Professional Documents
Culture Documents
مقدم ہ
الحمد للہ الذی بعث محمدا ً صلی اللہ علیسہ وسسسلم بسالحق بیسن یسدی السسساعۃ
مفرقا بین الھدی والضلل ،وبین التوحید والشرک ،وبین الجسساھلیۃ والسسسلم،
والصلۃ والسلم علی النبی الھادی الذی اتم رسالۃ ربہ غایۃ التمام ،وترک امتہ
علی المحجۃ الواضحۃ البینۃ التی ل یزیغ عنھا ال من صرف اللہ قلبہ عن الیمان
والسلم ۔
تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نسے محمسد صسلی اللسہ علیسہ وسسلم کسسو
قیامت سے پہلے ہدایت و گمراہی ،توحیسسد و شسسرک اور جسساہلیت و اسسسلم ک سے
درمیان تفریق کنندہ بناکر مبعوث فرمایا۔ اور درود وسلم ہو نبی ہادی صسسلی
اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے پروردگار کی رسالت کو ن ہایت درج سہ مکمسسل
کردیا ،اور اپنی امت کو ایسی واضح اور روشن شاہراہ پر چ ھوڑا جسسس س سے
صرف وہی شخص بھٹک سکتا ہے جس کا دل اللہ نے ایمان واسلم سسسے پھیسسر
دیا ہو ۔ اما بعد
میں نے لمبے غوروفکر کے بعد محسسوس کیسا کسہ صسوفیانہ افکسار امست
اسلم کے لئے تمام خطروں سے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔ انہیں افکار نے اس امت
کی عزت کو ذلت اور رسوائی سے تبدیل کیا ہے۔ اور اب ب ھی ی سہ افکسسار ی ہی
کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ افکار درحقیقت ایک ایسا کیڑا ہیں جو ہمسسارے لمبسسے
پائدار درخت کو گودے کو چھیدتا اور ڈھاتا جارہا ہے ،ی ہاں تسسک ک سہ اس سے رفتسسار
زمانہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ امت کسی بھی خطسرے سسے پہلسے جسسب
تک اس کیڑے سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتی اپنی مشکلت سے نجات نہیسسں
پاسکتی۔ میں نے اس سلسلے میں بحمداللہ "الفکر الصوفی" کے نام سے ایک
کتاب تصنیف کی ہے لیکن چونکہ یہ کتاب کافی ضسسخیم ہے ،اور مشسساغل میسسں
مصروف قارئین کے لئے اس کے تمام گوشوں کا احاطہ کرنسسا مشسسکل ہے اس
لئے میں نے یہ مختصر سا رسالہ تالیف کردیا تاکہ صوفیانہ افکار کسے پسسردہ میسسں
عالم اسلم کے لئے جو زبردست خطرات پوشیدہ ہیسسں ان کسسی تشسسریح کسسردی
جائے۔ ممکن ہے اس رسالہ سے امت اسلمیہ کے قائدین اور رہنمسساؤں کسسو اس
پوشیدہ اور تباہ کن آفت پر تنبیہ حاصل ہو اور وہ امت اسلمیہ ک سے جسسسم س سے
اس کے استیصال پر کمر بستہ ہوجائیں۔ پھر ان خطرات کو بیسسان کرلین سے ک سے
بعد میں نے اہل تصوف کے ساتھ بحث و گفتگو کا ایک مختصر سا نمسسونہ ب ھی
پیش کیا ہے تاکہ طالب علمسسوں کسسو ان ک سے سسساتھ بحسسث و گفتگسسو کسسی تربیسست
حاصل ہوجائے ،اور وہ یہ سیکھ لیں کہ اہل تصوف پر کسسس طسسرح حجسست قسسائم
کی جاسکتی ہے یا انہیں کس طرح صراط مسسستقیم کسسی طسسرف لیسسا جاسسسکتا
ہے ۔
اللہ سے میری دعا ہے کسہ وہ اس رسسسالہ سسے امسست اسسسلم اور طسسالبین
علوم شریعت کو نفع پہنچائے۔ اور میں ابتدا میں بھی اور خسساتمہ پسسر ب ھی اللسہ
کی حمد کرتا ہوں اور اس کے بندے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسسسلم پسسر درود
بھیجتا ہوں ۔
کتبہ
عبدالرحمن عبدالخالق
6
مقصد سے پھیردیتا ہے۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کا تسسدبر درحقیقسست الل سہ
سبحانہ وتعال ٰی کا ذکر ہے۔ کیوں کہ قرآن یسا تسو اللسہ کسے اسسماء و صسفات کسے
ذریعہ اس کی مداح ہے۔ یا اللہ نے اپنے اولیاء اور اپنے دشسسمنوں ک سے سسساتھ جسسو
سلوک کیا ہے اس کا بیان ہے۔ اور یہ سب اللہ کی مسسدح یسسا اسسسکی صسسفات کسسا
علم ،یا اس کے حکم اور شریعت میں تدبر ہے ۔ اور اس تسدبر سسے اس کسی
حکمت معلوم ہوتی ہے اور اپنی مخلسسوق کسے سسساتھ اس سسسبحانہ و تعسسال ٰی کسسی
رحمت کا پتہ لگتا ہے لیکن چونکہ اہل تصوف میں سے ہر شخص خسسود ال سٰٰہ بننسسا
چاہتا ہے اور اپنے زعم میں صفات الٰہٰی کے ساتھ متصف ہوتا ہے اس لئے اسسسے
گوارا نہیں کہ لوگ قرآن میں تدبر کرکے اللہ کی صسسفات کسسی معرفسست حاصسسل
کریں۔ چنانچہ علمہ شعرانی اپنی کتاب الکبریت الحمر میں لکھتے ہیں کہ اللہ
تعال ٰی اپنی بعض غیبی نداؤں میں کہتا ہے:
"اے میرے بندو! رات میرے لئے ہے قرآن کے لیے نہیں کہ اس کسسی تلوت
کی جائے۔ تمہارے لئے دن میں عبادت کا لمبا کام ہے ،لہٰ ذا رات ک ُسسل کسسی ک ُسسل
میرے لئے بناؤ۔ اور جب تم رات میں قرآن تلوت کرو تو میں تم سے یہ طلب
نہیں کرتا کہ تم اس کے معانی کے ساتھ ٹھہرو۔ کیوں کہ اس کے معنسسی تسسم کسسو
مشاہدہ سے پراگندہ کردیں گ ے ۔ ایک آیت تسسم کسسو میسسری جنسست ،اور اس میسسں
میرے اولیاء کے لئے تیار کی ہوئی نعمت کی طرف لے جائے گی۔ پھر جسسب تسسم
میری جنت میں حور کے ساتھ نرم و نسسازک ریشسسمی گسسدوں اور توشسسکوں پسسر
آرام کررہے ہوگے تو میں کہاں ہوں گا۔ اور ایک دوسری آیت تم کو جہنسسم کسسی
طرف لے جائے گی ،اور تم اس کے طرح طرح کے عذاب کسسا معسسائنہ کروگ س ے ۔
تو جب تم اس میں مصروف ہوجاؤگے تو میں کہاں ہوں گا ۔ کوئی اور آیت تم
کو آدم یا نوح یا ھود یا صالح یا موس ٰی یا عیس س ٰی علی ہم الصسسلۃ والسسسلم ک سے
واقعہ کی طرف لے جائے گی۔ اور ایسے ہی اور بھی ۔حالنکہ میسسں نسے تسسم کسسو
تدبر کرنے کا حکم صرف اس لئے دیا ہے کہ تم اپنے دل ک سے سسساتھ میسسرے اوپسسر
مجتمع ہوجاؤ۔ باقی رہا احکام مستنبط کرنا تو اس کسے لئے دوسسسرا وقسست ہے
اور یہاں بڑا بلند تر مقام ہے۔ )الکبریت الحمر' بر حاشسسیہ الیسسواقیت والجسسواہر
ص (12
واضح رہے کہ شعرانی کی یہ بات زبردست دہریت ہے۔ آخسسر الل سہ ن سے وہ
بات کہاں کہی جسے شعرانی نے گھڑ لیا ہے۔۔۔اور بھل الل سہ تعسسال ٰی ایسسسی بسسات
کہے گا کیسے جب کہ یہ اس کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی الل سہ علی سہ
وسلم پر نازل کیے گئے قرآن برحق کے خلف ہے ۔ قسرآن میسں اللسہ تعسال ٰی کسا
ارشاد ہے ۔
ك ّلَيّدّبُروا آَياِتِه ٍ)ص(29: ك ُمَباَر ٌب َأنَزْلَناُه ِإَلْي َ
ِكَتا ٌ
یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیتوں
میں تدبر کریں ۔
اور ارشاد ہے:
ب َأْقَفاُلَها )محمد ( 24 :
عَلى ُقُلو ٍن َأْم َن اْلُقْرآ َ ل َيَتَدّبُرو ََأَف َ
وہ لوگ قرآن میں تدبرکیوں نہیں کرتے ،کیا دلوں پر تالے پڑگئے ہیں ۔
اور فرمایا:
عيِد )قـ ( 45 : ف َو ِخا ُ ن َمن َي َ َفَذّكْر ِباْلُقْرآ ِ
آپ قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کریں جو میری وعید سے ڈرتا ہو ۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کسہ آپ رات میسسں تہجسسد کسے
اندر قرآن مجید کی تلوت فرمسساتے اور جسسب کسسسی ایسسسی آیسست سسے گزرتسے
6
جس میں جنت کا ذکر ہوتا تو اس آیت کے پاس رک کر اللہ عزوجل سے دعسسا
فرماتے۔ اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب کی وعیسسد اور
دھمکی ہوتی تو اس آیت کے پاس رک کسر اللسہ سسبحانہ سسے دعسا فرمساتے اور
جہنم سے پناہ مانگتے۔ یہ بات صحیح حدیث میسسں حضسسرت عبسسداللہ بسسن مسسسعود
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ مگر اہل تصوف کہتے ہیں کہ رات میں قرآن کسسی
تلوت کرنا اور تہجد پڑھنا ایک ایسا مشغلہ جس میں پھنس کر آدمی اللہ س سے
پھر جاتا ہے۔ حالنکہ رات کا قیام وہ عظیم تریسسن فریضسہ ہے جسسو اللسہ نسے اپنسے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لئے مقرر فرمایا تھا کہ آپ اس کی بدولت
قیامت کے روز عظیم ترین مقام پر فائز ہوسکیں۔ چنانچہ اللہ تعال ٰی کا ارشسساد
ہے
حُمودًا )السراء ( 79 : ك َمَقامًا ّم ْ
ك َرّب َسى َأن َيْبَعَث َ عَ ك َجْد ِبِه َناِفَلًة ّل َ
ل َفَتَه ّ
ن الّلْي ِ
َوِم َ
اور )اے پیغمبر!( رات میں آپ قرآن کے ساتھ تہجد پڑھیں جو آپ کے لئے زائد
ہے ۔ قریب ہے آپ کا پروردگارآپ کو مقام محمود پر بھیجے ۔
غور فرمائیے کہ اللہ تعال ٰی نے پیغمبروں کے لئے مقام محمود کسسو رات
میں قرآن کے ساتھ آپ کے تہجد پڑھنے کا ثمرہ قرار دیا ہے۔ اور یہ پہل حکم تھا
جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعال ٰی کسسا ارشسساد
ہے
ل اْلُقْرآ َ
ن عَلْيِه َوَرّت ِ
ل )َ (3أْو ِزْد َ
ص ِمْنُه َقِلي ً
صَفُه َأِو انُق ْل )ِ (2ن ْ ل ِإلّ َقِلي ً
