Professional Documents
Culture Documents
علوم قران
علوم قران
علوم قرآن
تعریف علوم قرآن:
قرآن مجید میں واقع مختلف مباحث ،مثالً:نزول قرآن،وحی کا بیان ،مصاحف میں اس کی
کتابت ،جمع اور تدوین ،محکم ومتشابہ آیات ،مکی و مدنی سورتیں ،اسباب نزول ،قرآن
کے الفاظ کی تفسیروترجمہ ،ان کی اغراض و خصوصیات ،وغیرہ سے متعلق گفتگو
کو’’علوم القرآن‘‘ کہتے ہیں۔
ان کا مقصد قرآن مجید کی تمام جزئیات ،کلیات اور تصورات کو واضح کرنا اور
سمجھنا ہے۔اس علم کو اصول التفسیر بھی کہتے ہیں۔
زرکشی نے اپنی معروف کتاب البرھان میں علوم القرآن کے تینتالیس موضوعات ؒ امام
شمار کرکے ان پر تفصیلی گفتگو چار ضخیم اجزاء میں کردی ہے۔عالمہ جالل الدین عبد
سیوطی نے ان کی تعداد اسی ()۸۰شمار کی ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو کی ہے ؒ الرحمن
جبکہ کالم ہللا میں اور بھی بے شمار علوم ہیں جن کی تعداد تین سو سے زائد بتائی جاتی
ہے۔ ان علوم میں سے چند کے نام یہ ہیں:
۱۔ علم تجوید
۲۔ علم محکم ومتشابہ
۳۔ علم قراء ت
۴۔ علم أسباب نزول
۵۔ علم رسم قرآنی
۶۔ علم إعجاز قرآن
۷۔ علم إعراب قرآن
۸۔ علم ناسخ ومنسوخ
۹۔ علم مکی ومدنی
۱۰۔ علم غریب قرآن
۱۱۔ علم تفسیر
فوائد علوم قرآن
علوم القرآن کے بے شمار فوائد ہیں۔ مثالً :رسم قرآن کا علم بتاتا ہے کہ قرآن کی تحریر
بتدریج اپنے کمال تک کن کن مراحل سے ہوکر پہنچی۔اس کی تشکیل کب او رکیسے
ہوئی؟ اسی طرح احزاب ،منازل ،اجزاء اور ہر سورۃ کے نام وغیرہ کب ،کیوں او
رکیسے متعین ہوئے ۔ مصحف قرآنی کے مختلف خطوط کا تعین اور پھر کتابت جیسی
دلچسپ باتیں یہی علم کرتا ہے۔
علم تجوید ،قرآن کریم کے طالب علم کو حروف کے صحیح مخارج ونطق کی معرفت
دیتاہے۔ اس کی مشق تالوت قرآن یا سماع قرآن کی لذت کو دوباال کردیتی ہے۔صحیح بات
یہ ہے کہ تجوید کے بغیرقرآن کی تالوت غیر مؤثر رہتی ہے۔
علم قرأت پر دسترس اسی تالوت کا خوگر بناتی ہے جوہادی برحق نے ترتیل سے کی
2
گیا۔اس عہد کے عرب حضرات کے لئے قرآن کا سمجھنا اور سمجھانا اس لئے آسان تھا
کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا۔ آپﷺ بھی عرب اور مخاطب قوم بھی عرب تھی۔قرآن نے
غیر عربوں کے لئے بھی اپنے پیغام میں خاصی کشش رکھی جسے سمجھنا ان کے لئے
نصاری اور غیر عرب حضرات سبھی دور رسالت میں قرآن ٰ بھی چندانمشکل نہ تھا۔یہود،
رام اسے بہتر انداز سے سمجھتے ،پڑھتے کی سماعت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ صحا بہ ک ؓ
،عمل کرتے اور سمجھاتے تھے۔مثالً:
ہللا بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت سیدنا عبد ؓ
ظ ْل ٍم ا ُْٔولَـ ِئ َ
ک لَ ُہ ُم االَٔ ْم ُن َوہ ُم ُّم ْہتَدُونَ }¡ ( (األنعام)۸۲: سواْ ِإ ْی َما َن ُہم ِب ُ "الَّ ِذیْنَ آ َمنُواْ َولَ ْم َی ْل ِب ُ
