You are on page 1of 33

‫‪6‬‬

‫مقدم ہ‬
‫الحمد للہ الذی بعث محمدا ً صلی اللہ علیسہ وسسسلم بسالحق بیسن یسدی السسساعۃ‬
‫مفرقا بین الھدی والضلل ‪ ،‬وبین التوحید والشرک ‪ ،‬وبین الجسساھلیۃ والسسسلم‪،‬‬
‫والصلۃ والسلم علی النبی الھادی الذی اتم رسالۃ ربہ غایۃ التمام ‪ ،‬وترک امتہ‬
‫علی المحجۃ الواضحۃ البینۃ التی ل یزیغ عنھا ال من صرف اللہ قلبہ عن الیمان‬
‫والسلم ۔‬
‫تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نسے محمسد صسلی اللسہ علیسہ وسسلم کسسو‬
‫قیامت سے پہلے ہدایت و گمراہی ‪ ،‬توحیسسد و شسسرک اور جسساہلیت و اسسسلم ک سے‬
‫درمیان تفریق کنندہ بناکر مبعوث فرمایا۔ اور درود وسلم ہو نبی ہادی صسسلی‬
‫اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے پروردگار کی رسالت کو ن ہایت درج سہ مکمسسل‬
‫کردیا‪ ،‬اور اپنی امت کو ایسی واضح اور روشن شاہراہ پر چ ھوڑا جسسس س سے‬
‫صرف وہی شخص بھٹک سکتا ہے جس کا دل اللہ نے ایمان واسلم سسسے پھیسسر‬
‫دیا ہو ۔ اما بعد‬
‫میں نے لمبے غوروفکر کے بعد محسسوس کیسا کسہ صسوفیانہ افکسار امست‬
‫اسلم کے لئے تمام خطروں سے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔ انہیں افکار نے اس امت‬
‫کی عزت کو ذلت اور رسوائی سے تبدیل کیا ہے۔ اور اب ب ھی ی سہ افکسسار ی ہی‬
‫کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ افکار درحقیقت ایک ایسا کیڑا ہیں جو ہمسسارے لمبسسے‬
‫پائدار درخت کو گودے کو چھیدتا اور ڈھاتا جارہا ہے‪ ،‬ی ہاں تسسک ک سہ اس سے رفتسسار‬
‫زمانہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ امت کسی بھی خطسرے سسے پہلسے جسسب‬
‫تک اس کیڑے سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتی اپنی مشکلت سے نجات نہیسسں‬
‫پاسکتی۔ میں نے اس سلسلے میں بحمداللہ "الفکر الصوفی" کے نام سے ایک‬
‫کتاب تصنیف کی ہے لیکن چونکہ یہ کتاب کافی ضسسخیم ہے‪ ،‬اور مشسساغل میسسں‬
‫مصروف قارئین کے لئے اس کے تمام گوشوں کا احاطہ کرنسسا مشسسکل ہے اس‬
‫لئے میں نے یہ مختصر سا رسالہ تالیف کردیا تاکہ صوفیانہ افکار کسے پسسردہ میسسں‬
‫عالم اسلم کے لئے جو زبردست خطرات پوشیدہ ہیسسں ان کسسی تشسسریح کسسردی‬
‫جائے۔ ممکن ہے اس رسالہ سے امت اسلمیہ کے قائدین اور رہنمسساؤں کسسو اس‬
‫پوشیدہ اور تباہ کن آفت پر تنبیہ حاصل ہو اور وہ امت اسلمیہ ک سے جسسسم س سے‬
‫اس کے استیصال پر کمر بستہ ہوجائیں۔ پھر ان خطرات کو بیسسان کرلین سے ک سے‬
‫بعد میں نے اہل تصوف کے ساتھ بحث و گفتگو کا ایک مختصر سا نمسسونہ ب ھی‬
‫پیش کیا ہے تاکہ طالب علمسسوں کسسو ان ک سے سسساتھ بحسسث و گفتگسسو کسسی تربیسست‬
‫حاصل ہوجائے ‪ ،‬اور وہ یہ سیکھ لیں کہ اہل تصوف پر کسسس طسسرح حجسست قسسائم‬
‫کی جاسکتی ہے یا انہیں کس طرح صراط مسسستقیم کسسی طسسرف لیسسا جاسسسکتا‬
‫ہے ۔‬
‫اللہ سے میری دعا ہے کسہ وہ اس رسسسالہ سسے امسست اسسسلم اور طسسالبین‬
‫علوم شریعت کو نفع پہنچائے۔ اور میں ابتدا میں بھی اور خسساتمہ پسسر ب ھی اللسہ‬
‫کی حمد کرتا ہوں اور اس کے بندے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسسسلم پسسر درود‬
‫بھیجتا ہوں ۔‬

‫کتبہ‬
‫عبدالرحمن عبدالخالق‬
‫‪6‬‬

‫کویت شنبہ ‪14‬ذی القعدۃ ‪1404‬ھ‬


‫‪11‬اگست ‪1984‬ھ‬

‫مسلم ورل ڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان‬


‫‪Email: muwahideen@yahoo.com‬‬
‫‪Website: http://www.muwahideen.vze.com‬‬

‫صوفیان ہ افکار کی‬


‫خطرناکیاں‬
‫صوفیانہ افکار کے اہم ترین خطرات یہ ہیں‪:‬‬
‫مسلمانوں کو قرآن وحدیث سے پھیرنا‬
‫اہل تصوف نے پہلے ب ھی اور موجسسودہ دور میسں ب ھی مختلسسف ذرائع اور‬
‫نہایت پیچیدہ طریقوں سے لوگوں کو قرآن وحدیث سے پھیرن سے کسسی کوشسسش‬
‫کی ہے۔ بعض طریقے حسب ذیل ہیں‪:‬‬
‫)الف( یہ خیال کہ قرآن میں تدبر کرنے سے اللہ کی طرف س سے تسسوجہ‬
‫ہٹ جاتی ہے ان حضرات نے اپنے خیال میں فنافی الل سہ کسسو صسسوفی کسسا آخسسری‬
‫مقصد قرار دیا ہے۔ اور یہ سمجھتے ہیسسں ک سہ قسسرآن میسسں تسسدبر انسسسان کسسو اس‬
‫‪6‬‬

‫مقصد سے پھیردیتا ہے۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قرآن کا تسسدبر درحقیقسست الل سہ‬
‫سبحانہ وتعال ٰی کا ذکر ہے۔ کیوں کہ قرآن یسا تسو اللسہ کسے اسسماء و صسفات کسے‬
‫ذریعہ اس کی مداح ہے۔ یا اللہ نے اپنے اولیاء اور اپنے دشسسمنوں ک سے سسساتھ جسسو‬
‫سلوک کیا ہے اس کا بیان ہے۔ اور یہ سب اللہ کی مسسدح یسسا اسسسکی صسسفات کسسا‬
‫علم ‪ ،‬یا اس کے حکم اور شریعت میں تدبر ہے ۔ اور اس تسدبر سسے اس کسی‬
‫حکمت معلوم ہوتی ہے اور اپنی مخلسسوق کسے سسساتھ اس سسسبحانہ و تعسسال ٰی کسسی‬
‫رحمت کا پتہ لگتا ہے لیکن چونکہ اہل تصوف میں سے ہر شخص خسسود ال سٰٰہ بننسسا‬
‫چاہتا ہے اور اپنے زعم میں صفات الٰہٰی کے ساتھ متصف ہوتا ہے اس لئے اسسسے‬
‫گوارا نہیں کہ لوگ قرآن میں تدبر کرکے اللہ کی صسسفات کسسی معرفسست حاصسسل‬
‫کریں۔ چنانچہ علمہ شعرانی اپنی کتاب الکبریت الحمر میں لکھتے ہیں کہ اللہ‬
‫تعال ٰی اپنی بعض غیبی نداؤں میں کہتا ہے‪:‬‬
‫"اے میرے بندو! رات میرے لئے ہے قرآن کے لیے نہیں کہ اس کسسی تلوت‬
‫کی جائے۔ تمہارے لئے دن میں عبادت کا لمبا کام ہے‪ ،‬لہٰ ذا رات ک ُسسل کسسی ک ُسسل‬
‫میرے لئے بناؤ۔ اور جب تم رات میں قرآن تلوت کرو تو میں تم سے یہ طلب‬
‫نہیں کرتا کہ تم اس کے معانی کے ساتھ ٹھہرو۔ کیوں کہ اس کے معنسسی تسسم کسسو‬
‫مشاہدہ سے پراگندہ کردیں گ ے ۔ ایک آیت تسسم کسسو میسسری جنسست ‪ ،‬اور اس میسسں‬
‫میرے اولیاء کے لئے تیار کی ہوئی نعمت کی طرف لے جائے گی۔ پھر جسسب تسسم‬
‫میری جنت میں حور کے ساتھ نرم و نسسازک ریشسسمی گسسدوں اور توشسسکوں پسسر‬
‫آرام کررہے ہوگے تو میں کہاں ہوں گا۔ اور ایک دوسری آیت تم کو جہنسسم کسسی‬
‫طرف لے جائے گی ‪ ،‬اور تم اس کے طرح طرح کے عذاب کسسا معسسائنہ کروگ س ے ۔‬
‫تو جب تم اس میں مصروف ہوجاؤگے تو میں کہاں ہوں گا ۔ کوئی اور آیت تم‬
‫کو آدم یا نوح یا ھود یا صالح یا موس ٰی یا عیس س ٰی علی ہم الصسسلۃ والسسسلم ک سے‬
‫واقعہ کی طرف لے جائے گی۔ اور ایسے ہی اور بھی ۔حالنکہ میسسں نسے تسسم کسسو‬
‫تدبر کرنے کا حکم صرف اس لئے دیا ہے کہ تم اپنے دل ک سے سسساتھ میسسرے اوپسسر‬
‫مجتمع ہوجاؤ۔ باقی رہا احکام مستنبط کرنا تو اس کسے لئے دوسسسرا وقسست ہے‬
‫اور یہاں بڑا بلند تر مقام ہے۔ )الکبریت الحمر' بر حاشسسیہ الیسسواقیت والجسسواہر‬
‫ص ‪(12‬‬
‫واضح رہے کہ شعرانی کی یہ بات زبردست دہریت ہے۔ آخسسر الل سہ ن سے وہ‬
‫بات کہاں کہی جسے شعرانی نے گھڑ لیا ہے۔۔۔اور بھل الل سہ تعسسال ٰی ایسسسی بسسات‬
‫کہے گا کیسے جب کہ یہ اس کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی الل سہ علی سہ‬
‫وسلم پر نازل کیے گئے قرآن برحق کے خلف ہے ۔ قسرآن میسں اللسہ تعسال ٰی کسا‬
‫ارشاد ہے ۔‬
‫ك ّلَيّدّبُروا آَياِتِه ٍ)ص‪(29:‬‬ ‫ك ُمَباَر ٌ‬‫ب َأنَزْلَناُه ِإَلْي َ‬
‫ِكَتا ٌ‬
‫یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیتوں‬
‫میں تدبر کریں ۔‬
‫اور ارشاد ہے‪:‬‬
‫ب َأْقَفاُلَها )محمد ‪( 24 :‬‬
‫عَلى ُقُلو ٍ‬‫ن َأْم َ‬‫ن اْلُقْرآ َ‬ ‫ل َيَتَدّبُرو َ‬‫َأَف َ‬
‫وہ لوگ قرآن میں تدبرکیوں نہیں کرتے‪ ،‬کیا دلوں پر تالے پڑگئے ہیں ۔‬
‫اور فرمایا‪:‬‬
‫عيِد )قـ ‪( 45 :‬‬ ‫ف َو ِ‬‫خا ُ‬ ‫ن َمن َي َ‬ ‫َفَذّكْر ِباْلُقْرآ ِ‬
‫آپ قرآن کے ذریعہ اس شخص کو نصیحت کریں جو میری وعید سے ڈرتا ہو ۔‬
‫پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کسہ آپ رات میسسں تہجسسد کسے‬
‫اندر قرآن مجید کی تلوت فرمسساتے اور جسسب کسسسی ایسسسی آیسست سسے گزرتسے‬
‫‪6‬‬

‫جس میں جنت کا ذکر ہوتا تو اس آیت کے پاس رک کر اللہ عزوجل سے دعسسا‬
‫فرماتے۔ اور جب کسی ایسی آیت سے گزرتے جس میں عذاب کی وعیسسد اور‬
‫دھمکی ہوتی تو اس آیت کے پاس رک کسر اللسہ سسبحانہ سسے دعسا فرمساتے اور‬
‫جہنم سے پناہ مانگتے۔ یہ بات صحیح حدیث میسسں حضسسرت عبسسداللہ بسسن مسسسعود‬
‫رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ مگر اہل تصوف کہتے ہیں کہ رات میں قرآن کسسی‬
‫تلوت کرنا اور تہجد پڑھنا ایک ایسا مشغلہ جس میں پھنس کر آدمی اللہ س سے‬
‫پھر جاتا ہے۔ حالنکہ رات کا قیام وہ عظیم تریسسن فریضسہ ہے جسسو اللسہ نسے اپنسے‬
‫رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لئے مقرر فرمایا تھا کہ آپ اس کی بدولت‬
‫قیامت کے روز عظیم ترین مقام پر فائز ہوسکیں۔ چنانچہ اللہ تعال ٰی کا ارشسساد‬
‫ہے‬
‫حُمودًا )السراء ‪( 79 :‬‬ ‫ك َمَقامًا ّم ْ‬
‫ك َرّب َ‬‫سى َأن َيْبَعَث َ‬ ‫عَ‬ ‫ك َ‬‫جْد ِبِه َناِفَلًة ّل َ‬
‫ل َفَتَه ّ‬
‫ن الّلْي ِ‬
‫َوِم َ‬
‫اور )اے پیغمبر!( رات میں آپ قرآن کے ساتھ تہجد پڑھیں جو آپ کے لئے زائد‬
‫ہے ۔ قریب ہے آپ کا پروردگارآپ کو مقام محمود پر بھیجے ۔‬
‫غور فرمائیے کہ اللہ تعال ٰی نے پیغمبروں کے لئے مقام محمود کسسو رات‬
‫میں قرآن کے ساتھ آپ کے تہجد پڑھنے کا ثمرہ قرار دیا ہے۔ اور یہ پہل حکم تھا‬
‫جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا۔ چنانچہ اللہ تعال ٰی کسسا ارشسساد‬
‫ہے‬
‫ل اْلُقْرآ َ‬
‫ن‬ ‫عَلْيِه َوَرّت ِ‬
‫ل )‪َ (3‬أْو ِزْد َ‬
‫ص ِمْنُه َقِلي ً‬
‫صَفُه َأِو انُق ْ‬‫ل )‪ِ (2‬ن ْ‬ ‫ل ِإلّ َقِلي ً‬
‫ل )‪ُ (1‬قِم الّلْي َ‬ ‫َيا َأّيَها اْلُمّزّم ُ‬
‫ل ) المّزّمل ‪(4 -3‬‬ ‫َتْرِتي ً‬
‫اے کمبل پوش! رات میں قیام کر )تہجد پڑھ( مگر تھوڑا‪ ،‬آدھا یا اس سے کم‬
‫یا اس پر کچھ اضافہ کر‪ ،‬اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ‬
‫یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ جھوٹے )اہل تصوف( لوگوں کو اس بہانے قرآن‬
‫مجید سے پھیرتے ہیں کہ یہ ایک مشغلہ ہے جس میں پھنس کسسر آدمسسی اللسہ کسسی‬
‫عبادت سے پھر جاتا ہے پس غور فرمایئے کہ اس سے بڑھ کر تلبیس اور فریب‬
‫کاری کیا ہوگی ۔‬
‫)ب( اہل تصوف کا یہ خیال ہے کسہ ان مبتسسدعانہ اوراد ووظسسائف قسسرآن‬
‫مجید سے افضل ہیں۔ چنانچہ احمد تیجانی وغیرہ کہتے ہیں کہ "نماز فاتح" )جسسو‬
‫ان کی اپنی ایجاد و اختراع ہے( روئے زمین پر پڑھے جانے والے تمام اذکار سے‬
‫چھ ہزار گنا زیادہ افضل ہے ۔‬
‫اس کا نتیجہ یہ ہے کسہ لسسوگ قسسرآن مجیسسد کسسو چ ھوڑ کسسر مبتسسدعانہ اوراد‬
‫ووظائف میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔‬
‫)ج( اہل تصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور اس‬
‫کی تفسیر کرتا ہے اسے عذاب ہوگا۔ کیوں کہ قسسرآن کسے کچسھ اسسسرار و رمسسوز‬
‫ہیں۔ اور ظاہر و باطن ہیں۔ انہیں بڑے بڑے شیوخ کے سوا کسسوئی سسسمجھ نہیسسں‬
‫سکتا۔ اور جو شخص اس کی تفسیر یا فہم کی ذرا سی ب ھی کوشسسش کسسرے‬
‫گا اسے اللہ عزوجل سزا دے گا ۔‬
‫)د( اہل تصوف قرآن و حدیث کو شریعت اور علسم ظساہر کہتسے ہیسں ۔‬
‫جب کہ دوسرے علوم لدنیہ ان کے خیال میں قرآن سے زیادہ مکمل اور بلند تر‬
‫ہیں۔ چنانچہ ابویزید بسطامی کہتے ہیں ‪ :‬خضنا بحرا ً وقف النبیساء بسساحلہ۔ ہ ہم‬
‫نے ایک ایسے سمندر میں غوطہ لگایا کہ جس کے سسساحل ہی پسر انبیساء ک ھڑے‬
‫ہیں ۔ اور ابن سبعین کہتا ہے ‪ :‬لقد حجر ابن آمنہ واسسسعا اذ قسسال ل نسسبی بعسسدی ۔‬
‫یعنی آمنہ کے بیٹے نے یہ کہہ کر کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ایک کشادہ چیسسز کسسو‬
‫تنگ کردیا ۔‬
‫‪6‬‬

‫ظاہر ہے اس بددین کی یہ بات حد درجہ قابل نفرت اور باطسسل ہے ۔ اور‬


‫اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگائی ہے۔ پس اللسہ کسسی لعنست ہو‬
‫اس بات کے کہنے والے پسسر اور اس کسسی تصسسدیق کرن سے وال سے پسسر اور اس کسسی‬
‫پیروی کرنے والے پر ۔‬
‫خلصہ یہ کہ بد دین اہل تصوف ک سے پسساس اسسسلم ک سے خلف مکسساری اور‬
‫ہیرا پھیری کے بڑے بڑے طریقے ہیں۔ اور ان میں سے ایک بڑا طریقہ ی سہ ہہہے ک سہ‬
‫وہ مذکورہ جھوٹ اور گھڑنت کے ذریعہ لوگوں کو قرآن مجید سے پھیرتے ہیں ۔‬

‫نصوص قرآن وحدیث ک ے لئ ے‬


‫باطنی تاویل کا درواز ہ ک ھولنا‬
‫صوفیانہ افکار کے عظیم ترین خطرات میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نسسے‬
‫قرآن و سنت کے نصوص کے لئے باطنی تفسیر کسسا دروازہ ک ھول دیسسا۔ چنسسانچہ‬
‫مشکل ہی سے کوئی ایسی آیت یا حسسدیث ملسے گسسی جسسس کسسی بسسد دیسسن ا ہل‬
‫تصوف نے خبیث باطنی تاویلت نہ کی ہوں۔ علمہ ابن جوزی رحمہ اللہ اس کسسا‬
‫ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"ابو عبدالرحمن سسلمی نسے تفسسیر قسرآن کسے سلسسلے میسں ان )ا ہل‬
‫تصوف( کا کلم جو زیادہ تر ناجائز ھذیان ہے تقریبا ً دو جلسسدوں میسسں جمسسع کیسسا‬
‫ہے۔ اور اس کا نام "حقائق التفسیر" رکھا ہے۔ سورہ فسساتحہ ک سے سلسسسلے میسسں‬
‫اس نے ان سے نقل کیا ہے کہ اس کا نام فاتحۃ الکتاب اس لئے رکھا گیا ہے کسہ‬
‫یہ اول ترین چیز ہے جس سے ہم نے تمہارے ساتھ اپنے خطاب کسسا دروازہ ک ھول‬
‫ہے۔ اگر تم نے اس کے ادب کو اختیار کیا تسسو ٹھیسسک ‪ ،‬ورنسہ اس کسے مابعسسد کسے‬
‫لطائف سے تم کو محروم کردیا جائے گا" ۔‬
‫مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بری بات ہے ۔ کیوں کہ مفسرین کسسا اس‬
‫میں کوئی اختلف نہیں کہ سورۃ فاتحہ اول اول نازل نہیں ہوئی تھی ۔‬
‫اسی طرح سورہ فاتحہ کے خاتمے پر جو آمین ک ہی جسساتی ہے اس کسسی‬
‫تفسیر کی ہے کہ ‪ :‬ہم تیرا قصد کرتے ہیں"‪.‬‬
‫مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بھی بری تفسسسیر ہے۔ اس لئے ک سہ ی سہ ا ُ ّ‬
‫م‬
‫سے نہیں ہے‪ ،‬جس کے معنی قصد کرنے کے آتے ہیں۔کیوں کہ اگر ایسا ہوتسسا تسسو‬
‫آمین کی میم کو تشدید ہوتی ۔‬
‫اسی طرح اللہ تعال ٰی کے قول ‪ :‬وان یسساتوکم ا ٰسس ٰری کسے سلسسسلے میسسں‬
‫لکھا ہے کہ ابو عثمان نے کہا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جسسو گنسساہوں میسسں غسسرق‬
‫ہوں ۔ اور واسطی نے کہا کہ جو اپنے افعال کو دیکھنے میں غرق ہوں ۔ اور جنید‬
‫نے کہا کہ جو اسباب دنیا کے اندر قید ہوں۔ اور "تسم ان کسا فسدیہ دیتسے ہو" کسا‬
‫معنی یہ بیان کیا ہے کہ انہیں دنیا سے قطع تعلق کی طرف لے جاتے ہو ۔‬
‫میں کہتا ہوں کہ یہ آیت بطور انکار کے آئی ہے۔ اللسہ تعسال ٰی نسے ی ہود کسے‬
‫طرز عمل پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب تم انہیں قیسسد کرت سے ہوتسسو فسسدیہ‬
‫دیتے ہو اور جب ان سے جنگ کرتے ہو تو قتل کرتے ہو)حسسالنکہ یسہ بسسات تسسم پسسر‬
‫حرام کی گئی ہے( مگر ان اہل تصوف نے اس تفسیر انکار کے بجائے مدح کے‬
‫طور پر کی ہے ۔‬
‫‪6‬‬

