You are on page 1of 6

‫‪1‬‬

‫علوم قرآن‬
‫تعریف علوم قرآن‪:‬‬
‫قرآن مجید میں واقع مختلف مباحث‪ ،‬مثالً‪:‬نزول قرآن‪،‬وحی کا بیان‪ ،‬مصاحف میں اس کی‬
‫کتابت‪ ،‬جمع اور تدوین ‪ ،‬محکم ومتشابہ آیات‪ ،‬مکی و مدنی سورتیں‪ ،‬اسباب نزول‪ ،‬قرآن‬
‫کے الفاظ کی تفسیروترجمہ‪ ،‬ان کی اغراض و خصوصیات ‪،‬وغیرہ سے متعلق گفتگو‬
‫کو’’علوم القرآن‘‘ کہتے ہیں۔‬
‫ان کا مقصد قرآن مجید کی تمام جزئیات ‪ ،‬کلیات اور تصورات کو واضح کرنا اور‬
‫سمجھنا ہے۔اس علم کو اصول التفسیر بھی کہتے ہیں۔‬
‫زرکشی نے اپنی معروف کتاب البرھان میں علوم القرآن کے تینتالیس موضوعات‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫شمار کرکے ان پر تفصیلی گفتگو چار ضخیم اجزاء میں کردی ہے۔عالمہ جالل الدین عبد‬
‫سیوطی نے ان کی تعداد اسی (‪)۸۰‬شمار کی ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو کی ہے‬ ‫ؒ‬ ‫الرحمن‬
‫جبکہ کالم ہللا میں اور بھی بے شمار علوم ہیں جن کی تعداد تین سو سے زائد بتائی جاتی‬
‫ہے۔ ان علوم میں سے چند کے نام یہ ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ علم تجوید‬
‫‪۲‬۔ علم محکم ومتشابہ‬
‫‪۳‬۔ علم قراء ت‬
‫‪۴‬۔ علم أسباب نزول‬
‫‪۵‬۔ علم رسم قرآنی‬
‫‪۶‬۔ علم إعجاز قرآن‬
‫‪۷‬۔ علم إعراب قرآن‬
‫‪۸‬۔ علم ناسخ ومنسوخ‬
‫‪۹‬۔ علم مکی ومدنی‬
‫‪۱۰‬۔ علم غریب قرآن‬
‫‪۱۱‬۔ علم تفسیر‬
‫فوائد علوم قرآن‬
‫علوم القرآن کے بے شمار فوائد ہیں۔ مثالً‪ :‬رسم قرآن کا علم بتاتا ہے کہ قرآن کی تحریر‬
‫بتدریج اپنے کمال تک کن کن مراحل سے ہوکر پہنچی۔اس کی تشکیل کب او رکیسے‬
‫ہوئی؟ اسی طرح احزاب‪ ،‬منازل ‪ ،‬اجزاء اور ہر سورۃ کے نام وغیرہ کب ‪ ،‬کیوں او‬
‫رکیسے متعین ہوئے ۔ مصحف قرآنی کے مختلف خطوط کا تعین اور پھر کتابت جیسی‬
‫دلچسپ باتیں یہی علم کرتا ہے۔‬
‫علم تجوید ‪ ،‬قرآن کریم کے طالب علم کو حروف کے صحیح مخارج ونطق کی معرفت‬
‫دیتاہے۔ اس کی مشق تالوت قرآن یا سماع قرآن کی لذت کو دوباال کردیتی ہے۔صحیح بات‬
‫یہ ہے کہ تجوید کے بغیرقرآن کی تالوت غیر مؤثر رہتی ہے۔‬
‫علم قرأت پر دسترس اسی تالوت کا خوگر بناتی ہے جوہادی برحق نے ترتیل سے کی‬
‫‪2‬‬

