزديک امام کا‬ ‫محدود ہے جو حضرت فاطمہ رضی ﷲ تعا ٰ‬
‫تعين اس طرح ہوتا ہے کہ اس کے اوصاف بيان کردئے جائيں ‪،‬نام لے کر امام کا تعين نہيں کيا‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫جاتا امام جعفر صادق کے متبع بھی يہی عقيده رکھتے ہيں چنانچہ اوالد علی رضی ﷲ‬
‫ميں سے جو بھی اوصاف امامت کے ساتھ متصف ہو اس کی تائيد و حمايت ان پر واجب ہے بہر‬
‫کيف شيعہ تين بﮍے بﮍے فرقوں ميں بٹ گئے۔‬
‫‪١‬۔کيسانيہ‪:‬يہ محمد بن حنفيہ کی امامت کا عقيده رکھتے ہيں ۔‬
‫‪٢‬۔اماميہ جعفريہ‪:‬يہ امام جعفر صادق کو امام سمجھتے ہيں۔‬
‫‪٣‬۔اماميہ زيديہ‪:‬يہ حضرت زيد بن علی بن حسين کی امامت کے قائل ہيں۔‬
‫‪١‬۔رجعت‪:‬‬
‫تعالی عنہ فوت نہيں ہوئے بلکہ وه زنده مگر‬ ‫ٰ‬ ‫شيعہ عقيده رکھتے ہيں کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫پوشيده ہيں وه لوٹ کر ٓائيں گے اور جس طرح زمين ظلم و جور سے بھر گئی ہے اسی طرح‬
‫اسے عدل وانصاف سے معمور کرديں گے۔ شيعہ کا فرقہ کيسانيہ اس بات کا معتقد ہے کہ امام بن‬
‫رضوی کے پہاڑوں پر زنده موجود ہيں ان کی ايک جانب شير اور دوسری جانب چيتا ہے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫حنفيہ‬
‫فرشتے ان سے ہم کالم ہوتے ہيں صبح وشام ان کے پاس بافراغت رزق ٓاتا ہے وه اس وقت تک‬
‫موت سے ہمکنار نہ ہوں گے جب تک وه زمين کو عدل وانصاف سے بھر نہ ديں۔ جس طرح وه‬
‫ظلم وه جور سے پر ہوچکی ہے۔‬
‫‪٢‬۔نبوت‪:‬‬
‫تعالی عنہ رسول ﷲ صلی‬ ‫ٰ‬ ‫شيعہ کے بعض فرقے يہ عقيده رکھتے ہيں کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ﷲ عليہ والہ وسلم کے بعد نبوت کے منصب پر فائز تھے بعض شيعہ کا خيال ہے کہ جبرئيل‬
‫غلطی سے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی جانب رسالت کا پيغام الئے دراصل انہيں‬
‫تعالی عنہ کی جانب بھيجا گيا تھا اس کی وجہ يہ تھی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے ملتی جلتی تھی بعض شيعہ اس‬ ‫ٰ‬ ‫عليہ والہ وسلم کی شکل حضرت علی رضی ﷲ‬
‫غلطی کی وجہ سے حضرت جبريل عليہ السالم کو لعنت مالمت کا مستحق گردانتے بلکہ ان کی‬
‫تکفير بھی کرتے ہيں۔‬
‫‪٣‬۔ الوھيت‪:‬‬
‫تعالی عنہ کے قائل ہيں‬
‫ٰ‬ ‫شيعہ ميں سے ابن سبا حميری کے اتباع واعوان الوہيت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی خدمت ميں حاضر ہوکر کہا تھا‬ ‫ٰ‬ ‫کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے فرمايا کيا مطلب؟کہنے لگے ''ٓاپ الہ‬‫ٰ‬ ‫''ٓاپ ہی وہی ہيں''حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے يہ سن کر تعجب کيا اوران کو ٓاگ ميں جھونک ديا شيعہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہيں''حضرت علی رضی ﷲ‬
‫کا ايک فرقہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی الوہيت کا عقيده رکھتا ہے۔‬
‫‪۴‬۔تقيہ‪:‬‬
‫تقيہ کے معنی بچاؤ حاصل کرنے اور پوشيده رہنے کے ہيں ‪،‬شيعہ کی يہ عادت تھی کہ جو‬
