Professional Documents
Culture Documents
er
آلہ و
قرآن کریم کے اصطالحی معنی ہیں "ہللا تعالی کا وہ کالم جو حضرت محمد رسول ہللا خاتم النبیین صلی ہللا علیہ وعلی ٖ
اصحابہ وسلم پر جبریل امین علیہ السالم کے ذریعے نازل ہوا اور مصاحف میں لکھا گیا -
t
en
پارے ،سورتیں ،رکوع اور آیات کی تعداد :
قرآن مجید میں ٣٠پارے ١١۴سورتیں ۵۵٨رکوع اور ٦٢٣٦آیات ہیں-
ہللا تعالی کی کبریائی اور عظمت بیان کرنے والی سب سے بڑی آیت ،آیت الکرسی ہے -
-٢الفرقان
-٣الکتاب
-۴الہدی
er
برکت و ثواب ہے ،اس کو سمجھنا ،اس کی باریکیوں پر غور و فکر کرنا باعث ہدایت و سعادت دارین ہے-جب کہ اس کی تعلیمات
پر عمل کرنا ،دوسروں کو سنانا اور اس کی برکت سے محروم لوگوں تک اس کو پہنچانا بہت بڑی نیکی اور حصول سعادت دارین
t
en
کا موجب ہے
قرآن کریم کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ ہللا تعالی کا کالم ہے -یہ اپنے انداز و اسلوب میں منفرد ہے ،یہ بے حد دلکش
اور روح میں اتر جانے والی کتاب ہے اس کے مضامین اور موضوعات میں کوئی تضاد اور تفاوت نہیں ہے ،یہی بات اس کے
En
برحق ہونے کیلئے کافی ہے -ہللا تعالی فرماتا ہے ترجمہ :بھالیہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے -اگر یہ ہللا کے سوا کسی اور کا
(کالم) ہوتا تو اس میں بہت سا اختالف پاتے (-النساء)٢٧:
حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ،ترجمہ :قرآن کی فضیلت
F
دیگر کالم پر اس طرح ہے جس طرح ہللا تعالی کو تمام مخلوق پر فضیلت ہے (-شعب االیمان للبیہقی )٢٢٠٨ :جس طرح پوری
کائنات میں ہللا تعالی کو برتری اور عظمت حاصل ہے اسی طرح اس کے کالم کو بھی بڑی عظمت و فضیلت حاصل ہے-
M
er
قرآن سیکھنا اور سکھانا :
t
en
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنےاور دینے والے کے لئے فرمایا ہے۔
ترجمہ :تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے (صحیح البخاری ،حدیث )۵٠٢٧:
C
اصحابہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جا
ٖ
قرآن کریم کا گمراہی سے بچانا :
آلہ و
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وعلی ٖ
h
رہا ہوں جن پر عمل کرنے کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے ایک قرآن اور دوسری میری سنت ہے ،جو دونوں ہرگز جدا نہیں
is
ہوں گے یہاں تک کہ یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر حاضر ہوں ( ،مستدرک حاکم ،حدیث)۴٣٢١:
gl
ٰ
معنی پڑھی ہوئی کتاب بھی ہے ۔ جواب :لفظ" قرآن" کے لغوی معنی پڑھنا ہے اور" قرآن" کے
F
M
جواب ":سورۃ" کم از کم تین آیات پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر صورت کا ایک خاص مضمون موضوع ہوتا ہے۔ جس کی ابتدا میں
سورة توبہ کے عالوہ بسم ہللا الرحمن الرحیم لکھا گیا ہے اس کو سورۃ کہا جاتا ہے۔"آیت" کے لغوی معنی ہیں نشانی یا عالمت۔
اصطالح میں "آیت" قرآن شریف کے ایک فقرہ کو کہتے ہیں اور فقرہ کے آخر میں Oعالمت ہوتی ہے۔
٣۔ مکی اور مدنی سورتوں کا پر تحریر کریں ۔
جواب :قرآن مجید کی سورتوں کو نزول کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وہ آیات یا سورتیں جو ہجرت مدینہ سے
قبل نازل ہوئیں وہ مکی کہالتی ہیں اور جو ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئیں وہ مدنی کہالتی ہیں۔ اس اعتبار سے مکی سورتوں کی
تعداد ٨٦اور مدنی سورتوں کی تعداد ٢٨ہے۔
جواب :
-١القرآن
-٢الفرقان
-٣الکتاب
-۴النور
-۵الحق
er
قرآن سیکھے اور سکھائے (صحیح البخاری ،حدیث)۵٠٢٧:
آلہ واصحابہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں
حدیث نمبر : ٢حضور اکرم صلی ہللا علیہ وعلی ٖ
t
چھوڑے جا رہا ہوں جن پر عمل کرنے کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے ایک قرآن اور دوسری میری سنت ہے ،جو دونوں ہرگز
en
جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر حاضر ہوں۔ (مستدرک حاکم ،حدیث )۴٣٢١:۔
سے سننا -٣،قرآن مجید کو سمجھنا ،قرآن مجید میں تدبر اور غور و فکر کرنا،
-۴قرآن مجید پر عمل کرنا -۵،قرآن مجید کی تعلیم کو عام کرنا ۔
gl
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب پر"درست کا نشان " کا نشان لگائیں :
En
جواب :
(ب) ١۔ منتخب آیات ،ترجمہ و تشریح سورۃ البقرہ ،١٧٧:سورۃ النساء ١:تا ۴
er
-١مندرجہ ذیل آیات کا ترجمہ تحریر کریں:
t
en
C
h
is
جواب :
١۔ اور یتیموں کا مال جو تمہاری تحویل میں ہو ان کے حوالے کر دو اور ان کے پاکیزہ اور عمدہ مال کو اپنے ناقص اور برے
gl
مال سے نہ بدلو اور نہ ان کا مال اپنے مال میں مال کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے
En
٢۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے
مزے سے کھا لو۔
F
٢۔ آیت لیس البر کی روشنی میں البر کے نکات تحریر کریں -
M
بر کی اصطالحی معنی :اس سے مراد اچھے اور پسندیدہ کاموں کو بالنا ہے ۔
نیکی کے اصل کا م :نیکی محض ظاہری اعمال کرنے اور رسومات کے بجا النے کا نام نہیں۔ بلکہ نیکی کے اصل کام تو یہ
ہیں :دین کے بنیادی عقائد پر ایمان النا ،معاشرے میں ضرورت مندوں کے کام آنا ،ہللا تعالی کے فرائض سرانجام دینا ،معاملہ
داری میں سیدھا ہونا اور دین پر ثابت قدم رہنا وغیرہ نیکی کے کام ہیں۔
نیکوکار :جو بھی یہ نیکی کے کام سرانجام دے گا وہ ایک نیکوکار ،بااخالق،سچا اورپرہیزگارشخص کہالئے گا۔
حرف آخر :لہذا ہمیں چاہیے کہ درست عقائد اپنائیں اور ہمہ وقت اعمال صالحہ اور نیکی کو بجاالنے کی کوشش کرتے رہیں
تاکہ ہماری دنیا و آخرت سنور جائے۔
جواب :
-١تکلیف -
-٢پھیالیا -
-٣گناہ -
er
-۴خوشی سے -
-۵نا سمجھ -
t
en
(ج)مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات تحریرکریں:
C -١آیت لیس البر میں صبر کے مواقع بیان کریں -
h
جواب ) ١۔ مالی تکلیف پر ،جس سے مراد فقر ،بھوک اور تنگدستی پر صبر ہے ۔
is
جواب :نسبی اور قریب کے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات برقرار رہنا صلہ رحمی کہالتا ہے -
F
ٰ
-یتامی کے اعمال کے متعلق سرپرستوں کو کیا ہدایات دی گئی ہیں ؟٣
M
جواب :
-١یتیموں کا مال جو تمہارے پاس ہےان کے جوان ہوتے ہیں ان کے حوالے کر دو ۔
-٢ان کی کوئی بھی چیز اٹھا کر اپنے مال سے بدل دو۔
٣۔ ان کے مال میں سے ان کو کھالتے اور پہناتے رہو۔
جواب :
er
(ب) ٢۔ منتخب آیات ،ترجمہ وتشریح :سورۃ النساء ٦:تا١٠
t
en
(الف) مندرجہ ذیل سواالت کے جوابات تحریر کریں:
C ١۔ مندرجہ ذیل آیات کا ترجمہ تحریر کریں:
h
is
gl
En
جواب :
١۔ ترجمہ :اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو ایسی حالت میں ہوں کہ اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور ان کو ان کی
F
نسبت خوف ہو کہ ہمارے مرنے کے بعد ان بچاروں کا کیا ہوگا پس چاہیے کہ یہ لوگ ہللا سے اور درست بات کہیں ۔
-٢ترجمہ :جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔
M
٢۔ سورۃ النساء کی آیت ٦کی روشنی میں یتیموں کے حقوق تحریر کریں۔
مال حوالے کرنا :لہذا جب ان میں بلوغ و رشد پایا جائے تو ان کی ملکیت ان کے حوالے کر دی جائے ۔
جواب :
١۔ ا سے بچنا چاہیے۔
٢۔ الزم مقرر کیا ہوا۔
٣۔ ان کو کھالؤ /ان کو دے دوں۔
۴۔ اوالد۔
۵۔ وہ ڈر گئے۔
٦۔ پیٹ۔
٧۔ بھڑکتی ہوئی آگ ۔
er
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات تحریر کریں:
t
en
١۔ بلوغ اور رشد کا مطلب کیا ہے؟ تحریر کریں۔
٢۔ قرآن کریم میں یتیم کو مال واپس کرنے کا طریقہ کیا بتایا گیا ہے؟
gl
جواب :یتیم کو مال واپس کرنے کے وقت گواہ مقرر کر دیئے جائیں تاکہ بعد میں کسی پر کوئی الزام عائد نہ ہو ،غلط فہمی بھی
En
ختم ہو جائے گی اور آئندہ کسی جھگڑے کا خدشہ بھی نہیں رہے گا ۔
٣۔ قرآن مجید نے یتیم کے کفیل /سرپرست کی کیا ذمہ داریاں بتائی ہیں؟
F
۴۔ یتیموں کے مال میں خیانت کرنے والوں کی کیا سزا بیان کی گئی ہے ؟
جواب :جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اوردوزخ میں ڈالیں جائیں گے۔
٣۔ یتیم کے مال سے کفیل کو بقدر ضرورت مال لینے کی اجازت ہے جب وہ :
er
(ب) کفیل امیر ہو (الف) کفیل غریب ہوں
(د) کفیل ہو (ج) کفیل قرضدار ہو
t
en
۴۔ یتیموں اور مسکینوں سے بات کرنی چاہیے :
(ب) نرمی سے (الف) سختی سے
(د)بد سلوکی /ناشائستگی سے (ج) غصے سے
C
۵۔ قرآن مجید نے یتیموں کا مال ناحق کھانے والوں کا ٹھکانہ بتایا ہے :
h
(ب)جہنم (الف) جنت
(د) قبر (ج) برزخ
is
gl
٦۔ یتامی مال ناحق کھانے والے وہ اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں:
(ب) آگ (الف) مٹی
En
جواب :
F
(ب) ٣۔ منتخب آیات ،ترجمہ و تشریح :سورۃ النساء آیت٣٦ ،٢٩ :۔ سورۃ المائدہ آیت،٢٣:
٣٣۔ ٣۴
١۔ مندرجہ ذیل آیات میں سے کسی بھی دو آیات کا ترجمہ تحریر کریں :
t er
en
C
h
is
جواب :
gl
١۔ ترجمہ :مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں! اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو اور اس سے مالی
فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے اوراپنے آپ کو ہالک نہ کرو۔ کچھ شک نہیں کہ ہللا تم پر مہربان ہے ۔
En
٢۔ ہللا کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھالئی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور
محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غالم سے بے شک ہللا کو
خوش نہیں آتا کوئی اترانے والے بڑائی مارنے واال ۔
F
M
٣۔ ترجمہ :اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کے ذمے یہ بات لکھ دی کہ جو شخص کسی کو ناحق قتل کرے گا یعنی بغیر
اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جو ایک
انسان کی جان بچالے تو گویا اس نے سارے انسانوں کو زندگی دے دی۔ اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں
الچکے ہیں ،پھر اس کے بعد بھی ان میں بہت سے لوگ ملک میں ح ِد اعتدال سے نکل جاتے ہیں ۔
٢۔ ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل کیوں قرار دیا گیا ہے؟
قتل حق ارتکاب اسی وقت کرتا ہے ،جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا ٢۔ مفاد یا سرشت کا تقاضہ :کوئی شخص ِ
احساس مٹ جائے ،ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضہ ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں
کرے گا اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی ۔
٣۔ قتل کی ذہنیت :جب اس ذہنیت کا چلن عام ہوجائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں ،لہذا قتل ناحق کا ارتکاب چاہے
کسی کے خالف کیا گیا ہو ،تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خالف کیا گیا ہے۔
٣۔ قرآن کریم میں امن عامہ میں خلل ڈالنے والوں کے لیے کونسی سزائیں مقرر کی ہیں ؟
جواب) امن عامہ میں خلل ڈالنے والوں کی سزائیں :ان کی سزائیں درج ذیل ہیں ۔
er
١۔ قتل کرنا :اگر ڈاکوؤں نے مسلمان یا کسی ذمی کو قتل کیا اور مال نہ لیا تو اسے صرف قتل کیا جائے گا۔اگر قتل بھی کیا اور
مال بھی لوٹا تو بادشاہ اسالم کو اختیار ہے کہ ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کر ڈالے یا صرف قتل کر دے۔
t
en
٢۔ سولی پر چڑھانا :اگر ڈاکوؤں نے مسلمان یا کسی ذمی کو قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹا تو بادشاہ اسالم کو اختیار ہے کہ
ہاتھ پاؤں کاٹ کر سولی دے دے یا ہاتھ پاؤں کاٹ کر قتل کریں پھر اس کی الش کو سولی پر چڑھا دے یا قتل کر کے سولی پر
C چڑھا دے یا صرف سولی دے دے۔
h
٣۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالنا :اگر قتل نہیں کیا صرف مال لوٹا تو ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں
پاؤں کاٹ دیا جائے ۔
is
gl
۴۔ جال وطن کر دینا :ہمارے یہاں جالوطن کر دینے کے مراد قید کر دینا ہے ۔اگر نہ مال لوٹا اور نہ قتل کیا صرف ڈرایا
دھمکایا تو اس صورت میں انہیں قید کر لیا جائے گا یہاں تک کہ توبہ کرلیں۔
En
F
M
جواب :
١۔ نہ کھائیں ۔
٢۔ اترانے واال ۔
٣۔ حد سے بڑھنے واال ۔
۴۔ رسوائی ۔
۵۔ تم قابو پاؤ ۔
جواب :کیونکہ دولت کو سنبھالنے ،اس کو جائز تجارت میں لگانے اور نفع و نقصان میں فرق سمجھنے جیسے معامالت سے
متعلق ان بچوں میں قابلیت نہیں ہوتی جس سے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ وہ مال کو ضائع کر دیں گے۔
جواب :اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی دوسرے کو ناحق قتل کرے گا تو بدلے میں وہ خود بھی قتل ہوگا۔ اسی طرح اس میں
خودکشی کرنے کی ممانعت بھی واضح ہے۔
er
٣۔ مال حاصل کرنے کے ناجائز طریقے کون سے ہیں ؟
t
en
جواب :
ایسی چیزیں جو بذات خود حرام ہیں مثال :خنزیر ،شراب ،نشہ آور چیزیں وغیرہ ان کو بیچنا مال حاصل کرنے کا ناجائز ●
طریقہ ہے۔
C
لیکن ایسی چیزیں جو اپنی ذات میں حالل اور مباح ہیں ان کو غلط طریقے سے حاصل کیا تو یہ مال حاصل کرنے کا
ناجائز طریقہ ہوگا۔ مثال :چوری ،ڈکیتی ،رشوت اور سود وغیرہ سے مال حاصل کرنا۔
●
h
(د) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جوابات پر "درست" کا نشان لگائیں۔
is
gl
جواب :
(ب) ۴۔ منتخب آیات۔ ترجمہ و تشریح :سورۃ التوبہ آیت٣٣ ،٢۴۔ سورۃ الحج آیت٣٩:۔ ۴٠
١۔ مندرجہ ذیل آیات میں سے کسی بھی دو آیات کا ترجمہ تحریر کریں ۔
t er
en
C
جواب :
h
١۔ ترجمہ :وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب
is
٢۔ ترجمہ :جن مسلمانوں سے خواہ مخواہ لڑائی کی جاتی ہے ان کو اجازت ہے کہ وہ بھی لڑیں کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ اور
ہللا ان کی مدد کرے گا وہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔
En
٣۔ ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں حکومت دے دیں تو نماز قائم کریں اور ٰ
زکوۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا
حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام ہللا ہی کے اختیار میں ہے۔
F
٣۔ سورۃ التوبہ کی آیت ٢۴کی روشنی میں ایک سچے مومن کو سب سے زیادہ محبت ہللا تعالی اور اس کے
M
رسول (حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم) اسے کرنی چاہیے۔ وضاحت کریں ۔
جواب ) ہللا و رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت :
ایمان کی الزمی شرط :امت پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے حقوق میں ایک اہم حق آپ صلی ہللا تعالی علیہ وسلم سے
محبت کرنا ہے اور ایسی محبت مطلوب ہے جو مال و دولت سے ،آل اوالد سے بلکہ خود اپنی جان سے بھی بڑھ کر ہو۔ یہ کمال
ایمان کی الزمی شرط ہے ۔
سخت وعید :ہللا اور اس کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت ایسی الزمی و ضروری چیز ہے کہ اس کے
نا ہونے کی صورت میں سخت وعید ہے کہ ہللا کا عذاب بھی آ سکتا ہے ۔
ہللا و رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت قرآن کریم کی روشنی میں :
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ ( :اے نبی) کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور خاندان
والے اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس میں مندی سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو ہللا اور اس کے رسول
سے اور ہللا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ ہللا اپنا حکم یعنی عذاب بھیجے اور ہللا
نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا۔ (سورۃ التوبہ ،آیت)٢۴:
ہللا و رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت حدیث کی روشنی میں :
سیدنا انس رضی ہللا تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "کوئی بندہ اس وقت تک مومن
نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل و عیال ،اس کے مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔ "
(صحیح مسلم)
٢۔ سورۃ الحج کی آیت ۴١میں اسالمی سلطنت کے مقاصد و اہداف اور خوبیاں تحریر کریں۔
er
یا
۴۔ غلبہ و اقتدار ملنے کے بعد مسلمان حکمرانوں کے فرائض کیا ہونگے ؟وضاحت کریں۔
t
en
جواب)
١۔ نماز قائم کرنا :نماز دین کا اہم رکن اور عبادت ہے ،جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا تعلق ہللا تعالی سے مضبوط ہوجائے
C
اور تزکیہ نفس ہوجائے ۔ چنانچہ اسالمی حکومت کی ترجیحات میں یہ بات شامل ہوتی ہے ۔
h
٢۔ زکوۃ ادا کرنا :زکات کا تعلق براہ راست معاشرے کی معاشیات سے ہے ،اس لیے ریاست کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ
is
معاش کے وسائل پیدا کرے اور لوگوں کی ضروریات کے لیے مناسب انتظامات کرے۔
gl
٣۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر :معروف کے معنی ہے ایسی نیکی اور بھالئی والے کام جسے سب اچھا سمجھتے
ہوں۔ منکر کے معنی ہے ہر قسم کی بدی یا برائی جسے سب برا اور ناپسندیدہ سمجھیں۔اسالمی حکومت کا کام ہے کہ معاشرے
En
میں اچھے کاموں کو فروغ دے اور ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے جو معاشرے کے لیے کارآمد ثابت ہوں،اسی طرح جن
لوگوں سے معاشرے کے بگاڑ اور فساد کا اندیشہ ہو ان لوگوں کو بدی اور برائی فسق و فجور اور تکبر و غرور سے روکے اور
ان کے لیے سزائیں اور قوانین نافذ کرے تاکہ معاشرے میں امن و سکون کا دور دورہ ہو۔
F
M
جواب :
١۔ کمایا تم نے۔
٢۔ اس نے ناپسند کیا ۔
٣۔ خانقاہیں۔
۴۔ کلیسائیں۔
۵۔ ہم نے جگہ دی ۔
١۔ ہللا تعالی اور حضرت محمد رسول ہللا خاتم النبیین صلی ہللا علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہونا چاہیے۔
جواب :ایمان والوں کی زندگی میں والدین ،اوالد ،بیویاں و دیگر رشتہ دار اور مال و جائیداد یہ سب ہللا اور اس کے رسول سے
زیادہ محبوب نہیں ہونے چاہیے۔ اگر کوئی شخص ہللا اور اس کے رسول کو سب سے زیادہ محبوب نہیں رکھتا ہے تو پھر وہ ہللا
کی ناراضگی سے بچ نہیں سکے گا ۔
٢۔ قرآن مجید میں اذن قتال کی حکمت کیا بتائی گئی ہے؟
جواب :اسالمی ریاست کے دفاع ،ظلم کے خاتمہ ،دیگر ادیان پر غلبہ اور اعالء کلمۃ ہللا کو اذن قتال کی حکمت بتایا گیا ہے ۔
er
٣۔ مکی دور میں مسلمانوں کی حالت کیا تھی ؟
t
جواب :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے مکہ مکرمہ میں اعالن نبوت سے لے کر ہجرت مدینہ تک کے تیرہ برس مسلمانوں
en
اور خود حضرت اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے لئے نہایت صبر آزما اور مشکالت والےتھے ،جہاں پر تکلیفوں اور سختیوں پر
ردعمل کے بجائے صبر و ضبط کا حکم تھا اور کسی قسم کی جوابی کاروائی سے روکا جا رہا تھا۔
C
۴۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کیا مراد ہے؟
h
جواب :امر بالمعروف ہر اس کام کے حکم دینے کو کہتے ہیں جس کو عقل اور شریعت اچھا سمجھے اورنہی عن المنکر ہر اس
is
کام سے منع کرنے کو کہتے ہیں جسے عقل یا شریعت برا سمجھے ۔
gl
جواب :ہللا تعالی سے مدد ملنے کی چند سورتیں درج ذیل ہیں ۔
● مسلمان ایک قوم کی حیثیت سے قرآن مجید اور سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم پر پابندی سے عمل پیرا ہوں ۔
● ہر مسلمان کے دل میں عبادت کا ذوق اور شہادت کا شوق ہو ۔
F
٢۔ مسلمانوں کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کی وجہ تھی :
(ب) قحط سالی (الف) بے روزگاری
(ج) شدید گرم موسم کفار (د) مکرمہ کے مظالم
۵۔ اقامت صلوۃ و ایتاء زکوۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہتمام کرنے کی ذمہ داری ہے۔
er
(الف) علماء کی (ب) حکمرانوں کی
(ج) مجاہدین کی (د) اساتذہ کی
t
en
