You are on page 1of 9

Submitted To: Sir Abdur Rahman

Submitted by: Muhammad shahroze


Assignment #: 1 (IS)
Date: 5/27/2020
REG NO#: 14894
RIPHAH INTERNATIONAL
UNIVERSITY
‫تدوین قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ‬
‫ِ‬ ‫‪ ‬‬

‫تعالی کی آخری کتاب ہے‪ ،‬جو آخری نبی جناب محمد رسول ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫‪”    ‬قرآن مجید“ ہللا‬
‫ﷺ پر نازل ہوئی ہے‪ ،‬قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی‪ ،‬یہ زندگی‬
‫دستور کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو مال تھا‪ ،‬اس میں اصوالً اسی کا اعادہ اور‬ ‫ِ‬ ‫کا وہی‬
‫عہد کی تجدید ہے‪ ،‬یہ خدائی عطیہ‪ ،‬ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے‪ ،‬جو منتقل ہوتا ہوا ہم‬
‫تک پہنچا ہے‪ ،‬اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا‬
‫سر مو‬ ‫ادنی تغیر و تبدل کے باقی ہے‪ ،‬اس میں ِ‬ ‫ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بال کسی ٰ‬
‫کوئی فرق نہیں آیا‪ ،‬ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان‬
‫قرآن سے جدا ہوئے‪ ،‬اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‪” :‬الَ یَأتِ ْی ِہ‬
‫اط ُل ِمن بَ ْینَ یَ َد ْی ِہ َواَل ِم ْن خ َْلفِہ “(حم سجدہ)‬
‫ْالبَ ِ‬
‫‪(                ‬ترجمہ‪ ):‬قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے‬
‫پیچھے سے۔‬
‫‪                ‬آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ‬
‫تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی‬ ‫ٰ‬ ‫قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا‪ ،‬خود ہللا‬
‫ہے‪ ،‬ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا‪ :‬اِنَّا نَحْ ُن نَ َّز ْلنَا ال ِّذ ْک َر َواِنَّا لَہُ لَ َحافِظُوْ نَ‬
‫(حجر‪)۹ ‬‬
‫‪(                ‬ترجمہ‪ ):‬ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی‬
‫حفاظت کریں گے۔‬
‫‪                ‬صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری‬
‫تعالی نے لی ہے‪ ،‬ایک جگہ ارشاد ہے‪” :‬ثُ َّم اِ َّن َعلَ ْینَا بَیَانَہ‪( “‬ترجمہ) پھر ہم‬
‫ٰ‬ ‫بھی خود ہللا‬
‫پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔‬
‫‪                ‬قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا‪ ،‬کبھی‬
‫ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں‪ ،‬نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ‬
‫ت‬
‫تھی‪ ،‬یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول ہللا ﷺ کی حیا ِ‬
‫مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج‬
‫کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا‪ ،‬ہاں! یہ بات ضرور‬
‫ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی ہللا علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے‬
‫لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بال کسی کم و‬
‫حجرہ مبارکہ میں موجود تھا‪ ،‬اس میں نہ‬
‫ٴ‬ ‫کاست کے لکھا ہوا‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ‬
‫سب سورتیں الگ الگ تھیں‪ ،‬اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں‪ ،‬کتابی شکل میں جلد‬
‫سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی‪:‬‬
‫مجموع في‬
‫ٍ‬ ‫القرآن ُکلُّہ‪ ‬مکتوبا ً فی َع ْہ ِدہ صلی ہّٰللا علیہ وسلم لکن غی َر‬
‫ُ‬ ‫‪            ‬قد کان‬
‫وض ٍع واح ٍد۔ (الکتابي ج‪۲ ‬ص‪ ۳۸۴ ‬بحوالہ تدوی ِن قرآن ص‪)۴۳ ‬‬ ‫َم ِ‬
‫‪(                ‬ترجمہ‪ ):‬پورا قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا‬
‫ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔‬
‫‪                ‬حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور‬
‫حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیالیا؛‬
‫بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔‬

‫نزول قرآن‬
‫علمائے اسالم کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختالف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا‬
‫بتدریج اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج‬
‫نزول کو بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختالف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے‬
‫کیے گئے جو حسب ذیل ہیں‪:‬‬

‫پہلے مرحلے میں قرآن‪ ‬لوح محفوظ‪ ‬پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت‬
‫اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔[‪ ]56‬اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے‪   ‬بَلْ ه َُو قُرْ ٌ‬
‫آن‬
‫[ا]‬
‫ح َّمحْ فُو ٍظ‪ ‬‬
‫‪ ‬فِي لَوْ ٍ‬ ‫َّم ِجي ٌد‪ ‬‬

‫لوح محفوظ سے آسمان میں موجود‪ s‬ایک مقام‪ ‬بیت العزت‪ ‬میں‪ ‬شب قدر‪ ‬کو نازل ہوا۔ اس کی دلیل قرآن کی‬
‫ار َك ٍة إِنَّا ُكنَّا ُمن ِذ ِرينَ ‪[    ‬ب]‪   ،‬إِنَّا أَن َز ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ِة ْالقَ ْد ِر‪[    ‬پ]۔ درج‬
‫یہ آیتیں ہیں‪   ‬إِنَّا أَن َز ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ٍة ُّمبَ َ‬
‫ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں‪ :‬عبد ہللا بن عباس‪ ‬سے مروی‪ s‬ہے‪ ،‬فرماتے ہیں کہ "قرآن کو لوح‬
‫محفوظ سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا‪ ،‬جہاں سے جبریل پیغمبر‪ s‬پر لے‬
‫جایا کرتے تھے"۔[‪ ]57‬ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب‪ ‬المرشد والوجيز‪ s‬عن هذا النزول‪ ‬میں لکھا ہے‪" :‬علما‬
‫کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا‬
‫اور جبریل نے اسے یاد کر لیا۔ کالم الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے‪ ،‬جب جبریل کا ان پر‬
‫سے گزر ہوا تو انہیں ہوش آیا اور کہنے لگے‪َ    :‬واَل تَنفَ ُع ال َّشفَا َعةُ ِعن َدهُ إِاَّل لِ َم ْن أَ ِذنَ لَهُ َحتَّى إِ َذا فُ ِّز َع عَن‬
‫‪[  ‬ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں کو‬ ‫ق َوهُ َو ْال َعلِ ُّي ْال َكبِي ُر‪ ‬‬
‫قُلُوبِ ِه ْم قَالُوا‪َ s‬ما َذا قَا َل َربُّ ُك ْم قَالُوا ْال َح َّ‬
‫[ٹ][‪]58‬‬
‫‪ ‬‬ ‫اس کا امال کرایا‪ ،‬چنانچہ قرآن میں مذکور‪ s‬ہے‪   :‬بِأ َ ْي ِدي َسفَ َر ٍة‪ ‬‬

‫بیت العزت سے جبریل نے بتدریج قلب پیغمبر پر اتارا‪ ،‬نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ‬
‫‪[  ‬ث]۔ تمام آسمانی کتابوں میں‬ ‫ال َكاَّل فَ ْاذهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا َم َع ُكم ُّم ْستَ ِمعُونَ ‪ ‬‬
‫پر محیط ہے۔ قرآن میں ہے‪   :‬قَ َ‬
‫ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل‬
‫قرآن واحد کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئی‪ ،‬چنانچہ قرآن میں مذکور ہے‪َ    :‬وقَ َ‬
‫‪[  ‬ج]۔ علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی‬ ‫ك لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَادَكَ َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل ‪ ‬‬ ‫َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َو ِ‬
‫اح َدةً َك َذلِ َ‬
‫درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں‪:‬‬

‫کفار کی مخالفت‪ ،‬اذیت رسانی اور سخت کشیدہ حاالت میں پیغمبر محمد کی دل بستگی‪ ،‬سورہ فرقان میں‬
‫َك َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل ‪[    ‬چ]۔‬
‫ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َوا ِح َدةً َك َذلِكَ لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَاد َ‪s‬‬
‫ہے‪َ    :‬وقَ َ‬
‫آیت "ورتلناہ ترتيالً" میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد‬
‫رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔‬

‫مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دالئل کا یکے بعد دیگرے اِبطال‪َ    :‬واَل يَأْتُون َ‪s‬‬
‫َك بِ َمثَ ٍل إِاَّل‬

‫‪[  ‬ح]۔‬ ‫ق َوأَحْ َسنَ تَ ْف ِسيرًا‪ ‬‬


‫ِج ْئنَاكَ بِ ْال َح ِّ‬

‫پیغمبر محمد اور ان کے ساتھیوں کے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔‬

‫احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم کرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ جن رسوم و رواج اور‬
‫عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتا ً چھوڑ دے‪ ،‬مثالً‪ ‬شراب پینا۔‬

‫حسب ضرورت‪ s‬احکام کا نزول‪ ،‬یعنی بسا اوقات صحابہ کسی پیش آمدہ صورت‪ s‬حال پر حکم الہی جاننا‬
‫چاہتے تو اس وقت متعلقہ آیت نازل ہوتی۔‬

‫بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہ‪ ‬احادیث‪ ‬میں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی‪ s‬اتنا نازل ہوتا۔ نیز‬
‫تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہال دور عہد نبوی کا جس میں قرآن‬
‫کا‪ ‬وحی‪ ‬کے ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا دور‪ s‬خلفائے راشدین‪ ‬کا جس میں قرآن کو ایک‪ ‬مصحف‪ ‬میں‬
‫یکجا کرکے محفوظ کر دیا گیا۔‬

‫سورتیں اور آیات‬


‫قران ‪ 114‬سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[‪ ]78[]77‬پھر یہ سورتیں‬
‫آیا مکی ہیں یا مدنی ہیں۔‪ ‬مکی سورہ‪ ‬وہ کہالتی ہے جو‪ ‬ہجرت مدینہ‪ ‬سے قبل نازل ہوئی۔ ان‬
‫سورتوں میں عموما عقیدہ‪ ،‬توحید اور اس کی دالئل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل ‪86‬‬
‫سورتیں ہیں۔[‪ ]77‬مدنی سورہ‪ ‬وہ ہے جو ہجرت مدینہ کے بعد‪ ‬مدینہ منورہ‪ ‬میں نازل ہوئی۔ ان‬
‫سورتوں میں عموما شریعت‪ ،‬احکام اور‪ ‬حالل‪ ‬و‪ ‬حرام‪ ‬کے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل ‪28‬‬
‫سورتیں ہیں۔[‪ ]77‬تالوت کی آسانی کے لئے علما نے ان سورتوں کی ‪ 3‬اقسام کی ہیں۔ طوال‬
‫مفصل یعنی‪ ‬سورہ بقرہ‪ ،‬وآل عمران‪ ،‬والنساء‪ ،‬والمائدہ‪ ،‬واالنعام‪ ،‬واالعراف‪ ،‬وبراءة۔ وسميت‬
‫بالطوال لطولها‪ ،‬والطوال جمع طولى۔[‪]79‬۔ اوساط مفصل جو طوال مفصل‪ ،‬یہ وہ سورتیں ہیں‬
‫جن میں تقریبا ً ‪ 100‬آیتیں ہیں۔[‪ ]79‬تیسری قسم ہے قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی‬
‫[‪]79‬‬
‫سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔‬

‫قرآن کی زبان‬
‫قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ہے اور باوجودیکہ عربی‬
‫کے کئی لہجے (مصری‪ ،‬مراکشی‪ ،‬لبنانی‪ ،‬کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں‪ ،‬قرآن کی زبان‬
‫کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی کے بڑے بڑے عالم‬
‫جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح‪ ،‬جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان‬
‫کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر‬
‫کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو‬
‫م ِد نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد الخلیفہ نے‬
‫کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے‪ ،‬قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے جو کسی‬
‫انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اور‪ ‬تاریخی واقعات‪ ‬بھی‪ ،‬فلسفہ بھی ملے‬
‫گا اور منطق بھی‪ ،‬پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے‬
‫طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس‬
‫زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی ل ٰھذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی‬
‫غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس‬
‫جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت‬
‫اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے‪ ،‬اس بات میں کامیاب‬
‫نہ ہو سکے۔‬

