Professional Documents
Culture Documents
اقسام حديث:۔
محدثين نے حديث کی تين قسميں بيان کی ہيں۔صحيح حسن ضعيف محدثين نے ہر ايک قسم کی جدا
جدا تعريف کی ہے اور ان کو پرکھنے کے ليے کچھ فوائد اور قوانين مرتب کيے ہيں جن کے ذريعے
يہ معلوم کيا جا سکتا ہے کہ جو حديث بيان کی جارہی ہے وه حديث کس قسم سے ہے ۔
(١صحيح حديث:۔
صحيح اس مسند حديث کو کہتے ہيں جس کو صاحب لعدالت اور ضابطہ راوی دوسرے عادل اور
ضابطہ راوی سے روايت کرے يہاں تک کہ وه نبی صلی ﷲ عليہ وسلم تک يا صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی
عنہم يا تابعی رحمہ ﷲ ٰ
تعالی تک پہنچ جائے اور معلل اور شاذ بھی نہ ہو ۔)اختصارعلوم الحديث
ص (٢١مذکوره تعريف ميں چندامورقابل غورہيں۔
)(١مسند )متصل( )(٢عادل ) (٣ضابطہ ) (۴معلل ) (۵شاذ۔
(١مسند )متصل(:۔
مسند وه حديث ہوتی ہے جو پہلے راوی سے آخری راوی تک متصل ہو يعنی پوری سند ميں ايک
کﮍی بھی ٹوٹی ہوئ نہ ہو ۔ جو راوی دوسرے راوی سے بيان کرے توان دونوں کی مالقات ثابت
ہودونوں ايک ہی زمانے ميں موجود ہوں۔
(٢عادل:۔
عادل راوی سے مراد يہ ہے کہ وه دينی امور ميں استقامت کی راه پر چلے۔ اور
فسق)گناه(اورغيراخالقی اورغيرشرعی کاموں سےکناره کش ہوخطيب بغدادی نےعادل کی تعريف
مندرجہ ذيل الفاظ ميں کی ہے۔
''عادل وه شخص ہے جو فرض کاموں اور جن کا حکم ديا گيا ہے ان کی تعميل کرے اور جن کاموں
سے منع کيا گيا ہے اور جو بے حيائ کے کام ہيں ان سے دور رہتا ہو اور افعال ومعامالت ميں حق
کا طالب ہو اور غير شرعی اور غير اخالقی کاموں سے بچنے واال ہو جس آدمی ميں يہ تمام اوصاف
پائے جاتے ہوں وه دين ميں عادل اور روايت ميں صادق کہالنے کا مستحق ہے ۔)الکفايہ ص (٨٠
(٣ضابط :۔
محدثين کے نزديک ضبط سے مراد يہ ہے کہ اس نے حديث کو سنا بہت اچھی طرح سے سمجھا اور
ايسےاچھے طريقے سے ذہن ميں محفوظ رکھا ہو جس ميں شک وشبہ کی کوئ گنجائش نہ ہو نيز
يہ کہ سننے کے وقت سےلے کر روايت کرنے تک اس ميں کوئ فرق نہ آيا ہو ۔ خالصہ يہ کہ ضبط
ميں دوچيزيں ملحوظ رکھی جاتی ہيں۔ ) (١قوت حافظہ (٢) ،غور وفکر اور دقت نظر ،
راوی کا ضبط معلوم کرنے کا طريقہ يہ ہے کہ جب اس کی روايت کا مقابلہ اصحاب حفظ وضبط
اورثقہ راويوں کی روايت کےساتھ ليا جائے۔تو اس کی روايت ان کے مطابق ہواگر اس کی روايت ثقہ
راويوں کی روايت کے خالف ہوتو اس کی روايت شاذ ہوجائے گی۔
)الکفايہ ص(٢١ شعبہ بن حجاج فرماتےہيں حديث شاذوہی کرتاہےجوخود بھی شاذہوتا ہے
تعالی نےفن حديث کے لئے ايسےعلماء پيدا کردئيےجنہوں نے تحفظ حديث ميں سختی سے کامٰ ﷲ
ليا مگر ان کا تشدد بھی حکمت ومصلحت پر مبنی تھا۔ انہوں نے صرف صحيح حديثيں نقل کيں۔ حديث
صحيح کی پہچان صرف روايت کرنے ہی سے نہيں ہوتی بلکہ حفظ وفہم اور کثرت سماع سے بھی
ہوتی ہے۔)معرفۃ علوم حديث ص(٩۵
عبدﷲ بن مبارک کا يہ ارشاد ايک فطری امر ہے کہ ايک کثيرالغلط جھوٹے اور بدعتی شخص کی
روايت اخذ نہ کی جائے جو بدعت کی دعوت بھی ديتا ہو اور حافظہ نہ ہونے کے باوصف ربانی
حديثيں روايت کرتا ہو۔)الکفايہ۔ ص(١۴٣
(۴معلل:۔
معلل اس حديث کو کہتے ہيں جس ميں کسی ايسی علت کا پتہ چلے جس سے حديث ميں قدح وار
ہوجاتی ہو۔
حديث کی علت معلوم کرنے کے لئے وسعت علم وقت حافظہ فہم دقيق کی ضرورت ہے اس لئے کہ
علت ايک پوشيده چيز ہے جس کا پتہ بسا اوقات علوم حديث ميں مہارت رکھنے والوں کو بھی نہيں
چلتا۔
يہ حديث کے نہايت دقيق اور مشکل علوم ميں سے ہے علت کی پہچان ميں صرف وہی شخص ماہر
تعالی نے روشن دماغی قوت حافظہ ،مراتب ورة کی پہچان اور اسانيد ومتون
ٰ ہوسکتا ہے جس کو ﷲ
ميں نہايت تامہ )مکمل ( سے نوازا ہو ۔
عبدالرحمان بن مھدی بن حسان ابو سعد بصری بہت بﮍے حافظ حديث تھے امام احمد بن حنبل ان کے
بارے ميں فرماتے ہيں
وه يحی القطان سے بﮍے فقيہ اور وکيع سے زياده ثقہ راوی تھے ۔ )تذکرة الحفاظ جلد ١ص(٣٢٩
عبدالرحمان بن مہدی فرماتے ہں حديث کی پہچان ايک الہام ہے اگر تم کسی علل حديث کے عالم سے
کہو کہ فالں علت کی کيا دليل ہے تو وه اسکا کچھ جواب نہيں دے سکے گا ۔)معرفۃ علوم الحديث،ص.(١١٣
عبدالرحمان بن مہدی سے کہا گيا آپ کسی حديث کو صحيح قرار ديتے ہيں اور کسی کو ضعيف اس
کی کيا دليل ہے فرمايا اگر تم کسی صراف کو اپنی درہم دکھاؤ اور وه کہے کہ يہ کھرے ہيں اور وه
کھوٹے ہيں تو آيا تم اسکی بات تسليم کرو گے يا اسکی دليل طلب کرو گے اس سوال کرنے والے
نےکہا! ميں اس کی بات مان لوں گا عبدالرحمان نے فرمايا تو حديث کا معاملہ بھی اسی طرز کا ہے
کيونکہ اس ميں طويل محنت مناظره اور مہارت کی ضرورت ہے).التدريب س(٨٩
-2-
'' علم حديث کے طالب کو صراف کی طرح کھوٹے اور کھرے ميں تميز کرنے واال ہونا چاہئيےجس
طرح درہم کھوٹے بھی ہوتے ہيں اور کھرے بھی حديث کی بھی يہی حالت ہے )الجامع جلد ٩ص (١٧٧
معلل حديث کی پہچان کا طريقہ يہ ہے کہ حديث کے تمام طرق واسانيد کو جمع کرکے راويوں کے
اختالف اور ضبط کو ديکھا جائے ۔
محدث علی بن المدينی فرماتے ہيں:جب تک کسی حديث کے طرق واسانيد ايک جگہ نہ ہوں تو اس
کی غلطی کا پتہ نہيں چلتا
معرفۃ علوم الحديث ميں علل کی دس قسميں بيان کی گئ ہيں اور پھر ہر قسم کی مثال دے کر اسے
واضح کيا گيا ہے ياد رہے کہ علل حديث ان دس قسموں ميں محدود نہيں ہے ہم حديث نبوی ميں قدح
وارد کرنے والے ان پوشيده اسباب کی توضيح کے لئے چند اہم مثاليں بيان کريں گے ۔
مثال ،يہ کہ ايک حديث ايک خاص صحابی کی روايت سے صحيح اور محفوظ ہو پھر يہ ہی حديث ً (١
ايک اور راوی سے روايت کی جائے جس کی جائے سکونت يعنی جہاں وه رہتا ہے وه جگہ پہلے
راوی يا رواة سے مختلف ہو تو يہ حديث معلول ہوگی۔مثال کے طور پر موسی بن عقبہ کی ابو اسحاق
سے روايت وه ابو برده سے روايت کرتے ہں۔اور ابوبرده مرفوعا ً اپنے والد سے حديث بيان کرتے
ہيں کہ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا''ميں دن ميں سو مرتبہ اپنے رب سے معافی مانگتا ہوں
اور توبہ کرتا ہوں "
مذکوره باال روايت کو ديکھنے واال ديکھنے والی پہلی نظر ميں يہ سمجھے گا کہ يہ بخاری ومسلم
کی شرط کے مطابق ہے مگر اس کی سند ميں ايک مدنی راوی کوفی سے روايت کرتا ہے اور يہ بات
مشہور ہے کہ مدينہ کے رہنے والے جب جب اہل کوفہ سے روايت کرتے ہيں تووه غلطی کرجاتے
ہيں۔)معرفۃ علوم الحديث ص(١١۵
(٢معلول کی ايک قسم يہ بھی ہے کہ ايک شخص سے اس کے استاد کے نام ميں اختالف کيا جائے
يا اس کو مجہول )بال نام( ذکر کيا جائے مثالً ،ابوشہاب سفيان ثوری سے روايت کرتے ہيں وه حجاج
سے وه يحيی بن ابی کثير سے وه ابو سلمہ سے اور ابو سلمہ ابوہريره سے مرفوعا روايت کرتے
ہيں کہ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا :مومن بھوال بھاال اور سخی ہوتا ہے اور کافر م مکار
اور کنجوس ہوتا ہے ۔
محدث حاکم کہتے ہيں کہ مذکوره صدرروايت ميں علت اس وقت پيدا ہوتی جب سند يوں بيان کی
جائے۔
ابن کثير نے کہا ميرے پاس سفيان ثوری نے حجاج سے سن کر بيان کيا اور حجاج نے ايک شخص
سے روايت کيا اور اس نے ابو سلمہ سے ۔
(٣حديث معلوم کا ايک طريقہ يہ ہے کہ ايک شخص جس سے روايت کرتا ہواس سے مال ہو اور
اس سے حديث بھی سنيں ہوں۔ مگر خاص زير بحث احاديث کا سماع اس سے ثابت نہ ہو جب ايسی
احاديث اس شخص سے بالواسطہ روايت کرے گا تو ان ميں علت يہ ہوگی کہ ان احاديث کا سماع اس
مثال ،يحيی بن ابی کثير کی حضرت انس سے يہ روايت کی نبی صلی ﷲ عليہ ً سے ثابت نہيں ہے
وسلم جب کسی کے گھر روزه افطار کرتے تو فرماتے۔
'' روزه داروں نے تمہارے يہاں روزه افطار کيا ''
-3-
امام حاکم مذکوره صدرحديث پر تذکره کرتے ہوئے فرماتے ہيں۔متعدد طرق سے يہ امر ہمارے يہاں
ثابت ہوچکا ہے کہ يحيی بن ابی کثير کی روايت انس بن مالک سے درست ہے مگر يحيی نے مذکوره
صدرحديث انس سے نہيں سنی پھر حاکم نے سنداً يحيی سے ذکر کيا کہ مجھ سے يہ حديث کسی نے
انس سے بن کر بتائ ہے ۔
(۴حديث معلول کی ايک صورت يہ بھی ہے کہ حديث کی سند بظاہر صحيح معلوم ہوتی مگر اس ميں
کوئ ايسا راوی ہوتا ہے جس کا اپنے شيخ سے سماع نہ ہو ً
مثال ،موسی بن عقبہ سہل بن ابی صالح
سے روايت کرتے ہينوه اپنے والد وه ابو ہريره سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے
فرمايا:
''جو شخص کسی مجلس ميں بيٹھا جہاں بہت شوره غل ہو اور مجلس برخاست کرنے سے پہلے يہ
کلمات کہے ۔
سبحانک اللھم وبحمدک ال الہ اال انت استغفرک واتوب اليک ۔ تو اس سے جو گناه اس مجلس ميں
ہوئے تھے وه معاف کردئيے جاتے ہيں ۔
مروی ہے کہ امام مسلم’رحمۃ ﷲ عليہ امام بخاريا کی خدمت ميں حاضر ہوئےاور اس حديث کے
بارے ميں دريافت کياامام بخاری رحمۃ ﷲ عليہنے فرمايا يہ بﮍی خوبصورت حديث ہے اور دنيا بھر
ميں اس مضمون کی يہ واحد حديث ہے البتہ معلول ہے يہ حديث ہميں موسی بن اسماعيل نے وہيب
سے سن کر بتائ وہيب نے سہيل سے اور اس نے عون بن عبدﷲ سے سنی حاالنکہ موسی بن
عقبی کا سماع سہل بن ابی صالح سے مرفوع نہيں۔)معرفۃ علوم الحديث ،ص(١١٣
(۵حديث کے طالب پر يہ فريضہ عائد ہوتا ہے کہ جب وه يہ عبارت ديکھے کہ ''يہ حديث فالں وجہ
سے معلول ہے '' تو جلدی سے يہ فيصلہ صادر نہ کرے کہ اس ميں کوئ اصطالح علت قادحہ پائ
جاتی ہے اس لئے کہ بعض علماء علت کا اطالق اصطالحی معنی ومفہوم کے عالوه دوسرے معنی پر
بھی کرتے ہيں ان کی نطر ميں علت ايک پوشيده عيب ہے جو ضعيف حافظہ يا دروغ گوئ کہ برابر
نہيں ہوتی بلکہ وه علت سے حديث کا ظاہری نقص وعيب مراد ليتے ہيں جس سے حديث کی صحت
پر کوئ اثر نہيں پﮍتا يہ امر واضح ہے کہ ضعيف حديث کہ کسی ظاہری سبب کی بناء پر حديث کو
معلول قرار نہيں دے سکتے ۔ اس لئے کہ علت غامض اورپوشيده عيب کا نام ہے جيساکہ ہم مثالوں
سے واضح کرچکے ہيں )التوضح جلد ٢ص(٢٧
ان تمام وجوہات ميں سے اگر کوئ بھی وجہ کسی حديث ميں نہ تو وه صحيح حديث کہالئے گی ۔
(۵شاذ:۔
شاذ حديث کی تعريف ميں دو باتيں ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہيں۔ ) (١انفراد ) (٢مخالفت،
حديث شاذ کی عام تعريف يہ ہے کہ '' وه حديث جس ميں ايک ثقہ راوياپنے سے زياده ثقہ راوی کی
مخالفت کرے حافظ ابن حجر نے تصريح کی ہےکہ حديث شاذ کی اصطالح اورقابل اعتماد تعريف يہی
ہے۔
امام شافعی فرماتے ہيں''شاذ حديث کا مطلب يہ نہيں کہ ثقہ راوی وه روايت بيان کرے جو دوسرا
کوئ راوی بيان نہ کرتا ہوبلکہ شاذ حديث سے مراد يہ ہے کہ ثقہ راوی کوئ ايسی حديث بيان نہ
کرےجو دوسرے کئ ثقہ راويوں کے خالف نہ ہو ۔کثير علماء حجاز نے اسی اصطالح کو قبول کيا
ہے ۔
-4-
ابن الصالح نے بھی اس کی تائيد کی ہے ابن کثير نے اس سے يہ نتيجہ نکاال ہے کہ جب ثقہ راوی
ايسی روايت بيان کرے جو کسی اور نے نہ کی ہو اور وه راوی حافظ وضابط بھی ہو تو اس کی
روايت کو قبول کيا جائے گا کيونکہ اگر اس حديث کو رد کرديا جائےتو بہت سی احاديث کا مرده ہونا
الزم آئے گا اور بہت سے مسائل بال دالئل ره جائيں گے ۔)علوم الحديث ص (٢۵۴
امام ابن قيم پرزور الفاظ ميں اس کی تائيدکرتے ہوئے فرماتے ہيں۔
'' حديث شاذ سے مراد يہ ہے کہ ايک راوی دوسرے ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔ جب ثقہ راوی
ايک منفرد روايت بيان کرے اور ثقہ راويوں نے اس کی مخالفت نہ کی ہو تو اس کو شاذ نہيں کہتے
)اغاثۃ اللہفان ص(١۶٠
خالصہ يہ کہ شاذ حديث وه ہوتی ہے جس کو ايک ثقہ راوی روايت کرے اور اپنے سے زياده ثقہ
راوی يا کئ ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔
حسن:۔
حسن حديث وه ہے جس کی سند يعنی راويوں کا سلسلہ متصل ہو۔ايک دوسرے سے مال ہوا ہوپہلے
راوی نے دوسرے راوی سے وه بات سنی ہوجو وه بيان کررہا ہے۔اور اس کے تمام راوی عادل ہوں
مگر ضبط )حافظہ( ميں کچھ کمی ہواور نہ ہی راويت شاذ ہو اور نہ ہی علت ہو۔
حديث صحيح اور حسن کے درميان صرف يہ ہی فرق ہےکہ صحيح حديث کے تمام راوی مضبوط
حافظہ کے مالک ہوتےہيں مگر حسن حديث کے کم از کم کسی ايک راوی کا حافظہ کمزور ہوتا ہے
باقی تمام شرائط اس کی بھی وه ہی ہيں جو صحيح کی ہيں۔
حسن حديث کی دو قسميں :۔ ( ١حسن لذاتيہ )(٢حسن لغيره۔
متابع :۔
بعض محدثين متابع ومشاہدشاہد کو ايک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہيں اوراس ميں کوئ حرج
نہيں سمجھتے۔ )شرح نخبہ ص(١۵
-5-
يہ دونوں قسميں ايسی ہيں کہ ان سے غريب حديث کو تقويت وتائيد حاصل ہوتی ہے مگر اس سے
دونوں کا مترادف ہونا الزم نہيں آتا۔ بلکہ ان کے درميان بﮍا نازک فرق پايا جاتا ہے اور علماء نے ان
کی جداگانہ تعريفيں کی ہيں۔
تعريف:۔
وه روايت جس کے راوی کی دوسرا راوی تائيد کرتا ہو۔ اور تائيد کرنے واال اس قابل ہو کہ اس کی
روايت قبول کی جاسکے ۔ تائيد کرنے واال راوی کے استاد يا اس استاد کے استاد سے ايسے الفاظ
ميں روايت کرے جو پہلے راوی کے بيان کرده الفاظ سے ملتے جلتے ہوں۔
شاہد :۔
شاہد کی تعريف يہ ہے کہ دوسرا راوی ويسے تو اس راوی کی تائيد کرتا ہو مگر وه کسی اور
صحابی سے روايت کرتا ہو۔ اوراس کی يہ روايت لفظ ومعنی دونوں ميں يا صرف معنی ميں پہلے
راوی کی روايت سے ملتی جلتی ہو )شرح نخبہ ص (١۵
ضعيف:۔
حديث کی تيسری قسم ضعيف حديث ہے۔ ضعيف حديث وه ہے جس ميں صحيح اور حسن کی صفات
نہ پائ جائيں يعنی جو اصول صحيح حسن کے لئے ہيں يہ ان پر پوری نہ اترے تو يہ ضعيف کہالئے
گی۔
مرسل:۔
حديث مرسل اسے کہتے ہيں جس کی سند ميں سے صحابی کا نام ساقط ہوگيا ہو ۔ مثالً نافع کہتے
ہيں ،آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے يوں فرمايا ،يا يوں کہا،يا آپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی موجودگی ميں
اس طرح کہا گيا ،حاالنکہ نافع تابعی ہيں۔گويا اس حديث ميں صحابی کا نام مذکور ہی نہيں اس اعتبار
سے يہ حديث مرسل ہوئ ۔
مرسل حديث ضعيف اس لئے ہوتی ہے کہ اس ميں اتصال نہيں ہوتا۔
منقطع :۔
منقطع وه حديث ہے جس کی سند سے کوئ راوی ساقط ہو يا اس ميں کوئ مبہم راوی ذکر کيا گيا ہو۔
حديث منقطع اس لئے ضعيف ہوتی ہے کہ اس کی سند متصل نہيں ہوتی اس لحاظ سے يہ مرسل کے
مشابہ ہوتی ہے مگر اس ميں يہ فرق ہوتا ہے کہ مرسل روايت ميں صحابی کا نام ساقط ہوتا ہے
جبکہ اس ميں يہ شرط نہيں ہوتی۔خطيب بغدادی اپنی کتاب''الکفايۃ فی علم الروايۃ''ميں فرماتے ہيں
:
''حديث منقطع مرسل کی مانند ہوتی ہے مگر يہ اصطالح وہاں استعمال کی جاتی ہے جہاں
تابعی سے نچلے درجہ کا راوی صحابہ سے روايت کرے).الکفايۃ ص(٢١
معضل:۔
-6-
معضل اس حديث کو کہتے ہيں جس ميں دو يا دو سے زياده راوی پے درپے مسلسل ساقط ہوگئے
ہوں ۔ معضل کی پہچان منقطع سے زياده دشوار ہوتی ہے اسی لئے اس کو )مشکل ،دشوار ( کہتے
ہيں۔ )توضيح االفکارجلد١ص(٣٢٧
حديث معضل کو منقطع کی ايک خاص قسم سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے کہ ہر معضل حديث منقطع ہوتی
ہے ۔ مگر ہر منقطع معضل نہيں ہوتی ۔ )توضيح االفکارجلد١ص(٣٢۴
مذکوره صدر اسناد ميں سفيان زہری کے ہم عصر تھے اور ان سے مل چکے تھے مگر انہوں نے
زہری سے کوئ روايت نہيں سنی تھی بلکہ سفيان نے يہ روايت عبدالرزاق سے سنی ،عبدالرزاق
نے معمر سے اور معمر نے زہری سے سنی اس سند ميں تدليس يہ ہے ۔کہ سفيان نے عبدالرزاق
اور معمر دونوں کا نام حذف کرديا اور ايسے الفاظ سے روايت کيا کہ اشکال پيدا ہوتا ہے کہ انہوں
نے براه راست بذات خود يہ حديث زہری سے سنی.