جواب :
C
۵۔ ب ۴۔ د ٣۔ الف ٢۔ د ١۔ ب
h
is
gl
En
F
M
حدیث کے اصطالحی معنی :اصطالح میں سیدنا محمد رّ سول ہللا خاتم النب ِّییْن صلی ہللا علیہ وسلم کے قول،فعل (کام) اور
er
تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے ،اسی طرح حدیث کو "خبر" اور "سنت" بھی کہا جاتا ہے۔
t
حدیث کی اقسام :حدیث کی اقسام درج ذیل ہیں ۔
en
١۔ حدیث قولی
٢۔ حدیث فعلی
C ٣۔ حدیث تقریری
۴۔ حدیث قدسی
h
سنت کے لغوی معنی :سنت کے لغوی معنی "طریقہ" اور "راستہ" کے ہیں۔
is
سنت کے اصطالحی معنی :اصطالح میں سنت حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی زندگی گزارنے کے اختیار کردہ طریقہ
gl
کو کہا جاتا ہے اور اس عمل کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بار بار کیا ہو۔ سنت کو قرآن کریم نے "اسوہ حسنہ" کے نام سے
En
ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :تمہارے لئے پیغمبر کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ (سورۃ االحزاب ،آیت)٢١ :
M
حدیث اور سنت کا فرق " :حدیث" اور "سنت" کم و بیش ایک ہی مفہوم کو ظاہر کرتی ہیں صرف معمولی سا فرق ہے۔ یعنی
حدیث عمومًا قول کے لیے اور سنت فعل و عمل کے لئے استعمال ہوتی ہے۔
قرآن و سنت کا باہمی تعلق :قرآن مجید "متن" کی حیثیت رکھتا ہے اور سنت و حدیث "شرح" کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے کسی قول یا فرمان کو بیان کیا ٰ ث قولی کا مطلب ہے جس میں حضرت محمد حدی ِ
ث قولی :حدی ِ
ّٙ ْ ٙ
جائے جو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اس طرح فرمایا ہے۔ جیسا کہ قال ٙالن ِبیُّ صلی ہللا علیہ وسلم "سالم کو
er
عام کرو"۔ (سنن ترمذی ،حدیث )١٨۵۴:۔
t
ٰ
مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے کسی اختیار کردہ عمل اور ث فعلی کا مطلب ہے جس میں حضرت محمد ث فعلی :حدی ِ حدی ِ
en
طریقہ کو بیان کیا گیا ہو کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اس طرح کیا۔ جیسا کہ حضرت انس رضی ہللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے بکری کا دودھ نکال کر نوش فرمایا اور پھر پانی سے کلی کی۔ (سنن ابن ماجہ ،حدیث )٩٩:۔
C
ث تقریری کا مطلب ہے جس میں کسی صحابی نے حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی موجودگی میں ث تقریری :حدی ِحدی ِ
کوئی کام سرانجام دیا یا جس کام کا آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو علم ہوا لیکن آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اس کو اس کام سے نہ منع
h
فرمایا ،نہ ہی اس کی تعریف کی بلکہ سکوت فرمایا یا آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اجازت دی یا اپنی رضامندی کا اظہار فرمایا ہو۔
is
جیسا کہ حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ :میرا ایک چھوٹا بھائی "ابو عمیر" تھا جس نے بلبل پال رکھا تھا اور وہ اس
سے کھیال کرتا تھا حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم ہمارے گھر میں اکثر آتے رہتے تھے لیکن آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے کبھی
gl
اس بلبل کو پالنے اور قید رکھنے سے منع نہیں فرمایا۔ (صحیح بخاری ،٦١٢٩:صحیح مسلم:
)٢١۵٠۔
En
ث قدسی کا مطلب ہے جس میں معنی اور مفہوم ہللا تعالی کی طرف سے اور الفاظ سیدنا حضرت محمد ث قدسی :حدی ِ حدی ِ
ٰ
مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ ہے ،ترجمہ :ہللا تعالی نے فرمایا :اے اوال ِد آدم! تم (میرے
F
بندوں) پر خرچ کرو تو میں تمہارے اوپر خرچ کروں گا۔ (صحیح بخاری )۵٣۵٢:۔
M
٣۔ ہماری زندگی پر سنت سے مرتب ہونے والے اثرات پر نوٹ تحریر کریں ۔
ٰ
مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کی سنت کے نہایت جواب) سنت کے عملی زندگی پر اثرات :انسانی زندگی پر حضرت محمد
اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں ،جو سنت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کے الزمی نتائج شمار ہوں گے۔ چنانچہ ذیل میں کچھ باتیں بیان کی
جاتی ہیں:
اعمال عبادت :آدمی اپنی ضروریات اور اعمال کو بہرحال پورا کرنے کی جدوجہد کرتا ہے ،پس اگر ان اعمال میں سن ِ
ت نبوی
صلی ہللا علیہ وسلم کا اہتمام ہوگا تو یہ اعمال عبادت شمار ہوں گے۔ مثاًل :کھانا پینا انسان کی ضرورت ہے ،اگر سنت کی نیت سے
باادب ہوکر دسترخوان پر اکٹھے بیٹھ کر اجتماعی کھانے کا اہتمام کیا جائے تو یہ کھانا بھی عبادت ہے۔
er
سنت اور سائنس :بہت سارے مسائل میں سائنس نے بھی سنت کی تائید کی ہے۔ اگرچہ سنت کو سائنس کی تائید کی ضرورت
نہیں ہے۔
t
en
(ب) مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات تحریر کریں:
C
١۔ سنت سے کیا مراد ہے؟ قرآن کریم کی روشنی میں تحریر کریں؟
h
جواب :سنت کو قرآن کریم نے "اسوہ حسنہ" کے نام سے بیان کیا ہے اور اسوہ حسنہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسالم زندگی
گزارنے کے اختیار کردہ طریقے کو کہتے ہیں ۔
is
gl
جواب :لفظ حدیث کے لغوی معنی خبر ،بات چیت اور نئی چیز کے ہیں۔اصطالح میں سیدنا محمد رّ سول ہللا خات ُم النب ِّییْن صلی ہللا
علیہ وسلم کے قول،فعل (کام) اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے ،اسی طرح حدیث کو "خبر" اور "سنت" بھی کہا جاتا ہے۔
جواب :سنت کے لغوی معنی "طریقہ" اور "راستہ" کے ہیں۔ اصطالح میں سنت حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی زندگی
گزارنے کے اختیار کردہ طریقہ کو کہا جاتا ہے اور اس عمل کو نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بار بار کیا ہو۔ سنت کو قرآن
کریم نے "اسوہ حسنہ" کے نام سے بیان کیا ہے۔
جواب :اسوہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی نمونہ اور مثال کے ہیں ۔
جواب :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے ہم تک جن لوگوں نے احادیث بیان کی ہیں ان کو "راوی" اور راویوں کے سلسلہ کو
"سند حدیث" کہا جاتا ہے۔
جواب :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے ہم تک جن لوگوں نے احادیث بیان کی ہیں ان کو "راوی" کہتے ہیں ۔
٨۔ حدیث جس نے "میری سنت کو زندہ کیا اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے" کریں ۔
er
جواب :ایک حدیث میں حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے "،جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری
t
سنت کو مضبوطی سے تھاما ،اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ (حلیۃاالولیاء لالصبہانی ،ج ،٨ص )٢٠٠۔
en
اس حدیث میں الفاظ "امت کا فساد" استعمال کیا گیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ امت میں پھیلی بدعت ،جہالت اور گناہوں کے وقت
جس نے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی سنت پرعمل کیا تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ اس ثواب کی وجہ سے وہ مشقت
اور مصیبت ہو گی جو فساد امت کے زمانے میں سنت پر عمل کرنے والے کو برداشت کرنا پڑے گی۔
C
(ج)مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں:
h
is
٢۔ مفہوم ہللا تعالی کا اور الفاظ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے ہوں تو وہ حدیث کہالتی ہے:
(الف) تقریری (ب) فعلی
(د) قدسی (ج) قولی
F
جواب :
جواب:
١۔ ترجمہ :تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
er
٢۔ ترجمہ :قیامت کے دن لوگوں میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو کہ مجھ پر سب سے زیادہ درود شریف
t
بھیجنے واال ہوگا ۔
en
C
جواب) تشریح :اس حدیث میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے محبت کو عالم ِ
ت ایمان بتایا گیا ہے ۔
h
is
تمام اقسام کی محبتیں :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے محبت کرنے میں تمام اقسام کی محبتیں جو ماں باپ اور بیوی
بچوں کی محبت کی طرح ہوتی ہیں ،دوسرے طبعی اسباب یا نفسانی اسباب کی وجہ سے ہوتی ہیں سب شامل ہیں یعنی حضور
gl
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ اختیاری محبت رکھ کر جب تک بندہ اپنی خواہشات ،اپنی مرضی ،اپنا مال ،اوالد اور اپنی جان
بھی ہللا ٰ
En
تعالی اور آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے احکامات کے سامنے قربان نہ کردے اس وقت تک وہ کامل ایمان واال نہیں ہو
سکتا۔
توثیق میں ایک اور حدیث :اوپر والی بات کی توثیق آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے،
F
جس میں آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں" :تم میں سے کوئی (کامل) مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش اس
M
شریعت کے تابع نہ ہو جائے جس کو میں لے کر آیا ہوں"۔ شرح السنة للبغوی ،ج ،١ص٢١٢۔ )٢١٣۔
ت کمال کے جامع اور عظمت و جواب :تمام اذکار میں ال ٰالہ اال ہلل کو افضل ذکر اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ کلیمات تمام صفا ِ
تعالی سے وابستہ کرنے میں سب سے زیادہ موثر کبریائی میں برتر ہیں۔ باطن کی تطہیر اور قلب کو ہر طرف سے موڑ کر ہللا ٰ
er
ہیں۔ نیز اس کو دل کے یقین اور سچائی کے ساتھ اقرار و اعتراف کرنے کے باعث آدمی اسالم میں داخل ہوجاتا ہے اور جنت میں
داخل ہونے کا حقدار بن جاتا ہے۔
t
en
۴۔ دعا سے کیا مراد ہے ؟
٢۔ ہللا ٰ
تعالی کی بارگاہ میں "التجا کرنا" کہالتا ہے:
(الف) حمد (ب) ذکر
(ج) دعا (د) ٰ
صلوة
F
جواب :
١۔ مندرجہ ذیل احادیث میں سے کسی بھی ایک حدیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں ۔
er
جواب)
١۔ ترجمہ :علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
t
en
تشریح :اس حدیث میں علم کی اہمیت و فضیلت بتائی گئی ہے ۔
C
علم کی تعریف :موجودہ دور میں ہر قسم کی معلومات جاننے اور ہر طرح کے علوم و فنون کے بارے میں دست رکھنے کو
"علم" سے تعبیر کیا جاتا ہے ،البتہ ابتدائے اسالم میں خاص طور پر "علم" سے قرآن و حدیث کا علم دیا جاتا تھا ،جس کے
h
ذریعے اپنے خالق و مالک کا قرب حاصل ہو سکے اور ہر اچھے اور برے کی پہچان ہو سکے تاکہ اعمال صالحہ کے بجا النے
کی کوشش کی جاسکے اور معاصی سے اجتناب کیا جاسکے۔
is
gl
فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں ِ فرض کفایہ :دین کا مکمل علم حاصل کرنا اور دنیاوی علوم و فنون کا حصولِ ٢۔
F
انفرادی اور اجتماعی طور پر علم کو الزم قرار دیا گیا ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں تاکہ وہ آئندہ کے
نسلوں کی تربیت اسالمی خطوط پر کریں تاکہ اسالم کا مطلوب صالح معاشرہ تکمیل پا سکے۔
M
حرف آخر :لہذا ہمیں علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کے ذریعے مفید اشیاء کو حاصل کریں اور مضر
چیزوں سے اجتناب کریں تاکہ فالح دارین حاصل کرسکیں ۔
تشریح :اس حدیث میں نماز کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے اور نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے ۔
نماز فرض ہونے کی شرائط :ہرعاقل بالغ ،مسلمان مرد اور عورت پر پانچ وقت کی نماز ادا کرنا فرض ہے۔
قرآن میں نماز کا حکم :قرآن کریم نے کئی جگہ نماز کے اہتمام کا حکم دیا ہے۔ مثاًل :نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔
(سورۃ البقرہ )۴٣:۔
اسالم کی بنیاد :حضور اقدس صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا" :اسالم کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے١ :۔ توحید و رسالت کی
er
گواہی٢،۔ نماز قائم کرنا٣ ،۔ ٰ
زکوۃ ادا کرنا۴ ،۔ روزے رکھنا اور ۵۔ بیت ہللا کا حج کرنا۔" (متفق علیہ)
t
حرف آخر :لہذا ہمیں پانچ وقت نماز کو اہتمام کے ساتھ خشوع وخضوع سے ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمارا ہللا ٰ
en
تعالی سے تعلق اور
رابطہ مضبوط ہو اور قرب و رحمت خداوندی حاصل ہو۔
C
h
is
جواب) تشریح :اس حدیث میں ہر آدمی کو نگران قرار دیا گیا ہے ۔
gl
نگران اور رعیت :نگران ہر وہ آدمی ہیں جس کو سماجی طور پر یا دنیاوی اعتبار سے کچھ امور کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے
اور اس کے ماتحت رہنے والے افراد کو رعیت کہا جاتا ہے۔
En
فرائض منصبی میں سے یہ ہے کہ وہ رعیت کی تربیت و اصالح کا ذمہ دار ہے ،یعنی کہ ان
ِ نگران کے فرائض :نگران کے
میں سے ہر ایک کو ادب سکھائے اور ان کو ٹھیک حالت میں رکھے۔
F
اپنے اعمال اور رعیت کے اعمال کے بارے میں سوال :اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک آدمی
M
اپنے اعمال کا حساب تو دے گا ہی ،لیکن اگر کسی کے پاس دنیا میں کوئی عہدہ یا منصب یا ذمہ داری تھی تو اس کے ماتحتوں
کے بارے میں بھی اس سے باز پرس ہوگی۔ چنانچہ بادشاہ سے اس کی پوری قوم کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ ان کے ساتھ
انصاف کیا ،ان کے حقوق پورے کئے ،ان کے جان و مال کا تحفظ کیا یا نہیں۔ بیوی سے گھر کے متعلق ،شوہر سے بیوی بچوں
اور ان کی بہتر کفالت ،تعلیم و تربیت کے متعلق ،کوئی مالزم یا عہدے دار ہے تو اس سے متعلقہ امور کے بارے میں ضرور
پوچھا جائے گا۔ استاد سے کالس میں شاگردوں کے متعلق باز پرس ہوگی ،پھر اس کے جواب کے مطابق اس سے معاملہ ہوگا۔
اعضاء کے متعلق سوال :یہاں تک کہ ہر انسان سے اپنے اعضاء کے متعلق بھی پوچھا جائے گا کہ ان کو کہاں پر استعمال
کیا،پھر یا تو انعام کا حقدار ہوگا یا سزا کا ۔
حرف آخر :اس حدیث میں تمام لوگوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اپنے ماتحتوں اور معاشرے کے کمزور لوگوں کے حقوق اہتمام
سے سر انجام دیں اور ان کے حقوق پر دست اندازی سے پرہیز کریں۔
er
ایک مہینے کے روزوں اور ایک مہینے کی تعداد دو سو سے زیادہ ثواب :اس کام کو جو لوگ ہللا ٰ
تعالی کی
خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سرانجام دیتے ہیں۔ ایسے مجاہدین اور اسالمی ممالک کے جانبازوں کے لیے بڑا اجر و ثواب
t
en
ہے ،چنانچہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مورچہ بند اسالمی مجاہد اگر ایک دن یا ایک رات سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں تو ان کو
مہینے بھر دن کے روزوں اور راتوں کے تہجد سے بہتر ثواب ملتا ہے۔
C
حرف آخر :لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اعالء کلمة ہللا کے لیے جہاد ،وطن اور وطن کی سرحدوں کی حفاظت کے جذبے سے
سرشار ہوں۔ تاکہ اسالم ،ملک اور وطن پر کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے اور دین کا اعزاز بھی قائم رہے ،اسی میں ہی فالح
h
دارین ہے۔
is
فرض عین :ہر آدمی چاہے مرد ہو یا عورت کو اتنا علم سیکھنا ہے جس کے ذریعے وہ عقیدہ کی ضروری باتیں ،حالل و
ِ ١۔
F
فرض کفایہ ہے۔ چنانچہ اس حدیث میں ِ فرض کفایہ :دین کا مکمل علم حاصل کرنا اور دنیاوی علوم و فنون کا حصولِ ٢۔
انفرادی اور اجتماعی طور پر علم کو الزم قرار دیا گیا ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں تاکہ وہ آئندہ کے
نسلوں کی تربیت اسالمی خطوط پر کریں تاکہ اسالم کا مطلوب صالح معاشرہ تکمیل پا سکے۔
جواب :
er
ترجمہ :جس نے رمضان کے روزے ایمان اور ثواب کا کام سمجھ کر رکھے (اس کے سبب) اس کے پچھلے سارے گناہ بخش
دیئے جائیں گے۔
t
en
۴۔ روزہ کن لوگوں پر فرض ہے؟ بیان کریں ۔
جواب :رمضان کے مہینے میں ہرعاقل بالغ ،مقیم اور تندرست آدمی پر روزے رکھنا فرض ہیں۔
C
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں ۔
h
is
جواب :
١۔ مندرجہ ذیل احادیث میں سے کسی بھی دو احادیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں ۔
جواب :
er
١۔ ترجمہ :تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخالق دوسروں سے اچھے ہوں۔
t
en
کمال ایمان کی
ِ تشریح) ایمان کی شرط :اس حدیث میں اچھے اخالق کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ "اچھے اخالق" کو
شرط بتایا گیا ہے ،ایمان و اخالق کے گہرے تعلق کو واضح کیا گیا ہے۔
C
حسن اخالق :زندگی گزارنے میں دین کے اصول و ضوابط کو بجا النا ،اوروں کو تکلیف دینے کے بجائے ان سے اچھا برتاؤ ِ
h
کرنا ،خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ان کی مالی مدد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام دیں تو یہ "حسن
اخالق" کہالتا ہے ۔
is
gl
مجھے سب سے زیادہ محبوب :حسن اخالق کو اسالم میں بڑی اہمیت حاصل ہے چنانچہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم
نے فرمایا" :تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو اچھے اخالق والے ہیں" (مسند احمد ،حدیث )٦٧٣۵:۔
En
"حسن حسن اخالق کے بدلے بلند مرتبہ :بسا اوقات آدمی نفلی عبادات کے اعتبار سے سست لگتا ہے تاہم ہللا ٰ
تعالی کے یہاں
ِ ِ
اخالق" کے بدلے بلند مرتبہ پا لیتا ہے۔
F
تشریح) بہتر ہونے کے لیے ضروری چیز :اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ "لوگوں کے لیے نفع بخش ہونا" آدمی کے بہتر
ہونے کے لیے ضروری ہے۔ انسان کی بہتری کا دارومدار لوگوں کے نفع مند ہونے پر موقوف ہے۔
پسندیدہ بندہ :اس حدیث میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ایسے آدمی کو پسندیدہ بندہ شمار کیا ہے ،جو ہللا ٰ
تعالی کی
مخلوق انسانوں ،چرند ،پرند ،حشرات اور ہر ایک کو نفع پہنچائے۔
حرف آخر :اس مذکورہ حدیث میں سب سے اچھے انسان ہونے کی عالمت بتائی گئی ہے کہ "سب سے اچھا شخص وہ ہے جو
دوسرے لوگوں (چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم) کے لیے نفع مند ہو۔"
تشریح :اس حدیث میں فی سبیل ہللا دینے والے کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
er
تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے جوبہت بڑی عبادت :ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اور ہللا ٰ
کچھ آدمی خرچ کرتا ہے اس کو "صدقہ"" ،خیرات" اور "انفاق فی سبیل ہللا" کہا جاتا ہے۔ یہ بہت بڑی عبادت ہے۔
t
en
اوپر واال ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر :اوپر واال ہاتھ جو ،ضرورت مندوں کو ضرورت کی چیزیں مہیا کرتا ہے ،جودو
سخا کرتا ہے ،وہ نیچے والے ہاتھ سے اچھا ہے۔ اور اس کا مقام بہت اونچا اور بلند ہے اس ہاتھ سے جس ہاتھ کے ذریعے
C
دوسروں سے سوال کیا جائے ،اپنی حاجتیں مانگی جائیں ،وہ نچال ہاتھ اور ذلت کا باعث ہے۔
h
حرف آخر :لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم جہاں تک ہو سکے سخاوت کرنے والے ،دوسروں کو دینے اور دوسروں کے کام آنے والے
بنں۔ ،نہ گداگر اور دوسرے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیالنے والے سائل بنیں جو کہ ایک گھٹیا بات ہے ،اور کسی شخص پر بابر
is
بن کر زندگی نہ گزاریں ایسے کاموں سے بچیں تاکہ فالح دارین حاصل کرسکیں ۔
gl
رہنے والوں کے امن و سکون کی سب سے بڑی ضمانت اس ملک کا قانون اور اس قانون کے محافظ ادارے ہی ہو سکتے ہیں۔
لیکن جہاں پر رشوت لی جاتی ہو وہاں بہتر سے بہتر قانون بھی مفلوج اور ناکارہ ہو جاتا ہے ۔
M
جرم کی اہمیت نکالنا :ہم نے اگر کسی مجرم سے رشوت لے کر اسے قانونی سزا سے بچا لیا تو حقیق ًتا ہم نے جرم کی اہمیت،
قانون کے احترام اور سزا کی ہیبت کو دلوں سے نکالنے میں مدد دی ہے اور ان مجرموں کا حوصلہ بڑھایا ہے جو کل خود
ہمارے گھر پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں۔
سرکاری خزانے کو نقصان اور اس کے بیان کے نتائج :اگر سرکاری کاموں کے سلسلے میں رشوت کا عام لین دین
