You are on page 1of 10

‫خالفت عباسیہ‬

‫آزاد دائرۃ المعارف‪ ،‬ویکیپیڈیا سے‬

‫خالفت راشدہ کے خاتمے کے بعد عربوں کی قائم کردہ دو‬


‫خالفت عباسیہ‬ ‫عظیم ترین سلطنتوں میں سے دوسری سلطنت خالفت‬
‫الخالفة العباسية‬ ‫عباسیہ ہے۔ خاندان عباسیہ کے دو بھائیوں السفاح اور ابو‬
‫جعفر المنصور نے ‪750‬ء (‪132‬ھ) خالفت عباسیہ کو قائم‬
‫‪ 25‬جنوری ‪750‬ء – ‪ 10‬فروری ‪1258‬ء‬ ‫کیا اور ‪1258‬ء (‪656‬ھ) میں اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یہ‬
‫خالفت بنو امیہ کے خالف ایک تحریک کے ذریعے قائم‬
‫ہوئی۔ تحریک نے ایک عرصے تک اپنے مقاصد کے حصول‬
‫کے لیے جدوجہد کی اور باآلخر بنو امیہ کو شکست دینے‬
‫کے بعد بر سر اقتدار آگئی۔‬

‫خاندان عباسیہ نے دار الحکومت دمشق سے بغداد منتقل‬


‫کیا اور دو صدیوں تک مکمل طور پر عروج حاصل کیے‬
‫رکھا۔ زوال کے آغاز کے بعد مملکت کئی حصوں میں تقسیم‬
‫‪Abbasid Caliphate (light and dark green) at its‬‬ ‫ہو گئی جن میں ایران میں مقامی امرا نے اقتدار حاصل‬
‫‪greatest extent, c. 850. Territories in dark green‬‬ ‫کیا اور المغرب اور افریقیہ اغالبہ اور فاطمیوں کے زیر اثر آ‬
‫‪.were lost early on‬‬ ‫گئے۔‬

‫بغداد‬ ‫دارالحکومت‬ ‫عباسیوں کی حکومت کا خاتمہ ‪1258‬ء میں منگول فاتح‬


‫ہالکو خان کے حملے کے ذریعے ہوا۔ تاہم خلیفہ کی حیثیت‬
‫عمومی‪ ‬زبانیں عربی‪ ،‬آرامی‪ ،‬آرمینیائی‪ ،‬بربر زبانیں‪،‬‬
‫سے ان کی حیثیت پھر بھی برقرار رہی اور مملوک سلطان‬
‫‪ ،Georgian‬یونانی‪ ،‬عبرانی‪ ،‬فارسی‪ ،‬اوغز‬ ‫ملک الظاہر بیبرس نے خاندان عباسیہ کے ایک شہزادے ابو‬
‫ترک‪]3[Kurdish ]2[]1[ ،‬‬ ‫القاسم احمد کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس کے نام کا خطبہ‬
‫اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح خالفت بغداد سے قاہرہ‬
‫سنی اسالم‬ ‫مذہب‬ ‫منتقل ہو گئی تاہم یہ صرف ظاہری حیثیت کی خالفت‬
‫خالفت‬ ‫حکومت‬ ‫تھی‪ ،‬تمام اختیارات مملوک سالطین کو حاصل تھے۔‬

