Professional Documents
Culture Documents
6473 1
6473 1
Semester: Spring,2021
جواب -:
تعارف قرآن مجید -:
ہللا تعالی نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے انبیاء کرام اور رسول بھیجے ہیں ہیں جنہوں نے
ہللا تعالی کے احکامات انسانوں تک پہنچائے اور ہدایت رہنمائی کا یہ سلسلہ ایک طویل عرصہ تک جاری رہا اور یہاں تک کہ
جب انسان عقل و شعور کی اس منزل کو پہنچ گیا کہ اب اس کی ہدایت اور رہنمائی کی مزید ضرورت باقی نہیں رہی تو ہللا تعالی
نے نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا اور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کو اپنا آخری نبی اور رسول بناکر بھیجا اور انسانوں کے لیے
تمام بیترین اصولوں کو ایک مجموعہ کی شکل میں حضرت محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے انسانوں کو عطا کردیا
جسے قرآن مجید کہتے ہیں-
قرآن مجید ہللا تعالی کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت کی آخری کتاب ہے جس میں انسانوں کی رہنمائی کے تمام بہترین اصول
بیان کر دیئے گئے ہیں۔ ہللا تعالی کی حکمت یہ تھی کہ اس سے پہلے نازل ہونے والے صحیفوں کا مقرر زمانہ گزر جانے کے
بعد اور ان کے منسوخ ہو جانے کے ہللا تعالی کی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل کیا جائے تاکہ قیامت تک انسانوں کی ہدایت و
رہنمائی کریں
قرآن مجید کی خصوصیات:۔
ایسی خصوصیات جو قرآن کریم کو کو دیگر آسمانی کتب سے سے ممتاز کرتی ہے ہے بہت ہی ہیں یہاں چند کا ذکر کیا جا رہا
ہے
نمبر 1وسعت والی کتاب-:
یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جوقر آن مجید کو ہی حاصل ہے ۔ جیسے تورات میں الفاظ "بنی اسرائیل کا خدا ہیں اور قرآن مجید
میں الفاظ رب العالمین ھیں
۔۔ قرآن مبین کی تعلیم کا جامع ہونا خصوصیت نمبر 2۔
قرآنی تعلیمات میں عقائد ،احکام ،قصے اور مثال موجود ہیں۔ یہکہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب میں زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق
رہنمائی موجود ہے
سب کو اپنے فیض سے یکساں مستفید بنانا خصوصیات نمبر 3
خصوصیات قرآن کریم میں یہ بھی ہیں اس کتاب میں میں تمام انسانیت کو رنگت اور قومیت نسل اور ملک کے امتیازات سے
باالتر ہو کر سب کو اپنے فیض سے یکساں مستفید بنایا ہے
۔ خصوصیت نمبر 4۔۔۔۔۔ سابقہ آسانی کتب کی تصدیق
ایک ممتاز خصوصیت یہ ہے کہ وہ’ قول فصل‘ ہے اور ان تمام پیچیدہ مسائل میں جن کو انسانی عقل حل نہیں کرسکتی تھی یا
جن کو کو کتب سماویہ نے ملتوی چھوڑ دیا تھا اپنا فیصلہ سنایا ایسے مسائل بہت ہیں مثال انسان کیا ہے ؟اس کو کس نے بنایا
ہے؟ ہ اس کا مقصد کیا ہے؟ مرنے کے بعد بعد کیا ہوگا؟ نیز آخرت کی کی منازل کا تذکرہ ہے
خصوصیت نمبر 6۔۔۔ حفاظت قرآن کریم