ہوتا ہے تو اس سے سرکاری خزانے ہی کو نقصان پہنچتا ہے ،اس کا بار صرف حکمران نہیں اٹھائیں گے بلکہ زائد ٹیکسوں کی
شکل میں عوام کو بھی یہ بھکتنا پڑے گا ۔
تعالی کا باغی :رشوت لینے واال پیسوں اور اسٹیٹس کا پوجاری بن جاتا ہے اور یہ چیز اس کی فطرت میں شامل ہو جاتی ہللا ٰ
ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اس رشوت کو برا سمجھنے کے بجائے اسے اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ ہللا ٰ
تعالی کے اصول و قوانین
کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے ہللا تعالی کا باغی بن جاتا ہے ۔
دعا کا قبول نہ ہونا :حرام کمانے اور حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔ اگر خانہ کعبہ کے غالف تک کو پکڑ
کر حرام کمانے اور کھانے واال دعا مانگے تو بھی ہللا اسکی دعا کو ٹھکرا دے گا ۔
جواب :زندگی گزارنے میں دین کے اصول و ضوابط کو بجا النا ،اوروں کو تکلیف دینے کے بجائے ان سے اچھا برتاؤ کرنا،
er
خندہ پیشانی سے پیش آنا اور ان کی مالی مدد کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے سر انجام دیں تو یہ "حسن اخالق"
کہالتا ہے ۔
t
en
٢۔ اچھے انسان کی کیا عالمات ہیں؟ تحریر کریں ۔
C
جواب :اچھے انسان کی عالمت یہ بتائی گئی ہے کہ "سب سے اچھا شخص وہ ہے جو دوسرے لوگوں (چاہے مسلم ہو یا غیر
مسلم) کے لیے فائدہ مند ہو"۔
h
٣۔ رشوت کسے کہتے ہیں؟ تحریر کریں ۔
is
جواب :رشوت ہر وہ رقم یا عرض ہے جس کے ذریعے کسی کا حق مارا جائے یا وہ رقم کسی ظلم کے اوپر سے لی جائے،
gl
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں :
١۔ حدیث میں جو انسانوں کو زیادہ نفع پہنچائے اس کو کہا گیا ہے :
F
٣۔ حدیث میں اوپر والے ہاتھ کو بہتر کہا گیا ہے۔ کیونکہ وہ:
(الف) دینے واال ہے (ب)لینے واال ہے
(ج)سوال کرنے واال ہے (د)بخل کرنے واال ہے
جواب :
er
١۔ مندرجہ ذیل احادیث میں سے کسی بھی ایک حدیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں ۔
t
en
C جواب :
h
١۔ ترجمہ :جس نے ہللا ٰ
تعالی کے لئے حج کیا اور پھر نہ اس نے بد کالمی اور گالی گلوچ کی نہ ہی کوئی گناہ کیا تو وہ حج
سے اس دن کی طرح واپس ہو گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔
is
gl
حج فرض ہونے کی شرائط :حج ارکان اسالم کا آخری اور تکمیلی رکن ہے ،جو عاقل بالغ ،صحت مند اور صاح ِ
ب
استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔
F
حج کی فضیلت :حج بھی تقرب الی ہللا کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے" :عمرے
اور حج کو بار بار (نفلی عبادت کے طور پر) ادا کرو یہ دونوں گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں۔ جیسے (لوہا اور سنار
M
کی بھٹی) لوہے ،سونے اور چاندی سے میل کچیل کو صاف کردیتی ہے ،اور حج مبرور (گناہوں سے پاک) کا ثواب تو جنت ہی
ہے" (سنن نسائی)٢٦٣١:
بے ہودہ فحش کالم اور بد کالمی سے بچے :اس حدیث میں یہی تلقین کی گئی ہے کہ آدمی حج کے دوران صبر کا
مظاہرہ کریں ،بے ہودہ فحش کالم خاص طور پر شہوت کی باتیں ،بدکالمی سے بچے۔
حرف آخر :بے ہودہ فحش کالم ،بدکالمی اور فسق سے باز رہ کر حقوق ہللا میں کوتاہی کی معافی اور حقوق العباد میں کوتاہی
کی تالفی کرلے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوجائے گا۔ جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے دن بے گناہ تھا ۔
تشریح) اخالص کی اہمیت :اس حدیث میں اخالص کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ انسان کا ظاہر و باطن ایک ہونا چاہیے۔ یہ
حدیث اصالح و تربیت کے لحاظ سے اہم ہے۔ اسالم اپنے تمام اعمال میں اخالص و ل ٰلّہیت کو خاص اہمیت دیتا ہے۔
اخالص کی تعریف :جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نیک کام کیا جائے صرف ہللا ٰ
تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا
ب شہرت یا معاوضہ نہ ہو ،دکھاوے سے بچا جائے۔جائے ،اس میں دنیاوی غرض ،نمود و نمائش ،طل ِ
اگر اخالص ہوگا تو ثواب ملے گا :تمام انسانی اعمال میں انسان کے دل اور صحیح ارادہ و نیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے
er
کہ اس عمل کے سر انجام دیتے وقت دل کی کیفیت اور رجحان کیسا ہے۔ اگر اخالص و تقوی واال عمل ہے تو ہللا تعالی کے یہاں
منظور و مقبول ہوگا اور اس کا ثواب بھی ملے گا ،اور اگر اس عمل میں دنیاوی مفاد مطلوب ہوگا تو بس وہی بات ملے گی،آخرت
t
میں ہللا کے یہاں اس عمل کے بدلے کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا ۔
en
٢۔ مسلمان کے مسلمان کے اوپر چھ خاص باہمی حقوق کی ادائیگی پر مختصر طور پر مضمون لکھیں۔
C
جواب :مسلمان کے مسلمان کے اوپر چھ حقوق :مسلمان کے مسلمان پر یوں تو کئی حقوق ہیں ،لیکن جو چھ حدیث میں بیان کئے
گئے ہیں۔ ان کو ذیل میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔
h
is
١۔ سالم :ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب سے پہال حق یہ ہے کہ وہ جب اس سے ملے تو اس کی جناب میں ہللا تعالی
gl
کی طرف سے سالمتی کا تحفہ پیش کرے اور یہ بات پوری طور پر واضح کر دے کہ میں اپنے بھائی کا خیر خواہ اور اس کے
لئے دعا گو ہوں۔
En
٢۔ دعوت قبول کرنا :ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر دوسرا حق یہ ہے کہ جب کوئی ایک دوسرے کو شادی یا کسی اور
مناسبت سے دعوت پر بالتا ہے تو اس کی دعوت قبول کرے ،کیونکہ اس میں اس کی دلجوئی اور عزت افزائی ہے۔نیز اس کے
یہاں آنے جانے سے آپسی تعلقات اور دلی محبت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
F
M
٣۔ نصیحت و خیرخواہی :ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر تیسرا حق یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کا ہمیشہ خیر خواہ رہے۔
لہذا اگر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان سے مشورہ طلب کر رہا یا کسی کام سے متعلق رائے رہا ہے تو اسے وہی مشورہ دیا
جائے جو وہ خود اپنے لیے بہتر سمجھ رہا ہو۔
۴۔ چھینک کا جواب :جب کسی مسلمان کو چھینک آتی ہے تو وہ ہللا کے شکر میں "الحمدہلل" کہتا ہے۔ جب دوسرا مسلمان
بھائی اس کو سنے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ "یرحمک ہللا" کہہ کر دعا دے۔
۵۔ مریض کی عیادت و زیارت :بیمار شخص تسلی اور صبر و احتساب کی تلقین کا محتاج ہوتا ہے ،اس لیے ایسے وقت میں
دوسرے مسلمانوں پر اس کا ایک حق واجب یہ بھی ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ۔
٦۔ جنازے میں شرکت :جب انسان کی روح اس کے بدن سے جدا ہو جائے تو اسے زمین کے حوالے کر دینا ہی اس کی
اصل تعظیم ہے۔ اس وقت وہ الش بے جان اپنے لئے کسی نفع و نقصان کی مالک نہیں ہوتی،اس لئے اس کے بھائیوں پر اس کا
حق ہے کہ اسے زمین کے سپرد کردیں اور آگے کی منزل کی آسانی کے لیے دعا کریں۔
جواب :انسانی فطرت کا بنیادی تقاضا ہے کہ انسان کو اپنی ذات اور کائنات کے متعلق ہر اچھی اور بری بات کا علم ہو۔ اور علم
کے بغیر انسان دنیا میں ترقی نہیں کرسکتا۔ اور علم کے حصول کیلئے محنت ،جدوجہد اور مشقت برداشت کر ناگزیر ہے۔ حتی کہ
سفر کرنا پڑے تو وہ بھی کریں۔ چنانچہ حدیث میں ہے" ،علم حاصل کرو اگرچہ ملکِ چین سے ہی کیوں نہ ہو۔"(کنزالعمال
،حدیث )٢٨٦٩٨ ،٢٨٦٩٧:۔ یہاں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ علوم و فنون کے حصول کے لیے ہم کو ملکِ چین بھی جانا پڑے
er
تو وہاں بھی جا کر علم حاصل کرنے میں تکلیف و مشقت کو برداشت کرے۔
t
٢۔ اخالق سے کیا مراد ہے؟ تحریر کریں ۔
en
جواب :اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نیک کام کیا جائے صرف ہللا ٰ
تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا جائے ،اس میں
C
ب شہرت یا معاوضہ نہ ہو ،دکھاوے سے بچا جائے۔دنیاوی غرض ،نمود و نمائش ،طل ِ
٣۔ ایمان کا ٰ
اعلی شعبہ اور آخری شعبہ کونسا ہے؟ تحریر کریں ۔
h
is
جواب :ایمان کا ٰ
اعلی شعبہ ال الہ اال ہللا کہنا ہے اور آخری شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔
gl
جواب :حیا کے لفظی معنی ہیں شرم اور غیرت ،حیا کا مطلب ہے انسان کے اندر ایک فطری اور اخالقی صفت ودیعت کی گئی
ہے ،جس کے باعث وہ انسان خوفِ خدا کے جذبے کے تحت بے حیائی اور بداخالقی جیسے ناشائستہ کام سے اپنے آپ کو بچا لیتا
ہےاور برائی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے ۔
F
جواب :
t er
en
(ب)۵۔ منتخب احادیث کا ترجمہ و تشریح:
حدیث ٢١تا ٢۵
C
(الف)مندرجہ ذیل سواالت کے تفصیلی جوابات تحریر کریں :
h
١۔ مندرجہ ذیل احادیث میں کسی بھی ایک حدیث کا ترجمہ و تشریح تحریر کریں ۔
is
gl
En
جواب :
F
١۔ ترجمہ :جس نے کسی شخص کی اچھائی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو وہی اجر ملے گا جو اس بھالئی کرنے والے کو
M
ملے گا۔
تشریح) نیکی کرنے اور نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کرنے کی تلقین :اس حدیث میں بھالئی اور نیکی کرنے ،اور
نیکی اور بھالئی پر ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔
قرآن کریم میں نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کی تلقین :قرآن کریم پر ہیز گاری اور نیکی کے کام میں دوسرے کے
تعاون کا حکم دیتا ہے جبکہ گناہ اور نافرمانی میں مدد کرنے سے روکتا ہے( ،سورۃ المائدہ)٢:
معاون کو برابر کا ثواب :اس حدیث میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی کو اچھا مشورہ ،رہنمائی اور تعلیم و تربیت دینے کے
ذریعے جو کوئی بھی ثواب اس کام کرنے والے کو ملے گا ،اس کے برابر اس کے معاون کو بھی ملے گا۔
حرف آخر :لہذا ہمیں چاہیے کہ بھالئی اور نیکی کی طرف خود بھی بڑھیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔
تشریح) اس حدیث میں بال ضرورت خوامخواہ بدگمانی کی ممانعت بیان کی گئی ہے ۔
ظن کی تعریف :کسی چیز کی تحقیق اور خبر گیری کے سوا کسی کے بارے میں اندازے سے کچھ کہنا "ظن" یا گمان کہالتا
ہے۔
er
٢۔ بدظن ۔
t
حسن ظن کی تعریف :اگر اس میں اچھائی مقصود ہو تو یہ "حسن ظن" ہے جو ایک پسندیدہ خوبی ہے ،اور حدیث میں اس
en
حسن ظن رکھنا عبادت ہے۔ کی ترغیب دی گئی ہے ،خاص طور پر ہللا ٰ
تعالی سے
ِ
نیت پر شک کرنا اور بے وجہ اپنے دل میں اچھا خیال نہ رکھنا "بدظن" کہالتا ہے۔
gl
بدظن قرآن کریم کی روشنی میں :قرآن کریم میں بدگمانی سے منع فرمایا گیا ہے" ،اے ایمان والو! بدگمانیوں سے بچو،
En
حرف آخر :لہذا کسی انسان کے بارے میں تمہارے پاس کتنی ہی بری شکایت پہنچتی ہوں ،لیکن جب تک اس کی تحقیق نہیں
F
ہوتی ،تمہیں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے آپس کا میل مالپ کم ہو جاتا ہے ،آہستہ آہستہ
یہ بدگمانی دلوں میں نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے جو کہ گناہ ہے ۔
M
جواب) ظن :
ظن کی تعریف :کسی چیز کی تحقیق اور خبر گیری کے سوا کسی کے بارے میں اندازے سے کچھ کہنا "ظن" یا گمان کہالتا
ہے۔
٢۔ بدظن ۔
حسن ظن کی تعریف :اگر اس میں اچھائی مقصود ہو تو یہ "حسن ظن" ہے جو ایک پسندیدہ خوبی ہے ،اور حدیث میں اس
حسن ظن رکھنا عبادت ہے۔ کی ترغیب دی گئی ہے ،خاص طور پر ہللا ٰ
تعالی سے
ِ
بد ظن (بدگمانی) کی تعریف :اگر کسی کے ساتھ برا گمان کیا جائے تو اس کو "بدظن" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی کی
نیت پر شک کرنا اور بے وجہ اپنے دل میں اچھا خیال نہ رکھنا "بدظن" کہالتا ہے۔
بدظن قرآن کریم کی روشنی میں :قرآن کریم میں بدگمانی سے منع فرمایا گیا ہے" ،اے ایمان والو! بدگمانیوں سے بچو،
er
کیونکہ یہ گناہ کا کام ہے " سورۃ الحجرات )١٢ :
t
حرف آخر :لہذا کسی انسان کے بارے میں تمہارے پاس کتنی ہی بری شکایت پہنچتی ہوں ،لیکن جب تک اس کی تحقیق نہیں
en
ہوتی ،تمہیں کسی کے بارے میں بدگمانی نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے آپس کا میل مالپ کم ہو جاتا ہے ،آہستہ آہستہ
یہ بدگمانی دلوں میں نفرت اور دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے جو کہ گناہ ہے ۔
C
٣۔ محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت کی وضاحت کریں۔
h
جواب :محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت :محتاجوں اور مصیبت زدوں کی خدمت و اعانت کی بڑی اہمیت
is
ہے اور اسالم بھی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے ،جس کا اندازہ درج ذیل باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
gl
آخرت کی تکلیف کا دور ہونا :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا" ،جس نے کسی مومن سے کوئی دنیاوی تکالیف
En
تعالی قیامت کے روز اس سے کئی تکلیفوں میں سے تکلیف کو دور فرما دے گا۔ اور جس میں سے کوئی تکلیف دور کی تو ہللا ٰ
ٰ
نے کسی تنگ دست مومن کو سہولت دی ہللا تعالی اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے گا۔" (صحیح مسلم ،حدیث
)٢٦٩٩:
اس حدیث میں محتاجوں ،بیماروں اور مصیبت زدوں کی خدمت واعانت اور حاجت روائی کی تاکید و تلقین اور تنگدست قرض
F
اس حدیث میں بیان کیا گیا کہ اگر کوئی مومن مختاج ،بیمار ،تنگدست ،غریب و مسکین ہے تو اس کی خدمت اعانت و مالی مدد
کرنا اور اگر کسی مقروض نے کسی سے قرض لیا ہے ،تو اس کے قرض میں مہلت دے کر سہولت پہنچانا بھی بہت بڑے اجر کا
تعالی اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے گا۔کام ہے ،ہللا ٰ
تعالی اس کے کام میں لگ جاتا ہے :کوئی مومن کسی تکلیف ،مصیبت یا پریشانی میں ہو تو ایسی صورتحال کے وقت ہللا ٰ
اس کی تکلیف دور کرنا ،مدد اور حاجت روائی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ جس کے لیے حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا" :جو اپنے بھائی کے کام میں ہوتا ہے تو ہللا ٰ
تعالی اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے"۔(مسلم)٢٦٩٩:
حرف آخر :لہذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں سے کوئی اچانک کسی آفت میں آجائے تو اس کو آفت سے نکالنے
ت خلق میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں تاکہ ہمارے کے لیے کوشش کرنا چاہیے اور خدم ِ
معاشرے کے افراد سکون و خوشحالی کی زندگی گزار سکیں اور اسی میں فالح دارین ہے۔
جواب :
١۔ پڑوسی جو رشتہ دار ہے ۔
٢۔ جو صرف پڑوسی ہے ۔
٣۔ اور جو عارضی طور پر پہلو میں کچھ وقت کے لئے ٹھہرا ہو۔
er
٢۔ اکرام الظیف کی وضاحت کریں۔
t
en
جواب :جب کوئی انسان سفر کر کے کسی بھی مقصد کے لیے کسی آدمی کے یہاں پہنچے تو وہ مہمان کہالتا ہے ،اس سے
مناسب طریقے سے آنے کا مقصد پوچھنا ،خندہ پیشانی سے پیش آنا ،اس کے رہائش ،کھانے پینے اور آرام کا انتظام کرنا اور
C عزت و تکریم کرنا "اکرام الظیف" (مہمان کا اکرام) ہے۔
جواب :اپنے قرابت داروں اور رشتے داروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ،بوقت ضرورت ان کے کام آنے اور ان کے ساتھ
اچھا سلوک کرنے اور ہمدردی کا رویہ اپنانے کا نام "صلہ رحمی" ہے۔
gl
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں:
En
١۔ اپنے رشتے داروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا کہالتا ہے:
(الف) اکرام الضیف (ب)صلہ رحمی
F
جواب :
t er
en
C
h
is
gl
En
F
M
(الف) ایمانیات
er
جواب :عقیدہ توحید :
عقیدہ کے لغوی معنی " :عقیدہ" کے لغوی معنی مضبوط گرہ لگانا ہے ۔
t
en
توحید کے لغوی معنی ":توحید" کے لغوی معنی ایک جاننا اور ایک ماننا ہے ۔
C
عقیدہ توحید کی اصطالحی تعریف :دین کی اصطالح میں عقیدہ توحید کا مطلب ہے :کہ اس کائنات کا خالق و مالک و مختار
کل ہللا تعالی ہے جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ،جس کی نہ ابتداء ہے اور نہ انتہا اور نہ کبھی اس پر فنائیت آئے گی۔
h
معبود حقیقی ہللا تعالی ہے ،اس نے اس کائنات کی ہر چیز کو پورے تناسب اور اس کے نظام کو پورے نظم و ضبط کے ساتھ بنایا
is
ہے۔ جس کا علم پوری کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے ،جو پوری کائنات کو دیکھتا ہے اور سب کی سنتا ہے اور سب کو
رزق پہنچاتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے۔ جس کی نظیر اور مثال کوئی نہیں ۔وہ ہی مخلوق کے نفع و نقصان کا مالک ہے ،اس
gl
کے عالوہ کوئی نہیں ،وہ ہی موت کے بعد دوبارہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی دینے واال ،وہ صرف ایک ہے ،اس کے ساتھ کوئی
شریک نہیں۔
En
ہے ،ترجمہ :کہو کہ وہ معبود برحق ہللا ہے۔ وہ ایک ہے۔ ہللا بے نیاز ہے۔ وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس
کا ہمسر نہیں۔ (سورۃاالخالص)۴-۱:
M
۱۔ ہللا تعالی ازلی اور ابدی ہے :اس کا مطلب ہے کہ پہلے کچھ نہیں تھا اور وہ موجود تھا اور کچھ آخر میں نہیں ہوگا مگر
وہ موجود ہوگا ،وہ ہمیشہ سے ہے اور تا ابد رہے گا ،کسی نے اسے پیدا نہیں کیا ہے۔
۲۔ الخالق (پیدا کرنے واال) :وہ خالق ہے یعنی اس نے تمام کائنات کو پیدا کیا ہے اور عدم سے وجود میں الیا ہے ۔
۳۔ البصیر(سب کچھ دیکھنے واال ):وہ بصیر ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اور کوئی کام اس سے اوجھل نہیں چاہے وہ ظاہر
ہو یا پوشیدہ ،سمندر کی گہرائی میں ہو یا زمین کی تہوں میں سب کو دیکھتا ہے۔
بے مثال ذات :ہللا تعالی کی ذات بے مثال ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز ہللا تعالی جیسی نہیں۔
عبادت کا ہللا کے لئے مخصوص کرنا :تمام اعمال و حرکات جو عبادت کے زمرے میں آتے ہوں ،ان کو ہللا ہی کے لیے
er
مخصوص کرنا چاہیے۔
t
en
عبادت والے جذبات و احساسات ہللا کے لئے مخصوص کرنا :تمام جذبات و احساسات بھی ہللا ہی کے لیے مخصوص
کیے جائیں جن میں عبادت کی روح پائی جاتی ہو ؛جیسے حمدوشکر ،امید ،توکل اور حقیقی محبت و عقیدت وغیرہ ۔
اور بنیادی تقاضے ہیں ،جن پر یقین رکھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے ،ان میں سے کچھ اہم یہ ہیں :
gl
بے مثال ذات :ہللا تعالی کی ذات بے مثال ہے۔ کائنات کی کوئی بھی چیز ہللا تعالی جیسی نہیں۔
شوری ،آیت )۱۱:۔ٰ ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ :اس جیسی کوئی چیز نہیں (سورۃ
En
ہللا کی رضا :صرف ہللا تعالی ہی ہے جس کی رضا جوئی کی انسان کو فکر کرنی چاہیے ۔
F
عبادت کا ہللا کے لئے مخصوص کرنا :تمام اعمال و حرکات جو عبادت کے زمرے میں آتے ہوں ،ان کو ہللا ہی کے لیے
M
عبادت والے جذبات اور احساسات ہللا کے لئے مخصوص کرنا :تمام جذبات و احساسات بھی ہللا ہی کے لیے مخصوص
کیے جائیں جن میں عبادت کی روح پائی جاتی ہو؛ جیسے حمدوشکر ،امید ،توکل،خوف و تقوی اور حقیقی محبت و عقیدت و
خشیت ،خشوع و خضوع وغیرہ۔
ہللا ،مقتدر اعلی :اس پوری کائنات کا حقیقی مقتدر اعلی صرف ہللا کو ماننا چاہیے۔ حکم دینے اور منع کرنے کا حق صرف اسی
کو ہے۔ حقیقی شارع اور قانون ساز بھی صرف وہی ہے۔ مخلوق کی زندگی کا قانون متعین کرنے ،اسے معاف کرنے یا سزا دینے
کا حق صرف اسی کو ہے۔
ہللا کے امر و نواہی کے مطابق زندگی گزارنا :ہللا تعالی کی بھیجی ہوئی ہدایت اور امر و نواہی کے مطابق اس دنیا کی
زندگی بسر کی جائے ۔
ساری صفات پر ایمان :ہللا تعالی پر اس کی ساری صفات کے ساتھ ایمان النا چاہیے ۔
er
جواب " :ایمان "کے لغوی معنی تصدیق کرنا( سچا ماننا) ہے ۔ شریعت کی اصطالح میں ایمان سے مراد سچے دل سے ان سب
t
باتوں کی تصدیق کرنے کا نام ہے جو ضروریات دین سے ہیں۔
en
۲۔ عبادت کسے کہتے ہیں ؟
C