يہ تدليس کی نہايت بدترين قسم ہے ۔
)التوضيح شعبہ فرماتے ہيں ۔ميں تدليس کا مرتکب ہونے کی نسبت زنا کاری کو ترجيح ديتا ہوں ۔
جلد١ص( ٣۶۶
مضطرب :۔
مضطرب اس حديث کو کہتےہيں جس کی کئ روايات ہوں اور تعداد کے باوجود ان ميں اس طرح کی
مساوات پائ جاتی ہو کہ کسی طرح بھی ايک روايت کودوسرے کے مقابلہ ميں ترجيح نہ دی
-7-
جاسکتی ہو بعض اوقات ايک ہی راوی اس حديث کو دو يا دو سے زياده مرتبہ روايات کرتا ہو۔ يا دو
يا دو سے زياده راوی اس حديث کو روايت کرتے ہوں ۔
حديث مضطرب کے ضعف کی وجہ اس کے رواة کا وه اختالف ہے جو ان کے حفظ وضبط ميں پايا
جاتا ہے ۔ يہ اختالف اسی صورت ميں دور ہوسکتا ہے جب ايک راوی کی روايت اس کے حفظ وضبط
يا طول سماع کے باعث دوسری روايت کے مقابلہ ميں رائج ہو ۔ يہی وجہ ہے کہ ايک روايت يا متعدد
روايات کے راجح ہونے کی صورت ميں حديث کو مضطرب نہيں کہا جاتا ۔)التدريب ص(٩٣
مقلوب :۔
مقلوب اس حديث کو کہتے ہيں جس ميں کسی راوی سے متن حديث کا کوئ لفظ يا سند ميں کسی
راوی کا نام ونس بدل گيا گيا ہو يا مقدم کو مؤخر کرديا ہو يا مؤخر کو مقدم يا ايک چيز کی جگہ رکھ
دی گئ ہو اس تعريف سے ثابت ہوتا ہے کہ قلب سند ومتن دونوں ميں پايا جاتا ہے ۔ حديث ميں قلب
راوی کے بھولنے کی وجہ سے ہوتا ہے وه جان کر ايسا نہيں کرتا مگر اس سے حديث ضعيف قرار
پائ جاتی ہے۔ اور اگر کوئ جان کر قلب پيدا کرے تو وه حديث مقلوب نہيں بلکہ موضوع ہے اور من
گھﮍت کہالتی ہے ۔
شاذ:۔
شاذ حديث کی تعريف ميں دو باتيں ملحوظ خاطر رکھی جاتی ہيں۔
) (١انفراد )(٢مخالفت،
حديث شاذ کی عام تعريف يہ ہے کہ '' وه حديث جس ميں ايک ثقہ راوی اپنے سے زياده ثقہ راوی
کی مخالفت کرے حافظ ابن حجر نے تصريح کی ہےکہ حديث شاذ کی اصطالح اورقابل اعتماد تعريف
يہی ہے۔
امام شافعی فرماتے ہيں''شاذ حديث کا مطلب يہ نہيں کہ ثقہ راوی وه روايت بيان کرے جو دوسرا
کوئ راوی بيان نہ کرتا ہوبلکہ شاذ حديث سے مراد يہ ہے کہ ثقہ راوی کوئ ايسی حديث بيان نہ
کرےجو دوسرے کئ ثقہ راويوں کے خالف نہ ہو ۔کثير علماء حجاز نے اسی اصطالح کو قبول کيا
ہے ۔
ابن الصالح نے بھی اس کی تائيد کی ہے ابن کثير نے اس سے يہ نتيجہ نکاال ہے کہ جب ثقہ راوی
ايسی روايت بيان کرے جو کسی اور نے نہ کی ہو اور وه راوی حافظ وضابط بھی ہو تو اس کی
روايت کو قبول کيا جائے گا کيونکہ اگر اس حديث کو رد کرديا جائےتو بہت سی احاديث کا مرده ہونا
الزم آئے گا اور بہت سے مسائل بال دالئل ره جائيں گے ۔)علوم الحديث ص (٢۵۴
امام ابن قيم پرزور الفاظ ميں اس کی تائيدکرتے ہوئے فرماتے ہيں۔
'' حديث شاذ سے مراد يہ ہے کہ ايک راوی دوسرے ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔ جب ثقہ راوی
ايک منفرد روايت بيان کرے اور ثقہ راويوں نے اس کی مخالفت نہ کی ہو تو اس کو شاذ نہيں کہتے
)اغاثۃ اللہفان ص(١۶٠
خالصہ يہ کہ شاذ حديث وه ہوتی ہے جس کو ايک ثقہ راوی روايت کرے اور اپنے سے زياده ثقہ
راوی يا کئ ثقہ راويوں کی مخالفت کرے ۔
منکر :۔
-8-
منکر اس حديث کو کہتے ہيں جس کو ضعيف راوی ثقہ راوی کی مخالفت ميں بيان کرے ۔ يہ حديث
شاذ کی طرح ہی ايک قسم ہے مگر شاذ ميں ايک ثقہ راوی اپنے سے بﮍے ثقہ يا کئ ثقات کی
مخالفت کرے ۔ جبکہ منکر ميں ضعيف راوی ثقہ کی مخالفت کرتا ہے ۔
منکر حديث کے مقابل حديث کو معروف کہتے ہيں اور شاذ کے مقابل کو محفوظ کہتے ہيں۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہيں:
اور حديث صحيح وحسن کے راوی کی زيارت قبول ہے بشرطيکہ وه اس راوی کے خالف نہ ہو جو
اس سے زياده ثقہ ہو اگر ايسا راوی اس کی مخالفت کرے جو حفظ وضبط کی زيادتی يا کثرت غور يا
کسی اور وجہ ترجيح کی بنا پر اس کے مقابلہ ميں ارجح ہو تو اس صورت ميں راجح کو محفوظ اور
مرجوح کو شاذ کہيں گے ۔اگر حديث ضعيف اس کی مخالفت ہو تا راجح کو معروف اور اس کے مقابل
کو منکر کہيں گے۔)شرح نخبہ ص (١۴،١٢
حديث وسنت
اگر ہم محدثين بالعموم اور متاخر محدثين بالخصوص کی غالب رائے پرعمل کريں تو ہم حديث و سنت
کے الفاظ کو مترادف ومساوی پائيں گے۔ يہ دونوں لفظ ايک دوسرے کی جگہ استعمال کئے جاتے
ہيں اور ان دونوں کا مفہوم کسی قول ،فعل ،تقرير يا صفت کو سرورکائنات ۖکی جانب منسوب کرنا ہے
اصول تاريخی کی روشنی ميں ديکھا جائے تو يہ حقيقت
ِ ،البتہ اگر حديث و سنت کے الفاظ کو ان کے
نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ان دونوں کے استعمال ميں لغت واصطالح کے پيش نظر کچھ دقيق سا
فرق بھی پيا جا تا ہے۔
لفظ حديث کی لغوی تحقيق :
ابو البقاء کے بيان کے مطابق حديث کا لفظ تحديث سے اسم ہے،تحديث کے معنی ہيں خبر دينا ،پھر
اس قول فعل يا تقرير )وه کام جو آنحضور ۖکی موجودگی ميں کيا گيا ہو اور آپ ۖ نے اس سے منع نہ
فرمايا ہو(کو حديث کہنے لگے جو نبی اکرم ۖکی جانب منسوب ہو ظہور اسالم سے پہلے بھی عرب
حديث کے لفظ کو اخبار )خبر دينا( کے معنی ميں استعمال کرتے تھے،مثالً وه اپنے مشہور ايام کو
ً
تھے۔غالبامشہور نحوی الفقراء اس حقيقت سے آگاه تھا ،اسی لئے اس ''احاديث ''سے تعبير کرتے
کے نزديک حديث کی جمع ُاحدوثہ اور احدثہ کی جمع احاديث ہے۔عربی محاوره ميں کہتے ہيں
ُ
''صاراحدوثة''يا ''صار حديثا''يعنی فالں چيز ضرب المثل بن گئی۔ مشہور شاعر ابو کلده نے ايک ہی
شعر ميں مثل اور احدوثہ کے الفاظ استعمال کر کے ان کے مترادف ہونے کی جانب اشاره کيا ہے۔
وال تصبحو احدوثة مثل قائل بہ يضرب االمثال من يتمثل )اس قائل کی طرح تم ضرب المثل نہ بن جاؤ
کہ جو شخص مثال دينا چاہتا ہے )تو اس کا نام پيش کر ديتا ہے
لفظ )حديث(کے ماده کو جيسے بھی تبديل کرتے چلے جائيں اس ميں خبر دينے کا مفہوم ضرور
موجود رہے گا۔ قرآن کريم ميں فرمايا:
مثلہ)سورة الطور (٣٤،
بحدﯾث ﱢ ْ ِ
تو ِ َ ِ ْ ٍ َْ َ
فليا ُ ْ
دوسری جگہ فرمايا:
-9-
ن ْ َ ِْ نزل َ ْ َ ٰ
متشابﮩا )سورة الزمر (٢٣،
کتابا ُ َ َ ِ ً
الحدﯾثِ ِ َ ً احس َ ُّ
اللہ َ ﱠ َ
حديث ضد قديم :
بعض علماء کے نزديک لفظ حديث ميں جدت کا مفہوم پايا جاتا ہے۔اس طرح حديث قديم کی ضد
ہے۔وه قديم کتاب ﷲ اور جديد سے حديث رسول ۖمراد ليتے ہيں،شيخ االسالم ابن حجر عسقالنی فتح
الباری شرح صحيح بخاری ميں فرماتے ہيں''،شرعی اصطالح ميں حديث سے وه )قول واعمال(مراد
ہيں جو آنحضرت ۖکی جانب منسوب ہوں ،گويا حديث کا لفظ قرآن کے مقابلہ ميں بوال جاتا ہے،اس
لئے کہ قرآن قديم ہے اور حديث اس کے مقابلہ ميں جديد ہے۔''
مذکوره باال بيان اس حقيقت کی آئينہ داری کرتا ہے کہ بہت سے علماء کتاب ﷲ کو حديث اور کالم ﷲ
کے بجائے ''حديث ﷲ کہنے سے احتراز کرتے تھے۔ سنن ابن ماجہ ميں ايک روايت موجود ہے
تعالی عنہ سے روايت ہے ٰ جس سے اس انداز کی تعبير ہوتی ہے۔حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
کہ نبی اکرم ۖنے فرمايا:صرف دو ہی چيزيں اہميت کی حامل ہينايک کالم اور دوسرا طريقہ،تو بہترين
کال م تو کالم ﷲ ہے اور بہترين راستہ وه ہے جس پر محمد ۖگامزن رہے،چونکہ اکثر کتب حديث ميں
''ان احسن الحديث کتاب ﷲ ''کے الفاظ ہيں اور ابن ماجہ احسن الکالم کے الفاظ نقل کرنے مينمتفرد
ہيں اس لئے کچھ بعيد نہيں کہ وه ورع واحتياط کے پيش نظر انہوں نے يہ انداز تعبير اختيار کيا
ہو،تاہم اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعض علماء کتاب ربانی کو جو کہ قديم ہے حديث کہنے
سے احتراز کرتے تھے۔
ساالر انبياء)صلی ﷲ علہہ وسلم( نے بذات خود اپنے قول کو حديث کا نام ديا گويا آپ نے يہ نام رکھ
کر اس کو ان ديگر امور سے ممتاز ومميز کرديا جن کی نسبت آپ کی طرف کی جا تی ہے ۔اس طرح
آپ نے لفظ حديث کی وه اصطالح پہلے ہی مقرر فرمادی جس پر محدثين نے آگے چل کر اتفاق کيا
تعالی عنہ نے آپ کی خدمت ميں حاضر ہوکرٰ ،حديث ميں آيا ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
دريافت کيا کہ روز قيامت آپ کی شفاعت کی سعادت کس کے حصہ ميں آئے گی ؟آپ ۖ نے جوابا ً
تعالی عنہ سے پہلے کوئی شخص مجھ سے اس ٰ فرمايا ''مجھے معلوم تھا کہ ابو ہريره رضی ﷲ
حديث کے بارے ميں سوال نہيں کرے گا کيونکہ وه طلب حديث کے بہت حريص ہيں ''مذکوره باال
روايت ميں آنحضرت)صلی ﷲ عليہ وسلم( نے اپنےقول کو حديث سے تعبير فرمايا۔
- 10 -
کے لفظ کو ﷲ کی طرف مضاف کر کے ''سنت ﷲ '' کہا جاتا ہے تو اس سے بھی سنت کا مفہوم
سمجھ ليتے تھے ۔ مثالً قرآن ميں فرمايا:
قبل ٰ◌يہ ﷲ کا طريقہ ہے ان لوگوں کے بارے ميں جو گزر چکے )سورة
من َ ْ ُ الذﯾن َ َ ْ
خلو ِ ْ فی ﱠ ِ ْ َ سنة ٰ
الل ّ ِہ ِ ُ ﱠ َ
االحزاب(٦٢،
جب عربوں نے آنحضو ر ۖ ْکی زبان مبارک سے عليکم بسنتی کے الفاظ سنے تو انہون نے فورا ً
سمجھ ليا کہ اس سے نبی کريم )صلی ﷲ عليہ وسلم( کی انفردی و اجتماعی زندگی کے اطوار وآداب
مراد ہيں،
مدينہ منوره ديگر بالد عالم کی نسبت سنت نبوی کا سب سے زياده حريص تھا ،يہی وجہ ہے کہ
اسے ''دارالسنة''کے نام سے موسوم کيا جاتا ہے ،اطراف مدينہ ميں سنت کے مفہوم نے سياسی
واجتماعی شکل وصورت کے بجائے دينی واساسی رنگ وروپ اختيار کرليا چنانچہ
سرورکائنات)صلی ﷲ عليہ وسلم( نے فرمايا:
تعالی ،فرشتوں اور سب لوگوں ی لعنت ہو'' ٰ جس نے مدينہ مں کسی بدوت کو جنم ديا اس پر ﷲ
اس حديث ميں اس بات کی جانب اشاره کيا گيا ہے کہ جو شخص جماعت کے شيرازه کو منتشر
کردے،امير کی اطاعت سے ہاتھ کھينچ لے اور بدعت کو سنت کے مقابلے ميں ترجيح دے تو ﷲ اور
اس کا رسول ۖاس بيزار ہيں ۔يہاں حدث کے الفاظ کو بدعت کے معنی ميں استعمال کيا گيا ہے ،بايں
طور حدث وبدعت کے الفاظ باہم مترادف اور سنت کی نقيض ہيں۔
نظر بريں باپ بيٹے کو نصيحت کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے:۔
يا بنی اياک الحدث
اے بيٹے بدعت سے بچو۔
اس کے جواب ميں بيٹا اتباع سنت کا ثبوت کا ان الفاظ ميں پيش کر سکتا ہے۔
''ميں نے اصحاب رسول ۖميں سے کسی کو نہيں ديکھا کہ کوئی چيز انہيں بدعت سے زياده نا پسند
ہو۔''
اسی طرح جس شخص کو بے دين تصور کيا جاتا ہو وه اس تہمت کی ترديد :ميں کہہ سکتا ہے کہ
''ميں نے کوئی بدعت نہيں نکالی اور نہ اطاعت سے انحراف کيا۔''
بہت جلد مسلمانوں نے )حديث وبدعت کی( محدود دنيا سے نکل کر اس سے ايک جامع اور وسيع
مفہوم مراد لينا شروع کر ديا۔مسلمان صرف مدينہ کے دارلسنة ہی ميں بدعات کی ترويج سے نہيں
ڈرتے تھے بلکہ يہ خطره نہيں ہر اس جگہ الحق تھا جہاں بھی دعوت اسالم پہنچی ۔بہر کيف حدث
وبدعت ميں چنداں فرق نہيں ۔جيسا کہ حضور )صلی ﷲ عليہ وسلم( کے ارشاد سے واضح ہے
۔آپ)صلی ﷲ عليہ وسلم( نے فرمايا "شراالمور محدثا تھا'')بدترين امور بدعات ہيں(
''جس نے ہمارے اس امر)دين(ميں کوئی نئی بات ايجاد کی تو وه مردود ہے''۔
- 13 -
بعض لوگ يہ کہہ کر کہ احاديث مبارکہ ٢۵٠سو سال بعد لکھی گئ ہيں اس لئے ان پر بھروسہ
نہيں کيا جاسکتااور ايک روايت کے مطابق رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم نے بھی صحابہ کو
احاديث لکھنے سے منع فرمايا تھا۔ اس لئے احاديث کی کتابت حکم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم
کے خالف ہے۔اور جو کام حکم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلمکے خالف ہو وه حجت نہيں ہو
سکتا۔
يہ ان لوگوں کا اعتراض ہے جوعلم سے نابلد اور نا آشنا ٰہيں کيونکہ اگر انہيں علم ہوتا تو اس
طرح کی بات نہيں کرتے يہ بات درست ہے کہ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے نبوت کے ابتدائ
دور ميں احاديث لکھنے سے منع فرمايا تھامگر انہيں ﷲ کے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کے وه
ارشادات نہيں ملے جن ميں ﷲ کے رسول صلی ﷲ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی
عنہ کو احاديث لکھنے کی اجازت دی ۔
بعد ميں لکھنے کی اجازت کی ايک واضح دليل يہ ہے کہ آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اپنی وفات
سے قبل ايک ايسی تحرير لکھنا چاہی جس کی موجودگی ميں مسلمان گمراه نہ ہوں۔)فتح الباری جلد ١
ص ١٨۵۔(١٨٢
اگر قرآن کے بغير کسی اور چيز کے لکھنے کی اجازت نہيں ہوتی تو آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے
صحابہ کو لکھنے کا کيوں حکم ديا ظاہر سی بات ہے کہ وه قرآن نہيں تھا کيونکہ قرآن تو پہلے
ہی مکمل ہوچکا تھا۔
اور اگر ہم ايمانداری سے کتب کا مطالعہ کريں تو ہم پر يہ بات واضح اور روشن ہوجائے گی کہ
ﷲ کے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی موجودگی ميں صحابہ احاديث جمع کيا کرتے ۔
تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ انہوں نے ايک صحيفہ امام ترمذی سعد بن عباده رضی ﷲ ٰ
ميں احاديث نبويہ جمع کی تھيں ۔)سنن ترمذی،کتاب االحکام،باليمين مع الشاہد صحيفہ ہمام بن منبہ ص(١۶
تھا۔)صحيفہ ہمام بن منبہ بحوالہ''تدوين حديث سعد بن عباده کا بيٹا اس صحيفے سے حديث روايت کيا کرتا
''موالنا مناظر احسن گيالنی (
حضرت سمره بن جندب نے بھی ايک صحيفہ لکھا تھا آپ کی وفات ۶٠ہجری ميں ہوئ ان کے
بعد يہ صحيفہ ان کے بيٹے سليمان کو مال۔اور اس سے وه حديث روايت کرتے تھے )تہذيب التھذيب
جلد ۴ص(٢١۴
اسی صحيفہ کے بارے ميں ابن سيرين )جن کی وفات ١١٠ہجری ميں ہوئتہذيب التھذيبجلد،٩ص (٢١۴فرماتے ہيں
)تھذيب التھذيب ''سمره نے جو مکتوب اپنے بيٹوں کے نام روانہ کيا اس ميں بہت سا علم موجود تھا۔
جلد،۴ص(٢٣۶
۔)طبقات ابن سعد جلد ۵ص(٣۴۴ حضرت جابر بن عبدﷲ متوفی٧٨ھ نے بھی ايک صحيفہ رقم کيا تھا
جو صحيفہ عصر نبوت ميں لکھے گئے ان ٰميں''صحيفہ صادقہ ''سب سے زياده مشہور ہے ۔
يہ صحيفہ حضرت عبدﷲ بن عمروبن العاص نے لکھا تھا ان کی وفات ۶۵ہجری ميں ہوئ بقول
ابن االثير اس ميں ايک ہزار حديثيں تھيں ۔ )اسدالعابتہ البن االثير ترجمہ عبدﷲ بن عمروبن العاص جلد ٣ص(٢٣٣
- 14 -
حضرت عبدﷲ بن عمروالعاص نے بارگاه رسالت ميں حاضر ہوکردريافت کيا ميں جو کچھ آپ
سے سنو وه لکھ ليا کروں؟آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ہاں ۔ انہوں نے فرمايا آپ صلی ﷲ
عليہ وسلم راضی ہوں يا غصہ ميں آپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ہاں اس لئے کہ ميں ہر حال
ميں حق کہتا ہوں۔ )جامع بيان العلم البن عبدالبرج،١ص٧١مسند احمدج،١ص،٢٠٧مستدرک حاکم ج ١ص(١٠۵
حضرت عبدﷲ بن عمرالعاص کا صحيفہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم کا فتوی تھا حضرت عبدﷲ
کے صحيفے کے لکھنے کی بہت بﮍی دليل حضرت ابوہريره کا يہ قول ہے ۔ صحابہ رضی ﷲ
تعالی عنہ ميں مجھ سے زياده کثيره الروايات اور کوئ نہ تھا ۔ البتہ حجرت عمروبن العاص رضی ٰ
تعالی عنہ کا معاملہ جداگانہ نوعيت کا تھا اس کی وجہ يہ تھی کہ وه حديث لکھ ليا کرتے تھے ﷲ ٰ
اور ميں لکھتا نہ تھا۔ )تقدير العلم ص ٨٢جامع بيان العلم ج ١ص ،٧٠مسند احمدج،٢ص٢٨۴واالصابہ ج۴ص،١١٢فتح
لباری ١ص ( ١٨۴۔
حضرت عمر بن العاص متوفی٩۶٩نے بﮍےاہتمام سے آنحضرت صلی ﷲ عليہ وسلمکی حديث
وسيرت سے متعلق بہت سا مواد تختيوں ہر تحرير کيا تھا جب آپ کسی علمی مجلس ميں جاتے
تو يہ تختياں بھی ہمراه لے جاتے )طبقات ابن سعد(
نقل متواتر سے يہ بات ثابت ہوچکی ہے کے وفات کے وقت آپ نے ايک اونٹ کے بار کے برابر
کتابيں چھوڑيں تھيں۔ )طبقات ابن سعدج۵ص(٢١۶
ابو ہريره سے ان کے شاگرد ہمام بن منبہ نے اييک صحيفہ روايت کيا پھر اس کو ہمام کی طرف
منسوب کرديا اوراس کو صحيفہ ہمام کہنے لگے حاالنکہ يہ صحيفہ ابوہريره نے ہمام کے لئے
ترتيب ديا تھا ہم اس صحيفہ کو احاديث کے ان مجموعوں ميں شمار نہيں کرسکتے جو عہد
رسالت ميں لکھے گئے تھے اس لئے کہ ہمام چاليس ہجری کے لگ بھگ پيدا ہوئے ۔اور
ابوہريره کی وفات ۵٨ہجری ميں ہوئ ۔اس بحث وتمخيص سے ايک علمی نتيجہ نکلتا ہے اور يہ
بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ تدوين حديث کا آغاز بہت ابتدائ زمانہ ہوگيا تھا ہم نے يہ سال
وفات طبقات ابن سعد ج ۵ص ٣٩۶کی روايت کے مطابق تحرير کيا ہے ۔
ان تمام دالئل کی روشنی ميں يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ احاديث عہد رسالت لکھی
جاتی رہی ہيں اور جو يہ کہتے ہينکہ احاديث ڈھائ سو سال بعد لکھی گئ ہيں وه بغير دليل کے
بات کررہے ہيں۔ ہمام بن منبہ کا صحيفہ مسند احمد بن حنبل ميں دورج ہے
)رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہم( محديث صحابہ
تعالی عنہ کی تعداد بہت زياده ہے اور صحيح طور پر اس کی تعين نہيں کی جا صحابہ رضی ﷲ ٰ
سکتی ۔علماء نے اندازه سے ان کی تعداد بتائی ہے صحيح عدد معلوم نہيں ۔ حضرت کعب بن
تعالی عنہ غزوئہ تبوک سے پيچھے رہنے کے واقعہ ميں بيان کرتے ہيں کہ ٰ مالک رضی ﷲ
اصحاب ِرسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی تعداد بہت زياده ہے اور کسی کتاب ميں ان کی گنتی مذکور
نہيں ۔)صحيح بخاری(
محدث ابو زرعہ سے دريافت کيا گيا کہ يہ بات کہاں تک درست ہے کہ احاديث نبويہ کی تعداد چار
ہزار ہے؟ فرمانے لگے يہ زنادقہ کا قول ہے۔ احاديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کو کون شمار
کر سکتا ہے؟ جب ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے وفات پائی اس وقت ايک الکھ چوده ہزار
- 15 -