ل )ُ (1قِم الّلْي َ َيا َأّيَها اْلُمّزّم ُ
ل ) المّزّمل (4 -3 َتْرِتي ً
اے کمبل پوش! رات میں قیام کر )تہجد پڑھ( مگر تھوڑا ،آدھا یا اس سے کم
یا اس پر کچھ اضافہ کر ،اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ
یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ جھوٹے )اہل تصوف( لوگوں کو اس بہانے قرآن
مجید سے پھیرتے ہیں کہ یہ ایک مشغلہ ہے جس میں پھنس کسسر آدمسسی اللسہ کسسی
عبادت سے پھر جاتا ہے پس غور فرمایئے کہ اس سے بڑھ کر تلبیس اور فریب
کاری کیا ہوگی ۔
)ب( اہل تصوف کا یہ خیال ہے کسہ ان مبتسسدعانہ اوراد ووظسسائف قسسرآن
مجید سے افضل ہیں۔ چنانچہ احمد تیجانی وغیرہ کہتے ہیں کہ "نماز فاتح" )جسسو
ان کی اپنی ایجاد و اختراع ہے( روئے زمین پر پڑھے جانے والے تمام اذکار سے
چھ ہزار گنا زیادہ افضل ہے ۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کسہ لسسوگ قسسرآن مجیسسد کسسو چ ھوڑ کسسر مبتسسدعانہ اوراد
ووظائف میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔
)ج( اہل تصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس
کی تفسیر کرتا ہے اسے عذاب ہوگا۔ کیوں کہ قسسرآن کسے کچسھ اسسسرار و رمسسوز
ہیں۔ اور ظاہر و باطن ہیں۔ انہیں بڑے بڑے شیوخ کے سوا کسسوئی سسسمجھ نہیسسں
سکتا۔ اور جو شخص اس کی تفسیر یا فہم کی ذرا سی ب ھی کوشسسش کسسرے
گا اسے اللہ عزوجل سزا دے گا ۔
)د( اہل تصوف قرآن و حدیث کو شریعت اور علسم ظساہر کہتسے ہیسں ۔
جب کہ دوسرے علوم لدنیہ ان کے خیال میں قرآن سے زیادہ مکمل اور بلند تر
ہیں۔ چنانچہ ابویزید بسطامی کہتے ہیں :خضنا بحرا ً وقف النبیساء بسساحلہ۔ ہ ہم
نے ایک ایسے سمندر میں غوطہ لگایا کہ جس کے سسساحل ہی پسر انبیساء ک ھڑے
ہیں ۔ اور ابن سبعین کہتا ہے :لقد حجر ابن آمنہ واسسسعا اذ قسسال ل نسسبی بعسسدی ۔
یعنی آمنہ کے بیٹے نے یہ کہہ کر کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ایک کشادہ چیسسز کسسو
تنگ کردیا ۔
6
قرآن و حدیث کی لکھی ہوئی خبیث باطنی تاویلت کا تتبع شروع کردیسسں تسسو
دسیوں دفتر جمع ہوجائیں گے ،جسسو سسسب کسے سسسب اسسی قسسسم کسے ہذیان ،
افتراء اور اللہ پر بل علم گھڑی ہوئی باتوں سے پر ہوں گسے۔ اور اوپسسر سسے یسہ
زعم بھی ہوگا کہ یہی معنی قرآن کے حقیقی معانی ہیں ۔
افسوس ہے کہ قرآن وحسسدیث ک سے اس بسساطنی من ہج پسسر اس گسسروہ ک سے
پیروکار آج تک کاربند ہیں۔ بلکسہ ان صسسوفیانہ خرافسسات کسسی تصسسدیق میسسں مبتل
ہونے والوں کے لئے یہ خصوصسسی نہ ہج اور اسسسلوب بسسن چکسسا ہہہے۔ تسسم مصسسطف ٰی
محمود کی کتاب "القرآن محاولۃ لتفسیر عصری" دیک ھو یسسا وہ کتسابیں دیک ھو
جنہیں نام نہاد جمہوری سودانی پارٹی کے لیڈر محمود محمد طسہ سسسودانی نسے
تالیف کیا ہے تو تمہیں ان عجیب و غریب نمونسسوں کسسا علسسم ہوگسسا جسسو صسسوفیانہ
افکار کے زیر اثر وجود میں آکسسر مسسسلمانوں کسے سسسامنے قسسرآن وحسسدیث کسسی
باطنی تاویلت کے لباس میں ظاہر ہوئے ہیں ۔
بعض نمونے پیش خدمت ہیں:
المحاولہ العصریہ لتفسیر القرآن )قرآن کریم کی عصسسری •
تفسیر کی کوشش( جسے ڈاکٹر مصسسطف ٰی محمسسود ن سے مصسسری رسسسالہ
صباح الخیر کے صفحات پر قلمبند کیا۔ پھر اسے "القرآن محسساولۃ لف ھم
عصری للقرآن" کے نام سے کتابی شکل میں جمع کیا۔ یہ تفسیر قسسرآن
کی نئی صوفیانہ کاوش ہے۔ اور ی سہ ڈاکسسٹر موصسسوف ک سے فکسسری اسسستاذ
محمود محمد طہ کے الفاظ میں صوفیانہ افکار کے دائرہ میں ایک وسیع
کاوش ہے ۔ چنانچہ ڈاکسسٹر موصسسوف اس کسسی تعریسسف کرت سے ہوئے اپنسسی
کتاب میں لکھتے ہیں:
"مجھے اسلمی مفکر محمود طہ ک سے "الصسسلۃ" نسسامی رسسسالہ کسسی ایسسک
نفیس تعبیر بہت ہی پسند آئی۔ موصوف نے لکھا ہے :
اللہ نے آدم کو کیچڑ یا گارے سے دھیرے دھیرے وجسسود میسسں نکسسال ۔ ولقسسد
خلقنا النسان من سللۃ من طین ہم نے انسان کو مٹی کے گارے سے پیدا کیا ۔
یہ مٹی سے درجہ بدرجہ اور قدم بقدم انسان کے پھوٹنے اور وجود میں آنے کی
بات ہے۔ یعنی ایلبا سے اسفنج ،اس سے نرم حیوانات اور ان سے چھلکے والے
حیوانات ،اور ان سے ہڈی والے حیوانات ،اور ان سے مچھلیاں ،مچھلیسسوں س سے
زمین پر گھسٹنے والے جانور ،اور ان سے چڑیاں اور چڑیوں سے چ ھاتی والسے
جانور بنتے چلے گئے۔ ی ہاں تسسک کسہ اللسہ کسے فضسسل و ہدایت اور رہنمسسائی سسے
آدمیت کا اعل ٰی مرتبہ وجود میں آیا۔ )المحاولہ ص (52
ڈاکٹر مصطف ٰی محمود کا یہ اسلمی مفکر درحقیقسست سسسودان کسسا ایسسک
زرعی انجینئر ہے جس نے تصوف کا مطالعہ کیا۔ اور اس دعسسوے تسسک پہنچسسا ک سہ
اس سے تمام شرعی احکام ساقط ہوگئے ہیں۔ )اور وہ مکلف نہیسسں رہ گیسساہے(
کیوں کہ وہ یقین کے مرحلے تک پہنچ گیا ہے ۔ اس کی کتاب تسسو و ہی نمسساز ک سے
متعلق ہے جس سے ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے مسسذکورہ عبسسارت نقسسل کسسی ہے ۔
اس کے علوہ اس کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس
کی ایک کتاب " تفسیر قرآن کی عصری کاوش" کے رد میں بھی ہے ۔
اور ڈاکٹر موصوف کو محمود محمد طہ کی کتاب الصلۃ کسسی جسسو بسسات
پسند آئی ،اور جسے ہم ابھی نقل کرچکے ہیں ،وہ درحقیقت آدم علی سہ السسسلم
کی پیدائش کے معاملے میسسں ڈارون ک سے نظری سے کسسو گھسسسیڑنے کسسی عجیسسب و
غریب کوشش ہے۔ حالنکہ اب اس نظریہ پر کسسسی کسسو یقیسسن نہیسسں رہ گیسسا ہے
سوائے ان لوگوں کے جو ہر قسم کے اوٹ پٹانگ خیال کو لے کر اس سے اللسسہ
6
عزوجل کے کلم کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتے ہیسں۔ اور یسہ دعسو ٰی کرتسے ہیسں کسہ
انہیں یہ بات کشف اور مجاہدہ کے ذریعسے معلسوم ہوئی ہے۔ حسالنکہ وہ محسسض
کافروں اور ملحدوں کے افکار و خیالت کی نقل ہوتی ہے جسسس پسسر وہ قسسرآن
کریم کی آیات کا لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
باقی رہی یہ بات کہ تفسیر و تعبیر قسسرآن کسسی عصسسری کسساوش صسوفیانہ
افکار کے دائرہ سے اٹھی ہے تو اس کی دلیل قرآن کے متعلق ڈاکٹر مصسسطف ٰی
محمود کی حسب ذیل عبارتیں ہیں:
)الف( ڈاکٹر محمود مصطف ٰی نے "اسماء الل سہ" ک سے عنسسوان س سے پسسوری
ایک فصل قلمبند کی ہے جس میں رب اور ا ِلٰہٰکے معانی کی صحیح اور سالم
معرفت وہی قرار دہی ہے جسے اہل تصوف نے دریافت کیا ہے۔ چنسسانچہ لکھتسسے
ہیں:
"اہل تصوف کہتے ہیں کہ اللہ تعال ٰی حددرجہ ظاہر ہونے کے سبب ہم س سے
پوشیدہ ہے" ۔ ص 99
اس کے بعد موصوف صوفیانہ فکسر کسی مسدح سسرائی میسں یسوں روان
دواں ہیں کہ ":صوفیا اللہ کا قرب محبت کسسی وجسہ سسے چسساہتے ہیسسں جہنسسم کسے
خوف یا جنت کی طلب کی وجہ سے نہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کائنسسات سسسے
اس کے بنانے والے کی طرف مسلسل ہجرت میں میں ہیں ۔ ص 100
پھر لکھتے ہیں کہ " :اہل تصوف کے مختلف اطوار و حالت ہوتے ہیسسں ۔
اور وہ بڑی دلچسپ رائے کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی خاص گہرائی اور معنسسی
رکھتی ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کسہ معصسیت کب ھی کب ھی طساعت سسے افضسل
ہوتی ہے۔ کیوں کہ بعض معصیتیں اللہ کے خوف اور ذل وانکسار کی طرف لے
جاتی ہیں ۔ جب کہ بعض طاقتیں تکبر اور فریب نفس میں مبتل کر دیتی ہیں ۔
اور اس طرح فرمانبردار کے مقابل میں نافرمان الل سہ تعسسال ٰی ک سے کہیسسں زیسسادہ
قریب اور باادب ہوجاتا ہے" ۔ ص 101
پھر لکھتے ہیں کہ " :صوفی اور جوگی اور راہب سب ایسک ہی راہ کسے
راہی ہیں۔ اور زندگی کے بارے میسسں سسسب کسسی ایسسک ہی منطسسق اور ایسسک ہی
اسلوب ہے جس کا نام ہے زھد" ۔ ص 101
پھر فرماتے ہیں " :جوگی اور راھب اور مسلمان صوفی سب ایک ہی
اسلوب سے اللسہ کسا قسرب اور اس کسی بارگساہ تسک رسسائی چساہتے ہیسں یعنسی
تسسسبیحات ک سے ذریع سہ۔ چنسسانچہ الل سہ کسسو ی سہ لسسوگ اس ک سے نسساموں س سے پکسسارتے
ہیں ۔"وللہ السماء الحسن ٰی فادعوہ بھا" اور اللہ کے بہہہترین نسسام ہیسسں پسسس اس
کو ان ہی ناموں سے پکارو" ۔
"اور تسبیحات )چاپ( کے ذریعہ ایک خاص قسم کا جسسوگ کیسسا جاتسسا ہے
جسے منتر یا جوگ کہتے ہیں۔ یہ ھندی )سنسکرت( زبان کے لفظ منسسترام س سے