‫محمد بن علی نے یحب التوابین کا معنی بیان کیا ہے کہ الل سہ ان لوگسسوں‬


‫سے محبت کرتا ہے جو اپنی توبہ سے توبہ کرتے ہیں )یعنی توبہ توڑ دیتے ہیں ۔(س‬
‫اور نوری نے یقبض و یبسط )اللہ روزی تنگ کرتا اور کشسسادہ کرتسسا ہے(‬
‫کی تفسیر یوں کی ہے کہ وہ اپنے ذریعہ قبض کرتا ہے اور اپن سے لئے پھیلتسسا ہے ۔‬
‫اور من دخلہ کان آمنا کی تفسیر یہ کی ہے کہ حرم میسسں داخسسل ہونے وال اپن سے‬
‫نفس کے خیالت اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ حالنکہ یسسہ‬
‫نہایت گندی تفسیر ہے کیوں کہ آیت کا لفظ خبر کا لفظ ہے لیکن معنی امر کا‬
‫ہے اور مفہوم یہ ہے کہ جو حرم میں داخل ہوجائے اس سے امسسن دے دو ۔ لیکسسن ان‬
‫حضرات نے اس کی تفسیر خبر سے کی ہے۔ پھر جو تفسیر کی ہے وہ صسسحیح‬
‫بھی نہیں ۔ کیوں کہ کتنے ہی لوگ ہیں جسسو حسسرم میسسں داخسسل ہوتے ہیسسں ۔ لیکسسن‬
‫نفس کے خیالت اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ نہیں رہت ے ۔‬
‫ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ )یعنی اگر تم بڑے بڑےگنسساہوں س سے پرہیسسز‬
‫کرلوگے تو ہم معمولی گناہوں کو بخش دیں گ ے ۔ السسخ( اس کسسی تفسسسیر میسسں‬
‫ابوتراب نے کہا کہ کبائر سے مراد فاسد دعوے ہیں ۔‬
‫والجار ذی القرب ٰی )قرابت دار پڑوسی( کی تفسیر میں سہل نے کہا ک سہ‬
‫اس سے مراد دل ہے اور الجار الجنسسب )پہلسسو کسسا سسساتھی( نفسسس ہے ۔ اور ابسسن‬
‫السبیل )راستہ چلنے وال مسافر( اعضاء و جوارح ہیں ۔‬
‫وھم بھا )یوسف نے اس کا قصد کیا( اس کی تفسیر میں ابسسوبکر وراق‬
‫نے کہا کہ دونوں قصد امراۃ العزیز کا تھا۔ یوسف علیہ السلم نے اس کا قصسسد‬
‫نہیں کیا تھا میں کہتا ہوں یہ صریح قرآن کے خلف ہے ۔‬
‫ما ھذا بشر )یہ بشر نہیں( کی تفسیر محمد بن علی نے یوں کی ہے کسہ‬
‫یہ اس لئق نہیں کہ اس کو مباشرت کے لئے بلیا جائ ے ۔‬
‫زنجانی نے ک ہا کسہ رعسسد)کسسڑک( فرشستوں کسسی بیہوشسیاں ہیسں اور بسرق‬
‫)بجلی( ان کے دلوں کی آہیں ہیں ۔ اور بارش ان کا آنسو ہے ۔‬
‫وللہ المکر جمیعا کی تفسیر حسین نے یوں کی ہے کہ حسسق تعسسال ٰی اپن سے‬
‫بندوں کے ساتھ جیسا مکسسر کرتسسا ہے اس سسے زیسسادہ واضسسح مکسسر کسسوئی نہیسں‬
‫کرسکتا۔ کیوں کہ اللہ نے ان کے ساتھ یہ وفا کی ہے کہ ان کے لئے اللہ کی جانب‬
‫ہر حال میں راستہ ہے ۔ یا حادث کے لئے قدیم کے ساتھ اتصال ہے ۔‬
‫مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس کے معنی پر غسسور کسسرے‬
‫گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ نرا کفر ہے۔ کیسوں کسہ یسہ اس بسات کسسی طسسرف‬
‫اشارہ ہے کہ اللہ کا مکر گویا ٹھٹا اور کھلواڑ ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ حسسسین و ہی‬
‫ہے جو حلج کے نام سے مشہور ہے ۔ اور وہ اسی لئق ہے ۔‬
‫لعمرک کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تو اپنے راز کسسو ہمسسارے مشسساہدے ک سے‬
‫ذریعہ تعمیر کرتا ہے ۔‬
‫"میں کہتا ہوں پوری کتاب اسی ڈھنگ کی ہے۔ میں نے سسسوچا ی ہاں اس‬
‫کا کافی حصہ درج کردوں۔ لیکن پھر یہ خیال آیا کہ اس طرح ایک ایسسسی بسسات‬
‫کے لکھنے میں وقت ضائع ہوگا جو یا تو کفر ہے یا خطا یا ھذیان ہے۔ یہ تفسسسیر‬
‫اسی ڈھنگ کی ہے جیسی ہم باطنیہ سے نقل کرچکے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس‬
‫کتاب کے مشتملت کو جاننا چاہتا ہو‪ ،‬اسے معلوم ہونسسا چسساہیے کسہ ی ہی اس کسسا‬
‫نمونہ ہے ۔ اور جو شخص مزید جاننا چاہتا ہو‪ ،‬وہ اس کتاب کا مطسسالعہ کرل سے" ۔‬
‫)تلبیس ابلیس ص ‪ 332‬و ص ‪(333‬‬
‫اور یہ جو کچھ امام ابن جوزی نے ذکر کیا ہے یہ اس گروہ کے اوائل سے‬
‫منقول صوفیانہ تاویلت کا محض نمونہ ہے۔ ورنہ اگر ہم اہل تصوف کے ہاتھوں‬
‫‪6‬‬

‫قرآن و حدیث کی لکھی ہوئی خبیث باطنی تاویلت کا تتبع شروع کردیسسں تسسو‬
‫دسیوں دفتر جمع ہوجائیں گے‪ ،‬جسسو سسسب کسے سسسب اسسی قسسسم کسے ہذیان ‪،‬‬
‫افتراء اور اللہ پر بل علم گھڑی ہوئی باتوں سے پر ہوں گسے۔ اور اوپسسر سسے یسہ‬
‫زعم بھی ہوگا کہ یہی معنی قرآن کے حقیقی معانی ہیں ۔‬
‫افسوس ہے کہ قرآن وحسسدیث ک سے اس بسساطنی من ہج پسسر اس گسسروہ ک سے‬
‫پیروکار آج تک کاربند ہیں۔ بلکسہ ان صسسوفیانہ خرافسسات کسسی تصسسدیق میسسں مبتل‬
‫ہونے والوں کے لئے یہ خصوصسسی نہ ہج اور اسسسلوب بسسن چکسسا ہہہے۔ تسسم مصسسطف ٰی‬
‫محمود کی کتاب "القرآن محاولۃ لتفسیر عصری" دیک ھو یسسا وہ کتسابیں دیک ھو‬
‫جنہیں نام نہاد جمہوری سودانی پارٹی کے لیڈر محمود محمد طسہ سسسودانی نسے‬
‫تالیف کیا ہے تو تمہیں ان عجیب و غریب نمونسسوں کسسا علسسم ہوگسسا جسسو صسسوفیانہ‬
‫افکار کے زیر اثر وجود میں آکسسر مسسسلمانوں کسے سسسامنے قسسرآن وحسسدیث کسسی‬
‫باطنی تاویلت کے لباس میں ظاہر ہوئے ہیں ۔‬
‫بعض نمونے پیش خدمت ہیں‪:‬‬
‫المحاولہ العصریہ لتفسیر القرآن )قرآن کریم کی عصسسری‬ ‫•‬
‫تفسیر کی کوشش( جسے ڈاکٹر مصسسطف ٰی محمسسود ن سے مصسسری رسسسالہ‬
‫صباح الخیر کے صفحات پر قلمبند کیا۔ پھر اسے "القرآن محسساولۃ لف ھم‬
‫عصری للقرآن" کے نام سے کتابی شکل میں جمع کیا۔ یہ تفسیر قسسرآن‬
‫کی نئی صوفیانہ کاوش ہے۔ اور ی سہ ڈاکسسٹر موصسسوف ک سے فکسسری اسسستاذ‬
‫محمود محمد طہ کے الفاظ میں صوفیانہ افکار کے دائرہ میں ایک وسیع‬
‫کاوش ہے ۔ چنانچہ ڈاکسسٹر موصسسوف اس کسسی تعریسسف کرت سے ہوئے اپنسسی‬
‫کتاب میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"مجھے اسلمی مفکر محمود طہ ک سے "الصسسلۃ" نسسامی رسسسالہ کسسی ایسسک‬
‫نفیس تعبیر بہت ہی پسند آئی۔ موصوف نے لکھا ہے ‪:‬‬
‫اللہ نے آدم کو کیچڑ یا گارے سے دھیرے دھیرے وجسسود میسسں نکسسال ۔ ولقسسد‬
‫خلقنا النسان من سللۃ من طین ہم نے انسان کو مٹی کے گارے سے پیدا کیا ۔‬
‫یہ مٹی سے درجہ بدرجہ اور قدم بقدم انسان کے پھوٹنے اور وجود میں آنے کی‬
‫بات ہے۔ یعنی ایلبا سے اسفنج‪ ،‬اس سے نرم حیوانات اور ان سے چھلکے والے‬
‫حیوانات‪ ،‬اور ان سے ہڈی والے حیوانات‪ ،‬اور ان سے مچھلیاں‪ ،‬مچھلیسسوں س سے‬
‫زمین پر گھسٹنے والے جانور‪ ،‬اور ان سے چڑیاں اور چڑیوں سے چ ھاتی والسے‬
‫جانور بنتے چلے گئے۔ ی ہاں تسسک کسہ اللسہ کسے فضسسل و ہدایت اور رہنمسسائی سسے‬
‫آدمیت کا اعل ٰی مرتبہ وجود میں آیا۔ )المحاولہ ص ‪(52‬‬
‫ڈاکٹر مصطف ٰی محمود کا یہ اسلمی مفکر درحقیقسست سسسودان کسسا ایسسک‬
‫زرعی انجینئر ہے جس نے تصوف کا مطالعہ کیا۔ اور اس دعسسوے تسسک پہنچسسا ک سہ‬
‫اس سے تمام شرعی احکام ساقط ہوگئے ہیں۔ )اور وہ مکلف نہیسسں رہ گیسساہے(‬
‫کیوں کہ وہ یقین کے مرحلے تک پہنچ گیا ہے ۔ اس کی کتاب تسسو و ہی نمسساز ک سے‬
‫متعلق ہے جس سے ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے مسسذکورہ عبسسارت نقسسل کسسی ہے ۔‬
‫اس کے علوہ اس کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس‬
‫کی ایک کتاب " تفسیر قرآن کی عصری کاوش" کے رد میں بھی ہے ۔‬
‫اور ڈاکٹر موصوف کو محمود محمد طہ کی کتاب الصلۃ کسسی جسسو بسسات‬
‫پسند آئی‪ ،‬اور جسے ہم ابھی نقل کرچکے ہیں‪ ،‬وہ درحقیقت آدم علی سہ السسسلم‬
‫کی پیدائش کے معاملے میسسں ڈارون ک سے نظری سے کسسو گھسسسیڑنے کسسی عجیسسب و‬
‫غریب کوشش ہے۔ حالنکہ اب اس نظریہ پر کسسسی کسسو یقیسسن نہیسسں رہ گیسسا ہے‬
‫سوائے ان لوگوں کے جو ہر قسم کے اوٹ پٹانگ خیال کو لے کر اس سے اللسسہ‬
‫‪6‬‬

‫عزوجل کے کلم کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتے ہیسں۔ اور یسہ دعسو ٰی کرتسے ہیسں کسہ‬
‫انہیں یہ بات کشف اور مجاہدہ کے ذریعسے معلسوم ہوئی ہے۔ حسالنکہ وہ محسسض‬
‫کافروں اور ملحدوں کے افکار و خیالت کی نقل ہوتی ہے جسسس پسسر وہ قسسرآن‬
‫کریم کی آیات کا لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔‬
‫باقی رہی یہ بات کہ تفسیر و تعبیر قسسرآن کسسی عصسسری کسساوش صسوفیانہ‬
‫افکار کے دائرہ سے اٹھی ہے تو اس کی دلیل قرآن کے متعلق ڈاکٹر مصسسطف ٰی‬
‫محمود کی حسب ذیل عبارتیں ہیں‪:‬‬
‫)الف( ڈاکٹر محمود مصطف ٰی نے "اسماء الل سہ" ک سے عنسسوان س سے پسسوری‬
‫ایک فصل قلمبند کی ہے جس میں رب اور ا ِلٰہٰکے معانی کی صحیح اور سالم‬
‫معرفت وہی قرار دہی ہے جسے اہل تصوف نے دریافت کیا ہے۔ چنسسانچہ لکھتسسے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"اہل تصوف کہتے ہیں کہ اللہ تعال ٰی حددرجہ ظاہر ہونے کے سبب ہم س سے‬
‫پوشیدہ ہے" ۔ ص ‪99‬‬
‫اس کے بعد موصوف صوفیانہ فکسر کسی مسدح سسرائی میسں یسوں روان‬
‫دواں ہیں کہ‪ ":‬صوفیا اللہ کا قرب محبت کسسی وجسہ سسے چسساہتے ہیسسں جہنسسم کسے‬
‫خوف یا جنت کی طلب کی وجہ سے نہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کائنسسات سسسے‬
‫اس کے بنانے والے کی طرف مسلسل ہجرت میں میں ہیں ۔ ص ‪100‬‬
‫پھر لکھتے ہیں کہ ‪" :‬اہل تصوف کے مختلف اطوار و حالت ہوتے ہیسسں ۔‬
‫اور وہ بڑی دلچسپ رائے کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی خاص گہرائی اور معنسسی‬
‫رکھتی ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کسہ معصسیت کب ھی کب ھی طساعت سسے افضسل‬
‫ہوتی ہے۔ کیوں کہ بعض معصیتیں اللہ کے خوف اور ذل وانکسار کی طرف لے‬
‫جاتی ہیں ۔ جب کہ بعض طاقتیں تکبر اور فریب نفس میں مبتل کر دیتی ہیں ۔‬
‫اور اس طرح فرمانبردار کے مقابل میں نافرمان الل سہ تعسسال ٰی ک سے کہیسسں زیسسادہ‬
‫قریب اور باادب ہوجاتا ہے" ۔ ص ‪101‬‬
‫پھر لکھتے ہیں کہ ‪ " :‬صوفی اور جوگی اور راہب سب ایسک ہی راہ کسے‬
‫راہی ہیں۔ اور زندگی کے بارے میسسں سسسب کسسی ایسسک ہی منطسسق اور ایسسک ہی‬
‫اسلوب ہے جس کا نام ہے زھد" ۔ ص ‪101‬‬
‫پھر فرماتے ہیں‪ " :‬جوگی اور راھب اور مسلمان صوفی سب ایک ہی‬
‫اسلوب سے اللسہ کسا قسرب اور اس کسی بارگساہ تسک رسسائی چساہتے ہیسں یعنسی‬
‫تسسسبیحات ک سے ذریع سہ۔ چنسسانچہ الل سہ کسسو ی سہ لسسوگ اس ک سے نسساموں س سے پکسسارتے‬
‫ہیں ۔"وللہ السماء الحسن ٰی فادعوہ بھا" اور اللہ کے بہہہترین نسسام ہیسسں پسسس اس‬
‫کو ان ہی ناموں سے پکارو" ۔‬
‫"اور تسبیحات )چاپ( کے ذریعہ ایک خاص قسم کا جسسوگ کیسسا جاتسسا ہے‬
‫جسے منتر یا جوگ کہتے ہیں۔ یہ ھندی )سنسکرت( زبان کے لفظ منسسترام س سے‬
‫بنا ہے ۔ جس کے معنی تسبیح یا چاپ کے ہیں ۔ اور سنسکرت کسسی ایسسک خسساص‬
‫تسبیح )چاپ( یہ ہے کہ جسسوگی خشسسوع کسے سسساتھ ہزاروں بسسار " ہری رام" کسے‬
‫الفاظ تلوت کرتا ہے ۔ یہ الفاظ ہمارے ہیں "رحمن و رحیم" کے بالمقابسسل ہیسسں ۔‬
‫اور سنسکرت زبان میں اللہ کا نام ہے۔ اور جوگی اپنی گردن میں ہزار دانسسے‬
‫کی ایک لمبی تسبیح لٹکائے رہتا ہے ۔‬
‫اس کے بعد ڈاکٹر مصطف ٰی محمود تصوف کے طریقے اور ا ہل تصسسوف‬
‫کے فہم اسلم کی تعریف کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں‪ ،‬اور لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"تصوف در حقیقت بلند مدارک کے ذریعہ ادراک کا نام ہے ۔ اور صسسوفی‬
‫عارف ہوتا ہے ۔ ص ‪103‬‬
‫‪6‬‬