جواب" :عبادت" کے لغوی معنی بندگی ،عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماںبرداری کے ہیں۔ اصطالح میں ہللا تعالی کی
خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کا نام "عبادت"
h
ہے۔
is
جواب :جب عقیدہ توحید دل و دماغ میں راسخ ہو جاتا ہے تو اس کی شخصیت میں کچھ اثرات/ثمرات نمایاں ہوتے ہیں۔ جو درج
ذیل ہیں :
● انسان کو حریت و آزادی کا بلند ترین مقام عطا ہو تا ہے۔
● انسان کے اندر پرہیزگاری ،خودداری و عزت نفس کے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
F
● انسان میں استقامت و بہادری ،قناعت،بےنیازی ،عزم و حوصلہ ،صبر و تو کل کی طاقت پیدا ہوتی ہے ،جس کی وجہ
سے وہ دنیا کی مصیبتوں کا جوان مردی سے مقابلہ کرتا ہے ۔
M
جواب :جو ہمیشہ سے ہو اس کو ازلی کہتے ہیں اور جو ہمیشہ رہے اس کو ابدی کہتے ہیں۔ لہذا اس کا مطلب ہے کہ پہلے کچھ
نہیں تھا اور وہ موجود تھا اور کچھ آخر میں نہیں ہوگا مگر وہ موجود ہوگا ،وہ ہمیشہ سے ہے اور تا ابد رہے گا ،کسی نے اسے
پیدا نہیں کیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ " :وہی اول ہے اور وہی آخر ہے۔" (سورۃ الحدید آیت)۳:
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں۔
er
١۔ توحید کے لغوی معنی ہیں :
t
(الف) ایک ماننا (ب)یقین کرنا
en
(ج)نظم و ضبط رکھنا (د)ہدایت و رہبری کرنا
٢۔عقیدہ رسالت
M
١۔ رسالت اور نبوت کے لغوی اور اصطالحی معنی و مفہوم تحریر کریں ۔
نبوت کے لغوی معنی :لفظ "نبوت" "نبا" سے ماخوذ ہے ،جس کے لفظی معنی خبر کے ہیں۔ اور خبر دینے والے کو "نبی" کہا
جاتا ہے ،اس کی جمع انبیاء ہے۔
رسالت کے لغوی معنی " :رسالت" لغت میں پیغام پہنچانے کو کہتے ہیں۔ اور پیغام پہنچانے والے کو "رسول" کہا جاتا ہے،
جس کی جمع رسل ہے۔
اعلی روحانی منصب ہے جس پر ہللا تعالی ٰ نبوت و رسالت کے اصطالحی معنی :دین کی اصطالح میں نبوت و رسالت ایک
اپنے بندوں میں سے خاص خاص بندوں کو منتخب کرکے فائز فرماتا ہے۔ جس کے ذریعہ انسان کو معرفت الہی حاصل ہوتی ہے۔
مطلب کہ نبوت و رسالت ایک ایسا منصب ہے جو ہللا تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ ہللا تعالی اس
کے ذریعے اپنے احکام و ہدایات اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کی ہدایت اور اصالح و تربیت کرتا ہے۔
جو شخصیت اس منصب پر فائز ہوتی ہے اسے نبی یا رسول کہا جاتا ہے۔ "الرسول" سے مراد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔
سب انبیاء اور رسل پر ایمان النا فرض ہے :ہللا تعالی نے اس دنیا میں جتنے بھی انبیاء اور رسل بھیجے ہیں ،سب پر
ایمان النا فرض ہے۔
er
ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :سب ہللا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔(سورۃ البقرہ)٢٨۵:
t
en
٢۔ عقیدہ رسالت پر تفصیلی مضمون لکھیں ۔
نبوت و رسالت کے اصطالحی معنی :نبوت و رسالت ایک ایسا منسب ہے جو ہللا تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان
gl
رابطے کا کام کرتا ہے۔ ہللا تعالی اس کے ذریعے اپنے احکام و ہدایات اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کی
ہدایت اور اصالح و تربیت کرتا ہے۔ جو شخصیت اس منصب پر فائز ہوتی ہے اسے نبی یا رسول کہا جاتا ہے۔ الرسول سے مراد
En
سب انبیاء اور رسل پر ایمان النا فرض ہے :ہللا تعالی نے دنیا میں جتنے بھی انبیاء اور رسل بھیجے ہیں ،سب پر ایمان
النا فرض ہے۔
F
M
٣۔ اطاعت و اتباع رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم پر تفصیلی نوٹ لکھیں۔
معنی :دل کی حقیقی محبت اور طبیعت کی پوری آمادگی اور ایک گہرے قلبی لگاؤ کے ساتھ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٰ اتباع کا
وسلم کی ہر قدم اور ہر ادا کی پیروی الزمی کرنا "اتباع" کہالتا ہے ۔
اطاعت اور اتباع کا تعلق :جب اطاعت کلی اور محبت قلبی جمع ہوں گی تو اتباع کہالئے گا ۔
er
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دینے کی وجہ :سیدنا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی اطاعت کا
حکم دینے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہللا تعالی اپنی اطاعت چاہتا ہے اور ہللا تعالی کی اطاعت کا واحد ذریعہ رسول ہی ہوتا ہے کیوں
t
کہ ہللا تعالی براہ راست اپنے بندوں سے کالم نہیں کرتا بلکہ اپنے رسول کے واسطے سے ہی کالم کرتا ہے ۔
en
اطاعت و اتباع رسول قرآن مجید کی روشنی میں:
C
ارشاد باری تعالی ہے،ترجمہ " :جس نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے ہللا تعالی کی اطاعت کی۔" (سورت
النساء ،آیت )٨٠:
h
۴۔ عقیدہ ختم نبوت کی تشریح کریں ۔
is
gl
ختم نبوت کے اصطالحی معنی :ختم نبوت کا مطلب ہے کہ نبوت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السالم سے شروع ہوا یکے
بعد دیگرے کئی انبیاء کرام علیہم السالم آئے یہ سلسلہ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔
F
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ہدایت کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا ،دین مکمل ہو گیا اب ختم ●
نبوت ہوگئ ۔
قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتیں تم پر
پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسالم کو بطور دین پسند کر لیا (سورۃ المائدہ ،آیت )٣:۔
ایک اور مقام پر ہللا تعالی نے فرمایا ،ترجمہ :محمد (صلی ہللا علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ●
ہیں لیکن ہللا کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں ۔
حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم پر سلسلہ نبوت کو ختم کرنے کی وجہ :
حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم پر سلسلہ نبوت کو ختم کرنے کی وجوہات یہ ہیں ۔
● حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم پر ایک ایسی جامع اور ہمیشہ رہنے والی کتاب نازل کی گئی جس کے الفاظ اور احکام
ابھی تک محفوظ ہیں اور قیامت تک محفوظ رہیں گے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو دین کامل اور مکمل شریعت دی گئی،
جس میں ایسی جامع اور اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ اس کو سامنے رکھ کر قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل
نکاال جاسکتا ہے ۔
● حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء علیہم السالم اپنی اپنی قوموں ،عالقوں اور قبیلوں کی طرف نبی ہو
کر آئے۔ یہ مخصوص وقت کے لئے نبی تھے اور اپنی قوموں کے لیے خاص تھے ،جب کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ
وسلم کی نبوت پوری انسانیت اور بین االقوامیت کے لیے عام ہے اور قیامت تک آنے والے سب انسانوں کے لیے ہے۔
er
۵۔ دین اسالم میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی محبت کی کیا اہمیت ہے؟ تحریر کریں۔
t
en
جواب) اسالم میں رسول ہللا کی محبت کی اہمیت :
تعلق کی بنیاد محبت :قرآن کریم کی روشنی میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے تعلق کی چار بنیادی ہیں جو درج
ذیل ہیں:
C ١۔ایمان ۔
٢۔ اطاعت ۔
h
٣۔ اتباع ۔
is
۴۔ محبت ۔
gl
تمام محبتوں پر غالب محبت :رسول ہللا صلی ہللا تعالی علیہ وسلم سے محبت محض ظاہری اور رسمی قسم کی نہ ہو بلکہ
ایسی محبت ہو جو تمام محبتوں پر غالب آجائے ،جس کے مقابلے میں عزیز سے عزیز تر رشتے اور محبوب سے محبوب تر
En
تعلقات کی بھی قدر و قیمت نہ رہ جائے ،جس کے لئے دنیا کی ہر چیز کو چھوڑا جاسکے۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی محبت کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں :
F
ارشاد باری تعالی ہے،ترجمہ :نبی کریم (صلی ہللا علیہ وسلم) مومنوں کے لئے انکی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں
(سورۃاالحزاب ،آیت )٦ :۔
M
جواب :نبوت و رسالت ایک ایسا منصب ہے جو ہللا تعالی اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ ہللا تعالی اس
کے ذریعے اپنے احکام و ہدایات اپنے بندوں تک پہنچاتا ہے اور اس کے ذریعے انسانوں کی ہدایت اور اصالح و تربیت کرتا ہے۔
جو شخصیت اس منصب پر فائز ہوتی ہے اسے نبی یا رسول کہا جاتا ہے۔
٢۔ آخری رسالت محمدی صلی ہللا علیہ وسلم کی خصوصیات تحریر کریں ۔
er
ت کتاب۔● حفاظ ِ
t
٣۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید و حدیث ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے ۔
en
جواب :قرآن مجید و حدیث ہماری یہی رہنمائی کرتی ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا تعالی علیہ وسلم آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ
کے بعد کسی قسم کا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
C
ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :محمد (صلی ہللا علیہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن ہللا کے پیغمبر
اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت ختم کر دینے والے ہیں۔
h
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ":میری امت میں تیس ایسے جھوٹے ہوں گے جن میں سے ہر ایک اپنے نبی ہونے کا
is
دعوی کرے گا حاالنکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں" (ابوداود ،حدیث )۴٢۵٢:۔
gl
جواب :ایمان کامل کی پہچان رسول ہللا صلی ہللا تعالی علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے ۔جیسا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا" :تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے والدین ،اوالد اور تمام لوگوں سے زیادہ
مجھ سے محبت نہ کرے"
(صحیح بخاری ،کتاب االیمان ،حدیث )١۵:
F
M
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" نشان لگائیں۔
٣۔ ہللا تعالی کی طرف سے بھیجے گئے پہلے نبی ہیں :
(الف) حضرت آدم علیہ السالم
(ب) حضرت موسی علیہ السالم
(ج) حضرت عیسی علیہ السالم
(د) حضرت ابراہیم علیہ السالم
جواب :
(ب) عبادات
er
١۔ عبادات کی اہمیت و افادیت:
t
en
(الف) مندرجہ ذیل سواالت کے تفصیلی جوابات تحریر کریں:
C ١۔ "عبادت" پر تفصیلی مضمون تحریر کریں ۔
h
جواب) عبادت :
is
عبادت کے لغوی معنی :عبادت کے لفظی معنی بندگی ،عاجزی و انکساری اور اطاعت و فرماںبرداری کے ہیں۔
gl
عبادت کے اصطالحی معنی :اصطالح میں ہللا تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے حضور اکرم صلی ہللا علیہ
En
عبادت کی اہمیت :اسالم میں ایمان یا عقیدہ کی درستی کے بعد سب سے پہلے عبادت پر زور دیا گیا ہے۔ عبادات ہللا تعالی کے
ب الہی کی عملی صورت ہے۔ ساتھ براہ راست رابطہ اور تعلق ،قر ِ
F
M
er
سستی ،کاہلی اور وقت کو ضائع کرنے سے نجات :عبادت کی پابندی سستی ،کاہلی اور وقت کے ضائع کرنے جیسی
t
بری خصلتوں کو ختم کر دیتی ہے ۔
en
طہارت :عبادت کی بدولت انسان کو ظاہری و باطنی طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے ۔
C
تقوی کا حصول :روزہ انسان میں تقوی پیدا کرتا ہے یعنی خوف خدا آدمی کو نیکی اور برائی کی تمیز کراتا ہے ۔
h
مال کی محبت کا خاتمہ :زکوۃ کے ذریعہ انسان کے اندر سے مال کی محبت کم ہوتی ہے اور وہ اپنے جیسے دیگر انسانوں
is
تعلقات کی بہتری :لوگوں کے کام آنا ،صلہ رحمی کرنا اور اپنے ماتحتوں کی کفالت کرنے والے اعمال سے آپس میں میل جول
اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں ۔
F
معاشرے میں بھالئیوں نے کیوں کی ترویج :یہی وہ عبادات ہیں جو انسان کی اصالح کے ساتھ ساتھ معاشرے میں
M
بھالئیوں نیکیوں کی ترویج کا ذریعہ بنتی ہیں اور مومن کے لئے دنیاوی و اخروی سعادتوں کا سبب بنتی ہیں۔
جواب) عبادت کی اہمیت و افادیت :اسالم میں ایمان یا عقیدے کی درستی کے بعد سب سے پہلے عبادات پر زور دیا گیا ہے
ب الہی کی عملی صورت ہے ۔۔عبادات ہللا تعالی کے ساتھ براہ راست رابطہ اور تعلق ،قر ِ
جنوں اور انسانوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا :ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس
لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔ (الذاریات ،آیت)۵٦:۔
ہللا کی عبادت کرو :دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ہے،ترجمہ :اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو
اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔ (سورۃ البقرہ ،آیت)٢١:۔
ٰ
تعالی ہے ،ترجمہ :یہ بھی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور ہللا کے لیے :قرآن کریم میں ارشاد باری
میرا مرنا سب ہللا رب العالمین ہی کے لئے ہے۔ (سورۃ االنعام ،آیت )١٦٢:۔
آیت میں بتایا گیا کہ مسلمان کا ہر سانس ،ہر قدم اور ہر کام ہللا تعالی کے لئے ہوتا ہے کسی غیرہللا یا اپنی خواہش نفس کے لئے
نہیں۔ اور یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد و منشا ہے۔
عبادت سے تقوی پیدا ہوتا ہے :عبادت سے تقوی پیدا ہوتا ہے جو کہ دل کی پاکیزگی ،روح کی صفائی اور عمل کے
اخالص کے بعد کی منزل ہے ،یہ انسان کی وہ قلبی کیفیت ہے جس سے نیک اعمال کا شوق اور برائیوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
er
١۔ عبادت کے لغوی اور شرعی معنی کیا ہیں؟
t
en
جواب :عبادت عربی زبان کا لفظ ہے جو "عبد" سے مشتق ہے ،عبادت کے لفظی معنی بندگی ،عاجزی و انکساری اور اطاعت و
فرماںبرداری کے ہیں۔ شریعت میں ہللا تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے صرف حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے
C
اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کا نام "عبادت" ہے۔
● جس کو اس نے حرام ٹھہرایا ہے اسے ترک کرنا چاہئے اور جن چیزوں کو واجب اور فرض قرار دیا ہے ان کو ادا
کرکے ہللا تعالی کی مکمل اطاعت کرنی چاہیے ۔
En
● زندگی کے ہر شعبے کو ہللا تعالی کی اطاعت کے دائرے میں النا چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :مومنو! اسالم
میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔ (سورۃ البقر،آیت )٢٠٨:۔
F
جواب) ترجمہ :یہ بھی کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب ہللا رب العالمین ہی کے لئے ہے۔
(سورة االنعام ،آیت )١٦٢:۔
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں۔
٢۔ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے :
(الف) معیشت (ب) معاشرت
(د) تجارت (ج) عبادت
جواب :
er
٢۔ جہاد
t
en
تعارف ،اہمیت اور اقسام
جواب) جہاد کی فضیلت و اہمیت :اسالم نے جہاد کو بہت زیادہ اہمیت و فضیلت دی ہے۔ کیونکہ دنیا میں بگاڑ ،ظلم اور ہر
قسم کی بد اعمالیاں ،جو معاشرے کے اندر فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہیں ،ان سب کو ختم کرکے ،دنیا میں امن و سالمتی کی فضا
gl
قائم کرنا اور انسانی حقوق کا تحفظ صرف اور صرف جہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
En
جہاد پر ابھارنے کا حکم :ہللا تعالی نے حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا ،ترجمہ :اے نبی (صلی ہللا
علیہ وسلم) آپ مومنین کو جہاد کی ترغیب دیجیے ۔
زمین کی ساری دولت سے افضل :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" ،جہاد کی نیت سے جنگ لڑنا چند
گھنٹے سفر کرنا روئے زمین کی ساری دولت سے افضل ہے۔" (مسلم)
جواب) جہاد کی قسمیں :جہاد کی تین قسمیں ہیں جو درج ذیل ہیں ۔
١۔ نفسانی خواہشات کے خالف جہاد :انسان کو ہللا تعالی کی اطاعت و عبادت سے جو اندرونی قوت روکتی ہے وہ اس کا
نفس امارہ ہے جو انسان کو گناہوں ،برائیوں اور نافرمانیوں کے لیے ابھرتا ہے۔ اس نفس امارہ پر قابو پانا جہاد کے زمرے میں آتا
تعالی ہے ،ترجمہ :اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا اور اپنے نفس کی ٰ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری
خواہشات سے خود کو روکے رکھا تو اس کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنت ہے۔ (سورۃ النازیات ،آیت)۴٠:
٢۔ منکرات کو ختم کرنے کے لئے جہاد :کسی بھی معاشرے میں جب انفرادی برائیاں عام ہو جاتی ہیں تو آگے بڑھ کر
اجتماعی شر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ ان تمام برائیوں کو اسالم نے منکرات کا نام دیا ہے جیسے ظلم و زیادتی ،چوری اور
لوٹ مار وغیرہ یہ منکرات ہیں۔
er
چونکہ اسالمی معاشرہ باہمی خیر و فالح کے اصولوں پر قائم ہے۔ لہذا ہر وہ عمل جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرے اسالم نہ
صرف اسے رد کرتا ہے بلکہ مومنوں کو اسے مٹانے کا حکم دیتا ہے۔ لہذا منکرات کو مٹایا جائے گا اور یہ عمل منکرات کو ختم
t
کرنے کیلئے جہاد کہالئے گا ۔
en
٣۔ جہاد باسیف یعنی تلوار سے جہاد :اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی دشمن قوت کسی اسالمی ملک پر حملہ کردے تو
C
اس ملک پر اپنی سرحدوں اور شہریوں کے دین ،ایمان ،جان و مال ،عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے قتال فرض ہو جاتا ہے۔
جواب) جہاد کی شرائط :اسالم نے مسلح جہاد کے لیے کچھ شرائط رکھی ہیں ان شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کرنا
gl
چاہیے ۔
En
الف :اعالء کلمۃ ہللا۔ (ہللا کے دین کی سربلندی کے لیے) :مسلح جہاد کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ صرف ہللا کے دین کی
سربلندی کے لئے ہو ۔
ب :اسالمی ریاست کی طرف سے اعالن :مسلح جہاد کی دوسری شرط یہ ہے کہ قتال کا اعالن ریاست کی طرف سے ہو۔
F
اسالم میں قتال کے اعالن کی مجاز صرف اور صرف ریاست ہے کسی فرد یا جماعت کے اعالن یا فتوی (جنگ کے لئے) کی
M
شرعی حیثیت نہیں ہے بلکہ اس قسم کے فتوے یا اعالن فساد فی االرض کے زمرے میں آتے ہیں ۔
ج :مناسب حد تک فوجی طاقت میسر ہو :مخالف قوت سے لڑنے کے لیے حکومت کے پاس موافق طاقت و قوت میسر ہو۔
قرآن مجید نے اسالمی ریاست کو مضبوط رکھنے کے لئے تاکید کی ہے۔ فرمایا ،ترجمہ :اور جہاں تک ہو سکے (قوت کے) زور
سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے لئے) مستعد رہو کہ ہللا کے دشمنوں اور تمھارے دشمنوں اور ان کے
سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور ہللا جانتا ہے۔ ہیبت بیٹھی رہے گی اور تم جو کچھ بھی ہللا کی راہ میں خرچ کرو گے
اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا ۔ اور تمہارا ذرا نقصان نہ کیا جائے گا ۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں تمہارے پاس سامان جنگ اور ایک مستقل فوج ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت
ضرورت فورً ا کاروائی کر سکوں اور دشمن کا بھرپور مقابلہ کر سکو۔
د :لڑائی میں جاہلیت والے طریقے استعمال نہ کیے جائیں :لڑائی کے وقت صرف ان سے لڑا جائے جو مقابلے میں
ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں اور جنگ کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں ،زخمیوں اور عام شہریوں پر دست
درازی نہ کی جائے ،دشمنوں کے مقتولوں کا مثلہ نہ کیا جائے ،مکانوں اور مویشیوں کو خوامخواہ برباد نہ کیا جائے۔
جواب :جہاد عربی زبان کا لفظ ہے جو "جہد" سے ماخوذ ہے۔ اس کے لغوی معنی محنت و جدوجہد ،انتہائی کوشش و جستجو
کرنا ہیں ۔ شرعی اصطالح میں ہللا عزوجل کی رضا کی خاطر ہر وہ جدوجہد د و کوشش کرنا جو ہللا کے دین کی سربلندی،
حفاظت ،ملک و ملت کے تحفظ و دفاع کے لئے ہو۔ نیز ہر وہ کوشش و جدوجہد جو معاشرے کی اصالح کی خاطر نیکی و بھالئی