‫امیرالمومنین‪  ¹‬‬ ‫عثمانیوں کے ہاتھوں مملوکوں کی شکست کے بعد‬


‫عباسیوں کی اس ظاہری حیثیت کا بھی خاتمہ ہو گیا اور‬
‫•‪ 754–721 ‬ابو العباس‬ ‫خالفت عباسیوں سے عثمانیوں میں منتقل ہو گئی۔‬
‫•‪ 809–786 ‬ہارون الرشید‬ ‫موجودہ عراق میں تکریت کے شمال مشرق میں رہنے واال‬
‫العباسی قبیلہ اسی خاندان عباسیہ سے تعلق رکھتا ہے۔‬
‫المستنصر دوم‬ ‫•‪–1261 ‬‬
‫‪1262‬‬ ‫پس منظر‬
‫مستعصم باللہ‬ ‫•‪–1242 ‬‬
‫‪1258‬‬ ‫خاندان بنو امیہ کی حکومت کے دور ِ زوال میں سلطنت‬
‫میں ہر جگہ شورش اور بغاوتیں شروع ہو گئی تھی جن‬
‫‪ ‬‬ ‫تاریخ‬ ‫میں سب سے خطرناک تحریک بنی ہاشم کی تھی۔ بنی‬
‫ہاشم چونکہ اس خاندان سے تھے جس میں رسول اللہ‬
‫‪ 25‬جنوری ‪750‬ء‬ ‫•‪ ‬‬ ‫صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہوئے ہیں اس لیے وہ خود کو‬
‫‪ 10‬فروری ‪1258‬ء‬ ‫•‪ ‬‬ ‫خالفت کا بنی امیہ سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے۔‬
‫رقبہ‬ ‫بنی ہاشم میں بھی دو گروہ پیدا ہو گئے تھے۔ ایک وہ جو‬
‫حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد ان کی اوالد‬
‫‪ 10,000,000‬کلومیٹر‪ 3,900,000( 2‬مربع‪ ‬میل)‬ ‫کو خالفت کا حقدار سمجھتا تھا۔ یہ گروہ شیعانِ علی کا‬
‫آبادی‬ ‫طرفدار کہالتا تھا۔ بعد میں اسی گروہ میں سے کچھ‬
‫لوگوں نے شیعہ فرقے کی شکل اختیار کرلی اور وہ اثنا‬
‫‪50000000‬‬ ‫•‪ ‬‬ ‫عشری کہالئے۔‬
‫عباسی دینار‬ ‫کرنسی‬ ‫دوسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا‬
‫حضرت عباس کی اوالد کو خالفت دالنا چاہتا تھا۔ شروع‬
‫مابعد‬ ‫ماقبل‬
‫میں دونوں گروہوں نے مل کر بنو امیہ کی حکومت کے‬
‫خالفت امویہ مغول سلطنت‬ ‫خالف بغاوتیں کیں لیکن بعد میں عباسی گروہ غالب آ گیا۔‬
‫سلطنت فاطمیہ‬ ‫بنو عباس کی دعوت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ہی‬
‫سلطنت مملوک (مصر)‬ ‫شروع ہو گئی تھی۔ ہشام کے دور میں اس نے سند حاصل‬
‫کرلی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شیعان‬
‫صفاری خاندان‬
‫علی نے منصب امامت امام کے بیٹے حضرت زین العابدین‬
‫‪ ‬افغانستان‬ ‫موجودہ حصہ‬ ‫کو پیش کیا لیکن جب انہوں نے قبول نہیں کیا تو شیعوں‬
‫نے حضرت علی کے غیر فاطمی فرزند محمد بن حنفیہ کو‬
‫‪ ‬الجزائر‬ ‫امام بنا لیا اور اس طرح امامت کا منصب اہل بیت نبوی‬
‫‪ ‬انڈورا‬ ‫سے علوی شاخ میں منتقل ہو گیا۔ محمد بن حنفیہ کے بعد‬
‫‪ ‬آرمینیا‬ ‫ان کے بیٹے ابو ہاشم عبداللہ جانشیں ہوئے اور ایران میں‬
‫ان کی دعوت خفیہ انداز میں پھیلتی رہی۔ ‪100‬ھ میں ابو‬
‫‪ ‬آذربائیجان‬ ‫ہاشم نے شام میں وفات پائی۔ اس وقت ان کے خاندان میں‬
‫‪ ‬بحرین‬ ‫سے کوئی شخص ان کے پاس نہیں تھا۔ مشہور صحابی‬
‫‪ ‬چین‬ ‫حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پوتے محمد بن‬
‫علی قریب موجود تھے اس لیے ابو ہاشم نے ان کو جانشیں‬
‫‪ ‬قبرص‬ ‫مقرر کرکے منصب امامت ان کے سپرد کر دیا اور اس طرح‬
‫‪ ‬مصر‬ ‫امامت علویوں سے عباسیوں میں منتقل ہو گئی۔ بنی ہاشم‬
‫‪ ‬فرانس‬ ‫کی یہ دعوت عمر بن عبد العزیز سے ہشام تک خفیہ رہی‬
‫اور عراق اور خراسان کے بڑے حصے میں پھیل گئی۔‬
‫‪ ‬جارجیا‬ ‫‪126‬ھ میں محمد بن علی کا انتقال ہو گیا اور ان کے بڑے‬
‫‪ ‬جبل الطارق (برطانیہ)‬ ‫بیٹے ابراہیم بن محمد ان کے جانشیں ہوئے۔ ان کا مرکز شام‬
‫‪ ‬یونان‬ ‫میں ایک مقام حمیمہ تھا۔ ان کے دور میں تحریک نے بہت‬
‫زور پکڑ لیا اور مشہور ایرانی ابو مسلم خراسانی اسی‬
‫‪ ‬ایران‬ ‫زمانے میں عباسی تحریک کے حامی کی حیثیت سے داخل‬
‫‪ ‬عراق‬ ‫ہوا۔ اس نے ایک طرف عربوں کو آپس میں لڑایا اور‬
‫‪ ‬اسرائیل‬ ‫دوسری طرف ایرانیوں کو عربوں کے خالف ابھارا۔ اس‬
‫جگہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد بن علی نے ابو مسلم کو‬
‫‪ ‬اطالیہ‬ ‫ہدایت کی تھی کہ خراسان میں کوئی عربی بولنے واال‬
‫‪ ‬اردن‬ ‫زندہ نہ چھوڑا جائے۔ مروان کے دور میں اس سازش کا‬
‫‪ ‬قازقستان‬ ‫انکشاف ہو گیا اور ابراہیم کو قتل کر دیا گیا۔ اب ابراہیم کا‬
‫بھائی ابو العباس عبداللہ بن علی جانشیں ہوا۔ اس نے بھی‬
‫‪ ‬کویت‬ ‫حکم دیا کہ خراسان میں کوئی عرب زندہ نہ چھوڑا جائے۔‬
‫‪ ‬کرغیزستان‬ ‫اس نے ابراہیم کے غم میں سیاہ لباس اور سیاہ جھنڈا‬
‫‪ ‬لبنان‬ ‫عباسیوں کا نشان قرار دیا۔‬
‫‪ ‬لیبیا‬ ‫عربی اور ایرانی ہمیشہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے‬
‫‪ ‬مالٹا‬ ‫اور جب ایران پر عربوں کا قبضہ ہوا تو خلفائے راشدین نے‬
‫منصفانہ حکومت قائم کرکے اس نفرت کو کم کرنے کی‬
‫‪ ‬مراکش‬
‫کوشش کی لیکن بنو امیہ کے حکمران خلفائے راشدین کے‬
‫‪ ‬سلطنت عمان‬ ‫اصولوں پر نہ چلے۔ ایرانیوں کو بھی حکومت سے شکایت‬
‫‪ ‬پاکستان‬ ‫بڑھتی چلی گئی۔ وہ اب مسلمان ہو گئے تھے اور بحیثیت‬
‫مسلمان عربوں کے برابر حقوق چاہتے تھے۔ جب ان کے‬
‫‪ ‬فلسطین‬
‫برابری کا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ بنو امیہ کی حکومت کا‬
‫‪ ‬پرتگال‬ ‫تختہ پلٹنے کی فکر کرنے لگ گئے اور اپنا مقصد حاصل‬
‫‪ ‬قطر‬ ‫کرنے کے لیے انہوں نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا۔‬
‫‪ ‬روس‬
‫‪ ‬ساردینیا‬ ‫حصوِل اقتدار‬
‫‪ ‬سعودی عرب‬
‫بنو امیہ کے زمانے میں عربوں اور ایرانیوں کے درمیان میں‬
‫‪ ‬صقلیہ‬ ‫نفرتیں بڑھنے کے عالوہ خود عربوں کے اندر قبائلی‬
‫‪ ‬ہسپانیہ‬ ‫عصبیت اور اختالفات بھی بہت بڑھ گئے تھے۔ یہ ہماری‬
‫بڑی بدقسمتی ہے کہ رنگ و نسل کے یہ اختالفات جن کو‬
‫‪ ‬سوریہ‬
‫مٹانے کے لیے اسالم آیا تھا اتنی جلدی پھر سر اٹھانے لگے‬
‫‪ ‬تاجکستان‬ ‫اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی‬
‫‪ ‬تونس‬ ‫کرنے لگا۔ اس اختالف کی وجہ سے عربوں کی قوت کمزور‬
‫ہو گئی اور بنو امیہ کا سب سے بڑا سہارا چونکہ عرب تھے‬
‫‪ ‬ترکیہ‬
‫اس لیے ان کی قوت کمزور ہونے سے بنو امیہ کی سلطنت‬
‫‪ ‬ترکمانستان‬ ‫بھی کمزور پڑ گئی۔‬
‫‪ ‬متحدہ عرب امارات‬
‫اسالمی دنیا کی یہ حالت تھی کہ بنی ہاشم کے حامیوں نے‬
‫‪ ‬ازبکستان‬ ‫ایرانیوں کی مدد سے خراسان میں بغاوت کردی۔ ہشام کے‬
‫‪ ‬مغربی صحارا‬ ‫نا اہل جانشین اس بغاوت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس‬
‫‪ ‬یمن‬ ‫جدوجہد میں ایک ایرانی سردار ابو مسلم خراسانی سے‬
‫بنی ہاشم کو بڑی مدد ملی۔ وہ بڑا متصعب‪ ،‬ظالم اور‬
‫‪ ¹‬امیرالمومنین‪ ،‬خلیفہ‬ ‫سفاک ایرانی تھا لیکن زبردست تنظیمی صالحیتوں کا‬