ارشاد باری تعالی ہے :إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحفظون بإن ہم نے ہی اس قرآن کوا تارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت بھی
ضرور ضرور رکھیں گے ۔ اس میں آج تک ایک لفظ کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی۔
خصوصیت نمبر 7۔۔۔ قرآن کی نظیر نہیں
ارشاد بارتعالی ہے (قـل لـن اجـتـمـعـت اإلنس والجن على أن یأتوا بمثل ھذا القران ال یأتون
بمثله ولو كان بعضھم لبعض ظھیرا)
اے رسول ﷺ کہ دیجے کہ اگر سب انسان اور تمام جن بھی جمع ہو جائیں اور ایک دوسرے کی مد دواعانت بھی کر میں اور پھر
وہ اس قرآن جیسی کوئی کتاب بنانا چاہیں تو وہ ہرگز ہرگز ایسا نہ کرسکیں گے ۔
خصوصیت نمبر 8۔۔۔
قرآن کریم تھوڈ اتھوڑ اس لئے نازل ہوا کہ جس ضرورت اور جس موقع پر وہ آیات اتر میں ان کا سمجھتا او ٹمل میں
النا آسان ہو جاۓ ۔
خصوصیت نمبر 10۔ دلوں کے لیے شفا
یایھا الناس قد جاء تكم موعظة من ربكم وشفاء لما في الصدور اے لوگو! تمہارے پاس آ ئی ہے نصیحت تمہارے رب کی طرف سے
اور شفادلوں کے روگ کی اور ہدایت اور رحمت مسلمانوں کے واسطے ۔ خصوصیت نمبر 11نصیحت پکڑنے کے لئے آسان ہے
ولقد یسرنا القران للذكر فھل من مذكر اور ہم نے آسان کر دیا قرآن سمجھنے کو
پھر ہے کوئی سوچنے واال ۔
ہللا تعال کی ذات باقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور انسان فانی ہے۔ ہللا تعالی خالق ہے اور انساں مخلوق ہے ۔قرآن
مخلوق كو خالق سے جوڑتا ہے اور انسانوں کو خدا سے مالتا ہے۔
2واحد الہامی کتاب جس کی زبان زند و ہے
قرآن و احد الہامی کتاب ہے جس کی زبان دنیا میں ایک زندہ زبان ہے اور ایک ملک میں نہیں دنیا کے کئی ممالک میں بولی
3جاتی ہے۔
ہر قوم کو اپنی مذہبی کتاب سے بہت عقیدت ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو جوعقیدت قرآن کریم سے ہے وہی عقیدت عیسائیوں کوانا
جیل سے ہوگی ۔ دنیا کے ہر خطے میں سینکڑوں مسلمان ایسے ہیں جوقر آن مجید عر بی زبان میں پورا یاد کیے ہوۓ
ہیں ۔اسالمی ممالک میں تو ایسے لوگ الکھوں پاۓ جاتے ہیں جوقر آ ن کریم کے حافظ ہوں ۔
واحد الہامی کتاب جس میں ایک جملہ انسانی کالم کانہیں
قرآن کریم میں ایک جملہ انسانی کالم کانہیں پایا جا تا یسارے کا سارا کالم الہی ہے۔ بے شک یہ سورتوں میں منقسمہے مگر
ہرسورۃ کالم الی ہے ۔ پار نمبر اوپر علیحدہ لکھا جاتا ہے اور رکوع کے نشانات حاشیے پر ہوتے ہیں یہ بے شک کالم الہی
نہیں مگر اس کے اندر جوعبارت ہے وہ سارا کالم ائی ہے۔
7۔ واحدالہامی کتاب جو پیش کر نیوالے سے متواتر منقول ہے
قرآن کریم حضرت محمد صلی ہللا علی وسلم پر نازل ہوا۔ اس کے نزول سے لے کر آج تک ہر دور میں کثیر تعداد نے پہلے
لوگوں سے سنا اور آگے منتقل کیا ۔ دنیا میں واحد الہامی کتاب جو پیش کر نے والے سے متصل اور متواتر طور پر چلی آ رہی
ہے ،صرف قرآن ہے۔
8۔ واحدالہامی کتاب جس کی نظیر النے سے دنیا عا جز ہے