‫تھی۔اور جس کے مختلف طرز ادا تھے۔‬


‫ب نزول آیات و سور کے پس منظر سے آگاہ کرتا اور ان کی تشریح و توضیح میں‬ ‫اسبا ِ‬
‫بھرپور معاونت کرتا ہے۔‬
‫ناسخ و منسوخ کا علم ‪ ،‬قرآنی آیات میں بیان کردہ مخصوص حکم کی پہلی او رآخری‬
‫نزولی ترتیب کا تعین کرتا ہے۔ وہ ذات اپنی حکیمانہ تدبیر سے جو حکم چاہے ‪ ،‬ابتداء ً‬
‫نازل کر دے اور بعد میں اس حکم کو اٹھالے اور اس کی جگہ زیادہ بہتر حکم نازل کر‬
‫دے یا ویسا ہی حکم ال کر ہمارے ایمان کا امتحان لے۔عقل انسانی کو شاہد بناتا ہے کہ ہللا‬
‫تعالی قرآن مجید کی آیات و الفاظ میں سے جتنا چاہے باقی رکھے اور جو چاہے محو کر‬ ‫ٰ‬
‫دے۔‬
‫مکی و مدنی آیات وسور کے علم سے اس تقسیم کی حکمتیں اور فوائد ظاہر ہوتے ہیں‪،‬‬
‫قرآن مجید کیوں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا؟ عقائد اوراحکام کے نزول میں تدریجی پہلو‬
‫کیوں پیش نظر رکھے گئے؟ یہ علم روایات مختلفہ کو چھانٹنے اور ان کے بارے میں‬
‫بہتر فیصلہ کرنے میں بڑا ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر دعوت اسالمی کے‬
‫مراحل کو سمجھنے میں‪ ،‬تاکہ ہر عالقے او رہر زمانے میں دعوت دین کے دوران داعی‬
‫حضرات کو ان سے استفادہ کا موقع ملے۔یہ علم سیرت نبوی سے بھی آگاہ کرتا ہے۔نیز‬
‫آیات اور الفاظ کے معنی و مفہوم میں امکانی تحریف کو یہی علم ہی کھنگالتا ہے۔‬
‫قرآن فہمی کے لئے عربی زبان کا علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔وہ عربی زبان جو قرآن‬
‫فہمی میں مدد دے۔ اس کی مددگار قرآن مجید واحادیث کی لغات‪ ،‬گرامرصرف ونحو اور‬
‫احادیث نبویہ ہیں ۔‬
‫تفسیر قرآن کے لئے یہ علوم کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ علوم طالب ِ علم کو قرآن‬
‫کے افہام وتفہیم میں اعتماد دیتے اور درست منہج عطا کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان سے‬
‫عمالً مستفید ہوتا ہے بلکہ تعلیم وتعلّم کا جذبہ بھی بیدار کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میری‬
‫ہمت وقوت میں اضافہ کا سبب نہ صرف یہ پاک کالم ہے بلکہ فہم وعقل کو جال بخشنے‬
‫والی یہ مقدس کتاب ہے۔ اسی معنی میں قرآن کو آسان کتاب کہا گیا ہے۔ طالب علم کو یہی‬
‫علوم ‪ ،‬قرآن پر کئے گئے اعتراضات‪ ،‬تحریفات اور شبہات کا مدلل جواب دینے کی‬
‫صالحیت عطا کرتے ہیں۔ قرآ ِن مجید کے اسرار و رموز‪ ،‬عقائد و احکام کا علم اور ان کی‬
‫حکمتیں انہی علوم کی مرہون منت ہیں۔‬
‫علوم قرآن کی مختصر تاریخ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫تدوین ِ‬
‫قرآن کریم کے علوم کی بنیاد دور رسالت میں ہی رکھ دی گئی تھی جسے صحابہ‬
‫کرام ؓنے اجتہادی فہم سے استوار کیا اور بعد کے علماء نے اس کو مزید نکھارا۔اس تدوین‬
‫کو تاریخی طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔‬
‫پہال دور‪:‬‬ ‫•‬

‫تدوین سے قبل کا عہد‪:‬‬


‫یہ نبی اکرم ﷺ کا زمانہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا ‪ ،‬سینوں میں محفوظ ہوا او رلکھا بھی‬
‫‪3‬‬