‫یہ مضامین خالفت پر مبنی ہیں‬

‫خالفت‬

‫اہم خالفتیں‬
‫خالفت راشدہ (‪)661–632‬‬
‫خالفت امویہ (‪)750–661‬‬
‫خالفت عباسیہ (‪)1258–750‬‬
‫"عباسی خلفاء ‪ -‬مصر" (‪)1517–1258‬‬

‫خالفت عثمانیہ (‪)1924–1517‬‬

‫مدمقابل خالفتیں‬
‫خالفت قرطبہ (‪)1031–929‬‬
‫خالفت فاطمیہ (‪)1171–909‬‬
‫خالفت موحدین (‪)1269–1149‬‬

‫متعلقہ موضوعات‬
‫سلطنت‬
‫امارت‬
‫امامت‬

‫باب اسالم‬

‫د·ب·‬
‫‪)https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%B3%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81:%D8‬‬

‫مالک تھا۔ بنی ہاشم کے یہ حامی‬


‫ماوراء النہر اور ایران پر قبضہ‬
‫کرنے کے بعد عراق میں داخل ہو‬
‫گئے جہاں بنی امیہ کے آخری‬
‫حکمران مروان بن محمد نے‬
‫دریائے زاب کے کنارے مقابلہ کیا‬
‫لیکن ایسی شکست کھائی کہ راہ‬
‫فرار اختیار کرنا پڑی۔ بعد میں‬
‫مروان پکڑا گیا اور اس کو قتل‬
‫کر دیا گیا۔ دار الخالفہ دمشق پر‬
‫بنی ہاشم کا قبضہ ہو گیا اور بنی‬
‫ہاشم کی شاخ بنی عباس کی‬
‫حکومت قائم ہو گئی۔‬

‫خالفت عباسیہ عروج کے زمانے میں‬


‫مشہور خلفاء‬
‫خاندان عباسیہ نے ‪ 500‬سال سے‬
‫زائد عرصے تک حکومت کی جو ایک طویل دور ہے۔ اس طویل عہد میں عباسیوں کے کل ‪ 37‬حکمران بر سر اقتدار آئے اور ان‬
‫میں سے کئی قابل و صالحیتوں کے مالک تھے۔‬

‫ابو العباس السفاح (‪)754-750‬‬

‫عبد اللہ بن محمد المعروف ابو العباس السفاح پہال عباسی خلیفہ بنا۔ مورخین نے اس کی عقل‪ ،‬تدبر اور اخالق کی تعریف کی ہے۔‬

‫ابو جعفر المنصور (‪)775-754‬‬


‫اگرچہ پہال خلیفہ ابو العباس تھا لیکن عباسیوں کا پہال نامور حکمران اس کا بھائی ابو جعفر المنصور تھا جو سفاح کے بعد تخت‬
‫پر بیٹھا۔ اس نے ‪ 22‬سال حکومت کی اور خالفت عباسیہ کی جڑوں کو مضبوط کیا۔ اس نے دریائے دجلہ کے کنارے ایک نیا شہر‬
‫آباد کرکے دار الحکومت وہاں منتقل کیا جو بغداد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نے ابو مسلم خراسانی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ‬
‫کو دیکھتے ہوئے اسے قتل کرادیا۔‬