‫شخص مسند اقتدار پر فائز ہوتا اس کی اطاعت کرتے اور جو امام بقول ان کے پوشيده ہے اس کا‬
‫حال اصحاب اقتدار پر ظاہر نہ ہونے ديتے پوشيده طور پر اپنی دعوت و تبليغ کا کام بھی جاری‬
‫رکھتے جب ان کے اعوان وانصار کی تعداد کافی ہوجاتی تو انقالب برپا کرنے کے لئے قوت‬
‫حاکمہ کے خالف بر سر پيکار ہو جاتے شيعہ کے نزديک تقيہ ايمان کا ايک الزمی جزو ہے باطل‬
‫قران کريم کی ٓايات سے ثابت کرنے کی سعی الحاصل بھی‬ ‫تاويالت کا سہارا لے کر وه اس کو ٓ‬
‫کرتے ہيں مثالً ٓ‬
‫قران کريم ميں فرمايا‪:‬‬
‫''اولئک ﯾوتون اجرھم مرتين بما صبروا''‬
‫‪- 61 -‬‬
‫''ان لوگوں کو دگنا اجر ديا جائے گا کہ انہوں نے صبر کيا''۔‬
‫شيعہ کے نزديک صبر سے مراد اس ٓايت ميں تقيہ پر صبر کرنا مراد ہے۔‬
‫حديث نبوی پر تشيع کے اثرات‪:‬‬
‫شيعہ کے اکثر عقئد و افکار اس قسم کے ہين کہ ان کی موجودگی ميں شيعہ کے کفر ميں شک‬
‫وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہيں رہتی مثالً شيعہ کا يہ عقيده کہ ﷲ کی ذات حضرت علی رضی‬
‫تعالی عنہ رسول ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ ميں حلول کر ٓائی ہے ‪،‬يا يہ عقيده کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے بعد نبوت کے منصب پر فائز تھے اسی طرح شيعہ ٓ‬
‫قران کريم کی‬
‫قران عزيز کے ستر بطن ہيں۔‬‫تاويالت باطلہ کرتے اور کہتے ہيں کہ ٓ‬
‫شيعہ کی دروغ بافی‪:‬‬
‫ان شيعہ نما اعدائے دين نے اپنے اپنے اغراض مقاصد اور اپنے عقائد و نظريات کی تائيد ميں‬
‫حديثيں وضع کرنا شروع کرديں ۔ ان وضع کرده احاديث کا تعلق زياده تر حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی قدر و منزلت اور امير معاويہ کی تنقيرو تنقيص کے ساتھ ہے ‪،‬چنانچہ موضوعات‬ ‫ٰ‬
‫پر مشتمل کتب ايسی احاديث سے مملو ہيں۔ مثال کے طور پر ہم امام جالل الدين سيوطی کی کتاب‬
‫''الالنی المصنوعہ فی االحاديث''سے چند احاديث نقل کرتےہيں۔‬
‫تعالی عنہ کا بغض ہو تو يہودی مرتا‬‫ٰ‬ ‫‪١‬۔جو شخص مرجائے اور اس کے دل ميں علی رضی ﷲ‬
‫ہے يا نصرانی۔‬
‫تعالی عنہ !ميں تجھے نبوت کے ساتھ مختص کرتا ہوں۔ حاالنکہ ميرے بعد‬ ‫ٰ‬ ‫‪٢‬۔اے علی رضی ﷲ‬
‫کوئی نبی نہيں ہوگا‪ ،‬سات باتوں کی بناء پر لوگ تجھ سے عداوت رکھيں گے ‪،‬اور قريش ميں‬
‫‪،‬اپ‬‫سے کوئی بھی ٓاپ کے ساتھ جھگﮍا نہ کر سکے گا‪ٓ ،‬اپ قريش ميں سب سے پہلے ايما الئے ٓ‬
‫خدا کے عہد کو پورا کرنے ولے اور خدا کے حکم پر سب سے زياده قائم رہنےوالے ہيں۔)يہ‬
‫طويل حديث ہے(‬
‫‪٣‬۔ ميرے بعد ايک فتنہ بپا ہوگا ‪ ،‬اگر تم ميں سے کوئی اسے پالے تو دو چيزوں کو ہاتھ سے نہ‬
‫جانے دے ‪،‬ايک کتاب ﷲ اور دوسرا علی بن ابی طالب‪ ،‬اس حديث کے ٓاخر ميں ہے کہ علی رضی‬
‫تعالی عنہ ميرے بعد جانشين ہوں گے۔‬
‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫‪۴‬۔ ہر بنی کا ايک وصی ہوتا ہے ميرے وارث اور وصی علی ہيں۔‬
‫‪۵‬۔ جب رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم مرض وفات ميں مبتالء ہوئے تو ٓاپ کے پاس حضرت‬