کی ترویج کے لیے ہو۔ اور برائیوں خرابیوں کو ختم کرنے کے لیے ہو۔
er
٢۔ جہاد کے مقاصد بیان کریں ۔
t
en
جواب :جہاد کے مقاصد درج ذیل ہیں :
١۔ عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے ۔
C ٢۔ احترام انسانیت اور مظلوموں کی دستگیری کے لیے ۔
٣۔ فتنہ وفساد کے خاتمہ کے لئے ۔
h
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں۔
is
٣۔ بعض روایات میں نفس کے ساتھ جہاد کرنے کو کہا گیا ہے :
(الف) جہاد اصغر (ب) جہاد اکبر
(د) جہاد اعظم (ج) جہاد اوسط
جواب :
t er
en
C
h
is
gl
En
F
M
١۔ بعث ِ
ت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم
er
صلی ہللا علیہ وسلم کے سینہ مبارک میں مخفی تھی اسے پہلی وحی کے ساتھ روشن کرکے آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو نبوت
و رسالت سے سرفراز کیا ۔
t
en
بعثت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کے آثار :
ایک روشنی اور چمک کا نظر آنا :بعثت سے چھ برس قبل نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو ایک روشنی اور چمک نظر آنے لگی
تھی ،جس کو دیکھ کر آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم بے حد مسرور ہوتے تھے۔
C
سچے خواب دیکھنا :یہ ہللا تعالی کا قانون ہے کہ جب کبھی کسی پیغمبر پر وحی کی شروعات ہوتی ہے تو سب سے پہلے
h
انہیں سچے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی ہللا عنھا سے مروی ہے کہ حضور
is
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی ،چنانچہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم رات کو جو بھی خواب دیکھتے
وہ صبح کو روشنی کی طرح واضح اور سچا ہوتا تھا ۔
gl
درختوں اور پتھروں کا سالم کرنا :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ کے راستوں سے گزرتے تو پتھروں
En
اور درختوں سے آواز آتی ،اے ہللا کے رسول! آپ پر سالم ہو۔ آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ "میں مکہ میں ایک
پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سالم کیا کرتا تھا۔" (صحیح مسلم ،حدیث)٢٢٧٧:
F
بعث ِ
ت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کے مقاصد :
ت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کا بنیادی مقصد تعلیم و تدریس ہے۔
بعث ِ ●
M
انتظامی ڈھانچہ :پانچویں صدی عیسوی کے دوران مکہ کے سردار قصیّ بن کالب (جو حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی
پانچویں پشت میں دادا ہیں) نے مکہ کا جو انتظامی ڈھانچہ بنایا تھا وہ اس وقت تک برقرار تھا ،جس کی بنیاد اتحاد ،تعاون
اجتماعی ،عمومی مفاہمت اور انتظامی امور کی باہمی تقسیم پر تھی ،چنانچہ جنگی معامالت ،تجارت اور دیگر سماجی معامالت
کے حل کے لئے "دارالندوہ" نامی مجلس مشاورت قائم تھی ۔
مکہ کے نیک لوگ :مکہ کے بہت سے خاندان بڑے مالدار اور سرمایہ دار تھے ،ان میں سے بعض ایسے لوگ بھی تھے جو
صدقہ خیرات کرتے ،محتاجوں اور مساکین کی امداد کرتے تھے۔
مکہ کے بد لوگ :بعض ایسے لوگ بھی تھے جن کا سودی اور ناجائز ذرائع کا کاروبار تھا ،وہ عیاش ،ضدی ،اور کمزور
طبقے کے لیے سخت گیر تھے ،سماجی برائیوں مثال :شراب نوشی ،بدکاری ،فحاشی وغیرہ کو برا نہیں سمجھتے تھے۔ اپنی بچیوں
کو زندہ درگور کرنے پر فخر کرتے تھے۔
er
بت پرستی :جہالت عام ہونے کی وجہ سے بت پرستی ان کا مذہبی شعار بن چکی تھی ۔ صرف خانہ کعبہ کے اندر ہی تین سو
t
ساٹھ بت موجود تھے۔
en
فساد برپا تھا :بعثت کے وقت جب آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم تشریف الئے تو دنیا کا حال یہ تھا کہ ترجمہ :خشکی اور تری
C میں فساد برپا تھا۔ (سورۃالروم ،آیت )۴١:
نبوت کے آثار کی تعریف :اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا غیر معمولی واقعہ جو عمومی طریقے اور طرز سے نمودار نہ ہو اور
کسی نبی کی بعثت کی طرف اشارہ کرتا ہو وہ "نبوت کے آثار" میں شمار ہوتا ہے ۔
En
ایک روشنی اور چمک کا نظر آنا :بعثت سے چھ برس قبل نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو ایک روشنی اور چمک نظر
آنے لگی تھی ،جس کو دیکھ کر آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم بے حد مسرور ہوتے تھے۔
F
سچے خواب دیکھنا :یہ ہللا تعالی کا قانون ہے کہ جب کبھی کسی پیغمبر پر وحی کی شروعات ہوتی ہے تو سب سے پہلے
M
انہیں سچے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی ہللا عنھا سے مروی ہے کہ حضور
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی ،چنانچہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم رات کو جو بھی خواب دیکھتے
وہ صبح کو روشنی کی طرح واضح اور سچا ہوتا تھا ۔
درختوں اور پتھروں کا سالم کرنا :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ کے راستوں سے گزرتے تو پتھروں
اور درختوں سے آواز آتی ،اے ہللا کے رسول! آپ پر سالم ہو۔ آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ "میں مکہ میں ایک
پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سالم کیا کرتا تھا۔" (صحیح مسلم ،حدیث)٢٢٧٧:
جواب) ترجمہ :اے نبی صلی ہللا علیہ وسلم اپنے پروردگار کا نام لیکر پڑھو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔( )١جس نے انسان
کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔( )٢پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے ۔( )٣جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔()۴اور
انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا ۔()۵
جواب :حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال کو پہنچ گئی تھی اور آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم رمضان
ب معمول غار حرا کی تنہائیوں میں مشغول عبادت تھے کہ ایک دن جبریل علیہ السالم ہللا سبحانہ و ٰ
تعالی کے کے مہینے میں حس ِ
ِ
er
حکم سے آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آئے اور نور نبوت کی جو شمع آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے سینہ مبارک میں
مخفی تھی اسے پہلی وحی کے ساتھ روشن کرکے آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو نبوت و رسالت سے سرفراز کیا ۔
t
en
٣۔ بعثت نبوی کے چند مقاصد بیان کریں ۔
C
جواب :بعثت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کے چند مقاصد درج ذیل ہیں ۔
١۔ جہالت کو دور کرنے کے لئے ۔
٢۔ موسیقی کے آالت کو مٹانے کے لیے ۔
h
٣۔ بت پرستی کو ختم کرنے کے لیے ۔
is
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست "کا نشان لگائیں:
En
١۔ قریش مکہ سال میں دو مرتبہ جن ملکوں کی طرف سفر کرتے تھے وہ تھے ۔
(الف) ایران۔چین (ب) عراق مصر
(د) حبش۔یمن (ج) شام۔یمن
F
جواب :
er
جواب) دعوت و تبلیغ کے مراحل :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی مکی زندگی میں دعوت و تبلیغ کے تین مرحلے ہیں
t
۔جو درج ذیل ہیں :
en
پہال مرحلہ خفیہ تبلیغ :بعثت کے بعد سے تین برس تک کا عرصہ ہے جو حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بڑی خاموشی
C
اور رازداری کے ساتھ توحید کی تبلیغ میں گزار دیا۔ اس خاموش اور حکیمانہ طرز دعوت و تبلیغ کا نتیجہ یہ نکال سب سے پہلے
مردوں میں حضرت ابوبکر رضی ہللا عنہ ،عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی ہللا عنھا ،غالموں میں حضرت زید بن حارثہ
رضی ہللا عنہ اور بچوں میں حضرت علی رضی ہللا عنہ مشرف بہ اسالم ہوئے۔ چنانچہ ابتدا میں اہل خانہ اور قابل بھروسہ
h
دوستوں پر محنت کی گئی ،آہستہ آہستہ لوگ اسالم میں داخل ہوتے گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی
is
سی جماعت بن گئی ،دارارقم حضرت ارقم رضی ہللا عنہ کا گھر جو صفا پہاڑی پر واقع تھا ان کے اجتماعات کا مرکز بنا ،جہاں
پر وہ قرآن کریم کی تعلیم سیکھتے اور نماز ادا کرتے تھے۔
gl
دوسرا مرحلہ اعالنیہ تبلیغ :خفیہ تبلیغ کے بعد آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کا دوسرا مرحلہ اس وقت
En
شروع ہوا۔ جب آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا ،ترجمہ :اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کیجیے۔(سورۃ
الشعراء ،آیت )٢١۴:۔ اس حکم ملنے کے چند روز بعد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے خاندان عبدالمطلب کو دعوت پر بالیا جس
میں ان کے چیدہ چیدہ اور برگزیدہ ارکان شامل تھے اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے چچا اور دیگر چالیس کے قریب لوگ شامل
F
تھے ،کھانا کھانے کے بعد آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے محفل کو اسالم کی تبلیغ فرمائی۔ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے
بیان کے بعد پوری محفل میں سناٹا چھا گیا اور خاندان کے تمام افراد میں سے صرف نو عمر حضرت علی المرتضی رضی ہللا
M
عنہ نے اسالم قبول کیا۔ شرکاء محفل نے آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی دعوت کی طرف توجہ نہ دی اور اٹھ کر اپنے اپنے
گھروں کو چلے گئے۔
کوہ صفا :کوہ صفا پر عزیزواقارب اور اہل مکہ تک ہللا تعالی کے پیغام کو پہنچانے کے بعد ہللا ذوالجالل نے حضور اکرم
صلی ہللا علیہ وسلم کو قدرے وسیع پیمانے پر اس پیغام کو پھیالنے کا حکم فرمایا کہ قوم کو دعوت دیں ،قرآن کریم میں ہے،
ترجمہ :ہم نے آپ کی طرف قرآن عربی وحی کے ذریعے بھیجا ہے تاکہ آپ اہل مکہ اور گرد و نواح کے لوگوں کو خبردار
الشوری ،آیت)٧:۔ چنانچہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر اہل قریش کو قبیلوں کے ٰ کریں۔(سورۃ
نام لے کر پکارا ،قریش جمع ہوگئے۔ آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا" ،کہو ہللا کے سوا کوئی عبادت کے الئق نہیں ،تم
کامیاب ہو جاؤ گے۔" لیکن آپ کی دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے یہ مجمع منتشر ہو گیا ۔
اگلے مرحلے میں ہللا تعالی نے اس پیغام کو پوری نوع انسانی یعنی بین االقوامی درجہ دیتے ہوئے فرمایا ،ترجمہ :اور ہم نے آپ
کو تمام انسانوں کے لیے خوشخبری دینے واال اور خبردار کرنے واال بنا کر بھیجا ہے۔(سورۃ السبا ،آیت )٢٨:۔چنانچہ رسول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم اپنی دعوتی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے عرب کے موسمی بازاروں عکاظ ،مجنہ اور ذوالجاز (جہاں لوگ کثرت
سے جمع ہوتے تھے) میں بھی جا کر آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے انھیں اسالم کا پیغام پہنچایا۔ اسالم کی تبلیغ کے لیے طائف
بھی گئے اور وہاں تقریبًا دس دنوں تک لوگوں کو ہللا کی طرف بالنے میں مصروف رہے ۔
حکمت سے تبلیغ :دانائی سے مخاطبین کی ذہنی صالحیت کو سمجھ کر حاالت اور موقع و محل کے مطابق علمی و عقلی دلیل
er
کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی جائے۔
t
موعظ حسنہ :پُراثر گفتگو سے مخاطب کے سامنے اچھائی اور برائی کو ظاہر کرکے نصیحت والے انداز میں بات کرنا کہ
en
کسی کی دل آزاری نہ ہو اور وہ حق کا قائل ہو جائے "موعظ حسنہ" ہے ۔
ت حال پیش آئے تو پُر دلیل گفتگو کرے اور مخالف C
بحث و مباحثہ :اپنی بات کہنے کے لیے اگر مباحثہ یا مکالمہ کی صور ِ
کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے لیے اچھی اور شائستہ زبان میں گفتگو اختیار کرنا جس میں افہام و تفہیم ہو،غصہ ،جوش اور
چیخ چیخ کر بات کرنا نہ ہو۔
h
دعوت و تبلیغ کرنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جس بات کی وہ دوسروں کو تبلیغ کرتا ہے اس پر وہ خود بھی عامل
is
تعالی ہے ،ترجمہ :اور اس شخص سے بڑھ کر بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو ہللا کی طرف بالئےٰ ہو ،قرآن میں ارشاد باری
اور نیک عمل کرے" (فصلت)٣٣:
gl
جواب :عربی زبان میں "دعوت" کے لغوی معنی :پکارنے اور بالنے کے ہیں۔ جبکہ "تبلیغ" کے معنی پہنچانے کے ہیں۔ دینی
M
اصطالح میں لوگوں کو اسالم کی طرف بالنا ،اچھی باتوں اور دینی تعلیم کی طرف بالنےکو "دعوت دین"۔ جبکہ اچھی باتوں اور
دینی تعلیم کو خیر خواہی کے جذبے سے دیگر لوگوں ،اقوام اور ملکوں تک پوری طرح پہنچانے کا نام "تبلیغ" ہے ۔
جواب :ابتدا میں انصار مدینہ میں سے ایک شخص سوید بن صامت رضی ہللا عنہ مکہ مکرمہ آئے اور اسالم قبول کیا۔پھر ان کے
میالن اسالم کا اثر دیگر اہل مدینہ پر پڑا جس کے نتیجے میں دو تین برسوں کے اندر مدینہ منورہ کے لوگوں کی کچھ تعداد
مسلمان ہوئی ۔اس کے بعد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف مسلمانوں اور حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ہجرت کی ۔
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" نشان لگائیں :
er
٢۔ نیک اور اچھی بات دوسروں تک پہنچانے کو کہا جاتا ہے :
(الف) تقریر (ب) تدریس
t
(ج) تبلیغ تجویز (د) تحقیق تحصیل ترتیب
en
٣۔ مکہ مکرمہ میں دعوت و تبلیغ کا ابتدائی مرکز تھا:
C (الف) دار ارقم (ب) شعب ابی طالب
(ج) کوہ صفا (د) مسجدالحرام
h
۴۔ داعی کا کام ہے کہ مخاطب کی تنقید سن کر اس سے:
is
جواب :
En
چکے ہیں ،تو ان کو مسلمانوں اور خاص طور پر حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے حسد کی وجہ سے پریشانی ہوئی ،چنانچہ
تمام زعماء قریش دارالندوہ میں جمع ہو کر حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے خالف تدبیر کرنے لگے۔
تعالی نے پہلے ہی کفار کے اس مکر سے باخبر فرما دیا تھا ۔آپ غار ثور میں قیام :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کو ہللا ٰ
نے حضرت علی رضی ہللا عنہ کو حکم دیا کہ وہ کفار کی امانت لوٹا کر مدینہ منورہ آئیں ۔
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم رات کی تاریکی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کو اپنے ساتھ لے کر مکہ مکرمہ
شہر مکہ کو مخاطب کرکے اس سے سے نکل کر ثور پہاڑ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے ِ
غار ثور کے اندر تین دن تک قیام فرمایا۔اپنی محبت کا اظہار فرمایا۔ پھر آپ دونوں نے ِ
ادھر صبح کے وقت جب کفار نے حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں جا کر دیکھا تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
کے بستر پر حضرت علی رضی ہللا عنہ کو پایا اور ان سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے متعلق دریافت کرتے رہے اور پھر
تعالی کے حکم سے ان کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی تالش میں نکل پڑے۔ یہاں تک کہ غار ثور تک آپہنچے۔ مگر ہللا ٰ
ِ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی ہللا عنہ نظر نہیں آئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کا نوجوان
بیٹا حضرت عبدہللا رضی ہللا عنہ آپ رضی ہللا عنہ کو حاالت سے باخبر کرتے۔ حضرت ابوبکررضی ہللا عنہ کا غالم عامر بن
er
فہیرہ رضی ہللا عنہ آپ رضی ہللا عنہ کو روزانہ دودھ دے جاتے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کی بڑی
صاحبزادی حضرت اسماء رضی ہللا عنھا کھانا دے جاتی۔
t
en
غار ثور سے مدینہ منورہ روانگی :چوتھے دن حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم غار سے باہر تشریف الئے ،عبدہللا بن
اریقط نامی شخص کو جرات پر بطور راستہ دکھانے واال لیا۔ اسی طرح یہ چھوٹا قافلہ ایک دن اور رات مسلسل چلتا رہا ،دوسرے
C
دن دوپہر کے وقت گرمی اور دھوپ کی تپش کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے چاہا کہ آپ کریم صلی ہللا
علیہ وسلم کچھ وقت آرام فرما لیں۔ پھر یہ اشخاص بڑے ٹیلے کے قریب سایہ میں پڑاؤ کے لیے رک گئے۔ حضرت ابوبکر رضی
h
ہللا عنہ نے آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو دودھ پیش کیا ،جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے آگے کوچ
کیا۔
is
gl
قبا میں تشریف آوری :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سن ١۴نبوت بمطابق سنہ ایک ہجری کو بحفاظت قبا بستی میں پہنچ
گئے ،جہاں آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے چند دن قیام فرمایا اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی اور اس میں نماز پڑھی جس کو "مسجد
En
تعالی کے حکم سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے، مدینہ منورہ میں داخلہ :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم جمعہ کے دن ہللا ٰ
بنو سالم بن عوف کی بستی میں پہنچ کر بطن وادی میں جمعہ کی نماز پڑھائی ،اسی طرح آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے مدینہ
اہل مدینہ نے آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا پُرجوش استقبال کیا اور آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی تشریف
منورہ آپہنچےِ ،
آوری پر خوشی کا اظہار کیا اور دل کھول کر آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا ۔
ہوگیا ،اس کے باوجود آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم ابتداء میں خفیہ طریقے سے لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے رہے اور تربیت
کرتے رہے۔
مسلمانوں پر مظالم :مکہ مکرمہ میں دشمنوں نے اسالم قبول کرنے والے ہر شخص پر مظالم ڈھائے ،ان کو جسمانی ،ذہنی
اذیتیں پہنچانے کا کوئی موقع نہ چھوڑتے ،یہاں تک کہ انہوں نے حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اور دیگر مسلمانوں کو تین
سال تک شعب ابی طالب میں محصور کر دیا اور ان سے مقاطعہ کر لیا۔ عالوہ ازیں بہت سے صحابہ کرام رضی ہللا عنھم کو
اذیت دے کر شہید کردیا ۔
قریش مکہ کی سخت روی سے تنگ آ کر دو مرتبہ صحابہ کرام رضی ہللا عنھم حبشہ ِ ہجرت حبشہ کا حوصلہ افزاء تجربہ :
کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے جہاں ان کو اطمینان و آرام میسر ہوا تاہم مخالفوں کی سازشوں کی وجہ سے وہ دوبارہ
کفار مکہ سے تکلیفیں اور اذیتیں سہتے رہے۔
مکہ مکرمہ لوٹ آئے اور ِ
er
اہل مدینہ کا اشتیاق :مدینہ کے کچھ نیک حضرات حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے عقبہ کے مقام پر دو مرتبہ بیعت کر
چکے تھے اور ان کی تمنا تھی کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم مدینہ آکر ہمیں دین کی باتیں سکھائیں لیکن آپ کریم صلی ہللا
علیہ وسلم ہللا ٰ
t
تعالی کے حکم و اذن کے منتظر تھے۔
en
اذن ٰالہی :ان تمام مشکالت کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اصرار پر حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے مسلمانوں کو
ِ
C
بعثت کے چودھویں برس ٢٧صفر کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت فرمائی اور لوگ چھپتے چھپاتے ،مدینہ کے لئے روانہ
ہوتے رہے۔ یہ ہجرت تمام مسلمانوں پر فرض تھی۔
h
٣۔ مختلف غزوات کا اجمالی تعارف لکھیں ۔
is
مشرکین مکہ
ِ غزوہ بدر :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک سال پورا کیا تھا کہ ما ِہ رمضان سن ٢ھ میں
En
نے ابوجہل کی قیادت میں مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا ،آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کو اطالع مل گئی تو ،آپ کریم صلی ہللا علیہ
وسلم نے آگے بڑھ کر "بدر" کے مقام پر مشرکین کا مقابلہ کیا۔ ہللا ٰ
تعالی نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی۔