صحابہ موجود تھے اور ان سب نے ٓاپ سے حديثيں سنيں اوعر روايت کيں۔ پھران سے سوال کيا
گيا يہ صحابہ کہا تھے اور انہوں نے کس جگہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے حديثيں سنيں؟فرمانے
لگے صحابہ مکہ ومدينہ اور ان کے ٓاس پاس بودو باش رکھتے تھے ۔کچھ ديہاتی تھے اور وه
بھی جو حجۃ الوداع کے موقعہ پر ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے ہمراه تھے۔ ان سب نے ٓاپ صلی
ﷲ عليہ وسلم کو عرفات کے ميدان ميں ديکھا اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے ارشادات گرامی
سنے۔
مندجہ صدر بيانات اس حقيقت کی غمازی کرتے ہيں کہ حديثيں روايت کرنے والے صحابہ کی
تعداد بہت زياده ہے ٰلہذا ہم صرف انہی صحابہ کا ذکر کريں گے جو روايت حديث ميں شہرت
رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ان کے مختصر سير وسوانح بھی بيان کريں گے۔
تعالی عنہ:
ٰ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ ہے۔ ٧ھ ماه محرم ميں
ٰ اسم گرامی عبدالرحمن بن صخر اور کنيت ابو ہريره رضی ﷲ
غزوئہ خيبر والے سال مشرف بااسالم ہو کر زيارت نبوی کی سعادت حاصل کی ۔امام شافعی اور
ديگر محدثين کے قول کے مطابق يہ صحابہ ميں سب سے بﮍے حافظ حديظ تھے ۔حاالنکہ ان کو
صحبت نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کی سعادت بہت کم حاصل ہوئی بہت کم عرصہ صحبت نبوی
صلی ﷲ عليہ وسلم سے مستفيد ہونے کے باوجود ان کے کثيرالرواےة ہونے کے وجوه اسباب
حسب ذيل ہيں۔
١۔ يہ ہميشہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی مجلس ميں حاضر رہتے تھے اور شاذونادر ہی غير
تعالی عنہ سے منقول ہے کہ تمٰ حاضر ہوتے تھے ۔بخاری ومسلم ميں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ حديثيں بہت رواےت کرتا ہے حقيقت يہ ہے کہ ميں ايک ٰ کہتے ہو کہ ابوہريره رضی ﷲ
مسکين ٓادمی تھا پيٹ بھر کر حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو نے کے سوا
انصار مدينہ اپنے مالوں کی
ِ مجھے کوئی کام نہ تھا ۔ مہاجرين بازار ميں کاروبا کرتے تھے اور
حفاظت ميں مصروف رہا کرتے تھے ميں حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی مجلس ميں حاضر تھا
ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا کون ہے ميرے بات ختم کرنےتک طادر پھيالئے اور پھر اسے
سميٹ لے اور پھر اس کے بعد اسے سنی ہوئی بات کبھی نہ بھولے يہ سن کر ميں نے طادر
بچھادی جب ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے سلسلئہ کالم ختم کيا توميں نے وه چادر سميٹ لی اس
ذات کی قسم جس کے ہاتھ ميں ميری جان ہے اس کے بعد مجھے کوئی بات نہيں بھولی۔)بخاری
ومسلم(
تعالی عنہ تحصيل علم کے بﮍے دلداده تھے اور حضور صلی ﷲ ٰ ٢۔ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
عليہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی تھی کہ انہيں نسيان کی بيماری الحق نہ ہو ۔يہی وجہ ہے
کہ وه صرف تين سال صحبت نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم ميں رہنے کے باوجود کثرت روايت ميں
سب صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ پر فوقيت لے گئے تھے ۔امام نسائی نے باب العلم ميں روايت کيا
تعالی عنہ کی خدمت ميں حاضر ہوکر چند
ٰ ہے کہ ايک شخص نے حضرت زيد بن ثابت رضی ﷲ
تعالی عنہ
ٰ تعالی عنہ کہنے لگے ابو ہريره رضی ﷲ
ٰ مسائل دريافت کئے حضرت زيد رضی ﷲ
تعالی عنہ اوعر
ٰ سے پوچھئے پھر انہوں نے يہ واقعہ سنايا کہ ايک دن ميں ا بو ہريره رضی ﷲ
ايک شخص مسجد ميں بيٹھے ذکر ٰالہی ميں مصروف تھے اسی دوران نبی اکرم صلی ﷲ عليہ
وسلم تشريف ال کر ہمارے پاس بيٹھ گئے ہم خاموش ہوگئے فرمايا جو کام ٓاپ کررہے تھے اسے
تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ميں اور ميرے ساتھی نے ابو ہريره رضی ﷲ ٰ جاری رکھئے زيد رضی ﷲ
تعالی عنہ سے پہلے دعا مانگی اور رسول صلی ﷲ عليہ وسلم نے ٓامين کہی پھر ابو ہريره رضیٰ
تعالی عنہ نے دعا مانگی اور کہا اے ﷲ ميرے ساتھيوں نے جو تجھ سے طلب کيا ہے ميں ٰ ﷲ
وه طلب کرتا ہوں اور تجھ سے ايسے علم کا طالب ہوں جو فراموش نہ ہونے پائے نبی اکرم صلی
تعالی عنہ نے کہا کہ ہم بھی ﷲ سے نہ بھو
ٰ ﷲ عليہ وسلم نے ٓامين کہی حضرت زيد رضی ﷲ
- 16 -
لنے والے علم کے خواستگار ہيں ،حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا دوسی )ابو ہريره رضی
تعالی عنہ(لﮍکا اس بات ميں تم پر فضيلت لے گيا۔)سنن نسائی(
ٰ ﷲ
تعالی عنہ نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم سے دريافت کيا کہ روز قيامت ٰ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی شفاعت کی سعادت سب سے زياده کس کو نصيب ہوگی ؟حضو ر صلی
تعالی عنہ سے پہلے کوئی شخص مجھٰ ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ميرا خيال تھا کہ ٓاپ رضی ﷲ
ٰ
سے يہ سوال نہيں کرے گا ۔اس لئے کہ ٓاپ رضی ﷲ تعالی عنہحديثوں کے بہت مشتاق ہيں ۔ميری
شفاعت کی سعادت سب سے بﮍھ کر روز قيامت اس شخص کو نصيب ہوگی جو خلوص دل سے ال
الہ اال ﷲ پﮍھے۔)بخاری(
تعالی عنہ نے کبار صحابہ رضی ﷲ ٰ ٣۔ کثرت روايت کی تيسری وجہ يہ ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ
ٰ
تعالی عنہ سے مل کر استفاده کيا تھا ۔اس لئے ان کا علم کامل اور وسعت پذير ہو گيا ۔
تعالی عنہ نے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد طويل عمر پائی ٓ
،اپ نبی ٰ ۴۔ابو ہريره رضی ﷲ
صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد سينتاليس سال بقيد حيات ره کر حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کی
،اپ مناصب ومشاغل اور فتنوں سے دور رہے۔ نشرو اشاعت کرتے رہے ٓ
تعالی عنہ تمام صحابہ رضی ٰ مندرجہ صدر وجوه اسباب کے پيش نظر حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
تعالی عنہميں عظيم تر حافظ حديث تھے اور حديث کے اخذ و تحمل اوعر رويت دونوں ميں ﷲ ٰ
تعالی عنہ بحيثيت مجموعی جن ٰ تعالی عنہ پر فائق تھے ۔ابوہريره رضی ﷲسب صحابہ رضی ﷲ ٰ
احاديث کے حافظ تھے وه انفرادی طور پر تمام يا اکثر صحابہ کو ياد تھيں ،يہی وجہ ہے کہ اکثر
تعالی عنہ کی جانبٰ تعالی عنہپيش ٓامده مسائل حل ميں حضرت ابوہريره رضی ﷲ صحابہرضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ کے جنازه
ٰ رجوع کرتے اور ان پر اعتماد کيا کرتے تھے ،حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ
ٰ تعالی عنہ نے فرمايا تھا ابو ہريره رضی ﷲ
ٰ کے موقع پر حضرت ابن عمر رضی ﷲ
مسلمانوں کے لئے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی احاديث محفوظ رکھا کرتے تھے ۔ بقول امام
تعالی عنہ سے قريبا ً ٓاٹھ سو اہل علم صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی ٰ بخاری حضرت ابوہريره رضی ﷲ
عنہم و تابعين نے حديثيں روايت کی ہيں ۔
تعالی عنہ سے پانچ ہزار تين سو چوہتر )(۴٧٣۵احاديث مروی ہيں ٰ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
،ان ميں سے بخاری مسلم ميں تی سو پچيس روايات ہيں ۔صرف بخاری ميں ترانوے اور صرف
تعالی عنہ نے مدينہ ميں ٰ مسلم ميں ايک سو چوراسی حديثيں ہيں ،حضرت ابوہريره رضی ﷲ
٧۵ھ ميں بعمر اٹھتر سال وفات پائی۔
- 18 -
حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے بيعت رضوان لی تھی(عمر کے ٓاخری حصہ ميں ٓاپ نابينا ہوگئے
تھے ٓاپ نے ايک قول کے مطابق ٨٧ھ ميں وفات پائی ۔
تعالی عنہ:
ٰ حضرت انس بن مالک رضی ﷲ
تعالی عنہبن نضر انصار خزرجی ہے،يہ رسول صلی ﷲ عليہ نام ونسب انس بن مالک رضی ﷲ ٰ
وسلم کے خادم تھے اگے چل کر بصره ميں سکوبت گزيں ہوگئے تھے جب حضور صلی ﷲ عليہ
وسلم مدينہ تشريف الئے تو ان کی والده ام سليم ان کو ٓاپ کی خدمت ميں الئيں او رکہا کہ يہ لﮍکا
ٓاپ کی خدمت کريگا ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اس پيش کش کو قبول فرمايا۔
حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی صورت ميں انس بن مالک کو اپنے والد کا نعم البدل مل گيا چنانچہ
وه خانواده نبوت ميں پروان چﮍھے اور ان امور کو بچشم خود ديکھا جن کا مشاہده دوسرے لوگ
نہ کرسکے سرور کائنات کے افعال واحوال سے پوری طرح باخبر تھے حضرت انس رضی ﷲ
تعالی عنہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد تراسی برس زنده رہے اس عرصہ ميں ان ٰ
کو احاديث نبويہ صلی ﷲ عليہ وسلم .کے اخذ واستفاده اور نشرو اشاعت کا خوب موقع مالمدينہ
منوره کے بعد يہ بصره ميں سکونت پذير ہوگئے تھے چنانچہ کثير تابعين ائمہ حديث مثالً حسن
بصری ،ابن سيرين ،حميد الطويل،ثابت بنانی وغيرہم نے ان سے خوب استفاده کيا ،حضرت انس
تعالی عنہ سے ايک ہزار دو سو چھياسی احاديث منقول ہيں بخاری ومسلم ان ميں سے ٰ رضی ﷲ
ايک سو اڑسٹھ احاديث رويت کرنے ميں متفق ہيں صرف صحيح بخاری مينتراسی احاديث ہيں
اور مسلم ميں صرف اکہتر۔
تعالی عنہ
ٰ امام بخاری اپنی تاريخ ميں قتاده سے رويت کرتے ہيں کہ جب حضرت انس رضی ﷲ
نے وفات پائی تو مورق نے کہا ٓاج سے ٓادہا علم رخصت ہوگيا ان سے دريافت کيا گيا يہ کيوں
کر؟ کہنے لگے جب کوئی بدعتی شخص حديث کے بار ميں ہماری مخالفت کرتا تو ہم کہتے ٓائو
اس شخص کے پاس جس نے يہ حديث خود نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنی ہے۔
تعالی عنہ کی وفات بصره سے چار ميل دور وقوع پذير ہوئی ٓاپ کو اس ٰ حضرت انس رضی ﷲ
جگہ دفن کيا گيا جسے قصرانس کتے ہيں بقول صحيح تو ٓاپ کی وفات ٣٩ھ ميں ہوئی۔
تعالی عنہا:
ٰ امو منين حضرت عائشہ رضی ﷲ
ام ٔ
امو منين ميں سے ايک تعالی عنہ کی دختر نيک اختر امہات ٔ
ٰ حضرت ابو بکر صديق رضی ﷲ
ہيں،اپ کی والدت حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی بعثت کے دو سال بعد مکہ ميں ہوئی ،احاديثٓ
صحيحہ سے ثابت ہے کہ حضو رصلی ﷲ عليہ وسلم نے جب ان کے ساتھ عقد نکاح کيا ان کی
عمر چھ سال تھی جب نو برس کی ہوئيں تو اپنے گھر ميں ٓاباد ہوئيں يہ ماه شوال اور ہجرت کے
سال اول کا واقعہ ہے ،ايک قول کے مطابق حضرت عائشہ کو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے
غزوه بدر سے واپس ٓاکر ہجرت کے دوسرے سال شرف خانہ ٓابادی بخشا۔
زوجہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ہونے کی حيثيت سے جو شرف صحبت حضرت عائشہ کو ميسر
تھا وه ٓاپ کے لے تحصيل علم کے سلسلہ ميں بﮍا مفيد ثابت ہوا ،اس کے ساتھ ساتھ ٓاپ کی
ذہانت وفطانت اور فراست رغبت علم نے سونے پر سہاگے کا کام کيا ،چنانچہ حضرت عائشہ نے
القران ميں دسترس حاصل کرلی يہ اسی کا نتيجہ ہے کہ صحابہ رضی ﷲ ٓ احاديث نبويہ اور علوم
ٰ
تعالی عنہکے مابين جب بھی کسی مسئلہ ميں اختالف رونما ہوتا وتو ان کی جانب رجوع کيا جاتا
،اس ميں حيرت واستعجاب کی کوئی بات نہيں کہ کبار صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ نے ٓاپ کے
چشمہ فيض سے اپنی علمی پياس بجھائی ۔رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی صحبت ميں رہنے کے
براں حضرتتعالی عنہ نے ٓاپ سے حديثيں رويت کيں ،مزيد ٓ
ٰ باوجود حضرت عمر رضی ﷲ
عائشہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد انتاليس سال تک بقيد حيات رہيں اور لوگ ٓاپ
- 19 -
کے بحر علم سے مستفيض ہوتے رہے۔
تعالی عنہا کا کثير الروايۃ ہونا کچھ بھی محل تعجب نہيں ،چنانچہ
ٰ بنابريں حضرت عائشہ رضی ﷲ
ٓاپ سے دوہزار دوسو دس احاديث مروی ہيں ،ان ميں سے بخاری ومسلم ايک سو چوہتر احاديث
رويت کرنے ميں متفق ہيں،بخاری چون احاديث رويت کرنے ميں منفرد ہيں اورامام مسلم چونسٹھ
تعالی عنہکو حضرت عائشہروايات ،مسروق تابعی کا قول ہے کہ ميں نے اکابر صحابہ رضی ﷲ ٰ
،اپ نے ٧۵ھ ميں تعالی عنہا سے تقسيم وراثت کے مسائل دريافت کرتے ديکھا ہے ٰٓ رضی ﷲ
وفات پائی۔
تعالی عنہ بن عبدالمطلب ہے ،يہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم نام ونسب عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہبنت حارث کے بھانجے تھے بقول امو منين ميمونہ رضی ﷲ ٰ چچا زاد بھائی تھے اور ام ٔ
صحيح تو ہجرت سے تين سال قبل پيدا ہوئے ۔جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے وفات پائی ان
تعالی عنہ کی عمر صرف تيره برس تھی ۔احاديث صحيحہ ميں ٓايا ہے کہ ٰ وقت ابن عباس رضی ﷲ
نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کو سينہ سے لگا کر يہ دعا فرمائی کہ ’’اے ﷲ اسے حکمت
سکھا سے‘‘
تعالی عنہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے قريبی رشتہ دار اور صغير ٰ چونکہ ابن عباس رضی ﷲ
السن تھے ،اس لئے ان کو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے گھر ميں ٓانے جانے کے بکثرت مواقع
براں ٓاپ کے حاصل تھے ۔اسی وجہ سے ٓاپ صحابہ ميں بﮍے کثير الرواےة مشہور تھے۔ مزيد ٓ
اندر تحصيل علم کا جو طبعی ذوق پاياجاتا تھا ۔اس نے ٓاپ کو نبی صلی ﷲ عليہ وسلم کی
خصوصی شفقت کامرکز بناديا تھا چنانچہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کے حق ميں دعا
فرمائی ۔يہ تمام عوامل ومحرکات اس جليل القدر صحابی کی شخصيت پر اثر انداز ہوئے اور ان
القران حبر االمت کے نام سے مشہور ہوئے ٓ تعالی عنہ ترجمان
ٰ کے زير اثر ابن عباس رضی ﷲ
تعالی عنہ
ٰ اور ٓاپ کو کثير الرواےة صحابہ ميں شمار کيا جانے لگا۔حضرت ابن عباس رضی ﷲ
حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد اٹھاون برس تک زنده رہے ۔اس طويل مدت ميں ٓاپ
تعالی عنہ رويت کرتے نے صغار وکبار سے خوب خوب استفاده کيا ۔حضرت ابن عباس رضی ﷲ ٰ
ہيں کہ جب نبی صلی ﷲ عليہ وسلم نے وفات پائی تو ميں نے ايک انصاری سے کہا ’’ٓاج کل
،ائے ان سب سے کسب فيض کريں ،وه کہنے لگے ’’تعجب کی بات بکثرت صحابہ بقيد حيات ہيں ٓ
ہے کيا ٓاپ يہ سمجھتے ہيں کہ لوگ ٓاپ کے پاس دينی مسائل دريافت کرنے کے لئے ٓايا کريں
تعالی عنہ کہتے ہيں ميں نے اس شخص کو نظر انداز کر کے صحابہ گے؟ابن عباسرضی ﷲ ٰ
تعالی عنہسے استفاده کرنے گا اغاز کرديا ۔بسا اوقات ايسا ہوتا کہ کسی شخص کے رضی ﷲ ٰ
بارے ميں مجھے پتہ چلتا کہ انہيں نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کی کوئی حديث ياد ہے ،چنانچہ
جب ميں اس کے گھر کے دروازه پر پہنچتا تو وه سو رہا ہوتا ،ميں اسی حالت ميں اپنی چادر کو
تکيہ بنائے اس کے دروازه کے سامنے ليٹ جاتا ،ہوا کے جھونکے ٓاتے اور مجھ پر مٹی اڑاتے
ہوئے گزر جاتے ۔گھر کا مالک باہر نکل کر ديکھتا تو کہتا اے رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم
کے چچا زاد بھائی کيسے تشريف فرما ہوئے؟ ٓاپ نے مجھے کيوں نہ بال ليا ؟ميں اس کے جواب
ميں کہتا کہ نہيں مجھے ہی ٓانا چاہيئے تھا ،ميں ٓاپ سے ايک حديث کے بارے دريافت کرنے ٓايا
ہوں۔سابق الذکر انصاری شخص اس وقت بقيد حيات تھے اس نے بچشم خود ديکھا کہ لو گ
ميرے ارد گرد کھﮍے مجھ سے دينی مسائل دريافت کررہے ہيں انصاری کہنے لگا ’’يہ نو جوان
مجھ سے زياده دانشمند نکال۔
تعالی عنہ کس ٰ مندرجہ واقعہ اس حقيقت کی ٓائينہ داری کرتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ
قدر ذہين وفطين تھے اورحديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ انہيں کس قدر والہانہ شغف
- 20 -
تعالی عنہ حديث نبوی صلی ﷲ عليہ
ٰ تھا ،اس سے يہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی ﷲ
وسلم ميں امامت کے درجہ پر فائز تھے اور ان پر ہر وقت حديث کی نشرواشاعت کی دہن سوار
رہتی تھی ۔لوگ ٓاپ کے ارد گرد جمع ہوتے اور ٓاپ سے حديثيں سنتے تھے حضرت فاروق اعظم
تعالی عنہ کی يہ حالت تھی کہ علمی مہارت وحذاقت کے باوجود انہيں جب کسی دقيق ٰ رضی ﷲ
تعالی عنہ سے کہتے’’ہميں ايک پيچيده مسئلہ ٰ دينی مسئلہ سے سابقہ پﮍتا تو ابن عباس رضی ﷲ
تعالی عنہ پيش کرتے اسے
ٰ سے واسطہ پﮍا ہے حل کيجيئے ‘‘پھر جو حل ابن عباس رضی ﷲ
قبول فرماتے۔
تعالی عنہ متعدد علوم مثالً حديث وفقہ وتاويل وحساب علم الفرائض
ٰ حضرت ابن عباس رضی ﷲ
اور عربيت ميں ديگر اصحاب پر فائق تھے ٓ۔اپ کا معمول يہ تھا کہ ايک دن صرف فقہی مسائل
بيان کرتے ،ايک دن تاويل وتفسير کے لئے،ايک دن مغازی کے لئے اور ايک دن ايام العرب بيان
کرنے کے لئے مخصوص کررکھاتھا۔ جس عالم کو بھی ٓاپ کی ہم نشينی کا موقع مال ٓاپ کے علم
سے متاثر ہوا اور جو مسئلہ بھی پوچھا اس کا جواب مال ۔مشہور تابعی طائوس سے سوال کيا گيا
تعالی عنہ
ٰ تعالی عنہ کو چھوڑ کر اس نوجوان )ابن عباس رضی ﷲ کہ ٓاپ اکابر صحابہ رضی ﷲ ٰ
(کے وابستئہ دامن کيوں کر ہوگئے ؟کہنے لگے ‘‘ميں نے ستر صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہکو
تعالی عنہ کی
ٰ ديکھا ہے جب ان کے يہاں کوئی مسئلہ ميں نزاع پيدا ہوتا تو ابن عباس رضی ﷲ
جانب رجوع کرتے۔‘‘
تعالی عنہ علم حديث ميں تنہا ايک جماعت کے برابر
ٰ خالصہ يہ کہ حضرت ابن عباس رضی ﷲ
تھے ٓ۔ا پ کی مرويات کی تعداد ايک ہزار چھ سو ساٹھ ہے۔ ا ن مينسے پچانوے احاديث بخاری
ومسلم دونوں نے رويت کی ہيں ۔امام بخاری ايک سو بيس احاديث رويت کرنے ميں منفرد ہيں
اور امام مسلم انچاس روايات ميں۔
تعالی عنہ کو