‫پھر ڈاکٹر صاحب موصوف قرآنی آیات کو صوفیوں کی باطنی تفسسسیر‬


‫کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چنانچہ فرمسساتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"داؤد علیہ السلم کے بعض واقعات میں ہے کہ انہوں نے ک ہا‪" :‬اے میسسرے‬
‫پروردگار میں تجھے کہاں پاؤں؟ اس نے کہ اپنے آپ کو چ ھوڑ ‪ ،‬اور آ۔۔۔۔۔۔اپنسے‬
‫آپ سے غائب ہوجا ۔ مجھے پاجائے گا ۔"س‬
‫اس سلسلے میں بعض اہل تصوف نے قرآن میں موس س ٰی علی سہ السسسلم‬
‫سے اللہ کی گفتگسو کسی تفسسیر یسوں کسی ہے کسہ ‪ :‬فساخلع نعلیسک انسک بسالواد‬
‫المقدس طوی )تم اپنے جوتے اتاردو۔ تم وادی مقسسدس طسسوی میسسں ہو( میسسں‬
‫نعلین )دونوں جوتوں( سے مراد نفس اور جسم ہے ۔ یا نفس اور لذات جسسسم‬
‫میں لہٰذا اللہ سے ملقات نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسسسان اپن سے دونسسوں جسسوتے‬
‫یعنی نفس اور جسم کو موت یا زھد کے ذریعہ اتار نہ دے" ۔ ص ‪104‬‬
‫پھر ڈاکٹر صاحب مزید آگے بڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"صوفی سوال نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بیمار ہوتا ہے تو الل سہ س سے شسسفا نہیسسں‬
‫مانگتا۔ بلکہ ادب سے کہتا ہے‪ :‬میں اللہ ک سے ارادہ ک سے بالمقابسسل اپن سے لئے کسسوئی‬
‫ارادہ کیوں کر بناسکتا ہوں کہ اس سے ایسی بات کا سوال کسسروں جسسے اس‬
‫نے نہیں کیا" ۔ ص ‪105‬‬
‫پھر اللہ تعال ٰی کسے قسسول ‪ :‬ومسسا خلقسست الجسسن والنسسس ال لیعبسسدون کسسی‬
‫تفسیر یہ کی ہے کہ "میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے‬
‫کہ وہ مجھے پہچانیں"‬
‫پھر اس صوفیانہ فصل کے خاتمہ پر لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"یہی لوگ اہل اسرار‪ ،‬اصحاب قرب و شہود اور برحق اولیسساء صسسالحین‬
‫ہیں" ۔ ص ‪109‬‬
‫اب دیکھنا یہ ہے کسہ اس صسوفیاء من ہج نسے جسسو ڈاکسسٹر موصسسوف کسسا اپنسسا‬
‫منتخب کردہ ہے ان پر کیا اثر ڈالتا ہے اور اس فکر کا نتیجہ ڈاکٹر موصوف کسسے‬
‫یہاں کیا ہے؟‬
‫ڈاکٹر مصطف ٰی محمود نے قرآن مجید کی تاویل و تفسیر کا بیسسڑہ اٹھایسسا‬
‫تو لوگوں کے سامنے کیا چیز لے کر نمودار ہوئے؟ اور رب العسسالمین سسسبحانہ و‬
‫تعال ٰی کی کتاب کا وہ کیا عصری فہم ہے جو انہوں نے پیش کیسسا؟ اس سلسسسلے‬
‫میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے فہم کی رسائی کے چنسسد نمسسونے پیسسش خسسدمت‬
‫ہیں‪:‬‬
‫)الف( ڈاکٹر صاحب موصسوف نسے اپنسے حسسب ارشساد اس درخست کسو‬
‫پہچاننے کی کوشش کی جس سے کھا کسسر آدم علی سہ السسسلم نسے اللسہ تبسسارک و‬
‫تعال ٰی کی نافرمانی کی ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا اجتہاد خود ان کے‬
‫حسب ارشاد یہ ہے‪:‬‬
‫"جنسی اختلط ہی وہ ممنوعہ درخت تھا جس سے زنسسدگی ن سے زنسسدگی‬
‫کو کھالیا اور وہ عدم کے گھڑے میں جاگری"۔۔۔۔۔۔۔"اور شسسیطان جانتسسا ت ھا کسہ‬
‫نسل کا درخت موت کے آغاز اور دائمی جنت سے نکسالے جسانے کسا اعلن ہے ۔‬
‫اس لئے اس کے ایک پیغام رساں نے آدم سے یہ جھوٹ کہا کہ بعینہ یہی درخسست‬
‫ہمیشگی کا درخت ہے۔ اور اسے ورغلیا کہ وہ اپنی بیوی سے جسمانی اختلط‬
‫کرے" ۔ ص ‪64‬‬
‫‪6‬‬

‫"پھر ڈاکٹر صاحب اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ وہ یہ ب ھی یقیسسن کرت سے‬
‫ہیں کہ حواء اسی جنسسسی اختلط کسے دوران حسساملہ ہ ہوگئیں۔ چنسسانچہ وہ لکھتسے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"پھر ہم دیکھتے ہیں کہ درخت چکھ لینے کے بعد قسسرآن مجیسسد ان دونسسوں‬
‫کو یوں خطاب کرتا ہے کہ وہ جمع ہیں۔ چنانچہ کہتا ہے "اھبطوا بعضسسکم لبعسسض‬
‫عدو" )تم سب اتر جاؤ۔ تم میں کا بعض بعض کا دشسسمن ہوگسسا۔( حسسالنکہ اس‬
‫غلطی سے قبل انہی آیات میں خطاب مثن ٰی )دو( کسسو ہوا کرتسسا ت ھا۔ اس ک سے‬
‫معنی یہ ہیں کہ اس درخت سے کھانا تکاثر کا سبب بنا" ص ‪62‬‬
‫پھر اس ساری ہذیان کے بعد موصوف فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"ان مسائل میں ہمارے لئے قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ بلکہ یہ‬
‫کہنا ضروری ہے کہ وہ درخت اب بھی ایک چیستاں ہے۔ اور پیسسدائش کسسا معسساملہ‬
‫اب بھی ایک غیبی معاملہ ہے جس کے بارے میں ہم اجتہاد سے زیادہ کچ سھ نہیسسں‬
‫کہہ سکتے ۔ اللہ اپنی کتاب کو بہتر جانتا ہے۔ اور صسسرف و ہی ہے جسسو اس کسسی‬
‫تاویل سے آگاہ ہے" ۔‬
‫میں کہتا ہوں کہ جب معاملہ ایسا ہے تو پھر آپ نے یقین کےسسساتھ کسسوئی‬
‫بات کیسے کہی‪ ،‬اور ابھی ابھی وہ تفسیر کیسے کردی جو آپ کو شیریں لسسگ‬
‫رہی تھی۔ اور اللہ پر اور اس کی کتاب پر جو کچھ چاہا بغیر علم و ہدایت کسسے‬
‫کیسے کہہ دیا۔ اور معانی قرآن کے سلسلے میں وہ سسسارے دعسسوے کیسسے ہانسسک‬
‫دیئے جو آپ کی خواہش اور رائے کے موافق ت ھے ۔‬
‫پھر یہ کتنی عجیسسب بسسات ہے کسہ ان سسسب کسے بسساوجود ڈاکسسٹر مصسسطف ٰی‬
‫محمود خود ہی قرآن کی باطنی تفسیر کرنے والے بہائیوں پسسر زور شسسور سسے‬
‫حملہ آور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اور یہ بات حروف کے ظاہر اور کلمات و عبارات کے تقاضوں سے ہٹ‬
‫کر قرآن کی باطنی تفسسسیر کرنسے کسسی خطرنسساکی کسسو واضسسح کرتسسی ہے ۔ اور‬
‫بتلتی ہے کہ اس قسم کی تفسیریں کس طرح دین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکن سے‬
‫پر منتج ہوسکتی ہیں۔ یہ بعینہ وہی عمل ہے جسے خوارج ‪ ،‬اثناعشری اور بابی‬
‫فرقے قرآن مجید کو اپنے اغراض کے سانچے میں ڈھالنے اور ایسسک دوسسسرے کسسا‬
‫توڑ کرنے کے لئے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تھے" ۔‬
‫پھر ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اور یہ بات ہمیں تفسیر کے سلسسلے میسسں ایسک خساص موقسف تسک لسے‬
‫جاتی ہے جس کا التزام ضروری ہے۔ اور وہ ہے عبارت سے حرف بحرف جسسڑے‬
‫رہنا‪ ،‬اور الفاظ کے ظاہر معنی سے چپکے رہنا۔ یعنی ہم کسسی بساطنی تفسسیر‬
‫کی طرف خود قرآنی الفاظ کے الہام و اشسسارہ ک سے بغیسسر منتقسسل ن سہ ہوں ۔ اور‬
‫ظاہرا ً او باطنا ً بہر صورت تفسیر‪ ،‬الفاظ کے ظاہری مفہوم سے نسہ تسو ٹکراتسی‬
‫ہو اور نہ اس کی نفی کرتی ہو"‪) ،‬المحاولہ ص ‪(122,123‬‬
‫یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے موصسسوف نسے بسساطنی تفسسسیر کسسی‬
‫خطرناکی کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے ان سب کے باوجود خود اپن سے لئے اس‬
‫کا دروازہ کھول رکھا ہے‪ ،‬تاکہ اپنی آرزو کسے مطسسابق جسسو کچسھ کہنسسا چسساہیں ک ہہ‬
‫سکیں۔ چنانچہ موصوف نے جنت اور جہنم کو حقیقی اور محسوس شسسئے ک سے‬
‫بجائے معنوی عذاب اور نعمت قرار دیا ہے۔ اور فرمایا کہ مج ھے ش سہد ناپسسسند‬
‫ہے۔ اور جب سے میں نے سنا ہے کہ جنت میں شہد کی نہریں ہوں گسسی‪ ،‬میسسری‬
‫طبیعت کو انقباض ہوگیسا ہے۔ اسسی طسرح موصسوف نسے باشسندگان چیسن کسو‬
‫یاجوج ماجوج قرار دیا ہے۔ اور حدیث میں جسسس دجسسال کسسا ذکسسر ہے اس سسے‬
‫‪6‬‬

‫مراد موجودہ سائنس قرار دی ہے۔ کیوں کہ یہ سائنس ایسسک آنک سھ س سے صسسرف‬
‫دنیا کی طرف دیکھتی ہے۔ اس طرح عورتوں کے لئے تیراکی کے لباس کو اللہ‬
‫کے خلق میں تفکر کا تقاضا اور ضرورت کسسا لبسساس قسسرار دیسسا ہے۔ یسہ ان کسسی‬
‫تاویلت کامشتے نمونہ ازخروارے ہے ۔‬
‫باقی ر ہا ان کسسا اسستاد محمسسد محمسسود طسہ سسودانی‪ ،‬جسسس کسی بسساتیں‬
‫موصوف نے نقل کی ہیں تو یہ وہ شخص ہے جسے تسساویلت نسے اس مقسسام تسسک‬
‫پہنچایا کہ اس نے اپنے اوپر سے شریعت سسساقط کرلسسی ۔ چنسسانچہ وہ نمسساز نہیسسں‬
‫پڑھتا۔ کیوں کہ وہ اللہ کے مرتبے کو پہنچ گیا ہے۔ اور اسے قرآن میں اشسسترکیت‬
‫مل گئی ہے۔ کیوں کہ اللہ فرماتا ہے‪" :‬ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو" )لوگ‬
‫آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیسسا خسسرچ کریسسں۔ آپ ک ہہ دیسسں کسہ زائد مسسال( عفسسو کسسا‬
‫مطلب اس شخص کے نزدیک یہ ہے کسہ مسسال اکٹ ھا کرنسسا جسسائز نہیسسں ۔ اور زائد‬
‫کمائی ساری کی ساری خرچ کردینی ضروری ہے ۔‬
‫ان ساری خرافات اور لف و گزاف کے باجود اس قسم کے خیالت کو‬
‫رواج حاصل ہوا۔ میں نے سودان کی نسسام ن ہاد جم ہوری پسسارٹی کسے ب ہت سسے‬
‫افراد سے بحث و گفتگو کی ہے۔ اور قارئین کو تعجب ہوگا ک سہ اس قسسسم ک سے‬
‫باطنی افکار کو یونیورسٹی کے اساتذہ ‪ ،‬وکلء ۔ مدرسین اور طلبہ نسسے اختیسسار‬
‫کر رکھا ہے۔ اور ان خیالت کی مدافعت میں عجیب جسساں سسسوزی سسے کرتسے‬
‫ہیں ۔ پس اس سے بڑھ کر خطرے کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟‬

‫‪ -3‬اسلمی عقید ہ کی بربادی‬


‫صوفیانہ افکار سب سے پہلے جس چیز کو تباہ کرتے ہیں اور بدلتے ہیں ‪،‬‬
‫وہ ہے صاف ستھرا اسلمی عقیسسدہ‪ ،‬عقیسسدہ کتسساب و سسسنت‪ ،‬کیسسوں ک سہ صسسوفیانہ‬
‫افکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہر قسم کے جدیسسد و قسسدیم فلسسسفوں‪ ،‬خرافسسات‬
‫اور لف و گزاف کا پورا پورا معجون مرکسب ہے۔ دنیسا کسا کسوئی ب ھی کفسر ‪،‬‬
‫زندقہ اور الحاد ایسا نہیں جو صوفیانہ افکار میں داخل ہوکر صوفی عقیدے کسسا‬
‫ایک جزو نہ بن گیا ہو ۔ چنانچہ ایک طرف وحدۃ الوجود کا قول ہے کسہ جسسو کچسھ‬
‫موجود ہے وہ اللہ ہی ہے۔ تو دوسری طرف مخلوق میں اللہ کی ذات یا صفات‬
‫کے حلول کا قول ہے۔ کہیں معصوم ہونے کا دعو ٰی ہے تو کہیں غیب سسے تلقسسی‬
‫اور حصول کی ترنگ ہے۔ کہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے عسسالم کسسا‬
‫قبہ اور عرش پر مستوی قرار دیا جارہا ہے‪ ،‬تو کہیں کہا جاتا ہے کہ اولیاء کسسرام‬
‫دنیا کا نظام چلتے اور کائنات پر حکومت کرتے ہیں۔ غرض کہا جاسکتا ہے ک سہ‬
‫روئے زمین پر کوئی بھی شرکیہ عقیدہ ایسا نہیں پایا جاتا جسے صوفیانہ افکسسار‬
‫کی طرف منتقل نہ کرلیا گیا ہو‪ ،‬اور اس کو آیات واحادیث کا لباس نہ پہنا دیسسا‬
‫گیا ہو۔ بلکہ کوئی بھی صوفی جو یہ جانتا ہو کہ تصوف کیا ہے میں اسے چیلنسسج‬
‫کرتا ہوں کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق یہ ثابت کردے کہ ابلیس کافر اور جہنمی‬
‫ہے۔ اور فرعون کافر اور جہنمی تھہہا۔۔ اور بنسسو اسسسرائیل ک سے جسسن لوگسسوں نسے‬
‫بچھڑے کی پوجا کی تھی انہوں نے غلطی کی تھی۔ اور آج کسسل جسسو گسسائے کسسی‬
‫پوجا کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔۔۔۔۔کوئی بھی صوفی جو جانتا ہو کسہ تصسوف کسی‬
‫حقیقت کیا ہے میں اسے چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنی ان باتوں کو ثابت کر د ے ۔‬
‫‪6‬‬

‫کہنے وال کہہ سکتا ہے کہ یہ باتیں ثابت کیوں نہیں کی جاسکتیں جب کہ یہ‬
‫قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں ۔ اور ہر مومن ان کی گسسواہی دیتسسا ہے ۔ اور جسسو‬
‫اس میں شک کرے وہ خود ہی کافر ہے ۔‬
‫جواب یہ ہے کہ اگر صوفی ان باتوں کو ثابت کردے تو وہ عقیسسدہ تصسسوف‬
‫ہی کو مطعون کردےگا ۔ اور اپنے اکابر اور بزرگوں کسو مشسکوک ٹھہ ہرادے گسا ۔‬
‫بلکہ اپنے بڑے بڑے رہنماؤں اور اساطین کو کافر قرار دے دے گا۔ اور نتیجہ کسسے‬
‫طور پر وہ خود تصوف کے دائرہ سے باہر ہوجسسائے گسسا۔ کیسسوں کسہ صسسوفیوں کسے‬
‫شیخ اکبر بددین ابن عربی کا دعو ٰی ہے کہ فرعون موس س ٰی علی سہ السسسلم س سے‬
‫بڑھ کر اللہ تعال ٰی کو جانتا تھا۔ اور جن لوگوں نے بچ ھڑے کسسی پوجسسا کسسی ت ھی‬
‫انہوں نے اللہ ہی کو پوجا تھا۔ کیوں کہ بچھڑا بھی ۔ اس کے خبیث عقیسسدے کسسی‬
‫وا کسسبیرا( بلک سہ‬
‫رو سے اللہ تعال ٰی ہی کا ایک روپ تھا۔ )تعال ٰی اللہ عن ٰذلسسک عل س ً‬
‫تعالی ہی کی پوجا کرتے ہیسسں ۔‬ ‫ٰ‬ ‫اس شخص کے نزدیک بتوں کے پجاری بھی اللہ‬
‫کیوں کہ اس شخص کے نزدیک یہ سارے جدا جدا روپ بھی الل سہ ہی ک سے روپ‬
‫ہیں۔ وہ ہی سورج اور چاند ہے۔ وہی جن و انس ہے۔ وہہہی فرشسستہ اور شسسیطان‬
‫ہے۔ بلکہ وہی جنت اور جہنم ہے۔ وہی حیوان اور پیڑ پودا ہے اور وہہہی مسسٹی اور‬
‫اینٹ پتھر ہے ۔ لہٰذا زمین پر جو کچھ بھی پوجاجائے وہ اللہ کے سسسوا کچ سھ نہیسسں ۔‬
‫ابلیس بھی ابن عربی کے نزدیک اللہ تعال ٰی ہی کا ایک جزو ہے۔ )تعال ٰی اللہ عن‬
‫وا کبیرا(‬‫ذلک عل ً‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ملعون عقیدہ کو ) جس سسے بسڑھ کسر گنسدہ ‪،‬‬
‫بیہودہ‪ ،‬بدبودار اور بدکردار عقیدہ نہ روئے زمین نے کبھی دیک ھا ہوگسسا( صسسوفیاء‬
‫حضرات سّرالسرار )رازوں کا راز( غایتوں کی غایت‪ ،‬ارادتوں کا منتہا‪ ،‬پہنچے‬
‫ہوئے کاملین کا مقام اور عارفین کی امیدوں کی آخری منزل قرار دیتے ہیسسں ۔‬
‫حالنکہ یہ بددینوں ‪ ،‬زندیقوں‪ ،‬برہمنوں‪ ،‬ہندوؤں اور یونان کے پرانے فلسسسفیوں‬
‫کا عقیدہ ہے۔ اور اس کے بعد تصوف میں جو برائی بھی داخسسل ہوئی وہ یقینسا ً‬
‫اسی ملعون عقیدے کی تساریکی میسں چ ھپ کسر داخسل ہوئی ۔ اور یسہ ایسسی‬
‫حقیقت ہے کہ آج روئے زمین پر تصوف کی حقیقت کو جسساننے وال کسسوئی ب ھی‬
‫صوفی اس کا انکار نہیں کرسکتا۔ اور نہ اسے برا کہہ سسسکتا ہے۔ بلک سہ وہ زیسسادہ‬
‫ب ذوق اور ا ہل‬ ‫سے زیادہ یہ کہہ سسسکتا ہے کسہ ان لوگسسوں کسسا علسسم صسسرف اربسسا ِ‬
‫معرفت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حالنکہ یہ بات واضسسح عربسسی زبسسان میسسں صسساف‬
‫صاف لکھی ہوئی ہے ۔ ان حضرات نے اسے ضخیم ضخیم جلدوں میں لکھا ہے ۔‬
‫اور نثر اور شعرا اور قصیدوں اور امثال سے اس کی شرح کی ہے ۔‬
‫البتہ بعض اہل تصوف اس سلسلے میں یہ معذرت کرتے ہیں کسہ یسہ بسسات‬
‫وجد کے غلبے اور شطحیات کے طور پر کہی گئی ہے۔مگر معلوم ہے کہ شسسطح‬
‫درحقیقت مدہوشی‪ ،‬پاگل پن اور جنون کو کہتے ہیں۔ اور اہل تصوف کا دعو ٰی‬
‫ہے کہ ان کے یہ احوال کامل ترین احوال ہیں۔ اس لیئے سوال یسہ ہہہے کسہ جنسسون‬
‫اور پاگل پن کمال کیونکر ہوسکتا ہے۔ پھر جو بات دسیوں جلدوں میں لک ھی‬
‫اور مدون کی گئی ہے‪ ،‬اور جسے اہل تصوف کی غایۃ الغایات اور امیدوں کی‬
‫آخسسری منسسزل قسسرار دے کسسر لوگسسوں کسسو اس دعسسوت دی جسسارہی ہے وہ بسسات‬
‫شطحیات )پاگل پن کی بات( کیسے ہوسکتی ہے؟‬
‫کبھی کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ باتیں گھڑ کر ان کی طرف منسوب‬
‫کردی گئی ہیں۔۔۔۔ مگر یہ بھی حقیقت صوفیوں کے ج ھوٹ اور فریسسب کسساری‬
‫کا ایک حصہ ہے۔ میں ہر صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ کسسسی معیسسن عبسسارت‬
‫کو ذکر کرکے بتائے کہ یہ غلط طسور ان کسی طسرف منسسوب کسی گئی ہے ۔ یسا‬
‫‪6‬‬