‫مہدی (‪)785-775‬‬

‫منصور کے بعد اس کا بیٹا محمد مہدی مسنِد خالفت پر بیٹھا۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج میں باپ سے بہت مختلف تھا۔ نرم دل‬
‫اور عیش پرست و رنگین مزاج تھا لیکن اس کے باوجود بد کردار نہیں تھا بلکہ ایک فرض شناس حکمران تھا۔ اس کا عہد امن و‬
‫امان کا دور تھا۔اس کے زمانے میں مراکش میں ادریسی حکومت قائم ہ ‏و‪‎‬‏ئ۔‬

‫ہارون الرشید (‪)809-786‬‬

‫مہدی کے بعد اس کا لڑکا ہادی (‪ )786-785‬تخت خالفت پر بیٹھا لیکن سوا سال‬
‫کی حکومت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ اس کا بھائی ہارون تخت‬
‫نشین ہوا۔ عباسی خلفاء میں سب سے زيادہ شہرت اسی ہارون الرشید نے حاصل‬
‫کی۔ اس کے دور میں بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوشحالی اور علم و فن‬
‫کا زریں دور تھا۔ وہ متضاد اوصاف کا مالک تھا ایک طرف عیش پرستانہ زندگی کا‬
‫حامل تھا تو دوسری طرف بڑا دیندار‪ ،‬پابند شریعت‪ ،‬علم دوست اور علما نواز بھی‬
‫تھا۔ ایک سال حج کرتا اور ایک سال جہاد میں گذارتا۔ اس کے دور میں امام ابو‬
‫ایک یورپی مصور کا فن پارہ‪ ،‬ہارون رشید‬ ‫حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا۔ اس نے بیت‬
‫فرانس کے بادشاہ شارلمین کے بھیجے گئے‬ ‫الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں کام کرنے والے عالموں اور‬
‫سفیروں کا خیرمقدم کررہا ہے‬ ‫مترجموں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس کا دور خاندان برامکہ کے ذکر‬
‫کے بغیر ادھورا ہے جنھوں نے اپنی عقل و فراست سے ہارون کی سلطنت کو دن‬
‫دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت‬
‫تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔ لیکن ہارون نے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کر دیا۔ اس خاندان کے زوال کی بڑی‬
‫وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات‪ ،‬اثرات اور مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ‬
‫خالفت پر قابض نہ ہو جائیں۔‬

‫مامون الرشید (‪)833-813‬‬

‫ہارون رشید نے اپنے مرنے سے پہلے اپنی سلطنت کو اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کے درمیان میں تقسیم کردیا۔جس کی‬
‫وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان میں خانہ جنگی بھی ہوئ۔‪ 809‬سے لیکر ‪ 813‬تک امین حکومت کیا۔ہارون کے بعد اگر کسی‬
‫اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کر سکتا ہے تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی‬
‫طرح تھا بلکہ وہ ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن" ہے۔ مامون اس عقیدے‬
‫کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس نے اسالم اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علما کو مجبور کیا کہ وہ‬
‫اس نظریے کو تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔‬

‫مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوں معتصم (‪ )842-833‬اور واثق (‪ )847-842‬کے زمانے میں خلق قرآن‬
‫کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصًا امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔‬

‫واثق باللہ (‪ )847-842‬اور متوکل (‪ )861-847‬عباسیوں کے عہد عروج کے آخری دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات‬
‫سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔ تاہم متوکل کے بعد خالفت زوال کی جانب گامزن ہو گئی اور ان کی وسیع و عریض‬
‫سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔‬

‫کارنامے‬
‫تمام عباسی دور کی عظمت و وقار مندرجہ باال خلفاء کی مرہون منت تھی۔ اس کے عالوہ بھی دیگر حکمران خوبیوں کے مالک‬
‫تھے جن کی وجہ سے عہد عباسیہ کو تاریخ کا ایک نہایت شاندار دور کہا گیا ہے۔ خصوصًا علمی ادبی اور تہذیب و ثقافت کے‬
‫حوالے سے یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل خلفائے راشدین اور بنو امیہ میں فتوحات اور انتظام سلطنت‬
‫کی طرف زیادہ توجہ دی گئی جس سے ان سرگرمیوں کی جانب توجہ کم رہی۔‬

‫اس خاندان کے خلفاء کے اصلی کارنامے انتظام سلطنت اور خصوصی طور پر علمی و تمدنی ترقی کے میدان میں دکھائی دیتے‬
‫ہیں۔ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترقی اس دور میں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی کہ اس کی دوسری مثال اندلس میں بنو‬
‫امیہ کی حکومت کے عالوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ ان میں دینی اور دنیاوی علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ دونوں ہی شامل تھے۔‬

‫گوکہ اس خاندان کی حکومت کے دوران میں کئی انقالبات اور حوادث رونما ہوئے اور خلفاء کی قوت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔‬
‫بعد کے خلفاء کا وقار مجروح ہوا لیکن بحیثیت مجموعی اس خاندان کی مرکزی حیثیت قائم رہی۔ اور اس دور میں جب‬
‫عباسیوں کی حکومت کی حقیقی ساکھ ختم ہو گئی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا پھر بھی عالم اسالم کے کئی حکمران‬
‫ان کے وفادار رہے۔ تاریخ کا یہ دور مذہبی‪ ،‬تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔‬

‫زوال کی وجوہات‬
‫بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم‬
‫کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خالفت دالنے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا اور‬
‫عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک‬
‫فال ثابت نہ ہوا۔‬

‫متوکل کے بعد ترک امرا کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے لگے۔ انہوں نے کئی خلفاء کو اتارا‬
‫اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے مرکزی حکومت کو کمزور تو کر دیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ‬
‫کرسکے۔ اور اس صورت حال میں کئی مقامی امرا نے اپنے اپنے عالقوں میں خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔ جن میں قابل ذکر‬
‫بنی بویہ‪ ،‬سامانی اور فاطمی حکومتیں ہیں۔‬