بنا ہے ۔ جس کے معنی تسبیح یا چاپ کے ہیں ۔ اور سنسکرت کسسی ایسسک خسساص
تسبیح )چاپ( یہ ہے کہ جسسوگی خشسسوع کسے سسساتھ ہزاروں بسسار " ہری رام" کسے
الفاظ تلوت کرتا ہے ۔ یہ الفاظ ہمارے ہیں "رحمن و رحیم" کے بالمقابسسل ہیسسں ۔
اور سنسکرت زبان میں اللہ کا نام ہے۔ اور جوگی اپنی گردن میں ہزار دانسسے
کی ایک لمبی تسبیح لٹکائے رہتا ہے ۔
اس کے بعد ڈاکٹر مصطف ٰی محمود تصوف کے طریقے اور ا ہل تصسسوف
کے فہم اسلم کی تعریف کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں ،اور لکھتے ہیں:
"تصوف در حقیقت بلند مدارک کے ذریعہ ادراک کا نام ہے ۔ اور صسسوفی
عارف ہوتا ہے ۔ ص 103
6
"پھر ڈاکٹر صاحب اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ وہ یہ ب ھی یقیسسن کرت سے
ہیں کہ حواء اسی جنسسسی اختلط کسے دوران حسساملہ ہ ہوگئیں۔ چنسسانچہ وہ لکھتسے
ہیں:
"پھر ہم دیکھتے ہیں کہ درخت چکھ لینے کے بعد قسسرآن مجیسسد ان دونسسوں
کو یوں خطاب کرتا ہے کہ وہ جمع ہیں۔ چنانچہ کہتا ہے "اھبطوا بعضسسکم لبعسسض
عدو" )تم سب اتر جاؤ۔ تم میں کا بعض بعض کا دشسسمن ہوگسسا۔( حسسالنکہ اس
غلطی سے قبل انہی آیات میں خطاب مثن ٰی )دو( کسسو ہوا کرتسسا ت ھا۔ اس ک سے
معنی یہ ہیں کہ اس درخت سے کھانا تکاثر کا سبب بنا" ص 62
پھر اس ساری ہذیان کے بعد موصوف فرماتے ہیں:
"ان مسائل میں ہمارے لئے قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ بلکہ یہ
کہنا ضروری ہے کہ وہ درخت اب بھی ایک چیستاں ہے۔ اور پیسسدائش کسسا معسساملہ
اب بھی ایک غیبی معاملہ ہے جس کے بارے میں ہم اجتہاد سے زیادہ کچ سھ نہیسسں
کہہ سکتے ۔ اللہ اپنی کتاب کو بہتر جانتا ہے۔ اور صسسرف و ہی ہے جسسو اس کسسی
تاویل سے آگاہ ہے" ۔
میں کہتا ہوں کہ جب معاملہ ایسا ہے تو پھر آپ نے یقین کےسسساتھ کسسوئی
بات کیسے کہی ،اور ابھی ابھی وہ تفسیر کیسے کردی جو آپ کو شیریں لسسگ
رہی تھی۔ اور اللہ پر اور اس کی کتاب پر جو کچھ چاہا بغیر علم و ہدایت کسسے
کیسے کہہ دیا۔ اور معانی قرآن کے سلسلے میں وہ سسسارے دعسسوے کیسسے ہانسسک
دیئے جو آپ کی خواہش اور رائے کے موافق ت ھے ۔
پھر یہ کتنی عجیسسب بسسات ہے کسہ ان سسسب کسے بسساوجود ڈاکسسٹر مصسسطف ٰی
محمود خود ہی قرآن کی باطنی تفسیر کرنے والے بہائیوں پسسر زور شسسور سسے
حملہ آور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں:
"اور یہ بات حروف کے ظاہر اور کلمات و عبارات کے تقاضوں سے ہٹ
کر قرآن کی باطنی تفسسسیر کرنسے کسسی خطرنسساکی کسسو واضسسح کرتسسی ہے ۔ اور
بتلتی ہے کہ اس قسم کی تفسیریں کس طرح دین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکن سے
پر منتج ہوسکتی ہیں۔ یہ بعینہ وہی عمل ہے جسے خوارج ،اثناعشری اور بابی
فرقے قرآن مجید کو اپنے اغراض کے سانچے میں ڈھالنے اور ایسسک دوسسسرے کسسا
توڑ کرنے کے لئے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تھے" ۔
پھر ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں:
"اور یہ بات ہمیں تفسیر کے سلسسلے میسسں ایسک خساص موقسف تسک لسے
جاتی ہے جس کا التزام ضروری ہے۔ اور وہ ہے عبارت سے حرف بحرف جسسڑے
رہنا ،اور الفاظ کے ظاہر معنی سے چپکے رہنا۔ یعنی ہم کسسی بساطنی تفسسیر
کی طرف خود قرآنی الفاظ کے الہام و اشسسارہ ک سے بغیسسر منتقسسل ن سہ ہوں ۔ اور
ظاہرا ً او باطنا ً بہر صورت تفسیر ،الفاظ کے ظاہری مفہوم سے نسہ تسو ٹکراتسی
ہو اور نہ اس کی نفی کرتی ہو") ،المحاولہ ص (122,123
یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے موصسسوف نسے بسساطنی تفسسسیر کسسی
خطرناکی کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے ان سب کے باوجود خود اپن سے لئے اس
کا دروازہ کھول رکھا ہے ،تاکہ اپنی آرزو کسے مطسسابق جسسو کچسھ کہنسسا چسساہیں ک ہہ
سکیں۔ چنانچہ موصوف نے جنت اور جہنم کو حقیقی اور محسوس شسسئے ک سے
بجائے معنوی عذاب اور نعمت قرار دیا ہے۔ اور فرمایا کہ مج ھے ش سہد ناپسسسند
ہے۔ اور جب سے میں نے سنا ہے کہ جنت میں شہد کی نہریں ہوں گسسی ،میسسری
طبیعت کو انقباض ہوگیسا ہے۔ اسسی طسرح موصسوف نسے باشسندگان چیسن کسو
یاجوج ماجوج قرار دیا ہے۔ اور حدیث میں جسسس دجسسال کسسا ذکسسر ہے اس سسے
6
مراد موجودہ سائنس قرار دی ہے۔ کیوں کہ یہ سائنس ایسسک آنک سھ س سے صسسرف
دنیا کی طرف دیکھتی ہے۔ اس طرح عورتوں کے لئے تیراکی کے لباس کو اللہ
کے خلق میں تفکر کا تقاضا اور ضرورت کسسا لبسساس قسسرار دیسسا ہے۔ یسہ ان کسسی
تاویلت کامشتے نمونہ ازخروارے ہے ۔
باقی ر ہا ان کسسا اسستاد محمسسد محمسسود طسہ سسودانی ،جسسس کسی بسساتیں
موصوف نے نقل کی ہیں تو یہ وہ شخص ہے جسے تسساویلت نسے اس مقسسام تسسک
پہنچایا کہ اس نے اپنے اوپر سے شریعت سسساقط کرلسسی ۔ چنسسانچہ وہ نمسساز نہیسسں
پڑھتا۔ کیوں کہ وہ اللہ کے مرتبے کو پہنچ گیا ہے۔ اور اسے قرآن میں اشسسترکیت
مل گئی ہے۔ کیوں کہ اللہ فرماتا ہے" :ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو" )لوگ
آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیسسا خسسرچ کریسسں۔ آپ ک ہہ دیسسں کسہ زائد مسسال( عفسسو کسسا
مطلب اس شخص کے نزدیک یہ ہے کسہ مسسال اکٹ ھا کرنسسا جسسائز نہیسسں ۔ اور زائد
کمائی ساری کی ساری خرچ کردینی ضروری ہے ۔
ان ساری خرافات اور لف و گزاف کے باجود اس قسم کے خیالت کو
رواج حاصل ہوا۔ میں نے سودان کی نسسام ن ہاد جم ہوری پسسارٹی کسے ب ہت سسے
افراد سے بحث و گفتگو کی ہے۔ اور قارئین کو تعجب ہوگا ک سہ اس قسسسم ک سے
باطنی افکار کو یونیورسٹی کے اساتذہ ،وکلء ۔ مدرسین اور طلبہ نسسے اختیسسار
کر رکھا ہے۔ اور ان خیالت کی مدافعت میں عجیب جسساں سسسوزی سسے کرتسے
ہیں ۔ پس اس سے بڑھ کر خطرے کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟
کہنے وال کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ثابت کیوں نہیں کی جاسکتیں جب کہ یہ
قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں ۔ اور ہر مومن ان کی گسسواہی دیتسسا ہے ۔ اور جسسو
اس میں شک کرے وہ خود ہی کافر ہے ۔
جواب یہ ہے کہ اگر صوفی ان باتوں کو ثابت کردے تو وہ عقیسسدہ تصسسوف
ہی کو مطعون کردےگا ۔ اور اپنے اکابر اور بزرگوں کسو مشسکوک ٹھہ ہرادے گسا ۔
بلکہ اپنے بڑے بڑے رہنماؤں اور اساطین کو کافر قرار دے دے گا۔ اور نتیجہ کسسے
طور پر وہ خود تصوف کے دائرہ سے باہر ہوجسسائے گسسا۔ کیسسوں کسہ صسسوفیوں کسے
شیخ اکبر بددین ابن عربی کا دعو ٰی ہے کہ فرعون موس س ٰی علی سہ السسسلم س سے
بڑھ کر اللہ تعال ٰی کو جانتا تھا۔ اور جن لوگوں نے بچ ھڑے کسسی پوجسسا کسسی ت ھی
انہوں نے اللہ ہی کو پوجا تھا۔ کیوں کہ بچھڑا بھی ۔ اس کے خبیث عقیسسدے کسسی
وا کسسبیرا( بلک سہ
رو سے اللہ تعال ٰی ہی کا ایک روپ تھا۔ )تعال ٰی اللہ عن ٰذلسسک عل س ً
تعالی ہی کی پوجا کرتے ہیسسں ۔ ٰ اس شخص کے نزدیک بتوں کے پجاری بھی اللہ
کیوں کہ اس شخص کے نزدیک یہ سارے جدا جدا روپ بھی الل سہ ہی ک سے روپ
ہیں۔ وہ ہی سورج اور چاند ہے۔ وہی جن و انس ہے۔ وہہہی فرشسستہ اور شسسیطان
ہے۔ بلکہ وہی جنت اور جہنم ہے۔ وہی حیوان اور پیڑ پودا ہے اور وہہہی مسسٹی اور
اینٹ پتھر ہے ۔ لہٰذا زمین پر جو کچھ بھی پوجاجائے وہ اللہ کے سسسوا کچ سھ نہیسسں ۔
ابلیس بھی ابن عربی کے نزدیک اللہ تعال ٰی ہی کا ایک جزو ہے۔ )تعال ٰی اللہ عن
وا کبیرا(ذلک عل ً
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملعون عقیدہ کو ) جس سسے بسڑھ کسر گنسدہ ،
بیہودہ ،بدبودار اور بدکردار عقیدہ نہ روئے زمین نے کبھی دیک ھا ہوگسسا( صسسوفیاء
حضرات سّرالسرار )رازوں کا راز( غایتوں کی غایت ،ارادتوں کا منتہا ،پہنچے
ہوئے کاملین کا مقام اور عارفین کی امیدوں کی آخری منزل قرار دیتے ہیسسں ۔
حالنکہ یہ بددینوں ،زندیقوں ،برہمنوں ،ہندوؤں اور یونان کے پرانے فلسسسفیوں
کا عقیدہ ہے۔ اور اس کے بعد تصوف میں جو برائی بھی داخسسل ہوئی وہ یقینسا ً
اسی ملعون عقیدے کی تساریکی میسں چ ھپ کسر داخسل ہوئی ۔ اور یسہ ایسسی
حقیقت ہے کہ آج روئے زمین پر تصوف کی حقیقت کو جسساننے وال کسسوئی ب ھی