‫کسی خاص اور معین عقیدے کو ذکسسر کرکسے بتسسائے کسہ فلں لکھنسے والسے کسسی‬
‫طرف اسے غلط منسوب کیا گیا ہے۔ بھل ایسا کیسے ہوسکتا ہے‪ ،‬جسب کسہ اس‬
‫سلسلہ میں پوری پوری کتاب لکسھ مسساری گئی ہیسسں۔ آراسسستہ وپیراسسستہ عقیسسدے‬
‫تصنیف کرڈالے گئے ہیں ۔ اور موزوں و خوش آہنگ قصیدے کہہ ڈالسسے گئے ہیسسں ۔‬
‫میں کسی بھی صوفی کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ بتائے کہ یہ قصسسیدہ غلسسط طسسور‬
‫پر منسوب ہے۔ یا فلں معین قول غلط طور پر منسوب ہے۔ کیوں کسسہ اگسسر وہ‬
‫ایسا کہے گا تو پھر سارا کا سارا تصوف جھوٹا اور غلط انتسسساب کسسا مجمسسوعہ‬
‫بن جائےگا۔ اور یہ بات برحق بھی ہے۔ کیوں کہ تصوف کے یہ بڑے بڑے جفسسادری‬
‫یعنی حلج‪ ،‬بسطامی‪ ،‬جیلی‪ ،‬ابن سبعین‪ ،‬ابن عربی‪ ،‬نابلسی ‪ ،‬تیجانی وغیسسرہ‬
‫وغیرہ یہ سب کے سب درحقیقت اس امت میسں غلسسط طسسور گھسسسائے گئے اور‬
‫اس امت کی طرف غلط طور پر منسسوب کئے گئے ہیسں ۔ ان ہوں نسے اللسہ اور‬
‫رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا ہے۔ اللہ کے دیسسن میسسں باطسسل بسسات‬
‫کہی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا زعم ہے کسہ وہ خسود اللسہ ہے جسو کائنسات میسں‬
‫تصرف کرتا ہے ۔ اور ہر ایک کا دعو ٰی ہے کہ اللہ نے اس کائنسسات کسسا ایسسک حص سہ‬
‫اس کو سونپا ہے۔ ان میں سے ہر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ولی کامل ہے جسسس‬
‫کے پاس صبح و شسسام وحسسی آتسسی ہے۔ بلکسہ وہ غیسسب سسے واقسسف ہے اور لسسوح‬
‫محفوظ کو پڑھتا ہے۔ اللہ نے اس کو خاتم النبیاء بنایا ہے۔ اور اسے دنیا کا قبلہ‬
‫اور ساری مخلوق کے لئے معجزہ اور مینسسار قسسرار دیسسا ہے۔ نسسبی ک سے بعسسد بسسراہ‬
‫راست اسسسی کسسا درجسہ و مقسسام ہے۔ نسسبی ان کسے نزدیسسک عسسرش رحمسسانی پسسر‬
‫مستولی و مستوی ہے۔ یعنی عرش پر محمد صلی اللہ علی سہ وسسسلم کسسی ذات‬
‫کے سوا کچھ نہیں ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک تمسسام ذات میسسں‬
‫سب سے پہل وجود ہیں۔ اور تمام تعینات میں سب س سے پہل تعیسسن ہیسسں۔ و ہی‬
‫اللہ کے عرش پر مستوی ہیں ۔ وہ سارے انبیاء کی طرف وحی بھیجتے ہیں ۔ اور‬
‫سارے اولیاء کو الہام کرتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے خود اپنی طرف سے اپن سے پسساس‬
‫وحی بھیجی ۔ یعنی انہوں نے وحی کو آسمان پر جبریل ک سے حسسوالے کیسسا ۔ اور‬
‫زمین پر ان سے وصول کیا ۔‬
‫"مسلمانو! کبھی آپ لوگوں نے کوئی ایسا عقیدہ سنا ہے جو اس درجسسہ‬
‫بسے حیسسائی ‪ ،‬خسسست ‪ ،‬گسسراوٹ‪ ،‬کفسسر اور بسے دینسسی لئے ہوئے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔یسہ ہے‬
‫صوفیوں کا عقیدہ‪ ،‬اور یہ ہے ان کی میراث‪ ،‬اور یہ ہے ان کا دیسسن۔۔۔۔۔بحمسسداللہ‬
‫ہم نے یہ ساری باتیں تفصیل کے ساتھ اپنسسی کتسساب "الفکرالصسسوفی فسسی ضسسوء‬
‫الکتاب والسنۃ" کے دوسرے ایڈیشن میں بیان کردی ہیں۔ اور ہر بات کے ثبوت‬
‫میں ان زندیقوں کی کتابوں سسے لمسسبی لمسسبی عبسسارتیں نقسسل کسسردی ہیسسں۔ یسہ‬
‫زندیق آج بھی دنیا کے سامنے یوں ظسساہر ہوتے ہیسسں گویسسا وہ اللسہ کسے ولسسی اور‬
‫محبوب ہیں‪ ،‬دلوں کی کنجیوں کے مالک ہیں۔ اور ان کے پاس مسسسلمانوں کسو‬
‫تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لنے کے لئے تربیست کسسا ب ہترین اور افضسسل‬
‫تریسسن طریق سہ ہے۔ حسسالنکہ ی سہ ہے ان کسسا عقیسسدہ اور ی سہ ہے ان کسسا طریق سہ‪ ،‬جسسو‬
‫مسلمانوں کا دین بگاڑنے اور لوگوں کو رب العالمین کے پیغام سے ہٹسسانے اور‬
‫بہکانے کا کام کرتا ہے ۔‬

‫‪ -4‬فسق اور فجور اور اباحّیت‬


‫کی دعوت‬
‫‪6‬‬

‫جولوگ ی ہ سمج ھت ے ہیں ک ہ تصوف کی بنیاد پ ہلق ے پ ہل تقققو ٰی‬


‫پر ت ھی و ہ غلطی پر ہیں ۔ ان ک ے متعلق ابن جوزی رحم ہ اللقق ہ کققی‬
‫زبققانی حسققب ذیققل حکققایت سققنی ے ۔ و ہ ابوالقاسققم بققن علققی بققن‬
‫محسن تنوخی عن ابی ہ کی سند س ے روایت کرت ے ہیں ک ہ ان ہوں ن ق ے‬
‫بیان کیا ک ہ ‪:‬‬
‫مج ھے ا ہل علم کی ایک جماعت ن ے بتایا ک ہ شیراز میققں ایققک‬
‫شخص ت ھا جو ابن خفیف بغدادی ک ق ے نققام س ق ے معققروف ت ھا ۔ اور‬
‫و ہاں صوفیوں کا شیخ )پیر( ت ھا ۔ صوفیاء اس ک ے پاس جمع ہوت ے۔‬
‫اور و ہ دل میں گزرن ے وال ے خیالت اور وسوسوں ک ے متعلق باتیں‬
‫کیا کرتققا ۔ اس کق ے حلقق ہ میققں ہزاروں آدمققی جمققع ہوت ے۔ و ہ بققڑا‬
‫خوشحال ‪ ،‬چالک اور مققا ہر ت ھا ۔ اس ن ق ے کمققزور لوگققوں کققو اس‬
‫مذ ہب میں پ ھنسا رک ھا ت ھا ۔ و ہ بیان کرت ے ہیں ک ہ اس ک ے شاگردوں‬
‫میں س ے ایک آدمی مرگیا‪ ،‬اور اپنی صوفی بیوی کققو چ ھوڑ گیققا ۔‬
‫اس ک ے پاس بڑی تعققداد میققں صققوفی عققورتیں جمققع ہوئیں ۔ اس‬
‫ماتم میں ان ک ے سوا کوئی اور عورت شامل ن ہ ت ھی ۔ جققب لققوگ‬
‫اس آدمی کو دفن ک ے کرک ے فارغ ہوئ ے تو ابن خفیف اور اس ک ق ے‬
‫خواص شاگرد جو خاصی بڑی تعققداد میققں اس ک ق ے گ ھر آئ ے ۔ اور‬
‫عورت کو صوفیوں کی باتوں ک ے ذریع ہ تسلی دین ے لگ ے۔ ی ہاں تققک‬
‫ک ہ اس ن ے ک ہا کق ہ مج ھے تسققلی ہوگئی ۔ تققب ابققن خفیققف ن ق ے اس‬
‫عورت س ے ک ہا ‪ :‬ی ہاں غیر ب ھی ہیں؟ اس ن ے ک ہا ن ہیں غیر ن ہیں ہیقں‬
‫۔ اس ن ے ک ہا ‪:‬پ ھر نفس پر غم و الم کی آفتوں کو لزم کرن ق ے اور‬
‫اس ے رنج و غم ک ے عذاب میں مبتل رک ھن ے س ے کیا فائد ہ؟ آخققر ہم‬
‫کس بناء پر امتزاج )آپس میں خلط ملقط ہون ے( کقو چ ھوڑ دیقں ‪،‬‬
‫کیوں ک ہ اس س ے انوار ایک دوسر ے س ے ملیں گ ے ‪ ،‬روحیققں صققاف‬
‫ہوں گی‪ ،‬آمد ورفت ہ ہوگی اور برکققتیں نققازل ہ ہوں گققی ۔ اس ک ق ے‬
‫جواب میں عورتوں ن ے ک ہا‪ :‬اگر آپ چا ہیں ۔ نتیج ہ ی ہ ہوا کقق ہ مققردوں‬
‫اور عورتوں کی جماعتیں ایققک دوسققر ے س ق ے رات ب ھر ب ھڑی اور‬
‫خلط ملط ر ہیں اور جب صبح ہوئی تو نکل ب ھاگیں ۔‬
‫اس واقع ہ ک ے راوی محسن ک ہت ے ہیں‪ :‬ابن خفیف ن ق ے جققو ی ق ہ‬
‫ک ہا ک ہ کیا ی ہاں غیر ہیں؟ تو اس کا مطلب ی ہ ت ھا کیققا ی ہاں کققوئی‬
‫ایسا ب ھی ہے جققو ہمققار ے مققذ ہب کق ے موافققق ن ہیققں ۔اور عققورت کق ے‬
‫جواب کا مطلب ی ہ ت ھا ک ہ ہمارا کققوئی مخققالف موجققود ن ہیققں ۔ ابققن‬
‫خفیف ن ے جو ی ہ ک ہا ت ھا ک ہ ہم امتزاج کو کیوں چ ھوڑدیں‪ ،‬تو اس کا‬
‫مطلب ی ہ ت ھا ک ہ وطی میں اختلط ہونا چا ہی ے۔ )یعنی ایک ایک مرد‬
‫کئی کئی عورتوں س ے‪ ،‬اور ایک ایک عورت کئی کئی مردوں س ے‬
‫وطی کریں اور کرائیں ۔( اور جققو یق ہ ک ہا ک ق ہ اس س ق ے انققوار ایققک‬
‫دوسر ے س ے ملیں گ ے تو ان کا عقید ہ ی ہ ہے ک ہ ہر جسققم میققں ایققک‬
‫خدائی نور ہے )پس بدکاری ک ے نتیج ہ میں مرد اور عورت ک ے انققدر‬
‫موجود خدائی نور ایک دوسر ے س ے مل جائ ے گا ۔ العیققاذ بققالل ہ( اور‬
‫ی ہ جو ک ہا ک ہ آمد ورفت ہوگی‪ ،‬تو اس کا مطلب ی ہ ہے کق ہ تققم میققں‬
‫س ے جس کقا شقو ہر مرگیقا‪ ،‬یقا سقفر میقں چل گیقا‪ ،‬اس کقی جگق ہ‬
‫دوسرا شخص آجائ ے گا ۔‬
‫‪6‬‬

‫محسن ک ہت ے ہیں ک ہ ی ہ میر ے نزدیک ایک عظیم واقع ہ ہے۔ اگر‬


‫مج ھے اس کی اطلع ایک ایسی جماعت ن ے ن ہ دی ہوتی جو ج ھوٹ‬
‫س ے دور و نفقور ہے تقو میقر ے نزدیقک اتنقا عظیقم واقعق ہ ہے‪ ،‬اور‬
‫دارالسلم میں ایسی بات کا پیققش آنققا اس قققدر مسققتعبد ہے کق ہ‬
‫میں اس ے بیان ہی ن ہ کرتا ۔‬
‫و ہ ک ہت ے ہیققں کق ہ ‪ :‬مج ھے یق ہ ب ھی معلققوم ہوا کق ہ یق ہ اور اس‬
‫جیسی باتیں پ ھیل کر عضدالدول ہ تک جاپ ہنچیں‪ ،‬۔ اور جققب اس ن ق ے‬
‫ان ک ے ایک گرو ہ کو گرفتار کرک ے کوڑوں سق ے پٹقائی کقی‪ ،‬اور ان‬
‫ک ے مجمع کو پراگند ہ کیا‪ ،‬تب و ہ اس س ے باز آئ ے۔ )تلبیس ابلیققس‬
‫ص ‪(374‬‬
‫غرض تم ہیں یقین کرنا چا ہئ ے ک ہ یق ہ گققرو ہ اپنق ے ہر دور میققں‬
‫محض بددینوں ‪ ،‬ج ھوٹ ے مدعیوں اور زندیقوں کا مجموع ہ ر ہا ہے۔‬
‫جو بظا ہر تو شریعت ک ے پاک و صاف ظا ہر کی پابنققدی کرتققا ت ھا ۔‬
‫مگر نگا ہوں س ے پس پرد ہ کفققر و فسققق اور زنققدق ہ چ ھپققائ ے رک ھتققا‬
‫ت ھا ۔ اسی لئ ے ابن عقیل حتمی طور پر ک ہت ے ت ھے ۔ جیسققا ک ق ہ ابققن‬
‫جوزی ن ے ان س ے نقل کیا ہے ک ہ ی ہ لوگ زندیق ‪ ،‬ملحد اور دین کقق ے‬
‫ج ھوٹ ے دعویدار ہیں ۔ چنانچ ہ و ہ ک ہت ے ہیں‪ ":‬ان فارغ اور اثبات سقق ے‬
‫خالی لوگوں کی طرف کان لگان ے س ے خقدا کق ے لئ ے بچقو ۔ یق ہ نققر ے‬
‫بددین لوگ ہیں جو ایک طرف مزدوروں کا لباس یعنی گدڑی اور‬
‫اون پ ہنت ے ہیں اور دوسققری طققرف بققدکردار بققدینوں وال ق ے اعمققال‬
‫کرت ے ہیں ‪ ،‬یعنققی ک ھات ے اور پیتق ے ہیققں‪ ،‬نققاچت ے اور ت ھرکتق ے ہیققں ‪،‬‬
‫عورتوں اور لون ڈوں س ے گان ے سنت ے ہیں ۔ اور شققریعت ک ق ے احکققام‬
‫چ ھوڑت ے ہیں ۔ زندیقوں کو ب ھی جراءت ن ہیں ہوتی ت ھی ک ہ شققریعت‬
‫ک ے احکام چ ھوڑ دیں ۔ ی ہاں تک ک ہ ا ہل تصققوف کققا ظ ہور ہوا تققو و ہ‬
‫بدکاروں کی روش سات ھ لئ ے" ۔‬
‫یاد ر ہے ک ہ ابن عقیل رحم ہ الل ہ نق ے ی ق ہ بلیققغ عبققارت اپ ق ے زمققان ہ ک ق ے‬
‫صوفیوں ک ے احوال درج کرن ے ک ے بعد لک ھی ہے۔ چنققانچ ہ و ہ لک ھت ق ے‬
‫ہیں‪:‬‬

‫ابن عقیل صوفیوں کی سیا ہ‬


‫کاریاں بیان کرت ے ہیں‬
‫" میں کئی وجہوں سے صوفیوں کی مذمت کرتا ہوں جن کے فعل کسسی‬
‫مذمت کو شریعت نے ضروری قرار دیا ہے۔ ایسسک وجسہ یسہ ہے کسہ ‪" :‬ان ہوں نسے‬
‫بیکسساری کسے اڈے یسا احسسدی خسسانے قسسائم کررک ھے ہیسں۔ اس سسے مسسراد ان کسی‬
‫خانقاہیں ہیں۔ جہاں وہ مساجد کی جماعتوں سے کسسٹ کسسر پسسڑے رہتسے ہیسسں۔ یسہ‬
‫خانقاہیں نہ تو مسجد میں نہ مکانات نسہ دکسسانیں۔ وہ ان خانقسساہوں میسسں اعمسسال‬
‫معاش سے کٹ کر محض بے کار پسڑے رہتسے ہیسں ۔ اور ک ھانے پینسے اور نساچنے‬
‫گانے کے لیے جانوروں کی طرح اپنے بدن کو موٹا کرتے ہیں ۔ اپنی چمسک دمسک‬
‫دکھانے اور نگاہوں کو خیرہ کرنے کے لئے گدڑی اور پیوند پر اعتماد کرتے ہیسسں ۔‬
‫اور عوام اور عورتوں پر اثر انداز ہونے والے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلتسسے‬
‫ہیں۔ جیسے ریشم کے مختلف رنگ کے شعبدے دکھلتے ہیں۔ جیسے ریشم کسسے‬
‫‪6‬‬

‫مختلف رنگوں سے سقلطون کی چمک دکھلئی جاتی ہے۔ یہ مختلف صورتیں‬


‫بناکر اور لباس پہن کر عورتوں اور بے داڑ ھی مسسونچھ کسے نسسوخیز لڑکسسوں کسسو‬
‫اپنی طرف مائل کرتے ہیسں۔ اور جسس گ ھر میسں داخسل ہوتے ہیسں اگسر و ہاں‬
‫عورتیں ہوں تو یہ ان عورتوں کا دل ان کے شوہروں سے بگسساڑ کسسر ہی نکلت سے‬
‫ہیں۔ پھر یہ لوگ ظالموں ‪ ،‬فاجروں اور لٹیروں مثل ً نمبرداروں ‪ ،‬فوجیسسوں اور‬
‫ناجائز ٹیکس لینے والوں سے کھانے اور غلے اور روپے پیسے قبسسول کرت سے ہیسسں‬
‫بے داڑھی مونچھ کے نوخیز لڑکوں کو سماع کی مجلسوں میں اپنے سسساتھ لسے‬
‫جاتے ہیں اور شمع کی روشنی میں مجمعسسوں کسے انسسدر انہیسسں کھینچتسے ہیسسں ۔‬
‫اجنبی عورتوں سے ملتے جلتے ہیں۔ اور اس کے لئے یہ دلیل دیتے ہیں ک سہ انہیسسں‬
‫خرقہ پہنانا ہوتا ہے۔ اور حلل بلکہ ضروری سمجھتے ہیں کہ مسسستی میسسں جسسس‬
‫شخص کے کپڑے گرجائیں اس کے کپڑوں کو آپس میں بانٹ لیں۔ یہ لسسوگ اس‬
‫مستی کو وجد کہتے ہیں ‪ ،‬اور دعوت کو وقت کہتے ہیں‪ ،‬اور لوگوں کسسو کپسسڑے‬
‫بانٹنے کو حکم کہتے ہیں۔ اور جس گھر میں ان کی دعسسوت کسسی گئی ہو و ہاں‬
‫سے اسی وقت نکلتے ہیں جب کہ ایک دوسری دعوت کو لزم کرلیں۔ وہ کہت سے‬
‫ہیں کہ یہ دعوت واجب ہوگئی۔ حالنکہ ان باتوں کا عقیدہ رکھنا کفر ‪ ،‬اور انہیں‬
‫کرنا فسق ہے ۔‬
‫ان کا یہ عقیدہ ہے کہ سارنگی بجاکر گاناگانا عبادت ہے۔ ہم ن سے ان س سے‬
‫سنا ہے حدی خوانی اور محمل کی آمد کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔ کیوں کسسہ‬
‫ان کا عقیدہ ہے کہ یہ بھی عبادت ہے۔ حسسالنکہ یسہ ب ھی کفسسر ہے۔ کیسسوں ک سہ جسسو‬
‫شخص مکروہ اور حرام کام کو عبادت سمجھے وہ اپنے اس عقیسسدے کسسی وج سہ‬
‫سے کافر ہوگیا۔ جب کہ باقی لوگوں کے لئے وہ کام صرف حرام یا مکسسروہ ہی‬
‫رہا ۔‬
‫اور اہل تصوف اپنے آپ کو اپنے شیخ )پیر( کسے حسسوالہ کرتسے ہیسسں ۔ پسسس‬
‫اگر ان کے شیخ کے درجہ و مقام کی بات آتی ہے تو ک ہا جاتسا ہے کسہ شسیخ پسر‬
‫اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس شیخ کی رسی کھلنے اور شطحیات نسسامی‬
‫کفر و ضللت والے اقوال کے دھاگے میں منسلک ہونے اور فسق و فجسسور ک سے‬
‫معلوم و معروف کاموں میں ملوث ہونے کا حال نہ پوچھو۔ اگر وہ شیخ کسسسی‬
‫خوبرو لونڈے کو بوسہ لیتا ہے تو کہا جاتا ہے کسہ رحمست ہے ۔ اگسر کسسی اجنسبی‬
‫عورت کے تنہائی میں اکٹھا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے وہ اس کی بیٹی ہے‪ ،‬اور اس‬
‫نے خرقہ پہن رکھا ہے۔ اور وہ کوئی اور کپڑا اس کے مالک کسسی رضسسامندی ک سے‬
‫بغیر دوسروں پر تقسیم کرتا ہے تو کہا جاتا ہے خرقہ کا فیصلہ ہے ۔ ابسسن عقیسسل‬
‫کہتے ہیں کہ ‪ :‬حالنکہ مسلمانوں کا کوئی شیخ ایسا نہیں جس کو اس کے حال‬
‫پر چھوڑا جاسکے اور اس کے احوال تسلیم کئے جاسکیں۔ کیوں کہ یہاں کوئی‬
‫شیخ ایسا نہیں جو دائرہ تکلیف میں نہ ہو۔ پھر پسساگلوں اور بچسسوں کسے ہاتھ پسسر‬
‫مارا جاتا ہے۔ اور یہی سلوک چوپایوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ خطاب کے بدلے‬
‫مار پڑتی ہے۔)پس صوفیوں کے مشائخ کو ان ک سے حسسال پسسر کیسسوں کسسر چ ھوڑا‬
‫جاسکتا ہے( ہاں اگر کوئی شیخ ایسا ہوتا جسے اس کے حال پر چھوڑا جاسکتا‬
‫تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔ مگر ان کا ب ھی ارشسساد ہے ک سہ ‪" :‬اگسسر‬
‫میں ٹیڑھا ہوجاؤں تو مجھے سیدھا کردو" یہ نہیں فرمایا کہ مج ھے میسسرے حسسال‬
‫پر چھوڑ دو۔ پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ کس طسسرح‬
‫آپ پر بھی صحابہ نے اعتراض کیا چنانچہ حضرت عمر بسسن خطسساب رضسسی الل سہ‬
‫عنہ کو دیکھو کہ انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم نمسساز قصسسر کیسسوں کریسسں جسسب ک سہ‬
‫حالت امن میں ہیں۔ اسی طسسرح ایسسک دوسسسرے صسسحابی نسے ک ہا کسہ آپ ہمیسسں‬
‫‪6‬‬