‫قرآن کی پہلی اور آخری آیت‬


‫قرآن مجید کی پہلی آیت‪: ‬‬

‫” (اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز‬
‫(رحم مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود‬
‫ِ‬ ‫کو) پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو‬
‫سے پیدا کیا۔ پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے‬
‫(لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ)‬
‫[‪]80‬‬
‫“‬ ‫سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔‬

‫قرآن مجید کی آخری آیت‪ : ‬۔ اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو‪ ،‬جبکہ تم ہللا کی طرف‬
‫واپس ہوگے‪ ،‬وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل‬
‫[‪]81‬‬
‫جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔‬
‫قرآن میں موجود حروف مقطعات‬
‫حروف مقطعات‪( ‬عربی‪ s:‬مقطعات‪ ،‬حواميم‪ ،‬فواتح) قرآن مجید کی بعض آیات کے شروع میں‬
‫آتے ہیں اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں‪ ،‬ان کو‪ ‬آیات مقطعات‪ ‬اور ان حروف کو‪ ‬حروف‬
‫مقطعات‪ ‬کہا جاتا ہے‪ ،‬مثالً‪ ‬الم۔ یہ قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔ یہ کل‬
‫چودہ حروف ہیں‪ ‬ا‪ ،‬ل‪ ،‬م‪ ،‬ص‪ ،‬ر‪ ،‬ک‪ ،‬ہ‪ ،‬ی‪ ،‬ع‪ ،‬س‪ ،‬ج‪ ،‬ق‪ ،‬ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ‬
‫ہے کہ ان کا حقیقی مطلب ہللا ہی کو معلوم ہے۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ‪ ،‬ٹکڑے‪،‬‬
‫کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما‬
‫کے مطابق یہ کچھ رمز (‪ )code‬ہیں۔[‪ ]82‬یہ حروف ‪ 29‬سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر‬
‫الشوری‪ ( ‬سورۃ کا شمار‪ )42 :‬کی دوسری آیت کے طور پر بھی آتے ہیں۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہیں اور‪ ‬سورۃ‬
‫یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل ‪ 30‬جوڑ (‪ )combinations‬ہیں۔ جو ‪ 29‬سورتوں‬
‫کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔‬

‫مکی و مدنی سورتوں کی تعریف اور وجہ تسمیہ‬

‫واضح رہے کہ قرآن کریم کی س‪ss‬ورتیں دو قس‪ss‬م کی ہیں‪ ،‬بعض س‪ss‬ورتیں مکی ہیں اور بعض‬
‫مدنی ہیں۔ سورتوں کے مکی یا م‪s‬دنی ہ‪s‬ونے ک‪s‬ا کی‪s‬ا معی‪s‬ار وض‪s‬ابطہ ہے؟ اس ح‪s‬والے س‪s‬ے‬
‫مفسرین کرام کے تین اقوال ہیں‪:‬‬
‫‪ -1‬بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جو سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں وہ س‪ss‬ورتیں مکی‬
‫ہیں اور جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہ‪s‬وئیں وہ س‪s‬ورتیں م‪s‬دنی ہیں‪ ،‬گوی‪s‬ا مکی و م‪s‬دنی‬
‫سورتوں کی وجہ تسمیہ باعتبار مکا ِن نزول کے ہے۔‬

‫‪ -2‬مفسرین کی ایک دوس‪ss‬ری جم‪ss‬اعت کی رائے یہ ہے کہ جن س‪ss‬ورتوں میں اہ‪ss‬ل مکہ س‪ss‬ے‬
‫خطاب کیا گیا ہے وہ سورتیں مکی ہیں اور جن سورتوں میں خطاب اہ ‪ِ s‬ل م‪ss‬دینہ س‪ss‬ے ہے وہ‬
‫سورتیں مدنی ہیں‪ ،‬ان کے نزدیک گویا وجہ تسمیہ میں مخاطب کا اعتبار کیا گیا ہے۔‬