صوفی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور نہ اسے برا کہہ سسسکتا ہے۔ بلک سہ وہ زیسسادہ
ب ذوق اور ا ہل سے زیادہ یہ کہہ سسسکتا ہے کسہ ان لوگسسوں کسسا علسسم صسسرف اربسسا ِ
معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حالنکہ یہ بات واضسسح عربسسی زبسسان میسسں صسساف
صاف لکھی ہوئی ہے ۔ ان حضرات نے اسے ضخیم ضخیم جلدوں میں لکھا ہے ۔
اور نثر اور شعرا اور قصیدوں اور امثال سے اس کی شرح کی ہے ۔
البتہ بعض اہل تصوف اس سلسلے میں یہ معذرت کرتے ہیں کسہ یسہ بسسات
وجد کے غلبے اور شطحیات کے طور پر کہی گئی ہے۔مگر معلوم ہے کہ شسسطح
درحقیقت مدہوشی ،پاگل پن اور جنون کو کہتے ہیں۔ اور اہل تصوف کا دعو ٰی
ہے کہ ان کے یہ احوال کامل ترین احوال ہیں۔ اس لیئے سوال یسہ ہہہے کسہ جنسسون
اور پاگل پن کمال کیونکر ہوسکتا ہے۔ پھر جو بات دسیوں جلدوں میں لک ھی
اور مدون کی گئی ہے ،اور جسے اہل تصوف کی غایۃ الغایات اور امیدوں کی
آخسسری منسسزل قسسرار دے کسسر لوگسسوں کسسو اس دعسسوت دی جسسارہی ہے وہ بسسات
شطحیات )پاگل پن کی بات( کیسے ہوسکتی ہے؟
کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ باتیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب
کردی گئی ہیں۔۔۔۔ مگر یہ بھی حقیقت صوفیوں کے ج ھوٹ اور فریسسب کسساری
کا ایک حصہ ہے۔ میں ہر صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کسسسی معیسسن عبسسارت
کو ذکر کرکے بتائے کہ یہ غلط طسور ان کسی طسرف منسسوب کسی گئی ہے ۔ یسا
6
کسی خاص اور معین عقیدے کو ذکسسر کرکسے بتسسائے کسہ فلں لکھنسے والسے کسسی
طرف اسے غلط منسوب کیا گیا ہے۔ بھل ایسا کیسے ہوسکتا ہے ،جسب کسہ اس
سلسلہ میں پوری پوری کتاب لکسھ مسساری گئی ہیسسں۔ آراسسستہ وپیراسسستہ عقیسسدے
تصنیف کرڈالے گئے ہیں ۔ اور موزوں و خوش آہنگ قصیدے کہہ ڈالسسے گئے ہیسسں ۔
میں کسی بھی صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بتائے کہ یہ قصسسیدہ غلسسط طسسور
پر منسوب ہے۔ یا فلں معین قول غلط طور پر منسوب ہے۔ کیوں کسسہ اگسسر وہ
ایسا کہے گا تو پھر سارا کا سارا تصوف جھوٹا اور غلط انتسسساب کسسا مجمسسوعہ
بن جائےگا۔ اور یہ بات برحق بھی ہے۔ کیوں کہ تصوف کے یہ بڑے بڑے جفسسادری
یعنی حلج ،بسطامی ،جیلی ،ابن سبعین ،ابن عربی ،نابلسی ،تیجانی وغیسسرہ
وغیرہ یہ سب کے سب درحقیقت اس امت میسں غلسسط طسسور گھسسسائے گئے اور
اس امت کی طرف غلط طور پر منسسوب کئے گئے ہیسں ۔ ان ہوں نسے اللسہ اور
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اللہ کے دیسسن میسسں باطسسل بسسات
کہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا زعم ہے کسہ وہ خسود اللسہ ہے جسو کائنسات میسں
تصرف کرتا ہے ۔ اور ہر ایک کا دعو ٰی ہے کہ اللہ نے اس کائنسسات کسسا ایسسک حص سہ
اس کو سونپا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ولی کامل ہے جسسس
کے پاس صبح و شسسام وحسسی آتسسی ہے۔ بلکسہ وہ غیسسب سسے واقسسف ہے اور لسسوح
محفوظ کو پڑھتا ہے۔ اللہ نے اس کو خاتم النبیاء بنایا ہے۔ اور اسے دنیا کا قبلہ
اور ساری مخلوق کے لئے معجزہ اور مینسسار قسسرار دیسسا ہے۔ نسسبی ک سے بعسسد بسسراہ
راست اسسسی کسسا درجسہ و مقسسام ہے۔ نسسبی ان کسے نزدیسسک عسسرش رحمسسانی پسسر
مستولی و مستوی ہے۔ یعنی عرش پر محمد صلی اللہ علی سہ وسسسلم کسسی ذات
کے سوا کچھ نہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک تمسسام ذات میسسں
سب سے پہل وجود ہیں۔ اور تمام تعینات میں سب س سے پہل تعیسسن ہیسسں۔ و ہی
اللہ کے عرش پر مستوی ہیں ۔ وہ سارے انبیاء کی طرف وحی بھیجتے ہیں ۔ اور
سارے اولیاء کو الہام کرتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے خود اپنی طرف سے اپن سے پسساس
وحی بھیجی ۔ یعنی انہوں نے وحی کو آسمان پر جبریل ک سے حسسوالے کیسسا ۔ اور
زمین پر ان سے وصول کیا ۔
"مسلمانو! کبھی آپ لوگوں نے کوئی ایسا عقیدہ سنا ہے جو اس درجسسہ
بسے حیسسائی ،خسسست ،گسسراوٹ ،کفسسر اور بسے دینسسی لئے ہوئے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔یسہ ہے
صوفیوں کا عقیدہ ،اور یہ ہے ان کی میراث ،اور یہ ہے ان کا دیسسن۔۔۔۔۔بحمسسداللہ
ہم نے یہ ساری باتیں تفصیل کے ساتھ اپنسسی کتسساب "الفکرالصسسوفی فسسی ضسسوء
الکتاب والسنۃ" کے دوسرے ایڈیشن میں بیان کردی ہیں۔ اور ہر بات کے ثبوت
میں ان زندیقوں کی کتابوں سسے لمسسبی لمسسبی عبسسارتیں نقسسل کسسردی ہیسسں۔ یسہ
زندیق آج بھی دنیا کے سامنے یوں ظسساہر ہوتے ہیسسں گویسسا وہ اللسہ کسے ولسسی اور
محبوب ہیں ،دلوں کی کنجیوں کے مالک ہیں۔ اور ان کے پاس مسسسلمانوں کسو
تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لنے کے لئے تربیست کسسا ب ہترین اور افضسسل
تریسسن طریق سہ ہے۔ حسسالنکہ ی سہ ہے ان کسسا عقیسسدہ اور ی سہ ہے ان کسسا طریق سہ ،جسسو
مسلمانوں کا دین بگاڑنے اور لوگوں کو رب العالمین کے پیغام سے ہٹسسانے اور
بہکانے کا کام کرتا ہے ۔
وصال سے )یعنی بغیر پے درپے روزہ رکھنے سے( کیوں منع کرتے ہیں۔ جب کسسہ
آپ خود وصال کرتے ہیں؟ اور ایک صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں حسسج کسے احسسرام
کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکسم دے ر ہے ہیسں ،اور خسود ایسسا نہیسں کرر ہے
ہیں؟
تعالی پر اعسستراض ہوتسسا ہے ۔ یعنسسی تخلیسسق
ٰ پھر اور آگے بڑھو ۔ دیکھو اللہ
آدم کے موقع پر اس سے فرشتے کہتسے ہیسسں ":اتجعسسل فی ھا" السسخ )اے اللسہ کیسسا
زمین میں ایسی مخلوق کو بنائے گا جو فساد مچائے گسسی ۔ السسخ( اسسسی طسسرح
اللہ تعال ٰی سے موس ٰی علیہ السلم نے کہا تھا":اتھلکنا بمسسا فعسسل السسسفھآء منسسا"
)کیا تو ہمارے بیوقوفوں کی کرنی پر ہمیں ہلک کرے گا ۔(س
واضح رہے کہ صوفیوں نے یہ بات )کہ شیخ پر اعتراض نہیں کیا جاسسسکتا(
اپنے اگلوں کو خوش کرنے ،اور تابعداروں اور مریدوں پر اس کے سسسلوک کسسا
سکہ بٹھانے کے لئے ایجاد کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعال ٰی کسسا ارشسساد ہے":فاسسستخف
قومہ فاطاعوہ" )فرعون نے اپنی قوم کو حقیر جانا تو انہوں نے اس کسسی بسسات
مان لی( اور غالبا ً یہ بات انہی لوگوں نے ایجاد کی ہے جو یہ کہتسے ہیسسں کسہ بنسسدہ
جب اپنے آپ کو پہچان لے تو جو بھی کرے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ حالنکہ
یہ غایت درجہ بددینی اور گمراہی ہے۔ کیوں کہ فقہاء کا اس بات پر اجمسساع ہے
کہ عارف جس حال تک پہنچتا جاتا ہے اس پر تکلیف کسسا دائرہ اسسسی قسسدر تنسسگ
ہوجاتا ہے۔ جیسے انبیاء کے حالت ہیں کہ انہیسسں صسسغائر کسے سلسسسلہ میسسں بھہہی
تنگی کے اندر رکھا جاتا ہے۔ پس ان فسسارغ اور اثبسسات س سے خسسالی لوگسسوں کسسی
طرف کان لگانے سے خدا کے لئے بچو ،خدا کے لئے بچو ،یہ لوگ محض زنسسدیق
ہیں جنہوں نے ایک طرف مزدوروں کا لباس یعنی گدڑی اور اون پہن رکھا ہے ۔
اور دوسری طرف بے حیا اور بدکردار ملحدوں کا عمل اپنائے رکھا ہے ۔ یعنسسی
کھاتے پیتے ہیں ناچتے تھرکتے ہیں ۔ عورتوں اور لونسڈوں سسے گسسانے سسنتے ہیسں ۔
اور شریعت کے احکام چھوڑتے ہیں۔ زندیقوں نے بھی شریعت کو چھوڑنے کی
جراءت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ اھل تصوف آئے تو بدکاروں کسسی روش ب ھی
ساتھ لئے" ۔
طرف فضائل اور مقامات سلوک کی نسبت کسسی ہے۔ اور اسسے ذرا شسسرم نسہ
آئی کہ وہ ان کی ابتداء ابسسوبکر صسسدیق پ ھر خلفسساء راشسسدین رضسسی الل سہ عن ہم
اجمعین سے کرتا ہے۔ پھر اسی لڑی میں ایسے شخص کو ب ھی پروتسسا ہے جسسو
دن دھاڑے کھلم کھل لوگوں کے روبرو گدھی کے سسساتھ بسسدفعلی کرتسسا ت ھا ۔ اور
ایسے شخص کو بھی پروتا ہے جسسو زنسسدگی ب ھر غسسسل نہیسسں کرتسسا ت ھا ت ھا ،یسسا
زندگی بھر کپڑے سے ننگا رہتا تھا۔ اور ننگا ہی رہتے ہوئے جمعہ کا خطبہ دیتا تھا
۔ اور ۔۔۔اور ۔۔۔۔ہرایسا پاگل ،جھوٹا ،کذاب جس س سے زیسسادہ خسسسیس طسسبیعت
ٹیڑھے مسلک ،برے اخلق اور گندے عمل کا آدمی انسانیت نے کبھی نسسہ دیک ھا
ہوگا ،ان سب کو یہ شخص خلفائے راشدین ،صحابہ کسسرام اور اہہہل بیسست نبسسوی