‫وصال سے )یعنی بغیر پے درپے روزہ رکھنے سے( کیوں منع کرتے ہیں۔ جب کسسہ‬
‫آپ خود وصال کرتے ہیں؟ اور ایک صحابی نے کہا کہ آپ ہمیں حسسج کسے احسسرام‬
‫کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا حکسم دے ر ہے ہیسں ‪ ،‬اور خسود ایسسا نہیسں کرر ہے‬
‫ہیں؟‬
‫تعالی پر اعسستراض ہوتسسا ہے ۔ یعنسسی تخلیسسق‬
‫ٰ‬ ‫پھر اور آگے بڑھو ۔ دیکھو اللہ‬
‫آدم کے موقع پر اس سے فرشتے کہتسے ہیسسں ‪":‬اتجعسسل فی ھا" السسخ )اے اللسہ کیسسا‬
‫زمین میں ایسی مخلوق کو بنائے گا جو فساد مچائے گسسی ۔ السسخ( اسسسی طسسرح‬
‫اللہ تعال ٰی سے موس ٰی علیہ السلم نے کہا تھا‪":‬اتھلکنا بمسسا فعسسل السسسفھآء منسسا"‬
‫)کیا تو ہمارے بیوقوفوں کی کرنی پر ہمیں ہلک کرے گا ۔(س‬
‫واضح رہے کہ صوفیوں نے یہ بات )کہ شیخ پر اعتراض نہیں کیا جاسسسکتا(‬
‫اپنے اگلوں کو خوش کرنے ‪ ،‬اور تابعداروں اور مریدوں پر اس کے سسسلوک کسسا‬
‫سکہ بٹھانے کے لئے ایجاد کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعال ٰی کسسا ارشسساد ہے‪":‬فاسسستخف‬
‫قومہ فاطاعوہ" )فرعون نے اپنی قوم کو حقیر جانا تو انہوں نے اس کسسی بسسات‬
‫مان لی( اور غالبا ً یہ بات انہی لوگوں نے ایجاد کی ہے جو یہ کہتسے ہیسسں کسہ بنسسدہ‬
‫جب اپنے آپ کو پہچان لے تو جو بھی کرے اسے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ حالنکہ‬
‫یہ غایت درجہ بددینی اور گمراہی ہے۔ کیوں کہ فقہاء کا اس بات پر اجمسساع ہے‬
‫کہ عارف جس حال تک پہنچتا جاتا ہے اس پر تکلیف کسسا دائرہ اسسسی قسسدر تنسسگ‬
‫ہوجاتا ہے۔ جیسے انبیاء کے حالت ہیں کہ انہیسسں صسسغائر کسے سلسسسلہ میسسں بھہہی‬
‫تنگی کے اندر رکھا جاتا ہے۔ پس ان فسسارغ اور اثبسسات س سے خسسالی لوگسسوں کسسی‬
‫طرف کان لگانے سے خدا کے لئے بچو‪ ،‬خدا کے لئے بچو‪ ،‬یہ لوگ محض زنسسدیق‬
‫ہیں جنہوں نے ایک طرف مزدوروں کا لباس یعنی گدڑی اور اون پہن رکھا ہے ۔‬
‫اور دوسری طرف بے حیا اور بدکردار ملحدوں کا عمل اپنائے رکھا ہے ۔ یعنسسی‬
‫کھاتے پیتے ہیں ناچتے تھرکتے ہیں ۔ عورتوں اور لونسڈوں سسے گسسانے سسنتے ہیسں ۔‬
‫اور شریعت کے احکام چھوڑتے ہیں۔ زندیقوں نے بھی شریعت کو چھوڑنے کی‬
‫جراءت نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ اھل تصوف آئے تو بدکاروں کسسی روش ب ھی‬
‫ساتھ لئے" ۔‬

‫صوفیاء اور گان ے کی‬


‫حلت‬
‫پ ھر ابن عقیل رحم ہ الل ہ ان ک ے زندق ہ اور کفر کا حققال بیققان‬
‫کرت ے ہوئ ے بتققات ے ہیققں کق ہ کققس طققرح ان ہوں ن ق ے اپن ق ے خیققال میققں‬
‫شریعت اور حقیقت ک ے درمیان تفریق کی ۔ اور نش ہ آور حشیش‬
‫)گانجا اور ب ھنگ وغیر ہ( کو حلل ٹ ھہرایا ۔ بلک ہ ی ہی و ہ گرو ہ ہے جس‬
‫ن ے پ ہلق ے پ ہل اس )گققانج ے( کققا انکشققاف کیققا ۔ اور مسققلمانوں کق ے‬
‫درمیان اس کو رواج دیا ۔ اسققی طققرح ان ہوں نق ے گققان ے اور مققرد و‬
‫عورت ک ے درمیان اس کو رواج دیققا ۔ اسقی طققرح ان ہوں گققان ے اور‬
‫مرد و عورت ک ے اختلط کققو حلل ٹ ھہرایققا ۔ اور یق ہ ک ہہ کققر کفققر و‬
‫زندق ہ ک ے اظ ہار کو ب ھی حلل ٹ ھہرایا ک ہ ی ہ احققوال شققطحیات ہیققں ۔‬
‫‪6‬‬

‫اور ضروری ہے ک ہ ان پر نکیر ن ہ کی جائ ے ۔ کیونک ہ ی ہ مجذوب لققوگ‬


‫ہیں ۔ یققا )ان ک ق ے خیققال میققں( بارگققا ہ پروردگققار ک ق ے مشققا ہد ہ میققں‬
‫مشغول لوگ ہیں ۔‬
‫ابن عقیل ک ہت ے ہیں ک ہ سب س ے پ ہل ے تو ان ہوں ن ے نام گ ھڑ ے۔‬
‫اور حقیقت و شریعت کا بک ھیڑا ک ھڑا کیا ۔ حالنک ہ ی ہ بری بات ہے۔‬
‫کیوں ک ہ شریعت کو حق تعال ٰی ن ے مخلوق کققی ضققروریات کق ے لئ ے‬
‫وضع کیا ہے تو اب اس ک ے بعد حقیقت نفس ک ے اندر شیطان کقق ے‬
‫القاء کی ے ہوئ ے وسوسوں ک ے سوا اور کیا چیققز ہوسققکتی ہے۔ جققو‬
‫شخص ب ھی شریعت س ے الگ ہوکر کسی حقیقت کققا متلشققی ہو‬
‫و ہ بیوقوف اور فریب خورد ہ ہے۔‬
‫پ ھر ان صوفیاء ک ے سامن ے کوئی حدیث روایققت کرتققا ہے تققو‬
‫ک ہت ے ہیں ک ہ ی ہ مسکین لوگ ہیں ۔ اپنی حققدیث مققرد ے س ق ے روایققت‬
‫کرت ے ہیں‪ ،‬جو کسی اور مرد ے س ے روایت کرتا ہے جقب کق ہ ہم نق ے‬
‫اپنا علم اس زند ہ و پائند ہ ہستی س ے لیا ہے جس ے کب ھی موت ن ہیں‬
‫آئ ے گی ۔ ل ہ ٰذا اگر کوئی شخص حدثنی ابی عن جدی ک ہتا ہے )یعنی‬
‫میر ے باپ ن ے میر ے دادا س ے حققدیث روایققت کققی( تققو میققں حققدثنی‬
‫قلبی عن ربی ک ہتا ہوں ۔ )یعنی میر ے دل ن ے میر ے پروردگققار سقق ے‬
‫روایت کیا ہے( غرض ان خرافات ک ے ذریعق ہ خققود ب ھی بربققاد ہوئ ے‬
‫اور کم عقلوں ک ے دلوں کو ب ھی برباد کیا ۔ اور عبرت کی بققات ی ق ہ‬
‫ہے ک ہ اسی ک ے لی ے ان پر مال خرچ کیا جاتا ہے۔ کیوں ک ہ فق ہاء تققو‬
‫مثل اطباء ک ے ہیں ۔ اور دواء کی قیمت پر خرچ کرنا مشققکل ہوتققا‬
‫ہے۔ مگر ان لوگوں پر خرچ کرنا ایسققا س ق ہل ہہہے جیسققا نققاچن ے اور‬
‫گان ے والیوں پر خرچ کرنا ۔‬
‫اور فق ہاء س ے ان کا بغض ایک بڑا زندق ہ )بددینی ( ہے۔ کیوں‬
‫ک ہ فق ہاء اپنق ے فتققاو ٰی کق ے ذریعق ہ ان کقی گمرا ہی اور فسققق سق ے‬
‫روکت ے ہیں ۔ اور حق گراں گزرتا ہے جیس ے زکا ۃ گراں گزرتققی ہے۔‬
‫لیکن گان ے والی عورتوں پر مال نچ ھاور کرنققا اور شققعراء کققو ان‬
‫کی مدحی ہ قصیدوں پر عطی ہ دینا کس قدر آسان معلوم ہوتققا ہے۔‬
‫ی ہی حال ا ہل الحدیث س ے ان ک ے بغض کا ہے۔‬
‫پ ھر ان ہوں ن ے عقل کو زائل کرن ق ے ک ق ے لئ ے شققراب ک ق ے بققدل ے‬
‫ایک دوسری چیز اختیار کی جس کا نام حشیش اور معجون رک ھا‬
‫ہے۔ یعنی گانجا‪ ،‬افیون اور ب ھنققگ‪ ،‬اور حققرام گققان ے بجققان ے کققا نققام‬
‫سماع اور وجد رک ھا ہے۔ حالنک ہ جو وجد عقل کو زائل کققرد ے اس‬
‫س ے تعرض حرام ہے۔‬
‫الل ہ شریعت کو اس طائف ہ ک ے شققر سق ے محفققوظ رک ھے جققو‬
‫لباس کی نفاست‪ ،‬زندگی کی ب ہار اور شیریں الفاظ کققی فریققب‬
‫کاری کا جامع ہے۔ اور جس ک ے پیچ ھے احکام الٰہٰی کققو ختققم کرن ق ے‬
‫اور شریعت کو چ ھوڑن ے ک ے سوا کچ ھ ن ہیں ۔ اسی لئ ے ی ق ہ دلققوں پققر‬
‫ہلک ے ہوگئ ے ہیں اور ان ک ے باطل پر ہون ے کی اس س ے زیاد ہ واضققح‬
‫دلیل اور کیا ہوسکتی ہے ک ہ دنیا پرست ان س ے ایسققی ہی محبققت‬
‫کرت ے ہیں ۔ جیسی محبت ک ھیقل کقود والقوں سق ے اور نقاچن ے گقان ے‬
‫والیوں س ے کرت ے ہیں ۔‬
‫اس ک ے بعد ابن عقیل ک ہت ے ہیں‪:‬‬
‫‪6‬‬

‫اگر کوئی ک ہن ے وال ی ہ ک ہے ی ہ لققوگ تققو صققاف سققت ھر ے‪ ،‬اچ ھے‬


‫طور طریق ے وال ے اور بااخلق لوگ ہیں‪ ،‬تو میں ان س ے ک ہوں گققا‬
‫ک ہ اگر ی ہ لوگ کوئی ایسا طریق ہ ن ہ اپنائیں جس س ق ے اپن ق ے جیس ق ے‬
‫لوگوں کا دل ک ھینچ سکیں تو ان کی عیش و عشرت ہمیش ہ ر ہ ہی‬
‫ن ہ سک ے گی ۔ اور ان کا جو حال تم ذکر کرر ہے ہو و ہ تو عیسققائیوں‬
‫کی ر ہبانیت ہے۔ اور اگر تم دعوتوں ک ے اندر طفیلی بننقق ے والققوں‬
‫اور بغققداد کق ے زنخققوں کققی صققفائی سققت ھرائی دیک ھو‪ ،‬اور نققاچن ے‬
‫والیوں کی نرم اخلقی کا مشا ہد ہ کرو تم ہیں معلوم ہوجائ ے گا ک ہ‬
‫ان کقا طریقق ہ ظرافققت اور فریققب کقاری کقا طریقق ہ ہے۔ آخققر ان‬
‫لوگوں کو طور طریق ے یا زبان ہی س ے تو د ھوک ہ دیا جاسققکتا ہے۔‬
‫اگر ان لوگوں ک ے پاس علم کی گ ہرائی ب ھی ن ہ ہو اور کوئی طققور‬
‫طریق ہ ب ھی ن ہ ہو تو آخر یق ہ کققس مالققداروں کققا دل ک ھینچیققں گ ق ے۔‬
‫تم ہیں ی ہ معلوم ہونا چا ہیئ ے ک ہ احکام الٰہٰی کی تعمیل مشققکل کققام‬
‫ہے۔ اور بدکاروں ک ے لئ ے اس س ے زیاد ہ کوئی بات آسققان ن ہیققں کقق ہ‬
‫معاشر ے س ے الگ ت ھلققگ ر ہیققں ۔ اور اس سق ے زیققاد ہ کققوئی مشقکل‬
‫بات ن ہیں ک ہ شریعت ک ے اوامرونوا ہی کی روشنی میں صادر ہون ے‬
‫والققی رکققاوٹ کققی پابنققدی کریققں ۔ درحقیقققت شققریعت کقق ے لئ ے‬
‫متکلمین اور ا ہل تصوف س ے بڑ ھ کر کوئی قوم نقصققان د ہ ن ہیققں ۔‬
‫کیوں ک ہ ی ہ لوگ )متکلمین( لوگوں ک ے عقائد کو عقلی شققب ہات کققا‬
‫و ہم لکر فاسد کرت ے ہیں ۔ اور و ہ لققوگ )ا ہل تصققوف( لوگققوں کق ے‬
‫اعمال خراب کرت ے‪ ،‬دین کق ے قققوانین کو ڈھات ے‪ ،‬بیکقاری کقو پسققند‬
‫کرت ے اور گقان ے وغیقر ہ سقنن ے سق ے دلچسققپی رک ھتق ے ہیققں ۔ حقالنک ہ‬
‫سلف ایس ے ن ہیں ت ھے۔ بلک ہ عقائد ک ے باب میں بنققد ہ تسققلیم ورضققا‬
‫ت ھے۔ اور دوسر ے ابواب میں حقیقت پسند و جفاکش ۔‬
‫و ہ ک ہت ے ہیں ‪ :‬اپن ے ب ھائیوں کو میری نصیحت ی ہ ہے ک ہ ان کقق ے‬
‫دلوں ک ے افکار میں متکلمین کی بات ن ہیں پڑنققی چققا ہیئ ے‪ ،‬اور ان‬
‫کا کان صوفیوں کی خرافات کی طققرف ن ہیققں لگنققا چققا ہیئ ے۔ بلک ق ہ‬
‫معاش ک ے کام میں مشغول ہونا صوفیوں کققی بیکققاری س ق ے ب ہتر‬
‫ہے۔ اور ظوا ہر پقر ٹ ھہ ہر ے ر ہنقا نقام ن ہ ہاد دیققن پسققندوں کقی وقققت‬
‫پسندی س ے افضل ہے میں ن ے دونوں گرو ہوں ک ے طریق ے آزمققالئ ے‬
‫ہیں‪ ،‬ان لوگوں کا منت ہاء کمال شک ہے‪ ،‬اور ان لوگققوں کققا منت ہہہاء‬
‫کمال شطح ہے۔ )تلبیس ابلیس ص ‪(374-375‬‬
‫پھر یہ برا اور رسوا کن حال جس کو ابن عقیل نے بیان کیا ہے اور ابسسن‬
‫جوزی نے نقل کیا ہے یہ برابر قائم ر ہا بلکسہ اس کسے بعسسد جسسو صسسدیاں آئیسسں وہ‬
‫مزید جہل وتاریکی کی صدیاں تھیں۔ کیوں کہ ان صدیوں میں اہل تصوف نسسے‬
‫اسلمی سرزمین میں خوب خوب بگاڑ اور خرابی مچائی‪ ،‬اور اسے دیسسن اور‬
‫اسلم کے نام پر فسق و فجور سے بھردیا۔ اور صرف عقل اور عقیدے ہی کو‬
‫بگاڑنے پر اکتفا نہیں کیا‪ ،‬بلکہ اخلق و آداب کو بھی تباہ وبرباد کیا ۔‬
‫چنانچہ یہ عبدالوہاب شعرانی ہے جس نے اپنی کتاب "الطبقات الکبر ٰی"‬
‫میں صوفیوں کی ساری بدکاریوں‪ ،‬خرافات اور دہریت کو جمسسع کیسسا ہے ۔ اور‬
‫ر‬
‫سارے پاگلوں ‪ ،‬مجذوبوں‪ ،‬لونڈے بازوں اور ہم جنسی کے خسوگروں‪ ،‬بلکسہ سس ِ‬
‫راہ کھلم کھل جانوروں کے ساتھ بدفعلی کرنے والوں کو اولیسساء الل سہ قسسرار دیسسا‬
‫ہے ۔ اور انہیں عارفین اور اہل کرامت کسسی لسسڑی میسسں پرودیسسا ہہہے ۔ اور ان کسسی‬
‫‪6‬‬