اتری تو ہم پریشان ہو گئے۔ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی ،کہ ہللا کے رسول
ﷺ أینا لم یظلم نفسہ ؟ ہم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرتا؟
آپﷺنے ارشاد فرمایا :جو مفہوم آیت کا تم سمجھ رہے ہو یہاں وہ مراد نہیں بلکہ یہ وہی
ہے جو لقمان علیہ السالم نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا:
ع ِظیْم" (لقمان)۱۳ : ظ ْل ٌم َ ک لَ ُ اَّلل ِإ َّن ال ِ ّ
ش ْر َ ک ِب َّ ِ ی َال ت ُ ْش ِر ْ " َیا بُ َن َّ
بیٹاہللا کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا ً شرک کرنا بڑا ظلم ہے یعنی ظلم سے مرادیہاں شرک
ہے۔
اس لئے صحابہ رسول یہ جانتے تھے کہ فالں آیت کس پس منظر میں نازل ہوئی ،اس کا
معنی ومفہوم کیا ہے۔ کون سی آیت منسوخ ہوچکی ہے اور کن آیات متشابہات پر ہم نے
صرف ایمان رکھنا ہے اور ان کی تاویل نہیں کرنی۔اگر کوئی مشکل پیش آتی تو آپ ﷺ ان
کے درمیان موجود تھے جن سے وہ دریافت کرلیتے۔اس لئے اس دور میں علوم قرآن
متعار ف کرانے یا انہیں مدون کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اور بھی کئی وجوہات
تھیں۔ جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
کرام ان سے
ؓ ٭ … اس دور میں اگرچہ قرآن سے متعلق علوم موجود تھے اور صحابہ
واقف بھی تھے لیکن ان علوم نے ابھی تک کوئی ایسی واضح شکل اختیاز نہ کی تھی کہ
ان کو باقاعدہ طور پر ضبط تحریر میں الیا جاتا۔
٭ … اس دورمیں نزول قرآن کے ساتھ تدوین قرآن کا کام بھی ہو رہا تھا او ر صحابہ
کرام اپنی تمام تر صالحیتوں کے ساتھ تدوین میں مصروف تھے کہ کسی او رموضوع پر ؓ
کوئی کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
٭ … قرآن عربی زبان میں قلب ِ رسول ﷺ پر نازل ہوا تھا جو عربوں کی اپنی زبان تھی۔
اس لئے انہیں قرآن سے متعلق علوم مثالً :علم التجوید ،علم االعراب ،علم غریب القرآن
مدون کرنے کی ضرورت پیش وغیرہ سے بخوبی واقفیت حاصل تھی لہذا ان تمام علوم کو ّ
نہ آئی۔
٭ … ایک او روجہ یہ بھی تھی کہ قرآن ان کے سامنے نازل ہوا تھا۔ انہیں بخوبی علم تھا
کہ کونسا حصہ کس موقع پر اور کس پس منظر میں نازل ہوا او ریوں وہ علم تفسیر ،
ناسخ و منسوخ ،علم مکی ومدنی ،علم نزول ،علم وحی ،علم اسباب وغیرہ کے بارے میں
اچھی طرح جان چکے تھے۔
4
٭ … اگر صحابہ کرام ؓ کو اہل زبان ہونے اورنزول قرآن کا شاہد ہونے کے باوجود کوئی
مشکل پیش آ جاتی تھی تو وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ سے اس کا حل دریافت کر لیا کرتے
تھے۔
٭… علوم قرآن کو احاطہ تحریرمیں النے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی
ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے عالوہ کسی بھی قسم کی کتابت سے
منع کیا تھاکیونکہ اس سے یہ احتمال تھا کہ وہ قرآن میں شامل ہو جائے گا۔ لہذا نہ صرف