‫زوال کے دور میں قرامطہ کا فتنہ بھی رونما ہوا جنھوں نے ‪ 50‬سال تک جنوبی عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا‬
‫سلسلہ جاری رکھا۔‬

‫دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکر مہتدی تھا جس نے خالفت کو زيادہ سے زیادہ اسالمی رنگ دینے کی کوشش کی اور‬
‫اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں اور اسالمی پابندیوں سے ناالں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر ترکوں کے‬
‫ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے قابل ذکر معتضد ہے جو معتمد کے بعد خالفت‬
‫پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا زور توڑا اور ایک وسیع عالقے پر دوبارہ امن و امان قائم کر دیا اور حکومت کی گرتی ہوئی عمارت کو‬
‫سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے مکتفی‪ ،‬معتضد اور قاہر باللہ تخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران‬
‫تھے لیکن اس کا جانشیں مقتدر تن آسان‪ ،‬عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور باآلخر معزول کرنے کے بعد قتل کر دیا‬
‫گیا۔‬

‫بنو عباس کی حکومت کے خالف سب سے بڑا خروج امام آفتاب بن حیدر علی بن عبدالغنی کا تھا‪ ،‬جس کی وجہ سے بنو عباس‬
‫کو سخت نقصان ہوا۔‬

‫حمکرانوں کی عیش پرستی‪ ،‬نااہلی اور امرا کی خود سری و اخالقی زوال کے نتیجے میں خالفت کی حدود پھر گھٹنا شروع‬
‫ہوگئیں۔ اور باآلخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ عباسی خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے‬
‫زیر اثر آ گیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہو گئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی‬
‫اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔‬

‫اس میں شک نہیں کہ بعد کے عباسی حکمرانوں نے اسالمی اقدار کے فروغ کے لیے کام کیا۔ اسالمی قانون کے نفاذ میں دلچسپی‬
‫لی لیکن اس حکومت کی بھی بنیادی خرابی یہی تھی کہ وہ ملوکیت تھی۔ ان کے ہاتھوں جو انقالب ہوا اس سے صرف حکمران‬
‫ہی بدلے‪ ،‬طرز حکومت نہ بدال۔ انہوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ کیا بلکہ ان تمام تغیرات کو جوں کا توں‬
‫برقرار رکھا جو خالفت راشدہ کے بعد ملوکیت کے آ جانے سے اسالمی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو بنی امیہ‬
‫[‪]4‬‬
‫نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر نمونہ تھے تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسرٰی‬
‫اس طرح عباسیوں کے ‪ 500‬سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے‪:‬‬

‫دور اول (‪)861-750‬‬


‫‪132‬ھ سے ‪247‬ھ تک یعنی ابو العباس السفاح سے متوکل تک‪ ،‬جس میں ‪ 10‬حکمران بر سر اقتدار رہے۔ یہ حکمران غیر معمولی‬
‫صالحیتوں کے مالک تھے۔ ابو جعفر‪ ،‬مہدی‪ ،‬ہارون اور مامون جیسے عظیم و باصالحیت حکمران اسی پہلے دور سے وابستہ تھے۔‬
‫اس دور میں تہذیب و ثقافت‪ ،‬علم و ادب اور صنعت و حرفت کی ترقی عروج پر رہی بلکہ اس کی ترقی دنیا کے لیے ایک مثال‬
‫بن گئی۔ دوسرا پہلو اس دور میں عجمی عنصر کا عروج تھا۔ عربوں کے مقابلے میں عجمیوں نے اثر و رسوخ حاصل کیا۔ اس دور‬
‫کے آخری خلفا نے عجمیوں کے بارے میں اپنی پالیسی بدل دی اور ترکوں کو عروج دیا۔ یہ پہال دور ایک صدی تک رہا۔‬

‫دور ثانی (‪)1031-861‬‬


‫یہ ‪247‬ھ سے شروع ہوکر ‪422‬ھ تک دو صدیوں کا دور ہے۔ خلیفہ معتصم سے لے کر واثق باللہ تک یہ عرصہ خالفت عباسیہ کے‬
‫دوسرے دور میں شمار کیا جاتا ہے جو زوال کا دور ہے‪ ،‬خالفت کمزور پڑ گئی سلطنت کے اختیارات ترکوں اور پھر امیر االمراء کے‬
‫ہاتھوں میں چلے گئے۔ ہر کام حتٰی کہ خلفا کی نامزدگی بھی انہی کی مرضی سے ہوتی بلکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق خلفا کو‬
‫تخت پر بٹھانے اور اتارنے بھی لگے۔ اس دور میں آل بویہ نے عروج حاصل کیا اور ترکوں کی جگہ لی۔ قادر باللہ کے عہد میں‬
‫سلجوقیوں نے قدم بڑھائے اور بغداد میں آل بویہ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا کئی دیگر خود مختار ریاستیں مثًال سامانی اور‬
‫صفاری قائم ہیں جنھوں نے سلطنت میں دراڑیں پیدا کرکے اسے کمزور کر دیا۔‬