‫طرف فضائل اور مقامات سلوک کی نسبت کسسی ہے۔ اور اسسے ذرا شسسرم نسہ‬
‫آئی کہ وہ ان کی ابتداء ابسسوبکر صسسدیق پ ھر خلفسساء راشسسدین رضسسی الل سہ عن ہم‬
‫اجمعین سے کرتا ہے۔ پھر اسی لڑی میں ایسے شخص کو ب ھی پروتسسا ہے جسسو‬
‫دن دھاڑے کھلم کھل لوگوں کے روبرو گدھی کے سسساتھ بسسدفعلی کرتسسا ت ھا ۔ اور‬
‫ایسے شخص کو بھی پروتا ہے جسسو زنسسدگی ب ھر غسسسل نہیسسں کرتسسا ت ھا ت ھا‪ ،‬یسسا‬
‫زندگی بھر کپڑے سے ننگا رہتا تھا۔ اور ننگا ہی رہتے ہوئے جمعہ کا خطبہ دیتا تھا‬
‫۔ اور ۔۔۔اور ۔۔۔۔ہرایسا پاگل‪ ،‬جھوٹا‪ ،‬کذاب جس س سے زیسسادہ خسسسیس طسسبیعت‬
‫ٹیڑھے مسلک‪ ،‬برے اخلق اور گندے عمل کا آدمی انسانیت نے کبھی نسسہ دیک ھا‬
‫ہوگا‪ ،‬ان سب کو یہ شخص خلفائے راشدین‪ ،‬صحابہ کسسرام اور اہہہل بیسست نبسسوی‬
‫اطہار جیسے اشرف واکرم انسانوں کے ساتھ ایک ہی د ھاگے میسسں پروتسسا ہے ۔‬
‫اور اس طرح یہ شخص طہارت کو نجاست کسے سسساتھ‪ ،‬شسسرک کسسو توحیسسد کسے‬
‫ساتھ‪ ،‬ہدایت کو گمراہی کے ساتھ اور ایمان کو زندقہ کسے سسساتھ مخلسسوط کرتسسا‬
‫ہے۔ لوگوں پر ان کا دیسسن ملتبسسس کرتسسا ہہہے۔ اور ان ک سے عقیسسدے کسسی شسسکل و‬
‫صورت مسخ کرتا ہے۔ آؤ! اور اس گناہ گار شخص ن سے اپن سے نسسامزد کی سے ہوئے‬
‫اولیاء عارفین کے جو حالت لکھے ہیں ان میں سے تھوڑا سا پڑھ لو۔ یہ شخص‬
‫سید علی وحیش نامی ایک شخص کے حالت میں لکھتا ہے کہ‪:‬‬
‫"وہ )علی وحیش( جب کسی شہر کی شیخ وغیرہ کو دیکھتا تسسو ان کسسو‬
‫ان کی گدھی سے اتار دیتا ۔ اور کہتا کہ اس کا سر پکسسڑے ر ہو‪ ،‬تسساکہ میسسں اس‬
‫کے ساتھ بدفعلی کروں۔ اب اگر وہ شیخ انکار کردیتے تو زمین میں کیسسل کسسی‬
‫طرح گڑجاتے۔ اور ایک قدم بھی نہ چل سکتے۔ اور اگر بات مان لیتے تسسو بسسڑی‬
‫شرمندگی اٹھانی پڑتی )کہ وہ سر عام بدفعلی کرتا‪ ،‬اور ی سہ سسسر پکسسڑے رہت سے(‬
‫اور لوگ یہ سسسارا منظسسر دیکھت سے ہوئے( و ہاں س سے گزرت سے رہت س ے۔"س )الطبقسسات‬
‫الکبر ٰی ج ‪ 2‬ص ‪(135‬‬
‫دیکھو کہ کس طرح اس کا سید علی وحیش لوگوں کسے روبسسرو ایسسسی‬
‫حرکت کرتا تھا کیا اس کے بعد بھی کسوئی سسسوجھ بسوجھ رکھنسے وال آدمسسی یسہ‬
‫سوچ سکتا ہے کہ یہ ناپاک تصوف مسلمانوں کے دین کا حصسہ ہے۔ اور یسہ ب ھی‬
‫وہی چیز ہے کہ جس کے ساتھ پروردگار عالم کے پیغمسسبر ہادی و امیسسن محمسسد‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث فرمائے گئے ت ھے ۔ اور کیسسا علسسی وحیسسش اور اس‬
‫قماش کے لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسسسلم کسے صسسحابہ کسسرام کسسی لئن‬
‫میں رکھنے وال‪ ،‬اور ان سب کو ایک ہی راستے کسسا را ہرد قسسرار دین سے وال وال‬
‫زندیق وافاک کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے جس نے دیسسن اسسسلم کسسو ڈھانے اور‬
‫مسلمانوں کے عقائد کو برباد کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہو ۔‬
‫اور شعرانی نے اس مقصد کے لئے کہ عقلیں اپنی نیند سے بیدار نہ ہوں‬
‫لوگوں کو یہ بتانے کی کوشسش کسی ہے کسہ اولیساء اللسہ کسے لئے ان کسی خساص‬
‫شریعت ہوتی ہے جس کے مطسابق وہ اللسہ کسی عبسادت کرتسے ہیسں اور اس کسا‬
‫قرب حاصل کرتے ہیں۔ چاہے اس کا ایک حصہ گدھیوں کے ساتھ بسسد فعلسسی ہی‬
‫کیوں نہ ہو۔ اسی لیے جب بھی کوئی شخص کوشش کرتا ہے کہ جاگے اور غور‬
‫کرکے ہدایت اور گمراہی اور پاکی و ناپاکی کے فرق کو سسسمجھے تسسو ی سہ لسسوگ‬
‫اس پر تلبیس و تزویر کا پھندہ ڈال دیتے ہیسسں۔ چنسسانچہ اسسسی شسسعرانی کسسو ل سے‬
‫لیجئے۔ اس نے ایک ایسے آدمی کا ذکر کیا ہے جس نے سید بسسدوی ک سے عسسرس‬
‫میسسں ہونے والسسے فسسسق و فجسسور پسسر نکیسسر کسسی ت ھی۔ ج ہاں آج ب ھی شسسہر‬
‫طنطا)مصر( کے اندر لکھوں انسان جمع ہوتے ہیسسں ۔ اور مسسردوں اور عورتسسوں‬
‫کے درمیان بہت ہی بڑا اختلط ہوتا ہے۔ بلکہ مسجدوں اور راستوں میں حسسرام‬
‫‪6‬‬

‫کاریاں ہوتی ہیں۔ رنڈی خسسانے ک ھولے جسساتے ہیسسں اور صسسوفی مسسرد اور صسسوفی‬
‫عورتیں بیچ مسجد میں ایک ساتھ ناچتے ہیں۔اور ہر حسرام کسو حلل کیسا جاتسا‬
‫ہے۔ اسی کے متعلق شعرانی نے اپنی کتاب "الطبقات الکبر ٰی " میسسں ی سہ بیسسان‬
‫کیا ہے کہ ایک آدمی نے اس فسق و فجور پر نکیر کی تو اللہ تعال ٰی نے اس کسسا‬
‫ایمان چھین لیا۔ اور کس طرح چھیسسن لیسسا۔ شسسعرانی لکھتسسا ہے ک سہ‪" :‬پ ھر اس‬
‫شخص کا ایک بال بھی ایسا باقی نہ بچسسا جسس میسں دیسن اسسلم کسی طسسرف‬
‫جھکاؤہو۔ آخر اس نے سیدی احمد رضی اللہ عنسہ سسے فریسساد کسی ۔ ان ہوں نسے‬
‫فرمایا شرط یہ ہے کہ تم دوبارہ ایسی بات نہ کہنا ۔ اس ن سے ک ہا جسسی ہاں ۔ تسسب‬
‫انہوں نے اس کے ایمان کا لباس اسے واپس کیا۔ پھر اس س سے پوچ ھا تسسم کسسو‬
‫ہماری کیا چیز بری معلوم ہوتی ہے؟ اس نے کہا مردوں اور عورتسسوں کسسا میسسل‬
‫جول۔ جواب میں سیدی احمد رضی اللہ عنہ نے کہا یہ بات تو طواف میں ب ھی‬
‫ہوتی ہے۔ لیکن اس کی یہ حرمت )احترام( کے خلف نہیں۔ پھہہر فرمایسسا میسسرے‬
‫رب کی عزت کی قسم! میرے عسرس میسں جسو کسوئی ب ھی گنساہ کرتسا ہے وہ‬
‫ضرور توبہ کرتا ہے اور اچھی توبہ کرتا ہے۔ اور جب میسسں جنگسسل ک سے جسسانوروں‬
‫اور سمندروں کی مچھلیوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں‪ ،‬ان میسسں س سے بعسسض کسسو‬
‫تعال ٰی میر ے عرس میں آن ے والقق ے‬ ‫بعض سےمحفوظ رکھتا ہوں تو کیا اللہ‬
‫کی حفاظت سق ے مج ھے عققاجز اور بق ے بققس رک ھے گققا ۔ )طبقققات‬
‫الکبر ٰی ج ‪ 1‬ص ‪(162‬‬
‫اور شعرانی ن ے اپنی کتاب میں ان سب زندق ے اور کفر اور‬
‫ج ہالت اور گمرا ہی کو جو روایت کررک ھا ہے تو ی ہ کچ ھ تعجققب کققی‬
‫بات ن ہیں ۔ کیوں ک ہ اس شخص ن ے خود اپن ے متعلق ی ہ ج ھوٹ اڑایققا‬
‫ہے ک ہ سید بدوی جو اس س ے چار سو برس پ ہل ے انتقال کرچکا ہہہے‬
‫اس س ے سلم کرن ے ک ے لی ے قبر س ے اپنا ہات ھ نکالتا ت ھا ۔ اور یقق ہ کقق ہ‬
‫اس مر ے ہوئ ے سید بدوی ن ے اپنی مسجد ک ے زاویوں میں س ے ایک‬
‫زاوی ے کو شعرانی ک ے لئ ے شب عروسقی کق ے کمقر ے کق ے طققور پققر‬
‫تیار کیا تاک ہ شعرانی اس کمر ے میں اپنی بیوی ک ے سات ھ یکجا ہو ۔‬
‫اور جب شعرانی سید بدوی ک ے عرس میں پ ہنچن ے میں دیققر کرتققا‬
‫تو سید بدوی اپنی قبر س ے نکل کر قبر ک ق ے اوپققر رک ھا ہوا پققرد ہ‬
‫ہٹاتا ت ھا اور ک ہتا ت ھا ۔ عبدالو ہاب ن ے دیر کردی آیا ن ہیں ۔ آئیقق ے خققود‬
‫شعرانی کی عبارت پڑ ھئی ے ۔ و ہ لک ھتا ہے‪:‬‬
‫"احمد بدوی ک ے عرس میں ہر سال میققر ے حاضققر ہون ے کققی‬
‫وج ہ ی ہ ہے ک ہ میر ے شیخ عارف بالل ہ محمد شناوی رضی الل ہ عن ہ جو‬
‫ان ک ے گ ھر اعیان میں س ے ایک ہیں ان ہوں ن ے قبر ک ے انققدر سققیدی‬
‫احمد رضی الل ہ عن ہ کی طرف رخ کرک ے مج ھ س ے ع ہد لیا ۔ اور اپن ے‬
‫ہات ھ س ے مج ھے ان ک ے حوال ے کیا ۔ چنققانچ ہ ان کققا ہہہات ھ شققریف قققبر‬
‫س ے نکل ۔ اور میرا ہات ھ پکڑ لیا ۔ اور شناوی ن ے ک ہا حضور! آپ کققی‬
‫توج ہ ان پر ہونی چا ہی ے۔ اور آپ ان ہیں اپن ے زیر نظر رک ھیں ۔‬
‫اور اس ک ے سات ھ ہی میں نق ے قققبر سق ے سققیدی احمققد کققا یق ہ‬
‫فرمان سنا ک ہ ہاں! "‬
‫پ ھر شعرانی مزید آگ ے بڑ ھتا ہے اور ک ہتا ہے ک ہ ‪:‬‬
‫"جققب میققں نق ے اپنققی بیققوی فققاطم ہ ام عبققدالرح ٰمن کققو جققو‬
‫کنواری ت ھی رخصت کرایا تو پانچ م ہین ے تققک رکققا ر ہا اور اس کق ے‬
‫قریب ن ہیں گیا ۔ اس ک ے بعد سیدی احمد تشققریف لئ ے‪ ،‬اور مج ھے‬
‫‪6‬‬

‫سات ھ لیا ۔ اور بیوی سات ھ میں ت ھی ۔ اور قققبر کققا جققو گوشق ہ داخققل‬
‫ہون ے وال ے بائیں واقع ہے اس ک ے اوپر بستر بچ ھایا ۔ اور میققر ے لئ ے‬
‫حلققو ہ پکایققا ۔ اور زنققدوں اور مققردوں کققو اس کققی دعققوت دی اور‬
‫فرمایا ک ہ ی ہاں اس کی بکارت زائل کرو ۔ چنققانچ ہ اس رات و ہ کققام‬
‫ہوا‪"،‬‬
‫پ ھر لک ھا ہےک ہ‪ ":‬میں ‪ 948‬ھ میں عرس ک ے اندر وقققت مقققرر ہ‬
‫پر حاضر ن ہ ہوسکا ۔ اور و ہاں بعض اولیاء موجود ت ھے تو ان ہوں ن ق ے‬
‫مج ھے بتایا ک ہ سیدی احمد رضی الل ہ عن ہ اس روز قبر کا پرد ہ ہتات ے‬
‫ت ھے اور ک ہت ے ت ھے ک ہ عبدالو ہاب ن ے دیر کققردی ۔ آیققان ہیں" ۔ )تلققبیس‬
‫ابلیس ج ‪1‬ص ‪(162-161‬‬
‫غرض ی ہ ہیں بققر ے نمققون ے جققن کق ے متعلققق چا ہا جاتققا ہے ک ق ہ‬
‫مسلمانوں ک ے بچ ے ان ہیں ک ے نقش قدم پر چلیں ۔ اور ی ہ ہے تصوف‬
‫کا حقیقی چ ہر ہ۔ اور ی ہ ہیں اس ک ے رموز اور رجال کی صورتیں ۔‬
‫اور اگر ہم ان صققورتوں کققو گننققا شققروع کردیققں تققو اس مختصققر‬
‫رسال ہ میں میان ہ روی س ے با ہر نکل جائیں گ ے۔ البت ہ بحمد لل ہ ‪ ،‬اللقق ہ‬
‫کی توفیق س ے اس کققو اپنققی کتققاب "الفکققر الصققوفی فققی ضققوء‬
‫الکتاب والسن ۃ" میں پور ے بسط س ے لک ھ دیا ہے۔ ل ہ ٰ ذا اس کق ے لئ ے‬
‫اسی کا مطالع ہ کرنا چا ہی ے۔‬
‫اور توفیق الل ہ ہی طرف س ے ہے اور اسققی پققر ب ھروس ق ہ ہے۔‬
‫اور اسی س ے ی ہ بات مطلوب ہے کق ہ و ہ اسققلمی معاشققر ہ کققو اس‬
‫خبیث سرطان س ے پاک کرد ے جققس ن ق ے مسققلمانوں ک ق ے عقیققد ے ‪،‬‬
‫عمل اور سماج کو فاسد کررک ھا ہے۔‬
‫اور اخیر میں الل ہ عزیز و حمید ک ے راست ے ک ے داعی و طا ہر‬
‫پر درود وسلم ہو ۔‬
‫‪6‬‬

‫دوسرا اباب‬

‫ا ہل تصوف س ے کس طرح بحث کی‬


‫جائ ے؟‬
‫پچھلے باب میں ہم صوفیانہ افکار کی خطرناکیوں کا ذکر کرچکے ہیسسں ۔‬
‫اب جو شخص بھی ان باتوں سے واقف ہوجائے اس پر ضروری ہے کہ اسلمی‬
‫سماج سے اس خبیث درخت کی جڑ اکھاڑنے کی کوشش کرے۔ لیکن یسسہ کسسام‬
‫ت برحق نسہ دی جسسائ ے ۔‬ ‫نہیں ہوسکتا جب تک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعو ِ‬
‫اور ہدایت و پاکیزگی کے پردے میں ہر قسم کے کفر وزندقہ کسسو چھپسسانے وال سے‬
‫اس قابل نفرت تصوف کو سرعام رسوا نہ کیا جائے۔ اس لئے ضروری ہے ک سہ‬
‫جس شخص کو حق معلوم ہوجائے وہ اسے پھیلنے اور عام کرنے کی کوشسسش‬
‫کرے۔ اور اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ جس شخص کو اس شسسر کسسا علسسم‬
‫ہوجائے وہ اس کے درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کر ے ۔‬
‫اور چونکہ بیشتر طالب علم تصوف کسسی حقیقسست کسسو نہیسسں جسسانتے‪ ،‬اور‬
‫اس کی کفریات‪ ،‬اکاذیب‪ ،‬اباطیل اور لف و گزاف سے واقفیت نہیسسں رکھتسسے‬
‫اس لئے صوفیوں سے بحث کرتسے ہوئے ب ہترین جسواب نہیسں دے پساتے ۔ اور نسہ‬
‫انہیں حق پر قانع کرپاتے ہیں۔ کیوں کہ صوفی جب ایسے آدمی کسسو دیکھتسسا ہے‬
‫جو کتاب و سنت اور دلیل کی عظمت کا قائل ہو تو جھٹ کہتا ہے کہ جنید نسسے‬
‫جو کہ شیخ الطائفہ تھے فرمایا ہے کہ ہمارا طریقہ کتاب وسنت کا پابند ہے ۔ اور‬
‫جو کتاب و سنت کو نہ سمجھے وہ اس گروہ کے طریقے کو ب ھی نہیسسں سسسمجھ‬
‫سکتا۔ اور فلں نے یہ کہا ہے ۔ اور فلں نے وہ کہا ہے ۔ اور یہ بھی فرمایسا ہے کسہ‬
‫میرے دل میں اس گروہ کا کوئی نکتہ جاگزیں ہوتا تو میں اسے بیان نہیں کرتسسا‬
‫جب تک کہ میں اس کے لئے کتاب و سنت سے دو شاہد نہ پاجاؤں ۔‬
‫اور یہ بسساتیں سسسن کسسر صسسوفیوں کسسی راہیسسں نسہ جسساننے وال طسسالب علسسم‬
‫سمجھتا ہے کہ یہ لوگ دین کے ماہر ہیں۔ اور ورع و اخلص کے ایسے مقسسام پسسر‬
‫فائز ہیں کہ کوئی بات اس وقت تک نہیں بولتے جب تسسک ک سہ وہ کتسساب و سسسنت‬
‫‪6‬‬

‫کے موافق نہ ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ یسہ لسسوگ اپن سے اقسسوال وافعسسال میسسں کتسساب و‬
‫سنت کے پیروکار ہیں۔ اس لئے بیچارہ نادم اور عموما ً ل جواب ہوجاتا ہے۔البتسسہ‬
‫کبھی کبھی یہ پوچھ بیٹھتا ہے کہ پھر یسہ لسوگ اپنسے عرسسسوں اور اپنسی محفلسسوں‬
‫میں ناچتے کیوں ہیں؟ اور یہ مجذوب کیسسا ہیسسں جسسو اوٹ پٹانسسگ حرکسستیں کرتسے‬
‫ہیں‪ ،‬اور چیختے چلتے ہیں۔ مگر اس کے جواب میں وہ کٹھ حجت صسسوفی کہتسسا‬
‫ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ن ہ یں ۔۔۔۔۔۔۔ی ہ ہ تو غفلت کے مارے ہہہوئے عسسوام ہیسسں ۔ حقیقسسی صسسوفی‬
‫نہیں ہیں۔ صوفیت تو کچھ اور ہی ہے۔ حالنکہ یہ بسسات فطسسری طسسور پسسر ج ھوٹ‬
‫ہوتی ہے۔ لیکن اس قسم کا جواب طالب علم پر چل جاتا ہے‪ ،‬اور وہ چسسپ ہہہو‬
‫رہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تصوف اس امت کے جسم میں اپنسسا کسسام کرتسسا رہتسسا‬
‫ہے‪ ،‬اور پتہ بھی نہیں چلتا ۔‬
‫اور چونکہ بہت سے طالب علموں کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ تصوف کسسی‬
‫کتابیں دیکھ سکیں ۔ اور ان میں جو کچھ ہے اس کی حقیقت معلوم کرسکیں ۔‬
‫اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب بعض کتابیں دیکھتے ہیں تو حسسق پوشسسیدہ رہ‬
‫جاتا ہے اور باطل سے ممیز نہیں ہوپاتا۔ کیوں ک سہ اس میسسں ایسسسی تلسسبیس اور‬
‫ملوٹ ہوتی ہے کہ پڑھنے وال ایک مریض کے قول کے پہلو بسہ پہلسسو ایسسک صسسحیح‬
‫قول دیکھتا ہے۔ اور چھپے ہوئے لفظوں میں کفر والے ایک قول سے گزرتسسا ہے‬
‫تو ایک چوتھا قول ایسا دیکھتا ہے جس سے حکمت پھوٹتی محسوس ہوتی ہے‬
‫اس لئے وہ گڑ بڑا جاتا ہے‪ ،‬اور حقیقت نہیں دیکھ پاتا۔ اور یہ نہیں سمجھ پاتا کہ‬
‫وہ کون سے راستے سے گزررہا ہے ۔‬
‫اس لئے ہم تصوف کے بنیادی اور کلی قضیوں کسسو بتلن سے اور اسسساطین‬
‫تصوف کے ساتھ مباحثہ کا ڈھنگ سکھانے کے لئیے یہ مختصرسا خلصہ لکسھ ر ہے‬
‫ہیں۔ اس کی روشنی میں بحث کرنے وال اگر ایک مبتدی طالب علم بھی ہہہوا‬
‫تو وہ بھی ان کو مغلوب اور خاموش کرلے گا۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے ک سہ انہیسسں‬
‫صراط مستقیم کی ہدایت بھی دے د ے ۔‬
‫قواعد ی ہ ہیں‪:‬‬
‫سب س ے پ ہل ے یق ہ جاننقا چقا ہی ے کق ہ تصقوف گنقدگیوں کقا ایقک‬
‫سمندر ہے۔ کیوں ک ہ ا ہل تصوف نق ے ہندوسققتان ‪ ،‬ایققران اور یونقان‬
‫ک ے فلسفوں میں پائ ے جان ے وال ے ہر طققرح کق ے کفققر و زنققدق ہ کققو‪،‬‬
‫اور قرامط ہ اور باطنی فرقوں ک ے تمام مکروفققن کققو‪ ،‬خرافیققوں‬
‫کی ساری خرافات کو‪ ،‬دجالوں ک ے سار ے دجل کو اور شققیطانوں‬
‫کی ساری "وحی" کو اکٹ ھا کرلیا ہے۔ اور ان سب کو تصققوف کقق ے‬
‫دائر ے‪ ،‬اور اس ک ے علوم و اصول اور کشف ک ے سانچ ے میں ڈھال‬
‫لیا ہے۔ مخلوق کی طرف خدائی کی نسبت س ے ل ے کر ہر موجققود‬
‫کو عین خدا قرار دین ے تک تم ہاری عقل روئ ے زمین پر جس کفری ہ‬
‫عقید ہ کا تصور کرسکتی ہے و ہ تم ہیں تصوف میں ضرور مل جائ ے‬
‫گا ۔ )تعالی الل ہ عن ذلک علوا کبیرا(‬
‫اسلمی ب ھائیو! اس مقصد ک ے لی ے آپ ک ے ذ ہن میققں تصققوف‬
‫کا واضح نقش ہ آجائ ے‪ ،‬ہم آپ ک ے سامن ے صققوفیوں ک ق ے عقققائد کققا‪،‬‬
‫اور دین تصوف اور دین اسلم ک ے بنیادی فرق کققا ایققک ب ہت ہی‬
‫مختصر سا خلص ہ پیش کرت ے ہیں ۔‬
‫اول‪ :‬اسلم اور تصوف کقق ے درمیققان بنیققادی‬
‫فرق‪:‬‬
‫‪6‬‬