‫تعالی عنہا موجود تھيں ٓاپ نے فرمايا ''ميرے‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا و حفصہ رضی ﷲ‬‫ٰ‬ ‫عائشہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو کہال بھيجا اور وه تشريف‬ ‫ٰ‬ ‫دوست کو بالؤ''ان دونوں نے حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫الئے اور سالم کر کے بيٹھ گئے ۔ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے کچھ نہ فرمايا چنانچہ‬
‫عالی عنہ اٹھ کر چلے گئے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے پھر دونوں‬ ‫ابو بکر رضی ﷲ ت ٰ‬
‫تعالی عنہ کو بالليا ٓاپ‬
‫ٰ‬ ‫کو حکم ديا کہ ميرے دوست کو بالؤ اب انہوں نے حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫ٓائے اور سالم کر کے بيٹھ گئے ليکن رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے انہيں کچھ نہ کہا جب‬
‫تعالی عنہ چلے گئے تو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے پھر فرمايا ميرے‬ ‫ٰ‬ ‫عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو باليا ٓاپ ٓائے اور سالم کر کے‬
‫ٰ‬ ‫دوست کو بالؤ اب انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہما دونوں کو‬
‫ٰ‬ ‫بيٹھ گئے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے عائشہ و حفصہ رضی ﷲ‬
‫چلے جانے کا حکم ديا۔ اور وه چليں گئيں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے فرمايا علی‬
‫تعالی عنہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ !کاغذ اور دوات الئيے چنانچہ ٓاپ لکھوتے اور علی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫لکھتے گئے حضرت جبرائيل گواه قرار پائے پھر کاغذ لپيٹ لئے گئے راوی کا بيان ہے کہ‬
‫دعوی کرے کہ ميں صحيفہ‬ ‫ٰ‬ ‫لکھنے لکھوانے اور شہادت دينے والے کے سوا اگر کوئی شخص‬
‫ميں درج کرده مضمون سے واقف ہوں اس کی بات تسليم نہ کيجئے۔)الاللی المصنوعہ ج ‪١‬ص ‪٣٢٣‬تا ‪(٣۶٧‬‬
‫تعالی عنہ کے وصی‬‫ٰ‬ ‫اور اس قسم کی ديگر احاديث موضوعہ جن ميں حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ہونے يا ان کی خالفت ونبوت کا اثبات ہوتا ہے۔‬
‫‪- 62 -‬‬
‫تعالی عنہ کی جانب سے شيعی اکاذيب کی ترديد‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے وصی بالخالفت ہونے کا معاملہ خود ان‬ ‫ٰ‬ ‫يوں نظر ٓاتا ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ‬
‫کے زمانہ ميں بھی مشہور ہو چکا تھا چنانچہ بعض صحابہ نے اس ضمن ميں حضرت علی رضی‬
‫تعالی عنہ سے دريافت بھی کيا تھا ٓاپ نے جواب ميں فرمايا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫وسلم نے خالفت سے متعلق ميرے حق ميں کوئی وصيت نہيں فرمائی۔‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ بيان کرتے ہيں کہ ميں نے حضرت علی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو جحيفہ رضی ﷲ‬
