Professional Documents
Culture Documents
Life and Living 1st Sheru
Life and Living 1st Sheru
تعالی کی آخری کتاب ہے ،جو آخری نبی جناب محمد رسول ہللا ٰ ” قرآن مجید“ ہللا
ﷺ پر نازل ہوئی ہے ،قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی ،یہ زندگی
دستور کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو مال تھا ،اس میں اصوالً اسی کا اعادہ اور ِ کا وہی
عہد کی تجدید ہے ،یہ خدائی عطیہ ،ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے ،جو منتقل ہوتا ہوا ہم
تک پہنچا ہے ،اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا
سر مو ادنی تغیر و تبدل کے باقی ہے ،اس میں ِ ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بال کسی ٰ
کوئی فرق نہیں آیا ،ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان
قرآن سے جدا ہوئے ،اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے” :الَ یَأتِ ْی ِہ
اط ُل ِمن بَ ْینَ یَ َد ْی ِہ َواَل ِم ْن خ َْلفِہ “(حم سجدہ)
ْالبَ ِ
( ترجمہ ):قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے
پیچھے سے۔
آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ
تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ٰ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا ،خود ہللا
ہے ،ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا :اِنَّا نَحْ ُن نَ َّز ْلنَا ال ِّذ ْک َر َواِنَّا لَہُ لَ َحافِظُوْ نَ
(حجر)۹
( ترجمہ ):ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی
حفاظت کریں گے۔
صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری
تعالی نے لی ہے ،ایک جگہ ارشاد ہے” :ثُ َّم اِ َّن َعلَ ْینَا بَیَانَہ( “ترجمہ) پھر ہم
ٰ بھی خود ہللا
پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔
قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا ،کبھی
ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں ،نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ
ت
تھی ،یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول ہللا ﷺ کی حیا ِ
مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج
کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا ،ہاں! یہ بات ضرور
ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی ہللا علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے
لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بال کسی کم و
حجرہ مبارکہ میں موجود تھا ،اس میں نہ
ٴ کاست کے لکھا ہوا ،آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے
تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ
سب سورتیں الگ الگ تھیں ،اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں ،کتابی شکل میں جلد
سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:
مجموع في
ٍ القرآن ُکلُّہ مکتوبا ً فی َع ْہ ِدہ صلی ہّٰللا علیہ وسلم لکن غی َر
ُ قد کان
وض ٍع واح ٍد۔ (الکتابي ج۲ ص ۳۸۴ بحوالہ تدوی ِن قرآن ص)۴۳ َم ِ
( ترجمہ ):پورا قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا
ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور
حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیالیا؛
بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔
نزول قرآن
علمائے اسالم کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختالف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا
بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج
نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختالف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے
کیے گئے جو حسب ذیل ہیں:
پہلے مرحلے میں قرآن لوح محفوظ پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت
اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔[ ]56اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے بَلْ ه َُو قُرْ ٌ
آن
[ا]
ح َّمحْ فُو ٍظ
فِي لَوْ ٍ َّم ِجي ٌد
لوح محفوظ سے آسمان میں موجود sایک مقام بیت العزت میں شب قدر کو نازل ہوا۔ اس کی دلیل قرآن کی
ار َك ٍة إِنَّا ُكنَّا ُمن ِذ ِرينَ [ ب] ،إِنَّا أَن َز ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ِة ْالقَ ْد ِر[ پ]۔ درج
یہ آیتیں ہیں إِنَّا أَن َز ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ٍة ُّمبَ َ
ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں :عبد ہللا بن عباس سے مروی sہے ،فرماتے ہیں کہ "قرآن کو لوح
محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا ،جہاں سے جبریل پیغمبر sپر لے