‫اسلم کا منہج اور راستہ تصوف کے راستے اور من ہج سسے ایسسک انت ہائی‬
‫بنیادی چیز میسں علیحسدہ ہے۔ اور وہ ہے "تلقسی" یعنسی عقسائد اور احکسام کسے‬
‫سلسلے میں دینی معرفت کے ماخذ۔ اسلم عقائد کے ماخذ کو صسسرف نسسبیوں‬
‫اور پیغمبروں کی وحی میں محصسسور قسسرار دیتسسا ہے۔ اور اس مقصسسد کسے لئے‬
‫ہمارے پاس صرف کتاب و سنت ہے ۔‬
‫اس کے برخلف دین تصوف میں عقائد کا ماخذ وہ خیالی وحی ہے جسسو‬
‫اولیاء کے پاس آتی ہے ۔ یا وہ مزعومہ کشف ہے جسسو انہیسسں حاصسسل ہوتسسا ہے ۔ یسسا‬
‫خواب ہیں یا پچھلے وقتوں کے مسسرے ہوئے لوگسسوں اور خضسسرعلیہ السسسلم سسے‬
‫ملقات وغیرہ ہے۔ بلکہ لوح محفوظ میں دیکھنا اور جنوں سے جنہیسسں ی سہ لسسوگ‬
‫روحانی کہتے ہیں کچھ حاصل کرنا بھی اس فہرست میں شامل ہے ۔‬
‫اسی طرح اہل اسلم کے نزدیک شرعی احکام کا ماخذ کتاب و سسسنت‬
‫اور اجماع و قیاس ہے‪ ،‬لیکن صوفیوں کی شریعت خوابسسوں‪،‬خضسسر اور جنسسوں‬
‫اور مردوں اور پیروں وغیرہ پر قائم ہے ۔ یہ سارے لوگ ہی شسسارع ہیسسں ۔ اسسسی‬
‫لیئے تصوف کے طریقے اور شریعتیں مختلف اور متعدد ہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیسسں‬
‫کہ مخلوق کی سانس کی تعداد کے مطابق راستے ہیں اور سب کے سب اللسسہ‬
‫کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیئے ہر شیخ کا اپنا ایک طریقہ اور تربیت کا اپنا ایک‬
‫اصول ہے۔ اس کا اپنا مخصسسوص ذکسسر واذکسسار ہے‪ ،‬مخصسسوص شسسعائر ہیسسں اور‬
‫مخصوص عبادتیں ہیں۔ اسی لئے تصسسوف کسے ہزاروں بلکسہ لک ھوں‪ ،‬بلکسہ بسے‬
‫شمار دین اور عقیدے اور شریعتیں ہیں ۔ اور سب کسسو تصسسوف کسسا نسسام شسسامل‬
‫ہے ۔‬
‫یہ ہے اسلم اور تصوف کا بنیادی فرق۔ اسلم ایک ایسا دیسسن ہے جسسس‬
‫کے عقائد متعین ہیں۔ عبسسادات متعیسسن ہیسسں۔ اور احکسسام متعیسسن ہیسسں۔ اس ک سے‬
‫برخلف تصوف ایک ایسا دین ہے جس میں نہ عقائد کی تعییسسن ہے ن سہ شسسرائع‬
‫اور احکام کی ۔ یہ اسلم اور تصوف کے درمیان عظیم ترین فرق ہے ۔‬

‫دوم‪ :‬صوفی عقید ے ک ے تفصیلی‬


‫خطوط‬

‫ا ۔ الل ہ ک ے بار ے میں‬


‫اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں ۔ ایک عقیدہ حلسسول‬
‫کا ہے ۔ یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے ۔ یہ حلج کسا عقیسدہ ت ھا ۔ ایسک‬
‫عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ یعنی خالق مخلوق جدا نہیں۔ یہ عقیدہ تیسری صدی‬
‫سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا۔ اور اخیر میں اسی پر تمام اہل تصسسوف‬
‫کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضسسرات میسسں ابسسن عربسسی‪ ،‬ابسسن‬
‫سبعین‪ ،‬تلمسانی‪ ،‬عبدالکریم جیلی‪ ،‬عبدالغنی نابلسی ہیں ۔ اور جد یسسد طسسرق‬
‫تصوف کے عام افراد بھی اسی پر کاربند ہیں ۔‬
‫ب ۔ رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ وسلم ک ے بققار ے‬
‫میں‪:‬‬
‫‪6‬‬

‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف‬
‫عقیدے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ رسول صلی اللہ علی سہ وسسسلم ان ک سے مرتب سہ و‬
‫مقام کو نہیں پہنچ سکے ت ھے ۔ اور آپ اہل تصوف کے علوم سے نسساواقف ت ھے ۔‬
‫جیسا کہ بایزید بسطامی نے کہا ہے کہ‪" :‬خضنا بحراوقف النبیسساء بسسساحلہ" ) ہم‬
‫ایک ایسے سمندر کی تہ میں پہنچ گئے جس کے سسساحل پسسر انبیسساء ک ھڑے ہیسسں(‬
‫اس کے برخلف بعض دوسرے صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد صسسلی الل سہ علی سہ‬
‫وسلم اس کا ئنات کا قبہ ہیں‪ ،‬اور آپ ہی وہ اللہ ہیں جو عرش پر مستوی ہے ۔‬
‫اور آسمان و زمین اور عرش و کرسی اور سسساری کائنسسات آپ ک سے نسسور س سے‬
‫پیدا کی گئی ہے۔ آپ پہل موجود ہیں۔ اور آپ ہی الل سہ ک سے عسسرش پسسر مسسستوی‬
‫ہیں ۔ یہ ابن عربی اور اس کے بعد آنے والے صوفیوں کا عقیدہ ہے ۔‬
‫ج‪ :‬اولیاء ک ے بار ے میں‬
‫اولیاء کسے بسسارے میسسں ب ھی صسسوفیوں کسے مختلسسف عقیسسدے ہیسسں ۔ بعسسض‬
‫صوفیاء ولی کو نبی سے افضسسل کہتسے ہیسسں ۔ اور عسسام صسوفیاء ولسی کسسو تمسسام‬
‫صفات میں اللہ کے برابر مانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا‬
‫ہے‪ ،‬روزی دیتا ہے‪ ،‬زندہ کرتا‪ ،‬اور مارتا ہے ۔ اور کائنات میسسں تصسسرف کرتسسا ہہہے ۔‬
‫صوفیاء کے نزدیک ولیت کے بٹوارے بھی ہیسسں چنسسانچہ ایسسک غسسوث ہوتسسا ہے جسسو‬
‫کائنات کی ہر چیز پر حکم چلتا ہے۔ چار قطب ہوتے ہیں جسسو غسسوث ک سے حکسسم‬
‫کے مطابق کائنات کے چاروں کونے تھامے ہوئے ہیں۔ سات ابدال ہوتے ہیں جسسن‬
‫میں سے ہر ایک غوث کے حسب الحکم سات براعظموں میں سے کسی ایک‬
‫براعظم پر حکومت کرتا ہے۔ کچھ نجباء ہوتے ہیں جو صرف شہر پسسر حکسسومت‬
‫کرتے ہیں ۔ ہر نجیب ایک شہر کا حاکم ہوتسسا ہے ۔ اس طسسرح اولیسساء کسسا ی سہ بیسسن‬
‫القوامی نظام مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔ پھر ان کا ایک ایوان ہے جس میں‬
‫وہ ہر رات غسسار حسسراء ک سے انسسدر جمسسع ہوتے ہیسسں ۔ اور تقسسدیر پسسر نظسسر ڈالت سے‬
‫ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مختصرس یہ کہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے ۔‬
‫اور یہ طبعسی طسور پسر اسسلمی ولیست کسے خلف ہے جسس کسی بنیساد‬
‫دینداری‪ ،‬تق ٰوی‪ ،‬عمل صالح‪ ،‬اللہ کی پوری پوری بندگی اور اسسسی کسسا فقیسسر و‬
‫محتاج بننے پر ہے۔ یہاں ولی خود اپنے کسی معسساملے کسسا مالسسک نہیسسں ہوتسسا‪ ،‬چ سہ‬
‫جائیکہ وہ دوسروں کے معاملت کا مالسسک ہو۔ چنسسانچہ اللسہ تعسال ٰی اپنسے رسسسول‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے‪":‬قل انی ال املک ضرا ول رشدا" )تسم ک ہہ‬
‫دو کہ میں نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہوں۔ نہ ہدایت کا(‬
‫د‪ :‬جنت اور ج ہنم ک ے بار ے میں‬
‫جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو تمام صسسوفیاء کسسا عقیسسدہ ہے کسہ جنست کسسو‬
‫طلب کرنا بہت بڑا نقص اور عیب ہے ۔ ولی کے لیے جائز نہیں کہ وہ جنسست کسسے‬
‫لیئے کوشاں ہو‪ ،‬اور اسے طلب کر ے ۔ جو جنت طلب کرتا ہے وہ ناقص ہے ۔ ان‬
‫کے یہاں طلب اور رغبت صرف اس کی ہے کہ وہ اللہ میں فنسسا ہوجسسائیں‪ ،‬غیسسب‬
‫سے واقف ہوجائیں اور کائنسسات میسسں تصسسرف کریسسں ۔۔۔۔۔ ی ہی صسسوفیوں کسسی‬
‫خیالی جنت ہے ۔‬
‫اور جہاں تک جہنم کا تعلق ہے تسسو صسسوفیوں کسسا عقیسسدہ ہے کسہ اس سسے‬
‫بھاگنا صوفی کامل کے شایان شان نہیں۔ کیوں کسہ اس سسے ڈرنسسا آزادوں کسسی‬
‫نہیں غلموں کی طبیعت ہے۔ اور بعض صوفیوں نے تو غرور و فخسسر میسسں آکسسر‬
‫یہاں تک کہہ ڈال کہ اگر وہ جہنم پر تھوک دے تو جہنم بجھ جسسائے گسسی۔ جیسسسا ک سہ‬
‫ابویزید بسطامی نے کہا ہے۔ پھر صوفیاء وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھت سے ہیسسں ان‬
‫کا عقیدہ ہے کہ جسو لسوگ جہنسم میسں داخسل ہوں گسے ان کسے لئے جہنسم ایسسی‬
‫‪6‬‬

‫شیریں اور ایسی نعمت بھری ہوگی کہ جنت کی نعمت سے کسی طرح کم نہ‬
‫ہوگی‪ ،‬بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوگی ۔ یہ ابن عربی کا مذہب اور عقیدہ ہے ۔‬
‫ح‪ :‬ابلیس اور فرعون‬
‫جہاں تک ابلیس کا معاملہ ہے تو عام صوفیوں کا عقیدہ ہے کسہ وہ کامسسل‬
‫ترین بندہ تھا ۔ اور توحید میں ساری مخلوق سے افضل تھا ۔ کیوں کسہ اس نس ے ۔‬
‫ان کے بقول۔ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کیسا۔ اس لیئے اللسہ نسے اس‬
‫کے سسسارے گنسساہ بخسسش دیئ ے ۔ اور اسسے جنسست میسں داخسسل کردیسسا ۔ اسسی طسسرح‬
‫فرعون بھی ان کے نزدیک افضل ترین موحد تھا۔ کیونکہ ‪ " :‬انا ربکم العل ٰی "‬
‫اعلی پروردگار ہوں( اس نےحقیقسست پہچسسان لسسی ت ھی ۔‬
‫ٰ‬ ‫)میں تمہارا سب سے‬
‫کیوں کہ جو کچھ موجود ہے وہ اللہ ہی ہے پھر وہ ان کے خیال میں ایمان لے آیا ۔‬
‫اور جنت میں داخل ہوا ۔‬

‫صوفی شریعت‬
‫عبادات‪:‬‬
‫صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج زکوٰۃٰیہ سب عوام کی عبسسادتیں‬
‫ہیں۔ صوفی حضرات اپنے آپ کو خواص یا خاص الخاص کہتے ہیں۔ اسی لئی سے‬
‫ان کی ساری عبادتیں بھی خاص قسم کی ہیں ۔‬
‫پھر ان کے ہر گسسروہ نسے اپنسسی ایسسک مخصسسوص شسسریعت بنسسائی ہے ۔ مثل ً‬
‫مخصسسوص ہیئت کسسے سسساتھ مخصسسوص ذکسسر‪ ،‬خلسسوت‪ ،‬مخصسسوص ک ھانے اور‬
‫مخصوص لباس اور محفلیں ۔‬
‫پھر اسلمی عبادات کا مقصد نفس کا تزکیہ اور معاشرے کی پسساکیزگی‬
‫ہے۔ مگر تصوف میں عبادات کا مقصد یہ ہے کہ دل کو اللہ کے سسساتھ بانسسدھ دیسسا‬
‫جائے تاکہ اللہ سے براہ راست فیض حاصل ہو ۔ اور ا س میں فنا ہوجسسائیں ۔ اور‬
‫رسول سے غیب کے راستے مدد حاصل ہو ۔ اور اللہ کے ساتھ متصف ہوجسسائیں ۔‬
‫یہاں تک کہ صوفی کسی چیز کو کہے کن )ہوجا( تو وہ ہوجسسائے۔ نیسسز وہ مخلسسوق‬
‫کے اسرار پر مطلع ہو ۔ اور سارے ملکوت کو دیک ھے ۔‬
‫اور تصوف میں اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ صسسوفیوں کسسی شسسریعت ‪،‬‬
‫محمدی اور اسلمی شریعت کے کھلم کھل خلف ہو۔ چنسسانچہ حشسسیش یعنسسی‬
‫گانجا اور شراب پینا اور عرسوں اور ذکر کے حلقوں میں مردوں عورتوں کسسا‬
‫خلط ملط ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ ہر ولی کی اپنی شسسریعت ہے‬
‫جسے وہ براہ راست اللہ تعال ٰی سے حاصل کرتسسا ہے۔ اس لیئے اس کسسی کسسوئی‬
‫اہمیت نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لئی ہوئی شسسریعت ک سے‬
‫موافق ہے یا نہیں۔ کیوں کہ ہر ایک کی اپنی شریعت ہے۔ اور محمد صسسلی اللسسہ‬
‫علیہ وسلم کی شریعت عوام کے لیئے ہے ۔ اور پیسسر اور صسسوفی کسسی شسسریعت‬
‫خواص کے لیئے ہے ۔‬
‫حلل و حرام‬
‫یہی حال حلل و حرام کا بھی ہے۔ چنانچہ صوفیوں میں جو لسسوگ وحسسدۃ‬
‫الوجود کے قائل ہیں ان کے نزدیک کوئی حرام نہیں۔ کیوں کہ ہر موجسسود ایسسک‬
‫ہی ہے۔ اسی لئے ان کے اندر ایسے ایسسے ہ ہوئے جسو زنسدیق یسسا لسسوطی تھہہے یسا‬
‫گدھیوں کے ساتھ کھل کھل دن دھاڑے بدفعلی کرتے ت ھے۔ پ ھر ان ہی میسسں وہ‬
‫‪6‬‬

‫بھی تھے جویہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ نے اس سے سارے احکام ساقط کردیئے‬
‫ہیں ۔ اور ان کے لیئے وہ چیز حلل کردی ہے جو دوسروں پر حرام تھی ۔‬
‫حکومت و سلطنت اور سیاست‬
‫ج ہاں تک حکومت و سققلطنت اور سیاسققت کققا تعلققق ہے تققو‬
‫صوفیوں کا طریق ہ ی ہ ر ہا ہے ک ہ برائی کا مقابل ہ کرنا اور بادشا ہوں‬
‫کو مغلوب کرن ے کی کوشش کرنا جائز ن ہیں ۔ کیونک ہ ان کق ے خیققال‬
‫میں الل ہ ن ے جس حال کو چا ہا بندوں کو اسی حال میں قققائم کیققا‬
‫ہے۔‬
‫تربیت‬
‫غالبا ً صوفی شریعت میں جو چیز سب سے خطرناک ہے وہ ہے ان کسسا‬
‫طریقہ تربیت۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی عقل پر پوری طرح مسلط ہوجسساتے ہیسسں‬
‫اور اسے بیکار بناڈالتے ہیسسں۔ اور اس ک سے لیئے وہ قسسدم ب سہ قسسدم کسسام کرن سے کسسا‬
‫طریقہ اپناتے ہیں۔ چنانچہ پہلے وہ آدمی کو مانوس کرتے ہیں۔ پھر اس کے دل و‬
‫دماغ پر تصوف اور صوفیوں کی عظمت‪ ،‬اور ہولنسساکی کسسا سسسکہ جمسساتے ہیسسں ۔‬
‫اس کے بعد آدمی کو تلسسبیس اور فریسسب میسسں ڈالتسے ہیسسں۔ پ ھر اس پسسر علسسوم‬
‫تصوف میں سے تھوڑا تھوڑا چھڑکت سے جسساتے ہیسسں۔ اس ک سے بعسسد اس سے صسسوفی‬
‫طریق کے ساتھ باند دیتے ہیں ۔ اور نکلنے کے سارے راستے بند کردیتے ہیں ۔‬
‫سوم‪ :‬صوفی س ے بحث کققا نقط ق ہ‬
‫آغاز‬
‫بہت سے غیرت منسسد مسسسلمان ب ھائی جنہیسسں دیسسن س سے محبسست ہے اور‬
‫تصوف اور اس کی لغویات سے نفرت ہے وہ صوفیوں سے غلط طور پر بحث‬
‫شروع کردیتے ہیں کیونکہ وہ فروعی اور ادھر ادھر کی بسساتوں پسسر بحسسث کرن سے‬
‫لگتے ہیں۔ جیسے ذکر و اذکار میں ان کی بدعتیں' صسسوفی نسسام رکھنسسا' عسسرس‬
‫منانا محفل میلد قائم کرنا' تسبیحیں لٹکانا' گ سڈری پہننسسا' یسسا اسسسی طسسرح ک سے‬
‫دوسرے الگ تھلگ مظاہراور روپ جن میں وہ ظاہر ہوتے ہیں ۔‬
‫لیکن واضح رہے کہ ان باتوں سے بحث کا آغاز کرنا پورے طور پر غلسسط‬
‫ہے۔ اور باوجودیکہ یہ ساری باتیں بدعت اور خلف شریعت ہیں' اور انہیں دیسسن‬
‫میں گھڑ کر داخل کیا گیا ہے' لیکن تصوف کی جو باتیں پسسس پسسردہ ہیسسں وہ ان‬
‫سے کہیں زیادہ کڑوی اور خطرناک ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ باتیں فروع کی‬
‫حیثیت رکھتی ہیں' لہٰذا اصول کو چھوڑ کر ان باتوں سے بحسسث کسسا آغسساز کرنسسا‬
‫درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ یہ بھی جرائم ہیں اور خلف شسسریعت ہیسسں' لیکسسن‬
‫تصوف کے اندر جو ہولناک باتیں' جو گھڑنت' جو بدترین کفریات اور جو گندے‬
‫مقاصد پائے جاتے ہیں ان کے مقابل میں مذکورہ بسسال بسساتیں ب ہت معمسسولی اور‬
‫ہیچ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو شخص صوفی سے بحث کسسرے وہ فروعسسی‬
‫اور شکلی باتوں کے بجائے اصولی اور بنیادی باتوں سے ابتداء کر ے ۔‬
‫اور غالبا ً اسلم اور تصوف کا اصل جسسوہری اختلف پسسڑھ لینسے کسے بعسسد‬
‫تمہیں سمجھ میں آگیا ہوگا کہ بحث کی ابتداء ک ہاں س سے کرنسسی چسساہی ے ۔ یعنسسی‬
‫سب سے پہل سوال ماخذ دین کے متعلق ہونا چاہیے کہ دین کہاں سے لیا جسسائے‬
‫اور عقیدہ و عبادت کس چیسسز سسے ثسسابت کسسی جسسائے۔ یعنسسی دیسسن اور عقیسسدہ و‬
‫عبادت کے حاصل کرنے کا ماخذ کیا ہو؟ اسلم اس ماخسسذ کسسو صسسرف کتسساب و‬
‫سنت میں محصور کرتا ہے کسسسی ب ھی عقیسدے کسسا اثبسسات قسرآن کسی نسص یسسا‬
‫‪6‬‬

