Professional Documents
Culture Documents
خالفت
اہم خالفتیں
خالفت راشدہ ()661–632
خالفت امویہ ()750–661
خالفت عباسیہ ()1258–750
"عباسی خلفاء -مصر" ()1517–1258
مدمقابل خالفتیں
خالفت قرطبہ ()1031–929
خالفت فاطمیہ ()1171–909
خالفت موحدین ()1269–1149
متعلقہ موضوعات
سلطنت
امارت
امامت
باب اسالم
د·ب·
)https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D8%B3%D8%A7%D9%86%DA%86%DB%81:%D8
عبد اللہ بن محمد المعروف ابو العباس السفاح پہال عباسی خلیفہ بنا۔ مورخین نے اس کی عقل ،تدبر اور اخالق کی تعریف کی ہے۔
مہدی ()785-775
منصور کے بعد اس کا بیٹا محمد مہدی مسنِد خالفت پر بیٹھا۔ وہ اپنی طبیعت اور مزاج میں باپ سے بہت مختلف تھا۔ نرم دل
اور عیش پرست و رنگین مزاج تھا لیکن اس کے باوجود بد کردار نہیں تھا بلکہ ایک فرض شناس حکمران تھا۔ اس کا عہد امن و
امان کا دور تھا۔اس کے زمانے میں مراکش میں ادریسی حکومت قائم ہ وئ۔
مہدی کے بعد اس کا لڑکا ہادی ( )786-785تخت خالفت پر بیٹھا لیکن سوا سال
کی حکومت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا اور اس کی جگہ اس کا بھائی ہارون تخت
نشین ہوا۔ عباسی خلفاء میں سب سے زيادہ شہرت اسی ہارون الرشید نے حاصل
کی۔ اس کے دور میں بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا اور یہ خوشحالی اور علم و فن
کا زریں دور تھا۔ وہ متضاد اوصاف کا مالک تھا ایک طرف عیش پرستانہ زندگی کا
حامل تھا تو دوسری طرف بڑا دیندار ،پابند شریعت ،علم دوست اور علما نواز بھی
تھا۔ ایک سال حج کرتا اور ایک سال جہاد میں گذارتا۔ اس کے دور میں امام ابو
ایک یورپی مصور کا فن پارہ ،ہارون رشید حنیفہ کے شاگرد امام ابو یوسف کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا۔ اس نے بیت
فرانس کے بادشاہ شارلمین کے بھیجے گئے الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس میں کام کرنے والے عالموں اور
سفیروں کا خیرمقدم کررہا ہے مترجموں کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس کا دور خاندان برامکہ کے ذکر
کے بغیر ادھورا ہے جنھوں نے اپنی عقل و فراست سے ہارون کی سلطنت کو دن
دوگنی رات چوگنی ترقی دی۔ ہارون کو خاص طور پر جعفر برمکی سے بڑی محبت
تھی جو اس کا قابل وزیر تھا۔ لیکن ہارون نے کسی بات پر اس سے ناراض ہو کر اسے قتل کر دیا۔ اس خاندان کے زوال کی بڑی
وجہ یہ تھی کہ ہارون کو ان کے غیر معمولی اختیارات ،اثرات اور مقبولیت کی وجہ سے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ
خالفت پر قابض نہ ہو جائیں۔
ہارون رشید نے اپنے مرنے سے پہلے اپنی سلطنت کو اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کے درمیان میں تقسیم کردیا۔جس کی
وجہ سے دونوں بھائیوں کے درمیان میں خانہ جنگی بھی ہوئ۔ 809سے لیکر 813تک امین حکومت کیا۔ہارون کے بعد اگر کسی
اور عباسی خلیفہ کا عہد ہارون کے دور کا مقابلہ کر سکتا ہے تو وہ مامون الرشید کا دور ہے۔ وہ عادات و اطوار میں اپنے باپ کی
طرح تھا بلکہ وہ ہارون سے بھی زیادہ نرم دل اور فیاض تھا۔ اس کے دور کا اہم واقعہ "فتنۂ خلق قرآن" ہے۔ مامون اس عقیدے
کا قائل ہو گیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے اور اس نظریے کو اس نے اسالم اور کفر کا پیمانہ سمجھ لیا اور علما کو مجبور کیا کہ وہ