‫گیا۔اس عہد کے عرب حضرات کے لئے قرآن کا سمجھنا اور سمجھانا اس لئے آسان تھا‬
‫کہ قرآن انہی کی زبان میں اترا۔ آپﷺ بھی عرب اور مخاطب قوم بھی عرب تھی۔قرآن نے‬
‫غیر عربوں کے لئے بھی اپنے پیغام میں خاصی کشش رکھی جسے سمجھنا ان کے لئے‬
‫نصاری اور غیر عرب حضرات سبھی دور رسالت میں قرآن‬ ‫ٰ‬ ‫بھی چندانمشکل نہ تھا۔یہود‪،‬‬
‫رام اسے بہتر انداز سے سمجھتے‪ ،‬پڑھتے‬ ‫کی سماعت سے متاثر نظر آتے ہیں۔ صحا بہ ک ؓ‬
‫‪ ،‬عمل کرتے اور سمجھاتے تھے۔مثالً‪:‬‬
‫ہللا بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت‬ ‫سیدنا عبد ؓ‬
‫ظ ْل ٍم ا ُْٔولَـ ِئ َ‬
‫ک لَ ُہ ُم االَٔ ْم ُن َوہ ُم ُّم ْہتَدُونَ }¡ ( (األنعام‪)۸۲:‬‬ ‫سواْ ِإ ْی َما َن ُہم ِب ُ‬ ‫"الَّ ِذیْنَ آ َمنُواْ َولَ ْم َی ْل ِب ُ‬
‫اتری تو ہم پریشان ہو گئے۔ خدمت ِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی‪ ،‬کہ ہللا کے رسول‬
‫ﷺ أینا لم یظلم نفسہ ؟ ہم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں کرتا؟‬
‫آپﷺنے ارشاد فرمایا‪ :‬جو مفہوم آیت کا تم سمجھ رہے ہو یہاں وہ مراد نہیں بلکہ یہ وہی‬
‫ہے جو لقمان علیہ السالم نے اپنے بیٹے کو فرمایا تھا‪:‬‬
‫ع ِظیْم" (لقمان‪)۱۳ :‬‬ ‫ظ ْل ٌم َ‬ ‫ک لَ ُ‬ ‫اَّلل ِإ َّن ال ِ ّ‬
‫ش ْر َ‬ ‫ک ِب َّ ِ‬ ‫ی َال ت ُ ْش ِر ْ‬ ‫" َیا بُ َن َّ‬
‫بیٹاہللا کے ساتھ شرک نہ کرنا یقینا ً شرک کرنا بڑا ظلم ہے یعنی ظلم سے مرادیہاں شرک‬
‫ہے۔‬
‫اس لئے صحابہ رسول یہ جانتے تھے کہ فالں آیت کس پس منظر میں نازل ہوئی‪ ،‬اس کا‬
‫معنی ومفہوم کیا ہے۔ کون سی آیت منسوخ ہوچکی ہے اور کن آیات متشابہات پر ہم نے‬
‫صرف ایمان رکھنا ہے اور ان کی تاویل نہیں کرنی۔اگر کوئی مشکل پیش آتی تو آپ ﷺ ان‬
‫کے درمیان موجود تھے جن سے وہ دریافت کرلیتے۔اس لئے اس دور میں علوم قرآن‬
‫متعار ف کرانے یا انہیں مدون کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اور بھی کئی وجوہات‬
‫تھیں۔ جن میں چند اہم درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫کرام ان سے‬
‫ؓ‬ ‫٭ … اس دور میں اگرچہ قرآن سے متعلق علوم موجود تھے اور صحابہ‬
‫واقف بھی تھے لیکن ان علوم نے ابھی تک کوئی ایسی واضح شکل اختیاز نہ کی تھی کہ‬
‫ان کو باقاعدہ طور پر ضبط تحریر میں الیا جاتا۔‬
‫٭ … اس دورمیں نزول قرآن کے ساتھ تدوین قرآن کا کام بھی ہو رہا تھا او ر صحابہ‬
‫کرام اپنی تمام تر صالحیتوں کے ساتھ تدوین میں مصروف تھے کہ کسی او رموضوع پر‬ ‫ؓ‬
‫کوئی کام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‬
‫٭ … قرآن عربی زبان میں قلب ِ رسول ﷺ پر نازل ہوا تھا جو عربوں کی اپنی زبان تھی۔‬
‫اس لئے انہیں قرآن سے متعلق علوم مثالً‪ :‬علم التجوید ‪ ،‬علم االعراب ‪ ،‬علم غریب القرآن‬
‫مدون کرنے کی ضرورت پیش‬ ‫وغیرہ سے بخوبی واقفیت حاصل تھی لہذا ان تمام علوم کو ّ‬
‫نہ آئی۔‬
‫٭ … ایک او روجہ یہ بھی تھی کہ قرآن ان کے سامنے نازل ہوا تھا۔ انہیں بخوبی علم تھا‬
‫کہ کونسا حصہ کس موقع پر اور کس پس منظر میں نازل ہوا او ریوں وہ علم تفسیر ‪،‬‬
‫ناسخ و منسوخ‪ ،‬علم مکی ومدنی ‪ ،‬علم نزول ‪ ،‬علم وحی‪ ،‬علم اسباب وغیرہ کے بارے میں‬
‫اچھی طرح جان چکے تھے۔‬
‫‪4‬‬