‫‪ -3‬مفسرین کا تیسرا قول جو زیادہ مش‪ss‬ہور اور راجح ہے وہ یہ ہے کہ ج‪ss‬و س‪ss‬ورتیں رس‪ss‬ول‬
‫ہللا ﷺ کے مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئیں تھی وہ سورتیں‬
‫مکی ہیں اور جو سورتیں ہجرت کے بعد نازل ہوئیں وہ سورتیں مدنی ہیں‪ ،‬اس تعری‪ss‬ف کے‬
‫اعتبار سے وجہ تسمیہ میں قرآن کریم کے زمانہ نزول کا اعتبار کیا گیا ہے۔ ل ٰہذا سورہ فتح‪ ‬‬
‫جو صلح حدیبیہ سے واپسی کے سفر میں نازل ہوئی‪  ‬اور سورہ توبہ کی بہت سی آیات ج‪ss‬و‬
‫غزوہ تبوک کے سفر میں نازل ہوئیں یہ س‪ss‬ب م‪ss‬دنی ہیں‪ ،‬اگ‪ss‬رچہ یہ آی‪ss‬ات ی‪ss‬ا س‪ss‬ورتیں م‪ss‬دینہ‬
‫منورہ میں نازل نہیں ہوئیں۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آخری آیات بعض روایات کے مط‪ss‬ابق‬
‫بطور تحفہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت‬
‫ِ‬ ‫معراج کے موقع پر‬
‫کو عطا کی گئیں‪ ،‬جو نہ مکہ میں نازل ہ‪ss‬وئیں نہ م‪ss‬دینہ میں‪ ،‬لیکن قب‪ss‬ل از ہج‪ss‬رت ن‪ss‬زول کی‬
‫وجہ سے یہ آیات مکی کہالتی ہیں۔‬

‫مکی سورتوں کی تعداد جس پر سب کا اتفاق ہے‪:‬‬

‫سورہ بقرہ‪،‬سورہ مائدہ‪،‬سورہ نور‪،‬سورہ فتح‪،‬سورہ جمعہ‪،‬سورہ مجادلہ‪،‬سورہ‬ ‫‪)1‬‬


‫تحریم‪،‬سورہ آل عمران‪،‬سورہ انفال‪،‬سورہ احزاب‪،‬سورہ حجرات‪،‬سورہ حشر‪،‬‬
‫سورہ منافقون‪،‬‬ ‫‪)2‬‬
‫سورہ نصر‪،‬‬ ‫‪)3‬‬
‫سورہ نساء‪،‬‬ ‫‪)4‬‬
‫سورہ توبہ‪،‬‬ ‫‪)5‬‬
‫سورہ محمد‪،‬‬ ‫‪)6‬‬
‫سورہ حدید‪،‬‬ ‫‪)7‬‬
‫سورہ ممتحنہ‪،‬‬ ‫‪)8‬‬
‫سورہ طالق‬ ‫‪)9‬‬

‫وہ سورتیں جن کے مکی اور مدنی ہونے میں اختالف ہے [جن میں سے بعض کے بارے‬
‫میں کہا گیا ہے کہ دو بار نازل ہوئی ہیں[‪:]]2‬‬

‫سورہ فاتحہ‪،‬‬ ‫‪.1‬‬


‫سورہ صف‪،‬‬ ‫‪.2‬‬
‫سورہ رعد‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫سورہ تغابن‪،‬‬ ‫‪.4‬‬
‫سورہ رحمن‪،‬‬ ‫‪.5‬‬
‫سورہ مطففین‪،‬‬ ‫‪.6‬‬
‫سورہ قدر‪،‬‬ ‫‪.7‬‬
‫سورہ بینہ‪،‬‬ ‫‪.8‬‬
‫سورہ زلزال‪،‬‬ ‫‪.9‬‬
‫سورہ اخالص‪،‬‬ ‫‪.10‬‬
‫سورہ فلق‪،‬‬ ‫‪.11‬‬
‫سورہ ناس۔‬ ‫‪.12‬‬
‫[‪]3‬‬
‫اس حساب سےقرآن‪ ‬کی باقی ماندہ سورتیں مکی محسوب ہوتی ہیں جن کی تعداد ‪ 82‬ہے۔‬