مشرکین مکہ ابو سفیان(رضی ہللا عنہ ،جو اس وقت تک ایمان نہ الئے تھے) کی
ِ غزوہ احد :غزوہ بدر کے ٹھیک ایک سال بعد
F
قیادت میں ماہ شوال ٣ہجری میں مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے ،مسلمانوں نے "احد" کے مقام پر ان کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں
M
مسلمانوں کا بھاری نقصان ہوا مگر دشمن بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوا۔
غزوہ خندق :تیسری مرتبہ ماہ ذوالقعدہ سن ۵ہجری میں پورے عرب کے مشرکین و کفار اکٹھا ہو کر بڑی طاقت کے ساتھ
مدینہ پر حملہ آور ہوئے ،اس جنگ کا دوسرا نام غزوہ احزاب ہے۔ ہللا ٰ
تعالی نے طوفان اور آندھی بھیج کر کفار کے عزائم کو
خاک میں مال دیا۔
غزوہ خیبر :سن ٧ہجری میں خیبر کے یہودیوں نے سخت بغاوت شروع کر دی۔ یہودیوں نے کئی قلعہ بنائے تھے۔ سارے
قلعے فتح کیے گئے آخری قلعہ قموص تھا ،جس کو شیر خدا حیدر کرار حضرت علی کرم ہللا وجہہ کی کمان میں فتح کیا گیا ۔
فتح مکہ :مسلمانوں نے رمضان المبارک سن ٨ہجری میں مکہ مکرمہ فتح کیا۔
ِ
غزوہ حنین :سن ٨ہجری میں "غزوہ حنین" ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو کامیابی ہوئی۔
غزوہ تبوک :سن ٩ہجری میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو اطالع ملی کہ رومی اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے ساتھ
لڑائی کرنے کے ارادے سے نکل چکے ہیں ،تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے
کے لیے تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر جب رومیوں نے مسلمانوں کا عزم دیکھا تو وہ واپس چلے گئے۔ اور اسالمی لشکر
بغیر لڑائی کے واپس آگیا۔
جواب :عربی زبان میں "ہجرت" کے معنی جدائی ،علیحدگی اور ایک جگہ قطعا ً چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا ہیں ،اسالم میں
er
"ہجرت" کا مفہوم ہے :رضائے ٰالہی کے حصول کے لئے اصل وطن اور گھر بار کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں سکونت اختیار
کرنا ،خاص طور پر جہاں وہ محکوم اور مظلوم ہوں ،ان کو اسالم پر عمل کرنے میں زندگی گزارنا مشکل ہو تو ایسے حاالت میں
t
نقل مکانی کر کے ایسی جگہ جائیں ،جہاں دین کے تقاضے پورے کیے جا سکیں اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔
en
٢۔ غزوہ بدر کب اور کیوں ہوا ؟
تعالی کی رحمت کے بھی حقدار ہوتے جواب :ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے۔ اور ہللا تبارک و ٰ
En
ہیں۔ اور ان کے لیے مغفرت ،جنت اور بہترین اجر کا انعام رکھا ہے۔ اور انہیں یقین دالیا گیا ہے کہ ان کے اعمال ضائع نہیں ہوں
گے ،چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ترجمہ :تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی اور فرمایا کہ میں کسی عمل کرنے
والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ہو ضائع نہیں کرتا۔ تم ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ تو جو لوگ میرے لئے وطن چھوڑ گئے
F
اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور (ہللا کی راہ میں) لڑے اور قتل کیے گئے ،میں ان کے گناہ دور کر دوں گا
اور ان کو بہشتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہللا کے ہاں سے بدلہ ہے اور ہللا کے ہاں اچھا بدلہ ہے۔
M
(آل عمران)١٩۵:
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں:
سفر ہجرت کے دوران حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم ٹھرے:
٢۔ ِ
غار ثور میں
غار حرا میں (ب) ِ
(الف) ِ
(د) طائف میں (ج)کہف میں
جواب :
er
۴۔ ج ٣۔ ج ٢۔ ب ١۔ ج
t
en
C
h
is
gl
En
F
M
١۔ خصائل و شمائل نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کی اہمیت و فضیلت پر نوٹ لکھیں ۔
جواب) خصائل و شمائل نبوی صلی ہللا علیہ وسلم کی اہمیت و فضیلت :
اسالم کی صحیح اور کامل تصویر :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی ہی اسالم کی صحیح اور کامل تصویر
ہے۔ آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور حیات مبارکہ کا اتباع مومن کے لئے نجات دہندہ ہے۔ ارشاد باری تعالی
ہے،ترجمہ ( :مسلمانو!) درحقیقت تم لوگوں کے لیے ہللا کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ (سورۃ االحزاب ،آیت )٢١:۔
er
اعلی سیرت بلند ،اخالق اور عمدہ صفات کا مجموعہ :ہللا تعالی نے رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کو عمدہ صورت کی
طرح اعلی سیرت ،بلند اخالق اور عمدہ صفات کا مجموعہ بنایا تھا ،جس کی گواہی خود قرآن کریم نے بھی دی ہے ،ترجمہ:
t
یقی ًنا آپ کے اخالق بڑے ٰ
en
اعلی ہیں۔ (سورۃ القلم ،آیت)۴:
سب سے اچھا کردار :رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی ذات اقدس سیرت اور صورت دونوں اعتبار سے کامل اور اکمل
C
تھی۔ اپنی قوم میں اچھے کردار ،فاضالنہ اخالق اور کریمانہ عادات کے لحاظ سے ممتاز تھے اور حضور اکرم صلی ہللا علیہ
وسلم کی شخصیت نہایت بارعب اور پر وقار تھی۔ سب سے زیادہ با مروت ،سب سے زیادہ خوش اخالق ،سب سے زیادہ راست
h
گو ،سب سے زیادہ کریم ،سب سے زیادہ نیک عمل ،سب سے زیادہ بڑھ کر پابند عہد ،سب سے زیادہ امانت دار تھے۔
is
حرف آخر :پس جو اشخاص اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگانی خوبصورت اور کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو انہیں آپ کریم صلی
gl
ہللا علیہ وسلم کے خصائل و شمائل کی طبیعت کی پوری آمادگی اور ایک قلبی لگاؤ کے ساتھ پیروی کرنی چاہیے۔
En
٢۔ دوسرے کے کام آنے میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا کیا طریقہ تھا ؟
جواب) دوسروں کے کام آنے میں طریقہ مبارک :معاشرتی معامالت میں رشتہ داروں ،پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا ان
F
کی ضروریات کا خیال رکھنا،ان کو تحفے تحائف بھیجنا ،طبع پرسی کرنا ،تعزیت کرنا ،ایک دوسرے کو دعوت دینا ،معاشرے
کے نادار لوگوں کے کام آنا ،دشمنوں سے بھی نیکی کرنا وغیرہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے خصائل مبارک میں سے تھے۔
M
نادار طبقے سے شاہانہ طرز رکھنے والے جیسا سلوک :ام المومنین حضرت خدیجہ رضی ہللا تعالی عنھا حضور کریم
صلی ہللا علیہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں کہ" ،آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم صلہ رحمی کرتے ہیں ،بے سہاروں کا بوجھ
اٹھاتے ہیں ،خالی ہاتھ والوں کی مدد کرتے ہیں ،مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب
میں مدد فرماتے ہیں ہللا تعالی آپ کو اکیال نہیں چھوڑے گا۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی ،حدیث )٣:۔
یہ تمام خوبیاں پیارے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ہمدردی اور خیر خوانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہیں ،جس میں معاشرہ میں
کمزور سمجھے جانے والے نادار طبقے سے بھی ایسا ہی سلوک روا رکھنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے جو کسی شاہانہ طرز
رکھنے والے سے رکھا جائے ۔
عبادت مؤخر کرنا :ایک اجنبی حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس آکر التجا کرنے لگا کہ ابوجہل کے ذمہ میرا قرض
ہے وہ ادا نہیں کر رہا ہے اس وقت آپ صلی ہللا علیہ وسلم حرم مکہ میں عبادت کر رہے تھے ،لیکن عبادت کو موخر کیا اور
اپنے ذاتی دشمن ابوجہل کے پاس ایک اجنبی کی مدد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ،اور اس سے حق وصول کروادیا ۔(تہذیب
سیرۃ ابن ہشام ،ص )٧۴ :۔
حرف آخر :لہذا ہمیں بھی چاہیے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے خصائل و شمائل کو اپنا کر سعادت دارین حاصل کریں ۔
١۔ خصائل اور شمائل نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سے کیا مراد ہے۔
جواب :خصائل کے معنی عادات (اچھی یا بری) ہیں ۔ شمائل کے لغوی معنی اچھی طبیعت ،عمدہ عادت اور نیک صفت و خصلت
er
کے ہیں ۔ اصطالح میں خصائل اور شمائل نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سے مراد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ظاہری خوبیاں و
باطنی خصائل اور عمدہ عادات ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی شب و روز کی زندگی جیسے اٹھنا ،بیٹھنا ،کھانا ،پینا ،سونا ،جاگنا،
t
مزاج ،معاشرت اور لباس ،اخالق ،پاکیزہ خصوصیات اور خوبیاں و اوصاف ،بالخصوص آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا اہل خانہ
en
سے برتاؤ ،لوگوں سے میل جول ،آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ساتھیوں سے رویہ ،آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی ظاہری
صورت اور سیرت ،حلیہ مبارک اور جسمانی بناوٹ مراد ہیں۔
C
٢۔ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی گھریلو مصروفیات کیا تھی ؟
h
جواب :آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے اور اپنے کام خود سر انجام دیتے تھے۔
is
ام المومنین حضرت عائشہ رضی ہللا تعالی عنھا بتاتی ہیں کہ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم اپنے کپڑے خود صاف فرماتے،
بکری کا دودھ نکالتے ،اپنے کام خود کر لیتے تھے ،کپڑوں اور جوتوں کو پیوند لگانا اور اپنے کپڑوں کو سینا یہ تمام اعمال خود
gl
٣۔ رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی مبارک زندگی اہل محلہ سے کیسا رویہ رکھنے کا درس دیتی ہے ؟
جواب :معاشرتی معامالت میں رشتہ داروں ،پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا ان کی ضروریات کا خیال رکھنا،ان کو تحفے تحائف
F
بھیجنا ،طبع پرسی کرنا ،تعزیت کرنا ،ایک دوسرے کو دعوت دینا ،معاشرے کے نادار لوگوں کے کام آنا ،دشمنوں سے بھی نیکی
کرنا وغیرہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے خصائل مبارک میں سے تھے۔
M
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں ۔
١۔ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے خصائل و شمائل سے مراد ہے :
(الف) سیرت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم (ب) اسوہ حسنہ
(د) عمدہ عادات و خصوصیات (ج) سنت
جواب :
١۔ د
١۔ حدیث کی روشنی میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت پر روشنی
ڈالیں ۔
جواب) نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت :
حضرت علی رضی ہللا عنہ سے محبت :حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کو مخاطب کر کے آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا" ،تم میرے لیے ایسے ہو جس طرح کہ حضرت ہارون علیہ السالم حضرت موسی علیہ السالم کے لیے تھے مگر یہ کہ
er
میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی ہللا عنھا سے محبت :سیدہ فاطمہ الزہراء رضی ہللا عنہا کے متعلق حضور اکرم صلی ہللا
t
en
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا" ،فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (صحیح
البخاری ،حدیث)٣٩٠٣:
C
حضرات حسنین رضی ہللا عنھما سے محبت :حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی ہللا عنھما کے لیے حضور
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا" ،یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔ اے ہللا میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت
h
کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرتے ہیں۔ (سنن الترمذی ،حدیث )٣٧٧۵:۔
is
٢۔ امہات المومنین رضی ہللا عنھن کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ؟
gl
جواب) امہات المومنین رضی ہللا عنھن :نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی گیارہ ازواج ہیں جنہیں امہات المؤمنین کہا جاتا
En
١۔ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی ہللا عنھا :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے آپ رضی ہللا عنھا سے
F
نکاح کیا اس وقت آپ رضی ہللا عنھا کی عمر چالیس سال تھی۔ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان النے والی
خاتون آپ ہی ہیں۔ ان کی حیات میں آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی ،اور آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی
M
تمام اوالد انہی کے بطن سے تھیں۔ ،سوائے حضرت ابراہیم رضی ہللا عنہ کے۔ ٦۵سال کی عمر میں سنہ ١٠نبوت میں ان کی
وفات ہوئی ،ان کی دین اسالم کے لیے بے مثال خدمات ہیں۔
٢۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنھما :نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے
شوال سنہ ١١نبوت میں نکاح کیا۔ ہجرت کے سات مہینے بعد سوال ١ہجری میں آپ کی رخصتی ہوئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی ہللا عنھا امت کی سب سے زیادہ فقیہ عورتوں میں شامل ہیں۔ نہایت بہادر اور دلیر تھیں۔ غزوہ احد میں رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم کے زخم صاف کیے۔ زخمی غازیوں کو پانی پالتی۔ آپ رضی ہللا عنھا کا ١٧رمضان ۵٧ہجری کو انتقال ہوگیا ،اور
آپ رضی ہللا عنھا جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
٣۔ ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی ہللا عنھا :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ان سے رمضان ۴ہجری
میں نکاح فرمایا ،انہیں "ام المساکین" کہا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ مسکینوں کو کھانا کھالتی تھی ۔
۴۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی ہللا عنھا :آپ رضی ہللا عنہا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی پھوپھی
حضرت امیمہ بنت عبدالمطلب رضی ہللا عنھا کی صاحبزادی تھیں۔ ذوالقعدہ ۵ہجری میں سرکار دو عالم صلی ہللا علیہ وسلم نے ان
سے شادی کی۔ حضرت زینب رضی ہللا عنھا بڑی عبادت گزار اور خوب صدقہ کرنے والی خاتون تھیں ۔ ۵٣سال کی عمر میں
سنہ ٢٠ہجری میں ان کی وفات ہوئی اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا ۔
دیگر ازواج مطہرات :ان کے عالوہ دوسری ازواج مطہرات یہ ہیں :
۵۔ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی ہللا عنھا ۔
٦۔ ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر بن خطاب رضی ہللا عنھما ۔
٧۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہ رضی ہللا عنھا۔
er
٨۔ ام المومنین حضرت جویریہ بنت الحارث رضی ہللا عنہا۔
٩۔ ام المومنین حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان رضی ہللا عنھا ۔
t
١٠۔ ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی ہللا عنھا ۔
en
١١۔ ام المومنین حضرت میمونہ بنت حارث رضی ہللا عنھا۔
جواب :مناقب عربی زبان کا لفظ ہے اس کا واحد "مْ ٙن ٙقب ٙة" ہے ،جس کے معنی تعریف ،اچھے کام ،خوبیاں اور فضائل کے آتے
ہیں۔ اصطالح میں کسی مشہور شخصیت کے کارناموں اور فضائل کو منقبت کہا جاتا ہے ،چاہے وہ نثر میں ہو یا نظم میں ،اہل
gl
بیت ،برگان دین اور اصحاب کرام کی ثنا ،اوصاف اور تعریفیں۔
En
جواب :قرآن مجید کی اصطالح کے مطابق "اہل بیت" سے مراد حضوراکرم صلی ہللا علیہ وسلم کا گھرانہ ہے جس میں آپ کریم
F
صلی ہللا علیہ وسلم کی آل پاک ،ازواج مطہرات اور اوالد شامل ہیں ۔
M
۴۔ حدیث الکساء کی روشنی میں اہل بیت اطہار کے اسمائے گرامی تحریر کریں ۔
جواب :
حضرت فاطمہ الزہرہ رضی ہللا عنھا ۔ ●
حضرت علی رضی ہللا عنہ ۔ ●
حضرت امام حسن رضی ہللا عنہ ۔ ●
حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ ۔ ●
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں :
١۔ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو قرآن کریم میں کہا گیا ہے :
(ب) امہات المسلمین (الف) امہات المومنین
er
(د) سیدات المسلمین (ج) اخواۃ المومنین
t
٢۔ اہل بیت کے لغوی معنی ہیں :
en
(ب) شاعری کرنے والے (الف) بیت لکھنے والے
(د) ایمان والے (ج) گھر والے
کوئی صحابہ کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے بابرکت صحبت کی بدولت وہ عظیم
شخصیات ایسے بلند مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ بعد والوں میں کوئی ان کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا ،کیوں کہ نبوت کا دروازہ
بند ہو چکا اور کسی نبی سے ملے بغیر کوئی صحابی نہیں بن سکتا۔ وہ اس دور میں گزرے ہیں جس دور کو آپ کریم صلی ہللا
علیہ وسلم نے "بہترین زمانہ" فرمایا ہے۔ (بخاری ،حدیث)٣٦۵١:
صحابہ کو برا بھال مت کہو :صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کی پاکباز جماعت سے دلی محبت اور عقیدت رکھنا عین ایمان ہے۔
ادنی سے ٰ
ادنی بے ادبی اور گستاخی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی جبکہ ان کی شان میں ٰ
ہیں" ،میرے صحابہ کو برا بھال مت کہنا کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے گا تو بھی وہ ان کے
ایک "مدّ" کے برابر نہیں پہنچے گا ،نہ ہی آدھے م ّد کے برابر۔" (صحیح بخاری ،حدیث /٣٦٧٣:صحیح مسلم ،حدیث)٢٢٢:۔ ایک
م ّد صاع کے چوتھے حصے کو کہا جاتا ہے جو ٧٩٦.٠٦٨
گرام کا ہوتا ہے۔
صحابہ کی پیروی ہدایت کی ضمانت ہے :رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں
،تم میرے صحابہ میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔
جواب) صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کے فضائل :ایسی بابرکت ہستیاں جن کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا وہ روئے
زمین پر انبیاء کرام علیہم السالم کے بعد دنیا کے باقی تمام لوگوں میں ٰ
اعلی شان اور بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔
er
صحابی اور تابعی کو خوشخبری :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"،اس شخص کے لئے بڑی خوشخبری
ہے جس نے مجھے دیکھا ،اور اس کے لئے بھی جس نے ایسے آدمی کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہو۔" (میزان االعتدال
t
للذہبی،ج ،١ص)۴٢٢
en
بہترین لوگ :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا" ،تم میں سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ،پھر وہ جو ان کے
C
بعد آئیں گے ،پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔" (صحیح بخاری ،حدیث )٦٦٩۵:۔
ہللا ان سے راضی اور یہ ہللا سے راضی :ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :انصار ،مہاجرین اور ان کے پیروکار جو ایمان
h
میں سبقت کرنے والے ہیں ہللا تعالی ان سے راضی ہے اور وہ اس سے راضی ہیں۔ ہللا تعالی نے ان کے لئے ایسے باغات تیار کر
is
رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ (سورۃ توبہ ،آیت)١٠٠:
gl
جواب :صحابی عربی زبان کے لفظ "صحب" سے ماخوذ ہے ،جس کے لفظی معنی "رفاقت" کے ہیں۔ اصطالح میں صحابی اس
شخصیت کو کہا جاتا ہے ،جس نے ایمان کی حالت میں آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے مالقات کی ہو اور ایمان کی سالمتی کے
M
جواب :عربی زبان میں "عشرة" کے معنی دس ہے ،جبکہ "مبشرة" بشارت سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں :بشارت دیا ہوا،
اس طرح عشرہ مبشرہ کے معنی ہوئے خوشخبری سنائے جانے والے دس آدمی ۔
جواب :
١۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ ۔
٢۔ حضرت عمر فاروق بن الخطاب رضی ہللا عنہ ۔
٣۔ حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ ۔