‫عنہ سے پوچھا کہ ٓاپ کے پاس کوئی تحريری دستاويز ہے؟ فرمايا نہيں ايک روايت يوں ہے کہ‬
‫اس ذات کی قسم جس نے دانے کو اگايا اور روحوں کو پيدا کياميرے پاس کوئی تحرير نہيں ہے‬
‫تعالی کسی مسلم کو عطال کر دے ‪ ،‬البتہ ميرے‬ ‫ٰ‬ ‫صرف ﷲ کی کتاب يا فہم و ادراک جو خدا وند‬
‫پاس ايک رسالہ ہے ميں نے پوچھا اس رسالے ميں کيا ہے؟ فرمايا اس ميں ديت کے احکام اور‬
‫قيديوں کو ٓازاد کرنے سے متعلق مسائل مندرج ہيں نيز يہ کی کسی مسلم کو کافر کے بدلہ ميں‬
‫قتل نہيں کيا جائے گا۔)بخاری کتاب العلم(‬
‫تعالی عنہ نے حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫مندرجہ صدر حديث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو جحيفہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے پوچھا تھا کہ کيا ٓاپ کو اسرار وحی سے کوئی ايسا راز بھی بتايا‬ ‫ٰ‬ ‫علی رضی ﷲ‬
‫گيا تھا جس کا علم دوسروں کو نہ ہو؟ اس سوال کی وجہ يہ ہو سکتی ہے کہ ابو جحيفہ رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے وصيت وخالفت کے بارےميں لوگوں کی زبانی کچھ باتيں سنی ہوں گی۔ جب انہوں‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ سے دريافت کی تو ٓاپ نے صريحا اس سے انکار کيا‬ ‫ٰ‬ ‫نے يہ بات حضرت علی رضی ﷲ‬
‫بلکہ ايک روايت کے مطابق حلف بھی اٹھايا ۔ ٓاپ نے استثنا کے طور پر جس رسالہ کا ذکر کيا‬
‫ہے اس کا شيعی عقائد کے ساتھ کچھ تعلق نہيں يہ روايت متعدد طرق سے مروی ہے اور بعض‬
‫ميں کچھ زائد الفاظ بھی ہيں مگر کسی روايت ميں مذکور نہيں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ‬
‫تعالی عنہ کے حق ميں وصيت فرمائی تھی يا حضرت علی رضی‬ ‫ٰ‬ ‫وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کو کوئی خصوصی راز بتايا تھا۔ )فتح الباری کتاب العلم ج ‪١‬ص‪(١٨٢‬‬ ‫ٰ‬ ‫ﷲ‬
‫تعالی عنہ سے نقل کی‬ ‫ٰ‬ ‫اس کی دليل وه روايت بھی ہے جو ابن عساکر نے حضرت حسن رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کوفہ ٓائے تو ابن الکواء اور قيس بن عباده نے ان‬ ‫ٰ‬ ‫ہے کہ جب حضرت علی رضی ﷲ‬
‫کی خدمت ميں حاضر ہوکر پوچھا ذرا يہ بتائيے کہ مسلمانوں کے خلفہ بن کر ٓاپ يہ سفر طے کر‬
‫رہے ہيں اور مسلمانوں کو باہم لﮍارہے ہيں کيا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے ٓاپ کے‬
‫ساتھ کوئی عہد کيا ہے؟ اگر کياہے تو بتائيے ہم ٓاپ کی بات مان ليں گے اس لئے کہ ہم ٓاپ پر‬
‫اعتماد کرتے اور ٓاپ کو راست باز اور امين سمجھتے ہيں۔‬
‫تعالی عنہ نے اس کے جواب ميں فرمايا جہاں تک رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫والہ وسلم کے عہد کا تعلق ہے اس کا جواب نفی ميں ہے ٓاپ نے ميرے ساتھ کوئی عہد نہيں کيا‬
‫ميں ٓاپ پر سب سے پہلے ايمان اليا تھا اب ٓاپ پر جھوٹ باندھنے ميں پہل کيسے کر سکتا ہوں ؟‬
‫اگر مجھ سے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے کوئی عہد کيا ہوتا تو ميں ابو بکر و عمر کو‬