‫مکی اور مدنی سورتوں خصوصیات[ترمیم]‬


‫مکی سورتوں کی خصوصیات[ترمیم]‬

‫آیات سجدہ‪ ‬ان سورتوں میں مندرج ہیں؛‬ ‫‪.1‬‬


‫جس سورت میں لفظ "کاّل [=ہرگز]" آیا ہے وہ مکی ہے؛‬ ‫‪.2‬‬
‫جن سورتوں کا آغاز‪ ‬حروف مقطعہ‪ /‬حروف تہجی ـ جیسے‪ :‬الم‪ ،‬الر‪ ،‬طسم‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫حم‪" ،‬ق" اور "‌ن" وغیرہ‪ ،‬ـ سے ہوتا ہے وہ مکی ہیں؛‬
‫مکی سورتیں چھوٹی ہیں؛‬ ‫‪.4‬‬
‫مکی آیات کی تاکید زیادہ تر‪ ‬توحید‪ ‬اور یکتا پرستی اور معاشرے کے بت‬ ‫‪.5‬‬
‫پرستی اور‪ ‬شرک‪ ‬سے پاک کرنے جیسے موضوعات پر ہے؛‬
‫ان آیات میں کم ہی کوئی قانون سازی ہوئی ہے اور کم ہی شرعی احکام‬ ‫‪.6‬‬
‫وضع ہوئے ہیں؛‬
‫ان آیات میں‪ ‬انبیاء‪ ‬کے حاالت زندگی اور ان کے قصص کو زیادہ توجہ دی‬ ‫‪.7‬‬
‫گئی ہے؛‬
‫اس دور کی آیات حیرت انگیز اعجاز و بالغت سے بہرہ ور ہیں؛‬ ‫‪.8‬‬
‫ان سورتوں میں خاص قسم کے خطابات ـ جیسے "‌یا بنی آدم" اور "یا ایہا‬ ‫‪.9‬‬
‫[‪]7‬‬
‫الناس‌" ـ پائے جاتے ہیں۔‬
‫مدنی سورتوں کی خصوصیات[ترمیم]‬

‫فرائض اور حدود کو ان سورتوں میں بیان کیا گیا ہے؛‬ ‫‪.1‬‬
‫مدنی سورتیں طویل ہیں؛‬ ‫‪.2‬‬
‫بڑی اور طویل آیتوں کی حامل ہیں؛‬ ‫‪.3‬‬
‫شہری‪ ،‬عدلی‪ ،‬معاشرتی اور حکومتی قوانین نیز جنگ و صلح کے قوانین‬ ‫‪.4‬‬
‫مدنی آیات کی اہم ترین خصوصیت سمجھے جاتے ہیں؛‬
‫یہ آیات "‌یا ایہا الذین آمنوا" جیسے خطاب کی حامل ہیں؛‬ ‫‪.5‬‬
‫ان آیات میں اہل کتاب‪ ‬کے فاسد عقائد کی تشریح ہوئی ہے اور ان کو اسالم‬ ‫‪.6‬‬
‫کی دعوت کے مسئلے پر تاکید ہوئی ہے؛‬
‫منافقین‪ ‬کے حاالت اور اقدامات کا بیان اور ان کے سامنے مسلمانوں‬ ‫‪.7‬‬
‫اور‪ ‬پیغمبر اسالم(ص) کا موقف بھی ان آیات کی خصوصیات میں سے ہے۔‬
‫یہ خصوصیات کی نوعیت قطعی اور ‪ 100‬فیصد نہیں ہے اور ہر خصوصیت کے لیے ایک‬
‫استثناء کا پایا جانا بھی ممکن ہے۔ مثال کے طور پر‪ ‬سورہ بقرہ‪ ‬میں‪ ‬حضرت آدم(ع) کا‬
‫قصہ بیان ہوا لیکن یہ سورت مکی نہیں ہے؛ حاالنکہ مندرجہ باال قواعد کے مطابق اس کو‬
‫مکی ہونا چاہیے تھا؛ اور سورہ نصر با وجود اس کے مجموعی طور پر بھی چھوٹی ہے‬
‫اور اس کی آیتیں بھی چھوٹی ہیں اور مکی آیات سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے لیکن‬
‫[‪]8‬‬
‫مکی نہیں ہے بلکہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔‬

You might also like