۴۔ حضرت علی المرتضی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ ۔
۵۔ حضرت طلحہ بن عبیدہللا رضی ہللا عنہ ۔
٦۔ حضرت زبیر بن عوام رضی ہللا عنہ ۔
٧۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ہللا عنہ ۔
٨۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ ۔
٩۔ حضرت سعید بن زید رضی ہللا عنہ ۔
er
١٠۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی ہللا عنہ ۔
t
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے درست کا نشان لگائیں :
en
١۔ عشرہ مبشرہ کے معنی ہیں:
C (الف) دس دوست (ب) دس ساتھی
(ج) دس عمل (د) خوشخبری سنائے جانے والے دس آدمی
h
٢۔ صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے :
is
٣۔ حدیث شریف میں سب سے بہتر زمانہ قرار دیا گیا ہے:
En
جواب :
جواب) علم کی اہمیت و فضیلت و افادیت :ہللا تعالی کی اپنےبندوں پر بے شمار انعامات و احسانات ہیں اور انسانوں کے
اوپر جو خاص نعمت اور نوازشیں ہیں ،ان میں سے علم کا عطا کرنا سب سے بڑی نعمت اور احسان ہے۔
er
ان کی بنیاد پر انسان اشرف المخلوقات :رب کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دے کر اسے علم و عقل سے
نوازا۔ علم کے ذریعے ہی انسان کے لئے ساری کائنات مسخر کر دی گئی۔ علم ہی کی وجہ سے انسان کو تمام باقی مخلوقات پر
t
شرف حاصل ہے۔ علم ہی انسان کے لیے عظمت و شرف کی بنیاد ہے اور سربلندی کا ذریعہ ہے۔
en
علم ہللا کی صفت :علم ہللا تعالی کی صفت ہے۔ وہ عالم الغیب ،عالم الغیوب اور عالیم بذا ِ
ت الصدور جیسی صفات رکھتا ہے ۔
C علم کی اہمیت و فضیلت قرآن کی روشنی میں :
ٰ
h
تعالی ہے ،ترجمہ :تم میں سے جو درجات بلند کرے گا :علم اور اہل علم کی فضیلت کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد باری
لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا کیا گیا ،ہللا ان کے درجے بلند کرے گا۔ (سورۃ المجادلہ ،آیت )١١:یہاں بلندئ درجات میں
is
ٰ
تعالی ہے ،ترجمہ :کہو بھال جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے کیا جاھل اور عالم برابر نہیں :ارشاد باری
En
دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ پس نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہیں۔ (سورۃ الزمر ،آیت )٩:۔
شیطان پر بھاری :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ،ایک سمجھ واال عالم ،شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ
بھاری ہے۔ (سنن ابن ماجہ ،حدیث)٢٢٢:
کارآمد فرد بن جانا :علم و اخالق کے زیر سایہ اگر بہتر تربیت کا اہتمام ہو تو انسان میں اچھے برے کی تمیز ،صحیح اور
غلط کا امتیاز ،خالق و مالک کی پہچان ،اس کی مخلوق سے محبت ،ہمدردی اور خیر خواہی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں اور وہ
سیرت و کردار کے اعتبار سے باوقار اور کارآمد بن جاتا ہے اس لئے اسالم میں علم حاصل کرنا فرض شمار کیا گیا ہے۔
جواب " :علم" کے لغوی معنی جاننے اور آگاہ ہونے کے ہیں۔ جب کہ تعلیم کا لفظ دوسروں کو علم دینے اور سکھالنے کے لئے
استعمال ہوتا ہے۔ اصطالح میں "انسان کا حواس خمسہ اور عقل کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت کو جاننے کا نام علم ہے"۔
٢۔ علم کی اہمیت سے متعلق قرآن کریم کی کوئی ایک آیت اور اس کا ترجمہ بیان کریں ۔
جواب :ی ٙرْ ٙف ِع ہللاُ الّ ِذی ْٙن ٰامُ ٙن ْوا ِم ْنکُ ْم ال ٙو الّ ِذی ْٙن ا ُ ْو ُتوا ْالع ِْل ٙم ٙد ٙر ٰجت (ت پر اعراب دو زیر ہے)
ترجمہ :تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا کیا گیا ،ہللا ان کے درجے بلند کرے گا۔ (سورۃ المجادلہ ،آیت)١١:۔
er
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں:
t
١۔ حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ انبیاء کرام علیہم السالم کے وارث ہیں :
en
(ب) اولیائے کرام (الف) علمائے کرام
(د) طلباء کرام (ج) اساتذہ کرام
C جواب :
h
١۔الف
is
gl
جواب) اسالم میں خاندان کی اہمیت :خاندان اور کنبے سے ہی معاشرتی زندگی کی شروعات ہوتی ہے ۔ اسالم میں خاندان
M
نسل انسانی کی بقا :خاندانی نظام یا عائلی زندگی کا مقصد نسل انسانی کی افزائش اور اس کی بقا ہے۔ اسالم یہی چیز تو چاہتا
نسل انسانی باقی رہے ۔
ہے کہ ِ
نکاح :عائلی زندگی مرد و زن کے درمیان نکاح سے شروع ہوتی ہے اور نکاح رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سنت ہے۔ لہذا
معاشرے کا بنیادی ستون خاندان نکاح کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔
بدکاری سے حفاظت :خاندانی زندگی سے مرد و عورت دونوں کو پاکیزہ زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ بدکاری اور
زنا کو ہللا نے بہت برا راستہ قرار دیا ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔
معاشرے کا استحکام :کسی معاشرے کی بنیاد خاندانی نظام اور مرد و عورت کی پاکیزہ عائلی زندگی ہے۔ اس سے معاشرے
میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس بنیاد یعنی خاندانی زندگی کو ختم کر دیا جائے تو معاشرے میں انتشار و فساد پیدا ہو جائے گا،
جو اسالم کبھی نہیں چاہتا۔
سکون کا ذریعہ " :اور ہللا کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے جوڑے پیدا کئے تاکہ ان سے
تم سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی ۔"
er
جواب) شوہر بیوی کے حقوق و فرائض :حدیث میں ہے کہ "تم سب نگران ہو اور تم سے تمہاری نگرانی میں موجود افراد
اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔" (صحیح بخاری ،حدیث)٢۴٠٩:۔ اسالمی تعلیمات کے مطابق زوجین کے ایک دوسرے
t
پر کچھ حقوق و فرائض مقرر کیے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :اور عورتوں کا حق مردوں پر ویسا ہی ہے جیسے
en
دستور کے مطابق مردوں کا حق عورتوں پر ہے۔ (سورۃ البقرہ ،آیت )٢٢٨:۔
٣۔ بیوی کو مہر میں دی گئی رقم یا دیگر ذاتی ملکیت رکھنے کی اجازت دے گا۔
۴۔ کاروبار کرنے کی جائز حدود میں اجازت دے گا ۔
gl
١۔ بیوی اور گھر کے دوسرے افراد سے پیار و الفت سے پیش آئے
٢۔ بیوی پر ظلم و زیادتی نہ کریں ۔
٣۔ عدل و احسان کا رویہ اختیار کرے ۔
F
جواب " :خاندان" فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی گھرانہ ،کنبہ ،قبیلہ ،بال بچے ،حسب نسب کے ہیں۔ اصطالح میں
ایک ہی نسل کے قریبی رشتہ داروں کا مجموعہ خاندان کہالتا ہے۔
جواب :تمام رشتوں میں والدین کا رشتہ اہم اور قابل احترام ہے ،ان ہی کی وجہ سے ہم اس جہان میں آئے ،اور ان کی دیکھ بھال
اور پرورش سے ہمارے اندر قوت پیدا ہوئی ،اس لیے ہمیں والدین کی خدمت اور احترام میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد باری
تعالی ہے ،ترجمہ :اور آپ کے پروردگار نے یہ فیصلہ فرما دیا ہے کہ تم لوگ ہللا کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ،ماں باپٰ
er
ُ
کے ساتھ بہتر سلوک کرو ،اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو،
اور نہ ان کو جھڑکو ،ان کے ساتھ خوب ادب کے ساتھ بات کرو۔ ان کے سامنے نیازمندی سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہو ،اور
t
دعا کرتے رہو :اے میرے رب! جیسے ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی ُتو ان پر اسی طرح رحم فرما ۔(سورۃ االسراء،
en
آیت )٢۴-٢٣:۔
والدین اگر کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں ،دنیا میں ان کا ادب و احترام کرنا ،ان کی فرمانبرداری کرنا ،اچھا سلوک کرنا اور
خدمت کرنا الزمی امر ہے۔ ہاں اگر وہ ہللا کی نافرمانی یا کفروشرک اختیار کرنے کا حکم کریں تو ان سے معذرت کی جائے گی۔
C ٣۔ اوالد کے حقوق تحریر کریں ۔
h
is
جواب :خاندان کی رونق اوالد ہے اور اوالد کا مقصد بقاء نوع اور زندگی کا سبب ہے،ساتھ ہی والدین پر ان کے لئے بعض ذمہ
داریاں عائد ہوتی ہیں جن کو اوالد کے حقوق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
gl
● اوالد کو دین کی ضروری باتیں ،قرآن کریم کی تعلیم اور نماز کی تربیت دینا۔
● اوالد کو اسالمی اقدار کی تعلیم دینا ۔
En
● اوالد کے درمیان برابری اور انصاف کا معاملہ رکھنا ،بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح تحفہ تحائف اور پیار میں شریک
کرنا۔
● اوالد پر بے جا سختی و تشدد سے پرہیز کرنا اور ان سے شفقت اور پیار و محبت کا رویہ رکھنا ۔
F
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں:
M
جواب :
احترام انسانیت
er
١۔ احترام انسانیت پر دس نکات تحریر کریں ۔
t
en
جواب :
١۔ اسالم سے پہلے والے زمانے کو "دور جہالت" کہا جاتا ہے ،اس دور میں انسانیت کا احترام تقریبًا لوگوں کے اندر سے ختم
ہوچکا تھا۔ لوگ پتھروں ،درختوں ،دریاؤں ،سمندروں اور دیگر طاقتور چیزوں کو محترم اور الئق عزت سمجھتے تھے۔ ان بے
C
جان اور بے اصل چیزوں کو دیوتا مان کر ان کی پرستش کرتے ،ان کے سامنے منتیں مانتے اور جانور الکر نظر کے طور پر
قربان کرتے ،بعض مشرکین تو ان دیوتاؤں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنی اوالد تک ان کے سامنے قربان کر دیتے تھے۔
h
اسالم نے ایسے باطل خیاالت اور رسومات کو رد کیا۔
is
٢۔ اسالم نے ایک طرف انسانوں کو انسانیت کے احترام کا درس دیا اور دوسری طرف بڑائی ،تکبر اور خودپسندی جیسی
خصلتوں کو برا ٹھہرایا۔
gl
٣۔ انسان بھی محترم ہے اور اس کا خون بھی محترم ہے۔ لہذا اس کی قتل و غارت گری کسی صورت جائز نہیں۔ اسی سبب سے
رسول محترم صلی ہللا علیہ وسلم نے احترام انسانیت پر غیر معمولی زور دیا۔
En
۴۔ اسالم میں انسان کا کتنا شرف ہے ،اس چیز کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسالم میں تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کا
احترام موت کے بعد بھی ضروری ہے اور یہ حکم ہے کہ مردے کو احترام کے ساتھ غسل دیا جائے ،صاف ستھرا کفن پہنا کر
اس کو خوشبو لگائی جائے ،نماز جنازہ پڑھی جائے ،پھر کاندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جایا جائے اور دفن کیا جائے۔
۵۔ زمانہ جاہلیت میں جنگ کے دوران دشمن کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے اعضاء کاٹ دیے جاتے تھے اور ان کی
F
شکلیں بگاڑ دی جاتی تھیں۔ اسالم نے انسانی حرمت کو پامال کرنے والے ان تمام کاموں سے روک دیا اور مردوں کی ہر طرح
M
١٠۔ اسالم میں انسانی جان ،مال اور عزت کو بے حد احترام دیا گیا ہے ،خواہ یہ جان ،مال اور عزت مسلمانوں کی ہو خواہ غیر
مسلموں کی ۔
رنگ و نسل ،زبان اور وطن کی کوئی حیثیت نہیں :اسالم رنگ و نسل ،زبان اور وطن کے امتیازات کو باطل کر دیتا
er
ہے ۔اس کے نزدیک بڑائی اور بزرگی کا معیار صرف تقوی اور ہللا تعالی کا خوف ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ،ترجمہ :بیشک ہللا
t
کے نزدیک تم میں زیادہ عزت واال وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ (سورۃالحجرات ،آیت )١٣:۔
en
ٰ
تعالی ہے، تمام لوگ ایک ہی اصل سے ہیں :اسالم سکھاتا ہے کہ دنیا کے تمام لوگ ایک ہی اصل سے ہیں۔ ارشاد باری
ترجمہ :تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اوّ ل)اس سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پیدا کر
C کے روئے زمین پر پھیال دیئے۔ (سورۃ النساء ،آیت )١:۔
h
حرف آخر :قرآن مجید نے انسان کو اس کے صحیح منصب سے آگاہ کیا۔ ہللا تعالی نے اسے زمین پر خلیفہ نائب بنایا ہے۔ اس
is
کو اس کی ذمہ داریوں کی اصل حیثیت سے آگاہ کر کے اسے بہت سے باطل معبودوں کی غالمی سے آزاد کر دیا اور اسے ذمہ
دار اور باوقار بنا دیا ،اسے بتایا گیا ہے کہ وہ صرف ایک ہللا کے احکام کا پابند ہے ،کسی کو کسی پر سوائے ایمان ،علم اور
gl
تقوی کے کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ان تمام آیات مبارکہ میں عمومی طور پر مجرد انسان ہی کو حیثیت دی گئی ہے خواہ وہ مسلمان
ہوں یا غیر مسلم ۔
En
جواب " :احترام" کے معنی عزت اور قدر ،فضیلت اور برتری کے ہیں۔ "احترام انسانیت" کا مطلب ہے انسان کی عزت اور
بڑائی۔ کسی بھی رنگ و نسل ،مذہب و زبان ،قوم اور ملک سے تعلق رکھنے والے ہر انسان کو دوسرے انسان کی جان ،مال اور
عزت کا تحفظ دینا "احترام انسانیت" کہالتا ہے۔
لوگوں سے ظلم و زیادتی یا غیر منصفانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا۔ ان کی عیب جوئی اور تجسس بازی کی کوشش ●
کرنا۔
اوالد میں چھوٹے بڑے ،عقلمند ،نا سمجھ یا بیٹے اور بیٹی کی بنیاد پر غیر مساوی سلوک کرنا ۔ ●
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" کا نشان لگائیں:
١۔ اسالم سے قبل زمانہ جاہلیت میں احترام انسانیت تھا :
(ب) کم (الف) زیادہ
(د) بہتر (ج) ختم
٢۔ تم میں سے ہللا تعالی کے نزدیک زیادہ عزت واال وہ ہے جو واال ہے :
(الف) زیادہ تقوی واال ہو (ب) زیادہ مرتبہ واال ہوں
(د) زیادہ دولت واال ہوں (ج) زیادہ علم واال ہو
er
جواب :
t
en
٢۔ الف ١۔ ج
C
عدل اجتماعی
ِ
h
(الف) مندرجہ ذیل سواالت کے تفصیلی جوابات تحریر کریں :
is
gl
١۔ عدل اجتماعی کو نظر انداز کرنے سے کون سی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں ؟
En
عدل اجتماعی کو نظر انداز کریں گے تو مختلف معاشرتی برائیاں عام ہوتی چلی
ِ جواب :اگر ہم معاشرے کی مختلف سطح پر
جائیں گی۔
١۔ حکومتی اور سیاسی سطح پر عدل اجتماعی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اقرباء پروری ،رشوت خوری ،بدعنوانی اور
F
عدل اجتماعی کو نظر انداز کرنے سے ظلم و زیادتی اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ طبقاتی محرومی میں ِ ٢۔ عدالتی سطح پر
اضافہ ہوتا ہے جو آگے چل کر ملک میں فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے۔ بے قصور لوگ جب ظلم و زیادتی کا شکار ہوتے ہیں اور
پرسان حال نہیں ہوتا تو نتیجتا ً وہ بدلہ لینے کے لیے جرائم کی دنیا میں داخل ہوجاتے ہیں۔ دہشت گردی میں اضافہ ہوتا
ِ کوئی ان کا
ہے۔
عدل اجتماعی کو نظر انداز کرنا طبقاتی محرومی،احساس کمتری اور مایوسی کا سبب بنتا ہے ،جو دہشت گردی
ِ ٣۔ معیشت میں
اور دیگر جرائم کو جنم دیتے ہیں ۔
عدل اجتماعی قائم کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے ؟
٢۔ آپ کی نظر میں ِ
عدالتی عدل :عدالتی عدل قائم کیا جائے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مظلوم کسی حاکم یا جج کے سامنے کوئی فریاد لے
کر جائے تو بغیر سفارش اور بغیر رشوت کے اسے انصاف مل سکے۔ کسی شخص کی غربت یا معاشرے میں اس کی کمزور
حیثیت حصول انصاف کے لئے اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے اور نہ یہ ہو کہ کوئی شخص اپنے منصب یا دولت کی وجہ سے
انصاف پر اثرانداز ہوسکے۔
er
معاشی عدل :معاشی عدل قائم کیا جائے۔ آجر اجیر کے ساتھ اور اجیر آجر کے ساتھ عدل کرے۔ سرمایہ کاروں ،سرمایہ داروں،
صنعتکاروں ،تاجروں ،دکانداروں اور صارفین سبھی کا اپنی اپنی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ عدل ہو۔
t
en
مذہبی عدل :مذہبی عدل قائم کیا جائے۔ لیکن مذہبی عدل کے فقدان نے فرقہ واریت کو ہوا دی اور اسالم کے ٰ
اعلی اصولوں کو
اختیار کرنے کی ترغیب دینے والے حاالت پیدا کرنے کے بجائے ان سے گریز کرنے والے حاالت پیدا کیے گئے۔
C
(ب) مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات تحریر کریں :
h
عدل اجتماعی کے معنی اور اس کا مطلب بیان کریں ۔
١۔ ِ
is
gl
جواب :عدل عربی زبان کا لفظ ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں سیدھا کرنا ،برابری کرنا۔ دو چیزوں کے درمیان موازنہ کرنا۔ دو
حالتوں میں توسط اختیار کرنا۔ اصطالح میں عدل کا مفہوم بہت وسیع ہے کسی چیز کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا اس طرح
En
کہ دونوں میں کمی بیشی نہ ہو۔ کسی چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھنا۔ یعنی قول و عمل میں سچائی کی میزان کو کسی ایک
طرف جھکنے نہ دینا ،وہی کام کرنا چاہیے اور وہی بات کہنی چاہیے جو سچائی کی کسوٹی پر پوری اترے۔ نیز ہر شخص کے
ساتھ بال رو رعایت معاملہ کیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔
F
٢۔ قرآن کریم عدل اجتماعی کے بارے میں کیا رہنمائی کرتا ہے ۔
M
جواب :قرآن کریم میں ارشاد پاک ہے ،ترجمہ :بے شک ہللا انصاف کرنے کا اور بھالئی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا
حکم کرتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے ،تمہیں سمجھتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ (سورۃالنحل ،آیت)٩٠:
اس آیت کے نازل ہونے کا مقصد یہی ہے کہ تمام انسان اپنی اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف کے ساتھ رہیں ،ظلم و زیادتی کو
ختم کریں تاکہ ان کی معاشرتی زندگی امن و سکون کا گہوارہ بن جائے۔
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" نشان لگائیں :
٢۔ قران کریم میں حکم ہے عدل کرو ،کیونکہ وہ زیادہ قریب ہے:
ٰ
تقوی کو (الف) نیکی کو (ب)
(ج) جنت کو (د) فرمابرداری کو
جواب :
t er
en
٣۔ الف ٢۔ ب ١۔ ج
جواب) عفت و حیاء کے مظاہر :انسان کے عفت و حیاء کا تعلق نہ صرف اس کے کردار و عمل سے ہے بلکہ اس کی سوچ
En
و فکر ،گفتار و انداز میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ چنانچہ ہر انسان اور خصوصی طور پر ایک مسلمان مرد و عورت کو اپنی
طرز زندگی میں عفت و حیاء کو اولیت دینی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کے باعزت ،کارآمد شہری اور آخرت کے لئے مستعد شمار
ہو ،ذیل میں وہ باتیں قابل توجہ ہیں جن میں عفت و حیاء کی عکاسی ہونا الزم ہے:
F
گفتار :مومن کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ گالی گلوچ ،بد کالمی اور نا شائستہ انداز گفتگو اپنائے ،بلکہ اس کو اچھی بات یا
M
خاموشی اختیار کرنی چاہیے ،اور نازیبا گفتگو سے بچنا چاہیے ،اور فضول باتوں سے کراہت محسوس کرے یہ گفتار کی عفت و
حیاء ہے۔
لباس :اسالم نے لباس کے دو مقاصد گنوائے ہیں ،ایک اس میں ستر ہو دوسرا زینت بھی ہو ،چنانچہ مرد و خواتین کو اپنے حیاء
اور پردے کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا لباس اختیار کرنا چاہیے جس میں یہ مقاصد حاصل ہوں ،اس اعتبار سے وہ لباس جو حیاء
اور پردہ داری کے خالف یا دوسروں سے مشابہت رکھتا ہو وہ عفت و حیاء کے خالف ہے۔
نشست و برخواست :ایک سچے مومن کو اپنی روزانہ معموالت میں ہر وقت بے حیائی اور نازیبا سرگرمیوں سے اجتناب
کرنا چاہئے ،قرآن کریم مومن مرد و عورت کو حکم فرماتا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی عفت وعصمت کی
حفاظت کریں۔ اسی طرح وہ اپنی نظر اور سوچ کو بے حیائی والی بات پر مرکوز نہ کریں ،کیونکہ ہللا تعالی فرماتا ہے ،ترجمہ:
وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو باتیں سینوں میں پوشیدہ ہیں ان کو بھی۔ (سورۃ الغافر،آیت )١٩:۔
مجلس :انسان اپنی بعض گھڑیاں کسی مجلس ،میٹنگ یا مشاورتی سرگرمی میں صرف کرتا ہے اس لئے جو بھی وقت آدمی
دوسرے لوگوں کے ساتھ گزارتا ہے اس دوران بھی اس کی حرکات ،سکنات ،گفتگو اور انداز میں عفت و حیا،ء برقرار رہنا
چاہیے۔
٢۔ عفت و حیاء کی فضیلت پر قرآن و حدیث کی روشنی میں نوٹ تحریر کریں۔
جواب)عفت و حیا کی فضیلت :عفت و حیا اسالمی اخالق کی فہرست میں روح رواں اور جان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہللا تعا