اس نظریے کو تسلیم کریں یا پھر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
مامون کا تو جلد انتقال ہو گیا لیکن اس کے دو جانشینوں معتصم ( )842-833اور واثق ( )847-842کے زمانے میں خلق قرآن
کے مسئلے کی وجہ سے علما خصوصًا امام احمد بن حنبل رحمت اللہ علیہ پر بہت سختیاں کی گئیں۔
واثق باللہ ( )847-842اور متوکل ( )861-847عباسیوں کے عہد عروج کے آخری دو خلفاء تھے جن کے دور کی خاص بات
سلطنت کی عسکری طاقت میں اضافہ تھا۔ تاہم متوکل کے بعد خالفت زوال کی جانب گامزن ہو گئی اور ان کی وسیع و عریض
سلطنت کی حدود کم ہوتی چلی گئیں۔
کارنامے
تمام عباسی دور کی عظمت و وقار مندرجہ باال خلفاء کی مرہون منت تھی۔ اس کے عالوہ بھی دیگر حکمران خوبیوں کے مالک
تھے جن کی وجہ سے عہد عباسیہ کو تاریخ کا ایک نہایت شاندار دور کہا گیا ہے۔ خصوصًا علمی ادبی اور تہذیب و ثقافت کے
حوالے سے یہ دور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل خلفائے راشدین اور بنو امیہ میں فتوحات اور انتظام سلطنت
کی طرف زیادہ توجہ دی گئی جس سے ان سرگرمیوں کی جانب توجہ کم رہی۔
اس خاندان کے خلفاء کے اصلی کارنامے انتظام سلطنت اور خصوصی طور پر علمی و تمدنی ترقی کے میدان میں دکھائی دیتے
ہیں۔ علم و ادب اور تہذیب و ثقافت کی ترقی اس دور میں اتنے بڑے پیمانے پر ہوئی کہ اس کی دوسری مثال اندلس میں بنو
امیہ کی حکومت کے عالوہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔ ان میں دینی اور دنیاوی علوم نقلیہ اور علوم عقلیہ دونوں ہی شامل تھے۔
گوکہ اس خاندان کی حکومت کے دوران میں کئی انقالبات اور حوادث رونما ہوئے اور خلفاء کی قوت میں کمی بیشی ہوتی رہی۔
بعد کے خلفاء کا وقار مجروح ہوا لیکن بحیثیت مجموعی اس خاندان کی مرکزی حیثیت قائم رہی۔ اور اس دور میں جب
عباسیوں کی حکومت کی حقیقی ساکھ ختم ہو گئی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا پھر بھی عالم اسالم کے کئی حکمران
ان کے وفادار رہے۔ تاریخ کا یہ دور مذہبی ،تمدنی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔
زوال کی وجوہات
بنو عباس کے زوال کی اصل وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے حکمران نا اہل تھے بلکہ سب سے بڑی وجہ ترکوں کا عروج تھا جو معتصم
کے زمانے سے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہے تھے۔ اصل میں عباسیوں کو خالفت دالنے میں بڑا ہاتھ ایرانیوں کا تھا اور
عباسیوں نے ذاتی مصلحت کے تحت ایرانیوں کے اثر و رسوخ کے کم کرنے کے لیے ترکوں کو آگے بڑھایا جو خود ان کے لیے نیک
فال ثابت نہ ہوا۔
متوکل کے بعد ترک امرا کا اقتدار اور بڑھ گیا اب وہ خلیفہ کا حکم سننے سے بھی انکار کرنے لگے۔ انہوں نے کئی خلفاء کو اتارا
اور بعض کو قتل بھی کیا۔ اس طرح ترکوں نے مرکزی حکومت کو کمزور تو کر دیا لیکن خود کوئی مضبوط حکومت قائم نہ
کرسکے۔ اور اس صورت حال میں کئی مقامی امرا نے اپنے اپنے عالقوں میں خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔ جن میں قابل ذکر
بنی بویہ ،سامانی اور فاطمی حکومتیں ہیں۔