‫منبر رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم پر کيوں کھﮍا ہونے ديتا؟ اگر ميرے پاس ميری چادر کے‬
‫سوا اور کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ميں ان دونوں کے خالف جنگ ٓازما ہوتا مگر بات يہ ہے کہ‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نہ قتل ہوئے نہ اچانک فوت ہوئے بخالف ازيں ٓاپ نے حالت‬
‫مرض ميں چند دن اور راتيں بسر کيں مؤذن ٓاپ کے پاس حاضر ہوکر نماز کی اطالع ديتا اور ٓاپ‬
‫تعالی عنہ کو نماز پﮍھانے کا حکم ديتے حاالنکہ ميں اس وقت موجود‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫ہوتا تھا جب ازواج مطہرات ميں سے ايک نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کو ابو بکر‬
‫تعالی عنہ کو امام مقررنہ کرنے کا مشوره ديا تو ٓاپ نہ مانے اور ناراض ہوئے ٓاپ نے‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ﷲ‬
‫فرمايا)تم ان عورتوں کی طرح ہو جو حضرت يوسف کو بہکارہی تھيں(‬
‫تعالی عنہ نے کہا کہ جب رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے سفر‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫ٓاخرت فرمايا تو ہم نے اپنے معامالت پر غور فرمايا اور جس شخص کو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ‬
‫‪- 63 -‬‬
‫والہ وسلم نے ہمارے دينی امور کے لئے منتخب کيا تھا ہم نے اس کو دنيوی امور کے لئے‬
‫)خالفت (جن ليا اس ميں شبہ نہيں کہ نماز اسالم کی اصل واساس اور دين کا ستون ہے چنانچہ ہم‬
‫تعالی عنہ کی بيعت کر لی جس کے وه ہر لحاظ سے اہل تھے ہم ميں سے‬ ‫ٰ‬ ‫نے ابو بکر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ نے وفات‬ ‫ٰ‬ ‫دو ٓادميوں نے بھی اس ميں اختالف نہيں کيا جب حضرت ابو بکر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ ٓاپ کے جانشين قرار پائے اور ان کی ہموار کرده راه پر گامزن‬ ‫ٰ‬ ‫پائی تو عمر رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کی بيعت کر لی اور ہم ميں سے دو ٓادمی بھی اس‬ ‫ٰ‬ ‫رہے چنانچہ ہم نے عمر رضی ﷲ‬
‫ميں مختلف الرائے نہ ہوئے۔‬
‫تعالی عنہ شہادت سے سرفراز ہوئے تو مجھے اپنی قرابت وسبقت‬ ‫ٰ‬ ‫جب حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫اور عظمت و فضيلت ياد ٓائی ميں سمجھتا تھا کہ کوئی شخص ميرا حريف نہيں ہوسکتا دوسر ی‬
‫تعالی عنہ نے وفات سے پہلے يہ سوچا کہ جو شخص بھی ميرے‬ ‫ٰ‬ ‫جانب حضرت عمر رضی ﷲ‬
‫بعد خليفہ بنے گا اور کسی گناه کا ارتکاب کرے گا تو ميں قبر ميں ہوتے ہوئے بھی اس کے گناه‬
‫ميں برابر کا شريک ہوں گا ۔ اس لئے ٓاپ نے اپنی اوالد کو حق خالفت سے محروم کر ديا ٓاپ نے‬
‫خليفہ کے انتخاب کے لئے چھ ٓادميوں کی ايک کميٹی مقرر کردی ‪ ،‬جن ميں سے ايک ميں بھی‬
‫تھا جب يہ ممبران جمع ہوئے تو ميں نے سوچا کہ ميرے ساتھ انصاف نہيں کيا جا گا ‪،‬‬