ٰ تعالی عنہ نے اپنے عہد خالفت ميں ابن عباس رضی ﷲ ٰ حضرت علی رضی ﷲ
بصره کا گورنر مقرر کيا تھا حضرت علی کی شہادت سے قبل ٓاپ نے يہ منصب ترک کرديا اور
حجاز لوٹ ٓائے زندگی کے باقی دن ٓاپ نے مکہ ميں گزارے ۔وہاں لوگوں کو دينی احکام کی تعليم
ديتے رہے ٓاپ نے طائف ميں ٨۶ھ ميں وفات پائی۔
- 21 -
سے حديثيں رويت کيں۔
تعالی عنہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم سے ٰ زبير بن بکار فرماتے ہيں کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
جو کچھ سنتے اسے ياد کرليتے ۔جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم موجود نہ ہوتے تو عبدﷲ
دوسروں سے ٓاپ کے اقوال وافعال کے بارے ميں دريافت کرتے ۔امام زہری فرماتے ہيں کہ کوئی
تعالی عنہ کے نظريات کا مقابلہ نہيں کر سکتا ٓ۔اپ حضور صلی ﷲ عليہ ٰ شخص ابن عمر رضی ﷲ
وسلم کے بعد ساٹھ سال تک زنده رہے۔ اس لئے ان سے رسول صلی ﷲ عليہ وسلم اور صحابہ
تعالی عنہکی کوئی بات پوشيده نہ تھی )بيہقی فی الدخل(۔ رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ رسول صلی ﷲٰ تعالی فرماتے ہيں کہ حضر ت عبدﷲ رضی ﷲ امام مالک رحمہ ﷲ ٰ
عليہ وسلم کی وفات کے بعد ساٹھ سال تک بقيد حيات رہے،لوگوں کے وفد ان کی خدمت ميں
تعالی عنہ نے
ٰ حاضر ہو کر دينی مسائل دريافت کيا کرتے تھے ۔حضرت عمر بن الخطاب رضی ﷲ
ٰ
شوری ميں تعالی عنہ کو خالفت سے دور رکھا تھا اور ان کی حيثيت اصحاب ٰ عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہ امور سلطنت سے الگ ٰ صرف ايک مشير کی تھی ۔يہی وجہ ہے کہ ابن عمر رضی ﷲ
رہے اور صحابہ کے مابين وقوع پذير ہونے والے فتنوں سے جداره کر علم وعبادت کے دامن
سے وابستہ رہے۔ ان کا شمار کثير الروےة صحابہ ميں ہوتا ہے۔اس کے وجوه اسباب حسب ذيل
ہيں ۔
١۔يہ بہت پہلے اسالم الئے اور طويل عمر پائی ۔حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی علمی مجالس ميں
باقاعدگی کے ساتھ شريک رہے۔ حد درجہ کے متبع سنت تھے۔ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی
عدم موجودگی ميں دوسروں سے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے افعال واقوال کے بارے ميں دريافت
کيا کرتے تھے يہ جملہ امور اس امر کی نشان دہی کرتے ہيں کہ يہ علم او خصوصا ً حديث نبوی
صلی ﷲ عليہ وسلم کےساتھ حدی درجہ شغف رکھتے تھے۔
تعالی عنہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کے قرابت دار تھے ۔ ان کی ٰ ٢۔حضرت ابن عمر رضی ﷲ
تعالی عنہا حضو ر صلی ﷲ عليہ وسلم کی زوجہ مطہره تھيں ۔ ٰ ہمشيره حضرت حفصہ رضی ﷲ
اس لئے ان کو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ ملنے جلنے کے بکثرت مواقع ملے تھے۔
تعالی عنہکے مابين جو ٣۔يہ دنيوی امو ر اور دولت وثروت کے حريص نہ تھے صحابہرضی ﷲ ٰ
لﮍائياں ہوئيں ٓاپ ان ميں غير جانبدار رہے ۔ يہی وجہ ہے کہ ان کو حديثيں سيکھنے اور ان کو
دوسروں تک پہنچانے کا بﮍا وقت مال۔
ٰ
متذکره صدر وجوه واسباب کے پيش نظر ٓاپ کثير الروےة صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہميں شمار
ہوتے ہيں ٓاپ سے ايک ہزار چھ سو تيس احاديث منقول ہيں ۔بخاری ومسلم ان ميں سے ايک سو
ستر احاديث رويت کرنے ميں متفق ہيں۔ بخاری اکاسی احاديث رويت کرنے ميں منفرد ہيناور
مسلم اکتيس روايات ۔ باقی احاديث ديگر محدثين نے روايت کی ہيں۔
تعالی عنہ کی شہادت کے تين ماه بعد بعمر
ٰ ٓاپ نے ٣٧ھميں حضرت عبدﷲ بن زبير رضی ﷲ
ستاسی سال وفات پائی۔
حضرت عبدﷲ بن عمروبن العاص رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ:
نام نسب عبدﷲ بن عمر و بن العاس کنيت ابو محمد اور نسبت قرشی سہمی ہے۔ اپنے والد سے
قران کرنے والے تھے ۔حديث پہلے مشرف باسالم ہوئے۔بﮍے عابد زاہد اور کثرت سے تالوت ٓ
نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ والہانہ لگائو تھا۔ امام بخاری نے کتاب العلم ميں حضرت ابو
تعالی عنہ سے رويت کيا ہے کہ صحابہرضی ﷲ تعاٰلی عنہميں عبدﷲ بن عمر وبن ٰ ہريره رضی ﷲ
العاص کے سوا اور کوئی شخص مجھ سے بﮍھ کر حديثيں نہيں جانتا ۔اس کی وجہ يہ تھی کہ
تعالی عنہ لکھ ليا کرتے تھے ،اور ميں لکھتا نہ تھا۔ )صحيح بخاری(
ٰ عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہا نے اپنے بھانجے عروه بن زبير سے کہا مجھے پتہ چال ہے ٰ حضر ت عائشہ رضی ﷲ
- 22 -
کہ عبدﷲ بن عمرو بن العاص يہاں سے گزر کر حج کو جانے والے ہيں ۔ ان سے مل کر دينی
مسائل دريافت کيجئے ۔اس لئے کہ ان کے پاس رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی بکثرت احاديث
تعالی عنہ کے ٰ محفوظ ہيں ۔ابن سعد مجاہد سے رويت کرتے ہيں کہ ميں نے عبدا رضی ﷲ
پاس ايک صحيفہ ديکھا۔ جب اس کے بارے ميں ان سے دريافت کيا گيا تو کہا يہ ’’ صادقہ ‘‘ہے
۔اس ميں وه احاديث محفوظ ہيں جو ميں نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم سے براه راست بال واسطہ
سنی تھيں۔ )طبقات ابن سعد(
تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ميں نے نبی صلی ﷲ عليہ ٰ ابن سعد حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
وسلم سے دريافت کيا کہ ٓايا ميں وه احاديث لکھ ليا کروں جو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنتا
ہوں ؟جب ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے اجازت مرحمت فرمائی تو ميں نے لکھنے کا ٓاغاز کرديا۔
تعالی عنہ )اپنے پاس تحرير کرده رسالہ کو’’صادقہ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ ٰ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہکے يہاں مندرجہ صدر امور سے يہ حقيقت واضح ہوتی ہے کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ ٰ
حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے اخذ وتحمل کے متعدد اسباب جمع ہوگئے تھے ۔ جو دوسروں
مثاليہ کہ ٓاپ قديم االسالم تھے ۔احاديث نبويہ کو حفظ بھی کرتے تھے اور کو ميسر نہ ٓائے تھے ً
تعالی عنہ سے ٰ اپنے قلم کے ساتھ تحرير بھی کرليا کرتے تھے چنانچہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
منقول ہے کہ ميں نے نبی صلی ﷲ عليہ وسلم سے سن کر ايک ہزار حديثيں روايت کيں۔
تعالی عنہ کی
ٰ تعالی عنہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ ٰ اب سوال يہ ہے کہ حضرت ابوہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ
ٰ طرح حديثيں لکھا نہيں کرتے تھے مگر اس کے باوجود حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ سے منقول احاديث کی نسبت کئی گنا ہيں ۔صحيح ٰ کی مرويات حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہ سے منقول ہيں اس سے بھی مستفاد ہوتا ہے ٰ بخاری کی جو روايات ابوہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ
ٰ تعالی عنہ کو زياده حديثيں ياد تھيں ۔پھرابو ہريره رضی ﷲ ٰ کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہ کے مقابلہ ميں کيوں زياده ہيں ؟ اس کا جواب يہ ٰ کی مرويات حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہ کی مرويات کی کثرت اور حضرت عبدﷲ رضی ﷲ ٰ ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ
تعالی عنہ سے منقول احاديث کی قلت کے وجوه حسب ذيل ہيں۔ ٰ
تعالی عنہ زياده تو مصر اور طائف ميں قيام ٰ ١۔اسالمی فتوحات کے بعدحضرت عبدﷲ رضی ﷲ
پذير رہے ظاہر ہے کہ حديث نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کے طلبہ کی اکثريت عازم مدينہ ہوا کرتی
تھی ۔مصر ميں طلبہ کی اتنی کثرت نہ تھی۔ بخالف ازيں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ ٰ
تعالی
فتوی کا مرکز بنے رہے۔ اس کا بين ثبوت يہ ٰ عنہمدينہ ميں سکونت گزيں ره کر اشاعت حديث اور
تعالی عنہ سے ٓاٹھ سو تابعين نے حديثيں روايت کيں ۔جب کہ ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہکو يہ سعادت حاصل نہ ہوئی۔ ديگر صحابہ رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ تعليم وتدريس کی نسبت زياده تر عبادت ميں مشغول رہا ٰ ٢۔ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
ٰ
کرتے تھے ۔بخالف ازيں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ تعالی عنہ نے اپنی زندگی اشاعت حديث کے
لئے وقف کر دکھی تھی۔
ٰ
٣۔ سرور کائنات صلی ﷲ عليہ وسلم نے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ تعالی عنہ کے حق ميں دعا
فرمائی تھی کہ جو بات سنيں انہيں يار رہے اوربھولنے نہ پائيں۔
تعالی عنہ کو ملک شام ميں اہل کتا ب کی چند کتابيں دستياب ہوئی ٰ ۴۔ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
تھيں وه ان کو پﮍھتے اور ان کے بعض جملوں کو خوب ياد رکھتے اور دوسروں کو سناتے تھے
۔ اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ ائمہ تابعين ٓاپ سے روايت کرنے ميں احتراز کرنے لگے۔
ان اسباب کے پيش نظر جو احاديث ٓاپ سے مروی ہيں وه ٓاپ کے علم کی وسعت وکثرت کے
مقابلہ ميں بہت کم ہيں ۔چنانچہ ٓاپ سے صرف سات سو احاديث منقول ہيں ۔بخاری ومسلم نے ان
ميں سے باالتفاق ستره احاديث روايت کی ہيں ۔ان ميں سے بخاری ميں ٓاٹھ احاديث ہيں اور مسلم
ميں بيس روايات۔
تعالی عنہ سے بکثرت تابعين نے حديثيں روايت کی ہيں ۔ مثالً سعيد بن ٰ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
- 23 -
ٓ
وغيرہم۔اپ نے ٣۶ المسيب وعروه۔عبدالرحمن کے دونوں بيٹوں ابو سلمہ اور حميد نيز مسروق
ھ ميں مصر ميں وفات پائی۔ اس وقت ٓاپ کی عمر بہتر سال تھی يہ ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم
کی وفات کے بعد تريپن سال زنده رہے۔
تعالی عنہ:
ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
لی عنہ کی کنيت ابو عبدالرحمن ہے ان کا نسب ہذيل بن حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ تعا ٰ
مدرکہ بن الياس کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ان کی والده کا نام ام عبد بنت عبد و د بن سواء ہذيل
ہے۔يہ مشرف باسالم ہوئيں اور ہجرت کی سعادت حاصل کی ۔حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
تعالی عنہمشرف تعالی عنہ قديم االسالم تھے يہ اس وقت اسالم الئے جب سعيد بن زيد رضی ﷲ ٰ ٰ
ٰ
باسالم ہوئے تھے۔حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ تعالی عنہتاہنوز اسالم نہ الئے تھے ۔حضرت
تعالی عنہ خود فرمايا کرتے تھے۔
ٰ عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
’’ميں چھٹا مسلمان تھا ،ہمارے سوا روئے زمين پر اور کوئی مسلمان نہ تھا‘‘۔
ٓاپ نے پہلے حبشہ اور پھر مدينہ ہجرت فرمائی ۔رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی رفاقت ميں
غزوات بدر واحد،خندق،بيعت الرضوان اور ديگر لﮍائيوں ميں شرکت کی ۔وه حضرت عبدﷲ بن
تعالی عنہ ہی تھے جس نے غزوئہ بدر ميں ابو جہل پر حملہ کر کہ اس کا سر ٰ مسعود رضی ﷲ
تھا۔اپ نے غزوئہ ير موک ميں بھی شرکت کی سعادت حاصل کی ۔نبی صلی ﷲ عليہ وسلم ٓ کاٹ ليا
کے جوتوں کی حفاظت کا شرف ان کے حصے ميں ٓايا تھا ۔جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم اٹھتے
تو يہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کو جوتے پہناتے ،جب بيٹھ جاتے تو حضرت عبدﷲ بن مسعود
تعالی عنہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے جوتوں کو بغل ميں دبائے رکھتے ۔يہ حضور ٰ رضی ﷲ
صلی ﷲ عليہ وسلم کے يہاں بﮍی کثرت سے ٓايا جايا کرتے تھے اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی
خدمت کيا کرتے تھے .
ٰ
موسی اشعری رضی ﷲ تعالی عنہفرماتے ہيں کہ ميں اور ميرا بھائی يمن سے ٓائے ٰ حضرت ابو
تعالی عنہ اور ان کی والده اس کثرتٰ اور کچھ عرصہ قيام کيا ۔حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
سے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے يہاں جايا کرتے تھے کہ ہم ان کو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم
کے اہل بيت ميں شمار کرنے لگے۔
)بخاری ومسلم(
اسالم ميں سبقت کرنے اور حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ساتھ ان کو جو دل بستگی تھی اس
تعالی عنہ ميں ہوتا تھا ٓ
۔قران کريم کی بنا پر ان کا شمار کبار اور فضالء فقہاء صحابہ رضی ﷲ ٰ
۔حتی کہ خود رسولٰ تعالی عنہ پر فائق تھے وفتوی ميں يہ دوسرے صحابہ رضی ﷲ ٰ ٰ اور حديث
قرانيہ ہونے کی شہادت دی ہے ۔حضور صلی ﷲ عليہ صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان کے ماہع علوم ٓ
تعالی عنہ،سالم
ٰ قران کريم چار صحابہ سيکھو ،يعنی عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ وسلم نے فرمايا ٓ
تعالی عنہم اجمعين سے۔)بخاری ٰ مولی ابی حذيفہ اور معاذ بن جبل اور ابی بن کعب رضی ﷲ ٰ
ومسلم(
تعالی عنہ
ٰ نعمت خداوندی کا شکريہ ادا کرتے ہوئے خود حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
فرماتے ہيں۔
’’اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہيں کتاب ﷲ کی کوئی سورت ايسی نہيں جس کے
بارے ميں مجھے معلوم نہ ہو کہ وه کہاں اتری اور کس ضمن ميں اتری ،اگر مجھے معلوم ہوتا
قران کا کوئی عالم موجود ہے اور اونٹ وہاں تک پہنچا سکتا تو ميں کہ کوئی مجھ سے بﮍھ کر ٓ
سوار ہو کر اس کی خدمت ميں حاضر ہوتا۔)صحيح مسلم(
ٰ
تعالی عنہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ تعالی عنہکے علم وفضل کا اعتراف کبار صحابہ رضی ﷲ ٰ
کرتے تھے ۔چنانچہ حضرت عمر نے اہل کوفہ کے نام ايک خط لکھا:
- 24 -
ميں نے عمار کو تمہارا امير اور عبدﷲ بن مسعود کو معلم اور وزير بنا کر بھيجا ہے ۔يہ دونوں
رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کے چيده اصحاب اور اہل بدر ميں سے ہيں ۔ان کی پيروی
کيجيئے۔عبدﷲ کو تمہاری طرف بھيج کر ميں نے تمہيں اپنی ذات پر ترجيح دی ہے۔
تعالی عنہ کی عظمت وفضيلت کے اثبات ميں حضرت عمر ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
ًٓ
ہے۔خصوصااپ کا يہ قول کہ ’’تم کو اپنی ذات پر سے بﮍھ کر اور کس کی شہادت ہو سکتی
ٰ
ترجيح دی‘‘قابل غور ہے۔حضرت عمر رضی ﷲ تعالی عنہوه شخص ہيں جب کے قلب وزبان پر
قرانی ٓايا ت
ﷲ نے حق کو جاری کرديا تھا۔وه جب کسی رائے کا اظہار کرتے تو اس کی تائيد ميں ٓ
نازل ہوجاتيں۔صاحب فضيلت کا قدر شناس وہی ہوسکتا ہے جو خود بھی فضيلت کا حامل ہو جب
تعالی عنہنے وفات پائی تو حضرت ابو درداء نے کہا: ابن مسعود رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہنے اپنے بعد کوئی ايسا شخص نہيں چھوڑا جو ان جيسا ہو۔ ’’ابن مسعود رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ سے بے شمار لوگوں نے حديثيں روايت کيں ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
موسی اشعری،عمران بن حصين،ابن ٰ ،صحابہ ميں سے مندجہ ذيل کے اسماء قابل ذکر ہيں۔ابو
عباس،ابن عمر ،جابر ،انس،ابن زبير ،ابو سعيد خدری،ابو ہريره ،ابو رافع،رضوان ﷲ عليہم
اجمعين۔تابعين ميں سے علقمہ،ابو وائل ،اسود،مسروق،عبيده،قيس بن ابی حازم،رحمہم ﷲ عليہم
اور ديگر اکابر نے استفاده کيا۔
تعالی عنہ سے ٓاٹھ سو اڑتاليس احاديث منقول ہيں ۔بخاری ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
ومسلم نے چونسٹھ احاديث باالتفاق روايت کيں ہيں۔بخاری اکيس احاديث کے روايت کرنے ميں
منفرد ہيں اور مسلم نے پينتيس احاديث روايت کيں ہيں ۔
ً
تعالی عنہ جن صفات سے متصف تھے مثالقدامت اسالم اور ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
طويل صحبت نبوی صلی ﷲ عليہ وسلم کا تقاضہ يہ تھا کہ وه مذکوره صدر احاديث سے زياده
احاديث روايت کرتے ۔انہوں نے تمام عصر نبوت کو بچشم خود ديکھا اور ٓانحضرت صلی ﷲ عليہ
وسلم کی صحبت سے بھو پور استفاده کيا۔وه حديثيں ياد کرنے کے حريص بھی تھے اس کے
ساتھ ساتھ ا ن کا حافظہ بھی بہت قوی تھا۔دنيوی سازوساما ن سے انہيں چنداں دلچسپی نہ
تھی۔مگر رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد وه بہت کم عرصہ تک زنده رہے اور جس طرح
تعالی عنہکو حديثوں کی اشاعت کے لئے طويل مدت ملی تھی ان کو حضرت ابو ہريره رضی ﷲ ٰ
نہ مل سکی ۔
تعالی عنہ نے ٢٣ھ ميں ايک قول کے مطابق کوفہ اور ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
دوسرے قول کے مطابق مدينہ ميں بعمر ساٹھ سال سے کچھ زائد وفات پائی۔
- 25 -
مشہور مستشرق گولڈ زيہر نے انسائيکلو پيڈيا ٓاف اسالم جلد اول عدد ہفتم ميں حضرت ابو ہريره
رضی ﷲ عنہ پر چند اتہامات باندھے ہيں جو کو کسی علمی وتاريخی دليل پر مبنی نہيں ہيں۔ان
اتہامات کا خالصہ يہ ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ حديثيں روايت کرنے کے سلسلہ ميں امانت
ٰ
وتقوی کے وديانت کا خيال نہيں رکھتے تھے۔گولڈ زيہر کا کہنا ہے کہ ابوہريره رضی ﷲ عنہ زہد
بل بوتے پر حديثيں گھﮍليا کرتے تھے اور جو لوگ براه راست ان سے حديثيں رايت کرتے تھے
وه بھی ان کی مرويات پر شک وشبہ کا اظہار کرتے تھے بلکہ بالفاظ صحيح تر وه ان کا مذاق
اڑاتے تھے ۔ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی يہ عادت تھی کہ معمولی باتوں کو بھی بﮍے دلکش انداز