‫٭ … اگر صحابہ کرام ؓ کو اہل زبان ہونے اورنزول قرآن کا شاہد ہونے کے باوجود کوئی‬
‫مشکل پیش آ جاتی تھی تو وہ براہ راست نبی اکرم ﷺ سے اس کا حل دریافت کر لیا کرتے‬
‫تھے۔‬
‫٭… علوم قرآن کو احاطہ تحریرمیں النے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کی‬
‫ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے قرآن کے عالوہ کسی بھی قسم کی کتابت سے‬
‫منع کیا تھاکیونکہ اس سے یہ احتمال تھا کہ وہ قرآن میں شامل ہو جائے گا۔ لہذا نہ صرف‬
‫علوم القرآن کی کتابت بلکہ کسی بھی موضوع کی کتابت کی طرف توجہ نہ دی گئی۔‬
‫دوسرا دور‪:‬‬
‫تدوین کا عہد او راس کا آغاز‪:‬‬
‫رسول اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید کے سلسلے میں جو علمی‬
‫و تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں ان کا بنیادی مقصد ‪ ،‬خدمت قرآن ‪ ،‬اس کے صحیح فہم‬
‫کی اشاعت کرنا اور کسی بھی کج فہم کی ممکنہ شرارتوں سے قرآن مجید کو محفوظ‬
‫رکھنا تھا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور صحابہ ؓ میں ہی فضائل قرآن ‪ ،‬علم تفسیر ‪ ،‬علم‬
‫رسم قرآن او رعلم اعراب القرآن پر بہت کچھ کہا بھی گیا اور لکھا بھی گیا۔‬
‫خالفت صدیقی و فاروقی‪:‬‬
‫اس عہد میں علوم ِ قرآن کی نشر و اشاعت محض زبانی نہ رہی بلکہ تدوین کی ابتدا اس‬
‫کعب نے عجمیوں میں قرآن‬ ‫ؓ‬ ‫عہد میں ہی شروع ہوئی۔ صحابی رسول ابو المنذر أبی بن‬
‫مجید کی عظمت کو جاگزیں کرنے کے لئے فضائل قرآن پر ایک کتاب لکھی۔ اس میں‬
‫دلوں کو نرمانے اور قرآن کی طرف مائل کرنے کے لئے اہم علمی نکات تھے۔ اسی طرح‬
‫غیر عربی اقوام کو اصول دین سے آگاہ کرنے اور قرآن کے معنی و مفاہیم سے روشناس‬
‫فاروقی‬
‫ؓ‬ ‫کرانے کے لئے علم التفسیر کی تدوین بھی انہوں نے شروع کی۔ ان کا انتقال عہد‬
‫فاروقی کی کتابیں ہیں۔ سیدنا‬
‫ؓ‬ ‫صدیقی یا عہد‬
‫ؓ‬ ‫میں ہوا تھا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عہد‬
‫عباس کی تفسیر کا بھی علوم قرآن میں ایک قابل قدر حصہ ہے جو ان کے‬ ‫ؓ‬ ‫عبد ہللا بن‬
‫ارشد تالمذہ سعید بن جبیر ‪،‬مجاہدبن جبر وابو العالیۃ الریاحی کی روایات سے تفاسیر میں‬
‫سموئی جا چکی ہے۔ ترجمان القرآن کا لقب رسول ہللا ﷺ نے آپ کو دیا تھا۔‬
‫خالفت ِ عثمانی‪:‬‬
‫ذوالنورین کے عہد میں اسالمی خالفت کی حدود جب غیر عربوں تک پھیلیں‬ ‫ؓ‬ ‫سیدنا عثمان‬
‫اور لوگ مسلمانوں کے کردار‪ ،‬اخالق اور نیکی و پاکیزگی سے متاثر ہو کر اسالم میں‬
‫جوق درجوق داخل ہوئے تو انہیں بھی قرآن مجید کو پڑھنے سمجھنے کا شوق ہوا۔ یہ‬
‫نئے لوگ عربی زبان سے نابلد‪ ،‬قرآن مجید کے نزول کی اہمیت سے ناآشنا اور جو حاالت‬
‫نزول قرآن کے دوران پیش آئے ان سے بھی ناواقف تھے۔ انہیں شوق تالوت تو تھا مگر‬
‫عربی لہجہ کے نہ ہونے سے ان کا غیر عربی لہجہ تالوت کالم پاک میں آہستہ آہستہ عام‬
‫ہو گیا۔نیز اس وقت جو قرآن لکھا ہوا تھا اس کا رسم الخط بھی کچھ ایسا تھا جو تالوت‬
‫قرآن میں اختالف کو عام کرنے کا سبب بنا۔‬
‫عثمان نے جس لغت اور خط کو اس امت کے لئے پسند فرمایا اسے رسم عثمانی کہا‬ ‫ؓ‬ ‫سیدنا‬
‫‪5‬‬