زوال کے دور میں قرامطہ کا فتنہ بھی رونما ہوا جنھوں نے 50سال تک جنوبی عراق اور شام میں ظلم و ستم اور لوٹ مار کا
سلسلہ جاری رکھا۔
دور زوال کے اچھے حکمرانوں میں قابل ذکر مہتدی تھا جس نے خالفت کو زيادہ سے زیادہ اسالمی رنگ دینے کی کوشش کی اور
اسی کوشش کے نتیجے میں ترکوں اور اسالمی پابندیوں سے ناالں شاہی حکام اور امرا کی سازشوں کا نشانہ بن کر ترکوں کے
ہاتھوں قتل ہو گیا۔ اس دور میں سب سے زیادہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے قابل ذکر معتضد ہے جو معتمد کے بعد خالفت
پر بیٹھا۔ اس نے ترکوں کا زور توڑا اور ایک وسیع عالقے پر دوبارہ امن و امان قائم کر دیا اور حکومت کی گرتی ہوئی عمارت کو
سہارا دیا۔ اس کے بعد اس کے تین بیٹے مکتفی ،معتضد اور قاہر باللہ تخت نشین ہوئے۔ جن میں مکتفی اور معتضد اچھے حکمران
تھے لیکن اس کا جانشیں مقتدر تن آسان ،عیش پرست اور شراب و کباب کا رسیا تھا اور باآلخر معزول کرنے کے بعد قتل کر دیا
گیا۔
بنو عباس کی حکومت کے خالف سب سے بڑا خروج امام آفتاب بن حیدر علی بن عبدالغنی کا تھا ،جس کی وجہ سے بنو عباس
کو سخت نقصان ہوا۔
حمکرانوں کی عیش پرستی ،نااہلی اور امرا کی خود سری و اخالقی زوال کے نتیجے میں خالفت کی حدود پھر گھٹنا شروع
ہوگئیں۔ اور باآلخر بنی بویہ کے ایک حکمران معز الدولہ نے بغداد پر قبضہ کر لیا۔ عباسی خاندان بویہی قبضے سے سلجوقیوں کے
زیر اثر آ گیا۔ یہ حالت دو سو سال تک رہی اس کے بعد عباسی خلفاء پھر آزاد ہو گئے لیکن ان کی حکومت عراق تک محدود رہی
اور مزید سو سوا سو سال قائم رہنے کے بعد تاتاریوں کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔
اس میں شک نہیں کہ بعد کے عباسی حکمرانوں نے اسالمی اقدار کے فروغ کے لیے کام کیا۔ اسالمی قانون کے نفاذ میں دلچسپی
لی لیکن اس حکومت کی بھی بنیادی خرابی یہی تھی کہ وہ ملوکیت تھی۔ ان کے ہاتھوں جو انقالب ہوا اس سے صرف حکمران
ہی بدلے ،طرز حکومت نہ بدال۔ انہوں نے اموی دور کی کسی ایک خرابی کو بھی دور نہ کیا بلکہ ان تمام تغیرات کو جوں کا توں
برقرار رکھا جو خالفت راشدہ کے بعد ملوکیت کے آ جانے سے اسالمی نظام میں رونما ہوئے۔ بادشاہی کا طرز وہی رہا جو بنی امیہ
[]4
نے اختیار کیا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ بنی امیہ کے لیے قسطنطنیہ کے قیصر نمونہ تھے تو عباسی خلفاء کے لیے ایران کے کسرٰی
اس طرح عباسیوں کے 500سالہ عہد کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
عباسی خلفاء
25جنوری 750ء — 10جون 754ء 11ربیع الثانی 132ھ — 13ذوالحجہ 136ھ ابوالعباس السفاح 1
10جون 754ء — 6اکتوبر 775ء 13ذوالحجہ 136ھ— 6ذوالحجہ 158ھ ابو جعفر المنصور 2
6اکتوبر 775ء— 24جوالئی 785ء 6ذوالحجہ 158ھ— 12محرم 169ھ محمد المہدی 3
24جوالئی 785ء– 14ستمبر786ء 12محرم 169ھ– 15ربیع االول 170ھ موسٰی الہادی 4
14ستمبر786ء– 24مارچ 809ء 15ربیع االول 170ھ– 3جمادی الثانی 193ھ ہارون الرشید 5
24مارچ 809ء– 27ستمبر 813ء 3جمادی الثانی 193ھ– 28محرم 198ھ امین الرشید 6
27ستمبر 813ء– 7اگست 833ء 28محرم 198ھ – 17رجب 218ھ مامون الرشید 7
7اگست 833ء– 5جنوری 842ء 17رجب 218ھ– 18ربیع االول 227ھ المعتصم باللہ 8
5جنوری 842ء– 10اگست 847ء 18ربیع االول 227ھ– 24ذوالحجہ 232ھ الواثق باللہ 9