‫تعالی عنہ نے ہم سے عہد ليا کہ جو شخص بھی خليفہ منتخب ہوگا‬ ‫ٰ‬ ‫عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کا ہاتھ پکﮍا اور‬ ‫ٰ‬ ‫ہم لوگ اس کی اطاعت کريں گے پھر عبدارحمن نے عثمان رضی ﷲ‬
‫ان کے ہاتھ پر بيعت کر لی جب ميں نے اپنے معاملہ پر غور کيا تو محسوس کيا کہ ميں ہونے‬
‫تعالی عنہ کے ہاتھ پر‬‫ٰ‬ ‫والے خليفہ کی اطاعت کا عہد کر چکا ہوں چنانچہ ميں نے عثمان رضی ﷲ‬
‫بيعت کر لی ميں نےمقدور بھر ان کی اطاعت کا دم بھرا ان کے لشکروں مينامل ہو کر غزوات‬
‫تعالی عنہ مجھے کچھ ديتے تو ميں لے ليتا جب لﮍنے کا‬ ‫ٰ‬ ‫ميں شريک ہوا جب عثمان رضی ﷲ‬
‫حکم ديتے تو ميں اس کے لئے تيار ہو جاتا ۔ ان کے سامنے اپنے دره کے ساتھ لوگوں کو سزا‬
‫تعالی عنہ شہادت سے سرفراز ہوئے تو ميں نے پھر اپنے‬ ‫ٰ‬ ‫ديتا ۔جب حضرت عثمان رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہم(کو‬
‫ٰ‬ ‫معاملہ پر غو رکيا ميں نے ديکھا کہ جن دو خليفوں )ابو بکر و عمر رضی ﷲ‬
‫رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے نماز پرھانے کا حکم دے کر ان کی امامت کی جانب اشاره‬
‫فرمايا تھا وه اب دنيا ميں موجود نہيں اور جن کے لئے عبدالرحمن نے عہد ليا تھا وه شہادت‬
‫پاگئے چنانچہ اہاليان مکہ ومدينہ اور کوفہ والوں نے ميری بيعت کر لی ليکن ہوا يہ کہ ايک اور‬
‫تعالی عنہ ( درميان ميں کود پﮍا جو نہ ميرے جيسا تھا اور نہ‬ ‫ٰ‬ ‫شخص )امير معاويہ رضی ﷲ‬
‫ميری طرح رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کا قريبی عزيز تھا وه مجھ جيسا علم وفضل بھی‬
‫نہيں رکھتا تھا اور ميں ہر اعتبار سے خالفت کا اس سے زياده مستحق تھا۔)تاريخ الخلفاء للسيوطی‬
‫ص‪(١١٩‬‬
‫مندرجہ صدر روايت بشرط صحت ان تو ہمات کا خاتمہ کر ديتی ہے جو شيعہ نے رسول ﷲ صلی‬
‫ﷲ عليہ والہ وسلم کی وصيت کے بارے ميں پھيال رکھے ہيں اس سے يہ حقيقت نکھر کر‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫سامنے ٓاجاتی ہے کہ شيعہ کی يہ بات غلط ہے کہ حضرت ابو بکر و عمر رضی ﷲ‬
‫عنہماغاصب تھے۔ صحيح بخاری کی سابق الذکر روايت سے اس کی تائيد ہوتی ہے۔‬
‫سابق الذکر بيانات اس حقيقت کی غمازی کرتے ہيں کہ شيعہ مطلب براری کے لئے رسول ﷲ‬
‫صلی ﷲ عليہ والہ وسلم پر جھوٹ باندھنے ميں کچھ باک محسوس نہيں کرتے تھے اس سے‬
‫بﮍھ کر يہ کہ جو شخص بھی سلطنت و اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا وه شيعہ کا لباده اوڑھ ليا کرتا‬
‫تھا ۔ مختار بن ابی عبيد ثقفی ہی کو ديکھئے پہلے وه خارجی تھا پھر عبدﷲ بن زبير کا پيرو بن‬
‫کر زبيری کہاليا ٓاخر ميں کيسانی شيعہ بن گيا اور محمد بن حنفيہ کی دعوت دينے لگا پھر اس‬
‫دعوت سے اس نے ذاتی مفاد حاصل کيا اور حديثيں وضع کرنے لگا۔‬
‫مختار ثقفی کے بارے ميں منقول ہے کہ جب اس نے کوفہ ميں حضرت عبدﷲ بن زبير رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے خالف علم بغاوت بلند کيا تو ايک حديث دان سے کہا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ‬ ‫ٰ‬

‫‪- 64 -‬‬