‫جاتا ہے جو علوم ِ قرآن کی ایک قسم ہے۔اسے علم رسم القرآن بھی کہا جاتا ہے۔اس طرح‬
‫اس علم کا پہال تعارف ہوا۔‬
‫خالفت ِ علی‪:‬‬
‫عربی زبان ولہجہ کی حفاظت اور قراءت قرآن میں لحن سے بچاؤ اور صحیح نطق کے‬
‫الدولی کو‬‫سیدناعلی بھی مجبورہوئے۔آ ؓپ نے أبو االٔسود ٔ‬ ‫ؓ‬ ‫لئے چند پیشگی اقدامات اٹھانے پر‬
‫بعض بنیادی اصولوں کی رہنمائی کرتے ہوئے قرآن مجید کے اعراب سمجھائے۔ اس‬
‫دولی نے نقط مصاحف پر ایک مختصر رسالہ لکھا۔ جو‬ ‫رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٔ‬
‫موسس سیدنا علی رضی ہللا عنہ تھے۔‬ ‫علم اعراب القرآن کا نقطہ آغاز تھاجس کے ٔ‬
‫کرام نے عام کیا ان میں خلفاء‬
‫ؓ‬ ‫تدریس و تعلیم کے ذریعے بھی علوم قرآن کو صحابہ‬
‫ابوموسی اشعری ؓاور عبد ہللا بن‬
‫ٰ‬ ‫عباس ‪ ،‬عبد ہللا بن مسعودؓ ‪ ،‬زیدبن ؓ‬
‫ثابت‪،‬‬ ‫ؓ‬ ‫اربعہ‪ ،‬عبد ہللا بن‬
‫ؓ‬
‫زبیر کے اسماء گرامی سرفہرست ہیں۔مزید ان کے چند الئق شاگردوں نے ان کی چھوڑی‬ ‫ؓ‬
‫المسیب‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫اس وراثت کو خوب اشاعت دی یہ سب تابعین تھے۔ ان میں سرفہرست ابن‬
‫اسلم ہیں۔عہد تابعین‬ ‫جبیراورزید بن ؒ‬ ‫ؒ‬ ‫بصری‪ ،‬سعید بن‬ ‫ؒ‬ ‫قتادہ‪ ،‬حسن‬
‫ؒ‬ ‫عکرمہ‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫عطاء‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫مجاہدؒ ‪،‬‬
‫میں پہلی تفسیر سعیدؒ بن جبیر نے لکھی۔ ان کے بعد ابو العالیہ رفیع ؒبن مہران الریاحی نے‬
‫عباس کے شاگرد ہیں۔مجاہد نے بھی‬ ‫ؓ‬ ‫قرآن کی تفسیر لکھی۔ یہ دونوں حضرات عبد ہللا بن‬
‫تفسیر ابن عباس کی روایت کی جو انہی کے مدرسہ سے تعلق رکھتے ہیں۔علقمہ بن قیس‬
‫‪ ،‬مسروق بن األجدع‪ ،‬قتادۃ بن دعامۃ‪ ،‬عمرو بن شرحبیل اور ابوعبد الرحمن السلمی کا‬