علوم القرآن کی کتابت بلکہ کسی بھی موضوع کی کتابت کی طرف توجہ نہ دی گئی۔
دوسرا دور:
تدوین کا عہد او راس کا آغاز:
رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید کے سلسلے میں جو علمی
و تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں ان کا بنیادی مقصد ،خدمت قرآن ،اس کے صحیح فہم
کی اشاعت کرنا اور کسی بھی کج فہم کی ممکنہ شرارتوں سے قرآن مجید کو محفوظ
رکھنا تھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور صحابہ ؓ میں ہی فضائل قرآن ،علم تفسیر ،علم
رسم قرآن او رعلم اعراب القرآن پر بہت کچھ کہا بھی گیا اور لکھا بھی گیا۔
خالفت صدیقی و فاروقی:
اس عہد میں علوم ِ قرآن کی نشر و اشاعت محض زبانی نہ رہی بلکہ تدوین کی ابتدا اس
کعب نے عجمیوں میں قرآن ؓ عہد میں ہی شروع ہوئی۔ صحابی رسول ابو المنذر أبی بن
مجید کی عظمت کو جاگزیں کرنے کے لئے فضائل قرآن پر ایک کتاب لکھی۔ اس میں
دلوں کو نرمانے اور قرآن کی طرف مائل کرنے کے لئے اہم علمی نکات تھے۔ اسی طرح
غیر عربی اقوام کو اصول دین سے آگاہ کرنے اور قرآن کے معنی و مفاہیم سے روشناس
فاروقی
ؓ کرانے کے لئے علم التفسیر کی تدوین بھی انہوں نے شروع کی۔ ان کا انتقال عہد
فاروقی کی کتابیں ہیں۔ سیدنا
ؓ صدیقی یا عہد
ؓ میں ہوا تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عہد
عباس کی تفسیر کا بھی علوم قرآن میں ایک قابل قدر حصہ ہے جو ان کے ؓ عبد ہللا بن
ارشد تالمذہ سعید بن جبیر ،مجاہدبن جبر وابو العالیۃ الریاحی کی روایات سے تفاسیر میں
سموئی جا چکی ہے۔ ترجمان القرآن کا لقب رسول ہللا ﷺ نے آپ کو دیا تھا۔
خالفت ِ عثمانی:
ذوالنورین کے عہد میں اسالمی خالفت کی حدود جب غیر عربوں تک پھیلیں ؓ سیدنا عثمان
اور لوگ مسلمانوں کے کردار ،اخالق اور نیکی و پاکیزگی سے متاثر ہو کر اسالم میں
جوق درجوق داخل ہوئے تو انہیں بھی قرآن مجید کو پڑھنے سمجھنے کا شوق ہوا۔ یہ
نئے لوگ عربی زبان سے نابلد ،قرآن مجید کے نزول کی اہمیت سے ناآشنا اور جو حاالت
نزول قرآن کے دوران پیش آئے ان سے بھی ناواقف تھے۔ انہیں شوق تالوت تو تھا مگر
عربی لہجہ کے نہ ہونے سے ان کا غیر عربی لہجہ تالوت کالم پاک میں آہستہ آہستہ عام
ہو گیا۔نیز اس وقت جو قرآن لکھا ہوا تھا اس کا رسم الخط بھی کچھ ایسا تھا جو تالوت
قرآن میں اختالف کو عام کرنے کا سبب بنا۔
عثمان نے جس لغت اور خط کو اس امت کے لئے پسند فرمایا اسے رسم عثمانی کہا ؓ سیدنا
5
جاتا ہے جو علوم ِ قرآن کی ایک قسم ہے۔اسے علم رسم القرآن بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح
اس علم کا پہال تعارف ہوا۔
خالفت ِ علی:
عربی زبان ولہجہ کی حفاظت اور قراءت قرآن میں لحن سے بچاؤ اور صحیح نطق کے
الدولی کوسیدناعلی بھی مجبورہوئے۔آ ؓپ نے أبو االٔسود ٔ ؓ لئے چند پیشگی اقدامات اٹھانے پر