ميں بيان کرتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وه بﮍے زنده دل اور ظريف الطبع تھے۔ يہ ابو
ہريره رضی ﷲ عنہ کی خوش مذاقی ہی تھی جو بہت سی دلچسپ کہانيوں کی موجب بنی۔لطف يہ
ہے کہ گولڈزيہر اپنی اسالم دشمنی پر پرده ڈالنے کے لئے ان اتہامات کو اسالمی کتب کی جانب
منسوب کرتا ۔اس سے دراصل وه يہ تاثر دينا چاہتا ہے کہ يہ واقعات بجائےخود درست ہيں ورنہ
مسلم مصنفين ان کو بيان نہ کرتے اس کا يہ انداز بﮍی گہری اور پر فريب چال پر منبی ہے۔ ہم ان
شاء ﷲ اس کی بہت اچھی طرح پرده دری کريں گے۔
اتہام کی حقيقت:
اس ميں شبہ نہيں کہ حضرت ابو ہرير ه رضی ﷲ عنہ جن کی ذات گرا می پر يہ کيچﮍ
اچھاال جاتا ہے نہايت جليل القدر صحابی ہيں اور عبدﷲ بن عمر بن العاص کو چھوڑ کر سب
صحابہ ميں کثير الروا يۃ مشہور تھے۔ ظاہر ہے کہ احاديث نبويہ کے بحر بيکراں حضرت ابو
ہريره رضی ﷲ عنہ پر جرح و نقد کے يہ معنی ہيں کہ حديث کے پورے ذخيره اور ابوہريره رضی
ﷲ عنہ کی تمام مرويات کو مشکوک ٹھرايا جائے تاکہ اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جا ئے اور
يہ کوئی معمولی درجے کا فساد نہيں اور اگر اس جرح وطعن ميں صداقت کا کچھ بھی عنصر
شامل ہوتا تو اس کو تسليم کر ليا جاتا مگر يہ طعن باطل ہے اور حق سے يکسرعاری ہے۔
بقول اما م بخاری حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے ٓاٹھ سو اہل علم نے احاديث روايت کيں ہيں
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وه ان پر اعتماد کرتے تھےورنہ ان سے حديثيں روايت نہ کرتے سب
صحابہ اور محدثين ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو ثقہ تسليم کرتے رہے ہيں حضرت ابن عمر
فرماتے ہيں:
ابو ہريره رضی ﷲ عنہ مجھ سے بہتر ہيں اور جو حديث وه بيان کرتے ہيں اس کو وه خوب
جانتے ہيں۔
حضرت طلحہ جو عشره مبشره ميں سے ہيں فرماتےہيں:
اس ميں شک نہيں ابو ہر يره رضی ﷲ عنہ نے حضور صلی ﷲ عليہ وسليم سے وه حديثيں
سنيں جو ہم نہ سن سکے۔
امام نسائی ذکر کرتے ہيں کہ ايک شخص نے حضرت زيد بن ثابت کی خدمت ميں حاضر ہو کر
کوئی مسئلہ پوچھا ،حضرت کہنے لگے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کے پاس جاؤاور ان سے
دريافت کرو ۔امام نسائی نے پوارا واقعہ ذکر کيا۔
بقول اہل علم وثقات محدثين ابو ہريره رضی ﷲ عنہ حد درجہ حافظ اور ضابط تھے۔ امام
شافعی فرمايا کرتے تھے کہ ابو ہريره تمام راويان حديث سے بﮍھ کر حافظ ہے۔اعمش ابو صالح
سے ذکر کرتے ہيں کہ ابو ہريره تمام اصحاب محمد صلی ﷲ عليہ وسلم سے بﮍھ کر حافظ تھے۔
- 26 -
مروان کا کاتب ابو زعيزعہ ذکر کرتا ہے کہ مروان نے ابو ہريره کو باليا اور وه حديثيں بيان
کرنے لگے ،ميں ايک چار پائی کے پيچھے چھپا بيٹھا تھا اور لکھتا جا رہا تھا جب ايک سال
گزرا تو مروان نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو بال کر ان احاديث کے بارے ميں پوچھا اور مجھے
تحرير کرده احاديث کو ديکھتے رہنے کا حکم ديا ،ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے من عن وه حديثيں
سنا ديں اور ايک حرف کو بھی تبديل نہ کيا ۔
يہ ہيں ابويره رضی ﷲ عنہ کے بارے جليل القدر محدثين کے نظريات۔ان کی رائے سند کا درجہ
رکھتی ہے۔جس کو يہ ثقہ قرار ديں اس کو کوئی مجروح نہيں ٹھہرا سکتا ۔ اور جس کو نقدو
جرح کے تيروں سے گھائل کر ديں کھوٹے سکے کی طرح کوئی اس کی توثيق نہيں کرسکتا۔
بھال جو شخص ان اکا بر کی مدح وتوصيف سے بہره ور ہو چکا ہو اس کو کسی کی مذمت کی کيا
پروا ۔
ان مختصر تمہيدی سطور کے بعد اب ہم ان اعتراضات کی اصل حقيقت ب نقاب کرتے ہيں:
١۔مستشرق مذکور کا يہ قول کہ کثرت روايت کی بناء پر ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت
کرنے والے شک وشبہ کا اظہار کرنے لگے تھے۔اور اس کی دليل بخاری کی وه روايت ہے جو
بخاری کتاب فضائل االصحاب حديث نمبر ١١ميں مذکور ہے ،اس ميں درج ہے کہ ''لوگ کہتے
ہيں کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ زياده حديثيں بيان کرتا ہے۔بات يہ ہے کہ ميں اپنا پيٹ بھر کر
رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتا تھا نہ لذيذ کھانے مجھے نصيب
تھے نہ عمده کپﮍا،نہ ميرا کوئی خادم اور نوکر تھا،جب بھوک ستاتی تو ميں پيٹ کے بل کنکريوں
پر الٹا ليٹ جايا کرتا تھا۔''
ايک با انصاف ٓادمی مذکوره صدر روايت سے سمجھ سکتا ہے کہ بعض لوگوں نے کثرت حفظ و
روايت پر تعجب کيا تھا ،ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے اس کی وجہ يہ بيان کی کہ وه ٓانحضور صلی
ﷲ عليہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہا کرتے تھے۔انہيں مال متاع جمع کرنے کے بجائے
صرف حديثيں جمع کرنے کا شوق تھا جب بھوک ستاتی تو وه کنکريوں پر ليٹ جاتے تجارت ہو
يا زراعت ،انہيں رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے باز نہ رکھ سکی اس لئے انہوں نے
دوسروں سے زياده احاديث ياد کر ليں اورحضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے وه استفاده کيا جس
سےديگر صحابہ قاصر رہے۔جب ابوہريره رضی ﷲ عنہ نے يہ وجہ بيان کردی تو اعتراض کرنے
والے خاموش ہوگئے
اگر ہم مستشرق مذکور کی يہ بات تسليم کر بھی ليں کہ وه لوگ ابوہريره رضی ﷲ عنہ پر تعجب
نہيں کرتے تھے بلکہ ان کے بارے ميں شکوک شبہات کا اظہار کرتے تھے تو سوال يہ پيدا ہوتا
ہے کہ انہوں نے رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی وفات کے بعد ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے
حديثيں اخذ کرنا ترک کيوں نہ کيا ؟حاالنکہ ابوہريره رضی ﷲ عنہ اس کے بعد پچاس سال بقيد
حيات رہےمعلوم ہوتا ہے کہ وه ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی بيان کرده وجہ سے مطمئن ہو گئے
تھےاور ان کے شکوک شبہات زائل ہوگئے تھے اگر ان کی مرويات ميں انہيں کچھ شبہ ہوتا تو
وه ان کے اخذ کر نے سے باز رہتے ،حاالنکہ وه رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی احاديث کے
محافظ اور ان ميں تدليس وکذب کی ٓاميزش کو روکنے والے تھے۔
٢۔جہاں تک گولڈ زيہر کے اس زعم باطل کا تعلق ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ ايک ظريف طبع
ٓادمی تھے اور وه معمولی معمولی باتوں کو بﮍے دلکش انداز ميں بيان کرنے کےعادی تھے يہی
وجہ ہے کہ بہت سی کہانياں ان کے بارے ميں مشہور ہوگئيں ،ابن قتيبہ نے يہ دلچسپ واقعات
بيان کئے ہيں۔يہ بيان حد درجہ مبہم و مجمل اور گمراه کن ہے۔ہم نہيں جانتے وه کہانياں کيا
- 27 -
ہيں؟مستشرق مذکور کو چاہيئے تھا کہ وه کہانياں بيان کرتا،تاکہ ہم ان پر غور وفکر کر سکتے
۔اس نے يہ بھی نہيں بتايا کہ ابن قتيبہ نے يہ واقعات اپنی کس کتاب ميں ذکر کئے ہيں،ابن قتيبہ
ايک کثير التصانيف عالم ہيں اور ان کی متعدد تصانيف زيور طبع سے ٓاراستہ ہو چکی ہيں ۔اگر
مستشرق مذکور امانت وديانت سے کام لے کر ابن قتيبہ کی کتاب کا نام ذکر کرديتا تو ہم اسے بتا
تے کہ وه ابن قتيبہ کی بات سمجھنے سے قاصر رہا۔
٣۔منکرين حديث نے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کے بارے ميں ڈاکٹر اسپرنگر کا جو قول نقل
وتقوی کے پيش نظر احاديث وضع کيا کرتے تھے ہم ٰ کيا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ ورع
اسپرنگر وغيره کے مزعومات باطلہ کو تسليم نہيں کر سکتے ۔يہ لوگ تو خود صحابہ پر بہتان
طرازی ميں حد سے بﮍہے ہوئے ہيں ۔ان کا مقصد وحيد ملسمانوں کو گمراه کرنا ،دين ميں انتشار
پيدا کرنا ،حقيقت کو مسخ کرنا ،اور اصليت پر پرده ڈالنا ہے،اسپرنگر کےاس طعن کے لئے کوئی
جواز نہيں اور يہ بال دليل وبرہان ہے۔
اسپرنگرکا يہ کہنا کہ ''ابو ہريره رضی ﷲ عنہ زہد وتقوی کی بناء پر حديثيں وضع کيا کرتے
تھے۔''ايک اليعنی گفتگو ہے۔ جس کا کوئی مطلب مفہوم نہيں ۔اس لئے کہ زہد وتقوی تو لوگوں
پر جھوٹ باندھنے سے بھی روکتا ہے۔چہ جائے کہ رسول صلی ﷲ عليہ وسلم پر افتراء پردازی
کی جائے ۔ابو ہريره رسول صلی ﷲ عليہ وسلم پر جھوٹ کيسے باندھ سکتے تھے جب کہ وه
خود رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی يہ حديث روايت کرتے تھے کہ جس نے مجھ پر دانستہ
جھوٹ باندھا وه اپنا گھر دوزخ ميں بنا لے۔
حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ جب حديث روايت کرنے لگتے تو اس حديث سے ٓاغاز کرتے
ظاہر ہے کہ جس شخص نے يہ حديث نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنی ،اسے اچھی طرح
ياد رکھا دوسروں تک پہنچايا بلکہ دوسروں کو ياد داليا اور ہر مرتبہ روايت حديث سے قبل وه
حديث دوسروں کو سنائی اس کے ساتھ ساتھ وه مومن بھی ہواور زہد وتقوی سے بھی متصف ہو
عادةً محال ہے کہ ايسا شخص رسول صلی ﷲ عليہ وسلم پر جھوٹ باندھے ۔دروغ گوئی ميں
مبالغہ ٓاميزی اور اس کو ايک دينی کام خيال کرنا تو بﮍی بات ہے۔
۴۔ مستشرقين کا يہ قول کہ ''اکثر احاديث جو ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی جانب منسوب ہيں
،پچھلے تاريخی ادوار ميں گھﮍ کر ان کی جانب منسوب کی گئی ہيں'' ہم اس بات کو تسليم کرتے
ہيں کہ بہت سی حديثيں وضع کر کے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ جيسے عظيم ترين محدث
کی جانب منسوب کر دی گئی تھيں مگر نقاد حديث نے ان ميں سے ايک ايک موضوع حديث کو
چھانٹا اور کھوٹی کھری احاديث کو مميز وممتاز کرديا اور اس طرح انہوں نے واضعين کے سب
راستے مسدود کردئے ۔
اب سوال يہ ہے کہ انسائکلوپيڈيا کے مصنفين نے يہ کانامہ کس لئے انجام ديا تھا؟اگر ان کا
مقصد يہ تھا کہ علوم اسالميہ کو ان کی اصل شکل وصورت ميں لوگوں کے سامنے پيش کيا
جائے تو افسوس ہے کہ يہ مقصد بالکل پوارا نہيں ہوا۔اور اگر اس محنت و کا وش کی غرض
وغايت يہ تھی کہ اہل مغرب کے سامنے مسلمانوں کی تصوير قابل مذمت حال ميں کھينچی جائے
،مسلمانوں کے عقائد ميں انتشار پيدا کيا جائے ،ملسم نوجوانوں کو دين سے برگشتہ کيا جائے
تو اس ميں شبہ نہيں کہ يہ مجموعہ بﮍی حدی تک اس غرض کو پورا کرتا ہے۔
)شيخ محمد عرفہ کا بيان ختم ہوا(
کلمتہ الختام:
- 28 -
سابقہ بيانات کا خالصہ يہ ہے کہ ارباب بدعت مستشرقين اعدائے دين اور ان کے جاہل
تالمذه اصحاب رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی تحقير کے لئے اسالم کو نقصان پہنچانے کی
کوشش کرتے رہتے ہيں ،احاديث نبويہ کے عظيم راوی ابو ہريره کے ساتھ تو انہيں خاص
عداوت ہے۔
عصر حاضر ميں نام نہاد اہل علم اور بد اخالق لوگوں کی ايک جماعت اٹھی ہے جنہوں نے
سابقہ ادوار کے تمام عيوب ومطاعن کا کوڑا کرکٹ حضرات صحابہ پر بالعموم حضرت ابو ہريره
رضی ﷲ عنہ پر بالخصوص ڈالنے کی کوشش کی ہے ان کا مقصد يہ ہے کہ دين اسالم کے اسد
بلند پايہ ستو ن کو مسمار کر ديا جائے،وه عظيم ستون رسول پاک صلی ﷲ عليہ وسلم کی حديث
وسنت ہے۔چنانچہ انہوں نے سابقہ الذکر اتہامات پر ہی اکتفا نہيں کيا بلکہ اس پر جھوٹ کا طومار
باندھنے کی کوشش کی ہے ۔چنانچہ ہم ان اعتراضات کا ذکر کر کے ان کا مختصر جواب پيش
کرتے ہيں
١۔ مستشرق اور ان کے جاہل تالمذه کا دعوی ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو دين سے ٰ
کوئی
دلچسپی نہ تھی وه صرف دنيا کی خاطر مشرف باسالم ہوئے ،حاالنکہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ فقر
وفاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے اور سب کاموں کو چھوڑ کر انہوں نے اپنی زندگی علم وعبادت
،جہاد فی سبيل ﷲ اور دين کی تبليغ و دعوت کے لئے وقف کر رکھی تھی اس سے ان کے
دعوے کی تکذيب ہوتی ہے،
٢۔ان کا دعوی ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو علم فقہ ميں چنداں مہارت حاصل نہ تھی يہ
تاريخ اسالم پر ايک عظيم دھبہ ہے اس لئے کہ واقعہ اس کے خالف ہے ابن سعد طبقات ميں
لکھتے ہيں کہ حضرات صحابہ مثالً ابن عباس ،ابن عمر ،ابو سعيد خدری،ابو ہريره ،عبدﷲ بن
عمرو بن العاص ،جابر رافع بن خديج،سلمہ بن اکوع،ابو واقد ليثی اور عبدﷲ بن بحينہ رضی ﷲ
عنہم حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اپنی وفات تک مدينہ منوره ميں حديثيں روايت کرتے
اور فتوی ديتے رہےاس کا مطلب يہ ہے کہ حضرت ابو ہريره اکابر صحابہ وتابعين کی موجودگی
ميں تيئس سال تک مدينہ ميں فتوی ديتے رہے۔)طبقات ابن سعد(
امام ابن قيم نے مفتی صحابہ کا ذکر کيا اور بتايا ہے کہ ان ميں زياده فتوی دينے والے بھی تھے
اور کم فتوی دينے والے بھی۔بعض صحابہ فتوی دينے می متوسط درجہ کے تھے ،حضرت ابو
ہريره کو انہوں نے متوسط فتوی دينے والوں اور حضرت ابو بکر و عثمان و ابو سعيد خدری وام
سلمہ وابوموسی اشعری ومعاذ بن جبل وسعد بن ابی وقاص وجابر رضی ﷲ عنہم کے زمره ميں
شامل کيا ہے جو شخص کہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ فقيہ نہ تھےوه خود فقہ سے عاری
ہے۔)اعالم الموقعين ج١ص(٩
٣۔ مستشرقين کا قول ہے کہ حضرت عمر نے ابو ہريره کو بحرين کا عامل مقرر کيا پھر ٓاپ کو
پتہ چال کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے خيانت کی ہے چنانچہ ٓاپ نے ان کو معزول کر ديا ان کے
پاس جو مال تھا وه لے ليا اور ان کو اس قدر پيٹا کہ خون بہنےلگا ۔يہ اس شخص کا قول ہے جو
مؤرخين کے سچے جھوٹے اقوال جمع کرنے کا عادی ہو اور حق وباطل ميں تميز کرنے سے
اسے کوئی سروکار نہ ہو اصل واقعہ صرف اتنا تھا کہ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ابو ہريره
رضی ﷲ عنہ کو بحرين سے طلب کر کے پوچھا کہ يہ مال ٓاپ نے کہاں سے حاصل کيا ؟حضرت
ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے کہا ميرے پاس کچھ گھوڑيا تھيں ان کی نسل ميں افزئش ہوئی اس
کے ساتھ ساتھ کچھ تنخواہيں جمع ہوگئيں،باقی مانده مال ميرے غالم کی کمائی کا ہے۔تحقيق
کرنے پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اسے درست پايا پھر ٓاپ نے دوباره ابو ہريره رضی ﷲ
- 29 -
عنہ کو بحال کرنا چاہا مگر وه نہ مانے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے فرمايا ''مالزمت تو اس
سے بہتر شخص )حضرت يوسف (نے بھی طلب کی تھی ''ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کہنے لگے وه
تو حضرت يوسف عليہ السالم تھے جو خود نبی بھی تھے اور نبی زاده بھی تھےاور ميں اميمہ
کا بيٹا ابو ہريره ہوں۔''
اس واقعہ سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ديگر عمال کی طرح حضرت عمر نے ابو ہريره
رضی ﷲ عنہ کا محاسبہ کيا تھا اور تحقيق کرنے پر ابو ہريره رضی ﷲ عنہ پر جو الزام تھا وه
غلط ثابت ہوا۔حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو جو دوباره بحال کرنا چاہا
تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی سيرت بے داغ تھی حضرت
عمر رضی ﷲ عنہ ٓاپ پر اعتماد کرتے تھے اور ٓاپ کو امين خيال کر تےتھے۔
۴۔ مستشرقين کا دعوی ہے کہ جب حضرت علی ومعاويہ رضی ﷲ عنہما کے درميان فتنہ بپا
ہوا۔ان دنوں ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نماز علی رضی ﷲ عنہ کے ساتھ پﮍھتے تھے اور کھانا
حضرت معاويہ کے ساتھ کھايا کرتے تھے،جب ميدان کار زار گرم ہوجاتا تو پہاڑ ميں چھپ کر
پناه ليتے۔جب ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو کہتے علی بہتر عالم ہيں
اور معاويہ کے يہاں لذيذ کھانا ملتا ہے۔اور امن سالتی پہاڑ کے دامن ہی ميں حاصل ہوتی ہے۔يہ
واقعہ سراسر بہتان اور جھوٹ ہے تاريخ سے ثا بت ہے کہ حضرت ابوہريره رضی ﷲ عہ فتنہ
کے زمانے ميں الگ تھلگ رہے اور مدينہ سے باہر نہ گئے۔
۵۔ منکرين حديث کا کہنا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ بنو اميہ کے حامی تھے او ر حضرت
علی کی مذمت ميں حديثيں وضع کر کے معاوضہ ليا کرتے تھےبخالف ازيں صحيح تاريخ سے
اس امر کا اثبات ہوتا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے حضر ت علی رضی ﷲ عنہ اور اہل بيت
کی مدح ميں حديثيں روايت کيں ہيں۔چنانچہ مسند احمد اور مجمع الزوائد ميں يہ احاديث مذکور
ہيں ،حضرت حسن رضی ﷲ عنہ کو جب نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کے روضہ ميں دفن کر
نے کا سوال اٹھا تو اس وقت مروان کے ساتھ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو جو واقعہ پيش ٓايا اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بيت کے ساتھ ان کو کس قدر والہانہ محبت تھی ،مؤرخ ابن کثير نے يہ
واقعہ ذکر کيا ہے۔)البدايہ ج٨ص(١٠٨
پھر سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کی مذمت
ميں جو حديثيں وضع کی تھيں وه کہاں گئيں اور کن ثقہ راويوں نے ان کو نقل وروايت کيا ؟اس
کے سوا کيا کہا جا سکتا ہے کہ ان احاديث کا وجود ان لوگوں کے دماغ کے سوا اور کہيں نہيں
ہے ۔
محدث حاکم وابو ہريره رضی ﷲ عنہ:
مشہور محدث امام حاکم نے اپنی کتاب ''المستدرک''ميں حضرت ابو ہريره کی مدح
وتوصيف ميں ايک نہايت قيمتی فصل منعقد کر کے بکثرت احاديث نقل کی ہيں جن سے ان کی
عظمت اور فضيلت ثابت ہوتی ہے،امام حاکم نے اس فصل کو اپنے استاد محترم ابو بکر کے