‫وسلم کے نام پر ايک ايسی حديث وضع کيجئے جس ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے‬
‫تعالی عنہ ( کا‬
‫ٰ‬ ‫فرمايا ہو کہ ميرے بعد ايک خليفہ ہوگا جو ميرے بيٹے )حضرت حسين رضی ﷲ‬
‫قصاص لے گا۔ اس حديث کے گھﮍنے کے عوض ميں ٓاپ کو دس ہزار درہم اور اس کے عالوه‬
‫خلعت سواری اور خادم عطا کروں گا اس شخص نے کہا ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم‬
‫کے نام پر تو ايسی حديث وضع نہی کر سکتا البتہ کسی صحابی کے نام سے گھﮍلوں گا ٓاپ‬
‫معاوضہ ميں جو کمی کرنا چاہيں کرديں مختار کہنے لگا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے‬
‫جو روايت منقول ہوگی اس ميں زياده تاکيد ہوگی اور اس پر عذاب بھی سخت ملے گا۔)الملل النحل ج‬
‫‪١‬ص‪،٩٧‬نيز الاللی المصنوعہ ج‪ ٢‬ص‪(۴۶٨‬‬
‫شيعہ کی ملمع سازی‪:‬‬
‫شيعہ نے حديث نبوی کے سلسلہ ميں فريب دہی کا ايک طريقہ يہ نکاال کہ اسانيد صحيحہ کو جان‬
‫پہچان کر ان کے ساتھ ايسی حديثيں وضع کر کے چسپاں کر ديں جو ان کے نظريات کے ساتھ‬
‫جميل کھاتی ہيں اس طرح لوگوں کو گمراه کرنے کی کوششيں کيں کہ ان احاديچ کی اسانيد صحيح‬
‫اور درست ہيں ۔مثالً شيعہ کے دو راوی سدی اور ابن قتيبہ کے نام سے موسوم ہيں اور وه ان‬
‫سے روايت کرتے ہيں ‪،‬اسماء الرجال سے بے خبر شخص يہ گمان کر سکتا ہے کہ يہ دونوں اہل‬
‫السنت کے دو مشہور محدث ہيں ‪،‬وه نہيں جا نتا کہ دو شيعہ راوی بھی اسی نام کے ہيں جو حد‬
‫درجہ کے غالی شيعہ ہيں ۔‬
‫محديثين نے شيعہ کے دجل و فريب کا پرده چاک کيا اور لوگوں کو حقيقت حال سے روشناس‬
‫کرايا کہ سدی نام کے دو راوه ہيں ايک سدی کبير جو ثقہ راوی ہے اور دوسرا سدی صغير جو‬
‫کذاب اور رضاع ہے ۔انہوں نے بتايا کہ ابن قتيبہ نام کے بھی دو راوی ہيں ايک ابن قتيبہ شيعہ‬
‫ہے اور دوسرا عبدﷲ بن مسلم بن قتيبہ اہل السبت اور ثقہ راوی ہے اس پر بس نہيں شيعہ نے‬
‫اباطيل پر مشتمل کتب خود تصنيف کر کے ان کو اہل السنت علماء کی طرف منسوب کر ديا مثال‬
‫کتاب سرالعارفين شيعہنے مرتب کی اور اسےامام غزالی کی تصنيف قرار ديا۔‬
‫تعالی عنہ کے علمی معلومات کو ناقابل اعتماد ٹھہرانے کے‬
‫ٰ‬ ‫شيعہ نے حضرت علی رضی ﷲ‬
‫سلسلہ ميں بھی اہم پارٹ ادا کيا ہے اور وه يوں کہ شيعہ نے اقاويل باطلہ اور نظريات فاسده کو‬
‫تعالی عنہ کی جانب منسوب کر ديا اور ان کی تائيد ميں حديثيں وضع کرنے‬‫ٰ‬ ‫حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے اقوال‬
‫ٰ‬ ‫سے بھی احتراز نہ کيا اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ محديثين حضرت علی رضی ﷲ‬
‫تعالی عنہ کے اہل بيت‬
‫ٰ‬ ‫وفتاوی کو تسليم نہيں کرتے بجرز ان اقوال کے جو حضرت علی رضی ﷲ‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ مثال عبيده سلمانی يا شريح اور ابو وائل سے‬
‫ٰ‬ ‫يا اصحاب عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ‬
‫مروی و منقول ہوں۔)اعالم الموقعين ج‪١‬ص ‪(١۶‬‬

‫‪- 65 -‬‬

You might also like