نزول قرآن کے وقت سے ہی قرآن کا یہ دعوی چال آ رہا ہے کہ یہ کالم انسانی نہیں ہے ۔اگر یہ کالم انسانی ہے تو تم ایک ایسی
سورۃ بناال ؤ لیکن کوئی اس کی مشل کالم نہ ال سکا قریش مکہ میں بڑے بڑے شعرا تھے جنہیں اپنے ادب و بالغت پر ناز تھا
سب کے سب قرآن کریم کی نظیر ال نے سے عاجز رہے۔
15۔ واحدالہامی کتاب جس نے پہلے مذہبی پیشواں کو عزت بخشی
قرآن کریم میں سورۃ االنعام میں حضرت ابراہیم حضرت الحق" حضرت یعقوب پھرحضرت داد حضرت سلیمان حضرت ایوب
حضرت یوسف اور پھر حضرت موئی اور حضرت ہارون پھر حضرت زکر یا وحضرت یحی اور حضرت عیسی اور حضرت
الیائی اور پھر حضرت اسماعیل حضرت الیع حضرت یونسن اور حضرت لوط کا ذکر آیت 83سے 86تک مسلسل آ تا ہے۔ پھر
فرمایا ان کے آباءان کی اوال داور ان کے بھائیوں سے بھی ہم نے اپنے بندے چنے انہیں صراط مستقیم کی رہ
دکھائی اور انہیں کتاب وتکم اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔
پھر آ خر میں فرمایا:
أولئك الذین ھذى ہللا فبھداھم اقتدہ (پ 7االنعام )90
ی ولوگ ہیں جنہیں ہللا تعالی نے راہ پر لگایا آپﷺ بھی انہی کے رستے پر لگے رہیں ۔ قرآن کریم نے جس شاندار پیراۓ میں
حضورﷺ سے پہلے کے مذہبی پیشواؤں کو تکریم بخشی ہے اس قسم کا کوئی تسلسل ہمیں دوسری الہامی کتابوں میں نظر نہیں آ
تا۔
1.1- فضائل قرآن قرآن کی روشنی میں
-1.1 1فضائل قرآن قرآن کی روشنی میں
{الم ( )1ذلك الكتب ال ریب فیه هدى للمتقین) ترجمہ۔ اس کتاب میں کچھ شک نہیں ،راہ بتالتی ہے ڈرنے والوں کو۔
[البقر]2 ،1 :
{إن هذا القران یھدي للتي هي أقوم ویبشر المؤمنین الذین یعملون الصلحت أن لھم أجرا
كبیرا} [ االسراء ]9 :
ترجمہ۔ یہ قرآن ہال تا ہے وہ راہ جوسب سے سیدهی ہے اور خوشخبری سنا تا ہے ایمان والوں کو جو مل کر تے ہیں اچھے کہ
کے لئے ثواب ہے بڑا۔
هدى للناس وبینت من الھدى والفرقان} [ البقر ] 185 :
ترجمہ۔ قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن ،راہ پانے کی اورحق کو باطل سے جدا کر نے کی ۔
شفا ورحمت:۔
ونزل من القران ما ھو شفاء ورحمة للمؤمنین} [ السرا]82 :
ترجمہ۔ اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں جس سے بیماریاں دور ہوں اور رحمت ہوایمان والوں کے لئے لئ
ہدایت و شفا :۔
{ قل ھو للذین امنوا لھذى وشفاء } [ فصلت] 44:
ترجمہ۔ آپﷺ کہ میں کہ یہ ہدایت ہے ایمان والوں کے لئے اور ہے بیماریوں کو دور کر نے والی ۔ القران حوالد وا( الجامع الصغیر
) بیدوا امراض روحانی اور جسمانی دونوں پراثر کرتی ہے ( فیض القدیر)
معرفت حق کا ذریہ:۔
{ وإذا سمعوا ما أنزل إلى الرسول ترى أعینھم تفیض من اللمع مما عرفوا من الحقي} [المائدۃ ]83 :ترجمہ ۔ اور جب وہ سنتے ہیں اس
کو جواتر ارسول پرتو دیکھے گا ان کی آنکھوں کو آنسوں سے ابلتی ،اس لئے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔
نوروہدایت:
قد جاء كم من ہللا نور وكتب مبین( ) 15یھدى به ہللا من اتبع رضوائه} [المائدۃ ]16 ، 15:ترجمہ۔ بے شک تمہارے پاس آئی ہے ہللا
کی طرف سے روشنی اور کھلی کتاب ۔ اس سے ہللا ہدایت کرتا ہے اسے جو تابع
ہوا اس کی رضا کے۔
ظلمات سے نکالنے والی کتاب:۔
{ ھو الذي ینزل على عبدۃ أیت بینت لیخرجكم من الظلمت إلى النور} [الحدید ]9 :ترجمہ۔ وہ اتارتا ہے اپنے بندوں پر آیتیں صاف
صاف کہ وہ نکال الۓ تمہیں اندھیروں سے اجالے میں ۔
خشیت الہی کا ذریہ:۔
{ لوانزلنا ھذا القران على جبل لرایته خاشعا متصدعا من خشیة ہللا} [الحشر]21 :
ترجمہ۔ اگر ہم اس قرآن کوسی پہاڑ پرا تارتے تو آپ دیکھتے وہ دب جاتا ،ہللا کے خوف سے پچھٹ جا تا۔
9۔ کتاب نصیحت:۔
كال إنھا تذكرۃ ()11فمن شاء ذكرہ ( )12في صحف مكرمة ( )13مرفوعة مطھرۃ ( ) 14
بایدي سفرۃ( ) 15كرام بررۃ ( [ )16عبس ]11 – 16 :ترجمہ۔ یوں نہیں بی تو نصیحت ہے ۔ پھر جو کوئی چا ہے اسے یادکرے۔
لکھا ہے عزت کے ورقوں میں ۔اونچے رکھے ہوۓ صاف ستھرے ۔ان لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ۔ جو بڑے درجہ کے نیکو
کار ہیں ۔
10۔ پاکیز صحیفہ:۔
{ ألم یأن للذین امنوا أن تخشع قلوبھم لذكر ہللا وما نزل من الحق} [الحدید ] 16:ترجمہ۔ ایک وہ وقت نہیں آ یا ایمان والوں پر کہ گڑ
گڑ اکر پڑیں ان کے دل ہللا کی یاد سے اوراس سے جواتر اسچادین۔
1.2- فضائل قرآن احادیث کی روشنی میں 1۔
1.3- حضرت ابوسعید الخدری کہتے ہیں آ نحضرتﷺ نے فرمایا:۔ فضل كالم ہللا على سائر الكالم كفضل
ہللا على خلقه ترجمہ :ہللا کا کالم دوسرے ہرکالم پر وہی فضیلت رکھتا ہے جوہللا کی فضیلت اس کی
ساری مخلوق پر ہے۔ 2۔ حضرت عثمان کہتے ہیں حضو ﷺ نے فرمایا:۔
جواب:
اے ایمان والو! جب تم آ پس میں معاملہ کر وادھار کا کسی وقت مقر ر تک تو اس کولکھ لیا کرو اور چا ہئے کہ لکھ دے تمہارے
درمیان کوئی لکھنے واال انصاف سے اورا نکار نہ کرے لکھنے واال اس سے کہ لکھ دے جبیہا سکھایا اس کو ہللا نے سواس کو
چا ہیے کہ لکھ دے اور بتال تا جاۓ و پخص کہ جس پر قرض ہے اور ڈرے ہللا سے جواس کا رب ہے اور کم نہ کرے اس میں
سے پڑھ ۔ پھر اگر وخص کہ جس پرقرض ہے ،بے عقل ہے یا ضعیف ہے یا آپ نہیں بتالسکتا تو جتال دے کارگذار اس کا
انصاف سے اور گواہ کر و دوشاہد اپنے مردوں ۔ میں سے ۔ پھر اگر نہ ہوں دو مردتو ایک مرد اور دو عورتیں اور ان لوگوں میں
سے جن کو تم پسند کر تے ہو گواہوں میں تا کہ بھول جاۓ ایک ان میں سے تو یاد دال وے اس کو دوسری اور انکار نہ کر میں
گواہ جس وقت باالئے ہاو میں اور کاہلی نہ کرواس کے لکھنے سے مچوٹا ہو معاملہ یا بڑ ا اس کی معیادتک ۔ اس میں پورا
انصاف ہے ہللا کے نزدیک اور بہر درست رکھنے واال ہے گواہی کو اورنز دیک ہے کہ شبہ میں نہ پڑونگر می کہ سودا ہو
ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو اس کو آ پس میں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر اس کو بہلکھواور گواہ کرلیا کرو جب تم سودا کرو اور
نقصان نہ کرے لکھنے واال اور نہ گواہ اورارایسا کروتومی گناہ کی بات ہے تمہارے اندر اور ڈرتے رہوہللا سے اور ہللا تم
کوسکھال تا ہے اورہللا ہرایک چیز کو جانتا ہے۔ اوراگرتم سفر میں ہواور نہ پاؤ کوئی کھنے واال تو گرو ہاتھ میں رکھنی چاہئے پھر
اگر اعتبار کرے ایک دوسرے کا تو چاہئے کہ پورا کرے وہ شخص کہ جس پر انتہار کیا اپنی امانت کواور ڈرتا ہے ہللا سے
جورب ہے اس کا اورمت چھپا گواہی کو اور جوشخص اس کو چھپاوے تو بیشک گنہگار ہے دل اس کا اور ہللا تمہارے کاموں کو
خوب جانتا ہے۔
قرض اور ادھار کے لئے اقرار نامہ لکھنے کی ہدایت اور متعلقہ احکام :
آیات مذکورہ میں میں قانون معامالت کے اہم اصول کا بیان ہے اور اس کے بعد ضابطہ شہادت کے خاص اصول کا ذکر ہے۔آ
جکل تو زمانہ کھےلکھانے کا ہے او تحریری انسان کی زبان کی قائم مقام بن گئی ہے لیکن آ پ چودہ سوسال پہلے زمانہ کی
طرف مڑ کر دیکھئے تو اس وقت دنیا کا سب کار و بارصرف زبانی ہوتا تھا لکھنے لکھانے اور دستاویز مہیا کرنے کا اصول نہ
تھا سب سے پہلے قرآن نے اس طرف توجہ دالئی اور فر مایا:
إذا تداینتم بذین إلى أجل مسمى فاكتبوہ عن جب تم آ پس میں ادھار کا معاملہ کیا کر کسی معین مدت کے لئے تو اس کولکھ لیا کرو۔
اس میں ایک اصول یہ تال یا کہ ادھار کے معامالت کی دستاویکھنی چاہئے تا کہ بھول چوک یا انکار کے وقت کام آۓ ۔ دوسرا
مسئلہ یہ بیان فرمایا گیا کہ ادھار کا معاملہ جب کیا جاۓ تو اس کی میعادضر ورمقر ر کی جاۓ غیر معین مدت کے لئے
ادھار د ینالینا جائز نہیں کیونکہ اس سے جھگڑے فساد کا دروازہ کھلتا ہے
ولیكتب بینكم كاتب بالعذل لینی بیضروری ہے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے واال انصاف کے ساتھ لکھے ۔ اس میں ایک تو اس
طرف ہدایت کی گئی کہ کا حب کسی فریق کا مخصوص آ دمی نہ ہو بلکہ غیر جانبدار ہوتا کہ کسی کو شبہ اور خلجان نہ رہے،
دوسرے کا تب کو ہدایت کی گئی کہ انصاف کے ساتھ لکھے ۔دوسرے کے فانی نفع کے لئے اپنا دائمی نقصان نہ کرے اس کے
بعد کا تب کو اس کی ہدایت کی گئی کہ ہللا تعالی نے اس کو یہ ہنر دیا ہے کہ وہ لکھ سکتا ہے اس کا شکر انہ یہ ہے کہ وہ لکھنے
سے انکار نہ کرے۔
ولیملل الذي علیه الحق یعنی کھوادے وہ آدمی جس کے ذمہحق ہے مثال سوداخریدا اور قیمت کا ادھار کیا تو جس کے ذمہ ادھار
ہے وہ دستاویز کا مضمون لکھواد ے کیونکہ بیاس کی طرف سے اقرار نامہ ہوگا اورکھوانے میں بھی یہ احتمال تھا کہ
کوئی کمی بیشی کر دے اس لئے فر مایاو لیشق ہللا ربه و ال یبخس منه شیئا لعن ہللا تعالی سے جواس کا پروردگار ہے ڈرتا ر ہے
اورحق کے لکھوانے میں ذرہ برابر کمی نہ کرے ۔ معامالت میں بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص پر حق عائد ہو خفیف اعتقل