‫دور ثالث (‪)1258–1031‬‬


‫تیسرا دور ‪422‬ھ سے ‪656‬ھ یعنی قادر باللہ سے مستعصم (آخری حکمران) تک ہے جو سلجوقیوں کے غلبے کا دور ہے۔ خلیفہ کی‬
‫تمام حیثیت ختم ہو گئی۔ یہ عہد بغداد کی مرکزیت اور سیاسی وحدت کے مکمل خاتمے کا بھی دور ہے۔ تمام اختیارات‬
‫سلجوقیوں کے ہاتھوں میں تھے اور آخر کار ‪656‬ھ میں ہالکو خان کے حملے سے عباسیوں کے آخری تاجدار مستعصم باللہ کے‬
‫اقتدار کا خاتمہ کرکے عباسی خاندان کا چراغ بھی گل کر دیا تھا۔‬
‫بحیثیت مجموعی ان تینوں ادوار میں سے ہر دور کی اپنی عالحدہ حیثیت ہے۔ آخری دور میں تمام تر کمزوریوں کے باوجود‬
‫خالفت کا روحانی لبادہ اور خلیفہ کا مذہبی تقدس بہرحال برقرار رہا گوکہ سیاسی یکجہتی کا خاتمہ ہو گیا تھا لیکن مذہبی‬
‫حیثیت موجود رہی۔ خود مختار ریاستوں کے قیام نے بغداد کی مرکزی حیثیت تو ختم کردی لیکن دنیائے اسالم کے کئی حکمران‬
‫خلیفہ سے وفاداری کا دم بھرتے تھے۔‬

‫عباسی خلفاء (بغداد) ‪132‬ھ — ‪656‬ھ ‪750 /‬ء — ‪1258‬ء‬

‫عیسوی‬ ‫ہجری‬ ‫خلیفہ‬ ‫‪#‬‬

‫عباسی خلفاء‬

‫‪ 25‬جنوری ‪750‬ء — ‪ 10‬جون ‪754‬ء‬ ‫‪ 11‬ربیع الثانی ‪132‬ھ — ‪ 13‬ذوالحجہ ‪136‬ھ‬ ‫ابوالعباس السفاح‬ ‫‪1‬‬

‫‪ 10‬جون ‪754‬ء — ‪ 6‬اکتوبر ‪775‬ء‬ ‫‪ 13‬ذوالحجہ ‪136‬ھ— ‪ 6‬ذوالحجہ ‪158‬ھ‬ ‫ابو جعفر المنصور‬ ‫‪2‬‬

‫‪ 6‬اکتوبر ‪775‬ء— ‪ 24‬جوالئی ‪785‬ء‬ ‫‪ 6‬ذوالحجہ ‪158‬ھ— ‪ 12‬محرم ‪169‬ھ‬ ‫محمد المہدی‬ ‫‪3‬‬

‫‪ 24‬جوالئی ‪785‬ء– ‪ 14‬ستمبر‪786‬ء‬ ‫‪ 12‬محرم ‪169‬ھ–‪ 15‬ربیع االول ‪170‬ھ‬ ‫موسٰی الہادی‬ ‫‪4‬‬

‫‪ 14‬ستمبر‪786‬ء– ‪ 24‬مارچ ‪809‬ء‬ ‫‪ 15‬ربیع االول ‪170‬ھ–‪ 3‬جمادی الثانی ‪193‬ھ‬ ‫ہارون الرشید‬ ‫‪5‬‬

‫‪ 24‬مارچ ‪809‬ء–‪ 27‬ستمبر ‪813‬ء‬ ‫‪ 3‬جمادی الثانی ‪193‬ھ–‪ 28‬محرم ‪198‬ھ‬ ‫امین الرشید‬ ‫‪6‬‬

‫‪ 27‬ستمبر ‪813‬ء–‪ 7‬اگست ‪833‬ء‬ ‫‪ 28‬محرم ‪198‬ھ –‪ 17‬رجب ‪218‬ھ‬ ‫مامون الرشید‬ ‫‪7‬‬

‫‪ 7‬اگست ‪833‬ء–‪ 5‬جنوری ‪842‬ء‬ ‫‪ 17‬رجب ‪218‬ھ–‪ 18‬ربیع االول ‪227‬ھ‬ ‫المعتصم باللہ‬ ‫‪8‬‬

‫‪ 5‬جنوری ‪842‬ء–‪ 10‬اگست ‪847‬ء‬ ‫‪ 18‬ربیع االول ‪227‬ھ–‪ 24‬ذوالحجہ ‪232‬ھ‬ ‫الواثق باللہ‬ ‫‪9‬‬

‫‪ 10‬اگست ‪847‬ء–‪ 11‬دسمبر ‪861‬ء‬ ‫‪ 24‬ذوالحجہ ‪232‬ھ–‪ 5‬شوال ‪247‬ھ‬ ‫المتوکل علی اللہ‬ ‫‪10‬‬

‫‪ 11‬دسمبر ‪861‬ء– ‪ 8‬جون ‪862‬ء‬ ‫‪ 5‬شوال ‪247‬ھ–‪ 6‬ربیع الثانی ‪248‬ھ‬ ‫المنتصر باللہ‬ ‫‪11‬‬

‫‪ 8‬جون ‪862‬ء– ‪ 17‬اکتوبر ‪866‬ء‬ ‫‪ 6‬ربیع الثانی ‪248‬ھ–‪ 4‬شوال ‪252‬ھ‬ ‫المستعین باللہ‬ ‫‪12‬‬

‫‪ 17‬اکتوبر ‪866‬ء – ‪ 9‬جوالئی ‪869‬ء‬ ‫‪ 4‬شوال ‪252‬ھ–‪ 26‬رجب ‪255‬ھ‬ ‫المعتز باللہ‬ ‫‪13‬‬

‫‪ 9‬جوالئی ‪869‬ء – ‪ 22‬جون ‪870‬ء‬ ‫‪ 26‬رجب ‪255‬ھ–‪ 19‬رجب ‪256‬ھ‬ ‫المہتدی باللہ‬ ‫‪14‬‬