اطہار جیسے اشرف واکرم انسانوں کے ساتھ ایک ہی د ھاگے میسسں پروتسسا ہے ۔
اور اس طرح یہ شخص طہارت کو نجاست کسے سسساتھ ،شسسرک کسسو توحیسسد کسے
ساتھ ،ہدایت کو گمراہی کے ساتھ اور ایمان کو زندقہ کسے سسساتھ مخلسسوط کرتسسا
ہے۔ لوگوں پر ان کا دیسسن ملتبسسس کرتسسا ہہہے۔ اور ان ک سے عقیسسدے کسسی شسسکل و
صورت مسخ کرتا ہے۔ آؤ! اور اس گناہ گار شخص ن سے اپن سے نسسامزد کی سے ہوئے
اولیاء عارفین کے جو حالت لکھے ہیں ان میں سے تھوڑا سا پڑھ لو۔ یہ شخص
سید علی وحیش نامی ایک شخص کے حالت میں لکھتا ہے کہ:
"وہ )علی وحیش( جب کسی شہر کی شیخ وغیرہ کو دیکھتا تسسو ان کسسو
ان کی گدھی سے اتار دیتا ۔ اور کہتا کہ اس کا سر پکسسڑے ر ہو ،تسساکہ میسسں اس
کے ساتھ بدفعلی کروں۔ اب اگر وہ شیخ انکار کردیتے تو زمین میں کیسسل کسسی
طرح گڑجاتے۔ اور ایک قدم بھی نہ چل سکتے۔ اور اگر بات مان لیتے تسسو بسسڑی
شرمندگی اٹھانی پڑتی )کہ وہ سر عام بدفعلی کرتا ،اور ی سہ سسسر پکسسڑے رہت سے(
اور لوگ یہ سسسارا منظسسر دیکھت سے ہوئے( و ہاں س سے گزرت سے رہت س ے۔"س )الطبقسسات
الکبر ٰی ج 2ص (135
دیکھو کہ کس طرح اس کا سید علی وحیش لوگوں کسے روبسسرو ایسسسی
حرکت کرتا تھا کیا اس کے بعد بھی کسوئی سسسوجھ بسوجھ رکھنسے وال آدمسسی یسہ
سوچ سکتا ہے کہ یہ ناپاک تصوف مسلمانوں کے دین کا حصسہ ہے۔ اور یسہ ب ھی
وہی چیز ہے کہ جس کے ساتھ پروردگار عالم کے پیغمسسبر ہادی و امیسسن محمسسد
صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے ت ھے ۔ اور کیسسا علسسی وحیسسش اور اس
قماش کے لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسسسلم کسے صسسحابہ کسسرام کسسی لئن
میں رکھنے وال ،اور ان سب کو ایک ہی راستے کسسا را ہرد قسسرار دین سے وال وال
زندیق وافاک کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے جس نے دیسسن اسسسلم کسسو ڈھانے اور
مسلمانوں کے عقائد کو برباد کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو ۔
اور شعرانی نے اس مقصد کے لئے کہ عقلیں اپنی نیند سے بیدار نہ ہوں
لوگوں کو یہ بتانے کی کوشسش کسی ہے کسہ اولیساء اللسہ کسے لئے ان کسی خساص
شریعت ہوتی ہے جس کے مطسابق وہ اللسہ کسی عبسادت کرتسے ہیسں اور اس کسا
قرب حاصل کرتے ہیں۔ چاہے اس کا ایک حصہ گدھیوں کے ساتھ بسسد فعلسسی ہی
کیوں نہ ہو۔ اسی لیے جب بھی کوئی شخص کوشش کرتا ہے کہ جاگے اور غور
کرکے ہدایت اور گمراہی اور پاکی و ناپاکی کے فرق کو سسسمجھے تسسو ی سہ لسسوگ
اس پر تلبیس و تزویر کا پھندہ ڈال دیتے ہیسسں۔ چنسسانچہ اسسسی شسسعرانی کسسو ل سے
لیجئے۔ اس نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس نے سید بسسدوی ک سے عسسرس
میسسں ہونے والسسے فسسسق و فجسسور پسسر نکیسسر کسسی ت ھی۔ ج ہاں آج ب ھی شسسہر
طنطا)مصر( کے اندر لکھوں انسان جمع ہوتے ہیسسں ۔ اور مسسردوں اور عورتسسوں
کے درمیان بہت ہی بڑا اختلط ہوتا ہے۔ بلکہ مسجدوں اور راستوں میں حسسرام
6
کاریاں ہوتی ہیں۔ رنڈی خسسانے ک ھولے جسساتے ہیسسں اور صسسوفی مسسرد اور صسسوفی
عورتیں بیچ مسجد میں ایک ساتھ ناچتے ہیں۔اور ہر حسرام کسو حلل کیسا جاتسا
ہے۔ اسی کے متعلق شعرانی نے اپنی کتاب "الطبقات الکبر ٰی " میسسں ی سہ بیسسان
کیا ہے کہ ایک آدمی نے اس فسق و فجور پر نکیر کی تو اللہ تعال ٰی نے اس کسسا
ایمان چھین لیا۔ اور کس طرح چھیسسن لیسسا۔ شسسعرانی لکھتسسا ہے ک سہ" :پ ھر اس
شخص کا ایک بال بھی ایسا باقی نہ بچسسا جسس میسں دیسن اسسلم کسی طسسرف
جھکاؤہو۔ آخر اس نے سیدی احمد رضی اللہ عنسہ سسے فریسساد کسی ۔ ان ہوں نسے
فرمایا شرط یہ ہے کہ تم دوبارہ ایسی بات نہ کہنا ۔ اس ن سے ک ہا جسسی ہاں ۔ تسسب
انہوں نے اس کے ایمان کا لباس اسے واپس کیا۔ پھر اس س سے پوچ ھا تسسم کسسو
ہماری کیا چیز بری معلوم ہوتی ہے؟ اس نے کہا مردوں اور عورتسسوں کسسا میسسل
جول۔ جواب میں سیدی احمد رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات تو طواف میں ب ھی
ہوتی ہے۔ لیکن اس کی یہ حرمت )احترام( کے خلف نہیں۔ پھہہر فرمایسسا میسسرے
رب کی عزت کی قسم! میرے عسرس میسں جسو کسوئی ب ھی گنساہ کرتسا ہے وہ
ضرور توبہ کرتا ہے اور اچھی توبہ کرتا ہے۔ اور جب میسسں جنگسسل ک سے جسسانوروں
اور سمندروں کی مچھلیوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں ،ان میسسں س سے بعسسض کسسو
تعال ٰی میر ے عرس میں آن ے والقق ے بعض سےمحفوظ رکھتا ہوں تو کیا اللہ
کی حفاظت سق ے مج ھے عققاجز اور بق ے بققس رک ھے گققا ۔ )طبقققات
الکبر ٰی ج 1ص (162
اور شعرانی ن ے اپنی کتاب میں ان سب زندق ے اور کفر اور
ج ہالت اور گمرا ہی کو جو روایت کررک ھا ہے تو ی ہ کچ ھ تعجققب کققی
بات ن ہیں ۔ کیوں ک ہ اس شخص ن ے خود اپن ے متعلق ی ہ ج ھوٹ اڑایققا
ہے ک ہ سید بدوی جو اس س ے چار سو برس پ ہل ے انتقال کرچکا ہہہے
اس س ے سلم کرن ے ک ے لی ے قبر س ے اپنا ہات ھ نکالتا ت ھا ۔ اور یقق ہ کقق ہ
اس مر ے ہوئ ے سید بدوی ن ے اپنی مسجد ک ے زاویوں میں س ے ایک
زاوی ے کو شعرانی ک ے لئ ے شب عروسقی کق ے کمقر ے کق ے طققور پققر
تیار کیا تاک ہ شعرانی اس کمر ے میں اپنی بیوی ک ے سات ھ یکجا ہو ۔
اور جب شعرانی سید بدوی ک ے عرس میں پ ہنچن ے میں دیققر کرتققا
تو سید بدوی اپنی قبر س ے نکل کر قبر ک ق ے اوپققر رک ھا ہوا پققرد ہ
ہٹاتا ت ھا اور ک ہتا ت ھا ۔ عبدالو ہاب ن ے دیر کردی آیا ن ہیں ۔ آئیقق ے خققود
شعرانی کی عبارت پڑ ھئی ے ۔ و ہ لک ھتا ہے:
"احمد بدوی ک ے عرس میں ہر سال میققر ے حاضققر ہون ے کققی
وج ہ ی ہ ہے ک ہ میر ے شیخ عارف بالل ہ محمد شناوی رضی الل ہ عن ہ جو
ان ک ے گ ھر اعیان میں س ے ایک ہیں ان ہوں ن ے قبر ک ے انققدر سققیدی
احمد رضی الل ہ عن ہ کی طرف رخ کرک ے مج ھ س ے ع ہد لیا ۔ اور اپن ے
ہات ھ س ے مج ھے ان ک ے حوال ے کیا ۔ چنققانچ ہ ان کققا ہہہات ھ شققریف قققبر
س ے نکل ۔ اور میرا ہات ھ پکڑ لیا ۔ اور شناوی ن ے ک ہا حضور! آپ کققی
توج ہ ان پر ہونی چا ہی ے۔ اور آپ ان ہیں اپن ے زیر نظر رک ھیں ۔
اور اس ک ے سات ھ ہی میں نق ے قققبر سق ے سققیدی احمققد کققا یق ہ
فرمان سنا ک ہ ہاں! "
پ ھر شعرانی مزید آگ ے بڑ ھتا ہے اور ک ہتا ہے ک ہ :
"جققب میققں نق ے اپنققی بیققوی فققاطم ہ ام عبققدالرح ٰمن کققو جققو
کنواری ت ھی رخصت کرایا تو پانچ م ہین ے تققک رکققا ر ہا اور اس کق ے
قریب ن ہیں گیا ۔ اس ک ے بعد سیدی احمد تشققریف لئ ے ،اور مج ھے
6
سات ھ لیا ۔ اور بیوی سات ھ میں ت ھی ۔ اور قققبر کققا جققو گوشق ہ داخققل
ہون ے وال ے بائیں واقع ہے اس ک ے اوپر بستر بچ ھایا ۔ اور میققر ے لئ ے
حلققو ہ پکایققا ۔ اور زنققدوں اور مققردوں کققو اس کققی دعققوت دی اور
فرمایا ک ہ ی ہاں اس کی بکارت زائل کرو ۔ چنققانچ ہ اس رات و ہ کققام
ہوا"،
پ ھر لک ھا ہےک ہ ":میں 948ھ میں عرس ک ے اندر وقققت مقققرر ہ
پر حاضر ن ہ ہوسکا ۔ اور و ہاں بعض اولیاء موجود ت ھے تو ان ہوں ن ق ے
مج ھے بتایا ک ہ سیدی احمد رضی الل ہ عن ہ اس روز قبر کا پرد ہ ہتات ے
ت ھے اور ک ہت ے ت ھے ک ہ عبدالو ہاب ن ے دیر کققردی ۔ آیققان ہیں" ۔ )تلققبیس
ابلیس ج 1ص (162-161
غرض ی ہ ہیں بققر ے نمققون ے جققن کق ے متعلققق چا ہا جاتققا ہے ک ق ہ
مسلمانوں ک ے بچ ے ان ہیں ک ے نقش قدم پر چلیں ۔ اور ی ہ ہے تصوف
کا حقیقی چ ہر ہ۔ اور ی ہ ہیں اس ک ے رموز اور رجال کی صورتیں ۔
اور اگر ہم ان صققورتوں کققو گننققا شققروع کردیققں تققو اس مختصققر
رسال ہ میں میان ہ روی س ے با ہر نکل جائیں گ ے۔ البت ہ بحمد لل ہ ،اللقق ہ
کی توفیق س ے اس کققو اپنققی کتققاب "الفکققر الصققوفی فققی ضققوء
الکتاب والسن ۃ" میں پور ے بسط س ے لک ھ دیا ہے۔ ل ہ ٰ ذا اس کق ے لئ ے
اسی کا مطالع ہ کرنا چا ہی ے۔
اور توفیق الل ہ ہی طرف س ے ہے اور اسققی پققر ب ھروس ق ہ ہے۔
اور اسی س ے ی ہ بات مطلوب ہے کق ہ و ہ اسققلمی معاشققر ہ کققو اس
خبیث سرطان س ے پاک کرد ے جققس ن ق ے مسققلمانوں ک ق ے عقیققد ے ،
عمل اور سماج کو فاسد کررک ھا ہے۔
اور اخیر میں الل ہ عزیز و حمید ک ے راست ے ک ے داعی و طا ہر
پر درود وسلم ہو ۔
6
دوسرا اباب