‫تعلق کوفہ سے تھا یہ سبھی مدرسہ ابن ؓمسعود سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور مدینہ منورہ میں‬
‫ابی ؓبن کعب کا مدرسہ بھی اپنے قابل شاگردوں سے معمور ہے جن مینابو العالیہ الریاحی‬
‫اور محمد بن کعب القرظی ہیں جنہوں نے سیدناابی کے مدرسہ کو فروغ دیا۔‬
‫تیسرا دور‪:‬‬
‫دوسری صدی ہجری ‪ :‬یہ دور دوسری صدی ہجری سے ہمارے دور تک محیط‬
‫ہے۔صحابہ وتابعین نے علوم القرآن کی بنیاد رکھ کر مزید فکرو عمل کی راہیں کھولیں۔‬
‫چنانچہ دوسری صدی ہجری میں علوم ِ قرآن کی تدوین پر سب سے زیادہ کام قرآن کے‬
‫خاص خاص موضوع اور مختلف مباحث پر جداگانہ اور مستقل تصانیف کے سلسلے سے‬
‫شروع ہوا۔ ہر موضوع پر بلند پایہ ائمہ نے اپنی نگارشات پیش کیں۔ جن میں اسباب نزول‪،‬‬
‫غریب قرآن ‪ ،‬ناسخ ومنسوخ‪ ،‬علم قراء ت‪ ،‬متشابہ قرآن ‪ ،‬اعراب و معانی قرآن اور علم‬
‫تفسیر پر التعداد کتب تھیں۔‬
‫کتب حدیث میں آپﷺ کی تفسیر یا صحابہ کرام ؓ کی تفاسیر‪ ،‬بذریعہ روایات معمولی جگہ‬
‫پاسکیں۔ اس لئے علماء تفسیر نے علم التفسیر پر لکھنا شروع کیا۔جن میں کسی ایک سورۃ‬
‫کی ہو یا چند آیات کی یا مکمل قرآن مجید کی تفسیر تھی۔ان تفاسیر میں ضمنا ً مباحث‬
‫علوم ِ قرآن بھی آگئے۔ کچھ علماء کے تفسیری نکات بھی مروی ہیں ان میں امام شعبہ بن‬
‫الجراح اور‬
‫ؒ‬ ‫عیینہ‪ ،‬امام وکیع بن‬
‫ؒ‬ ‫انس‪ ،‬امام حجاز سفیان بن‬ ‫البصری‪ ،‬امام مالک بن ؒ‬ ‫ؒ‬ ‫الحجاج‬
‫المبارک شامل ہیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے صرف‬ ‫ؒ‬ ‫یگانہ روز گار مجاہد امام عبد ہللا بن‬
‫تفسیری موضوع کو اختیار کیا اور اس پر بہت کچھ لکھا ۔ ان میں سرفہرست امام محمد‬
‫‪6‬‬

‫جریرالطبری(م‪۳۱۰ :‬ھ) ہی نظر آتے ہیں جن کی تفسیر’’جامع البیان عن تا ٔویل آیات‬


‫ؒ‬ ‫بن‬
‫القرآن‘‘تفسیر بالما ٔثور میں ایک وقیع اور عمدہ کتاب ہے۔‬

You might also like