‫رسول کے ارشاد کے بغیر جائز نہیں اور کسی بھی شریعت کا اثبسسات کتسساب و‬
‫سنت یا اس کے موافق اجتہاد کے بغیر جائز نہیں اور اجتہاد صحیح بھی ہوتا ہے‬
‫اور غلط بھی اور کتاب اللہ اور سنت رسول کے علوہ کوئی معصوم نہیں ۔‬
‫مگر مشائخ تصوف کا خیال ہے کہ وہ دین کو بغیر کسی واسطہ کے براہ‬
‫راست اللہ تعال ٰی سے حاصل کرتے ہیں اور براہ راست رسول صسسلی الل سہ علی سہ‬
‫وسلم سے حاصل کرتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ ہمیش سہ ان کسسی مجلسسسوں‬
‫اور ان کے ذکر کے مقامات میں تشریف لتسے ہیسں ۔ اسسی طسرح وہ اپنسا دیسن‬
‫فرشسستوں سسے حاصسسل کرتسے ہیسں۔ اور جنسوں سسے حاصسل کرتسے ہیسں جنہیسں‬
‫روحانی کہتے ہیں اور کشف حاصل کرتے ہیں جس کے متعلق ان کا خیسسال ہے‬
‫کہ ولی کے دل پر غیب کی باتیں کھل جسساتی ہیسسں اور وہ زمیسسن و آسسسمان کسسی‬
‫ساری چیزوں کو اور گذشتہ اور آئندہ کے سارے واقعسسات کسسو دیکھتسسا ہے ۔ پسسس‬
‫ولی کے علم سے ۔۔۔۔۔۔۔ان کے بقول۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کا ایک ذرہ ب ھی‬
‫باہر نہیں ۔‬
‫اس لیے صوفی سے پہل سوال یہ کرنا چاہیے کہ آپ لوگ دیسسن کسسا ثبسسوت‬
‫کہاں سے لتے ہیں؟ یعنی اپنا عقیدہ کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟ اگر وہ کہے کسسہ‬
‫کتاب و سنت سے حاصل کرتے ہیسں تسسو اس سسے ک ہو کسہ کتسساب و سسنت کسسی‬
‫گواہی تو یہ ہے ک سہ ابلیسسس کسسافر ہے اور وہ اور اس ک سے پیروکسسار جہنمسسی ہیسسں ۔‬
‫چنانچہ اللہ تعال ٰی کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ن ِلـ َ‬
‫ي‬ ‫خَلْفُتُكْم َوَمـا َكـا َ‬
‫عـدّتُكْم َفـَأ ْ‬
‫ق َوَو َ‬‫حـ ّ‬‫عـَد اْل َ‬
‫عـَدُكْم َو ْ‬
‫لـ َو َ‬ ‫نا ّ‬ ‫لْمُر ِإ ّ‬ ‫يا َ‬‫ضَ‬ ‫ن َلّما ُق ِ‬ ‫طا ُ‬
‫شْي َ‬
‫ل ال ّ‬
‫َوَقا َ‬
‫خُكْم َوَمــا َأنُت ـْم‬
‫ص ـِر ِ‬
‫سُكم ّما َأَنْا ِبُم ْ‬ ‫ل َتُلوُموِني َوُلوُموْا َأنُف َ‬ ‫جْبُتْم ِلي َف َ‬ ‫سَت َ‬
‫عْوُتُكْم َفا ْ‬
‫ن ِإلّ َأن َد َ‬ ‫طا ٍ‬‫سْل َ‬
‫عَلْيُكم ّمن ُ‬
‫َ‬
‫ب َأِليٌم )إبراهيم ‪( 22 :‬‬ ‫عَذا ٌ‬ ‫ن َلُهْم َ‬‫ظاِلِمي َ‬
‫ن ال ّ‬‫ل ِإ ّ‬
‫ن ِمن َقْب ُ‬ ‫شَرْكُتُمو ِ‬ ‫ت ِبَما َأ ْ‬‫ي ِإّني َكَفْر ُ‬‫خّ‬‫صِر ِ‬
‫ِبُم ْ‬
‫اور جب معاملت کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا ک سہ الل سہ ن سے‬
‫تم سے برحق وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تسسو وعسسدہ خلفسسی کسسی‬
‫اور مجھے تم پر کوئی اختیار تو تھا نہیں البتہ میں نسے تسم کسسو بلیسسا اور تسم نسے‬
‫میری بات مان لی لہٰذا مجھے ملمت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملمسست کسسرو۔ ن سہ‬
‫میں تمہاری فریاد کرسکتا ہوں۔ اور نہ تم میری فریاد کرسکتے ہو۔ تم نے پہلسے‬
‫مجھے شریک ٹھہرایا میں اس کے ساتھ کفر کرتا ہوں۔ یقینا ً ظسسالموں ک سے لی سے‬
‫دردناک عذاب ہے ۔‬
‫تمام مفسرین سلف کا اجماع ہے کہ یہاں شیطان سے مراد ابلیس ہے ۔‬
‫اور "تم میری فریاد نہیں کرسکتے" کا مطلب تسسم مج ھے چ ھڑا اور بچسسا نہیسسں‬
‫سکت ے ۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں ہے ۔‬
‫تو اب اے صوفیو! سوال یہ ہے کہ کیا ابلیس کے بارے میں آپ لوگوں کسسا‬
‫بھی یہی عقیدہ ہے؟‬
‫اگر اس کے جواب میں صوفی یہ کہے کہ ہاں! ہمارا بھی ی ہی عقیسسدہ ہے‬
‫کہ ابلیس اور اس کے ماننے ولے جہنمی ہیں تو یاد رکھو کہ وہ تسسم س سے ج ھوٹ‬
‫بول رہا ہے اور اگر یہ جواب دے کر ہم ابلیس کو جہنمی نہیں مانتے' بلکہ ہمسسارا‬
‫عقیدہ ہے کہ اس نے جو کچھ کیسسا ت ھا اس سسے تسسوبہ کرلیسسا اور مسسومن و موحسسد‬
‫ہوگیا۔۔۔۔۔۔جیسا کہ ان کے استاد حلج کا کہنا ہے۔ تسسو اس س سے کہہہو ک سہ اب تسسم‬
‫کافر ہوگئے۔ کیونکہ تسم نسے کتسساب اللسہ' احسادیث رسسول اور اجمساع امست کسی‬
‫مخالفت کی ۔ اس لیے کہ ان سب ذریعوں سے ثابت ہے ک سہ ابلیسسس کسسافر اور‬
‫جہنمی ہے ۔‬
‫صوفی سے یہ بھی کہو کہ تمہارے شیخ اکبر ابن عربی کسسا فیصسسلہ ہے ک سہ‬
‫ابلیس جنتی ہے اور فرعون جنتی ہے )جیسا کہ "فصوص الحکم" میں لکھا ہے(‬
‫‪6‬‬

‫اور تمہارے استاد اعظم حلج کا کہنا ہے کہ ابلیسسس اس کسسا پیشسسوا اور فرعسسون‬
‫اس کا پیر ہے) جیسا کہ "طواسین" ص ‪52‬میں لکھا ہے( اب بتاؤ کہ اس بسسارے‬
‫میں تم کیا کہتے ہو؟ جواب میں اگر وہ ان باتوں کو ماننے سے انکار کسسردے تسسو‬
‫سمجھ لو کہ وہ کٹ حجت اور حقیقت کا منکر ہے یا جاہل اور نسساواقف ہے اور‬
‫اگر وہ بھی کافر ہوا۔ اور ابلیس اور فرعون کا بھائی ٹھہرا۔ لہٰذا جہنم میسسں ان‬
‫سبھوں کا ساتھ اس کے لیے کافی ہے ۔‬
‫اور اگر وہ تلبیس سے کام لے اور کہے کہ ان کسسی بسسات شسسطحیات میسسں‬
‫سے ہے۔ انہوں نے اسے حال اور سکر کے غلبے کے وقت کہا تھا تو اس سے کہو‬
‫تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ بات تسسو لک ھی ہوئی کتسسابوں میسسں موجسسود ہے اور ابسسن‬
‫عربی نے اپنی کتاب "فصوص" کو یوں شروع کیا ہے‪:‬‬
‫انی رایت رسول اللہ فی مبشرۃ فسسی محروس سۃ دمشسسق واعطسسانی ھذا‬
‫الکتاب وقال لی اخرج بہ علی الناس ۔‬
‫"میں نے محروسہ دمشق کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیسہ وسسسلم کسسو‬
‫ایک خواب میں دیکھا اور آپ نے مجھے یہ کتاب دی ۔ اور فرمایا اس سے لوگسسوں‬
‫کے سامنے برپا کرو" ۔‬
‫اور اسی کتاب میں ابن عربی نے بیان کیا ہے کہ ابلیس اور فرعون اللہ‬
‫کی معرفت رکھتے ت ھے۔ اور نجسات پسائیں گسے۔ اور فرعسون کسو موسس ٰی علیسہ‬
‫السلم سے زیادہ اللہ کا علم حاصل تھا۔ اور جس نے کسی بھی چیز کی پوجا‬
‫کی اس اللہ ہی کی پوجا کی ۔ اسی طرح حلج نے بھی اپنی سسساری کفریسسات‬
‫کو کتاب کے اندر لکھ رکھا ہے۔ یہ شطح یا حال کا غلبہ نہیں تھا جیسسسا ک سہ لسسوگ‬
‫کہا کرتے ہیں ۔‬
‫اس کے جواب میں اگرصوفی یہ کہے کہ ان لوگوں نے ایک ایسسسی زبسسان‬
‫میں بات کی ہے جسے ہم نہیں جانتے تو اس کو کہو کہ ان لوگوں نے اپنی بسسات‬
‫عربی زبان میں لکھی ہے اور ان کے شاگردوں نے ان کسسی شسسرح کسسی ہے اور‬
‫مذکورہ باتوں کو دوٹوک لفظوں میں بیان کیا ہے ۔‬
‫اگر اس کے جواب میں صوفی یہ کہے کہ ایسی زبان ہے جو اہل تصسسوف‬
‫کے ساتھ خاص ہے اور اسے دوسرے لوگ نہیں جانتے۔ تو اس سے یہ ک ہو کسہ ان‬
‫کی یہ زبان عربی ہی زبان تو ہے جس کو انہوں نے لوگوں کے درمیان عام کیسسا‬
‫ہے اور اپنے ساتھ خاص نہیں کیا ہے اور اسی بنیسساد پسسر علمسساء اسسسلم ن سے حلج‬
‫کواس کی باتوں کے سبب کافر قرار دیا اور اسے ‪309‬ھ میں بغداد کے پل پر‬
‫پھانسی دی گئی۔ اسی طرح علماء اسلم نے ابن عربی کے بھی کافر زنسسدیق‬
‫ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔‬
‫اگر صوفی کہے کہ میں علماء شریعت کے فیصلے کو تسلیم نہیسسں کرتسسا‬
‫کیونکہ وہ علماء ظاہر ہیں حقیقت نہیں جانتے۔ تو اس سے کہو کہ یہ "ظاہر" تسسو‬
‫کتاب و سنت ہے۔ اور جو "حقیقت" اس "ظاہر" کے خلف ہو وہ باطل ہے۔ پھر‬
‫اس سے یہ بھی پوچھو کہ وہ صوفیانہ حقیقت کیا ہے جسسس کسسا تسسم لسسوگ دعسسو ٰی‬
‫کرتے ہو؟ اگر وہ کہے کہ یہ ایک راز ہے جس کو ہم نہیں بتلتے تو اس سے کہو کہ‬
‫جی نہیں تم لوگوں نے اس راز کو آشکارا کردیا اور پھیل دیا ہے۔ اور وہ راز یسسہ‬
‫ہے کہ تمہارے خیال میں ہر موجود اللہ ہے ۔ جنت و جہنم ایک ہی چیز ہے ۔ ابلیس‬
‫اور محمد ایک ہی ہیں۔ اللہ ہی مخلوق ہے اور مخلسسوق ہی الل سہ ہے۔ جیسسسا ک سہ‬
‫تمہارے امام شیخ اکبر نے کہا ہے؟‬
‫‪6‬‬

‫یالیت شعری من المکلف‬ ‫العبد رب والرب عبد‬


‫وان قلت اب انی یکلف‬ ‫ان قلت عبد فذاک رب‬
‫"بندہ رب ہے اور رب بندہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتسسا کسہ پ ھر مکلسف کسسون‬
‫ہے؟ اگر کہا جائے کہ بندہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔توس وہی رب ہے ۔ اور اگر کہہہا جسسائے کسہ رب ۔ تسسو‬
‫پھر مکلف کیسے ہو سکتا ہے" ۔‬
‫اب اگر صوفی اس کا اقرار کرلسے' اس کسے بسساوجود ان زنسسدیقوں کسسی‬
‫پیروی کرے تو انہیں جیسا کافر وہ بھی ہوا۔ اور کہے کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کیسسا‬
‫بات ہے۔ مجھے اس کا علم نہیں۔ البتہ میں اس کے کہنے والوں کسسی ایمسسان اور‬
‫پاکی اور ولیت کا یقین رکھتا ہوں تو اس سے کہو کہ یہ واضح عربی کلم ہے ۔‬
‫اس میں کوئی خفا نہیں اور یہ ایک معروف عقیدے یعنی وحدۃ الوجسسود کسسا پت سہ‬
‫دیتا ہے۔ اور یہ ہندوؤں اور زندیقوں کا عقیدہ ہے جسے تم لوگوں نے اسلم کی‬
‫طرف منتقل کرلیا ہے۔ اور اسے قرآنی آیات اور نبوی احادیث کا جسسامہ پہنادیسسا‬
‫ہے ۔‬
‫اس کے بعد اگر صوفی یہ کہے کہ اولیاء کی شان میں گستاخی ن سہ کسسرو‬
‫ورنہ وہ تم کو برباد کردیں گے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسسسلم فرمسساتے‬
‫ہیں کہ اللہ تعال ٰی کا ارشاد ہے کہ جو کوئی میرے ولی سسے دشسسمنی کسسرے میسسں‬
‫اس کے خلف جنگ کا اعلن کرتا ہوں۔ تو اس کے جواب میسسں تسسم ک ہو ک سہ ی سہ‬
‫لوگ اولیاء نہیں ہیں بلکہ زندیق و بددین ہیں جنہوں نے اوپر سے اسلم کا پسسردہ‬
‫ڈال رکھا ہے اور میں تمہارے ساتھ اور تمہارے خداؤں کے ساتھ کفر کررہا ہوں ۔‬
‫خـٌذ‬ ‫ل ُهـَو آ ِ‬‫ل َرّبي َوَرّبُكم ّما ِمن َدآّبٍة ِإ ّ‬ ‫عَلى ا ّ‬ ‫ت َ‬ ‫ن )‪ِ (55‬إّني َتَوّكْل ُ‬ ‫ظُرو ِ‬ ‫ل ُتن ِ‬‫جِميعًا ُثّم َ‬‫َفِكيُدوِني َ‬
‫سَتِقيٍم )هود ‪( 56-55:‬‬ ‫ط ّم ْ‬‫صَرا ٍ‬‫عَلى ِ‬ ‫ن َرّبي َ‬ ‫صَيِتَها ِإ ّ‬
‫ِبَنا ِ‬
‫"لہٰذا تم سب مل کر میسسرے خلف داؤں چلؤ پ ھر مج ھے مہلسست ن سہ دو ۔‬
‫میں نے اللہ پر بھروسہ کررکھا ہے جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔ روئے زمیسسن‬
‫پر جو بھی چلنے وال ہے اللہ نے اس کی چوٹی پکڑ رک ھی ہے۔ ب سے شسسک میسسرا‬
‫پروردگار صراط مستقیم پر ہے" ۔‬
‫پھر اگر صوفی یہ کہے کہ ضروری ہے کہ ہم صوفیوں کے حق میں ان کے‬
‫حالت کو تسلیم کرلیں کیونکہ انہوں نے حقائق کو دیکھا ہے اور دین کے باطن‬
‫کو پہنچانا ہے ۔ تو اس سے کہو کہ تم جھوٹ بولتے ہو ۔ اگسر کسوئی شسسخص اپنسی‬
‫بات کے ذریعہ کتاب و سنت کی مخالفت کسسرے ۔ اور مسسسلمانوں ک سے درمیسسان‬
‫کفر و زندقہ پھیلئے تو اس پر چپ رہنا جائز نہیں۔ چنانچہ اللہ تعال ٰی کسسا ارشسساد‬
‫ہے‪:‬‬
‫ك َيلَعُنُهُم‬
‫ب ُأوَلـِئ َ‬‫س ِفي اْلِكَتا ِ‬‫ت َواْلُهَدى ِمن َبْعِد َما َبّيّناُه ِللّنا ِ‬ ‫ن اْلَبّيَنا ِ‬‫ن َما َأنَزْلَنا ِم َ‬
‫ن َيْكُتُمو َ‬
‫ن اّلِذي َ‬
‫ِإ ّ‬
‫حيُم‬‫عَلْيِهْم َوَأَنا الّتّوابُ الّر ِ‬
‫ب َ‬‫ك َأُتو ُ‬ ‫حوْا َوَبّيُنوْا َفُأْوَلـِئ َ‬ ‫صَل ُ‬
‫ن َتاُبوْا َوَأ ْ‬ ‫ن ) ‪ِ (159‬إلّ اّلِذي َ‬ ‫عُنو َ‬
‫لِ‬‫ل َوَيْلَعُنُهُم ال ّ‬‫ا ّ‬
‫)البقرة ‪(160-159:‬‬
‫"یقینا ً جو لوگ ہمارءی نازل کی ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیسسں‬
‫اس کے بعد کہ ہم اسے لوگوں کے لیے کتاب میں بیسسان کرچکسے ہیسں تسسو ایسسے‬
‫لوگوں اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنست کرنسے والسے لعنسست کرتسے ہیسسں۔ سسسوائے ان‬
‫لوگوں کے جو توبہ کریں اور اصلح کریں اور بیان کریں تو میں ایسے لوگسسوں‬
‫کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے وال مہربان ہوں" ۔‬
‫اس لیے تمہارے باطل اور لغویسات اور زنسدقہ پسر چسپ رہنسا جسائز نہیسں ۔‬
‫کیونکہ تم لوگوں نے عالم ِ اسلم کو پچھلے دور میسسں ب ھی اور موجسسودہ زمسسانے‬
‫میں بھی خراب کررکھا ہے۔ آج تک تم لوگسسوں کسسا ی ہی وطیسسرہ چل آر ہا ہے کسہ‬
‫لوگوں کو اللہ کی عبادت سے نکال کر مشائخ کی عبادت کی طرف لے جسساتے‬
‫‪6‬‬

‫ہو ۔ توحید سے نکال کر شرک اور قبر پرستی کی طرف لے جسساتے ہہہو ۔ سسسنت‬
‫سے نکال کر بدعت کی طرف لے جاتے ہو۔ اور کتسساب و سسسنت کسے علسسم سسے‬
‫نکال کر اللہ' فرشتے' رسول اور جنوں کو دیکھنے کا دعو ٰی کرنے والسسوں س سے‬
‫بدعات و خرافات اور جھوٹ فریب حاصل کرنے کی طرف لسے جسساتے ہو ۔ تسسم‬
‫زندگی بھر باطنی فرقوں کے مسسددگار اور سسسامراج ک سے خسسادم ر ہے۔ اس لیسے‬
‫قطعا ً جائز نہیں کہ تسم لوگسوں نسے جسو گمرا ہی اور شسرک پھیل رک ھا ہے' اور‬
‫لوگوں کو قرآن کریم اور حدیث سے بہکا کر اپنے بدعتیانہ اذکار اور مشرکوں‬
‫جیسی سیٹی اور تالی والی عبادت کی طرف لے جاتے ہو اس پسسر خاموشسسی‬
‫اختیار کی جائ ے ۔‬
‫اس مرحلہ پر صوفی لزما ً خاموش ہوجائے گسسا۔ وہ سسسمجھ جسسائے گسسا کسہ‬
‫اس کا پال ایک ایسے شخص سے پڑا ہے جس کو اس کے باطل کسسا پسسورا پسسورا‬
‫علم ہے اس کے بعد یا تو اللہ تعال ٰی اس کو صحیح اسلم کی ہدایت دے گسسا یسسا‬
‫وہ اپنے عقیدے اور معاملہ کو چھپائے رک ھے گسسا۔ ی ہاں تسسک کسہ اللسہ تعسسال ٰی اسسے‬
‫ت حق پسسر اس کسسی‬ ‫کسی دن رسوا کردے' یا کفر و زندقے اور بدعت و مخالف ِ‬
‫موت آجائ ے ۔‬
‫ہم نے یہ ساری باتیں ان کی کتابوں اور اقسسوال س سے تفصسسیل ک سے سسساتھ‬
‫بیان کردی ہیں آپ ہماری کتاب "الفکر الصوفی فی ضوء الکتاب والسنۃ" کسسا‬
‫مطالعہ کروگے تو اللہ کی حمد و توفیق سے آپ کو یہ سب تفصسسیل ک سے سسساتھ‬
‫مل جائے گا ۔‬
‫اور اول و آخر ساری حمد اللہ کے لیے ہے۔ اور ساری عسسزت کتسساب الل سہ‬
‫اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے' اور ان کی پیروی کرنسسے‬
‫والے' اور صراط مستقیم پر چلنے والے مومنین کسے لیئے ہے۔ والحمسد للسہ رب‬
‫العالمین ۔‬

‫مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان‬

You might also like