مندرجہ ذيل نظريات پر ختم کيا ہے چنانچہ ابو بکر فرماتے ہيں حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ
تعالی نے اندھا
ٰ کی احاديث کو رد کرنے کے لئے وه شخص گفتگو کرتا ہے جس کے دل کو ﷲ
کرديا ہو اور وه احاديث کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہويا تو وه شخص فرقہ جہميہ معطلہ ميں
سے ہوگاجو اپنے نظريے کے خالف ابو ہريره کی مرويات سن کر ان کو گالياں ديگا اور ٰ
ادنی
درجے کے لوگوں کو يہ تاثر دينےکی کوشش کريگا کہ يہ حديث قابل احتجاج نہيں ہيں۔
- 30 -
يا وه شخص خارجی ہوگا جس کے نزديک ساری امت محمدی واجب القتل ہے اور کسی
خليفہ اور امام کی اطاعت ضروری نہيں ايسا شخص جب اپنے گمرہانہ عقائد کے خالف حضرت
ابو ہريره رضی ﷲ عنی کی روايت کرده احاديث کو ديکھے گا اور کسی دليل اور برہان سے ان کا
جواب نہ دے سکے گا تو فی الفور ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو برا بھال کہنے لگے گا۔
يا وه شخص قدريہ)منکرين تقدير(ميں سے ہوگا جن کا اسالم اور اہل اسالم سے کچھ تعلق
نہيں اور جو تقدير کا عقيده رکھنے والے مسلمانوں کی تکفير کرتے ہيں ايسا شخص جب اثبات
تقدير کے مسئلہ سے متعلق ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی روايت کرده احاديث ديکھے گا تو اپنی بر
کفر عقيدے کی تائيد و حمايت ميں اسے کوئی دليل نہ ملے گی تو وه کہے گا کہ ابو ہريره رضی
ﷲ عنہ کی مرويات استناد واحتجاج کے قابل نہيں۔
يا وه شخص جاہل ہوگا جو جہالت کے باوجود فقہ دانی کا مدعی ہے اس شخص نے جس
امام کی تقليد کا قالده اپنی گردن ميں ڈاال ہوا ہے جب اس کے خالف ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی
مرويات ديکھے گا تو ان کی ترديد کرنے لگے گا اور ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کو مطعون ٹھہرائے
گا۔ليکن جب ابو ہريره رضی ﷲ عنہ کی روايت کرده احاديث اس کے امام کے مسلک سے ہم
ٓاہنگ ہونگی تو اس وقت وه ان کو اپنے مخالفين کی ترديد ميں استعمال کريگا۔)المستدرک
ج٣ص(۵٠۶
اکابر صحابہ جنہوں نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت کی:
امام حاکم فرماتے ہيں کہ مندرجہ ذيل اکابر صحابہ نے ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے حديثيں
روايت کی ہيں۔
زيد بن ثابت،ابو ايوب انصاری ،ابن عباس،ابن عمر،عبدﷲ بن زبير،ابی بن کعب،جابر
ٰ
موسی اشعری ،انس بن مالک،سائب بن زيد،ابو رافع ،عائشہ،مسور بن مخرمہ،عقبہ بن حارث،ابو
مولی رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم،ابو عمامہ بن سہل ،ابو طفيل ،ابو نضره غفاری ،ابو رہم ٰ
غفاری ،شداد بن الہاد،ابو حدرد،عبدﷲ بن حدرد اسلمی ،ابو رز ين عقيلی،واثلہ بن اسقع،قبيصہ
بن ذويب،عمر وبن الحمق ،حجاج اسلمی ،عبدﷲ بن عقيل،االغرالجہنی،شريد بن سويد رضی ﷲ
عنہم اجمعين۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابو ہريره رضی ﷲ عنہ سے روايت کرنے والے صحابہ کی تعداد
اٹھائيس تک پہنچ گئی تھی جہانتک تابعين کا تعلق ہے ان ميں کوئی بھی ابو ہريره رضی ﷲ عنہ
کے اصحاب وتالمذه سے بﮍھ کر عالم اور مشہور تر نہ تھا ان کی تعداد اس قدر زياده ہے کہ ان
سب کا ذکر طوالت کا موجب ہے ،خداوند کريم ہميں رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم ،ان کے
صحابہ ،تابعين اور سب ائمہ دين کی مخالفت سے محفوظ رکھے۔)امام حاکم کا کالم ختم ہوا(
اس پر جس قدر تاسف کا اظہار کيا جائے کم ہے کہ کچھ نوخيز مدعيان اسالم جو علم کے
ذوق سے ٓاشنا ہيں اور نہ اسالم کے قدر شناس ،رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کے اصحاب
رضی ﷲ عنہم کی مذمت کر کے بزعم خويش اسالم کو نقصان پہنچانے کے در پر ہيں ان کا کام
صرف دولت جمع کرنا ہے ۔حيرت کی بات تو يہ ہےکہ وه ابو ہريره رضی ﷲ عنہ پر يہ بہتا ن
طرازی کرتے ہيں کہ حضرت معاويہ رضی ﷲ عنہ سے معاوضہ لے کر حضرت علی رضی ﷲ
عنہ کی مذمت ميں حديثيں وضع کيا کرتے تھے۔
- 31 -
دوسری طرف ان کا اپنا يہ حال ہے کہ عيسائی مشينريوں سے بھاری تنخواہيں وصول کر کے ان
کے کاموں ميں تعاون کر رہے ہيں ،اوريہ صرف اس بات کا صلہ ہے کہ دين اسالم کو ہدف تنقيد
بنايا جائے اور علمائے اسالم کی تحقيرو تذليل کی جائے۔
ٓ
قران عزيز ميں فرمايا) :ومن ﯾکسب خطيئۃ اؤ اثما ﯾرم بہ برﯾئافقد احتمل بھتانا واثما مبينا(
''اور جو غلطی يا گناه کا مرتکب ہو پھر کسی بے گناه کو اس سے متہم کر دے تو اس نے بہتان
تراشا اور بﮍا بھاری گناه اٹھايا''۔
- 32 -
اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم سے اس بات کا پتہ چل گيا تھا کہ دين ہی ان کی سعادت کا منبع اوراسی
کے ساتھ ان کا عزو شرف وابستہ ہے۔اس لئے وه دين کی پيروی کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔
صحابہ رضی ﷲ عنہم رسول اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کے دل وجان سے شيدا تھے اور ٓاپ
کو اپنے والدين اور اپنے بال بچوں سے زياده چاہتے تھے۔ ٓ
قران ان کا اوڑہنا بچھونا تھا وه اس
کو نوک زبان ياد کرتے اور اس کی شرح تفسير معلوم کرنے ميں لگے رہتے۔ حضور اکرم صلی
قران کی جو تفسير بيان کرتے يا اسالمی احکام پر جو روشنی ڈالتے صحابہ رضیﷲ عليہ وسلم ٓ
ﷲ عنہم اس کو اپنے سينوں ميں محفوظ کر ليتے ۔پھر ہجرت مدينہ کا واقعہ پيش ٓايا اور سماع
قران اور حضور کی علمی مجلس سے استفاده کا دائره وسيع تر ہو گيا۔ ٓ
حضرات صحابہ رضی ﷲ عنہم حديث نبوی کی اہميت سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ
تعالی نے حديث کی پيروی کا حکم ديا ہے اور اس کی خالف ورزی سے بار رکھا ہے وه اس ٰ ﷲ
حقيقت سے بھی باخبر تھے کہ حديث کے معاملہ ميں افراط وتفريط سے کام لينے واال بدبخت
انسان ہے اور جو شخص حديث کو ياد کرتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو وه خوش نصيب ٓادمی ہے
صحابہ رضی ﷲ عنہم کی نگاه سے يہ حقيقت پوشيده نہ تھی کہ ٓ
قران عزيز نے علم اور علماء
کا مرتبہ بلند کيا ہے اور جہالت وجہالء کو نفرت وحقارت کی نگاه سے ديکھا ہے ۔چنانچہ ارشاد
فرمايا:
)قل ھل ﯾستوی الذﯾن ﯾعلمون والذﯾن ال ﯾعلمون(''الزمر ''٩:
''کہہ ديجئے کہ کيا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہيں ''۔
)ﯾرفع ﷲ الذﯾن امنو منکم والذﯾن اوتوالعلم درجت(''المجادلہ''١١:
''سب مومنوں کو )طلب علم کے لئے (گھر سے نہيں نکل جانا چاہيے ايسا کيوں نہيں ہوتا کہ
ايک جماعت ميں سے کچھ لوگ دين کا علم حاصل کرنے کے لئے چلے جائيں اور جب واپس
ٓائيں تو اپنی قوم کو ڈرائيں تاکہ وه پرہيز کريں''۔
وعيد شديد وارد ہوئی ہے ۔
ِ علم کو چھپانے اور اس کا اظہار نہ کرنے کے سلسلہ ميں جو
صحابہ رضی ﷲ عنہم اس سے بھی ٓاگاه تھے ٓ
قران عزيز ميں فرمايا:
''ان الذﯾن ﯾکتمون ما انزلنا من البينات والھدی من بعد ما بيناه للناس فی الکتب اولئک
ﯾلعنھم ﷲ وﯾلعنھم اللعنون'')البقرة(١۵٩:
''بےشک وه لوگ جو ان دالئل اور ہدايت کو چھپاتے ہيں جس کو ہم نے اتارا ہے اس کے بعد کہ
ہم نے اس کو لوگوں کے لئے کتاب ميں واضح کرديا ہے ان پر ﷲ بھی لعنت بھيجتا ہےاور لعنت
بھيجنے والے ''۔
- 33 -
قرانی نصوص ميں دينی علم حاصل کرنے اوراس کی نشرواشاعت کی فضيلت جس طرح ٓ
بيان کی گئی ہے اسی طرح بکثرت احاديث نبويہ علوم دينيہ کی تحصيل وتبليغ اور کتمان علم کی
مذمت ميں وارد ہوئی ہيں۔
چند احاديث مالحظہ ہوں رسول اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا:
ہے۔)صحيح بخاری تعالی جس کے ساتھ بھالئی کرنا چاہتا ہے اس کو دين کی سمجھ عطا کرتا
ٰ ١۔ ﷲ
ومسلم(
٢۔ دنيا ومافيہا ملعون ہے سوائے ذکر الہی اور عالم ومتعلم کے ۔)ترمذی(
رتعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور بالکم وکاست
ٰ ٣۔ﷲ
ٓاگے پہنچاديا۔اس لئے کہ جن کو بات پہنچائی جاتی ہے ان ميں سے بعض سننے والے سے بھی
زياده ياد رکھتے ہيں۔)ترمذی(
تعالی اس کے
ٰ ۴۔ جو شخص کسی راه پر اس لئے چال کہ علم حاصل کرے اس کی وجہ سے ﷲ
لئے جنت کے راستہ کو ٓاسان کرديتا ہے۔)صحيح مسلم(
۵۔جس شخص سے کوئی علمی مسئلہ دريافت کيا جائے اور وه اسے چھپائے تو قيامت کے روز
اس کو ٓاگ کی لگام پہنائی جائے گی۔)ابو يعلی(
باالايات واحاديث حضرات صحابہ رضی ﷲ عنہم کے رگ وپے ميں سما گئيں اور مذکوره ٓ
ان کے قلب اذہان پر چھا گئی تھيں ۔ان کے دل ﷲ اور اس کے رسول کی محبت سے بھر پور
ومعمور تھے ان کے نفوس ميں علم وعمل کی شمع فروزاں تھی چنانچہ انہوں نے اپنی احکام
وسنن کے تحفظ ونگہداشت ميں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اس کی خاطر انہوں نے اپنے مال
وجان کو قربان کرنے سے بھی دريغ نہ کيا ،مزير ٓ
براں دينی حميت وغيرت کے پہلو بہ پہلو
صحابہ رضی ﷲ عنہم حد درجہ کی فطری استعداد سے بھی بہره ور تھے ان کی قوت حافظہ اور
ذہانت وفطانت ضرب المثل کی حد تک مشہور تھی اور اس ضمن ميں وه يگانہ روز گار تھے۔
اس کی وجہ يہ تھی کہ خالص عرب تھے اور لکھنے پﮍہنے سے ٓاشنا نہ تھے اکثرو بيشتر
وه اپنے حافظہ پر اعتماد کرنے کی عادی تھے ۔دور جاہليت ميں ان کی حالت يہ تھی کہ اشعار
خطبات اور انساب ومناقب ان کو زبانی ياد ہوا کرتے تھے اکثر ايسا ہوتا کہ حسب ونسب ميں ايک
دوسرے پر فخر کا اظہار کرتے اس سلسلہ ميں اپنے اور دشمن کے جو اخبار واقعات ان کو ياد
ہوا کرتے تھے بيان کرتے اور اس طرح مخالفين پر اپنی عظمت کا سکہ بٹھاتے ۔ہر شخص اپنی
عقل اور قوت حافظہ کی حد تک اپنے قبيلہ کا تر جمان ہوا کرتا تھا۔ وه اپنے قبيلہ کے اوصاف
ومحاسن بيان کرتا اور قبيلہ اس کو خراج تحسين پيش کرتا تھا گويا قبيلہ کوئی تاريخ کتاب ہے
جو اخبار وحوادث سے بھرپور ہے۔عربوں کے اندر حسب ونسب پر فخر کرنے اور دوسروں کے
عيوب ونقائص گنوانے کا جو ملکہ راسخ ہوچکا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ جو قبائلی تعصب ان
ميں پايا جاتا تھا وه ان کی قوت حفظ ضبط کے لئے مزيد معاون ثابت ہوتا تھا يہی وجہ ہے کہ
قوت حافظہ ميں دنيا کی کوئی قوم عربوں کا مقابلہ نہيں کر سکتی تھی۔
گويا خداوند کريم نے اس امت عربيہ کو يہ حير ت ناک استعداد دے کر اسی لئے خلق
فرمايا تھا کہ رسالت محمدی صلی ﷲ عليہ وسلم کے لئے اساس وبنياد کا کام دے سکے چنانچہ
اس امت کے سينے ٓايات قراانی کے سفينے قرار پائے اور ان کے قوت حفظ وضبط سے بھر پور
دل حديث نبوی کے ملجا ومامن ٹھہرے يہ اسی کا نتيجہ ہے کہ حضور کے صحابہ رضی ﷲ عنہم
- 34 -
والہانہ ذوق شوق کے ساتھ حديث کے اخذ وتحمل ميں لگ گئے اور ان کی برکت سے خداوند
کريم نےاس دين کو جملہ مذاہب عالم پر برتری عطا فرمائی۔
خالصہ يہ کہ امت عربيہ ميں روحانی وفطری دو قسم کے عوامل جمع ہوگئے تھے ۔جن کی
بدولت وه امت ايسے کارنامے انجام دے سکی جو کسی قوم نے ٓاغاز ٓافرينش سے انجام نہيں
دئے تھے۔انہوں نے کتاب سنت کی حفاظت وصيانت کا فريضہ بطريق احسن ادا کيا۔ حضور صلی
ﷲ عليہ وسلم کی الئی ہوئی شريعت کو دينی ودنيوی جملہ امور ميں مشعل راه بنايا اور جوں کی
توں اسے دوسرے لوگوں تک پہنچايا۔
نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم اپنی علمی مجالس ميں ايسی پاکيزه اور مفيد باتيں ارشاد فرماتے
جن سے صحابہ رضی ﷲ عنہم کو شرح صدر عطا ہوتا اور ان کےدل ايمان سے جگمگا اٹھتے
صحابہ رضی ﷲ عنہم ان علمی مجالس ميں اپنے بچوں کو بھی ہمراه التے تھے تاکہ وه بھی
ٓ
کےاداب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے ارشادت گرامی سے مستفيد ہوسکيں اور مجلس نبوی
سيکھيں،بعض اوقات ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سےکوئی مسئلہ دريافت کيا جاتا اور ٓاپ صلی ﷲ
عليہ وسلم اس کا جواب ارشاد فرماتے ۔گاہے کوئی حادثہ رونما ہوتا اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم
قرانی ٓايت نازل ہوتی اور ٓاپ صلی ﷲ
اس کے بارے ميں حکم خداوندی سے ٓاگاه فرماتے ۔يا کوئی ٓ
عليہ وسلم اس کی تفسير کرتے بعض اوقات ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے سامنے کوئی کام کيا جاتا
اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم خاموش رہتے يہ اس جانب اشاره تھا کہ يہ کام شرعا جائز ہے اور
ممنوع نہيں ۔
حضور کی نسبت يہ گمان درست نہيں کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم بادشاہوں کی طرح لوگوں سے
الگ تھلگ رہا کرتے تھے اور افراد امت کے ساتھ گھل مل کر رہنے کو ناپسند کرتے تھے
بخالف ازيں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم لوگوں کے ساتھ ميل جول کو پسند فرماتے تھے لوگوں کو
وعظ فرماتےتھے بيماروں کی عيادت کرتے تھے جنازه ميں شرکت کرتے لوگوں کے جھگﮍے
- 35 -
چکاتے اور ان کے متنازعہ امور ميں فيصلے کرتے صحابہ رضی ﷲ عنہم حضور صلی ﷲ عليہ
وسلم کے ان سب معامالت کو بچشم خود ديکھتے تھے اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے ارشادات
کود ل کے کانوں سے سنتے ۔
مگر يہ امر پيش نظر رہے کہ سب صحابہ رضی ﷲ عنہم ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی
علمی مجالس سے اخذ واستفاده ميں مساوی نہ تھے ۔کچھ خوش نصيب ايسے بھی تھے جو ہر
جگہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے وابستہ دامن رہتے اورسفر ہو ياحضر کسی حالت ميں بھی
ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے الگ نہيں ہوتے تھے ۔
مثال ً◌حضرت ابو بکر صديق رضی ﷲ عنہ وحضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ ۔بعض ايسے بھی
تھے جو زراعت وتجارت ميں مشغول ہونے کی وجہ سے ہر وقت حاضری سے معذور تے ۔مگر
بايں ہمہ حديث نبوی کے ساتھ ان کی شيفتگی ودل بستگی کا يہ عالم تھا کہ جب واپس ٓاتے تو
ديگر صحابہ رضی ﷲ عنہم سے پوچھ کر وه احاديث ياد کرليتے جو ان کی عدم حاضری ميں ٓاپ
صلی ﷲ عليہ وسلم نے ارشاد فرمائی تھيں ۔بعض صحابہ رضی ﷲ عنہم نے يہ طريقہ اختيار کر
رلکھاتھا کہ ايک روز خود اور ايک روز ان کا پروسی باری باری خدمت اقدس ميں حاضر ہوتے
اور جو کچھ سنتے ايک دوسرے کو بتا ديتے جيسا کہ جناب فاروق اعظم رضی ﷲ عنہ اور ان
کےايک انصاری پﮍوسی کے بارے ميں منقول ہے کہ دونوں باری باری ٓانحضور صلی ﷲ عليہ
وسلم کی مجلس ميں حاضر ہوتے اور جو کچھ ديکھتے يا سنتے ايک دوسرے کو بتا ديتے
۔)صحيح بخاری(
مدينہ منوره سے دور رہنے والے صحابہ رضی ﷲ عنہم کی حالت يہ تھی کہ جب کسی نئے
مسئلے سے دوچار ہوتے اور اسے حل نہ کر پاتے تو اونٹوں پر سوار دور دراز کا سفر طے
کرتے اور مدينہ پہنچ کر يہ مسئلہ دريافت کرتے ۔بعض اوقات کئی کئی دن اور راتيں سفر ميں لگ
جاتيں ،چنانچہ حضرت عقبہ بن حارث رضی ﷲ عنہ بيان کرتے ہيں کہ ايک عورت نے انہيں بتايا
کہ ''ميں نے تم اور تمہاری بيوی دونوں کو دودھ پاليا ہے ''۔ يہ سن کر وه مکہ سے روازنہ
ہوئے اور مدينہ پہنچ کر حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے مسئلہ دريافت کيا ،حضور صلی ﷲ عليہ
وسلم نے فرمايا جب تم دونوں نے ايک عورت کا دودھ پيا ہے تو تمہاری بيوی تمہارے نکاح ميں
کيسے ره سکتی ہے ؟چنانچہ حضرت عقبہ نے اپنی بيوی کو طالق دے دی۔)صحيح بخاری(
ساال رسل صلی ﷲ عليہ وسلم اس حقيقت سے ٓاگاه تھے کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد دعوت
وارشاد کا کام صحابہ رضی ﷲ عنہم کے کندھون پر ٓاپﮍے گا اس لئے ٓاپ اپنے تعليمی اسباق ميں
اس بات کا خاص خيال رکھتے تھے کہ اس کام کے لئے صحابہ رضی ﷲ عنہم حضور صلی ﷲ
عليہ وسلم کی اس خصوصی تربيت کا ذکر کريں گے جو صحابہ رضی ﷲ عنہم کےلئے مشعل راه
ثابت ہوئی۔اور صحابہ رضی ﷲ عنہم حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کے بعد اس کی روشنی ميں
دعوت وارشاد کا فريضہ بجاال تے رہے۔
حضور صلی ﷲ عليہ وسلم صحابہ رضی ﷲ عنہم کو تربيت ديتے تھے اس کے خصوصی
پہلو حسب ذيل تھے۔
١۔ جب حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے کوئی ايسی بات دريافت کی جاتی جو ٓاپ صلی ﷲ عليہ
ٓ
انتظار کرتے۔ وسلم کو معلوم نہ ہوتی تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سکوت فرماتے اور وحی کا
٢۔ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی يہ عادت مبارکہ تھی کہ جو بات کرتے اسے تين مرتبہ دہراتے
تاکہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی بات اچھی طرح سمجھی جائے۔
- 36 -
٣۔ بعض اوقات صحابہ رضی ﷲ عنہم کی ذہانت وفطانت معلوم کرنے کے لئے ان سے بعض
مسائل دريافت فرمايا کرتے تھے۔
۴۔ جب ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم سے کوئی سوال کيا جاتا تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم جواب ديتے
اور حاضرين کے فائده کے لئے جواب سے ملتے جلتے مسائل بھی بيان کرديتے ۔
۵۔ٓاپ وعظ ناغہ کے ساتھ فرمايا کرتے تھے تاکہ سامعين اکتا نہ جائيں ۔حضرت عبدﷲ بن مسعود
رضی ﷲ عنہ کے تالمذه نے ان سے عرض کی کہ ٓاپ ہر روز ہميں حديثيں سنايا کريں تو انہوں
نے تسليم نہ کيا اور کہا ميں ناغہ سے تمہيں حديثيں سنايا کروں گا کيونکہ حضور صلی ﷲ عليہ
وسلم بھی ناغہ کے ساتھ وعظ فرمايا کرتے تھے تاکہ لوگ اکتا نہ جائيں
۶۔ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم بعض صحابہ رضی ﷲ عنہم کو خصوصی مسائل سے ٓاگاه کرتے