‫‪ 26‬جون ‪870‬ء – ‪ 15‬اکتوبر ‪892‬ء‬ ‫‪ 23‬رجب ‪256‬ھ–‪ 20‬رجب ‪279‬ھ‬ ‫المعتمد باللہ‬ ‫‪15‬‬

‫‪ 15‬اکتوبر ‪892‬ء ––‪ 5‬اپریل ‪902‬ء‬ ‫‪ 20‬رجب ‪279‬ھ –‪ 23‬ربیع الثانی ‪289‬ھ‬ ‫المعتضد باللہ‬ ‫‪16‬‬

‫‪ 5‬اپریل ‪902‬ء– ‪ 13‬اگست ‪908‬ء‬ ‫‪ 23‬ربیع الثانی ‪289‬ھ–‪ 22‬ذیقعد ‪295‬ھ‬ ‫المکتفی باللہ‬ ‫‪17‬‬

‫‪ 13‬اگست ‪908‬ء – ‪ 31‬اکتوبر ‪932‬ء‬ ‫‪ 22‬ذیقعد ‪295‬ھ–‪ 28‬شوال ‪320‬ھ‬ ‫المقتدر باللہ‬ ‫‪18‬‬

‫‪ 31‬اکتوبر ‪932‬ء – ‪ 19‬اپریل ‪934‬ء‬ ‫‪ 28‬شوال ‪320‬ھ– ‪ 3‬جمادی االول ‪322‬ھ‬ ‫القاہر باللہ‬ ‫‪19‬‬

‫‪ 23‬اپریل ‪934‬ء– ‪ 23‬دسمبر ‪940‬ء‬ ‫‪ 6‬جمادی االول ‪322‬ھ – ‪ 21‬ربیع االول ‪329‬ھ‬ ‫راضی باللہ‬ ‫‪20‬‬

‫‪ 23‬دسمبر ‪940‬ء – ‪ 26‬اگست ‪944‬ء‬ ‫‪ 21‬ربیع االول ‪329‬ھ–‪ 4‬محرم ‪333‬ھ‬ ‫المتقی باللہ‬ ‫‪21‬‬

‫‪ 26‬اگست ‪944‬ء – ‪ 28‬جنوری ‪946‬ء‬ ‫‪ 4‬محرم ‪333‬ھ– ‪ 22‬جمادی الثانی ‪334‬ھ‬ ‫المستکفی باللہ‬ ‫‪22‬‬
‫‪ 28‬جنوری ‪946‬ء– ‪ 4‬اگست ‪974‬ء‬ ‫‪ 22‬جمادی الثانی ‪334‬ھ– ‪ 13‬ذیقعد ‪363‬ھ‬ ‫المطیع باللہ‬ ‫‪23‬‬

‫‪ 5‬اگست ‪974‬ء – ‪ 30‬اکتوبر ‪991‬ء‬ ‫‪ 14‬ذیقعد ‪363‬ھ –‪ 19‬شعبان ‪381‬ھ‬ ‫الطائع باللہ‬ ‫‪24‬‬

‫یکم نومبر ‪991‬ء – ‪ 29‬نومبر ‪1031‬ء‬ ‫‪ 19‬شعبان ‪381‬ھ – ‪ 11‬ذوالحجہ ‪422‬ھ‬ ‫القادر باللہ‬ ‫‪25‬‬

‫‪ 29‬نومبر ‪1031‬ء– ‪ 2‬اپریل ‪1075‬ء‬ ‫‪ 11‬ذوالحجہ ‪422‬ھ– ‪ 13‬شعبان ‪467‬ھ‬ ‫القائم باللہ‬ ‫‪26‬‬

‫‪ 2‬اپریل ‪1075‬ء– ‪ 3‬فروری ‪1094‬ء‬ ‫‪ 13‬شعبان ‪467‬ھ– ‪ 14‬محرم ‪487‬ھ‬ ‫المقتدی بامر اللہ‬ ‫‪27‬‬

‫‪ 3‬فروری ‪1094‬ء – ‪ 6‬اگست ‪1118‬ء‬ ‫‪ 14‬محرم ‪487‬ھ – ‪ 17‬ربیع الثانی ‪512‬ھ‬ ‫المستظہر باللہ‬ ‫‪28‬‬

‫‪ 6‬اگست ‪1118‬ء– ‪ 29‬اگست ‪1135‬ء‬ ‫‪ 17‬ربیع الثانی ‪512‬ھ– ‪ 17‬ذیقعد ‪529‬ھ‬ ‫المسترشد باللہ‬ ‫‪29‬‬

‫‪ 29‬اگست ‪1135‬ء – ‪ 17‬اگست ‪1136‬ء‬ ‫‪ 17‬ذیقعد ‪529‬ھ–‪ 16‬ذیقعد ‪530‬ھ‬ ‫راشد باللہ‬ ‫‪30‬‬

‫‪ 17‬اگست ‪1136‬ء – ‪ 11‬مارچ ‪1160‬ء‬ ‫‪ 16‬ذیقعد ‪530‬ھ–‪ 2‬ربیع االول ‪555‬ھ‬ ‫المقتفی المر اللہ‬ ‫‪31‬‬

‫‪ 11‬مارچ ‪1160‬ء– ‪ 18‬دسمبر ‪1170‬ء‬ ‫‪ 2‬ربیع االول ‪555‬ھ – ‪ 8‬ربیع الثانی ‪566‬ھ‬ ‫مستنجد باللہ‬ ‫‪32‬‬

‫‪ 18‬دسمبر ‪1170‬ء – ‪ 27‬مارچ ‪1180‬ء‬ ‫‪ 8‬ربیع الثانی ‪566‬ھ–‪ 29‬شوال ‪575‬ھ‬ ‫المستضی باللہ‬ ‫‪33‬‬