10اگست 847ء– 11دسمبر 861ء 24ذوالحجہ 232ھ– 5شوال 247ھ المتوکل علی اللہ 10
11دسمبر 861ء– 8جون 862ء 5شوال 247ھ– 6ربیع الثانی 248ھ المنتصر باللہ 11
8جون 862ء– 17اکتوبر 866ء 6ربیع الثانی 248ھ– 4شوال 252ھ المستعین باللہ 12
17اکتوبر 866ء – 9جوالئی 869ء 4شوال 252ھ– 26رجب 255ھ المعتز باللہ 13
9جوالئی 869ء – 22جون 870ء 26رجب 255ھ– 19رجب 256ھ المہتدی باللہ 14
26جون 870ء – 15اکتوبر 892ء 23رجب 256ھ– 20رجب 279ھ المعتمد باللہ 15
15اکتوبر 892ء –– 5اپریل 902ء 20رجب 279ھ – 23ربیع الثانی 289ھ المعتضد باللہ 16
5اپریل 902ء– 13اگست 908ء 23ربیع الثانی 289ھ– 22ذیقعد 295ھ المکتفی باللہ 17
13اگست 908ء – 31اکتوبر 932ء 22ذیقعد 295ھ– 28شوال 320ھ المقتدر باللہ 18
31اکتوبر 932ء – 19اپریل 934ء 28شوال 320ھ– 3جمادی االول 322ھ القاہر باللہ 19
23اپریل 934ء– 23دسمبر 940ء 6جمادی االول 322ھ – 21ربیع االول 329ھ راضی باللہ 20
23دسمبر 940ء – 26اگست 944ء 21ربیع االول 329ھ– 4محرم 333ھ المتقی باللہ 21
26اگست 944ء – 28جنوری 946ء 4محرم 333ھ– 22جمادی الثانی 334ھ المستکفی باللہ 22
28جنوری 946ء– 4اگست 974ء 22جمادی الثانی 334ھ– 13ذیقعد 363ھ المطیع باللہ 23
5اگست 974ء – 30اکتوبر 991ء 14ذیقعد 363ھ – 19شعبان 381ھ الطائع باللہ 24
یکم نومبر 991ء – 29نومبر 1031ء 19شعبان 381ھ – 11ذوالحجہ 422ھ القادر باللہ 25
29نومبر 1031ء– 2اپریل 1075ء 11ذوالحجہ 422ھ– 13شعبان 467ھ القائم باللہ 26
2اپریل 1075ء– 3فروری 1094ء 13شعبان 467ھ– 14محرم 487ھ المقتدی بامر اللہ 27
3فروری 1094ء – 6اگست 1118ء 14محرم 487ھ – 17ربیع الثانی 512ھ المستظہر باللہ 28
6اگست 1118ء– 29اگست 1135ء 17ربیع الثانی 512ھ– 17ذیقعد 529ھ المسترشد باللہ 29
29اگست 1135ء – 17اگست 1136ء 17ذیقعد 529ھ– 16ذیقعد 530ھ راشد باللہ 30
17اگست 1136ء – 11مارچ 1160ء 16ذیقعد 530ھ– 2ربیع االول 555ھ المقتفی المر اللہ 31
11مارچ 1160ء– 18دسمبر 1170ء 2ربیع االول 555ھ – 8ربیع الثانی 566ھ مستنجد باللہ 32
18دسمبر 1170ء – 27مارچ 1180ء 8ربیع الثانی 566ھ– 29شوال 575ھ المستضی باللہ 33
28مارچ 1180ء– 5اکتوبر 1225ء یکم ذیقعد 575ھ– 30رمضان 622ھ الناصر لدین اللہ 34
6اکتوبر 1225ء– 10جوالئی 1226ء یکم شوال 622ھ – 13رجب 623ھ الظاہر بامر اللہ 35
10جوالئی 1226ء– 5دسمبر 1242ء 13رجب 623ھ– 10جمادی الثانی 640ھ المستنصر باللہ 36
5دسمبر 1242ء– 20فروری 1258ء 10جمادی الثانی 640ھ – 14صفر 656ھ مستعصم باللہ 37
خلفاء قاہرہ
13جون 1261ء – 28نومبر 1261ء 14رجب 659ھ — 4محرم 660ھ احمد المستنصر باللہ الثانی 39
3دسمبر 1261ء – 19جنوری 1302ء 8محرم 660ھ – 18جمادی االول 701ھ [[الحاکم بامراللہ االول]] 40
متعلقہ مضامین
فہرست سالطین عباسیہ
مزید دیکھیے
فہرست خلفاء
حوالہ جات
http://www.tarihimiz.net/v3/Haberler/Tarih/Abbasiler-devrinde-turklerin-etkinligi-ve-hizmetleri.ht .1
( mlترکی میں) Abbasiler devrinde türklerin etkinliği ve hizmetleri
( /http://www.genbilim.com/content/view/4930/190 .2ترکی میں) Abbasiler
http://lalishduhok.org/lalish/26/E/L%2026%20E%20_%202.pdf .3
.4خالفت و ملوکیت از سید ابو االعلٰی مودودی صفحہ 195
خالفت