ٰلی نے مسلمانوں کو عفت و حیاء کی تعلیم دی ہے اور اس خلق عظیم کو تمام اسالمی فضائل میں بڑا قرار دیا ہے۔
er
عفت و حیاء کی فضیلت قرآن کی روشنی میں :قرآن کریم میں سچے مومن کئ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں سے
ایک "عفت" ہے ،ہللا ٰ
تعالی کا ارشاد ہے ،ترجمہ :اور (کامیاب مومن وہ ہے) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔
t
en
عفت و حیاء کی فضیلت حدیث کی روشنی میں :
اسالم کا اخالق حیاء :رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے" ،ہر دین کے کچھ اخالق ہیں اور اسالم کا اخالق
C ہے۔" (موطا امام مالک ،حدیث)٢٦٣۴:
ہللا حیا کو پسند کرتا ہے :دوسری حدیث میں ہے" ،یقی ًنا ہللا ٰ
تعالی حیادار اور پردہ پوشی کرنے واال ہے اور خود حیاء اور پردہ
h
پوشی کو پسند کرتا ہے۔" (سن ابی داود،حدیث)۴٠١٢:
is
جو چاہے کرتے پھرو :حیا ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان بڑے سے بڑے رزائل سے بچ جاتا ہے۔ جب کہ
gl
جس شخص سے یہ صفت مفقود ہو جاتی ہے تو وہ کسی شر اور گناہ کے ارتکاب کی کوئی پرواہ نہیں کرتا نہ اس کو ندامت ہوتی
En
ت حال کے پیش نظر حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"،جب تم میں حیاء ہی نہ رہے تو جو چاہے ہے ،اس صور ِ
کرتے پھرو۔ " (سنن ابی داود ،حدیث )۴٧٩٧:۔
دین اسالم میں عفت و حیاء کی اہمیت :شرم و حیاء ایک مسلمان کی شناخت اور اسالمی معاشرے کی بنیاد ہے۔ جواب) ِ
اسالمی معاشرہ و نظام میں شرم و حیاء کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
بدنظری کی ممانعت :قرآن کریم میں بدنظری یا دوسرے الفاظ میں کسی غیر محرم کو دیکھنے سے سختی سے منع کیا گیا
ہے۔ اگر بد نظری پر ہی قابو پا لیا جائے تو ساری بے حیائیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ ارشاد باری ٰ
تعالی ہے ،ترجمہ :اے نبی! مومن
مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی
نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (سورۃالنور)
جواب " :عفت" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی ہیں پرہیزگاری اور پاکیزگی۔ اور عفت کا شرعی مفہوم ہے :پاک دامن
رہنا،اخالقی پاکیزگی اور نفسانی خواہشات کو قابو میں رکھ کر بے راہ روی ،بدکاری ،بے حیائی جیسے کاموں سے نفس کو
محفوظ رکھنا۔ اس کے ساتھ دوسرا لفظ آتا ہے "عصمت" کا جس کی معنی ہے پاک دامنی ،بے گناہی اور عزت۔
جواب " :حیا" کے لفظی معنی ہیں شرم اور غیرت ،حیا کا مطلب ہے ،انسان کے اندر ایک فطری اور اخالقی صفت ودیعت کی
گئی ہے ،جس کے باعث وہ انسان خوف خدا کے جذبے کے تحت بے حیائی اور بد اخالقی جیسے ناشائستہ کام سے اپنے آپ کو
er
بچا لیتا ہے اور برائی سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔
t
٣۔ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی عفت و حیاء کو حدیث میں کس طرح بیان کیا گیا ہے ؟
en
جواب :حضرت ابوسعید رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ :ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سب سے بڑھ کر
C
عفت و حیاء کے پیکر تھے ،آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کسی پردہ نشین عورت سے زیادہ حیاء دار تھے اور کوئی ناپسند چیز
دیکھتے تو ہمیں اس کا احساس آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ہو جاتا جبکہ فحش باتوں سے آپ کریم صلی
ہللا علیہ وسلم کو طبعی نفرت تھی۔
h
is
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب کے سامنے "درست" نشان لگائیں۔
gl
۴۔ حدیث میں ایمان کی شاخوں کی تعداد فرمائی گئی ہیں :
(الف) پچاس سے زیادہ (ب) ساٹھ سے زیادہ
(د) اسی سے زیادہ (ج) ستر سے زیادہ
جواب :
t er
en
C
h
is
gl
En
F
M
١۔ حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کے فضائل کے بارے میں حضور کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے کیا
فرمایا؟
جواب) حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کے فضائل :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی مبارک زبان سے آپ رضی
ہللا عنہ کے فضائل کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں۔
er
جنت کے نوجوانوں کے سردار :حضور اقدس صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ "حضرت فاطمہ الزہراء رضی ہللا عنہا
جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی ہللا عنھما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔" (سنن ترمذی ،حدیث
t
)٣٧٨١:
en
مجھ سے محبت اور مجھ سے بغض :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا"،جو شخص حسن اور حسین سے محبت
C
کرتا ہے وہ گویا مجھ سے محبت کرتا ہے ،اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ گویا مجھ سے بغض رکھتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ،
حدیث )١۴٣:
h
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے :آپ کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا" ،حسین مجھ سے ہے اور میں حسین
is
سے ،جس کی حسین سے محبت ہو گی ہللا تعالی اس کو محبوب رکھے گا۔ میرے نواسوں میں سے حسین ایک نواسہ ہے۔" (سنن
ابن ماجہ ،حدیث )١۴۴:
gl
En
جرات و سخا :حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے اپنی ہیبت و سرداری حسن کو اور جرات وسخا حسین کو عطا
کی (المعجم الکبیر للطبرانی ،حدیث)١٨۵٠٨:
٢۔ واقعہ کربال کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ اس پر ایک مختصر نوٹ تحریر کریں ۔
F
M
حضرت مسلم بن عقیل رضی ہللا عنہ کو کوفہ بھیجنا :آپ رضی ہللا عنہ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل
رضی ہللا عنہ کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ جا کر حاالت کا جائزہ لیں ۔
حضرت مسلم رضی ہللا عنہ کا اطالق بھیجنا :اسی دوران مسلم بن عقیل رضی ہللا عنہ نے حضرت امام حسین رضی ہللا
عنہ کو اطالع دی کہ آپ رضی ہللا عنہ کوفہ آجائیں اور کوفہ کے لوگ میرے ہاتھ پر آپ رضی ہللا عنہ کی بیعت کر چکے ہیں۔
ادھر ابن زیاد نے مسلم بن عقیل رضی ہللا عنہ کو شہید کروا دیا۔
حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کا کربال پہنچنا :حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ٨ذی
الحجہ ٦٠ہجری کو مکہ مکرمہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔ چوبیس دنوں کا نہایت طویل اور کٹھن سفر طے کر کے ٢محرم
الحرام ٦١ہجری کو مقام کربال پہنچے۔
باطل کے سامنے جھکنے سے انکار :یزیدی لشکر کے کمانڈر عمر بن سعد نے حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کو یزید
کی بیعت پر اصرار کیا اور اس بات چیت کا سلسلہ دو محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک چلتا رہا ،مگر حضرت امام حسین
رضی ہللا عنہ نے یزید کی بیعت اور باطل کے سامنے جھکنے سے صاف انکار کردیا ۔
er
شہادت امام حسین رضی ہللا عنہ :باآلخر ١٠محرم الحرام ٦١ہجری کو حق و باطل کا معرکہ ہوا ،جس میں حضرت امام
حسین رضی ہللا عنہ نے اپنے اہل و عیال اور جان نثاران کے ساتھ بھوک اور پیاس کی حالت میں شہید کر دیئے گئے ۔
t
en
حرف آخر :اس طرح حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ نے دین اسالم کی سربلندی اور کلمہ حق کی برتری کے لیے عظیم
عالم اسالم کے لئے ایک مثال قائم کر دی۔
الشان قربانی دے کر ِ
C
(ب) مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات تحریر کریں :
h
١۔ حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کا سلسلہ نسب بیان کریں ۔
is
gl
٢۔ حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ نے ایک آدمی کے وضو کو کس طرح درست کروایا ۔
جواب :ایک دفعہ آپ رضی ہللا عنہ اپنے بھائی سیدنا امام حسن رضی ہللا عنہ کے ساتھ مسجد میں تھے کہ آپ رضی ہللا عنہ نے
دیکھا کہ ایک آدمی وضو کر رہا ہے ،لیکن اس کا وضو کرنے کا طریقہ درست نہیں تھا ،تو آپ رضی ہللا عنہ نے ان سے
F
فرمایا ":اے چچا! ہم چھوٹے ہیں ،وضو کر رہے ہیں ،دیکھنا کہیں وضو میں غلطی تو نہیں کرتے۔" جب آپ رضی ہللا عنہ نے
M
وضو کیا تو وہ آدمی دیکھ کر متنبہ ہوگیا کہ یہ دونوں تو وضو صحیح کر رہے ہیں ،مگر میرا وضو درست نہیں۔" (بحار االنوار،
امام مجلسی،ج ،۴٣ص )٣١٩۔
(ج) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب پر "درست" کا نشان لگائیں :
١۔ حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کی آخری آرام گاہ ہے:
(الف) کوفہ (ب) بصرہ
(ج) کربال (د) مدینہ منورہ
٣۔ حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ کی شہادت ٦١ھ میں ہوئی:
(الف) ١٠محرم الحرام (ب) ١۵شعبان
(ج) ١٢ربیع االول (د) ١٠شوال
جواب :
er
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ
t
en
(الف) مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات تحریر کریں:
C
١۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کا خاندانی تعارف کیا ہے؟
h
جواب :آپ رضی ہللا عنہ کا تعلق قریش کی شاخ "بنو فھر" سے تھا ،جب کہ آپ رضی ہللا عنہ کی والدہ قبیلہ بنو حارث میں سے
تھیں۔
is
gl
٢۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کی پیدائش کب ہوئی اور آپ رضی ہللا عنہ نے اپنے آپ کو دادا
کی طرف کیوں منسوب کیا؟
En
جواب :آپ رضی ہللا عنہ کی پیدائش عام الفیل کے گیارہ برس بعد ہوئی ۔ اسالم کی حمیت میں آپ رضی ہللا عنہ نے اپنے نام میں
غیر مسلم والد کا نام شامل کرنا گوارا نہ کیا اور دادا کی طرف نسبت کرکے ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کہالنے لگے۔
F
جواب :ہجرت کے نویں سال بعد یمن کی طرف سے عالقے نجران کے بعض اہل کتاب حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی
خدمت میں علمی مناظرے کے لئے حاضر ہوئے اور ناکام ہو کر باآلخر جزیہ کے لئے آمادہ ہوئے تو انہوں نے عرض کیا :یا
رسول ہللا! آپ ہمارے اوپر جو بھی جزیہ مقرر فرمائیں گے ہم وہ ادا کردیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ ایک امین آدمی بھیجیے تو آپ
کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایاٰ :ھ ٙذا ٙا ِمیْنُ ٰھ ِذ ِہ ااْل ُ ّ ٙم ِة ،ترجمہ :یہ
شخص اس امت کا امین ہے۔ (صحیح بخاری ،حدیث )۴٣٨٠:
۴۔ "سریہ سیف البحر" میں مسلمانوں کی خاص مدد کا کون سا واقعہ پیش آیا ۔
جواب :حضرت جابر بن عبدہللا رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ابو
عبیدہ رضی ہللا عنہ کو امیر بنا کر تین سو آدمیوں کا ایک لشکر ساحل کی طرف بھیجا ہم چل پڑے ہم راستے ہی میں تھے کہ
زادے راہ ختم ہو گیا ابو عبیدہ رضی ہللا عنہ نے تمام لشکر کے توشے حکم دے کر جمع کر لئے تو وہ کھجور کے دو تھلے
ہوئے ابو عبیدہ رضی ہللا عنہ ہمیں روز تھوڑا تھوڑا دیتے یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہوگیا اب ہم نے ایک ایک کھجور ملنے لگی تو
راوی کہتے ہیں :میں نے جابر رضی ہللا تعالی عنہ سے کہا ایک کھجور سے کیا پیٹ بھرتا ہوگا جابر رضی ہللا عنہ نے کہا اس
ایک کھجور کے ملنے کی حقیقت جب معلوم ہوئی کہ جب وہ بھی ختم ہوگئی یہاں تک کہ ہم (ساحل) سمندر پر پہنچ گئے تو دیکھا
کہ ایک مچھلی پہاڑی کی طرح موجود ہے اس لشکر نے وہ مچھلی اٹھارہ دن تک کھائی پھرحضرت ابو عبیدہ رضی ہللا عنہ نے
اس مچھلی کی دو پسلیاں کھڑی کرائیں اور ایک سواری کو اس کے نیچے سے گزارا تو بغیر اس کے لگے ہوئے سواری نیچے
سے صاف نکل گئی۔ (صحیح بخاری ،جلد دوم ،حدیث )١۵۴٩:۔
۵۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کی سادہ زندگی سے کوئی ایک مثال پیش کریں ۔
t er
جواب :حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے زمانے میں جب آپ رضی ہللا عنہ شام و فلسطین کی مہم پر لشکر کے سپہ ساالر
en
تھے کہ ایک دن امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی ہللا تعالی عنہ آپ رضی ہللا عنہ کے خیمے میں آ پہنچے تو وہاں تلوار
اور ڈھال کے عالوہ کوئی اور سامان نہیں پایا تو فرمانے لگے(" :اے ابو عبیدہ!) ضرورت کا کچھ تو سامان اپنے پاس رکھ لیا
کرو"۔ اس وقت آپ رضی ہللا عنہ نے جواب دیا کہ :اے امیر المومنین ہماری یہی (سادگی والی) حالت ہمیں بہت جلد ہماری آسائش
C
گاہ تک پہنچا دے گی۔ (مصنف عبدالرزاق ،کتاب الجامع ،باب زہد الصحابہ )٣١١ / ١١۔
h
(ب) مندرجہ ذیل سواالت کے درست جواب پر "درست" کا نشان لگائیں:
is
١۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کا نام تھا:
gl
٣۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ نے دو ملکوں کی طرف ہجرت کی :
(الف) حبشہ مدینہ منورہ (ب) مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ
(د) طائف و مدینہ منورہ (ج) شام و فلسطین
۴۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی ہللا عنہ کی وفات کا سبب تھا :
(الف) شہادت (ب) طاعون کی وبا
(د) دل کا دورہ (ج) بخار
جواب :
جابر بن حیان
er
جواب) جابر بن حیان کی علم کیمیاء میں خدمات :
علم کیمیا سے متعلق اصول :جابر بن حیان نے دواسازی اور دھات سازی میں بہت سے تجربات کیے اور نئی نئی چیزیں
t
دریافت کیں اور خاص طور سے علم کیمیا سے متعلق اصول وضع کئے جو آج تک قابل اعتبار سمجھے جاتے ہیں۔
en
قرع انبیق کی تیاری :جڑی بوٹیوں اور پھولوں کو گرم کر کے ان سے عرق نکالنے کے لیے انہوں نے "قرع انبیق" نامی آلہ
C تیار کیا ،جس کو آج کے زمانے میں قرنفل کہا جاتا ہے۔
مشہور ایجادات اور علم کیمیا میں خدمات :انہوں نے "گندھک کا تیزاب"" ،نمک کا تیزاب"" ،کاربونیٹ آرمینک سلفائیڈ"،
h
"خضاب بنانے کا طریقہ" ،دھات کو کشتہ بنانے" ،لوح پر وارنش کرنے کے طریقے ایجاد کیے۔
is
gl
مادہ کی تقسیم :یہ پہال کیمیا دان تھا جس نے مادہ کی تین حصوں میں درجہ بندی کی۔ نباتات ،حیوانات اور معدنیات۔
En
معدنیات کی تقسیم :پھر معدنیات کو بھی تین حصوں میں تقسیم کیا :بخارات میں تبدیل ہونے والی اشیاء ،آگ پر پگھلنے والی
اشیاء اور وہ اشیاء جو گرم ہو کر پھٹ جائیں۔
تیزاب کی ایجاد :مختلف دھاتی اجزاء اور کیمیائی عوامل کے ذریعہ انہوں نے ایک مادہ مائع حالت میں تیار کیا جو ہر چیز کو
F
جال رہا تھا ،اس کا نام "تیزآب" سے "تیزاب" پڑ گیا۔ اس طرح ان کی کاوشوں سے ایک نئے سائنسی فن "کیمیا" کی بنیاد پڑ گئی ۔
M
انگریزی زبان میں ترجمہ :جابر بن حیان کی بہت سی عربی کتابیں الطینی اور پھر الطینی سے انگریزی زبان میں ترجمہ
ہو کر یورپ تک پہنچ گئیں ،اس طرح ان کی بدولت یورپ علم کیمیا سے روشناس ہوا ۔
علم کیمیا سے متعلق کتابیں :علم کیمیا سے متعلق ان کی درج ذیل کتابیں ہیں :
● ایضاح
● الخواص الکبیر
● المیزان
دیگر کتابیں :جب کہ دیگر کتب فلکیات ،طبعیات ،جیومیٹری ،فلسفہ و منطق اور علم سیاسیات کے بارے میں ہیں۔
er
١۔ جابر بن حیان کے خاندان اور جائے پیدائش کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں ؟
t
جواب :جابر بن حیان کے آباؤ اجداد خراسان و سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد حیان بن عبدہللا اصل میں شام کے رہنے
en
والے تھے لیکن پھر وہ نقل مکانی کر کے طوس آئے اور یہیں پر جابر بن حیان کی والدت ہوئی۔
٣۔ جابر بن حیان بغداد کس طرح پہنچے اور وہاں ان کا کیسے استقبال ہوا ؟
gl
جواب :خلیفہ ہارون رشید جب تخت نشین ہوئے تو ان کا وزیر جعفر برمکی عالموں کی قدر کرنے واال تھا ،اسے علم ہوا کے
En
کوفہ میں ایک نوجوان علم کیمیا میں بڑی بڑی خدمات سرانجام دے رہا ہے ،تو اس نے جابر بن حیان کو بغداد باللیا۔ وہاں پر ان کا
شاندار استقبال ہوا ۔
جواب " :قرع انبیق""،گندھک کا تیزاب"" ،نمک کا تیزاب"" ،کاربونیٹ آرمینک سلفائیڈ"" ،خضاب بنانے کا طریقہ" ،دھات کو کشتہ
بنانے"" ،لوح پر وارنش کرنے کے طریقے" جابر بن حیان کی مشہور ایجادات ہیں ۔
۵۔ جابر بن حیان کی تصانیف میں سے علم کیمیا سے متعلق کتابوں کے نام بتائے ۔
er
۴۔ جابر بن حیان کی مشہور ایجاد ہے :
(الف) کمپیوٹر (ب) بلب (ج) تیزاب
t
en
۵۔ عرق نکالنے کے لیے انھوں نے ایجاد کیا :
(الف) مٹکا (ب) قرع انبیق (ج) بوتل
C جواب :
h
is
جواب) حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمۃ ہللا علیہ کی علمی و روحانی خدمات :
کتابوں کا شوق دالنا :لوگوں کو کتابوں کا شوق دالنے کے لیے آپ فرماتے "،جو کوئی بھی مہنگی کتابیں خریدے گا ،اس کی
اوالد سے کبھی علم ختم نہ ہوگا۔"۔
ٰ
الحسنی تصانیف اور ملفوظات " :جمع الجوامع" فارسی لغت چار زخیم جلدوں میں ،آداب المریدین ،مکتوبات ،شرح اسماء ہللا
اور جامع سندھی کالم آپ کی مشہور تصانیف ہیں ،جبکہ آپ کے مواعظ،اقوال و احوال کا مجموعہ "ملفوظات شریف پیر محمد
راشد روضہ دھنی" کے نام سے مشہور ہے جو آپ کے خلفاء نے مرتب کیے۔
علمی و روحانی فیض دینا :اپنے وال ِد گرامی سے سلوک میں خالفت حاصل کرنے کے بعد آپ سندھ کے عالوہ پنجاب ،کچھ
بھوج ،راجستان گجرات ،کاٹھیاواڑ اور بلوچستان تک سفر کر کے لوگوں کو علمی و روحانی فیض دیتے رہے۔
غلط رسوم و بدعات کو ختم کرنا :معاشرے کے اندر غلط رسوم و بدعات کو ختم کرنے میں بھی آپ نے مجاہدانہ کردار ادا
فرمایا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے اندر جس طرح شرک و بدعات کے خالف حضرت مجدد الف ثانی رحمة ہللا تعالی اور
شاہ ولی ہللا محدث دہلوی رحمۃ ہللا تعالی علیہ نے جہاد کرکے سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم کو جالء بخشی اور لوگوں کے
دلوں میں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کی محبت اور عقیدت کو راسخ کیا ،اسی طرح حضرت
محمد راشد روضہ دھنیرحمة ہللا علیہ نے سندھ کے اندر یہ کارنامہ سرانجام دیا ۔
er
٢۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمة ہللا علیہ کو "روضہ دھنی" کا لقب کیوں دیا گیا ۔
t
en
جواب) "روضہ دھنی" لقب دینے کی وجہ :کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک میں دودھ پیتے بچے حضرت محمد راشد
روضہ دھنی کی یہ عادت ہوگئی کہ سحری کے وقت اپنی والدہ کا دودھ پی کر سارا دن روزہ داروں کی طرح گزارتے اور مغرب
C
کی اذان کے وقت پھر دودھ کے لیے اپنی ماں سے چمٹ جاتے۔ چنانچہ اس روش کے سبب آپ کو "روزہ دھنی" (روزہ واال) کہا
جانے لگا ،بعد میں آپ کے روضہ (مزار) کی طرف منسوب کر کے آپ کو "روضہ دھنی" (روضہ واال بزرگ) کہا گیا ۔
h
(ب) مندرجہ ذیل سواالت کے جوابات لکھیں :
is
تعالی علیہ سندھ کے مشہور سادات قبیلہ "راشدی خاندان" کے جدامجد ہیں ،آپ کا سلسلہ
نسب چھتیس پشتو کے بعد حضرت امام حسین بن امیرالمومنین حضرت علی کرم ہللا وجہہ سے ملتا ہے۔
جواب :آپ نے اپنے والد ،اپنے والد کے عالوہ حافظ زین الدین مھیسر رحمۃ ہللا علیہ اور میاں محمد اکرم گھمرو رحمۃ ہللا علیہ
سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔
١۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمة ہللا علیہ کا سلسلہ نسب ملتا ہے:
(الف) حضرت ابوبکر رضی ہللا عنہ سے
(ب) حضرت عباس رضی ہللا عنہ سے
(ج) حضرت امام حسین رضی ہللا عنہ سے
(د) حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ سے
٣۔ حضرت محمد راشد روضہ دھنی رحمة ہللا علیہ کی اقوال و احوال پر مشتمل کتاب ہے :
(الف) سندھی کالم (ب) تحفۃ السالکین
(د) جمع الجوامع (د) ملفوظات شریف
۴۔ اسالم کی اشاعت کے لیے آبائی وطن چھوڑ کر سکونت اختیار کی :
(الف) سیہون (ب) لک آری
(ج) میھڑ (ج) آمری
er
جواب :
t
en
۴۔ ب ٣۔ د ٢۔ ج ١۔ ج
C
h
is
gl
En
F
M