یا بوڑ ھایا نابالغ بچہ یا گونگا ہو یا کوئی دوسری زبان بولنے واال ہو جس کو کا تب نہیں سمجھتا اس لئے دستاویز لکھوانے پر اس
کو قدرت نہیں ہوتی اس لئے اس کے بعد فر مایا کہ اگر ایسی صورت پیش آۓ تو ان کی طرف سے ان کا ولی لکھوا دے ۔ مجنون
اور نا بالغ کی طرف سے تو ولی کا ہونا ظاہر ہے کہ ان کے سارے معامالت ولی ہی کی معرفت ہوا کر تے ہیں اور گونگے یا
دوسری زبان بول نے والے کا ولی بھی یہ کام کرسکتا ہے اور اگر وہ کسی کو اپنا وکیل بنادے تو بھی ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں اس
جبکہ لفظ ولی دونوں معنے پر حاوی ہے ۔
سوال نمبر 4
جواب:
اورمت پکڑاؤ بے عقلوں کو اپنے وہ مال جن کو بنایا ہے ہللا نے تمہارے گذران کا سبب اوران کو اس میں سے کھال تے اور
پہناتے رہواور کہوان سے بات معقول۔
ال سرمایزندگی ہے اور اس کی حفاظت الزمی ہے :ان آیات میں ایک طرف تو مال کی اہمیت اور انسانی معاش میں اس کا بڑاخل
ہونا بیان فرما کر اس کی حفاظت کا داعیہ قلوب میں پیدا کیا گیا۔ دوسری طرف حفاظت اموال کے متعلق ایک عام کوتاہی کی
اصالح فرمائی گئی ،وہ یہ کہ بہت سے آدی طبعی محبت سے مغلوب ہو کر نا تجربہ کار نابالغ بچوں اور نا واقف عورتوں کو
اپنے اموال حوالہ کر دیتے ہیں جس کا الزمی نتیجہ مال کی بر بادی اور بہت جلد افالس و تنگدستی ہوتی ہے ۔ عورتوں بچوں اور
کم عقلوں کو اموال سپر دنہ کئے جائیں:۔
مفسر قر آن حضرت عبدہللا بن عباس بیان فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت میں یہ ہدایت فرمائی کہ اپنا پورا ۔ مال کم عقل
بچوں عورتوں کے سپر د کر کے خودان کے محتاج نہ بنو ،بلکہ ہللا تعالی نے تم کوقوام اور منتظم بنایا ہے تم مال کوخودا پی
حفاظت میں رکھ ک ر بقذ رضرورت ان کے کھالنے پہنانے پر خرچ کرتے رہو اور اگر وہ مال کو اپنے قبضہ میں لینے کا مطالبہ
بھی کر میں تو ان کو معقول بات کہہ کر سمجھا دو جس میں دل شکنی بھی نہ ہواور مال بھی ضائع نہ ہونے پاۓ مثال یہ کہ دو کہ
یسب تمہارے ہی لئے رکھا ہے ،ذراتم ہوشیار ہو جاگے تو تمہیں دے دیا جاۓ گا۔ مال کی حفاظت ضروری امر ہے اور اس کو
ضائع کرنا گناہ ہے اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوۓ کوئی شخص مقتول ہو جاۓ تو شہید ہے ،جیسا کہ جان کی حفاظت کرتے
ہوۓ مقتول ہونے پر شہادت کا درجہ موعود ہے ،آنحضرت (صلی ہللا
علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :اپنے مال کی حفالت کرتے ہوۓ جونص مقتول ہو جاۓ وہ شہید ہے( مینی ثواب کے اعتبار سے
شہیدوں میں ثار ہے)۔ نیک آدمی کے لئے اس کا اچھا اور پاکیزہ مال بہترین متاع حیات ہے‘ ۔ جوخص ہللا عز وجل سے ڈرتا ہواس
کی مال داری میں دین کا کوئی حرج نہیں‘۔ اسی طرح کے لوگوں کے لئے حضور اقدس (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
دولینی تنگدستی انسان کوبعض اوقات کافر بناسکتی ہے ۔‘‘