‫‪ 28‬مارچ ‪1180‬ء– ‪ 5‬اکتوبر ‪1225‬ء‬ ‫یکم ذیقعد ‪575‬ھ–‪ 30‬رمضان ‪622‬ھ‬ ‫الناصر لدین اللہ‬ ‫‪34‬‬

‫‪ 6‬اکتوبر ‪1225‬ء– ‪ 10‬جوالئی ‪1226‬ء‬ ‫یکم شوال ‪622‬ھ –‪ 13‬رجب ‪623‬ھ‬ ‫الظاہر بامر اللہ‬ ‫‪35‬‬

‫‪ 10‬جوالئی ‪1226‬ء– ‪ 5‬دسمبر ‪1242‬ء‬ ‫‪ 13‬رجب ‪623‬ھ– ‪ 10‬جمادی الثانی ‪640‬ھ‬ ‫المستنصر باللہ‬ ‫‪36‬‬

‫‪ 5‬دسمبر ‪1242‬ء– ‪ 20‬فروری ‪1258‬ء‬ ‫‪ 10‬جمادی الثانی ‪640‬ھ –‪ 14‬صفر ‪656‬ھ‬ ‫مستعصم باللہ‬ ‫‪37‬‬

‫خلفاء قاہرہ‬

‫‪ 13‬جون ‪1261‬ء – ‪ 28‬نومبر ‪1261‬ء‬ ‫‪ 14‬رجب ‪659‬ھ — ‪ 4‬محرم ‪660‬ھ‬ ‫احمد المستنصر باللہ الثانی‬ ‫‪39‬‬

‫‪ 3‬دسمبر ‪1261‬ء – ‪ 19‬جنوری ‪1302‬ء‬ ‫‪ 8‬محرم ‪660‬ھ – ‪ 18‬جمادی االول ‪701‬ھ‬ ‫[[الحاکم بامراللہ االول]]‬ ‫‪40‬‬

‫‪1340–1303‬‬ ‫‪741–702‬‬ ‫‪Al-Mustakfi I of Cairo‬‬ ‫‪41‬‬

‫‪1341–1340‬‬ ‫‪742–741‬‬ ‫‪Al-Wathiq I‬‬ ‫‪42‬‬

‫‪1352–1341‬‬ ‫‪753–742‬‬ ‫‪Al-Hakim II‬‬ ‫‪43‬‬

‫‪1362–1352‬‬ ‫‪764–753‬‬ ‫‪Al-Mu'tadid I‬‬ ‫‪44‬‬

‫‪1383–1362‬‬ ‫‪785–764‬‬ ‫‪Al-Mutawakkil I‬‬ ‫‪45‬‬

‫‪1386–1383‬‬ ‫‪788–785‬‬ ‫‪Al-Wathiq II‬‬ ‫‪46‬‬

‫‪1389–1386‬‬ ‫‪791–788‬‬ ‫معتصم باللہ‬ ‫‪47‬‬

‫‪1406–1389‬‬ ‫‪809–791‬‬ ‫)‪Al-Mutawakkil I (restored‬‬ ‫‪48‬‬

‫‪1414–1406‬‬ ‫‪817–809‬‬ ‫‪Al-Musta'in‬‬ ‫‪49‬‬

‫‪1441–1414‬‬ ‫‪845–817‬‬ ‫‪Al-Mu'tadid II‬‬ ‫‪50‬‬

‫‪1451–1441‬‬ ‫‪855–845‬‬ ‫المستکفی باللہ ثانی‬ ‫‪51‬‬

‫‪1455–1451‬‬ ‫‪859–855‬‬ ‫‪Al-Qa'im‬‬ ‫‪52‬‬

‫‪1479–1455‬‬ ‫‪884–859‬‬ ‫‪Al-Mustanjid‬‬ ‫‪53‬‬


‫‪1497–1479‬‬ ‫‪902–884‬‬ ‫‪Al-Mutawakkil II‬‬ ‫‪54‬‬

‫‪1508–1497‬‬ ‫‪914–902‬‬ ‫‪Al-Mustamsik‬‬ ‫‪55‬‬

‫‪1517–1508‬‬ ‫‪923–914‬‬ ‫محمد المتوکل علی اللہ ثالث‬ ‫‪56‬‬

‫متعلقہ مضامین‬
‫فہرست سالطین عباسیہ‬

‫مزید دیکھیے‬
‫فہرست خلفاء‬

‫حوالہ جات‬
‫‪http://www.tarihimiz.net/v3/Haberler/Tarih/Abbasiler-devrinde-turklerin-etkinligi-ve-hizmetleri.ht .1‬‬
‫‪( ml‬ترکی میں) ‪Abbasiler devrinde türklerin etkinliği ve hizmetleri‬‬
‫‪( /http://www.genbilim.com/content/view/4930/190 .2‬ترکی میں) ‪Abbasiler‬‬
‫‪http://lalishduhok.org/lalish/26/E/L%2026%20E%20_%202.pdf .3‬‬
‫‪ .4‬خالفت و ملوکیت از سید ابو االعلٰی مودودی صفحہ ‪195‬‬

‫ویکی کومنز پر خالفت‬ ‫سانچہ‪S-imperialhouse:‬‬


‫عباسیہ سے متعلق سمعی‬
‫و بصری مواد مالحظہ‬
‫کریں۔‬

‫خالفت‬

‫مابعد‪ ‬‬ ‫‪ 1258–750‬اور ‪1517–1261‬‬ ‫ماقبل‪ ‬‬


‫عثمانی سلطنت‬ ‫فاطمی خالفت‪ 909‬میں‪ ،‬خالفت امویہ ‪ 929‬میں اور‬ ‫خالفت امویہ‬
‫عثمانی سلطنت دعوے دار رہے‬

‫اخذ کردہ از «‪&oldid=5276530‬خالفت_عباسیہ=‪»https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title‬‬

You might also like