کے موافق نہ ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ یسہ لسسوگ اپن سے اقسسوال وافعسسال میسسں کتسساب و
سنت کے پیروکار ہیں۔ اس لئے بیچارہ نادم اور عموما ً ل جواب ہوجاتا ہے۔البتسسہ
کبھی کبھی یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ پھر یسہ لسوگ اپنسے عرسسسوں اور اپنسی محفلسسوں
میں ناچتے کیوں ہیں؟ اور یہ مجذوب کیسسا ہیسسں جسسو اوٹ پٹانسسگ حرکسستیں کرتسے
ہیں ،اور چیختے چلتے ہیں۔ مگر اس کے جواب میں وہ کٹھ حجت صسسوفی کہتسسا
ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ن ہ یں ۔۔۔۔۔۔۔ی ہ ہ تو غفلت کے مارے ہہہوئے عسسوام ہیسسں ۔ حقیقسسی صسسوفی
نہیں ہیں۔ صوفیت تو کچھ اور ہی ہے۔ حالنکہ یہ بسسات فطسسری طسسور پسسر ج ھوٹ
ہوتی ہے۔ لیکن اس قسم کا جواب طالب علم پر چل جاتا ہے ،اور وہ چسسپ ہہہو
رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تصوف اس امت کے جسم میں اپنسسا کسسام کرتسسا رہتسسا
ہے ،اور پتہ بھی نہیں چلتا ۔
اور چونکہ بہت سے طالب علموں کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ تصوف کسسی
کتابیں دیکھ سکیں ۔ اور ان میں جو کچھ ہے اس کی حقیقت معلوم کرسکیں ۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بعض کتابیں دیکھتے ہیں تو حسسق پوشسسیدہ رہ
جاتا ہے اور باطل سے ممیز نہیں ہوپاتا۔ کیوں ک سہ اس میسسں ایسسسی تلسسبیس اور
ملوٹ ہوتی ہے کہ پڑھنے وال ایک مریض کے قول کے پہلو بسہ پہلسسو ایسسک صسسحیح
قول دیکھتا ہے۔ اور چھپے ہوئے لفظوں میں کفر والے ایک قول سے گزرتسسا ہے
تو ایک چوتھا قول ایسا دیکھتا ہے جس سے حکمت پھوٹتی محسوس ہوتی ہے
اس لئے وہ گڑ بڑا جاتا ہے ،اور حقیقت نہیں دیکھ پاتا۔ اور یہ نہیں سمجھ پاتا کہ
وہ کون سے راستے سے گزررہا ہے ۔
اس لئے ہم تصوف کے بنیادی اور کلی قضیوں کسسو بتلن سے اور اسسساطین
تصوف کے ساتھ مباحثہ کا ڈھنگ سکھانے کے لئیے یہ مختصرسا خلصہ لکسھ ر ہے
ہیں۔ اس کی روشنی میں بحث کرنے وال اگر ایک مبتدی طالب علم بھی ہہہوا
تو وہ بھی ان کو مغلوب اور خاموش کرلے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے ک سہ انہیسسں
صراط مستقیم کی ہدایت بھی دے د ے ۔
قواعد ی ہ ہیں:
سب س ے پ ہل ے یق ہ جاننقا چقا ہی ے کق ہ تصقوف گنقدگیوں کقا ایقک
سمندر ہے۔ کیوں ک ہ ا ہل تصوف نق ے ہندوسققتان ،ایققران اور یونقان
ک ے فلسفوں میں پائ ے جان ے وال ے ہر طققرح کق ے کفققر و زنققدق ہ کققو،
اور قرامط ہ اور باطنی فرقوں ک ے تمام مکروفققن کققو ،خرافیققوں
کی ساری خرافات کو ،دجالوں ک ے سار ے دجل کو اور شققیطانوں
کی ساری "وحی" کو اکٹ ھا کرلیا ہے۔ اور ان سب کو تصققوف کقق ے
دائر ے ،اور اس ک ے علوم و اصول اور کشف ک ے سانچ ے میں ڈھال
لیا ہے۔ مخلوق کی طرف خدائی کی نسبت س ے ل ے کر ہر موجققود
کو عین خدا قرار دین ے تک تم ہاری عقل روئ ے زمین پر جس کفری ہ
عقید ہ کا تصور کرسکتی ہے و ہ تم ہیں تصوف میں ضرور مل جائ ے
گا ۔ )تعالی الل ہ عن ذلک علوا کبیرا(
اسلمی ب ھائیو! اس مقصد ک ے لی ے آپ ک ے ذ ہن میققں تصققوف
کا واضح نقش ہ آجائ ے ،ہم آپ ک ے سامن ے صققوفیوں ک ق ے عقققائد کققا،
اور دین تصوف اور دین اسلم ک ے بنیادی فرق کققا ایققک ب ہت ہی
مختصر سا خلص ہ پیش کرت ے ہیں ۔
اول :اسلم اور تصوف کقق ے درمیققان بنیققادی
فرق:
6
اسلم کا منہج اور راستہ تصوف کے راستے اور من ہج سسے ایسسک انت ہائی
بنیادی چیز میسں علیحسدہ ہے۔ اور وہ ہے "تلقسی" یعنسی عقسائد اور احکسام کسے
سلسلے میں دینی معرفت کے ماخذ۔ اسلم عقائد کے ماخذ کو صسسرف نسسبیوں
اور پیغمبروں کی وحی میں محصسسور قسسرار دیتسسا ہے۔ اور اس مقصسسد کسے لئے
ہمارے پاس صرف کتاب و سنت ہے ۔
اس کے برخلف دین تصوف میں عقائد کا ماخذ وہ خیالی وحی ہے جسسو
اولیاء کے پاس آتی ہے ۔ یا وہ مزعومہ کشف ہے جسسو انہیسسں حاصسسل ہوتسسا ہے ۔ یسسا
خواب ہیں یا پچھلے وقتوں کے مسسرے ہوئے لوگسسوں اور خضسسرعلیہ السسسلم سسے
ملقات وغیرہ ہے۔ بلکہ لوح محفوظ میں دیکھنا اور جنوں سے جنہیسسں ی سہ لسسوگ
روحانی کہتے ہیں کچھ حاصل کرنا بھی اس فہرست میں شامل ہے ۔
اسی طرح اہل اسلم کے نزدیک شرعی احکام کا ماخذ کتاب و سسسنت
اور اجماع و قیاس ہے ،لیکن صوفیوں کی شریعت خوابسسوں،خضسسر اور جنسسوں
اور مردوں اور پیروں وغیرہ پر قائم ہے ۔ یہ سارے لوگ ہی شسسارع ہیسسں ۔ اسسسی
لیئے تصوف کے طریقے اور شریعتیں مختلف اور متعدد ہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیسسں
کہ مخلوق کی سانس کی تعداد کے مطابق راستے ہیں اور سب کے سب اللسسہ
کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیئے ہر شیخ کا اپنا ایک طریقہ اور تربیت کا اپنا ایک
اصول ہے۔ اس کا اپنا مخصسسوص ذکسسر واذکسسار ہے ،مخصسسوص شسسعائر ہیسسں اور
مخصوص عبادتیں ہیں۔ اسی لئے تصسسوف کسے ہزاروں بلکسہ لک ھوں ،بلکسہ بسے
شمار دین اور عقیدے اور شریعتیں ہیں ۔ اور سب کسسو تصسسوف کسسا نسسام شسسامل
ہے ۔
یہ ہے اسلم اور تصوف کا بنیادی فرق۔ اسلم ایک ایسا دیسسن ہے جسسس
کے عقائد متعین ہیں۔ عبسسادات متعیسسن ہیسسں۔ اور احکسسام متعیسسن ہیسسں۔ اس ک سے
برخلف تصوف ایک ایسا دین ہے جس میں نہ عقائد کی تعییسسن ہے ن سہ شسسرائع
اور احکام کی ۔ یہ اسلم اور تصوف کے درمیان عظیم ترین فرق ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف
عقیدے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ رسول صلی اللہ علی سہ وسسسلم ان ک سے مرتب سہ و
مقام کو نہیں پہنچ سکے ت ھے ۔ اور آپ اہل تصوف کے علوم سے نسساواقف ت ھے ۔
جیسا کہ بایزید بسطامی نے کہا ہے کہ" :خضنا بحراوقف النبیسساء بسسساحلہ" ) ہم
ایک ایسے سمندر کی تہ میں پہنچ گئے جس کے سسساحل پسسر انبیسساء ک ھڑے ہیسسں(
اس کے برخلف بعض دوسرے صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد صسسلی الل سہ علی سہ
وسلم اس کا ئنات کا قبہ ہیں ،اور آپ ہی وہ اللہ ہیں جو عرش پر مستوی ہے ۔
اور آسمان و زمین اور عرش و کرسی اور سسساری کائنسسات آپ ک سے نسسور س سے
پیدا کی گئی ہے۔ آپ پہل موجود ہیں۔ اور آپ ہی الل سہ ک سے عسسرش پسسر مسسستوی
ہیں ۔ یہ ابن عربی اور اس کے بعد آنے والے صوفیوں کا عقیدہ ہے ۔
ج :اولیاء ک ے بار ے میں
اولیاء کسے بسسارے میسسں ب ھی صسسوفیوں کسے مختلسسف عقیسسدے ہیسسں ۔ بعسسض
صوفیاء ولی کو نبی سے افضسسل کہتسے ہیسسں ۔ اور عسسام صسوفیاء ولسی کسسو تمسسام
صفات میں اللہ کے برابر مانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا
ہے ،روزی دیتا ہے ،زندہ کرتا ،اور مارتا ہے ۔ اور کائنات میسسں تصسسرف کرتسسا ہہہے ۔
صوفیاء کے نزدیک ولیت کے بٹوارے بھی ہیسسں چنسسانچہ ایسسک غسسوث ہوتسسا ہے جسسو
کائنات کی ہر چیز پر حکم چلتا ہے۔ چار قطب ہوتے ہیں جسسو غسسوث ک سے حکسسم
کے مطابق کائنات کے چاروں کونے تھامے ہوئے ہیں۔ سات ابدال ہوتے ہیں جسسن
میں سے ہر ایک غوث کے حسب الحکم سات براعظموں میں سے کسی ایک
براعظم پر حکومت کرتا ہے۔ کچھ نجباء ہوتے ہیں جو صرف شہر پسسر حکسسومت
کرتے ہیں ۔ ہر نجیب ایک شہر کا حاکم ہوتسسا ہے ۔ اس طسسرح اولیسساء کسسا ی سہ بیسسن
القوامی نظام مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔ پھر ان کا ایک ایوان ہے جس میں
وہ ہر رات غسسار حسسراء ک سے انسسدر جمسسع ہوتے ہیسسں ۔ اور تقسسدیر پسسر نظسسر ڈالت سے
ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مختصرس یہ کہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے ۔
اور یہ طبعسی طسور پسر اسسلمی ولیست کسے خلف ہے جسس کسی بنیساد
دینداری ،تق ٰوی ،عمل صالح ،اللہ کی پوری پوری بندگی اور اسسسی کسسا فقیسسر و
محتاج بننے پر ہے۔ یہاں ولی خود اپنے کسی معسساملے کسسا مالسسک نہیسسں ہوتسسا ،چ سہ
جائیکہ وہ دوسروں کے معاملت کا مالسسک ہو۔ چنسسانچہ اللسہ تعسال ٰی اپنسے رسسسول
صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے":قل انی ال املک ضرا ول رشدا" )تسم ک ہہ
دو کہ میں نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہوں۔ نہ ہدایت کا(
د :جنت اور ج ہنم ک ے بار ے میں
جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو تمام صسسوفیاء کسسا عقیسسدہ ہے کسہ جنست کسسو
طلب کرنا بہت بڑا نقص اور عیب ہے ۔ ولی کے لیے جائز نہیں کہ وہ جنسست کسسے
لیئے کوشاں ہو ،اور اسے طلب کر ے ۔ جو جنت طلب کرتا ہے وہ ناقص ہے ۔ ان
کے یہاں طلب اور رغبت صرف اس کی ہے کہ وہ اللہ میں فنسسا ہوجسسائیں ،غیسسب
سے واقف ہوجائیں اور کائنسسات میسسں تصسسرف کریسسں ۔۔۔۔۔ ی ہی صسسوفیوں کسسی
خیالی جنت ہے ۔
اور جہاں تک جہنم کا تعلق ہے تسسو صسسوفیوں کسسا عقیسسدہ ہے کسہ اس سسے
بھاگنا صوفی کامل کے شایان شان نہیں۔ کیوں کسہ اس سسے ڈرنسسا آزادوں کسسی
نہیں غلموں کی طبیعت ہے۔ اور بعض صوفیوں نے تو غرور و فخسسر میسسں آکسسر
یہاں تک کہہ ڈال کہ اگر وہ جہنم پر تھوک دے تو جہنم بجھ جسسائے گسسی۔ جیسسسا ک سہ
ابویزید بسطامی نے کہا ہے۔ پھر صوفیاء وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھت سے ہیسسں ان
کا عقیدہ ہے کہ جسو لسوگ جہنسم میسں داخسل ہوں گسے ان کسے لئے جہنسم ایسسی
6
شیریں اور ایسی نعمت بھری ہوگی کہ جنت کی نعمت سے کسی طرح کم نہ
ہوگی ،بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوگی ۔ یہ ابن عربی کا مذہب اور عقیدہ ہے ۔
ح :ابلیس اور فرعون
جہاں تک ابلیس کا معاملہ ہے تو عام صوفیوں کا عقیدہ ہے کسہ وہ کامسسل
ترین بندہ تھا ۔ اور توحید میں ساری مخلوق سے افضل تھا ۔ کیوں کسہ اس نس ے ۔
ان کے بقول۔ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کیسا۔ اس لیئے اللسہ نسے اس
کے سسسارے گنسساہ بخسسش دیئ ے ۔ اور اسسے جنسست میسں داخسسل کردیسسا ۔ اسسی طسسرح
فرعون بھی ان کے نزدیک افضل ترین موحد تھا۔ کیونکہ " :انا ربکم العل ٰی "
اعلی پروردگار ہوں( اس نےحقیقسست پہچسسان لسسی ت ھی ۔
ٰ )میں تمہارا سب سے
کیوں کہ جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی ہے پھر وہ ان کے خیال میں ایمان لے آیا ۔
اور جنت میں داخل ہوا ۔
صوفی شریعت
عبادات:
صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ نماز ،روزہ ،حج زکوٰۃٰیہ سب عوام کی عبسسادتیں
ہیں۔ صوفی حضرات اپنے آپ کو خواص یا خاص الخاص کہتے ہیں۔ اسی لئی سے
ان کی ساری عبادتیں بھی خاص قسم کی ہیں ۔
پھر ان کے ہر گسسروہ نسے اپنسسی ایسسک مخصسسوص شسسریعت بنسسائی ہے ۔ مثل ً
مخصسسوص ہیئت کسسے سسساتھ مخصسسوص ذکسسر ،خلسسوت ،مخصسسوص ک ھانے اور
مخصوص لباس اور محفلیں ۔
پھر اسلمی عبادات کا مقصد نفس کا تزکیہ اور معاشرے کی پسساکیزگی
ہے۔ مگر تصوف میں عبادات کا مقصد یہ ہے کہ دل کو اللہ کے سسساتھ بانسسدھ دیسسا
جائے تاکہ اللہ سے براہ راست فیض حاصل ہو ۔ اور ا س میں فنا ہوجسسائیں ۔ اور
رسول سے غیب کے راستے مدد حاصل ہو ۔ اور اللہ کے ساتھ متصف ہوجسسائیں ۔
یہاں تک کہ صوفی کسی چیز کو کہے کن )ہوجا( تو وہ ہوجسسائے۔ نیسسز وہ مخلسسوق
کے اسرار پر مطلع ہو ۔ اور سارے ملکوت کو دیک ھے ۔
اور تصوف میں اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ صسسوفیوں کسسی شسسریعت ،
محمدی اور اسلمی شریعت کے کھلم کھل خلف ہو۔ چنسسانچہ حشسسیش یعنسسی
گانجا اور شراب پینا اور عرسوں اور ذکر کے حلقوں میں مردوں عورتوں کسسا
خلط ملط ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ ہر ولی کی اپنی شسسریعت ہے
جسے وہ براہ راست اللہ تعال ٰی سے حاصل کرتسسا ہے۔ اس لیئے اس کسسی کسسوئی
اہمیت نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لئی ہوئی شسسریعت ک سے
موافق ہے یا نہیں۔ کیوں کہ ہر ایک کی اپنی شریعت ہے۔ اور محمد صسسلی اللسسہ
علیہ وسلم کی شریعت عوام کے لیئے ہے ۔ اور پیسسر اور صسسوفی کسسی شسسریعت
خواص کے لیئے ہے ۔
حلل و حرام
یہی حال حلل و حرام کا بھی ہے۔ چنانچہ صوفیوں میں جو لسسوگ وحسسدۃ
الوجود کے قائل ہیں ان کے نزدیک کوئی حرام نہیں۔ کیوں کہ ہر موجسسود ایسسک
ہی ہے۔ اسی لئے ان کے اندر ایسے ایسسے ہ ہوئے جسو زنسدیق یسسا لسسوطی تھہہے یسا
گدھیوں کے ساتھ کھل کھل دن دھاڑے بدفعلی کرتے ت ھے۔ پ ھر ان ہی میسسں وہ
6
بھی تھے جویہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ نے اس سے سارے احکام ساقط کردیئے
ہیں ۔ اور ان کے لیئے وہ چیز حلل کردی ہے جو دوسروں پر حرام تھی ۔
حکومت و سلطنت اور سیاست
ج ہاں تک حکومت و سققلطنت اور سیاسققت کققا تعلققق ہے تققو
صوفیوں کا طریق ہ ی ہ ر ہا ہے ک ہ برائی کا مقابل ہ کرنا اور بادشا ہوں
کو مغلوب کرن ے کی کوشش کرنا جائز ن ہیں ۔ کیونک ہ ان کق ے خیققال
میں الل ہ ن ے جس حال کو چا ہا بندوں کو اسی حال میں قققائم کیققا
ہے۔
تربیت
غالبا ً صوفی شریعت میں جو چیز سب سے خطرناک ہے وہ ہے ان کسسا
طریقہ تربیت۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی عقل پر پوری طرح مسلط ہوجسساتے ہیسسں
اور اسے بیکار بناڈالتے ہیسسں۔ اور اس ک سے لیئے وہ قسسدم ب سہ قسسدم کسسام کرن سے کسسا
طریقہ اپناتے ہیں۔ چنانچہ پہلے وہ آدمی کو مانوس کرتے ہیں۔ پھر اس کے دل و
دماغ پر تصوف اور صوفیوں کی عظمت ،اور ہولنسساکی کسسا سسسکہ جمسساتے ہیسسں ۔
اس کے بعد آدمی کو تلسسبیس اور فریسسب میسسں ڈالتسے ہیسسں۔ پ ھر اس پسسر علسسوم
تصوف میں سے تھوڑا تھوڑا چھڑکت سے جسساتے ہیسسں۔ اس ک سے بعسسد اس سے صسسوفی
طریق کے ساتھ باند دیتے ہیں ۔ اور نکلنے کے سارے راستے بند کردیتے ہیں ۔
سوم :صوفی س ے بحث کققا نقط ق ہ
آغاز
بہت سے غیرت منسسد مسسسلمان ب ھائی جنہیسسں دیسسن س سے محبسست ہے اور
تصوف اور اس کی لغویات سے نفرت ہے وہ صوفیوں سے غلط طور پر بحث
شروع کردیتے ہیں کیونکہ وہ فروعی اور ادھر ادھر کی بسساتوں پسسر بحسسث کرن سے
لگتے ہیں۔ جیسے ذکر و اذکار میں ان کی بدعتیں' صسسوفی نسسام رکھنسسا' عسسرس
منانا محفل میلد قائم کرنا' تسبیحیں لٹکانا' گ سڈری پہننسسا' یسسا اسسسی طسسرح ک سے
دوسرے الگ تھلگ مظاہراور روپ جن میں وہ ظاہر ہوتے ہیں ۔
لیکن واضح رہے کہ ان باتوں سے بحث کا آغاز کرنا پورے طور پر غلسسط
ہے۔ اور باوجودیکہ یہ ساری باتیں بدعت اور خلف شریعت ہیں' اور انہیں دیسسن
میں گھڑ کر داخل کیا گیا ہے' لیکن تصوف کی جو باتیں پسسس پسسردہ ہیسسں وہ ان
سے کہیں زیادہ کڑوی اور خطرناک ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ باتیں فروع کی
حیثیت رکھتی ہیں' لہٰذا اصول کو چھوڑ کر ان باتوں سے بحسسث کسسا آغسساز کرنسسا
درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ بھی جرائم ہیں اور خلف شسسریعت ہیسسں' لیکسسن
تصوف کے اندر جو ہولناک باتیں' جو گھڑنت' جو بدترین کفریات اور جو گندے
مقاصد پائے جاتے ہیں ان کے مقابل میں مذکورہ بسسال بسساتیں ب ہت معمسسولی اور
ہیچ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو شخص صوفی سے بحث کسسرے وہ فروعسسی
اور شکلی باتوں کے بجائے اصولی اور بنیادی باتوں سے ابتداء کر ے ۔
اور غالبا ً اسلم اور تصوف کا اصل جسسوہری اختلف پسسڑھ لینسے کسے بعسسد
تمہیں سمجھ میں آگیا ہوگا کہ بحث کی ابتداء ک ہاں س سے کرنسسی چسساہی ے ۔ یعنسسی
سب سے پہل سوال ماخذ دین کے متعلق ہونا چاہیے کہ دین کہاں سے لیا جسسائے
اور عقیدہ و عبادت کس چیسسز سسے ثسسابت کسسی جسسائے۔ یعنسسی دیسسن اور عقیسسدہ و
عبادت کے حاصل کرنے کا ماخذ کیا ہو؟ اسلم اس ماخسسذ کسسو صسسرف کتسساب و
سنت میں محصور کرتا ہے کسسسی ب ھی عقیسدے کسسا اثبسسات قسرآن کسی نسص یسسا
6
رسول کے ارشاد کے بغیر جائز نہیں اور کسی بھی شریعت کا اثبسسات کتسساب و
سنت یا اس کے موافق اجتہاد کے بغیر جائز نہیں اور اجتہاد صحیح بھی ہوتا ہے
اور غلط بھی اور کتاب اللہ اور سنت رسول کے علوہ کوئی معصوم نہیں ۔
مگر مشائخ تصوف کا خیال ہے کہ وہ دین کو بغیر کسی واسطہ کے براہ
راست اللہ تعال ٰی سے حاصل کرتے ہیں اور براہ راست رسول صسسلی الل سہ علی سہ
وسلم سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ہمیش سہ ان کسسی مجلسسسوں
اور ان کے ذکر کے مقامات میں تشریف لتسے ہیسں ۔ اسسی طسرح وہ اپنسا دیسن
فرشسستوں سسے حاصسسل کرتسے ہیسں۔ اور جنسوں سسے حاصسل کرتسے ہیسں جنہیسں
روحانی کہتے ہیں اور کشف حاصل کرتے ہیں جس کے متعلق ان کا خیسسال ہے
کہ ولی کے دل پر غیب کی باتیں کھل جسساتی ہیسسں اور وہ زمیسسن و آسسسمان کسسی