تھے ،جب کہ دوسروں کو يہ علمی باتيں نہ جاتيں مباداکہ وه فتنہ ميں مبتال ہوجائيں اور ديگر
امثلہ جن سے يہ حقيقت واضح ہوتی ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کس طرح صحابہ رضی
ﷲ عنہم کی علمی تربيت فرماتے تھے ۔نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کی تعليم وتربيت ہی کا
خوشگوار ثمره تھا کہ صحابہ رضی ﷲ عنہم کو جليل القدر اساتذه کی حيثيت حاصل ہوئی اور وه
دينی احکا م ومسائل کے امين قرار پائے۔
٢۔ متواتر معنوی :ايسی احاديث کی تعداد بہت زياده ہے مثالً طہارت ،نماز،روزه ،اور حج وزکوة
کے احکام سے متعلق احاديث جن ميں بيع کے اقسام نکاح اور غزوات کا ذکر کيا گيا ہے اور جن
کے بارے ميں سب فرقہ ہائے اسالم متفق الخيال ہيں ۔
بعض احاديث وه ہيں جو تواتر کے درجہ تک نہيں پہينچ سکيں ان کو ''اخبار ٓاحاد ''کہتے ہيں۔
- 37 -
صحابہ رضی ﷲ عنہم احاديث نبويہ کو زبانی ياد کرتے اور لو گوں کو مل کر پہنچا ديا
کرتے تھے البتہ صحابہ رضی ﷲ عنہم ميں چند ايسے بھی تھے جو حديثيں لکھ ليا کرتے تھے۔
مثالً حضرت عبدﷲ بن عمر وبن العاص رضی ﷲ عنہ کو نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلم نے حديثين
لکھنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔
چنانچہ حضرت عبدﷲ کا بيان ہے کہ ميں جو چيز بھی ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے سنتا
اس کو حفظ کرنے کے اراده سے لکھ ليا کرتا تھا قريش نے مجھے اس سے منع کيا اور کہا کہ
''تم رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم سے جو چيز بھی سنتے ہو اس کو لکھ ليتے ہو حاالنکہ ٓاپ
صلی ﷲ عليہ وسلم بھی ايک انسان ہيں کبھی ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم غصہ ميں ہوتے ہيں اور
کبھی حالت رضا ميں اس لئے ہر چيز کا لکھ لينا موزوں نہيں ''۔چنانچہ ميں نے لکھنا بند کرديا
اور نبی کريم صلی ﷲ عليہ وسلمکی خدمت ميں ماجرا بيان کيا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم
نےفرمايا ''لکھتے رہو مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت ميں ميری جان ہے ميری
زبان سے جوبات بھی نکلتی ہے حق ہوتی ہے۔)مسند احمد(
جس طرح سب صحابہ رضی ﷲ عنہم لکھنے پﮍہنے سے ٓاشنا ہونے اور نہ ہونے نيز حضور
صلی ﷲ عليہ وسلم کی علمی مجالس ميں حاضری دينےکے اعتبار سے مساوی الدرجہ نہ تھے
اسی طرح حضور صلی ﷲ عليہ وسلم سے روايات کے اخذ وتحمل اور اس کو لوگوں تک
پہنچانے کےسلسلے ميں بھی يکساں نہ تھے چنانچہ ان ميں قليل الروايت اور کثير الروايت
دونوں قسم کے صحابہ رضی ﷲ عنہم پائے جاتے تھے حضرت ابو ہريره رضی ﷲ عنہ فرماتے
ہيں:
اصحاب رسول صلی ﷲ عليہ وسلم ميں کوئی صحابی مجھ سے کثير الروايت نہ تھا بجز
عبدﷲ بن عمر وبن العاص کے اور ا س کی وجہ يہ تھی کہ عبدﷲ حديثيں لکھ ليا کرتا تھے
جبکہ ميں لکھا نہيں کرتا تھا ۔)بخاری کتاب العلم(
جس طرح صحابہ رضی ﷲ عنہم رسول صلی ﷲ عليہ وسلم سے روايات اخذ کرنے ميں
متفاوت الدرجہ تھے اسی طرح حديث نبوی کے فہم وادراک ميں بھی سب کی حالت يکساں نہ تھی
اور اس کی وجہ فطری استعداد کا فرق وتفاوت ہے يہ اسی کا نتيجہ ہے کہ ناسخ ومنسوخ عام
وخاص مطلق ومفيد اور مجمل ومفسر احاديث کے جاننے پہچاننے ميں بھی سب صحابہ رضی ﷲ
عنہم مساوی الدرجہ نہ تھے تاہم جب ان کے يہاں کسی مسئلہ ميں اختالف رونما ہوتا تو وه
رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی جانب رجوع کيا کرتے اور ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم اس ميں
منصفانہ فيصلہ صادر فرمايا کرتے تھے۔
- 40 -
سے اپنی علمی پياس بجھائيں ،وه قبائل اس حقيقت سے بخوبی ٓاشنا ہو چکے تھے کہ جب قريش
نے اسالم کے جھنڈے تلے اپنا سر جھکا ديا ہے تو بھال وه رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کے
خالف کيسے نبرد ٓازما ہو سکيں گے حلقہ بگوش اسالم ہوئے اور انفرادی يا اجتماعی طور پر
حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت اقدس ميں باياب ہوئے ٓ
قران اسی ضمن ميں فرماتا ہے:
''اذا جا ء نصر ﷲ والفتح وراﯾت الناس ﯾدخلون فی دﯾن الله افواجا'
جب ﷲ کی مدد اور فتح ٓاگئی اور تونے ديکھ ليا کہ لوگ ﷲ کے دين ميں فوج در فوج داخل ہو
رہے ہيں۔ )النصر(
يہ وفود يکے بعد ديگر سے ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں پہنچے اسی طرح
بيرونی سالطين کے خطوط اور قاصد يہ پيغام لے کر حاضر ہوئے کہ ہم نے اسالم قبول کر ليا اور
شرک کو ترک کرديا ہے جو وفد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوتا ٓاپ صلی ﷲ
عليہ وسلم اس کا اکرام واحترام بجاالتے ان کی رہنمائی کرتے ان کو دينی احکام ومسائل
سے ٓاگاه فرماتے اطاعت کی صورت ميں بشارت سناتے اور ان کے حقوق فرائض اور واجبات
سے مطلع فرماتے تھے ۔ يہ بيرونی وفد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں ٩ہجری ميں
حاضر ہوئے ۔اسی لئے اس کو عام الوفود )وفدوں کا سال ( کہتے ہيں ۔يہ وفود ٓاپ صلی ﷲ عليہ
وسلم سے عطيات لينے نہيں ٓاتے تھے يہ دوسری بات ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم ان کا
اکرام فرماتے اور خدا کے عطا کرده مال سے ان کو نوازتے ۔ان کا مقصد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم
کے يہاں حاضر ہوکر اسالم کے اصول وفروع معلوم کرنا ہوتا تھا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم ان
سے بات چيت کرتے ان کے سواالت کا جواب ديتے ان کو وعظ سناتے دينی احکام بيان کرتے
اور خدا سے ڈرتے رہنے کی تلقين کرتے تھے۔
کتب سيرت کا قاری اس حقيقت سے ٓاگاه ہے کہ سر ور کائنات کی خدمت ميں بہت سے
حتی کہ عربی قبائل ميں سے کوئی قبيلہ ايسا نہ تھا جس ميں کوئی وفد بارگاه
وفود حاضر ہوئے ٰ
نبوت ميں شرف باريابی حاصل نہ کر چکا ہو ۔ صحابہ رضی ﷲ عنہم ان ميں کے ايک ايک وفد
واشنا تھے اور بخوبی جانتے تھے کہ حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے کون کون سی سے ٓاگاه ٓ
احاديث سنائيں يا کون سا خطبہ ديا ۔وه پوری طرح با خبر تھے کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے ان
کو کن مواعظ ونصائح اور احکام وسنن سے مستفيد فرمايا ۔ حديث نبوی اور سير ومغازی پر
مشتمل کتب ان وفود کے ذکر سے مملو ہيں ۔ ان کے مطالعہ سے يہ حقيقت کھل کر سامنے ٓاتی
ہے کہ حديث رسول کی نشرواشاعت ميں ان وفود نے کيا پارٹ ادا کيا خواه يہ وفود ٩ہجری ميں
حاضر بارگاه ہوئے ہوں يا اس سے پہلے ذيل ميں چند وفود کا ذکر کيا جاتا ہے جو ٓاپ صلی ﷲ
عليہ وسلم کی مالقات سے مشرف ہوئے۔
وفد عبدالقيس:
عبدالقيس نامی قبيلہ سرکار دوعالم صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو کر عرض
پرداز ہوا کہ ہم ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے پاس صرف محرم کے مہينے ميں حاض ہوسکتے ہيں
)جب کہ جنگ جدال بند ہوتا ہے( ہمارے اور ٓاپ کے درميان مضر )کا کافر قبيلہ( حائل رہتا ہے۔
لہذا ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم ہميں کوئی فيصلہ کن بات بتائيں جو ہم اپنے پچھلوں کو بتالديں اور
اس پر عمل کر کے جنت کے مستحق ٹھريں ۔انہوں ٓاپ سے پانی کے برتنوں کے بارے ميں بھی
سوال کيا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نےان کو چار باتوں کا حکم ديا اور چار سے منع فرمايا ٓ۔اپ
نے ان کو خدائے واحد پر ايمان النے کا حکم ديا پھر فرمايا کيا ٓاپ کو معلوم ہے کہ خدائے واحد
پر ايمان کيسے اليا جاتا ہے ؟ وه کہنے لگے ''ﷲ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہيں '' ٓاپ
نے فرمايا ايمان با يہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہيں اور حضرت محمد صلی ﷲ عليہ
وسلم ﷲ کے رسول ہيں ۔
جن چار باتوں کا حکم ديا وه يہ ہيں۔
١۔اقامت الصلوة
٢۔ادائيگی زکوة
٣۔ماه رمضان کے روزے
۴۔ مال غنيمت ميں سے خمس کی ادائيگی
مندرجہ ذيل چار برتنوں کو استعمال کرنے سے منع فرمايا ۔
١۔جس برتن ميں الخ ال روغن لگا ہو۔
٢۔ کدو کے بنے ہوئے برتن
٣۔ لکﮍی کھود کر جو برتن بنائے گئے ہوں
۴۔ جن برتنوں پر رال کا روغن کيا گيا ہو
ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ان کو ياد رکھو اور پچھلے لوگوں کو اس کی اطالع دے
)بخاری کتاب االيمان( دو۔
- 42 -
وفد تجيب:
يہ وفد تيره افراد پر مشتمل تھا ٓانحضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہو تے وقت يہ
زکوة کے مويشی بھی ہمراه الئے تھے ۔ نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم ان کو ديکھ کر بہت خوش
ہوئے اور ان کی ميزبانی کا حق ادا فرمايا۔ کہنے لگے ہمارے اموال پر خدا کا جو حق تھا ہم وه
بھی ساتھ الئے ہيں ۔ فرمايا ان مويشيوں کو واپس لے جائے اور ٓاپ کے يہا نجو تنگ دست ہوں
ان ميں تقسيم کرديجيے ۔ وه کہنے لگے ہم فقراه کو پہلے دے چکے ۔جو مال بچ گيا تھا وه ہمراه
الئے ہيں جناب صديق رضی ﷲ عنہ فرمانے لگے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم ٓ:اج تک عرب بھر
سے اس قسم کا وفد ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کے پاس نہيں ٓايا فرمايا ہدايت خداوند کريم کے ہاتھ
ميں ہے۔ جس کے ساتھ وه بھالئی کرنا چاہے اس کے سينہ کو ايمان کے لئے کھول ديتا ہے۔
وفد تجيب نے حضور سے کتاب وسنت کے مسائل دريافت کئے رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم
کی ان کے ساتھ رغبت ميں مزيد اضافہ ہوا جب انہوں نے واپسی کا ارده کيا تو حضور صلی ﷲ
عليہ وسلم نے فرمايا ٓاپ کيا چاہتے ہيں ؟ عرض کرنے لگے ۔ہم واپس جا کر لوگوں کو بتائيں
گے کہ ہم رسول کريم صلی ﷲ عليہ وسلم کی زيارت سے مشرف ہوئے اور ٓاپ نے ہميں فالں
فالں دينی احکام سنائے پھر حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت ميں حاضر ہوکر اجازت چاہی
جب رخصت ہوئے تو حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے حضرت بالل کو بھيج کر پھر انہيں باليا اور
عمده قسم کے تحائف ديے۔ جو اس سے پہلے ٓاپ نے کسی وفد کو نہ ديئے تھے ٓ۔اپ نے دريافت
کيا تم سے کوئی شخص ره تو نہيں گيا جس کو تحفہ نہ مال ہو؟ انہوں نے کہا کہ ايک لﮍکا باقی
ره گيا ہے جس کو ہم سامان کی حفاظت کے لئے پيچھے چھوڑ ٓائے ہيں فرمايا اس کو بھيج دو۔
جب وه خدمت ميں حاضر ہوا تو کہنے لگا ،حضور !ميں اس قبيلہ سے تعلق رکھتا ہوں جو ابھی
ٓاپ کے يہاں ٓايا تھا ٓاپ نے ان کی ضروريات پوری فرماديں اب ميری حاجت روائی فرمائے
۔فرمايا ٓاپ کيا چاہتے ہيں ،عرض کی بارگاه خداوندی ميں دعا کيجئے کہ خدا مجھے بخشے اور
مجھ پر رحم فرمائے اور ميرے دل کو غنی کردے ۔حضور نے دعا فرمائی۔پھراس کو اسی قسم کا
تحفہ ديا جيسا اس کے قبيلہ والوں کو دياتھا۔
منی کے ميدان ميں حضور سے ملے مگر کچھ عرصہ بعد اسی قبيلہ کے لوگ ايام حج ميں ٰ
وه لﮍ کا موجود نہ تھا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے اس کے بارے ميں پوچھا تو انہوں نے کہا
يا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ وسلم ہم نے اس جيسا کوئی شخص نہيں ديکھا اور نہ ہی اس سے
بﮍھ کر کسی کو صابر پايا۔ اگر لوگوں کو ساری دنيا بھی مل جائے تووه اس کی طرف ٓانکھ اٹھا
کر بھی نہ ديکھے ۔حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے فرمايا ''ﷲ کا شکر ہے مجے اميد ہے کہ وه
بﮍے اطمينان سے جان دے گا۔ ايک شخص نے کہا کيا اور کوئی شخص اطمينان سے نہيں مرتا
فرمايا لوگوں کے خياالت امنگيں دنيا کی واديوں ميں ہر جگہ بھٹکتی پھرتی ہيں اور اسی قسم کی
کسی وادی ميں انسان کی موت ٓاجاتی ہے ،ايسے ميں خداکو بھی اس کی پروا نہيں ہوتی کہ اس
کی موت کس وادی ميں ٓائی۔
مندرجہ صدر بيانات اس حقيقت کی ٓائينہ داری کرتے ہيں کہ بيرونی قبائل کے وفود علم دين
کے سر چشمہ صافی سے اپنی علمی پياس بجھانے اور دينی احکام ومسائل سے ٓاگاه ہونے کے
لئے حضور صلی ﷲ عليہ وسلم کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوتے تھے ۔پھر وطن واپس لوٹتے
تھے اور اپنے متعلقين کو دينی مسائل سے ٓاگاه کرتے صحابہ رضی ﷲ عنہم کے جو وفد حضور
صلی ﷲ عليہ وسلم مختلف قبائل کی جانب دعوت ارشاد کے سلسلہ ميں بھيجا کرتے تھے وه
اس پر مزيد ہيں خالصہ يہ کہ ان دونوں قسم کے وفود نے حديث نبوی کی نشرو اشاعت ميں
خصوصی پارٹ ادا کيا ۔ اور احاديث جزيره نمائے عرب کے کونے کونے تک پہنچ گئيں ۔
- 43 -
اشاعت حديث ميں حجۃ الوداع کے اثرات:
جب جزيره نمائے عر ب پر نبی اکرم صلی ﷲ عليہ وسلم کو پورا تسلط حاصل ہوگيا تو ٓاپ
نے حج کا اراده فرمايا حضور صلی ﷲ عليہ وسلم نے اہل اسالم کو مخاطب کر کے ايک جامع
خطبہ ديا جس ميں اکثر احکام وسنن پر روشنی ڈالی اور جاہلی رسوم کو باطل قرار ديا لوگوں کے
ہجوم کی وجہ سے ربيعہ بن اميہ بن خلف ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی ٓاواز لوگوں تک پہنچا رہے
تھے ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے خطبہ کا ٓاغاز الحمد کے الفاظ سے فرمايا اور کہا:
اے لوگو! ميری بات سنو۔ شائد اس سال کے بعد ميں ٓاپ کو يہاں کھبی نہ ملوں ۔
يہ طويل خطبہ ہے اس ميں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم نے مناسک حج پر روشنی ڈالی حضور
صلی ﷲ عليہ وسلم کو اس بات کا احساس ہوگيا تھا کہ ٓاپ کی وفات کا وقت قريب ہے اس لئے
ٓاپ نے ہر ضروری بات بيان فرمادی اس عظيم اجتماع ميں ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کا يہ جامع
خطبہ حديث نبوی کی نشرو اشاعت کے عوامل ميں سے ايک عظيم عامل تھا گويا يہ دعوت
اسالمی بالعموم اور حديث نبوی بالخصوص کا ٓاخری پروگرام تھا اس موقع پر يہ ٓايت کريمہ نازل
ہوئی ''اليوم اکملت لکم دﯾنکم واتممت عليکم نعمتی ورضيت لکم االسالم دﯾنا''
''ٓاج کے دن ميں نے تمہارے دين کو کامل کرديا اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے دين
اسالم کو پسند فرمايا''۔
رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے وفات پائی اور صحابہ ميں سے کسی کو بھی اپنا
جانشين مقرر نہ کيا ۔اس لئے مہاجرين وانصار کے درميان نزاع پيدا ہوئی کہ ٓاپ کا جانشين کن
ميں سے ہو؟ چنانچہ يہ سب لوگ سقيفہ بنی ساعده ميں جمع ہوئے حضرت ابو بکر صديق رضی
ﷲ عنہ نے يہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دياکہ مہاجرين سبقت فی االسالم کی بنا پر خالفت کا
اولين استحقاق رکھتے ہيں چنانچہ فاروق اعظم ٓاگے بﮍھے اور جناب صديق کے دست حق پر
بيعت کی يکايک دوسرے لوگوں نےبھی بيعت کر لی اور اس طرح اس نزاع کا خاتمہ ہوگيا۔
حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ کو خالفت پر فائز ہوئے زياده عرصہ گزرنے نہ پايا تھا کہ
مدينہ ميں نفاق کی ہوائيں چلنے لگيں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے کچھ قبيلے ايسے بھی تھے
جنہوں نے زکوة دينے سے انکار کرديا حضرت ابو بکررضی ﷲ عنہ ان کے خالف اعالن جہاد
کرديا۔ وه کہنے لگے ہم نماز پﮍ ھ ليا کريں گے مگر زکوة نہ دينگے بعض صحابہ نے حضرت
صديق کو يہ مشوره ديا کہ ان کی بات قبول کر لی جائے اس لئے کہ ابھی ٓاغاز اسالم ہے عربوں
کی تعداد بہت ہے اور ہم معدودے چند ٓادمی ہيں ہم ان کا مقابلہ نہيں کرسکتے انہوں نے رسول
ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی يہ حديث پيش کی کہ ٓاپ نے فرمايا :مجھے لوگوں سے اس وقت
لﮍنے کا حکم ديا گيا ہے جب تک وه الالہ نہ کہيں جب وه يہ کلمہ پﮍھ ليں تو مجھ سے اپنا خون
اور مال بچاليں اور ان کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ نے کہا ''زکوة
بھی اسالم کا حق ہے اس لئے جہاد ناگزير ہے۔
- 44 -
حضرت عمر بھی ان لوگوں کے ہمنوا تھے جو ترک جہاد کا مشوره دے رہے تھے چنانچہ
حضرت ابو بکر رضی ﷲ عنہ نے اس ضمن ان کا مشوره قبو ل نہ کيا اور اپنا يہ مشہور فقره کہا
کہ جا ہليت ميں ٓاپ جابر تھے مگر اسالم ميں بزدل ہوگئے ۔اے ابن الخطاب!بخدا اگر منکرين
زکوة ايک رسی دينے سے بھی انکار کرينگے جسے وه عہد رسالت ميں ديا کرتے تھے تو ميں
ان کے خالف جہاد کرونگا اور اگر کوئی دوسرا شخص ميرے ساتھ نہ ہوگا تو ميں تنہا لﮍوں گا ۔
يہاں تک کہ ﷲ اپنا فيصلہ صادر کردے ۔اور وه سب سے بہتر فيصلہ کرنے والہے ۔حضرت عمر
نے ابوبکر کا يہ خطبہ سن کر سر تسليم خم کر ليا۔جناب ابو بکر رضی ﷲ عنہ نہ جھکے نہ نرم
پﮍے اور اپنی راه پر رواں دواں رہے ٓاپ اپنے اطاعت شعائروں کو لے کر باغی قبائل کے خالف
۔حتی کے سر کش قبيلے حکم خداوندی کے سامنے جھک گئے ۔ انہوں نے نبر د ٓازما ہوئے ٰ
نخوشی يا نا خوشی دوباره اسالم قبول کرليا اور باقاعده زکوة دينے لگے اس طرح حضرت ابو
بکر کے فہم فراست سے اسالم کا بکھرا ہوا شيرازه پھر مستحکم ہوگيا ۔ لوگ حضرت ابو بکر
رضی ﷲ عنہ کے مدح سرا ہوئے اور ٓاپ کے مرتبہ ومقام کو پہچان گئے ۔
حضرت ابو بکر وعمر وعثمان رضی ﷲ عنہم کی خالفت ميں مسلمانوں کی سياسی
واجتماعی زندگی پورے امن سکون سے گزرتی رہی يہی وجہ ہے کہ اس عہد ميں صغار صحابہ
ٰ
وفتاوی کا نے علوم دينيہ کی تکميل کی اور اکثر تابعين نے احاديث نبويہ اور صحابہ کے احکام