بعض بنیادی اصولوں کی رہنمائی کرتے ہوئے قرآن مجید کے اعراب سمجھائے۔ اس
دولی نے نقط مصاحف پر ایک مختصر رسالہ لکھا۔ جو رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٔ
موسس سیدنا علی رضی ہللا عنہ تھے۔ علم اعراب القرآن کا نقطہ آغاز تھاجس کے ٔ
کرام نے عام کیا ان میں خلفاء
ؓ تدریس و تعلیم کے ذریعے بھی علوم قرآن کو صحابہ
ابوموسی اشعری ؓاور عبد ہللا بن
ٰ عباس ،عبد ہللا بن مسعودؓ ،زیدبن ؓ
ثابت، ؓ اربعہ ،عبد ہللا بن
ؓ
زبیر کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔مزید ان کے چند الئق شاگردوں نے ان کی چھوڑی ؓ
المسیب،
ؒ اس وراثت کو خوب اشاعت دی یہ سب تابعین تھے۔ ان میں سرفہرست ابن
اسلم ہیں۔عہد تابعین جبیراورزید بن ؒ ؒ بصری ،سعید بن ؒ قتادہ ،حسن
ؒ عکرمہ،
ؒ عطاء،
ؒ مجاہدؒ ،
میں پہلی تفسیر سعیدؒ بن جبیر نے لکھی۔ ان کے بعد ابو العالیہ رفیع ؒبن مہران الریاحی نے
عباس کے شاگرد ہیں۔مجاہد نے بھی ؓ قرآن کی تفسیر لکھی۔ یہ دونوں حضرات عبد ہللا بن
تفسیر ابن عباس کی روایت کی جو انہی کے مدرسہ سے تعلق رکھتے ہیں۔علقمہ بن قیس
،مسروق بن األجدع ،قتادۃ بن دعامۃ ،عمرو بن شرحبیل اور ابوعبد الرحمن السلمی کا
تعلق کوفہ سے تھا یہ سبھی مدرسہ ابن ؓمسعود سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور مدینہ منورہ میں
ابی ؓبن کعب کا مدرسہ بھی اپنے قابل شاگردوں سے معمور ہے جن مینابو العالیہ الریاحی
اور محمد بن کعب القرظی ہیں جنہوں نے سیدناابی کے مدرسہ کو فروغ دیا۔
تیسرا دور:
دوسری صدی ہجری :یہ دور دوسری صدی ہجری سے ہمارے دور تک محیط
ہے۔صحابہ وتابعین نے علوم القرآن کی بنیاد رکھ کر مزید فکرو عمل کی راہیں کھولیں۔
چنانچہ دوسری صدی ہجری میں علوم ِ قرآن کی تدوین پر سب سے زیادہ کام قرآن کے
خاص خاص موضوع اور مختلف مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصانیف کے سلسلے سے
شروع ہوا۔ ہر موضوع پر بلند پایہ ائمہ نے اپنی نگارشات پیش کیں۔ جن میں اسباب نزول،
غریب قرآن ،ناسخ ومنسوخ ،علم قراء ت ،متشابہ قرآن ،اعراب و معانی قرآن اور علم
تفسیر پر التعداد کتب تھیں۔
کتب حدیث میں آپﷺ کی تفسیر یا صحابہ کرام ؓ کی تفاسیر ،بذریعہ روایات معمولی جگہ
پاسکیں۔ اس لئے علماء تفسیر نے علم التفسیر پر لکھنا شروع کیا۔جن میں کسی ایک سورۃ
کی ہو یا چند آیات کی یا مکمل قرآن مجید کی تفسیر تھی۔ان تفاسیر میں ضمنا ً مباحث
علوم ِ قرآن بھی آگئے۔ کچھ علماء کے تفسیری نکات بھی مروی ہیں ان میں امام شعبہ بن
الجراح اور
ؒ عیینہ ،امام وکیع بن
ؒ انس ،امام حجاز سفیان بن البصری ،امام مالک بن ؒ ؒ الحجاج
المبارک شامل ہیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف ؒ یگانہ روز گار مجاہد امام عبد ہللا بن
تفسیری موضوع کو اختیار کیا اور اس پر بہت کچھ لکھا ۔ ان میں سرفہرست امام محمد
6