جایا کرتے تھے"۔[ ]57ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب المرشد والوجيز sعن هذا النزول میں لکھا ہے" :علما
کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا
اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کالم الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے ،جب جبریل کا ان پر
سے گزر ہوا تو انہیں ہوش آیا اور کہنے لگےَ :واَل تَنفَ ُع ال َّشفَا َعةُ ِعن َدهُ إِاَّل لِ َم ْن أَ ِذنَ لَهُ َحتَّى إِ َذا فُ ِّز َع عَن
[ ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو ق َوهُ َو ْال َعلِ ُّي ْال َكبِي ُر
قُلُوبِ ِه ْم قَالُواَ sما َذا قَا َل َربُّ ُك ْم قَالُوا ْال َح َّ
[ٹ][]58
اس کا امال کرایا ،چنانچہ قرآن میں مذکور sہے :بِأ َ ْي ِدي َسفَ َر ٍة
بیت العزت سے جبریل نے بتدریج قلب پیغمبر پر اتارا ،نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ
[ ث]۔ تمام آسمانی کتابوں میں ال َكاَّل فَ ْاذهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا َم َع ُكم ُّم ْستَ ِمعُونَ
پر محیط ہے۔ قرآن میں ہے :قَ َ
ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل
قرآن واحد کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئی ،چنانچہ قرآن میں مذکور ہےَ :وقَ َ
[ ج]۔ علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی ك لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَادَكَ َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َو ِ
اح َدةً َك َذلِ َ
درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں:
کفار کی مخالفت ،اذیت رسانی اور سخت کشیدہ حاالت میں پیغمبر محمد کی دل بستگی ،سورہ فرقان میں
َك َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل [ چ]۔
ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َوا ِح َدةً َك َذلِكَ لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَاد َs
ہےَ :وقَ َ
آیت "ورتلناہ ترتيالً" میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد
رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔
مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دالئل کا یکے بعد دیگرے اِبطالَ :واَل يَأْتُون َs
َك بِ َمثَ ٍل إِاَّل
پیغمبر محمد اور ان کے ساتھیوں کے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔
احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم کرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ جن رسوم و رواج اور
عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتا ً چھوڑ دے ،مثالً شراب پینا۔
حسب ضرورت sاحکام کا نزول ،یعنی بسا اوقات صحابہ کسی پیش آمدہ صورت sحال پر حکم الہی جاننا
چاہتے تو اس وقت متعلقہ آیت نازل ہوتی۔
بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی sاتنا نازل ہوتا۔ نیز
تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہال دور عہد نبوی کا جس میں قرآن
کا وحی کے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دور sخلفائے راشدین کا جس میں قرآن کو ایک مصحف میں
یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔
قرآن کی زبان
قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی
کے کئی لہجے (مصری ،مراکشی ،لبنانی ،کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں ،قرآن کی زبان
کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم
جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح ،جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان
کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر
کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو
م ِد نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے
کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے ،قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی
انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اور تاریخی واقعات بھی ،فلسفہ بھی ملے
گا اور منطق بھی ،پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے
طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس
زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی ل ٰھذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی
غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس
جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت
اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے ،اس بات میں کامیاب
نہ ہو سکے۔
” (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز
(رحم مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود
ِ کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو
سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے
(لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ)
[]80
“ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
قرآن مجید کی آخری آیت : ۔ اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو ،جبکہ تم ہللا کی طرف
واپس ہوگے ،وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل
[]81
جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔
قرآن میں موجود حروف مقطعات
حروف مقطعات( عربی s:مقطعات ،حواميم ،فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں
آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں ،ان کو آیات مقطعات اور ان حروف کو حروف
مقطعات کہا جاتا ہے ،مثالً الم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل
چودہ حروف ہیں ا ،ل ،م ،ص ،ر ،ک ،ہ ،ی ،ع ،س ،ج ،ق ،ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ
ہے کہ ان کا حقیقی مطلب ہللا ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ ،ٹکڑے،
کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما
کے مطابق یہ کچھ رمز ( )codeہیں۔[ ]82یہ حروف 29سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر
الشوری ( سورۃ کا شمار )42 :کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔ ٰ ہیں اور سورۃ
یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30جوڑ ( )combinationsہیں۔ جو 29سورتوں
کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن کریم کی سssورتیں دو قسssم کی ہیں ،بعض سssورتیں مکی ہیں اور بعض
مدنی ہیں۔ سورتوں کے مکی یا مsدنی ہsونے کsا کیsا معیsار وضsابطہ ہے؟ اس حsوالے سsے
مفسرین کرام کے تین اقوال ہیں:
-1بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جو سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں وہ سssورتیں مکی
ہیں اور جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہsوئیں وہ سsورتیں مsدنی ہیں ،گویsا مکی و مsدنی
سورتوں کی وجہ تسمیہ باعتبار مکا ِن نزول کے ہے۔
-2مفسرین کی ایک دوسssری جمssاعت کی رائے یہ ہے کہ جن سssورتوں میں اہssل مکہ سssے
خطاب کیا گیا ہے وہ سورتیں مکی ہیں اور جن سورتوں میں خطاب اہ ِ sل مssدینہ سssے ہے وہ
سورتیں مدنی ہیں ،ان کے نزدیک گویا وجہ تسمیہ میں مخاطب کا اعتبار کیا گیا ہے۔
-3مفسرین کا تیسرا قول جو زیادہ مشssہور اور راجح ہے وہ یہ ہے کہ جssو سssورتیں رسssول
ہللا ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئیں تھی وہ سورتیں
مکی ہیں اور جو سورتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں وہ سورتیں مدنی ہیں ،اس تعریssف کے
اعتبار سے وجہ تسمیہ میں قرآن کریم کے زمانہ نزول کا اعتبار کیا گیا ہے۔ ل ٰہذا سورہ فتح
جو صلح حدیبیہ سے واپسی کے سفر میں نازل ہوئی اور سورہ توبہ کی بہت سی آیات جssو
غزوہ تبوک کے سفر میں نازل ہوئیں یہ سssب مssدنی ہیں ،اگssرچہ یہ آیssات یssا سssورتیں مssدینہ
منورہ میں نازل نہیں ہوئیں۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آخری آیات بعض روایات کے مطssابق
بطور تحفہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت
ِ معراج کے موقع پر
کو عطا کی گئیں ،جو نہ مکہ میں نازل ہssوئیں نہ مssدینہ میں ،لیکن قبssل از ہجssرت نssزول کی
وجہ سے یہ آیات مکی کہالتی ہیں۔
وہ سورتیں جن کے مکی اور مدنی ہونے میں اختالف ہے [جن میں سے بعض کے بارے
میں کہا گیا ہے کہ دو بار نازل ہوئی ہیں[:]]2
فرائض اور حدود کو ان سورتوں میں بیان کیا گیا ہے؛ .1
مدنی سورتیں طویل ہیں؛ .2
بڑی اور طویل آیتوں کی حامل ہیں؛ .3
شہری ،عدلی ،معاشرتی اور حکومتی قوانین نیز جنگ و صلح کے قوانین .4
مدنی آیات کی اہم ترین خصوصیت سمجھے جاتے ہیں؛
یہ آیات "یا ایہا الذین آمنوا" جیسے خطاب کی حامل ہیں؛ .5
ان آیات میں اہل کتاب کے فاسد عقائد کی تشریح ہوئی ہے اور ان کو اسالم .6
کی دعوت کے مسئلے پر تاکید ہوئی ہے؛
منافقین کے حاالت اور اقدامات کا بیان اور ان کے سامنے مسلمانوں .7
اور پیغمبر اسالم(ص) کا موقف بھی ان آیات کی خصوصیات میں سے ہے۔
یہ خصوصیات کی نوعیت قطعی اور 100فیصد نہیں ہے اور ہر خصوصیت کے لیے ایک
استثناء کا پایا جانا بھی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ میں حضرت آدم(ع) کا
قصہ بیان ہوا لیکن یہ سورت مکی نہیں ہے؛ حاالنکہ مندرجہ باال قواعد کے مطابق اس کو
مکی ہونا چاہیے تھا؛ اور سورہ نصر با وجود اس کے مجموعی طور پر بھی چھوٹی ہے
اور اس کی آیتیں بھی چھوٹی ہیں اور مکی آیات سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے لیکن
[]8
مکی نہیں ہے بلکہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