درس ليا۔
ٓاگے چل کر جب لوگوں نے حضرت عثمان کو بالوجہ ہدف بنايا تو چند لوگوننے جو بظاہر مسلمان
اور بباطن يہود تھے اسالم کا لباد ه اوڑھ کر لوگوں کو اپنے دام فريب ميں پھنسانا چاہا ان کا
سرغنہ عبدﷲ بن سبا نامی ايک يہودی تھا جو حمير کے قبيلے سے تعلق رکھتا تھا يہود بے
بہود نے فتنے کو ہوا دينا شروع کيا اور اطراف عرب کے لوگوں کو حضرت عثمان کے خالف
اکسانہ شروع کيا اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ حضرت عثمان بحالت مظلومی اپنے گھر ميں شہيد
کرديے گئےاس وقت سے مسلمانوں ميں شرارت کا ايسا دروازه کھال جو کثير صحابہ کی موت کا
باعث بنا۔
جو نہی خليفہ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب رضی ﷲ عنہ مسند خالفت پر فائز ہوئے
حضرت معاويہ رضی ﷲ عنہ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ کے خون کا مطالبہ کرنے کے لئے اٹھ
کھﮍے ہوئے دونوں کے دوميان لﮍائيوں کا ايسا سلسلہ شروع ہوا کہ جس نے مسلمانوں کے
شيرازه کو بکھير کر رکھ ديا ۔ حرب ضرب کا يہ طويل سلسلہ جنگ صفين پر جاکر ختم ہوا نتيجہ
کے طور پر حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے رفقاء شيعہ خوارج دو فرقوں ميں تقسيم ہوگئے
شکست خورده عناصر مثالً يہود اور اہل فارس نے مسلمانوں کی نااتفاقی سے فائده اٹھايا اور
مقدور بھر اسالم کے خالف ريشہ دوانيوں ميں لگ گئے ۔
- 45 -
صلی ﷲ عليہ والہ وسلم ان کے باطنی کفر ونفاق سے مسلمانوں کو ٓاگاه کردے ۔مزيد ٓ
براں حديث
کی نقد جرح کا اس کے سوا کوئی طريقہ نہ تھ اکہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی خدمت ميں
حاضر ہوکر اس کی ترديد يا تصديق سے ٓاگاه ہوں ۔صحابہ کے يہاں جب بھی کوئی نزاع واختالف
پيدا ہوتا تو حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی جانب رجوع کر کے اس کا حل دريافت کرتے۔
''اگر کسی بات ميں تمہارے يہاں اختالف پيدا ہو جائے تو اسے ﷲ اور اس کے رسول کی طرف
لوٹا دو''۔
تعالی عنہ کو مختلف طريقہ
ٰ تعالی عنہ نے ہشان بن حکيم رضی ﷲ
ٰ حضرت عمر رضی ﷲ
سے سورة الفرقان کی تالوت کرتے سنا تو ان کے گلے ميں چادر ڈال کے رسول اکرم صلی ﷲ
عليہ وسلم کی خدمت ميں الئے اوعر کہا کہ يہ شخص سورة الفرقان کی تالست اس طريقہ سے
نہيں کر رہا جيدے ٓاپ نے مجھے يہ سورة پﮍھائی تھی حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے
انہيں پرھنے کا حکم ديا اور سن کر فرماتے ہيں کہ يہ سورة يونہی نازل ہوئی تھی پھر ٓاپ نے
تعالی عنہ کو اسی سورت کو پﮍھنے کاحکم ديا اور سن کر فرمايا ۔يہ سورة
ٰ حضرت عمر رضی ﷲ
قران سات طرح اتارا گيا ہے جيسے بھی ٓاسان ہو پﮍھ ليا کرو۔
يونہی اتری تھی پھر فرمايا يہ ٓ
)صحيح بخاری(
اس قسم کے حوادث وامثلہ کی کمی نہيں جن ميں حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے
فيصلہ صادر فرمايا۔ سابقہ بيانات سے يہ حقيقت منصئہ شہود پر جلوه فگن ہوتی ہے کہ حضور
صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے عين حيات کسی خالف ونزاع يا شک اور وسوسے کے ظہور
وشيوع کا کوئی امکان نہ تھا اور اگر ايسی کوئی بات ظاہر ہوتی تو ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم اسے
فورا ختم کرديتے۔
تعالی عنہ کے سينوں کے سوا حديث ٰ جب سرورکائنات نے وفات پائی تو صحابہ رضی ﷲ
نبوی کا دوسرا کوئی محافظ نہ تھا وحی کا سلسلہ بند ہو چکا تھا نفاق کا دور دوره تھا يہ کوئی
عجيب بات نہ تھی کہ منافقين حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم پر افترا پردازی سے کام ليتے جو
دعوی کر سکتے تھے کہ ٓاپ صلی ﷲ عليہ وسلم کی رسوالت ٓاپ کی موت ہی کے ساتھ ٰ بدو يہ
ختم ہوگئی ان سے کچھ بعيد نہ تھا کہ حديث رسول کے ساتھ دل لگی کرنے لگيں مگتر حضرت
تعالی عنہ نے حزم واحتياطکا شيوه اختيار کيا انہوں نے جس طرح مرتدين اور
ٰ ابو بکر رضی ﷲ
مانعين زکوة کی ريشہ دوانيوں کا خاتمہ کيا اسی طرح قوانين روايت وجع کر کے حديث ميں دروغ
تعالی عنہ کا دور ٓايا تو انہوں
ٰ گوئی کے راستہ کو مسدود کر ديا ان کے بعد فاروق اعظم رضی ﷲ
نے جھوٹوں کو ڈرايا اور کثير الروايت لوگوں کو خفزده کر ديا حديث کی راه ميں انجام دی گئيں
ان خدمات جليلہ کا مختصر تذکره حسب ذيل ہے۔
تعالی
ٰ تعالی عنہ نے جب اپنے والد حضرت زبير رضی ﷲ ٰ حضرت عبدﷲ بن زبير رضی ﷲ
عنہ سے سوال کيا کہ ٓاپ فالں شخص کی طرح زياده حديثيں روايت کيوں نہيں کرتے ؟ توا نہوں
نے جواب ديا کہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی صحبت کا فخر تومجھے بھی حاصل ہے مگر
ميں نے سنا ہے کہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے فرمايا''جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وه
تعالی عنہ سے جب کہا جاتا کہ ہميںٰ اپنا گھر دوزخ ميں بنالے ''حضرت زيد بن ارقم رضی ﷲ
حديثيں سناؤ تو وه کہتے ہم بوڑھے ہو کر حديثيں بھول گئے حديثيں بيان کرنا معمولی کام نہيں ۔
تعالی عنہ کا مدينہ
ٰ تعالی عنہ کتہے ہيں کہ سعد بن مالک رضی ﷲ
ٰ سائب بن يزيد رضی ﷲ
سے مکہ تک رفيق سفر رہا اس دوران انہوں نے مجھے ايک حديث بھی نہ سنائی امام شعبی کا
تعالی عنہ کا ہم نشين رہا ميں نے
ٰ قول ہے ''ميں سال بھر تک حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ
کبھی ان کو حديثروايت کرتے نہ سنا ۔''
حضرت انس بن مالک جب حديث روايت کرکے فارغ ہوتے تو کہا کرتے تھے ''او کما قال''يا ٓاپ
نے جيسا بھی فرمايا۔ تاکہ جھوٹ سے احتراز کيا جائے ۔
اور اس قسم کے کثير اقوال ٓ
واثار جن سے يہ حقيقت عياں ہوتی ہے کہ صحابہ حزم واحتياط کی
بنا پر حديثيں کم روايت کرتے تھے ۔ مبادا منافقين حديث کو اپنی اغراض خبيثہ پورا کرنے کا
براں وه حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کی اس حديث سے بھی ٓاگاه تھے کہ ذريعہ بناا ليں مزيد ٓ
- 47 -
''کثرت حديث سے پرہيز کرو۔ اور جو شخص حديث روايت کرے وه سچی روايت بيان کرے''۔
)احمد ،حاکم ،ابن ماجہ(صحابہ حضور صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے اس ار شاد گرامی سے ٓاگاه
تھے کہ ميری اور ميرے ہدايت يافتہ خلفائے راشدين کی سنت کا دامن تھامے رکھو''۔
- 48 -
٣۔امام ذہبی روايت کرتے ہيں کہ ہشام کے والد نے جب ايک حديث بيان کی تو حضرت عمر
تعالی عنہ نے کہا کہ شہادت پيش کيجئے وه باہر نکال تو چند انصاری صحابہ کھﮍے
ٰ رضی ﷲ
تھے اس نے ماجرا بيان کيا وه کہنے لگے ہم نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے يہ
تعالی عنہ يہ سن کر کہنے لگے ميں ٓاپ پر جھو ٹ کی
ٰ حديث سنی ہے حضررت عمر رضی ﷲ
تہمت نہيں لگاتا ميرا مقصد صرف تحقيق کرناتھا۔
تعالی عنہ کے ترجمہ ميں اسماء بن حکم الفزاری رضی ﷲٰ ۴۔امام ذہبی حضرت علی رضی ﷲ
تعالی عنہ کو يہ فرماتے ہو
ٰ تعالی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ انہوں نے حضرت علی رضی ﷲ
ٰ
ئے سنا کہ '' جب ميں براه راست رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے کوئی حديچ سنتا تو
مستفيد ہوتا اور جب کوئی دوسرا شخص مجھے حديچ سناتا تو اسے حلف ديتا جب حلف اٹھا ليتا
تعالی
ٰ تعالی عنہ فرماتے ہيں ابو بکر رضی ﷲ
ٰ تو اس کی تصديق کرتا ''۔ حضرت علی رضی ﷲ
تعالی عنہ نے سچ فرمايا ۔کہ ميں رسول ﷲ
ٰ عنہ نے مجھے يہ حديث سنائی اورابو بکر رضی ﷲ
صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کر فرماتے سنا کہ جو مسلمان شخص کسی گناه کا ارتکاب کر کے وضو
تعالی اسے بخش دياتا ہے۔
ٰ کرے اور پھر دو رکعت نماز پﮍھے اور ﷲ سے بخشش مانگے تو ﷲ
تعالی عنہا نے اس حديث کو رد کر ديا جس ميں ہے کہ سب
ٰ ۵۔اسء طرغ غحرت عائشی رضی ﷲ
معراج رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے اپنے رب کريم کو ديکھا کيونکہ ٓ
قران ميں اس کے
خالف مذکور ہے ارشاد فرمايا۔
''ال تدرکہ االبصار وھو ﯾدرک االبصار'' )االنعام ٓ'' (١٠٣:انکھيں اس کا ادراک نہيں کر سکتيں اور
وه ٓانکھوں کا ادراک کر سکتا ہے''۔
دعوی کرتا ہے کہ رسول ﷲٰ تعالی عنہافرماتی ہيں جو شخص يہ
ٰ حضرت عائشہ رضی ﷲ
تعالی کو ديکھا اس نے زبردست جھوٹ بوال يہ ان ٰ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے شب معراج ﷲ
تعالی عنہ کے خالف ہيں ان کے ٰ کے اجتہاد پر مبنی ہے بعض علماء حضرت عائشہ رضی ﷲ
تعالی کا احاطہ نہيں کر سکتيں اگر يہ
ٰ نزديک مذکوره صدر ٓايت کے معنہ يہ ہيں کہ ٓانکھيں ذات
مفہوم مراد ليا جئے ٓ
توايت و حديث ميں کسی قسم کا تعار ض باقی نہينرہتا۔
تعالی عنہامتن حديث پر غور کر کے اس پر نقد وجرح
ٰ جس طرح سيده عائشہ رضی ﷲ
کرتيں اور اسے ٓ
قران کے معيار پر رکھ کر جانچتی پر کھتی تھيں اسی طرح وه راوی کے حفظ و
ضبط کا امتحان بھی ليا کرتی تھيں۔
تعالی عنہ سے کہا اے
ٰ تعالی عنہا نے عروه بن زبير رضی ﷲ
ٰ ايک مرتبہ حضرت عائشہ رضی ﷲ
تعالی عنہ ہمارے يہاں سے
ٰ بھانجے ! مجھے پتہ چال ہے کہ عبدﷲ بن عمر وبن العاص رضی ﷲ
گزر کر حج کو جا رہے ہيں ان کو مل کر چند مسائل پوچھئے اس لئے کہ انہوں نے رسول ﷲ
صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے بہت استفاده کيا ےتھا جناب عروه نے حسب ارشاد حضرت عبدﷲ
تعالی عنہ کو مل کر چند باتيں دريافت کيں ان کے جواب ميں حضرت عبدﷲ رضی ﷲ ٰ رضی ﷲ
تعالی عنہ نے جو احاديث ذکر کيں ان ميں سے ايک حديچ يہ بھی تھی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ ٰ
تعالی يوں لوگوں کے سينوں سے علم کو جھٹ پٹ کھينچ نہيں لے گا ٰ والہ وسلم نے فرمايا ''ﷲ
بلکہ وه علماء کو وفات دے دے گا۔ اور اس طرح علم لوگوں کے درميان سے اٹھ جائے گا لوگوں
فتوی ديں گے خود بھی گمره ہوں گے اورٰ ميں جاہل باقی ره جائيں گے جو بغير دليل وبرہان
دوسريں کو بھی گمراه کريں گے''۔
- 49 -
تعالی عنہ کا بيان ہے ''جب ميں نے يہ حديث حضرت عائشہ رضی ﷲ ٰ عروه رضی ﷲ
تعالی عنہا کو سنائی تو انہيں بﮍا تعجب ہوا اور اس سے انکار کر ديا کہنے لگيں کيا يہ حديث ٰ
تعالی عنہ نے خود رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے سنی ہے؟ عروه نے ٰ عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہ ٓائے تو حضرت
ٰ کہا جی ہاں ۔ايک سال گزرنے پر جب پھر حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
تعالی عنہ سے مل کر
ٰ تعالی عنہا نے عروه سے کہا کہ حضرت عبدﷲ رضی ﷲ ٰ عائشہ رضی ﷲ
تعالی
ٰ پھر اسی حديث کے بارے پوچھئے ۔عروه کہتے ہيں کہ ميں جب حضرت عبدﷲ رضی ﷲ
عنہ سے مل کر جب پھر اسی حديث کے بارے ميں سوال کيا تو انہوں نے وه حديث من و عن
تعالی عنہا کو بتايا فرمانے لگيں ۔ميرا خيال ہے
ٰ بيان کر دی پھر ميں نے حضرت عائشہ رضی ﷲ
کہ ان کی بيان کرده حديث درست ہے ۔عبدﷲ نے )ايک سال گزرنے کے باوجود ٩اس کے الفاظ
ميں کچھ کمی بيشی نہيں کی۔ )اعالم الموقعين ج ١،ص(۴٣
- 50 -
رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم ايسا نہ کيجئے ،مجھے ڈر ہے کہ کہيں لوگ اسی پر بھروسہ
نہ کرليں لہذا ٓاپ لوگوں کو عمل کرنے ديجئے۔)صحيح مسلم کتاب االيمان(
امام مسلم نے مقدمہ صحيح مسلم ميں روايت کی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم
نے فرمايا ٓ
،ادمی کے لئے يہی جھوٹ کافی ہے کہ جو بات سنے اسے بيان کردے۔
عوام کو ناقابل فہم باتيں بتانا اس لئے شرعا ممنوع ہے کہ وه ايسی باتيں سمجھنے سے
قاصر ہوتے ہيں جب وه ايک بات کو سمجھ نہ پائيں گےتو اسے جھٹال ديں گے اوران کا اعتماد
اس راوی سے اٹھ جائے گا ۔اور اگر وه اس کی تکذيب نہ کريں گے اور جو بات سمجھ ميں
ٓاجائے اس پر عمل کريں گے تو اس کا الزمی نتيجہ يہ ہوگا کہ جو بات سمجھ ميں نہ ٓائے گی اس
کو چھوڑ ديں گے اس سے بعض شرعی احکام کا ترک کرنا الزم ٓائے گا اور اس سے يہ ہوگا کہ
جس شخص نے وه حديث بتائی تھی اس نے وه حديث بيان کر کے ان کو شرعی احکام پر عمل
کرنے سے روک ديا ،بلکہ اس سے بﮍھ کر ہم يہ کہتے ہيں کہ لوگوں کو ايسی باتيں بتانا جو ان
کی سمجھ ميں نہ ٓائيں ان کو دين کے بارے ميں شکوک شبہات ميں مبتالء کردينے کے مترادف
تعالی عنہ فرماتے ہيں ،
ٰ ہے اسی لئے حضرت ابن عباس رضی ﷲ
''لوگوں کو وه بات بتائے جو ان کی سمجھ ميں ٓاجائے کيا تم يہ چاہتے ہو کہ ﷲ اور اس
کے رسول ککو جھٹاليا جائے ۔''
خالفت راشده ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم کے صحابہ ٓاپ کی ہموار کرده راه پر
گامزن رہے اور عوام کے لئے جو باتيں ناقابل فہم تھيں ان بتانے سے احتراز کرتے رہے مبادا
وه فتنے ميں مبتالء ہوکر بعض دينی فرائض کو چھوڑ بيٹھيں۔
تعالی عنہ بيان کرتے ہيں ''جس قول کو بھی ايسی بات
ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
بتائيں گے جو ان کی سمجھ ميں نہ ٓاسکے وه بعض لوگوں کے لئے فتنے کا موجب ہوگی۔'')مقدمہ
صحيح مسلم(
تعالی عنہ بيان کرتے ہيں کہ ميں نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ ٰ حضرت ابوہريره رضی ﷲ
والہ وسلم سے سن کر دو باتيں ياد رکھيں ايک لوگوں کو بتادی اگر دوسری بھی بتا دوں تو ميرا
گال کٹ جائے )صحيح بخاری(
- 53 -
صحابہ کو جمع کر کے مشوره کرتے جب کسی بات پر ان کے يہاں اتفاق رائے ہوجاتا تو اس کے
مطابق فيصلہ صادر کرتے ۔''
تعالی عنہ نے جب شريح کو کوفہ کا قاضی بنا کر بھيجا تو يہ
ٰ جناب فاروق رضی ﷲ
نصيحت فرمائی :
قران کريم ميں نظر ٓائے اس کے بارے ميں کسی سے مت ''ديکھے جو بات ٓاپ کو ٓ
پوچھئے ،اور بات سنت رسول ميں نہ ملے اس ميں سنت رسول کی پيروی کيجئے جو بات سنت
رسول ميں بھی نہ ملے اس کے بارے ميں اپنی رائے سے اجتہاد کيجئے۔''
تعالی عنہ فرماتے ہيں :
ٰ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
''جب کسی شخص کو کسی نئے مسئلہ کا سابقہ پﮍے وه کتاب ﷲ کے مطابق فيصلہ کرے
اگر کتا ب ميں اس کا حل نہ ملے تو حديث رسول صلی ﷲ عليہ وسلم کی روشنی ميں حل کرے
۔اگر ايسا حادثہ رونما ہو جو کتاب ﷲ ميں بھی مذکور نہيں اور رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم
نے بھی اس ضمن ميں کوئی فيصلہ صادر نہيں کيا ،تواس کو اس طرح حل کرے جس طرح خدا
کے نيک بندوں نےکيا ہو ،اگر اس کی نظير بھی نہ مل سکے تو اپنی رائے سے اجتہاد کرے اور
شرمائے نہيں ۔'')اعالم اموقعين ج،١ص،۵١وحجۃ ﷲ البالغہ ج١۔ ص(١٢٩
- 64 -
وسلم کے نام پر ايک ايسی حديث وضع کيجئے جس ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم نے
تعالی عنہ ( کا
ٰ فرمايا ہو کہ ميرے بعد ايک خليفہ ہوگا جو ميرے بيٹے )حضرت حسين رضی ﷲ
قصاص لے گا۔ اس حديث کے گھﮍنے کے عوض ميں ٓاپ کو دس ہزار درہم اور اس کے عالوه
خلعت سواری اور خادم عطا کروں گا اس شخص نے کہا ميں رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم
کے نام پر تو ايسی حديث وضع نہی کر سکتا البتہ کسی صحابی کے نام سے گھﮍلوں گا ٓاپ
معاوضہ ميں جو کمی کرنا چاہيں کرديں مختار کہنے لگا رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ والہ وسلم سے
جو روايت منقول ہوگی اس ميں زياده تاکيد ہوگی اور اس پر عذاب بھی سخت ملے گا۔)الملل النحل ج
١ص،٩٧نيز الاللی المصنوعہ ج ٢ص(۴۶٨
شيعہ کی ملمع سازی:
شيعہ نے حديث نبوی کے سلسلہ ميں فريب دہی کا ايک طريقہ يہ نکاال کہ اسانيد صحيحہ کو جان
پہچان کر ان کے ساتھ ايسی حديثيں وضع کر کے چسپاں کر ديں جو ان کے نظريات کے ساتھ
جميل کھاتی ہيں اس طرح لوگوں کو گمراه کرنے کی کوششيں کيں کہ ان احاديچ کی اسانيد صحيح
اور درست ہيں ۔مثالً شيعہ کے دو راوی سدی اور ابن قتيبہ کے نام سے موسوم ہيں اور وه ان
سے روايت کرتے ہيں ،اسماء الرجال سے بے خبر شخص يہ گمان کر سکتا ہے کہ يہ دونوں اہل
السنت کے دو مشہور محدث ہيں ،وه نہيں جا نتا کہ دو شيعہ راوی بھی اسی نام کے ہيں جو حد
درجہ کے غالی شيعہ ہيں ۔
محديثين نے شيعہ کے دجل و فريب کا پرده چاک کيا اور لوگوں کو حقيقت حال سے روشناس
کرايا کہ سدی نام کے دو راوه ہيں ايک سدی کبير جو ثقہ راوی ہے اور دوسرا سدی صغير جو
کذاب اور رضاع ہے ۔انہوں نے بتايا کہ ابن قتيبہ نام کے بھی دو راوی ہيں ايک ابن قتيبہ شيعہ
ہے اور دوسرا عبدﷲ بن مسلم بن قتيبہ اہل السبت اور ثقہ راوی ہے اس پر بس نہيں شيعہ نے
اباطيل پر مشتمل کتب خود تصنيف کر کے ان کو اہل السنت علماء کی طرف منسوب کر ديا مثال
کتاب سرالعارفين شيعہنے مرتب کی اور اسےامام غزالی کی تصنيف قرار ديا۔
تعالی عنہ کے علمی معلومات کو ناقابل اعتماد ٹھہرانے کے
ٰ شيعہ نے حضرت علی رضی ﷲ
سلسلہ ميں بھی اہم پارٹ ادا کيا ہے اور وه يوں کہ شيعہ نے اقاويل باطلہ اور نظريات فاسده کو
تعالی عنہ کی جانب منسوب کر ديا اور ان کی تائيد ميں حديثيں وضع کرنےٰ حضرت علی رضی ﷲ
تعالی عنہ کے اقوال
ٰ سے بھی احتراز نہ کيا اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ محديثين حضرت علی رضی ﷲ
تعالی عنہ کے اہل بيت
ٰ وفتاوی کو تسليم نہيں کرتے بجرز ان اقوال کے جو حضرت علی رضی ﷲ ٰ
تعالی عنہ مثال عبيده سلمانی يا شريح اور ابو وائل سے
ٰ يا اصحاب عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ
مروی و منقول ہوں۔)اعالم الموقعين ج١ص (١۶
- 65 -