ساری چیزوں کو اور گذشتہ اور آئندہ کے سارے واقعسسات کسسو دیکھتسسا ہے ۔ پسسس
ولی کے علم سے ۔۔۔۔۔۔۔ان کے بقول۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کا ایک ذرہ ب ھی
باہر نہیں ۔
اس لیے صوفی سے پہل سوال یہ کرنا چاہیے کہ آپ لوگ دیسسن کسسا ثبسسوت
کہاں سے لتے ہیں؟ یعنی اپنا عقیدہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ اگر وہ کہے کسسہ
کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیسں تسسو اس سسے ک ہو کسہ کتسساب و سسنت کسسی
گواہی تو یہ ہے ک سہ ابلیسسس کسسافر ہے اور وہ اور اس ک سے پیروکسسار جہنمسسی ہیسسں ۔
چنانچہ اللہ تعال ٰی کا ارشاد ہے:
ن ِلـ َ
ي خَلْفُتُكْم َوَمـا َكـا َ
عـدّتُكْم َفـَأ ْ
ق َوَو َحـ ّعـَد اْل َ
عـَدُكْم َو ْ
لـ َو َ نا ّ لْمُر ِإ ّ يا َضَ ن َلّما ُق ِ طا ُ
شْي َ
ل ال ّ
َوَقا َ
خُكْم َوَمــا َأنُت ـْم
ص ـِر ِ
سُكم ّما َأَنْا ِبُم ْ ل َتُلوُموِني َوُلوُموْا َأنُف َ جْبُتْم ِلي َف َ سَت َ
عْوُتُكْم َفا ْ
ن ِإلّ َأن َد َ طا ٍسْل َ
عَلْيُكم ّمن ُ
َ
ب َأِليٌم )إبراهيم ( 22 : عَذا ٌ ن َلُهْم َظاِلِمي َ
ن ال ّل ِإ ّ
ن ِمن َقْب ُ شَرْكُتُمو ِ ت ِبَما َأ ْي ِإّني َكَفْر ُخّصِر ِ
ِبُم ْ
اور جب معاملت کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا ک سہ الل سہ ن سے
تم سے برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تسسو وعسسدہ خلفسسی کسسی
اور مجھے تم پر کوئی اختیار تو تھا نہیں البتہ میں نسے تسم کسسو بلیسسا اور تسم نسے
میری بات مان لی لہٰذا مجھے ملمت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملمسست کسسرو۔ ن سہ
میں تمہاری فریاد کرسکتا ہوں۔ اور نہ تم میری فریاد کرسکتے ہو۔ تم نے پہلسے
مجھے شریک ٹھہرایا میں اس کے ساتھ کفر کرتا ہوں۔ یقینا ً ظسسالموں ک سے لی سے
دردناک عذاب ہے ۔
تمام مفسرین سلف کا اجماع ہے کہ یہاں شیطان سے مراد ابلیس ہے ۔
اور "تم میری فریاد نہیں کرسکتے" کا مطلب تسسم مج ھے چ ھڑا اور بچسسا نہیسسں
سکت ے ۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ہے ۔
تو اب اے صوفیو! سوال یہ ہے کہ کیا ابلیس کے بارے میں آپ لوگوں کسسا
بھی یہی عقیدہ ہے؟
اگر اس کے جواب میں صوفی یہ کہے کہ ہاں! ہمارا بھی ی ہی عقیسسدہ ہے
کہ ابلیس اور اس کے ماننے ولے جہنمی ہیں تو یاد رکھو کہ وہ تسسم س سے ج ھوٹ
بول رہا ہے اور اگر یہ جواب دے کر ہم ابلیس کو جہنمی نہیں مانتے' بلکہ ہمسسارا
عقیدہ ہے کہ اس نے جو کچھ کیسسا ت ھا اس سسے تسسوبہ کرلیسسا اور مسسومن و موحسسد
ہوگیا۔۔۔۔۔۔جیسا کہ ان کے استاد حلج کا کہنا ہے۔ تسسو اس س سے کہہہو ک سہ اب تسسم
کافر ہوگئے۔ کیونکہ تسم نسے کتسساب اللسہ' احسادیث رسسول اور اجمساع امست کسی
مخالفت کی ۔ اس لیے کہ ان سب ذریعوں سے ثابت ہے ک سہ ابلیسسس کسسافر اور
جہنمی ہے ۔
صوفی سے یہ بھی کہو کہ تمہارے شیخ اکبر ابن عربی کسسا فیصسسلہ ہے ک سہ
ابلیس جنتی ہے اور فرعون جنتی ہے )جیسا کہ "فصوص الحکم" میں لکھا ہے(
6
اور تمہارے استاد اعظم حلج کا کہنا ہے کہ ابلیسسس اس کسسا پیشسسوا اور فرعسسون
اس کا پیر ہے) جیسا کہ "طواسین" ص 52میں لکھا ہے( اب بتاؤ کہ اس بسسارے
میں تم کیا کہتے ہو؟ جواب میں اگر وہ ان باتوں کو ماننے سے انکار کسسردے تسسو
سمجھ لو کہ وہ کٹ حجت اور حقیقت کا منکر ہے یا جاہل اور نسساواقف ہے اور
اگر وہ بھی کافر ہوا۔ اور ابلیس اور فرعون کا بھائی ٹھہرا۔ لہٰذا جہنم میسسں ان
سبھوں کا ساتھ اس کے لیے کافی ہے ۔
اور اگر وہ تلبیس سے کام لے اور کہے کہ ان کسسی بسسات شسسطحیات میسسں
سے ہے۔ انہوں نے اسے حال اور سکر کے غلبے کے وقت کہا تھا تو اس سے کہو
تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ بات تسسو لک ھی ہوئی کتسسابوں میسسں موجسسود ہے اور ابسسن
عربی نے اپنی کتاب "فصوص" کو یوں شروع کیا ہے:
انی رایت رسول اللہ فی مبشرۃ فسسی محروس سۃ دمشسسق واعطسسانی ھذا
الکتاب وقال لی اخرج بہ علی الناس ۔
"میں نے محروسہ دمشق کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیسہ وسسسلم کسسو
ایک خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے یہ کتاب دی ۔ اور فرمایا اس سے لوگسسوں
کے سامنے برپا کرو" ۔
اور اسی کتاب میں ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ ابلیس اور فرعون اللہ
کی معرفت رکھتے ت ھے۔ اور نجسات پسائیں گسے۔ اور فرعسون کسو موسس ٰی علیسہ
السلم سے زیادہ اللہ کا علم حاصل تھا۔ اور جس نے کسی بھی چیز کی پوجا
کی اس اللہ ہی کی پوجا کی ۔ اسی طرح حلج نے بھی اپنی سسساری کفریسسات
کو کتاب کے اندر لکھ رکھا ہے۔ یہ شطح یا حال کا غلبہ نہیں تھا جیسسسا ک سہ لسسوگ
کہا کرتے ہیں ۔
اس کے جواب میں اگرصوفی یہ کہے کہ ان لوگوں نے ایک ایسسسی زبسسان
میں بات کی ہے جسے ہم نہیں جانتے تو اس کو کہو کہ ان لوگوں نے اپنی بسسات
عربی زبان میں لکھی ہے اور ان کے شاگردوں نے ان کسسی شسسرح کسسی ہے اور
مذکورہ باتوں کو دوٹوک لفظوں میں بیان کیا ہے ۔
اگر اس کے جواب میں صوفی یہ کہے کہ ایسی زبان ہے جو اہل تصسسوف
کے ساتھ خاص ہے اور اسے دوسرے لوگ نہیں جانتے۔ تو اس سے یہ ک ہو کسہ ان
کی یہ زبان عربی ہی زبان تو ہے جس کو انہوں نے لوگوں کے درمیان عام کیسسا
ہے اور اپنے ساتھ خاص نہیں کیا ہے اور اسی بنیسساد پسسر علمسساء اسسسلم ن سے حلج
کواس کی باتوں کے سبب کافر قرار دیا اور اسے 309ھ میں بغداد کے پل پر
پھانسی دی گئی۔ اسی طرح علماء اسلم نے ابن عربی کے بھی کافر زنسسدیق
ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اگر صوفی کہے کہ میں علماء شریعت کے فیصلے کو تسلیم نہیسسں کرتسسا
کیونکہ وہ علماء ظاہر ہیں حقیقت نہیں جانتے۔ تو اس سے کہو کہ یہ "ظاہر" تسسو
کتاب و سنت ہے۔ اور جو "حقیقت" اس "ظاہر" کے خلف ہو وہ باطل ہے۔ پھر
اس سے یہ بھی پوچھو کہ وہ صوفیانہ حقیقت کیا ہے جسسس کسسا تسسم لسسوگ دعسسو ٰی
کرتے ہو؟ اگر وہ کہے کہ یہ ایک راز ہے جس کو ہم نہیں بتلتے تو اس سے کہو کہ
جی نہیں تم لوگوں نے اس راز کو آشکارا کردیا اور پھیل دیا ہے۔ اور وہ راز یسسہ
ہے کہ تمہارے خیال میں ہر موجود اللہ ہے ۔ جنت و جہنم ایک ہی چیز ہے ۔ ابلیس
اور محمد ایک ہی ہیں۔ اللہ ہی مخلوق ہے اور مخلسسوق ہی الل سہ ہے۔ جیسسسا ک سہ
تمہارے امام شیخ اکبر نے کہا ہے؟
6
ہو ۔ توحید سے نکال کر شرک اور قبر پرستی کی طرف لے جسساتے ہہہو ۔ سسسنت
سے نکال کر بدعت کی طرف لے جاتے ہو۔ اور کتسساب و سسسنت کسے علسسم سسے
نکال کر اللہ' فرشتے' رسول اور جنوں کو دیکھنے کا دعو ٰی کرنے والسسوں س سے
بدعات و خرافات اور جھوٹ فریب حاصل کرنے کی طرف لسے جسساتے ہو ۔ تسسم
زندگی بھر باطنی فرقوں کے مسسددگار اور سسسامراج ک سے خسسادم ر ہے۔ اس لیسے
قطعا ً جائز نہیں کہ تسم لوگسوں نسے جسو گمرا ہی اور شسرک پھیل رک ھا ہے' اور
لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث سے بہکا کر اپنے بدعتیانہ اذکار اور مشرکوں
جیسی سیٹی اور تالی والی عبادت کی طرف لے جاتے ہو اس پسسر خاموشسسی
اختیار کی جائ ے ۔
اس مرحلہ پر صوفی لزما ً خاموش ہوجائے گسسا۔ وہ سسسمجھ جسسائے گسسا کسہ
اس کا پال ایک ایسے شخص سے پڑا ہے جس کو اس کے باطل کسسا پسسورا پسسورا
علم ہے اس کے بعد یا تو اللہ تعال ٰی اس کو صحیح اسلم کی ہدایت دے گسسا یسسا
وہ اپنے عقیدے اور معاملہ کو چھپائے رک ھے گسسا۔ ی ہاں تسسک کسہ اللسہ تعسسال ٰی اسسے
ت حق پسسر اس کسسی کسی دن رسوا کردے' یا کفر و زندقے اور بدعت و مخالف ِ
موت آجائ ے ۔
ہم نے یہ ساری باتیں ان کی کتابوں اور اقسسوال س سے تفصسسیل ک سے سسساتھ
بیان کردی ہیں آپ ہماری کتاب "الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب والسنۃ" کسسا
مطالعہ کروگے تو اللہ کی حمد و توفیق سے آپ کو یہ سب تفصسسیل ک سے سسساتھ
مل جائے گا ۔
اور اول و آخر ساری حمد اللہ کے لیے ہے۔ اور ساری عسسزت کتسساب الل سہ
اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے' اور ان کی پیروی کرنسسے
والے' اور صراط مستقیم پر چلنے والے مومنین کسے لیئے ہے۔ والحمسد للسہ رب
العالمین ۔